فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ15%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207113 / ڈاؤنلوڈ: 6030
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

دن بڑا عظیم دن ہے اس دن اللہ تعالی نے حضرت موسیعليه‌السلام اور ان کی قوم کو نجات بخشی نیز فرعون اوراسکی قوم کو غرق کیا ''_ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' میں موسیعليه‌السلام سے بہتر ہوں تم سے زیادہ روزے کا حقدار ہوں '' _پس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اس دن روزہ رکھا اوردوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا(۱) _

نیز صحیحین اور دیگر کتابوں میں حضرت عائشہ اور دیگر افراد سے روایت ہے کہ قریش زمانہ جاہلیت میں عاشور کے دن روزہ رکھتے تھے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اس روز روزہ رکھتے تھے_ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی تو اس دن خود بھی روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حکم بھی ارشاد فرمایا _جب ماہ مبارک رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :'' جو چاہے اس (عاشور کے )دن روزہ رکھے اور جوچاہے ترک کردے اسے اختیار ہے ''(۲) _

مسلم و غیرہ نے ذکر کیا ہے کہ آنحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی رحلت کے صرف ایک سال پہلے روز عاشور کو روزہ رکھا تھا(۳) _

ان روایات کا جھوٹ:

ہمارا عقیدہ ہے کہ یہ سب خیال بافیاں ہے_کیونکہ:

۱_ ان روایات کی اسناد مشکوک اور قابل اعتراض ہیں _خصوصاً ان روایات کے اکثر راوی مشکوک ، قابل اعتراض اور متہم ہیں_ ان میںابوموسی اشعری جیسے کئی ایسے بھی ہیں جوہجرت کے کئی سال بعد مدینہ آئے نیز ابن زبیر جیسے کئی ایسے بھی ہیں جو ہجرت کے موقع پر بچے تھے _پس وہ اس سے پہلے کے حالات کی گواہی

____________________

۱)المصنف ج/۴ ص ۲۸۹ و ۲۹۰ ، البخاری مطبوعہ المیمنیة ج/ ۱ ص ۲۴۴ ، صحیح مسلم مطبوعہ صبیح در مصر ج/۳ ص۱۵۰،السیرة الحلبیہ ج/۲ص ۱۳۲ ، ۱۳۳، تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۶۰،البدایة والنہایة ج/۱ص۲۷۴ و ج/ ۳ ص ۳۵۵ ، تفسیر ابن کثیر ج/۱ سورة بقرہ میں ماہ رمضان کے روزوں والی آیات، مشکل الآثار ج/۳ ص ۸۵ ،۹۰و زاد المعاد ج ۱ ص ۱۶۴ و ۱۶۵_

۲)گذشتہ حوالہ جات ،نیز الموطا ج /۱ ص۲۷۹ ، البخاری طبع مشکول ج/۵ ص ۵۱ ، مشکل الآثار ج/۳ ص ۸۶ و ۸۷ و زاد المعاد ج ۱ ص ۱۶۴ و ۱۶۵_

۳) صحیح مسلم ج/ ۳ ص ۱۵۱_

۱۶۱

کیسے دے سکتے ہیں؟اس کے علاوہ ان روایات میں معاویہ جیسے کئی ایسے بھی ہیں جو ہجرت کے چند سال بعد فتح مکہ کے موقع پر اسلام لائے _

۲_ان روایات میں تناقض پایا جاتاہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا مثلاً:

ایک روایت یہ کہتی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ میں یہودیوں کی پیروی میں عاشورا کے دن روزہ رکھتے تھے اورخود آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس بارے میں کوئی علم نہ تھا_ دوسری روایت یہ کہتی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اسی طرح مشرکین بھی زمانہ جاہلیت میں روزہ رکھتے تھے_ تیسری روایت یہ کہتی ہے کہ جب ماہ مبارک رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے روز عاشورا کا روزہ ترک فرمایا _ ایک اور روایت یہ کہتی ہے کہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے روزہ رکھا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا گیا کہ یہودیوں کے نزدیک یہ دن بڑا باعظمت ہے اسکے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عہد کیا کہ آئندہ سال ۹ محرم کو روزہ رکھیں گے لیکن اس سے پہلے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت ہوگئی(۱) اور فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہونے والے معاویہ کی روایت کہتی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب کو اس دن کے روزے کا حکم نہیں دیا تھا _ بلکہ ان سے فرمایا تھا کہ خدانے اس دن کے روزے کو تم پر فرض نہیں کیا لیکن میں روزہ دار ہوں اس لئے تم میں سے جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے کھائے پئے_

