فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 367
مشاہدے: 183630
ڈاؤنلوڈ: 4413


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 183630 / ڈاؤنلوڈ: 4413
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

تیسری روایت میں ہے کہ حباب کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم تجھ سے یا تیرے اصحاب سے حسد نہیں کرتے ہم تو اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں وہ لوگ خلافت پر قابض نہ ہوجائیں جنہیں ہم نے قتل کیا ہے،پھر تو وہ لوگ ہم سے بدلہ لینا شروع کردیں ۔(1)

ایک دوسرے روایت میں ہے کہ حباب نے انصار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:تم لوگ مجھے خاموش رہنے کی تلقین کر رہے ہو،بہرحال تم نے تو انجام پر غور کئے بغیر جو سمجھ میں آیا کیا لیکن میں خدا کی قسم مستقبل پر غور کر رہا ہوں کہ تمہاری اولاد ان کے دروازوں پر دستک دیکے پانی مانگے گی اور وہ انہیں سیراب کرنے سے انکار کردیں گے ابوبکر بولے:حباب تم کس وقت سے ڈ ر رہے ہو؟حباب نے کہا تم سے نہیں ڈ رتا،تمہارے بعد آنے والے لوگوں سے خوف زدہ ہوں،ابوبکر نے کہا:اگر ایسا ہوا اور تم وہ باتیں دیکھنے لگو جن کو تم نہیں چاہتے ہو تو پھر اختیار تمہارے ہاتھ میں دےدیں گے،حباب نے کہا:ابوبکر افسوس تو اسی کا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکےگا،میں تو اس وقت کی بات کر رہا ہوں جب نہ تم ہوگے نہ ہم ہوں گے اور ہمارے بعد وہ قوم آئے گی جو ہمارے بیٹوں کو سخت عذاب میں گرفتار کرے گی اور خدا ہی اسی سے طلبِ استعانت ہے ۔(2)

انصار و غیرہ نے خلافت کے لئے امیرالمومنین ؑ کا نام لیا

یعقوبی کہتا ہے کہ سقیفہ میں جب ابوعبیدہ کی بیعت کی تجویز اور عمر کی طرف سے ابوبکر کی بیعت کی تجویز رکھی گئی تو عبدالرحمٰن بن عوف کھڑے ہوئے اور کہنے لگے:اے گروہ انصار اگر چہ تم صاحبِ فضیلت ہو لیکن ابوبکر،عمر اور علی ؑ کی طرح نہیں ہو،یہ سن کر منذر بن ارقم کھڑے ہوئے اور کہنے لگے تم نے جن کا ذکر کیا ہم ان کی فضیلت کے منکر نہیں ہیں،اس لئے کہ ان مذکورہ لوگوں میں ایک شخص ایسا ہے کہ اگر وہ خلافت کا مطالبہ کرے تو اس سے کوئی اختلاف کرےگا،نہ جھگڑا،ان کی مراد علی بن ابی طالب ؑ سے تھی ۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)انساب الاشراف ج:2ص:263،امر سقیفہ (2)الفتوح لابن اعثم ج:1ص:100۔111،خبر سقیفہ (3)تاریخ یعقوبی ج:2ص:123،خبر سقیفہ اور بیعت ابوبکر

۲۴۱

ابن ابی الحدید،زبیر بن بکار سے روایت کرتے ہیں کہ جب ابوبکر کی بیعت ہوگئی تو ایک جماعت نے ابوبکر کو جلوس کی شکل میں لیکے مسجدِ نبوی تک پہنچا دیا اور ان کے پاس بیٹھے رہے،جب دن ختم ہونے لگا تو لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے،پس انصار کا ایک گروہ جمع ہوا اور مہاجرین کا ایک گروہ جمع ہوا اور دونوں ایک دوسرے سے غصّہ ہونے لگے،غصّہ کی بنیاد سقیفہ تھی،عبدالرحمٰن بن عوف کہنے لگے:اے گروہِ انصار اگر چہ تم صاحبِ فضیلت ہو،نصرتِ پیغمبر ؐ میں سبقت کرنے والے اور سابق الایمان ہو لیکن تم میں ابوبکر،عمر،علی ؑ اور ابوعبیدہ جیسا کوئی نہیں ہے،زید بن ارقم نے جواب دیا:اے عبدالرحمٰن!جن کی فضیلت کا تم نے ذکر کیا،ہم ان کے منکر نہیں ہیں،لیکن سیدالانصار سعد ابن عبادہ تو ہمیں میں سے ہیں تم نے قریش کے جن لوگوں کا نام لیا،ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے ایک شخص ایسا ہے جو اگر خلافت اپنے لئے طلب کرے تو اس سے کوئی جھگڑا نہیں کرےگا یعنی علی ابن ابی طالب ؑ۔(1)

ابن اعثم نے عبدالرحمٰن اور زید بن ارقم کی گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے آخر میں لکھا ہے کہ زید بن ارقم نے کہا:عبدالرحمٰن!اگر علی ابن ابی طالب اور دوسرے بنوہاشم تدفینِ نبی ؐ میں مصروف نہ ہوتے اور آپ کے لئے غمگین ہوکے اپنے گھروں میں بیٹھے نہ ہوتے تو امرِ خلافت کی طرف کسی کی بھی پُر ہوس نگاہیں نہ اٹھتیں اور اس کی لالچ میں کوئی نہیں پڑتا،جاؤ لیکن اپنے اصحاب کو ایسی چیز کے بارے میں ہیجان میں مبتلا نہ کرو جس کا تم مقابلہ نہیں کرسکتے ۔(2)

طبری اور ابن اثیر کہتے ہیں کہ سقیفہ میں جب ابوعبیدہ،ابوبکر اور عمر کی بیعت کا معاملہ اٹھا تو عمر نے فوراً ابوبکر کی بیعت کر لی اور دوسرے حاضرین نے بھی بیعت کرلی،اسی وقت انصار بولے یا انصار کی نمائندگی کرتا ہوا کوئی انصاری بولا ہم تو سوائے علی ؑ کے کسی کی بیعت نہیں کریں گے ۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:6ص:19۔20

(2)الفتوح الابن اعثم ج:1ص:12)

(3)تاریخ طبری ج:2ص:233،روز وفات رسول خداؐ،الکامل فی التاریخ ج:2ص:220،خبر سقیفہ اور بیعت ابوبکر،چاپ1348سنہمطبعہ منیریۃ

۲۴۲

صحابہ کی جماعت کے نمایاں افراد علی ؑ کی طرف مائل تھے

ابن ابی الحدید جوہری کے حوالہ سے ان کی سندوں کے ساتھ جریر بن مغیرہ سے روایت کرتے ہیں کہ سلمان،زبیر اور انصار کی خواہش تھی کہ نبی ؐ کے بعد علی ؑ ہی کی بیعت کی جائے ۔(1) اسی طرح دوسرے مورخین نے بھی لکھا ہے کہ مولائے کائنات ؑ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ گھر میں بیٹھ گئے یہاں تک کہ ابوبکر کی ایک جماعت نے ان پر ہجوم کیا ۔(2)

ابن ابی الحدید جوہری کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ علی ؑ کے گھر میں بہت سے آدمی تھے ۔(3)

