فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ10%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206512 / ڈاؤنلوڈ: 6000
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

حدیث حوض اور فتنوں سے ڈرانےوالی احادیث کی سنگینی کا پتہ دیتی ہیں

ثانیاً:حدیث حوض کو ہم بہت وضاحت کے ساتھ آپ کے سابقہ سوال کےجواب میں پیش کرچکے ہیں،خصوصاً احادیث حوض میں بعض حدیثیں ایسی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کی اکثریت کو حوض سے ہٹادیا جائےگاور ان میں سے بس چند لوگ باقی بچیں گے،یہ حدیثیں بتاتی ہیں کہ صحابہ میں نجات پانےوالے بہت کم لوگ ہیں،قرآن کی بہت سی آیتیں اور حدیثیں وہ ہیں جو فتنوں سے بچنے کی تقلین کرتی ہیں،ایسے فتنے جو امت پر بس آنےہی والے ہیں یہ آیتیں اور حدیثیں بتاتی ہیں کہ کتنی عظیم مصیبتیں آنےوالی ہیں اور کتنا خطرناک ماحول پیدا ہونےوالا ہے،میں نے ان آیتوں اور حدیثوں کو اکثر مقامات پر پیش کیا ہے ۔

سابقہ امتوں کے واقعات

حضور ؐ نے فرمایا کہ((تم اپنی سابقہ امتوں کی ایک بالشت اور ایک ایک ہاتھ پر پیروی کروگے یہاں تک کہ اگر وہ بجّو کے سوراخ میں داخل ہوئے ہیں تو تم بھی ان کی پیروی کروگے))صحابہ نے پوچھا حضور ؐ !کیا گذشتہ امتوں سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں؟آپ نے فرمایا پھر کون ہے؟کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ گذشتہ امتوں کی تباہی و بربادی کا سبب صرف یہ تھا کہ انھوں نے اپنے نبیوں کی مخالفت کی تھی خاص طور سے یہودیوں کے بارے میں تو قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ وہ دوبارارہ مستقیم سے بہکیں گے ارشاد ہوتا ہے:

(وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْا عَلَىٰ قَوْمٍيَعْكُفُونَ عَلَىٰ أَصْنَامٍ لَّهُمْ قَالُوا يَا مُوسَى اجْعَل لَّنَا إِلَٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌتَجْهَلُونَ)(۱)

ترجمہ آیت:((ہم بنواسرائیل کو لیکے چلے یہاں تک کہ وہ ایک ایسی قوم کے پاس آئے جو اپنے بتوں کا اعتکاف کرتی تھی تو کہنے لگے موسیٰ،ان کے خداؤں کی طرح ہمارا بھی ایک خدا بنادیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ الاعراف،آیت: ۱۳۸

۲۲۱

موسیٰ نے فرمایا تم جاہل لوگ ہو)) ۔

یہ پہلی کجی تھی اور دوسری کجی تب ظاہر ہوئی جب انھوں نے بچھڑے کو اپنا معبود بنایا تھا قرآن نے بہت سی آیتوں میں اس کا تذکرہ کیا ہے اور یہ واقعہ آج کل کی تورات(توریت)میں بھی موجود ہے،سورہ اسریٰ میں ارشاد ہوتا ہے کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد برپا کروگے اور ایک مرتبہ بہت بڑی سرکشی کروگے،اس فساد اور سرکشی کا نتجہ انھیں کے لئے نقصان دہ ہوگا ۔

مخالفت تو ایسی نصوص کی بھی کی گئی جو امامت کے لئے دلیل نہیں تھی

ثالثاً:وہ حدیثیں جو امیرالمومنین علیہ السلام،صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا اور اہل بیت علیہم السلام کے حق میں سرکار دو عالم ؐ نے عمومی طور پر ارشاد فرمائی تھیں،صحابہ نے ان کی مخالفت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا تھا چاہے وہ خلافت پر نص ہوں یا نہ ہوں،جیسے حدیث ثقلین:جو اہل بیت ؑ سے تمسک کا حکم دیتی ہے،اس پر چھٹے سوال کے جواب میں گفتگو کی جائےگی ۔ انشاءاللہ

اس طرح حدیث سفینہ جس میں حضور ؐ نے فرمایا تھا کہ میرے اہل بیت ؑ سفینہ نوح جیسے ہیں جو اس میں سوار ہوا وہ نجات پائےگا اور جو اس سے منھ موڑےگا وہ ہلاک ہوجائےگا ۔(۱) اور حضور اکرم ؐ کا اہل بیت اطہار ؑ کو مخاطب کرکے یہ فرمانا کہ جس سے تم سلامتی رکھوگے میں بھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) مستدرک علی صحیحین ج: ۲ ص: ۳۷۲ ،کتاب تفسیر،تفسیر سورہ ہود،ج: ۳ ص: ۱۶۳ ،کتاب معرفۃ الصحابۃ،آل رسول کے مناقب میں،مجمع الزوائدج: ۹ ص: ۱۴۸ ،کتاب مناقب،باب اہل پیغمبرؐ کی فصل میں مسند البرازج: ۹ ص: ۳۴۳ ،اسی مورد میں سعید بن مسیّب نے ابی ذر سے روایت کی ہے،المعجم الاوسط ج: ۴ ص: ۱۰ ،ج: ۵ ص: ۳۵۵ ،ج: ۶ ص: ۸۵ ،المعجم الصغیرج: ۱ ص: ۲۴۰ ،ج: ۲ ص: ۸۴ ،المعجم الکبیرج: ۳ ص: ۴۴۵ ،حسن بن علی کی باقی خبروں میں ج: ۱۲ ص: ۳۴ ،اسی مورد میں کہ سعید بن جبیر نے ابن عباس سے روایت کی ہے،مسند الشہاب ج: ۲ ص: ۲۷۳ ،باب گیارہ،دسواں جز،فیض القدیرج: ۲ ص: ۵۱۹ ،حلیۃ الاولیاءج: ۴ ص: ۳۰۶ ،تاریخ بغدادج: ۷ ،ص: ۳۳۶ ،ترجمہ الحسن بن ابی طیبۃ القاضی المصری،ج: ۱۲ ص: ۱۹ ،ترجمہ علی بن عمر بن شداد،فضائل الصحابہ عبداللہ بن احمد بن حنبل،ج: ۲ ص: ۷۸۵ ،اور اس کے علاوہ،منابع و مصادر

۲۲۲

سلامتی رکھوں گا اور جس سے تم جنگ کروگے اس میں بھی جنگ کروں گا،(۱) اس کے علاوہ وہ تمام حدیثیں جو عمومی طور پر اہل بیت ؑ کے حق میں وارد ہوئی ہیں،جیسے حدیث غدیر،جس میں حضرت ؐ نے فرمایا کہ امیرالمومنین ؑ مومنین کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق رکھتے ہیں،حضور اکرم ؐ کا یہ قول کہ علی ؑ قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی ؑ کے ساتھ ہے(۲) علی ؑ حق کے ساتھ ہیں اور حق علی ؑ کے ساتھ ہے(۳) خدا علی ؑ پر رحم کرے:پالنےوالے حق کو ادھر موڑدے جدھر علی ؑ مڑے(۴) علی ؑ مجھ سے ہیں میں علی ؑ سے ہوں ۔(۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سنن ابن ماجہ ج:۱ص:۵۲،صحیح بن حبان،ج:۱۵ص:۴۳۴،سنن ترمذی ج:۵ص:۶۹،مستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۶۱،کتاب صحابہ کی معرفت،و رسول اللہؐ کے اہل پیغمبرؐ کے مناقب میں،المصنف ابن ابی شیبۃ ج:۶ص:۳۷۸،کتاب فضائل،وہ چیز جو حسنؑ حسینؑ کے بارے میں آئی ہے،مجمع الزوائدج:۹ص:۱۶۹،کتاب مناقب،باب اہل بیتؑ کے فضائل کے بارے میں،المعجم الاوسط ج:۳ص:۱۷۹،ج:۵ص:۱۸۲،ج:۷ص:۱۹۷،معجم الشیوخ،ص:۱۳۳،جس کی روایت محمد بن عمار بن عمروعاص بن مطیع ابوجعفر نے کی ہے،ص:۳۸۰،المعجم الصغیرج:۲ص:۵۳،معجم الکبیرج:۳ص:۴۰،باقی اخبار حسن بن علیؑ میں ج:۵ص:۱۸۴،امالی المعاملی ص:۴۴،سیر اعلام النبلاءج:۲ص:۱۲۲،ترجمہ فاطمہ بنت رسول اللہؐ ج:۳ص:۲۵۸،حالات حسن بن علی بن ابی طالبؑ میں،ج:۱۰ص:۴۳۲،تہذیب الکمال ج:۳،ص:۱۱۲،تاریخ بغدادج:۷ص:۱۳۷،-(۲)مجمع الزوائدج:۹ص:۱۳۴،المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۳۴،المعجم الصغیرج:۲ص:۲۸،فیض القدیرج:۴ص:۳۵۶،المعجم الاوسط ج:۵ص:۱۳۵،الفردوس بماثور الخطاب ج:۳ص:۲۳۰،تاریخ الخلفاءج:۲ص:۱۷۳،اجمال الاصابۃ ص:۵۵،الجامع الصغیرج:۲ص:۱۷۷،حدیث:۵۵۹۴،کنزالعمال ج:۱۱ص:۶۰۳،حدیث:۳۲۹۱۲،ینابیع المودۃ ج:۱ص:۱۲۴،ج:۲ص:۹۶۔۳۹۶۔۴۰۳،العصاح الکافیۃ ص:۲۱۵،المناقب الخوارزمی ص:۱۷۷-(۳)مجمع الزوائدج:۷ص:۲۳۵،تاریخ بغدادج:۱۴،ص:۳۲۰،تاریخ دمشق ج:۲۰ص:۳۶۱،حالات سعد بن مالک بن ابی وقاص،ج:۴۲ص:۴۴۹،حلات علی ابن ابی طالبؑ،الامامۃ و السیاسۃ ج:۱ص:۶۸،ینابیع المودۃ ج:۱ص:۱۷۳،وغیرہ.-(۴)سنن ترمذی ج:۵ص:۶۳۳،کتاب مناقب رسول اللہؐ باب مناقب علی ابن ابی طالبؑ،المعجم الاوسط ج:۶ص:۹۵،مسند البزارج:۳ص:۵۲،فیض القدیرج:۲ص:۲۳۶،ج:۴ص:۱۹،تذکرۃ الحفاظ ج:۳ص:۸۴۴،سیر اعلام النبلاءج:۱۵ص:۲۷۹،المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۳۴،الکامل فی ضعفاء الرجال ج:۶ص:۴۴۵،الضعفاء للعقیلی ج:۴ص:۲۱۰،المجروحین ج:۳ص:۱۰،تہذیب الکمال ج:۱۰،ص:۴۰۲،العلل المتناھیۃج:۱ص:۲۵۵،الریاض النضرۃج:۱ص:۲۴۳مسند ابی یعلی ج:۱ص:۴۱۸،مسند علی بن ابی طالبؑ،وغیرہ-(۵)سنن ترمذی ج:۵ص:۶۳۶،کتاب مناقب رسول اللہؐ،سنن ابن ماجۃ ج:۱ص:۴۴،فضائل علی بن ابی طالبؑ میں،سنن کبری للنسائی ج:۵ص:۴۵،فضائل ابی بکر،عمر،عثمان،مسند احمد ج:۴ص:۱۶۵،الآحاد و المثانی ج:۳ص:۱۸۳،المعجم الکبیرج:۴ص:۱۶،السنۃ لابن ابی عاصم ج:۲ص:۵۶۶۔۵۹۸،تذکرۃ الحفاظ ج:۲ص:۴۵۵،کشف الخلفاءج:۱ص:۲۳۶،تہذیب الاسماءج:۱ص:۳۱۸،فضائل الصحابۃ لابن حنبل ج:۲ص:۵۹۹،سیر اعلام النبلاءج:۸ص:۲۱۲،تاریخ دمشق،ج:۴۲،ص:۳۴۵،حالات علی ابن ابی طالبؑ میں اور اس کے علاوہ مصادر،

۲۲۳

اوراے علی ؑ !((کیا تم مجھ سے اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہاری منزلت میرے لئے ویسی ہے جیسی ہاروں کی موسیٰ کے لئے،مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا))(۱) مجھ پر شب معراج وحی آئی علی ؑ کے بارے میں جس میں تین باتیں گئیں:

۱ ۔ علی ؑ سیدالمومنین ہے

۲ ۔ علی ؑ امام المتقین ہے

۳ ۔ علی ؑ روشن پیشانی والوں کا سردار ہے(۲)

سرکار دو عالم ؐ نے علی ؑ کا تعارف اکثر ان الفاظ میں کرایا کہ علی ؑ امیرالمومنین ہیں(۳) بلکہ بریدہ کی حدیث میں تو ہے کہ حضور ؐ نے ہمیں حکم دیا کہ علی ؑ امیرالمومنین کہہ کے سلام کرنا،اس وقت ہم سات آدمی تھے میں ان میں سب سے چھوٹا تھا ۔(۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)صحیح بخاری ج:۴ص:۱۶۰۲،کتاب المغازی،باب جنگ تبوک،اواسی طرح ج:۳ص:۱۳۵۹،کتاب فضائل الصحابۃ،باب مناقب علی بن ابی طالبؑ،صحیح مسلم ج:۴ص:۱۸۷۱۔۱۸۷۰،کتاب فضائل الصحابہ باب فضائل علی بن ابی طالبؑ صحیح ابن حبان ج:۱۵ص:۱۵،باب اخبار رسول اللہؐ،المستدرک علی صحیحین ج:۲ص:۳۶۷،کتاب تفسیر،تفسیر سورہ توبہ،ج:۳ص:۱۱۷،کتاب معرفت صحابہ،اور مناقب علی بن ابی طالبؑ میں سے کتاب معرفت صحابہ،الاحادیث المختارہ ج:۳ص:۲۰۷،

(۲)المعجم الصغیرج:۲ص:۱۹۲،مجمع الزوائدج:۹ص:۱۲۱،کتاب مناقب علی ابن ابی طالبؑ،المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۴۸،اسد الغابۃج:۱ص:۶۹،حالات اسعد بن زرارہ انصاری،ج:۳ص:۱۱۶،حالات عبداللہ بن اسعد بن زرارہ انصاری،تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۰۲۔۳۰۳،معجم الصحابۃج:۱ص:۷۰حالات ابجر بن غالب المزنی ج:۲ص:۱۱۲،موضوع ادھام الجمع و التفریق،ج:۱ص:۱۸۶۔۱۸۵۔۱۸۴۔۱۸۳،الفردوس بماثور الخطاب ج:۵ص:۳۱۵،حلیۃ الاولیاءج:۱ص:۶۳،حالات علی بن ابی طالبؑ،تاریخ بغدادج:۱۱ص:۱۱۲،حالات عبدالجبار بن احمد بن عبیداللہ السمسار،ج:۱۳ص:۱۲۲،کشف الخفاءج:۳ص:۴۵۶،کنزالعمال ج:۱۱ص:۶۲۰۔۶۱۹،میزان الاعتدال ج:۷ص:۲۰۷،الکامل فی ضعفاء الرجال ج:۷ص:۱۹۹،حالات یحی بن العلاء الرازی،

(۳)تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۸۶۔۳۰۳،حالات علی بن ابی طالبؑ،المناقب خوارزمی ص:۸۵،موضع ادھام الجمع و التفریق،ج:۱ص:۱۸۵،الفردوس بماثور الخطاب ج:۵ص:۳۶۴،حلیۃ الاولیاءج:۱ص:۶۳لسان المیزان ج:۱ص:۱۰۷،میزان الاعتدال ج:۱ص:۱۹۱،حالات ابراہیم بن محمد بن میمون،

(۴)تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۰۳،حالات علی بن ابی طالبؑ میں،

۲۲۴

حضور ؐ نے فرمایا:علی ؑ میرے بعد تم لوگوں کے ولی ہیں ۔(۱)

