فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ15%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206518 / ڈاؤنلوڈ: 6000
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

مضبوط فوج تیار کرنا، مختلف ممالک میں سفیر بھیجنا اور اس زمانے کے بادشاہوں کو خبردار کرنا، نیز ان سے خط و کتابت کرنا ساتھ ہی ساتھ شہروں کے گورنر اور حکام معین کرنا اور ایسے ہی دوسرے امور کا انجام دینا اگر سیاست نہیں تھا تو اور کیا تھا؟ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کے علاوہ خلفائے راشدین کا کردار اور خاص طور پرحضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب ـ کا طرز عمل بھی شیعوں اور اہل سنت دونوں فرقوں کیلئے اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ سیاست دین سے جدانہیں ہے.دونوں اسلامی فرقوں کے علماء نے حکومت

قائم کرنے کے سلسلے میں قرآن مجید اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مفصل دلیلیں بیان کی ہیں نمونے کے طور پر ہم ان میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں :

ابوالحسن ماوردی نے اپنی کتاب ''احکام سلطانیہ'' میں یوں لکھا ہے:

''المامة موضوعة لخلافة النبّوة ف حراسة الدین و سیاسة الدنیا و عقدها لمن یقوم بها ف الأمة واجب بالجماع'' ( ۱ )

امامت کو نبوت کی جانشینی کے لئے قرار دیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ دین کی حفاظت کی جاسکے اور دنیا کی سیاست و حکومت کا کام بھی چل سکے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایسی حکومت قائم کرنااس شخص پر واجب ہوجاتا ہے جو اس کام کو انجام دے سکتا ہو۔

____________________

(۱)الاحکام السلطانیة (ماوردی) باب اول ص۵ طبع مصر.

۱۴۱

اہل سنت کے مشہور عالم ماوردی نے اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے دو طرح کی دلیلیں پیش کی ہیں :

۱۔ عقلی دلیل

۲۔ شرعی دلیل

عقلی دلیل کو اس طرح بیان کرتے ہیں :

''لما فى طباع العقلاء من التسلیم لزعیم یمنعهم من التظالم و یفعل بینهم فى التنازع والتخاصم ولولا الولاة لکانوا فوضیٰ مهملین همجاً مضاعین'' ( ۱ )

کیونکہ یہ بات عقلاء کی فطرت میں ہے کہ وہ کسی رہبر کی پیروی کرتے ہیں تاکہ وہ انہیں ایک دوسرے پر ظلم و ستم کرنے سے روکے اور اختلاف اور جھگڑوں کی صورت میں ان کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرے اور اگر ایسے حکام نہ ہوتے تولوگ پراگندہ اور پریشان ہوجاتے اور پھر کسی کام کے نہ رہ جاتے.

اور شرعی دلیل کو اس طرح بیان کرتے ہیں :

''ولکن جاء الشرع بتفویض الأمور اِلی ولیه فى الدین قال اللّه عزّوجلّ (یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا

____________________

(۱)الاحکام السلطانیة (ماوردی) باب اول ص۵ طبع مصر.

۱۴۲

اَطِیعُوا ﷲ وَاَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاُوْلِى الْاَمْرِ مِنْکُم )ففرض علینا طاعة أولى الأمر فینا وهم الأئمة المأتمرون علینا'' ( ۱ )

لیکن شرعی دلیل میں یہ ہے کہ دین کے امور کو ولی کے سپرد کردیا گیا ہے خداوندکریم فرماتا ہے:ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمہیں میں سے ہیں .پس خداوند نے ہم پرصاحبان امر کی اطاعت کو واجب کردیا ہے اور وہ ہمارے امام ہیں جو ہم پر حکومت کرتے ہیں

شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے فضل بن شاذان سے ایک روایت نقل کی ہے جو ہمارے آٹھویں امام علی بن موسیٰ الرضا ـ کی طرف منسوب ہے اس طولانی روایت میں امام ـ نے حکومت قائم کرنے کو ایک لازمی امر قرار دیا ہے ہم اس روایت کے چند جملے ذکر کرتے ہیں :

''انّا لا نجد فرقة من الفرق ولا ملة من الملل

بقوا و عاشوا اِلاّ بقیّم و رئیس، لما لابدّ لهم

منه من أمر الدین والدنیا، فلم یجزفحکمة

الحکیمأن یترک الخلق لما یعلم انه لابدّ لهم منه

____________________

(۱)الاحکام السلطانیة (ماوردی) باب اول ص۵ طبع مصر.

۱۴۳

والقوام لهم لاّ به فیقاتلون به عدوهم و یقسمون به فیئهم و یقیمون به جمعتهم و جماعتهم و یمنع ظالمهم من مظلومهم ''( ۱ )

ہمیں کوئی ایسی قوم یا ملت نہیں ملے گی جو اس دنیا میں باقی رہی ہواور اس نے زندگی گزاری ہو سوائے یہ کہ اس کے پاس ایک ایسا رہبر اور رئیس رہا ہو جس کے وہ لوگ دین اور دنیا کے امور میں محتاج رہے ہوں پس خداوند حکیم کی حکمت سے یہ بات دور ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ایک ایسی چیز عطا نہ فرمائے جسکے وہ لوگ محتاج ہیں اور اسکے بغیر باقی نہیں رہ سکتے ہیں کیونکہ لوگ اپنے رہبر ہی کی ہمراہی میں اپنے دشمنوں کے ساتھ جنگ کرتے ہیں اور اسی کے حکم سے مال غنیمت کو تقسیم کرتے ہیں اور اس کی اقتداء میں نماز جمعہ اور بقیہ نمازیں باجماعت ادا کرتے ہیں اور رہبر ہی ظالموں سے مظلوموں کو بچاتا ہے.

اس سلسلے میں وارد ہونے والی ساری روایتوں کی تشریح کرنا اور تمام مسلمان فقہاء کے اقوال کا جائزہ لینا اس مختصر کتاب کی گنجائش سے باہر ہے اس کام کے لئے ایک مستقل کتاب درکار ہے۔اسلامی فقہ کا دقت کے ساتھ مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ شریعت کے بہت سے قوانین ایسے ہیں جو ایکمضبوط حکومت کے بغیر نافذ

____________________

(۱) علل الشرائع باب ۱۸۲ حدیث نمبر۹ ص ۲۵۳

۱۴۴

نہیں کئے جاسکتے ہیں

اسلام ہمیں جہاد اور دفاع کرنے ، ظالم سے انتقام لینے اور مظلوم کی حمایت کرنے، شرعی حدود اور تعزیرات جاری کرنے، امر بالمعروف و نھی عن المنکر انجام دینے، ایک مالی نظام برقرار کرنے اور اسلامی معاشرے میں وحدت قائم کرنے کا حکم دیتا ہے اب یہ بات واضح ہے کہ مذکورہ اہداف ایک مضبوط نظام اور حکومت کے بغیر پورے نہیں ہوسکتے کیونکہ شریعت کی حمایت اور اسلام سے دفاع کرنے کے لئے ایک تربیت یافتہ فوج کی ضرورت ہوتی ہے اور اس قسم کی طاقتور فوج تیار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی اصولوں کے مطابق ایک مضبوط حکومت قائم کی جائے اور اسی طرح فرائض کی پابندی اور گناہوں سے دوری کے لئے حدود اور تعزیرات کو جاری کرنا اور ظالموں سے مظلوموں کا حق لینا ایک حکومت اور نظام کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ اگر قوی حکومت نہ پائی جاتی ہو تو معاشرہ فتنہ اور آشوب کی آماجگاہ بن جائے گا اگرچہ حکومت قائم کرنے کے لازمی ہونے کے سلسلے میں ہماری ان دلیلوں کے علاوہ بھی بہت سی دلیلیں ہیں لیکن ان دلیلوں ہی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نہ صرف دین سیاست سے جدا نہیں ہے بلکہ شریعت کے قوانین کے مطابق اسلامی حکومت قائم کرنا ایک لازمی امر ہے جو کہ اس دنیا میں پائے جانے والے ہر اسلامی معاشرہ کے لئے ایک فریضہ قرار دیا گیا ہے۔

۱۴۵

بائیسواں سوال

شیعہ ، حضرت علی بن ابی طالب کے بیٹوں (امام حسنـ ا ور امام حسینـ) کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیٹے کیوں کہتے ہیں ؟

جواب: تفسیر، تاریخ اور روایات کی کتابوں کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صرف شیعہ ہی یہ نظریہ نہیں رکھتے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سارے مسلمان محققین چاہے وہ کسی بھی اسلامی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں ، اسی نظرئیے کو قبول کرتے ہیں

اب ہم قرآن مجید، احادیث اور مشہور مفسرین کے اقوال کی روشنی میں اس مسئلے کے دلائل کو بیان کریں گے :

قرآن مجید کی ایک اصل یہ ہے کہ اس نے ایک انسان کی نسل سے پیدا ہونے والی اولاد کو اسی انسان کی اولاد قرار دیا ہے اس اعتبار سے ایک انسان کی بیٹی یا اس کے بیٹے سے پیدا ہونے والی اولاد قرآن مجید کی نگاہ میں اس انسان کی اولاد ہے.

قرآن مجید اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں اس حقیقت کے متعلق بہت سے شواہد موجود ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں :

۱۔مندرجہ ذیل آیت میں قرآن مجید نے حضر ت عیسیٰ ـ کو حضرت ابراہیم ـ کی اولاد میں شمار کیاہے جبکہ حضرت عیسیٰ ـ حضرت مریم کے بیٹے ہیں اور ان کا سلسلہ نسب ماں کے ذریعہ حضرت ابراہیم ـ تک پہنچتا ہے:

(وَوَهَبْنَا لَهُا ِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ کُلًّا هَدَیْنَا وَنُوحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ وَاَیُّوبَ وَیُوسُفَ وَمُوسَی وَهَارُونَ وَکَذَلِکَ نَجْزِ الْمُحْسِنِینَ ٭ وَزَکَرِیَّا وَیَحْیَی وَعِیسَی )( ۱ )

اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب دیئے اور سب کو ہدایت بھی دی اور اس کے پہلے نوح کو ہدایت دی اور پھرابراھیم کی اولاد میں داؤد، سلیمان ، ایوب، یوسف، موسیٰ، اور ہارون قراردئیے اور ہم اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں اور (اسی طرح ابراہیم کی اولاد میں سے) زکریا ، یحییٰ اور عیسیٰ ہیں .مسلمان علماء اس آیۂ شریفہ کو اس بات پر شاہد قرار دیتے ہیں کہ امام حسن اور امام حسین رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اولاد اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذریت میں سے ہیں نمونے کے طور پر ہم

____________________

(۱)سورہ انعام آیت : ۸۴ اور ۸۵

۱۴۶

یہاںان علماء میں سے ایک عالم کے کلام کو پیش کرتے ہیں :

جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں :

''أرسل الحجاج اِلی یحییٰ بن یعمر فقال: بلغنى أنک تزعم أن الحسن والحسین من ذریة النبى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تجده فى کتاب اللّه و قد قرأته من أوله اِلیٰ آخره فلم أجده قال : ألست تقرأ سورة الانعام (وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ) حتی بلغ یَحْیَیٰ وَعِیسَیٰ ؟ قال بلیٰ قال: ألیس عیسیٰ من ذریة اِبراهیم و لیس له أب؟ قال: صدقتَ'' ( ۱ )

حجاج نے یحییٰ بن یعمرکے پاس پیغام بھیجا اور ان سے یہ کہا :مجھے خبر ملی ہے کہ تم یہ گمان کرتے ہو کہ حسن اور حسین نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذریت میں سے ہیں کیا تم نے اس بات کو کتاب خدا سے حاصل کیا ہے جبکہ میں نے قرآن مجید کو اول سے آخرتک پڑھا ہے لیکن میں نے کوئی ایسی بات اس میں نہیں دیکھی ہے.

