فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ15%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206433 / ڈاؤنلوڈ: 5998
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

سوال نمبر۱

قرآن مجید کے متعلق شیعوں کا کیا نظریہ ہے کہ قرآن کریم جب امت محمد ؐ یہ کے حالات پر نظر ڈ التا ہے اور اللہ کے نزدیک ان کے درجات اور مقام و منزلت کو تعین کرتا ہے اور انھیں دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے!

ایک قسم وہ جو زمانے سے محدود ہے یہ وہ لوگ ہیں جن پر سابقون،اوّلون کا اطلاق ہوتا ہے چاہے وہ انصار میں سے ہوں یا مہاجتیں میں سے اور عام طور سے صحابہ و غیرہ کا لفظ قرآن اور حدیث میں جہاں بھی آیا ہے اس سے یہی سابقون اوّلون مراد ہیں چاہے یہ لوگ احسان کی پیروی کریں یا نہ کریں،اللہ بہرحال ان سے راضی ہے.

دوسری قسم وہ ہے جن کے لئے اتباع بالاحسان کی شرط رکھی گئی ہے،حالانکہ ان میں بھی اکثر افراد پر قرآن مجید کی زیر نظر آیت کے دوسرے حصے میں((صحابہ،لفظ کا اطلاق ہوتا ہے ارشاد ہوتا ہے کہ:((اور سابقوں اوّلون کے مہاجر و انصار اور وہ لوگ جنھوں نے نیکی میں ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں،ان کے لئے ایسے باغات تیار کئے گئے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے))

(سورہ توبہ آیت ۱۰۰)

۲۱

تو پھر اگر ان سابقون اوّلون میں سے کسی کے بارے میں کوئی ایسی بات منقول ہو جس میں ان کا گناہ،نافرمانی،حق کی مخالفت،یا بدبختی ثابت ہو تو کیا ہم متاخرین کے لئے یہ صحیح ہے کہ ہم اپنی زبان کو ان کے بارے میں آزاد چھوڑدیں؟(اور جو منھ میں آئے کہہ ڈ الیں)جب کہ سنّت نبوی ؐ کا فیصلہ ہے کہ ہم ایسا نہیں کرسکتے اور نہ ہی اس صحابہ کی اس فعل قبیح میں پیروی کرسکتے ہیں جس کی برائی ظاہر ہے بلکہ بہتر یہ ہے کہ اس صحابی کی منزلت جو اللہ کے نزدیک ہے اس کا مسئلہ اللہ پر چھوڑدیں اس لئے کہ اللہ ہی ان کے حالات سے اچھی طرح باخبر ہے جیسا کہ حاطب ابن ابی ہلتعہ کے واقعہ سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے،جب پیغمبر ؐ نے حاطب کو برا کہنےوالے کو یہ کہہ کر خاموش کردیا کہ:

اللہ اصحاب بدر سے اچھی طرح واقف ہے))اس نے فرما دیا ہے کہ میں نے تمہیں معاف کردیا ہے اب تم جو چاہو کرو.

سوال نمبر۔ ۲

ہم اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ صحابہ کے اندر کچھ کمزوریاں پائی جاتی تھیں،مثلاً ذاتی تنازعہ،کسی مصلحت کی بنا پر ایک صحابی کا دوسرے صحابی پر تشدد بلکہ ایک صحابی دوسرے صحابی سے رشک و حسد میں بھی گرفتار تھا اور یہی حالات اس قول کو محال قرار دیتے ہیں کہ صحابہ بشری کمزوریوں سے پاک تھے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ ان سے راضی ہے جبکہ وہ بہت سی غلطیان کرچکے ہیں اور خدا کی رضا کسی وقت سے مخصوص نہیں ہے ۔ مثلاً صرف نبی ؐ کے زمانے ہی میں انھیں یہ رضا حاصل نہیں تھی بلکہ یہ حصول رضا مطلق اور عام ہے اور بغیر کسی نص شرعی کے اس رضا کی حدوں سے کسی کو باہر نہیں کیا جاسکتا،پھر شیعہ علما اس بات کے قائل کیوں نہیں ہوجاتے کہ عمر و ابوبکر اور عثمان کا خلافت پر علی ؑ کی موجودگی میں قبضہ کرنا انھیں بشری کمزوریوں کا تقاضا تھا جن کا مواخذہ شرعی طور پر ضروری نہیں ہے یا اس وجہ سے تھا کہ کچھ دوسرے امور تھے جن کی بنیاد پر خلافت کے معاملے میں یہ آپس میں راضی ہوگئے تھے جب کہ شیعوں کا یہ اعتقاد ہے کہ مولائے کائنات ؑ کلافت کے زیادہ مستحق تھے،(وہ اپنے اس عقیدہ پر باقی رہیں تو کوئی حرج نہیں لیکن خلفائے ثلاثہ کے فعل کی مندرجہ بالا توجیہ کر کے انہیں قبول کرلیں ۔ )

۲۲

سوال نمبر۔ ۳

شیعہ و سنی دونوں فرقے ان معاملات میں جو صدر اسلام میں واقع ہوئے مولائے کائنات اور اہلبیت ؑ امام حسن ؑ کی سیرت پر کیوں نہیں عمل کرتے یعنی ہم ان باتوں کا اقرار کریں جن کا ان حضرات نے اقرار کیا اور ان باتوں کا انکار کریں جن کا ان حضرات نے انکار کیا تھا اور اس طرز عمل کو ضرور سمجھیں:

۱ ۔ ابوبکر کی خلافت کا امام علی ؑ کی جانت سے اقرار ۔ ۲ ۔ ابوبکر کے ذریعہ خلافت کے لئے عمر کی تنصیب کا اقرار ۔ ۳ ۔ شوریٰ کا اقرار اور شوریٰ کی ایک فرد ہونے پر رضایت ۔ ۴ ۔ معاویہ کا شام کی ولایت پر عدم اقرار ۔ اس لئے کہ حضرت علی ؑ اسے اس کام کے لئے نااہل سمجھتے تھے باوجودیکہ اسے برطرف کرنے سے اسلامی سماج میں بہت سی خرابیان پیدا ہورہی تھیں ۔

سوال نمبر۔ ۴

کیا جمہور کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ مولائے کائنات ؑ کی بیعت پر واضح نص شرعی کی موجودگی میں(اگر وہ موجود ہو)اس سے غافل رہے ہوں جبکہ ان کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے معین کئے گئے ہو کہ انھیں اچھی باتوں کا حکم دو اور برائیوں سے روکو(۱)

سوال نمبر۔ ۵

کیا آپ نہیں دیکھتے ہیں کہ عالم اسلام اس دن سے غمگین ہے جب سے اسلامی خلافت کا انہدام ہوا اور اس غم میں دونوں برابر کے شریک ہیں،چاہے سنی ہوں یا شیعہ،تو پھر کیوں نہ کسی ایسے شخص کی تنصیب،خلافت کے لئے واجب قرار دی جائے جو امت کے مصالح کے مطابق کام کرے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(آل عمران آیت۱۱۰)

۲۳

خصوصاً اہل سنت تو آج کل خلافت سے محروم ہیں لیکن آپ شیعہ حضرات بھی اس دور غیبت میں سنیوں کی طرح قیادت سے محرومی کا احساس کررہے ہیں اور ایسے شخص کی ضرورت محسوس کررہے ہیں جو امت کے مصالح کو قائم اور باقی رکھے کیا آپ کی نظر میں اس کا حصول ممکن ہے اور اس امر کے حصول کے لئے کوشش کی جانی چاہئے؟

سوال نمبر۔ ۶

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابوبکر کو اس وقت امامت کا حکم دیا جب آپ خود مرض کی شدت کی وجہ سے لوگوں کی امامت نہیں کرسکتے تھے،اس سلسلہ میں آپ کا کیا خیال ہے کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضور ؐ اپنے بعد خلافت ابوبکر پر راضی تھے؟

سوال نمبر ۔ ۷

کیا یہ صحیح ہے کہ انسانی زندگی کے مسائل اور ضروریات دین کا علم صرف ائمہ ؑ سے مختص ہے حالانکہ خدا کہتا ہے((آج ہم نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر نعمتوں کو منزل کمال تک پہنچا دیا اور تمہارے لئے دین اسلام سے راضی ہوگیا))(سورہ مائدہ:آیت ۳)

سوال نمبر۔ ۸

اہل سنّت اور شیعہ دونوں فرقے قرآن کی حجیت اور اس کی قطعیت صدور پر متفق ہیں اختلافات سنّت میں ہے اس لئے کہ دونوں کےنزدیک سنّت کا مصدر مختلف ہے ۔

سنی صرف ان حدیثوں کو لیتے ہیں جو ثقہ راویوں کے ذریعہ پیغمبر ؐ سے روایت کی گئی ہیں اور بس،جب کہ شیعہ ائمہ اہلبیت ؑ سے بھی حدیثیں لیتے ہیں چاہے ان کا زمانہ رسول خدا ؐ سے کتنی ہی دور ہو اس لئے کہ وہ اماموں کی عصمت کے دعویدار ہیں حالانکہ جو لوگ اماموں سے روایت لینےوالے ہیں وہ

۲۴

سب کے سب سنیوں کے راویوں کی طرح غیر معصوم ہیں،پھر شیعہ حضرات سنیوں کی کتابوں کو قابل اعتماد کیوں نہیں سمجھتے خصوصاً وہ شیعہ رواۃ جو ثقہ سے روایت لینے کے قائل ہیں چاہے وہ ان کے مذہب کا مخالف ہی کیوں نہ ہو یا اس کی روایت شیعہ مذہب کے خلاف ہی کیوں نہ ہو لیکن یہ بات کہ سنی بھی شیعہ راویوں کی طرف کیوں نہیں رجوع کرتے؟مناسب نہیں ہے اس لئے کہ سنی صرف پیغمبر ؐ سے روایت اخذ کرتے ہیں اور وہ عصمت ائمہ ؑ کے قائل بھی نہیں ہیں؟

سوال نمبر ۔ ۹

شیعوں کے اصول دین میں خبر آحاد پر عمل نہیں کیا جاتا جب کہ اماموں کی تشخیص تواتر سے ثابت نہیں ہے پس اگر امام کی تشخیص خبر آحاد کے ذریعہ ہو تو اس پر عمل واجب نہیں ہوگا اور غیر مشخص امام کی پیروی جائز نہیں ہے

(عبدالکریم)

عمان،اردن

۷ / دستمبر ۲۰۰۰ سنہ

۲۵

۲۶

بسم الله الرحمٰن الرحیم

خدا کی تعریف اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کی آل پاک پر درود و سلام اور روز قیامت تک ان کے تمام دشمنوں پر لعنت کے بعد:

السلام علیکم

محترم کریم بھائی.........خدا آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے میری دعا ہے کہ خداوند عالم آپ کو اور آپ کے تمام دینی بھائیوں کو توفیقات عنایت فرمائے اور آپ حضرات کو اپنے پرہیزگاروں میں قرار دے ۔

الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ وَأُوْلَئِكَ هُمْ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ

ترجمہ آیت:(وہ لوگ جو تمام باتیں سن کے ان میں سے سب سے بہترین بات کی پیروی کرتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جن کی اللہ نے ہدایت کی ہے اور یہی لوگ سمجھدار ہیں)) ۔(۱)

میری دعا ہے کہ خداوند عالم اپنی رحمت کے فیضان سے آپ کی دین و دنیا میں اصلاح کرے اور آخرت اور معاد میں بھی بھلائی عنایت فرمائے بے شک وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا اور مومنین کا سرپرست ہے ۔

آپ کا گرامی نامہ ملا اور مجھے پڑھکے بہت خوشی ہوئی جب یہ معلوم ہوا کہ ہماری گفتگو حقیقت کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورۂ زمر آیت ۱۸.