حضور ؐ نے ایک اور مقام پر فرمایا کہ:علی ؑ جو مجھ سے الگ ہوا وہ اللہ سے الگ ہوا اور جو تم نافرمانی کرتا ہے اور جو علی ؑ کی اطاعت کرے وہ میری اطاعت کرتا ہے اور جو علی ؑ کی نافرمانی کرے وہ میری نافرمانی کرتا ہے ۔(۳) اور حضور کا یہ کہنا کہ اے علی تم میرے بعد امت کے اختلافات کو دور کروگے ۔(۴) اور حضور ؐ کا یہ ارشاد کہ جو علی ؑ کو ستائے وہ مجھےستاتا ہے اور جو علی ؑ کو اذیت دے دو مجھے اذیت دیتا ہے.(۵)

---------------

(۱)مجمع الزوائدج:۹ص:۱۲۸،سنن کبری للنسائی ج:۵ص:۱۳۳،المعجم الاوسط،ج:۶ص:۱۶۳،مسند احمدج:۵ص:۳۵۶،الفردوس بماثورالخطاب ج:۵ص:۳۹۲،فتح الباری ج:۸ص:۶۸،تحفۃ الاحوزی ج:۱۰ص:۱۴۸۔۱۴۶،فیض القدیر ج:۴ص:۳۵۷،الاصابۃج:۶ص:۶۲۳،الریاض النضرۃ ج:۲ص:۱۸۷،تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۱۸۹،حالات علی بن ابیطالبؑ میں،فضائل الصحابۃ لابن حنبل ج:۲ص:۶۸۸،البدایۃ و النہایۃج:۷ص:۳۴۶۔۳۴۴،

(۲)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۳۳،کتاب معرفت صحابہ ص:۱۵۸،مجمع الزوائدج:۹ص:۱۳۵،کتاب مناقب باب الحق مع علی،مسند البرازج:۹ص:۴۵۵،معجم شیوخ ابی بکر الاسماعیلی ج:۳ص:۸۰۰،المعجم الکبیرج:۱۲،ص:۴۲۳،فضائل الصحابہ ج:۲ص:۷۵۰،فیض القدیرج:۴ص:۳۵۷،میزان الاعتدال ج:۳ص:۳۰،ص:۷۵،حالات رزین بن عقبہ میں،تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۰۷،حالات علی بن ابی طالبؑ میں،

(۳)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۳۱،معجم شیوخ ابی بکر اسماعیلی ج:۱ص:۴۸۵،الکامل فی ضعفاء الرجال ج:۴ص:۳۴۹،تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۰۷،حالات علی بن ابی طالبؑ میں

(۴) المستدرک علی صحیحین ج ۳: ۱۳۲ ،تاریخ دمشق ج ،اص: ۴۸۵ ،الکامل فی ضعفاء الرجال ج :ج ص:۳۴۹ ، تاریخ دمشق ج :۴۲ ص:۳۰۷ ،حالات علی ابن ابی طالب-

(۵)صحیح ابن حبان ج:۱۵ص:۳۶۵،المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۳۱،کتاب معرفت صحابہ،الاحادیث المختارہ ج:۳ص:۲۶۸۔۲۶۷،موارد الظمان ص:۴۵۳،مجمع الزوائد،ج:۹ص:۱۲۹،المصنف لابن ابی شیبۃج:۶ص:۳۷۱،فضائل علی بن ابی طالبؑ،مسند الشاشی ج:۱ص:۱۳۴،مسند البزارج:۶ص:۲۳۷،مشاہیر علماء الامصار ص:۳۵،الثقات ج:۳ص:۲۷۳،التدوین فی اخبار قزوین ج:۳ص:۳۹۰،معجم الصحابۃ ج:۲ص:۲۰۱،الستیعاب ج:۳ص:۱۱۰۱،حالات علی بن ابی طالبؑ میں،ص:۱۱۸۳،حالات عمر بن شاس بن عبید،الاصابۃج:۶۴۶۴،فضائل الصحابۃ لابن حنبل ج:۲ص:۵۷۹،۶۳۳،تاریخ الخلفاءج:۱ص:۱۷۳،حالات علی بن ابی طالبؑ میں انساب الاشراف ج:۲ص:۳۷۹،اس کے علاوہ دوسرے مصادر،

۲۲۵

اسی طرح جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں بھی حدیث پیغمبر ؐ کی مخالفت کی گئی،حضور اکرم ؐ نے فرمایا کہ:جو فاطمہ ؑ کو خوف زدہ کرے وہ مجھےخوفزدہ کرتا ہے اور جو فاطمہ ؑ کو اذیت دے وہ مجھے اذیت دیتا ہے(۱) دوسرے مقام پر آپ ؐ نے فرمایا((فاطمہ ؑ تیری غضب کی وجہ سے خدا غضبناک ہوتا ہے اور تیری رضا کی وجہ سے خدا راضی ہوتا ہے ۔(۲)

اس طرح کی بہت سی حدیثیں فضائل علی ؑ و فاطمہ ؑ و اہل بیت ؑ میں پائی جاتی ہیں جن کے معنی و مفاہیم ایک ہیں چاہے الفاظ مختلف ہوں،یہ حدیث اس کثرت سے پائی جاتی ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں اور نہ ان سے انکار ممکن ہے ان حدیثوں کے اجمال تفصیل میں تواتر پایا جاتا ہے بلکہ یہ حدیثیں تواتر کی حد سے بھی آگے ہیں،لیکن ان حدیثوں میں امیرالمومنین ؑ کی خلافت پر نص ہو یا نہ ہو بہرحال سقیفہ میں اور سقیفہ کے بعد کے واقعات میں ان حدیثوں کی شدید مخالفت کی گئی ان حدیثوں کا مذاق اڑایا گیا اور ان حدیثوں کی طرف کسی نے دھیاں نہیں دیا،علی ؑ و فاطمہ ؑ کے گھر پر حملہ کیا گیا،ان کی ہتک حرمت کی گئی،انھیں اذیت دی گئی،انھیں غضبناک کیا گیا،امیرالمومنین ؑ کو بیعت پر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تفسیر ابن کثیرج:۳ص:۲۵۷،صحیح بخاری ج:۵ص:۲۰۰۴،کتاب النکاح،صحیح ابن حبان ج:۱۵ص:۴۰۶،مسند ابی عوانۃج:۳ص:۷۰،سنن ترمذی ج:۵ص:۶۹۸،سنن کبریٰ للبیہقی ج:۷ص:۳۰۷،ج:۱۰ص:۲۸۸،سنن ابی داود،ج:۲ص:۲۲۶،سنن ابی ماجۃج:۱ص:۶۴۳،معتصرالمختصرج:۱ص:۳۰۷،المعجم الکبیرج:۲۲ص:۴۰۴،حالات حسین بن علیؑ میں ج:۷ص:۳۲۵،سیراعلام النبلاءج:۲ص:۱۱۹،فاطمہ بنت رسول اللہؐ کی سوانح حیات میں،تہذیب الکمال ج:۲۲ص:۵۹۹،حالات عیسی بن حماد بن مسلم،ج:۳۵،ص:۲۵۰،معجم الصحابۃج:۳ص:۱۱۰،صفوۃ الصفوۃج:۲ص:۱۳،معجم المحدثین ص:۹غوامص الاسماءالمبھۃ ج:۱ص:۳۴۰،المغنی ج:۱۰ص:۱۸۶،فضائل الصحابۃ لابن حنبل ج:۲ص:۷۵۶،فضائل الصحابۃ للنسائی ص:۷۸،

(۲)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۶۷،مجمع الزوائد،ج:۹ص:۲۰۳،الآحادوالمثانی ج:۵ص:۳۶۳،المعجم الکبیرج:۱ص:۱۰۸،ج:۲۲ص:۴۰۱،میزان الاعتدال ج:۲ص:۲۸۹،حالات حسین بن زیاد بن علی بن حسین بن علی علوی ج:۴ص:۱۸۵،الکامل فی ضعفاء الرجال ج:۲ص:۳۵۱،حالات حسین بن زید بن علی میں،التدوین فی اخبار قزوین ج:۳ص:۱۱،الاصابۃج:۸ص:۵۷،حالات فاطمۃ الزہراءؑمیں،تاریخ دمشق ج:۳ص:۱۶۵،باب اولاد فاطمۃ الزہراؑ کے ذکر میں،ص:۱۲۰،

۲۲۶

مجبور کیا گیا،آپ ؑ کو تیسری درجےکے لوگوں کا تابع اور مطیع قرار دیا گیا،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امت میں اختلاف کے وقت لوگ فیصلہ اور قول محکم کے لئے امیر کائنات ؑ کی طرف رجوع کرتے مگر اس کے برعکس امیرالمومنین ؑ کو ادنیٰ لوگوں کی پیروی مجبور کیا گیا،نبی ؐ نے حکم دیا تھا کہ اہل بیت ؑ سے تمسک کرو امت نے اہل بیت ؑ کا خذلان کیا،نبی ؐ نے فرمایا کہ اہل بیت ؑ سفینہ نوح جیسے ہیں اس سفینہ پرآؤگے تو نجات پاجاؤگے اور امت نے اس سفینہ ہی کو ڈ بونے کی کوشش کی،نبی ؐ نے فرمایا تھا علی ؑ تمہارے مولی ہیں،علی ؑ امیرالمومنین ہیں،امت نے کے بدلے میں اپنی ولایت اور امارت علی ؑ پر مسلط کردی،اس دور کے سب سے کمزور وجود کا نام علی ؑ ہوگیا،جس طرح بنواسرائیل نے جناب ہاروں کو کمزور کردیا تھا اسی طرح مسلمانوں نے علی ؑ کو سب سے کمزور سمجھ کے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑدئیے،شوریٰ کے دن بھی گذشتہ تمام حدیثوں کی مخالفت کی گئی،علی ؑ کو حاکم ہونا چاہئے تھا لیکن یہ حق عبدالرحمٰن بن عوف نے چھین کر عثمان کی خلافت کا فیصلہ سنا دیا اور حاکم برحق کو محکوم بناکے ابوطلحہ انصاری کو حکم دیا کہ اگر علی ؑ بیعت عثمان سے انکار کرتے ہیں تو وہ انھیں قتل کردے،عثمان کا مولا اور عبدالرحمٰن کے جابرانہ فیصلہ نے اسے رعایا اور مامور قرار دیا ۔

بلکہ انصاف سے دیکھ جائے تو شیخین(ابوبکر و عمر)نےنصوص نبوی ؐ کی زیادہ مخالفت کی ہے اور اکثر جہگوں پر خود کو نصوص نبوی ؐ کی پابند یوں سےآزاد قرار دیا ہے،تفصیل کتابوں میں موجود ہے جسے شک ہو وہ جاکے دیکھے،میں ان کتابوں کا حوالہ دینا ضروری نہیں سمجھتا اور اس مختصر میں اس کی گنجائش بھی نہیں ہے ۔

اب آپ فیصلہ کریں،شواہد کیا کہتے ہیں؟صحابہ نے ان نصوص شریفہ کی مخالفت کی یا نہیں؟صحابہ نے ان نصوص شریفہ سے تغافل برتایا نہیں؟ان حدیثوں میں تو امیرالمومنین ؑ کی امامت و خلافت پر کوئی نص بھی نہیں تھی لیکن صحابہ نے ہر اس حدیث کی مخالفت کی اور ہر اس نص سے تغافل برتا جس میں امیرالمومنین ؑ اور اہل بیت ؑ کے حق کی رعایت کا حکم دیا گیا تھا تو جب صحابہ ایسے نصوص کی

۲۲۷

مخالفت کرسکتے ہیں تو امامت و خلافت پر نصوص نبوی ؐ کی مخالفت کرنے اور تغافل برتنے سے انھیں کون روکے گا؟وہ کیوں نہیں کریں گے؟اس لئے کہ وہ خود غاصب خلافت تھے،اگر نص پر عمل کرتےتو خلافت حقدار خلافت کو دینی پڑتی ۔

انصار نے الائمۃ من قریش کی مخالفت کی

انصاف سے بتائیں کیا((الائمۃ من قریش))نص نہیں ہے؟کیا اس سے قریش میں امامت کا محصور ہونا سمجھ میں نہیں آتا ہے؟پھر انصار جو قریش نہیں تھے انھوں نے دعوائےخلافت کرکے کیا اس نص کی مخالفت نہیں کی؟انصار صحابہ تھے کہ نہیں؟انصار وہ باوقار گروہ جن میں بہت سے سابق الاسلام تھے،نبی ؐ کی نصرت میں بھی سابق تھے،لیکن جب حکومت کی ہوس دل میں سمائی تو ان ہی صاحبان جبّہ و دستارنے سعد بن عبادہ کی بیعت کرنی چاہی اور الائمۃ من قریش کے نص صریح کی مخالفت کر بیٹھے(۱) عام مسلمانوں کے درمیان یہ تو بہت مشہور حدیث تھی،کیا انصار نے یہ حدیث نہیں سنی تھی؟

ہاں قریش کی ایک جماعت نے جب دیکھا کہ انصار نص کی مخالفت کررہے ہیں تو انھوں نے ان کو ڈ انٹا اور سختی سے انکار کیا،یہاں تک کہ عمروعاص کہتا ہے قریب تھا کہ وہ اسلام کی رسّی کو ڈ ھیلی کردیں جیسا کہ انھوں نے اس کے لئے قتال کیا تھا اور جس طرح اسلام میں داخل ہوئے تھے قریب تھا کہ اسی طرح وہ اسلام سے نکل جاتے،خدا کی قسم اگر انھوں نے پیغمبر ؐ کا قول((الائمۃ من قریش))سنا تھا پھر بھی امامت کے دعویدار تھےتو وہ ہلاک ہوچکے تھے اور ہلاک کرچکے تھے اور اگر نہیں سنا تھا انھوں نے یہ قول!تو بھی وہ مہاجرین جیسے تو نہیں تھے ۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)اس سوال کے جواب کے آغاز میں اسکے مصادر گذرچکے ہیں)

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۲۹

۲۲۸

لیکن انصار آخر اس مذکورہ نص کے مخالف کیوں تھے ۔ صرف اس لئے کہ وہ نص ان کی مصلحتوں کے خلاف تھی اور ان کے مفاد کو مجروح کررہی تھی،اس طرح عمر نے بھی اس نص کو مبہل قرار دیا اور اس نص سے خارج ہونے کی پرواہ نہیں کی اور کسی نے ان کی مخالفت بھی نہیں کی،وقت وہ ہے جب انھیں زخمی کیا گیا اور موت کا فرشتہ ان کے سامنے آکے کھڑا ہوگیا اس وقت کہنے لگے اگر ابوحذیفہ کا غلام سالم زندہ ہوتا تو میں اس کو خلیفہ بنادیتا ۔(۱) پھر کہا اگر معاژ بن جبل کو پاتا تو خلیفہ بنادیتا،پھر میں اپنے پروردگار سے ملتا تو وہ مجھ سے پوچھتا....(۲)

سوچئے کیا سالم غلام ابوحذیفہ اور معاذ بن جبل جیسے لوگوں کے ہاتھوں خلافت سوچنے کی خواہش((الائمۃ من قریش))کے نص کی مخالفت نہیں ہے یہ دونوں مسلمان قریش سے نہیں تھے،

یہیں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تمام صحابہ کی طرف سے نص کی مخالفت کا اقدام ذرا بھی بعید از قیاس نہیں ہے،اس لئے کہ نص کی مخالفت ہی سے ان کے الّو سیدھے ہوررہے تھے،ان کی مصلحتوں کا افادہ ہورہا تھا اور وہ نقصان سے بچ رہے تھے،نص کی مخالفت تو صرف ان کو نقصان پہنچارہی تھی جو اہل بیت ؑ پیغمبر ؐ تھے اور پیغمبر کے بعد انھیں کمزور کردیا گیا تھا،جیسا کہ آئندہ صفحات میں عرض کیا جائےگا ۔

حاصل گفتگو یہ ہے کہ جب صحابہ ان نصوص نبوی ؐ کی مخالفت کرسکتے ہیں جن سے امامت و خلافت امیرالمومنین ؑ ثابت نہیں ہوتی تو پھر امامت و خلافت کے حامل نصوص کی مخالفت بعید از قیاس ہے نہ تعجب خیز،جیسا کہ شیعوں کے قول کے مطابق ایسی نص موجود ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ طبری ج:۲ص:۵۸۰،العقد الفریدج:۴ص:۲۵۵،تاریخ دمشق ج:۵۸ص:۴۰۵۔۴۰۴،مقدمہ ابن خلدون ص:۱۹۴،حلیۃاولیاءج:۱ص:۱۷۷،صفوۃ الصفوۃج:۱ص:۳۸۸،کشف الخفاءج:۲ص:۴۲۸

(۲)تاریخ دمشق ج:۸ص:۴۰۴۔۴۰۳،مسند احمدج:۱ص:۱۸،فیض القدیرج:۳ص:۱۹۰،صفوۃالصفوۃج:۱ص:۳۶۷.

