فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ21%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206450 / ڈاؤنلوڈ: 5999
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

تیسری روایت میں ہے کہ حباب کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم تجھ سے یا تیرے اصحاب سے حسد نہیں کرتے ہم تو اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں وہ لوگ خلافت پر قابض نہ ہوجائیں جنہیں ہم نے قتل کیا ہے،پھر تو وہ لوگ ہم سے بدلہ لینا شروع کردیں ۔(۱)

ایک دوسرے روایت میں ہے کہ حباب نے انصار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:تم لوگ مجھے خاموش رہنے کی تلقین کر رہے ہو،بہرحال تم نے تو انجام پر غور کئے بغیر جو سمجھ میں آیا کیا لیکن میں خدا کی قسم مستقبل پر غور کر رہا ہوں کہ تمہاری اولاد ان کے دروازوں پر دستک دیکے پانی مانگے گی اور وہ انہیں سیراب کرنے سے انکار کردیں گے ابوبکر بولے:حباب تم کس وقت سے ڈ ر رہے ہو؟حباب نے کہا تم سے نہیں ڈ رتا،تمہارے بعد آنے والے لوگوں سے خوف زدہ ہوں،ابوبکر نے کہا:اگر ایسا ہوا اور تم وہ باتیں دیکھنے لگو جن کو تم نہیں چاہتے ہو تو پھر اختیار تمہارے ہاتھ میں دےدیں گے،حباب نے کہا:ابوبکر افسوس تو اسی کا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکےگا،میں تو اس وقت کی بات کر رہا ہوں جب نہ تم ہوگے نہ ہم ہوں گے اور ہمارے بعد وہ قوم آئے گی جو ہمارے بیٹوں کو سخت عذاب میں گرفتار کرے گی اور خدا ہی اسی سے طلبِ استعانت ہے ۔(۲)

انصار و غیرہ نے خلافت کے لئے امیرالمومنین ؑ کا نام لیا

یعقوبی کہتا ہے کہ سقیفہ میں جب ابوعبیدہ کی بیعت کی تجویز اور عمر کی طرف سے ابوبکر کی بیعت کی تجویز رکھی گئی تو عبدالرحمٰن بن عوف کھڑے ہوئے اور کہنے لگے:اے گروہ انصار اگر چہ تم صاحبِ فضیلت ہو لیکن ابوبکر،عمر اور علی ؑ کی طرح نہیں ہو،یہ سن کر منذر بن ارقم کھڑے ہوئے اور کہنے لگے تم نے جن کا ذکر کیا ہم ان کی فضیلت کے منکر نہیں ہیں،اس لئے کہ ان مذکورہ لوگوں میں ایک شخص ایسا ہے کہ اگر وہ خلافت کا مطالبہ کرے تو اس سے کوئی اختلاف کرےگا،نہ جھگڑا،ان کی مراد علی بن ابی طالب ؑ سے تھی ۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)انساب الاشراف ج:۲ص:۲۶۳،امر سقیفہ (۲)الفتوح لابن اعثم ج:۱ص:۱۰۰۔۱۱۱،خبر سقیفہ (۳)تاریخ یعقوبی ج:۲ص:۱۲۳،خبر سقیفہ اور بیعت ابوبکر

۲۴۱

ابن ابی الحدید،زبیر بن بکار سے روایت کرتے ہیں کہ جب ابوبکر کی بیعت ہوگئی تو ایک جماعت نے ابوبکر کو جلوس کی شکل میں لیکے مسجدِ نبوی تک پہنچا دیا اور ان کے پاس بیٹھے رہے،جب دن ختم ہونے لگا تو لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے،پس انصار کا ایک گروہ جمع ہوا اور مہاجرین کا ایک گروہ جمع ہوا اور دونوں ایک دوسرے سے غصّہ ہونے لگے،غصّہ کی بنیاد سقیفہ تھی،عبدالرحمٰن بن عوف کہنے لگے:اے گروہِ انصار اگر چہ تم صاحبِ فضیلت ہو،نصرتِ پیغمبر ؐ میں سبقت کرنے والے اور سابق الایمان ہو لیکن تم میں ابوبکر،عمر،علی ؑ اور ابوعبیدہ جیسا کوئی نہیں ہے،زید بن ارقم نے جواب دیا:اے عبدالرحمٰن!جن کی فضیلت کا تم نے ذکر کیا،ہم ان کے منکر نہیں ہیں،لیکن سیدالانصار سعد ابن عبادہ تو ہمیں میں سے ہیں تم نے قریش کے جن لوگوں کا نام لیا،ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے ایک شخص ایسا ہے جو اگر خلافت اپنے لئے طلب کرے تو اس سے کوئی جھگڑا نہیں کرےگا یعنی علی ابن ابی طالب ؑ۔(۱)

ابن اعثم نے عبدالرحمٰن اور زید بن ارقم کی گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے آخر میں لکھا ہے کہ زید بن ارقم نے کہا:عبدالرحمٰن!اگر علی ابن ابی طالب اور دوسرے بنوہاشم تدفینِ نبی ؐ میں مصروف نہ ہوتے اور آپ کے لئے غمگین ہوکے اپنے گھروں میں بیٹھے نہ ہوتے تو امرِ خلافت کی طرف کسی کی بھی پُر ہوس نگاہیں نہ اٹھتیں اور اس کی لالچ میں کوئی نہیں پڑتا،جاؤ لیکن اپنے اصحاب کو ایسی چیز کے بارے میں ہیجان میں مبتلا نہ کرو جس کا تم مقابلہ نہیں کرسکتے ۔(۲)

طبری اور ابن اثیر کہتے ہیں کہ سقیفہ میں جب ابوعبیدہ،ابوبکر اور عمر کی بیعت کا معاملہ اٹھا تو عمر نے فوراً ابوبکر کی بیعت کر لی اور دوسرے حاضرین نے بھی بیعت کرلی،اسی وقت انصار بولے یا انصار کی نمائندگی کرتا ہوا کوئی انصاری بولا ہم تو سوائے علی ؑ کے کسی کی بیعت نہیں کریں گے ۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۱۹۔۲۰

(۲)الفتوح الابن اعثم ج:۱ص:۱۲)

(۳)تاریخ طبری ج:۲ص:۲۳۳،روز وفات رسول خداؐ،الکامل فی التاریخ ج:۲ص:۲۲۰،خبر سقیفہ اور بیعت ابوبکر،چاپ۱۳۴۸سنہمطبعہ منیریۃ

۲۴۲

صحابہ کی جماعت کے نمایاں افراد علی ؑ کی طرف مائل تھے

ابن ابی الحدید جوہری کے حوالہ سے ان کی سندوں کے ساتھ جریر بن مغیرہ سے روایت کرتے ہیں کہ سلمان،زبیر اور انصار کی خواہش تھی کہ نبی ؐ کے بعد علی ؑ ہی کی بیعت کی جائے ۔(۱) اسی طرح دوسرے مورخین نے بھی لکھا ہے کہ مولائے کائنات ؑ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ گھر میں بیٹھ گئے یہاں تک کہ ابوبکر کی ایک جماعت نے ان پر ہجوم کیا ۔(۲)

ابن ابی الحدید جوہری کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ علی ؑ کے گھر میں بہت سے آدمی تھے ۔(۳)

انصار ابوبکر کی بیعت کرکے پچھتا رہے تھے

یہ بات بھی سبھی جانتے ہیں کہ اگر چہ انصار کی اکثریت نے ابوبکر کی بیعت کرلی تھی،اس کے باوجود ابن ابی الحدید،زبیر بن بکار کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ جب ابوبکر کی بیعت ہوگئی اور جب ابوبکر کا معاملہ سُلجھ گیا تو انصار کے کثیر افراد ابوبکر کی بیعت کر کے پچھتا رہے تھے اور ایک دوسرے کو ملامت کر رہے تھے،وہ امیرالمومنین ؑ کا نام لے رہے تھے اور آپ کا نام لیکر فریاد کر رہے تھے،حالانکہ مولائے کائنات ؑ اپنے گھر میں بیٹھے تھے اور باہر نہیں نکل رہے تھے(انصار کی اس بیزاری کی جہ سے)وہ مہاجرین جو ابوبکر کے ساتھ تھے اور وہ لوگ جو فتحِ مکہ کے دن مہمان ہوئے تھے اور جن کا انصار اور اسلام نے خون بہایا تھا،تنگ ہونے لگے اس موقعہ پر بہت سی باتیں ہوئیں بہت سی تقریریں ہوئیں اور بہت سے اشعار نظم کئے گئے ۔(۴)

جوہری،ابوسعید خدری سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے برا بن عاذب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۲ص:۴۹ج:۶ص:۴۳

(۲)ریاض الغضرہ،ج:۲ص:۲۰۵۔۲۰۶،ص:۱۲۳۔۱۲۵،تاریخ یعقوبی ج:۲ص:۱۲۶،الامامۃ و السیاسۃ ج:۱ص:۱۶،العقد الفرید ج:۴ص:۲۴۲،العسجدۃ الثانیۃ

(۳)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۴۸

(۴)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۲۳یعقوبی فی التاریخ ج:۲ص:۱۲۵

۲۴۳

کو کہتے ہوئے سنا کہ میں ہمیشہ بنی ہاشم سے محبت کرتا رہا،جب سرکارِ دو عالمؐ کی وفات ہوئی تو مجھے ڈر ہوگیا کہ قریش امرِ خلافت کو بنی ہاشم سے نکال لے جائیں گے تو میری حالت کسی جلد باز عاشق جیسی ہوگئی،پھر ہو(برا ابن عاذب)بیعت ابوبکر کا ذکر کرتے ہیں،یہاں تک کہ میں(برا بن عاذب)بنی بیاضہ کے میدان میں پہنچا تو دیکھا کہ کچھ لوگ آپس میں راز داری کی باتیں کر رہے ہیں،میں جب ان کے قریب پہنچا تو وہ لوگ خاموش ہوگئے،میں وہاں سے چلنے لگا،انہوں نے مجھے پہنچان لیا تھا لیکن میں نے انہیں نہیں پہچانا تھا،تو انہوں نے مجھے اپنے پاس بلایا،میں اُن کے پاس گیا تو دیکھا کہ وہاں مقداد بن اسود،عبدادہ بن صامت،سلمان فارسی،ابوذر،حذیفہ اور ابوھثیم بن تیہان تھے،حذیفہ کہہ رہے تھے کہ میں نے تمہیں جو بات بتائی ہے وہ ہو کر رہے گی،بخدا میں نے نہ جھوٹ بولا نہ مجھے جھٹلایا گیا،پھر کہا جا کے اُبی بن کعب سے پوچھ لو،ان کو بھی وہ سب کچھ معلوم ہے جو مجھے معلوم ہے،برا کہتے ہیں:پس ہم لوگ اُبی بن کعب کے پاس پہنچے اور ان کے دروازے پر دستک دی،انہوں نے اندر سے پوچھا تم لوگ کون ہو اور تمہاری ضرورت کیا ہے،ہم نے کہا:دروازہ کھولو بات ایسی نہیں ہےکہ پردہ کے پیچھے سے ہو،وہ بولے دروازہ تو میں نہیں کھولوں گا،البتہ تم جس کام کے لئے آئے ہو میں جان گیا ہوں،لگتا ہے تم امرِ خلافت کے بارے میں بات کرنے کے لئے آئے ہو،ہم نے کہا:ہاں!وہ کہنے لگے کیا تم میں حذیفہ بھی ہیں ہم نے کہا:ہاں،وہ کہنے لگے جو وہ کہہ رہے ہیں وہی صحیح ہے،خدا کی قسم میں تو اپنا دروازہ نہیں کھولوں گا جب تک حالات اسی طرح چلتے رہیں گے،اس کے بعد تو اس سے بُری حالت ہونےوالی ہے،میں تو خدا ہی سے شکوا کرتا ہوں۔(۱)

امیرالمومنین ؑ کو کمزور کرنے کی کوشش میں عباس کا استعمال

ابوبکر کی بیعت کو صحابہ بُرا کہہ رہے تھے اور اُسے توڑنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے،اسی وجہ سے ابوبکر نے ارادہ کیا کہ امیرالمومنین ؑ کو کمزور کریں اور آپ ؑ کے خاندان میں پُھوٹ ڈ ال دیں،سازش

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) شرح نہج البلاغہ ج: ۲ ص: ۵۱ ۔ ۵۲

۲۴۴

یہ تھی کہ عباس اور اولاد عباس کو خلافت میں کچھ اختیاردے کر اپنی طرف ملالیں تاکہ وہ لوگ امیرالمومنین سے رشتہ توڑ کر اور آپ کو چھوڑ کران کی طرف ہوجائیں ، ابوبکر نے عباس سے کہا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ کچھ لوگ مسلمانوں کی عام روش سے ہٹ کے باتیں کررہے ہیں انہوں نے تم لوگوں کو اپنی پناہ گاہ بنا رکھا ہے ، تم (بنوھاشم)ان لوگوں کے لئے مضبوط قلعہ اور ان کی حمایت میں بولنے والے شاندار خطیب ہوگئے ہو،ہو تو سنو !یا تو اس میں داخل ہوجاؤ جس میں سب لوگ داخل ہوئے ہیں (یعنی میری خلافت مان لو) یا پھر لوگوں کو جس کی طرف وہ مائل ہوگئے ہیں اس سے باز رکھو ہم تمھارے پاس آئے ہیں کہ تمھارے لئے امر خلافت میں سے کچھ حصہ دیدیں جو تمھارے بعد تمھاری اولادکے بھی کام آئے-

اس کے بعد عمرنے گفتگوشروع کی اور انہوں نے بھی ابوبکر کی تصدیق کی ، عمرنے کہا:ہم تمھارے پاس کسی ایسی ضرورت کے لئے نہیں آئے ہیں ،لیکن ہمیں یہ برا لگتا ہے کہ مسلمان کی جماعت جس بات پر مجتمع ہوچکی ہے تم اس پر طمع کرو اور تمھاری اور ان کی مصبیتیں بڑھ جائیں، عام مسلمانوں کے بارے میں اور اپنے بارے میں ذرا سوچ سمجھ کے چلو(۱)

عباس نے جو ان باتوں کا جواب دیا تھا وہ بھی تیسرے سوال کے جواب میں پیش کیا جاکا ہے-

ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے برسرمنبر ابو بکر کو غلط کہا

شیعہ روایتوں میں ہے کہ مہاجرین وانصار میں سے بارہ آدمیوں نے ابو بکر کو " جب وہ منبر پرجمعہ کا خطبہ دے رہے تھے " غلط کہا ان کے نام یہ ہیں