۲۷

پردہ کشائی میں نفع بخش ہے اور غموض(اگر ہے)تو چھٹ رہا ہے اور مجھے بہرحال امید و اطمینان ہے کہ میں نے جواب میں بہت وضاحت سے کام لیا ہے اور صاف گوئی کا جو اہتمام کیا ہے اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ہےیہ بات ہماری سابقہ گفتگو سے آپ پر ظاہر ہوچکی ہوگی اور اس گفتگو سے بھی انشااللہ تعالی یہ بات سمجھ میں آجائے گی ۔

تلاش حقیقت کے وقت جستجو کے حق کو ادا کرنا ضروری ہے

ہم لوگ اس وقت ایک ایسے مسئلہ کو موضوع گفتگو بنانے جارہے ہیں جس میں دھیرے دھیرے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے تا کہ حقیقت معلوم ہوجائے اور حقیقت تک پہنچا جاسکے ہمیں چاہیئے کہ سختی سے اس بات کی پابندی کریں کہ ہر حال میں بحث و تمحیص کا حق ادا ہوتا رہے اور ہم اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآسکیں اس لئے کہ جو بات معلوم نہیں ہے اس کے مقابلے میں معلومات پر عمل کرنا کافی ہے(۱) اور علم بغیر عمل کے ایسا ہے جیسے درخت بغیر ثمر کے(۲) جیسا کہ رسول ؐ و آل رسول ؐ سے وارد احادیث میں آیا ہے ۔ معرفت اگر عمل سے خالی ہو تو صاحبت معرفت کو نقصان پہنچاسکتی ہے،اس لئے کہ معرفت یا تو اس پر حجت تمام کردیتی ہے یا اتمام حجت کو مزید پختہ کردیتی ہے دونوں ہی صورت میں اسکی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ جس حقیقت کو اس نے سمجھ لیا ہے اس پر سختی سے عمل کرے اور خدا کی طرف سے جو فرض ہے وہ اس کا مطالبہ بھی کرےگا اس کا حساب بھی ہوگا

(لَايَنفَعُنَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا) (۳)

ترجمہ آیت:(جو شخص پہلے سے ایمان نہیں لائےگا یا مومن ہونے کی حالت میں نیک کام نہیں کئے ہوگا تو اس کا ایمان اس کے لئے مفید نہیں ہوگا)) ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) توحید شیخ صدوق،ص ۴۱۶ اوربحارالانوار،ج ۲ ص ۲۸۱ اور نورالبراہین،ج ۲ ص ۴۴۷

( ۲) عیون الحکمہ و الواعظ،ص ۳۴۰ اور محاسبۃ النفس،ص ۱۶۶ (۳) سورہ انعام آیت: ۱۵۸

۲۸

حساب کا دن تو اچانک آئےگا پہلے سے خبر نہیں دی جائےگی اس لئے حساب کے لئے تیار رہنا اور اس کے خطروں سے حفاظت کا انتظام کرنا بہت ضروری ہے،خدا کے سامنے بری الذمہ ہونے کے لئے کوئی عذر ہونا ہی چاہئے ۔

اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ میں آپ کو بغیر بصیرت اور دلیل کے کسی خاص مسلک کو اختیار کرنے کی دعوت دے رہاہوں اس لئے کہ ارشاد ہوتا ہے:

وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولـئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً

ترجمہ آیت:((جس چیز کے بارے میں نہیں جانتے اس کے پیچھے مت پڑا کرو اس لئے کہ کان آنکھ اور دل سب سے سوال کیا جائےگا،سب کے بارے میں پوچھا جائےگا)) ۔(۱)

بلکہ میرا مطلب یہ ہےکہ بحث کرنےوالا جذباتیت سے آزاد رہے اور ہٹ دھرمی اور بیکار کی بحث سے پرہیز کرے،جس حقیقت کے بارے میں بحث کر رہا ہے اس کے لئے اپنی بصیرت اور اپنے ضمیر کو حاکم بنائے جب وہ اس حقیقت تک پہنچ جائے اور بات اس کے سامنے واضح ہوجائے تو اس کے حق کو ادا کردے تا کہ خدا کے سامنے اپنی ذمَہ داری سے عہدہ برآ ہوسکے ۔

لیکن حق کب اور کیسے واضح ہوگا؟تو اس کی ذمہ داری خود بحث کرنےوالے پر عائد ہوتی ہے کہ پہلے وہ اپنے وجدان سے حق کی صحیح تعریف کرے اس لئے کہ

بَلِ الْإِنسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ

ترجمہ آیت:((انسان تو اپنے آپ سے خوب واقف ہے)) ۔(۲)

اس کے بعد خداوند عالم،حاکم و عادل ہے چاہے انسان کے حق میں فیصلہ دے چاہے اس کے خلاف ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ اسراءآیت ۳۶

( ۲) سورہ قیامت آیت ۱۴

۲۹

میں خدا سے اپنے لئے اور آپ کے لئے توفیق و تسدید کا سوال کرتا ہوں اور ہراس آدمی کے لئے یہی دعا ہے جو حق کو پہچاننے کا اور اس تک پہنچنے کا حوصلہ رکھتا ہے اور حق کو پہچان کر اس کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا چاہتا ہے ۔

آخر کلام میں ایک خاص بات کی طرف آپ کو متوجہ کرانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ غدیر کے متعلق سوال میں ایک لفظ رہ گیا تھا وہ ہے واقعۂ بیعت غدیر،اصل میں اشکال واقعۂ بیعت پر ہے نہ کہ واقعہ غدیر پر،اس لئے کہ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ واقعۂ غدیر کے تذکرہ سے تو اہل سنّت کی کتابیں بھری پھڑی ہیں میں امید کرتا ہوں کہ آپ آئندہ خط میں اس موضوع پر روشنی ڈ الیں گے،خدا کا شکر ہے کہ آپ کی کوششیں ضائع نہیں ہو رہی ہیں بلکہ اس کے فوائد دیکھنے میں آرہے ہیں،اس لئے کہ آپ کے اس جواب کا طریقہ اور ترتیب اس شخص کے لئے نادرالوجود ہے جو اس طرح کے سوالوں کا جواب دیتا ہو ۔

آخر میں آپ سے امید کرتا ہوں کہ میرے لئے خدا سے دعا کریں گے مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ ہمیں اپنے محبوب اور پسندیدہ اور مسلمانوں کے لئے خیر کے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

و آخر دعوانا ان الحمدلله ربّ العالمین

۳۰

اگر آپ بیعت سے یہ سمجھتے ہیں کہ غدیر میں لوگ نبی ؐ کی خدمت موجود تھے اور آپ کا خطبہ سن رہے تھے انھوں نے اپنے ہاتھ کو علی ؑ کے ہاتھ سے مس کرتے ہوئے مضمون خطبہ کے اقرار کا ثبوت دیا یعنی بیعت سے مراد غدیر میں ہاتھ پر ہاتھ رکھنا ہے تو اس بات کو نہ شہرت حاصل ہے اور نہ اس کے لئے دعوائے تواتر کیا گیا ہے،سنّیوں کی بات تو چھوڑیئے شیعوں کے یہاں بھی اس کے تواتر کا دعویٰ نہیں پایا جاتا ہے ۔

سنّی اور شیعہ روایتوں میں ہاتھ میں ہاتھ دینے کے معنی میں بیعت کا تذکرہ

واقعۂ بیعت کو شیعوں نے متعدد طریقوں سے نقل کیا ہے علامہ مجلسی ؒ نے ان میں سے کچھ لوگوں کا ذکر کیا ہے(۱) جیسے علامہ طبری حضرت امام ابوجعفر محمد بن علی باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں اور سلسلۂ نبی تک پہنچتا ہے کہ اس موقعہ پر حضور ؐ نے ایک طویل خطبہ دیا اور مولائے کائنات ؑ کی ولایت پر نص کرنے کے بعد فرمایا(اے لوگو تم بہت زیادہ ہو اور میرے لئے ایک ہاتھ پر بیعت کثرت افراد کی وجہ سے ممکن نہیں ہے مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ تمہاری زبانوں سے علی ؑ کے بارے میں مومنین پر جو امارت طے ہوئی ہے اس کا اقرار اور ان لوگوں کی امامت کا اقرار لےلوں جو مجھ سے اور علی ؑ کے بارے میں مومنین پر جو امارت طے ہوئی ہے اس کا اقرار اور ان لوگوں کی امامت کا اقرار لےلوں جو مجھ سے اور علی ؑ سے آئندہ زمانے میں امام ہونےوالے ہیں اس لئے کہ میں تمہیں پہلے بتاچکا ہوں کہ میری ذریت علی ؑ کی صلب میں ہے تو تم سب مل کر کہو کہ ہم لوگ سننے والے،اطاعت کرنےوالے،راضی رہنےوالے اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) بحارالانوار،ج ۳۷ باب ۵۲ ص ۱۱۹،۱۳۳،۱۳۸

۳۱

پیروی کرنےوالے ہیں اس چیز کے بارے میں جو آپ نے علی ؑ کے بارے میں اور ان کی صلب سے ہونےوالے اماموں کے بارے میں اپنے اور ہمارے رب کی طرف سے ہم تک پہنچائی ہے ہم اس بات پر دل،جان،زبان اور ہاتھ سے آپ کی بیعت کرتے ہیں،اے لوگو!ایسی بات کہو جس سے خدا تم سے راضی ہو اور یاد رکھو کہ اگر تم اور روئے زمین کے تمام لوگ سب کے سب کافر ہوجاؤ تو اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچےگا،پروردگارا!تمام اہل ایمان کو معاف کردے اور کافرین پر غضب نازل فرما ۔

(والحمدلله ربّ العالمین)

امام ابوجعفر ؑ فرماتے ہیں کہ(خطبہ سن کے)لوگوں نے آواز دی ہم نے سنا ہم اللہ اور رسول اللہ ؐ کے امر کی اپنے ہاتھ زبان اور دل سے اطاعت کا عہد کرتے ہیں پھر لوگوں نے پیغمبر ؐ اور علی ؑ کے پاس ہجوم کیا اور اپنے ہاتھ سے بیعت کرنے لگے....)(۱)

علّامہ مجلسی ؒ نے مذکورہ بالا روایت کو علامہ طبرسی ؒ سے لیا ہے پھر فرمایا ہے کہ مخالفین کے علما میں احمد بن محمد طبری نے اس روایت کو لکھا ہے اور ہم نے انہیں سے اپنی کتاب کشف الیقین میں یہ روایت نقل کی ہے(۲) اسی طرح علامہ شیخ امینی ؒ نے بھی جہاں مبارک بادی کا تذکرہ کیا ہے اور مبارک بادی کو بعض علما جمہور سے نقل کیا ہے وہیں یہ بھی(۳) کہا ہے کہ بیعت کی بات بھی ان لوگوں نے روایت کی ہے ۔

مگر یہ تمام باتیں حد تواتر تو نہیں پہنچی اور میرا خیال ہے کہ کسی نے تواتر کا دعویٰ بھی نہیں کیا ہے مگر یہ کہ وہ ہم سے مخفی معلومات پر مطلع ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) احتجاج، ج ۱ ص ۸۲ سے ۸۴ تک،یوم الغدیر علی الخلق کلهم و فی غیره من الایام بولایة علی بن ابی طالب علیه السلام اور اس کے بعد

( ۲)( بحارالانوار،ج ۳۷ ص ۲۱۸ باب ۵۲ نصوص کے باب میں جو دلالت کرتی ہیں اور بعض وہ دلیلیں جو اس پر قائم ہیں،امیرالمومنینؑ کی امامت پر عام و خاص طریقہ سے)