یحییٰ بن یعمر نے کہا کیا تم نے سورہ انعام نہیں پڑھا ہے جس میں یہ ہے''وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ '' یہاں تک کہ خدا فرماتا

____________________

(۱)تفسیر در المنثور جلد۳ ص۲۸ طبع بیروت سورہ انعام کی ۸۴ اور ۸۵ آیت کی تفسیر کے ذیل میں

۱۴۷

ہےو یَحْیَی وَعِیسَی ؟''حجاج نے کہا کیوں نہیں پڑھی ہے یحییٰ نے کہا کیا حضرت عیسیٰ ـ حضرت ابراہیم کی ذریت میں سے نہ تھے جب کہ ان کا کوئی باپ نہ تھا (اور ان کا سلسلہ نسب ماں کے ذریعہ حضرت ابراہیم تک پہنچتا ہے) حجاج نے جواب میں کہا کہ تم بالکل صحیح کہہ رہے ہو

مذکورہ آیت اور مفسرین کے اقوال سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے کہ نہ صرف شیعہ بلکہ تمام مسلمان علماء امام حسن اور امام حسین کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذریت اور اولاد سمجھتے ہیں

۲۔ اس قول کے صحیح ہونے پر ایک بہت ہی واضح دلیل آیہ مباہلہ ہے اب ہم اس آیت کو مفسرین کے اقوال کے ساتھ پیش کرتے ہیں :

(فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَائَنَا وَاَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ ﷲِ عَلَی الْکَاذِبِین )( ۱ )

(اے پیغمبر)علم کے آجانے کے بعد جو لوگ آپ سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے بیٹوں ، اپنی اپنی عورتوں اوراپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں

____________________

(۱) سورہ آل عمران آیت : ۶۱

۱۴۸

مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت ''مباہلہ'' کے نام سے مشہور ہے یہ آیت عیسائیوں کے سرداروں سے مناظرہ کرنے کے سلسلہ میں اس وقت نازل ہوئی جب وہ کٹ حجتی سے باز نہ آئے اور آنحضرت حکم خدا سے حضرت علی بن ابی طالب، حضرت فاطمہ زہرا، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین ٪کی ہمراہی میں مباھلہ کے لئے تشریف لے گئے اور جب نصاری کے بزرگوں نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اہل بیت ٪ کی یہ شان اور ہیبت دیکھی تو وہ سب خوفزدہ ہوگئے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آکر یہ التماس کرنے لگے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان پر لعنت نہ کریں آنحضرت نے ان کی درخواست قبول کر لی اور ان کے ساتھ ایک معاہدہ کر کے اس قصے کو ختم کردیا شیعہ اور سنی علماء اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ مباہلہ کے دن حضرت امیرالمومنین ، حضرت فاطمہ ، حضرت امام حسن اور

۱۴۹

حضرت امام حسین ٪ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ تھے اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ''ابنائنا''(یعنی ہمارے فرزند) سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد امام حسن اور ، امام حسین ہیں اس سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ آیہ مباہلہ نے بھی حضرت امام حسن اور امام حسین کو رسول خدا کا فرزند قرار دیا ہے

یہاں پر اس نکتے کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ مفسرین نے آیہ مباہلہ کے ذیل میں بہت سی روایات ذکر کرنے کے بعد اس قول کے صحیح ہونے کی گواہی دی ہے نمونے کے طور پر ہم ان میں سے بعض مفسرین کے کلام کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

الف: جلال الدین سیوطی نے حاکم، ابن مرودیہ ،اور ابونعیم سے اور انہوں نے جابر بن عبداللہ سے نقل کیا ہے : وہ کہتے ہیں :( أنفسنا و أنفسکم )رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و علی ،''ابنائنا''الحسن والحسین و ''نسائنا ''فاطمه.( ۱ )

(انفسنا)''(یعنی ہماری جانوں ) سے مراد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علی ـ ہیں اور (ابنائنا)(یعنی ہمارے بیٹوں) سے مراد حسن و حسین ہیں اور(نسائنا)(ہماری عورتوں ) سے مراد فاطمہ زہرا ہیں

ب:فخر رازی اپنی تفسیر میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں :

واعلم ان هذه الروایة کالمتفق علیٰ صحتها بین اهل التفسیر والحدیث ( ۲ )

جان لو کہ یہ روایت ایسی حدیث ہے کہ جس کے صحیح ہونے پر اہل تفسیر اور اہل حدیث کااتفاق ہے۔

اور پھر اس کے بعد یوں کہتے ہیں

''المسألة الرابعة: هذه الآیة دالة علی أن الحسن والحسین کانا ابن رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وعد أن یدعوا أبنائه فدعا الحسن والحسین فوجب أن یکون ابنیه'' ( ۳ )

____________________

(۱) تفسیر در المثور جلد ۲ ص ۳۹ طبع بیروت اسی آیت کی تفسیر کے ذیل میں

(۲)تفسیر ''مفاتیح الغیب '' جلد ۲ ص ۴۸۸ طبع ۱ول مصر ۱۳۰۸ ھ

(۳)تفسیر ''مفاتیح الغیب '' جلد ۲ ص ۴۸۸ طبع ۱ول مصر ۱۳۰۸ ھ

۱۵۰

یہ آیہ کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حسن اور حسین پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند تھے طے یہ ہوا تھا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بیٹوں کو بلائیں پس آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حسن و حسین ہی کو بلایا تھا پس یہ ثابت ہوگیا کہ وہ دونوں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیٹے ہیں ۔

ج:ابو عبداللہ قرطبی اپنی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں کہ :

(أبنائنا)دلیل علیٰ أن أبناء البنات یسمون أبناء اً .( ۱ )

کلمہ ابنائنا دلیل ہے کہ بیٹی سے ہونے والی اولاد بھی انسان کی اولاد کہلاتی ہے۔

۳۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اقوال شاہد ہیں کہ امام حسن اور امام حسین آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند تھے.یہاں پر ہم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صرف دو اقوال کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

الف:رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حسن اور حسین کے متعلق فرماتے ہیں :

هذان ابناى مَن أحبهما فقد أحبن .( ۲ )

حسن اور حسین میرے دو فرزند ہیں جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی

ب:پیغمبر اسلام نے حسن اور حسین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

ان بنّى هٰذین ریحانتى من الدنیا .( ۳ )

میرے یہ دو بیٹے اس دنیا سے میرے دو پھول ہیں

____________________

(۱)الجامع لاحکام القرآن جلد ۴ ص ۱۰۴طبع بیروت.

(۲)تاریخ مدینہ دمشق مصنفہ ابن عساکر ترجمة الامام الحسین ـ ص۵۹حدیث ۱۰۶طبع اول بیروت ۰ ۱۴۰ھ.

(۳)گذشتہ حوالہ ص۶۲ حدیث نمبر ۱۱۲.

۱۵۱

تیئیسواں سوال

شیعوں کے نزدیک یہ کیوں ضروری ہے کہ خلیفہ کو خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی معین فرمائیں؟

جواب: یہ واضح ہے کہ اسلام ایک ہمیشہ رہنے والا عالمی دین ہے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ میں آپ ہی امت کے رہبر اور ہادی تھے لیکن آپ کی رحلت کے بعد ضروری تھا کہ جو سب سے زیادہ لائق فرد ہو اسے امت اسلامیہ کی رہبری سونپ دی جائے

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد خلیفہ، نص کے ذریعہ معین کیا جائے گا(یعنی خدا اور رسول ہی اپنا خلیفہ معین فرمائیں گے )یا یہ کہ خلافت ایک انتخابی عہدہ ہے ؟ اس سلسلہ میں چند نظریے پائے جاتے ہیں شیعوں کا اعتقاد ہے کہ منصب خلافت نص کے ذریعہ معین ہوتا ہے یعنی یہ ضروری ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جانشین خدا کی جانب سے معین کیا جائے

جب کہ اہل سنت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ منصب خلافت ایک انتخابی عہدہ ہے اور ضروری ہے کہ پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امت، مملکت کے امور کو چلانے کے لئے کسی ایک شخص کو خلیفہ چن لے.

۱۵۲

عصر رسالت کے حالات کا تجزیہ بتاتا ہے کہ خلیفہ کونص کے ذریعہ معین ہونا چاہئے.

شیعہ علماء نے عقائد کی کتابوں میں خلیفہ کے نص کے ذریعہ معین کئے جانے کے بارے میں بہت سے دلائل بیان کئے ہیں لیکن وہ دلیل جسے یہاں بیان کیا جاسکتا ہے اور جس سے شیعوں کا عقیدہ بھی واضح ہوجاتا ہے وہ عصر رسالت کے حالات کا صحیح تجزیہ ہے.

عصر رسالت میں اسلام کی داخلی اور خارجی سیاست کا یہ تقاضا تھا کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جانشین خدا کی طرف سے خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ معین کیا جائے کیونکہ مسلمانوں کو ہر لحظہ تین بڑی طاقتوں (روم کی سلطنت، ایران کی بادشاہت اور منافقین حجاز کی سازشوں ) کی طرف سے شکست اور نابودی کا خطرہ لاحق تھا اسی طرح امت کی کچھ مصلحتیں بھی تقاضا کررہی تھیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنا خلیفہ معین کر کے ساری امت کو بیرونی دشمن کی طاقت کے مقابلے میں ایک صف میں کھڑا کردیں اور اس طرح ملت اسلامیہ کو ان داخلی اختلافات سے بچالیں جن سے دشمنوں کے نفوذ اور تسلط کا موقع فراہم ہوسکتا ہے

اس کی وضاحت

ان تین خطرناک طاقتوں میں سے ایک طاقت روم کی بادشاہی تھی جس سے پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی زندگی کے آخری لمحات تک فکر مند رہے ہجرت کے آٹھویں سال فلسطین کی سرزمین پرمسلمانوں اور روم کے عیسائیوں کے درمیان پہلی جنگ ہوئی تھی اس جنگ میں اسلامی فوج کے تین کمانڈر ''جعفر طیار'' ''زید بن حارثہ''اور ''عبداللہ بن رواحہ'' شہید ہوئے تھے اور سپاہ اسلام کو اس جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا

۱۵۳

کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کی اس شکست سے قیصر روم کی فوج کے حوصلے بڑھ گئے تھے اور ہر وقت اس بات کاڈر رہتا تھا کہ کہیں وہ اسلام کے مرکزی علاقوں پر حملہ آور نہ ہوجائیں

اسی وجہ سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت کے نویں سال مسلمانوں کے ایک بڑے لشکر کو شام کے اطراف میں بھیجا تھا اور ارادہ یہ تھا کہ اگر جنگ کی نوبت آگئی توآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود لشکر اسلام کی رہبری فرمائیں گے اس درد و رنج والے سفر میں سپاہ اسلام نے اپنی سابقہ شوکت پھر سے حاصل کی اور اسے اس کا سیاسی مقام و منصب دوبارہ مل گیا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس فتح کے بعد بھی مطمئن نہیں ہوئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی بیماری سے چند دن پہلے مسلمانوں کی فوج کو ''اسامہ'' کی قیادت میں شام کی طرف جانے کا حکم دیا.