انصار ابوبکر کی بیعت کرکے پچھتا رہے تھے

یہ بات بھی سبھی جانتے ہیں کہ اگر چہ انصار کی اکثریت نے ابوبکر کی بیعت کرلی تھی،اس کے باوجود ابن ابی الحدید،زبیر بن بکار کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ جب ابوبکر کی بیعت ہوگئی اور جب ابوبکر کا معاملہ سُلجھ گیا تو انصار کے کثیر افراد ابوبکر کی بیعت کر کے پچھتا رہے تھے اور ایک دوسرے کو ملامت کر رہے تھے،وہ امیرالمومنین ؑ کا نام لے رہے تھے اور آپ کا نام لیکر فریاد کر رہے تھے،حالانکہ مولائے کائنات ؑ اپنے گھر میں بیٹھے تھے اور باہر نہیں نکل رہے تھے(انصار کی اس بیزاری کی جہ سے)وہ مہاجرین جو ابوبکر کے ساتھ تھے اور وہ لوگ جو فتحِ مکہ کے دن مہمان ہوئے تھے اور جن کا انصار اور اسلام نے خون بہایا تھا،تنگ ہونے لگے اس موقعہ پر بہت سی باتیں ہوئیں بہت سی تقریریں ہوئیں اور بہت سے اشعار نظم کئے گئے ۔(4)

جوہری،ابوسعید خدری سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے برا بن عاذب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:2ص:49ج:6ص:43

(2)ریاض الغضرہ،ج:2ص:205۔206،ص:123۔125،تاریخ یعقوبی ج:2ص:126،الامامۃ و السیاسۃ ج:1ص:16،العقد الفرید ج:4ص:242،العسجدۃ الثانیۃ

(3)شرح نہج البلاغہ ج:6ص:48

(4)شرح نہج البلاغہ ج:6ص:23یعقوبی فی التاریخ ج:2ص:125

۲۴۳

کو کہتے ہوئے سنا کہ میں ہمیشہ بنی ہاشم سے محبت کرتا رہا،جب سرکارِ دو عالمؐ کی وفات ہوئی تو مجھے ڈر ہوگیا کہ قریش امرِ خلافت کو بنی ہاشم سے نکال لے جائیں گے تو میری حالت کسی جلد باز عاشق جیسی ہوگئی،پھر ہو(برا ابن عاذب)بیعت ابوبکر کا ذکر کرتے ہیں،یہاں تک کہ میں(برا بن عاذب)بنی بیاضہ کے میدان میں پہنچا تو دیکھا کہ کچھ لوگ آپس میں راز داری کی باتیں کر رہے ہیں،میں جب ان کے قریب پہنچا تو وہ لوگ خاموش ہوگئے،میں وہاں سے چلنے لگا،انہوں نے مجھے پہنچان لیا تھا لیکن میں نے انہیں نہیں پہچانا تھا،تو انہوں نے مجھے اپنے پاس بلایا،میں اُن کے پاس گیا تو دیکھا کہ وہاں مقداد بن اسود،عبدادہ بن صامت،سلمان فارسی،ابوذر،حذیفہ اور ابوھثیم بن تیہان تھے،حذیفہ کہہ رہے تھے کہ میں نے تمہیں جو بات بتائی ہے وہ ہو کر رہے گی،بخدا میں نے نہ جھوٹ بولا نہ مجھے جھٹلایا گیا،پھر کہا جا کے اُبی بن کعب سے پوچھ لو،ان کو بھی وہ سب کچھ معلوم ہے جو مجھے معلوم ہے،برا کہتے ہیں:پس ہم لوگ اُبی بن کعب کے پاس پہنچے اور ان کے دروازے پر دستک دی،انہوں نے اندر سے پوچھا تم لوگ کون ہو اور تمہاری ضرورت کیا ہے،ہم نے کہا:دروازہ کھولو بات ایسی نہیں ہےکہ پردہ کے پیچھے سے ہو،وہ بولے دروازہ تو میں نہیں کھولوں گا،البتہ تم جس کام کے لئے آئے ہو میں جان گیا ہوں،لگتا ہے تم امرِ خلافت کے بارے میں بات کرنے کے لئے آئے ہو،ہم نے کہا:ہاں!وہ کہنے لگے کیا تم میں حذیفہ بھی ہیں ہم نے کہا:ہاں،وہ کہنے لگے جو وہ کہہ رہے ہیں وہی صحیح ہے،خدا کی قسم میں تو اپنا دروازہ نہیں کھولوں گا جب تک حالات اسی طرح چلتے رہیں گے،اس کے بعد تو اس سے بُری حالت ہونےوالی ہے،میں تو خدا ہی سے شکوا کرتا ہوں۔(1)

امیرالمومنین ؑ کو کمزور کرنے کی کوشش میں عباس کا استعمال

ابوبکر کی بیعت کو صحابہ بُرا کہہ رہے تھے اور اُسے توڑنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے،اسی وجہ سے ابوبکر نے ارادہ کیا کہ امیرالمومنین ؑ کو کمزور کریں اور آپ ؑ کے خاندان میں پُھوٹ ڈ ال دیں،سازش

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) شرح نہج البلاغہ ج: 2 ص: 51 ۔ 52

۲۴۴

یہ تھی کہ عباس اور اولاد عباس کو خلافت میں کچھ اختیاردے کر اپنی طرف ملالیں تاکہ وہ لوگ امیرالمومنین سے رشتہ توڑ کر اور آپ کو چھوڑ کران کی طرف ہوجائیں ، ابوبکر نے عباس سے کہا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ کچھ لوگ مسلمانوں کی عام روش سے ہٹ کے باتیں کررہے ہیں انہوں نے تم لوگوں کو اپنی پناہ گاہ بنا رکھا ہے ، تم (بنوھاشم)ان لوگوں کے لئے مضبوط قلعہ اور ان کی حمایت میں بولنے والے شاندار خطیب ہوگئے ہو،ہو تو سنو !یا تو اس میں داخل ہوجاؤ جس میں سب لوگ داخل ہوئے ہیں (یعنی میری خلافت مان لو) یا پھر لوگوں کو جس کی طرف وہ مائل ہوگئے ہیں اس سے باز رکھو ہم تمھارے پاس آئے ہیں کہ تمھارے لئے امر خلافت میں سے کچھ حصہ دیدیں جو تمھارے بعد تمھاری اولادکے بھی کام آئے-

اس کے بعد عمرنے گفتگوشروع کی اور انہوں نے بھی ابوبکر کی تصدیق کی ، عمرنے کہا:ہم تمھارے پاس کسی ایسی ضرورت کے لئے نہیں آئے ہیں ،لیکن ہمیں یہ برا لگتا ہے کہ مسلمان کی جماعت جس بات پر مجتمع ہوچکی ہے تم اس پر طمع کرو اور تمھاری اور ان کی مصبیتیں بڑھ جائیں، عام مسلمانوں کے بارے میں اور اپنے بارے میں ذرا سوچ سمجھ کے چلو(1)

عباس نے جو ان باتوں کا جواب دیا تھا وہ بھی تیسرے سوال کے جواب میں پیش کیا جاکا ہے-

ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے برسرمنبر ابو بکر کو غلط کہا

شیعہ روایتوں میں ہے کہ مہاجرین وانصار میں سے بارہ آدمیوں نے ابو بکر کو " جب وہ منبر پرجمعہ کا خطبہ دے رہے تھے " غلط کہا ان کے نام یہ ہیں