( ۳) الغدیر،ج: ۱ ص: ۲۷۰ ۔ ۲۷۱

۳۲

اقرار ولایت اور قبول ولایت کے معنی میں بیعت ثابت ہے

یہ بات بعید از فہم نہیں ہے کہ بیعت سے مراد شاہدین خطبہ کی طرف سے قبول ولایت کا اعلان اور اذعان ہو،کیوں کہ خطبہ میں ولایت امیرالمومنین ؑ فرض کی گئی ہے،سابقہ حدیث بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے،اس لئے کہ اکثر لوگ بیعت کا یہی مطلب سمجھتے ہیں ۔ ہر دور میں مسلمانوں کی سیرت رہی ہے کہ خلیفہ جدید کے لئے عام انسانوں کی بیعت محض اس کی خلافت کو تسلیم کر لینا ہے اور اس کی قیادت کو مان لینا ہے بیعت کا شرف تو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے،وہ لوگ جو صاحب مرتبہ ہوتے ہیں انھیں کو یہ شرف حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے اقرار کا اعلان خلیفہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر کریں،ورنہ مذکورہ بالا معنیٰ میں بیعت تو واقعۂ غدیر میں حاصل ہوچکی تھی ۔

اس لئے کہ جو لوگ نبی ؐ کے خطبہ میں حاضر تھے اور علی ؑ کے بارے میں اعلان ولایت کے شاہد تھے اگر ان میں سے کسی نبی ؐ کی تردید کی ہوتی یا نبی ؐ پر اعتراض کیا ہوتا تو بات چھپی نہیں رہتی ظاہر اور واضح ہوجاتی،یہ امر طبیعی ہے تاریخ اس کو نقل کرتی ہے،جیسا کہ حارث ابن نعمان فہری کے معاملے میں ہوا جس کا ذکر میں نے آپ کے ساتویں سوال کے جواب میں حدیث غدیر کے ذیل میں کیا ہے یا جیسا کہ تہنیت ے بارے میں حدیثوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے کہ حاضرین نے امیرالمومنین علیہ السلام کو ولایت کی تہنیت دی،علامہ شیخ امینی ؒ نے اہل سنّت کی ساٹھ ۶۰ کتابوں سے اس کا حوالہ دیا ہے ۔

خاص طور سے وہ حدیثیں جن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضور نے امیرالمومنین ؑ کو ایک الگ خیمے مٰں بٹھایا اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ اس خیمے میں جا کے امیرالمومنین علیہ السلام کو ولایت کی مبارک باد دیں(۱) اس لئے کہ یہ معلوم ہے کہ اس طرح سے تہنیت دینے کا مطلب ہی ہے کہ مسلمان آپ کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب،ج ۱ ص ۲۷۱.

۳۳

ولایت کا اقرار کررہے ہیں آپ کی ولایت کو تسلیم کررہے ہیں اور یہ دونوں ہی باتیں معنائے بیعت کو ادا کرتی ہیں،حاصل گفتگو یہ ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کی ولایت کا قبول اور اقرار کا تلازم عادتاً خطبہ غدیر کے ساتھ ہے اور خطبہ کا تواتر یہ ہے کہ معنائے مذکور میں بیعت کو بھی تواتر حاصل ہے ۔

حدیث غدیر سے استدلال بیعت پر موقوف نہیں ہے

اس کے علاوہ حدیث غدیر سے استدلال بیعت پر موقوف نہیں ہے اس لئے کہ جب خدا نے امیرالمومنین ؑ کی ولایت فرض کردی اور نبی ؐ نے پہنچا بھی دیا تو اب لوگوں پر واجب ہے کہ وہ اس کو تسلیم کریں،اس کو مانیں بیعت تو صرف اس کے توابع میں سے ہے چاہے ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اس لئے کہ ولایت کا اذعان و اعلان اور اس پر عمل کا وجوب بیعت پر موقوف نہیں ہے اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بیعت کا تحقق نہیں ہے یا نبی ؐ نے بیعت کا مطالبہ نہیں کیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ نبی ؐ کی زندگی میں بیعت کا کوئی اثر بھی تو ظاہر نہیں ہوتا،وفات نبی ؐ سے پہلے بیعت کی ضرورت بھی کیا تھی بیعت کی ضرورت تو وفات پیغمبر ؐ کے بعد تھی اس لئے کہ وفات نبی ؐ کے بعد بیعت کا مطلب ہے کہ خدا کے حکم کو مسلمان مان رہا ہے اور اس پر عمل کر رہا ہے،حالانکہ اس وقت بھی بیعت،امیرالمومنین کی ولایت کا ثبوت نہیں ہوتی اور نہ ہی ولایت امیرالمونین ؑ پر عمل کا وجود آپ کی قیادت اور اطاعت و بیعت پر موقوف ہوتا جیسا کہ میں عرض کیا،البتہ اہل سنّت کے نزدیک ولایت و خلافت بیعت اور اس کے بعد پر موقوف ہوتی ہے،اس لئے کہ ان کے یہاں خلافت نص سے ثابت نہیں ہوتی جب تک لوگ اس کی بیعت نہ کرلیں اس لئے کہ ان کے یہاں بیعت کا کردار بہت اہم ہے اور خلافت اپنے ثبوت میں بیعت کی محتاج ہے ۔

۳۴

حدیث غدیر سے امامت و خلافت پر مزید تاکید کے لئے شیعہ بیعت پر زور دیتے ہیں

میرا خیال ہے کہ بعض شیعہ بیعت پر اس لئے زور دیتے ہیں کہ امیرالمومنین ؑ کی ولایت پر حدیث شریف کی دلالت موکد ہوجائے اور یہ بات پکی ہوجائے کہ مولائے کائنات ؑ نبی ؐ کے بعد مومنین کے ولی،ان کے امام اور خلیفہ ہیں ۔

حقیقت تو یہ ہے کہ جمہور مسلمین بلکہ تمام مخالفین نے بھرپور کوشش کی کہ امر ولایت کو مقام تشکیک میں ڈ ال دیا جائے،پہلے تو سند حدیث پر طعن کی کوشش کی لیکن حدیث غدیر اپنے اسناد و طرق کی وجہ سے تواتر سے بھی کچھ آگے تھی اس لئے کہ سند حدیث پر سوائے چند بے حیثیت افراد کے کوئی بھی طعن کرنے کی ہمّت نہیں کرسکا،تب انھوں نے لفظ مولیٰ کے اجمال کا دعویٰ کر ڈ الا،اس لئے کہ مولیٰ کے بہت سے معنی ہیں،مولیٰ یعنی محبّ،مولیٰ یعنی ناصر،مولیٰ یعنی ابن عم،و غیری یعنی مولیٰ کا مطلب خاص طور سے اولیٰ بالامر نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ بعض شیعہ بیعت پر تاکید کرتے ہیں تا کہ بیعت کے ذریعہ یہ ثابت ہو کہ مولیٰ بہ معنیٰ اولیٰ استعمال ہوا ہے اس لئے کہ مولیٰ بہ معنی اولیٰ بیعت کی مناسبت سے ہی ثابت ہوتا ہے کسی دوسرے معنیٰ سے نہیں ۔

یہ بات اگر چہ بہت عمدہ ہے لیکن پہلے یہ دیکھئے کہ آپ بات کس سے کررہے ہیں؟اگر آپ کی گفتگو کسی متعصب آدمی سے ہورہی ہے جو آپ سے عناد رکھتا ہے اور بات سے بات نکال کے شک پیدا کرتا ہے تو پھر بیعت والی بات بےفائدہ ہے،کیونکہ دنیا کی کوئی حقیقت ایسی نہیں ہے جس کے گرد دشمنوں نے شبہ کے تانے بانے نہ پھیلائے ہوں آپ اس سے بات ہی مت کیجئے اس لئے کہ وہ بات جھگڑے تک پہنچ جائےگی اور جھگڑے کے بارے میں حدیثوں میں نہی وارد ہوئی ہے بہتر یہ ہے کہ اس کے معاملات کو اللہ پر چھوڑ دیجئے اس لئے کہ اللہ سے جھگڑا کر کے وہ کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکےگا

ہاں اگر آپ کی بات کسی حق پرست اور انصاف پسند آدمی سے ہورہی ہے جو حقیقت تک پہنچنا

۳۵

چاہتا ہے،چاہے جس صورت میں بھی ہو تو یہ امر اس کے سامنے بہت واضح ہے،اس لئے کہ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ مولا کے بہت سے معنیٰ ہیں اور سارے معانی اولیٰ میں نہیں پائے جاتے تو کافی ہے کہ مولا کو اولیٰ پر حمل کیا جائے اس لئے کہ متن حدیث میں دونوں دلیلیں موجود ہیں ۔

حدیث غدیر سے امامت پر دلالت کو بعض قرینے ثابت کرتے ہیں

۱ ۔ جس طرح یہ حدیث مولا کی لفظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے،یعنی جس کا میں مولا ہوں اس کے علی ؑ مولیٰ ہیں،اسی طرح ولی کا بھی لفظ استعمال کیا گیا ہے یعنی حضور ؐ نے فرمایا جس کا میں ولی ہوں اس کے علی ؑ ولی ہیں،ظاہر ہے کہ دونوں حدیثوں میں اختلاف کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ ایک دوسرے کو جھٹلا رہی ہیں اور نہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک غلط ہے بلکہ دونوں حدیثوں کا مقصد بغیر الفاظ نص کی پابندی کے محض معنیٰ کو نقل کرنا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مولیٰ بہ معنیٰ ولی استعمال کیا گیا ہے اور ولی اس صاحب اقدار کو کہتے ہیں جو امر ولایت کا ذمّہ دار ہو ۔

۲ ۔ حدیث غدیر کے جو سلسلے تواتر تک پہنچے ہوئے ہیں یا تواتر سے بھی آگے ہیں ان میں ولایت پر نص کے پہلے پیغمبر اعظم ؐ کا ایک سوال بھی وارد ہوا ہے(کیا میں مومنین پر ان سے زیادہ اولیٰ نہیں ہوں؟)اور پھر فوراً ہی جملہ ارشاد ہوا کہ(میں جس کا مولیٰ ہوں علی بھی اس کے مولیٰ ہیں)اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مقدمۃُ اولیٰ کی لفظ آئی ہے بعد میں مولیٰ کی لفظ ہے جیسے کہ اولیٰ سے مولیٰ کی تفسیر کی جارہی ہو،پس لزوم ذہنی یہ کہتا ہے کہ مولیٰ کو اولیٰ ہی کے معنی میں لیا جائے چاہے مولیٰ کے جتنے بھی معنی ہوں لیکن دوسرے معانی کا امکان اور اولیٰ کے معنیٰ کا لزوم پایا جاتا ہے،اس کے علاوہ بھی دوسرے بہت سے داخلی اور خارجی قرینے ہیں اور ہمارے علما نے اس پر لمبی بحثیں کی ہیں شاید کہ علامہ امینی ؒ نے اس سلسلے میں سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر بحث فرمائی ہے(۱) اور مجھے خوش ہوگی اگر کوئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب۔ج ۱ ص ۳۴۰ تا ۳۹۹

۳۶

حدیثوں کی تاویل کرنےوالا اس حدیث کی تاویل اس کے مخالف معنی میں کرے پھر وہ متن حدیث کی مذکورہ معنی میں تاویل کرے،پھر دونوں کا تقابل کرکے تمام قرینوں کا احاطہ کرے اور اس کے بعد فیصلے کا اختیار اپنے وجدان اور ضمیر کو دیدے اور یہ دیکھے کہ اسکا وجدان کون سے معنی اختیار کرتا ہے ۔

جو ولی ہے وہی امام ہے اور اس کی اطاعت واجب ہے

جب یہ بات مان لی گئی کہ حدیث غدیر میں امیرالمومنین ؑ کے ولایت کی ضمانت لی گئی ہے اور یہ کہ آپ تمام مومنین پر ان کے نفسوں سے زیادہ حق رکھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ آپ کی امامت اور خلافت ثابت ہے اور آپ کی طاعت واجب ہے اس لئے کہ ولایت کا مطلب سوائے امامت کے کچھ نہیں ہوتا اور امامت بالولایۃ مکمل نہیں ہوسکتی جب تک اطاعت کا وجوب نہ ہو،پھر یہ دیکھیں کہ مسلمانوں پر نبی ؐ کی امامت کیسے ثابت ہوئی ہے؟ظاہر ہے احادیث اور آیتوں کے ذریعہ وہی احادیث اور آیا الٰہیہ جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضور کی طاعت واجب ہے،حضور مومنین کے ولی ہیں،حضور ان کے نفسوں پر ان سے زیادہ اولیٰ ہیں،(تو پھر آپ ولایت امیرالمومنین ؑ کے لئے نشان بیعت کیوں تلاش کررہے ہیں کیا صرف آیتیں اور حدیثیں کافی نہیں ہیں؟)پس خدا ہی عالم ہے وہی بچانے والا ہے وہ ہمارے لئے کافی ہے اور اچھا وکیل ہے ۔