عصر رسالت میں مسلمانوں کی دوسری دشمن طاقت ایران کی بادشاہی تھی یہاں تک کہ ایران کے بادشاہ نے انتہائی غصے سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خط کو پھاڑ دیا تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچی کو توہین کے ساتھ باہر نکال دیا تھا اور نیز یمن کے گورنر کو خط لکھا تھا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو گرفتار کرلے اورممانعت کی صورت میں انہیں قتل کرڈالے

۱۵۴

اگرچہ ایران کا بادشاہ خسرو پرویز رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے ہی میں مر گیا تھا لیکن مدتوں سے ایران کے زیر اقتدار رہنے والے ملک یمن کا مسلمانوں کے ذریعہ استقلال حاصل کرلینا ایرانی بادشاہوں کو شدید ناگوار گزرا اس وجہ سے ایران کی سطوت شاہی کے لئے اسلام کی طاقت کو پھلتا پھولتا دیکھنا برداشت کے قابل نہیں تھا

مسلمانوں کو تیسرا خطرہ منافقین کے گروہ سے تھا منافقوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش تھی کہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اندازی کے ذریعہ فتنہ و فساد پیدا کریں ان لوگوں کے نفاق اور کینہ کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے تبوک سے مدینہ کے راستے میں حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا یہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت سے اسلام کی تحریک ختم ہوجائے گی اور وہ لوگ آسودہ خاطر ہوجائیں گے منافقین کے عزائم اور ان کی سازشوں کو آشکار کرنے کے لئے قرآن مجید نے ان سورتوں : آل عمران ، نساء ، مائدہ، انفال ، توبہ، عنکبوت، احزاب، محمد، فتح،مجادلہ، حدید، منافقین اور حشر میں ان کا تذکرہ فرمایا ہے.( ۱ )

اسلام کے ایسے سرسخت اور خطرناک دشمنوں کی موجودگی میں کیا یہ صحیح تھا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تازہ مسلمانوں کے دینی اور سیاسی امور کی رہبری کے لئے اپنا کوئی جانشین معین نہ فرماتے؟

اس وقت کے اجتماعی حالات کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ ضروری تھا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بعد اپنا جانشین معین کرکے ہر قسم کے اختلاف کا سد باب کردیتے اور ایک مستحکم دفاعی نظام تشکیل دیتے ہوئے اسلامی وحدت کو دوام بخشتے اگر

____________________

(۱)فروغ ابدیت ، مولف استاد جعفر سبحانی(اقتباس)

۱۵۵

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنا کوئی خلیفہ معین نہ فرماتے تو عالم اسلام کو شدید قسم کے ناگوار واقعات کا سامنا کرنا پڑتا اور نتیجة ہر گروہ یہ کہنے لگتا کہ خلیفہ ہم میں سے ہونا چاہئے.

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیثیں

اجتماعی حالات کے تقاضوںاور چند دوسری وجوہات کی بنیاد پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اول بعثت سے لے کر اپنی زندگی کے آخری ایام تک اپنی جانشینی کے مسئلے کو بیان فرمایا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعوت ذوالعشیرہ میں جہاں اپنی رسالت کا اعلان فرمایا وہیں اپنے جانشین کو بھی معین فرما دیا تھا اور اسی طرح اپنی زندگی کے آخری ایام میں حجة الوداع سے لوٹتے وقت غدیر خم کے میدان میں اپنے جانشین کا اعلان فرمایا تھا اورنہ صرف ان دو مقامات پر بلکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی ساری زندگی کے دوران مختلف مقامات پر اپنے جانشین کی شناخت کراتے رہے مزید تفصیلات کے لئے اسی کتاب میں تیسرے سوال کے جواب کا مطالعہ فرمائیں ہم نے وہاں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیثوںکے تین ایسے نمونے ذکر کئے ہیں جن میں آنحضرت کے جانشنین کا تذکرہ ہے وہاں ہم نے ان حدیثوں کے ماخذ بھی ذکر کئے ہیں

صدر اسلام کے حالات اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ان حدیثوں (جن میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا ہے) کے مطالعے سے یہ بات اچھی طرح ثابت ہوجاتی ہے کہ خلیفہ خدا و رسول ہی کی طرف سے معین ہوتا ہے۔

۱۵۶

چوبیسواں سوال

کیا غیر خدا کی قسم کھانا شرک ہے؟

جواب: لفظ توحید اور شرک کے معنی جاننے کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کی آیات اورحدیثوںکا مطالعہ کیا جائے کیونکہ قرآن مجید اور سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حق کو باطل سے اور توحید کو شرک سے جدا کرنے کا بہترین معیار ہیں

اس بنیاد پر بہتر ہے کہ ہر قسم کے نظریہ اور عمل کو قرآن اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روشنی میں زندہ اور بے تعصب ضمیر کے ساتھ پرکھیں اب ہم یہاں پر قرآن و سنت سے غیر خدا کی قسم کھانے کے جائز ہونے پر چند دلیلیں پیش کریں گے :

۱۔قرآن مجید میں چند محترم مخلوقات جیسے''پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''اور ''روح انسان'' ''قلم'' ''سورج'' ''چاند'' ''ستارے'' ''دن اور رات'' ''آسمان اور زمین'' ''زمانے'' ''پہاڑ اور سمندر'' وغیرہ کی قسم کھائی گئی ہے یہاں ہم ان میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں :

الف: (لَعَمْرُکَ ِانَّهُمْ لَفِى سَکْرَتِهِمْ یَعْمَهُونَ )( ۱ )

____________________

(۱)سورہ حجر آیت ۷۲

۱۵۷

(پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !) آپ کی جان کی قسم یہ لوگ اپنی خواہش نفس کے نشے میں اندھے ہورہے ہیں

ب: (وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا وَالْقَمَرِ ِاذَا تَلاَهَا وَالنَّهَارِ اِذَا جَلاَّهَا وَاللَّیْلِ اِذَا یَغْشَاهَا وَالسَّمَائِ وَمَا بَنَاهَا وَالَْرْضِ وَمَا طَحَاهَا وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَاَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا ... )( ۱ )

آفتاب اور اس کی روشنی کی قسم. اور چاند کی قسم جب وہ اس کے پیچھے چلے. اور دن کی قسم جب وہ روشنی بخشے.اور رات کی قسم جب وہ اسے ڈھانک لے اور آسمان کی قسم اور جس نے اسے بنایا. اور زمین کی قسم اور جس نے اسے بچھایا اور نفس کی قسم اور جس نے اسے درست کیا. پھر بدی اور تقوی کی ہدایت دی ہے.

ج: (وَالنَّجْمِ اِذَا هَوَی )( ۲ )

قسم ہے ستارے کی جب وہ ٹوٹا.

د: (وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُونَ )( ۳ )

____________________

(۱)سورہ شمس آیت ۱ تا ۸

(۲)سورہ نجم آیت:۱

(۳)سورہ قلم آیت:۱

۱۵۸

ھ: (وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنسَانَ لَفِى خُسْرٍ )( ۱ )

قسم ہے عصر کی بے شک انسان خسارے میں ہے.

و: (وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ )( ۲ )

قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی.

ز: (وَالطُّورِ وَکِتَابٍ مَسْطُورٍ فِى رَقٍّ مَنْشُورٍ وَالْبَیْتِ الْمَعْمُورِة وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ وَالْبَحْرِ الْمَسْجُور )( ۳ )

طور کی قسم. اور لکھی ہوئی کتاب کی قسم جو کشادہ اوراق میں ہے اور بیت معمور کی قسم اور بلند چھت (آسمان)کی قسم. اور بھڑکتے ہوئے سمند ر کی قسم.

اسی طرح ان سورتوں '' نازعات'' ''مرسلات '' ''بروج'' ''طارق'' ''بلد'' ''تین'' ''ضحی'' میں بھی دنیا کی مختلف اشیاء کی قسمیں کھائی گئی ہیں

اگر غیر خدا کی قسم کھانا شرک ہوتا تو اس قرآن مجید میں جو توحید کا مظہر ہے ، ہر گز غیر خدا کی قسمیں نہ کھائی جاتیں اور اگر اس قسم کی قسمیں کھانا صرف خداوند کی

____________________

(۱)سورہ عصر آیت ۱ ا ور۲.

(۲)سورہ فجر آیت : ۱ اور ۲.

(۳)سورہ طور آیت نمبر ۱ سے ۶ تک.

۱۵۹

خصوصیات میں سے ہوتا تو قرآن مجیدمیں ضرور اس بات کی طرف متوجہ کرادیا جاتا تاکہ بعدمیں کسی کو دھوکہ نہ ہو

۲۔دنیا کے سارے مسلمان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے لئے اسوہ عمل سمجھتے ہیں اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کو حق اور باطل کی شناخت کے لئے میزان قرار دیتے ہیں

عالم اسلام کے محققین اور اہل سنت کی صحیح اور مسند کتابوں کے مؤلفین نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہت سی ایسی قسموں کو نقل کیا ہے جو حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غیر خدا کے نام سے کھائی تھیں.

احمد بن حنبل نے اپنی کتاب مسند میں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یوں روایت کی ہے :

''فلعمر لأن تتکلم بمعروف و تنهیٰ عن منکر خیر من أن تسکت'' ..( ۱ )

میری جان کی قسم ! تمہارے خاموش رہنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ تم امر بمعروف اور نھی از منکر کرو.

مسلم بن حجاج کا اپنی کتاب صحیح میں بیان ہے کہ :

جاء رجل اِلی النبى فقال: یا رسول اللّه أّ الصدقة أعظم أجرًا؟ فقال: أما و أبیک لتنبأنّه أن تصدق و أنت صحیح شحیح تخشی الفقر و تأمل البقائ .....( ۲ )

____________________

(۱)مسند احمد جلد ۵ ص ۲۲۴ اور ۲۲۵ حدیث بشیر ابن خصاصیہ سدوسی.

(۲)صحیح مسلم، جزء سوم ، طبع مصر ، کتاب الزکاة، باب بیان ان افضل الصدقة ، صدقة الصحیح الشحیح، ص ۹۳ اور ۹۴

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

طلب نصرت کی ابتدا تو کردی ہے لیکن آپ کی نظر میں اسلام عظیم کی وحدت اور اس کی عظمت کی سب سے زیادہ اہمیت ہے اور جب آپ یہ دیکھیں گے کہ آپ کے خروج سے اسلام عظیم کی اجتماعی حیثیت،وقار اور اتحاد کو نقصان پہنچ رہا ہے تو بیٹھ جائیں گے،ان خیالات نے صحابہ کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ اس کشمکش میں آپ کا سب سے کمزور پہلو اسلام کی محبت ہے،اسی وجہ سے آپ کی مادی قوت بھی قابل اعتبار نہیں ہے ۔

امیرالمومنین ؑ کے اصولی موقوف پر بعض شواہد

مولائے کائنات کا نقطہ نظر کیا تھا؟اور آپ نے اصول کو کس قدر اہمیت دی تھی؟اس کے چند شواہد پیش کئے جاتے ہیں،مثلاً آپ سقیفہ میں اس وقت نہیں پہنچ سکے جب لوگ آپ پر سبقت کررہے تھے اور خلافت کی کھچڑی پَک رہی تھی،آپ نے اس وقت نہ پہنچنے کا یہ معقول عذر پیش کیا کہ میں پیغمبر ؐ کے جنازے کی تجہیز و تکفین چھوڑ کے آپ کی خلافت کے لئے لوگوں سے جنگ نہیں کر سکتا تھا(۱) عباس بن عبدالمطلب نے آپ سے کہا:آیئے ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں،تا کہ لوگ کہیں عم پیغمبر ؐ نے پیغمبر ؐ کے ابن اعم(چچازاد)کی بیعت کرلی،پھر آپ سے کوئی نہیں لڑےگا،آپ نے فرمایا:چچا!میں پسند نہیں کرتا کہ یہ کام پردے کے پیچھے ہو میں تو چاہتا ہوں جو کچھ ہو علانیہ ہو ۔(۲) اس طرح ابوسفیان نے((جس کے قبیلہ کی قوت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا))جب آپ کے نقطہ نظر کو موڑ کے قبائلی تعصّب کا رُخ دینا چاہا اور کوشش کی کہ امیرالمومنین ؑ کو قبائلی بنیادوں پر مطالبہ خلافت کی طرف لے جائے تو آپ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اُسے ڈ انٹ دیا ۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) الامامۃ و السیاسۃ ج: ۱ ص: ۱۶ ،شرح نہج البلاغہ ج: ۶ ص: ۱۳ الفتوح لابن اعثم ص: ۱۳

( ۲) شرح نہج البلاغہ ج: ۹ ص: ۱۹۶ ،ج: ۱۱ ص: ۹

( ۳) المستدرک علی صحیحین ج: ۳ ص: ۸۳ ،المصنف لعبد الرزاق ج: ۵ ص: ۴۵۱ ،الاستیعاب ج: ۳ ص: ۹۷۴ ،ج: ۴ ص: ۱۶۷۹ ،تاریخ الخلفاءج: ۱ ص: ۶۷ ،انساب الاشراف ج: ۲ ص: ۲۷۱ ،تاریخ طبری ج: ۲ ص: ۲۳۷ ،شرح نہج البلاغہ ج: ۲ ص: ۴۵