۱-خالد بن سعیدبن عاصم

۲- مقداد بن اسود

۳- ابی بن کعب

--------------

(۱)شرح نہ ج البلاغہ ج:۱ص:۲۲۰

۲۴۵

۴ ۔ عمار بن یاسر

۵ ۔ ابوذر غفاری

۶ ۔ سلمان فارسی

۷ ۔ بریدہ اسلمی

۸ ۔ خذیمہ بن ثابت ذوالشہادتین

۹ ۔ سہل ابن حنیف

۱۰ ۔ عثمان ابن حنیف

۱۱ ۔ ابوایوب انصاری

۱۲ ۔ ابوہیثم بن تیہان

ان لوگوں نے ابوبکر کو یاد دلایا کہ خلافت کے اصل مسحتق امیرالمومنین علی بن ابی طالب ؑ ہیں،پیغمبر ؐ نے آپ کی خلافت پر نص کیا ہے،انہوں نے ابوبکر کو نصیحت کی اور ہر آدمی نے بہت طویل گفتگو کی جس کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں ہے ۔(۱)

صدیقہ طاہرہ ؐ کا خطبہ اور آپ کا انصار کو خاص طور سے قیام کی دعوت دینا

اسی طرح معصومہ عالم ؐ نے مسجدِ نبوی میں ابوبکر سے براہِ راست فدک کا مطالبہ کیا،مورّخین کا بیان ہے کہ معصومہ ؑ نے ابوبکر سے فدک کا مطالبہ کیا،ان کی خلافت پر اعتراض کیا اور جو کچھ پیغمبر ؐ کے بعد ہوا اس کی مذمّت کی،پھر آپ انصار کی طرف مخاطب ہوئیں اور ان کی بات پر مذمت کی انہوں نے نصرت اہلبیت ؑ سے دست کشی کی،آپ نے انہیں تکلیف شرعی کی طرف متوجہ کر کے اس کو ادا کرنے پر ابھارا،آپ کے لہجہ میں بڑی شدت تھی،آخر کلام میں آپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) بحارالانوار ج: ۲۸ ص: ۱۸۹ ،ذرا سے اختلاف کے ساتھ ملاحظہ ہو،کتاب الخصال باب ۱۲ ،ص: ۴۲۹

۲۴۶

نے فرمایا کہ سقیفہ میں جو کچھ ہوا اور اس کے بعد جو ہو رہا ہے یہ خدا کے خلاف ہے،مصیبتوں کا راغی ہے اور اس کے بارے میں تمام مسلمان سختی سے مسئول ہونگے،آخر میں فرماتی ہیں کہ:میں نے جو کچھ کہا،یہ جان لینے کے بعد کہا کہ تمہارے دل میں ہمیں چھوڑ دینے کا جذبہ بھرچکا ہے اور تمہارے دلوں نے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے لیکن میں نے جو کچھ کہا وہ میرے دل کی بات تھی،غصّہ کی وجہ سے نکلا ہوا جھاگ ہے اور سینہ سے نکلا ہوا بلغم ہے،میں نے کہاتا کہ حجت پوری ہو اور وہ حجت تمہارے سامنے موجود تھی لیکن تم نے اُسے اپنے اونٹ کے پیچھے بٹھادیا،حق کا راستہ چھوڑ کے چلے،ننگ باقی رہا اور ہمیشہ کی بےعزتی کا داغ لگ گیا،وہ بےعزتی جو تمہیں خدا کی بھزکائی ہوئی آگ تک پہنچادےگی((وہ آگ جو دلوں کو جلاتی ہے))تم خدا کی آنکھوں کے سامنے کیا کر رہے ہو عنقریب ظالم لوگوں جان جائیں کہ جس ٹھکانے پہنچنےوالے ہیں،میں اس کی بیٹی ہوں جو تمہیں عذابِ شدید سے ڈ رایا کرتا تھا،پس تم بھی عمل کرو،ہم بھی عمل کر رہے ہیں،تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کررہے ہیں ۔(۱)

خطبہ کی تاثیر توڑنے کے لئے ابوبکر کی چال

معصومہ عالم ؐ نے جو خطبہ دیا اس کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں میں چیخ پُکار مچ گئی،خصوصاً انصار میں آثار اضطراب ظاہر ہوئے اور ان میں تحریک پیدا ہوگئی،ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ:جوہری نے((کتاب السقیفہ))میں لکھا ہے کہ محمد بن زکریا نے کہا:ان سے جعفر بن محمد بن عمارہ نے پہلی اسناد کے ساتھ بیان کیا کہ ابوبکر نے جب یہ خطبہ سُنا تو اُن پر،آپ کی گفتگو بہت گراں گزری،فوراً منبر پر آئے اور کہنے لگے،اے لوگو!یہ سب باتیں کیا ہیں؟یہ باتیں اور یہ خواہش عہد پیغمبر ؐ میں کہاں تھیں؟کسی نے سنا ہے تو کہے اور کوئی شاہد ہے تو بولے،اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)حوالہ تیسرے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے

۲۴۷

ایک لومڑی(اشارہ امیرالمومنین ؑ کی طرف ہے،معاذ اللہ)جس کی دُم(اشارہ معصومہ ؑ کی طرف ہے،معاذ اللہ)اس کے وجود کی گواہ ہے،وہی ہر فتنہ کی پرورش کر رہا ہے،وہی کہہ رہا ہے کہ درخت کے بوڑھے ہونے کے بعد اس میں برگ و بار نکل آئے،وہ کمزوروں سے مدد مانگتا ہے اور عورتوں کی مدد طلب کرتا ہے،اس کے نزدیک محبوب ترین شئی بغاوت ہے،خبردار ہوجاؤ!میں چاہوں تو بول سکتا ہوں اور جب میں بولوں گا تو وہ خاموش ہوجائے گی،اُس نے جو چھوڑ دیا ہے اُس کے بارے میں،میں خاموش ہوں ۔

پھر ابوبکر انصاری کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے:اے گروہِ انصار تمہارے بیوقوفوں کی بات مجھ تک پہنچی،تم عہدِ پیغمبر ؐ کی پابندی کے سب سے زیادہ مستحق ہو وہ تمہارے پاس آئے تو تم نے پناہ دی اور مدد کی،دیکھو جو اس بات کا مستحق نہیں ہے میں اس کے لئے نہ ہاتھ کھولنے والا ہوں نہ زبان،پھر وہ منبر سے اتر گئے اور معصومہ ؑ عالم وہاں سے تشریف لے گئیں ۔(۱)

قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ یہاں پر ابوبکر نے سقیفہ اور سقیفہ کے بعد کے واقعات پر تبصرہ کرنے والوں کے خلاف جان بوجھ کے سختی کی ہے جب کہ دوسروں کے لئے انہوں نے سختی نہیں کی اور ابوبکر کا یہ خطبہ سب و شتم اور تہدید و تشدید سے بھرا ہوا ہے جس کی صرف ایک وجہ ہماری سمجھ میں آتی ہے اور وہ ہے مستحقینِ خلافت اور مستحقین فدک کے مطالبہ کو سختی سے کچلنا،اس لئے کہ معصومہ ؐ کے خطبہ میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ خلافت کسی طرح امیرالمومنین ؑ تک پہنچے اور ابوبکر اس خطبہ کے مقاصد کو بھانپ گئے اور فوراً اپنے خطبہ میں اس بات کو احساس دلا دیا کہ اس طرح کی کوشش کا(قبل اس کے کہ یہ کوششیں طاقت پکڑے کے عام ہوں)تدارک کرنا بےحد ضروری ہے اور نے کیا بھی وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اگر یہ نظریہ آگے بڑھ گیا تو اُن کی خلافت کولے ڈ وبےگا اور انہیں ایسے نتائج کا سامنا کرنا پڑےگا جن کے بارے میں وہ خود نہیں جانتے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۲۱۴۔۲۱۵

۲۴۸

جب تک امیرالمومنین ؑ مسلمانوں سے الگ رہے لوگ جہاد کرنے کے لئے نہیں نکلے

مدائنی نے عبداللہ بن جعفر سے،انہوں نے ابوعون کے حوالہ سے ایک روایت بیان کی ہے جو اس بات کاسب سے مضبوط ثبوت ہے کہ صدر اسلام کے جہمور مسلمین،مولائے کاتنات ؑ کے حق خلافت کے بارے میں نص پر ایمان رکھتے تھے کہ ابوبکر کی حکومت غیرشرعی اور غیراسلامی ہے،روایت ملاحظہ ہو ۔

ابوعوان کہتے ہیں((جب عرب مرتد ہونے لگے تو عثمان مولائے کائنات ؑ کی خدمت میں پہنچے اور کہنے لگے اے میرے چچا کے بیٹے کوئی بھی میرے پاس نہیں آرہا ہے،دشمن سامنے ہے آپ نے بیعت نہیں کی ہے،یہ سن کے مولائے کائنات ؑ ابوبکر کے پاس گئے،ابوبکر آپ کو دیکھ کے کھڑے ہوگئے،دونوں گلے ملے اور پھر دونوں ایک دوسرے کو پکڑ کے رونے لگے اس کے بعد آپ نے بیعت کر لی ۔ یہ دیکھ کے مسلمان خوش ہوگئے ۔ لوگوں نے عمدگی سے جنگ کی اور فوجیں بھیجی گئیں(۱) ( آپ نے دیکھا کہ لوگ امیرالمومنین علیہ السلام کی شوکت کا انتظار کر رہے تھے ۔ اور یہ سمجھ رہے تھے کہ جب تک آپ سے مشورہ نہیں لیا جائےگا جنگ،جنگ رہے گی جہاد فی سبیل اللہ نہیں ہوسکےگا اور مولائے کائنات ؑ نے بھی یہ دیکھا کہ لوگ مرتد ہو رہے ہیں اسلام کا نقصان ہو رہا ہے تو آپ بھی محض حفاظت اسلام کی خاطر ساتھ دینے پر تیار ہوگئے ۔ اسی نظریہ کی وضاحت آپ نے ان الفاظ میں کی ہے،آپ نے اہل مصر کو جو خط لکھا تھا اس کے الفاظ کا ترجمہ دیکھئے ۔ ((لوگوں نے میری رعایت نہیں کی مگر یہ کہ فلاں کی طرف دوڑ پڑے اور اس کی بیعت کرنے لگے میں نے بھی اپنے ہاتھ کو روک لیا،یہاں تک کہ لوگ اسلام سے(کفر کی طرف)واپس ہونے لگے اور دینِ محمد ؐ کے مٹانے کی دعوت دینے لگے تو مجھے خوف ہوا کہ اگر میں اسلام اور اہلِ اسلام کی نصرت نہیں کروں گا تو اسلام کی دیوار میں رخنہ پڑجائےگا یا وہ منہدم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) انساب الاشراف ج: ۲ ص: ۲۷۰ ،امر سقیفہ۔

۲۴۹

ہوجائے گی اور یہ مصیبت اس مصیبت سے کہیں زیادہ بڑی ہے جو میرے ہاتھ سے حکومت نکلنے کی وجہ سے مجھے حاصل ہوئی ہے ۔(۱)

مدینہ منورہ میں جو لوگ بھی تھے ان کا نظریہ وہی تھا جو اوپر کی سطروں میں پیش کیا گیا ۔

بیرون مدینہ کے قبیلوں کا نظریہ اور مرتدین سے جنگ کی حقیقت

وہ قبیلے جو مدینہ کے باہر تھے اور مسلمان ہوچکے تھے اور جن سے ابوبکر کی طرف سے جنگ کی گئی انہیں لوگ مرتد کہیں ہیں،اگر ارتداد کا مطلب یہ ہے کہ وہ زکوٰۃ نہیں دیتے تھے یا انہوں نے زکوٰۃ دینا بندکر دی اور ان میں سے کچھ لوگوں نے ضروریاتِ اسلام کا انکار کیا یا ضروریات دین میں سے کچھ باتوں کا انکار کردیا تو خیر ۔

لیکن بعض مورخین نے غیرارادی طور پر کچھ حقائق لکھ دیئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ معاملہ وہ نہیں تھا جو اوپر بیان کیا گیا بلکہ بات کچھ اور تھی جس کو الزام ارتداد کے پردے میں چھپا دیا گیا ہے اور بات تھی ابوبکر کی خلافت کی ان قبیلوں کے حلق سے خلافت ابوبکر کی بات کس طرح اُترتی ہی نہیں تھی،وجہ یہ تھی کہ خلافت ابوبکر پر نہ عہد نبوی ؐ میں اشارہ کیا گیا تھا نہ وہ ابوبکر کے قبیلہ کو اتنا اہم سمجھتے تھے کہ اس جیسے معمولی قبیلہ میں خلافت جائے،حکومت ابوبکر سے الگ رہنے ہی کو لوگوں نے ارتداد پر محمول کر لیا تھا،اب جو حکومت سے رفض کرے چاہے اسلام سے خارج ہو یا نہ ہو،بہرحال مرتد تھا،اس لئے کہ اس وقت مسلمان ایک ہنگامی حالت سے گذر رہے تھے،نبی ؐ کی وفات کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کی ہیبت میں کمی آئی تھی پھر صحابہ میں اختلاف،اہلبیت نبی ؐ اور بنی ہاشم،جن کی عربوں کے دلوں میں بڑی ہیبت اور عظمت تھی،پھر نبی ؐ کی وجہ سے بھی اسلام اور اہلبیت ؑ کی عظمت میں روز بروز اضافہ ہوتا جاتا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)نہج البلاغہ ج:۳ص:۱۱۹

۲۵۰

بنی ہاشم اور اہلبیت ؑ کو بھی لوگوں نے بالکل الگ کردیا تھا،جس کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کی ہیبت ساقط ہوگئی،ایسے دور میں لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ حکومتِ ابوبکر سے انکار ہی مرتد ہونے کے لئے کافی ہے ۔

خاص طور سے امیرالمومنین علیہ السلام کو الگ کر کے مسلمانوں نے اپنی ہیبت کھودی تھی اس لئے کہ امیرالمومنین ؑ گویا کہ نبی ؐ کا کشادہ ہاتھ اور آپ کی مجاہدانہ زندگی میں آپ کی سب سے کاٹ دار تلوار تھے اس کے علاوہ امیرالمومنین ؑ کی شخصیت بھی ذاتی طور پر سب سے زیادہ قابل توجہ اور احترام کے قابل تھی،آپ کی صلاحیت و شجاعت،آپ کا علم و عمل اور آپ کے مثالی کارنامے اسلامی دنیا میں اتنے مشہور اور مسلم تھے کہ عرب اپنی جگہ یہ طے کرچکے تھے کہ نبی ؐ کے بعد اگر کوئی جانشین نبی ؐ ہے تو علی ؑ اور بس،میرے اس قول کے ثبوت میں اپنے تیسرے سوال کا جواب ملاحظہ کریں،میں نے عرض کیا ہے کہ جب اجلّاء صحابہ خلافت کے بارے میں اپنا خیال ظاہر کرتے تھے جیسے سلمانِ فارسی،ابوذر غفاری و غیرہ،تو صاف کہتے تھے کہ اگر مسلمان اس خلافت کو اپنے نبی ؐ کے اہلبیت ؑ ہی میں رہنے دیتے تو دو آدمی بھی آپس میں اختلاف نہیں کرتے،یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی یہ باتیں بےبنیاد نہیں تھیں،نبی ؐ نے انہیں بتایا تھا تو وہ لوگوں کو بتارہے تھے،اس حقیقت کے چند شواہد ملاحظہ ہوں ۔