روایات میں ان اختلافات کے علاوہ اور بھی اختلافات اور مسائل ہیں جو دقت و تحقیق سے ظاہر ہوسکتے ہیںان میں سے بعض کو ابن قیم نے بھی ذکر کیا ہے(۲) _ مذکورہ بالا اختلافات سے اگر ہم چشم پوشی کرلیں تو بھی مندرجہ ذیل پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں_

۱لف: سب سے پہلی روایت سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے برادر حضرت موسیعليه‌السلام کی سنت و سیرت سے آگاہ نہ تھے جبکہ یہ امر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہودیوں سے سیکھا اور پھر انہی ہی کی پیروی کی _ ان کے نزدیک تو شاید اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی اس میں کوئی مضائقہ ہے کیونکہ (نعوذباللّه و نستغفر اللّه من

____________________

۱)صحیح مسلم ج ۳ ص ۱۵۱ نیز گذشتہ منابع _

۲) ملاحظہ ہو : زاد المعاد ج ۱ ص ۱۶۴و ۱۶۵_

۱۶۲

ذلک ) یہی لوگ روایت کرتے ہیں کہ جن امور میں وحی نازل نہیں ہوئی تھی ان میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اہل کتاب کی موافقت اور پیروی کرنا پسند فرماتے تھے(۱) _لیکن پھر بعض مقامات پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے متعلق ایسی روایتیں نقل کرتے ہیں جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عمل کے بالکل برخلاف ہیں _

ان روایات کے نتیجے میں تو ان لوگوں کے نزدیک خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات گرامی میں ہمیشہ تناقض عمل پایا جاتا رہا یہاں تک کہ اس مقام میں بھی _ وہ اس طرح کہ یہاں تو یہودیوں کی پیروی فرماتے ہیں لیکن اذان کے مسئلے میں یہودیوں کی طرح بگل بجانے اور عیسائیوں کی طرح ناقوس بجانے کی مخالفت فرماتے ہیںنیز حائضہ عورت کے مسئلے میں بھی ان کی مخالفت فرماتے ہیں_

حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوسروں کو یہود و نصاری کا رنگ ڈھنگ اختیار کرنے سے منع اور اسلام میں انکی اتباع کی مخالفت فرماتے ہیں(۲) _بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ مخالفت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ یہودی کہنے لگے تھے :'' یہ شخص چاہتا کیا ہے ؟ یہ تو ہر بات میں ہماری مخالفت کرتاہے''(۳) ابن الحاج کہتاہے: '' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمام امور میں اہل کتاب کی مخالفت فرماتے تھے اور ان کی موافقت ناپسند فرماتے تھے _ یہاں تک کہ یہودی پکار اٹھے کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو ہر بات میں ہماری مخالفت کرتاہے''(۴) _

ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ '' جو کسی قوم سے مشابہت اختیارکرتا ہے وہ انہی میں سے شمار ہوتا ہے''(۵) _

ب: محرم کے دسویں دن پر عاشورا کا اطلاق حضرت امام حسینعليه‌السلام ، آپعليه‌السلام کے اہل بیتعليه‌السلام اور اصحاب رضوان اللہ تعالی علیھم کی شہادت کے بعد ائمہ اہل بیت علیھم السلام اور آپعليه‌السلام کے شیعوں کی جانب سے آپعليه‌السلام کی مجالس عزاکے بپا کرنے پر ہوا _

____________________

۱) صحیح البخاری مطبوعہ المیمنیة ج / ۴ ص ۶۷ باب فرق الشعر فی اللباس، السیرة الحلبیہ ج/ ۲ ص ۱۳۲ و زاد المعاد ج ۱ ص ۱۶۵_

۲) اس سلسلے میں اہل سنت کی بنیادی اہم کتابوں کی طرف رجوع کرسکتے ہیں _ نیز مفتاح کنوز السنہ از البخاری کتاب ۶۰ و ۷۷ باب ۵۰ و ۶۷ ، صحیح مسلم کتاب ۳، حدیث ۱۶ و کتاب ۳۷ باب ۸ ، الترمذی کتاب ۴۴ حدیث ۲۴، کتاب ۲۲ باب ۱۰و کتاب ۴۰ باب ۷،النسائی کتاب۳، ۴۸ و۸۳ اسی طرح دیگر معروف و غیر معروف کتابوں کی ایک کثیر تعداد ہے نیز ملاحظہ ہو : مسند ابو یعلی ج ۱۰ ص ۳۹۸، ۳۹۹و ۳۶۶ نیز اس کے حاشیہ میں متعدد منابع _