۲۲۹

نبی نے صحابہ کو خبردار کردیا تھا کہ وہ امیرالمومنینؑ کے بارے میں نصوص کی مخالفت کریں گے

بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ حضور سرور کائنات ؐ نے اپنے صحابہ کو خبردار کردیا تھا کہ وہ علی ؑ کے بارے میں نصوص کی مخالفت کریں گے اور نصوص کو جاری ہونے سے روکیں گے،اگر امیرالمومنین ؑ اپنے حق کے لئے قیام بھی کریں گےتو صحابہ علی ؑ سے الگ ہوجائیں گے،اس لئے کہ حضور کائنات ؐ اپنے اصحاب کی نفسیات سے اچھی طرح واقف تھے اور ان کے دلوں میں کیا کچھ ہے اس سے اچھی طرح واقف تھے حضور ؑ سمجھ رہے تھے کہ وہ لوگ کس حد تک جاسکتے ہیں ۔

ثبوت کے لئے ملاحظہ ہو((جب عائشہ نے مولائے کائنات ؑ پر خروج کیا اور بصرہ تک پہنچ گئیں تو انھوں نے کوشش کی کہ ام سلمہ ؒ کو بھی اپنے ساتھ ملالیں اور دونوں مل کے علی ؑ پر خروج کریں لیکن ام المومنین ام سلمہ نے انکار کردیا بلکہ عائشہ کو بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ امیرالمومنین ؑ سے نہ الجھیں،ام المومنین ام سلمہ نے عائشہ کو کچھ باتیں یاد دلائیں جو امیر کائنات ؑ کے حق میں تھیں اور انھیں روکنے کی کوشش کی،ان باتوں میں ایک واقعہ یہ بھی تھا کہ ام سلمہ نے عائشہ سے کہا:میں تمہیں ایک واقعہ یاد دلاتی ہوں،ہم لوگ یعنی میں اور تم سرکار دو عالم ؐ کے ساتھ سفر کررہے تھے،علی ؑ ہمارے ساتھ تھے،پیغمبر ؐ کی جوتیاں ٹانکا کرتے تھے اور کپڑے دھویا کرتے تھے ایک دن آپ کی جوتی میں سوراخ ہوگیا علی ؑ اس کو ٹانکنے کے لئے بیٹھ گئے،اس وقت علی ؑ ایک ببول کے درخت کے سایہ میں بیٹھے تھے اتنے میں تمہارے باپ اور عمر آگئےانھوں نے نبی ؐ سے حاضری کی اجازت لی،ہم لوگوں نے پردہ کرلیا اور وہ دونوں خدمت پیغمبر ؐ میں حاضر ہوئے،وہ نبی ؐ سے کہنے لگے،حضور ؐ ہمیں نہیں معلوم کہ آپ کی صحبت ہمیں کب تک حاصل رہےگی،کاش آپ بتایئےکہ آپ کے بعد آپ کا خلیفہ کون ہوگا؟تا کہ ہم آپ کے بعد اس کی پناہ میں چلے جاتے،حضور ؐ نے فرمایا:ویسے تو میں اس کی جگہ دیکھ رہا ہوں لیکن اگر میں تمہیں بتادوں تو تم اس سے الگ ہوجاؤگے جس طرح بنی اسرائیل ہارون بن عمران ؑ کو چھوڑکے الگ

۲۳۰

ہوگئے تھے،یہ سن کر دونوں خاموش ہوگئے اور باہر چلے گئے،پھر جب نبی ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو میں نے نبی ؐ سے پوچھ لیا حالانکہ عائشہ تم نبی ؐ پر مجھ سے زیادہ جسارت کرتی تھیں،بہرحال میں نے نبی ؐ سے پوچھا:حضور ؐ آپ ان لوگوں پر کس کو خلیفہ بنانا چاہتے ہیں؟فرمایا جوتی ٹانکنےوالے کو تو ہم نے غور سے دیکھا اس وقت علی ؑ کے علاوہ جوتی ٹانکنےوالا کوئی نہیں تھا میں نے پوچھا یا رسول اللہ ؐ اس وقت تو جوتی ٹانکنےوالا علی ؑ کے علاوہ کوئی دکھائی نہیں دیتا؟آپ ؐ نے فرمایا:ہاں میری مراد بھی وہی ہے،عائشہ نے کہا،ہاں مجھے یاد آگیا،(۱)

یہ وہ حقائق ہیں کہ جس کی بنیاد پر مجھے عرض کرنا ہے کہ صحابہ کےتغافل کی وجہ سے نص کو وجود کو بعید از قیاس نہیں سمجھا جاسکتا،بلکہ ضرورت ہے کہ نص کےدعوے پر منصفانہ نظر کی جائے اور اس دعوے پر جو دلیلیں دی جارہی ہیں ان پر کامل موضوعیت کے ساتھ جذبات سے دور ہوکے غور کیا جائے پھر وجدان کو حاکم بناکے ایک فیصلہ کیا جائے،شیعہ امیرالمومنین ؑ اور آپ کی معصوم اولاد ؑ کی خلافت کے بارے میں جن نصوص کا دعویٰ کرتے ہیں کیا وہ نصوص ان لوگوں کے بارے میں بھی وارد ہوئی ہیں جن کی خلافت کو جمہور صحیح قرار دیتے ہیں تو جمہور نے مقام استدلال میں ان نصوص کا استعمال کیا ہے کہ نہیں جب اس نکتہ پر غور کریں گےتو راستہ خود بخود مل جائےگا اس لئے کہ حق سبحانہ تعالیٰ صحیح راستے کی طرف ہدایت کرنےکا ذمہ دار ہے ۔

جن لوگوں نے نص کی مخالفت کی،ان کی تعداد بہت کم ہے

وجہ ثالث:جن لوگوں نے نص خلافت کی مخالفت کی اگر بقول شیعہ نص موجود ہے تو ان کی تعداد بہت کم ہے،صرف وہی لوگ نص کی مخالفت کرتے ہیں یا نص سے تغافل برتتے ہیں جنھوں نے امیرالمومنین ؑ کے خلاف تحریک کی قیادت کی ہے،آپ کے مقابلہ پر اترے ہیں اور خلافت کو ان سے چھین کے خود قبضہ جمالیا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۲۱۸

۲۳۱

جہاں تک باقی لوگوں کا سوال ہے تو انھوں نے مخالفت نص کا اقدام کیا ہےنہ امیرالمومنین ؑ کی مخالفت کی ہے،بس انھوں نے واقعات کو ایک حقیقت سمجھ کے قبول کرلیا ہے اور اس کے بہت سے اسباب ہوسکتے ہیں یا تو انھوں نے نص اور حق کو اہم نہیں سمجھایا یہ سوچا کہ عافیت اسی میں ہے کہ حالات سے سمجھوتہ کرلیا جائے یا یہ سوچا کہ نصوص کی وجہ سے حقدار کو حق نہیں ملنے جارہا ہے یا اس لئے خاموش رہے کہ وہ نص کو بعید از قیاس سمجھ رہے تھے و غیرہ

انسانی سماج کا مزاق وقت کے دھارے کے ساتھ مڑجاتا رہا ہے

انسانی سماج کا مزاج یہ ہے کہ وہ وقت کے دھارے کے ساتھ کسی بھی تحریک اور انقلاب کی طرف بہت جلد مڑجاتا ہے اور اس میں رہنے،سہنے کی عادت ڈ ال دیتا ہے،تحریک یا انقلاب کے بانیوں کی تعداد بہت مختصر ہوتی ہے،یہی لوگ شریعت اور قانون کو بدلنے میں پیش پیش رہتے ہیں اور یہی لوگ اس تحریک سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں،پھر تو تحریک کی ذمہ داریاں ان لوگوں پر آپڑتی ہیں جو بالکل ہی بودے اور عام کالانعام ہوتے ہیں اور اس تحریک کو برقرار رکھ کے کچھ فائدہ وہ بھی اٹھالیتے ہیں،لیکن جب انسانی سماج پر غلط تحریک کی وجہ سے مصیبتں آتی ہیں،جو اس تحریک سے انکار کرنےوالے اور شریعت کی مخالفت کی وجہ سے حاصل ہونےوالے نقصانات کی نشاندہی کرنےوالے سامنے آتے ہیں اور ان کی مدد وہ لوگ کرتے ہیں جو قانون کی بالادستی اور شریعت کی پابندی کے قائل ہیں اور حق کی راہ میں ہر قربانی دینے کو تیار رہتے ہیں ایسے لوگ ہر دور میں کم رہے ہیں اور باقی لوگ؟دل میں تو شرع کی توہین کے منکر ہوتے ہیں لیکن ظاہر میں شروع کو کوئی اہمیت نہیں دیتے،اسی لئے وہ حق کو مقام حق تک پہنچانے کے لئے قربانیاں دینا بہت مشکل سمجھتے ہیں،اب یا تو بزدلی کریں یا اس لئے کہ ان کےاندر قربانی کا جذبہ پایا جاتا ہےمگر سوچتے ہیں کہ اگر شریعت کی حفاظت نہیں ہوسکی اور انقلاب نہ آسکا تو ہماری قربانیاں ضائع ہوجائیں گی اس لئے کہ مخالفین کی طاقت بہت زیادہ ہے اور ہم اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے ۔

۲۳۲

ابوبکر کی بیعت پر اہل مدینہ کے اتفاق کا دعویٰ

کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ مدینہ کے مہاجرین و انصار اور دوسرے لوگوں نے بھی ابوبکر کی بیعت پر اتفاق کرلیا تھا اور یک زبان ہوکے ان کی تائید کی تھی،الگ تھے تو صرف کچھ لوگ اور امیرالمومنین علی ؑ ،دعویٰ کچھ اس انداز میں کیا گیا ہے کہ لوگ سمجھیں کہ اگر نص موجود تھی بھی تو اہل مدینہ کی اتنی بڑی جماعت نے عمداً اس کی مخالفت کی اور نص کے خلاف عمل کیا،اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ عوام سامنے کی صورتحال سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں اور اکثریت کسی نظریہ کی گہرائی پر نظر نہیں رکھتی،

مذکورہ دعویٰ کے بطلان کے شواہد

لیکن یہ دعویٰ خلاف واقع ہے،اس لئے کہ بیعت کے وقت جو واقعات اور حادثات سامنے آئے وہ اس اتفاق کے خلاف گواہی دیتے ہیں،حدیث کی کتابوں میں یہ قول ہر جگہ پایا جاتا ہے کہ ابوبکر کی بیعت ایک لغزش تھی(۱) فلتہ(لغزش)کی تشریح تو فلتہ سے بھی ناکارہ ہے فلتہ کا مطلب مباغتہ ہے یعنی بغیر مشورہ کے،مورخین کا بیان بھی اسی بات کی شہادت دیتا ہے کہ بیعت ابوبکر اچانک حاصل ہوگئی،تاریخ کے آئینہ میں اس وقت مدینہ کی صحیح صورت حال کا جائزہ لیجئے،حضور سرور کائنات ؐ کی وفات ہوچکی ہے اہل مدینہ دہشت ناک حادثہ سے وحشت زدہ ہیں،مولائے کائنات ؑ اور دوسرے بنوہاشم حضور سرور کائنات ؑ کی تجہیز و تکفین میں مصروف ہیں اور ایک چھوٹی سی جماعت اپنی سازشوں میں لگی ہوئی ہے،وہ لوگ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اس وقت اقتدار اور خلافت پر قبضہ جمانےکا سب سے بہتر موقعہ ہے اس لئے کہ اہل مدینہ خبط ہیں اور اصل دعویدار ان خلافت بلکہ مستحقین خلافت پیغمبر ؐ کی تجہیز میں مشغول ہیں،اس وقت یہ جماعت ابوبکر کی بیعت کی پیشکش کرتی ہے اور نص کے خلاف(اگر نص موجود تھی)تو بہت چالاکی سے ابوبکر کو آگے بڑھا کےلوگوں سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)اس سوال کے آغازِ جواب میں اس کا حوالہ گذرچکا ہے

۲۳۳

بیعت مانگتی ہے اور لوگ حیرت و وحشت کے عالم میں تنکے کے سہارے کےطور پر ڈ وبنے سے بچنے کے لئے اس اقدام کو قبول کرتے ہیں(اس کہتے ہیں ہنگامی صورت حال سے فائدہ اٹھانا) اب ذرا مشہور تاریخ نگار یعقوبی سے سنئے اس وقت سقیفہ میں کای ہورہا ہے؟کس کی بیعت ہورہی ہے؟اور کیسے بیعت لی جارہی ہے؟یعقوبی لکھتا ہے براءبن عازب آئے اور بنوہاشم کے دروازے پر دستک دی اور آواز لگائی کہ اے بنوہاشم ابوبکر کی بیعت ہوگئی،بنوہاشم میں سے کسی نے کہا:مسلمان ہمارے غیاب میں کوئی غیاب میں کوئی اہم فیصلہ نہیں کرسکتے،ہم محمد ؐ کے قریب ترین ہیں،عباس بولے انھوں نے فیصلہ کر بھی لیا،ربّ کعبہ کی قسم:حالانکہ مہاجرین و انصار کو شک بھی نہیں تھا کہ علی ؑ کےعلاوہ کسی کی بیعت ہوگی،مہاجرین و انصار کےایک گروہ نے ابوبکر کی بیعت سے اختلاف کیا اور مولائے کائنات ؑ کی طرف مائل ہوئے،ان میں عباس بن عبدالمطلب فضل بن عباس،زبیر بن عوام بن عاص(یہی نام چھپی ہوئی کتاب میں لکھا ہے)خالد بن سعید،مقداد بن عمرو،سلمان فارسی،ابوذر غفاری،عمار بن یاسر،براءبن عازب اور اُبی بن کعب تھے،(۱)

ابوبکر کی بیعت کے مخالفین میں فردہ بن عمر انصاری بھی تھے،یہ بڑی قدآور شخصیت تھی اور راہِ خدا میں جہاد کرنےوالے شہسواروں کے سردار تھے،ہر سال اپنے باغ کی کھجوروں میں سے ایک ہزار وسق صدقہ نکالتے تھے،اپنی قوم کے سردار اور شاعر تھے،آپ امیرالمومنین ؑ کے اصحاب میں سے تھےآپ نے جنگ جمل میں مولائےکائنات ؑ کی حمایت میں جہاد کیا تھا ۔(۲)

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ جب ابوبکر کی بیعت ہوگئی تو بنی تیم کے لوگ(ابوبکر کا قبیلہ بھی تیم تھا)فخر کرنے لگے،یہ بیان محمد بن اسحاق کا ہے حالانکہ مہاجرین کو اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہی صاحب الامر ہیں انصار کےنمایاں افراد کو بھی اسی بات کا یقین تھا ۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ یعقوبی ج:۲ص:۱۲۴،روایت سقیفہ بنی ساعدہ اور ابوبکر کی بیعت)