۲۶۱

جب کہ ابوبکر نے اس کی خوشامد کر کے راضی کرلیا اور صدقہ کے اموال دیئے(۱) اور اس کے بیٹے کو گورنر بنادیا(۲) نتیجہ میں وہ اس کی اولاد اور گھر والے ابوبکر کے مددگار اور تائید کرنےوالوں میں شامل ہوگئے ۔

میرا خیال تو یہ ہے کہ شاید تاریخ کا یہ اصول دین بن چکا ہے کہ کسی نبی کی امت میں بھی اختلاف ہوتا ہے تو امت کے باطل پرست افراد اہل حق پر غالب آجاتے ہیں ۔(۳) وجہ یہ ہے کہ اہل حق کی اصول پرستی اپنے اصولوں کی قربانی پر سمجھوتہ نہیں کرتی اور مددگاروں سے محروم رہ جاتی ہے جب کہ امت کے اہل باطل فرصت سے فائدہ اٹھالیتے ہیں اور پھر نتیجہ میں مادّی اعتبار سے اہل باطل ہی فتحیاب ہوتے ہیں ۔

نتیجہ چاہے تو ہو،امام منصوص کی آواز پر لبیک کہنا واجب ہے

لیکن صحابی ہوں یا غیر صحابی،صرف یہ کہہ دینے سے کہ امام منصوص کے پاس طاقت نہیں ہے یا ان کی کامیابی کا ہمیں یقین نہیں ہے اس لئے ہم ان کی نصرت پر آمادہ نہیں ہوتے،نہ واجب ادا ہوجائےگا اور نہ ان کو بری الذّمہ سمجھا جائےگا بلکہ ہر انسان پر امام منصوص کی اطاعت اور اس کی دعوت پر لبیک کہنا واجب ہے نتیجہ چاہے جو ہو عام انسان کو امام منصوص کی نصرت کے بارے میں نہ اجتہاد کا حق پہنچتا ہے نہ غور کی مہلت،اس لئے کہ امام منصوص جانتا ہے کہ لوگوں کی بھلائی کس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) العقد الفرید ج: ۴ ص: ۲۴۰ ،شرح نہج البلاغہ ج: ۲ ص: ۴۴

( ۲) الطبقات الکبری ج: ۴ ص: ۹۷ ۔ ۹۸ ،المستدرک علی صحیحین ج: ۳ ص: ۲۷۹ ،تاریخ یعقوبی ج: ۲ ص: ۱۳۳ ،تاریخ طبری ج: ۲ ص: ۳۳۱ ،تاریخ دمشق ج: ۱۶ ص: ۷۸ ،شرح نہج البلاغہ ج: ۲ ص: ۵۸ ۔ ۵۹

( ۳) مجمع الزوائد ج: ۱ ص: ۱۵۷ ،المعجم الاوسط ج: ۷ ص: ۳۷۰ ،فیض القدیر ج: ۵ ص: ۴۱۵ ،حلیۃ الاولیا ج: ۴ ص؛ ۳۱۳ ،تذکرۃ الحفاظ ج: ۱ ص: ۸۷ ،کنز العمال ج: ۱ ص: ۱۸۳ حدیث ۹۲۹ ،الجامع الصغیر للسیوطی ج: ۲ ص: ۴۸۱ حدیث ۷۷۹۹ ،شرح نہج البلاغہ ج: ۵ ص: ۱۸۱

۲۶۲

چیز میں ہے حالانکہ لوگ مصلحتوں سے ناواقف اور مفید نتائج سے بےخبر ہوتے ہیں جیسا کہ صلح حدیبیہ میں واقعہ پیش آیا،نبی ؐ کو معلوم تھا کہ اس صلح سے کیا کیا فائدہ حاصل ہونےوالا ہے در حالیکہ مسلمان عواقب و نتائج سے ناواقفیت کی بنا پر مخالفت پر اتر آئے تھے اس سلسلہ میں بعض مطالب دوسرے سوال کے جواب میں گذر چکے ہیں ۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جلد بازی میں اٹھایا ہوا کوئی قدم فتح کا سبب بن جاتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مسلسل منصوبہ بندی کرنے کے باوجود آدمی شکست سے دوچار ہوتا ہے،اچھا!اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ حق کی نصرت پر لبیک کہنے اور باطل کی مخالفت میں جنگ کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے پھر بھی اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ غافل متبہ ہوجاتے ہیں،خدا کے لئے حجّت قائم ہوجاتی ہے اور نصرتِ حق میں اُٹھی ہوئی آواز دلوں کو جگا دیتی ہے،میرا خیال ہے کہ یہ فائدہ بھی کچھ کم نہیں ہے،دینِ خدا اور خدا کی طرف دعوت دینےوالوں کو یہ عظیم فائدہ تو حاصل ہو ہی جاتا ہے اور یہی فائدہ کیا کم ہے ۔

ابوسالم جیشانی کہتے ہیں:میں نے سنا مولائے کائنات ؑ کوفہ میں فرما رہے تھے کہ((میں اس لئے لڑ رہا ہوں کہ حق قائم ہو،حالانکہ حق ہرگز قائم نہیں ہوسکے گا جب تک حکومت معاویہ والوں کے ہاتھ میں رہےگی))روای کہتا ہے کہ میں نے اپنے اصحاب سے کہا:یہاں ٹھہرنے کا مقام نہیں ہے در حالیکہ ہمیں بتلادیا جاچکا ہے کہ معاویہ کے طرفداروں کو حق حکومت نہیں ہے پھر ہم نے آپ سے مصر جانے کی اجازت طلب کی آپ نے ہم میں سے جس کو چاہا اجازت دی آپ نے ہر ایک کو ایک ایک ہزار درہم دیئے اور ہمارے گروہ سے ایک حصہ ان کے ساتھ وہیں ٹھہرگیا(۱)

آپ نے ملاحظہ کیا کہ امام ؑ کو معلوم تھا کہ معاویہ آپ پر غالب ہوگا اس کے باوجود آپ نے حق کی راہ میں جہاد سے منہ نہیں موڑا اور صاحبانِ بصیرت افراد بھی آپ کے ہمراہ حق کے محاذ پر ڈ ٹے رہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) الفتن لنعیم بن حماد ج: ۱ ص: ۱۲۷

۲۶۳

اسود دوئلی کی حدیث ملاحظہ ہو،وہ اپنے باب ابوالاسود دوئیلی سے روایت کرتے ہیں کہ مولائے کائنات ؑ نے فرمایا:((میرے پاس عبداللہ بن سلام آئے،اس وقت میں نے رکاب میں پیر ڈ ال رکھے تھے اور عراق کے لئے عازمِ سفر تھا،عبداللہ بن سلام نے مجھ سے کہا:آپ عراق نہ جائیں،اگر آپ عراق جائیں گے تو آپ کو تلوار کی دھار کا سامنا کرنا پڑےگا،میں نے(مولائے علی ؑ نے)کہا خدا کی قسم یہ بات تو ہادی برحق ؐ مجھے تم سے پہلے بتاچکے ہیں))،ابوالاسود کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں سوچا:میں نے آج تک ایسا آدمی بھی نہیں دیکھا جو جنگ کے لئے تیار ہو اور لوگوں سے ایسی باتیں کرتا ہو ۔(۱)

آپ نے غور کیا کہ امام ؑ لوگوں کو اپنے عنقریب قتل(شہید)ہونے کی خبر بھی دے رہے ہیں اور لوگوں کو جہاد کی دعوت بھی دے رہے ہیں،صرف یہ ثابت کرنے کے لئے کہ جہاد کا ہدف،فتح و نُصرت سے بہت بلند ہے ۔

امام ابوعبداللہ الحسین ؑ کو دیکھئے،مکّہ مکرمہ میں آپ انقلاب کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور اسی سلسلے میں مدینہ کے بنوہاشم کو لکھتے ہیں ۔

"بسم الله الرحمن الرحیم: حسین ؑ بن علی ؑ کی طرف سے محمد بن علی اور ان کے قبیلہ(یعنی بنی ہاشم)کو معلوم ہو کہ جو مجھ سے آملے گا وہ درجہ شہادت پر فائز ہوگا اور جو مجھ سے ملحق نہیں ہوگا وہ فتح بھی نہیں پاسکتا،والسلام(۲)

اسی طرح جب آپ نے مکہ سے عراق جانے کا ارادہ کیا تو خطبہ دیا،خطبہ کے الفاظ ملاحظہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) المستدرک علی صحیحین ج: ۳ ص: ۱۵۱ ،کتاب معرفۃ الصحابۃ،مناقب امیرالمومنینؑ،امام حاکم نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ اگر چہ شیخین نے نقل نہین کیا ہے لیکن ان کی شرط پر پوری روایت پوری اترتی ہے اور صحیح ہے،صحیح ابن جبان،ج: ۱۵ ص: ۱۲۷ ،موارد الظمآن،ج: ۱ ص: ۲۴۵ ،تاریخ دمشق،ج: ۴۲ ،ص: ۵۴۶

( ۲) کامل الزیارات ص: ۱۵۷ ،بصائر الدرجات ص: ۵۰۲ ،نوادر المعجزات ص: ۱۱۰ ،دلائل الامامۃ ص: ۱۸۸ ،الخرائج و الجرائح ج: ۲ ص: ۷۷۱ ۔ ۷۷۲

۲۶۴

فرمائیں:((الحمداللہ و ماشاءاللہ تعالی قوت صرف اللہ کی ہے،خدا کا درود ہو اس کے نبی ؐ پر،موت انسان کے گلے سے یوں ہی لپٹی ہے جیسے دوشیزہ کے گلے میں گلوبند لپٹا رہتا ہے،مجھے اپنے اسلاف سے ملاقات کی خواہش نے اسی طرح بے چین کیا ہوا ہے جیسے یعقوب ؑ کے دل میں یوسف ؑ سے شوقِ ملاقات،میرے لئے ایک مقتل چُنا گیا ہے جس کی طرف میں جا رہا ہوں،گویا کہ صحرا کے اُموی بھیڑیئے میرے بند بند کو کاٹ رہے ہیں اور میرے جسم سے اپنی بھوک مٹا رہے ہیں،کاتب تقدیر نے جو دن اپنے قلم سے لکھ دیا ہے اس سے انسان الگ نہیں ہوسکتا،خدا کی مرضی ہی ہم اہلبیت ؑ کی رضا ہے،ہم اس کی بلاؤں پر صبر کرتے ہیں،وہ ہمیں صبر کرنے والوں کا اجر دےگا،پیغمبر ؐ سے ان کے گوشت الگ نہیں کیا جاسکتا،بلکہ آپ کے جسم کے تمام حصے محضرِ قدس میں اکٹھا ہونے والے ہیں،جس سے آپ کی آنکھیں ٹھن ڈ ی ہوں گی اور آپ نے جو وعدہ کیا ہے ہمیں لوگوں کے ذریعہ پورا ہوگا ۔ پس جو اپنی جان کو ہماری راہ میں قربان کرنا چاہتا ہے اور اپنے نفس کو خدا سے ملاقی کرنے پر آمادہ کرچکا ہے اسے چاہیے کہ ہمارے ساتھ چلے اس لئے کہ میں کل انشاءاللہ جانے والا ہوں)) ۔(۱)

اگر عاشقانِ حق کا نقطہ نظر اور طرزِ زندگی سمجھ سکتے ہیں تو امام حسین ؑ کے کلمات ملاحظہ فرمایئے،دیکھئے!امام حسین ؑ کی نظر میں فتح کیا ہے اور کامیابی کسے کہتے ہیں،مذکورہ خطبہ میں فرماتے ہیں کہ((میں قتل کردیا جاؤں گا))آپ اپنے قتل کی علی الاعلان خبر دے رہے ہیں اور اپنے خط میں((جو آپ نے بنوہاشم کو لکھا ہے))آپ نے جنگ سے پہلے ہی اپنی فتح کا اعلان کردیا ہے،اور اس فتح کے لئے لوگوں سے مدد مانگ رہے ہیں،وہ فتح بھی کیا ہے،ایسی فتح جو بغیر قتل اور شہادت کے حاصل نہیں ہوسکتی ۔

