فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ15%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206524 / ڈاؤنلوڈ: 6000
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

تیسری روایت میں ہے کہ حباب کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم تجھ سے یا تیرے اصحاب سے حسد نہیں کرتے ہم تو اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں وہ لوگ خلافت پر قابض نہ ہوجائیں جنہیں ہم نے قتل کیا ہے،پھر تو وہ لوگ ہم سے بدلہ لینا شروع کردیں ۔(۱)

ایک دوسرے روایت میں ہے کہ حباب نے انصار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:تم لوگ مجھے خاموش رہنے کی تلقین کر رہے ہو،بہرحال تم نے تو انجام پر غور کئے بغیر جو سمجھ میں آیا کیا لیکن میں خدا کی قسم مستقبل پر غور کر رہا ہوں کہ تمہاری اولاد ان کے دروازوں پر دستک دیکے پانی مانگے گی اور وہ انہیں سیراب کرنے سے انکار کردیں گے ابوبکر بولے:حباب تم کس وقت سے ڈ ر رہے ہو؟حباب نے کہا تم سے نہیں ڈ رتا،تمہارے بعد آنے والے لوگوں سے خوف زدہ ہوں،ابوبکر نے کہا:اگر ایسا ہوا اور تم وہ باتیں دیکھنے لگو جن کو تم نہیں چاہتے ہو تو پھر اختیار تمہارے ہاتھ میں دےدیں گے،حباب نے کہا:ابوبکر افسوس تو اسی کا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکےگا،میں تو اس وقت کی بات کر رہا ہوں جب نہ تم ہوگے نہ ہم ہوں گے اور ہمارے بعد وہ قوم آئے گی جو ہمارے بیٹوں کو سخت عذاب میں گرفتار کرے گی اور خدا ہی اسی سے طلبِ استعانت ہے ۔(۲)

انصار و غیرہ نے خلافت کے لئے امیرالمومنین ؑ کا نام لیا

یعقوبی کہتا ہے کہ سقیفہ میں جب ابوعبیدہ کی بیعت کی تجویز اور عمر کی طرف سے ابوبکر کی بیعت کی تجویز رکھی گئی تو عبدالرحمٰن بن عوف کھڑے ہوئے اور کہنے لگے:اے گروہ انصار اگر چہ تم صاحبِ فضیلت ہو لیکن ابوبکر،عمر اور علی ؑ کی طرح نہیں ہو،یہ سن کر منذر بن ارقم کھڑے ہوئے اور کہنے لگے تم نے جن کا ذکر کیا ہم ان کی فضیلت کے منکر نہیں ہیں،اس لئے کہ ان مذکورہ لوگوں میں ایک شخص ایسا ہے کہ اگر وہ خلافت کا مطالبہ کرے تو اس سے کوئی اختلاف کرےگا،نہ جھگڑا،ان کی مراد علی بن ابی طالب ؑ سے تھی ۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)انساب الاشراف ج:۲ص:۲۶۳،امر سقیفہ (۲)الفتوح لابن اعثم ج:۱ص:۱۰۰۔۱۱۱،خبر سقیفہ (۳)تاریخ یعقوبی ج:۲ص:۱۲۳،خبر سقیفہ اور بیعت ابوبکر

۲۴۱

ابن ابی الحدید،زبیر بن بکار سے روایت کرتے ہیں کہ جب ابوبکر کی بیعت ہوگئی تو ایک جماعت نے ابوبکر کو جلوس کی شکل میں لیکے مسجدِ نبوی تک پہنچا دیا اور ان کے پاس بیٹھے رہے،جب دن ختم ہونے لگا تو لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے،پس انصار کا ایک گروہ جمع ہوا اور مہاجرین کا ایک گروہ جمع ہوا اور دونوں ایک دوسرے سے غصّہ ہونے لگے،غصّہ کی بنیاد سقیفہ تھی،عبدالرحمٰن بن عوف کہنے لگے:اے گروہِ انصار اگر چہ تم صاحبِ فضیلت ہو،نصرتِ پیغمبر ؐ میں سبقت کرنے والے اور سابق الایمان ہو لیکن تم میں ابوبکر،عمر،علی ؑ اور ابوعبیدہ جیسا کوئی نہیں ہے،زید بن ارقم نے جواب دیا:اے عبدالرحمٰن!جن کی فضیلت کا تم نے ذکر کیا،ہم ان کے منکر نہیں ہیں،لیکن سیدالانصار سعد ابن عبادہ تو ہمیں میں سے ہیں تم نے قریش کے جن لوگوں کا نام لیا،ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے ایک شخص ایسا ہے جو اگر خلافت اپنے لئے طلب کرے تو اس سے کوئی جھگڑا نہیں کرےگا یعنی علی ابن ابی طالب ؑ۔(۱)

ابن اعثم نے عبدالرحمٰن اور زید بن ارقم کی گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے آخر میں لکھا ہے کہ زید بن ارقم نے کہا:عبدالرحمٰن!اگر علی ابن ابی طالب اور دوسرے بنوہاشم تدفینِ نبی ؐ میں مصروف نہ ہوتے اور آپ کے لئے غمگین ہوکے اپنے گھروں میں بیٹھے نہ ہوتے تو امرِ خلافت کی طرف کسی کی بھی پُر ہوس نگاہیں نہ اٹھتیں اور اس کی لالچ میں کوئی نہیں پڑتا،جاؤ لیکن اپنے اصحاب کو ایسی چیز کے بارے میں ہیجان میں مبتلا نہ کرو جس کا تم مقابلہ نہیں کرسکتے ۔(۲)

طبری اور ابن اثیر کہتے ہیں کہ سقیفہ میں جب ابوعبیدہ،ابوبکر اور عمر کی بیعت کا معاملہ اٹھا تو عمر نے فوراً ابوبکر کی بیعت کر لی اور دوسرے حاضرین نے بھی بیعت کرلی،اسی وقت انصار بولے یا انصار کی نمائندگی کرتا ہوا کوئی انصاری بولا ہم تو سوائے علی ؑ کے کسی کی بیعت نہیں کریں گے ۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۱۹۔۲۰

(۲)الفتوح الابن اعثم ج:۱ص:۱۲)

(۳)تاریخ طبری ج:۲ص:۲۳۳،روز وفات رسول خداؐ،الکامل فی التاریخ ج:۲ص:۲۲۰،خبر سقیفہ اور بیعت ابوبکر،چاپ۱۳۴۸سنہمطبعہ منیریۃ

۲۴۲

صحابہ کی جماعت کے نمایاں افراد علی ؑ کی طرف مائل تھے

ابن ابی الحدید جوہری کے حوالہ سے ان کی سندوں کے ساتھ جریر بن مغیرہ سے روایت کرتے ہیں کہ سلمان،زبیر اور انصار کی خواہش تھی کہ نبی ؐ کے بعد علی ؑ ہی کی بیعت کی جائے ۔(۱) اسی طرح دوسرے مورخین نے بھی لکھا ہے کہ مولائے کائنات ؑ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ گھر میں بیٹھ گئے یہاں تک کہ ابوبکر کی ایک جماعت نے ان پر ہجوم کیا ۔(۲)

ابن ابی الحدید جوہری کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ علی ؑ کے گھر میں بہت سے آدمی تھے ۔(۳)

انصار ابوبکر کی بیعت کرکے پچھتا رہے تھے

یہ بات بھی سبھی جانتے ہیں کہ اگر چہ انصار کی اکثریت نے ابوبکر کی بیعت کرلی تھی،اس کے باوجود ابن ابی الحدید،زبیر بن بکار کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ جب ابوبکر کی بیعت ہوگئی اور جب ابوبکر کا معاملہ سُلجھ گیا تو انصار کے کثیر افراد ابوبکر کی بیعت کر کے پچھتا رہے تھے اور ایک دوسرے کو ملامت کر رہے تھے،وہ امیرالمومنین ؑ کا نام لے رہے تھے اور آپ کا نام لیکر فریاد کر رہے تھے،حالانکہ مولائے کائنات ؑ اپنے گھر میں بیٹھے تھے اور باہر نہیں نکل رہے تھے(انصار کی اس بیزاری کی جہ سے)وہ مہاجرین جو ابوبکر کے ساتھ تھے اور وہ لوگ جو فتحِ مکہ کے دن مہمان ہوئے تھے اور جن کا انصار اور اسلام نے خون بہایا تھا،تنگ ہونے لگے اس موقعہ پر بہت سی باتیں ہوئیں بہت سی تقریریں ہوئیں اور بہت سے اشعار نظم کئے گئے ۔(۴)

جوہری،ابوسعید خدری سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے برا بن عاذب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۲ص:۴۹ج:۶ص:۴۳

(۲)ریاض الغضرہ،ج:۲ص:۲۰۵۔۲۰۶،ص:۱۲۳۔۱۲۵،تاریخ یعقوبی ج:۲ص:۱۲۶،الامامۃ و السیاسۃ ج:۱ص:۱۶،العقد الفرید ج:۴ص:۲۴۲،العسجدۃ الثانیۃ

(۳)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۴۸

(۴)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۲۳یعقوبی فی التاریخ ج:۲ص:۱۲۵

۲۴۳

کو کہتے ہوئے سنا کہ میں ہمیشہ بنی ہاشم سے محبت کرتا رہا،جب سرکارِ دو عالمؐ کی وفات ہوئی تو مجھے ڈر ہوگیا کہ قریش امرِ خلافت کو بنی ہاشم سے نکال لے جائیں گے تو میری حالت کسی جلد باز عاشق جیسی ہوگئی،پھر ہو(برا ابن عاذب)بیعت ابوبکر کا ذکر کرتے ہیں،یہاں تک کہ میں(برا بن عاذب)بنی بیاضہ کے میدان میں پہنچا تو دیکھا کہ کچھ لوگ آپس میں راز داری کی باتیں کر رہے ہیں،میں جب ان کے قریب پہنچا تو وہ لوگ خاموش ہوگئے،میں وہاں سے چلنے لگا،انہوں نے مجھے پہنچان لیا تھا لیکن میں نے انہیں نہیں پہچانا تھا،تو انہوں نے مجھے اپنے پاس بلایا،میں اُن کے پاس گیا تو دیکھا کہ وہاں مقداد بن اسود،عبدادہ بن صامت،سلمان فارسی،ابوذر،حذیفہ اور ابوھثیم بن تیہان تھے،حذیفہ کہہ رہے تھے کہ میں نے تمہیں جو بات بتائی ہے وہ ہو کر رہے گی،بخدا میں نے نہ جھوٹ بولا نہ مجھے جھٹلایا گیا،پھر کہا جا کے اُبی بن کعب سے پوچھ لو،ان کو بھی وہ سب کچھ معلوم ہے جو مجھے معلوم ہے،برا کہتے ہیں:پس ہم لوگ اُبی بن کعب کے پاس پہنچے اور ان کے دروازے پر دستک دی،انہوں نے اندر سے پوچھا تم لوگ کون ہو اور تمہاری ضرورت کیا ہے،ہم نے کہا:دروازہ کھولو بات ایسی نہیں ہےکہ پردہ کے پیچھے سے ہو،وہ بولے دروازہ تو میں نہیں کھولوں گا،البتہ تم جس کام کے لئے آئے ہو میں جان گیا ہوں،لگتا ہے تم امرِ خلافت کے بارے میں بات کرنے کے لئے آئے ہو،ہم نے کہا:ہاں!وہ کہنے لگے کیا تم میں حذیفہ بھی ہیں ہم نے کہا:ہاں،وہ کہنے لگے جو وہ کہہ رہے ہیں وہی صحیح ہے،خدا کی قسم میں تو اپنا دروازہ نہیں کھولوں گا جب تک حالات اسی طرح چلتے رہیں گے،اس کے بعد تو اس سے بُری حالت ہونےوالی ہے،میں تو خدا ہی سے شکوا کرتا ہوں۔(۱)

امیرالمومنین ؑ کو کمزور کرنے کی کوشش میں عباس کا استعمال

ابوبکر کی بیعت کو صحابہ بُرا کہہ رہے تھے اور اُسے توڑنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے،اسی وجہ سے ابوبکر نے ارادہ کیا کہ امیرالمومنین ؑ کو کمزور کریں اور آپ ؑ کے خاندان میں پُھوٹ ڈ ال دیں،سازش

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) شرح نہج البلاغہ ج: ۲ ص: ۵۱ ۔ ۵۲

۲۴۴

یہ تھی کہ عباس اور اولاد عباس کو خلافت میں کچھ اختیاردے کر اپنی طرف ملالیں تاکہ وہ لوگ امیرالمومنین سے رشتہ توڑ کر اور آپ کو چھوڑ کران کی طرف ہوجائیں ، ابوبکر نے عباس سے کہا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ کچھ لوگ مسلمانوں کی عام روش سے ہٹ کے باتیں کررہے ہیں انہوں نے تم لوگوں کو اپنی پناہ گاہ بنا رکھا ہے ، تم (بنوھاشم)ان لوگوں کے لئے مضبوط قلعہ اور ان کی حمایت میں بولنے والے شاندار خطیب ہوگئے ہو،ہو تو سنو !یا تو اس میں داخل ہوجاؤ جس میں سب لوگ داخل ہوئے ہیں (یعنی میری خلافت مان لو) یا پھر لوگوں کو جس کی طرف وہ مائل ہوگئے ہیں اس سے باز رکھو ہم تمھارے پاس آئے ہیں کہ تمھارے لئے امر خلافت میں سے کچھ حصہ دیدیں جو تمھارے بعد تمھاری اولادکے بھی کام آئے-

اس کے بعد عمرنے گفتگوشروع کی اور انہوں نے بھی ابوبکر کی تصدیق کی ، عمرنے کہا:ہم تمھارے پاس کسی ایسی ضرورت کے لئے نہیں آئے ہیں ،لیکن ہمیں یہ برا لگتا ہے کہ مسلمان کی جماعت جس بات پر مجتمع ہوچکی ہے تم اس پر طمع کرو اور تمھاری اور ان کی مصبیتیں بڑھ جائیں، عام مسلمانوں کے بارے میں اور اپنے بارے میں ذرا سوچ سمجھ کے چلو(۱)

عباس نے جو ان باتوں کا جواب دیا تھا وہ بھی تیسرے سوال کے جواب میں پیش کیا جاکا ہے-

ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے برسرمنبر ابو بکر کو غلط کہا

شیعہ روایتوں میں ہے کہ مہاجرین وانصار میں سے بارہ آدمیوں نے ابو بکر کو " جب وہ منبر پرجمعہ کا خطبہ دے رہے تھے " غلط کہا ان کے نام یہ ہیں

۱-خالد بن سعیدبن عاصم

۲- مقداد بن اسود

۳- ابی بن کعب

--------------

(۱)شرح نہ ج البلاغہ ج:۱ص:۲۲۰

۲۴۵

۴ ۔ عمار بن یاسر

۵ ۔ ابوذر غفاری

۶ ۔ سلمان فارسی

۷ ۔ بریدہ اسلمی

۸ ۔ خذیمہ بن ثابت ذوالشہادتین

۹ ۔ سہل ابن حنیف

۱۰ ۔ عثمان ابن حنیف

۱۱ ۔ ابوایوب انصاری

۱۲ ۔ ابوہیثم بن تیہان

ان لوگوں نے ابوبکر کو یاد دلایا کہ خلافت کے اصل مسحتق امیرالمومنین علی بن ابی طالب ؑ ہیں،پیغمبر ؐ نے آپ کی خلافت پر نص کیا ہے،انہوں نے ابوبکر کو نصیحت کی اور ہر آدمی نے بہت طویل گفتگو کی جس کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں ہے ۔(۱)

صدیقہ طاہرہ ؐ کا خطبہ اور آپ کا انصار کو خاص طور سے قیام کی دعوت دینا

اسی طرح معصومہ عالم ؐ نے مسجدِ نبوی میں ابوبکر سے براہِ راست فدک کا مطالبہ کیا،مورّخین کا بیان ہے کہ معصومہ ؑ نے ابوبکر سے فدک کا مطالبہ کیا،ان کی خلافت پر اعتراض کیا اور جو کچھ پیغمبر ؐ کے بعد ہوا اس کی مذمّت کی،پھر آپ انصار کی طرف مخاطب ہوئیں اور ان کی بات پر مذمت کی انہوں نے نصرت اہلبیت ؑ سے دست کشی کی،آپ نے انہیں تکلیف شرعی کی طرف متوجہ کر کے اس کو ادا کرنے پر ابھارا،آپ کے لہجہ میں بڑی شدت تھی،آخر کلام میں آپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) بحارالانوار ج: ۲۸ ص: ۱۸۹ ،ذرا سے اختلاف کے ساتھ ملاحظہ ہو،کتاب الخصال باب ۱۲ ،ص: ۴۲۹