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۲۸۔۲۹

(۳)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۲۱

۲۳۴

انصار کی کوشش کہ سعد بن عبادہ کی بیعت ہوجائے

میرا خیال ہے کہ((اور یہ خیال حقیقت سے بہت قریب بھی ہے کہ))انصار مدینہ نے سعد بن عبادہ کی بیعت کی تجویز اس لئے رکھی تھی کہ وہ دیکھ رہے تھے کہ اگر وہ خلافت پر قبضہ کرنے میں جلدی نہیں کریں گے تو قریش مسند خلافت مارلے جائیں گےپھر قریش ہی حاکم ہوں گے اور انصار محکوم انصار کی یہ پیشکش علی ؑ کے خلاف نہیں تھی اور نہ اس لئے تھی کہ انصار نص سے ناواقف تھے بلکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ قریش خلافت کی لالچ میں نص کی مخالفت کررہے ہیں علی ؑ سے محض بغض و عناد کی وجہ سے خلافت کو غصب کرلینا چاہتے ہیں،علی ؑ کے اسلامی کارنامے یعنی علی ؑ کا راہِ خدا میں جہاد،قریش کو ان کے کفر کی وجہ سے سزا دیتا و غیرہ،قریش کے دل میں علی ؑ کےبغض کو پیدا کرچکا ہے حالانکہ علی ؑ ہی وہ ہیں جن کی حکومت نبی ؐ کی حکومت سمجھی جاتی ہے،علی ؑ ہی وہ ہیں جنہوں نے کفارِ قریش کا خون بہایا ہے،ان کی بنیادیں کھودی ہیں اور ذاتِ باری تعالی کے معاملے میں سب سے سخت ہیں،علی ؑ احکام و حدودِ الٰہی کے سخت پابند ہیں اور بغیر کسی رعایت،محبت یا رخصت کے حدود الہیہ کو جاری کرنےمیں سب سے آگے ہیں ۔

منافقین و طلقاء کی کارستانیاں

علیؑ کے بارے میں حکم نبیؐ کی مخالفت اور علیؑ کی وجہ سے نبیؐ کی طرف بُغض کےآثار نبیؐ کی زندگی ہی میں دکھائی دینےلگے،منافقین طلقا اور ان کے حلیفوں نے اپنی سازشوں کے جال،حیات پیغمبر ہی میں پھیلا دیتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے وادی عقبہ کےمشہور واقعہ میں نبیؐ کو مارڈالنے کی کوشش کی،دوسرےسوال کے جواب میں اس واقعہ کو بیان کیا جاچکا ہے،اسی طرح انہوں نے مختلف مقامات پر حکم پیغمبرؐ سے تجاہل برتا،نبیؐ جیش اسامہ میں جانے پر باربار حکم دیتے رہے اور یہ لوگ مدینے میں بیٹھے رہے اور حکم نبیؐ کو نہیں مانا۔

آخر وقت میں نبی ؐ کو ایسی تحریر دینے سے روکدیا جو انھیں گمراہی سے بچاسکتی تھی،دوسرےسوال کے جواب میں اس کی طرف بھی اشارہ کیا جاچکا ہے ۔ غدیر خم میں جب آپ پہونچے تو ان لوگوں نے آپ کی مخالفت کی حضرت ؐ نے اس بات کا شدت سے احساس کیا اور ان لوگوں کو یہ کہہ کےتنبیہ فرمائی

۲۳۵

کے اے لوگوں میرےدستور تہماری مخالفت اور کنارہ کشی مجھے بہت ناگوار گذرتی ہے مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ تمہارےدل میں میرے خاندان کی طرف سے سب سے زیادہ بغض بھرا ہواہے،(۱) جب آپ مکہ مکرمہ سےواپس آئےتو لوگ آپ سے اجازت لےکےجانےلگے،آپ نے ان کو جازت تو دیدی لیکن یہ بھی فرمایا:کہ آخر بات کیا ہے،میرے خاندان کے لوگ دوسرے خاندانوں سےزیادہ تہمارا بغض جھیل رہے ہیں ۔(۲) لوگ اہل بیت ؑ سے علانیہ بغض و عداوت کا اظہار کرنےلگےتھے،چنانچہ ابن عباس حضور ؐ کی خدمت میں آئے اور کہنےلگے اے خدا کےرسول ؐ ہم جب باہر نکلتے ہیں تو قریش کو آپس میں بات کرتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن قریش ہمیں دیکھتے ہی خاموش ہوجاتے ہیں،یہ سن کر حضور ؐ غضبناک ہوئے(۳) دوسری روایت میں ہےکہ جب قریش آپس میں ایک دوسرے سے ملتے تھے تو مسکراتے ہوئے چہروں کے ساتھ لیکن جب ہم(عباس بن عبدالمطلب)لوگوں سے ملتے ہیں تو ان کا منہ لوح جاتا ہےیہ سن کر حضور ؐ غضبناک ہوئے ۔(۴) اس طرح کے بہت سارےشواہد ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ حکم پیغمبر سے برابر تجاہل کرتے تھے،انہوں نے حیات پیغمبر ؐ ہی میں پختہ ارادہ کرلیا تھا کہ خلافت اہل بیت ؑ کے ہاتھ نہیں لگنےدیں گے ۔ اس خیال کو دو باتوں سے مزید تقویت مل رہی تھی،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) تاریخ دمشق ج: ۴۲ ص: ۲۲۷ ،العمدۃ لابن بطریق ص: ۱۰۷ ،مسند شامیین طبرانی ج: ۳ ص: ۲۲۳ ،روایت قبیصہ جابر انصاری سے

( ۲) صحیح ابن جبان ج: ۱ ص: ۴۴۴ ،باب فرض ایمان مسند احمدج: ۴ ص: ۱۶ ،مجمع الزوائدج:آـ ۲۰ ،کتاب ایمان ج: ۱۰ ص: ۴۰۸ ،مسند طیاسی ص: ۱۸۲ ،الاحاد و المثانی ج: ۵ ص: ۲۴ ،معجم الکبیرج: ۵ ص: ۴۹ ۔ ۵۰ ۔ ۵۱ ،شعب الایمان ج: ۱ ص: ۳۶۴ ،حلیۃالاولیاءج: ۶ ص: ۲۸۶ ،تھذیب الکمال ج: ۹ ص: ۲۰۸ ،موضح اوھام الجمع و التفریق ج: ۲ ص: ۵۲۰ ،موارد ظمان ج: ۱ ص: ۳۲)

( ۳) مسنداحمدج: ۴ ص: ۱۶۵ ،تفسیر ابن کثیرج: ۴ ص: ۱۱۴ ،مجمع الزوائدج: ۱ ص: ۸۸ کتاب الایمان ج: ۹ ص: ۱۷۰ ،مسند البرازج: ۶ ص: ۱۳۱ ،مسندالمطلب بن ربعیہ ج: ۲ ص: ۹۱۸ معجم الصحابہ ج: ۲ ص: ۱۱۹۴ المعجم الاوسط ج: ۵ ص: ۵۲ ،ج: ۷ ص: ۳۷۳ ،المعجم الصغیرج: ۱ ص: ۳۹۹ ،سیراعلام النبلاءج: ۲ ص: ۸۸ ،ج: ۱۲ ص: ۱۵۶ ،تھذیب الکمال ج: ۳۳ ص: ۳۴۰ ،تاریخ بغدادج: ۳ ص: ۳۷۶)

( ۴) المستدرک علی صحیحین ج: ۳ ص: ۳۷۶ ،کتاب معرفت الصحابہ ج: ۵۴ ص: ۸۵ ،السنن الکبری للنسائی ج: ۵ ص: ۵۱ ،کتاب مناقب،فضائل علیؑ سنن ترمذی ج: ۵ ص: ۶۵۲ ،کتاب کتاب المناقب:مصنف لابن ابی شیبۃ ج: ۶ ص: ۳۸۲ ،مسند البراز،ج: ۴ ص: ۱۴۰ ،المعجم الکبیرج: ۲۰ ص: ۲۸۴ ۔ ۲۸۵ ،تعظیم قدرالصلاۃج: ۱ ص: ۴۵۳ ۔ ۴۵۵ ،تھذین الکمال ج: ۱۴ ص: ۲۲۸ ،فضائل الصحابہ للنسائی ص: ۲۲

۲۳۶

آنےوالےفتنوں کےبارےمیں رسول خدا ؐ کی پیشین گوئیاں

۱ ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن مجید کی طرف سے اور خود سرکارِ دو عالم ؐ کی طرف سے مسلسل آنےوالے فتنوں کی پیشین گوئی کی جارہی تھی اور ان سے بچنے کی ہدایت دی جارہی تھی یہ بتایا جارہا تھا کہ فتنے بہرحال واقع ہوں گےاور بہت سخت دور آئےگا،دوسرے سوال کےجواب میں اس سلسلے میں کچھ عرض کیا جاچکا ہے،قرآن،پیغمبر ؐ کےرویائے صادقہ پر آپ کو تسلی دیتا ہوا کہتا ہے میں نے آپ کے خواب کو صرف لوگوں کے لئے ایک فتنہ قرار دیا ہے اور قرآن قرآن میں شجرہ ملعونہ بھی ہے اور ہم انہیں ڈ راتے ہیں مگر وہ اپنی سرکشی میں اضافہ ہی کرتےجاتے ۔(۱) یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب پیغمبر ؐ نے خواب میں دیکھا تھا کہ کچھ لوگ بندوں کی طرح آپ کے منبر پر اچھل کود کررہے ہیں ۔(۲)

آنحضرت ؐ دین اور اہل بیت ؑ پر آنےوالی مصیبتوں اور حکومت کےانحراف کی خبر باربار دیتے رہے

آپ ؐ نےفرمایا:اس امت کی ہلاکت قریش کے لون ڈ وں کے ہاتھوں ہوگی ۔(۳)

حضرت ؐ نےفرمایا:تم ضرور اسلام کے ہر بندھن کو توڑ دوگےاور جب بھی کوئی بندھن ٹوٹےگا تم اسی فرقے کےہوجاؤگے،تم سب سے پہلا بندھن حکومت کا اور آخری بندھن نماز کا توڑوگے ۔(۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ اسراء،آیت: ۶۰)- ( ۲) تفسیر قرطبی ج: ۱۰ ص: ۲۸۳ ۔ ۲۸۲ ،تفسیرطبری ج: ۱۵ ص: ۱۱۲ ۔ ۱۱۳ ،تفسیرابن کثیرج: ۳ ص: ۵۰ ،تاریخ طبری ج: ۵ ص: ۶۳۴ ،شرح نہج البلاغہ ج: ۹ ص: ۲۲۰ ،مجمع الزوائدج: ۵ ص: ۲۴۳ ۔ ۲۴۴ ،مسند ابی یعلی ج: ۱۱ ص: ۳۴۸ ۔علل متناھیہ ج: ۲ ص: ۷۰۱ ،مستدرک صحیحین ج: ۴ ص: ۵۲۷ ،کنزالعمال ج: ۱۱ ص: ۳۵۸ ،حدیث: ۳۱۳۷ ،سیرہ اعلام النبلاءج: ۲ ص: ۱۰۸) ( ۳) اس کا حوالہ گذشتہ سوال کے جواب میں گذرچکا ہے)

( ۴) صحیح ابن حبان ج: ۱۵ ص: ۱۱۱ ،آپ کی امت کےدرمیان جو کچھ حوادث اور فتن رونما ہوں گےکےبارے میں خبریں،مجمع الزوائدج: ۷ ص: ۲۸۱ ،کتاب الفتن،مسنداحمدج: ۵ ص: ۲۵۱ ،موارد الظمان ج: ۱ ص: ۸۷ ،کتاب الصلاۃ،جس نے نماز کی پابندی کی اور جس نے اسے ترک کردیا کے بیان میں المعجم الکبیرج: ۸ ص: ۹۸ ،شعب الایمان،ج: ۴ ص: ۳۲۶ ،ج: ۶ ص: ۶۹ ،فصل جماعت اور رکعت کی فضیلت،اور تفرقہ سے کراہت کے بیان میں،مسندالشامیین ج: ۲ ص: ۴۱۱ ،السنۃ عبداللہ بن احمد ج: ۱ ص: ۳۵۶ ،الترغیب و الترہیب ج: ۱ ص: ۲۱۶ ،تعظیم قدر الصلاۃ ج: ۱ ص: ۴۱۵ ،الفردوس بماثورالخطاب ج: ۲ ص: ۴۴۵ ،فیض القدیرج: ۵ ص: ۳۹۹ ۔ ۲۶۳ ،اور اس کے علاوہ مصادر،

۲۳۷

حضرت ؐ فرمایا:دیکھو!اسلام کی چکی چل چُکی ہےاسے کتاب خدا کے ساتھ ہی چلاتے رہو ۔

خبردار ہوجاؤ!کہ سلطنت اور کتاب میں ہونےوالی ہے،جب ایسا ہوتو تم کتابِ خدا سے جُدا مت ہونا ۔(۱)

آپ ؐ نے امیرالمومنین ؑ سے فرمایا:امّت میرے بعد تم سےغدّاری کرےگی،(۲) امیرالمومنین ؑ نےدیکھا پیغمبراعظم ؐ رورہے ہیں آپ نےرونے کا سبب پوچھا تو حضور ؐ نےفرمایا:اس قوم کےدل تمہاری طرف سےکینوں سےبھرے ہوئے ہیں اور یہ کینے ظاہر نہیں کریں گےمگر میرےبعد،(۳) آپ نے بنی ہاشم سےفرمایا:تم میرےبعد کمزور بنادیئے جاؤگے(۴)

اورآپ ؐ نے انصار سےفرمایا:میرےبعد تم لوگ نشانہ انتقام بنوگے ۔(۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) مجمع الزوائدج: ۵ ص: ۲۳۸ ،مسند شامیین ج: ۱ ص: ۳۷۹ ،معجم صغیرج: ۲ ص: ۴۲ معجم کبیرج: ۲۰ ص: ۹۰ ،فیض قدیرج: ۳ ص: ۵۳۴ حلیۃ الاولیاءج: ۵ ص: ۱۶۵)

( ۲) اس کا حوالہ تیسرےسوال کےجواب میں گذرچکا ہے)

( ۳) مجمع الزوائدج: ۹ ص: ۱۱۸ مسند البرازج: ۲ ص: ۲۹۳ ،مسند ابی یعلی ج: ۱ ص: ۴۲۶ ،معجم کبیرج: ۱۱ ص: ۷۳ ،تاریخ بغدادج: ۱۲ ص: ۳۹۸ ،میزان الاعتدال ج: ۵ ص: ۴۳۱ فضل بن عمیرہ قیسمی کےحالات میں،ج: ۷ ص: ۳۱۵ ،الکامل فی ضعفاءالرجال ج: ۷ ص: ۱۷۳ ،تھذیب الکمال ج: ۲۳ ص: ۲۳۹ ،علل متناہیہ ج: ۱ ص: ۳۴۳ ۔ ۲۴۴ ،تاریخ دمشق ج: ۴۲ ص: ۳۲۲ ۔ ۳۲۳ ۔ ۳۲۴)

( ۴) مجمع الزوائدج: ۹ ص: ۳۴ ،مسنداحمدج: ۶ ص: ۳۳۹ ،معجم کبیرج: ۲۵ ص: ۲۳ ،الفردوس بما ثور الخطاب ج: ۱ ص: ۳۹۴)

( ۵) صحیح بخاری ج: ۳ ص: ۱۳۸۱ ،کتاب فضائل الصحابہ،باب رسول اکرم کا قول ہماری ملاقات تک صبر کرو،ج: ۴ ص: ۱۵۷۴ ،کتاب المغازی،باب غزوہ الطائف،صحیح مسلم ج: ۲ ص: ۷۳۸ ،کتاب الزکوٰۃ،صحیح ابن حبان ج: ۱۶ ص: ۲۶۴ ،صحابہ اور تابعین کے فضائل کے باب میں،الاحادیث المختارۃ،ج: ۴ ص: ۲۷۲ ،مسند ابی عوانۃ ج: ۴ ص: ۴۱۵ ،مجمع الزوائدج: ۱۰ ،ص: ۳۳ ۔ ۳۱ ،السنن الکبریٰ بیہقی ج: ۶ ص: ۳۳۹ ،مسنداحمدج: ۳ ص: ۱۱۱ ۔ ۱۶۷ ۔ ۱۷ ،مسند ابن مالک کی ج: ۴ ص: ۴۲ ،پر عبداللہ بن زید بن عاصم المازنی کی حدیث،ص: ۲۹۲ ،پر اور براء بن عازب کی حدیث، ۴ ص: ۳۵۲ ،مسند رویانی ج: ۲ ص: ۱۸۳ ،المعجم الکبیرج: ۱ ص: ۲۰۸ ،السنن الواردۃ فی الفتن ج: ۱ ص: ۲۰۳ ،البیان و التعریف،ج: ۱ ص: ۳۵۲ ،مسند رویانی ج: ۲ ص: ۱۸۳ ،المعجم الکبیرج: ۱ ص: ۲۰۸ ،السنن الواردۃ فی الفتن ج: ۱ ص: ۲۰۳ ،البیان و التعریف،ج: ۱ ص: ۲۵۴ ،سیر اعلام النبلاءج: ۲ ص: ۴۵۲ ،فضائل الصحابۃ ابن حنبل ج: ۲ ص: ۸۰۸ ،وغیرہ منابع،