اہل بیتؑ کو خلافت سے الگ رکھنے اور بیعتِ ابوبکر سے بعض عرب قبیلوں کا انکار

اس دور کے کسی عرب شاعر کے اشعار میں حقیقت حال ملاحظہ ہو:

ترجمہ:جب تک پیغمبر ؐ ہمارے درمیان رہے ہم ان کی اطاعت کرتے رہے پس اے خدا کے بندوں!یہ ابوبکر کو کیا ہوا ہے؟

کیا ابوبکر کے مرنے کے بعد ان کا بیٹا بکر ان کا(خلافت میں)وارث ہوگا یہ تو کمر کو توڑنے والی

۲۵۱

بات ہے ۔(۱)

قبیلہ طے نے کہا ہم ہرگز ابوفصیل(ابوبکر)کی بیعت نہیں کریں گے ۔(۲)

بنی فزارہ اور بنی اسد نے کہا:خدا کی قسم ہم تو ابوفصیل(ابوبکر)کی بیعت ہرگز نہیں کریں گے ۔(۳)

ابن اعثم کوفی لکھتے ہیں کہ ایک ناقہ زکات میں لے لیا گیا،حالانکہ وہ مال زکات میں نہیں آتا تھا،زکات وصولنے والا زیاد بن لبید تھا،اب اس ناقہ کے لئے زیاد بن لبید اور ناقہ کے مالک کے قبیلے کے درمیان جھگڑا ہونے لگا،حارثہ بن سراقہ زکات کے اونٹوں کے پاس آیا اور اختلافی ناقہ کو نکال کے اس کے مالک سے کہا،لو اپنا ناقہ لے لو،اب اگر کوئی بولے تو اس کی ناک تلوار سے کاٹ دو ہم لوگ حیات پیغمبر ؐ میں صرف پیغمبر ؐ کی اطاعت کرتے تھے،اگر ان کے اہل بیت ؑ میں سے ان کی جگہ کوئی بیٹھا ہوتا تو ہم ضرور اس کی اطاعت کرتے،لیکن یہ ابوقحافہ کا بیٹا تو خدا کی قسم ہماری گردنوں پر نہ اس کی بیعت ہے نہ ہم اس کی اطاعت کریں گے،پھر اس نے کچھ اشعار پڑھے ان میں سے ایک شعر یہ تھا ۔

((جب تک پیغمبر ؐ ہمارے درمیان تھے ہم ان کی اطاعت کرتے تھے،اس پر بہت تعجب ہے جو ابوبکر کی اطاعت کرتا ہے))

((زیاد بن لبید نے جب یہ شعر سنا تو حارثہ بن سراقہ کو کچھ اشعار لکھ بھیجے جن میں ایک شعر یہ تھا))

((ہم تم سے راہِ خدا میں لڑتے رہیں گے اور اللہ اپنے امر پر غالب ہے یہاں تک کہ تم لوگ ابوبکر کی اطاعت کرنے لگو))

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ طبری ج:۲ص:۲۵۵،بدایۃ النہایۃ ج:۶ص:۳۱۳،معجم البلدان ج:۲ص:۲۷۱،المحلی ج:۱۱ص:۱۹۳مسئلہ۲۱۹۹،تاریخ دمشق ج:۲۵ص:۱۶۰،الاغانی ج:۲ص:۱۴۹،تاریخ المدینۃ ج:۲ص:۲۴۷۔۲۴۸،

(۲)تاریخ طبری ج:۲ص:۲۶۰،تاریخ دمشق ج:۲۵ص:۱۶۴،حالات زندگی طلیعۃ بن خویلا

(۳)تاریخ طبری ج:۲ص:۲۶۱،الثقات ج:۲ص:۱۶۶

۲۵۲

زیاد بن لبید کے یہ اشعار جب ان تک پہنچے تو بنی کندہ کے قبیلے،غضبناک ہوئے اور وہ لوگ اشعث بن قیس کے پاس آئے اشعث نے کہا:اے اہل کندہ تم اپنے بارے میں مجھے بتاؤ اگر تم منع زکات اور ابوبکر سے جنگ پر بیعت کرچکے تھے تو تم نے زیاد بن لبید کو قتل کیوں نہیں کردیا،اس کے چچا کے بیٹوں میں سے کسی نے جواب دیا کہ اشعث تم سچ کہتے ہو،صحیح رائے تو یہی تھی کہ زیاد بن لبید کو قتبل کردیا جاتا اور زکات کے اونٹوں کو اس سے واپس لے لیا جاتا،ہم لوگ تو قریش کے غلام بن کے رہ گئے ہیں،کبھی بنوامیہ ہمارے پاس آتے ہیں اور جو چاہتے ہیں لے لیتے ہیں تو کبھی زیاد بن لبید جیسے لوگ بھیجے جاتے ہیں وہ ہمارا مال بھی لے لیتے ہیں اور قتل کی دھمکیاں بھی دیتے ہیں،خدا کی قسم قریش کی لالچ بھری نگاہیں برابر ہمارے مال پر لگی ہوئی ہیں،اس کے بعد اس نے کچھ اشعار پڑھے جن میں ایک شعر یہ تھا کہ((اگر ہم اسی طرح صدقہ وصول کرنے والوں کا مطالبہ کرتے رہے تو ہم صرف ان کے غلام بن کے رہ جائیں گے ۔

پھر اشعث بن قیس بولنے لگے اور کہا اے کندہ والو!اگر تم ہماری رائے سے متفق ہو تو ایک ہوجاؤ،اپنے شہروں میں جمع رہو،اور اپنے اہل خانہ کا احاطہ کرلو،اپنے مال سے زکات دینا بند کردو ۔ اس لئے کہ مجھے یقین ہے کہ عرب،بنوتیم(ابوبکر کا قبیلہ)کی اطاعت کا اقرار نہیں کریں گے اور بطحا کے سادات یعنی بنوہاشم کو چھوڑ کے کبھی دوسرے کی طرف مائل نہیں ہوں گے،اس لئے کہ بنی ہاشم ہی ہمارے لئے عمدہ ہیں اور ہمارے اوپر وہی حکم جاری کرسکتے ہیں،وہی صلاحیت رکھنے والے ہیں دوسرے نہیں،راوی کہتا ہے پھر زیاد بن لبید،بنی کندہ کی ایک شاخ جس کو بنوذھل بن معاویہ کہتے تھے،وہاں پہنچا اور جو کچھ ہوچکا تھا اس کی انہیں خبر کی اور انہیں ابوبکر کی اطاعت کی دعوت بھی دی،تو بنوتمیم کا ایک شخص آگے بڑھا((جس کا نام حارث بن معاویہ))تھا اور زیاد سے بولا:دیکھو تم ایسے شخص کی اطاعت کی دعوت دے رہے ہو جس سے نہ ہمارا معاہدہ ہے نہ تمہارا،زیاد بن لبید نے کہا تم سچ کہہ رہے ہو ۔

(نہ ہم پابند عہد ہیں نہ تم)لیکن ہم نے امرِ خلافت کے لئے اسی کو اختیار کیا ہے ۔

۲۵۳

کچھ عربوں کا اہل بیت ؑ کی خلافت کے لئے احتجاج

حارث نے کہا:پھر بتاؤ تم لوگوں نے اہلبیت پیغمبر ؐ کو خلافت سے کیوں الگ کردیا،وہ لوگ خلافت کے سب سے زیادہ مستحق تھے،اس لئے کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے:کتاب خدا میں بعض رشتہ دار دوسرے بعض سے زیادہ اولیٰ و حقدار ہیں ۔

زیاد بن لبید نے کہا سنو!مہاجرین و انصار اپنے بارے میں تم سے زیادہ باخبر ہیں،حارث بن معاویہ نے جواب دیا:خدا کی قسم یہ بات نہیں ہے،بلکہ چونکہ تم اہل بیت ؑ سے حسد کرتے ہو اس لئے تم نے ان سے خلافت چھین لی،میرے دل کو تو یہ بات بالکل نہیں لگتی کہ پیغمبر ؐ چلے جائیں اور اپنے بعد کسی کو منصوب نہ کریں،

اے شخص!تو ہمارے پاس سے چلا جا،تو خدا کی مرضی کے خلاف ہمیں دعوت دے رہا ہے،پھر حارث نے ایک شر پڑھا:

((ایسا لگتا ہے کہ پیغمبر ؐ امت کو لاوارث چھوڑ کے چلے گئے حالانکہ آپ کی اطاعت کی جاتی تھی،آپ پر درود ہو آپ نے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا؟ ۔ )

راوی کہتا ہے کہ اتنے یں عرفجہ بن عبداللہ ذہلی اچھل کے سامنے آئے اور کہنے لگے خدا کی قسم حارث بن معاویہ سچ کہتا ہے،اس شخص(زیاد بن لبید)کو اپنے یہاں سے نکال باہر کرو،اس کا ساتھی(ابوبکر)شائستہ خلافت نہیں ہے وہ کسی بھی طرح خلافت کا مستحق نہیں ہے،انصار و مہاجرین،نبی ؐ سے زیادہ اس امت کی مصلحتوں کو نہیں جانتے،پھر لوگ زیاد بن لبید کی طرف بڑھے اور اس کو اپنے علاقہ سے دھکہ دیکر نکال دیا،وہ لوگ تو اس کے قتل کا ارادہ کرچکے تھے،پھر زیاد نے قبائل کندہ کی طرف جانا ہی چھوڑ دیا کہ وہ انہیں اطاعتِ ابوبکر کی دعوت دے اور وہ لوگ اس کو اسے کوئی ناگوار اور ناشائستہ جواب دیں،جب وہ مدینہ واپس آیا اور ابوبکر سے ملا تو اس نے بنوکندہ کی ساری باتیں کہہ دیں اور ابوبکر کو بتایا کہ قبائل کندہ نے ارتداد اور نافرمانی کا پختہ ارادہ کرلیا ہے،پھر یہ خبر بھی فوراً ہی پہنچی کہ اہلِ

۲۵۴

کندہ اپنے کئے پر پشیمان ہیں،پھر ایک آدمی جواب کے بادشاہوں کی نسل سے تھا سامنے آیا اس کا نام ابضعہ بن مالک تھا،اس نے آکے اہلِ کندہ کو سمجھایا کہ اے قبیلہ والو!ہم نے اپنے لئے وہ آگ بھڑکائی ہے جس کے بارے میں میرا خیال ہے کہ وہ بجھے گی نہیں بلکہ بہت سے لوگوں کو اپنے لپیٹ میں لیکے چٹ کرجائے گی میری رائے یہ ہے کہ ہم جو کچھ کرچکے ہیں اس کا تدارک کرلیں،ابوبکر کو خط لکھ کر انہیں یہ بتائیں کہ ہم ان کی اطاعت کرنے اور زکات دینے کے لئے تیار ہیں اور ان کی خلافت و امامت پر راضی ہیں ۔

پھر احمد بن اعثم نے ذکر کیا ہے کہ ابوبکر نے اشعث کو ایک خط لکھا،جب اشعث تک یہ خط پہنچا اور اس نے خط پڑھا تو نامہ برکے پاس آیا اور کہا:تمہارے صاحب(ابوبکر)یہ لکھتے ہیں کہ اگر ہم اس کی مخالفت کریں گے تو ہم پر کفر کا الزام آئےگا اور اس کا آدمی اگر ہمارے قبیلہ اور بھائی بھتیجوں کو قتل کردے تو اس پر کفر کا الزام نہیں آئےگا،نامہ برنے کہا:ہاں اشعث تم کفر کے ملزم ہوگے،اس لئے کہ خدا نے تمہارے اوپر کفر واجب قرار دیا ہے کیونکہ تم مسلمانوں کی مخالفت کر رہے ہو ۔(۱)

سابقہ بیان سے نتجہ کیا نکلا

جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں یہ تاریخی واقعات بتا رہے ہیں کہ مدینہ کے باہر اور اندر بہت سے لوگ ابوبکر کے مخالفت تھے اور ابوبکر نے جو جنگیں لڑی ہیں ان کی بنیاد ارتداد نہیں تھی بلکہ ابوبکر کی حکومت کی مخالفت تھی اور ان کی نافرمانی تھی،یہ واقعات اس بات کے بھی شاہد ہیں کہ مدینہ کے اندر اور باہر لوگوں کی اکثریت بنی ہاشم کو حکومت کے لئے مستحق تر سمجھتی تھی،مگر یہ کہ اُن پر لوگ غالب آگئے،لوگ یہ بھی سمجھتے تھے کہ اگر امیرالمومنین ؑ پیغمبر ؐ کے بعد صاحبِ امر مان لئے جاتے تو اُن سے آگے بڑھنے کی کوئی ہمت نہیں کرسکتا تھا،مسلمانوں میں کوئی اختلاف اور کشیدگی نہ ہوتی اور اسلام کی ہیبت بھی دلوں پر باقی رہتی،ساتھ ہی یہ لڑائیاں بھی نہ ہوتیں جن میں بہت سارا خون بہا اور کثرت سے مسلمانوں کی ہتک حُرمت ہوئی ۔

۲۵۵

تاریخ کے اس بیان سے ہمارے اس نظریہ کو بھی تقویت ملتی ہے کہ اگر نَص موجود تھی جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں تو نص سے صرف چند لوگ ہی غافل تھے جو مہاجرین و انصار سے لگاؤ رکھتے تھے ۔

ابوبکر کی بیعت کے بارے میں جدید الاسلام لوگوں کا موقف

اجلّہ صحابہ مہاجرین و انصار تو عجیب فتنہ میں پڑے تھے اور ابوبکر کی کُھل کے تائید نہیں کر رہے تھے،خوف کی وجہ سے کُھل کے امیرالمومنین ؑ کی حمایت بھی نہیں کر رہے تھے ۔ ہاں ابوبکر کی تائید کرنے والوں میں وہ لوگ پیش،پیش تھے جو اسلام میں نئے داخل ہوئے تھے رغبت کی وجہ سے یا خوف کی وجہ سے،جب انہوں نے دیکھا کہ اسلام کی بنیاد مضبوط ہوچکی ہے اور اب اس سے دنیا حاصل کی جاسکتی ہے تو جلدی جلدی کلمہ پڑھ کے مسلمان ہوگئے،انہیں ہادی اعظم ؐ نے طلقا اور قرآن مجید نے منافقین کے شاندار لقب سے نوازا ہے،جیسے مغیرہ بن شعبہ،عمروعاص،خالد بن ولید،سھل بن عمرو،عکرمہ بن ابی جہل،حارث بن ہشام و غیرہ ۔

یہ لوگ تائید بیعت میں پیش پیش تھے اور جو بیعت سے انکار کرتا تھا یہ لوگ اپنی متعصّبانہ فطرت اور جاہلانہ وحشت سے مجبور ہو کے اس غریب پر ظلم و جَور کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے تھے،مثلاً خانہ امیرالمومنین ؑ پر ہجوم انصار پر سختی کرنا،ان پر طعن و تشنیع کرنا(اصحاب ردہ کے خلاف جنگ میں پیش پیش ہونا،پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ وہ لڑائیاں ارتداد کے خلاف نہیں تھیں بلکہ صرف حکومتِ ابوبکر کی حمایت میں تھیں)یا ابوبکر کی سلطنت و حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے جنگ کرنا و غیرہ ۔