۳۷

۳۸

سوال نمبر ۔ ۱

شیعوں کا اس قرآنی فیصلے کے بارے میں کیا نظریہ ہے؟

قرآن جن امت محمدیہ کی حالت کو پیش کرتے ہوئے ان کے درجہ بندی کرتا ہے تو انہیں دو قسموں میں تقسیم کرتا ہے ۔

ایک قسم جو زمانے سے محدود ہے،یہ وہ لوگ ہیں جن پر قرآن کی زبان میں سابقون اوّلون کا اطلاق ہوتا ہے،چاہے وہ مہاجر ہوں یا انصار،عام طور پر قرآن یا حدیثوں میں جہاں صحابہ یا اس کے مثل کوئی لفظ استعمال کی گئی ہے اس سے مراد یہی سابقون اوّلون ہیں،یہ وہ قسم ہے جس سے اللہ نے اپنے راضی ہونے کا اعلان کیا ہے اور اتباع بالاحسان کی شرط نہیں لگائی ہے جبکہ قسم ثانی کے ساتھ ایسا نہیں ہے ۔

قسم ثانی وہ ہے جس میں اتباع بالاحسان کی شرط لگائی گئی ہے،یاد رہے کہ قسم ثانی میں بہت سے افراد پر صحابہ کی لفظ کا اطلاق ہوتا ہے،آیت مذکورہ کے دوسرے حصہ میں شامل ہیں:

ارشاد ہوتا ہے:(وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ) (۱)

ترجمہ آیت:(مہاجرین اور انصار میں جو سابقون اوّلون ہیں اور وہ لوگ جو نیکی میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ توبہ:آیت ۱۰۰

۳۹

ان کی پیروی کرتے ہیں خدا ان سے راضی ہے اور وہ خدا سے راضی ہیں،ان کے لئے باغات تیار کئے گئے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے) ۔

تو اب سابقون اوّلون میں سے چاہے وہ انصار ہوں یا مہاجرین اگر کوئی ایسی بات منقول ہوتی ہے،(جس میں ان کے کردار کی کمزوری ظاہر ہو)جیسے گناہ،نافرمانی،آپس کی رسّہ کشی،بدبختی تو کیا یہ مناسب ہے کہ ہم جو متاخرین میں ہیں اپنی زبان کو آزاد چھوڑیں دیں(اور جو منھ میں آئے کہتے چلے جائیں)جب کہ سنّت نبی کا فیصلہ ہے کہ ہم ایسا نہیں کرسکتے اور ایسے عمل کی پیروی بھی نہیں کرسکتے جس کا فساد ظاہر ہے اور ایسے صحابی کے بارے میں منھ کھولنے سے پہلے ہم یہ دیکھ لیں کہ اللہ نے ان کو ایک خاص منزلت دی ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر ہم باز رہیں،جیسا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کے معاملہ سے ظاہر ہوتا ہے،سرکار دو عالم ؐ نے اس شخص پر جو حاطب ابن ابی بلتعہ کو برا کہہ رہا تھا یہ کہہ کر احتجاج کیا کہ خدا اہل بدر کے حالات سے تم سے زیادہ واقف ہے اور اس نے کہہ دیا ہے،جو چاہو کرو ہم نے تمہیں معاف کردیا ہے ۔

جواب:آپ کے اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل باتیں عرض ہیں!

امر اول:قرآن مجید میں سابقون اوّلون اور نیکی میں ان کی پیروی کرنےوالوں کا تذکرہ صرف اس ایک آیت میں کیا گیا ہے ۔

(سابقون اوّلون چاہے مہاجر ہوں یا انصار اور نیکی میں ان کی پیروی کرنے والے خدا ان سے راضی ہے اور وہ خدا سے راضی ہیں ان کے لئے باغات تیار کئے گئے ہیں جن میں نہریں بہتی ہیں،وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی عظیم کامیابی ہے)(۱) ظاہر ہے کہ اس آیت شریفہ میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں ۔

الف:سابقون اوّلون سے خدا کی رضایت کا اعلان ۔

ب:اللہ نے ان سے جنت کا وعدہ کیا ہےا ور فوز عظیم کا حکم لگایا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ توبہ:آیت: ۱۰۰

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

حاطب بن ابی بلتعہ کا تھا،اس میں اس نے سرکار دو عالم ؐ کے کچھ امور کے بارے میں مشرکین مکہ کو جاسوسی کی تھی،سرکار ؐ نے حاطب سے پوچھا کہ اے حاطب یہ کیا ہے؟حاطب بولا،سرکار ؐ میرے خلاف فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کریں،میں قریش کے قریب رہتا تھا اور آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں ان کے کچھ اعزا ہیں جو مکہ میں ہیں جن کی قرابت کی وجہ سے ان کے اہل و عیال کی حمایت ہوتی ہے،چونکہ میرا کوئی نسبی لگاؤ ان سے نہیں ہے،اس لئے میں نے ان کے لئے جاسوسی کی کہ وہ اسی کا خیال کرکے میرے عزیزوں کی حمایت کریں گے ۔

میں نے کفر کی وجہ سے یہ حرکت نہیں کی اور نہ میں دیں سے مرتد ہوا ہوں،اور نہ اسلام کے بعد کفر کو پسند کیا ہے حضرت نے فرمایا یہ سچ کہہ رہا ہے،عمر نے کہا یا رسول اللہ ؐ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس گردن اڑادوں،آپ نے فرمایا نہیں یہ غازیان بدر میں سے ہے،اور خداوند عالم اہل بدر کے حال سے واقف ہے،اس نے فرما دیا ہے:جو چاہو کرو میں نے تمھیں معاف کردیا ہے،پس اس وقت یہ آیت نازل ہوئی:(اے ایمان لانےوالو!میرے اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ)(1)

مذکورہ حدیث کا پس منظر

میں عرض کرتا ہوں کہ:

1 ۔ آپ نے دیکھا کہ اس حدیث میں عمر کو اس لئے نہیں ڈ انٹا گیا کہ وہ حاطب پر لعن کررہے تھے،یا ان کے عمل کو برا کہہ رہے تھے،حالانکہ موضوع بحث یہی بات ہے(یعنی سابقون اوّلون پر طعن کا جواز یا عدم جواز)عمر صرف اس لئے ڈ انٹے گئے کہ وہ حاطب پر نفاق کا الزام لگا رہے تھے اور ان کو قتل کرنے کی کوشش کررہے تھے،جب کہ نبی ؐ نے حاطب کا عذر قبول کرلیا تھا اور حاطب نے خود کے بارے میں جو نفاق کی نفی کی تھی اس کی تصدیق کردی تھی،حدیث مذکورہ اسی بات کی تصریح کرتی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) صحیح مسلم ج: 4 ص: 1941 کتاب فضائل،اہل بدر اور حاطب بن ابی بلتعہ کی داستان

۸۱

قرآن مجید حاطب کے فعل کو غلط ثابت کرتا ہے

اس موقعہ پر خداوند عالم نے حاطب کے اس فعل کو غلط قرار دیا،قرآن مجید میں اس موقعہ پر ارشاد ہوتا ہے:(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْأَن تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِيتُسِرُّونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْوَمَن يَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ..قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ.. لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَوَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ) (1)

ترجمہ آیت:(اے ایمان دارو!اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے اور میری خوشنودی کی تمنا میں(گھر سے)نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ،تم ان کے پاس دوستی کا پیغام بھیجتے ہو اور جو دین حق تمہارے پاس آیا ہے اس سے وہ لوگ انکار کرتے ہیں،وہ لوگ رسول کو اور تم کو اس بات پر(گھر سے)نکالتے ہیں کہ تم اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے ہو(اور)تم ہو کہ ان کے پاس چھپ چھپ کے دوستی کا پیغام بھیجتے ہو،حالانکہ تم کچھ بھی چھپا کر یا بالاعلان کرتے ہو میں اس سے خوب واقف ہوں،اور تم میں سے ایسا جو شخص کرے تو وہ سیدھی راہ سے یقیناً بھٹک گیا ہے مسلمانو!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ ممتحنہ آیت 6،4،1

۸۲

(تمہارے واسطے)تو ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کے(قول و فعل کا اچھا نمونہ موجود ہے)کہ انھوں نے جب اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور ان(بتوں)سے جنہیں تم خدا کے سوا پوجتے ہو بیزار ہیں ہم تو تمہارے(دین کے)منکر ہیں اور جب تک تم مکمل یکتا خدا پر ایمان نہ لاؤ ہمارے تمہارے درمیان کھلم کھلا عداوت اور دشمنی قائم رہےگی ۔ (مسلمانو)ان لوگوں کے(افعال)کا تمہارے واسطے جو خدا اور روز آخرت کی امید رکھتا ہے اچھا نمونہ ہے اور جو(اس)سے منھ موڑے تو خدا بھی یقیناً بےپرواہ(اور)سزاوار حمد ہے)

آپ دیکھ رہے ہیں کہ خداوند عالم اس قرآن میں جس کی تلاوت صبح و شام کی جاتی ہے علانیہ اس صحابی کو ڈ انٹ رہا ہے اور اس کو برا کہہ رہا ہے!کہ وہ خدا جو کھلے ہوئے قرآن میں کسی کو خود ڈ انٹ رہا ہے اور اس کو برا کہہ رہا ہے تو مسلمانوں کا ڈ انٹنا اور انکار کیوں پسند نہیں کرےگا اور کیوں اس کو برا کہنےوالے سے ناراض ہوگا مگر یہ کہ وہ خود توبہ کرلے تو یہ دوسری بات ہے جو ہماری بحث سے خارج ہے ۔

2 ۔ نبی ؐ جو عمر کو روکا تو برا کہنے سے نہیں روکا تھا،بلکہ عمر اس کو جان سے مارنے کی کوشش کر رہے تھے اور سرکار ؐ کی رائے میں حاطب قتل کا مستحق بہرحال نہیں تھا یا یہ کہ حضور ؐ نے اس کو معاف کردیا تھا نہ یہ کہ اہل بدر کو غلطی کرنے پر انہیں دنیا میں سزا نہیں دی جائےگی،اس بات کا تو کسی نے التزام نہیں کیا ہے ۔

اس کے علاوہ حضور ؐ نے خود ہی مسطح بن اثاثہ پر اِفک کے معاملے میں حد جاری کی ہے(1)

روایتوں میں یہ بات ملتی ہے(مسطح بن اثاثہ حالانکہ اہل بدر میں تھا)دوسرا ثبوت ابھی آپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) مسند ابی یعلی،ج: 8 ص: 338 ،السنن الکبریٰ،للبیھقی،ج: 8 ص: 250 ،کتاب المرتد،باب شوہردار عورتوں کو زنا سے متہم کرنے کی حد سے متعلق،سبل الاسلام،ج: 4 ص: 15 ،کتاب الحدود حد القذف کے باب میں،تفسیر القرطبی،ج: 12 ص: 201 ۔ 202 ،تفسیر ابن کثیر،ج: 3 ص: 272 ،فتح الباری،ج: 3 ص: 272 ،فتح الباری،ج: 13 ص: 342 ،تحفۃ المحتاج،ج: 2 ص: 480 ،تاریخ الطبری،ج: 2 ص: 114 ،حدیث الافک۔