۲۳۸

نبی اعظم ؐ اور مولائے کائنات ؑ منافقین کے ٹکراؤ سے بچتے تھے

۲ ۔ انص ٓ ر یہ بھی دیک ھرہے تھے کہ سرکارِ دو عالم ؐ اور مولائے کائنات ؑ منافقین اور طلقا سے تا حدامکان ٹکرانا نہیں چاہتے ہیں اور ان سے اُلجھنا نہیں چاہتے ہیں،دونوں حضرات ان لوگوں کو سزا نہیں دینا چاہتے اس لئے کہ اس سے خواہ مخواہ کا فتنہ اُٹھ کھڑا ہوگا،معاملات بگڑ جائیں گے اور فضول باتیں پیدا ہوں گی مثلاً السام کے چہرے کو بگاڑنےکی کوشش،نبی ؐ اور آلِ نبی ؐ کی توہین،اس کےعلاوہ دعوت اسلام کو بھی جلد یا دیر سے ایسا نقصان پہنچےگا جس کا تدارک ممکن نہیں ہوگا،شواہد ملاحظہ ہوں ۔

کیس صحابی نےعرض کیا کہ حضور ؐ !جن لوگوں نےوادی عقبہ میں آپ کو قتل کرنا چاہا تھا اُن کےنام ظاہر کر کےانہیں قتل کردیں آپ نے فرمایا:میں اس بات کو مکروہ سمجھتا ہوں کہ عرب کہیں:محمد ؐ نے ایک قوم کی مدد سے دشمنوں پر فتح حاصل کی اور جب فتحیاب ہوگئے تو اُسی قوم کو قتل کرنا شروع کردیا(۱) اسی طرح جب لوگوں نے عبداللہ بن اُبی کے قتل کا مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا:لوگ یہ نہ کہنے لگیں کہ محمد ؐ پنے ہی اصحاب کو قتل کررہے ہیں(۲) ان واقعات کے علاوہ بھی بہت سے موقع آئے جب انصار نے دیکھا کہ مولائے کائنات ؑ اور حضور سرورِ دو عالم ؐ ،منافقین اور یاکاروں سے چشم پوشی کرتے ہیں اور حتی الامکان ان سے اُلجھنا نہیں چاہتے،یہ تمام باتیں دیکھ کے انصار یہ سمجھ گئے کہ قریش اور اُن کے ہم خیال لوگ موقعہ کی تلاش میں ہیں اور آج موقعہ ملا ہے تو علی ؑ سے حکومت کو چھین لینا چاہتے ہیں،اس لئے انصار نے یہ سوچا کہ جب علی ؑ کے ہاتھ میں حکومت رہنی ہی نہیں ہے تو کیوں نہ پہلے ہم کوشش کریں اور قریش کے لئے راستہ بند کردیں،اس لئے کہ انصار کو یہ توقع تھی کہ اگر خلافت کا پلّہ جُھکا اور خلافت اپنے مرکز سے ہٹی تو منافقین اور طلقا اس پر قابض ہوکے حاکم بن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) تفسیر ابن کثیرج: ۲ ص: ۳۷۳ ،سبل الہدی و الرشادج: ۵ ص: ۴۶۷ ،الدر المنثور ج: ۴ ص: ۲۴۴ ،روح المعانی ج: ۱۰ ص: ۱۳۹)

( ۲) تاریخ المدینہ ج: ۱ ص: ۲۶۶ اور اسی طرح ص: ۳۶۰

۲۳۹

جائیں گے اور چونکہ انصار نے قریش کے خلاف سرکارِ دو عالم ؐ کی نصرت کی ہے اس لئے یہ عرب کے بُدّواں سے انتقام لینے میں ذرا بھی سُستی نہیں کریں گے اور نصرت پیغمبر ؐ کی سزا بلکہ سخت ترین سزا دیں گے ۔

اگر انصار یہ سمجھ لیتے کہ خلافت امیرالمومنین ؑ ہی کے ہاتھ مٰں ہے تو بہت ممکن تھا کہ وہ مولائے کائنات ؑ پر غالب آنے کی اور آپ سے خلافت چھیننے کی،نیز نص وارد سے تجاہل کی کوشش نہیں کرتے،میرے اس خیال کی شہادت وہ واقعات دیتے ہیں جنہیں مورخین نے((احداثِ سقیفہ))کے عنوان سے لکھا ہے اور اہلِ حدیث نے جن کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

انصار کے آرا اور ان کے نظریے

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ جوہری نے اپنی کتاب((السقیفہ))میں لکھا ہے کہ ابوبکر نے انصار کو خطاب کر کے بتایا کہ((مہاجرین قریش))انصار سے زیادہ خلافت کے مستحق ہیں تو انصار نے ان کا جواب دیا،خدا کی قسم ہم اس خَیر کی وجہ سے تم سے حسد نہیں کرتے جو خیر خدا نے تم تک پہنچایا ہے،تم سے زیادہ ہمارا کوئی محبوب ہے نہ پسندیدہ،بلکہ ہم مستقبل سے خوف زدہ ہیں اور اس بات سے ڈ رتے ہیں کہ کہیں یہ امر ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں نہ پہنچ نائے جو نہ ہم میں سے ہیں اور نہ تم میں سے ۔(۱)

دوسری روایت میں ہے کہ حباب بن منذر کھڑے ہوئے یہ بدری صحابی تھے،انہوں نے کہا:ایک ہم میں سے امیر ہوجائے،ایک تم میں سے،اے لوگو!ہم تم سے اس امر کو الگ نہیں کرنا چاہتے،ہمیں خوف ہے تو اس بات کا کہ کہیں اس حکومت پر وہ لوگ نہ غالب آجائیں جن کے باپ،بھائیوں کو ہم نے قتل کیا ہے ۔

عمر بولے:اگر ایسا ہوا تو میں اس کی مخالفت بھرپور طریقے سے کروں گا ۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۷۔۸،

(۲)انساب الاشراف ج:۲ص:۲۶۰طبقات الکبری ج:۳ص:۱۸۲،تاریخ دمشق ج:۳۰ص:۲۷۵شرح نہج البلاغہ ج:۲ص:۵۳،کنزالعمال ج:۵ص:۶۰۶حدیث:۱۴۰۷۲

۲۴۰

تیسری روایت میں ہے کہ حباب کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم تجھ سے یا تیرے اصحاب سے حسد نہیں کرتے ہم تو اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں وہ لوگ خلافت پر قابض نہ ہوجائیں جنہیں ہم نے قتل کیا ہے،پھر تو وہ لوگ ہم سے بدلہ لینا شروع کردیں ۔(1)

ایک دوسرے روایت میں ہے کہ حباب نے انصار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:تم لوگ مجھے خاموش رہنے کی تلقین کر رہے ہو،بہرحال تم نے تو انجام پر غور کئے بغیر جو سمجھ میں آیا کیا لیکن میں خدا کی قسم مستقبل پر غور کر رہا ہوں کہ تمہاری اولاد ان کے دروازوں پر دستک دیکے پانی مانگے گی اور وہ انہیں سیراب کرنے سے انکار کردیں گے ابوبکر بولے:حباب تم کس وقت سے ڈ ر رہے ہو؟حباب نے کہا تم سے نہیں ڈ رتا،تمہارے بعد آنے والے لوگوں سے خوف زدہ ہوں،ابوبکر نے کہا:اگر ایسا ہوا اور تم وہ باتیں دیکھنے لگو جن کو تم نہیں چاہتے ہو تو پھر اختیار تمہارے ہاتھ میں دےدیں گے،حباب نے کہا:ابوبکر افسوس تو اسی کا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکےگا،میں تو اس وقت کی بات کر رہا ہوں جب نہ تم ہوگے نہ ہم ہوں گے اور ہمارے بعد وہ قوم آئے گی جو ہمارے بیٹوں کو سخت عذاب میں گرفتار کرے گی اور خدا ہی اسی سے طلبِ استعانت ہے ۔(2)

انصار و غیرہ نے خلافت کے لئے امیرالمومنین ؑ کا نام لیا

یعقوبی کہتا ہے کہ سقیفہ میں جب ابوعبیدہ کی بیعت کی تجویز اور عمر کی طرف سے ابوبکر کی بیعت کی تجویز رکھی گئی تو عبدالرحمٰن بن عوف کھڑے ہوئے اور کہنے لگے:اے گروہ انصار اگر چہ تم صاحبِ فضیلت ہو لیکن ابوبکر،عمر اور علی ؑ کی طرح نہیں ہو،یہ سن کر منذر بن ارقم کھڑے ہوئے اور کہنے لگے تم نے جن کا ذکر کیا ہم ان کی فضیلت کے منکر نہیں ہیں،اس لئے کہ ان مذکورہ لوگوں میں ایک شخص ایسا ہے کہ اگر وہ خلافت کا مطالبہ کرے تو اس سے کوئی اختلاف کرےگا،نہ جھگڑا،ان کی مراد علی بن ابی طالب ؑ سے تھی ۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)انساب الاشراف ج:2ص:263،امر سقیفہ (2)الفتوح لابن اعثم ج:1ص:100۔111،خبر سقیفہ (3)تاریخ یعقوبی ج:2ص:123،خبر سقیفہ اور بیعت ابوبکر

۲۴۱

ابن ابی الحدید،زبیر بن بکار سے روایت کرتے ہیں کہ جب ابوبکر کی بیعت ہوگئی تو ایک جماعت نے ابوبکر کو جلوس کی شکل میں لیکے مسجدِ نبوی تک پہنچا دیا اور ان کے پاس بیٹھے رہے،جب دن ختم ہونے لگا تو لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے،پس انصار کا ایک گروہ جمع ہوا اور مہاجرین کا ایک گروہ جمع ہوا اور دونوں ایک دوسرے سے غصّہ ہونے لگے،غصّہ کی بنیاد سقیفہ تھی،عبدالرحمٰن بن عوف کہنے لگے:اے گروہِ انصار اگر چہ تم صاحبِ فضیلت ہو،نصرتِ پیغمبر ؐ میں سبقت کرنے والے اور سابق الایمان ہو لیکن تم میں ابوبکر،عمر،علی ؑ اور ابوعبیدہ جیسا کوئی نہیں ہے،زید بن ارقم نے جواب دیا:اے عبدالرحمٰن!جن کی فضیلت کا تم نے ذکر کیا،ہم ان کے منکر نہیں ہیں،لیکن سیدالانصار سعد ابن عبادہ تو ہمیں میں سے ہیں تم نے قریش کے جن لوگوں کا نام لیا،ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے ایک شخص ایسا ہے جو اگر خلافت اپنے لئے طلب کرے تو اس سے کوئی جھگڑا نہیں کرےگا یعنی علی ابن ابی طالب ؑ۔(1)

ابن اعثم نے عبدالرحمٰن اور زید بن ارقم کی گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے آخر میں لکھا ہے کہ زید بن ارقم نے کہا:عبدالرحمٰن!اگر علی ابن ابی طالب اور دوسرے بنوہاشم تدفینِ نبی ؐ میں مصروف نہ ہوتے اور آپ کے لئے غمگین ہوکے اپنے گھروں میں بیٹھے نہ ہوتے تو امرِ خلافت کی طرف کسی کی بھی پُر ہوس نگاہیں نہ اٹھتیں اور اس کی لالچ میں کوئی نہیں پڑتا،جاؤ لیکن اپنے اصحاب کو ایسی چیز کے بارے میں ہیجان میں مبتلا نہ کرو جس کا تم مقابلہ نہیں کرسکتے ۔(2)

طبری اور ابن اثیر کہتے ہیں کہ سقیفہ میں جب ابوعبیدہ،ابوبکر اور عمر کی بیعت کا معاملہ اٹھا تو عمر نے فوراً ابوبکر کی بیعت کر لی اور دوسرے حاضرین نے بھی بیعت کرلی،اسی وقت انصار بولے یا انصار کی نمائندگی کرتا ہوا کوئی انصاری بولا ہم تو سوائے علی ؑ کے کسی کی بیعت نہیں کریں گے ۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:6ص:19۔20

(2)الفتوح الابن اعثم ج:1ص:12)

(3)تاریخ طبری ج:2ص:233،روز وفات رسول خداؐ،الکامل فی التاریخ ج:2ص:220،خبر سقیفہ اور بیعت ابوبکر،چاپ1348سنہمطبعہ منیریۃ

۲۴۲

صحابہ کی جماعت کے نمایاں افراد علی ؑ کی طرف مائل تھے

ابن ابی الحدید جوہری کے حوالہ سے ان کی سندوں کے ساتھ جریر بن مغیرہ سے روایت کرتے ہیں کہ سلمان،زبیر اور انصار کی خواہش تھی کہ نبی ؐ کے بعد علی ؑ ہی کی بیعت کی جائے ۔(1) اسی طرح دوسرے مورخین نے بھی لکھا ہے کہ مولائے کائنات ؑ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ گھر میں بیٹھ گئے یہاں تک کہ ابوبکر کی ایک جماعت نے ان پر ہجوم کیا ۔(2)

ابن ابی الحدید جوہری کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ علی ؑ کے گھر میں بہت سے آدمی تھے ۔(3)

انصار ابوبکر کی بیعت کرکے پچھتا رہے تھے

یہ بات بھی سبھی جانتے ہیں کہ اگر چہ انصار کی اکثریت نے ابوبکر کی بیعت کرلی تھی،اس کے باوجود ابن ابی الحدید،زبیر بن بکار کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ جب ابوبکر کی بیعت ہوگئی اور جب ابوبکر کا معاملہ سُلجھ گیا تو انصار کے کثیر افراد ابوبکر کی بیعت کر کے پچھتا رہے تھے اور ایک دوسرے کو ملامت کر رہے تھے،وہ امیرالمومنین ؑ کا نام لے رہے تھے اور آپ کا نام لیکر فریاد کر رہے تھے،حالانکہ مولائے کائنات ؑ اپنے گھر میں بیٹھے تھے اور باہر نہیں نکل رہے تھے(انصار کی اس بیزاری کی جہ سے)وہ مہاجرین جو ابوبکر کے ساتھ تھے اور وہ لوگ جو فتحِ مکہ کے دن مہمان ہوئے تھے اور جن کا انصار اور اسلام نے خون بہایا تھا،تنگ ہونے لگے اس موقعہ پر بہت سی باتیں ہوئیں بہت سی تقریریں ہوئیں اور بہت سے اشعار نظم کئے گئے ۔(4)

جوہری،ابوسعید خدری سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے برا بن عاذب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:2ص:49ج:6ص:43

(2)ریاض الغضرہ،ج:2ص:205۔206،ص:123۔125،تاریخ یعقوبی ج:2ص:126،الامامۃ و السیاسۃ ج:1ص:16،العقد الفرید ج:4ص:242،العسجدۃ الثانیۃ