۲۴۶

نے فرمایا کہ سقیفہ میں جو کچھ ہوا اور اس کے بعد جو ہو رہا ہے یہ خدا کے خلاف ہے،مصیبتوں کا راغی ہے اور اس کے بارے میں تمام مسلمان سختی سے مسئول ہونگے،آخر میں فرماتی ہیں کہ:میں نے جو کچھ کہا،یہ جان لینے کے بعد کہا کہ تمہارے دل میں ہمیں چھوڑ دینے کا جذبہ بھرچکا ہے اور تمہارے دلوں نے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے لیکن میں نے جو کچھ کہا وہ میرے دل کی بات تھی،غصّہ کی وجہ سے نکلا ہوا جھاگ ہے اور سینہ سے نکلا ہوا بلغم ہے،میں نے کہاتا کہ حجت پوری ہو اور وہ حجت تمہارے سامنے موجود تھی لیکن تم نے اُسے اپنے اونٹ کے پیچھے بٹھادیا،حق کا راستہ چھوڑ کے چلے،ننگ باقی رہا اور ہمیشہ کی بےعزتی کا داغ لگ گیا،وہ بےعزتی جو تمہیں خدا کی بھزکائی ہوئی آگ تک پہنچادےگی((وہ آگ جو دلوں کو جلاتی ہے))تم خدا کی آنکھوں کے سامنے کیا کر رہے ہو عنقریب ظالم لوگوں جان جائیں کہ جس ٹھکانے پہنچنےوالے ہیں،میں اس کی بیٹی ہوں جو تمہیں عذابِ شدید سے ڈ رایا کرتا تھا،پس تم بھی عمل کرو،ہم بھی عمل کر رہے ہیں،تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کررہے ہیں ۔(۱)

خطبہ کی تاثیر توڑنے کے لئے ابوبکر کی چال

معصومہ عالم ؐ نے جو خطبہ دیا اس کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں میں چیخ پُکار مچ گئی،خصوصاً انصار میں آثار اضطراب ظاہر ہوئے اور ان میں تحریک پیدا ہوگئی،ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ:جوہری نے((کتاب السقیفہ))میں لکھا ہے کہ محمد بن زکریا نے کہا:ان سے جعفر بن محمد بن عمارہ نے پہلی اسناد کے ساتھ بیان کیا کہ ابوبکر نے جب یہ خطبہ سُنا تو اُن پر،آپ کی گفتگو بہت گراں گزری،فوراً منبر پر آئے اور کہنے لگے،اے لوگو!یہ سب باتیں کیا ہیں؟یہ باتیں اور یہ خواہش عہد پیغمبر ؐ میں کہاں تھیں؟کسی نے سنا ہے تو کہے اور کوئی شاہد ہے تو بولے،اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)حوالہ تیسرے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے

۲۴۷

ایک لومڑی(اشارہ امیرالمومنین ؑ کی طرف ہے،معاذ اللہ)جس کی دُم(اشارہ معصومہ ؑ کی طرف ہے،معاذ اللہ)اس کے وجود کی گواہ ہے،وہی ہر فتنہ کی پرورش کر رہا ہے،وہی کہہ رہا ہے کہ درخت کے بوڑھے ہونے کے بعد اس میں برگ و بار نکل آئے،وہ کمزوروں سے مدد مانگتا ہے اور عورتوں کی مدد طلب کرتا ہے،اس کے نزدیک محبوب ترین شئی بغاوت ہے،خبردار ہوجاؤ!میں چاہوں تو بول سکتا ہوں اور جب میں بولوں گا تو وہ خاموش ہوجائے گی،اُس نے جو چھوڑ دیا ہے اُس کے بارے میں،میں خاموش ہوں ۔

پھر ابوبکر انصاری کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے:اے گروہِ انصار تمہارے بیوقوفوں کی بات مجھ تک پہنچی،تم عہدِ پیغمبر ؐ کی پابندی کے سب سے زیادہ مستحق ہو وہ تمہارے پاس آئے تو تم نے پناہ دی اور مدد کی،دیکھو جو اس بات کا مستحق نہیں ہے میں اس کے لئے نہ ہاتھ کھولنے والا ہوں نہ زبان،پھر وہ منبر سے اتر گئے اور معصومہ ؑ عالم وہاں سے تشریف لے گئیں ۔(۱)

قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ یہاں پر ابوبکر نے سقیفہ اور سقیفہ کے بعد کے واقعات پر تبصرہ کرنے والوں کے خلاف جان بوجھ کے سختی کی ہے جب کہ دوسروں کے لئے انہوں نے سختی نہیں کی اور ابوبکر کا یہ خطبہ سب و شتم اور تہدید و تشدید سے بھرا ہوا ہے جس کی صرف ایک وجہ ہماری سمجھ میں آتی ہے اور وہ ہے مستحقینِ خلافت اور مستحقین فدک کے مطالبہ کو سختی سے کچلنا،اس لئے کہ معصومہ ؐ کے خطبہ میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ خلافت کسی طرح امیرالمومنین ؑ تک پہنچے اور ابوبکر اس خطبہ کے مقاصد کو بھانپ گئے اور فوراً اپنے خطبہ میں اس بات کو احساس دلا دیا کہ اس طرح کی کوشش کا(قبل اس کے کہ یہ کوششیں طاقت پکڑے کے عام ہوں)تدارک کرنا بےحد ضروری ہے اور نے کیا بھی وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اگر یہ نظریہ آگے بڑھ گیا تو اُن کی خلافت کولے ڈ وبےگا اور انہیں ایسے نتائج کا سامنا کرنا پڑےگا جن کے بارے میں وہ خود نہیں جانتے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۲۱۴۔۲۱۵

۲۴۸

جب تک امیرالمومنین ؑ مسلمانوں سے الگ رہے لوگ جہاد کرنے کے لئے نہیں نکلے

مدائنی نے عبداللہ بن جعفر سے،انہوں نے ابوعون کے حوالہ سے ایک روایت بیان کی ہے جو اس بات کاسب سے مضبوط ثبوت ہے کہ صدر اسلام کے جہمور مسلمین،مولائے کاتنات ؑ کے حق خلافت کے بارے میں نص پر ایمان رکھتے تھے کہ ابوبکر کی حکومت غیرشرعی اور غیراسلامی ہے،روایت ملاحظہ ہو ۔

ابوعوان کہتے ہیں((جب عرب مرتد ہونے لگے تو عثمان مولائے کائنات ؑ کی خدمت میں پہنچے اور کہنے لگے اے میرے چچا کے بیٹے کوئی بھی میرے پاس نہیں آرہا ہے،دشمن سامنے ہے آپ نے بیعت نہیں کی ہے،یہ سن کے مولائے کائنات ؑ ابوبکر کے پاس گئے،ابوبکر آپ کو دیکھ کے کھڑے ہوگئے،دونوں گلے ملے اور پھر دونوں ایک دوسرے کو پکڑ کے رونے لگے اس کے بعد آپ نے بیعت کر لی ۔ یہ دیکھ کے مسلمان خوش ہوگئے ۔ لوگوں نے عمدگی سے جنگ کی اور فوجیں بھیجی گئیں(۱) ( آپ نے دیکھا کہ لوگ امیرالمومنین علیہ السلام کی شوکت کا انتظار کر رہے تھے ۔ اور یہ سمجھ رہے تھے کہ جب تک آپ سے مشورہ نہیں لیا جائےگا جنگ،جنگ رہے گی جہاد فی سبیل اللہ نہیں ہوسکےگا اور مولائے کائنات ؑ نے بھی یہ دیکھا کہ لوگ مرتد ہو رہے ہیں اسلام کا نقصان ہو رہا ہے تو آپ بھی محض حفاظت اسلام کی خاطر ساتھ دینے پر تیار ہوگئے ۔ اسی نظریہ کی وضاحت آپ نے ان الفاظ میں کی ہے،آپ نے اہل مصر کو جو خط لکھا تھا اس کے الفاظ کا ترجمہ دیکھئے ۔ ((لوگوں نے میری رعایت نہیں کی مگر یہ کہ فلاں کی طرف دوڑ پڑے اور اس کی بیعت کرنے لگے میں نے بھی اپنے ہاتھ کو روک لیا،یہاں تک کہ لوگ اسلام سے(کفر کی طرف)واپس ہونے لگے اور دینِ محمد ؐ کے مٹانے کی دعوت دینے لگے تو مجھے خوف ہوا کہ اگر میں اسلام اور اہلِ اسلام کی نصرت نہیں کروں گا تو اسلام کی دیوار میں رخنہ پڑجائےگا یا وہ منہدم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) انساب الاشراف ج: ۲ ص: ۲۷۰ ،امر سقیفہ۔

۲۴۹

ہوجائے گی اور یہ مصیبت اس مصیبت سے کہیں زیادہ بڑی ہے جو میرے ہاتھ سے حکومت نکلنے کی وجہ سے مجھے حاصل ہوئی ہے ۔(۱)

مدینہ منورہ میں جو لوگ بھی تھے ان کا نظریہ وہی تھا جو اوپر کی سطروں میں پیش کیا گیا ۔

بیرون مدینہ کے قبیلوں کا نظریہ اور مرتدین سے جنگ کی حقیقت

وہ قبیلے جو مدینہ کے باہر تھے اور مسلمان ہوچکے تھے اور جن سے ابوبکر کی طرف سے جنگ کی گئی انہیں لوگ مرتد کہیں ہیں،اگر ارتداد کا مطلب یہ ہے کہ وہ زکوٰۃ نہیں دیتے تھے یا انہوں نے زکوٰۃ دینا بندکر دی اور ان میں سے کچھ لوگوں نے ضروریاتِ اسلام کا انکار کیا یا ضروریات دین میں سے کچھ باتوں کا انکار کردیا تو خیر ۔

لیکن بعض مورخین نے غیرارادی طور پر کچھ حقائق لکھ دیئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ معاملہ وہ نہیں تھا جو اوپر بیان کیا گیا بلکہ بات کچھ اور تھی جس کو الزام ارتداد کے پردے میں چھپا دیا گیا ہے اور بات تھی ابوبکر کی خلافت کی ان قبیلوں کے حلق سے خلافت ابوبکر کی بات کس طرح اُترتی ہی نہیں تھی،وجہ یہ تھی کہ خلافت ابوبکر پر نہ عہد نبوی ؐ میں اشارہ کیا گیا تھا نہ وہ ابوبکر کے قبیلہ کو اتنا اہم سمجھتے تھے کہ اس جیسے معمولی قبیلہ میں خلافت جائے،حکومت ابوبکر سے الگ رہنے ہی کو لوگوں نے ارتداد پر محمول کر لیا تھا،اب جو حکومت سے رفض کرے چاہے اسلام سے خارج ہو یا نہ ہو،بہرحال مرتد تھا،اس لئے کہ اس وقت مسلمان ایک ہنگامی حالت سے گذر رہے تھے،نبی ؐ کی وفات کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کی ہیبت میں کمی آئی تھی پھر صحابہ میں اختلاف،اہلبیت نبی ؐ اور بنی ہاشم،جن کی عربوں کے دلوں میں بڑی ہیبت اور عظمت تھی،پھر نبی ؐ کی وجہ سے بھی اسلام اور اہلبیت ؑ کی عظمت میں روز بروز اضافہ ہوتا جاتا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)نہج البلاغہ ج:۳ص:۱۱۹

۲۵۰

بنی ہاشم اور اہلبیت ؑ کو بھی لوگوں نے بالکل الگ کردیا تھا،جس کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کی ہیبت ساقط ہوگئی،ایسے دور میں لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ حکومتِ ابوبکر سے انکار ہی مرتد ہونے کے لئے کافی ہے ۔

خاص طور سے امیرالمومنین علیہ السلام کو الگ کر کے مسلمانوں نے اپنی ہیبت کھودی تھی اس لئے کہ امیرالمومنین ؑ گویا کہ نبی ؐ کا کشادہ ہاتھ اور آپ کی مجاہدانہ زندگی میں آپ کی سب سے کاٹ دار تلوار تھے اس کے علاوہ امیرالمومنین ؑ کی شخصیت بھی ذاتی طور پر سب سے زیادہ قابل توجہ اور احترام کے قابل تھی،آپ کی صلاحیت و شجاعت،آپ کا علم و عمل اور آپ کے مثالی کارنامے اسلامی دنیا میں اتنے مشہور اور مسلم تھے کہ عرب اپنی جگہ یہ طے کرچکے تھے کہ نبی ؐ کے بعد اگر کوئی جانشین نبی ؐ ہے تو علی ؑ اور بس،میرے اس قول کے ثبوت میں اپنے تیسرے سوال کا جواب ملاحظہ کریں،میں نے عرض کیا ہے کہ جب اجلّاء صحابہ خلافت کے بارے میں اپنا خیال ظاہر کرتے تھے جیسے سلمانِ فارسی،ابوذر غفاری و غیرہ،تو صاف کہتے تھے کہ اگر مسلمان اس خلافت کو اپنے نبی ؐ کے اہلبیت ؑ ہی میں رہنے دیتے تو دو آدمی بھی آپس میں اختلاف نہیں کرتے،یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی یہ باتیں بےبنیاد نہیں تھیں،نبی ؐ نے انہیں بتایا تھا تو وہ لوگوں کو بتارہے تھے،اس حقیقت کے چند شواہد ملاحظہ ہوں ۔

اہل بیتؑ کو خلافت سے الگ رکھنے اور بیعتِ ابوبکر سے بعض عرب قبیلوں کا انکار

اس دور کے کسی عرب شاعر کے اشعار میں حقیقت حال ملاحظہ ہو:

ترجمہ:جب تک پیغمبر ؐ ہمارے درمیان رہے ہم ان کی اطاعت کرتے رہے پس اے خدا کے بندوں!یہ ابوبکر کو کیا ہوا ہے؟

کیا ابوبکر کے مرنے کے بعد ان کا بیٹا بکر ان کا(خلافت میں)وارث ہوگا یہ تو کمر کو توڑنے والی

۲۵۱

بات ہے ۔(۱)

قبیلہ طے نے کہا ہم ہرگز ابوفصیل(ابوبکر)کی بیعت نہیں کریں گے ۔(۲)

بنی فزارہ اور بنی اسد نے کہا:خدا کی قسم ہم تو ابوفصیل(ابوبکر)کی بیعت ہرگز نہیں کریں گے ۔(۳)

ابن اعثم کوفی لکھتے ہیں کہ ایک ناقہ زکات میں لے لیا گیا،حالانکہ وہ مال زکات میں نہیں آتا تھا،زکات وصولنے والا زیاد بن لبید تھا،اب اس ناقہ کے لئے زیاد بن لبید اور ناقہ کے مالک کے قبیلے کے درمیان جھگڑا ہونے لگا،حارثہ بن سراقہ زکات کے اونٹوں کے پاس آیا اور اختلافی ناقہ کو نکال کے اس کے مالک سے کہا،لو اپنا ناقہ لے لو،اب اگر کوئی بولے تو اس کی ناک تلوار سے کاٹ دو ہم لوگ حیات پیغمبر ؐ میں صرف پیغمبر ؐ کی اطاعت کرتے تھے،اگر ان کے اہل بیت ؑ میں سے ان کی جگہ کوئی بیٹھا ہوتا تو ہم ضرور اس کی اطاعت کرتے،لیکن یہ ابوقحافہ کا بیٹا تو خدا کی قسم ہماری گردنوں پر نہ اس کی بیعت ہے نہ ہم اس کی اطاعت کریں گے،پھر اس نے کچھ اشعار پڑھے ان میں سے ایک شعر یہ تھا ۔

((جب تک پیغمبر ؐ ہمارے درمیان تھے ہم ان کی اطاعت کرتے تھے،اس پر بہت تعجب ہے جو ابوبکر کی اطاعت کرتا ہے))

((زیاد بن لبید نے جب یہ شعر سنا تو حارثہ بن سراقہ کو کچھ اشعار لکھ بھیجے جن میں ایک شعر یہ تھا))

((ہم تم سے راہِ خدا میں لڑتے رہیں گے اور اللہ اپنے امر پر غالب ہے یہاں تک کہ تم لوگ ابوبکر کی اطاعت کرنے لگو))

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ طبری ج:۲ص:۲۵۵،بدایۃ النہایۃ ج:۶ص:۳۱۳،معجم البلدان ج:۲ص:۲۷۱،المحلی ج:۱۱ص:۱۹۳مسئلہ۲۱۹۹،تاریخ دمشق ج:۲۵ص:۱۶۰،الاغانی ج:۲ص:۱۴۹،تاریخ المدینۃ ج:۲ص:۲۴۷۔۲۴۸،

(۲)تاریخ طبری ج:۲ص:۲۶۰،تاریخ دمشق ج:۲۵ص:۱۶۴،حالات زندگی طلیعۃ بن خویلا

(۳)تاریخ طبری ج:۲ص:۲۶۱،الثقات ج:۲ص:۱۶۶

۲۵۲

زیاد بن لبید کے یہ اشعار جب ان تک پہنچے تو بنی کندہ کے قبیلے،غضبناک ہوئے اور وہ لوگ اشعث بن قیس کے پاس آئے اشعث نے کہا:اے اہل کندہ تم اپنے بارے میں مجھے بتاؤ اگر تم منع زکات اور ابوبکر سے جنگ پر بیعت کرچکے تھے تو تم نے زیاد بن لبید کو قتل کیوں نہیں کردیا،اس کے چچا کے بیٹوں میں سے کسی نے جواب دیا کہ اشعث تم سچ کہتے ہو،صحیح رائے تو یہی تھی کہ زیاد بن لبید کو قتبل کردیا جاتا اور زکات کے اونٹوں کو اس سے واپس لے لیا جاتا،ہم لوگ تو قریش کے غلام بن کے رہ گئے ہیں،کبھی بنوامیہ ہمارے پاس آتے ہیں اور جو چاہتے ہیں لے لیتے ہیں تو کبھی زیاد بن لبید جیسے لوگ بھیجے جاتے ہیں وہ ہمارا مال بھی لے لیتے ہیں اور قتل کی دھمکیاں بھی دیتے ہیں،خدا کی قسم قریش کی لالچ بھری نگاہیں برابر ہمارے مال پر لگی ہوئی ہیں،اس کے بعد اس نے کچھ اشعار پڑھے جن میں ایک شعر یہ تھا کہ((اگر ہم اسی طرح صدقہ وصول کرنے والوں کا مطالبہ کرتے رہے تو ہم صرف ان کے غلام بن کے رہ جائیں گے ۔