1-خالد بن سعیدبن عاصم

2- مقداد بن اسود

3- ابی بن کعب

--------------

(1)شرح نہ ج البلاغہ ج:1ص:220

۲۴۵

4 ۔ عمار بن یاسر

5 ۔ ابوذر غفاری

6 ۔ سلمان فارسی

7 ۔ بریدہ اسلمی

8 ۔ خذیمہ بن ثابت ذوالشہادتین

9 ۔ سہل ابن حنیف

10 ۔ عثمان ابن حنیف

11 ۔ ابوایوب انصاری

12 ۔ ابوہیثم بن تیہان

ان لوگوں نے ابوبکر کو یاد دلایا کہ خلافت کے اصل مسحتق امیرالمومنین علی بن ابی طالب ؑ ہیں،پیغمبر ؐ نے آپ کی خلافت پر نص کیا ہے،انہوں نے ابوبکر کو نصیحت کی اور ہر آدمی نے بہت طویل گفتگو کی جس کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں ہے ۔(1)

صدیقہ طاہرہ ؐ کا خطبہ اور آپ کا انصار کو خاص طور سے قیام کی دعوت دینا

اسی طرح معصومہ عالم ؐ نے مسجدِ نبوی میں ابوبکر سے براہِ راست فدک کا مطالبہ کیا،مورّخین کا بیان ہے کہ معصومہ ؑ نے ابوبکر سے فدک کا مطالبہ کیا،ان کی خلافت پر اعتراض کیا اور جو کچھ پیغمبر ؐ کے بعد ہوا اس کی مذمّت کی،پھر آپ انصار کی طرف مخاطب ہوئیں اور ان کی بات پر مذمت کی انہوں نے نصرت اہلبیت ؑ سے دست کشی کی،آپ نے انہیں تکلیف شرعی کی طرف متوجہ کر کے اس کو ادا کرنے پر ابھارا،آپ کے لہجہ میں بڑی شدت تھی،آخر کلام میں آپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) بحارالانوار ج: 28 ص: 189 ،ذرا سے اختلاف کے ساتھ ملاحظہ ہو،کتاب الخصال باب 12 ،ص: 429

۲۴۶

نے فرمایا کہ سقیفہ میں جو کچھ ہوا اور اس کے بعد جو ہو رہا ہے یہ خدا کے خلاف ہے،مصیبتوں کا راغی ہے اور اس کے بارے میں تمام مسلمان سختی سے مسئول ہونگے،آخر میں فرماتی ہیں کہ:میں نے جو کچھ کہا،یہ جان لینے کے بعد کہا کہ تمہارے دل میں ہمیں چھوڑ دینے کا جذبہ بھرچکا ہے اور تمہارے دلوں نے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے لیکن میں نے جو کچھ کہا وہ میرے دل کی بات تھی،غصّہ کی وجہ سے نکلا ہوا جھاگ ہے اور سینہ سے نکلا ہوا بلغم ہے،میں نے کہاتا کہ حجت پوری ہو اور وہ حجت تمہارے سامنے موجود تھی لیکن تم نے اُسے اپنے اونٹ کے پیچھے بٹھادیا،حق کا راستہ چھوڑ کے چلے،ننگ باقی رہا اور ہمیشہ کی بےعزتی کا داغ لگ گیا،وہ بےعزتی جو تمہیں خدا کی بھزکائی ہوئی آگ تک پہنچادےگی((وہ آگ جو دلوں کو جلاتی ہے))تم خدا کی آنکھوں کے سامنے کیا کر رہے ہو عنقریب ظالم لوگوں جان جائیں کہ جس ٹھکانے پہنچنےوالے ہیں،میں اس کی بیٹی ہوں جو تمہیں عذابِ شدید سے ڈ رایا کرتا تھا،پس تم بھی عمل کرو،ہم بھی عمل کر رہے ہیں،تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کررہے ہیں ۔(1)

خطبہ کی تاثیر توڑنے کے لئے ابوبکر کی چال

معصومہ عالم ؐ نے جو خطبہ دیا اس کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں میں چیخ پُکار مچ گئی،خصوصاً انصار میں آثار اضطراب ظاہر ہوئے اور ان میں تحریک پیدا ہوگئی،ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ:جوہری نے((کتاب السقیفہ))میں لکھا ہے کہ محمد بن زکریا نے کہا:ان سے جعفر بن محمد بن عمارہ نے پہلی اسناد کے ساتھ بیان کیا کہ ابوبکر نے جب یہ خطبہ سُنا تو اُن پر،آپ کی گفتگو بہت گراں گزری،فوراً منبر پر آئے اور کہنے لگے،اے لوگو!یہ سب باتیں کیا ہیں؟یہ باتیں اور یہ خواہش عہد پیغمبر ؐ میں کہاں تھیں؟کسی نے سنا ہے تو کہے اور کوئی شاہد ہے تو بولے،اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)حوالہ تیسرے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے

۲۴۷

ایک لومڑی(اشارہ امیرالمومنین ؑ کی طرف ہے،معاذ اللہ)جس کی دُم(اشارہ معصومہ ؑ کی طرف ہے،معاذ اللہ)اس کے وجود کی گواہ ہے،وہی ہر فتنہ کی پرورش کر رہا ہے،وہی کہہ رہا ہے کہ درخت کے بوڑھے ہونے کے بعد اس میں برگ و بار نکل آئے،وہ کمزوروں سے مدد مانگتا ہے اور عورتوں کی مدد طلب کرتا ہے،اس کے نزدیک محبوب ترین شئی بغاوت ہے،خبردار ہوجاؤ!میں چاہوں تو بول سکتا ہوں اور جب میں بولوں گا تو وہ خاموش ہوجائے گی،اُس نے جو چھوڑ دیا ہے اُس کے بارے میں،میں خاموش ہوں ۔

پھر ابوبکر انصاری کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے:اے گروہِ انصار تمہارے بیوقوفوں کی بات مجھ تک پہنچی،تم عہدِ پیغمبر ؐ کی پابندی کے سب سے زیادہ مستحق ہو وہ تمہارے پاس آئے تو تم نے پناہ دی اور مدد کی،دیکھو جو اس بات کا مستحق نہیں ہے میں اس کے لئے نہ ہاتھ کھولنے والا ہوں نہ زبان،پھر وہ منبر سے اتر گئے اور معصومہ ؑ عالم وہاں سے تشریف لے گئیں ۔(1)

قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ یہاں پر ابوبکر نے سقیفہ اور سقیفہ کے بعد کے واقعات پر تبصرہ کرنے والوں کے خلاف جان بوجھ کے سختی کی ہے جب کہ دوسروں کے لئے انہوں نے سختی نہیں کی اور ابوبکر کا یہ خطبہ سب و شتم اور تہدید و تشدید سے بھرا ہوا ہے جس کی صرف ایک وجہ ہماری سمجھ میں آتی ہے اور وہ ہے مستحقینِ خلافت اور مستحقین فدک کے مطالبہ کو سختی سے کچلنا،اس لئے کہ معصومہ ؐ کے خطبہ میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ خلافت کسی طرح امیرالمومنین ؑ تک پہنچے اور ابوبکر اس خطبہ کے مقاصد کو بھانپ گئے اور فوراً اپنے خطبہ میں اس بات کو احساس دلا دیا کہ اس طرح کی کوشش کا(قبل اس کے کہ یہ کوششیں طاقت پکڑے کے عام ہوں)تدارک کرنا بےحد ضروری ہے اور نے کیا بھی وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اگر یہ نظریہ آگے بڑھ گیا تو اُن کی خلافت کولے ڈ وبےگا اور انہیں ایسے نتائج کا سامنا کرنا پڑےگا جن کے بارے میں وہ خود نہیں جانتے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:6ص:214۔215

