فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ15%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206437 / ڈاؤنلوڈ: 5998
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

ایک انسان کی شخصیت کا جاذب ہونابھی اس معنی میں ہے کہ ظاہری اور جسمانی خصوصیات کے علاوہ اس کے اندر اخلاقی اور روحانی صفات بھی موجو د ہوں جو کہ اس کی طرف دوسرے لوگوں کی رغبت اور کشش کا سبب بنیں ؛ جولوگ با ادب چال ڈھال رکھتے ہیں اورلوگوں سے خوش اخلاقی سے ، ہنستے ہوئے چہرے اور خلوص و محبت کے ساتھ ملتے ہیں وہ لوگوں کے دلوں میں بس جاتے ہیں اور سبھی لوگ ان کو دوست رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ ملنا جلنا اور ان سے قریب رہنا چاہتے ہیں ؛ لیکن جو لوگ بے ادب ،برے اخلاق کے مالک اور خود خواہ ہوتے ہیں ایسے افراد گویا اپنے کو لوگوں سے دور رکھتے ہیں اور اس بات کا سبب بنتے ہیں کہ لوگ ان سے دور رہیں ؛لیکن جس وقت جاذبہ اور دافعہ کی بات کسی انسان سے متعلق ہو تو اس بات کی طرف توجہ رکھنی چاہئے کہ اس وقت یہ مسئلہ کلچر اورماحول کے تابع ہوتا ہے یعنی ممکن ہے کہ بعض خصوصیات کو کسی ایک سماج یا معاشرہ میں اچھی نظر سے دیکھاجاتاہولیکن وہی خصوصیات دوسرے معاشرہ میں کسی اہمیت کے حامل نہ ہوں بلکہ انھیں بری نظر سے دیکھاجاتاہے اب ظاہر ہے کہ جو شخص ان خصوصیات کا مالک ہوگا وہ پہلے معاشرہ کے نزدیک ایک جاذب وپر کشش شخصیت شمار کیا جائے گا نیزلوگوں کی نظروں میں پسندیدہ ہوگا اور لوگ اس کا احترام کریں گے لیکن وہی شخص دوسرے کلچر اور سماج میں معمولی انسان بلکہ قابل نفرت ہوگا ؛بہر حال میرے عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ایک انسان کی شخصیت میں جو جاذبہ یا دافعہ ہوتاہے وہ سماج کے ماحول اورتہذیب و ثقافت کے اعتبار سے فرق رکھتا ہے ۔بہر حالیہ مسئلہ ایک جدا گانہ اور مستقل بحث ہے جس کو اس وقت ہم بیان نہیں کریں گے ۔

۱۴۱

یہاں تک ہم نے جو توضیحات پیش کیںان سے جاذبہ اور دافعہ کا مفہوم کسی حد تک روشن ہوگیا ؛لیکن ہماری بحث کا موضوعاسلام میں جاذبہ اور دافعہ ہے'' لہذٰا ہماری مراداسلامسے جو کچھ بھی ہے اس کو واضح ہونا چاہئے، ہماری نظر میں عقائد اور قواعد و احکام کے مجموعہ کا نام اسلام ہے اس میں اعتقادی اور اخلاقی مسائل بھی اور فردی قوانین اور اجتماعی قوا نین بھی شامل ہیں ؛ جس وقت ہم کہتے ہیں کہ اسلام ایسا ہے اور اسلام ویسا ہے توہماری مراد اسلام سے یہی اعتقادات اور اس کے قواعد و احکام ہیں ؛ اس بحث میں جب ہم یہ کہتے ہیںاسلام میں جاذبہ اور دافعہ'' تو اس وقت ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ جاذبہ اور دافعہ جو کہ اسلام کے اعتقادی اور اخلاقی قواعد و اصول میں نیز اس کے تمام احکام قوانین میں پائے جاتے ہیں ۔ عقائد کے حصہ میں اسلام کا جاذبہ رکھنا اس معنی میں ہے کہ اسلامی عقائد انسان کی حقیقت پسند فطرت کے موافق ہیں یعنی وہ عقائد جو کہ حقائق ہستی کی بنیاد پر استوار ہیں چونکہ انسان کی فطرت حقیقت کو چاہتی ہے اور یہ عقائد انسانی فطرت کے مطابق ہیں لہذا یہ انسان کے لئے جاذبہ ہو سکتے ہیں ۔ بہر حال وہ جاذبہ اور دافعہ جو کہ اسلامی عقائد سے مربوط ہیں فی الحال ہماری بحث میں شامل نہیں ہیں یہاں پراس جاذبہ اور دافعہ کی بحث زیادہ اہم ہے جو کہ اسلامی احکام اور اخلاق سے مربوط ہیں خاص کر وہ جاذبہ اور دافعہ جو اسلام کے دستوری اور تکلیفی احکام سے مربوط ہیں ،اور ہم زیادہ تر اس بات کو دیکھیں گے کہ کیا تمام قواعد و احکام اسلامی انسان کے لئے جاذبہ رکھتے ہیں یا دافعہ؟

۱۴۲

کیا اسلام کے بارے میں دافعہ کا تصوّرممکن ہے ؟

ممکن ہے یہ سوال ذہن میں آئے کہ اگر تمام اسلامی معارف و احکام؛ انسانی فطرت اور طبیعت کے مطابق بنائے گئے ہیں لہذ اٰ طبعی طور پر اس کے لئے جاذبہ ہونا چاہئے پس اس کے لئے دافعہ فرض کرنا کیسے ممکن ہے ؟ !

اس کا جواب یہ ہے کہ انسان فطری طور پر حقیقت کا متلاشی اور بلندیوں کا خواہاں نیز اچھی چیزوں کا طالب ہے ؛لیکن اس کے علاوہ بہت سے شہوانی اور فطری امور بھی انسان میں پائے جاتے ہیں کہ بہت سے مقامات پر ان مختلف فطری اور شہوانی امور کے درمیان تزاحم اور اختلاف پیدا ہوتا ہے یاایک دوسرے کو دور کر دیتا ہے۔یااس بحث کے خلط اور اشتباہ سے بچنے کے لئے دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ انسان کی مادی اور حیوانی خواہشات کو جذبہ شہوت وخواہش کا نام اور اس کی دوسری تما م خواہشوں کو فطرت کا نام دیا گیا ہے ،بہت سے مقامات پرفطرت اور خواہشوں کے درمیان نا ہماہنگی پائی جاتی ہے، شہوت اور خواہش صرف اپنی تکمیل چاہتی ہے انصاف و عدالت کو نہیں دیکھتی ہے، بھوکا پیٹ آدمی صرف روٹی کھانا چاہتا ہے حلال و حرام ، اچھا ،برا ،اپنا مال ہے یا غیر کا ،اس سے اس کو مطلب نہیں ہے چاہے اس کو حلال و جائز روٹی دیں یا حرام و نا جائز اس کو پیٹ بھر نے سے مطلب ہے، انسان کی آرام پسند طبیعت پیسیے اور اپنی آرام دہ زندگی کی تکمیل کے پیچھے لگی رہتی ہے یہ پیسہ چاہے حلال طریقے سے حاصل ہو یا حرام ذریعہ سے اس کے لئے سب برابر ہے۔

۱۴۳

لیکن انسان کی فطرت انصاف کی طالب اور امانت و عدالت کے موافق ہے نیز حق کو غصب کرنے اور ظلم و خیانت سے بیزار ہے ،اس عدالت طلب اور ظلم سے گریزاں فطرت کے بر خلاف کبھی کبھی ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ اپنی خواہشات نفسانی کی تکمیل اور مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے صرف خیانت اور ظلم و ستم کا سہارا لینا پڑتا ہے؛ یہی وہ مقام ہے جہاں پر انسان اگر حقیقی کمال کو چاہتا ہے تو اس کو مجبوراً ان خواہشات اور لذتوں سے اپنے کو بچانا ہوگا ؛بعض چیزوں کو نہ کھائے ،نہ پئے،نہ اوڑھے پہنے،نہ دیکھے اورنہ سنے ؛خلاصہ یہ کہ اپنے کو محدود و مقید رکھے ۔ اسلام بھی انسان کو حقیقی کمالات تک پہونچانا چاہتا ہے؛ لہذا ان جگہوں پر فطری پہلو کو اختیار کرتا ہے اور خواہشات نفسانی اور مادی ضروریات کو محدود کرتا ہے؛ ان مقامات پر جو لوگ اپنی خواہشات نفسانی پر کنٹرول نہیں رکھتے ہیں ؛یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ حیوانیت ان پر غالب رہتی ہے تو طبعی اور فطری بات ہے کہ بعض اسلامی احکام ان کے لئے جاذبہ نہیں رکھتے ہیں بلکہ دافعہ رکھتے ہیں ،اسلام نے ایک مکمل دستور دیا ہے جو کہ فطرت اور خواہش دونوں کے مطابق ہے اور اس مفہوم کی آیات اور روایات بہت کثرت سے پائی جاتی ہیں ، اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :

( کلوا من الطیبات ما رزقناکم'' ) ( ۱ ) یعنی جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو رزق میں دی ہیں ان میں سے کھائو پیونیزیہ بھہ ارشاد فرماتا ہے:( کلوا و اشربوا ) ( ۲ ) کھائو اور پیو ایسے احکام اور دستور انسان کے لئے مشکل نہیں رکھتے ہیں لیکن جس وقت اسلام کہتا ہے کہ شراب نہ پیوسور کا گوشت نہ کھائو وغیرہ تویہ دستور ہر ایک کے لئے جاذبہ نہیں رکھتے اور بہت سے ایسے ہیں جن کو یہ احکام اچھے نہیں لگتے۔

____________________

(۱) سورہ اعراف : آیہ ۱۶۰ ۔

(۲) سورہ اعراف :آیہ ۳۱۔

۱۴۴

اسلامی احکام میں دافعہ کا ایک تاریخی نمونہ

یہاں پر مناسب ہوگا کہ تاریخ اسلام کے ایک واقعہ کی جانب اشارہ کرتا چلوں؛ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ رسول اکرم حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں نجران کے عیسائی رسو لصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس توحیدی عقائد سے متعلق بحث و مناظرہ کے لئے آئے؛ لیکن علمی بحث میں ان لوگوں کوشکست ہوئی، اس کے بعدبھی ان لوگوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان لوگوں کو مباہلہ کی دعوت دی ؛ان لوگوں نے اس مباہلہ کو قبول کیا ؛جس وقت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے محبوب اور سب سے خاص لوگوں یعنی امام علی ، حضرت فاطمہ اور امام حسن و امام حسین کو ساتھ لیکر مباہلہ کے لئے گئے اور نصاریٰ کے علماء کی نگاہ ان پانچ نورانی چہروں پر پڑی ؛تو ان لوگوں نے کہا کہ جو کوئی بھی ان حضرات سے مباہلہ کرے گا اس کے حصّہ میں دنیا و آخرت کی رسوائی اور ذلت ہوگی؛ لہذٰا وہ لوگ پیچھے ہٹ گئے اور مباہلہ نہیں کیا ؛ان عیسائیوں نے علمی گفتگو میں بھی شکست کھائی اور مباہلہ بھی نہیں کیا لیکن پھربھی مسلمان ہونے کو تیار نہیں ہوئے اور کہا کہ ہم جزیہ (ٹیکس ) دیں گے لیکن عیسائی رہیں گے ۔

جب اصحاب نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پوچھا کہ آخر وہ لوگ اسلام قبول کرنے پر تیار کیوں نہیں ہوئے؟ تو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :کہ جو عادت اور چاہت ان کو سور کے گوشت کھانے اور شراب پینے کی تھی ،ان چیزوں نے اس سے ان کو مانع رکھا،چونکہ اسلام نے ان چیزوں کو حرام قرار دیا ہے لہذٰا ان لوگوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا

۱۴۵

یہ ایک تاریخی نمونہ ہے کہ اسلام کی حقانیت ایک گروہ اور جماعت کے لئے ثابت اور واضح تھی لیکن بعض اسلامی احکام ان کے لئےدافعہ''رکھتے تھے جو اس بات سے مانع ہوا کہ وہ لوگ اسلام کو قبول کریں ؛یعنی ان کی انسانی فطرت ، حیوانی خواہشات سے مقابلہ کیا ،اس تعارض و ٹکرائو میں انھوں نے نفسانی خواہشات کو مقدم کیا ۔یہ مسئلہ صرف نجران کے عیسائیوں سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ ان تمام لوگوں سے متعلق ہے جنھوں نے الٰہی اور خدائی تربیت سے اپنے کو مزین اور آراستہ نہیں کیا ہے ،یا جو لوگ جسمانی اور حیوانی خواہشوں سے مغلوب ہیں ۔ وہ احکام اور دستورات جو کہ انسان کے مادی خواہشات کو محدود کرتے ہیں وہ ہی لوگوں کے لئےدافعہ'' ہیں اور جیسا کہ اشارہ ہوا اسلام میں ایسے بہت سے قوانین پائے جاتے ہیں قانوں اسلامی جو یہ کہتا ہے کہ ۴۰ درجہ گرمی میں ۱۶ گھنٹے اپنے کو کھانے پینے سے روکے رکھو؛اور روزہ رکھو یہ انسانی خواہشات سے میل نہیں کھاتا، ان کے لئے یہ کام مشکل ہے خاص طور سے نان وائیوں کے لئے( جو کہ روٹیاں وغیرہ پکاتے ہیں ) اس لئے کہ وہ مجبوراًآگ کے قریب رہتے ہیں ، پھر بھی ایسے بہت سے لوگ ہیں جو کہ چلچلاتی دھوپ یا شعلہ ور آگ کے قریب رہ کر بھی ان احکام پر خوشی سے عمل کرتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں ،لیکن ایسے تربیت شدہ بہت کم نظر آئیں گے۔یا مثلاًخمس ہی کا قانون ممکن ہے ہمارے اور آپ جیسے لوگوں کے لئے کہ شاید سال میں ہزارروپیہ سے زیادہ نہ ہو اس ہزارروپئے کے نکالنے میں کوئی مشکل اورپریشانی نہیں ہے ،ہو لیکن جن لوگوں کے ذمہ لاکھوں روپئے خمس نکالنا ہو ان کے لئے بہت ہی مشکل کام ہے، اسلام کے اوائل میں بہت سے لوگوں نے صرف اسی حکم زکواة کی وجہ سے اسلام کو چھوڑ دیا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف ہو گئے؛ اور جس وقت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایلچی ان کے پاس زکواة لینے کے لئے جاتاتھا تو ان لوگوں نے کہا کہ رسول بھی ٹیکس لیتے ہیں ؛ ہم کسی کو بھی خراج اور ٹیکس نہیں دیں گے ؛یہ قانون ان کے لئے دافعہ تھا اور یہی سبب بنا کہ ان لوگوں نے اسلام سے دوری اختیار کر لی یہاں تک کہ اس کی وجہ سے وہ لوگ خلیفہ مسلمین سے جنگ کرنے کو تیار ہو گئے ۔