پھر اشعث بن قیس بولنے لگے اور کہا اے کندہ والو!اگر تم ہماری رائے سے متفق ہو تو ایک ہوجاؤ،اپنے شہروں میں جمع رہو،اور اپنے اہل خانہ کا احاطہ کرلو،اپنے مال سے زکات دینا بند کردو ۔ اس لئے کہ مجھے یقین ہے کہ عرب،بنوتیم(ابوبکر کا قبیلہ)کی اطاعت کا اقرار نہیں کریں گے اور بطحا کے سادات یعنی بنوہاشم کو چھوڑ کے کبھی دوسرے کی طرف مائل نہیں ہوں گے،اس لئے کہ بنی ہاشم ہی ہمارے لئے عمدہ ہیں اور ہمارے اوپر وہی حکم جاری کرسکتے ہیں،وہی صلاحیت رکھنے والے ہیں دوسرے نہیں،راوی کہتا ہے پھر زیاد بن لبید،بنی کندہ کی ایک شاخ جس کو بنوذھل بن معاویہ کہتے تھے،وہاں پہنچا اور جو کچھ ہوچکا تھا اس کی انہیں خبر کی اور انہیں ابوبکر کی اطاعت کی دعوت بھی دی،تو بنوتمیم کا ایک شخص آگے بڑھا((جس کا نام حارث بن معاویہ))تھا اور زیاد سے بولا:دیکھو تم ایسے شخص کی اطاعت کی دعوت دے رہے ہو جس سے نہ ہمارا معاہدہ ہے نہ تمہارا،زیاد بن لبید نے کہا تم سچ کہہ رہے ہو ۔

(نہ ہم پابند عہد ہیں نہ تم)لیکن ہم نے امرِ خلافت کے لئے اسی کو اختیار کیا ہے ۔

۲۵۳

کچھ عربوں کا اہل بیت ؑ کی خلافت کے لئے احتجاج

حارث نے کہا:پھر بتاؤ تم لوگوں نے اہلبیت پیغمبر ؐ کو خلافت سے کیوں الگ کردیا،وہ لوگ خلافت کے سب سے زیادہ مستحق تھے،اس لئے کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے:کتاب خدا میں بعض رشتہ دار دوسرے بعض سے زیادہ اولیٰ و حقدار ہیں ۔

زیاد بن لبید نے کہا سنو!مہاجرین و انصار اپنے بارے میں تم سے زیادہ باخبر ہیں،حارث بن معاویہ نے جواب دیا:خدا کی قسم یہ بات نہیں ہے،بلکہ چونکہ تم اہل بیت ؑ سے حسد کرتے ہو اس لئے تم نے ان سے خلافت چھین لی،میرے دل کو تو یہ بات بالکل نہیں لگتی کہ پیغمبر ؐ چلے جائیں اور اپنے بعد کسی کو منصوب نہ کریں،

اے شخص!تو ہمارے پاس سے چلا جا،تو خدا کی مرضی کے خلاف ہمیں دعوت دے رہا ہے،پھر حارث نے ایک شر پڑھا:

((ایسا لگتا ہے کہ پیغمبر ؐ امت کو لاوارث چھوڑ کے چلے گئے حالانکہ آپ کی اطاعت کی جاتی تھی،آپ پر درود ہو آپ نے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا؟ ۔ )

راوی کہتا ہے کہ اتنے یں عرفجہ بن عبداللہ ذہلی اچھل کے سامنے آئے اور کہنے لگے خدا کی قسم حارث بن معاویہ سچ کہتا ہے،اس شخص(زیاد بن لبید)کو اپنے یہاں سے نکال باہر کرو،اس کا ساتھی(ابوبکر)شائستہ خلافت نہیں ہے وہ کسی بھی طرح خلافت کا مستحق نہیں ہے،انصار و مہاجرین،نبی ؐ سے زیادہ اس امت کی مصلحتوں کو نہیں جانتے،پھر لوگ زیاد بن لبید کی طرف بڑھے اور اس کو اپنے علاقہ سے دھکہ دیکر نکال دیا،وہ لوگ تو اس کے قتل کا ارادہ کرچکے تھے،پھر زیاد نے قبائل کندہ کی طرف جانا ہی چھوڑ دیا کہ وہ انہیں اطاعتِ ابوبکر کی دعوت دے اور وہ لوگ اس کو اسے کوئی ناگوار اور ناشائستہ جواب دیں،جب وہ مدینہ واپس آیا اور ابوبکر سے ملا تو اس نے بنوکندہ کی ساری باتیں کہہ دیں اور ابوبکر کو بتایا کہ قبائل کندہ نے ارتداد اور نافرمانی کا پختہ ارادہ کرلیا ہے،پھر یہ خبر بھی فوراً ہی پہنچی کہ اہلِ

۲۵۴

کندہ اپنے کئے پر پشیمان ہیں،پھر ایک آدمی جواب کے بادشاہوں کی نسل سے تھا سامنے آیا اس کا نام ابضعہ بن مالک تھا،اس نے آکے اہلِ کندہ کو سمجھایا کہ اے قبیلہ والو!ہم نے اپنے لئے وہ آگ بھڑکائی ہے جس کے بارے میں میرا خیال ہے کہ وہ بجھے گی نہیں بلکہ بہت سے لوگوں کو اپنے لپیٹ میں لیکے چٹ کرجائے گی میری رائے یہ ہے کہ ہم جو کچھ کرچکے ہیں اس کا تدارک کرلیں،ابوبکر کو خط لکھ کر انہیں یہ بتائیں کہ ہم ان کی اطاعت کرنے اور زکات دینے کے لئے تیار ہیں اور ان کی خلافت و امامت پر راضی ہیں ۔

پھر احمد بن اعثم نے ذکر کیا ہے کہ ابوبکر نے اشعث کو ایک خط لکھا،جب اشعث تک یہ خط پہنچا اور اس نے خط پڑھا تو نامہ برکے پاس آیا اور کہا:تمہارے صاحب(ابوبکر)یہ لکھتے ہیں کہ اگر ہم اس کی مخالفت کریں گے تو ہم پر کفر کا الزام آئےگا اور اس کا آدمی اگر ہمارے قبیلہ اور بھائی بھتیجوں کو قتل کردے تو اس پر کفر کا الزام نہیں آئےگا،نامہ برنے کہا:ہاں اشعث تم کفر کے ملزم ہوگے،اس لئے کہ خدا نے تمہارے اوپر کفر واجب قرار دیا ہے کیونکہ تم مسلمانوں کی مخالفت کر رہے ہو ۔(۱)

سابقہ بیان سے نتجہ کیا نکلا

جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں یہ تاریخی واقعات بتا رہے ہیں کہ مدینہ کے باہر اور اندر بہت سے لوگ ابوبکر کے مخالفت تھے اور ابوبکر نے جو جنگیں لڑی ہیں ان کی بنیاد ارتداد نہیں تھی بلکہ ابوبکر کی حکومت کی مخالفت تھی اور ان کی نافرمانی تھی،یہ واقعات اس بات کے بھی شاہد ہیں کہ مدینہ کے اندر اور باہر لوگوں کی اکثریت بنی ہاشم کو حکومت کے لئے مستحق تر سمجھتی تھی،مگر یہ کہ اُن پر لوگ غالب آگئے،لوگ یہ بھی سمجھتے تھے کہ اگر امیرالمومنین ؑ پیغمبر ؐ کے بعد صاحبِ امر مان لئے جاتے تو اُن سے آگے بڑھنے کی کوئی ہمت نہیں کرسکتا تھا،مسلمانوں میں کوئی اختلاف اور کشیدگی نہ ہوتی اور اسلام کی ہیبت بھی دلوں پر باقی رہتی،ساتھ ہی یہ لڑائیاں بھی نہ ہوتیں جن میں بہت سارا خون بہا اور کثرت سے مسلمانوں کی ہتک حُرمت ہوئی ۔

۲۵۵

تاریخ کے اس بیان سے ہمارے اس نظریہ کو بھی تقویت ملتی ہے کہ اگر نَص موجود تھی جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں تو نص سے صرف چند لوگ ہی غافل تھے جو مہاجرین و انصار سے لگاؤ رکھتے تھے ۔

ابوبکر کی بیعت کے بارے میں جدید الاسلام لوگوں کا موقف

اجلّہ صحابہ مہاجرین و انصار تو عجیب فتنہ میں پڑے تھے اور ابوبکر کی کُھل کے تائید نہیں کر رہے تھے،خوف کی وجہ سے کُھل کے امیرالمومنین ؑ کی حمایت بھی نہیں کر رہے تھے ۔ ہاں ابوبکر کی تائید کرنے والوں میں وہ لوگ پیش،پیش تھے جو اسلام میں نئے داخل ہوئے تھے رغبت کی وجہ سے یا خوف کی وجہ سے،جب انہوں نے دیکھا کہ اسلام کی بنیاد مضبوط ہوچکی ہے اور اب اس سے دنیا حاصل کی جاسکتی ہے تو جلدی جلدی کلمہ پڑھ کے مسلمان ہوگئے،انہیں ہادی اعظم ؐ نے طلقا اور قرآن مجید نے منافقین کے شاندار لقب سے نوازا ہے،جیسے مغیرہ بن شعبہ،عمروعاص،خالد بن ولید،سھل بن عمرو،عکرمہ بن ابی جہل،حارث بن ہشام و غیرہ ۔

یہ لوگ تائید بیعت میں پیش پیش تھے اور جو بیعت سے انکار کرتا تھا یہ لوگ اپنی متعصّبانہ فطرت اور جاہلانہ وحشت سے مجبور ہو کے اس غریب پر ظلم و جَور کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے تھے،مثلاً خانہ امیرالمومنین ؑ پر ہجوم انصار پر سختی کرنا،ان پر طعن و تشنیع کرنا(اصحاب ردہ کے خلاف جنگ میں پیش پیش ہونا،پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ وہ لڑائیاں ارتداد کے خلاف نہیں تھیں بلکہ صرف حکومتِ ابوبکر کی حمایت میں تھیں)یا ابوبکر کی سلطنت و حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے جنگ کرنا و غیرہ ۔

حکومت کو مضبوط کرنے میں رنگروٹ مسلمانوں کا پیش پیش ہونا

جدید الاسلام افراد نے مدینہ میں حکومت کو مضبوط کرنے میں اتنی کوششیں کیں کہ آخر میں حکومت نے انہیں کو فوج کی قیادت اور شہروں کی گورنری کے لئے منتخب کرنا اور بحال کرنا شروع کیا،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) الفتوح لابن اعثم م ج: ۱ ،ص: ۴۹ ۔ ۵۷ ،ذکر ارتداد اہل حضرت موت۔

۲۵۶

حکومت نے صاحب منزلت مہاجرین و انصار کو چھوڑ دیا،یا تو اس لئے کہ سیاست کا تقاضہ یہی تھا،حکومت ان کی صاف گوئی،قوت کردار اور زہد و تقویٰ سے خوفزدہ یا ان سے ناراض تھی ۔ عمر کہتے ہیں:ہم منافق قوت سے مدد لیتے ہیں،اس کا گناہ اسی کی گردن پر ۔(۱)

کسی نے عمر سے کہا:((تم نے یزید بن ابی سفیان،سعید بن عاص،معاویہ اور فلاں فلاں کو،طلقا میں سے مولفۃ القلوب اور طلقا کے بیٹوں کو گورنر بنادیا اور علی ؑ ،عباس جیسے بزرگوں کو اور طلحہ و زبیر کو چھوڑ دیا))عمر نے کہا:جہاں تک علی ؑ کا سوال ہے تو اُن کا سوال ہے تو اُن سے ہوشیار رہنا ضروری ہے،لیکن قریش کے دوسرے لوگوں کا جو تم نے نام لیا ہے،اگر انہیں گورنر بنا کے بھیجدوں تو یہ شہروں میں پھیل جائیں گے اور بہت فساد پیدا کریں گے(۲) قیس بن حازم کہتے ہیں کہ زبیر،عمر کے پاس آئے اور ان سے جنگ میں جانے کی اجازت مانگی،عمر نے کہا:یم تو اپنے گھر میں بیٹھے رہو،تم پیغمبر ؐ کے زمانے میں جہاد تو کر ہی چکے ہو،زبیر نے یہ مطالبہ کئی مرتبہ کیا،آخر عمر نے تیسری بار بھی یہی کہا کہ اپنے گھر میں بیٹھو،بخدا میں مدینہ کے اطراف میں دیکھتا رہتا ہوں تا کہ تم اور تمہارے اصحاب مدینہ سے باہر نہ نکل جائے اور اصحاب محمد ؐ کو فساد پر آمادہ نہ کردئے ۔(۳)

عمر کو اصحاب سے یہ خوف تھا کہ وہ کثرت سے فساد کریں گے صرف اس بنیاد پر کہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ لوگ حکومت سے ھماھنگ نہیں ہیں انھیں یہ خوف تھا کہ حکومت کہیں ہاتھ سے نکل نہ جائے،اسی لئے انہوں نے اصرار کرکے ابوبکر کو مجبور کیا کہ وہ خالد بن سعید بن عاص کو لشکر کی قیادت سے معزول کردیں،فوج شام کو فتح کرنے جارہی تھی،سردار خالد بن سعید بن عاص تھے انہوں نے ابوبکر سے اصرار کیا کہ خالد بن سعید بن عاص کو معزول کردیں ۔ وجہ صرف یہ تھی کہ سعید بن عاص

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) المصنف لابن ابی شیبۃ ج: ۶ ص: ۲۰۰ ،کنزالعمال ج: ۴ ص: ۶۱۴ ،حدیث: ۱۱۷۷۵ ،سنن کبریٰ للبیھقی ج: ۹ ص: ۳۶ ،اور اسی طرح کنزالعمال میں ج: ۵ ص: ۷۷۱ حدیث: ۱۴۳۳۸

( ۲) شرح نہج البلاغہ ج: ۹ ص: ۲۹ ۔ ۳۰

( ۳) المستدرک علی صحیحین ج: ۳ ص: ۱۲۹ ،باب مناقب امیرالمومنینؑ عون المعبود ج: ۱۱ ص: ۲۴۶ ۔ ۲۴۷

۲۵۷

کی طرف سے ان کے دل میں کینہ بھرا ہوا تھا،اس لئے کہ انہوں نے ابوبکر کی بیعت کرنے میں تاخیر کا جُرم کیا تھا اور بنی ہاشم و بنی مناف کو خلافت طلب کرنے پر اُبھارتے رہتے تھے،آخر کار ابوبکر نے ان کو معزول کردیا اور اُن کی جگہ یزید بن ابوسفیان کو قائد بنادیا ۔(۱) اس بات کی وضاحت انہوں نے(عمر نے)اپنے خطبہ میں کی ہے جو انہوں نے اپنے دورِ خلافت میں دیا تھا،جب لوگوں نے ان سے شکایت کی کہ آپ نے اصحاب کبار کو مدینہ کا قیدی بنادیا ہے تو کہا:خبردار ہوجاؤ!بےشک قریش کے دل میں فرقہ واریت چھپی ہوئی ہے وہ لوگ گردنوں سے قلادہ بیعت اتار دینا چاہتے ہیں لیکن خطاب کا بیٹا جب تک زندہ ہے وہ آگ کی گھاٹی کے سامنے کھڑا رہےگا اور قریش کی گردنوں کو پکڑ کے آگ سے مسلسل بچاتا رہےگا ۔

حالانکہ یہی عمر،ابوعبیدہ جراح کی بحالی پر دل سے راضی تھے بلکہ خود انہیں گورنر بنا کر بھی بھیجا،حالانکہ وہ مہاجرین اولین میں سے تھے لیکن چونکہ ان کی طرف سے کوئی خوف نہیں تھا کیونکہ وہ حکومت سے ہماہنگ تھے اس لئے وہ ان کے دور میں گورنری کے سب سے زیادہ اہل قرار پائے ۔

یہ بھی قابل توجہ بات ہے کہ عمر،منافقین اور طلقا کے فتنوں سے مطمئن کیوں تھے،جب اتنے بڑے بڑے صحابی فتنہ پیدا کرسکتے تھے تو منافقین اور طلقا سے مطمئن رہنے کی کیا وجہ تھی؟صرف اس لئے مطمئن تھے کہ وہ لوگ حکومت کی مشنیری سے ہماہنگ و ہم آواز ہوگئے تھے،ورنہ حق تو یہ ہے کہ وہ بلادِ خدا اور بندگان خدا کے لئے سب سے بڑا خطرہ تھے،اگر وہ فتنہ و فساد کا ارادہ کر لیتے تو پھر ان کو روکنا بےحد مشکل ہوجاتا،جیسا کہ معاویہ کے دور میں اس کی حرکتوں سے ثابت ہوا،اگر ان کو حکومت نے لفٹ نہ دی ہوتی تو کم سے کم وہ اتنا تو کرتے ہی کہ سابقون فی الاسلام کے ساتھ تعاون کرتے اور اُن کا مقابلہ کرتے جو لوگ حکومت کا مقابلہ کرنے کو تیار رہتے تھے اور اُن کی طرف دعوت دیتے،بلکہ اگر طلقا و منافقین اُن کی حکومت میں فتنہ نہیں بھی برپا کرتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) طبقات الکبریٰ ج: ۴ ص: ۹۷ ۔ ۹۸ ،المستدرک علی صحیحین ج: ۳ ص: ۲۷۹ ،تاریخ یعقوبی ج: ۲ ص: ۱۳۳ ،تاریخ طبری ج: ۲ ص: ۳۳۱ ،تاریخ دمشق ج: ۱۶ ص: ۷۸ ،شرح نہج البلاغہ ج: ۲ ص: ۵۸ ۔ ۵۹