۲۴۸

جب تک امیرالمومنین ؑ مسلمانوں سے الگ رہے لوگ جہاد کرنے کے لئے نہیں نکلے

مدائنی نے عبداللہ بن جعفر سے،انہوں نے ابوعون کے حوالہ سے ایک روایت بیان کی ہے جو اس بات کاسب سے مضبوط ثبوت ہے کہ صدر اسلام کے جہمور مسلمین،مولائے کاتنات ؑ کے حق خلافت کے بارے میں نص پر ایمان رکھتے تھے کہ ابوبکر کی حکومت غیرشرعی اور غیراسلامی ہے،روایت ملاحظہ ہو ۔

ابوعوان کہتے ہیں((جب عرب مرتد ہونے لگے تو عثمان مولائے کائنات ؑ کی خدمت میں پہنچے اور کہنے لگے اے میرے چچا کے بیٹے کوئی بھی میرے پاس نہیں آرہا ہے،دشمن سامنے ہے آپ نے بیعت نہیں کی ہے،یہ سن کے مولائے کائنات ؑ ابوبکر کے پاس گئے،ابوبکر آپ کو دیکھ کے کھڑے ہوگئے،دونوں گلے ملے اور پھر دونوں ایک دوسرے کو پکڑ کے رونے لگے اس کے بعد آپ نے بیعت کر لی ۔ یہ دیکھ کے مسلمان خوش ہوگئے ۔ لوگوں نے عمدگی سے جنگ کی اور فوجیں بھیجی گئیں(1) ( آپ نے دیکھا کہ لوگ امیرالمومنین علیہ السلام کی شوکت کا انتظار کر رہے تھے ۔ اور یہ سمجھ رہے تھے کہ جب تک آپ سے مشورہ نہیں لیا جائےگا جنگ،جنگ رہے گی جہاد فی سبیل اللہ نہیں ہوسکےگا اور مولائے کائنات ؑ نے بھی یہ دیکھا کہ لوگ مرتد ہو رہے ہیں اسلام کا نقصان ہو رہا ہے تو آپ بھی محض حفاظت اسلام کی خاطر ساتھ دینے پر تیار ہوگئے ۔ اسی نظریہ کی وضاحت آپ نے ان الفاظ میں کی ہے،آپ نے اہل مصر کو جو خط لکھا تھا اس کے الفاظ کا ترجمہ دیکھئے ۔ ((لوگوں نے میری رعایت نہیں کی مگر یہ کہ فلاں کی طرف دوڑ پڑے اور اس کی بیعت کرنے لگے میں نے بھی اپنے ہاتھ کو روک لیا،یہاں تک کہ لوگ اسلام سے(کفر کی طرف)واپس ہونے لگے اور دینِ محمد ؐ کے مٹانے کی دعوت دینے لگے تو مجھے خوف ہوا کہ اگر میں اسلام اور اہلِ اسلام کی نصرت نہیں کروں گا تو اسلام کی دیوار میں رخنہ پڑجائےگا یا وہ منہدم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) انساب الاشراف ج: 2 ص: 270 ،امر سقیفہ۔

۲۴۹

ہوجائے گی اور یہ مصیبت اس مصیبت سے کہیں زیادہ بڑی ہے جو میرے ہاتھ سے حکومت نکلنے کی وجہ سے مجھے حاصل ہوئی ہے ۔(1)

مدینہ منورہ میں جو لوگ بھی تھے ان کا نظریہ وہی تھا جو اوپر کی سطروں میں پیش کیا گیا ۔

بیرون مدینہ کے قبیلوں کا نظریہ اور مرتدین سے جنگ کی حقیقت

وہ قبیلے جو مدینہ کے باہر تھے اور مسلمان ہوچکے تھے اور جن سے ابوبکر کی طرف سے جنگ کی گئی انہیں لوگ مرتد کہیں ہیں،اگر ارتداد کا مطلب یہ ہے کہ وہ زکوٰۃ نہیں دیتے تھے یا انہوں نے زکوٰۃ دینا بندکر دی اور ان میں سے کچھ لوگوں نے ضروریاتِ اسلام کا انکار کیا یا ضروریات دین میں سے کچھ باتوں کا انکار کردیا تو خیر ۔

لیکن بعض مورخین نے غیرارادی طور پر کچھ حقائق لکھ دیئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ معاملہ وہ نہیں تھا جو اوپر بیان کیا گیا بلکہ بات کچھ اور تھی جس کو الزام ارتداد کے پردے میں چھپا دیا گیا ہے اور بات تھی ابوبکر کی خلافت کی ان قبیلوں کے حلق سے خلافت ابوبکر کی بات کس طرح اُترتی ہی نہیں تھی،وجہ یہ تھی کہ خلافت ابوبکر پر نہ عہد نبوی ؐ میں اشارہ کیا گیا تھا نہ وہ ابوبکر کے قبیلہ کو اتنا اہم سمجھتے تھے کہ اس جیسے معمولی قبیلہ میں خلافت جائے،حکومت ابوبکر سے الگ رہنے ہی کو لوگوں نے ارتداد پر محمول کر لیا تھا،اب جو حکومت سے رفض کرے چاہے اسلام سے خارج ہو یا نہ ہو،بہرحال مرتد تھا،اس لئے کہ اس وقت مسلمان ایک ہنگامی حالت سے گذر رہے تھے،نبی ؐ کی وفات کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کی ہیبت میں کمی آئی تھی پھر صحابہ میں اختلاف،اہلبیت نبی ؐ اور بنی ہاشم،جن کی عربوں کے دلوں میں بڑی ہیبت اور عظمت تھی،پھر نبی ؐ کی وجہ سے بھی اسلام اور اہلبیت ؑ کی عظمت میں روز بروز اضافہ ہوتا جاتا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ج:3ص:119

۲۵۰

بنی ہاشم اور اہلبیت ؑ کو بھی لوگوں نے بالکل الگ کردیا تھا،جس کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کی ہیبت ساقط ہوگئی،ایسے دور میں لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ حکومتِ ابوبکر سے انکار ہی مرتد ہونے کے لئے کافی ہے ۔

خاص طور سے امیرالمومنین علیہ السلام کو الگ کر کے مسلمانوں نے اپنی ہیبت کھودی تھی اس لئے کہ امیرالمومنین ؑ گویا کہ نبی ؐ کا کشادہ ہاتھ اور آپ کی مجاہدانہ زندگی میں آپ کی سب سے کاٹ دار تلوار تھے اس کے علاوہ امیرالمومنین ؑ کی شخصیت بھی ذاتی طور پر سب سے زیادہ قابل توجہ اور احترام کے قابل تھی،آپ کی صلاحیت و شجاعت،آپ کا علم و عمل اور آپ کے مثالی کارنامے اسلامی دنیا میں اتنے مشہور اور مسلم تھے کہ عرب اپنی جگہ یہ طے کرچکے تھے کہ نبی ؐ کے بعد اگر کوئی جانشین نبی ؐ ہے تو علی ؑ اور بس،میرے اس قول کے ثبوت میں اپنے تیسرے سوال کا جواب ملاحظہ کریں،میں نے عرض کیا ہے کہ جب اجلّاء صحابہ خلافت کے بارے میں اپنا خیال ظاہر کرتے تھے جیسے سلمانِ فارسی،ابوذر غفاری و غیرہ،تو صاف کہتے تھے کہ اگر مسلمان اس خلافت کو اپنے نبی ؐ کے اہلبیت ؑ ہی میں رہنے دیتے تو دو آدمی بھی آپس میں اختلاف نہیں کرتے،یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی یہ باتیں بےبنیاد نہیں تھیں،نبی ؐ نے انہیں بتایا تھا تو وہ لوگوں کو بتارہے تھے،اس حقیقت کے چند شواہد ملاحظہ ہوں ۔