۱۴۶

یا مثلاً اسلام جنگ و جہاد کا حکم دیتا ہے یہ فطری بات ہے کہ جنگ میں حلوا، روٹی کھانے کو نہیں ملتی بلکہ مارے جانے ، قید ہونے ،اندھے ہونے،ہاتھ پیر کٹنے اور دوسرے بہت سارے خطروں کا امکان رہتا ہے، بہت سے لوگ ان خطروں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور حکم جنگ یا میدان جنگ میں جانے کے مخالف ہیں ؛اس کے بر خلاف بہت سے مجاہد (سپاہی ) ایسے بھی ہیں جو میدان جنگ میں جانے کے لئے ہر طرح سے آمادہ دکھائی دیتے ہیں اور بہت ہی شوق سے ان خطرات کو قبول کرتے ہیں ؛پھر بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ حکم بہت سے لوگوں کے لئے جنھوں نے اپنے کو ایسا نہیں بنایا ہے کوئی جاذبہ نہیں رکھتا ہے؛ اور کسی بھی بہانے سے اپنی جان چراتے ہیں اور اس کام سے فرار اختیار کرتے ہیں ۔

لہذا اس سوال کا جواب کہ اسلام کے احکام و قوانین جاذبہ رکھتے ہیں یا دافعہ؟ یہ ہے کہ عام لوگوںکے لئے بعض اسلامی دستورات جاذبہ رکھتے ہیں اور بعض احکام دافعہ رکھتے ہیں ۔

۱۴۷

عملی میدان میں جاذبہ اور دافعہ کے سلسلے میں اسلامی حکم

اب یہ سوال کہ مسلمانوں کا برتائو اور ان کا طور طریقہ آپس میں ایک دوسرے کے متعلق بلکہ غیر مسلمانوں کے ساتھ کیسا ہوناچاہئے؟اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کی بنیاد جاذبہ پر ہے او ر اسلام یہ چاہتا ہے کہ لوگوں اوراسلامی معاشرہ کو سعادت اور کمال تک پہونچائے لہذٰ ااسلامی معاشرہ کا برتائو ایسا ہونا چاہئے کہ دوسرے افراد جو لوگ اس ماحول اور سماج سے باہر زندگی بسر کر رہے ہیں ان کی جانب متوجہ ہوں اور اسلام ان کے لئے واضح ہوجائے اور وہ لوگ راہ راست پر آجائیں۔ اگر لوگ اسلامی ماحول اور اسلامی مرکزسے دور رہیں گے تو ان تک اسلام نہیں پہونچایا جا سکتا اور وہ لوگ ہدایت نہیں پا سکتے۔ لہذٰا اہم اور اصل یہ ہے کہ مسلمان ایسی زندگی بسر کریں کہ وہ آپس میں بھی ایک دوسرے سے جاذبہ رکھتے ہوں اور روز بروز ان کے درمیان اپنائیت اور یکجہتی بڑھتی رہے اور غیرمسلم جو کہ اس ماحول سے الگ اور جدا ہوں ان کے متعلق بھی جاذبہ رکھنا چاہئے تا کہ ان کی بھی ہدایت ہو سکے اگر چہ اسلام کی اصل جاذبہ کی ایجادپر ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم ہر حالت میں ایک ہی رفتار رکھیں ؛بلکہ بعض مواقع پر دافعہ کی چاشنی اور مٹھاس سے بھی فائدہ حاصل کرنا چاہئے۔ اس بات کی وضاحت کے لئے اور اس کو ثابت کرنے کے لئے اس جلسہ میں جو وقت باقی رہ گیا ہے اسی اعتبار سے کچھ باتوں کو پیش کررہا ہوں اور بقیہ باتوں کو بعد میں عرض کروں گا، ا ن شاء للہ ۔

۱۴۸

جاذبہ رکھنے والے اسلامی کرداروں کے بعض نمونے

مذہب اسلام میں عدل و انصاف،احسان ، لوگوں کے ساتھ بہتر سلوک اور لوگوں کو خوش رکھنے کی بہت زیادہ تاکیدکی گئی ہے ؛اسلام کی بڑی عبادات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک انسان دوسرے کو خوش کرے اور اگر دوسرا غمگین و رنجیدہ ہو تو اس کے رنج وغم کوکسی نہ کسی طرح دور کرے ۔بعض روایتوں میں ایک مومن کو خوش رکھنے اور اس سے رنج و غم کو دور رکھنے کا ثواب سالوںکی عبادت سے بہتر ہے یہاں تک کہ اگر یہ کام صرف اتنا ہو کہ اس کے ساتھ محبت آمیز برتائو کرے یا ایسی بات کہے جس سے اس کو امید ہوجائے اور اس کو سکون دل پیدا ہو جائے مثلاً مومن کو دیکھ کر مسکرانا ،اس سے ہاتھ ملانا اور اس کو گلے لگانا ، بیماری کے وقت اس کی عیادت کرنا ، اس کے کاموں میں اس کی مدد کرنا جو کہ مسلمانوں کے درمیان ہماہنگی دوستی اور جاذبہ کا سبب ہیں ان سارے کاموں کا ثواب اسلامی ر و ا یات میں بہت کثرت کے ساتھذکر کیا گیا ہے؛ اسلام صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اس کے علاوہ ان میں سے بہت سارے احکام اور دستورات کو غیر مسلموں سے متعلق بھی بتاتاہے اور اس کے متعلق بہت ہی تاکید کرتا ہے ؛اسلام کہتا ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم تمھارا پڑوسی ہے یا تم اس کے ساتھ سفر کر رہے ہو تووہ تم پرحق پیدا کر لیتا ہے کہ اگر بیچ راستے سے کسی مقام پر وہ تم سے الگ ہو رہا ہے

۱۴۹

تو جب وہ اپنے راستے پر جانے لگے تو خدا حافظی کے لئے چند قدم اس کے ساتھ جا ئو اور اس کے بعد رخصت کر کے اس سے جدا ہوئواور اپنا راستہ اپنائو،اسلام عدل و انصاف کی ہر ایک کے ساتھ تاکید کرتا ہے حتیّٰ کافروں کے ساتھ بھی ؛نیز کافر وں پر ظلم و ستم کو ناجائز سمجھتا ہے ،اگر کوئی کافر ہے تب بھی تم اس پر ظلم و ستم کا حق نہیں رکھتے ہیں :''( ولایجرمنکم شنٰان قوم علیٰ الاّ تعدلوااعدلواهواقرب للتقویٰ ) ( ۱ ) اور خبر دار کسی قوم کی عداوت تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف کو ترک کر دو انصاف کرو کہ یہی تقویٰ سے قریب تر ہے حتیّٰ کفّار کے متعلق صرف عدل و انصاف ہی کرنا کافی نہیں ہے بلکہ احسان (اچھا سلوک ) جس کا مرتبہ عدل سے بڑھ کر ہے اس کے متعلق بھی خدا کا حکم ہے کہ اس کوبھی کرنا چاہئے ، ارشاد ہوتا ہے( لا ینهاکم الله عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبرّوهم و تقسطوا الیهم ) ( ۲ ) اللہ ان لوگوں کے بارے میں جنھوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں وطن سے نہیں نکالا ہے اس بات سے تم کو نہیں روکتا ہے کہ تم ان کے ساتھ نیکی اور انصاف کرو، بعض موقعوں پر اس سے بڑھ کر حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ مسلمان

____________________

(۱) سورہ مائدہ آیہ ۸.

(۲) سورہ ممتحنہ آیہ ۸.

۱۵۰

اسلامی حکومت میں جوٹیکس دیتے ہیں تو اس ٹیکس میں سے کچھ ان کفار کودو جو کہ اسلامی حکومت کی سرحداور اس کے پڑوس میں زندگی بسر کرتے ہوں تا کہ وہ لوگ اسلام کی طرف متوجہ ہوں اور اسلام میں گھل مل جائیں(۱) بلکہ ان کو تھوڑا بہت صرف اس لئے دو تاکہ ان کا دل مسلمانوں کے حوالے سے نرم ہو اور وہ لوگ مسلمانوں پر مہر بان ہوں اور ان کے دلوں میں مسلمانوںاور اسلام کی محبت پیدا ہو؛ ایسا سلوک کرنے سے دھیرے دھیرے ایسا ماحول بن جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تم سے قریب ہوں اور وہ تم سے مانوس ہو جائیں؛ پھر وہ تمھاری زندگی کا قریب سے جائزہ لیںگے اور تمھاری باتوں کو سنیںگے؛ ممکن ہے کہ وہ متاثرہو کر مسلمان ہو جائیں ؛ایسی مثالیں تاریخ میں کثرت سے پائی جاتی ہیں کہ کفّار مسلمانوں سے رابطہ رکھنے ، اسلام کی منطقی باتیں سننے اور پیروان اسلام کی رفتارو گفتار اور ان کی سیرت و اخلاق کا مشاہدہ کرنے کی وجہ سے اسلام کو قبول کر لیابہر حال یہ چند نمونے تھے جنکو اسلام نے جاذبہ کے لئے اپنے دستورات اور احکام میں جگہ دی ہے ۔

____________________

(۱) مفہوم سورہ توبہ : آیہ ۶۰۔

۱۵۱

کیا اسلام کردار میں ہمیشہ جاذبہ کی تاکید کرتا ہے؟

جس بات کی جانب توجہ دینا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اسلام جس جاذبہ کی سیاست کو اپنانے کا حکم دیتا ہے چاہے وہ مسلمانوں سے متعلق ہو یا کفار سے یہ حکم کلیت نہیں رکھتا ہے؛ بلکہ کبھی کبھی یہی دافعہ کا بھی حکم رکھتا ہے اور اس کو اپنانے کا حکم دیتا ہے؛ کبھی کبھی محبت و احسان، روحی رشد و تکامل اور ہدایت کا سبب نہیں بنتے اس کے بر خلاف اس کے مقابل میں ایک دیوار کھڑی کر دیتے کبھی کبھی حیوانی خواہشات اور مادی شہوات کے اثر سے اور دوسرے اجتماعی عوامل یا گھریلو تربیت اور اس جیسے اثرات کی وجہ سے انسان کے اندر ستم گری آوارگی اور درندگی کی عادت پیدا ہو جاتی ہے؛ اور اس حال میں اگر اس کو نہ روکا جائے تو وہ اس بات کا سبب بنتا ہے کہ وہ دھیرے دھیرے اور دن بہ دن برائیوں اور بد بختیوں کی دلدل میں دھنستا جاتا ہے اور اپنی دنیا و آخرت کو تباہ و برباد کر دیتا ہے اس کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لئے بھی تکلیف و اذیت اور ان کے حقوق کی بربادی کا سبب بنتا ہے۔

ایسی جگہوں پر خود اپنی اورمعاشرہ کی اصلاح کے لئے اس کو متنبہ کرنا چاہئے تا کہ وہ برائیوں سے باز آ کر اچھائی اور نیکی کے راستے پر وا پس آجائے یعنی اس تنبیہ کے اندر رحمت بھی ہے اور یہ تنبیہ خود اس کو زیادہ گمراہ ہونے سے بھی روکتی ہے او ردوسروں تک اس کی برائی پہونچنے سے ھی مانع ہوتی ہے۔ البتہ ظاہری تنبیہ چاہے مالی اعتبار سے جرمانہ کی شکل میں ہو، چاہے کوڑے کی سزا ہویا قتل یا قیدیا دوسری اور سزائیں ،بہر حال یہ سب انسان کے لئے تکلیف اور زحمت کا سبب ہوتا ہے اور فطری طور پر کوئی بھی اس سے خوش نہیں ہوتا ہے بہر حال اسلام کہتا ہے کہ خاص حالات میں تمھاراسلوک خشونت اور سختی کے ساتھ ہونا چاہئے اور دافعہ رکھنا چاہئے ،کیونکہ ہر جگہ پر جاذبہ مطلوب اور پسندیدہ نہیں ہے ۔

۱۵۲

پچھلی بحث کا خلاصہ

یہاں تک کی گفتگو کا خلاصہ اور نتیجہ یہ ہوا کہ سب سے پہلے ہم نے اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کی تعریف بیان کی ؛جیسا کہ ہم نے کہا کہ اسلام میں جاذبہ اور دافعہ ممکن ہے کسی چیز یا انسان یا پھر عقیدہ و فکر سے مربوط ہو، اسلام کے متعلق ہم نے بیان کیا کہ وہ عقیدے اور احکام اور اخلاق کے مجموعہ کا نام ہے جاذبہ اور دافعہ، اسلام میں ان تینوں میں کسی سے بھی مربوط ہو سکتا ہے اس کے بعد اسلام کے احکام وقوانین سے مربوط جاذبہ اور دافعہ کے متعلق بحث کی اس بحث کے ذیل میں ہم نے عرض کیا کہ اسلام میں کچھ احکام ہیں جو کہ لوگوں کو پسند ہیں اور اکثر لوگ اس کی طرف رجحان رکھتے ہیں اور بہت سے ایسے احکام بھی ہیں جو لوگوں کو پسند نہیں ہیں اور اس کی جانب رجحان نہیں رکھتے ہیں اور وہ ان کے لئے دافعہ ہیں عطر لگانا ،مسواک کرنا،صاف ستھرے رہنا ،اچھا اخلاق ، سچّائی، امانت داری، انصاف اور احسان یہ سب ایسی چیزیں ہیں کہ اسلام ان کا حکم دیتا ہے اور یہ سب لوگوں کے لئے جاذبہ رکھتی ہیں ۔روزہ رکھنا ، جہاد کرنا ،میدان میں جانا ،مالیات جیسے خمس و زکواة کا ادا کرنا یہ سب ایسے احکام ہیں جو کہ اسلامی قوانین کے زمرہ میں آتے ہیں لیکن اکثر لوگوں کو یہ سب اچھا نہیں لگتا ہے، اور ان کے لئے دافعہ رکھتا ہے؛ اس کے بعد اصل موضوع کو پیش کیا کہ اسلام کا دستور مسلمانوں کے لئے دوسروں کے ساتھ برتائو کے سلسلے میں کیا ہے ؟

کیا اسلام یہ کہتا ہے کہ مسلمان ہمیشہ ایک دوسرے کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھیں اور مسکرا کر بولیں اور صرف جاذبہ سے استفادہ کریں یا بعض جگہوں پر خشونت وسختی اور دافعہ کا بھی حکم دیتا ہے ؟ جو وضاحت ہم نے پیش کی اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی تعلیمات میں دونوں کا حکم ہے اگر چہ ایسے موارد بہت کم ہیں کہ جن میں دوسروں کے ساتھ مسلمانوں کا برتائوخشونت آمیز ہو۔لیکن پھر بھی ایسے مواقع پائے جاتے ہیں ان کے نمونے ان شاء للہ آ ئندہ جلسوں میں پیش کئے جائیں گے ۔