یہ وہ فتح ہے جسے عام انسان ناکامی اور شکست سمجھتا ہے،اسی لئے لوگوں نے امام حسین ؑ کو مشورہ دیا تھا کہ خروج مت کیجئے،لیکن امام وقت جانتا ہے کہ کس وقت کیا ضروری ہے اسی لئے آپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) مقتل الحسین للمقرم ص: ۱۹۳ ۔ ۱۹۴ ،کشف الغمہ ج: ۲ ص: ۲۳۹ ،بحارالانوار ج: ۴۴ ص: ۳۶۶ ۔ ۳۶۷

۲۶۵

نے خروج پر اصرار کیا،اپنے خاص شیعوں پر بھروسہ کرتے ہوئے آپ نے قیام فرمایا اور آپ کے خاص چاہنے والوں نے بھی امرِ خدا کا امتثال کیا اور آپ کے ساتھ سر سے کفن باندھ کے نکل پڑے،انہوں نے حقِ پیغمبر ؐ کو ادا کیا اور امام ؑ کے ساتھ درجہ شہادت پر فائز ہوئے ان لوگوں کو فتحِ مبین اور سعادت ازلی نصیب ہوئی جو ان کے پروردگار نے ن کے لئے مقدر کردی تھی ۔

بہرحال صورتِ حال جو بھی ہو،جب امام وقت مدد کے لئے پکارے تو امت پر اس کی نصرت واجب ہے،اس وقت نتائج سے خوفزدہ ہو کر صدائے امام ؑ کو نظرانداز کردینا غلط ہے،اُمت کی تکلیف شرعی ہے امام ؑ کی آواز پر لبیک کہنا،اس لئے کہ امام ؑ کی آواز خدا کی طرف سے اور اس کے حکم سے بُلند ہوتی ہے اور خدا نے امام ؑ کی پیروی کا حکم دیا ہے،جیسا کہ امیرالمومنین ؑ نے اپنے مخلص شیعوں کی تعریف میں ارشاد فرمایا کہ((انہوں نے اپنے قائد پر اعتماد کیا تو اس کی پیروی کی)) ۔(۱)

شیعوں کو یہی شکایت ہے کہ صحابہ کی کثیر تعداد نے سقیفہ میں امام منصوص سے منہ موڑ لیا،جب کہ ان کے سامنے واضح نص موجود تھی،انہوں نے امام ؑ کی دعوت پر لبیک نہیں کہی،امام ؑ کی کمر مضبوط نہیں کی اور ان کی مدد نہیں کی کہ وجہ حق کو غاصبانِ حق سے واپس لے سکتے اس لئے کہ مرادِ خدا بھی یہی تھی ۔

امام منصوص کی نصرت نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگوں نے نص کی اندیکھی کی

شیعوں کے قول کے مطابق نص کی موجودگی میں امام ؑ کی نصڑت نہ کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انہوں نے نص کی اندیکھی کی،یا نَص پر توجہ نہیں دی بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے سُستی کی اور ایک واجب کو ادا کرنے میں کوتاہی کی،حقدار کی نصرت اور اس کو حق دلانے کے لئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) نہج البلاغہ ج: ۲ ص: ۱۰۹ ،ینابیع المودۃ ج: ۲ ص: ۲۹

۲۶۶

انہیں جہاد کرنا چاہئے تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا،جس طرح غزوہ بدر میں صحابہ گھر سے نکلنا نہیں چاہتے تھے،یہ ان کی غلطی تھی جب پیغمبر ؐ حکم دے رہے تھے تو اُنہیں بہانہ نہیں بتانا چاہئے تھا،قرآن مجید اس وقت کی حکایت کرتا ہوا کہتا ہے((جیسا کہ تمہارے پروردگار نے تمہیں حق کے ساتھ تمہارے گھر سے نکالا حالانکہ مومنین کے ایک گروہ کو یہ کام بہت ناگوار گزر رہا تھا وہ تم سے حق کے بارے میں خواہ مخواہ اُلجھ رہے تھے جب کہ ان کے سامنے حق کی وضاحت ہوچکی تھی،لیکن ایسا لگتا تھا جیسے ان کو موت کی طرف کھینچا جارہا ہو اور وہ موت کا انتظار کررہے ہوں)) ۔(۱)

اسی طرح معرکہ اُحد و حُنین میں ان کا جنگ سے فرار کرنا،خندق میں ان کا نبی ؐ کی نصرت سے انکار کرنا اور غزوہ تبوک میں نکلنے کے وقت نبی ؐ سے ان کی مخالفت اور بھی بہت سارے واقعات ہیں جس میں انہوں نے نبی ؐ کی نصرت و حمایت یا تائید سے پہلو تہی کی ہے،اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ نبی ؐ کی تکذیب کررہے تھے یا نبی ؐ کی نبوت کو جُھٹلا رہے تھے ۔

اسی طرح اہل کوفہ نے امیرالمومنین ؑ کی نُصرت سے آپ کے آخرِ ایام میں پہلو تہی کی امام حسن ؑ کی نصرت میں سستی کی یا مسلمانوں نے امام حسین ؑ کی نصرت میں کوتاہی کی،اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لوگ ان حضرات کی امامت کے قائل نہیں تھے یا نص سے تجاہل کر رہے تھے ۔

امامِ منصوص کی نصرت نہیں کرنا ایسا گناہ ہے جو قابلِ توبہ ہے

البتہ امام ؑ کی نصرت نہیں کرنا بہت بڑا گناہ ہے،جیسے میدان جنگ سے فرار جس کی اللہ نے بہت زیادہ مذمت کی ہے یہ گناہ کبیرہ میں شمار ہوتا ہے جیسے وہ لوگ جنہوں نے پیغمبر ؐ سے اس جہاد میں منہ موڑ لیا جس میں شرکت کی اللہ نے سخت تاکید کی تھی لیکن پھر اللہ نے توبہ کا دروازہ کھول دیا اور جس طرح وہ اپنے بندوں کے بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیا کرتا ہے،اس گناہ کو بھی بخش دیا،جنگ اُحد سے بھاگنے والے مسلمانوں کو معاف کر کے ان کی مغفرت کی صراحت بھی کردی ہے،اسی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ انفال آیت: ۵ ۔ ۶

۲۶۷

طرح اللہ نے تین مخصوص افراد کی مغفرت کی تصریح کردی،اشارد ہوتا ہے((اور وہ تین افراد جو جنگ سے پیچھے رہ گئے تھے یہاں تک کہ زمین اپنی وسعتوں کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہیں ہے پھر انہیں معاف کردیا تا کہ وہ پاک ہوجائیں،اللہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنےوالا اور رحم کرنے والا ہے ۔(۱)

صحابہ کی امیرالمومنین ؑ کی طرف واپسی اور آپ کی مدد کرنا

صحابہ نے امیرالمومنین ؑ کی نصرت سے ہاتھ اٹھا کر بڑا گناہ کیا لیکن پھر انہیں احساس ہوا کہ امیرالمومنین ؑ کے ہاتھ سے خلافت نکل جانے سے کتنی خرابیاں پیدا ہوئیں اور اس احساس کی وجہ سے وہ لوگ امیرالمومنین ؑ اور اہل بیت ؑ کی طرف پلٹے اور قتلِ عثمان کے بعد امیرالمومنین ؑ کی بیعت کے لئے ممکنہ حالات پیدا ہوئے،اس لئے کہ صحابہ نے امیرالمومنین ؑ کے بارے میں جو تقصیر کی تھی اس کا انھیں احساس ہوگیا تھا ۔

قتل عثمان کے بعد صحابہ کا امیرالمومنین ؑ کی ہمراہی کرنا

قتلِ عثمان کے بعد مسلمان اجتماعی طور پر مولائے کائنات ؑ کی طرف بڑھے اور سب نے آپ کی بیعت پر اصرار کیا،اس تاریخی اتحاد کے پیچھے بہت سے آپ کے مخلص صحابہ کی تبلیغ اور امیرالمومنین ؑ کی حقانیت کا ہاتھ تھا،آپ کے مخلص صحابہ مسلمانوں کو مسلسل متوجہ کرتے رہے کہ خلافت کے اصلی حقدار مولائے کاتنات ؑ ہیں جو تمام مسلمانوں سے افضل ہیں،حالانکہ جب پوری امت عثمان کے خلاف تھی اور لوگ عثمان کی فضیحت کرنے میں لگے ہوئے تھے،تاریخ شاہد ہے کہ مولائے کائنات ؑ عثمان کے ساتھ بہت نرمی کا برتاؤ کررہے تھے اور قتلِ عثمان کے بعد بھی آپ مسلم حکومت کی سربراہی قبول کرنے پر تیار نہیں تھے،لیکن یہ صحابہ ہی تھے جنہوں نے لوگوں کو اُبھارا اور لوگ آپ کی بیعت پر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ توبہ آیت: ۱۱۸

۲۶۸

مُضر ہوگئے پھر آپ کی بیعت کے بعد آپ کی مدد بھی کی تمام جنگوں میں آپ کے ساتھ ساتھ رہے اور آپ کی حکومت کو مضبوط کرنے میں پیش پیش رہے،ان تمام باتوں کے شواہد حدیث و تاریخ کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں،میں بھی کچھ شواہد پیش کر رہا ہوں ۔

۱۔ ابوجعفر اسکافی کہتے ہیں:قتلِ عثمان کے بعد صحابہ مسجد میں جمع ہوئے اور امامت کے مسئلے پر گفتگو ہونے لگی،تو ابوھیثم ابن تیہان،رفاعہ بن رافع،مالک بن عجلان،ابوایوب انصاری اور عمار یاسر نے مشورہ دیا کہ اب تو خلافت علیؑ کو مل ہی جانی چاہئے اور علیؑ کے فضائل و مناقب،آپ کے کارنامے،آپ کا جہاد اور آپ کی پیغمبرؐ سے قرابت قریبہ کو مقام احتجاج می پیش کرتے ہوئے ان لوگوں نے طے کیا کہ علیؑ ہی مستحقِ خلافت ہیں،ان میں سے کچھ تو وہ تھے جو مولائے کائنات کو اس زمانہ میں سب سے افضل سمجھتے تھے اور کچھ کا کہنا تھا کہ امیرالمومنینؑ تمام مسلمانوں سے افضل ہیں پھر لوگوں نے آپ کی بیعت کرلی۔ (۱) جب اجلہ صحابہ نے آپ کی بیعت کرلی تو لوگوں کو آپ کی بیعت پر اُبھارا اور آپ کی طرف علی الاعلان دعوت دینا شروع کی یہ صحابہ لوگوں سے آپ کا حق،آپ کا مرتبہ اور آپ کے فضائل بیان کر کے مسلسل آپ کی طرفداری کررہے تھے اور انہوں نے آپ کی حکومت کو مضبوط کرنے میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا اور اُسے چلانے میں آپ کی بہت مدد کی۔ آئندہ صفحات میں ہم ان تصریحات کو لکھیں گے جو آپ کی فضیلت میں صحابہ کی طرف سے کی گئیں اور وہ خطبہ بھی پیش کریں گے جو آپ نے اپنی بیعت ہونے کے بعد فرمایا تھا۔

۲ ۔ اسی طرح اسکافی ان حالات پر بھی روشنی ڈ التے ہیں جو آپ کی بیعت کے بعد پیدا ہوئے،چونکہ آپ نے مال کی تقسیم برابری سے کی اور آپ کے پہلے جو حکومتیں تھیں ان کے دور میں بدکردار افراد غیر شرعی طور پر مالِ خدا سے فائدہ اٹھا رہے تھے،آپ نے ان پر اعتراض کیا اس لئے آپ سے چند افراد،جن کا غیرشرعی مفاد مجروح ہو رہا تھا آپ سے ناراض ہوگئے اور اختلاف و نفاق پیدا کرکے اپنے ناحق مطالبوں کو منوانا چاہا،اصحاب اس وقت متنبّہ ہوگئے اور اس صورتِ حال کو ختم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) شرح نہج البلاغی ج: ۷ ص: ۳۶