اہل بیتؑ کو خلافت سے الگ رکھنے اور بیعتِ ابوبکر سے بعض عرب قبیلوں کا انکار

اس دور کے کسی عرب شاعر کے اشعار میں حقیقت حال ملاحظہ ہو:

ترجمہ:جب تک پیغمبر ؐ ہمارے درمیان رہے ہم ان کی اطاعت کرتے رہے پس اے خدا کے بندوں!یہ ابوبکر کو کیا ہوا ہے؟

کیا ابوبکر کے مرنے کے بعد ان کا بیٹا بکر ان کا(خلافت میں)وارث ہوگا یہ تو کمر کو توڑنے والی

۲۵۱

بات ہے ۔(1)

قبیلہ طے نے کہا ہم ہرگز ابوفصیل(ابوبکر)کی بیعت نہیں کریں گے ۔(2)

بنی فزارہ اور بنی اسد نے کہا:خدا کی قسم ہم تو ابوفصیل(ابوبکر)کی بیعت ہرگز نہیں کریں گے ۔(3)

ابن اعثم کوفی لکھتے ہیں کہ ایک ناقہ زکات میں لے لیا گیا،حالانکہ وہ مال زکات میں نہیں آتا تھا،زکات وصولنے والا زیاد بن لبید تھا،اب اس ناقہ کے لئے زیاد بن لبید اور ناقہ کے مالک کے قبیلے کے درمیان جھگڑا ہونے لگا،حارثہ بن سراقہ زکات کے اونٹوں کے پاس آیا اور اختلافی ناقہ کو نکال کے اس کے مالک سے کہا،لو اپنا ناقہ لے لو،اب اگر کوئی بولے تو اس کی ناک تلوار سے کاٹ دو ہم لوگ حیات پیغمبر ؐ میں صرف پیغمبر ؐ کی اطاعت کرتے تھے،اگر ان کے اہل بیت ؑ میں سے ان کی جگہ کوئی بیٹھا ہوتا تو ہم ضرور اس کی اطاعت کرتے،لیکن یہ ابوقحافہ کا بیٹا تو خدا کی قسم ہماری گردنوں پر نہ اس کی بیعت ہے نہ ہم اس کی اطاعت کریں گے،پھر اس نے کچھ اشعار پڑھے ان میں سے ایک شعر یہ تھا ۔

((جب تک پیغمبر ؐ ہمارے درمیان تھے ہم ان کی اطاعت کرتے تھے،اس پر بہت تعجب ہے جو ابوبکر کی اطاعت کرتا ہے))

((زیاد بن لبید نے جب یہ شعر سنا تو حارثہ بن سراقہ کو کچھ اشعار لکھ بھیجے جن میں ایک شعر یہ تھا))

((ہم تم سے راہِ خدا میں لڑتے رہیں گے اور اللہ اپنے امر پر غالب ہے یہاں تک کہ تم لوگ ابوبکر کی اطاعت کرنے لگو))

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ طبری ج:2ص:255،بدایۃ النہایۃ ج:6ص:313،معجم البلدان ج:2ص:271،المحلی ج:11ص:193مسئلہ2199،تاریخ دمشق ج:25ص:160،الاغانی ج:2ص:149،تاریخ المدینۃ ج:2ص:247۔248،

(2)تاریخ طبری ج:2ص:260،تاریخ دمشق ج:25ص:164،حالات زندگی طلیعۃ بن خویلا

(3)تاریخ طبری ج:2ص:261،الثقات ج:2ص:166

۲۵۲

زیاد بن لبید کے یہ اشعار جب ان تک پہنچے تو بنی کندہ کے قبیلے،غضبناک ہوئے اور وہ لوگ اشعث بن قیس کے پاس آئے اشعث نے کہا:اے اہل کندہ تم اپنے بارے میں مجھے بتاؤ اگر تم منع زکات اور ابوبکر سے جنگ پر بیعت کرچکے تھے تو تم نے زیاد بن لبید کو قتل کیوں نہیں کردیا،اس کے چچا کے بیٹوں میں سے کسی نے جواب دیا کہ اشعث تم سچ کہتے ہو،صحیح رائے تو یہی تھی کہ زیاد بن لبید کو قتبل کردیا جاتا اور زکات کے اونٹوں کو اس سے واپس لے لیا جاتا،ہم لوگ تو قریش کے غلام بن کے رہ گئے ہیں،کبھی بنوامیہ ہمارے پاس آتے ہیں اور جو چاہتے ہیں لے لیتے ہیں تو کبھی زیاد بن لبید جیسے لوگ بھیجے جاتے ہیں وہ ہمارا مال بھی لے لیتے ہیں اور قتل کی دھمکیاں بھی دیتے ہیں،خدا کی قسم قریش کی لالچ بھری نگاہیں برابر ہمارے مال پر لگی ہوئی ہیں،اس کے بعد اس نے کچھ اشعار پڑھے جن میں ایک شعر یہ تھا کہ((اگر ہم اسی طرح صدقہ وصول کرنے والوں کا مطالبہ کرتے رہے تو ہم صرف ان کے غلام بن کے رہ جائیں گے ۔

پھر اشعث بن قیس بولنے لگے اور کہا اے کندہ والو!اگر تم ہماری رائے سے متفق ہو تو ایک ہوجاؤ،اپنے شہروں میں جمع رہو،اور اپنے اہل خانہ کا احاطہ کرلو،اپنے مال سے زکات دینا بند کردو ۔ اس لئے کہ مجھے یقین ہے کہ عرب،بنوتیم(ابوبکر کا قبیلہ)کی اطاعت کا اقرار نہیں کریں گے اور بطحا کے سادات یعنی بنوہاشم کو چھوڑ کے کبھی دوسرے کی طرف مائل نہیں ہوں گے،اس لئے کہ بنی ہاشم ہی ہمارے لئے عمدہ ہیں اور ہمارے اوپر وہی حکم جاری کرسکتے ہیں،وہی صلاحیت رکھنے والے ہیں دوسرے نہیں،راوی کہتا ہے پھر زیاد بن لبید،بنی کندہ کی ایک شاخ جس کو بنوذھل بن معاویہ کہتے تھے،وہاں پہنچا اور جو کچھ ہوچکا تھا اس کی انہیں خبر کی اور انہیں ابوبکر کی اطاعت کی دعوت بھی دی،تو بنوتمیم کا ایک شخص آگے بڑھا((جس کا نام حارث بن معاویہ))تھا اور زیاد سے بولا:دیکھو تم ایسے شخص کی اطاعت کی دعوت دے رہے ہو جس سے نہ ہمارا معاہدہ ہے نہ تمہارا،زیاد بن لبید نے کہا تم سچ کہہ رہے ہو ۔