۱۵۳

اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود (۲ )

اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے بارے میں تین طرح کے سوالات

پچھلے جلسے کے مطالب کے ذیل میں اگر ہم جاذبہ اور دافعہ کے حدود کے بارے میں اسلام کے مطابق گفتگو کرنا چاہیں جو کہ تمام جہتوں کو شامل ہو تو اس بارے میں کم سے کم تین طرح سے گفتگو ہو سکتی ہے۔

گفتگو کا پہلا عنوان اور محور یہ ہے کہ ہم بحث اس طریقے سے کریں کہ اصولی طور پر اسلام کے تمام معارف چاہے وہ عقیدہ سے متعلق ہوں یا اخلاق و احکام سے خواہ وہ ایک انسان سے مربوط ہوں یا ُپورے معاشرے سے عبادتی ہوں یا حقوقی یا سیاسی ہے یا....،یہ مسائل اس بات کا سبب ہوتے ہیں کہ انسان بعض امور کو اپنے اندر جذب کرے اور بعض امور کو دفع کرے وہ امور مادی ہوں یا معنوی؛ اس صورت میں جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام جاذبہ رکھتا ہے ؛یعنی اس کے معارف اور احکام اس طرح ہیں کہ وہ انسان کو اس بات پر ابھارتے ہیں کہ وہ ان چیزوں کو اپنے اندر جذب کرے ،اور اسلام کے دافعہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسان کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں وہ ان چیزوں سے پرہیز کرے اور ان کو اپنے سے دور رکھے ؛یہ دافعہ اور جاذبہ کے پہلے معنی ہیں کہ جس کا اسلام میں تصّورہے؛او ر اسی کی بنیاد پر سوال پیش کیا جا سکتا ہے، اس کا مختصر جواب بھی یہ ہے کہ ہم چار فرض تصور کریں :

(۱) اسلام صرف جاذبہ رکھتا ہے

(۲)اسلام صرف دافعہ رکھتا ہے

(۳) اسلام نہ جاذبہ رکھتا ہے اور نہ ہی دافعہ

(۴) اسلام جاذبہ اور دافعہ دونوں رکھتا ہے ،کہ ان چاروں میں سیچوتھا فرض صحیح ہے۔

۱۵۴

دوسرا معنی جو اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے لئے لیا جا سکتا ہے وہ یہ کہ ہم اس بات کے قائل ہوں کہ اسلام کے معارف اور احکام اس طرح ہیں کہ بعض افراد کے لئے جاذبہ رکھتے ہیں اور بعض افراد کے لئے دافعہ رکھتے ہیں ،جاذبہ یعنی وہ لوگوںکو اپنی طرف کھیچنتے ہیں اور دافعہ یعنی وہ ان کے لئے اسلام سے دوری کا سبب بنتے ہیں یا تمام اسلامی معارف میں بعض عناصر ایسے ہوتے ہیں اور وہ ان کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور بعض عناصر ایسے بھی ہیں جن کو بعض افراد پسند نہیں کرتے ہیں اور ان کے لئے دفع اور دوری کا سبب بنتے ہیں تیسرے معنی یہ ہیں کہ ہم اس بات کو دیکھیں کہ اسلام غیر مسلموں کو اسلام کی طرف بلانے میں یا وہ لوگ جو کہ مسلمان ہیں انکی تربیت اور رشد و کمال کے لئے کس طریقے کو اپناتا ہے اور کون سے عمل انجام دینے کو کہتا ہے؟ کیا صرف جاذبہ کے طریقے کو اپناتا ہے یا دافعہ کے طریقے کو اختیار کرتا ہے یا دونوں طریقوںکو استعمال کرتا ہے ؟

انسان کاتکامل جاذبہ اور دافعہ کارہین منّت ہے

اس سے قبل کہ ہم ان تینوں معانی پر تفصیلی گفتگو اور بحث کریں اس سوال کو پیش کریں گے کہ انسانکے لئے ایک متحرک مخلوق کے عنوان سے جو کہ اپنے تکامل کے راستے میں ایک مقصد کو نظر میں رکھتا ہے اور اس تک پہونچنے کی کوشش کرتا ہے کیا اصلاً کوئی قوت جاذبہ ہے جو زیادہ سے زیادہ اور بہتر طریقے سے اس راستے میں اس کی مدد کرتی ہے یا کوئی قوت دافعہ ہے یا دونوں قوتیں پائی جاتی ہیں ؟

۱۵۵

اس سوال کا جواب زیادہ مشکل نہیں ہے تھوڑے سے غور و فکر اور دقت کر کے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اگر زندہ رہنے والی چیزیںجو کہ دنیا میں پائی جاتی ہیں ان کو دیکھا جائے؛ چاہے وہ حیوان ہوں یا انسان؛ پیڑ پود ے ہوں یا کچھ اور؛سب کے سب جاذبہ اور دافعہ دونوں کے محتاج ہیں ؛ہر زندہ رہنے والی چیز کے لئے سب سے اہم اور پہلی چیز جو اس کے لئے خصوصیت رکھتی ہے، وہ غذا ہے۔ تمام زندہ موجودات اپنے نشو نما نیز اپنی زندگی کو باقی رکھنے کے لئے کھانے اور غذا کی احتیاج رکھتے ہیں غذا اور کھانا بغیر جاذبہ کے نہیں ہو سکتا ؛یعنی غذا حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے باہر سے کوئی چیز جسم کے اندر داخل ہوکر جذب ہو جائے اسی طرح ہر چیز کا جذب تمام زندہ موجودات کے لئے فائدہ مند نہیں ہے بلکہ بعض چیزوں کا جذب،زندہ شے کی نشوو نما اور اس کے تحرک میں خلل پیدا ہونے کا باعث ،اس کے متوقف ہونے،یہاں تک کی اس کی موت کا باعث ہوجاتا ہے لہذٰا ضروری ہے کہ ان چیزوں کی نسبت دافعہ بھی رکھتا ہو تاکہ ان کو اہنے بدن سے دور رکھے۔ لہذٰا تمام زندہ موجودات اپنے وجود کے باقی رکھنے کے لئے اور اپنے رشد وکمال کے لئے جاذبہ اور دافعہ دونوں کے محتاج ہیں ۔ اس جگہ پر جب ہم یہ کہتے ہیں کہ بعض چیزوں کو جذب کرے اور بعض چیزوں کو دفع کرے تو جو بات سب سے پہلے ذہن میں آتی ہے وہ مادی جذب و دفع ہوتی ہے یعنی ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ تمام جگہوں پر جو کچھ جذب یا دفع ہے ایک مادی اور محسوس ہونے والی چیز ہے ؛ لیکن ہم کو اس بات کی طرف توجہ دینی چاہئے کہ اسلامی معارف کے اعتبار سے انسان کی زندگی صرف اسی بیو لوجک اور مادی زندگی تک محدود نہیں ہے ؛بلکہ انسان ایک معنوی زندگی بھی رکھتا ہے جو کہ روح سے مربوط ہے یعنیایک وہ زندگی،نشو و نما اور تکامل ہے جو کہ انسان کے جسم سے مربوط ہے اورایک وہ زندگی،نشو و نما اور تکامل ہے جو انسان کی روح سے مربوط ہے۔ خدا وند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:( یا ایهاالذین آمنوا استجیبوا لله وللرسول اذا دعاکم لما یحییکم ) ( ۱ ) اے وہ لوگو !جو ایمان لائے ہو جب خدا و رسول تم

____________________

(۱) سورہ انفال آیہ ۲۴

۱۵۶

کو کسی چیز کی طرف بلائیں جو کہ تم کو زندگی بخشنے والی ہو تو تم اس پر لبےّک کہو ؛یہ بات مسلم ہے کہ اس آیہ کریمہ میں خدا نے جن لوگوں کو مخاطب کیا ہے؛ وہ صاحبان ایمان ہیں اور حیوانی زندگی رکھتے ہیں ؛ اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی باتوں کو سنتے ہیں ، تو خدا اور رسول کیوں ان لوگوں کو اس چیز کی طرف بلارہے ہیں جو ان کو زندگی بخشتی ہو؛ یقیناً یہ حیات جسمانی اور مادی زندگی نہیں ہے بلکہ اس سے دوسری زندگی مراد ہے۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے( و ما علمّناه الشعر وما ینبغی له ان هو الّاذکر و قرآن مبین لینذر من کان حيّاً ) ( ۱ ) ہم نے اس (رسول )کوشعر نہیں سکھایا اور نہ ان کے لئے یہ مناسب ہے یہ صرف نصیحت اور روشن قرآن کے علاوہ کچھ نہیں ہے تا کہ جو زندہ ہوں ان کو ڈرائیں۔ اب یہ کہ قرآن اس شخص کی ہدایت کرتا ہے جو زندہ ہے اس کا مطلب کیا یہی جسمانی اور مادی زندگی ہے ؟ اگر مراد یہی مادی زندگی ہے تو ایسی زندگی تو سارے انسان رکھتے ہیں ؛ لہذٰا قرآن کو سب کی ہدایت کرنی چاہئے لیکن ہم دیکھتے اور جانتے ہیں کہ قرآن نے ابولہب ،ابو جہل جیسوں کی اگر چہ یہ لوگ ظاہری اور جسمانی زندگی رکھتے تھے، کوئی ہدایت نہیں کی اور قران ایسے لوگوں کی ہدایت نہیں کرتا ،تو معلوم ہوا کہ اس حیات سے مراد قران میں کوئی دوسری حیات ہے حیات یعنی زندہ دلی ،روحی زندگی جو کہ انسان کو'' سننے والا کاندیتی ہے تاکہ خدا کے

____________________

(۱) سوررہ ےٰسین : آیہ ۶۹ اور ۷۰ ۔

۱۵۷

کلام کو سن کر ہدایت حاصل کر سکے( فانّک لا تُسمع الموتی'' ) ( ۱ ) اے رسول آپ مردوں کو نہیں سناسکتے ،اس آیہ میں مردوں سے مرادمردہ دل افرادہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جن کے جسم تو زندہ ہیں لیکن ان کی روحیں مردہ ہیں روح اور دل کی زندگی کی کیا نشانی ہے ؟ اس کی علامت اور نشانی ،خشیت و خوف الٰہی ہے( انما تنذرالذین یخشون ربّهم بالغیب'' ) ( ۲ ) اے رسول ! تم صرف انھیں لوگوں کو ڈرا سکتے ہو جواز غیب خدا سے ڈرتے ہیں ؛ دل کے زندگی کی نشانی یہ ہے کہ جب ان کو متوجہ کریں اور بتائیںکہ تمھارا ایک خالق ہے اس کا تم پر حق ہے اور اس نے تم کو کسی مقصد کے تحت خلق کیا ہے اور تمھارے اوپراس نے کچھ ذمہ داری قراردی ہے تو اسکا دل کانپ اٹھتا ہے اور پھر کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہو تا ہے،دل میں خوف خدا اور ایمان آنے کا نتیجہ یہ ہے کہ'( 'یئوتکم کفلین من رحمته ویجعل لکم نوراًتمشون به ) ( ۳ ) یعنی خدا وند عالم اپنی رحمت سے تم کودوہرے حصے عطا فرماتا ہے اور ایسا نور قرار دیتا ہے کہ اس کے سبب اور اس کی برکت سے تم چل سکتے ہو؛ یہ نور، مادی اور محسوس کرنے والا نور نہیں ہے ،بلکہ وہی نور ہے جو کہ روح اور دل کی زندگی سے مربوط ہے، ایسی زندگی جس کی طرف خداوند عالم نے قران مجید میں مختلف مقامات پراشارہ

____________________

(۱)سورہ روم :آیہ۵۲۔

(۲) سورہ فاطر: آیہ ۱۸۔

(۳) سورہ حدید: آیہ ۲۸۔

۱۵۸

کیا ہے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے( فا نها لا تعمی الابصار و لٰکن تعمی القلوب التیّ فی الصدور'' ) ( ۱ )

حقیقت میں آنکھیں اندھی نہیں ہیں بلکہ وہ دل جو کہ سینے میں ہیں وہ اندھے ہیں ،مادی اور جسمانی آنکھ زندہ ہے اور دیکھتی ہے، لیکن روحانی اور باطنی آنکھ نہیں رکھتے ہیں ،وہ صنوبری دل جو کہ سینے کے اندر دھڑکتا ہے اور زندہ ہے لیکن ایک دوسرا جو دل بھی ہے کہ عیب ونقص اسی میں ہے( ثمّ قست قلوبکم من بعدذالک فهی کالحجارة او اشدّ قسوة ) ( ۲ ) پھر اس کے بعد تمھارے دل سخت ہوگئے پتھر کی، طرح بلکہ اس بھی زیادہ سخت وہ دل پتھر جیسا بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہے کہ کوئی چیز اس میں اثر نہیں کر سکتی ؛بلکہ وہ پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو چکا ہے( وانّ من الحجارة لما یتفجّرمنه الانهار وانّ منها لما یشقّق فیخرج منه المائ'' ) ( ۳ ) اور بعض پتھروں سے نہریںنکلتی ہیں اور بعض شگافتہ ہوتے ہیں تو اس سے پانی نکلتا ہے بہر حال قران مجید میں ایسی بہت سی آیتیں پائی جاتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن اس جسمانی آنکھ، کان اوردل کے علاوہ حیاتی آنکھ،کان،دل کا قائل ہے، اور جس طرح سے جسم کی زندگی،نشو ونما اس کے تکامل کے لئے جذب و دفع کی ضرورت ہے ویسے ہی روحی حیات کو بھی جذب و دفع کی احتیاج ہے۔ جس طرح سے بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو کہ جسمانی زندگی پر اثر ڈالتی ہیں اور اس جسم کے لئے مفید یا مضر ہیں ایسے ہی بہت سے عوامل ایسے بھی پائے

____________________

(۱)سورہ حج؛آیہ ۴۶۔

(۲)اور (۳)سورہ بقرةآیة۷۴.