۸۳

کے دوسرے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے کہ عمربن خطاب نے قدامہ بن مظعون پر حد قائم کی حالانکہ یہ دونوں حضرات اصحاب بدر میں تھے ۔ ( 1)

حدیث،اہل بدر کی قطعی سلامتی اور نجات کی ضمانت نہیں لیتی

3 ۔ حضور کا یہ کہنا ہے:((اللہ اہل بدر کے حالات سے مطلع ہے اس نے کہہ دیا کہ تم جو چاہو کرو میں نے تمہیں معاف کردیا ہے،اس سے قطعی سلامتی کے بجائے صرف سلامتی اور نجات کی امید پیدا ہوتی ہے اور صرف امید اس بات کی مانع نہیں کہ ان کے اعمال کے نتیجے میں ان پر طعن نہ کی جائے،جبکہ ان کے اعمال قابل طعن ہوں،اس لئے کہ اگر کوئی آدمی علانیہ فاسق ہو تو اس پر طعن کے جائز ہونے میں کوئی اشکال نہیں جب کہ اس کی ہلاکت قطعی نہیں ہے،اس لئے کہ خدا کی رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے اور وہ بخشنےوالا اور رحم کرنے والا ہے ۔

4 ۔ حدیث کا قطعی نجات پر محمول کرنا ایک تکلف ہے،جو بے بنیاد اور بے دلیل بات ہے،اس کا کوئی دعویٰ بھی نہیں کرتا ہے،اہل سنت کی بات دوسری ہے وہ تو تسلیم کرچکے ہیں کہ سارے صحابہ کو استقامت حاصل تھی اور سارے صحابہ جہنم سے محفوظ ہیں اور ہمارا موضوع بحث بھی یہی ہے اس لئے کہ دعویٰ کبھی دلیل نہیں بن سکتا یہاں پر مقام احتجاج میں اس نظریہ کو پیش کیا جاسکتا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) تفسیر القرطبی،ج: 6 ص: 297 ،المستدرک علی صحیحن،ج: 3 ص: 466 ،کتاب معرفۃ الصحابۃ قدامہ بن مظعون بن حبیب وہب جمحی سے متعلق بحث میں،المعجم الکبیر،ج: 19 ص: 37 ،جس کا نام قدامہ تھا یعنی قدامہ بن مظعون جمحی بدری،فتح الباری،ج: 7 ص: 306 ،سیر اعلام النبلاءج: 1 ص: 161 ،قدامہ بن مظعون کی سوانح میں،الطبقات الکبریٰ،ج: 3 ص: 401 ،قدامۃ بن مظعون کے سوانح حیات میں،الاصابۃ،ج: 5 ص: 423 ،قدامہ بن مظعون کی سوانح میں،تہذیب الاسماء،ج: 2 ص: 371 ،قدامہ بن مظعون کے سوانح حیات میں،الاستیعاب،ج: 4 ص: 1472 ،مسطح بن اثاثہ کے سوانح حیات میں،المتقنیٰ فی سردالکنی،ج: 1 ص: 340 ،ابی عباد مسطح بن اثاثہ کی سوانح حیات میں،سیر اعلام النبلاء،ج: 1 ص: 187 ،مسطح بن اثاثہ کے سوانح حیات میں،مشاہیر علماء الامصار،ص: 12 ،مسطح بن اثاثہ کے سوانح حیات میں الثقات،ج: 3 ص: 383 ،مسطح بن اثاثہ کے سوانح حیات میں نیز اس کے علاوہ منابع،

۸۴

اہل بدر کی قطعی سلامتی کا اعلان انھیں گناہ پر ابھارےگا

اولاً ۔ اس نظریہ سے برائی کی چھوٹ ملتی ہے جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ سابقون اوّلون والی آیت کی تفسیر میں جو حدیث لائی گئی اس میں اہل بدر کو کس طرح برائی کے لئے آزادی دی جارہی ہے ۔

مزید وضاحت کے لئے بخاری شریف کی مندرجہ ذیل حدیث ملاحظہ ہو ۔ ((بخاری فلاں سے روایت کرتے ہیں کہ ابوعبدالرحمن اور حبان بن عطیہ میں جھگڑا ہوا ابوعبدالرحمٰن نے حبان بن عطبہ سے کہا تمہیں معلوم ہے تمہارے صاحب یعنی علی ؑ کی ہمت خون بہانے میں کیوں بڑھی ہوئی ہے،حبان نے کہا تیرا باپ نہ ہو کیوں؟کہا اس کی وجہ ایک بات ہے جو میں نےن کو کہتے ہوئے سنا ہے،پوچھا گیا بات ہے؟کہا ہو کہہ رہے تھے کہ ہمیں زبیر کو اور ابومرثد کو سرکار نے کسی کام سے بھیجا ہم سب گھوڑوں پر سوار تھے....عمر نے کہا یا رسول اللہ ؐ اس نے خدا اور خدا کے رسول اور مومنین سے خیانت کی ہے،مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی گردن ماردوں،سرکار ؑ نے کہا سچ کہہ رہے ہو لیکن اس کے بارے میں سوائے خیر کے کچھ مت بولا کرو،پھر عمر نے اعادہ کیا اور کہا اے رسول ؐ اس نے خدا سے خدا کے رسول اور مومنین سے خیانت کی ہے آپ اجازت دیں کہ میں اس کی گردن ماردوں،آپ نے فرمایا کیا وہ بدر والوں میں نہیں ہے؟اور کیا تمہیں معلوم نہیں،اللہ اہل بدر کے حال سے اچھی طرح واقف ہے،تم جو چاہو کرو،میں نے تم پر جنت واجب کردی ہے،یہ سن کے عمر رونے لگے اور ان کی آنکھیں دب ڈ با گئیں،پھر کہا اللہ اور اللہ کے رسول ؐ بہتر جانتے ہیں(1)

ملاحظہ ہو اگر چہ ہم شیعہ اس بات کے قائل ہیں بلکہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امیرالمومنین ؑ کبھی خون ناحق نہیں بہاسکتے اور صفین و نہروان کی جنگ میں شریک ہونا آپ کے اوپر واجب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)صحیح بخاری ج:6ص:2542،کتاب استتابۃ المرتدین...باب ما جاء فی المتادلین حدیث:6540

۸۵

تھا،جیسا کہ بہت سے علماء نے تصریح کی ہے(1)

اس کے علاوہ آپ نے نبی کے ہمرکاب ہو کر جنگ کا ایک عہد کیا تھا ۔ اور نبی نے آپ کو ناکثین قاسطین اور مارقین(2) سے لڑنے کا حکم دیا تھا لیکن حدیث مذکور عام ذہنوں کا بہرحال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)بہت مناسب ہے کہ ہم یہاں پر وہ عبارت تحریر کریں جسے نصر بن مزاحم نے وقعۃ الصفین میں جنگ کے شعلوں کے بھڑک جانے کے بعد طرفین کی یلغار کے سلسلہ میں روایت کی ہے:وہ کہتے ہیں کہ:شامیوں میں سے ایک شخص باہر آیا جو پکار پکار کے کہہ رہا تھا کہ اے ابوالحسن اے علی کہاں ہو آؤ مجھ سے جنگ کرو حضرت علیؑ وارد میدان ہوئے دونوں صفوں کے درمیان ان کے گھوڑوں کی گردنیں ایک دوسرے سے ٹکرئیں،اس شامی نے آپ سے کہاں کہ:اے علی!آپ نے ہجرت کی کیا یہ ہوسکتا ہے کہ میں ؤپ کے سامنے ایک تجویز رکھوں جس میں ان سارے خون خرابے سے بچاؤ اور اس طرح کی جگ و خونریزی سے بچنے کی سبیل مضہر ہے،پھر اس کے بعد آپ کو اختیار ہے،امام نے فرمایا:وہ تجویز کیا ہے؟اس نے کہا آپ عراق واپس چلے جائیں ہم آپ کے لئے عراق کا علاقہ چھوڑ دیتے ہیں اور ہم شام چلے جاتے ہیں اور شام ہمارے قبضہ میں رہے آپ اس سے تعرض نہ کریں،امام نے فرمایا:تم نے شفقت بھری نصیحت کی ہے میں اس کی قدر کرتا ہوں مجھے بھی جنگ و جدال کا شوق نہیں ہے بلکہ اس فکر نے میری راتوں کی نیند چھین لی ہے میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھایا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ((لم اجد الا القتال او الکفر بما انزل اللہ علی محمد))یا میں ان سے جنگ کروں یا پھر دین محمدی کا منکر ہوجاؤں،اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء سے راضی نہیں ہے کہ روئے زمین پر اس کی معصیت ہو اور چپ بیٹھے رہیں امربالمعروف نہ کریں اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا نہ کریں،بھائی!میں ان سے جگ کو اپنے حق میں کہیں بہتر سمجھتا ہوں اس سے کہ جہنم میں آگ کی زنجیروں میں جکڑدیا جاؤں،وقعۃ الصفین،ص:474،شرح نہج البلاغہ،ج:2ص:208،207،اخبار الطّوال،ص:187۔188،ینابیع المودہ ج:2ص:8۔9،اسد الغابۃ ج:2ص:63،

(2)المستدرک علی صحیحین،ج:3ص:150،کتاب صحابہ کی معرفت اور حضرت امیرالمومنینؑ کے اسلام کا ذکر،مجمع الزوائدج:5ص:186،کتاب الخلافۃ خلفاء اربعہ کے باب میں،ج:7ص:238،کتاب الفتن،جو دو گروہ کے درمیان صفین میں رونما ہوا ہے اس کے باب میں،مسند ابی یعلی،ج:1ص:379،مسند علی ابن ابی طالبؑ کے بیان میں،مسند البراز،ج:2ص:215،جو علقمہ بن قیس نے علی سے متعلق روایت کی ہے کہ بیان میں،ج:3ص:27،جو علی بن ربیعہ اسدی نے علی بن ابی طالب سے متعلق روایت کی ہے،مسندالشاشی،ج:2ص:342،اس روایت کے ذیل میں جو علقمہ بن قیس نے عبداللہ بن مسعود کے بارے میں کی ہے،المعجم الکبیر،ج:10ص:91،اس روایت کے ذیل میں جو علقمہ بن قیس نے عبداللہ بن مسعود کے بارے میں کی ہے۔

۸۶

انکشاف کرتی ہے،آپ دیکھیں کہ اس حدیث میں صرف یہ امید کی گئی ہے کہ اہل بدر نجات یافتہ ہیں مگر محض اس امید کی بنیاد پر حضرت علی ؑ نے(امام بخاری کے نظریہ کے مطابق یا ابوعبدالرحمٰن کے نظریہ کے مطابق)امت میں کتنا خون بہایا،امیر المومنین ؑ تو ہمارے عقیدہ کے مطابق معصوم ہیں اور آپ اس طرح کی غلطیوں سے اپنی عصمت کی بنا پر بالکل پاک ہیں لیکن آپ دیکھیں کہ اس حدیث کی بنیاد پر عام ذہن کیا سونچ رہا ہے اور اس حدیث کا عام آدمی پر کیا اثر پڑےگا اس لئے کہ عام آدمی بشری کمزوریوں اور انسانی جذبات سے محفوظ تو نہیں ہے خصوصاً جب ان کا نفس یہ کہہ کے انھیں گناہ پر ابھارے کہ تم گناہ و ثواب کی فکر کیوں کرتے ہو؟حضور ؐ نے تو تمہاری سلامتی کی نص وارد کردی ہے ۔

ثانیاً ۔ بعض واقعات کو دیکھیں تو خود اہل بدر کا نظریہ آپ کے نظریہ سےمیل نہیں کھاتا نہ قرآن مجید اس ی تائید کرتا ہے قرآن نے بعض سابقون کے بارے میں دوسرے سابقون کے نظریہ پر اعتراض کیا ہے یہ سب باتیں آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں عرض کی جاچکی ہیں جہاں میں نے بتایا تھا کہ قرآن مجید کا صحابہ کے بارےمیں کیا موقف ہے ۔