۳) السیرة الحلبیہ ج/ ۲ ص ۱۱۵ سنن ابو داؤد ج ۲ ص ۲۵۰ و مسند ابی عوانہ ج ۱ ص ۳۱۲_ (۴)المدخل ابن الحاج ج ۲ ص ۴۸_ (۵)ایضاً_

۱۶۳

لفظ عاشورا اس سے قبل بالکل غیر معروف تھا_ اس بات کی اہل لغت نے بھی وضاحت کی ہے_ ابن اثیر کہتے ہیں '' یہ ایک اسلامی نام ہے''(۱) ابن درید کا کہناہے'' یہ ایسا اسلامی لفظ ہے جو زمانہ جاہلیت میں معروف نہ تھا''(۲) _

ج: یہودیوں کی شریعت میں کبھی بھی یوم عاشورا کا روزہ نہ تھا اور نہ ہی آج وہ یہ روزہ رکھتے ہیں _ اس حوالے سے ان کے ہاں اس دن کوئی عید یا کوئی اور مناسبت بھی نہیں ہے(۳) _

گذشتہ مطالب اور ان جعلی احادیث کا کذب ثابت ہونے کی روشنی میں اس بات کی گنجائشے بالکل نہیں رہتی کہ آنحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے روز عاشورا کا روزہ اس لئے ترک کیا ہو کہ یہودی مسلمانوں کے بارے میں کینہ رکھتے تھے، جیسا کہ بعض کا گمان ہے(۴) _

روز عاشورا کے دیگر فضائل:

روز عاشورا کی فضیلت کے بارے میں بڑی ہی عجیب و غریب روایات ملتی ہیں _ بلکہ اس کے فضائل محرم کی پہلی تاریخ سے ہی شروع ہوجاتے ہیں _اس بارے میں اتنے فضائل ملتے ہیں کہ ان کا مطالعہ کرنے والا آپے سے باہر ہوجائے گا اور پھولے نہیںسمائے گا_ مثلاً یہ کہ قطعی طور پر اس دن سے افضل ترین کوئی دن نہیں یہاں تک کہ لیلة القدربھی اس کی فضیلت کا مقابلہ نہیں کرسکتی _ اس دن ایسے اہم ترین واقعات رونما ہوئے جنہیں تاریخ بشریت کبھی فراموش یا اس سے تجاہل نہیںکرسکتی _یہاں تک کہ پیامبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت و ہجرت بھی اس دن میں ذکر کئے گئے ہیں حالانکہ یہ بات متفقہ ہے کہ یہ دونوں واقعات ربیع الاوّل میں ہوئے(۵) اس دن خدا نے فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کر کے حضرت موسیعليه‌السلام اور

____________________

۱) نہایہ ابن اثیر ج ۳ ص ۲۴۰_ (۲)الجمھرة فی لغة العرب ج/ ۴ ص ۲۱۲ _ (۳) مقالہ حسن السقاف _ مجلہ الہادی سال ہفتم شمارہ ۲ ص ۳۶_

۴)الیہود فی القرآن ص ۲۰ و ۲۶_

۵)بعض فضائل کے بارے میں آپ رجوع کریں تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۶۰ و ۳۶۱ ، السیرة الحلبیة ج / ۲ ص ۱۳۳ و ۱۳۴ ، الآلی المصنوعة ج/۱ص ۱۰۸ ، ۱۱۶ اور دیگر کتب_

۱۶۴

اس کی قوم کو نجات دلائی تھی _حضرت نوحعليه‌السلام کی کشتی پہاڑ کی چوٹی پر رکی اور حضرت آدمعليه‌السلام کی توبہ قبول ہوئی و غیرہ(۱) _