۱۵۹

جاتے ہیں جو کہ اس روحانی زندگی کے لئے فائدہ مند یا نقصان دہ ہیں ۔جس طرح جسمانی زندگی کئی مرتبے اوردرجے رکھتی ہے اور اس میں نقص و کمال ، اور شدت وضعف پایا جاتا ہے، روحانی زندگی بھی اسی طرح کئی درجے اور مرتبے رکھتی ہے ؛روحانی زندگی کا سب سے پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان انبیاء کی پہلی دعوت جو ایمان اور توحید سے متعلق ہے اس کو قبول کرے اور اس کو جذب کرسکے ۔ البتہ انبیاء کی اس ہدایت کے اثر اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کے بعد انسان دھیرے دھیرے روحانی زندگی کے بلند مرتبہ کو حاصل کر سکتا ہے؛ اسی جگہ پرتزکیہ و تہذیب نفس کی بحث آتی ہے۔

تزکیہ نفس یعنی روح کے کمال کے لئے لازمی جذب اور دفع

نفس کو پاک و صاف کرنے (تزکیہ نفس )کی بحث اصل میں وہیروح سے مربوط جذب و دفعبحث ہے۔ ایک درخت کے لئے جب یہ چاہیں کہ وہ خوب تناور اورپھولے پھلے توضروری ہے کہ وہ مٹی اور ہوا سے مواد کو جذب کرے اور اس کی چھٹائی کی جائے اور مضر نباتی زہروں اور آفتوں کو او سے دور رکھا جائے۔اور یہ دونوں چیزیں یعنی جذب و دفع ضروری ہے ؛انسان کے لئے بھی یہ چیزیں ضروری ہیں یعنی وہ ایسا کام کرے کہ اس کی روح صیقل ہو۔اس کا مقدمہ یہ ہے کہ وہ چیزیں جو انسان کی روح اور زندگی کے لئے ضروری اور مفید ہو ںان کو جذب کرے اور وہ چیزیں جو انسان کی روح کے لئے مضر اور نقصان دہ ہیں اس کو اپنے سے دور کرے ، لہذٰا سب سے پہلاقدم یہ ہے کہ انسان ان چیزوں کو پہچانے اور ان کی معرفت حاصل کرے اور غفلت و جہالت سے باہر آئے؛ انسان کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس کی روح ایسی ہے کہ( بذکر الله تطمئنّ القلوب ) (۱) خدا وند عالم کے ذکر سے دلوں کو سکون حاصل ہوتا ہے، روح کی غذا خدا کا ذکر اور اس کی یاد ہے، دل کی زندگی اور خدا کی یاد کے درمیان ربط پایا جاتا ہے؛ یہی دل ایسا ہے کہ اگر اس کی حفاظت نہ کی جائے،

____________________

(۱) سورہ رعد: آیہ ۲۸۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

حدیث حوض اور فتنوں سے ڈرانےوالی احادیث کی سنگینی کا پتہ دیتی ہیں

ثانیاً:حدیث حوض کو ہم بہت وضاحت کے ساتھ آپ کے سابقہ سوال کےجواب میں پیش کرچکے ہیں،خصوصاً احادیث حوض میں بعض حدیثیں ایسی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کی اکثریت کو حوض سے ہٹادیا جائےگاور ان میں سے بس چند لوگ باقی بچیں گے،یہ حدیثیں بتاتی ہیں کہ صحابہ میں نجات پانےوالے بہت کم لوگ ہیں،قرآن کی بہت سی آیتیں اور حدیثیں وہ ہیں جو فتنوں سے بچنے کی تقلین کرتی ہیں،ایسے فتنے جو امت پر بس آنےہی والے ہیں یہ آیتیں اور حدیثیں بتاتی ہیں کہ کتنی عظیم مصیبتیں آنےوالی ہیں اور کتنا خطرناک ماحول پیدا ہونےوالا ہے،میں نے ان آیتوں اور حدیثوں کو اکثر مقامات پر پیش کیا ہے ۔

سابقہ امتوں کے واقعات

حضور ؐ نے فرمایا کہ((تم اپنی سابقہ امتوں کی ایک بالشت اور ایک ایک ہاتھ پر پیروی کروگے یہاں تک کہ اگر وہ بجّو کے سوراخ میں داخل ہوئے ہیں تو تم بھی ان کی پیروی کروگے))صحابہ نے پوچھا حضور ؐ !کیا گذشتہ امتوں سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں؟آپ نے فرمایا پھر کون ہے؟کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ گذشتہ امتوں کی تباہی و بربادی کا سبب صرف یہ تھا کہ انھوں نے اپنے نبیوں کی مخالفت کی تھی خاص طور سے یہودیوں کے بارے میں تو قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ وہ دوبارارہ مستقیم سے بہکیں گے ارشاد ہوتا ہے:

(وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْا عَلَىٰ قَوْمٍيَعْكُفُونَ عَلَىٰ أَصْنَامٍ لَّهُمْ قَالُوا يَا مُوسَى اجْعَل لَّنَا إِلَٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌتَجْهَلُونَ)(۱)

ترجمہ آیت:((ہم بنواسرائیل کو لیکے چلے یہاں تک کہ وہ ایک ایسی قوم کے پاس آئے جو اپنے بتوں کا اعتکاف کرتی تھی تو کہنے لگے موسیٰ،ان کے خداؤں کی طرح ہمارا بھی ایک خدا بنادیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ الاعراف،آیت: ۱۳۸

۲۲۱

موسیٰ نے فرمایا تم جاہل لوگ ہو)) ۔

یہ پہلی کجی تھی اور دوسری کجی تب ظاہر ہوئی جب انھوں نے بچھڑے کو اپنا معبود بنایا تھا قرآن نے بہت سی آیتوں میں اس کا تذکرہ کیا ہے اور یہ واقعہ آج کل کی تورات(توریت)میں بھی موجود ہے،سورہ اسریٰ میں ارشاد ہوتا ہے کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد برپا کروگے اور ایک مرتبہ بہت بڑی سرکشی کروگے،اس فساد اور سرکشی کا نتجہ انھیں کے لئے نقصان دہ ہوگا ۔

مخالفت تو ایسی نصوص کی بھی کی گئی جو امامت کے لئے دلیل نہیں تھی

ثالثاً:وہ حدیثیں جو امیرالمومنین علیہ السلام،صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا اور اہل بیت علیہم السلام کے حق میں سرکار دو عالم ؐ نے عمومی طور پر ارشاد فرمائی تھیں،صحابہ نے ان کی مخالفت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا تھا چاہے وہ خلافت پر نص ہوں یا نہ ہوں،جیسے حدیث ثقلین:جو اہل بیت ؑ سے تمسک کا حکم دیتی ہے،اس پر چھٹے سوال کے جواب میں گفتگو کی جائےگی ۔ انشاءاللہ

اس طرح حدیث سفینہ جس میں حضور ؐ نے فرمایا تھا کہ میرے اہل بیت ؑ سفینہ نوح جیسے ہیں جو اس میں سوار ہوا وہ نجات پائےگا اور جو اس سے منھ موڑےگا وہ ہلاک ہوجائےگا ۔(۱) اور حضور اکرم ؐ کا اہل بیت اطہار ؑ کو مخاطب کرکے یہ فرمانا کہ جس سے تم سلامتی رکھوگے میں بھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) مستدرک علی صحیحین ج: ۲ ص: ۳۷۲ ،کتاب تفسیر،تفسیر سورہ ہود،ج: ۳ ص: ۱۶۳ ،کتاب معرفۃ الصحابۃ،آل رسول کے مناقب میں،مجمع الزوائدج: ۹ ص: ۱۴۸ ،کتاب مناقب،باب اہل پیغمبرؐ کی فصل میں مسند البرازج: ۹ ص: ۳۴۳ ،اسی مورد میں سعید بن مسیّب نے ابی ذر سے روایت کی ہے،المعجم الاوسط ج: ۴ ص: ۱۰ ،ج: ۵ ص: ۳۵۵ ،ج: ۶ ص: ۸۵ ،المعجم الصغیرج: ۱ ص: ۲۴۰ ،ج: ۲ ص: ۸۴ ،المعجم الکبیرج: ۳ ص: ۴۴۵ ،حسن بن علی کی باقی خبروں میں ج: ۱۲ ص: ۳۴ ،اسی مورد میں کہ سعید بن جبیر نے ابن عباس سے روایت کی ہے،مسند الشہاب ج: ۲ ص: ۲۷۳ ،باب گیارہ،دسواں جز،فیض القدیرج: ۲ ص: ۵۱۹ ،حلیۃ الاولیاءج: ۴ ص: ۳۰۶ ،تاریخ بغدادج: ۷ ،ص: ۳۳۶ ،ترجمہ الحسن بن ابی طیبۃ القاضی المصری،ج: ۱۲ ص: ۱۹ ،ترجمہ علی بن عمر بن شداد،فضائل الصحابہ عبداللہ بن احمد بن حنبل،ج: ۲ ص: ۷۸۵ ،اور اس کے علاوہ،منابع و مصادر

۲۲۲

سلامتی رکھوں گا اور جس سے تم جنگ کروگے اس میں بھی جنگ کروں گا،(۱) اس کے علاوہ وہ تمام حدیثیں جو عمومی طور پر اہل بیت ؑ کے حق میں وارد ہوئی ہیں،جیسے حدیث غدیر،جس میں حضرت ؐ نے فرمایا کہ امیرالمومنین ؑ مومنین کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق رکھتے ہیں،حضور اکرم ؐ کا یہ قول کہ علی ؑ قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی ؑ کے ساتھ ہے(۲) علی ؑ حق کے ساتھ ہیں اور حق علی ؑ کے ساتھ ہے(۳) خدا علی ؑ پر رحم کرے:پالنےوالے حق کو ادھر موڑدے جدھر علی ؑ مڑے(۴) علی ؑ مجھ سے ہیں میں علی ؑ سے ہوں ۔(۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سنن ابن ماجہ ج:۱ص:۵۲،صحیح بن حبان،ج:۱۵ص:۴۳۴،سنن ترمذی ج:۵ص:۶۹،مستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۶۱،کتاب صحابہ کی معرفت،و رسول اللہؐ کے اہل پیغمبرؐ کے مناقب میں،المصنف ابن ابی شیبۃ ج:۶ص:۳۷۸،کتاب فضائل،وہ چیز جو حسنؑ حسینؑ کے بارے میں آئی ہے،مجمع الزوائدج:۹ص:۱۶۹،کتاب مناقب،باب اہل بیتؑ کے فضائل کے بارے میں،المعجم الاوسط ج:۳ص:۱۷۹،ج:۵ص:۱۸۲،ج:۷ص:۱۹۷،معجم الشیوخ،ص:۱۳۳،جس کی روایت محمد بن عمار بن عمروعاص بن مطیع ابوجعفر نے کی ہے،ص:۳۸۰،المعجم الصغیرج:۲ص:۵۳،معجم الکبیرج:۳ص:۴۰،باقی اخبار حسن بن علیؑ میں ج:۵ص:۱۸۴،امالی المعاملی ص:۴۴،سیر اعلام النبلاءج:۲ص:۱۲۲،ترجمہ فاطمہ بنت رسول اللہؐ ج:۳ص:۲۵۸،حالات حسن بن علی بن ابی طالبؑ میں،ج:۱۰ص:۴۳۲،تہذیب الکمال ج:۳،ص:۱۱۲،تاریخ بغدادج:۷ص:۱۳۷،-(۲)مجمع الزوائدج:۹ص:۱۳۴،المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۳۴،المعجم الصغیرج:۲ص:۲۸،فیض القدیرج:۴ص:۳۵۶،المعجم الاوسط ج:۵ص:۱۳۵،الفردوس بماثور الخطاب ج:۳ص:۲۳۰،تاریخ الخلفاءج:۲ص:۱۷۳،اجمال الاصابۃ ص:۵۵،الجامع الصغیرج:۲ص:۱۷۷،حدیث:۵۵۹۴،کنزالعمال ج:۱۱ص:۶۰۳،حدیث:۳۲۹۱۲،ینابیع المودۃ ج:۱ص:۱۲۴،ج:۲ص:۹۶۔۳۹۶۔۴۰۳،العصاح الکافیۃ ص:۲۱۵،المناقب الخوارزمی ص:۱۷۷-(۳)مجمع الزوائدج:۷ص:۲۳۵،تاریخ بغدادج:۱۴،ص:۳۲۰،تاریخ دمشق ج:۲۰ص:۳۶۱،حالات سعد بن مالک بن ابی وقاص،ج:۴۲ص:۴۴۹،حلات علی ابن ابی طالبؑ،الامامۃ و السیاسۃ ج:۱ص:۶۸،ینابیع المودۃ ج:۱ص:۱۷۳،وغیرہ.-(۴)سنن ترمذی ج:۵ص:۶۳۳،کتاب مناقب رسول اللہؐ باب مناقب علی ابن ابی طالبؑ،المعجم الاوسط ج:۶ص:۹۵،مسند البزارج:۳ص:۵۲،فیض القدیرج:۲ص:۲۳۶،ج:۴ص:۱۹،تذکرۃ الحفاظ ج:۳ص:۸۴۴،سیر اعلام النبلاءج:۱۵ص:۲۷۹،المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۳۴،الکامل فی ضعفاء الرجال ج:۶ص:۴۴۵،الضعفاء للعقیلی ج:۴ص:۲۱۰،المجروحین ج:۳ص:۱۰،تہذیب الکمال ج:۱۰،ص:۴۰۲،العلل المتناھیۃج:۱ص:۲۵۵،الریاض النضرۃج:۱ص:۲۴۳مسند ابی یعلی ج:۱ص:۴۱۸،مسند علی بن ابی طالبؑ،وغیرہ-(۵)سنن ترمذی ج:۵ص:۶۳۶،کتاب مناقب رسول اللہؐ،سنن ابن ماجۃ ج:۱ص:۴۴،فضائل علی بن ابی طالبؑ میں،سنن کبری للنسائی ج:۵ص:۴۵،فضائل ابی بکر،عمر،عثمان،مسند احمد ج:۴ص:۱۶۵،الآحاد و المثانی ج:۳ص:۱۸۳،المعجم الکبیرج:۴ص:۱۶،السنۃ لابن ابی عاصم ج:۲ص:۵۶۶۔۵۹۸،تذکرۃ الحفاظ ج:۲ص:۴۵۵،کشف الخلفاءج:۱ص:۲۳۶،تہذیب الاسماءج:۱ص:۳۱۸،فضائل الصحابۃ لابن حنبل ج:۲ص:۵۹۹،سیر اعلام النبلاءج:۸ص:۲۱۲،تاریخ دمشق،ج:۴۲،ص:۳۴۵،حالات علی ابن ابی طالبؑ میں اور اس کے علاوہ مصادر،

۲۲۳

اوراے علی ؑ !((کیا تم مجھ سے اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہاری منزلت میرے لئے ویسی ہے جیسی ہاروں کی موسیٰ کے لئے،مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا))(۱) مجھ پر شب معراج وحی آئی علی ؑ کے بارے میں جس میں تین باتیں گئیں:

۱ ۔ علی ؑ سیدالمومنین ہے

۲ ۔ علی ؑ امام المتقین ہے

۳ ۔ علی ؑ روشن پیشانی والوں کا سردار ہے(۲)

سرکار دو عالم ؐ نے علی ؑ کا تعارف اکثر ان الفاظ میں کرایا کہ علی ؑ امیرالمومنین ہیں(۳) بلکہ بریدہ کی حدیث میں تو ہے کہ حضور ؐ نے ہمیں حکم دیا کہ علی ؑ امیرالمومنین کہہ کے سلام کرنا،اس وقت ہم سات آدمی تھے میں ان میں سب سے چھوٹا تھا ۔(۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)صحیح بخاری ج:۴ص:۱۶۰۲،کتاب المغازی،باب جنگ تبوک،اواسی طرح ج:۳ص:۱۳۵۹،کتاب فضائل الصحابۃ،باب مناقب علی بن ابی طالبؑ،صحیح مسلم ج:۴ص:۱۸۷۱۔۱۸۷۰،کتاب فضائل الصحابہ باب فضائل علی بن ابی طالبؑ صحیح ابن حبان ج:۱۵ص:۱۵،باب اخبار رسول اللہؐ،المستدرک علی صحیحین ج:۲ص:۳۶۷،کتاب تفسیر،تفسیر سورہ توبہ،ج:۳ص:۱۱۷،کتاب معرفت صحابہ،اور مناقب علی بن ابی طالبؑ میں سے کتاب معرفت صحابہ،الاحادیث المختارہ ج:۳ص:۲۰۷،

(۲)المعجم الصغیرج:۲ص:۱۹۲،مجمع الزوائدج:۹ص:۱۲۱،کتاب مناقب علی ابن ابی طالبؑ،المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۴۸،اسد الغابۃج:۱ص:۶۹،حالات اسعد بن زرارہ انصاری،ج:۳ص:۱۱۶،حالات عبداللہ بن اسعد بن زرارہ انصاری،تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۰۲۔۳۰۳،معجم الصحابۃج:۱ص:۷۰حالات ابجر بن غالب المزنی ج:۲ص:۱۱۲،موضوع ادھام الجمع و التفریق،ج:۱ص:۱۸۶۔۱۸۵۔۱۸۴۔۱۸۳،الفردوس بماثور الخطاب ج:۵ص:۳۱۵،حلیۃ الاولیاءج:۱ص:۶۳،حالات علی بن ابی طالبؑ،تاریخ بغدادج:۱۱ص:۱۱۲،حالات عبدالجبار بن احمد بن عبیداللہ السمسار،ج:۱۳ص:۱۲۲،کشف الخفاءج:۳ص:۴۵۶،کنزالعمال ج:۱۱ص:۶۲۰۔۶۱۹،میزان الاعتدال ج:۷ص:۲۰۷،الکامل فی ضعفاء الرجال ج:۷ص:۱۹۹،حالات یحی بن العلاء الرازی،

(۳)تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۸۶۔۳۰۳،حالات علی بن ابی طالبؑ،المناقب خوارزمی ص:۸۵،موضع ادھام الجمع و التفریق،ج:۱ص:۱۸۵،الفردوس بماثور الخطاب ج:۵ص:۳۶۴،حلیۃ الاولیاءج:۱ص:۶۳لسان المیزان ج:۱ص:۱۰۷،میزان الاعتدال ج:۱ص:۱۹۱،حالات ابراہیم بن محمد بن میمون،

(۴)تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۰۳،حالات علی بن ابی طالبؑ میں،

۲۲۴

حضور ؐ نے فرمایا:علی ؑ میرے بعد تم لوگوں کے ولی ہیں ۔(۱)

حضور ؐ نے ایک اور مقام پر فرمایا کہ:علی ؑ جو مجھ سے الگ ہوا وہ اللہ سے الگ ہوا اور جو تم نافرمانی کرتا ہے اور جو علی ؑ کی اطاعت کرے وہ میری اطاعت کرتا ہے اور جو علی ؑ کی نافرمانی کرے وہ میری نافرمانی کرتا ہے ۔(۳) اور حضور کا یہ کہنا کہ اے علی تم میرے بعد امت کے اختلافات کو دور کروگے ۔(۴) اور حضور ؐ کا یہ ارشاد کہ جو علی ؑ کو ستائے وہ مجھےستاتا ہے اور جو علی ؑ کو اذیت دے دو مجھے اذیت دیتا ہے.(۵)

---------------

(۱)مجمع الزوائدج:۹ص:۱۲۸،سنن کبری للنسائی ج:۵ص:۱۳۳،المعجم الاوسط،ج:۶ص:۱۶۳،مسند احمدج:۵ص:۳۵۶،الفردوس بماثورالخطاب ج:۵ص:۳۹۲،فتح الباری ج:۸ص:۶۸،تحفۃ الاحوزی ج:۱۰ص:۱۴۸۔۱۴۶،فیض القدیر ج:۴ص:۳۵۷،الاصابۃج:۶ص:۶۲۳،الریاض النضرۃ ج:۲ص:۱۸۷،تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۱۸۹،حالات علی بن ابیطالبؑ میں،فضائل الصحابۃ لابن حنبل ج:۲ص:۶۸۸،البدایۃ و النہایۃج:۷ص:۳۴۶۔۳۴۴،

(۲)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۳۳،کتاب معرفت صحابہ ص:۱۵۸،مجمع الزوائدج:۹ص:۱۳۵،کتاب مناقب باب الحق مع علی،مسند البرازج:۹ص:۴۵۵،معجم شیوخ ابی بکر الاسماعیلی ج:۳ص:۸۰۰،المعجم الکبیرج:۱۲،ص:۴۲۳،فضائل الصحابہ ج:۲ص:۷۵۰،فیض القدیرج:۴ص:۳۵۷،میزان الاعتدال ج:۳ص:۳۰،ص:۷۵،حالات رزین بن عقبہ میں،تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۰۷،حالات علی بن ابی طالبؑ میں،

(۳)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۳۱،معجم شیوخ ابی بکر اسماعیلی ج:۱ص:۴۸۵،الکامل فی ضعفاء الرجال ج:۴ص:۳۴۹،تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۰۷،حالات علی بن ابی طالبؑ میں

(۴) المستدرک علی صحیحین ج ۳: ۱۳۲ ،تاریخ دمشق ج ،اص: ۴۸۵ ،الکامل فی ضعفاء الرجال ج :ج ص:۳۴۹ ، تاریخ دمشق ج :۴۲ ص:۳۰۷ ،حالات علی ابن ابی طالب-

(۵)صحیح ابن حبان ج:۱۵ص:۳۶۵،المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۳۱،کتاب معرفت صحابہ،الاحادیث المختارہ ج:۳ص:۲۶۸۔۲۶۷،موارد الظمان ص:۴۵۳،مجمع الزوائد،ج:۹ص:۱۲۹،المصنف لابن ابی شیبۃج:۶ص:۳۷۱،فضائل علی بن ابی طالبؑ،مسند الشاشی ج:۱ص:۱۳۴،مسند البزارج:۶ص:۲۳۷،مشاہیر علماء الامصار ص:۳۵،الثقات ج:۳ص:۲۷۳،التدوین فی اخبار قزوین ج:۳ص:۳۹۰،معجم الصحابۃ ج:۲ص:۲۰۱،الستیعاب ج:۳ص:۱۱۰۱،حالات علی بن ابی طالبؑ میں،ص:۱۱۸۳،حالات عمر بن شاس بن عبید،الاصابۃج:۶۴۶۴،فضائل الصحابۃ لابن حنبل ج:۲ص:۵۷۹،۶۳۳،تاریخ الخلفاءج:۱ص:۱۷۳،حالات علی بن ابی طالبؑ میں انساب الاشراف ج:۲ص:۳۷۹،اس کے علاوہ دوسرے مصادر،

۲۲۵

اسی طرح جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں بھی حدیث پیغمبر ؐ کی مخالفت کی گئی،حضور اکرم ؐ نے فرمایا کہ:جو فاطمہ ؑ کو خوف زدہ کرے وہ مجھےخوفزدہ کرتا ہے اور جو فاطمہ ؑ کو اذیت دے وہ مجھے اذیت دیتا ہے(۱) دوسرے مقام پر آپ ؐ نے فرمایا((فاطمہ ؑ تیری غضب کی وجہ سے خدا غضبناک ہوتا ہے اور تیری رضا کی وجہ سے خدا راضی ہوتا ہے ۔(۲)

اس طرح کی بہت سی حدیثیں فضائل علی ؑ و فاطمہ ؑ و اہل بیت ؑ میں پائی جاتی ہیں جن کے معنی و مفاہیم ایک ہیں چاہے الفاظ مختلف ہوں،یہ حدیث اس کثرت سے پائی جاتی ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں اور نہ ان سے انکار ممکن ہے ان حدیثوں کے اجمال تفصیل میں تواتر پایا جاتا ہے بلکہ یہ حدیثیں تواتر کی حد سے بھی آگے ہیں،لیکن ان حدیثوں میں امیرالمومنین ؑ کی خلافت پر نص ہو یا نہ ہو بہرحال سقیفہ میں اور سقیفہ کے بعد کے واقعات میں ان حدیثوں کی شدید مخالفت کی گئی ان حدیثوں کا مذاق اڑایا گیا اور ان حدیثوں کی طرف کسی نے دھیاں نہیں دیا،علی ؑ و فاطمہ ؑ کے گھر پر حملہ کیا گیا،ان کی ہتک حرمت کی گئی،انھیں اذیت دی گئی،انھیں غضبناک کیا گیا،امیرالمومنین ؑ کو بیعت پر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تفسیر ابن کثیرج:۳ص:۲۵۷،صحیح بخاری ج:۵ص:۲۰۰۴،کتاب النکاح،صحیح ابن حبان ج:۱۵ص:۴۰۶،مسند ابی عوانۃج:۳ص:۷۰،سنن ترمذی ج:۵ص:۶۹۸،سنن کبریٰ للبیہقی ج:۷ص:۳۰۷،ج:۱۰ص:۲۸۸،سنن ابی داود،ج:۲ص:۲۲۶،سنن ابی ماجۃج:۱ص:۶۴۳،معتصرالمختصرج:۱ص:۳۰۷،المعجم الکبیرج:۲۲ص:۴۰۴،حالات حسین بن علیؑ میں ج:۷ص:۳۲۵،سیراعلام النبلاءج:۲ص:۱۱۹،فاطمہ بنت رسول اللہؐ کی سوانح حیات میں،تہذیب الکمال ج:۲۲ص:۵۹۹،حالات عیسی بن حماد بن مسلم،ج:۳۵،ص:۲۵۰،معجم الصحابۃج:۳ص:۱۱۰،صفوۃ الصفوۃج:۲ص:۱۳،معجم المحدثین ص:۹غوامص الاسماءالمبھۃ ج:۱ص:۳۴۰،المغنی ج:۱۰ص:۱۸۶،فضائل الصحابۃ لابن حنبل ج:۲ص:۷۵۶،فضائل الصحابۃ للنسائی ص:۷۸،

(۲)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۶۷،مجمع الزوائد،ج:۹ص:۲۰۳،الآحادوالمثانی ج:۵ص:۳۶۳،المعجم الکبیرج:۱ص:۱۰۸،ج:۲۲ص:۴۰۱،میزان الاعتدال ج:۲ص:۲۸۹،حالات حسین بن زیاد بن علی بن حسین بن علی علوی ج:۴ص:۱۸۵،الکامل فی ضعفاء الرجال ج:۲ص:۳۵۱،حالات حسین بن زید بن علی میں،التدوین فی اخبار قزوین ج:۳ص:۱۱،الاصابۃج:۸ص:۵۷،حالات فاطمۃ الزہراءؑمیں،تاریخ دمشق ج:۳ص:۱۶۵،باب اولاد فاطمۃ الزہراؑ کے ذکر میں،ص:۱۲۰،

۲۲۶

مجبور کیا گیا،آپ ؑ کو تیسری درجےکے لوگوں کا تابع اور مطیع قرار دیا گیا،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امت میں اختلاف کے وقت لوگ فیصلہ اور قول محکم کے لئے امیر کائنات ؑ کی طرف رجوع کرتے مگر اس کے برعکس امیرالمومنین ؑ کو ادنیٰ لوگوں کی پیروی مجبور کیا گیا،نبی ؐ نے حکم دیا تھا کہ اہل بیت ؑ سے تمسک کرو امت نے اہل بیت ؑ کا خذلان کیا،نبی ؐ نے فرمایا کہ اہل بیت ؑ سفینہ نوح جیسے ہیں اس سفینہ پرآؤگے تو نجات پاجاؤگے اور امت نے اس سفینہ ہی کو ڈ بونے کی کوشش کی،نبی ؐ نے فرمایا تھا علی ؑ تمہارے مولی ہیں،علی ؑ امیرالمومنین ہیں،امت نے کے بدلے میں اپنی ولایت اور امارت علی ؑ پر مسلط کردی،اس دور کے سب سے کمزور وجود کا نام علی ؑ ہوگیا،جس طرح بنواسرائیل نے جناب ہاروں کو کمزور کردیا تھا اسی طرح مسلمانوں نے علی ؑ کو سب سے کمزور سمجھ کے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑدئیے،شوریٰ کے دن بھی گذشتہ تمام حدیثوں کی مخالفت کی گئی،علی ؑ کو حاکم ہونا چاہئے تھا لیکن یہ حق عبدالرحمٰن بن عوف نے چھین کر عثمان کی خلافت کا فیصلہ سنا دیا اور حاکم برحق کو محکوم بناکے ابوطلحہ انصاری کو حکم دیا کہ اگر علی ؑ بیعت عثمان سے انکار کرتے ہیں تو وہ انھیں قتل کردے،عثمان کا مولا اور عبدالرحمٰن کے جابرانہ فیصلہ نے اسے رعایا اور مامور قرار دیا ۔

بلکہ انصاف سے دیکھ جائے تو شیخین(ابوبکر و عمر)نےنصوص نبوی ؐ کی زیادہ مخالفت کی ہے اور اکثر جہگوں پر خود کو نصوص نبوی ؐ کی پابند یوں سےآزاد قرار دیا ہے،تفصیل کتابوں میں موجود ہے جسے شک ہو وہ جاکے دیکھے،میں ان کتابوں کا حوالہ دینا ضروری نہیں سمجھتا اور اس مختصر میں اس کی گنجائش بھی نہیں ہے ۔

اب آپ فیصلہ کریں،شواہد کیا کہتے ہیں؟صحابہ نے ان نصوص شریفہ کی مخالفت کی یا نہیں؟صحابہ نے ان نصوص شریفہ سے تغافل برتایا نہیں؟ان حدیثوں میں تو امیرالمومنین ؑ کی امامت و خلافت پر کوئی نص بھی نہیں تھی لیکن صحابہ نے ہر اس حدیث کی مخالفت کی اور ہر اس نص سے تغافل برتا جس میں امیرالمومنین ؑ اور اہل بیت ؑ کے حق کی رعایت کا حکم دیا گیا تھا تو جب صحابہ ایسے نصوص کی