ثالثاً ۔ مزید بر آں آپ کے اہل بدر والے اس نظریہ سے خود دوسرے صحابہ سے متفق نہیں ہیں آپ تاریخ تو پڑھیں،میں دوسرے سوال کے جواب میں یہ باتیں بھی پیش کرچکا ہوں ۔

اس طرح کی حدیثوں میں گناہ کبیرہ سے بچنے کی قید لگانا ضروری ہے

5 ۔ اگر یہ مان لیا بھی جائے کہ مذکورہ حدیث سے اصحاب بدر کی نجات یقینی ہے تب بھی اس میں گناہان کبیرہ سے بچنے کی قید لگانا ضروری ہے یعنی اسیے گناہ جو مہلک ہیں مثلاً ارتداد،نفاق،حکم خدا کی تردید اور دین میں بدعت و غیرہ،اس لئے کہ کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ مندرجہ بالا گناہ کرنے کے باوجود اہل بدر بخش دئے جائیں گے میرا خیال ہے کہ سابقون اوّلون کی بخشش کا یقین اہل سنت کو یا تو اس لئے ہے کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سابقون سے مذکورہ گناہ صادر ہی نہیں ہوئے یا اس لئے کہ اگر انہوں نے ایسے گناہ کئے بھی تو توبہ کرلی لیکن حدیث میں ان دونوں ہی باتوں پر کوئی دلالت موجود نہیں

۸۷

ہے کہ جب انہوں نے گناہ کیا تھا اس وقت بخش دئے گئے تھے یا اس سے قبل کے گناہ بخش دئے گئے ہیں اور جب حدیث کو مہلک گناہوں سے مقید کردیں گے یعنی ذنوب مہلکہ کا غفران اس مغفرت میں شامل نہیں ہے تو پھر یہ دعویٰ کہ ان سے اس طرح کے گناہ ہوئے ہی نہیں یا یہ کہ گناہاں کبیرہ کئے لیکن توبہ کرلی،ان دونوں باتوں کے لئے الگ سے دلیل لانی پڑےگی ۔

قرآن مجید حاطب کی جس طرح تہدید کرتا ہے اس سے سلامت قطعی نہیں سمجھی جاسکتی

6 ۔ خداوند عالم کا یہ کہنا ہے کہ:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (1)

ترجمہ آیت:(جو خدا اور آخرت سے امیدوار ہے اس کی سیرت میں تمہارے لئے قابل پیروی باتیں ہیں اور جو منھ موڑ لیتا ہے تو اللہ بےنیاز اور سزاوار احمد ہے ۔ )

یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حاطب اس وقت تک معرض ہلاکت میں ہے جب تک توبہ نہ کرلے،یہ ثابت کرنےکے لئے کہ وہ اللہ اور آخرت کا امیدوار ہے،اسے اسوہ ابراہیمی اور اصحاب ابراہیم ؑ کی پیروی کرنا ضروری ہے اور اس پیروی کا اظہار اس طرح ہوگا کہ وہ کافروں سے اظہار برائت کرے اور ان سے دور رہے،اگر وہ اس سیرت ابراہیمی کی پیروی نہیں کرتا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کو خدا سے کوئی امید ہے نہ آخرت سے،اس منزل پاس میں جو بھی پہنچ جائے اس کی ہلاکت میں کسی کو اشکال نہٰں ہے بلکہ ارشاد ہوتا ہے(جو منھ موڑےتو اللہ بےنیاز ہے اور سزاوار حمد ہے)اور اس ٹکڑے میں اتنی سخت دھمکی ہے کہ جو کسی پر مخفی نہیں ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ ممتحنہ آیت:6

۸۸

جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

لَن تَنفَعَكُمْ أَرْحَامُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ(1)

ترجمہ آیت:(تمہاری رشتہ داریاں اور تمہاری اولاد تم کو قیامت کے دن کوئی فائدہ نہیں پہنچائےگی،اس دن تو وہی تمہارے درمیان فیصلہ کرےگا اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے ۔ )

اس آیت میں حاطب کی تردید اور اس کے قبول عذر سے رفض ظاہر ہورہا ہے،حاطب کا شدت سے انکار کیا جارہا ہے اور تہدید کی جارہی ہے پھر کیسے ممکن ہے کہ اس تہدید و انکار کے بعد بھی اللہ اس کو معاف کرکے اس کی سلامتی کو قطعی قرار دےگا،اس آیت سے امید بھی ظاہر نہیں ہورہی ہے جو معنائے حدیث میں شامل ہے کہ:اگر گناہاں کبیرہ اس سے صادر ہوئے ہیں تو حدیث سے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے بخشے جانے کی امید ہے،جب کہ آیت کا اس کا انکار کرتی ہے ۔

7 ۔ چونکہ مذکورہ آیتیں نبی ؐ کی حدیث مذکور کے بعد نازل ہوئیں ہیں لہذا دو میں سے کوئی ایک بات ماننی پڑےگی یا تو نبی کریم ؐ اس گناہ کی اہمیت سے ہی ناواقف تھے جو حاطب کرچکا تھا،جب کہ ایسا ناممکن ہے بہرحال مان لیں کہ نبی ؐ اس گناہ کی اہمیت سے ناواقف تھے اور اللہ نے نبی کریم ؐ کے وہم کو دور کردیا اس آیت کو نازل کرکے یا یہ کہ نبی ؐ عمر کی منھ زوری کو لگام دینا چاہتے تھے اور ان کو روکنا چاہتے تھے،آپ اس کو معاملات نبوت میں مداخلت سے باز رکھنا چاہتے تھے اس لئے کہ اس سے آگے چل کے بہت سے نقصانات دین کو پہنچ سکتے ہیں اس لئے حضور ؐ نے ان کو ڈ انٹا،یعنی حضور ؐ حاطب کے گناہ کی اہمیت سے واقف تھے اور اس کو معرض خطر میں سمجھ رہے تھے اب دو میں سے جو بات آپ کے دل کو لگتی ہو مان لیں ۔

رہا شیعوں کا سوال تو ہم لوگ تو آیات مذکورہ کی صراحت کے بعد ابھی اس حدیث ہی کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ ممتحنہ آیت: 3

۸۹

مشکوک سمجھ رہے ہیں ہمیں متن حدیث ہی میں شک ہے دلالت اور سند حدیث میں تو شک و شبہ ہے ہی،کیونکہ اس میں جان بوجھ کے تحریف ہوئی یا غیرارادی طور پر تحریف ہوئی ۔

تھوڑی سی گفتگو حدیث حاطب جیسی حدیثوں کے بارے میں

8 ۔ اس طرح کی دوسری حدیث حاضر کررہا ہوں اس سے بھی اسی حالت کا اظہار ہوتا ہے،ابوہریرہ کہتے ہیں(پھر انصار میں سے ایک آدمی اندھا ہوگیا تو اس نے حضور ؐ کو بلا بھیجا کہ اس کے گھر میں ایک مسجد بنادیں تا کہ وہ وہیں نماز پڑھا کرے،سرکار ؐ اس کے گھر آئے اور اس کی قوم اس کے پاس جمع ہوئی لیکن ان کا ایک آدمی نہیں آیا،جب حضور ؐ نے پوچھا وہ کہاں ہے لوگوں نے اس سوال کے جواب سے چشم پوشی کی لیکن ایک آدمی بولا وہ تو(ایسا ویسا ہوگیا)آپ نے فرمایا کیا وہ اہل بدر میں سے نہیں ہے؟کہاں ہاں اے خدا کے رسول ؐ لیکن وہ اسی ویسی حرکتیں کرتا ہے فرمایا،اللہ بدروالوں کے حال سے بہتر واقف ہے تم کو جو سمجھ میں آئے کرو بیشک میں نے تم کو بخش دیا ہے)(1) مندرجہ بالا حدیث کی سند میں اگر چہ ہلکاپن ہے،لیکن یہ بھی اہل بدر کی قطعی سلامتی پر دلالت نہیں کرتی ۔ جس طرح آیہ کریمہ کے معنی سے اس کو کوئی مناسبت نہیں ہے ممکن ہے کہ یہ حدیث اس آیت کے قبل صادر ہوئی ہو تو بھی اس پر سابقہ اصول جاری ہوں گے ۔

9 ۔ اسی طرح کی ایک حدیث جابر سے ہے،کہتے ہیں کہ حاطب کا ایک غلام تھا وہ حضور ؐ کی خدمت میں حاطب کی شکایت لے کے آیا،کہنے لگا خدا کے رسول ؐ حاطب ضرور جہنم میں جائےگا،آپ نے فرمایا ہرگز نہیں جھوٹا ہے،وہ جہنم میں نہیں جاسکتا،وہ بدری مجاہدوں میں ہے اور حدیبیہ میں شریک تھا ۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) صحیح حبّان،ج: 11 ص: 123 ،حدیث شمارہ 4798 ،غزوہ بدر میں جہاد کے وجوب کے باب سے متعلق ایسی خبر کا ذکر کرنا جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو اہل بدر نے بدر کے دن کرتوت کئے ہیں خداوند عالم نے اسے بخش دیا اور طلحہ اور زبیر بھی انہیں میں سے ہیں۔

( 2) صحیح ابن حبان ج: 11 ص: 122 حدیث: 4799 باب فرض جہاد:جنگ بدر:جنگ بدر اور صلح حدیبیہ میں شریک افراد کے داخل جہنم ہونے کے بارے میں انکار کا تذکرہ

۹۰

چونکہ بدر اور حدیبیہ کی فضیلت تمام گناہوں سے بخشش کی سند نہیں دےسکتی،گناہان کبیرہ کی تو بات ہی الگ ہے اور یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ نبی ؐ برحق اس غفران کو قطعی قرار دیں،اس لئے کہ اس سے اعمال قبیحہ کی طرف ترغیب لازم آئےگی پس ضروری ہے کہ اس حدیث کو اس معنی پر محمول کیا جائے کہ آپ نے حاطب کے غلام کے اس نظریہ کی تردید کی تھی کہ حاطب کا جہنم میں جانا یقینی ہے جب کہ وہ بدر اور حدیبیہ کا شاہد ہے،یہ بھی ممکن ہے کہ غلام نے جن گناہوں کی شکایت کی تھی وہ قابل بخشش ہوں اور ان کی وجہ سے اس کا جہنمی ہونا یقینی نہ ہو ۔

حکمت اور عقل کا تقاضا یہ ہے کہ حدیث حاطب کی تاویل کی جائے

ممکن ہے کہ اس طرح کی حدیثون کی اگر سند و متن محکم ہوں تو ایسی تاویل کی جائے جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہو،ساتھ ہی کتاب اور سنت میں اسی معنی کا ظہور ہو جیسے یاد دہانی پر تاکید،عذرتراشی سے پرہیز اور خواہ مخواہ دوسروں کو سرزنش کرنے سے روکنا تا کہ نفس کے بہکنے اور نجات کی امید و غیرہ پر ایسا اعتماد نہ ہوجائے کہ جس کی وجہ سے انسان محارم کا مرتکب ہو،حدود الہی کو توڑ دےاور آخرت میں منکر الہی سے بالکل محفوظ دل میں ڈ الی دے یا اسی طرح کے دوسرے گناہوں پہ ابھارے جس سے بچنے کی اللہ نے تاکید کی ہے ۔ ان تاویلوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضور ؐ بدر میں جہاد کی اہمیت اور اس کی عظیم فضیلت بیان کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ بدر میں جہاد کی وجہ سےہل بدر کے سابقہ گناہ بخشے جاسکتے ہیں،اس لئے کہ:

إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ(1)

(ترجمہ آیت:(اچھائیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں) ۔

یا یہ کہ حضور ؐ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عمل جاری رکھو چاہے وہ خیر ہو یا شر،تمہارا گذشتہ کردار یعنی جنگ بدر میں شرکت تمہاری سابقہ خطاؤں کی بخشش کے لئے کافی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ ہود آیت 114 ،