۲۶۹

کرنے کی بھرپور کوششیں شروع کریدں چنانچہ اسکافی لکھتے ہیں((جب مخالفین حکومت کی ساشیں سامنے آئیں تو عمار بن یاسر اپنے اصحاب کے پاس آئے اور کہنے لگے:چلو اپنے بھائیوں کے اس گروہ کے پس جو اختلاف پیدا کررہے ہیں اُن کے بارے میں ہمارے پاس کچھ خبریں پہنچی ہیں اور ہم ان کی سازشوں کو دیکھ بھی رہے ہیں کہ وہ اختلاف پیدا کررہے ہیں اور اپنے امام پر حملہ کررہے ہیں،جفاکاروں نے زبیر اور اعسرعاق یعنی طلحہ کے یہاں بہت مداخلت پیدا کرلی ہے))،

پس ابوہثیم،عمار،ابوایوب،سہل بن حنیف اور اُن کے ساتھ ایک جماعت اٹھ کھڑی ہوئی،وہ لوگ مولائے کائنات ؑ کے پاس آئے اور کہنے لگے،امیرالمومنین ؑ آپ اپنے معاملات پر غور کیجئے،قریش کی یہ شاخ(طلحہ و زبیر)((جو آپ ہی کی قوم سے ہیں))،آُ سے ناراض ہوگئی ہے انہوں نے آپ سے کیا ہوا عہد توڑ دیا ہے آپ سے وعدہ کرکے وعدہ خلافی کی ہے اور در پردہ آپ کو چھوڑ دینے کی وہ ہمیں دعوت دے رہے ہیں،خدا آپ کو آپ کے حق پر باقی رکھے،ان کی مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ وہ آپ کی رہبری کا ناگوار سمجھتے ہیں اور بیت المال سے ملنے والی اضافی امداد کو کھوچکے ہیں،چونکہ آپ نے ان کو اور کچھ لوگوں کو ایک ہی میزانِ نظر میں رکھا ہے اس لئے وہ لوگ آپ کو بُرا کہہ رہے ہیں،انہوں نے آپ پر آپ کے دشمن کو ترجیح دی ہے اور اُسے بڑھا کرکے پیش کیا ہے،وہ لوگ خونِ عثمان کا بدلہ لینے کے لئے مظاہرہ کررہے ہیں،جماعت میں فرقہ پیدا کررہے ہیں اور گمراہوں سے محبت کررہے ہیں،آپ اپنی رائے ظاہر کریں))(۱) آپ ملاحظہ کررہے ہیں کہ خاص صحابہ کس طرح امیرالمومنین ؑ کے حق کی وضاحت کررہے ہیں،آپ کی خیرخواہی میں لگے ہوئے ہیں،آپ کی طرف لوگوں کو دعوت دے رہے ہیں اور آپ کی حکومت کو مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔

۳ ۔ خفاف بن عبداللہ طائی معاویہ سے قتل عثمان کے بعد کے واقعات بیان کرتا ہوا کہتا ہے پھر لوگ علی ؑ کی بیعت کے لئے ٹوٹ پڑے جیسے کہ ٹ ڈ یوں کا لشکر آتا ہے پھر امیرالمومنین ؑ نے چلنے کا ارادہ کیا تو آپ کے ساتھ مہاجرین و انصار کا بڑا مجمع نے جھجک چل پڑا،صرف تین افراد نے آپ کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) شرح نہج البلاغی ج: ۷ ص: ۳۹

۲۷۰

قیادت میں جہاد کرنے سے گریز کیا اور وہ تین افراد،سعد بن مالک،عبداللہ بن عمر،محمد بن مسلمہ ہیں،لیکن علی ؑ نے کسی کو بھی اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہیں کیا،جو لوگ آپ کے ساتھ آسانی سے شریک ہوئے تھے ان کی وجہ سے آپ بےنیاز تھے اور جو لوگ حیل،حُجت کررہے تھے ان کی آپ نے ضرورت بھی نہیں محسوس کی ۔(۱)

۴ ۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ جنگ جمل کے لئے جب امیرالمومنین ؑ نکلے تو آپ کے ساتھ آٹھ سو انصار تھے اور چارسو بیعت رضوان والے صحابہ تھے ۔(۲) ایک روایت میں ہے کہ آپ کے ساتھ سات سو انصار تھے ۔(۳)

۵ ۔ معاویہ نے جب عبداللہ بن عمر کو خط لکھ کے مدد مانگی تو انہوں نے جواب میں لکھا((وہ نظریہ جس کی وجہ سے تمہارے دل میں لالچ پیدا ہوا ہے وہ تمہاری رائے ہے لیکن میں نے انصار و مہاجرین میں علی ؑ سے لگاؤ نہیں رکھا ہے اور طلحہ و زبیر نے ام المومنین عائشہ کو بھی چھوڑ دیا ہے تو کیا تمہاری پیروی کرلوں!

پھر ابن عمر نے ابن غزیہ سے کہا کہ اس شخص(معاویہ)کا جواب دو ابن غزیہ کا باپ ایک گوشہ نشین زاہد تھا اور وہ خود قریش کا سب سے بڑا شاعر تھا،اس نے ابن عمر کی فرمائش پر معاویہ کے خط کے جواب میں کچھ اشعار کہے ۔

ترجمہ اشعار:ہم نے علی ابن ابی طالب ؑ کو اصحابِ محمد ؐ کے درمیان چھوڑ دیا ہے حالانکہ ہمیں امید نہیں تھی کہ وہ جس چیز(خلافت)سے دور رکھے گئے ہیں اس پالیں گے انصار ان کے ساتھ ہیں اور مہاجرین کی ہمدردیاں بھی ان کے ساتھ ہیں اور مہاجرین و انصار علی ؑ کی قیادت میں شیروں کی طرح جال میں جکڑے ہوئے ہیں یعنی سب ان کے ساتھ ہیں ۔(۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) وقعۃ صفین ص: ۶۵ الامامۃ و السیاسۃ ج: ۱ ص: ۷۴ ،شرح نہج البلاغہ ج: ۳ ص: ۱۱۱

( ۲) تاریخ خلیفہ بن خیاط ج: ۱ ص: ۱۸۴ ،جنگ جمل کے تفصیلی واقعات،العقد الفرید ج: ۴ ص: ۲۸۹ ،جنگ جمل

( ۳) انساب الاشراف ج: ۳ ص: ۳۰

( ۴) وقعۃ صفین ص: ۷۲ ۔ ۷۳

۲۷۱

۶ ۔ محمد بن ابی بکر ایک خط معاویہ کو لکھا اور اس میں مولا علی ؑ کے فضائل کا تذکرہ کیا لکھتے ہیں:اور علی ؑ کے ساتھ علی ؑ کے فضائل اور آپ سابقات تو ہیں ہی اس کے علاوہ وہ مہاجرین و انصار ہیں جن کے فضائل قرآن بیان کرتا ہے اور اللہ ان کی تعریف کرتا ہے وہ علی ؑ کے مددگار ہیں علی ؑ سے شدید محبت کرتے ہیں اور ہمیشہ آپ کو گھرے رہتے وہ اپنی تلواروں کو جنبش دیتے ہیں اور علی ؑ کے لئے اپنا خون بہانے کو ہمیشہ تیار رہتے ہیں ۔(۱)

۷ ۔ امیرالمومنین ؑ جنگ جمل میں جانے کے لئے نکلے اور جب مقام فید پر پہنچے تو آپ کی خدمت میں قبیلہ بنی اسد اور قبیلہ طے حاضر ہوا اور آپ کی قیادت میں جہاد کرنے کے لئے خود کو یپش کیا،آپ نے فرمایا تم لوگ اپنے قریے(گاؤں)میں ہی رہو!میرے لئے مہاجرین کافی ہیں،(۲)

۸ ۔ امیرالمومنین ؑ نے معاویہ کو ایک خط لکھا((میں صحراؤں کو قطع کرتا ہوا تیری طرف بڑھ رہا ہوں،میرے ساتھ مہاجرین و انصار کی بڑی جماعت ہے اور ان کی اولاد جو نیکی میں اُن کی پیروی کرتی ہے وہ بڑی فوج کی صورت میں گرد اُراتے ہوئے تیری طرف بڑھ رہے ہیں اُن کے ساتھ اصحاب بدر کی ذرّیت اور ہاشمی تلواریں بھی ہیں ۔(۳)

۹ ۔ حضرت عقیل بن ابی طالب ؑ نے معاویہ سے کہا:جس روز میں تیرے پاس آنے کے لئے نکلا ہوں میں نے علی ؑ کے ساتھیوں پر نظر کی تو مجھے نہیں نظر آتے مگر مہاجرین و انصار اور تیرے ساتھیوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے دکھائی نہیں دیتے مگر طلقا کی اولاد اور جنگ احزاب کے بقیۃ السیف ۔(۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) وقعۃ صفین ص: ۱۱۹ ،شرح نہج البلاغہ ج: ۳ ص: ۱۸۸ ،مروج الذھب ج: ۳ ص: ۲۱ ،حالات معاویہ

( ۲) الکامل فی التاریخ ج: ۳ ص: ۱۱۷ ،الفتنۃ و وقعۃ الجمل ج: ۱ ص: ۱۳۷ ،تاریخ طبری ج: ۳ ص: ۲۴ ،شرح نہج البلاغہ ج: ۱۴ ص: ۱۸

( ۳) نہج البلاغہ ج: ۳ ص: ۳۵ ،شرح نہج البلاغہ ج: ۱۵ ص: ۱۸۴ ،مناقب الامام علی لابن الدمشقی ج: ۱ ص: ۷۳۷ ،ینابیع المودۃ ج: ۳ ص: ۴۴۷

( ۴) الموفقیات ص: ۳۳۵

۲۷۲

۱۰ ۔ حدیثوں میں لشکر کا بیان دیا ہوا ہے:امیرالمومنین ؑ کے لشکر کی ترتیب جنگِ صفین میں کچھ اس طرح تھی کہ امیرالمومنین ؑ خود قلبِ لشکر میں تشریف فرما تھے اور آپ کے ساتھ اہل مدینہ،اہلِ کوفہ اور اہل بصرہ تھے مدینہ والوں میں سب سے بھاری تعداد انصار کی تھی ۔(۱) - ۱۱ ۔ نصر بن مزاحم اپنی اسناد سے ابوسنان اسلمی سے روایت کرتے ہیں کہ جب مولا علی ؑ کو یہ بتایا گیا کہ معاویہ اور عمروعاص خطبہ دے دیلے لوگوں کو آپ کے خلاف ورغلا رہے ہیں تو آپ نے حکم دیا کہ لوگوں کو جمع کیا جائے،راوی کہتا کہ گویا میں علی ؑ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ نے اپنی کمال پر تکیہ لگا رکھا ہے،اصحاب پیغمبر ؐ آپ کے پاس جمع ہوگئے ہیں اور آپ کو اس طرح گھیر رکھا ہے جیسے لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ اصحابِ پیغمبر ؐ کا سب سے بڑا مجمع آپ کے ساتھ ہے ۔(۲)

۱۲ ۔ عمرو بن عاص نے معاویہ سے کہا:تم اہل شام کو ایسے آدمی سے لڑانا چاہتے ہو جو محمد ؐ سے قرابت قربیہ تو رکھتا ہی ہے اس کے ساتھ ہی تمہاری طرف اصحاب پیغمبر ؐ کی ایک بڑی جماعت لیکے آ رہا ہے،اصحاب محمد ؐ میں شہسوار بھی ہیں،قاریان قرآن بھی ہیں،قدیم الاسلام بھی ہیں،یہ ایسے لوگ ہیں جن کی لوگوں کے دلوں پر ہیبت بیٹھی ہوئی ہے ۔(۳)