حکومت کو مضبوط کرنے میں رنگروٹ مسلمانوں کا پیش پیش ہونا

جدید الاسلام افراد نے مدینہ میں حکومت کو مضبوط کرنے میں اتنی کوششیں کیں کہ آخر میں حکومت نے انہیں کو فوج کی قیادت اور شہروں کی گورنری کے لئے منتخب کرنا اور بحال کرنا شروع کیا،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) الفتوح لابن اعثم م ج: ۱ ،ص: ۴۹ ۔ ۵۷ ،ذکر ارتداد اہل حضرت موت۔

۲۵۶

حکومت نے صاحب منزلت مہاجرین و انصار کو چھوڑ دیا،یا تو اس لئے کہ سیاست کا تقاضہ یہی تھا،حکومت ان کی صاف گوئی،قوت کردار اور زہد و تقویٰ سے خوفزدہ یا ان سے ناراض تھی ۔ عمر کہتے ہیں:ہم منافق قوت سے مدد لیتے ہیں،اس کا گناہ اسی کی گردن پر ۔(۱)

کسی نے عمر سے کہا:((تم نے یزید بن ابی سفیان،سعید بن عاص،معاویہ اور فلاں فلاں کو،طلقا میں سے مولفۃ القلوب اور طلقا کے بیٹوں کو گورنر بنادیا اور علی ؑ ،عباس جیسے بزرگوں کو اور طلحہ و زبیر کو چھوڑ دیا))عمر نے کہا:جہاں تک علی ؑ کا سوال ہے تو اُن کا سوال ہے تو اُن سے ہوشیار رہنا ضروری ہے،لیکن قریش کے دوسرے لوگوں کا جو تم نے نام لیا ہے،اگر انہیں گورنر بنا کے بھیجدوں تو یہ شہروں میں پھیل جائیں گے اور بہت فساد پیدا کریں گے(۲) قیس بن حازم کہتے ہیں کہ زبیر،عمر کے پاس آئے اور ان سے جنگ میں جانے کی اجازت مانگی،عمر نے کہا:یم تو اپنے گھر میں بیٹھے رہو،تم پیغمبر ؐ کے زمانے میں جہاد تو کر ہی چکے ہو،زبیر نے یہ مطالبہ کئی مرتبہ کیا،آخر عمر نے تیسری بار بھی یہی کہا کہ اپنے گھر میں بیٹھو،بخدا میں مدینہ کے اطراف میں دیکھتا رہتا ہوں تا کہ تم اور تمہارے اصحاب مدینہ سے باہر نہ نکل جائے اور اصحاب محمد ؐ کو فساد پر آمادہ نہ کردئے ۔(۳)

عمر کو اصحاب سے یہ خوف تھا کہ وہ کثرت سے فساد کریں گے صرف اس بنیاد پر کہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ لوگ حکومت سے ھماھنگ نہیں ہیں انھیں یہ خوف تھا کہ حکومت کہیں ہاتھ سے نکل نہ جائے،اسی لئے انہوں نے اصرار کرکے ابوبکر کو مجبور کیا کہ وہ خالد بن سعید بن عاص کو لشکر کی قیادت سے معزول کردیں،فوج شام کو فتح کرنے جارہی تھی،سردار خالد بن سعید بن عاص تھے انہوں نے ابوبکر سے اصرار کیا کہ خالد بن سعید بن عاص کو معزول کردیں ۔ وجہ صرف یہ تھی کہ سعید بن عاص

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) المصنف لابن ابی شیبۃ ج: ۶ ص: ۲۰۰ ،کنزالعمال ج: ۴ ص: ۶۱۴ ،حدیث: ۱۱۷۷۵ ،سنن کبریٰ للبیھقی ج: ۹ ص: ۳۶ ،اور اسی طرح کنزالعمال میں ج: ۵ ص: ۷۷۱ حدیث: ۱۴۳۳۸

( ۲) شرح نہج البلاغہ ج: ۹ ص: ۲۹ ۔ ۳۰

( ۳) المستدرک علی صحیحین ج: ۳ ص: ۱۲۹ ،باب مناقب امیرالمومنینؑ عون المعبود ج: ۱۱ ص: ۲۴۶ ۔ ۲۴۷

۲۵۷

کی طرف سے ان کے دل میں کینہ بھرا ہوا تھا،اس لئے کہ انہوں نے ابوبکر کی بیعت کرنے میں تاخیر کا جُرم کیا تھا اور بنی ہاشم و بنی مناف کو خلافت طلب کرنے پر اُبھارتے رہتے تھے،آخر کار ابوبکر نے ان کو معزول کردیا اور اُن کی جگہ یزید بن ابوسفیان کو قائد بنادیا ۔(۱) اس بات کی وضاحت انہوں نے(عمر نے)اپنے خطبہ میں کی ہے جو انہوں نے اپنے دورِ خلافت میں دیا تھا،جب لوگوں نے ان سے شکایت کی کہ آپ نے اصحاب کبار کو مدینہ کا قیدی بنادیا ہے تو کہا:خبردار ہوجاؤ!بےشک قریش کے دل میں فرقہ واریت چھپی ہوئی ہے وہ لوگ گردنوں سے قلادہ بیعت اتار دینا چاہتے ہیں لیکن خطاب کا بیٹا جب تک زندہ ہے وہ آگ کی گھاٹی کے سامنے کھڑا رہےگا اور قریش کی گردنوں کو پکڑ کے آگ سے مسلسل بچاتا رہےگا ۔

حالانکہ یہی عمر،ابوعبیدہ جراح کی بحالی پر دل سے راضی تھے بلکہ خود انہیں گورنر بنا کر بھی بھیجا،حالانکہ وہ مہاجرین اولین میں سے تھے لیکن چونکہ ان کی طرف سے کوئی خوف نہیں تھا کیونکہ وہ حکومت سے ہماہنگ تھے اس لئے وہ ان کے دور میں گورنری کے سب سے زیادہ اہل قرار پائے ۔

یہ بھی قابل توجہ بات ہے کہ عمر،منافقین اور طلقا کے فتنوں سے مطمئن کیوں تھے،جب اتنے بڑے بڑے صحابی فتنہ پیدا کرسکتے تھے تو منافقین اور طلقا سے مطمئن رہنے کی کیا وجہ تھی؟صرف اس لئے مطمئن تھے کہ وہ لوگ حکومت کی مشنیری سے ہماہنگ و ہم آواز ہوگئے تھے،ورنہ حق تو یہ ہے کہ وہ بلادِ خدا اور بندگان خدا کے لئے سب سے بڑا خطرہ تھے،اگر وہ فتنہ و فساد کا ارادہ کر لیتے تو پھر ان کو روکنا بےحد مشکل ہوجاتا،جیسا کہ معاویہ کے دور میں اس کی حرکتوں سے ثابت ہوا،اگر ان کو حکومت نے لفٹ نہ دی ہوتی تو کم سے کم وہ اتنا تو کرتے ہی کہ سابقون فی الاسلام کے ساتھ تعاون کرتے اور اُن کا مقابلہ کرتے جو لوگ حکومت کا مقابلہ کرنے کو تیار رہتے تھے اور اُن کی طرف دعوت دیتے،بلکہ اگر طلقا و منافقین اُن کی حکومت میں فتنہ نہیں بھی برپا کرتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) طبقات الکبریٰ ج: ۴ ص: ۹۷ ۔ ۹۸ ،المستدرک علی صحیحین ج: ۳ ص: ۲۷۹ ،تاریخ یعقوبی ج: ۲ ص: ۱۳۳ ،تاریخ طبری ج: ۲ ص: ۳۳۱ ،تاریخ دمشق ج: ۱۶ ص: ۷۸ ،شرح نہج البلاغہ ج: ۲ ص: ۵۸ ۔ ۵۹

۲۵۸

جب بھی اُن سے ہاتھ ملانے کا کوئی جواز نہیں تھا،حکومت نے مسلمانوں کے امور کی باگ ڈ ور اُن(ذلیل لوگوں کے)حوالہ کردی حالانکہ ان سے افضل لوگ موجود تھے،صاحبانِ فضل کی موجودگی میں تیسرے درجہ کے لوگوں کو مسلمانوں کے امور کا ذمہ دار بنانا یہ مسلمانوں سے خیانت نہیں تو اور کیا ہے؟حدیثیں اس اقدام کی ممانعت کرتی ہیں اور مذمت بھی کرتی ہیں ۔

ابن عباس سے روایت ہے کہ سرکارِ دو عالم ؐ نے فرمایا:((جو مسلمانوں کا عامل کسی کو بنائے اور یہ بھی جانتا ہو کہ قوم میں اس کے ذریعہ بنائے گئے شخص سے بہتر لوگ موجود ہیں جو کتاب خدا اور سنتِ نبی ؐ کو اس سے زیادہ جانتے ہیں تو اس نے خدا سے،خدا کے رسول ؐ سے اور عام مسلمانوں سے خیانت کی ہے ۔(۱)

بلکہ اسی طرح کا قول عمر سے بھی منسوب کیا گیا ہے(۲) کہ انہوں نے کہا:جو کسی فاجر کو عامل بنائے اور وہ جانتا ہو کہ وہ فاجر ہے تو بنانے والا بھی فاجر جیسا ہے،(۳) تاریخ شاہد ہے کہ فسّاق و فُجّار قوم کو عامل بنانے سے بہت سی حرمتیں ضائع ہوئیں اور دین کی مخالفت ہوئی ۔

حاصلِ کلام میں یہ کہ نص سے تجاہل اور اندیکھی مہاجرین و انصار کی اکثریت نے کبھی نہیں کی،خصوصاً ان لوگوں نے،جن کی شان اور مرتبے بلند تھے ان میں سے اکثر کی دلی خواہش یہ تھی کہ امیرالمومنین ؑ اور اہلبیت ؑ ہی امّت کے مسئول اور صاحب امر ہوں،اس کلیہ کے شواہد کے سامنے پیش کئے جاچکے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) السنن الکبریٰ للبیھقی ج: ۱۰ ص: ۱۱۸ ،المستدرک علی صحیحین ج: ۴ ص: ۱۰۴ السنۃ لابن ابی اعصم ج: ۲ ص: ۶۲۷ ،مجمع الزوائد ج: ۵ ص: ۲۱۱ ،معجم الکبیرج: ۱۱ ص: ۱۱۴ ،الترغیب و الترھیب ج: ۳ ص: ۱۲۵ ،الدرایۃ فی تخریج احادیث الہدایۃ ج: ۲ ص: ۱۶۵ ،نصب الرایۃ،ج: ۴ ص: ۶۲ ،سبل الاسلام ج: ۴ ص: ۱۹۰ ،تاریخ بغداد ج: ۶ ص: ۷۶ ،الکامل فی الضعفاء الرجال ج: ۲ ص: ۳۵۲ ،الضعفاء للعقیلی ج: ۱ ص: ۲۴۷ ،تھذیب التھذیب ج: ۲ ص: ۳۱۳

( ۲) المستدرک علی صحیحن ج: ۳ ص: ۳۰۴ ،سیرہ اعلام نبلاءج: ۱ ص: ۴۶۰ ،الکشف الحثیث ج: ۱ ص: ۱۷۸ ،لسان المیزان ج: ۴ ص: ۱۱۸

( ۳) کنز العمال ج: ۵ ص: ۶۱ حدیث: ۱۴۳۰۶

۲۵۹

عام صحابہ کی نصرتِ حق میں تقصیر

البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اکثر صحابہ نے حق کی نُصرت میں سُستی کی اور منصوص امام کی دعوت پر بروقت لبیک نہیں کہہ سکے،اگر بقول شیعوں کے نَص موجود تھی تو عام صحابہ اس نص کے نظرانداز کرنے میں نصرت حق میں کوتاہی اور واجب الاطاعۃ کی آواز پر لبیک نہ کہنے کے مجرم ثابت ہوتے ہیں ۔

آپ کے تیسرے سوال کے جواب میں یہ بات پیش کی جاچکی ہے کہ امیرالمومنین ؑ برابر یہ شکوہ کرتے رہے کہ آپ کی مدد نہیں کی جارہی ہے،آپ کے پاس ایک جماعت آئی بھی کہ ہم آپ کی بیعت کرنے کو تیار ہیں تو آپ نے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ یہ محض زبانی دعویٰ ہے فرمایا:کل سرمن ڈ ا کر آنا،لیکن دوسرے دن تین یا چار آدمی سے زیادہ نہیں آئے،آپ نے یہ اعلان کردیا تھا((اگر چالیس آدمی بھی ہمارے ساتھ ہوتے تو غاصب حکومت کا تختہ پلٹ دیتا اور اپنا حق حاصل کرلیتا)) ۔

اس طرح آپ نے ایک خچر پر صدیقہ زہرا ؐ کو بٹھایا اپنے ساتھ امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کو لیا اور انصار کے گھروں کا چکر لگایا آپ بھی ان سے نصرت طلب فرماتے اور حضرتِ معصومہ ؐ بھی ان سے نصرت کا سوال کرتی رہیں اور وہ لوگ یہی عذر پیش کرتے رہے کہ اے بی بی ہم ابوبکر کی بیعت کرچکے ہیں اور اگر(نبی ؐ کے)چچازاد بھائی ہمارے پاس پہلے آتے تو ہم ان کی بیعت سے عدول نہیں کرتے،(۱) ان واقعات کو معاویہ نے اپنے خط میں بھی لکھا ہے جو اس نے امیرِ کائنات حضرت علی ؑ کو بھیجے تھے اور شیعہ روایتوں میں بھی کثرت سے یہ واقعات ملتے ہیں،لیکن کوئی یہ ہرگز نہ سمجھے کہ صحابہ،مولائے کائنات ؑ سے اس لئے پہلو تہی کررہے تھے کہ وہ نص سے جاہل تھے یا نص کی اندیکھی کررہے تھے،بلکہ ان کا مولا علی ؑ سے یہ گریز محض حکومت کے خوف کی وجہ سے تھا یا اس لئے کہ اُن کا خیال تھا کہ مولائے کائنات ؑ کو عام مسلمانوں کی تائید اس حد تک مل ہی نہیں سکتی کہ اُن کا حق انھیں واپس مل جائے،کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ امیرالمومنین ؑ نے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) الامامۃ و السیاسۃ ج: ۱ ص: ۱۶ ،نہج البلاغہ ج: ۶ ص: ۱۳

۲۶۰

طلب نصرت کی ابتدا تو کردی ہے لیکن آپ کی نظر میں اسلام عظیم کی وحدت اور اس کی عظمت کی سب سے زیادہ اہمیت ہے اور جب آپ یہ دیکھیں گے کہ آپ کے خروج سے اسلام عظیم کی اجتماعی حیثیت،وقار اور اتحاد کو نقصان پہنچ رہا ہے تو بیٹھ جائیں گے،ان خیالات نے صحابہ کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ اس کشمکش میں آپ کا سب سے کمزور پہلو اسلام کی محبت ہے،اسی وجہ سے آپ کی مادی قوت بھی قابل اعتبار نہیں ہے ۔