۹۱

اب اس کے بعد(گناہ چاہے ثواب)جو عمل بھی اختیار کرو تمہارے اختیار میں ہے جیسے حاجیوں کے بارے میں حدیث وارد ہوئی ہے(کہ عمل کرتے رہو تمہیں بخش دیا گیا ہے)(1) ابوہریرہ حضور ؐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو خدا کے لئے حج کرے پس وہ فحش نہ بکے اور فاسق نہ ہو تو وہ گناہوں سے یونہی پاک ہوجاتا ہے جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے نکلا ہو ۔(2)

اس بیان سے مقصد یہ ہے کہ ایسی فضیلتوں والا اس بات کا مستحق ہے کہ نبی ؐ اس کی اس طرح کی غلطیوں کو معاف کردیں جس سے مقصد اس کی اصلاح ہے یا یہ بتانا کہ اللہ نے اس کے گناہوں کو بخش دیا ہے نہ کہ اس کی قطعی سلامتی کا اعلان کیا ہے ۔

عمداً یا سہواً حدیثوں سے مغالطے ہوتے ہیں

اصل میں یا تو انسان ان مرتبوں سے لاعلم ہوتا ہے جن کے ماحول میں حدیث صادر ہوئی یا جان بوجھ کے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے،بہرحال جو ہو حدیثوں سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے مثال کے طور پر محمد بن مارد کی حدیث ملاحظہ فرمائیں،اس نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ جب تمہیں معرفت امام حاصل ہوجائے تو پھر جو چاہے کرو،آپ نے فرمایا ہاں میں نے یہ کہا ہے میں نے عرض کیا اس کا مطلب ہے کہ امام کو پہچان لینے کے بعد اس کو اجازت ہے چاہے وہ زنا کرے چاہے چوری کرے یا شراب پیئے،آپ نے فرمایا:(انّا لله و انّا الیه راجعون) خدا کی قسم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)وسائل الشیعہ ج:8باب:38شرائط واجبات حج)

(2)صحیح بخاری ج:2ص:553،کتاب الحج،حج مبرور(مقبول)کی فضیلت کے باب میں انھیں الفاظ میں صحیح مسلم،ج:2ص:984،کتاب حج،حج عمرہ اور روز عرفہ کی فضیلت کے باب میں،صحیح بن خزیمۃ،ج:4ص:131،کتاب المناسک حج کی فضیلت کے بیان میں جس میں جنگ و جدال،فسق و فجور اور گناہوں اور خطاؤں کے کفارہ کے باب میں،صحیح بن حبان،ج:9ص:7،کتاب حج،حج و عمرہ کی فضیلت کے باب میں،اللہ کی بخشش گذشتہ گناہوں سے متعلق جو کوئی ایسا حج کرے جس میں جنگ و جدال اور فسق و فجور نہ ہو،مسند ابی الجعد،ص:141شعبہ بن منصور کی باقی حدیث کے ضمن میں نیز اس کے علاوہ بہت سارے مصادر میں۔

۹۲

لوگوں نے ہمارے ساتھ انصاف نہٰں کیا یہ ممکن ہے کہ ہم تو عمل کی وجہ سے پکڑے جائیں اور ہمارے شیعوں پر سے اعمال ساقط ہوجائیں میرے کہنے کا مطلب تو یہ تھا کہ جب تم امام کو پہچان لیتے ہو تو اچھا کام چاہے زیادہ کرو چاہے کم،اللہ اسے قبول کرےگا ۔(1)

واقعہ بدر کے علاوہ بھی ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں سلامت قطعی وارد ہوئی ہے

10 ۔ بہت سے اعمال خیر اور عقائد حقہ ہیں جن کے بارے میں سلمات قطعی وارد ہوئی ہے،ملاحظہ ہو ابوذر غفاری کی حدیث آپ کہتے ہیں حضور ؐ نے فرمایا:کوئی بندہ ایسا نہیں ہے کہ لا الہ الا اللہ کہے اور اسی کلمہ پر مرجائے مگر یہ کہ وہ جنت میں داخل ہوگا میں نے کہا چاہے وہ زنا کرے چاہے چوری فرمایا چاہے زنا کرے یا چوری،میں نے کہا چاہے زنا کرے یا چوری فرمایا چاہے زنا کرے یا چوری میں نے پھر پوچھا چاہے زنا کرے یا چوری فرمایا چاہے وہ زنا کرے یا چوری ابوذر کی چاہت کے خلاف(2) اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں ۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)وسائل الشیعہ ج:1ص:87باب:28باب مقدمہ عبادت حدیث:2

(2)صحیح بخاری ج:5ص:2193کتاب اللباس:باب ثیاب البیض

(3)صحیح بخاری ج:1ص:417،باب اور کتاب دونوں ہی جنازوں سے متعلق ہے،ج:5ص:2312،کتاب الاستیذان،جس نے لبیک اور سعدیک جیسے کلموں کے ذریعہ جواب دیا،ص:2366،کتاب الرقاق(بندگی)سے متعلق،جو اسے پیش کیا گیا وہ اس کا مال ہے کے باب میں،صحیح مسلم،ج:1ص:95۔94،کتاب الایمان اس امت کے افتراق سے متعلق باب الزکاۃ،صدقہ کی ترغیب کے باب میں،سنن الترمذی،ج:5ص:27،کتاب الایمان اس امت کے افتراق سے متعلق باب میں،السنن الکبریٰ،نسائی،ج:6ص:144،ابوذر غفاری کی حدیث میں،مسند ابی عوانہ،ج:1ص:28،کتاب الایمان،ان اعمال اور فرائض کے بیان میں جن میں قول و فعل کے ذریعہ انجام دیا ہے اور اس کی وجہ سے جنت میں داخل ہوا،نیز اس دلیل کے سلسلے میں صرف اقرار کافی نہیں ہے جب تک دل سے یقین نہ کرے اور خدا کی رضا کا طالب نہ ہو جو چیز حرام کردیتی ہے اور اس کے علاوہ مصادر۔

۹۳

عمر کہتے ہیں کہ سرکار ؑ نے فرمایا،تم میں سے جو بھی وضو کرے اوراشهد ان لا اله الله و اشهد ان محمد عبده و رسوله کہے اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جائیں گے جنت میں چاہے جس دروازے سے داخل ہو ۔(1)

عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے پیغمبر کو یہ کہتے سنا اللہ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں جو بہترین وضو کرکے ان کو ان کے وقت پر ادا کرے اور کامل رکوع و سجود اور خشوع کے ساتھ ادا کرے،اللہ پر عہد ہے کہ وہ اس بندہ کو بخشےگا اور جو ایسا نہیں کرے اس کا اللہ پر کوئی عہد نہیں چاہے بخشے چاہے سزادے.(2) اسی طرح کی دوسری حدیثیں ملاحظہ ہوں ۔(3)

ابوہریرہ کہتے ہیں ایک عرب حضور ؐ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا مجھے ایسا عمل بتائیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) السنن الکبریٰ،بیھقی،ج: 1 ص: 78 ،کتاب الطہارۃ،وضو کے مستحبات اور واجبات کے بیان میں،باب وضو سے فارغ ہونے کے بعد کیا کہےگا انھیں الفاظ میں صحیح بخاری،ج: 3 ص: 1267 ،کتاب الانبیاء باب قول خداوند(یا اهل الکتاب لا تفعلو فی دینکم و لاتقولوا علی الله الا الحق انّما المسیح بن مریم رسول الله و کلمة القاها الی مریم و روح منه فٰامنوا بالله و رسوله و لاتقولوا ثلاثة...) صحیح مسلم ج: 1 ص: 209 کتاب الطہارۃ وضو کے بعد مستحب ذکر کے باب میں،صحیح ابن خزیمہ،ج 1 ص: 110 ،کتاب الوضو،بغیر ایجاب کے تطہیر اور استحباب کے ابواب میں،باب تحلیل اور نبی کی رسالت کی گواہی کی فضیلت اور عبودیت کے بیان میں نیز وہ چیزیں نہ کہی جاتیں جو نصاریٰ عیسٰ بن مریم کے بارے میں کہتے ہیں،نیز اس کے علاوہ دیگر منابع و ماخذ

( 2) السنن الکبریٰ،بیھقی،ج: 3 ص: 366 ،تارک الصلواۃ کے باب میں،جس کے ذریعہ اس بات پر استدلال کیا جاتا ہے کہ اس کفر سے مراد وہ کفر ہے جس سے اس کا خون مباح ہوتا ہے نہ یہ کہ اللہ،رسول پر ایمان سے خارج ہوجاتا ہے اگر وجوؓ صلاۃ کا منکر نہیں ہے

( 3) سنن ابی داؤدج: 1 ص: 115 ،باب اوقات نماز کی پابندی،مسند احمدج: 5 ص: 317 ،عبادۃ بن صامت کی حدیث،الاحادیث المختارۃ،ج: 8 ص: 320 ،جس کا نام عبدالرحمٰن بن عسیلۃ الصنابحی،المعجم الاوسط ج: 9 ص: 126 ،باب الھاء،ہاشم کے اسم کے بارے میں،الترغیب و الترھیب،ج: 1 ص: 148 ۔ 157 ۔ 155 ،تعظیم قدر الصلاۃ ج: 2 ص: 953 ،وغیرہ مصادر

۹۴

جس کو کر کے میں جنت میں داخل ہوجاؤں،آپ نے فرمایا اللہ کی عبادت کرو اور اس کی ذات میں کسی کو شریک نہ بنا،واجب نمازیں پڑھتا رہ،فرض زکٰوۃ ادا کرتا رہ،رمضان میں روزے رکھتا رہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس سے زیادہ میں کچھ نہ کہوں گا ۔(1)

دوسری حدیث ابوہریرہ ہی سے ہے کہ ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے اور مستحب حج کی جزا سوائے جنت کے کچھ نہیں ۔(2)

حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا جو حج یا عمرہ کے لئے سفر میں ہو اور مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کے درمیان چاند دیکھے اس کے گذشتہ اور آئندہ گناہ بخش دئے جاتے ہیں اور اس پر جنت واجب ہوجاتی ہے ۔(3)

ظاہر ہے کہ ان حدیثوں کو ہم ظاہر پر حمل نہیں کرسکتے ورنہ اعمال کی دنیا میں اندھیرا ہوجائےگا اس لئے کہ باقی محرمات و واجبات پر جو دلیلیں اور کتاب و سنت میں جو وعید وارد ہوئی ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) صحیح بخاری ج: 2 ص: 506 ،کتاب الزکاۃ،باب زکوۃ کا وجوب اسی لفظ میں صحیح مسلم ج: 1 ص: 44 ،کتاب الایمان،اس ایمان کے باب میں جس کی وجہ سے جنت میں داخل ہوتا ہے نیز مامور بہ سے جو متمسک ہوجائے وہ جنت کا حقدار ہے مسند احمد،ج: 2 ص: 342 ،مسند ابی ہریرہ،جامع العلوم و الحکم،ص: 207 ،الایمان لابن مندۃ،ج: 1 ص: 269 ،اس بات کے ذکر میں نبی کی اصحاب نے بیعت کی اس طرح سے کہ اشہد ان لا الہ الّا اللہ و ان محمداً رسول اللہ کی گواہی دے،الترغیب و الترھیب،ج: 1 ص: 302

( 2) صحیح بخاری ج: 2 ص: 629 ،باب عمرہ،وجوب عمرہ اور اس کی فضیلت کے باب میں اور اسی لفظ میں صحیح مسلم ج: 2 ص: 983 ،کتاب حج،حج و عمرہ اور روز عرفہ کی فضیلت کے باب میں،صحیح ابن خزیمۃ ج: 4 ص: 131 ،کتاب المناسک،حج و عمرہ کے درمیان فرق کے باب میں،السنن الکبری،بیھقی ج: 5 ص: 261 ،کتاب حج،حج و عمرہ کی فضیلت کے باب میں،سنن ابن ماجۃ ج: 2 ص: 964 ،باب فضیلت حج و عمرہ،موطا مالک،ج: 1 ص: 364 ،کتاب حج،جو عمرہ کے لئے آئے اس کے باب میں،مسند احمدج: 3 ص: 447 ،حدیث عامر بن ربیعۃ،