۲۵۸

جب بھی اُن سے ہاتھ ملانے کا کوئی جواز نہیں تھا،حکومت نے مسلمانوں کے امور کی باگ ڈ ور اُن(ذلیل لوگوں کے)حوالہ کردی حالانکہ ان سے افضل لوگ موجود تھے،صاحبانِ فضل کی موجودگی میں تیسرے درجہ کے لوگوں کو مسلمانوں کے امور کا ذمہ دار بنانا یہ مسلمانوں سے خیانت نہیں تو اور کیا ہے؟حدیثیں اس اقدام کی ممانعت کرتی ہیں اور مذمت بھی کرتی ہیں ۔

ابن عباس سے روایت ہے کہ سرکارِ دو عالم ؐ نے فرمایا:((جو مسلمانوں کا عامل کسی کو بنائے اور یہ بھی جانتا ہو کہ قوم میں اس کے ذریعہ بنائے گئے شخص سے بہتر لوگ موجود ہیں جو کتاب خدا اور سنتِ نبی ؐ کو اس سے زیادہ جانتے ہیں تو اس نے خدا سے،خدا کے رسول ؐ سے اور عام مسلمانوں سے خیانت کی ہے ۔(۱)

بلکہ اسی طرح کا قول عمر سے بھی منسوب کیا گیا ہے(۲) کہ انہوں نے کہا:جو کسی فاجر کو عامل بنائے اور وہ جانتا ہو کہ وہ فاجر ہے تو بنانے والا بھی فاجر جیسا ہے،(۳) تاریخ شاہد ہے کہ فسّاق و فُجّار قوم کو عامل بنانے سے بہت سی حرمتیں ضائع ہوئیں اور دین کی مخالفت ہوئی ۔

حاصلِ کلام میں یہ کہ نص سے تجاہل اور اندیکھی مہاجرین و انصار کی اکثریت نے کبھی نہیں کی،خصوصاً ان لوگوں نے،جن کی شان اور مرتبے بلند تھے ان میں سے اکثر کی دلی خواہش یہ تھی کہ امیرالمومنین ؑ اور اہلبیت ؑ ہی امّت کے مسئول اور صاحب امر ہوں،اس کلیہ کے شواہد کے سامنے پیش کئے جاچکے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) السنن الکبریٰ للبیھقی ج: ۱۰ ص: ۱۱۸ ،المستدرک علی صحیحین ج: ۴ ص: ۱۰۴ السنۃ لابن ابی اعصم ج: ۲ ص: ۶۲۷ ،مجمع الزوائد ج: ۵ ص: ۲۱۱ ،معجم الکبیرج: ۱۱ ص: ۱۱۴ ،الترغیب و الترھیب ج: ۳ ص: ۱۲۵ ،الدرایۃ فی تخریج احادیث الہدایۃ ج: ۲ ص: ۱۶۵ ،نصب الرایۃ،ج: ۴ ص: ۶۲ ،سبل الاسلام ج: ۴ ص: ۱۹۰ ،تاریخ بغداد ج: ۶ ص: ۷۶ ،الکامل فی الضعفاء الرجال ج: ۲ ص: ۳۵۲ ،الضعفاء للعقیلی ج: ۱ ص: ۲۴۷ ،تھذیب التھذیب ج: ۲ ص: ۳۱۳

( ۲) المستدرک علی صحیحن ج: ۳ ص: ۳۰۴ ،سیرہ اعلام نبلاءج: ۱ ص: ۴۶۰ ،الکشف الحثیث ج: ۱ ص: ۱۷۸ ،لسان المیزان ج: ۴ ص: ۱۱۸

( ۳) کنز العمال ج: ۵ ص: ۶۱ حدیث: ۱۴۳۰۶

۲۵۹

عام صحابہ کی نصرتِ حق میں تقصیر

البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اکثر صحابہ نے حق کی نُصرت میں سُستی کی اور منصوص امام کی دعوت پر بروقت لبیک نہیں کہہ سکے،اگر بقول شیعوں کے نَص موجود تھی تو عام صحابہ اس نص کے نظرانداز کرنے میں نصرت حق میں کوتاہی اور واجب الاطاعۃ کی آواز پر لبیک نہ کہنے کے مجرم ثابت ہوتے ہیں ۔

آپ کے تیسرے سوال کے جواب میں یہ بات پیش کی جاچکی ہے کہ امیرالمومنین ؑ برابر یہ شکوہ کرتے رہے کہ آپ کی مدد نہیں کی جارہی ہے،آپ کے پاس ایک جماعت آئی بھی کہ ہم آپ کی بیعت کرنے کو تیار ہیں تو آپ نے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ یہ محض زبانی دعویٰ ہے فرمایا:کل سرمن ڈ ا کر آنا،لیکن دوسرے دن تین یا چار آدمی سے زیادہ نہیں آئے،آپ نے یہ اعلان کردیا تھا((اگر چالیس آدمی بھی ہمارے ساتھ ہوتے تو غاصب حکومت کا تختہ پلٹ دیتا اور اپنا حق حاصل کرلیتا)) ۔

اس طرح آپ نے ایک خچر پر صدیقہ زہرا ؐ کو بٹھایا اپنے ساتھ امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کو لیا اور انصار کے گھروں کا چکر لگایا آپ بھی ان سے نصرت طلب فرماتے اور حضرتِ معصومہ ؐ بھی ان سے نصرت کا سوال کرتی رہیں اور وہ لوگ یہی عذر پیش کرتے رہے کہ اے بی بی ہم ابوبکر کی بیعت کرچکے ہیں اور اگر(نبی ؐ کے)چچازاد بھائی ہمارے پاس پہلے آتے تو ہم ان کی بیعت سے عدول نہیں کرتے،(۱) ان واقعات کو معاویہ نے اپنے خط میں بھی لکھا ہے جو اس نے امیرِ کائنات حضرت علی ؑ کو بھیجے تھے اور شیعہ روایتوں میں بھی کثرت سے یہ واقعات ملتے ہیں،لیکن کوئی یہ ہرگز نہ سمجھے کہ صحابہ،مولائے کائنات ؑ سے اس لئے پہلو تہی کررہے تھے کہ وہ نص سے جاہل تھے یا نص کی اندیکھی کررہے تھے،بلکہ ان کا مولا علی ؑ سے یہ گریز محض حکومت کے خوف کی وجہ سے تھا یا اس لئے کہ اُن کا خیال تھا کہ مولائے کائنات ؑ کو عام مسلمانوں کی تائید اس حد تک مل ہی نہیں سکتی کہ اُن کا حق انھیں واپس مل جائے،کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ امیرالمومنین ؑ نے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) الامامۃ و السیاسۃ ج: ۱ ص: ۱۶ ،نہج البلاغہ ج: ۶ ص: ۱۳

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

پیش نظر بیعت کرلی تاکہ ایسا نہ ہو یہ لوگ آگے بڑھ جائیں اور سعد بن عبادہ امیر ہوجائیں۔ یہاں تک کہ اس میں بعد کو رفتہ رفتہ توسیع ہوتی گئی حالانکہ اجماع کیدلیل اگرمضبوط چیز تھی تو، اتنا توقف کرنا چاہئیے تھا کہ ساری امت ( یا بقول آپ کے عقلمند گروہ) جمع ہوجائے اور مجمع عام کے اندر استصواب رائے کر لیا جائے تاکہ صحیح طور پر اجماع صادق آجائے۔

حافظ : میں نے عرض کیا کہ فتنے اٹھ رہے تھے۔ اوس و خزرج دو قبیلے سقیفے میں جمع تھے اور آپس میں نزاع کر رہے تھے۔ ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ مسلمانوں کی امارت و حکومت کا تقرر اپنی طرف سے کرے بدیہی بات ہے، کہ ایک ادنی سی غفلت بھی انصار کے حق میں مفید ثابت ہوتی اور مہاجرین کا کوئی قابو نہ رہتا، اسی وجہ سے مجبور تھے کہ کام میں جلدی کریں۔

خیر طلب : ہم بھی چشم پوشی کرتے ہوئے آپ کی بات تسلیم کئے لیتے ہیں اور آپ ہی کے قول سے سند لیتے ہیں نیز جیسا کہ آپ کے مورخین مثلا محمد بن جریر طبری نے اپنی تاریخ جلد دوم ص457 میں اور دوسروں نے لکھا ہے کہ مسلمان سقیفے میں امر خلافت پر رائے زنی کرنے جمع نہیں ہوئے تھے بلکہ اوس خزرج ک دو قبیلے چاہتے تھے کہ اپنے لیے امیر معین کریں۔ ابوبکر و عمر نے بھی اپنے کو ، اس صف آرائی میں پہنچا یا اور اس اختلاف سے خود فائدہ اٹھا لیا۔ اگر واقعی امر خلافت میں صلاح و مشورہ کرنے اکٹھا ہوئے ہوتے تو پہلے جملہ مسلمانوں کو ضرور خبر دیتے کہ رائے دینے کے لیے حاضر ہوں۔

بازیگروں سے اسامہ کی گفتگو

چنانچہ جیسا آپ نے فرمایا کہ تمام مسلمانوں کو خبر دینے کا موقع نہیں تھا اور وقت گزرا جارہا تھا۔ ہم بھی آپ کے ہم آواز ہوکر کہتے کہ مکہ، یمن، طائف اور دوسری مسلمان آبادیوں تک دسترس نہیں تھا مگر کیا اسامہ بن زید کے لشکر تک بھی رسائی ممکن نہ تھی جو مدینے کے باہر ہی پڑائو ڈالے ہوئے تھا کہ ان بزرگ اصحاب کو بلا کر مشورہ لے لیتے جو اس فوج میں شامل تھے اور جن میں سے ایک نمایاں فرد مسلمانوں کے امیر لشکر اسامہ بن زید بھی تھے جن کو خود رسول اللہ(ص) نے افسری عطا فرمائی تھی اور ابوبکر و عمر بھی ان کے ماتحت تھےجس وقت اسامہ نے سنا کہ ایک سازش کے ذریعے تین آدمیوں کے ہاتھ خلیفہ سازی ہوئی ہے اور ان لوگوں نے بغیر کسی مشورے اور اطلاع کے ایک شخص کی بیعت کر لیے ہے تو سوار ہو کر مسجد رسول(ص) میں آئے اور بقول تمام مورخین کے ایک نعرہ مارا کہ تم لوگوں نے یہ کیا ہنگامہ برپا کر رکھا ہے؟ کس کی اجازت سے خلیفہ گھڑ لیا ہے؟ تم چند نفر کیا حیثیت رکھتے تھے کہ مسلمانوں اور بزرگان صحابہ کے مشورے اور اجماع سے خلیفہ مقرر کر لیا؟ عمر نے لیپ پوت کرتے ہوئے کہا اسامہ کام ختم ہوچکا اور بیعت واقع ہوچکی ، اب پھوٹ نہ پیدا کرو بلکہ تم بھی بیعت کر لو۔ اسامہ کو تائو آگیا،

۳۰۱

انہوں نے کہا کہ پیغمبر(ص) نے مجھ کو تمہارا سردار بنایا تھا اور امارت سے معزول بھی نہیں کیا تھا۔ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ تم لوگوں پر رسول خدا(ص) کا منتخب فرمایا ہوا امیر اپنے ہاتحتوں اور محکوموں کی بیعت کرے۔ اس کے علاوہ اور بہت کچھ بات چیت ہوئی لیکن نمونتہ اسی قدر کافی ہے۔ اگر آپ کہئے کہ اسامہ کا لشکر بھی شہر سے کچھ فاصلے پر تھا اور وقت نکلا جا رہا تھا تو حضرات کیا سقیفے سے مسجد اور خانہ پیغمبر(ص) بھی بہت دور تھا؟ آخر علی علیہ السلام کو جو باتفاق فریقین مسلمانوں کے اندر ایک بڑی شخصیت کے مالک تھے، عم رسول(ص) عباس کو تمام بن ہاشم اور عترت پیغمبر(ص) کو جن کے لیے آں حضرت(ص) نے وصیتیں فرمائی تھیں اور جو عدیل قرآن تھے اور کبار صحابہ کو جو وہاں موجود تھے کیوں مطلع نہیں کیا تاکہ ان کی رائے سے فائدہ اٹھایا جائے؟

حافظ : میرا خیال ہے کہ صورت حال ایسی خطرناک تھی کی غفلت اور سقیفہ سے باہر آنے کا موقع نہیں تھا۔

خیر طلب : آپ زیادتی کر رہے ہیں، موقع تھا لیکن انہوں نے جان بوجھ کر علی علیہ السلام ، بنی ہاشم اور کبار صحابہ کو جو خانہ رسول(ص) میں جمع تھے اطلاع کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

حافظ : ان کے عمدا ایسا کرنے پر آپ کی دلیل کیا ہے؟

خیر طلب : سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ خلیفہ عمر رسول اللہ(ص) کے دروازے تک آئے تھے لیکن اندر داخل نہیں ہوئے تاکہ اس گھر میں مجتمع علی علیہ السلام ، بنی ہاشم اور اصحاب کبار کوخبر نہ ہونے پائے۔

حافظ : یہ بات تو قطعا رافضیوں کی گھڑی ہوئی ہے۔

خیر طلب: پھر آپ نے بے لطفی کی بات کی۔ یہ بات کسی کا گھڑی ہوئی نہیں ہے۔ بہتر ہوگا کہ آپ اسے تیسری صدی کے بڑے عالم محمد بن جریرطبری کی مشہور تاریخ جلد دوم ص256 کا مطالعہ فرمائیے۔

وہ لکھتے ہیں کہ عمر خانہ رسول (ص) کے در تک آئے لیکن اندر نہیں گئے بلکہ ابوبکر کو پیغام بھیجا کہ جلدی آئو بہت ضروری کام ہے ۔ ابوبکر نے جواب دیا کہ اس وقت مجھ کو فرصت نہیں ہے۔ انہوں نے پھر کہلایا کہ ایک خاص کام در پیش ہے جس میں تمہاری موجودگی ضروری ہے۔ ابوبکر باہر آئے تو خفیہ طور سے ان کو سقیفے میں اںصار کے جمع ہونے کا معاملہ بتایا اور کہاکہ ہم کو فورا وہاں پہنچ جانا چایئے ۔ یہ دونوں چلے او راستے میں ابو عبیدہ ( گور رکن) کو بھی ساتھ لے لیا۔ تاکہ تین آدمی مل کر اجماع امت کی تشکیل کریں اور آج آپ اسی کا سہارا لیں خدا کے لیے انصاف کیجئے کہ اگر کوئی سازش اور قرار واد کام نہیں کر رہی تھی تو عمر خانہ پیغمبر (ص) تک جارکر اندر کیوں نہیں گئے تاکہ صورت واقعہ کو تمام بنی ہاشم اور کبار صحابہ کے گوش کر کے سب سے مدد طلب کریں؟ کیا ساری امت رسول(ص) امت میں صرف ایک ابوبکر ہی عقل کلی رہ گئے تھے اور دوسرے صحابہ اور عترت رسول سب بیگانہ تھے جن کو اس حادثے کی خبر ہی نہ ہونا چاہتے تھا۔

چشم باز و گوش بازو این عمیحیر تم از چشم بندی خدا

آیا آپ کا یہ خود ساختہ اجماع جیسا کہ آپ کے تمام مورخین نے لکھا ہے فقط تین آدمیوں ( ابوبکر و عمر

۳۰۲

اور ابوعبیدہ جراح ( گورکن) کے ہاتھوں پر قائم ہوگیا؟ آیا دنیا کے کس خطے میں عقیدہ قابل قبول ہے کہ اگر تین شخص یا کوئی جتھہ کسی شہر یا دار السلطنت میں اکٹھا ہو اور فرض کیا جائے کہ اس شہر کے باشندے کسی شخص کی ریاست و حکومت یا خلافت پر اجماع بھی کرلیں تو دوسرے مقامات کے صاحبان عقل و علم اور دانش مندوں پر ان کی پیروی واجب ہوجائے؟ یا ایسے چند عقلمندوں کی رائے جن کو دوسروں نے منتخب نہ کیا ہو باقی عقلندوں کے لیے واجب العمل بن جائے؟ آیا یہ جائز ہے کہ ایک گروہ کی ہنگامہ سازی اور دھمکی کے مقابلے میں پوری قوم کے خیالات کا گلا گھونٹ دیا جائے؟ حضرات انصاف کیجئے ! اگر ایک جماعت والے حق بات کہنا چاہیں اور علمی مباحثوں او عملی تنقیدوں کی روشنی میں بتایں کہ یہ خود ساختہ خلافت و اجماع کسی دینی یا دنیاوی قانوں کے مطابق صحیح نہیں ے تو ان کو رافضی، مشرک اور نجس کہا جائے، ان کا قتل واجب سمجھا جائے اور کوئی ایسی تہمت باقی ن رہے جو ان پر تھوپ دی جائے؟