یوم عزاء یا عیدکا دن ؟

ابوریحان البیرونی الآثار الباقیہ میں ، امام حسینعليه‌السلام کے متعلق روز عاشور کے واقعات کا ذکر کرنے کے بعدلکھتے ہیں: '' اس دن بنوامیہ نے نئے نئے لباس پہنے،زینت اور آرائشے کی، آنکھوں میں سرمے لگائے ، عید منائی ، ولیمے اور خوشیاں کیں، دعوتیں کیں، ایک دوسرے کو مٹھائیاں کھلائیں اور اچھی اچھی اشیاء ایک دوسرے کو کھلائیںاور خوشبو لگایا_ یہ رسم ان کی حکومت کے زمانے سے عام سنی مسلمانوں میں جاری ہوئی جو ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد تک بھی جاری رہی _ لیکن شیعہ سیدالشہداء حضرت امام حسین (علیہ الصلوة و السلام) کی شہادت کے غم میں نوحہ خوانی اور گریہ کرتے رہے ''(۲) _ مقریزی کہتے ہیں : ''مصر کے علویوں نے عاشور کے دن کو '' یوم الحزن''قرار دیا اور اس دن بازار بند ہوتے تھے''_ اسکے بعد لکھتے ہیں'' جب علویوں کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور بنی ایوب کی حکومت آئی تو انہوں نے روز عاشور کو خوشی اور سرور کا دن قرار دیا _اس دن وہ اپنے اہل و عیال پر کھلے دل سے خرچ کرتے، وسیع دستر خوان بچھاتے اورہنسی مذاق کی محفلیں ہوتیں، نئے برتن استعمال کرتے ، سرمہ لگاتے، اہل شام کی طرح حمام جاتے اور ایک دوسرے پر پانی پھینکتے_ یہ رسم عبدالملک بن مروان کی حکومت کے زمانے میں حجاج بن یوسف نے شروع کی تھی تاکہ حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے شیعوں کو ذلیل کیا جائے کیونکہ یہ لوگ حضرت اما م حسین بن علی علیہما السلام کی شہادت کی وجہ سے عاشور کو غم، عزا اورحزن کے دن کے طور پر مناتے تھے ''_ اس کے بعد مقریزی لکھتے ہیںکہ ہمیں بنی ایوب کے ایسے آثار بھی ملے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے عاشورا کے دن کو خوشی ، سرور اور عید کا دن قرا ردیا تھا(۳) _

____________________

۱) ان کے بعض منابع تقریباً تین صفحات قبل ذکر ہوچکے ہیں _ نیز ملاحظہ ہو : عجائب المخلوقات بر حاشیہ حیاة الحیوان ج ۱ ص ۱۱۴_

۲)الکنی والالقاب ج/ ۱ ص ۴۳۱نیزملاحظہ ہو : الحضازة الاسلامیة فی القرن الرابع الھجری ج ۱ ص ۱۳۷ از الاثار الباقیہ مطبوعہ یورپ ص ۳۲۹ ، عجایب المخلوقات مطبوع بر حاشیہ حیاة الحیوان ج ۱ ص ۱۱۵ و نظم درر السمطین ص ۲۳۰_ (۳) الخطط للمقریز ی ج/۱ ص ۴۹۰_ نیز ملاحظہ ہو : الحضارة الاسلامیة فی القرن الرابع الھجری ج ۱ ص ۱۳۸ _

۱۶۵

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی زیارت عاشورا میں آیا ہے : '' پروردگارا یہ دن ایسا ہے جسے بنی امیہ اور ہندہ جگر خور کی اولاد نے با برکت ( او رعید کا ) دن جانا ہے ''(۱) _ لیکن ان لوگوں نے جناب ابن عباس کی زبانی ''موعدکم یوم الزینة ''کی آیت کی تفسیر میں یہ حدیث بھی گھڑی ہے کہ زینت( عید ) کے دن سے مراد عاشورا کا دن ہے(۲) _

جعلی احادیث:

حضرت امیر المؤمنینعليه‌السلام ، ان کی اولادعليه‌السلام اور انکے ماننے والوں کے دشمنوں نے اپنی دنیا کے بدلے آخرت کو بیچنے والے کچھ ایسے افراد ڈھونڈلئے جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نسبت دے کر روز عاشور کی فضیلت کے بارے میں بہت ساری احادیث گھڑیں _جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اس دن زیب و زینت انجام دینا، خضاب لگانا، خوشی منانا، اپنے اہل و عیال پہ زیادہ خرچ کرنا، نئے کپڑے پہننا، روزہ رکھنا، مرغوب غذائیں پکانا، اچھے کھانے تیار کرنا، غسل کرنا، خوشبو لگانا اور سرمہ لگاناو غیرہ مستحب ہیں _ لیکن یہ ساری باتیں اہل بیتعليه‌السلام سے بغض اور دشمنی کا مظہر ہیں(۳) _

تا ہم وہ بات جوان جھوٹی احادیث کو بے وقعت اور کم وزن کردیتی ہے وہ یہ ہے کہ تمام علماء اور ناقدین حتی کہ ابن تیمیہ جیسے مذہب اہل بیت سے منحرفین اور منکرین نے بھی چندایک احادیث کے سوا سب کو جھوٹی اور جعلی قرار دیا ہے(۴) _