۲۲۷

مخالفت کرسکتے ہیں تو امامت و خلافت پر نصوص نبوی ؐ کی مخالفت کرنے اور تغافل برتنے سے انھیں کون روکے گا؟وہ کیوں نہیں کریں گے؟اس لئے کہ وہ خود غاصب خلافت تھے،اگر نص پر عمل کرتےتو خلافت حقدار خلافت کو دینی پڑتی ۔

انصار نے الائمۃ من قریش کی مخالفت کی

انصاف سے بتائیں کیا((الائمۃ من قریش))نص نہیں ہے؟کیا اس سے قریش میں امامت کا محصور ہونا سمجھ میں نہیں آتا ہے؟پھر انصار جو قریش نہیں تھے انھوں نے دعوائےخلافت کرکے کیا اس نص کی مخالفت نہیں کی؟انصار صحابہ تھے کہ نہیں؟انصار وہ باوقار گروہ جن میں بہت سے سابق الاسلام تھے،نبی ؐ کی نصرت میں بھی سابق تھے،لیکن جب حکومت کی ہوس دل میں سمائی تو ان ہی صاحبان جبّہ و دستارنے سعد بن عبادہ کی بیعت کرنی چاہی اور الائمۃ من قریش کے نص صریح کی مخالفت کر بیٹھے(۱) عام مسلمانوں کے درمیان یہ تو بہت مشہور حدیث تھی،کیا انصار نے یہ حدیث نہیں سنی تھی؟

ہاں قریش کی ایک جماعت نے جب دیکھا کہ انصار نص کی مخالفت کررہے ہیں تو انھوں نے ان کو ڈ انٹا اور سختی سے انکار کیا،یہاں تک کہ عمروعاص کہتا ہے قریب تھا کہ وہ اسلام کی رسّی کو ڈ ھیلی کردیں جیسا کہ انھوں نے اس کے لئے قتال کیا تھا اور جس طرح اسلام میں داخل ہوئے تھے قریب تھا کہ اسی طرح وہ اسلام سے نکل جاتے،خدا کی قسم اگر انھوں نے پیغمبر ؐ کا قول((الائمۃ من قریش))سنا تھا پھر بھی امامت کے دعویدار تھےتو وہ ہلاک ہوچکے تھے اور ہلاک کرچکے تھے اور اگر نہیں سنا تھا انھوں نے یہ قول!تو بھی وہ مہاجرین جیسے تو نہیں تھے ۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)اس سوال کے جواب کے آغاز میں اسکے مصادر گذرچکے ہیں)

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۲۹

۲۲۸

لیکن انصار آخر اس مذکورہ نص کے مخالف کیوں تھے ۔ صرف اس لئے کہ وہ نص ان کی مصلحتوں کے خلاف تھی اور ان کے مفاد کو مجروح کررہی تھی،اس طرح عمر نے بھی اس نص کو مبہل قرار دیا اور اس نص سے خارج ہونے کی پرواہ نہیں کی اور کسی نے ان کی مخالفت بھی نہیں کی،وقت وہ ہے جب انھیں زخمی کیا گیا اور موت کا فرشتہ ان کے سامنے آکے کھڑا ہوگیا اس وقت کہنے لگے اگر ابوحذیفہ کا غلام سالم زندہ ہوتا تو میں اس کو خلیفہ بنادیتا ۔(۱) پھر کہا اگر معاژ بن جبل کو پاتا تو خلیفہ بنادیتا،پھر میں اپنے پروردگار سے ملتا تو وہ مجھ سے پوچھتا....(۲)

سوچئے کیا سالم غلام ابوحذیفہ اور معاذ بن جبل جیسے لوگوں کے ہاتھوں خلافت سوچنے کی خواہش((الائمۃ من قریش))کے نص کی مخالفت نہیں ہے یہ دونوں مسلمان قریش سے نہیں تھے،

یہیں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تمام صحابہ کی طرف سے نص کی مخالفت کا اقدام ذرا بھی بعید از قیاس نہیں ہے،اس لئے کہ نص کی مخالفت ہی سے ان کے الّو سیدھے ہوررہے تھے،ان کی مصلحتوں کا افادہ ہورہا تھا اور وہ نقصان سے بچ رہے تھے،نص کی مخالفت تو صرف ان کو نقصان پہنچارہی تھی جو اہل بیت ؑ پیغمبر ؐ تھے اور پیغمبر کے بعد انھیں کمزور کردیا گیا تھا،جیسا کہ آئندہ صفحات میں عرض کیا جائےگا ۔

حاصل گفتگو یہ ہے کہ جب صحابہ ان نصوص نبوی ؐ کی مخالفت کرسکتے ہیں جن سے امامت و خلافت امیرالمومنین ؑ ثابت نہیں ہوتی تو پھر امامت و خلافت کے حامل نصوص کی مخالفت بعید از قیاس ہے نہ تعجب خیز،جیسا کہ شیعوں کے قول کے مطابق ایسی نص موجود ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ طبری ج:۲ص:۵۸۰،العقد الفریدج:۴ص:۲۵۵،تاریخ دمشق ج:۵۸ص:۴۰۵۔۴۰۴،مقدمہ ابن خلدون ص:۱۹۴،حلیۃاولیاءج:۱ص:۱۷۷،صفوۃ الصفوۃج:۱ص:۳۸۸،کشف الخفاءج:۲ص:۴۲۸

(۲)تاریخ دمشق ج:۸ص:۴۰۴۔۴۰۳،مسند احمدج:۱ص:۱۸،فیض القدیرج:۳ص:۱۹۰،صفوۃالصفوۃج:۱ص:۳۶۷.

۲۲۹

نبی نے صحابہ کو خبردار کردیا تھا کہ وہ امیرالمومنینؑ کے بارے میں نصوص کی مخالفت کریں گے

بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ حضور سرور کائنات ؐ نے اپنے صحابہ کو خبردار کردیا تھا کہ وہ علی ؑ کے بارے میں نصوص کی مخالفت کریں گے اور نصوص کو جاری ہونے سے روکیں گے،اگر امیرالمومنین ؑ اپنے حق کے لئے قیام بھی کریں گےتو صحابہ علی ؑ سے الگ ہوجائیں گے،اس لئے کہ حضور کائنات ؐ اپنے اصحاب کی نفسیات سے اچھی طرح واقف تھے اور ان کے دلوں میں کیا کچھ ہے اس سے اچھی طرح واقف تھے حضور ؑ سمجھ رہے تھے کہ وہ لوگ کس حد تک جاسکتے ہیں ۔

ثبوت کے لئے ملاحظہ ہو((جب عائشہ نے مولائے کائنات ؑ پر خروج کیا اور بصرہ تک پہنچ گئیں تو انھوں نے کوشش کی کہ ام سلمہ ؒ کو بھی اپنے ساتھ ملالیں اور دونوں مل کے علی ؑ پر خروج کریں لیکن ام المومنین ام سلمہ نے انکار کردیا بلکہ عائشہ کو بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ امیرالمومنین ؑ سے نہ الجھیں،ام المومنین ام سلمہ نے عائشہ کو کچھ باتیں یاد دلائیں جو امیر کائنات ؑ کے حق میں تھیں اور انھیں روکنے کی کوشش کی،ان باتوں میں ایک واقعہ یہ بھی تھا کہ ام سلمہ نے عائشہ سے کہا:میں تمہیں ایک واقعہ یاد دلاتی ہوں،ہم لوگ یعنی میں اور تم سرکار دو عالم ؐ کے ساتھ سفر کررہے تھے،علی ؑ ہمارے ساتھ تھے،پیغمبر ؐ کی جوتیاں ٹانکا کرتے تھے اور کپڑے دھویا کرتے تھے ایک دن آپ کی جوتی میں سوراخ ہوگیا علی ؑ اس کو ٹانکنے کے لئے بیٹھ گئے،اس وقت علی ؑ ایک ببول کے درخت کے سایہ میں بیٹھے تھے اتنے میں تمہارے باپ اور عمر آگئےانھوں نے نبی ؐ سے حاضری کی اجازت لی،ہم لوگوں نے پردہ کرلیا اور وہ دونوں خدمت پیغمبر ؐ میں حاضر ہوئے،وہ نبی ؐ سے کہنے لگے،حضور ؐ ہمیں نہیں معلوم کہ آپ کی صحبت ہمیں کب تک حاصل رہےگی،کاش آپ بتایئےکہ آپ کے بعد آپ کا خلیفہ کون ہوگا؟تا کہ ہم آپ کے بعد اس کی پناہ میں چلے جاتے،حضور ؐ نے فرمایا:ویسے تو میں اس کی جگہ دیکھ رہا ہوں لیکن اگر میں تمہیں بتادوں تو تم اس سے الگ ہوجاؤگے جس طرح بنی اسرائیل ہارون بن عمران ؑ کو چھوڑکے الگ

۲۳۰

ہوگئے تھے،یہ سن کر دونوں خاموش ہوگئے اور باہر چلے گئے،پھر جب نبی ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو میں نے نبی ؐ سے پوچھ لیا حالانکہ عائشہ تم نبی ؐ پر مجھ سے زیادہ جسارت کرتی تھیں،بہرحال میں نے نبی ؐ سے پوچھا:حضور ؐ آپ ان لوگوں پر کس کو خلیفہ بنانا چاہتے ہیں؟فرمایا جوتی ٹانکنےوالے کو تو ہم نے غور سے دیکھا اس وقت علی ؑ کے علاوہ جوتی ٹانکنےوالا کوئی نہیں تھا میں نے پوچھا یا رسول اللہ ؐ اس وقت تو جوتی ٹانکنےوالا علی ؑ کے علاوہ کوئی دکھائی نہیں دیتا؟آپ ؐ نے فرمایا:ہاں میری مراد بھی وہی ہے،عائشہ نے کہا،ہاں مجھے یاد آگیا،(۱)

یہ وہ حقائق ہیں کہ جس کی بنیاد پر مجھے عرض کرنا ہے کہ صحابہ کےتغافل کی وجہ سے نص کو وجود کو بعید از قیاس نہیں سمجھا جاسکتا،بلکہ ضرورت ہے کہ نص کےدعوے پر منصفانہ نظر کی جائے اور اس دعوے پر جو دلیلیں دی جارہی ہیں ان پر کامل موضوعیت کے ساتھ جذبات سے دور ہوکے غور کیا جائے پھر وجدان کو حاکم بناکے ایک فیصلہ کیا جائے،شیعہ امیرالمومنین ؑ اور آپ کی معصوم اولاد ؑ کی خلافت کے بارے میں جن نصوص کا دعویٰ کرتے ہیں کیا وہ نصوص ان لوگوں کے بارے میں بھی وارد ہوئی ہیں جن کی خلافت کو جمہور صحیح قرار دیتے ہیں تو جمہور نے مقام استدلال میں ان نصوص کا استعمال کیا ہے کہ نہیں جب اس نکتہ پر غور کریں گےتو راستہ خود بخود مل جائےگا اس لئے کہ حق سبحانہ تعالیٰ صحیح راستے کی طرف ہدایت کرنےکا ذمہ دار ہے ۔

جن لوگوں نے نص کی مخالفت کی،ان کی تعداد بہت کم ہے

وجہ ثالث:جن لوگوں نے نص خلافت کی مخالفت کی اگر بقول شیعہ نص موجود ہے تو ان کی تعداد بہت کم ہے،صرف وہی لوگ نص کی مخالفت کرتے ہیں یا نص سے تغافل برتتے ہیں جنھوں نے امیرالمومنین ؑ کے خلاف تحریک کی قیادت کی ہے،آپ کے مقابلہ پر اترے ہیں اور خلافت کو ان سے چھین کے خود قبضہ جمالیا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۲۱۸

۲۳۱

جہاں تک باقی لوگوں کا سوال ہے تو انھوں نے مخالفت نص کا اقدام کیا ہےنہ امیرالمومنین ؑ کی مخالفت کی ہے،بس انھوں نے واقعات کو ایک حقیقت سمجھ کے قبول کرلیا ہے اور اس کے بہت سے اسباب ہوسکتے ہیں یا تو انھوں نے نص اور حق کو اہم نہیں سمجھایا یہ سوچا کہ عافیت اسی میں ہے کہ حالات سے سمجھوتہ کرلیا جائے یا یہ سوچا کہ نصوص کی وجہ سے حقدار کو حق نہیں ملنے جارہا ہے یا اس لئے خاموش رہے کہ وہ نص کو بعید از قیاس سمجھ رہے تھے و غیرہ

انسانی سماج کا مزاق وقت کے دھارے کے ساتھ مڑجاتا رہا ہے

انسانی سماج کا مزاج یہ ہے کہ وہ وقت کے دھارے کے ساتھ کسی بھی تحریک اور انقلاب کی طرف بہت جلد مڑجاتا ہے اور اس میں رہنے،سہنے کی عادت ڈ ال دیتا ہے،تحریک یا انقلاب کے بانیوں کی تعداد بہت مختصر ہوتی ہے،یہی لوگ شریعت اور قانون کو بدلنے میں پیش پیش رہتے ہیں اور یہی لوگ اس تحریک سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں،پھر تو تحریک کی ذمہ داریاں ان لوگوں پر آپڑتی ہیں جو بالکل ہی بودے اور عام کالانعام ہوتے ہیں اور اس تحریک کو برقرار رکھ کے کچھ فائدہ وہ بھی اٹھالیتے ہیں،لیکن جب انسانی سماج پر غلط تحریک کی وجہ سے مصیبتں آتی ہیں،جو اس تحریک سے انکار کرنےوالے اور شریعت کی مخالفت کی وجہ سے حاصل ہونےوالے نقصانات کی نشاندہی کرنےوالے سامنے آتے ہیں اور ان کی مدد وہ لوگ کرتے ہیں جو قانون کی بالادستی اور شریعت کی پابندی کے قائل ہیں اور حق کی راہ میں ہر قربانی دینے کو تیار رہتے ہیں ایسے لوگ ہر دور میں کم رہے ہیں اور باقی لوگ؟دل میں تو شرع کی توہین کے منکر ہوتے ہیں لیکن ظاہر میں شروع کو کوئی اہمیت نہیں دیتے،اسی لئے وہ حق کو مقام حق تک پہنچانے کے لئے قربانیاں دینا بہت مشکل سمجھتے ہیں،اب یا تو بزدلی کریں یا اس لئے کہ ان کےاندر قربانی کا جذبہ پایا جاتا ہےمگر سوچتے ہیں کہ اگر شریعت کی حفاظت نہیں ہوسکی اور انقلاب نہ آسکا تو ہماری قربانیاں ضائع ہوجائیں گی اس لئے کہ مخالفین کی طاقت بہت زیادہ ہے اور ہم اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے ۔