امیرالمومنین ؑ کے اصولی موقوف پر بعض شواہد

مولائے کائنات کا نقطہ نظر کیا تھا؟اور آپ نے اصول کو کس قدر اہمیت دی تھی؟اس کے چند شواہد پیش کئے جاتے ہیں،مثلاً آپ سقیفہ میں اس وقت نہیں پہنچ سکے جب لوگ آپ پر سبقت کررہے تھے اور خلافت کی کھچڑی پَک رہی تھی،آپ نے اس وقت نہ پہنچنے کا یہ معقول عذر پیش کیا کہ میں پیغمبر ؐ کے جنازے کی تجہیز و تکفین چھوڑ کے آپ کی خلافت کے لئے لوگوں سے جنگ نہیں کر سکتا تھا(1) عباس بن عبدالمطلب نے آپ سے کہا:آیئے ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں،تا کہ لوگ کہیں عم پیغمبر ؐ نے پیغمبر ؐ کے ابن اعم(چچازاد)کی بیعت کرلی،پھر آپ سے کوئی نہیں لڑےگا،آپ نے فرمایا:چچا!میں پسند نہیں کرتا کہ یہ کام پردے کے پیچھے ہو میں تو چاہتا ہوں جو کچھ ہو علانیہ ہو ۔(2) اس طرح ابوسفیان نے((جس کے قبیلہ کی قوت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا))جب آپ کے نقطہ نظر کو موڑ کے قبائلی تعصّب کا رُخ دینا چاہا اور کوشش کی کہ امیرالمومنین ؑ کو قبائلی بنیادوں پر مطالبہ خلافت کی طرف لے جائے تو آپ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اُسے ڈ انٹ دیا ۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) الامامۃ و السیاسۃ ج: 1 ص: 16 ،شرح نہج البلاغہ ج: 6 ص: 13 الفتوح لابن اعثم ص: 13

( 2) شرح نہج البلاغہ ج: 9 ص: 196 ،ج: 11 ص: 9

( 3) المستدرک علی صحیحین ج: 3 ص: 83 ،المصنف لعبد الرزاق ج: 5 ص: 451 ،الاستیعاب ج: 3 ص: 974 ،ج: 4 ص: 1679 ،تاریخ الخلفاءج: 1 ص: 67 ،انساب الاشراف ج: 2 ص: 271 ،تاریخ طبری ج: 2 ص: 237 ،شرح نہج البلاغہ ج: 2 ص: 45

۲۶۱

جب کہ ابوبکر نے اس کی خوشامد کر کے راضی کرلیا اور صدقہ کے اموال دیئے(1) اور اس کے بیٹے کو گورنر بنادیا(2) نتیجہ میں وہ اس کی اولاد اور گھر والے ابوبکر کے مددگار اور تائید کرنےوالوں میں شامل ہوگئے ۔

میرا خیال تو یہ ہے کہ شاید تاریخ کا یہ اصول دین بن چکا ہے کہ کسی نبی کی امت میں بھی اختلاف ہوتا ہے تو امت کے باطل پرست افراد اہل حق پر غالب آجاتے ہیں ۔(3) وجہ یہ ہے کہ اہل حق کی اصول پرستی اپنے اصولوں کی قربانی پر سمجھوتہ نہیں کرتی اور مددگاروں سے محروم رہ جاتی ہے جب کہ امت کے اہل باطل فرصت سے فائدہ اٹھالیتے ہیں اور پھر نتیجہ میں مادّی اعتبار سے اہل باطل ہی فتحیاب ہوتے ہیں ۔

نتیجہ چاہے تو ہو،امام منصوص کی آواز پر لبیک کہنا واجب ہے

لیکن صحابی ہوں یا غیر صحابی،صرف یہ کہہ دینے سے کہ امام منصوص کے پاس طاقت نہیں ہے یا ان کی کامیابی کا ہمیں یقین نہیں ہے اس لئے ہم ان کی نصرت پر آمادہ نہیں ہوتے،نہ واجب ادا ہوجائےگا اور نہ ان کو بری الذّمہ سمجھا جائےگا بلکہ ہر انسان پر امام منصوص کی اطاعت اور اس کی دعوت پر لبیک کہنا واجب ہے نتیجہ چاہے جو ہو عام انسان کو امام منصوص کی نصرت کے بارے میں نہ اجتہاد کا حق پہنچتا ہے نہ غور کی مہلت،اس لئے کہ امام منصوص جانتا ہے کہ لوگوں کی بھلائی کس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) العقد الفرید ج: 4 ص: 240 ،شرح نہج البلاغہ ج: 2 ص: 44

( 2) الطبقات الکبری ج: 4 ص: 97 ۔ 98 ،المستدرک علی صحیحین ج: 3 ص: 279 ،تاریخ یعقوبی ج: 2 ص: 133 ،تاریخ طبری ج: 2 ص: 331 ،تاریخ دمشق ج: 16 ص: 78 ،شرح نہج البلاغہ ج: 2 ص: 58 ۔ 59

( 3) مجمع الزوائد ج: 1 ص: 157 ،المعجم الاوسط ج: 7 ص: 370 ،فیض القدیر ج: 5 ص: 415 ،حلیۃ الاولیا ج: 4 ص؛ 313 ،تذکرۃ الحفاظ ج: 1 ص: 87 ،کنز العمال ج: 1 ص: 183 حدیث 929 ،الجامع الصغیر للسیوطی ج: 2 ص: 481 حدیث 7799 ،شرح نہج البلاغہ ج: 5 ص: 181

۲۶۲

چیز میں ہے حالانکہ لوگ مصلحتوں سے ناواقف اور مفید نتائج سے بےخبر ہوتے ہیں جیسا کہ صلح حدیبیہ میں واقعہ پیش آیا،نبی ؐ کو معلوم تھا کہ اس صلح سے کیا کیا فائدہ حاصل ہونےوالا ہے در حالیکہ مسلمان عواقب و نتائج سے ناواقفیت کی بنا پر مخالفت پر اتر آئے تھے اس سلسلہ میں بعض مطالب دوسرے سوال کے جواب میں گذر چکے ہیں ۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جلد بازی میں اٹھایا ہوا کوئی قدم فتح کا سبب بن جاتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مسلسل منصوبہ بندی کرنے کے باوجود آدمی شکست سے دوچار ہوتا ہے،اچھا!اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ حق کی نصرت پر لبیک کہنے اور باطل کی مخالفت میں جنگ کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے پھر بھی اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ غافل متبہ ہوجاتے ہیں،خدا کے لئے حجّت قائم ہوجاتی ہے اور نصرتِ حق میں اُٹھی ہوئی آواز دلوں کو جگا دیتی ہے،میرا خیال ہے کہ یہ فائدہ بھی کچھ کم نہیں ہے،دینِ خدا اور خدا کی طرف دعوت دینےوالوں کو یہ عظیم فائدہ تو حاصل ہو ہی جاتا ہے اور یہی فائدہ کیا کم ہے ۔

ابوسالم جیشانی کہتے ہیں:میں نے سنا مولائے کائنات ؑ کوفہ میں فرما رہے تھے کہ((میں اس لئے لڑ رہا ہوں کہ حق قائم ہو،حالانکہ حق ہرگز قائم نہیں ہوسکے گا جب تک حکومت معاویہ والوں کے ہاتھ میں رہےگی))روای کہتا ہے کہ میں نے اپنے اصحاب سے کہا:یہاں ٹھہرنے کا مقام نہیں ہے در حالیکہ ہمیں بتلادیا جاچکا ہے کہ معاویہ کے طرفداروں کو حق حکومت نہیں ہے پھر ہم نے آپ سے مصر جانے کی اجازت طلب کی آپ نے ہم میں سے جس کو چاہا اجازت دی آپ نے ہر ایک کو ایک ایک ہزار درہم دیئے اور ہمارے گروہ سے ایک حصہ ان کے ساتھ وہیں ٹھہرگیا(1)

آپ نے ملاحظہ کیا کہ امام ؑ کو معلوم تھا کہ معاویہ آپ پر غالب ہوگا اس کے باوجود آپ نے حق کی راہ میں جہاد سے منہ نہیں موڑا اور صاحبانِ بصیرت افراد بھی آپ کے ہمراہ حق کے محاذ پر ڈ ٹے رہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) الفتن لنعیم بن حماد ج: 1 ص: 127

۲۶۳

اسود دوئلی کی حدیث ملاحظہ ہو،وہ اپنے باب ابوالاسود دوئیلی سے روایت کرتے ہیں کہ مولائے کائنات ؑ نے فرمایا:((میرے پاس عبداللہ بن سلام آئے،اس وقت میں نے رکاب میں پیر ڈ ال رکھے تھے اور عراق کے لئے عازمِ سفر تھا،عبداللہ بن سلام نے مجھ سے کہا:آپ عراق نہ جائیں،اگر آپ عراق جائیں گے تو آپ کو تلوار کی دھار کا سامنا کرنا پڑےگا،میں نے(مولائے علی ؑ نے)کہا خدا کی قسم یہ بات تو ہادی برحق ؐ مجھے تم سے پہلے بتاچکے ہیں))،ابوالاسود کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں سوچا:میں نے آج تک ایسا آدمی بھی نہیں دیکھا جو جنگ کے لئے تیار ہو اور لوگوں سے ایسی باتیں کرتا ہو ۔(1)

آپ نے غور کیا کہ امام ؑ لوگوں کو اپنے عنقریب قتل(شہید)ہونے کی خبر بھی دے رہے ہیں اور لوگوں کو جہاد کی دعوت بھی دے رہے ہیں،صرف یہ ثابت کرنے کے لئے کہ جہاد کا ہدف،فتح و نُصرت سے بہت بلند ہے ۔

امام ابوعبداللہ الحسین ؑ کو دیکھئے،مکّہ مکرمہ میں آپ انقلاب کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور اسی سلسلے میں مدینہ کے بنوہاشم کو لکھتے ہیں ۔

"بسم الله الرحمن الرحیم: حسین ؑ بن علی ؑ کی طرف سے محمد بن علی اور ان کے قبیلہ(یعنی بنی ہاشم)کو معلوم ہو کہ جو مجھ سے آملے گا وہ درجہ شہادت پر فائز ہوگا اور جو مجھ سے ملحق نہیں ہوگا وہ فتح بھی نہیں پاسکتا،والسلام(2)

اسی طرح جب آپ نے مکہ سے عراق جانے کا ارادہ کیا تو خطبہ دیا،خطبہ کے الفاظ ملاحظہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) المستدرک علی صحیحین ج: 3 ص: 151 ،کتاب معرفۃ الصحابۃ،مناقب امیرالمومنینؑ،امام حاکم نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ اگر چہ شیخین نے نقل نہین کیا ہے لیکن ان کی شرط پر پوری روایت پوری اترتی ہے اور صحیح ہے،صحیح ابن جبان،ج: 15 ص: 127 ،موارد الظمآن،ج: 1 ص: 245 ،تاریخ دمشق،ج: 42 ،ص: 546

( 2) کامل الزیارات ص: 157 ،بصائر الدرجات ص: 502 ،نوادر المعجزات ص: 110 ،دلائل الامامۃ ص: 188 ،الخرائج و الجرائح ج: 2 ص: 771 ۔ 772

۲۶۴

فرمائیں:((الحمداللہ و ماشاءاللہ تعالی قوت صرف اللہ کی ہے،خدا کا درود ہو اس کے نبی ؐ پر،موت انسان کے گلے سے یوں ہی لپٹی ہے جیسے دوشیزہ کے گلے میں گلوبند لپٹا رہتا ہے،مجھے اپنے اسلاف سے ملاقات کی خواہش نے اسی طرح بے چین کیا ہوا ہے جیسے یعقوب ؑ کے دل میں یوسف ؑ سے شوقِ ملاقات،میرے لئے ایک مقتل چُنا گیا ہے جس کی طرف میں جا رہا ہوں،گویا کہ صحرا کے اُموی بھیڑیئے میرے بند بند کو کاٹ رہے ہیں اور میرے جسم سے اپنی بھوک مٹا رہے ہیں،کاتب تقدیر نے جو دن اپنے قلم سے لکھ دیا ہے اس سے انسان الگ نہیں ہوسکتا،خدا کی مرضی ہی ہم اہلبیت ؑ کی رضا ہے،ہم اس کی بلاؤں پر صبر کرتے ہیں،وہ ہمیں صبر کرنے والوں کا اجر دےگا،پیغمبر ؐ سے ان کے گوشت الگ نہیں کیا جاسکتا،بلکہ آپ کے جسم کے تمام حصے محضرِ قدس میں اکٹھا ہونے والے ہیں،جس سے آپ کی آنکھیں ٹھن ڈ ی ہوں گی اور آپ نے جو وعدہ کیا ہے ہمیں لوگوں کے ذریعہ پورا ہوگا ۔ پس جو اپنی جان کو ہماری راہ میں قربان کرنا چاہتا ہے اور اپنے نفس کو خدا سے ملاقی کرنے پر آمادہ کرچکا ہے اسے چاہیے کہ ہمارے ساتھ چلے اس لئے کہ میں کل انشاءاللہ جانے والا ہوں)) ۔(1)

اگر عاشقانِ حق کا نقطہ نظر اور طرزِ زندگی سمجھ سکتے ہیں تو امام حسین ؑ کے کلمات ملاحظہ فرمایئے،دیکھئے!امام حسین ؑ کی نظر میں فتح کیا ہے اور کامیابی کسے کہتے ہیں،مذکورہ خطبہ میں فرماتے ہیں کہ((میں قتل کردیا جاؤں گا))آپ اپنے قتل کی علی الاعلان خبر دے رہے ہیں اور اپنے خط میں((جو آپ نے بنوہاشم کو لکھا ہے))آپ نے جنگ سے پہلے ہی اپنی فتح کا اعلان کردیا ہے،اور اس فتح کے لئے لوگوں سے مدد مانگ رہے ہیں،وہ فتح بھی کیا ہے،ایسی فتح جو بغیر قتل اور شہادت کے حاصل نہیں ہوسکتی ۔

یہ وہ فتح ہے جسے عام انسان ناکامی اور شکست سمجھتا ہے،اسی لئے لوگوں نے امام حسین ؑ کو مشورہ دیا تھا کہ خروج مت کیجئے،لیکن امام وقت جانتا ہے کہ کس وقت کیا ضروری ہے اسی لئے آپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) مقتل الحسین للمقرم ص: 193 ۔ 194 ،کشف الغمہ ج: 2 ص: 239 ،بحارالانوار ج: 44 ص: 366 ۔ 367

۲۶۵

نے خروج پر اصرار کیا،اپنے خاص شیعوں پر بھروسہ کرتے ہوئے آپ نے قیام فرمایا اور آپ کے خاص چاہنے والوں نے بھی امرِ خدا کا امتثال کیا اور آپ کے ساتھ سر سے کفن باندھ کے نکل پڑے،انہوں نے حقِ پیغمبر ؐ کو ادا کیا اور امام ؑ کے ساتھ درجہ شہادت پر فائز ہوئے ان لوگوں کو فتحِ مبین اور سعادت ازلی نصیب ہوئی جو ان کے پروردگار نے ن کے لئے مقدر کردی تھی ۔