آپ کہتے ہیں کہ پیغمبر(ص) نے خلافت کا معاملہ امت پر ( یا بقول آپ کے عقلائے امت پر) چھوڑ دیا۔ خدا کے لیے انصاف سے کہئے گا کہ امت اور عقلائے امت کیا فقط تین ہی آدمی تھے ابوبکر وعمر اور ابو عبیدہ جراح( گورکن) جنہوں نے آپس می سمجھوتہ کر کے دونے ایک کو مان لیا تو سارے مسلمانوں پر فرض ہوگیا کہ انہیں کے راستے پر چلیں؟ اور اگر کچھ لوگ یہ کہہ دیں کہ یہ تینوں اشخاص بھی باقی امت اور صحابہ کے مانند تھے لہذا سارے اصحاب سے صلاح و مشورہ کیوں نہیں کیا؟ تو وہ کافر، مردود اور گردن زدنی قرار پائیں؟

باتفاق فریقین اجماع کا واقع نہ ہونا

حضرات اگر آپ تعصب کا جامہ اتار کر تھوڑا غور کیجئے تو بخوبی واضح ہوجائے گا کہ اقلیت واکثریت اور اجماع کے درمیان بڑا فرق ہے۔ اگر کسی خاص مقصد کےلیے بزم مشاورت منعقد کی جائے تو تھوڑے لوگ کوئی رائے دیں تو کہا جائے گا کہ جلسے کی اقلیت نے یہ رائے دی، اگر زیادہ مجمع رائے دے تو اکثریت کی رائے کہی جائے گی اور اگر سب کے سب باتفاق رائے کوئی بات کہیں تو کہا جائے گا کہ اجماع واقع ہوا یعنی ایک فرد بھی مخالف نہیں تھی۔ اب برائے خدا یہ بتائیے کہ کیا سقیفہ میں اور اس کے بعد مسجد میں پھر شہر مدینہ میں لوگوں نے خلافت ابوبکر کے لیے ایسی اجماعی رائے دی اگر آپ کے حسب خواہش ہم جبرا ساری امت سے حق رائے دہندگی چھین لیں اور آپ کی آواز میں آواز ملاکر کہنے لگیں کہ اجماع سے صرف مرکز اسلامی یعنی مدینہ منورہ کے عقلاء اورکبار صحابہ ہی کو مراد لینا کافی ہے تب بھی آپ کو خدا کی قسم سچ بتائیے کہ آیا ایسا اجماع واقع ہوا جس میں مدینے کے تمام عقلاء کبار صحابہ بالاتفاق خلافت ابوبکر کے لیے رائے دی ہو؟ آیا اس تھوڑی سی جماعت نے بھی متفقہ رائے دی تھی جو سقیفے میں حاضر تھی ؟ قطعا

۳۰۳

جواب نفی میں ہوگا۔ چنانچہ صاحب مواقف نے خود اعتراف کیا ہے کہ خلافت ابوبکر میں کوئی اجماع واقع نہیں ہوا یہاں تک کہ خود مدینے کے اندر اور اہل حل و عقد میں بھی، اس لیے کہ سعد بن عبادہ انصاری ان کی اولاد، خاص خاص صحابہ، تمام بنی ہاشم ، ان کے دوست اور علی ابن ابی طالب علیہ السلام چھ ماہ تک مخالفت کرتے رہے اور بیعت نہیں کی۔

در اصل جب ہم حق و انصاف کے روسے تاریخ کی طرف رجوع کرتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ خود مدینہ منورہ میں بھی جو نبوت اور حکومت اسلامی کا مرکز تھا ایسا اجماع واقع نہیں ہوا جس میں وہاں پر موجود صاحبان عقل اور صحابہ نے خلافت ابوبکر کی متحدہ تائید کی ہو۔

چنانچہ خود آپ کے اکثر ثقہ راویوں اور بڑے بڑے مورخون نے جیسے امام فخر الدین رازی ، جلال الدین سیوطی، ابن ابی الحدید معتزلی، طبری، بخاری اور مسلم وغیرہ نے مختلف عبارتوں کے ساتھ بتایا ہے اور نقل کیا ہے کہ خود مدینے میں پورا اجماع منعقد نہیں ہوا۔

علاوہ اس کے کہ تمام بنی ہاشم و رسول اللہ(ص) کے اہل بیت(ع) جو عدیل قرآن تھے اور دوسرے اہل خاندان جن کی رائے اچھی خاصی اہمیت رکھتی تھی اور بنی امیہ بلکہ عام اصحاب بھی سوا تین نفر کے سقیفہ میں خلافت پر رائے دینے کے لیے حاضر نہ تھے۔ بلکہ سننے کے بعد انہوں نے اس پر پورا اعتراض بھی کیا۔ یہاں تک کہ مہاجرین و انصار میں سے جن بزرگ اصحاب نے بیعت سقیفہ کو غلط بتایا تھا ان میں سے چند مقتدر حضرات سے مسجد میں جاکر ابوبکر سے احتجاجات بھی کئے جیسے مہاجرین میں سے سلمان فارسی، ابوذر غفاری، مقداد بن اسود کندی، عمار یاسر، بریدہ اسلمی اور خالد بن سعید بن عاص اموی۔ اور انصار میں سے ابوالہیثم بن التیہان خذیفہ بن ثابت ذوالشہادتین ( جن کو رسول اکرم(ص) نے ذوالشہادتین لقب دیا تھا، ابو ایوب انصاری، ابی بن کعب، سہل بن حنیف اور عثمان بن حنیف۔ ان میں سے ہر ایک نے مسجد کے اندر کافی اور شافی دلائل و براہین پیش کئے جن کی تفصیل بیان کرنے کا وقت نہیں ہے۔ صرف حاضرین اور سامعین کی بصیرت افروزی اور اتمام حجت کے لیے یہ مختصر خاکہ پیش کر دیا تاکہ واضح ہوجائے کہ اجماع مکمل طور پر باطل اور بے بنیاد ہے کیونکہ خود مدینے میں بھی اجماع واقع نہیں ہوا بلکہ مدینے کے عقلاء اور اکابر اصحاب کا اجماع بھی صریحی جھوٹ ہے کچھ مخالفین خلافت کے نام آپ کی معتبر کتابوں سے عرض کرتا ہوں۔

کبار صحابہ کی بیعت ابوبکر سے علیحدگی

ابن حجر عسقلانی اور بلاذری تاریخ میں، محمد خاوندشاہ روضتہ الصفا می، ابن عبدالبر استیعاب میں، اور دوسرے علماء کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ، قبیلہ خزرج اور قریش کے ایک گروہ نے ابوبکر کی بیعت نہیں کہ نیز اٹھارہ

۳۰۴

نفر بزرگان صحابہ نے بیعت نہیں کی اور رافضی ہوگئے۔ یہ لوگ علی ابن ابی طالب(ع) کے شیعہ تھے۔

ان اٹھارہ اصحاب کے نام یہ تھے ۔1۔ سلمان فارسی۔ 2۔ ابوذر غفاری۔3۔ مقداد بن اسود (کندی) ۔ 4۔ عمار یاسر۔ 5۔ خالد بن سعید بن العاص۔ 6۔ بریدہ الاسلمی۔ 7۔ ابی بن کعب۔ 8۔ خذیمہ بن ثابت ذوالشہادتین۔9۔ ابوالہیثم بن التیہان۔ 10۔ سہل بن حنیف ۔ 11۔ عثمان بن حنیف ذوالشہادتین۔ 12۔ ابو ایوب انصاری۔ 13۔ جابر بن عبداللہ انصاری۔ 14۔ حذیفہ بن الیمان۔ 15۔ سعد بن عبادہ ۔ 16۔ قیس بن سعد ۔ 17۔ عبداللہ بن عباس۔ 18۔ زید بن ارقم۔

یعقوبی اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ :

" لقد تخلف عن بيعة ابی بکر قوم من المهاجرين والانصار ومالوا مع علی ابن ابی طالب. منهم العباس بن عبدالمطلب و الفضل بن العباس و الزبير بن العوام بن العاص و خالد بن سعيد والمقداد بن عمر و سلمان الفارسی و ابوذر الغفاری و عمار بن ياسر و البراء بن عازب و ابی بن کعب."

یعنی مہاجرین و اںصار کی ایک جماعت نے بیعت ابی بکر سے اختلاف اور علیحدگی اختیار کی اور علی بن ابی طالب(ع) کی طرف مائل ہوئی من جملہ ان کے عباس ابن عبدالمطلب، فضل بن عباس، زبیر بن عوام بن العاص، خالد بن سعید، مقداد بن عمر، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عماریاسر، براء بن عازب اور ابی بن کعب بھی تھے۔

تو کیا یہ افراد قوم کے صاحبان عقل، اکابر اصحاب اور رسول اللہ(ص) کے ہمدم و ہمراز نہیں تھے؟ کیا علی علیہ السلام ، عباس عم پیغمبر(ص) اور دوسرے بزرگان بنی ہاشم عقلائے قوم نہ تھے؟ خدا کے لیے ذرا اںصاف سے بتائیے یہ کیسا اجماع تھا، جو بغیر ان حضرات کی موجودگی ، مشورے، رضامندی اور تصدیق کے قائم ہوگیا؟ اس مجمع کے درمیان سے راز دانہ طور پر صرف تنہا ابوبکر کو بلا کر لے جائیں اور دوسرے کبار صحابہ کو نہ کوئی اطلاع دیں نہ ان سے صلاح ومشورہ لیں تو آیا اس سے اجماع کے معنی پیدا ہوتے ہیں یا یہ مطلب نکلتا ہے کہ ایک سیاسی سازش کام کر رہی تھی؟

پس علاوہ اس کے کہ تعیین خلافت کے موقع پر تمام امت کا اجماع منعقد نہیں ہوا تمام اہل مدینہ کا اجماع ہوسکا بلکہ سعد بن عبادہ اور ان کے ہمراہیوں کے نکل جانے سے اہل سقیفہ کے اس چھوٹے موٹے گروہ میں بھی اجماع نہیں ہوسکا البتہ یہ وہ پہلا کھیل تماشا تھا جو عالم اسلامی نے انسانی تاریخ کو امانت دیا۔

حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ

ان سب سے قطع نظر بنی ہاشم اور عترت و اہل بیت رسول(ص) بھی جن کا اجماع یقینا حجت تھا باعتبار حدیث مسلم بین الفریقین جس کو میں گزشتہ شبوں میں معتبر اسناد کے ساتھ عرض کرچکا ہوں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

" إنّي تارك

۳۰۵

فيكم الثقلين كتاباللّه وعترتي في أهلبيتي،ان تمسّكتم بهمافقد نجوتم ( و فی نسخة) لنتضلّوا بعدها ابدا"

یعنی میں تمہارے درمیان دو بزرگ چیزیں چھوڑ رہا ہوں، اللہ کی کتاب اور میری عترت و اہل بیت اگر ان دونوں سے تمسک رکھوگے تو یقینا نجات پائوگے ( اور ایک نسخے میں ہے) ہرگز گمراہ نہ ہوگے ( دیکھئے اس کتاب کا صفحہ نہ سقیفے میں موجود تھے نہ خلافت ابوبکر کی حمایت کی( یعنی ان کو اطلاع ہی نہیں دی گئی کہ وہاں اکٹھا ہوں تاکہ اجماع صادق آسکے۔

دوسری مشہور حدیث جو حدیث سفینہ کے نام سے موسوم ہے اور پچھلی راتوں میں مع اسناد کے ذکر کی جاچکی ہے کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا :

" مثل اهل بيتى كمثل سفينةنوح من توسل بهم نجى ومن تخلّف عنه اهلك"

یعنی میرے اہلبیت(ع) کی مثال کشتی نوح(ع) کے مانند ہے جو شخص اس سے متوسل رہے گا وہ نجات پائے گا اور جو شخص ان سے رو گردانی کرے گا وہ ہلاک ہوجائے گا۔

ثابت کرتی ہے کہ جس طرح طوفان اور بلائوں میں امت نوح کی نجات سفینے کے ذریعے سے تھی اس امت کو بھی حوادث اور آفات میں اہل بیت(ع) رسول(ص) کے دامن سے متمسک رہنا چاہیے تاکہ نجات حاصل ہو۔ اسی طرح جو ان کے دور اور الگ رہے گا ہلاک ہوگا۔

نیز ابن حجر صواعق محرقہ ذیل آیہ چہارم ص90 میں ابن سعد سے دو حدیثیں اہل بیت رسالت(ص) اور عترت پاک(ع) سے وابستہ رہنے کے وجوب میں نقل کرتے ہیں یہ کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا:

"أناوأهل بيتي شجرةفي الجنّة،وأغصانهافي الدنيا،فمن شاء ان يتّخذإلى ربّه سبيلا فليتمسک بها"

یعنی میں اور میرے اہل بیت جنت کے ایک درخت ہیں جس کی شاخیں دنیا میں ہیں۔ پس جو شخص خدا کی طرف راستہ چاہتا ہو اس کو اس سے تمسک ضروری ہے۔

دوسری حدیث یہ کہ فرمایا :

"فى كُلِ خَلَفٍ مِنْ امتى عُدُولٌ مِنْ اهلبيتى يَنْفُونَ عَنْ هَذَاالدِّينِ تَحْرِيفَالضَّالِّين َوَانْتِحَال َالْمُبْطِلِينَ،وَتَأْوِيل َالْجَاهِلِينَ الاوانائمتكم وَفْدُكُمْ الى اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ فَانْظُرُوامَنْ تُوفِدُونَ"

یعنی میری امت کے لیے ہر دور میں میرے اہل بیت(ع) میں سے کچھ عادل افراد ہیں جو اس دین سے گمراہوں کی تحریف باطل پرستوں کے دعوی اور جاہلوں کی تاویل کو دور کرتے رہتے ہیں۔ آگاہ ہو کہ یقینا تمہارے ائمہ اللہ کی طرف تمہارے سفیر ہیں پس یہ دیکھ لو کہ سفارت کس کے سپرد کرتے ہو۔

غرضیکہ تمام وہ اشخاص جن کی موجودگی اجماع و بیعت اور تعیین خلیفہ میں اثر انداز ہوتی بیعت کے مخالف تھے پس یہ کیسا اجماع تھا کہ صحابہ کبار، دانشمندان قوم اور عترت و اہل بیت رسالت(ص) مدینے میں ہوتے ہوئے اس میں شریک نہ تھے؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اجماع کیسا اکثریت بھی نہیں پیدا ہوئی۔ چنانچہ ابن عبدالبر قرطبی جو آپ کے بڑے عالم ہیں، استیعاب میں، ابن حجر اصابہ میں اور دوسرے علماء کہتےہیں کہ سعد بن عبادہ نے جو خلافت کے دعویدار

۳۰۶

تھے قطعا ابوبکر اور عمر کی بیعت نہیں کی اور وہ بھی اس لیے ان سے متعرض نہیں ہوئے کہ ان کا قبیلہ اچھا خاصا ہے کہیں کوئی فساد نہ اٹھ کھڑا ہو۔ سعد امی اختلاف کی وجہ سے شام چلے گئے اور بروایت روضتہ الصفا ایک بزرگ شخصیت کی تحریک؟؟؟ سے ( جس سے با خبر ہستیاں واقف ہیں کہ کون شخص تھا جس کا حکم نافظ تھا) رات کے وقت تیر مار کر ہلاک کرادئے گئے اور کہا گیا کہ جنات نے مار ڈالا ( لیکن مورخین روایت کرتے ہیں کہ تیر مارنے والے خالد ابن ولید تھے جو مالک ابن نویرہ کو قتل کرنے اور ان کی زوجہ پر تصرف کرنے کے بعد شروع خلافت ابوبکر سے خلیفہ ثانی عمر کے غیظ و غضب کی زد میں تھے چنانچہ عمر کے زمانہ خلافت میں انہوں نے چاہا کہ خلیفہ کی نظر میں اپنا وقار قائم کریں اور یہی کیا کہ رات کو انہیں تیر سے مار ڈالا اور مشہور یہ ہوا کہ جنات نے مارا) اب آپ حضرات خدا کے لیے اپنی عادت اور تعصب کو الگ رکھ کے تھوڑا غور کیجئے کہ یہ کیسا اجماع تھا جس میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام ، عباس عم رسول(ص)، ابن عباس تمام بنی ہاشم، عترت و اہل بیت پیغمبر(ص)، بنی امیہ اور انصار داخل نہیں تھے۔

حافظ : چونکہ فساد کا احتمال تھا اور ساری امت تک پہنچ نہیں تھی لہذا مجبورا جلد بازی میں انہیں چند حاضرین سقیفہ پر اکتفا کر کے بیعت لے لی، بعد کو امت نے بھی مان لیا۔

خیر طلب : مدینے سے باہر کی نمایاں شخصیتوں ، بزرگاں صحابہ اور دانشمندان قوم تک رسائی نہیں تھی لیکن خدا کے لیے اںصاف کیجئے کہ اگرکوئی چال نہیں جارہی تھی تو بزم شوری میں حاضرین مدینہ کو کیوں نہیں بلایا؟ آیا رسول خدا(ص) کے عم محترم ( شیخ القبیلہ) عباس، آںحضرت(ص) کے دماد علی ابن ابی طالب(ع) ، بنی ہاشم اورمدینے کے اندر موجود کبار صحابہ کی رائے لینا ضروری نہیں تھا؟ فقب عمر اور ابوعبیدہ جراح کی رائے ساری دنیائے اسلام کے لیے کافی تھی؟ فَاعْتَبِرُواياأُولِي الْأَبْصارِ !!!