(نہ ہم پابند عہد ہیں نہ تم)لیکن ہم نے امرِ خلافت کے لئے اسی کو اختیار کیا ہے ۔

۲۵۳

کچھ عربوں کا اہل بیت ؑ کی خلافت کے لئے احتجاج

حارث نے کہا:پھر بتاؤ تم لوگوں نے اہلبیت پیغمبر ؐ کو خلافت سے کیوں الگ کردیا،وہ لوگ خلافت کے سب سے زیادہ مستحق تھے،اس لئے کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے:کتاب خدا میں بعض رشتہ دار دوسرے بعض سے زیادہ اولیٰ و حقدار ہیں ۔

زیاد بن لبید نے کہا سنو!مہاجرین و انصار اپنے بارے میں تم سے زیادہ باخبر ہیں،حارث بن معاویہ نے جواب دیا:خدا کی قسم یہ بات نہیں ہے،بلکہ چونکہ تم اہل بیت ؑ سے حسد کرتے ہو اس لئے تم نے ان سے خلافت چھین لی،میرے دل کو تو یہ بات بالکل نہیں لگتی کہ پیغمبر ؐ چلے جائیں اور اپنے بعد کسی کو منصوب نہ کریں،

اے شخص!تو ہمارے پاس سے چلا جا،تو خدا کی مرضی کے خلاف ہمیں دعوت دے رہا ہے،پھر حارث نے ایک شر پڑھا:

((ایسا لگتا ہے کہ پیغمبر ؐ امت کو لاوارث چھوڑ کے چلے گئے حالانکہ آپ کی اطاعت کی جاتی تھی،آپ پر درود ہو آپ نے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا؟ ۔ )

راوی کہتا ہے کہ اتنے یں عرفجہ بن عبداللہ ذہلی اچھل کے سامنے آئے اور کہنے لگے خدا کی قسم حارث بن معاویہ سچ کہتا ہے،اس شخص(زیاد بن لبید)کو اپنے یہاں سے نکال باہر کرو،اس کا ساتھی(ابوبکر)شائستہ خلافت نہیں ہے وہ کسی بھی طرح خلافت کا مستحق نہیں ہے،انصار و مہاجرین،نبی ؐ سے زیادہ اس امت کی مصلحتوں کو نہیں جانتے،پھر لوگ زیاد بن لبید کی طرف بڑھے اور اس کو اپنے علاقہ سے دھکہ دیکر نکال دیا،وہ لوگ تو اس کے قتل کا ارادہ کرچکے تھے،پھر زیاد نے قبائل کندہ کی طرف جانا ہی چھوڑ دیا کہ وہ انہیں اطاعتِ ابوبکر کی دعوت دے اور وہ لوگ اس کو اسے کوئی ناگوار اور ناشائستہ جواب دیں،جب وہ مدینہ واپس آیا اور ابوبکر سے ملا تو اس نے بنوکندہ کی ساری باتیں کہہ دیں اور ابوبکر کو بتایا کہ قبائل کندہ نے ارتداد اور نافرمانی کا پختہ ارادہ کرلیا ہے،پھر یہ خبر بھی فوراً ہی پہنچی کہ اہلِ

۲۵۴

کندہ اپنے کئے پر پشیمان ہیں،پھر ایک آدمی جواب کے بادشاہوں کی نسل سے تھا سامنے آیا اس کا نام ابضعہ بن مالک تھا،اس نے آکے اہلِ کندہ کو سمجھایا کہ اے قبیلہ والو!ہم نے اپنے لئے وہ آگ بھڑکائی ہے جس کے بارے میں میرا خیال ہے کہ وہ بجھے گی نہیں بلکہ بہت سے لوگوں کو اپنے لپیٹ میں لیکے چٹ کرجائے گی میری رائے یہ ہے کہ ہم جو کچھ کرچکے ہیں اس کا تدارک کرلیں،ابوبکر کو خط لکھ کر انہیں یہ بتائیں کہ ہم ان کی اطاعت کرنے اور زکات دینے کے لئے تیار ہیں اور ان کی خلافت و امامت پر راضی ہیں ۔

پھر احمد بن اعثم نے ذکر کیا ہے کہ ابوبکر نے اشعث کو ایک خط لکھا،جب اشعث تک یہ خط پہنچا اور اس نے خط پڑھا تو نامہ برکے پاس آیا اور کہا:تمہارے صاحب(ابوبکر)یہ لکھتے ہیں کہ اگر ہم اس کی مخالفت کریں گے تو ہم پر کفر کا الزام آئےگا اور اس کا آدمی اگر ہمارے قبیلہ اور بھائی بھتیجوں کو قتل کردے تو اس پر کفر کا الزام نہیں آئےگا،نامہ برنے کہا:ہاں اشعث تم کفر کے ملزم ہوگے،اس لئے کہ خدا نے تمہارے اوپر کفر واجب قرار دیا ہے کیونکہ تم مسلمانوں کی مخالفت کر رہے ہو ۔(1)

سابقہ بیان سے نتجہ کیا نکلا

جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں یہ تاریخی واقعات بتا رہے ہیں کہ مدینہ کے باہر اور اندر بہت سے لوگ ابوبکر کے مخالفت تھے اور ابوبکر نے جو جنگیں لڑی ہیں ان کی بنیاد ارتداد نہیں تھی بلکہ ابوبکر کی حکومت کی مخالفت تھی اور ان کی نافرمانی تھی،یہ واقعات اس بات کے بھی شاہد ہیں کہ مدینہ کے اندر اور باہر لوگوں کی اکثریت بنی ہاشم کو حکومت کے لئے مستحق تر سمجھتی تھی،مگر یہ کہ اُن پر لوگ غالب آگئے،لوگ یہ بھی سمجھتے تھے کہ اگر امیرالمومنین ؑ پیغمبر ؐ کے بعد صاحبِ امر مان لئے جاتے تو اُن سے آگے بڑھنے کی کوئی ہمت نہیں کرسکتا تھا،مسلمانوں میں کوئی اختلاف اور کشیدگی نہ ہوتی اور اسلام کی ہیبت بھی دلوں پر باقی رہتی،ساتھ ہی یہ لڑائیاں بھی نہ ہوتیں جن میں بہت سارا خون بہا اور کثرت سے مسلمانوں کی ہتک حُرمت ہوئی ۔

۲۵۵

تاریخ کے اس بیان سے ہمارے اس نظریہ کو بھی تقویت ملتی ہے کہ اگر نَص موجود تھی جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں تو نص سے صرف چند لوگ ہی غافل تھے جو مہاجرین و انصار سے لگاؤ رکھتے تھے ۔

ابوبکر کی بیعت کے بارے میں جدید الاسلام لوگوں کا موقف

اجلّہ صحابہ مہاجرین و انصار تو عجیب فتنہ میں پڑے تھے اور ابوبکر کی کُھل کے تائید نہیں کر رہے تھے،خوف کی وجہ سے کُھل کے امیرالمومنین ؑ کی حمایت بھی نہیں کر رہے تھے ۔ ہاں ابوبکر کی تائید کرنے والوں میں وہ لوگ پیش،پیش تھے جو اسلام میں نئے داخل ہوئے تھے رغبت کی وجہ سے یا خوف کی وجہ سے،جب انہوں نے دیکھا کہ اسلام کی بنیاد مضبوط ہوچکی ہے اور اب اس سے دنیا حاصل کی جاسکتی ہے تو جلدی جلدی کلمہ پڑھ کے مسلمان ہوگئے،انہیں ہادی اعظم ؐ نے طلقا اور قرآن مجید نے منافقین کے شاندار لقب سے نوازا ہے،جیسے مغیرہ بن شعبہ،عمروعاص،خالد بن ولید،سھل بن عمرو،عکرمہ بن ابی جہل،حارث بن ہشام و غیرہ ۔