بہرحال صورتِ حال جو بھی ہو،جب امام وقت مدد کے لئے پکارے تو امت پر اس کی نصرت واجب ہے،اس وقت نتائج سے خوفزدہ ہو کر صدائے امام ؑ کو نظرانداز کردینا غلط ہے،اُمت کی تکلیف شرعی ہے امام ؑ کی آواز پر لبیک کہنا،اس لئے کہ امام ؑ کی آواز خدا کی طرف سے اور اس کے حکم سے بُلند ہوتی ہے اور خدا نے امام ؑ کی پیروی کا حکم دیا ہے،جیسا کہ امیرالمومنین ؑ نے اپنے مخلص شیعوں کی تعریف میں ارشاد فرمایا کہ((انہوں نے اپنے قائد پر اعتماد کیا تو اس کی پیروی کی)) ۔(1)

شیعوں کو یہی شکایت ہے کہ صحابہ کی کثیر تعداد نے سقیفہ میں امام منصوص سے منہ موڑ لیا،جب کہ ان کے سامنے واضح نص موجود تھی،انہوں نے امام ؑ کی دعوت پر لبیک نہیں کہی،امام ؑ کی کمر مضبوط نہیں کی اور ان کی مدد نہیں کی کہ وجہ حق کو غاصبانِ حق سے واپس لے سکتے اس لئے کہ مرادِ خدا بھی یہی تھی ۔

امام منصوص کی نصرت نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگوں نے نص کی اندیکھی کی

شیعوں کے قول کے مطابق نص کی موجودگی میں امام ؑ کی نصڑت نہ کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انہوں نے نص کی اندیکھی کی،یا نَص پر توجہ نہیں دی بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے سُستی کی اور ایک واجب کو ادا کرنے میں کوتاہی کی،حقدار کی نصرت اور اس کو حق دلانے کے لئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) نہج البلاغہ ج: 2 ص: 109 ،ینابیع المودۃ ج: 2 ص: 29

۲۶۶

انہیں جہاد کرنا چاہئے تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا،جس طرح غزوہ بدر میں صحابہ گھر سے نکلنا نہیں چاہتے تھے،یہ ان کی غلطی تھی جب پیغمبر ؐ حکم دے رہے تھے تو اُنہیں بہانہ نہیں بتانا چاہئے تھا،قرآن مجید اس وقت کی حکایت کرتا ہوا کہتا ہے((جیسا کہ تمہارے پروردگار نے تمہیں حق کے ساتھ تمہارے گھر سے نکالا حالانکہ مومنین کے ایک گروہ کو یہ کام بہت ناگوار گزر رہا تھا وہ تم سے حق کے بارے میں خواہ مخواہ اُلجھ رہے تھے جب کہ ان کے سامنے حق کی وضاحت ہوچکی تھی،لیکن ایسا لگتا تھا جیسے ان کو موت کی طرف کھینچا جارہا ہو اور وہ موت کا انتظار کررہے ہوں)) ۔(1)

اسی طرح معرکہ اُحد و حُنین میں ان کا جنگ سے فرار کرنا،خندق میں ان کا نبی ؐ کی نصرت سے انکار کرنا اور غزوہ تبوک میں نکلنے کے وقت نبی ؐ سے ان کی مخالفت اور بھی بہت سارے واقعات ہیں جس میں انہوں نے نبی ؐ کی نصرت و حمایت یا تائید سے پہلو تہی کی ہے،اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ نبی ؐ کی تکذیب کررہے تھے یا نبی ؐ کی نبوت کو جُھٹلا رہے تھے ۔

اسی طرح اہل کوفہ نے امیرالمومنین ؑ کی نُصرت سے آپ کے آخرِ ایام میں پہلو تہی کی امام حسن ؑ کی نصرت میں سستی کی یا مسلمانوں نے امام حسین ؑ کی نصرت میں کوتاہی کی،اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لوگ ان حضرات کی امامت کے قائل نہیں تھے یا نص سے تجاہل کر رہے تھے ۔

امامِ منصوص کی نصرت نہیں کرنا ایسا گناہ ہے جو قابلِ توبہ ہے

البتہ امام ؑ کی نصرت نہیں کرنا بہت بڑا گناہ ہے،جیسے میدان جنگ سے فرار جس کی اللہ نے بہت زیادہ مذمت کی ہے یہ گناہ کبیرہ میں شمار ہوتا ہے جیسے وہ لوگ جنہوں نے پیغمبر ؐ سے اس جہاد میں منہ موڑ لیا جس میں شرکت کی اللہ نے سخت تاکید کی تھی لیکن پھر اللہ نے توبہ کا دروازہ کھول دیا اور جس طرح وہ اپنے بندوں کے بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیا کرتا ہے،اس گناہ کو بھی بخش دیا،جنگ اُحد سے بھاگنے والے مسلمانوں کو معاف کر کے ان کی مغفرت کی صراحت بھی کردی ہے،اسی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ انفال آیت: 5 ۔ 6

۲۶۷

طرح اللہ نے تین مخصوص افراد کی مغفرت کی تصریح کردی،اشارد ہوتا ہے((اور وہ تین افراد جو جنگ سے پیچھے رہ گئے تھے یہاں تک کہ زمین اپنی وسعتوں کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہیں ہے پھر انہیں معاف کردیا تا کہ وہ پاک ہوجائیں،اللہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنےوالا اور رحم کرنے والا ہے ۔(1)

صحابہ کی امیرالمومنین ؑ کی طرف واپسی اور آپ کی مدد کرنا

صحابہ نے امیرالمومنین ؑ کی نصرت سے ہاتھ اٹھا کر بڑا گناہ کیا لیکن پھر انہیں احساس ہوا کہ امیرالمومنین ؑ کے ہاتھ سے خلافت نکل جانے سے کتنی خرابیاں پیدا ہوئیں اور اس احساس کی وجہ سے وہ لوگ امیرالمومنین ؑ اور اہل بیت ؑ کی طرف پلٹے اور قتلِ عثمان کے بعد امیرالمومنین ؑ کی بیعت کے لئے ممکنہ حالات پیدا ہوئے،اس لئے کہ صحابہ نے امیرالمومنین ؑ کے بارے میں جو تقصیر کی تھی اس کا انھیں احساس ہوگیا تھا ۔

قتل عثمان کے بعد صحابہ کا امیرالمومنین ؑ کی ہمراہی کرنا

قتلِ عثمان کے بعد مسلمان اجتماعی طور پر مولائے کائنات ؑ کی طرف بڑھے اور سب نے آپ کی بیعت پر اصرار کیا،اس تاریخی اتحاد کے پیچھے بہت سے آپ کے مخلص صحابہ کی تبلیغ اور امیرالمومنین ؑ کی حقانیت کا ہاتھ تھا،آپ کے مخلص صحابہ مسلمانوں کو مسلسل متوجہ کرتے رہے کہ خلافت کے اصلی حقدار مولائے کاتنات ؑ ہیں جو تمام مسلمانوں سے افضل ہیں،حالانکہ جب پوری امت عثمان کے خلاف تھی اور لوگ عثمان کی فضیحت کرنے میں لگے ہوئے تھے،تاریخ شاہد ہے کہ مولائے کائنات ؑ عثمان کے ساتھ بہت نرمی کا برتاؤ کررہے تھے اور قتلِ عثمان کے بعد بھی آپ مسلم حکومت کی سربراہی قبول کرنے پر تیار نہیں تھے،لیکن یہ صحابہ ہی تھے جنہوں نے لوگوں کو اُبھارا اور لوگ آپ کی بیعت پر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ توبہ آیت: 118

۲۶۸

مُضر ہوگئے پھر آپ کی بیعت کے بعد آپ کی مدد بھی کی تمام جنگوں میں آپ کے ساتھ ساتھ رہے اور آپ کی حکومت کو مضبوط کرنے میں پیش پیش رہے،ان تمام باتوں کے شواہد حدیث و تاریخ کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں،میں بھی کچھ شواہد پیش کر رہا ہوں ۔

1۔ ابوجعفر اسکافی کہتے ہیں:قتلِ عثمان کے بعد صحابہ مسجد میں جمع ہوئے اور امامت کے مسئلے پر گفتگو ہونے لگی،تو ابوھیثم ابن تیہان،رفاعہ بن رافع،مالک بن عجلان،ابوایوب انصاری اور عمار یاسر نے مشورہ دیا کہ اب تو خلافت علیؑ کو مل ہی جانی چاہئے اور علیؑ کے فضائل و مناقب،آپ کے کارنامے،آپ کا جہاد اور آپ کی پیغمبرؐ سے قرابت قریبہ کو مقام احتجاج می پیش کرتے ہوئے ان لوگوں نے طے کیا کہ علیؑ ہی مستحقِ خلافت ہیں،ان میں سے کچھ تو وہ تھے جو مولائے کائنات کو اس زمانہ میں سب سے افضل سمجھتے تھے اور کچھ کا کہنا تھا کہ امیرالمومنینؑ تمام مسلمانوں سے افضل ہیں پھر لوگوں نے آپ کی بیعت کرلی۔ (1) جب اجلہ صحابہ نے آپ کی بیعت کرلی تو لوگوں کو آپ کی بیعت پر اُبھارا اور آپ کی طرف علی الاعلان دعوت دینا شروع کی یہ صحابہ لوگوں سے آپ کا حق،آپ کا مرتبہ اور آپ کے فضائل بیان کر کے مسلسل آپ کی طرفداری کررہے تھے اور انہوں نے آپ کی حکومت کو مضبوط کرنے میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا اور اُسے چلانے میں آپ کی بہت مدد کی۔ آئندہ صفحات میں ہم ان تصریحات کو لکھیں گے جو آپ کی فضیلت میں صحابہ کی طرف سے کی گئیں اور وہ خطبہ بھی پیش کریں گے جو آپ نے اپنی بیعت ہونے کے بعد فرمایا تھا۔

2 ۔ اسی طرح اسکافی ان حالات پر بھی روشنی ڈ التے ہیں جو آپ کی بیعت کے بعد پیدا ہوئے،چونکہ آپ نے مال کی تقسیم برابری سے کی اور آپ کے پہلے جو حکومتیں تھیں ان کے دور میں بدکردار افراد غیر شرعی طور پر مالِ خدا سے فائدہ اٹھا رہے تھے،آپ نے ان پر اعتراض کیا اس لئے آپ سے چند افراد،جن کا غیرشرعی مفاد مجروح ہو رہا تھا آپ سے ناراض ہوگئے اور اختلاف و نفاق پیدا کرکے اپنے ناحق مطالبوں کو منوانا چاہا،اصحاب اس وقت متنبّہ ہوگئے اور اس صورتِ حال کو ختم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) شرح نہج البلاغی ج: 7 ص: 36

۲۶۹

کرنے کی بھرپور کوششیں شروع کریدں چنانچہ اسکافی لکھتے ہیں((جب مخالفین حکومت کی ساشیں سامنے آئیں تو عمار بن یاسر اپنے اصحاب کے پاس آئے اور کہنے لگے:چلو اپنے بھائیوں کے اس گروہ کے پس جو اختلاف پیدا کررہے ہیں اُن کے بارے میں ہمارے پاس کچھ خبریں پہنچی ہیں اور ہم ان کی سازشوں کو دیکھ بھی رہے ہیں کہ وہ اختلاف پیدا کررہے ہیں اور اپنے امام پر حملہ کررہے ہیں،جفاکاروں نے زبیر اور اعسرعاق یعنی طلحہ کے یہاں بہت مداخلت پیدا کرلی ہے))،

پس ابوہثیم،عمار،ابوایوب،سہل بن حنیف اور اُن کے ساتھ ایک جماعت اٹھ کھڑی ہوئی،وہ لوگ مولائے کائنات ؑ کے پاس آئے اور کہنے لگے،امیرالمومنین ؑ آپ اپنے معاملات پر غور کیجئے،قریش کی یہ شاخ(طلحہ و زبیر)((جو آپ ہی کی قوم سے ہیں))،آُ سے ناراض ہوگئی ہے انہوں نے آپ سے کیا ہوا عہد توڑ دیا ہے آپ سے وعدہ کرکے وعدہ خلافی کی ہے اور در پردہ آپ کو چھوڑ دینے کی وہ ہمیں دعوت دے رہے ہیں،خدا آپ کو آپ کے حق پر باقی رکھے،ان کی مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ وہ آپ کی رہبری کا ناگوار سمجھتے ہیں اور بیت المال سے ملنے والی اضافی امداد کو کھوچکے ہیں،چونکہ آپ نے ان کو اور کچھ لوگوں کو ایک ہی میزانِ نظر میں رکھا ہے اس لئے وہ لوگ آپ کو بُرا کہہ رہے ہیں،انہوں نے آپ پر آپ کے دشمن کو ترجیح دی ہے اور اُسے بڑھا کرکے پیش کیا ہے،وہ لوگ خونِ عثمان کا بدلہ لینے کے لئے مظاہرہ کررہے ہیں،جماعت میں فرقہ پیدا کررہے ہیں اور گمراہوں سے محبت کررہے ہیں،آپ اپنی رائے ظاہر کریں))(1) آپ ملاحظہ کررہے ہیں کہ خاص صحابہ کس طرح امیرالمومنین ؑ کے حق کی وضاحت کررہے ہیں،آپ کی خیرخواہی میں لگے ہوئے ہیں،آپ کی طرف لوگوں کو دعوت دے رہے ہیں اور آپ کی حکومت کو مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔

3 ۔ خفاف بن عبداللہ طائی معاویہ سے قتل عثمان کے بعد کے واقعات بیان کرتا ہوا کہتا ہے پھر لوگ علی ؑ کی بیعت کے لئے ٹوٹ پڑے جیسے کہ ٹ ڈ یوں کا لشکر آتا ہے پھر امیرالمومنین ؑ نے چلنے کا ارادہ کیا تو آپ کے ساتھ مہاجرین و انصار کا بڑا مجمع نے جھجک چل پڑا،صرف تین افراد نے آپ کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) شرح نہج البلاغی ج: 7 ص: 39

۲۷۰

قیادت میں جہاد کرنے سے گریز کیا اور وہ تین افراد،سعد بن مالک،عبداللہ بن عمر،محمد بن مسلمہ ہیں،لیکن علی ؑ نے کسی کو بھی اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہیں کیا،جو لوگ آپ کے ساتھ آسانی سے شریک ہوئے تھے ان کی وجہ سے آپ بےنیاز تھے اور جو لوگ حیل،حُجت کررہے تھے ان کی آپ نے ضرورت بھی نہیں محسوس کی ۔(1)

4 ۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ جنگ جمل کے لئے جب امیرالمومنین ؑ نکلے تو آپ کے ساتھ آٹھ سو انصار تھے اور چارسو بیعت رضوان والے صحابہ تھے ۔(2) ایک روایت میں ہے کہ آپ کے ساتھ سات سو انصار تھے ۔(3)

5 ۔ معاویہ نے جب عبداللہ بن عمر کو خط لکھ کے مدد مانگی تو انہوں نے جواب میں لکھا((وہ نظریہ جس کی وجہ سے تمہارے دل میں لالچ پیدا ہوا ہے وہ تمہاری رائے ہے لیکن میں نے انصار و مہاجرین میں علی ؑ سے لگاؤ نہیں رکھا ہے اور طلحہ و زبیر نے ام المومنین عائشہ کو بھی چھوڑ دیا ہے تو کیا تمہاری پیروی کرلوں!