( 3) سنن الدار قطنی،ج: 2 ص: 283 ،کتاب الحج،انھیں الفاظ میں السنن الکبری،بیھقی ج: 5 ص: 30 ،کتاب الحج،جو مسجد اقصی اور مسجدالحرام کے جوار میں اس کی فضیلت کے باب میں،سنن ابی داؤد،ج: 2 ص: 143 ،کتاب مناسک کی ابتداء میں اوقات کے باب میں،المعجم الاوسط ج: 6 ص: 319 ،الترغیب و الترھیب،ج: 2 ص: 121 ،وغیرہ

۹۵

ان حدیثوں سے مطابقت نہٰں کرتیں،ظاہر ہے کہ ان حدیثوں کی تاویل،کرنی پڑےگی اور استقامت اور حسن خاتمہ کی قید لگانی پڑےگی،اس لئے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نجات اور ابدی نعمتوں کے لئے یہ دونوں چیزیں شرط ہیں،تو آپ جیسی بھی ان حدیثوں کی تاویل کریں حدیث بدر کی بھی وہی تاویل کرلیں،(یعنی استقامت اور حسن خاتمہ کو حدیث میں قطعی نجات کے لئے شرط قرار دیں)

حدیث مذکورہ اہل بدر سے مخصوص ہے نہ کی باقی سابقون اوّلون سے

اختتام کلام میں عرض ہے کہ(اگر ہم حدیث مذکورہ کی بنار پر اہل بدر کو مغفور و مامون مان بھی لیں تو)یہ حدیث تو صرف اہل بدر سے مخصوص ہے ان کے لئے جو واقعہ بدر میں نبی ؐ برحق کے ساتھ تھے تو پھر سابقون اوّلون جن کو اہل سنت سابقون اوّلون کہتے ہیں ان کی قطعی نجات اور یقینی سلامت پر یہ دلیل کیسے بن سکتی ہے؟جبکہ سابقون اوّلون کی ایسی حد بندی بھی نہیں کی گئی ہے جو زیادتی اورک می کو قبول نہ کرے،میرا خیال ہے کہ ہماری گفتگو آپ کے سوال کا کافی جواب ہوگی،ہم اللہ سے استمداد،توفیق و تسدید مانگتے ہیں اور وہی سیدھے راستے کا رہبر ہے ۔

۹۶

سوال نمبر ۔ 2

ہم اس بات کے منکر نہیں ہیں کہ صحابہ کبھی ذاتی بغض کی وجہ سے مجبور ہوجاتے تھے،کبھی کسی مصلحت سے مجبور ہوجاتے تھے اور کبھی ایک دوسرے پر غبطہ کرنے لگتے تھےہ معاملات اس قول کو محال قرار دیتے ہیں کہ صحابہ بشری کمزوریوں سے منزہ تھے اس کہ باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام غلطیوں کے ہوتے ہوئے بھی اللہ ان سے راضی ہے اور یہ رضا صرف زمانہ نبوت تک محدود نہیں ہے بلکہ رضا مطلقاً وارد ہوئی ہے اور اس سے کوئی صحابی مستثنیٰ نہیں ہے مگر یہ کہ شریعت اس کے لئے کوئی خاص نص پیش کرے ۔

پھر شیعہ حضرات خلافت عمر و ابوبکر و عثمان کے حق میں وہ بھی حضرت علی ؑ ہی کی زندگی میں خلافت پر قبضہ جمانے کے لئے یہ تاویل کیوں نہیں کرتے کہ حضرت علی ؑ کے پہلےوالے خلفا کی حرکتیں بشری تقاضوں اور ان کی ذاتی کمزوریوں کا نتیجہ تھیں جن کا شرعی مواخذہ نہیں کیا جاتا یا یہ کہ مولائے کائنات ؑ اور دوسرے خیلفہ آپس میں مل بیٹھ کے راضی ہوگئے تھے کہ خلافت کس کس کو دی جائےگی،حالانکہ شیعوں کے خیال کے مطابق مستحق ترین فرد مولا علی ؑ تھے ۔

جواب ۔ اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل باتیں حاضر ہیں

امر اول ۔ خداوند عالم نے خاص صحابہ کے لئے دو جگہ اپنی رضا کا اظہار کیا ہے،یہ دو آیتوں سے رضا ظاہر ہوتی ہے ۔

۹۷

پہلی آیت تو سابقون اوّلین والی آیت ہے اور وہ لوگ جو ان کے احسان کے ساتھ پیروی کرتے ہیں،اس پر کافی گفتگو ہوچکی ہے اور ہم اعادہ نہیں کریں گے ۔

بیعت رضوان کے بارے میں گفتگو

رضوان الہی کے بارےمیں دوسری آیت حاضر ہے،ارشاد ہوتا ہے:((بیشک اللہ راضی ہوگیا مومنین سے جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کررہے تھے،ان کے دل کے حالات سے اللہ واقف ہوا اور ان پر سکینہ نازل کیا اور فتح قریب سے سرفراز کیا بہت سا مال غنیمت بھی دے دیا اور اللہ عزیز اور حکمت والا ہے))(1) پہلی آیت کے ذیل میں یہ عرض کیا جاچکا ہے کہ اپنی رضا کی خبر اللہ دے تو رہا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ رضا ہمیشہ باقی رہےگی،یہاں اللہ نے درخت کے نیچے بیعت کرنےوالوں کو اپنے رضا کی خبر دی ہے،لیکن اس کے بعد وہ جو اعمال بھی انجام دیں گےاسی کے حساب سےجزا اور سزا کے مستحق ہوں گے،اس بات کو دو امر کچھ اور مضبوط کرتے ہیں۔

آیہ کریمہ رضا کو مطلق نہیں کرتے بلکہ رضا کا سبب بیان کرتی ہے

پہلی بات تو یہ ہے کہ رضا ان کے لئے مطلقاً وارد نہیں ہوئی ہے بلکہ رضا کا سبب اور اس کا منشا بیان کیا جارہا ہے،سبب رضا ہے درخت کے نیچے بیعت کرنا اور وہ اس لئے کہ انہوں نے نبیؐ کے طلب بیعت پر لبیک کہی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر وہ نبیؐ کی نافرمانی کریں گےتو ان پر غضب نازل نہیں ہوگا،پھر اس آیت سے رضا کی تائید کیسے سمجھی جائے؟

بعض آیتیں بتاتی ہیں کہ اس بیعت کے عہد کو پورا کرنا سلامتی کی شرط ہے

خداوند عالم نےاسی سورہ میں یہ صراحت کردی ہے کہ وہ بیعت جو رضائے الہی کا سبب ہے،نجات کے لئے کافی نہیں ہے جب تک وفا بعہد کی بیعت نہ کی جائے ملاحظہ ہو:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ فتح آیت: 19،18

۹۸

(إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا)(1)

ترجمہ آیت:((بیشک وہ لوگ جو آپ سے بیعت کررہے تھے اصل میں اللہ سے بیعت کررہے تھے،اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ پر تھا،اس کے بعد بھی اگر کوئی بیعت توڑتا ہے تو خود گھاٹا اٹھائےگاور جو اس عہد بیعت کو وفا کرےگا تو عنقریب اللہ اسے اجر عظیم عنایت فرمائےگا)) ۔

یہ بات صریحی ہے کہ رضا و غضب کی چکی ان کے اعمال کے مدار پر گھوم رہی ہے،اللہ راضی بھی ہوگا،ثواب بھی دےگا،غضب ناک بھی ہوگا اور سزا بھی دےگا معیار اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت ہے اور ان کی نافرمانی ہے اگر وہ وفا کریں گے کامیاب ہوں گے اور اگر کجروی اختیار کریں گےاور بیعت توڑدیں گے تو گھاٹا اٹھائیں گے اور خود کو نقصان پہنچائیں گےٹھیک یہی بات شیعہ بھی صحابہ کے بارے میں کہتے ہیں ۔

لظف یہ ہے کہ اہل حدیث اور مورخین کا کہنا ہے کہ اس دن حضور نے ان سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ وہ مشرکین سے قتال کریں گے اور جہاد سےبھاگیں گے نہیں(2) ظاہر ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ فتح آیت:10)

(2)صحیح مسلم،ج:3ص:1484۔1485،کتاب الامارۃ(علامت)قتال کے موقع پر لشکر امام کی بیعت کے استحباب کے باب میں نیز بیعت الرضوان درخت کے نیچے،صحیح ابن حبّان ج:10ص:415،حدیث:4551،بیعت ائمہ کے باب میں اور جوان کے لئے مستحب ہے،نیز اس بیعت کے بیان میں جو امام کی آزاد لوگوں کی طرف سے ہو نہ غلاموں کی طرف سے،ج:11ص:231،حدیث4875،باب المواعدۃ(وعدہ کرنا)والمھادنۃ(سکون و وقار کے باب میں نیز اس تعداد کے وصف کے بیان میں جو رسول خداؐ کے ساتھ حدیبیہ کے دن تھے،مسند ابی عوانی،ج:4ص:427۔430،ایسی اخبار کے باب میں اس امیر کی اطاعت کے بیان میں جس کی طاعت کا امام حکم دیتا ہے اور جس نے اس کی اطاعت کی اس نے امام کی اطاعت کی امام کی صفت کے بیان میں،سنن ترمذی،ج:3ص:355،جابر کی مسند میں تفسیر طبری،ج:26ص:86،تفسیر ابن کثیرج:4ص:178،ابن عبدالبراج کی التمھید،ج:12ص:149،السیرۃ النبویۃ،ابن ہشام،ج:4ص:383،(بیعۃ الرضوان)کے بارے میں نیز اس کے علاوہ مصادر۔

۹۹

کہ اس(لایفروا)سے مراد ہے کہ تمام جنگوں میں نہیں بھاگیں گے نہ کہ صرف صلح حدیبیہ میں،اس لئے خداوند عالم نےآیہ کریمہ میں وفا کی شرط رکھدی ہے،صلح حدیبیہ میں تو جنگ بھی نہیں ہوئی تھی پھر ٹھہرنے اور بھاگنے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے،یہ آیتیں اورہ فتح کی ہیں اور سورہ فتح صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوا ہے اور اسی وجہ سے غزوہ حنین میں سرکار دو عالم ؐ نے انھیں ان کے فرار پر بیعت رضواں یاد دلائی نبی ؐ لوگوں کو پکار رہے تھے اےسورہ بقرہ والو!اے بیعت شجرہ والو!(1) ظاہر ہے کہ فرار واقع ہوا اور رضا ختم ہوئی،غزوہ خیبر میں ایک جماعت کا فرار ہونا اور غزوہ حنین میں اکثر صحابہ کا فرار بتا رہا ہے کہ انھوں نے بیعت توڑدی اور جب بیعت توڑدی تو رضا بقی نہیں رہی ۔

خدا کی رضا صرف بیعت رضوان والوں سے مخصوص نہیں ہے

اب ایک بات رہ جاتی ہے وہ یہ کہ یہ مان لیا جائے کہ رضا استمرار کے لئے وارد ہوئی ہے اور ہمیشہ باقی رہےگی،جیسا کہ آپ فرماتے ہیں اور میں نے جو عرض کیا اس سے چشم پوشی کی جائے تو پھر میں عرض کروں گا کہ رضا کے لئے خاص اصحاب ہی مخصوص نہیں ہیں بلکہ قرآن مجید میں تو عمومی رضا واقع ہوئی ہے خدا ان تمام لوگوں سے اپنی رضا کا اعلان کرتا ہے جو ایمان کی دولت سے مالامال اور اعمال صالحہ سے مزین ہیں ۔

ملاحظہ ہوا ارشاد ہوتا ہے: (لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَٰئِكَ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مصنف ابی شیبہ ج:7ص:417جنگ حنین

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367