۲۳۲

ابوبکر کی بیعت پر اہل مدینہ کے اتفاق کا دعویٰ

کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ مدینہ کے مہاجرین و انصار اور دوسرے لوگوں نے بھی ابوبکر کی بیعت پر اتفاق کرلیا تھا اور یک زبان ہوکے ان کی تائید کی تھی،الگ تھے تو صرف کچھ لوگ اور امیرالمومنین علی ؑ ،دعویٰ کچھ اس انداز میں کیا گیا ہے کہ لوگ سمجھیں کہ اگر نص موجود تھی بھی تو اہل مدینہ کی اتنی بڑی جماعت نے عمداً اس کی مخالفت کی اور نص کے خلاف عمل کیا،اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ عوام سامنے کی صورتحال سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں اور اکثریت کسی نظریہ کی گہرائی پر نظر نہیں رکھتی،

مذکورہ دعویٰ کے بطلان کے شواہد

لیکن یہ دعویٰ خلاف واقع ہے،اس لئے کہ بیعت کے وقت جو واقعات اور حادثات سامنے آئے وہ اس اتفاق کے خلاف گواہی دیتے ہیں،حدیث کی کتابوں میں یہ قول ہر جگہ پایا جاتا ہے کہ ابوبکر کی بیعت ایک لغزش تھی(۱) فلتہ(لغزش)کی تشریح تو فلتہ سے بھی ناکارہ ہے فلتہ کا مطلب مباغتہ ہے یعنی بغیر مشورہ کے،مورخین کا بیان بھی اسی بات کی شہادت دیتا ہے کہ بیعت ابوبکر اچانک حاصل ہوگئی،تاریخ کے آئینہ میں اس وقت مدینہ کی صحیح صورت حال کا جائزہ لیجئے،حضور سرور کائنات ؐ کی وفات ہوچکی ہے اہل مدینہ دہشت ناک حادثہ سے وحشت زدہ ہیں،مولائے کائنات ؑ اور دوسرے بنوہاشم حضور سرور کائنات ؑ کی تجہیز و تکفین میں مصروف ہیں اور ایک چھوٹی سی جماعت اپنی سازشوں میں لگی ہوئی ہے،وہ لوگ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اس وقت اقتدار اور خلافت پر قبضہ جمانےکا سب سے بہتر موقعہ ہے اس لئے کہ اہل مدینہ خبط ہیں اور اصل دعویدار ان خلافت بلکہ مستحقین خلافت پیغمبر ؐ کی تجہیز میں مشغول ہیں،اس وقت یہ جماعت ابوبکر کی بیعت کی پیشکش کرتی ہے اور نص کے خلاف(اگر نص موجود تھی)تو بہت چالاکی سے ابوبکر کو آگے بڑھا کےلوگوں سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)اس سوال کے آغازِ جواب میں اس کا حوالہ گذرچکا ہے

۲۳۳

بیعت مانگتی ہے اور لوگ حیرت و وحشت کے عالم میں تنکے کے سہارے کےطور پر ڈ وبنے سے بچنے کے لئے اس اقدام کو قبول کرتے ہیں(اس کہتے ہیں ہنگامی صورت حال سے فائدہ اٹھانا) اب ذرا مشہور تاریخ نگار یعقوبی سے سنئے اس وقت سقیفہ میں کای ہورہا ہے؟کس کی بیعت ہورہی ہے؟اور کیسے بیعت لی جارہی ہے؟یعقوبی لکھتا ہے براءبن عازب آئے اور بنوہاشم کے دروازے پر دستک دی اور آواز لگائی کہ اے بنوہاشم ابوبکر کی بیعت ہوگئی،بنوہاشم میں سے کسی نے کہا:مسلمان ہمارے غیاب میں کوئی غیاب میں کوئی اہم فیصلہ نہیں کرسکتے،ہم محمد ؐ کے قریب ترین ہیں،عباس بولے انھوں نے فیصلہ کر بھی لیا،ربّ کعبہ کی قسم:حالانکہ مہاجرین و انصار کو شک بھی نہیں تھا کہ علی ؑ کےعلاوہ کسی کی بیعت ہوگی،مہاجرین و انصار کےایک گروہ نے ابوبکر کی بیعت سے اختلاف کیا اور مولائے کائنات ؑ کی طرف مائل ہوئے،ان میں عباس بن عبدالمطلب فضل بن عباس،زبیر بن عوام بن عاص(یہی نام چھپی ہوئی کتاب میں لکھا ہے)خالد بن سعید،مقداد بن عمرو،سلمان فارسی،ابوذر غفاری،عمار بن یاسر،براءبن عازب اور اُبی بن کعب تھے،(۱)

ابوبکر کی بیعت کے مخالفین میں فردہ بن عمر انصاری بھی تھے،یہ بڑی قدآور شخصیت تھی اور راہِ خدا میں جہاد کرنےوالے شہسواروں کے سردار تھے،ہر سال اپنے باغ کی کھجوروں میں سے ایک ہزار وسق صدقہ نکالتے تھے،اپنی قوم کے سردار اور شاعر تھے،آپ امیرالمومنین ؑ کے اصحاب میں سے تھےآپ نے جنگ جمل میں مولائےکائنات ؑ کی حمایت میں جہاد کیا تھا ۔(۲)

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ جب ابوبکر کی بیعت ہوگئی تو بنی تیم کے لوگ(ابوبکر کا قبیلہ بھی تیم تھا)فخر کرنے لگے،یہ بیان محمد بن اسحاق کا ہے حالانکہ مہاجرین کو اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہی صاحب الامر ہیں انصار کےنمایاں افراد کو بھی اسی بات کا یقین تھا ۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ یعقوبی ج:۲ص:۱۲۴،روایت سقیفہ بنی ساعدہ اور ابوبکر کی بیعت)

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۲۸۔۲۹

(۳)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۲۱

۲۳۴

انصار کی کوشش کہ سعد بن عبادہ کی بیعت ہوجائے

میرا خیال ہے کہ((اور یہ خیال حقیقت سے بہت قریب بھی ہے کہ))انصار مدینہ نے سعد بن عبادہ کی بیعت کی تجویز اس لئے رکھی تھی کہ وہ دیکھ رہے تھے کہ اگر وہ خلافت پر قبضہ کرنے میں جلدی نہیں کریں گے تو قریش مسند خلافت مارلے جائیں گےپھر قریش ہی حاکم ہوں گے اور انصار محکوم انصار کی یہ پیشکش علی ؑ کے خلاف نہیں تھی اور نہ اس لئے تھی کہ انصار نص سے ناواقف تھے بلکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ قریش خلافت کی لالچ میں نص کی مخالفت کررہے ہیں علی ؑ سے محض بغض و عناد کی وجہ سے خلافت کو غصب کرلینا چاہتے ہیں،علی ؑ کے اسلامی کارنامے یعنی علی ؑ کا راہِ خدا میں جہاد،قریش کو ان کے کفر کی وجہ سے سزا دیتا و غیرہ،قریش کے دل میں علی ؑ کےبغض کو پیدا کرچکا ہے حالانکہ علی ؑ ہی وہ ہیں جن کی حکومت نبی ؐ کی حکومت سمجھی جاتی ہے،علی ؑ ہی وہ ہیں جنہوں نے کفارِ قریش کا خون بہایا ہے،ان کی بنیادیں کھودی ہیں اور ذاتِ باری تعالی کے معاملے میں سب سے سخت ہیں،علی ؑ احکام و حدودِ الٰہی کے سخت پابند ہیں اور بغیر کسی رعایت،محبت یا رخصت کے حدود الہیہ کو جاری کرنےمیں سب سے آگے ہیں ۔

منافقین و طلقاء کی کارستانیاں

علیؑ کے بارے میں حکم نبیؐ کی مخالفت اور علیؑ کی وجہ سے نبیؐ کی طرف بُغض کےآثار نبیؐ کی زندگی ہی میں دکھائی دینےلگے،منافقین طلقا اور ان کے حلیفوں نے اپنی سازشوں کے جال،حیات پیغمبر ہی میں پھیلا دیتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے وادی عقبہ کےمشہور واقعہ میں نبیؐ کو مارڈالنے کی کوشش کی،دوسرےسوال کے جواب میں اس واقعہ کو بیان کیا جاچکا ہے،اسی طرح انہوں نے مختلف مقامات پر حکم پیغمبرؐ سے تجاہل برتا،نبیؐ جیش اسامہ میں جانے پر باربار حکم دیتے رہے اور یہ لوگ مدینے میں بیٹھے رہے اور حکم نبیؐ کو نہیں مانا۔

آخر وقت میں نبی ؐ کو ایسی تحریر دینے سے روکدیا جو انھیں گمراہی سے بچاسکتی تھی،دوسرےسوال کے جواب میں اس کی طرف بھی اشارہ کیا جاچکا ہے ۔ غدیر خم میں جب آپ پہونچے تو ان لوگوں نے آپ کی مخالفت کی حضرت ؐ نے اس بات کا شدت سے احساس کیا اور ان لوگوں کو یہ کہہ کےتنبیہ فرمائی

۲۳۵

کے اے لوگوں میرےدستور تہماری مخالفت اور کنارہ کشی مجھے بہت ناگوار گذرتی ہے مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ تمہارےدل میں میرے خاندان کی طرف سے سب سے زیادہ بغض بھرا ہواہے،(۱) جب آپ مکہ مکرمہ سےواپس آئےتو لوگ آپ سے اجازت لےکےجانےلگے،آپ نے ان کو جازت تو دیدی لیکن یہ بھی فرمایا:کہ آخر بات کیا ہے،میرے خاندان کے لوگ دوسرے خاندانوں سےزیادہ تہمارا بغض جھیل رہے ہیں ۔(۲) لوگ اہل بیت ؑ سے علانیہ بغض و عداوت کا اظہار کرنےلگےتھے،چنانچہ ابن عباس حضور ؐ کی خدمت میں آئے اور کہنےلگے اے خدا کےرسول ؐ ہم جب باہر نکلتے ہیں تو قریش کو آپس میں بات کرتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن قریش ہمیں دیکھتے ہی خاموش ہوجاتے ہیں،یہ سن کر حضور ؐ غضبناک ہوئے(۳) دوسری روایت میں ہےکہ جب قریش آپس میں ایک دوسرے سے ملتے تھے تو مسکراتے ہوئے چہروں کے ساتھ لیکن جب ہم(عباس بن عبدالمطلب)لوگوں سے ملتے ہیں تو ان کا منہ لوح جاتا ہےیہ سن کر حضور ؐ غضبناک ہوئے ۔(۴) اس طرح کے بہت سارےشواہد ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ حکم پیغمبر سے برابر تجاہل کرتے تھے،انہوں نے حیات پیغمبر ؐ ہی میں پختہ ارادہ کرلیا تھا کہ خلافت اہل بیت ؑ کے ہاتھ نہیں لگنےدیں گے ۔ اس خیال کو دو باتوں سے مزید تقویت مل رہی تھی،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) تاریخ دمشق ج: ۴۲ ص: ۲۲۷ ،العمدۃ لابن بطریق ص: ۱۰۷ ،مسند شامیین طبرانی ج: ۳ ص: ۲۲۳ ،روایت قبیصہ جابر انصاری سے

( ۲) صحیح ابن جبان ج: ۱ ص: ۴۴۴ ،باب فرض ایمان مسند احمدج: ۴ ص: ۱۶ ،مجمع الزوائدج:آـ ۲۰ ،کتاب ایمان ج: ۱۰ ص: ۴۰۸ ،مسند طیاسی ص: ۱۸۲ ،الاحاد و المثانی ج: ۵ ص: ۲۴ ،معجم الکبیرج: ۵ ص: ۴۹ ۔ ۵۰ ۔ ۵۱ ،شعب الایمان ج: ۱ ص: ۳۶۴ ،حلیۃالاولیاءج: ۶ ص: ۲۸۶ ،تھذیب الکمال ج: ۹ ص: ۲۰۸ ،موضح اوھام الجمع و التفریق ج: ۲ ص: ۵۲۰ ،موارد ظمان ج: ۱ ص: ۳۲)

( ۳) مسنداحمدج: ۴ ص: ۱۶۵ ،تفسیر ابن کثیرج: ۴ ص: ۱۱۴ ،مجمع الزوائدج: ۱ ص: ۸۸ کتاب الایمان ج: ۹ ص: ۱۷۰ ،مسند البرازج: ۶ ص: ۱۳۱ ،مسندالمطلب بن ربعیہ ج: ۲ ص: ۹۱۸ معجم الصحابہ ج: ۲ ص: ۱۱۹۴ المعجم الاوسط ج: ۵ ص: ۵۲ ،ج: ۷ ص: ۳۷۳ ،المعجم الصغیرج: ۱ ص: ۳۹۹ ،سیراعلام النبلاءج: ۲ ص: ۸۸ ،ج: ۱۲ ص: ۱۵۶ ،تھذیب الکمال ج: ۳۳ ص: ۳۴۰ ،تاریخ بغدادج: ۳ ص: ۳۷۶)

( ۴) المستدرک علی صحیحین ج: ۳ ص: ۳۷۶ ،کتاب معرفت الصحابہ ج: ۵۴ ص: ۸۵ ،السنن الکبری للنسائی ج: ۵ ص: ۵۱ ،کتاب مناقب،فضائل علیؑ سنن ترمذی ج: ۵ ص: ۶۵۲ ،کتاب کتاب المناقب:مصنف لابن ابی شیبۃ ج: ۶ ص: ۳۸۲ ،مسند البراز،ج: ۴ ص: ۱۴۰ ،المعجم الکبیرج: ۲۰ ص: ۲۸۴ ۔ ۲۸۵ ،تعظیم قدرالصلاۃج: ۱ ص: ۴۵۳ ۔ ۴۵۵ ،تھذین الکمال ج: ۱۴ ص: ۲۲۸ ،فضائل الصحابہ للنسائی ص: ۲۲