یہ لوگ تائید بیعت میں پیش پیش تھے اور جو بیعت سے انکار کرتا تھا یہ لوگ اپنی متعصّبانہ فطرت اور جاہلانہ وحشت سے مجبور ہو کے اس غریب پر ظلم و جَور کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے تھے،مثلاً خانہ امیرالمومنین ؑ پر ہجوم انصار پر سختی کرنا،ان پر طعن و تشنیع کرنا(اصحاب ردہ کے خلاف جنگ میں پیش پیش ہونا،پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ وہ لڑائیاں ارتداد کے خلاف نہیں تھیں بلکہ صرف حکومتِ ابوبکر کی حمایت میں تھیں)یا ابوبکر کی سلطنت و حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے جنگ کرنا و غیرہ ۔

حکومت کو مضبوط کرنے میں رنگروٹ مسلمانوں کا پیش پیش ہونا

جدید الاسلام افراد نے مدینہ میں حکومت کو مضبوط کرنے میں اتنی کوششیں کیں کہ آخر میں حکومت نے انہیں کو فوج کی قیادت اور شہروں کی گورنری کے لئے منتخب کرنا اور بحال کرنا شروع کیا،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) الفتوح لابن اعثم م ج: 1 ،ص: 49 ۔ 57 ،ذکر ارتداد اہل حضرت موت۔

۲۵۶

حکومت نے صاحب منزلت مہاجرین و انصار کو چھوڑ دیا،یا تو اس لئے کہ سیاست کا تقاضہ یہی تھا،حکومت ان کی صاف گوئی،قوت کردار اور زہد و تقویٰ سے خوفزدہ یا ان سے ناراض تھی ۔ عمر کہتے ہیں:ہم منافق قوت سے مدد لیتے ہیں،اس کا گناہ اسی کی گردن پر ۔(1)

کسی نے عمر سے کہا:((تم نے یزید بن ابی سفیان،سعید بن عاص،معاویہ اور فلاں فلاں کو،طلقا میں سے مولفۃ القلوب اور طلقا کے بیٹوں کو گورنر بنادیا اور علی ؑ ،عباس جیسے بزرگوں کو اور طلحہ و زبیر کو چھوڑ دیا))عمر نے کہا:جہاں تک علی ؑ کا سوال ہے تو اُن کا سوال ہے تو اُن سے ہوشیار رہنا ضروری ہے،لیکن قریش کے دوسرے لوگوں کا جو تم نے نام لیا ہے،اگر انہیں گورنر بنا کے بھیجدوں تو یہ شہروں میں پھیل جائیں گے اور بہت فساد پیدا کریں گے(2) قیس بن حازم کہتے ہیں کہ زبیر،عمر کے پاس آئے اور ان سے جنگ میں جانے کی اجازت مانگی،عمر نے کہا:یم تو اپنے گھر میں بیٹھے رہو،تم پیغمبر ؐ کے زمانے میں جہاد تو کر ہی چکے ہو،زبیر نے یہ مطالبہ کئی مرتبہ کیا،آخر عمر نے تیسری بار بھی یہی کہا کہ اپنے گھر میں بیٹھو،بخدا میں مدینہ کے اطراف میں دیکھتا رہتا ہوں تا کہ تم اور تمہارے اصحاب مدینہ سے باہر نہ نکل جائے اور اصحاب محمد ؐ کو فساد پر آمادہ نہ کردئے ۔(3)

عمر کو اصحاب سے یہ خوف تھا کہ وہ کثرت سے فساد کریں گے صرف اس بنیاد پر کہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ لوگ حکومت سے ھماھنگ نہیں ہیں انھیں یہ خوف تھا کہ حکومت کہیں ہاتھ سے نکل نہ جائے،اسی لئے انہوں نے اصرار کرکے ابوبکر کو مجبور کیا کہ وہ خالد بن سعید بن عاص کو لشکر کی قیادت سے معزول کردیں،فوج شام کو فتح کرنے جارہی تھی،سردار خالد بن سعید بن عاص تھے انہوں نے ابوبکر سے اصرار کیا کہ خالد بن سعید بن عاص کو معزول کردیں ۔ وجہ صرف یہ تھی کہ سعید بن عاص

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) المصنف لابن ابی شیبۃ ج: 6 ص: 200 ،کنزالعمال ج: 4 ص: 614 ،حدیث: 11775 ،سنن کبریٰ للبیھقی ج: 9 ص: 36 ،اور اسی طرح کنزالعمال میں ج: 5 ص: 771 حدیث: 14338

( 2) شرح نہج البلاغہ ج: 9 ص: 29 ۔ 30

( 3) المستدرک علی صحیحین ج: 3 ص: 129 ،باب مناقب امیرالمومنینؑ عون المعبود ج: 11 ص: 246 ۔ 247

۲۵۷

کی طرف سے ان کے دل میں کینہ بھرا ہوا تھا،اس لئے کہ انہوں نے ابوبکر کی بیعت کرنے میں تاخیر کا جُرم کیا تھا اور بنی ہاشم و بنی مناف کو خلافت طلب کرنے پر اُبھارتے رہتے تھے،آخر کار ابوبکر نے ان کو معزول کردیا اور اُن کی جگہ یزید بن ابوسفیان کو قائد بنادیا ۔(1) اس بات کی وضاحت انہوں نے(عمر نے)اپنے خطبہ میں کی ہے جو انہوں نے اپنے دورِ خلافت میں دیا تھا،جب لوگوں نے ان سے شکایت کی کہ آپ نے اصحاب کبار کو مدینہ کا قیدی بنادیا ہے تو کہا:خبردار ہوجاؤ!بےشک قریش کے دل میں فرقہ واریت چھپی ہوئی ہے وہ لوگ گردنوں سے قلادہ بیعت اتار دینا چاہتے ہیں لیکن خطاب کا بیٹا جب تک زندہ ہے وہ آگ کی گھاٹی کے سامنے کھڑا رہےگا اور قریش کی گردنوں کو پکڑ کے آگ سے مسلسل بچاتا رہےگا ۔

حالانکہ یہی عمر،ابوعبیدہ جراح کی بحالی پر دل سے راضی تھے بلکہ خود انہیں گورنر بنا کر بھی بھیجا،حالانکہ وہ مہاجرین اولین میں سے تھے لیکن چونکہ ان کی طرف سے کوئی خوف نہیں تھا کیونکہ وہ حکومت سے ہماہنگ تھے اس لئے وہ ان کے دور میں گورنری کے سب سے زیادہ اہل قرار پائے ۔