پھر ابن عمر نے ابن غزیہ سے کہا کہ اس شخص(معاویہ)کا جواب دو ابن غزیہ کا باپ ایک گوشہ نشین زاہد تھا اور وہ خود قریش کا سب سے بڑا شاعر تھا،اس نے ابن عمر کی فرمائش پر معاویہ کے خط کے جواب میں کچھ اشعار کہے ۔

ترجمہ اشعار:ہم نے علی ابن ابی طالب ؑ کو اصحابِ محمد ؐ کے درمیان چھوڑ دیا ہے حالانکہ ہمیں امید نہیں تھی کہ وہ جس چیز(خلافت)سے دور رکھے گئے ہیں اس پالیں گے انصار ان کے ساتھ ہیں اور مہاجرین کی ہمدردیاں بھی ان کے ساتھ ہیں اور مہاجرین و انصار علی ؑ کی قیادت میں شیروں کی طرح جال میں جکڑے ہوئے ہیں یعنی سب ان کے ساتھ ہیں ۔(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) وقعۃ صفین ص: 65 الامامۃ و السیاسۃ ج: 1 ص: 74 ،شرح نہج البلاغہ ج: 3 ص: 111

( 2) تاریخ خلیفہ بن خیاط ج: 1 ص: 184 ،جنگ جمل کے تفصیلی واقعات،العقد الفرید ج: 4 ص: 289 ،جنگ جمل

( 3) انساب الاشراف ج: 3 ص: 30

( 4) وقعۃ صفین ص: 72 ۔ 73

۲۷۱

6 ۔ محمد بن ابی بکر ایک خط معاویہ کو لکھا اور اس میں مولا علی ؑ کے فضائل کا تذکرہ کیا لکھتے ہیں:اور علی ؑ کے ساتھ علی ؑ کے فضائل اور آپ سابقات تو ہیں ہی اس کے علاوہ وہ مہاجرین و انصار ہیں جن کے فضائل قرآن بیان کرتا ہے اور اللہ ان کی تعریف کرتا ہے وہ علی ؑ کے مددگار ہیں علی ؑ سے شدید محبت کرتے ہیں اور ہمیشہ آپ کو گھرے رہتے وہ اپنی تلواروں کو جنبش دیتے ہیں اور علی ؑ کے لئے اپنا خون بہانے کو ہمیشہ تیار رہتے ہیں ۔(1)

7 ۔ امیرالمومنین ؑ جنگ جمل میں جانے کے لئے نکلے اور جب مقام فید پر پہنچے تو آپ کی خدمت میں قبیلہ بنی اسد اور قبیلہ طے حاضر ہوا اور آپ کی قیادت میں جہاد کرنے کے لئے خود کو یپش کیا،آپ نے فرمایا تم لوگ اپنے قریے(گاؤں)میں ہی رہو!میرے لئے مہاجرین کافی ہیں،(2)

8 ۔ امیرالمومنین ؑ نے معاویہ کو ایک خط لکھا((میں صحراؤں کو قطع کرتا ہوا تیری طرف بڑھ رہا ہوں،میرے ساتھ مہاجرین و انصار کی بڑی جماعت ہے اور ان کی اولاد جو نیکی میں اُن کی پیروی کرتی ہے وہ بڑی فوج کی صورت میں گرد اُراتے ہوئے تیری طرف بڑھ رہے ہیں اُن کے ساتھ اصحاب بدر کی ذرّیت اور ہاشمی تلواریں بھی ہیں ۔(3)

9 ۔ حضرت عقیل بن ابی طالب ؑ نے معاویہ سے کہا:جس روز میں تیرے پاس آنے کے لئے نکلا ہوں میں نے علی ؑ کے ساتھیوں پر نظر کی تو مجھے نہیں نظر آتے مگر مہاجرین و انصار اور تیرے ساتھیوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے دکھائی نہیں دیتے مگر طلقا کی اولاد اور جنگ احزاب کے بقیۃ السیف ۔(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) وقعۃ صفین ص: 119 ،شرح نہج البلاغہ ج: 3 ص: 188 ،مروج الذھب ج: 3 ص: 21 ،حالات معاویہ

( 2) الکامل فی التاریخ ج: 3 ص: 117 ،الفتنۃ و وقعۃ الجمل ج: 1 ص: 137 ،تاریخ طبری ج: 3 ص: 24 ،شرح نہج البلاغہ ج: 14 ص: 18

( 3) نہج البلاغہ ج: 3 ص: 35 ،شرح نہج البلاغہ ج: 15 ص: 184 ،مناقب الامام علی لابن الدمشقی ج: 1 ص: 737 ،ینابیع المودۃ ج: 3 ص: 447

( 4) الموفقیات ص: 335

۲۷۲

10 ۔ حدیثوں میں لشکر کا بیان دیا ہوا ہے:امیرالمومنین ؑ کے لشکر کی ترتیب جنگِ صفین میں کچھ اس طرح تھی کہ امیرالمومنین ؑ خود قلبِ لشکر میں تشریف فرما تھے اور آپ کے ساتھ اہل مدینہ،اہلِ کوفہ اور اہل بصرہ تھے مدینہ والوں میں سب سے بھاری تعداد انصار کی تھی ۔(1) - 11 ۔ نصر بن مزاحم اپنی اسناد سے ابوسنان اسلمی سے روایت کرتے ہیں کہ جب مولا علی ؑ کو یہ بتایا گیا کہ معاویہ اور عمروعاص خطبہ دے دیلے لوگوں کو آپ کے خلاف ورغلا رہے ہیں تو آپ نے حکم دیا کہ لوگوں کو جمع کیا جائے،راوی کہتا کہ گویا میں علی ؑ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ نے اپنی کمال پر تکیہ لگا رکھا ہے،اصحاب پیغمبر ؐ آپ کے پاس جمع ہوگئے ہیں اور آپ کو اس طرح گھیر رکھا ہے جیسے لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ اصحابِ پیغمبر ؐ کا سب سے بڑا مجمع آپ کے ساتھ ہے ۔(2)

12 ۔ عمرو بن عاص نے معاویہ سے کہا:تم اہل شام کو ایسے آدمی سے لڑانا چاہتے ہو جو محمد ؐ سے قرابت قربیہ تو رکھتا ہی ہے اس کے ساتھ ہی تمہاری طرف اصحاب پیغمبر ؐ کی ایک بڑی جماعت لیکے آ رہا ہے،اصحاب محمد ؐ میں شہسوار بھی ہیں،قاریان قرآن بھی ہیں،قدیم الاسلام بھی ہیں،یہ ایسے لوگ ہیں جن کی لوگوں کے دلوں پر ہیبت بیٹھی ہوئی ہے ۔(3)

13 ۔ سعید بن قیس نے اپنے اصحاب کو خطاب کیا،انہوں نے اپنے خطبہ میں کہا:خداوند عالم نے ہمیں اپنی خاص نعمت سے مخصوص کیا ہے،ہم اس کا شکر ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے،اور اس کی کما حقّہ قدر نہیں نہیں کرسکتے،محمد ؐ کے چُنے ہوئے اصحاب((جو اہل خیر بھی ہیں))ہمارے ساتھ ہیں،اُس خدا کی قسم جو اپنے بندوں کے حال سے وقف ہے اگر ہمارا قائد نکّٹا حبشی بھی ہوتا اور بدری سپاہیوں میں ستر افراد کی تعداد ہمارے ساتھ ہوتی تو ہمیں فخر محسوس ہوتا اور ہماری سمجھداری قابلِ تعریف ہوتی،چہ جائے کہ ہمارا قائد پیغمبر ؐ کا ابنِ عم ہے ۔(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ طبری ج:3ص:84،لوگوں کو جنگ پر آمادہ کرنے کی تیاری

(2)وقعۃ صفین ص:223

(3)وقعۃ صفین ص:222

(4)وقعۃ صفین ص:236۔237،شرح نہج البلاغہ ج:5ص:189،جمبرۃ خطب العرب ج:1ص:355،سعید بن قیس کے خطبہ میں

۲۷۳

14 ۔ نصر کہتے ہیں کہ معاویہ نے نعمان بن بشیر اور مسلمہ بن مخلد انصاری کو بلایا بس یہی دو انصاری اس کے ساتھ تھے تو معاویہ نے کہا،اے دونو!مجھے اوس و خزرج کی طرف سے بہت غم ہوا ہے،انہوں نے اپنی تلواریں اپنے کاندھوں پر رکھی ہوئی ہیں اور مسلسل جنگ کی طرف بلا رہے ہیں یہاں تک کہ ہمارے اصحاب ڈ رگئے چاہے وہ بہادر ہوں یا بُزدل،اب حالت یہ ہے کہ جس شامی شہسوار کے بارے میں پوچھتا ہوں جواب ملتا ہے کہ اُسے انصار نے مار ڈ الا،انصار میدانِ جنگ میں نعرہ لگا رہے تھے کہ ہم انصار ہیں،میں مانتا ہوں انہوں نے رسول اسلام ؐ کو پناہ دی اور نُصرت بھی،لیکن انہوں نے اپنے تمام حقوق کو باطل کام(میری مخالفت)کرکے باطل کردیا ۔

جب معاویہ کی یہ باتیں انصار تک پہنچیں تو قیس بن سعد انصاری نے انصار کو جمع کیا اور خطبہ دینے کھڑے ہوئے،خطبہ میں کہا:معاویہ نے جو کچھ کہا ہے وہ آپ لوگوں کو معلوم ہوچکا ہے،میری جان کی قسم اگر آج آپ نے معاویہ کو غصہ دلایا ہے تو کوئی نئی بات نہیں ہے کل بھی آپ لوگوں نے غضب ناک کیا تھا اور اگر زمانہ اسلام میں آپ لوگوں نے معاویہ کو پچھاڑا ہے تو زمانہ کفر میں بھی آپ لوگ اسے پچھاڑ چکے ہیں، ۔ آپ اس کے خلاف جنگ کرکے کوئی گناہ نہیں کررہے ہیں بلکہ یہ تو آپ اس دین کی نصرت میں کررہے ہیں جس کی آپ پیروی کرتے ہیں،آج تو وہ کارنامہ انجام دیجئے جو کل کے کارناموں کو بُھلادے اور کل انشااللہ ایسے کام کیجئے گا جسے دیکھ کر لوگ آج کے کارنامے بھول جائیں(آپ لوگ تو منزل یقین پر فائز ہیں)آپ تو اس عَلم کے سارئے میں کھڑے ہیں جس عَلم کے داہنی طرف جبرائیل ؑ اور بائیں طرف میکائیل کھڑے ہو کے جہاد کرتے تھے جب کہ معاویہ کی قوم ابوجہل اور احزاب کے جھن ڈ ے کے ساتھ ہے ۔(1)

15 ۔ معاویہ نے نعمان کو بُلا کر میدان میں بھیجا کہ وہ قیس بن سعد بن عبادہ کو سمجھائے اور اُن سے کہے کہ وہ جنگ نہ کریں،نعمان نکلا اور دونوں صفوں کے درمیان کھڑا ہوا پھر اس نے کہا:اے قیس ابن سعد میں نعمان بن بشیر ہوں،یہ سُن کر قیس بن سعد نکلے اور دونوں میں گفتگو ہونے لگی،قیس نے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) وقعۃ صفین ص: 445 ۔ 447

۲۷۴

دورانِ گفتگو کہا:خدا کی قسم اگر تمام عرب بھی معاویہ کے ساتھ ہوجاتا جب بھی انصار تو اُس سے لڑتے ہی اور تم جو یہ کہہ رہے ہو کہ ہم عام لوگوں کی طرح نہیں ہیں تو سنو!ہم لوگ اس جنگ میں اس طرح ہیں جیسے پیغمبر ؐ کے ساتھ تھے،اپنے چہروں کو تلواروں کی ڈ ھال اور گردنوں کو نیزوں کا نشانہ بنارہے ہیں،تا کہ حق کی فتح ہو اور امرِ خدا ظاہر ہوجائے اور دشمن کو یہ بات ناگوار گذرتی ہے تو گذرے نعمان ذرا دیکھو تو کہ معاویہ کے ساتھ کون لوگ ہیں؟یا تو طلیق ہیں،یا عرب کے دیہاتی یا خطہ یمن کے کچھ لوگوں کو دھوکہ سے ساتھ میں ملایا گیا ہے،دیکھو تو مہاجرین و انصار اور نیکی میں اُن کی پیروی کرنے والے جن سے خدا راضی ہے،کہاں پر ہیں؟پھر دیکھو!معاویہ کے ساتھ اپنے اور اپنے حقیر ساتھی(مسلمہ انصاری)کے علاوہ کسی اور انصاری کو بھی پاتے ہو؟اور تم دونوں نہ بدری ہو،نہ اُحد کے جانبازوں میں،نہ تم نے اسلام میں سبقت کی ہے،نہ تمہاری شان میں قرآن کی کوئی آیت اتری ہے،خدا کی قسم تم نے آج ہمیں دھوکہ دیا ہے تو ہمیں کوئی تعجب نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے تمہارے باپ ہم سے غداری کرچکے ہیں ۔(1)

بشیر بن سعد جو نعمان کا باپ تھا سب سے پہلے اسی نے ابوبکر کی بیعت کی تھی،جناب قیس بن سعد کا اشارہ((اس کے باپ کی غداری ہے))اسی طرف ہے،یہ بھی مشہور ہے کہ اس کے باپ نے یا تو سب سے پہلے بیعت(2) کی تھی یا ان لوگوں میں شامل تھے جن کو بیعتِ ابوبکر میں اوّلیت حاصل ہے ۔

16 ۔ واقعات صفین کے ذیل میں بیان کیا جاتا ہے کہ عمار بن یاسر نے بَدری سپاہیوں کی ایک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) وقعۃ صفین ص: 449 ،شرح نہج البلاغی ج: 8 ص: 87 ۔ 88 ،الامامۃ و السیاسۃ ج: 1 ص: 91 ۔ 92 ،جمبرۃ خطب العرب ج: 1 ص: 367 ،خلافت امام علیؑ

( 2) تاریخ یعقوبی ج: 2 ص: 124 ،الریاض النضرۃج: 2 ص: 215 ،الصابۃ ج: 1 ص: 311 ،فتح الباری ج: 7 ص: 31 ،الطبقات الکبری ج: 3 ص: 182)

۲۷۵

بڑی تعداد لیکے اور دوسرے مہاجرین و انصار کے ساتھ عمروعاص پر حملہ کیا اس وقت وہ تنوخ اور نہد جیسے شامیوں کی قیادت کررہا تھا(1)