۱۳ ۔ سعید بن قیس نے اپنے اصحاب کو خطاب کیا،انہوں نے اپنے خطبہ میں کہا:خداوند عالم نے ہمیں اپنی خاص نعمت سے مخصوص کیا ہے،ہم اس کا شکر ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے،اور اس کی کما حقّہ قدر نہیں نہیں کرسکتے،محمد ؐ کے چُنے ہوئے اصحاب((جو اہل خیر بھی ہیں))ہمارے ساتھ ہیں،اُس خدا کی قسم جو اپنے بندوں کے حال سے وقف ہے اگر ہمارا قائد نکّٹا حبشی بھی ہوتا اور بدری سپاہیوں میں ستر افراد کی تعداد ہمارے ساتھ ہوتی تو ہمیں فخر محسوس ہوتا اور ہماری سمجھداری قابلِ تعریف ہوتی،چہ جائے کہ ہمارا قائد پیغمبر ؐ کا ابنِ عم ہے ۔(۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ طبری ج:۳ص:۸۴،لوگوں کو جنگ پر آمادہ کرنے کی تیاری

(۲)وقعۃ صفین ص:۲۲۳

(۳)وقعۃ صفین ص:۲۲۲

(۴)وقعۃ صفین ص:۲۳۶۔۲۳۷،شرح نہج البلاغہ ج:۵ص:۱۸۹،جمبرۃ خطب العرب ج:۱ص:۳۵۵،سعید بن قیس کے خطبہ میں

۲۷۳

۱۴ ۔ نصر کہتے ہیں کہ معاویہ نے نعمان بن بشیر اور مسلمہ بن مخلد انصاری کو بلایا بس یہی دو انصاری اس کے ساتھ تھے تو معاویہ نے کہا،اے دونو!مجھے اوس و خزرج کی طرف سے بہت غم ہوا ہے،انہوں نے اپنی تلواریں اپنے کاندھوں پر رکھی ہوئی ہیں اور مسلسل جنگ کی طرف بلا رہے ہیں یہاں تک کہ ہمارے اصحاب ڈ رگئے چاہے وہ بہادر ہوں یا بُزدل،اب حالت یہ ہے کہ جس شامی شہسوار کے بارے میں پوچھتا ہوں جواب ملتا ہے کہ اُسے انصار نے مار ڈ الا،انصار میدانِ جنگ میں نعرہ لگا رہے تھے کہ ہم انصار ہیں،میں مانتا ہوں انہوں نے رسول اسلام ؐ کو پناہ دی اور نُصرت بھی،لیکن انہوں نے اپنے تمام حقوق کو باطل کام(میری مخالفت)کرکے باطل کردیا ۔

جب معاویہ کی یہ باتیں انصار تک پہنچیں تو قیس بن سعد انصاری نے انصار کو جمع کیا اور خطبہ دینے کھڑے ہوئے،خطبہ میں کہا:معاویہ نے جو کچھ کہا ہے وہ آپ لوگوں کو معلوم ہوچکا ہے،میری جان کی قسم اگر آج آپ نے معاویہ کو غصہ دلایا ہے تو کوئی نئی بات نہیں ہے کل بھی آپ لوگوں نے غضب ناک کیا تھا اور اگر زمانہ اسلام میں آپ لوگوں نے معاویہ کو پچھاڑا ہے تو زمانہ کفر میں بھی آپ لوگ اسے پچھاڑ چکے ہیں، ۔ آپ اس کے خلاف جنگ کرکے کوئی گناہ نہیں کررہے ہیں بلکہ یہ تو آپ اس دین کی نصرت میں کررہے ہیں جس کی آپ پیروی کرتے ہیں،آج تو وہ کارنامہ انجام دیجئے جو کل کے کارناموں کو بُھلادے اور کل انشااللہ ایسے کام کیجئے گا جسے دیکھ کر لوگ آج کے کارنامے بھول جائیں(آپ لوگ تو منزل یقین پر فائز ہیں)آپ تو اس عَلم کے سارئے میں کھڑے ہیں جس عَلم کے داہنی طرف جبرائیل ؑ اور بائیں طرف میکائیل کھڑے ہو کے جہاد کرتے تھے جب کہ معاویہ کی قوم ابوجہل اور احزاب کے جھن ڈ ے کے ساتھ ہے ۔(۱)

۱۵ ۔ معاویہ نے نعمان کو بُلا کر میدان میں بھیجا کہ وہ قیس بن سعد بن عبادہ کو سمجھائے اور اُن سے کہے کہ وہ جنگ نہ کریں،نعمان نکلا اور دونوں صفوں کے درمیان کھڑا ہوا پھر اس نے کہا:اے قیس ابن سعد میں نعمان بن بشیر ہوں،یہ سُن کر قیس بن سعد نکلے اور دونوں میں گفتگو ہونے لگی،قیس نے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) وقعۃ صفین ص: ۴۴۵ ۔ ۴۴۷

۲۷۴

دورانِ گفتگو کہا:خدا کی قسم اگر تمام عرب بھی معاویہ کے ساتھ ہوجاتا جب بھی انصار تو اُس سے لڑتے ہی اور تم جو یہ کہہ رہے ہو کہ ہم عام لوگوں کی طرح نہیں ہیں تو سنو!ہم لوگ اس جنگ میں اس طرح ہیں جیسے پیغمبر ؐ کے ساتھ تھے،اپنے چہروں کو تلواروں کی ڈ ھال اور گردنوں کو نیزوں کا نشانہ بنارہے ہیں،تا کہ حق کی فتح ہو اور امرِ خدا ظاہر ہوجائے اور دشمن کو یہ بات ناگوار گذرتی ہے تو گذرے نعمان ذرا دیکھو تو کہ معاویہ کے ساتھ کون لوگ ہیں؟یا تو طلیق ہیں،یا عرب کے دیہاتی یا خطہ یمن کے کچھ لوگوں کو دھوکہ سے ساتھ میں ملایا گیا ہے،دیکھو تو مہاجرین و انصار اور نیکی میں اُن کی پیروی کرنے والے جن سے خدا راضی ہے،کہاں پر ہیں؟پھر دیکھو!معاویہ کے ساتھ اپنے اور اپنے حقیر ساتھی(مسلمہ انصاری)کے علاوہ کسی اور انصاری کو بھی پاتے ہو؟اور تم دونوں نہ بدری ہو،نہ اُحد کے جانبازوں میں،نہ تم نے اسلام میں سبقت کی ہے،نہ تمہاری شان میں قرآن کی کوئی آیت اتری ہے،خدا کی قسم تم نے آج ہمیں دھوکہ دیا ہے تو ہمیں کوئی تعجب نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے تمہارے باپ ہم سے غداری کرچکے ہیں ۔(۱)

بشیر بن سعد جو نعمان کا باپ تھا سب سے پہلے اسی نے ابوبکر کی بیعت کی تھی،جناب قیس بن سعد کا اشارہ((اس کے باپ کی غداری ہے))اسی طرف ہے،یہ بھی مشہور ہے کہ اس کے باپ نے یا تو سب سے پہلے بیعت(۲) کی تھی یا ان لوگوں میں شامل تھے جن کو بیعتِ ابوبکر میں اوّلیت حاصل ہے ۔

۱۶ ۔ واقعات صفین کے ذیل میں بیان کیا جاتا ہے کہ عمار بن یاسر نے بَدری سپاہیوں کی ایک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) وقعۃ صفین ص: ۴۴۹ ،شرح نہج البلاغی ج: ۸ ص: ۸۷ ۔ ۸۸ ،الامامۃ و السیاسۃ ج: ۱ ص: ۹۱ ۔ ۹۲ ،جمبرۃ خطب العرب ج: ۱ ص: ۳۶۷ ،خلافت امام علیؑ

( ۲) تاریخ یعقوبی ج: ۲ ص: ۱۲۴ ،الریاض النضرۃج: ۲ ص: ۲۱۵ ،الصابۃ ج: ۱ ص: ۳۱۱ ،فتح الباری ج: ۷ ص: ۳۱ ،الطبقات الکبری ج: ۳ ص: ۱۸۲)

۲۷۵

بڑی تعداد لیکے اور دوسرے مہاجرین و انصار کے ساتھ عمروعاص پر حملہ کیا اس وقت وہ تنوخ اور نہد جیسے شامیوں کی قیادت کررہا تھا(۱)

۱۷ ۔ ابوعبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ:میں جنگ صفین کے نزدیک سے دیکھنے والے افراد میں سے ہوں وہ کہتے ہیں کہ:میں نے عمار یاسر کو دیکھا کسی بھی میدان یا وادی میں دکھائی نہیں دئیے مگر یہ کہ اصحاب محمد ؐ اُن کے ساتھ ساتھ جیسے کہ عمار یاسر اُن کے عَلَم ہوں جس کو وہ گھیرے رہتے تھے ۔(۲)

۱۸ ۔ ام الخیر بنت حریش نے عمار کی شہادت پر کہا:اے گروہِ مہاجرین و انصار!صبر کرو،اپنے پروردگار کی طرف سے بصیرت لے کے اپنے دین پر ثابت قدمی کے ساتھ جہاد کرتے رہو ۔(۳)

۱۹ ۔ عکرشہ بنت ائدطش یا اطرش نے جنگ صفین میں کہا:اے گروہِ مہاجرین و انصار!اپنے دین سے بصیرت لیکے جہاد کرتے رہو ۔(۴)

اس کے علاوہ بھی بہت سے شواہد ہیں لیکن اختصار کے پیش نظر میں انہیں پیش نہیں کر رہا ہوں یہ تمام واقعات اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ جنگ صفین و جمل میں پیغمبر اعظم ؐ کے بلند مرتبہ اصحاب،مولائے کائنات حضرت علی ؑ کے ساتھ تھے اور آپ کو حقدارِ خلافت تسلیم کرکے آپ کے مخالفین سے جنگ کررہے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) مروج الذھب ج: ۲ ص: ۳۷۵

( ۲) الاستیعاب ج: ۳ ص: ۱۱۳۸ تاریخ طبری ج: ۳ ص: ۹۹ ،مقتل عمار بن یاسر،المجموع فی شرح المہذب للنوری ج: ۱۹ ص: ۱۶۲ ،شرح نہج البلاغہ ج: ۱۰ ص: ۱۰۴ ،اسد الغابہ ج: ۴ ص: ۴۶)

( ۳) جمبرۃ خطب العرب ج: ۱ ص: ۳۷۱ ،تاریخ دمشق ج: ۷ ص: ۲۳۵ ،العقد الفرید ج: ۲ ص: ۹۰ ،صبح الاعشی فی صناعۃ الانشاء ج: ۱ ص: ۲۹۷ ،بلاغات النساء ص: ۳۸ ،ام الخیر بنت حریش بارقینہ کی گفتگو کے ذیل میں،

( ۴) بلاغات النسا ص: ۷۱ ،العقد الفرید ج: ۲ ص: ۸۶ صبح الاعشی فی صناعۃ الانشا ج: ۱ ص: ۳۰۱ ،جمبرۃ خطب العرب ج: ۱ ص: ۳۶۸ ۔ ۳۶۹ ،واقعۃ صفین میں شیعیت سے لبریز خطبے اور عکرشہ بنت اطرش کا خطبہ،

۲۷۶

امیر المومنین علیہ السلام کی طرف سے اصحابِ پیغمبر ؐ بڑے اور ذمہ دار عہدوں پر رکھے جاتے تھے

امیرالمومنین ؑ کے خاص لوگوں میں اصحابِ پیغمبر ؐ ہی تھے جن میں سے کچھ آپ کے لشکر کے قائد اور کچھ مختلف شہروں کے گورنر بنائے گئے تھے،بڑی ذمہ داریاں،نمایاں اصحاب کو دی جاتی تھیں،جیسے عمار بن یاسر،ابوایوب انصاری،حذیفہ بن یمان،ابن تیہان،ذوالشھادتین،قیس بن سعد بن عبادہ،عمروہ بن حمق خزاعی،ہاشم بن عتبہ مرقال،عدی بن حاتم طائی،عبداللہ اور محمد دونوں بدیل بن ورقۃ خزاعی کے فرزند ہیں،سھل اور عثمان دونوں حنیف کے صاحبزادے ہیں،جابر بن عبداللہ انصاری و غیرہ ۔