یہ بھی قابل توجہ بات ہے کہ عمر،منافقین اور طلقا کے فتنوں سے مطمئن کیوں تھے،جب اتنے بڑے بڑے صحابی فتنہ پیدا کرسکتے تھے تو منافقین اور طلقا سے مطمئن رہنے کی کیا وجہ تھی؟صرف اس لئے مطمئن تھے کہ وہ لوگ حکومت کی مشنیری سے ہماہنگ و ہم آواز ہوگئے تھے،ورنہ حق تو یہ ہے کہ وہ بلادِ خدا اور بندگان خدا کے لئے سب سے بڑا خطرہ تھے،اگر وہ فتنہ و فساد کا ارادہ کر لیتے تو پھر ان کو روکنا بےحد مشکل ہوجاتا،جیسا کہ معاویہ کے دور میں اس کی حرکتوں سے ثابت ہوا،اگر ان کو حکومت نے لفٹ نہ دی ہوتی تو کم سے کم وہ اتنا تو کرتے ہی کہ سابقون فی الاسلام کے ساتھ تعاون کرتے اور اُن کا مقابلہ کرتے جو لوگ حکومت کا مقابلہ کرنے کو تیار رہتے تھے اور اُن کی طرف دعوت دیتے،بلکہ اگر طلقا و منافقین اُن کی حکومت میں فتنہ نہیں بھی برپا کرتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) طبقات الکبریٰ ج: 4 ص: 97 ۔ 98 ،المستدرک علی صحیحین ج: 3 ص: 279 ،تاریخ یعقوبی ج: 2 ص: 133 ،تاریخ طبری ج: 2 ص: 331 ،تاریخ دمشق ج: 16 ص: 78 ،شرح نہج البلاغہ ج: 2 ص: 58 ۔ 59

۲۵۸

جب بھی اُن سے ہاتھ ملانے کا کوئی جواز نہیں تھا،حکومت نے مسلمانوں کے امور کی باگ ڈ ور اُن(ذلیل لوگوں کے)حوالہ کردی حالانکہ ان سے افضل لوگ موجود تھے،صاحبانِ فضل کی موجودگی میں تیسرے درجہ کے لوگوں کو مسلمانوں کے امور کا ذمہ دار بنانا یہ مسلمانوں سے خیانت نہیں تو اور کیا ہے؟حدیثیں اس اقدام کی ممانعت کرتی ہیں اور مذمت بھی کرتی ہیں ۔

ابن عباس سے روایت ہے کہ سرکارِ دو عالم ؐ نے فرمایا:((جو مسلمانوں کا عامل کسی کو بنائے اور یہ بھی جانتا ہو کہ قوم میں اس کے ذریعہ بنائے گئے شخص سے بہتر لوگ موجود ہیں جو کتاب خدا اور سنتِ نبی ؐ کو اس سے زیادہ جانتے ہیں تو اس نے خدا سے،خدا کے رسول ؐ سے اور عام مسلمانوں سے خیانت کی ہے ۔(1)

بلکہ اسی طرح کا قول عمر سے بھی منسوب کیا گیا ہے(2) کہ انہوں نے کہا:جو کسی فاجر کو عامل بنائے اور وہ جانتا ہو کہ وہ فاجر ہے تو بنانے والا بھی فاجر جیسا ہے،(3) تاریخ شاہد ہے کہ فسّاق و فُجّار قوم کو عامل بنانے سے بہت سی حرمتیں ضائع ہوئیں اور دین کی مخالفت ہوئی ۔

حاصلِ کلام میں یہ کہ نص سے تجاہل اور اندیکھی مہاجرین و انصار کی اکثریت نے کبھی نہیں کی،خصوصاً ان لوگوں نے،جن کی شان اور مرتبے بلند تھے ان میں سے اکثر کی دلی خواہش یہ تھی کہ امیرالمومنین ؑ اور اہلبیت ؑ ہی امّت کے مسئول اور صاحب امر ہوں،اس کلیہ کے شواہد کے سامنے پیش کئے جاچکے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) السنن الکبریٰ للبیھقی ج: 10 ص: 118 ،المستدرک علی صحیحین ج: 4 ص: 104 السنۃ لابن ابی اعصم ج: 2 ص: 627 ،مجمع الزوائد ج: 5 ص: 211 ،معجم الکبیرج: 11 ص: 114 ،الترغیب و الترھیب ج: 3 ص: 125 ،الدرایۃ فی تخریج احادیث الہدایۃ ج: 2 ص: 165 ،نصب الرایۃ،ج: 4 ص: 62 ،سبل الاسلام ج: 4 ص: 190 ،تاریخ بغداد ج: 6 ص: 76 ،الکامل فی الضعفاء الرجال ج: 2 ص: 352 ،الضعفاء للعقیلی ج: 1 ص: 247 ،تھذیب التھذیب ج: 2 ص: 313

( 2) المستدرک علی صحیحن ج: 3 ص: 304 ،سیرہ اعلام نبلاءج: 1 ص: 460 ،الکشف الحثیث ج: 1 ص: 178 ،لسان المیزان ج: 4 ص: 118

( 3) کنز العمال ج: 5 ص: 61 حدیث: 14306

۲۵۹

عام صحابہ کی نصرتِ حق میں تقصیر

البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اکثر صحابہ نے حق کی نُصرت میں سُستی کی اور منصوص امام کی دعوت پر بروقت لبیک نہیں کہہ سکے،اگر بقول شیعوں کے نَص موجود تھی تو عام صحابہ اس نص کے نظرانداز کرنے میں نصرت حق میں کوتاہی اور واجب الاطاعۃ کی آواز پر لبیک نہ کہنے کے مجرم ثابت ہوتے ہیں ۔

آپ کے تیسرے سوال کے جواب میں یہ بات پیش کی جاچکی ہے کہ امیرالمومنین ؑ برابر یہ شکوہ کرتے رہے کہ آپ کی مدد نہیں کی جارہی ہے،آپ کے پاس ایک جماعت آئی بھی کہ ہم آپ کی بیعت کرنے کو تیار ہیں تو آپ نے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ یہ محض زبانی دعویٰ ہے فرمایا:کل سرمن ڈ ا کر آنا،لیکن دوسرے دن تین یا چار آدمی سے زیادہ نہیں آئے،آپ نے یہ اعلان کردیا تھا((اگر چالیس آدمی بھی ہمارے ساتھ ہوتے تو غاصب حکومت کا تختہ پلٹ دیتا اور اپنا حق حاصل کرلیتا)) ۔

اس طرح آپ نے ایک خچر پر صدیقہ زہرا ؐ کو بٹھایا اپنے ساتھ امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کو لیا اور انصار کے گھروں کا چکر لگایا آپ بھی ان سے نصرت طلب فرماتے اور حضرتِ معصومہ ؐ بھی ان سے نصرت کا سوال کرتی رہیں اور وہ لوگ یہی عذر پیش کرتے رہے کہ اے بی بی ہم ابوبکر کی بیعت کرچکے ہیں اور اگر(نبی ؐ کے)چچازاد بھائی ہمارے پاس پہلے آتے تو ہم ان کی بیعت سے عدول نہیں کرتے،(1) ان واقعات کو معاویہ نے اپنے خط میں بھی لکھا ہے جو اس نے امیرِ کائنات حضرت علی ؑ کو بھیجے تھے اور شیعہ روایتوں میں بھی کثرت سے یہ واقعات ملتے ہیں،لیکن کوئی یہ ہرگز نہ سمجھے کہ صحابہ،مولائے کائنات ؑ سے اس لئے پہلو تہی کررہے تھے کہ وہ نص سے جاہل تھے یا نص کی اندیکھی کررہے تھے،بلکہ ان کا مولا علی ؑ سے یہ گریز محض حکومت کے خوف کی وجہ سے تھا یا اس لئے کہ اُن کا خیال تھا کہ مولائے کائنات ؑ کو عام مسلمانوں کی تائید اس حد تک مل ہی نہیں سکتی کہ اُن کا حق انھیں واپس مل جائے،کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ امیرالمومنین ؑ نے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) الامامۃ و السیاسۃ ج: 1 ص: 16 ،نہج البلاغہ ج: 6 ص: 13

۲۶۰