پس آپ کی دلیل اجماع عمومی حیثیت سے نیز خصوصی طور پر کیوں کہ مہاجرین و اںصار میں سے عقلاء کبار صحابہ نے اس میں شرکت نہیں کی۔ بلکہ مخالفت بھی کی بالکل مہمل و باطل اور صاحبان عقل کے نزدیک درجہ اعتبار سے ساقط ہے۔

چونکہ جیسا عرض کرچکا ہوں اجماع اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص اس سے اختلاف نہ کرے اور آپ کے اس خود ساختہ اجماع میں عام طور پر آپ کے علماء ومورخین کے اقرار اور آپ کی تصدیق کے مطابق ارباب علم و عقل نےرائے دینے میں عمومی شرکت نہیں کی۔ چنانچہ امام فخرالدین رازی نہایت الاصول میں صاف صاف کہتے ہیں کہ خلافت ابوبکر و عمر میں ہرگز اجماع واقعی نہیں ہوا یہاں تک کہ سعد بن عبادہ کے قتل ہوجانے کے بعد اجماع منعقد ہوا لہذا سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے معدوم اور فرضی اجماع کو آپ نے حقانیت کی دلیل کیونکر بنالیا۔

وقت کا لحاظ کرتے ہوئے اس مختصر بیان کے ساتھ آپ کی پہلی دلیل کا جواب دیا گیا۔

۳۰۷

اس کی تردید کی ابوبکر سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے خلیفہ ہوئے

رہی آپ کی دوسری دلیل کہ ابوبکر چونکہ امیرالمومنین علیہ السلام سے عمر میں زیادہ تھے لہذا ان کا حق مقدم تھا تو یہ خلافت کے معاملے میں انتہائی مردود اور پہلی دلیل کے بھی زیادہی مہمل، بے معنی اور مضحکہ خیز ہے۔

اس لیے کہ اگر خلافت میں سن کی شرط تھی تو ابوبکر و عمر سے زیادہ بوڑھے بہت لوگ تھے اور یہ تو کھلی ہوئی بات ہے کہ ابوبکر کے باپ ابوقحافہ اپنے بیٹے سے بڑے تھے اور اس وقت زندہ بھی تھے، ان کو کس لیے خلیفہ نہیں بنایا ؟

حافظ : ابوبکر کا بڑھاپا لیاقت کے ساتھ تھا۔ جب کسی قوم کے اندر ایک جہاں دیدہ اور محبوب رسول اللہ(ص) بزرگ ہوتو کسی نا تجربہ کار جوان کو سردار نہیں بنایا کرتے۔

بوڑھے اصحاب کی موجودگی میں پیغمبر(ص) جوان علی(ع) کو ترجیح دیتے تھے

خیرطلب : اگر جیسا آپ کہہ رہے ہیں۔ سچ مچ ایسا ہی ہو کہ آزمودہ کار بوڑھے کی موجودگی میں کسی جوان کو کام پر اور وہ بھی خدا کے کام پر مقرر نہ کرنا چاہئیے تو یہ اعتراض سب سے پہلے رسول خدا(ص) پر وارد ہوتا ہے کیونکہ جس وقت آںحضرت(ص) غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہو رہے تھے تو منافقین نے خفیہ طور پر یہ طے کیا کہ آں حضرت(ص) کی عدم موجودگی میں مدینے کے اندر ایک انقلاب بر پا کریں گے۔ لہذا مدینے کا انتظام سنبھالنے کےلیے ایک تجربہ کار انسان کی ضرورت تھی جو آنحضرت(ص) کی جگہ پر یہاں ٹھہرے، ہمت اور حسن تدبیر کے ساتھ حالات کو قابو میں رکھے اور منافقین کے ہاتھ پائوں ڈھیلے کردے آپ حضرات سے میری درخواست ہے کہ فرمائیے پیغمبر(ص) نے مدینے میں کس شخص کو اپنی خلافت اور جانشینی سپرد فرمائی؟

حافظ : مسلم سے کہ علی کرم اللہ وجہہ کو اپنا خلیفہ اور قائم مقام بنایا تھا۔

خیر طلب : تو کیا ابوبکر و عمر اور دوسرے بوڑھے اصحاب مدینے نہیں تھے کہ رسول اکرم(ص) نے امیرالمومنین علیہ السلام جیسے جوان کو با قاعدہ اپنا خلیفہ اور جانشین بنایا اور صاف صاف فرمایا " انت خليفتی فی اهلبيتی و دار هجرتی " یعنی تم میرے خلیفہ ہو میرے اہل بیت(ع) میں اور میرے مقام ہجرت یعنی مدینے میں۔

بہتر ہوگا کہ آپ حضرات ذرا سوچ سمجھ کے دلیلیں قائم کیا کریں تاکہ جواب کے موقع پر لا جواب نہ رہ جائیں

۳۰۸

پس ابوبکر و عمر وغیرہ کے ایسے بوڑھے صحابہ کے سامنے علی علیہ السلام کو عین شباب میں خلیفہ مقرر کرنے سے آنحضرت(ص) کا ایک خاص مقصد یہ بھی تھا کہ آج آپ کے لیے ایک عملی جواب مہیا ہوجائے اور آپ یہ نہ کہیں کہ جہاندیدہ بوڑھے کے سامنے جوان کو ذمہ دار نہ بنانا چاہئیے ۔ رسول خدا(ص) کا عمل اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ تعیین خلافت اور تبلیغ رسالت میں پیری اور جوانی کو کوئی دخل نہیں ہے۔

اگر سال خوردہ بوڑھوں کے ہوتے ہوئے نو عمر جوان کا تقرر نہ ہونا چاہئیے تو اہل مکہ پر سورہ برائت کی ابتدائی آیتیں پڑھنے کے لیے جب کہ ایسے موقع پر قطعا ایک پیر کہن سال اور ہوشیار و جہاندیدہ بزرگ کی ضرورت تھی جو خوش اسلوبی اور سیاست کے ساتھ اس فریضے کو ادا کرے۔ رسول اکرم(ص) نے کس لیے بوڑھے ابوبکر کو راستے سے واپس بلا لیا اور جوان علی(ع) کو اس عذر کے ساتھ اس اہم کام پر مامور کردیا کہ خدا فرماتا ہے میری رسالت کو یا تم پہنچا سکتے ہو یا تمہیں جیسا کوئی مرد؟

اسی طرح اہل یمن کی ہدایت کرنےکے لیے ابوبکر وعمر وغیرہ کے ایسے سن رسیدہ بزرگوں کے وجود سے کیوں فائدہ نہیں اٹھایا اور امیرالمومنین علیہ السلام کو یمن والوں کی ہدایت پر مامور فرما دیا۔

اس قسم کے مواقع بہت ہیں جب کہ ابوبکر و عمر جیسے شیوخ قوم کی موجودگی میں آں حضرت(ص) نے علی(ع) جیسے جوان کو منتخب فرمایا اور بڑے بڑے کام آن کے سپرد فرمائے۔ پس معلوم ہوا کہ آپ کی یہ بڑھاپے والی شرط انتہائی پھس پھسی اور فضول و مہمل ہے۔ نبوت و ولایت اور خلافت کے شرائط میں بوڑھا ہونا ہرگز نہیں ہے بلکہ خلافت کی اصلی شرط نبوت کے مانند مکمل جامعیت ہے جو خداوند عالم کے نزدیک محبوب و پسندیدہ ہو او رجو فرد بذھی جملہ صفات عالیہ کی جامع ہو چاہے وہ کوئی بوڑھا شخص ہو یا جوان، خدائے تعالی اسی کو منصب خلافت کے لیے چنتا ہے اور نبی و رسول کے ذریعے لوگوں میں اعلان فرماتا ہے اور لوگوں پر واجب ہے کہ خدا و رسول کی طرح اس کی بھی اطاعت کریں۔

ایک اور بڑی دلیل مجھ کو یاد آگئی جس کو ان لوگوں کی خلافت کے رد میں بہت بڑا ثبوت سمجھنا چاہئیے اور وہ یہ کہ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف سے اس مصنوعی اجماع کی مخالفت ہوئی ہے۔

علی(ع) حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں

اس لیے کہ ارشاد رسول(ص) کے مطابق علی علیہ السلام کو ذات حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی تھی، چنانچہ آپ کے بڑے بڑے علماء نے اس بارے میں بہت سی روایتیں نقل کی ہیں۔

۳۰۹

من جملہ ان کے شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب16 میں کتاب السبطین فی فضائل امیرالمومنین(ع) سے،امام الحرم ابوجعفر احمد بن عبداللہ شافعی نے ستر حدیثوں میں سے بارہویں حدیث کو فردوس دیلمی کے، امیرسید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت ششم میں، حافظ نے امالی میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب44 ،میں بسند ابن عباس و ابی لیلی غفاری و ابو غفاری الفاظ و عبارت کے مختضر فرق اور کمی وبیشی کے ساتھ حضرت رسول خدا(ص) سے یہ حدیث نقل کی ہے جس کا آخری جملہ ہر جگہ ایک ہے کہ فرمایا :

"سَتَكُونُ مِنْ بَعْدِي فِتْنَةٌفَإِذَاكَانَ ذَلِكَ فَالْزَمُواعَلِيَّ بْنَ أَبِيطَالِبٍ فَإِنَّهُ أَوَّلُ مَنْ يَرَانِي وَأَوَّلُ مَنْ يُصَافِحُنِي يَوْمَالْ قِيَامَةِوَهُوَمعِی فِی السَّماءِ العُليَاوَهُوَفَارُوقُ هَذِهِ الْأُمَّةِيَفْرُق ُبَيْنَ الْحَقّ ِوَالْبَاطِلِ"

یعنی عنقریب میرے بعد ایک فتنہ برپا ہوگا۔ پس جب ایسا ہو تو تم لوگ لازمی طور پر علی ابن ابی طالب(ع) کے ساتھ رہنا کیونکہ وہ پہلے شخص ہیں جو قیامت کے روز مجھ کو دیکھیں گے اور سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں گے۔ وہ بلند منزلوں میں میرے ساتھ اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔

پس اصولا وفات رسول(ص) کے بعد ایسی صورت حال اور فتنہ عظیم جب مہاجرین و اںصار آپس میں دست و گریبان تھے اور ہر فریق یہ چاہتا تھا کہ خلیفہ ہم میں سے ہو ( گویا ہر ایک بہتے دریا سے ہاتھ دھونا چاہتا تھا) آںحضرت(ص) کے حکم و ہدایت کے مطابق امت والوں کا فرض تھا کہ علی علیہ السلام کو لاتے اور ان کا دامن پکڑتے کہ حق کو باطل سے جدا کریں۔ اور یقینا ارشاد پیغمبر(ص) کے مطابق جس طرف علی علیہ السلام ہوتے ادھر حق ہوتا اور دوسری طرف باطل۔

حافظ : یہ حدیث جو آپ نے نقل کی ہے خبر واحد ہے اور خبر واحد قابل اعتماد نہیں تھی کہ اس پر علمدر آمد ہوتا۔

خیر طلب : بہت تعجب ہے کہ آپ اتنی جلدی بھول جاتے ہیں یا عملا بھلا دیتے ہیں۔ خبر واحد کا جواب شروع میں عرض کرچکا ہوں کہ علمائے اہل سنت خبر واحد کو حجت مانتے ہیں لہذا اس بنا پر آپ اس روایت کو خبر واحد کہہ کر رد نہیں کرسکتے۔ علاوہ اس کے یہی ایک روایت نہیں ہے بلکہ آپ کے موثق علماء کے طریق سے مختلف عبارتوں کے ساتھ بہت سی روایتیں اس مطلب کو ثابت کررہی ہیں جن میں سے بعض کو ہم پچھلی راتوں میں بیان بھی کرچکے ہیں۔ اس وقت جہاں تک وقت اجازت دیتا ہے اپنی یادداشت کے موافق مختصرا صرف راویوں اور کتابوں کے ذکر پر اکتفا کرتے ہوئے مزید تائید کے لیے بجائے ان تمام مستند احادیث کو پیش کرنے کے چند کی طرف اشارہ کرتا ہوں ۔ من جملہ ان کے ایک حدیث ہے جس کو محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں طبرانی نے کبیر میں، بیہقی نے سنن میں، نور الدین مالکی نے فصول المہمہ میں، حاکم نے مستدرک میں، حافظ ابو نعیم نے حلیہ میں، ابن عساکر نے تاریخ میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، طبرانی نے اوسط میں، محب الدین نے ریاض نفرہ میں، حموینی نے فرائد میں، اور سیوطی نے درالمنثور میں ، ابن العباس و سلمان و ابوذر حذیفہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے دست مبارک سے علی ابن ابی طالب(ع) کی طرف اشارہ کر کے فرمایا :

"إنّ هذاأوّل من آمن بي ،وأوّل من يصافحني يومالقيامة،

۳۱۰

وهذاالصّديق الأكبر،وهذافاروق هذه الأمّةيفرّق بين الحقّ والباطل"

یعنی در حقیقت یہ (علی) پہلے شخص ہیں جو مجھ پر ایمان لائے اور پہلے شخص ہیںجو روز قیامت مجھ سے مصافحہ کریں گے۔ یہ علی(ع) صدیق اکبر(یعنی سب سے بڑے سچ بولنے والے) اور اس امت کے فاروق ہیں جو حق و باطل کے درمیان جدائی ڈالیں گے۔

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب 44 میں اسی حدیث کو ان الفاظ کے اضافے کے ساتھ نقل کیا ہے۔

"وهويعسوب المؤمنين والمال يعسوب الظلمة،وهوبابي الذي اوتي منه،وهوخليفتي من بعدي."

یعنی وہ مومنین کے بادشاہ ہیں، یہ میرے دروازہ ہیں جس سے لوگ آتے ہیں اور وہ میرے بعد خلیفہ ہیں۔

( اس کے بعد گنجی شافعی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو محدث شام نے اپنی کتاب کے انچاسویں(49) جزء میں فضائل علی (ع) میں تین سو حدیثوں کے بعد لکھا ہے) محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں، ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ میں، خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد جلد چہاردہم ص21 میں، حافظ مردویہ نے مناقب میں، سمعانی نے فضائل الصحابہ میں، دیلمی نے فردوس میں، ابن قتیبہ نے الامامتہ والسیاسہ جلد اول ص68 میں زمخشری نے ربیع الابرار میں، حموینی نے فرائد باب37 میں، طبرانی نے اوسط میں، فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر جلد اول ص111 میں، گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، امام احمد نے مسند میں اور آپ کے دوسرے علماء نے نقل کیاہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا " علی مع الحق والحق مع علی حيث دار " یعنی علی (ع) حق کے ساتھ اور حق علی (ع) کے ساتھ پھرتا ہے ( یعنی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے)

انہیں کتابوں میں ہے نیز شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے ینابیع المودت باب20 میں حموینی سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا " علی مع الحق والحق مع علی يميل مع الحق کيف مال " یعنی علی (ع) حق کے ساتھ اور حق علی (ع) کے ساتھ ہے جس طرف حق مائل ہوتا ہے اسی طرف علی(ع) بھی مائل ہوتے ہیں۔)

اور حافظ ابونعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی متوفی سنہ431ھ نے حلیتہ الاولیاء جلد اول ص63 میں اپنے اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

"يامعشرالأنصارألاأدلكم على من إن تمسكتم به لن تضلوابعده أبداقالوابلى يارسول الله قال هذاعلي فأحبوه بحبي وأكرموه بكرامتي فإن جبرائيل أمرني بالذي قلت لكم عن الله عزوجل "

یعنی اے جماعت انصار آیا تمہاری رہنمائی نہ کروں میں اس شخص کی طرف کہ اگر اس سے تمسک کرو گے تو س کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے؟ سب نے

۳۱۱

عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ(ص) آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ وہ شخص یہ علی(ع) ہیں لہذا ان کو دوست رکھو میری محبت کے ساتھ اور ان کا اکرام کرو میری کرامت کے ساتھ کیونکہ جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے جبرئیل نے خدا کی طرف سے مجھ کو اس کا حکم دیا ہے۔

ان میں سے ہر حدیث رسول(ص) اپنے الفاظ اور راوی و حافظ کے اختلاف کی وجہ سے اگر چہ پہلی نظر میں خبر واحد معلوم ہوتی ہے جس میں ایک خاص مفہوم ادا کیا گیا ہے لیکن اہل علم کی نگاہوں میں اس سے تواتر معنوی ثابت ہوتا ہے کیونکہ ان سب کے مضامین سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ کچھ خاص دلائل ہیں جو ایک عام مقصود کے لیے وارد ہوئے ہیں اور ان کی باہمی شرکت سے وہی مقصود عام ثابت ہوتا ہے۔

اس مقصود عام سے مراد ولایت و امامت کی منزل میں رسول اللہ(ص) کی عنایت ہے جو بلا شرکت غیرے صرف علی علیہ السلام کی طرف آنحضرت(ص) کا میلان ظاہر کرتی ہے نیز اس کا ثبوت دیتی ہے کہ پیغمبر(ص) کی یہ شفقت و مہربانی تنہا علی علیہ السلام کے لیے مخصوص تھی اور آںحضرت(ص) ہمیشہ انہیں سے امداد طلب فرماتے تھے کیونکہ آپ نصرت کرنے میں یکتا تھے اور اسی وجہ سے امت کو بھی حکم فرماتے ہیں کہ میرے بعد علی (ع) کی طرف رجوع کرو اور ان سے تمسک اختیار کرو اس لیے کہ یہ ہمیشہ حق کے ساتھی اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔

اس قسم کی حدیثوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اںصاف کیجئے کہ آیا ابوبکر سے علی علیہ السلام کی مخالفت و آپ کے خیالی اجماع سے علیحدگی اور بیعت نہ کرنا ابوبکر کی حقانیت ثابت کرتا ہے یا ان کی خلافت باطل ہونے کا دلیل ہے؟ اگر ابوبکر کی خلافت دست تھی تو علی علیہ السلام نے جو حق و صداقت کے پیکر تھے اور رسول اکرم(ص) نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ ہمیشہ حق کے ساتھ اور حق ان کے ساتھ گردش کرتا ہے ان کی بیعت کیوں نہیں کی بلکہ مخالفت بھی کی؟ واقعی سقیفے کے روز جتنی پھرتی سے کام لیا گیا وہ بہت افسوس اور حیرت کا مقام ہے اور اس روز کا طریقہ کار ہر نکتہ رس ہوشمند انسان کو قطعی طر پر شبے میں ڈالتا ہے کہ اگر کوئی سازش کار فرما نہیں تھی تو ( چند گھنٹے ہی سہی) آخر انتظار کیوں نہ کیا کہ علی ابن ابی طالب(ع) جو بقول رسول (ص) حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے تھے ، کبار صحابہ، بنی ہاشم اور بالخصوص آن حضرت(ص) کے چچا عباس سب ک سب جمع ہوجائیں اور امر خلافت میں جو ایک عمومی فریضہ تھا اپنے خیالات ظاہر کریں؟

حافظ : یہ بات تو یقینی ہے کہ کوئی سازش نہیں چل رہی تھی بلکہ حالات چونکہ خطرناک دیکھے لہذا حفاظت اسلام کے لیے تعیین میں جلدی کی۔

خیرطلب : یعنی آپ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ ابوعبیدہ جراح ( مکے سابق گورکن) وغیرہ کو رسول اللہ(ص) کے بزرگ چچا عباس اور علی بن ابی طالب(ع) سے جنہوں نے اس دین کے راستے میں اپنی زندگی وقف کردی تھی یا دوسرے

۳۱۲

کبار صحابہ اور بنی ہاشم سے زیادہ اسلام کا درد تھا اور جتنی دیر وہاں باتیں بنائی تھیں اگر اتنی دیر ٹھہرجاتے یا ابوبکر وعمر مجمع کو باتوں میں مشغول رکھتے اور فورا ابوعبیدہ یا کسی اور کو بھیج کر عباس و علی(ع) کو اس خطرناک صورت حال سے آگاہ کردیتے تاکہ جلد وہاں پہنچ جائیں اور پھر تھوڑی دیر صبر کر لیتے کہ وہ بزرگوار آجائیں تو کیا اسلام ہاتھ سے نکل جاتا؟ اور ایسا فتنہ اٹھ کھڑا ہوتا کہ اس کو روک تھام ہو ہی نہ سکتی؟

اںصاف سے کام لیجئے تو قطعا اگر تھوڑا صبر کر کے کم از کم بنی ہاشم اور بزرگان صحابہ کو مع عباس و علی(ع) کے سقیفے میں بلا لیتے تو وہ تینوں اشخاص و ابوبکر و عمر اور ابوعبیدہ اگر حق بات کہتے تھے تو ان کی طاقت اور بڑھ جاتی، اسلام کے اندر اتنا اختلاف رونما نہ ہوتا اور آج ساڑھے تیرہ سو سال کے بعد ہم اور آپ برادران اسلامی اس جلسے میں ایک دوسرے کے مقابلے پر نہ آجاتے بلکہ تمام قوتوں کو متحد کر کے دشمنوں سے ٹکر لیتے ۔

پس تصدیق کیجئے کہ اسلام کے سرپر جو آفت آئی اسی روز سے آئی اور وہ فقط اسی تعجیل کا نتیجہ تھی جس پر تینوں افراد ( ابوبکر و عمر و ابوعبیدہ) نے عمل کر کے اپنے خفیہ ولی مقاصد پورے گئے۔

نواب : قبلہ صاحب آخر سبب کیا تھا کہ ان لوگوں نے اس قدر جلدی کی اور بقول آپ کے حاضرین مسجد و خانہ رسول(ص) کو بھی خبر نہیں دی؟

خیر طلب : اتنی جلدی کرنے کے سبب قطعا یہی تھا کہ وہ جانتے تھے کہ اگر تمام مسلمانوں کے آںے کا انتظار کریں گے یا کم سے کم اسامہ بن زید کی سر برآوردہ ہستیاں، مدینے کے اندر موجود بزرگ اصحاب اور بنی ہاشم وغیرہ سب جمع ہو کر مشورے میں شرکت کریں گے تو نامزدگی کے وقت علی علیہ السلام کا نام ضرور لیا جائے گا اور اگر علی(ع) یا عباس کا نام آگیا تو اس مجمع میں حق اور حقیقت کے طرفدار لوگ ا پنی مضبوط اور واضح دلیلوں سے میدان سیاست میں ہماری پگڑی اچھال دیں گے لہذا عجلت کی تاکہ جب تک بنی ہاشم اور بزرگ اصحاب پیغمبر(ص) کے غسل و کفن اور دفن میں مشغول ہیں ہم اپنا کام بنالیں اور ابوبکر کو اسی دو نفری تدبیر سے مسند خلافت پر بٹھا دیں چنانچہ وہی کیا اور آپ حضرات بھی آج تک اس کو مسلمانوں کا اجماع کہے چلے آرہے ہیں۔

آپ کے اکابر علماء جیسے طبری اور ابن ابی الحدید وغیرہ نے بھی لکھا ہے کہ عمر کہتے تھے ابوبکر کی خلافت جلدی میں اچانک قائم ہوگئی ہے خدا خیر کرے۔

۳۱۳

عمر کے اس قول کی تردید کہ نبوت و سلطنت ایک جگہ جمع نہ ہوگی

اب رہی آپ کی دوسری دلیل خلیفہ عمر کی سند سے کہ نبوت و سلطنت ایک خاندان میں جمع نہیں ہوتی ہے تو یہ بھی آیت نمبر57 سورہ4 ( نساء) کی نص صریح سے باطل ہے ارشاد ہے۔

"أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلى ماآتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه ِفَقَدْآتَيْناآلَإِبْراهِيمَ الْكِتاب َوَالْحِكْمَةَوَآتَيْناهُمْ مُلْكاًعَظِيماً"

یعنی آیا خدا نے جو کچھ ان کو اپنے فضل و کرم سے عطا کیا ہے اس پر لوگ حسد کرتے ہیں؟ پس یقینا ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت دی اور ان کو زبردست ملک و سلطنت عطا کیا۔

پس اس آیہ شریفہ کے حکم سے آپ کی یہ دلیل مردود ہے اور یہ حدیث قطعا ضعیف بلکہ موضوعات میں سے ہے جو خلیفہ عمر کی طرف منسوب کی گئی ہے اس لیے کہ رسول اللہ(ص) قرآن مجید کی نص صریح کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں فرماتے اور یہ آیت خود اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ نبوت و سلطنت کا ایک جگہ جمع ہونا ممکن ہے ( جیسا کہ آل ابراہیم وغیرہ میں جمع ہوئی) اس کے علاوہ منصب خلافت عہدہ نبوت کا ایک جزء ہے بلکہ اس کا تتمہ ہے ، سلطنت اور بادشاہی نہیں ہے جس کے لیے آپ کہہ سکیں کہ ایک خاندان میں جمع نہیں ہوتی۔

اگر حضرت موسی علیہ السلام کے بھائی جناب ہارون علیہ السلام خلافت موسی سے برطرف ہیں تو علی علیہ السلام بھی خلافت خاتم الانبیاء سے محروم ہوسکتے ہیں۔ اور اگر بحکم قرآن موسی ہارون علیہما السلام میں نبوت و خلافت جمع ہوئی تو قطعا محمد و علی علیہما الصلوۃ والسلام میں بھی جمع ہوگی ۔ چنانچہ جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں حدیث منزلت اس کی گواہ ہے پس آپ کی یہ حدیث قطعا بنی امیہ کے موضوعات میں سے ہے اور مجہول اور ہر پہلو سے ناقابل قبول ہے۔

اگر نبوت اورخلافت ( یا بقول خلیفہ عمر کے سلطنت) ایک جگہ جمع نہیں ہوتی ہے تو پھر مجلس شوری میں خلیفہ عمر نے علی علیہ السلام کو خلافت کےلیے کیوں نامزد کیا تھا؟ اور اسی کے بعد چوتھے نمبر پر آپ لوگ بھی حضرت کو خلیفہ کیوں مانتے ہیں؟ عجیب بات ہے کہ خلافت بلافصل تو ( حدیث گھڑ کے نبوت کےساتھ جمع نہ ہو لیکن خلافت مع الفصل جمع ہو جائے۔

چشم باز و گوش باز داں عمی حیرتم از چشم بندی خدا

اس کے علاوہ رسول اللہ (ص) صاف صاف فرماتے ہیں کہ جس راستے پر علی (ع) چلیں ادھر تم بھی چلو، دوسرون کی پیروی نہ کرو آپ کہتے ہیں کہ نبوت و سلطنت ایک خاندان میں اکھٹا نہیں ہوتیں، حالانکہ آنحضرت(ص) نے اپنی عترت کی پیروی امت پر واجب قرار دی ہے اور ان کی مخالفت کو محض ضلالت و گمراہی جانا ہے۔ جیسا کہ گذشتہ راتوں

۳۱۴

میں میں نے یہ معتبر اور متفق علیہ فریقین صریحی حدیث مع اس کے اسناد کے عرض کی ہے کہ آنحضرت(ص) نے بار بار فرمایا :

"إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَبَيْتِي إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَالَن ْتَضِلُّوابَعْدِي أَبَداً"

یعنی میں تمہارے درمیان دو بزرگ و بہتر گراں چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ، ایک قرآن مجید اور دوسری میری عترت اور اہل بیت(ع)، اگر ان دونوں سے تمسک رکھو گے تو ہرگز کبھی گمراہ نہ ہوگے۔

جس طرح سے طوفان نوح کی آمد مِں حضرت نوح(ع) کے حکم سے جو شخص آپ کی بنائی ہوئی کشتی میں بیٹھ گیا اس نے نجات پائی اور جس نے منہ موڑا ہلاک ہوگیا چاہے وہ ان کا بیٹا ہی کیوں نہ رہا ہو۔ اسی طرح اس امت مرحومہ میں بھی حضرت خاتم الانبیاء (ص) نے اپنی عترت اور اہل بیت (ع) کو بمنزلہ کشتی نوح(ع) بیان فرمایا ہے کہ آیندہ مشکلات و اختلافات میں اس گھرانے کے علم و عقل اور ظاہر و باطن کے دامن سے وابستہ رہیںگ ے تو نجات حاصل کریں گے اور کشتی نوح(ع) سے روگردانی کرنے والوں کے مانند تخلف کریں گے تو ہلاک ہوجائیں گے (جسیا کہ اسی کتاب کے ص؟؟؟؟؟؟؟؟؟ میں تفصیل سے گزر چکا )

پس اس قسم کے نصوص صریحہ اور قواعد واضحہ کے رو سے امت کا فرض ہے کہ اختلاف اور دشواریوں میں عترت و اہل بیت رسالت(ع) کی رائے سے فائدہ اٹھائیں اور امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام چونکہ مزید علمی و عملی فضائل اور پیغمبر(ص) کے تاکیدی احکام کی روشنی میں آں حضرت(ص) کی عترت و اہل بیت کی ایک فرد اکمل تھے پس کیوں تھوڑی دیر تامل کر کے آپکو اطلاع نہیں دی تاکہ آپ کے غور وفکر اور صائب رائے سے مدد ملتی؟

اس میں قطعا ایسا راز پوشیدہ تھا جس پر عقل و علم اور اںصاف والے حیران اور مبہوت ہیں جس وقت یہ لوگ اپنے اسلاف کی اندھی تقلید چھوڑ کر عادلانہ جائزہ لیتے ہیں تو حقیقت کی تہ تک پہنچ جاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ سیاسی بازیگروں نے علی(ع) کو انکے مستقل حق سے محروم کرنے کے لیے جلدی کر کے آپ کی اور دوسرے اصحاب و اہل تقوی کی غیر موجودگی میں ابوبکر کو مسند خلافت پر بٹھا دیا۔

شیخ : آپ کس دلیل سے فرماتے ہیں کہ صرف علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی پیروی کر کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی رایوں اور اجماع کو بالائے طاق رکھ دینا چاہیئے تھا؟

تعیین خلافت میں پھر اظہار حقیقت

خیر طلب : اول تو ہم نے یہ کہا ہی نہیں ہے کہ صحابہ کی رائیں اور ان کا اجماع قابل احترام نہیں ہے۔ البتہ ہمارے اور آپ کے درمیان فرق یہ ہے کہ آپ نے جونہی کسی صحابی کا نام سنا بس چاہیے وہ کوئی منافق ہی ہو یا ابوہریرہ ہی ہوں جن کو خلیفہ عمر کوڑے سے مارتے تھے اور کذاب ( بہت بڑا جھوٹا ) کہتے تھے فورا زانوئے ادب

۳۱۵

تہ کردیتے ہیں، لیکن ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک وہی صحابی محترم ہے اور اسی کے قدم آنکھوں سے لگانے کے قابل ہیں جس نے رسول اللہ(ص) کی مصاحبت کے شرائط پورے کئے ہوں، ہوائو ہوس کا بندہ نہ رہا ہو اور احکام خدا و رسول(ص) کا آخر عمر تک دیانتداری سے پا بند رہا ہے۔

دوسرے ہم واضح دلائل سے آپ کے سامنے ثابت کرچکے کہ سقیفہ میں خلیفہ ابوبکر کی بیعت پر کوئی اجماع نہیں ہوا تاکہ امت کی اجماعی رائے سے ان کی خلافت مسلم ہوجائے۔ اب اس کے خلاف اگر آپ کے پاس کوئی قاعدے کا جواب ہو تو بیان فرمائیے تاکہ حضرات حاضرین جلسہ بے لاگ فیصلہ کرسکیں اور میں بھی اس اجماعی تجویز کے سامنے سر تسلیم خم کروں، اگر آپ اپنی کتابوں سے اس کا ثبوت دے دیجئے کہ سقیفہ میں ساری امت یا کم از کم بقول آپ کے تمام عقلائے قوم جمع ہوئے اور سب نے مل کر رائے دی کہ ابوبکر کو خلیفہ ہونا چاہئیے تو میں مان لوں گا اور اگر سوا دو نفر ( عمر و ابوعبیدہ) اور قبیلہ اوس کے چند افراد کے جن کو قبیلہ خزرج کے ساتھ اپنی دیرینہ عداوت و مخالفت کا لحاظ تھا دوسرے اشخاص نے بیعت نہیں کی تھی تو آپ تصدیق کیجئے کہ ہم(شیعہ) غلط راستے پر نہیں ہیں۔

تیسرے اس سب پر ہماری تنقید یہ ہے اور ہم دینا کے سارے عقلمندوں پر اس کا فیصلہ چھوڑتے ہیں کہ آیا صرف تین صحابی ایسا کرنے کے مجاز ہیں کہ پوری ملت کی باگ ڈور ہاتھ میں لے لیں اور باہمی گفت و شنید اور جنگ زرگری کر کے دو نفر ایک نفر کی بیعت کرلیں اس کے بعد لوگوں کو دھونس دے کےتلوار ، آگ اور اہانت سے مرعوب کر کے اپنا بنایا ہوا خاکہ ماننے پر مجبور کریں؟ یقینا جواب نفی میں ہوگا۔

میں مطلب کو دہراتے ہوئے پھر عرض کرتا ہوں کہ ہمارا اعتراض اس بات پ؛ر ہے کہ اس روز جب وہ تین نفر ( ابوبکر و عمر اور ابو عبیدہ جراح) سقیفہ پہنچے اور دیکھا کہ خلافت کی بحث در پیش ہے تو بزرگان قوم اور عقلا و کبار صحابہ کا تعاون کیوں نہیں حاصل کیا جن میں سے کچھ لوگ خانہ رسول (ص) میں تھے اور ایک جماعت لشکر اسامہ میں تھی؟

شیخ : ہم کہتے ہیں کہ کوئی غفلت ہوئی یا نہیں ہوئی ہم اس روز موجود نہیں تھے کہ دیکھتے وہ لوگ کس دشواری میں پھنسے ہوئے تھے، لیکن آج جب کہ ہمارے سامنے ایک طے شدہ عمل ہے چاہے وہ اجماع رفتہ رفتہ واقع ہو۔ ہم کو اس کے مقابلے میں اختلاف کی آواز نہ اٹھانا چاہیئے بلکہ سر تسلیم خم کر کے جس راستے وہ گئے ہیں اسی راستے پر گامزن ہوجانا چاہیئے۔