(3)شرح نہج البلاغہ ج:6ص:48

(4)شرح نہج البلاغہ ج:6ص:23یعقوبی فی التاریخ ج:2ص:125

۲۴۳

کو کہتے ہوئے سنا کہ میں ہمیشہ بنی ہاشم سے محبت کرتا رہا،جب سرکارِ دو عالمؐ کی وفات ہوئی تو مجھے ڈر ہوگیا کہ قریش امرِ خلافت کو بنی ہاشم سے نکال لے جائیں گے تو میری حالت کسی جلد باز عاشق جیسی ہوگئی،پھر ہو(برا ابن عاذب)بیعت ابوبکر کا ذکر کرتے ہیں،یہاں تک کہ میں(برا بن عاذب)بنی بیاضہ کے میدان میں پہنچا تو دیکھا کہ کچھ لوگ آپس میں راز داری کی باتیں کر رہے ہیں،میں جب ان کے قریب پہنچا تو وہ لوگ خاموش ہوگئے،میں وہاں سے چلنے لگا،انہوں نے مجھے پہنچان لیا تھا لیکن میں نے انہیں نہیں پہچانا تھا،تو انہوں نے مجھے اپنے پاس بلایا،میں اُن کے پاس گیا تو دیکھا کہ وہاں مقداد بن اسود،عبدادہ بن صامت،سلمان فارسی،ابوذر،حذیفہ اور ابوھثیم بن تیہان تھے،حذیفہ کہہ رہے تھے کہ میں نے تمہیں جو بات بتائی ہے وہ ہو کر رہے گی،بخدا میں نے نہ جھوٹ بولا نہ مجھے جھٹلایا گیا،پھر کہا جا کے اُبی بن کعب سے پوچھ لو،ان کو بھی وہ سب کچھ معلوم ہے جو مجھے معلوم ہے،برا کہتے ہیں:پس ہم لوگ اُبی بن کعب کے پاس پہنچے اور ان کے دروازے پر دستک دی،انہوں نے اندر سے پوچھا تم لوگ کون ہو اور تمہاری ضرورت کیا ہے،ہم نے کہا:دروازہ کھولو بات ایسی نہیں ہےکہ پردہ کے پیچھے سے ہو،وہ بولے دروازہ تو میں نہیں کھولوں گا،البتہ تم جس کام کے لئے آئے ہو میں جان گیا ہوں،لگتا ہے تم امرِ خلافت کے بارے میں بات کرنے کے لئے آئے ہو،ہم نے کہا:ہاں!وہ کہنے لگے کیا تم میں حذیفہ بھی ہیں ہم نے کہا:ہاں،وہ کہنے لگے جو وہ کہہ رہے ہیں وہی صحیح ہے،خدا کی قسم میں تو اپنا دروازہ نہیں کھولوں گا جب تک حالات اسی طرح چلتے رہیں گے،اس کے بعد تو اس سے بُری حالت ہونےوالی ہے،میں تو خدا ہی سے شکوا کرتا ہوں۔(1)

امیرالمومنین ؑ کو کمزور کرنے کی کوشش میں عباس کا استعمال

ابوبکر کی بیعت کو صحابہ بُرا کہہ رہے تھے اور اُسے توڑنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے،اسی وجہ سے ابوبکر نے ارادہ کیا کہ امیرالمومنین ؑ کو کمزور کریں اور آپ ؑ کے خاندان میں پُھوٹ ڈ ال دیں،سازش

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) شرح نہج البلاغہ ج: 2 ص: 51 ۔ 52

۲۴۴

یہ تھی کہ عباس اور اولاد عباس کو خلافت میں کچھ اختیاردے کر اپنی طرف ملالیں تاکہ وہ لوگ امیرالمومنین سے رشتہ توڑ کر اور آپ کو چھوڑ کران کی طرف ہوجائیں ، ابوبکر نے عباس سے کہا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ کچھ لوگ مسلمانوں کی عام روش سے ہٹ کے باتیں کررہے ہیں انہوں نے تم لوگوں کو اپنی پناہ گاہ بنا رکھا ہے ، تم (بنوھاشم)ان لوگوں کے لئے مضبوط قلعہ اور ان کی حمایت میں بولنے والے شاندار خطیب ہوگئے ہو،ہو تو سنو !یا تو اس میں داخل ہوجاؤ جس میں سب لوگ داخل ہوئے ہیں (یعنی میری خلافت مان لو) یا پھر لوگوں کو جس کی طرف وہ مائل ہوگئے ہیں اس سے باز رکھو ہم تمھارے پاس آئے ہیں کہ تمھارے لئے امر خلافت میں سے کچھ حصہ دیدیں جو تمھارے بعد تمھاری اولادکے بھی کام آئے-

اس کے بعد عمرنے گفتگوشروع کی اور انہوں نے بھی ابوبکر کی تصدیق کی ، عمرنے کہا:ہم تمھارے پاس کسی ایسی ضرورت کے لئے نہیں آئے ہیں ،لیکن ہمیں یہ برا لگتا ہے کہ مسلمان کی جماعت جس بات پر مجتمع ہوچکی ہے تم اس پر طمع کرو اور تمھاری اور ان کی مصبیتیں بڑھ جائیں، عام مسلمانوں کے بارے میں اور اپنے بارے میں ذرا سوچ سمجھ کے چلو(1)

عباس نے جو ان باتوں کا جواب دیا تھا وہ بھی تیسرے سوال کے جواب میں پیش کیا جاکا ہے-

ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے برسرمنبر ابو بکر کو غلط کہا

شیعہ روایتوں میں ہے کہ مہاجرین وانصار میں سے بارہ آدمیوں نے ابو بکر کو " جب وہ منبر پرجمعہ کا خطبہ دے رہے تھے " غلط کہا ان کے نام یہ ہیں

1-خالد بن سعیدبن عاصم

2- مقداد بن اسود

3- ابی بن کعب

--------------

(1)شرح نہ ج البلاغہ ج:1ص:220

۲۴۵

4 ۔ عمار بن یاسر

5 ۔ ابوذر غفاری

6 ۔ سلمان فارسی

7 ۔ بریدہ اسلمی

8 ۔ خذیمہ بن ثابت ذوالشہادتین

9 ۔ سہل ابن حنیف

10 ۔ عثمان ابن حنیف

11 ۔ ابوایوب انصاری

12 ۔ ابوہیثم بن تیہان

ان لوگوں نے ابوبکر کو یاد دلایا کہ خلافت کے اصل مسحتق امیرالمومنین علی بن ابی طالب ؑ ہیں،پیغمبر ؐ نے آپ کی خلافت پر نص کیا ہے،انہوں نے ابوبکر کو نصیحت کی اور ہر آدمی نے بہت طویل گفتگو کی جس کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں ہے ۔(1)

صدیقہ طاہرہ ؐ کا خطبہ اور آپ کا انصار کو خاص طور سے قیام کی دعوت دینا

اسی طرح معصومہ عالم ؐ نے مسجدِ نبوی میں ابوبکر سے براہِ راست فدک کا مطالبہ کیا،مورّخین کا بیان ہے کہ معصومہ ؑ نے ابوبکر سے فدک کا مطالبہ کیا،ان کی خلافت پر اعتراض کیا اور جو کچھ پیغمبر ؐ کے بعد ہوا اس کی مذمّت کی،پھر آپ انصار کی طرف مخاطب ہوئیں اور ان کی بات پر مذمت کی انہوں نے نصرت اہلبیت ؑ سے دست کشی کی،آپ نے انہیں تکلیف شرعی کی طرف متوجہ کر کے اس کو ادا کرنے پر ابھارا،آپ کے لہجہ میں بڑی شدت تھی،آخر کلام میں آپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) بحارالانوار ج: 28 ص: 189 ،ذرا سے اختلاف کے ساتھ ملاحظہ ہو،کتاب الخصال باب 12 ،ص: 429

۲۴۶

نے فرمایا کہ سقیفہ میں جو کچھ ہوا اور اس کے بعد جو ہو رہا ہے یہ خدا کے خلاف ہے،مصیبتوں کا راغی ہے اور اس کے بارے میں تمام مسلمان سختی سے مسئول ہونگے،آخر میں فرماتی ہیں کہ:میں نے جو کچھ کہا،یہ جان لینے کے بعد کہا کہ تمہارے دل میں ہمیں چھوڑ دینے کا جذبہ بھرچکا ہے اور تمہارے دلوں نے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے لیکن میں نے جو کچھ کہا وہ میرے دل کی بات تھی،غصّہ کی وجہ سے نکلا ہوا جھاگ ہے اور سینہ سے نکلا ہوا بلغم ہے،میں نے کہاتا کہ حجت پوری ہو اور وہ حجت تمہارے سامنے موجود تھی لیکن تم نے اُسے اپنے اونٹ کے پیچھے بٹھادیا،حق کا راستہ چھوڑ کے چلے،ننگ باقی رہا اور ہمیشہ کی بےعزتی کا داغ لگ گیا،وہ بےعزتی جو تمہیں خدا کی بھزکائی ہوئی آگ تک پہنچادےگی((وہ آگ جو دلوں کو جلاتی ہے))تم خدا کی آنکھوں کے سامنے کیا کر رہے ہو عنقریب ظالم لوگوں جان جائیں کہ جس ٹھکانے پہنچنےوالے ہیں،میں اس کی بیٹی ہوں جو تمہیں عذابِ شدید سے ڈ رایا کرتا تھا،پس تم بھی عمل کرو،ہم بھی عمل کر رہے ہیں،تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کررہے ہیں ۔(1)

خطبہ کی تاثیر توڑنے کے لئے ابوبکر کی چال

معصومہ عالم ؐ نے جو خطبہ دیا اس کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں میں چیخ پُکار مچ گئی،خصوصاً انصار میں آثار اضطراب ظاہر ہوئے اور ان میں تحریک پیدا ہوگئی،ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ:جوہری نے((کتاب السقیفہ))میں لکھا ہے کہ محمد بن زکریا نے کہا:ان سے جعفر بن محمد بن عمارہ نے پہلی اسناد کے ساتھ بیان کیا کہ ابوبکر نے جب یہ خطبہ سُنا تو اُن پر،آپ کی گفتگو بہت گراں گزری،فوراً منبر پر آئے اور کہنے لگے،اے لوگو!یہ سب باتیں کیا ہیں؟یہ باتیں اور یہ خواہش عہد پیغمبر ؐ میں کہاں تھیں؟کسی نے سنا ہے تو کہے اور کوئی شاہد ہے تو بولے،اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)حوالہ تیسرے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے

۲۴۷

ایک لومڑی(اشارہ امیرالمومنین ؑ کی طرف ہے،معاذ اللہ)جس کی دُم(اشارہ معصومہ ؑ کی طرف ہے،معاذ اللہ)اس کے وجود کی گواہ ہے،وہی ہر فتنہ کی پرورش کر رہا ہے،وہی کہہ رہا ہے کہ درخت کے بوڑھے ہونے کے بعد اس میں برگ و بار نکل آئے،وہ کمزوروں سے مدد مانگتا ہے اور عورتوں کی مدد طلب کرتا ہے،اس کے نزدیک محبوب ترین شئی بغاوت ہے،خبردار ہوجاؤ!میں چاہوں تو بول سکتا ہوں اور جب میں بولوں گا تو وہ خاموش ہوجائے گی،اُس نے جو چھوڑ دیا ہے اُس کے بارے میں،میں خاموش ہوں ۔

پھر ابوبکر انصاری کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے:اے گروہِ انصار تمہارے بیوقوفوں کی بات مجھ تک پہنچی،تم عہدِ پیغمبر ؐ کی پابندی کے سب سے زیادہ مستحق ہو وہ تمہارے پاس آئے تو تم نے پناہ دی اور مدد کی،دیکھو جو اس بات کا مستحق نہیں ہے میں اس کے لئے نہ ہاتھ کھولنے والا ہوں نہ زبان،پھر وہ منبر سے اتر گئے اور معصومہ ؑ عالم وہاں سے تشریف لے گئیں ۔(1)

قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ یہاں پر ابوبکر نے سقیفہ اور سقیفہ کے بعد کے واقعات پر تبصرہ کرنے والوں کے خلاف جان بوجھ کے سختی کی ہے جب کہ دوسروں کے لئے انہوں نے سختی نہیں کی اور ابوبکر کا یہ خطبہ سب و شتم اور تہدید و تشدید سے بھرا ہوا ہے جس کی صرف ایک وجہ ہماری سمجھ میں آتی ہے اور وہ ہے مستحقینِ خلافت اور مستحقین فدک کے مطالبہ کو سختی سے کچلنا،اس لئے کہ معصومہ ؐ کے خطبہ میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ خلافت کسی طرح امیرالمومنین ؑ تک پہنچے اور ابوبکر اس خطبہ کے مقاصد کو بھانپ گئے اور فوراً اپنے خطبہ میں اس بات کو احساس دلا دیا کہ اس طرح کی کوشش کا(قبل اس کے کہ یہ کوششیں طاقت پکڑے کے عام ہوں)تدارک کرنا بےحد ضروری ہے اور نے کیا بھی وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اگر یہ نظریہ آگے بڑھ گیا تو اُن کی خلافت کولے ڈ وبےگا اور انہیں ایسے نتائج کا سامنا کرنا پڑےگا جن کے بارے میں وہ خود نہیں جانتے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:6ص:214۔215

۲۴۸

جب تک امیرالمومنین ؑ مسلمانوں سے الگ رہے لوگ جہاد کرنے کے لئے نہیں نکلے

مدائنی نے عبداللہ بن جعفر سے،انہوں نے ابوعون کے حوالہ سے ایک روایت بیان کی ہے جو اس بات کاسب سے مضبوط ثبوت ہے کہ صدر اسلام کے جہمور مسلمین،مولائے کاتنات ؑ کے حق خلافت کے بارے میں نص پر ایمان رکھتے تھے کہ ابوبکر کی حکومت غیرشرعی اور غیراسلامی ہے،روایت ملاحظہ ہو ۔

ابوعوان کہتے ہیں((جب عرب مرتد ہونے لگے تو عثمان مولائے کائنات ؑ کی خدمت میں پہنچے اور کہنے لگے اے میرے چچا کے بیٹے کوئی بھی میرے پاس نہیں آرہا ہے،دشمن سامنے ہے آپ نے بیعت نہیں کی ہے،یہ سن کے مولائے کائنات ؑ ابوبکر کے پاس گئے،ابوبکر آپ کو دیکھ کے کھڑے ہوگئے،دونوں گلے ملے اور پھر دونوں ایک دوسرے کو پکڑ کے رونے لگے اس کے بعد آپ نے بیعت کر لی ۔ یہ دیکھ کے مسلمان خوش ہوگئے ۔ لوگوں نے عمدگی سے جنگ کی اور فوجیں بھیجی گئیں(1) ( آپ نے دیکھا کہ لوگ امیرالمومنین علیہ السلام کی شوکت کا انتظار کر رہے تھے ۔ اور یہ سمجھ رہے تھے کہ جب تک آپ سے مشورہ نہیں لیا جائےگا جنگ،جنگ رہے گی جہاد فی سبیل اللہ نہیں ہوسکےگا اور مولائے کائنات ؑ نے بھی یہ دیکھا کہ لوگ مرتد ہو رہے ہیں اسلام کا نقصان ہو رہا ہے تو آپ بھی محض حفاظت اسلام کی خاطر ساتھ دینے پر تیار ہوگئے ۔ اسی نظریہ کی وضاحت آپ نے ان الفاظ میں کی ہے،آپ نے اہل مصر کو جو خط لکھا تھا اس کے الفاظ کا ترجمہ دیکھئے ۔ ((لوگوں نے میری رعایت نہیں کی مگر یہ کہ فلاں کی طرف دوڑ پڑے اور اس کی بیعت کرنے لگے میں نے بھی اپنے ہاتھ کو روک لیا،یہاں تک کہ لوگ اسلام سے(کفر کی طرف)واپس ہونے لگے اور دینِ محمد ؐ کے مٹانے کی دعوت دینے لگے تو مجھے خوف ہوا کہ اگر میں اسلام اور اہلِ اسلام کی نصرت نہیں کروں گا تو اسلام کی دیوار میں رخنہ پڑجائےگا یا وہ منہدم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) انساب الاشراف ج: 2 ص: 270 ،امر سقیفہ۔

۲۴۹

ہوجائے گی اور یہ مصیبت اس مصیبت سے کہیں زیادہ بڑی ہے جو میرے ہاتھ سے حکومت نکلنے کی وجہ سے مجھے حاصل ہوئی ہے ۔(1)

مدینہ منورہ میں جو لوگ بھی تھے ان کا نظریہ وہی تھا جو اوپر کی سطروں میں پیش کیا گیا ۔

بیرون مدینہ کے قبیلوں کا نظریہ اور مرتدین سے جنگ کی حقیقت

وہ قبیلے جو مدینہ کے باہر تھے اور مسلمان ہوچکے تھے اور جن سے ابوبکر کی طرف سے جنگ کی گئی انہیں لوگ مرتد کہیں ہیں،اگر ارتداد کا مطلب یہ ہے کہ وہ زکوٰۃ نہیں دیتے تھے یا انہوں نے زکوٰۃ دینا بندکر دی اور ان میں سے کچھ لوگوں نے ضروریاتِ اسلام کا انکار کیا یا ضروریات دین میں سے کچھ باتوں کا انکار کردیا تو خیر ۔