۲۳۶

آنےوالےفتنوں کےبارےمیں رسول خدا ؐ کی پیشین گوئیاں

۱ ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن مجید کی طرف سے اور خود سرکارِ دو عالم ؐ کی طرف سے مسلسل آنےوالے فتنوں کی پیشین گوئی کی جارہی تھی اور ان سے بچنے کی ہدایت دی جارہی تھی یہ بتایا جارہا تھا کہ فتنے بہرحال واقع ہوں گےاور بہت سخت دور آئےگا،دوسرے سوال کےجواب میں اس سلسلے میں کچھ عرض کیا جاچکا ہے،قرآن،پیغمبر ؐ کےرویائے صادقہ پر آپ کو تسلی دیتا ہوا کہتا ہے میں نے آپ کے خواب کو صرف لوگوں کے لئے ایک فتنہ قرار دیا ہے اور قرآن قرآن میں شجرہ ملعونہ بھی ہے اور ہم انہیں ڈ راتے ہیں مگر وہ اپنی سرکشی میں اضافہ ہی کرتےجاتے ۔(۱) یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب پیغمبر ؐ نے خواب میں دیکھا تھا کہ کچھ لوگ بندوں کی طرح آپ کے منبر پر اچھل کود کررہے ہیں ۔(۲)

آنحضرت ؐ دین اور اہل بیت ؑ پر آنےوالی مصیبتوں اور حکومت کےانحراف کی خبر باربار دیتے رہے

آپ ؐ نےفرمایا:اس امت کی ہلاکت قریش کے لون ڈ وں کے ہاتھوں ہوگی ۔(۳)

حضرت ؐ نےفرمایا:تم ضرور اسلام کے ہر بندھن کو توڑ دوگےاور جب بھی کوئی بندھن ٹوٹےگا تم اسی فرقے کےہوجاؤگے،تم سب سے پہلا بندھن حکومت کا اور آخری بندھن نماز کا توڑوگے ۔(۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ اسراء،آیت: ۶۰)- ( ۲) تفسیر قرطبی ج: ۱۰ ص: ۲۸۳ ۔ ۲۸۲ ،تفسیرطبری ج: ۱۵ ص: ۱۱۲ ۔ ۱۱۳ ،تفسیرابن کثیرج: ۳ ص: ۵۰ ،تاریخ طبری ج: ۵ ص: ۶۳۴ ،شرح نہج البلاغہ ج: ۹ ص: ۲۲۰ ،مجمع الزوائدج: ۵ ص: ۲۴۳ ۔ ۲۴۴ ،مسند ابی یعلی ج: ۱۱ ص: ۳۴۸ ۔علل متناھیہ ج: ۲ ص: ۷۰۱ ،مستدرک صحیحین ج: ۴ ص: ۵۲۷ ،کنزالعمال ج: ۱۱ ص: ۳۵۸ ،حدیث: ۳۱۳۷ ،سیرہ اعلام النبلاءج: ۲ ص: ۱۰۸) ( ۳) اس کا حوالہ گذشتہ سوال کے جواب میں گذرچکا ہے)

( ۴) صحیح ابن حبان ج: ۱۵ ص: ۱۱۱ ،آپ کی امت کےدرمیان جو کچھ حوادث اور فتن رونما ہوں گےکےبارے میں خبریں،مجمع الزوائدج: ۷ ص: ۲۸۱ ،کتاب الفتن،مسنداحمدج: ۵ ص: ۲۵۱ ،موارد الظمان ج: ۱ ص: ۸۷ ،کتاب الصلاۃ،جس نے نماز کی پابندی کی اور جس نے اسے ترک کردیا کے بیان میں المعجم الکبیرج: ۸ ص: ۹۸ ،شعب الایمان،ج: ۴ ص: ۳۲۶ ،ج: ۶ ص: ۶۹ ،فصل جماعت اور رکعت کی فضیلت،اور تفرقہ سے کراہت کے بیان میں،مسندالشامیین ج: ۲ ص: ۴۱۱ ،السنۃ عبداللہ بن احمد ج: ۱ ص: ۳۵۶ ،الترغیب و الترہیب ج: ۱ ص: ۲۱۶ ،تعظیم قدر الصلاۃ ج: ۱ ص: ۴۱۵ ،الفردوس بماثورالخطاب ج: ۲ ص: ۴۴۵ ،فیض القدیرج: ۵ ص: ۳۹۹ ۔ ۲۶۳ ،اور اس کے علاوہ مصادر،

۲۳۷

حضرت ؐ فرمایا:دیکھو!اسلام کی چکی چل چُکی ہےاسے کتاب خدا کے ساتھ ہی چلاتے رہو ۔

خبردار ہوجاؤ!کہ سلطنت اور کتاب میں ہونےوالی ہے،جب ایسا ہوتو تم کتابِ خدا سے جُدا مت ہونا ۔(۱)

آپ ؐ نے امیرالمومنین ؑ سے فرمایا:امّت میرے بعد تم سےغدّاری کرےگی،(۲) امیرالمومنین ؑ نےدیکھا پیغمبراعظم ؐ رورہے ہیں آپ نےرونے کا سبب پوچھا تو حضور ؐ نےفرمایا:اس قوم کےدل تمہاری طرف سےکینوں سےبھرے ہوئے ہیں اور یہ کینے ظاہر نہیں کریں گےمگر میرےبعد،(۳) آپ نے بنی ہاشم سےفرمایا:تم میرےبعد کمزور بنادیئے جاؤگے(۴)

اورآپ ؐ نے انصار سےفرمایا:میرےبعد تم لوگ نشانہ انتقام بنوگے ۔(۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) مجمع الزوائدج: ۵ ص: ۲۳۸ ،مسند شامیین ج: ۱ ص: ۳۷۹ ،معجم صغیرج: ۲ ص: ۴۲ معجم کبیرج: ۲۰ ص: ۹۰ ،فیض قدیرج: ۳ ص: ۵۳۴ حلیۃ الاولیاءج: ۵ ص: ۱۶۵)

( ۲) اس کا حوالہ تیسرےسوال کےجواب میں گذرچکا ہے)

( ۳) مجمع الزوائدج: ۹ ص: ۱۱۸ مسند البرازج: ۲ ص: ۲۹۳ ،مسند ابی یعلی ج: ۱ ص: ۴۲۶ ،معجم کبیرج: ۱۱ ص: ۷۳ ،تاریخ بغدادج: ۱۲ ص: ۳۹۸ ،میزان الاعتدال ج: ۵ ص: ۴۳۱ فضل بن عمیرہ قیسمی کےحالات میں،ج: ۷ ص: ۳۱۵ ،الکامل فی ضعفاءالرجال ج: ۷ ص: ۱۷۳ ،تھذیب الکمال ج: ۲۳ ص: ۲۳۹ ،علل متناہیہ ج: ۱ ص: ۳۴۳ ۔ ۲۴۴ ،تاریخ دمشق ج: ۴۲ ص: ۳۲۲ ۔ ۳۲۳ ۔ ۳۲۴)

( ۴) مجمع الزوائدج: ۹ ص: ۳۴ ،مسنداحمدج: ۶ ص: ۳۳۹ ،معجم کبیرج: ۲۵ ص: ۲۳ ،الفردوس بما ثور الخطاب ج: ۱ ص: ۳۹۴)

( ۵) صحیح بخاری ج: ۳ ص: ۱۳۸۱ ،کتاب فضائل الصحابہ،باب رسول اکرم کا قول ہماری ملاقات تک صبر کرو،ج: ۴ ص: ۱۵۷۴ ،کتاب المغازی،باب غزوہ الطائف،صحیح مسلم ج: ۲ ص: ۷۳۸ ،کتاب الزکوٰۃ،صحیح ابن حبان ج: ۱۶ ص: ۲۶۴ ،صحابہ اور تابعین کے فضائل کے باب میں،الاحادیث المختارۃ،ج: ۴ ص: ۲۷۲ ،مسند ابی عوانۃ ج: ۴ ص: ۴۱۵ ،مجمع الزوائدج: ۱۰ ،ص: ۳۳ ۔ ۳۱ ،السنن الکبریٰ بیہقی ج: ۶ ص: ۳۳۹ ،مسنداحمدج: ۳ ص: ۱۱۱ ۔ ۱۶۷ ۔ ۱۷ ،مسند ابن مالک کی ج: ۴ ص: ۴۲ ،پر عبداللہ بن زید بن عاصم المازنی کی حدیث،ص: ۲۹۲ ،پر اور براء بن عازب کی حدیث، ۴ ص: ۳۵۲ ،مسند رویانی ج: ۲ ص: ۱۸۳ ،المعجم الکبیرج: ۱ ص: ۲۰۸ ،السنن الواردۃ فی الفتن ج: ۱ ص: ۲۰۳ ،البیان و التعریف،ج: ۱ ص: ۳۵۲ ،مسند رویانی ج: ۲ ص: ۱۸۳ ،المعجم الکبیرج: ۱ ص: ۲۰۸ ،السنن الواردۃ فی الفتن ج: ۱ ص: ۲۰۳ ،البیان و التعریف،ج: ۱ ص: ۲۵۴ ،سیر اعلام النبلاءج: ۲ ص: ۴۵۲ ،فضائل الصحابۃ ابن حنبل ج: ۲ ص: ۸۰۸ ،وغیرہ منابع،

۲۳۸

نبی اعظم ؐ اور مولائے کائنات ؑ منافقین کے ٹکراؤ سے بچتے تھے

۲ ۔ انص ٓ ر یہ بھی دیک ھرہے تھے کہ سرکارِ دو عالم ؐ اور مولائے کائنات ؑ منافقین اور طلقا سے تا حدامکان ٹکرانا نہیں چاہتے ہیں اور ان سے اُلجھنا نہیں چاہتے ہیں،دونوں حضرات ان لوگوں کو سزا نہیں دینا چاہتے اس لئے کہ اس سے خواہ مخواہ کا فتنہ اُٹھ کھڑا ہوگا،معاملات بگڑ جائیں گے اور فضول باتیں پیدا ہوں گی مثلاً السام کے چہرے کو بگاڑنےکی کوشش،نبی ؐ اور آلِ نبی ؐ کی توہین،اس کےعلاوہ دعوت اسلام کو بھی جلد یا دیر سے ایسا نقصان پہنچےگا جس کا تدارک ممکن نہیں ہوگا،شواہد ملاحظہ ہوں ۔

کیس صحابی نےعرض کیا کہ حضور ؐ !جن لوگوں نےوادی عقبہ میں آپ کو قتل کرنا چاہا تھا اُن کےنام ظاہر کر کےانہیں قتل کردیں آپ نے فرمایا:میں اس بات کو مکروہ سمجھتا ہوں کہ عرب کہیں:محمد ؐ نے ایک قوم کی مدد سے دشمنوں پر فتح حاصل کی اور جب فتحیاب ہوگئے تو اُسی قوم کو قتل کرنا شروع کردیا(۱) اسی طرح جب لوگوں نے عبداللہ بن اُبی کے قتل کا مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا:لوگ یہ نہ کہنے لگیں کہ محمد ؐ پنے ہی اصحاب کو قتل کررہے ہیں(۲) ان واقعات کے علاوہ بھی بہت سے موقع آئے جب انصار نے دیکھا کہ مولائے کائنات ؑ اور حضور سرورِ دو عالم ؐ ،منافقین اور یاکاروں سے چشم پوشی کرتے ہیں اور حتی الامکان ان سے اُلجھنا نہیں چاہتے،یہ تمام باتیں دیکھ کے انصار یہ سمجھ گئے کہ قریش اور اُن کے ہم خیال لوگ موقعہ کی تلاش میں ہیں اور آج موقعہ ملا ہے تو علی ؑ سے حکومت کو چھین لینا چاہتے ہیں،اس لئے انصار نے یہ سوچا کہ جب علی ؑ کے ہاتھ میں حکومت رہنی ہی نہیں ہے تو کیوں نہ پہلے ہم کوشش کریں اور قریش کے لئے راستہ بند کردیں،اس لئے کہ انصار کو یہ توقع تھی کہ اگر خلافت کا پلّہ جُھکا اور خلافت اپنے مرکز سے ہٹی تو منافقین اور طلقا اس پر قابض ہوکے حاکم بن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) تفسیر ابن کثیرج: ۲ ص: ۳۷۳ ،سبل الہدی و الرشادج: ۵ ص: ۴۶۷ ،الدر المنثور ج: ۴ ص: ۲۴۴ ،روح المعانی ج: ۱۰ ص: ۱۳۹)

( ۲) تاریخ المدینہ ج: ۱ ص: ۲۶۶ اور اسی طرح ص: ۳۶۰

۲۳۹

جائیں گے اور چونکہ انصار نے قریش کے خلاف سرکارِ دو عالم ؐ کی نصرت کی ہے اس لئے یہ عرب کے بُدّواں سے انتقام لینے میں ذرا بھی سُستی نہیں کریں گے اور نصرت پیغمبر ؐ کی سزا بلکہ سخت ترین سزا دیں گے ۔

اگر انصار یہ سمجھ لیتے کہ خلافت امیرالمومنین ؑ ہی کے ہاتھ مٰں ہے تو بہت ممکن تھا کہ وہ مولائے کائنات ؑ پر غالب آنے کی اور آپ سے خلافت چھیننے کی،نیز نص وارد سے تجاہل کی کوشش نہیں کرتے،میرے اس خیال کی شہادت وہ واقعات دیتے ہیں جنہیں مورخین نے((احداثِ سقیفہ))کے عنوان سے لکھا ہے اور اہلِ حدیث نے جن کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

انصار کے آرا اور ان کے نظریے

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ جوہری نے اپنی کتاب((السقیفہ))میں لکھا ہے کہ ابوبکر نے انصار کو خطاب کر کے بتایا کہ((مہاجرین قریش))انصار سے زیادہ خلافت کے مستحق ہیں تو انصار نے ان کا جواب دیا،خدا کی قسم ہم اس خَیر کی وجہ سے تم سے حسد نہیں کرتے جو خیر خدا نے تم تک پہنچایا ہے،تم سے زیادہ ہمارا کوئی محبوب ہے نہ پسندیدہ،بلکہ ہم مستقبل سے خوف زدہ ہیں اور اس بات سے ڈ رتے ہیں کہ کہیں یہ امر ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں نہ پہنچ نائے جو نہ ہم میں سے ہیں اور نہ تم میں سے ۔(۱)

دوسری روایت میں ہے کہ حباب بن منذر کھڑے ہوئے یہ بدری صحابی تھے،انہوں نے کہا:ایک ہم میں سے امیر ہوجائے،ایک تم میں سے،اے لوگو!ہم تم سے اس امر کو الگ نہیں کرنا چاہتے،ہمیں خوف ہے تو اس بات کا کہ کہیں اس حکومت پر وہ لوگ نہ غالب آجائیں جن کے باپ،بھائیوں کو ہم نے قتل کیا ہے ۔

عمر بولے:اگر ایسا ہوا تو میں اس کی مخالفت بھرپور طریقے سے کروں گا ۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۷۔۸،

(۲)انساب الاشراف ج:۲ص:۲۶۰طبقات الکبری ج:۳ص:۱۸۲،تاریخ دمشق ج:۳۰ص:۲۷۵شرح نہج البلاغہ ج:۲ص:۵۳،کنزالعمال ج:۵ص:۶۰۶حدیث:۱۴۰۷۲

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367