امیرالمومنینؑ کا اپنے خاص اصحاب کے لئے گریہ و اضطراب

امیرالمومنین ؑ اپنے اصحاب خاص کو بہت شدت سے یاد فرماتے تھے،خصوصاً اس وقت جب آپ لوگوں کو جہاد کی دعوت دیتے تھے تو اپنے خطبوں میں ان صحابہ کرام کا تذکرہ بڑے دل پذیر انداز میں کرتے تھے،ایک خطبہ میں آپ فرماتے ہیں کہ((کہاں ہیں میرے وہ بھائی جو راہِ خدا پر چلے اور حق پر ہی گزرگئے،کہاں ہیں عمار،کہاں ہیں ابن تیہان،کہاں ہیں ذوالشھادتین اور ان کے جیسے لوگ،میرے وہ بھائی جنہوں نے موت سے شرط باندھ رکھی تھی اور جن کے بریدہ سر فاجروں کے دل کو ٹھن ڈ ا کرتے تھے،راوی کہتا ہے کہ پھر آپ نے اپنے ریشِ مبارک و مقدس پر ہاتھ پھیرا اور بہت دیر تک روتے رہے پھر فرمایا:ہائے میرے وہ بھائی جنہوں نے قرآن کی تلاوت کی تو اسی کو حاکم قرار دیا،فرض پر غور کیا تو اس کو قائم کیا،سنت پیغمبر ؐ کو وہ زندہ کرتے تھے اور بدعتوں کو مٹاتے تھےمجہاد کے لئے بلائے جاتے تو لبیک کہتے تھے،انہوں نے اپنے قائد پر بھروسہ کیا تو اس کی پیروی کی)) ۔(۱)

امیرالمومنین ؑ کے بعد بھی ان میں سے کچھ مقدس افراد امام حسن ؑ کے دور تک باقی رہے،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)نہج البلاغہ ج:۲ص:۱۰۹

۲۷۷

جب امام حسن ؑ صاحبِ امر ہوئے تو وہ افراد آپ کے ساتھ تھے یہاں تک کہ امام ؑ نے معاویہ سے مصالحت کی جب بھی وہ لوگ موجود تھے وہ امام ؑ پر جان نچھاور کرتے تھے اور آپ کے اہل بیت ؑ کے شیدائی تھے ۔

معاویہ اصحاب امیرالمومنینؑ سے انتقام لیتا ہے

معاویہ نے اصحاب علی ؑ کو مجرم محبت علی ؑ کی خوب سزادی ایک ایک سے چُن چُن کے بدلہ لیا،کسی کو قتل کرایا،کسی کو زندگہ دفن کرایا،کسی کو سولی پر چڑھایا،صرف اس لئے کہ وہ محبتِ علی ؑ اور ولائے پیغمبر ؐ میں گرفتار تھے اور مولائے کائنات ؑ کے بعد بھی معاویہ کے مخالفت تھے،یہاں تک کہ اس نے عمرو بن حمق خزاعی جیسے جلیل القدر صحابی کو آوارہ وطن ہونے پر مجبور کردیا اور جب وہ مومن شہید ہوگئے یا مرگئے تو ان کا سر کاٹ کے معاویہ کے پاس بھیج دیا گیا،اُس نے عمرو بن حمق کی بیوی کو قید کر رکھا تھا،عمرو بن حمق کے سر کو آپ کی بیوی کی گود میں رکھ دیا وہ مومنہ اپنے شوہر کا سر دیکھ کے رونے لگی اور بولی:بہت دنوں تک تم لوگوں نے اِن کو ہم سے دور رکھا تھا اور جب ہمیں ملایا تو تو ان کی شہادت کے بعد ملایا ۔(۱)

حجر بن عدی اور اصحاب حجر کی شہادت پر مسلمانوں کا اظہار نفرت

معاویہ نے عظیم المرتبہ صحابہ حجر بن عدی کو اُن کی جماعت کے ساتھ مرج عذرا کی چراگاہ میں شہید کردیا یہ بہت مشہور واقعہ ہے،ان لوگوں کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے معاویہ کے گورنرز یاد کی کوفہ پر حکومت سے انکار کردیا تھا اور اس کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام سے اظہار بر ات ب ھی نہیں کی،حجر و اصحابِ حجر کی شہادت سے عالمِ اسلام میں ایک شور برپا ہوگیا اور لوگ معاویہ کو ملعون و فاسق کہنے لگے،ہر مسلمان نے اس حادثہ فاجعہ کو اپنے طور پر اسلام اور مسلمان کے لئے ایک بڑی مصیبت سمجھا،چنانچہ دیکھئے!یہ عائشہ ہیں:جو حجر بن عدی کی شہادت پر معاویہ سے بہت ناراض

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) اسد الغابہ ج: ۴ ص: ۱۰۱ ،حالاتعمر بن الحمق،بدایہ و النہایہ ج: ۸ ص: ۴۸ ،تاریخ دمشق ج: ۶۹ ص: ۴۰

۲۷۸

ہیں،جب شام پہنچیں اور معاویہ سے براہِ راست ملاقات ہوئی تو کہنے لگیں:اے معاویہ!تجھے حجر و اصحاب حجر کو قتل کرنے میں اللہ کا خوف محسوس نہیں ہوا؟(۱)

دوسری روایت میں ہے کہ عائشہ نے کہا:کاش معاویہ کو معلوم ہوتا کہ کوفہ میں اس کی جسارتوں کو روکنے والے موجود ہیں تو وہ یہ جرات نہ کرتا کہ حجر اور اصحاب حجر کو کوفہ سے اٹھالے اور شام لے جاکے انھیں قتل کردے لیکن جگرِ خوارہ کا بیٹا یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ مردِ راہ حق اب نہیں رہے،خدا کی قسم اگر وہ ہوتے تو....))(۲) دوسرے مقام پر بھی انہوں نے معاویہ سے کہا:اے معاویہ!تو نے جو ظلم حجر اور اصحابِ حجر پر کیا(۳) اور انہیں شہید کردیا اس کی وجہ کیا تھی تجھے اس فعلِ قبیح پر کس نے مجبور کیا؟(۴)

جب عبداللہ بن عمر کو خبرِ شہادت حجر ملی تو وہ بازار میں تھے،انہوں نے یہ کبر سنتے ہی پُشت سے بندھا ہوا کپڑا چھوڑ دیا اور کھڑے ہوگئے پھر بڑی شدت سے روئے ۔(۵) جب ربیع بن زیاد کو یہ خبر ملی((جو معاویہ کے گورنر تھے))تو انہوں نے دعا کی:پالنے والے اگر ربیع کا کوئی نیک عمل تجھے پسند آیا تو اب ربیع کو اس دنیا سے اٹھالے ۔(۶) حسن بصری نے کہا:معاویہ کے اندر خرابیاں ہیں جن میں سے ہر ایک اس کی ہلاکت کے لئے کافی ہیں،ایک تو اس امت پر زبردستی مسلّط ہوجانا،دوسرے حجر و اصحاب حجر کو شہید کرنا،حجر کی وجہ سے اُس پروائے ہو حجر کی وجہ سے اس پروائے ۔(۷)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) تاریخ طبری ج: ۳ ص: ۵۱،۲۳۲ سنہکےواقعات

( ۲) الاستیعاب ج: ۴ ص: ۱۲۶ حالات جعفر ابن عدی

( ۳) البیان و التعریف ج: ۲ ص: ۷۲ ،فیض القدیر ج: ۴ ص: ۱۲۶

( ۴) تاریخ طبری ج: ۳ ص: ۲۳۲ ،اور تاریخ دمشق ج: ۱۲ ص: ۲۲۶ ۔ ۲۲۹ ۔ ۲۳۰

( ۵) الاستیعاب ج: ۱ ص: ۳۳۰ ،تاریخ دمشق ج: ۱۲ ص: ۲۲۷ ۔ ۲۲۸ ۔ ۲۲۹ ،بدایہ النہایہ ج: ۸ ص: ۵۵

( ۶) الاستیعاب ج: ۱ ص: ۳۳۰ ،تھذیب التھذیب ج: ۳ ص: ۲۱۱ ،تھذیب الکمال ج: ۹ ص: ۷۹

( ۷) تاریخ طبری ج: ۳ ص: ۲۳۲ ،الاستیعاب ج: ۱ ص: ۳۳۱ ،الکامل فی التاریخ ج: ۳ ص: ۳۳۷ ،ینابیع المودۃ ج: ۲ ص: ۲۷ ،شرح نہج البلاغہ ج: ۲ ص: ۲۶۲)

۲۷۹

اس منزل میں دوسرے فقرے بھی ہیں جو مسلمانوں نے کہے،مسلمانوں نے شہادتِ حجر کی شدت سے مخالفت کی ہے،رضوان اللہ علیھم اجمعین(۱)

لیکن میں اس جگہ وہ تمام باتیں عرض نہیں کروں گا،شہادت حجر کے بیان کو ختم کرنے سے پہلے صرف اس پیشین گوئی کے ذکر پر اکتفا کرتا ہوں جو سرکار دو عالم ؐ نے حجر اور اصحاب حجر کی شہادت کے سلسلے میں فرمائی تھی،آپ فرماتے ہیں((عذرا میں سات ایسے افراد شہید کئے جائیں گے جن کی شہادت پر خدا اور آسمان والے غضبناک ہوں گے)) ۔(۲)

معاویہ نے اپنے تاریک دور میں اصحابِ علی ؑ پر بہت سختیاں کی ہیں ۔ صرف اس وجہ سے کہ ان کے دل میں محبت علی ؑ تھی اور وہ اہل بیت علیھم السلام کے چاہنے والے تھے،تاریخیں ایسے واقعات سے بھری پڑی ہیں اور کسی پر بھی معاویہ کی یہ حرکتیں پوشیدہ نہیں ہیں ۔

(معاویہ انصارِ خدا سے شدیدترین بغض رکھتا تھا،جب وہ مدینہ آیا تو اس سے ابوقتادہ انصاری کی اچانک ملاقات ہوگئی،معاویہ نے کہا:ابوقتادہ تمام مسلمان ہم سے ملنے کے لئے آئے سوائے تم انصاریوں کے،آخر تم لوگوں کو کس نے روکا ہے؟انہوں نے کہا:ہمارے پاس سواریاں نہیں تھیں،پوچھا تہمارے اونٹ کیا ہوئے؟فرمایا:بدر کے دن تم کو اور تمہارے باپ کو تلاش کرنے سے تھکے ہوئے تھے،کہنے لگا ٹھیک کہہ رہے ہو اے ابوقتادہ! ۔ ابوقتادہ نے کہا:ہادی برحق نے ہمیں خبر دی ہے کہ ہم لوگ نبی ؐ کے بعد کچھ نشانیاں دیکھیں گے،پوچھا:پھر نبی ؐ نے اس وقت کے لئے کوئی حکم بھی تو دیا ہوگا؟کہا:ہاں ہمیں صبر کا حکم دیا ہے،کہنے لگا:پھر صبر ہی کرو یہاں تک کہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) تاریخ طبری ج: ۳ ص: ۲۳۲ ۔ ۲۳۳ ،تاریخ دمشق ج: ۱۲ ص: ۲۱۹ ۔ ۱۳۲ ۔ ۲۳۳ ،بدایہ و النہایہ ج: ۸ ص: ۵۴ ۔ ۵۵

( ۲) انساب الاشراف ج: ۵ ص: ۲۷۴ ،تاریخ دمشق ج: ۱۲ ص: ۲۲۶ ،جامع الصغیر ج: ۲ ص: ۶۱ ،حدیث ۴۷۶۵ ،بدایہ و النہایہ ج: ۶ ص: ۲۲۶ ،مقتل حجر بن عدی ج: ۸ ص: ۵۵ ،کنز العمال ج: ۱۱ ص: ۱۲۶ ،حدیث: ۳۰۸۸۷ ،ج: ۱۳ ص: ۵۸۷ ،حدیث ۳۷۵۰۹ ،ص: ۵۸۸ حدیث: ۳۷۵۱۰ ،تاریخ یعقوبی ج: ۲ ص: ۲۳۱ ،النصائح الکافیہ ص: ۸۳ ،فیض القدیر ج: ۴ ص: ۱۲۶ ،اور اسی طرح اصابہ میں ج: ۲ ص: ۳۸

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367