لیکن بعض مورخین نے غیرارادی طور پر کچھ حقائق لکھ دیئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ معاملہ وہ نہیں تھا جو اوپر بیان کیا گیا بلکہ بات کچھ اور تھی جس کو الزام ارتداد کے پردے میں چھپا دیا گیا ہے اور بات تھی ابوبکر کی خلافت کی ان قبیلوں کے حلق سے خلافت ابوبکر کی بات کس طرح اُترتی ہی نہیں تھی،وجہ یہ تھی کہ خلافت ابوبکر پر نہ عہد نبوی ؐ میں اشارہ کیا گیا تھا نہ وہ ابوبکر کے قبیلہ کو اتنا اہم سمجھتے تھے کہ اس جیسے معمولی قبیلہ میں خلافت جائے،حکومت ابوبکر سے الگ رہنے ہی کو لوگوں نے ارتداد پر محمول کر لیا تھا،اب جو حکومت سے رفض کرے چاہے اسلام سے خارج ہو یا نہ ہو،بہرحال مرتد تھا،اس لئے کہ اس وقت مسلمان ایک ہنگامی حالت سے گذر رہے تھے،نبی ؐ کی وفات کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کی ہیبت میں کمی آئی تھی پھر صحابہ میں اختلاف،اہلبیت نبی ؐ اور بنی ہاشم،جن کی عربوں کے دلوں میں بڑی ہیبت اور عظمت تھی،پھر نبی ؐ کی وجہ سے بھی اسلام اور اہلبیت ؑ کی عظمت میں روز بروز اضافہ ہوتا جاتا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ج:3ص:119

۲۵۰

بنی ہاشم اور اہلبیت ؑ کو بھی لوگوں نے بالکل الگ کردیا تھا،جس کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کی ہیبت ساقط ہوگئی،ایسے دور میں لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ حکومتِ ابوبکر سے انکار ہی مرتد ہونے کے لئے کافی ہے ۔

خاص طور سے امیرالمومنین علیہ السلام کو الگ کر کے مسلمانوں نے اپنی ہیبت کھودی تھی اس لئے کہ امیرالمومنین ؑ گویا کہ نبی ؐ کا کشادہ ہاتھ اور آپ کی مجاہدانہ زندگی میں آپ کی سب سے کاٹ دار تلوار تھے اس کے علاوہ امیرالمومنین ؑ کی شخصیت بھی ذاتی طور پر سب سے زیادہ قابل توجہ اور احترام کے قابل تھی،آپ کی صلاحیت و شجاعت،آپ کا علم و عمل اور آپ کے مثالی کارنامے اسلامی دنیا میں اتنے مشہور اور مسلم تھے کہ عرب اپنی جگہ یہ طے کرچکے تھے کہ نبی ؐ کے بعد اگر کوئی جانشین نبی ؐ ہے تو علی ؑ اور بس،میرے اس قول کے ثبوت میں اپنے تیسرے سوال کا جواب ملاحظہ کریں،میں نے عرض کیا ہے کہ جب اجلّاء صحابہ خلافت کے بارے میں اپنا خیال ظاہر کرتے تھے جیسے سلمانِ فارسی،ابوذر غفاری و غیرہ،تو صاف کہتے تھے کہ اگر مسلمان اس خلافت کو اپنے نبی ؐ کے اہلبیت ؑ ہی میں رہنے دیتے تو دو آدمی بھی آپس میں اختلاف نہیں کرتے،یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی یہ باتیں بےبنیاد نہیں تھیں،نبی ؐ نے انہیں بتایا تھا تو وہ لوگوں کو بتارہے تھے،اس حقیقت کے چند شواہد ملاحظہ ہوں ۔

اہل بیتؑ کو خلافت سے الگ رکھنے اور بیعتِ ابوبکر سے بعض عرب قبیلوں کا انکار

اس دور کے کسی عرب شاعر کے اشعار میں حقیقت حال ملاحظہ ہو:

ترجمہ:جب تک پیغمبر ؐ ہمارے درمیان رہے ہم ان کی اطاعت کرتے رہے پس اے خدا کے بندوں!یہ ابوبکر کو کیا ہوا ہے؟

کیا ابوبکر کے مرنے کے بعد ان کا بیٹا بکر ان کا(خلافت میں)وارث ہوگا یہ تو کمر کو توڑنے والی

۲۵۱

بات ہے ۔(1)

قبیلہ طے نے کہا ہم ہرگز ابوفصیل(ابوبکر)کی بیعت نہیں کریں گے ۔(2)

بنی فزارہ اور بنی اسد نے کہا:خدا کی قسم ہم تو ابوفصیل(ابوبکر)کی بیعت ہرگز نہیں کریں گے ۔(3)

ابن اعثم کوفی لکھتے ہیں کہ ایک ناقہ زکات میں لے لیا گیا،حالانکہ وہ مال زکات میں نہیں آتا تھا،زکات وصولنے والا زیاد بن لبید تھا،اب اس ناقہ کے لئے زیاد بن لبید اور ناقہ کے مالک کے قبیلے کے درمیان جھگڑا ہونے لگا،حارثہ بن سراقہ زکات کے اونٹوں کے پاس آیا اور اختلافی ناقہ کو نکال کے اس کے مالک سے کہا،لو اپنا ناقہ لے لو،اب اگر کوئی بولے تو اس کی ناک تلوار سے کاٹ دو ہم لوگ حیات پیغمبر ؐ میں صرف پیغمبر ؐ کی اطاعت کرتے تھے،اگر ان کے اہل بیت ؑ میں سے ان کی جگہ کوئی بیٹھا ہوتا تو ہم ضرور اس کی اطاعت کرتے،لیکن یہ ابوقحافہ کا بیٹا تو خدا کی قسم ہماری گردنوں پر نہ اس کی بیعت ہے نہ ہم اس کی اطاعت کریں گے،پھر اس نے کچھ اشعار پڑھے ان میں سے ایک شعر یہ تھا ۔

((جب تک پیغمبر ؐ ہمارے درمیان تھے ہم ان کی اطاعت کرتے تھے،اس پر بہت تعجب ہے جو ابوبکر کی اطاعت کرتا ہے))

((زیاد بن لبید نے جب یہ شعر سنا تو حارثہ بن سراقہ کو کچھ اشعار لکھ بھیجے جن میں ایک شعر یہ تھا))

((ہم تم سے راہِ خدا میں لڑتے رہیں گے اور اللہ اپنے امر پر غالب ہے یہاں تک کہ تم لوگ ابوبکر کی اطاعت کرنے لگو))

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ طبری ج:2ص:255،بدایۃ النہایۃ ج:6ص:313،معجم البلدان ج:2ص:271،المحلی ج:11ص:193مسئلہ2199،تاریخ دمشق ج:25ص:160،الاغانی ج:2ص:149،تاریخ المدینۃ ج:2ص:247۔248،

(2)تاریخ طبری ج:2ص:260،تاریخ دمشق ج:25ص:164،حالات زندگی طلیعۃ بن خویلا

(3)تاریخ طبری ج:2ص:261،الثقات ج:2ص:166

۲۵۲

زیاد بن لبید کے یہ اشعار جب ان تک پہنچے تو بنی کندہ کے قبیلے،غضبناک ہوئے اور وہ لوگ اشعث بن قیس کے پاس آئے اشعث نے کہا:اے اہل کندہ تم اپنے بارے میں مجھے بتاؤ اگر تم منع زکات اور ابوبکر سے جنگ پر بیعت کرچکے تھے تو تم نے زیاد بن لبید کو قتل کیوں نہیں کردیا،اس کے چچا کے بیٹوں میں سے کسی نے جواب دیا کہ اشعث تم سچ کہتے ہو،صحیح رائے تو یہی تھی کہ زیاد بن لبید کو قتبل کردیا جاتا اور زکات کے اونٹوں کو اس سے واپس لے لیا جاتا،ہم لوگ تو قریش کے غلام بن کے رہ گئے ہیں،کبھی بنوامیہ ہمارے پاس آتے ہیں اور جو چاہتے ہیں لے لیتے ہیں تو کبھی زیاد بن لبید جیسے لوگ بھیجے جاتے ہیں وہ ہمارا مال بھی لے لیتے ہیں اور قتل کی دھمکیاں بھی دیتے ہیں،خدا کی قسم قریش کی لالچ بھری نگاہیں برابر ہمارے مال پر لگی ہوئی ہیں،اس کے بعد اس نے کچھ اشعار پڑھے جن میں ایک شعر یہ تھا کہ((اگر ہم اسی طرح صدقہ وصول کرنے والوں کا مطالبہ کرتے رہے تو ہم صرف ان کے غلام بن کے رہ جائیں گے ۔

پھر اشعث بن قیس بولنے لگے اور کہا اے کندہ والو!اگر تم ہماری رائے سے متفق ہو تو ایک ہوجاؤ،اپنے شہروں میں جمع رہو،اور اپنے اہل خانہ کا احاطہ کرلو،اپنے مال سے زکات دینا بند کردو ۔ اس لئے کہ مجھے یقین ہے کہ عرب،بنوتیم(ابوبکر کا قبیلہ)کی اطاعت کا اقرار نہیں کریں گے اور بطحا کے سادات یعنی بنوہاشم کو چھوڑ کے کبھی دوسرے کی طرف مائل نہیں ہوں گے،اس لئے کہ بنی ہاشم ہی ہمارے لئے عمدہ ہیں اور ہمارے اوپر وہی حکم جاری کرسکتے ہیں،وہی صلاحیت رکھنے والے ہیں دوسرے نہیں،راوی کہتا ہے پھر زیاد بن لبید،بنی کندہ کی ایک شاخ جس کو بنوذھل بن معاویہ کہتے تھے،وہاں پہنچا اور جو کچھ ہوچکا تھا اس کی انہیں خبر کی اور انہیں ابوبکر کی اطاعت کی دعوت بھی دی،تو بنوتمیم کا ایک شخص آگے بڑھا((جس کا نام حارث بن معاویہ))تھا اور زیاد سے بولا:دیکھو تم ایسے شخص کی اطاعت کی دعوت دے رہے ہو جس سے نہ ہمارا معاہدہ ہے نہ تمہارا،زیاد بن لبید نے کہا تم سچ کہہ رہے ہو ۔

(نہ ہم پابند عہد ہیں نہ تم)لیکن ہم نے امرِ خلافت کے لئے اسی کو اختیار کیا ہے ۔

۲۵۳

کچھ عربوں کا اہل بیت ؑ کی خلافت کے لئے احتجاج

حارث نے کہا:پھر بتاؤ تم لوگوں نے اہلبیت پیغمبر ؐ کو خلافت سے کیوں الگ کردیا،وہ لوگ خلافت کے سب سے زیادہ مستحق تھے،اس لئے کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے:کتاب خدا میں بعض رشتہ دار دوسرے بعض سے زیادہ اولیٰ و حقدار ہیں ۔

زیاد بن لبید نے کہا سنو!مہاجرین و انصار اپنے بارے میں تم سے زیادہ باخبر ہیں،حارث بن معاویہ نے جواب دیا:خدا کی قسم یہ بات نہیں ہے،بلکہ چونکہ تم اہل بیت ؑ سے حسد کرتے ہو اس لئے تم نے ان سے خلافت چھین لی،میرے دل کو تو یہ بات بالکل نہیں لگتی کہ پیغمبر ؐ چلے جائیں اور اپنے بعد کسی کو منصوب نہ کریں،

اے شخص!تو ہمارے پاس سے چلا جا،تو خدا کی مرضی کے خلاف ہمیں دعوت دے رہا ہے،پھر حارث نے ایک شر پڑھا:

((ایسا لگتا ہے کہ پیغمبر ؐ امت کو لاوارث چھوڑ کے چلے گئے حالانکہ آپ کی اطاعت کی جاتی تھی،آپ پر درود ہو آپ نے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا؟ ۔ )

راوی کہتا ہے کہ اتنے یں عرفجہ بن عبداللہ ذہلی اچھل کے سامنے آئے اور کہنے لگے خدا کی قسم حارث بن معاویہ سچ کہتا ہے،اس شخص(زیاد بن لبید)کو اپنے یہاں سے نکال باہر کرو،اس کا ساتھی(ابوبکر)شائستہ خلافت نہیں ہے وہ کسی بھی طرح خلافت کا مستحق نہیں ہے،انصار و مہاجرین،نبی ؐ سے زیادہ اس امت کی مصلحتوں کو نہیں جانتے،پھر لوگ زیاد بن لبید کی طرف بڑھے اور اس کو اپنے علاقہ سے دھکہ دیکر نکال دیا،وہ لوگ تو اس کے قتل کا ارادہ کرچکے تھے،پھر زیاد نے قبائل کندہ کی طرف جانا ہی چھوڑ دیا کہ وہ انہیں اطاعتِ ابوبکر کی دعوت دے اور وہ لوگ اس کو اسے کوئی ناگوار اور ناشائستہ جواب دیں،جب وہ مدینہ واپس آیا اور ابوبکر سے ملا تو اس نے بنوکندہ کی ساری باتیں کہہ دیں اور ابوبکر کو بتایا کہ قبائل کندہ نے ارتداد اور نافرمانی کا پختہ ارادہ کرلیا ہے،پھر یہ خبر بھی فوراً ہی پہنچی کہ اہلِ

۲۵۴

کندہ اپنے کئے پر پشیمان ہیں،پھر ایک آدمی جواب کے بادشاہوں کی نسل سے تھا سامنے آیا اس کا نام ابضعہ بن مالک تھا،اس نے آکے اہلِ کندہ کو سمجھایا کہ اے قبیلہ والو!ہم نے اپنے لئے وہ آگ بھڑکائی ہے جس کے بارے میں میرا خیال ہے کہ وہ بجھے گی نہیں بلکہ بہت سے لوگوں کو اپنے لپیٹ میں لیکے چٹ کرجائے گی میری رائے یہ ہے کہ ہم جو کچھ کرچکے ہیں اس کا تدارک کرلیں،ابوبکر کو خط لکھ کر انہیں یہ بتائیں کہ ہم ان کی اطاعت کرنے اور زکات دینے کے لئے تیار ہیں اور ان کی خلافت و امامت پر راضی ہیں ۔

پھر احمد بن اعثم نے ذکر کیا ہے کہ ابوبکر نے اشعث کو ایک خط لکھا،جب اشعث تک یہ خط پہنچا اور اس نے خط پڑھا تو نامہ برکے پاس آیا اور کہا:تمہارے صاحب(ابوبکر)یہ لکھتے ہیں کہ اگر ہم اس کی مخالفت کریں گے تو ہم پر کفر کا الزام آئےگا اور اس کا آدمی اگر ہمارے قبیلہ اور بھائی بھتیجوں کو قتل کردے تو اس پر کفر کا الزام نہیں آئےگا،نامہ برنے کہا:ہاں اشعث تم کفر کے ملزم ہوگے،اس لئے کہ خدا نے تمہارے اوپر کفر واجب قرار دیا ہے کیونکہ تم مسلمانوں کی مخالفت کر رہے ہو ۔(1)

سابقہ بیان سے نتجہ کیا نکلا

جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں یہ تاریخی واقعات بتا رہے ہیں کہ مدینہ کے باہر اور اندر بہت سے لوگ ابوبکر کے مخالفت تھے اور ابوبکر نے جو جنگیں لڑی ہیں ان کی بنیاد ارتداد نہیں تھی بلکہ ابوبکر کی حکومت کی مخالفت تھی اور ان کی نافرمانی تھی،یہ واقعات اس بات کے بھی شاہد ہیں کہ مدینہ کے اندر اور باہر لوگوں کی اکثریت بنی ہاشم کو حکومت کے لئے مستحق تر سمجھتی تھی،مگر یہ کہ اُن پر لوگ غالب آگئے،لوگ یہ بھی سمجھتے تھے کہ اگر امیرالمومنین ؑ پیغمبر ؐ کے بعد صاحبِ امر مان لئے جاتے تو اُن سے آگے بڑھنے کی کوئی ہمت نہیں کرسکتا تھا،مسلمانوں میں کوئی اختلاف اور کشیدگی نہ ہوتی اور اسلام کی ہیبت بھی دلوں پر باقی رہتی،ساتھ ہی یہ لڑائیاں بھی نہ ہوتیں جن میں بہت سارا خون بہا اور کثرت سے مسلمانوں کی ہتک حُرمت ہوئی ۔