17 ۔ ابوعبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ:میں جنگ صفین کے نزدیک سے دیکھنے والے افراد میں سے ہوں وہ کہتے ہیں کہ:میں نے عمار یاسر کو دیکھا کسی بھی میدان یا وادی میں دکھائی نہیں دئیے مگر یہ کہ اصحاب محمد ؐ اُن کے ساتھ ساتھ جیسے کہ عمار یاسر اُن کے عَلَم ہوں جس کو وہ گھیرے رہتے تھے ۔(2)

18 ۔ ام الخیر بنت حریش نے عمار کی شہادت پر کہا:اے گروہِ مہاجرین و انصار!صبر کرو،اپنے پروردگار کی طرف سے بصیرت لے کے اپنے دین پر ثابت قدمی کے ساتھ جہاد کرتے رہو ۔(3)

19 ۔ عکرشہ بنت ائدطش یا اطرش نے جنگ صفین میں کہا:اے گروہِ مہاجرین و انصار!اپنے دین سے بصیرت لیکے جہاد کرتے رہو ۔(4)

اس کے علاوہ بھی بہت سے شواہد ہیں لیکن اختصار کے پیش نظر میں انہیں پیش نہیں کر رہا ہوں یہ تمام واقعات اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ جنگ صفین و جمل میں پیغمبر اعظم ؐ کے بلند مرتبہ اصحاب،مولائے کائنات حضرت علی ؑ کے ساتھ تھے اور آپ کو حقدارِ خلافت تسلیم کرکے آپ کے مخالفین سے جنگ کررہے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) مروج الذھب ج: 2 ص: 375

( 2) الاستیعاب ج: 3 ص: 1138 تاریخ طبری ج: 3 ص: 99 ،مقتل عمار بن یاسر،المجموع فی شرح المہذب للنوری ج: 19 ص: 162 ،شرح نہج البلاغہ ج: 10 ص: 104 ،اسد الغابہ ج: 4 ص: 46)

( 3) جمبرۃ خطب العرب ج: 1 ص: 371 ،تاریخ دمشق ج: 7 ص: 235 ،العقد الفرید ج: 2 ص: 90 ،صبح الاعشی فی صناعۃ الانشاء ج: 1 ص: 297 ،بلاغات النساء ص: 38 ،ام الخیر بنت حریش بارقینہ کی گفتگو کے ذیل میں،

( 4) بلاغات النسا ص: 71 ،العقد الفرید ج: 2 ص: 86 صبح الاعشی فی صناعۃ الانشا ج: 1 ص: 301 ،جمبرۃ خطب العرب ج: 1 ص: 368 ۔ 369 ،واقعۃ صفین میں شیعیت سے لبریز خطبے اور عکرشہ بنت اطرش کا خطبہ،

۲۷۶

امیر المومنین علیہ السلام کی طرف سے اصحابِ پیغمبر ؐ بڑے اور ذمہ دار عہدوں پر رکھے جاتے تھے

امیرالمومنین ؑ کے خاص لوگوں میں اصحابِ پیغمبر ؐ ہی تھے جن میں سے کچھ آپ کے لشکر کے قائد اور کچھ مختلف شہروں کے گورنر بنائے گئے تھے،بڑی ذمہ داریاں،نمایاں اصحاب کو دی جاتی تھیں،جیسے عمار بن یاسر،ابوایوب انصاری،حذیفہ بن یمان،ابن تیہان،ذوالشھادتین،قیس بن سعد بن عبادہ،عمروہ بن حمق خزاعی،ہاشم بن عتبہ مرقال،عدی بن حاتم طائی،عبداللہ اور محمد دونوں بدیل بن ورقۃ خزاعی کے فرزند ہیں،سھل اور عثمان دونوں حنیف کے صاحبزادے ہیں،جابر بن عبداللہ انصاری و غیرہ ۔

امیرالمومنینؑ کا اپنے خاص اصحاب کے لئے گریہ و اضطراب

امیرالمومنین ؑ اپنے اصحاب خاص کو بہت شدت سے یاد فرماتے تھے،خصوصاً اس وقت جب آپ لوگوں کو جہاد کی دعوت دیتے تھے تو اپنے خطبوں میں ان صحابہ کرام کا تذکرہ بڑے دل پذیر انداز میں کرتے تھے،ایک خطبہ میں آپ فرماتے ہیں کہ((کہاں ہیں میرے وہ بھائی جو راہِ خدا پر چلے اور حق پر ہی گزرگئے،کہاں ہیں عمار،کہاں ہیں ابن تیہان،کہاں ہیں ذوالشھادتین اور ان کے جیسے لوگ،میرے وہ بھائی جنہوں نے موت سے شرط باندھ رکھی تھی اور جن کے بریدہ سر فاجروں کے دل کو ٹھن ڈ ا کرتے تھے،راوی کہتا ہے کہ پھر آپ نے اپنے ریشِ مبارک و مقدس پر ہاتھ پھیرا اور بہت دیر تک روتے رہے پھر فرمایا:ہائے میرے وہ بھائی جنہوں نے قرآن کی تلاوت کی تو اسی کو حاکم قرار دیا،فرض پر غور کیا تو اس کو قائم کیا،سنت پیغمبر ؐ کو وہ زندہ کرتے تھے اور بدعتوں کو مٹاتے تھےمجہاد کے لئے بلائے جاتے تو لبیک کہتے تھے،انہوں نے اپنے قائد پر بھروسہ کیا تو اس کی پیروی کی)) ۔(1)

امیرالمومنین ؑ کے بعد بھی ان میں سے کچھ مقدس افراد امام حسن ؑ کے دور تک باقی رہے،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ج:2ص:109

۲۷۷

جب امام حسن ؑ صاحبِ امر ہوئے تو وہ افراد آپ کے ساتھ تھے یہاں تک کہ امام ؑ نے معاویہ سے مصالحت کی جب بھی وہ لوگ موجود تھے وہ امام ؑ پر جان نچھاور کرتے تھے اور آپ کے اہل بیت ؑ کے شیدائی تھے ۔

معاویہ اصحاب امیرالمومنینؑ سے انتقام لیتا ہے

معاویہ نے اصحاب علی ؑ کو مجرم محبت علی ؑ کی خوب سزادی ایک ایک سے چُن چُن کے بدلہ لیا،کسی کو قتل کرایا،کسی کو زندگہ دفن کرایا،کسی کو سولی پر چڑھایا،صرف اس لئے کہ وہ محبتِ علی ؑ اور ولائے پیغمبر ؐ میں گرفتار تھے اور مولائے کائنات ؑ کے بعد بھی معاویہ کے مخالفت تھے،یہاں تک کہ اس نے عمرو بن حمق خزاعی جیسے جلیل القدر صحابی کو آوارہ وطن ہونے پر مجبور کردیا اور جب وہ مومن شہید ہوگئے یا مرگئے تو ان کا سر کاٹ کے معاویہ کے پاس بھیج دیا گیا،اُس نے عمرو بن حمق کی بیوی کو قید کر رکھا تھا،عمرو بن حمق کے سر کو آپ کی بیوی کی گود میں رکھ دیا وہ مومنہ اپنے شوہر کا سر دیکھ کے رونے لگی اور بولی:بہت دنوں تک تم لوگوں نے اِن کو ہم سے دور رکھا تھا اور جب ہمیں ملایا تو تو ان کی شہادت کے بعد ملایا ۔(1)

حجر بن عدی اور اصحاب حجر کی شہادت پر مسلمانوں کا اظہار نفرت

معاویہ نے عظیم المرتبہ صحابہ حجر بن عدی کو اُن کی جماعت کے ساتھ مرج عذرا کی چراگاہ میں شہید کردیا یہ بہت مشہور واقعہ ہے،ان لوگوں کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے معاویہ کے گورنرز یاد کی کوفہ پر حکومت سے انکار کردیا تھا اور اس کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام سے اظہار بر ات ب ھی نہیں کی،حجر و اصحابِ حجر کی شہادت سے عالمِ اسلام میں ایک شور برپا ہوگیا اور لوگ معاویہ کو ملعون و فاسق کہنے لگے،ہر مسلمان نے اس حادثہ فاجعہ کو اپنے طور پر اسلام اور مسلمان کے لئے ایک بڑی مصیبت سمجھا،چنانچہ دیکھئے!یہ عائشہ ہیں:جو حجر بن عدی کی شہادت پر معاویہ سے بہت ناراض

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) اسد الغابہ ج: 4 ص: 101 ،حالاتعمر بن الحمق،بدایہ و النہایہ ج: 8 ص: 48 ،تاریخ دمشق ج: 69 ص: 40

۲۷۸

ہیں،جب شام پہنچیں اور معاویہ سے براہِ راست ملاقات ہوئی تو کہنے لگیں:اے معاویہ!تجھے حجر و اصحاب حجر کو قتل کرنے میں اللہ کا خوف محسوس نہیں ہوا؟(1)

دوسری روایت میں ہے کہ عائشہ نے کہا:کاش معاویہ کو معلوم ہوتا کہ کوفہ میں اس کی جسارتوں کو روکنے والے موجود ہیں تو وہ یہ جرات نہ کرتا کہ حجر اور اصحاب حجر کو کوفہ سے اٹھالے اور شام لے جاکے انھیں قتل کردے لیکن جگرِ خوارہ کا بیٹا یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ مردِ راہ حق اب نہیں رہے،خدا کی قسم اگر وہ ہوتے تو....))(2) دوسرے مقام پر بھی انہوں نے معاویہ سے کہا:اے معاویہ!تو نے جو ظلم حجر اور اصحابِ حجر پر کیا(3) اور انہیں شہید کردیا اس کی وجہ کیا تھی تجھے اس فعلِ قبیح پر کس نے مجبور کیا؟(4)

جب عبداللہ بن عمر کو خبرِ شہادت حجر ملی تو وہ بازار میں تھے،انہوں نے یہ کبر سنتے ہی پُشت سے بندھا ہوا کپڑا چھوڑ دیا اور کھڑے ہوگئے پھر بڑی شدت سے روئے ۔(5) جب ربیع بن زیاد کو یہ خبر ملی((جو معاویہ کے گورنر تھے))تو انہوں نے دعا کی:پالنے والے اگر ربیع کا کوئی نیک عمل تجھے پسند آیا تو اب ربیع کو اس دنیا سے اٹھالے ۔(6) حسن بصری نے کہا:معاویہ کے اندر خرابیاں ہیں جن میں سے ہر ایک اس کی ہلاکت کے لئے کافی ہیں،ایک تو اس امت پر زبردستی مسلّط ہوجانا،دوسرے حجر و اصحاب حجر کو شہید کرنا،حجر کی وجہ سے اُس پروائے ہو حجر کی وجہ سے اس پروائے ۔(7)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) تاریخ طبری ج: 3 ص: 51،232 سنہکےواقعات

( 2) الاستیعاب ج: 4 ص: 126 حالات جعفر ابن عدی

( 3) البیان و التعریف ج: 2 ص: 72 ،فیض القدیر ج: 4 ص: 126

( 4) تاریخ طبری ج: 3 ص: 232 ،اور تاریخ دمشق ج: 12 ص: 226 ۔ 229 ۔ 230

( 5) الاستیعاب ج: 1 ص: 330 ،تاریخ دمشق ج: 12 ص: 227 ۔ 228 ۔ 229 ،بدایہ النہایہ ج: 8 ص: 55

( 6) الاستیعاب ج: 1 ص: 330 ،تھذیب التھذیب ج: 3 ص: 211 ،تھذیب الکمال ج: 9 ص: 79

( 7) تاریخ طبری ج: 3 ص: 232 ،الاستیعاب ج: 1 ص: 331 ،الکامل فی التاریخ ج: 3 ص: 337 ،ینابیع المودۃ ج: 2 ص: 27 ،شرح نہج البلاغہ ج: 2 ص: 262)

۲۷۹

اس منزل میں دوسرے فقرے بھی ہیں جو مسلمانوں نے کہے،مسلمانوں نے شہادتِ حجر کی شدت سے مخالفت کی ہے،رضوان اللہ علیھم اجمعین(1)

لیکن میں اس جگہ وہ تمام باتیں عرض نہیں کروں گا،شہادت حجر کے بیان کو ختم کرنے سے پہلے صرف اس پیشین گوئی کے ذکر پر اکتفا کرتا ہوں جو سرکار دو عالم ؐ نے حجر اور اصحاب حجر کی شہادت کے سلسلے میں فرمائی تھی،آپ فرماتے ہیں((عذرا میں سات ایسے افراد شہید کئے جائیں گے جن کی شہادت پر خدا اور آسمان والے غضبناک ہوں گے)) ۔(2)

معاویہ نے اپنے تاریک دور میں اصحابِ علی ؑ پر بہت سختیاں کی ہیں ۔ صرف اس وجہ سے کہ ان کے دل میں محبت علی ؑ تھی اور وہ اہل بیت علیھم السلام کے چاہنے والے تھے،تاریخیں ایسے واقعات سے بھری پڑی ہیں اور کسی پر بھی معاویہ کی یہ حرکتیں پوشیدہ نہیں ہیں ۔

(معاویہ انصارِ خدا سے شدیدترین بغض رکھتا تھا،جب وہ مدینہ آیا تو اس سے ابوقتادہ انصاری کی اچانک ملاقات ہوگئی،معاویہ نے کہا:ابوقتادہ تمام مسلمان ہم سے ملنے کے لئے آئے سوائے تم انصاریوں کے،آخر تم لوگوں کو کس نے روکا ہے؟انہوں نے کہا:ہمارے پاس سواریاں نہیں تھیں،پوچھا تہمارے اونٹ کیا ہوئے؟فرمایا:بدر کے دن تم کو اور تمہارے باپ کو تلاش کرنے سے تھکے ہوئے تھے،کہنے لگا ٹھیک کہہ رہے ہو اے ابوقتادہ! ۔ ابوقتادہ نے کہا:ہادی برحق نے ہمیں خبر دی ہے کہ ہم لوگ نبی ؐ کے بعد کچھ نشانیاں دیکھیں گے،پوچھا:پھر نبی ؐ نے اس وقت کے لئے کوئی حکم بھی تو دیا ہوگا؟کہا:ہاں ہمیں صبر کا حکم دیا ہے،کہنے لگا:پھر صبر ہی کرو یہاں تک کہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) تاریخ طبری ج: 3 ص: 232 ۔ 233 ،تاریخ دمشق ج: 12 ص: 219 ۔ 132 ۔ 233 ،بدایہ و النہایہ ج: 8 ص: 54 ۔ 55

( 2) انساب الاشراف ج: 5 ص: 274 ،تاریخ دمشق ج: 12 ص: 226 ،جامع الصغیر ج: 2 ص: 61 ،حدیث 4765 ،بدایہ و النہایہ ج: 6 ص: 226 ،مقتل حجر بن عدی ج: 8 ص: 55 ،کنز العمال ج: 11 ص: 126 ،حدیث: 30887 ،ج: 13 ص: 587 ،حدیث 37509 ،ص: 588 حدیث: 37510 ،تاریخ یعقوبی ج: 2 ص: 231 ،النصائح الکافیہ ص: 83 ،فیض القدیر ج: 4 ص: 126 ،اور اسی طرح اصابہ میں ج: 2 ص: 38

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367