خیرطلب : خوب خوب ۔ مرحبا آپ کے استدلال پر اور آفرین آپ کے خیال اور عقیدے پر کہ آپ خواہ مخواہ ہم سے یہ منوانا چاہتے ہیں کہ مقدس دین اسلام ایک بھیڑیا دھسان مذہب ہے جس میں اگر دو تین آدمیوں نے ایک جگہ جمع ہوکر منصوبہ بنایا اور چند اشخاص نے ان کی حمایت میں ؟؟؟؟؟؟؟ مچادیا تو اب سارے مسلمانوں کا فرض ہوگیا کہ آنکھیں بند کر کے اس پر عملدرآمد کو قبول کریں۔ کیا خاتم النبیین(ص) کے پاک دین کا یہی مطلب ہے جب کہ صریحا آیت

۳۱۶

نمبر19 سورہ 29 ( زمر) ارشاد ہے۔

"فَبَشِّرْعِبادِالَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ"

یعنی اے رسول(ص) ان بندوں کو میرے لطف و رحمت کی بشارت دے دیجئے جو بات سنتے ہیں پس اس میں سے بہتر کی پیروی کرتے ہیں۔ (یعنی تحقیق کرلیتے ہیں، اندھی تقلید نہیں کرتے۔)؟

حالانکہ اسلام ایک تحقیقی دین ہے تقلیدی نہیں اور وہ بھی ابوعبیدہ (گورکن) معروف بہ جراح کی تقلید رسول اکرم(ص) نے خود ہمارے لیے راستہ کھول دیا ہے اور ہم کو پتہ دے دیا ہے کہ جس وقت امت دو گروہوں میں بٹ جائے تو ہم ان دونوں میں سے کس کی طرف جائیں تاکہ نجات پاسکیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ہم کو کس دلیل سے امیرالمومنین علیہ السلام کی پیروی واجب ہے؟ اس کا جواب کھلا ہوا ہے کہ آیات قرآنی اور آپ کی معتبر کتابوں میں درج موثق حدیثوں کی دلیل ہے۔

من جملہ ان روایات و ںصوص کے جن کے ماتحت امت مجبور ہے کہ حوادث و انقلابات میں علی علیہ السلام کی پیروی کرے عمار یاسر کی مشہور حدیث ہے جس کو آپ کے بڑے بڑَ علماء جیسے حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیہ میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، بلاذری نے اپنی تاریخ میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب43 میں حموینی سے، میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت پنجم میں، دیلمی نے فردوس میں اور آپ کے دوسرے موثق علماء نے ابوایوب اںصاری سے ایک مفصل حدیث نقل کی ہے جس کو مکمل بیان کرنے کا وقت نہیں لیکن اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس وقت لوگوں نے ابو ایوب سے سوال کیا ( بلکہ ان پر اعتراض کیا) کہ تم علی ابن ابی طالب(ع) کے طرفدار کیوں بن گئے اور ابوبکر کی بیعت کیوں نہیں کی؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایک روز میں رسول اللہ(ص) کی خدمت میں حاضر تھا کہ عمار یاسر وارد ہوئے اور آنحضرت سے سوال کیا حضرت نے گفتگو کے ضمن میں فرمایا

" يَاعَمَّارُ إِنْ سَلَكَ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَادِياًوَسَلَكَ عَلِيّ ٌوَادِياًفَاسْلُكْوَادِيَ عَلِيٍّ وَخَلِّ عَنِ النَّاسِ يَاعَمَّارُإِنَّ عَلِيّاًلَايَرُدُّكَ عَنْ هُدًى وَلَايَدُلُّكَ عَلَى رَدًى يَاعَمَّارُطَاعَةُعَلِيٍّ طَاعَتِي وَطَاعَتِي طَاعَةُاللَّهِ."

یعنی اے عمار اگر تمام لوگ ایک راستے پر جائیں اور تنہا علی(ع) ایک راستے پر تو تم علی(ع) کے راستے پر چلنا اور دوسروں سے بے نیاز ہوجانا اے عمار علی(ع) تم کو ہدایت سے برگشتہ نہ کریں گے اور ہلاکت کی طرف نہ لے جائیں گے اے عمار علی(ع) کی اطاعت میری اطاعت ہے اور میری اطاعت خدا کی اطاعت ہے۔

آیا جائز تھا کہ ان واضح نصوص اور صاف صاف احکام کے ہوتے ہوئے جو آپ کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں، باوجودیکہ علی علیہ السلام نے خلافت ابوبکر کی کھلی ہوئی مخالفت کی، چاہے ساری امت میں سے بنی ہاشم، بنی امیہ کبار صحابہ عقلاء قوم اور مہاجرین و انصار ان کے ہم آواز نہ بھی رہے ہوں (حالانکہ ہم آواز تھے) لوگ علی(ع) کی راہ کو چھوڑ دیں اور ایک غیر پیشوا کی پیروی کریں؟ کم سے کم یہی خواہش کرتے کہ اس قدر تامل کیا جائے کہ علی(ع) آجائیں اور ان کی تجویز معلوم کر لی جائے۔

( اتنے میں نماز عشاء کے لیے موذن کی آواز آئی اور مولوی صاحبان فریضہ ادا کرنے کے لیے اٹھ گئے نماز اور چائے کے بعد حافظ صاحب نے بات شروع کی۔)

۳۱۷

حافظ : جناب آپ نے اپنے بیانات کے ضمن میں دو باتیں عجیب فرمائیں ۔ اول تو آپ بار بار فرماتے ہیں۔ ( ابوعبیدہ گور کن) تو یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ یہ محترم بزرگ قبر کھودنے کا پیشہ کرتے تھے؟ دوسرے آپ نے فرمایا کہ علی(ع) و بنی ہاشم اور اصحاب بیعت میں شامل نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے مخالفت بھی کی در آنحالیکہ جملہ ارباب حدیث و تاریخ نے لکھا ہے کہ علی(ع) و بنی ہاشم اور اصحاب سب نے بیعت کی۔

خیر طلب : معلوم ہوتا ہے کہ آپ حضرات اپنے علماء کی تحریریں بھی غور سے نہیں پڑھتے۔ پہلی بات کہ ابوعبیدہ گوکن تھے۔ میں نے نہیں کہی ہے بلکہ آپ ہی کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ کتاب الہدایہ ولنہایہ مئولفہ ابن کثیر شامی جلد پنجم ص266 و ص267 کو ملاحظہ فرمائیے دفن رسول(ص) کے باب میں لکھا ہے کہ ابوعبیدہ جراح چونکہ اہل مکہ کی قبریں کھودا کرتے تھے لہذا جناب عباس نے ایک شخص کو مدینے کے گورکن ابوطلحہ کی تلاش میں اور ایک کو ابو عبیدہ کے تجسس میں روانہ کیا تاکہ دونوں آکر رسول اللہ(ص) کی قبر تیار کریں۔

دوسرے آپ نے فرمایا کہ علی(ع) و بنی ہاشم اور اصحاب سبھی نے بیعت کی۔ ہاں آپ بیعت کا لفظ تو ضرور پڑھ لیتے ہیں لیکن حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ کس نے کس وقت بیعت کی اور کیوں کر بیعت کی آپ کے سارے علمائے حدیث اور بڑے بڑے مورخین نے لکھا ہے کہ علی علیہ السلام اور بنی ہاشم نے بیعت تو کر لی لیکن چھ مہینے کے بعد اور وہ بھی جبر و تشدد ، قتل و خون کی دھمکیوں اور انتہائی اہانتوں کے بعد جو ان بزرگوار کے لیے عمل میں لائی گئیں اور ان حضرات کا ہر طرح سے بائیکاٹ کردینے کے بعد۔

حافظ : آپ جیسے شریف انسان کے لیے مناسب نہیں کہ شیعہ عوام کے الفاظ اور عقائد کو زبان پر جاری کیجئے جو یہ کہتے ہیں کہ علی(ع) کو جبرا کھینچتے ہوئے لے گئے اور ان کو قتل کردینے کی دھمکی دی۔ حالانکہ ان جناب نے انہیں ابتدائی دنوں میں انتہائی خواہش و رغبت کے ساتھ ابوبکر کی خلافت قبول کر لی تھی۔

چھ ماہ کے بعد زبردستی علی (ع) اور بنی ہاشم کی بیعت

خیر طلب : آپ جو یہ فرمارہے ہیں کہ علی علیہ السلام اور بنی ہاشم نے فوار بیعت کی تو میرا خیال کہ آپ جان بوجھ کر اپنے کو دھوکا دے رہے ہیں اس لیے کہ عام عام طور پر آپ کے مورخین تو یہ لکھتے ہیں کہ علی علیہ السلام کی بیعت جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی وفات کے بعد ہوئی ہے۔ چنانچہ بخاری نے صحیح جلد سوم ص37 باب غزوۃ خیبر میں اور مسلم بن حجاج نے اپنی صحیح جلد پنجم ص54 باب قول النبی لا نورث میں نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام کی بیعت وفات فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بعد ہوئی۔ اسی طرح عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ دینوری متوفی سنہ276ھ الامامت والسیاست آخر ص14 میں کہتے ہیں :

"فلم يبايع عليّ كرّم اللّه وجهه حتّى ماتت فاطمةرضي اللّه عنها"

یعنی علی علیہ السلام نے ( ابوبکر کی) بیعت نہیں کی یہاں تک کہ جناب فاطمہ(س) نے

۳۱۸

انتقال فرمایا۔

آپ کے بعض علماء وفات فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا وفات رسول اللہ صلعم کے پچھتر روز بعد جانتے ہیں جیسے خود ابن قتیبہ لیکن بالعموم آپ کے مورخین آںحضرت کے وفات کے چھ مہینے بعد سمجھتے ہیں جس سے نتیجہ یہ نکلا کہ علی علیہ السلام اور بنی ہاشم کی بیعت خلافت کے چھ ماہ بعد ہوئی ۔ چنانچہ مسعودی مروج الذہب جلد اول ص414 میں کہتے ہیں " ولم يبايع ه أحدمن بني هاشم حتّى ماتت فاطمة "

یعنی بنی ہاشم میں سے کسی ایک فرد نے بھی (ابوبکر کی ) بیعت نہیں کی یہاں تک کہ حضرت فاطمہ(س) نے وفات پائی۔

ابراہیم بن سعد ثقفی نے جو ثقات علماء میں سے ہیں زہری سے روایت کی ہے کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے بیعت نہیں کی لیکن چھ مہینے کے بعد اور ان کے اوپر لوگوں کی جرائت نہیں بڑھی لیکن وفات فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بعد جیسا کہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے۔

غرضیکہ آپ ہی کے اکابر علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام کی بیعت فورا نہیں ہوئی بلکہ بہت مدت کے بعد واقع ہوئی جب اس کے وسائل و اسباب اکٹھا ہوگئے اور حالات نے مجبور کردیا۔

ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم آخر ص18 میں زہری سے اور انہوں نے عائشہ سے روایت کی ہے کہ :

" فَلَمْ يُبَايِعْهُ عَلِيٌّ سِتَّةَأَشْهُرٍوَلَاأَحَدٌمِن ْبَنِي هَاشِمٍ حَتَّى بَايَعَهُ عَلِيٌّ"

" یعنی علی(ع) نے چھ ماہ تک ابوبکر کی بیعت نہیں کی اور بنی ہاشم میں سے کسی نے بھی بیعت نہیں کی جب تک علی(ع) نے نہیں کی۔

نیز احمد بن اعثم کوفی شافعی نے فتوح میں اور ابونصر حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں نافع سے اور انہوں نے زہری سے روایت کی ہے کہ " ان عَلِيّا لَمْ يُبَايِعْهُ الا بعد سِتَّةَأَشْهُرٍ " ( یعنی علی علیہ السلام نے بیعت نہیں کی مگر چھ مہینے کے بعد) رہا آپ کا یہ فرمانا کہ تم عوام کے عقائد کی پیروی بے خودی میں ہم پر حملہ کرتے ہیں حالانکہ اپنی کتابوں کے مضامین سے واقف ہیں۔ قسم خدا کی ہر قوم کے علماء ہی فسادات کے ذمہ دار ہیں جو عوام کو دھوکا دیتے ہیں تاکہ وہ یہ سمجھنے لگیں کہ ان روایتوں کو ہم نے گھڑا ہے۔ حالانکہ خود آپ کے بڑے بڑے علماء نے ان باتوں کا اقرار کیا ہے۔

حافظ ہمارے علماء نے کہاں یہ کہا ہے کہ علی(ع) کع جبرا کھینچا اور ان کے گھر میں آگ لگائی جیسا کہ شیعوں کے یہاں مشہور ہے اور اپنے مجالس میں جوش و خروش سے بیان کرتے ہیں۔ نیز یہ کہہ کر لوگوں کے جذبات ابھارتے ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف پہنچائی اور ان کا حمل ساقط کیا؟

خیر طلب : محترم حضرات یا تو واقعی آپ کو مطالعہ ہی بہت کم ہے یا عادتا اور قصدا اپنے اسلاف کی پیروی میں بیچارے مظلوم شیعوں کو عوام کی نگاہوں میں متہم کر کے ایسے جملوں سے اپنے بزرگوں کو پاکدامن دکھانا چاہتے ہیں۔ لہذا کہتے بھی

۳۱۹

ہیں اور لکھتے بھی ہیں کہ یہ روایتیں شیعوں نے بنائی ہیں( خصوصا سلطنت صفویہ کے زمانے سے ) کہ ابوبکر کے حکم سے عمر ایک مجمع کے ساتھ علی(ع) کے دروازے پر آگ لے کر گئے اور علی(ع) کو قتل کی دھمکی دے کر شور و شر کے ساتھ کھینچتے ہوئے بیعت کے لیے مسجد میں لے گئے۔

حالانکہ ایسا ہے نہیں میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ ان تاریخی قضیوں کو صرف شیعوں نے درج نہیں کیا ہے بلکہ آپ کے اںصاف پسند اکابر علماء و مورخین نے بھی لکھا ہے ۔ البتہ بعض نے تعصب کی وجہ سے احتراز کیا ہے۔ اگر آپ چاہیں ، تو وقت کا لحاظ کرتے ہوئے آپ کے معتمد علماء سے چند روایتیں جو اس وقت پیش نظر ہیں ثبوت کے لیے نقل کردوں تاکہ صاحبان انصاف کو معلوم ہوجائے کہ ہم بے قصور ہیں اور جو کچھ آپ نے کہا ہے وہی ہم بھی کہتے ہیں ۔

حافظ : فرمائیے ہم سننے کے لیے حاضر ہیں۔

بارہ دلیلیں اس پر کہ علی(ع) کو بزود شمشیر مسجد میں لے گئے

خیر طلب : 1۔ ابو جعفر بلاذری احمد بن یحیی بن جابر بغدادی متوفی سنہ279ھ نے جو آپ کے ایک موثق محدث اور مشہور مورخ ہیں اپنی تاریخ میں روایت کی ہے کہ جب ابوبکر نے علی علیہ السلام کو بیعت کے لیے طلب کیا ہے اور آپ نے قبول نہ کیا تو انہوں نے عمر کو بھیجا ، وہ آگ لے کر آئے کہ گھر کو جلا دیں گے۔ حضرت فاطمہ(س) نے دروازے کے قریب آکر فرمایا اے پسر خطاب کیا تم مجھ پر گھر جلا دوگے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ جو کچھ تمہارے باپ لے کر آئے ہیں اس میں یہ عمل بہت موثر ہے۔

2۔ عزالدین ابن ابی الحدید معتزلی اور محمد بن جریر طبری جو آپ کے معتمد ترین مورخ ہیں، روایت کرتے ہیں کہ عمر اسید بن خضیر ، سلمہ بن اسلم اور ایک جماعت کےہمراہ علی(ع) کے دروازے پر گئے اور کہا باہر نکلو ورنہ ہم گھر کو تمہارے اوپر جلا دیں گے۔

3۔ ابن خزابہ نے کتاب عزر میں زید بن اسلم سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا میں ان لوگوں میں سے تھا جو عمر کے ہاں لکڑیاں اٹھا کر فاطمہ(ع) کے دروازے پر لے گئے ۔ جب علی (ع) اور ان کے اصحاب نے بیعت سے انکار کیا تو عمر نے فاطمہ (ع) سے کہا کہ جو شخص اس گھر کے اندر ہو اس کو باہر نکالو ورنہ اور گھر والوں کو جلائے دیتا ہوں اس وقت علی و حسنین اور فاطمہ علیہم السلام اور صحابہ و بنی ہاشم کی ایک جماعت گھر کے اندر موجود تھی۔ فاطمہ(ع) نے فرمایا کیا تم مجھ پر اور میرے بچوں پر گھر جلادوگے؟ کہا ہاں خدا کی قسم، یہاں تک کہ سب باہر آکر خلیفہ رسول (ص) کی بیعت کریں۔

4۔ ابن عبدربہ نے جو آپ کے مشاہیر علماء میں سے ہیں حقدالفرید جلد سیم ص63 میں لکھا ہے کہ علی علیہ السلام اور عباس(ع) فاطمہ(ع) کے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ابوبکر نے عمر سے کہا جائو ان لوگوں کو لائو، اور اگر آنے سے انکار کریں تو ان سے جنگ کرو پس عمر آگ لے کر آئے تاکہ گھر جلادیں ، فاطمہ(ع) دروازے پرآئیں اور فرمایا اے پسر خطاب کیا تم میرا گھر جلانے آئے ہو؟ انہوں نے کہا ہاں۔ الخ

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367