۲۵۵

تاریخ کے اس بیان سے ہمارے اس نظریہ کو بھی تقویت ملتی ہے کہ اگر نَص موجود تھی جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں تو نص سے صرف چند لوگ ہی غافل تھے جو مہاجرین و انصار سے لگاؤ رکھتے تھے ۔

ابوبکر کی بیعت کے بارے میں جدید الاسلام لوگوں کا موقف

اجلّہ صحابہ مہاجرین و انصار تو عجیب فتنہ میں پڑے تھے اور ابوبکر کی کُھل کے تائید نہیں کر رہے تھے،خوف کی وجہ سے کُھل کے امیرالمومنین ؑ کی حمایت بھی نہیں کر رہے تھے ۔ ہاں ابوبکر کی تائید کرنے والوں میں وہ لوگ پیش،پیش تھے جو اسلام میں نئے داخل ہوئے تھے رغبت کی وجہ سے یا خوف کی وجہ سے،جب انہوں نے دیکھا کہ اسلام کی بنیاد مضبوط ہوچکی ہے اور اب اس سے دنیا حاصل کی جاسکتی ہے تو جلدی جلدی کلمہ پڑھ کے مسلمان ہوگئے،انہیں ہادی اعظم ؐ نے طلقا اور قرآن مجید نے منافقین کے شاندار لقب سے نوازا ہے،جیسے مغیرہ بن شعبہ،عمروعاص،خالد بن ولید،سھل بن عمرو،عکرمہ بن ابی جہل،حارث بن ہشام و غیرہ ۔

یہ لوگ تائید بیعت میں پیش پیش تھے اور جو بیعت سے انکار کرتا تھا یہ لوگ اپنی متعصّبانہ فطرت اور جاہلانہ وحشت سے مجبور ہو کے اس غریب پر ظلم و جَور کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے تھے،مثلاً خانہ امیرالمومنین ؑ پر ہجوم انصار پر سختی کرنا،ان پر طعن و تشنیع کرنا(اصحاب ردہ کے خلاف جنگ میں پیش پیش ہونا،پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ وہ لڑائیاں ارتداد کے خلاف نہیں تھیں بلکہ صرف حکومتِ ابوبکر کی حمایت میں تھیں)یا ابوبکر کی سلطنت و حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے جنگ کرنا و غیرہ ۔

حکومت کو مضبوط کرنے میں رنگروٹ مسلمانوں کا پیش پیش ہونا

جدید الاسلام افراد نے مدینہ میں حکومت کو مضبوط کرنے میں اتنی کوششیں کیں کہ آخر میں حکومت نے انہیں کو فوج کی قیادت اور شہروں کی گورنری کے لئے منتخب کرنا اور بحال کرنا شروع کیا،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) الفتوح لابن اعثم م ج: 1 ،ص: 49 ۔ 57 ،ذکر ارتداد اہل حضرت موت۔

۲۵۶

حکومت نے صاحب منزلت مہاجرین و انصار کو چھوڑ دیا،یا تو اس لئے کہ سیاست کا تقاضہ یہی تھا،حکومت ان کی صاف گوئی،قوت کردار اور زہد و تقویٰ سے خوفزدہ یا ان سے ناراض تھی ۔ عمر کہتے ہیں:ہم منافق قوت سے مدد لیتے ہیں،اس کا گناہ اسی کی گردن پر ۔(1)

کسی نے عمر سے کہا:((تم نے یزید بن ابی سفیان،سعید بن عاص،معاویہ اور فلاں فلاں کو،طلقا میں سے مولفۃ القلوب اور طلقا کے بیٹوں کو گورنر بنادیا اور علی ؑ ،عباس جیسے بزرگوں کو اور طلحہ و زبیر کو چھوڑ دیا))عمر نے کہا:جہاں تک علی ؑ کا سوال ہے تو اُن کا سوال ہے تو اُن سے ہوشیار رہنا ضروری ہے،لیکن قریش کے دوسرے لوگوں کا جو تم نے نام لیا ہے،اگر انہیں گورنر بنا کے بھیجدوں تو یہ شہروں میں پھیل جائیں گے اور بہت فساد پیدا کریں گے(2) قیس بن حازم کہتے ہیں کہ زبیر،عمر کے پاس آئے اور ان سے جنگ میں جانے کی اجازت مانگی،عمر نے کہا:یم تو اپنے گھر میں بیٹھے رہو،تم پیغمبر ؐ کے زمانے میں جہاد تو کر ہی چکے ہو،زبیر نے یہ مطالبہ کئی مرتبہ کیا،آخر عمر نے تیسری بار بھی یہی کہا کہ اپنے گھر میں بیٹھو،بخدا میں مدینہ کے اطراف میں دیکھتا رہتا ہوں تا کہ تم اور تمہارے اصحاب مدینہ سے باہر نہ نکل جائے اور اصحاب محمد ؐ کو فساد پر آمادہ نہ کردئے ۔(3)

عمر کو اصحاب سے یہ خوف تھا کہ وہ کثرت سے فساد کریں گے صرف اس بنیاد پر کہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ لوگ حکومت سے ھماھنگ نہیں ہیں انھیں یہ خوف تھا کہ حکومت کہیں ہاتھ سے نکل نہ جائے،اسی لئے انہوں نے اصرار کرکے ابوبکر کو مجبور کیا کہ وہ خالد بن سعید بن عاص کو لشکر کی قیادت سے معزول کردیں،فوج شام کو فتح کرنے جارہی تھی،سردار خالد بن سعید بن عاص تھے انہوں نے ابوبکر سے اصرار کیا کہ خالد بن سعید بن عاص کو معزول کردیں ۔ وجہ صرف یہ تھی کہ سعید بن عاص

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) المصنف لابن ابی شیبۃ ج: 6 ص: 200 ،کنزالعمال ج: 4 ص: 614 ،حدیث: 11775 ،سنن کبریٰ للبیھقی ج: 9 ص: 36 ،اور اسی طرح کنزالعمال میں ج: 5 ص: 771 حدیث: 14338

( 2) شرح نہج البلاغہ ج: 9 ص: 29 ۔ 30

( 3) المستدرک علی صحیحین ج: 3 ص: 129 ،باب مناقب امیرالمومنینؑ عون المعبود ج: 11 ص: 246 ۔ 247

۲۵۷

کی طرف سے ان کے دل میں کینہ بھرا ہوا تھا،اس لئے کہ انہوں نے ابوبکر کی بیعت کرنے میں تاخیر کا جُرم کیا تھا اور بنی ہاشم و بنی مناف کو خلافت طلب کرنے پر اُبھارتے رہتے تھے،آخر کار ابوبکر نے ان کو معزول کردیا اور اُن کی جگہ یزید بن ابوسفیان کو قائد بنادیا ۔(1) اس بات کی وضاحت انہوں نے(عمر نے)اپنے خطبہ میں کی ہے جو انہوں نے اپنے دورِ خلافت میں دیا تھا،جب لوگوں نے ان سے شکایت کی کہ آپ نے اصحاب کبار کو مدینہ کا قیدی بنادیا ہے تو کہا:خبردار ہوجاؤ!بےشک قریش کے دل میں فرقہ واریت چھپی ہوئی ہے وہ لوگ گردنوں سے قلادہ بیعت اتار دینا چاہتے ہیں لیکن خطاب کا بیٹا جب تک زندہ ہے وہ آگ کی گھاٹی کے سامنے کھڑا رہےگا اور قریش کی گردنوں کو پکڑ کے آگ سے مسلسل بچاتا رہےگا ۔

حالانکہ یہی عمر،ابوعبیدہ جراح کی بحالی پر دل سے راضی تھے بلکہ خود انہیں گورنر بنا کر بھی بھیجا،حالانکہ وہ مہاجرین اولین میں سے تھے لیکن چونکہ ان کی طرف سے کوئی خوف نہیں تھا کیونکہ وہ حکومت سے ہماہنگ تھے اس لئے وہ ان کے دور میں گورنری کے سب سے زیادہ اہل قرار پائے ۔

یہ بھی قابل توجہ بات ہے کہ عمر،منافقین اور طلقا کے فتنوں سے مطمئن کیوں تھے،جب اتنے بڑے بڑے صحابی فتنہ پیدا کرسکتے تھے تو منافقین اور طلقا سے مطمئن رہنے کی کیا وجہ تھی؟صرف اس لئے مطمئن تھے کہ وہ لوگ حکومت کی مشنیری سے ہماہنگ و ہم آواز ہوگئے تھے،ورنہ حق تو یہ ہے کہ وہ بلادِ خدا اور بندگان خدا کے لئے سب سے بڑا خطرہ تھے،اگر وہ فتنہ و فساد کا ارادہ کر لیتے تو پھر ان کو روکنا بےحد مشکل ہوجاتا،جیسا کہ معاویہ کے دور میں اس کی حرکتوں سے ثابت ہوا،اگر ان کو حکومت نے لفٹ نہ دی ہوتی تو کم سے کم وہ اتنا تو کرتے ہی کہ سابقون فی الاسلام کے ساتھ تعاون کرتے اور اُن کا مقابلہ کرتے جو لوگ حکومت کا مقابلہ کرنے کو تیار رہتے تھے اور اُن کی طرف دعوت دیتے،بلکہ اگر طلقا و منافقین اُن کی حکومت میں فتنہ نہیں بھی برپا کرتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) طبقات الکبریٰ ج: 4 ص: 97 ۔ 98 ،المستدرک علی صحیحین ج: 3 ص: 279 ،تاریخ یعقوبی ج: 2 ص: 133 ،تاریخ طبری ج: 2 ص: 331 ،تاریخ دمشق ج: 16 ص: 78 ،شرح نہج البلاغہ ج: 2 ص: 58 ۔ 59

۲۵۸

جب بھی اُن سے ہاتھ ملانے کا کوئی جواز نہیں تھا،حکومت نے مسلمانوں کے امور کی باگ ڈ ور اُن(ذلیل لوگوں کے)حوالہ کردی حالانکہ ان سے افضل لوگ موجود تھے،صاحبانِ فضل کی موجودگی میں تیسرے درجہ کے لوگوں کو مسلمانوں کے امور کا ذمہ دار بنانا یہ مسلمانوں سے خیانت نہیں تو اور کیا ہے؟حدیثیں اس اقدام کی ممانعت کرتی ہیں اور مذمت بھی کرتی ہیں ۔

ابن عباس سے روایت ہے کہ سرکارِ دو عالم ؐ نے فرمایا:((جو مسلمانوں کا عامل کسی کو بنائے اور یہ بھی جانتا ہو کہ قوم میں اس کے ذریعہ بنائے گئے شخص سے بہتر لوگ موجود ہیں جو کتاب خدا اور سنتِ نبی ؐ کو اس سے زیادہ جانتے ہیں تو اس نے خدا سے،خدا کے رسول ؐ سے اور عام مسلمانوں سے خیانت کی ہے ۔(1)

بلکہ اسی طرح کا قول عمر سے بھی منسوب کیا گیا ہے(2) کہ انہوں نے کہا:جو کسی فاجر کو عامل بنائے اور وہ جانتا ہو کہ وہ فاجر ہے تو بنانے والا بھی فاجر جیسا ہے،(3) تاریخ شاہد ہے کہ فسّاق و فُجّار قوم کو عامل بنانے سے بہت سی حرمتیں ضائع ہوئیں اور دین کی مخالفت ہوئی ۔

حاصلِ کلام میں یہ کہ نص سے تجاہل اور اندیکھی مہاجرین و انصار کی اکثریت نے کبھی نہیں کی،خصوصاً ان لوگوں نے،جن کی شان اور مرتبے بلند تھے ان میں سے اکثر کی دلی خواہش یہ تھی کہ امیرالمومنین ؑ اور اہلبیت ؑ ہی امّت کے مسئول اور صاحب امر ہوں،اس کلیہ کے شواہد کے سامنے پیش کئے جاچکے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) السنن الکبریٰ للبیھقی ج: 10 ص: 118 ،المستدرک علی صحیحین ج: 4 ص: 104 السنۃ لابن ابی اعصم ج: 2 ص: 627 ،مجمع الزوائد ج: 5 ص: 211 ،معجم الکبیرج: 11 ص: 114 ،الترغیب و الترھیب ج: 3 ص: 125 ،الدرایۃ فی تخریج احادیث الہدایۃ ج: 2 ص: 165 ،نصب الرایۃ،ج: 4 ص: 62 ،سبل الاسلام ج: 4 ص: 190 ،تاریخ بغداد ج: 6 ص: 76 ،الکامل فی الضعفاء الرجال ج: 2 ص: 352 ،الضعفاء للعقیلی ج: 1 ص: 247 ،تھذیب التھذیب ج: 2 ص: 313

( 2) المستدرک علی صحیحن ج: 3 ص: 304 ،سیرہ اعلام نبلاءج: 1 ص: 460 ،الکشف الحثیث ج: 1 ص: 178 ،لسان المیزان ج: 4 ص: 118

( 3) کنز العمال ج: 5 ص: 61 حدیث: 14306

۲۵۹

عام صحابہ کی نصرتِ حق میں تقصیر

البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اکثر صحابہ نے حق کی نُصرت میں سُستی کی اور منصوص امام کی دعوت پر بروقت لبیک نہیں کہہ سکے،اگر بقول شیعوں کے نَص موجود تھی تو عام صحابہ اس نص کے نظرانداز کرنے میں نصرت حق میں کوتاہی اور واجب الاطاعۃ کی آواز پر لبیک نہ کہنے کے مجرم ثابت ہوتے ہیں ۔

آپ کے تیسرے سوال کے جواب میں یہ بات پیش کی جاچکی ہے کہ امیرالمومنین ؑ برابر یہ شکوہ کرتے رہے کہ آپ کی مدد نہیں کی جارہی ہے،آپ کے پاس ایک جماعت آئی بھی کہ ہم آپ کی بیعت کرنے کو تیار ہیں تو آپ نے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ یہ محض زبانی دعویٰ ہے فرمایا:کل سرمن ڈ ا کر آنا،لیکن دوسرے دن تین یا چار آدمی سے زیادہ نہیں آئے،آپ نے یہ اعلان کردیا تھا((اگر چالیس آدمی بھی ہمارے ساتھ ہوتے تو غاصب حکومت کا تختہ پلٹ دیتا اور اپنا حق حاصل کرلیتا)) ۔

اس طرح آپ نے ایک خچر پر صدیقہ زہرا ؐ کو بٹھایا اپنے ساتھ امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کو لیا اور انصار کے گھروں کا چکر لگایا آپ بھی ان سے نصرت طلب فرماتے اور حضرتِ معصومہ ؐ بھی ان سے نصرت کا سوال کرتی رہیں اور وہ لوگ یہی عذر پیش کرتے رہے کہ اے بی بی ہم ابوبکر کی بیعت کرچکے ہیں اور اگر(نبی ؐ کے)چچازاد بھائی ہمارے پاس پہلے آتے تو ہم ان کی بیعت سے عدول نہیں کرتے،(1) ان واقعات کو معاویہ نے اپنے خط میں بھی لکھا ہے جو اس نے امیرِ کائنات حضرت علی ؑ کو بھیجے تھے اور شیعہ روایتوں میں بھی کثرت سے یہ واقعات ملتے ہیں،لیکن کوئی یہ ہرگز نہ سمجھے کہ صحابہ،مولائے کائنات ؑ سے اس لئے پہلو تہی کررہے تھے کہ وہ نص سے جاہل تھے یا نص کی اندیکھی کررہے تھے،بلکہ ان کا مولا علی ؑ سے یہ گریز محض حکومت کے خوف کی وجہ سے تھا یا اس لئے کہ اُن کا خیال تھا کہ مولائے کائنات ؑ کو عام مسلمانوں کی تائید اس حد تک مل ہی نہیں سکتی کہ اُن کا حق انھیں واپس مل جائے،کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ امیرالمومنین ؑ نے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) الامامۃ و السیاسۃ ج: 1 ص: 16 ،نہج البلاغہ ج: 6 ص: 13

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367