لیکن ابھی تک رسنے و الازخم اور نہ مٹنے والی ذلت تو یہ ہے کہ ایک طرف سے وافر مقدار میں دلائل،

____________________

۱) مصابیح ( مفاتیح ) الجنان ص ۲۹۱ _ (۲) تاریخ واسط ص ۷۸ _

۳) اللئالی المصنوعة فی الاحادیث الموضوعة ج/۱ ص ۱۰۸ _ ۱۱۶ ، السیرة الحلبیة ج/۲ ص۱۳۴، نوادر الاصول للحکیم الترمذی ص ۲۴۶_عجایب المخلوقات ( مطبوعہ بر حاشیہ حیاة الحیوان )ج ۱ ص ۱۴ و ۱۱۵ ، نظم دررالسمطین ص ۲۳۰، اقتضاء الصراط المستقیم ص ۳۰۰ ، تذکرةالموضوعات ص ۱۱۸ ، در منثور ج ۴ ص ۳۰۳ ، الحضارة الاسلامیة فی القرن الرابع الھجری ج ۱ ص ۱۳۸ ، الصواعق المحرقہ ص ۱۸۲و المدخل ابن الحاج ج ۱ ص ۲۸۹ _

۴) تذکرة الموضوعات للفتنی ص۱۱۸،اللئالی المصنوعةج/۱ص۱۰۸_۱۱۶، السیرة الحلبیة ج/۲ ص ۱۳۴ ، اقتضاء الصراط المستقیم ص ۳۰۱ ، الصواعق المحرقہ ص ص ۱۸۱، ص ۱۸۲ ، نظم درر السمطین ص ۲۲۸_۲۳۰و المدخل ابن الحاج ج ۱ ص ۲۹۰ و ص ۲۹۱ _

۱۶۶

قرائن اور شواہد کے ہوتے ہوئے وہ یزید پر لعنت کی حرمت اور اس کی تکفیر کے عدم جواز کے فتوے دیتے ہیں(۱) اور دوسری طرف سے وہ حضرت امام حسینعليه‌السلام کی مقتل کی روایتوں کے بیان(۲) نیز عاشورا کے دن عزاداری اور سوگواری کی حرمت کے فتوے لگاتے ہیں(۳)

( و سیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون ) (شعراء ۲۲۷)

اور عنقریب ظالم جان لیں گے کہ وہ کہاں پلٹائے جائیں گے_ وہ ظالم جنہوں نے محمد و آل محمد علیھم السلام کے حقوق پر ظلم کیا اور ان کے ایام غم میں خوشیاں منائیں وہ عنقریب اپنی ان زیادتیوں کا مزہ چکھ لیں گے _

عاشوراکی یادمٹا نے کے مختلف طریقے:

عاشورادشمنان اہل بیتعليه‌السلام کی نظروں میں نوک دار کانٹے کی صورت چبھتا رہا_ لہذا انہوں نے اس انقلاب اور اس کی مقاومت کو روکنے کے لئے ہر حیلہ اورحربہ استعمال کیا_ صرف یہی نہیں کہ انہوں نے عاشور کو عید کے طور پر منایا بلکہ دیگر امور بھی انجام دیئےذشتہ بیانات کے علاوہ ہم مندرجہ ذیل نکات میں انکی طرف اشارہ کررہے ہیں_

۱_ابن عماد کہتے ہیں: '' شیعہ لوگ صدیوں سے آج تک عاشورا میں رونے پیٹنے اور سینہ کوبی کرنے نیز غدیر کے دن زیب و زینت کے ساتھ عید منانے کی گمراہی میں پڑے رہے جس کے مقابلہ میں متعصب سنیوں نے بھی اپنی بدعتیں ایجاد کرلیں '' اسکے بعد ابن عماد کہتے ہیں :''عاشورا کے مقابلے میں عاشورا کے آٹھ دن بعد سنیوں نے یوم مصعب بن الزبیر منانا شروع کیا _ اس دن ''مسکن ''میںاسکی قبر کی زیارت اور گریہ کرتے ہیں اور اسے امام حسینعليه‌السلام کی مثل قرار دیتے کیونکہ اس نے بھی صبر کیااور جنگ کی یہاں تک کہ

____________________

۱)ملاحظہ ہو : الصواعق المحرقہ ص ۲۲۱ ، احیاء علوم الدین ج ۳ ص ۱۲۵ ، العوالم من القواصم مع حاشیے و الاتحاف بحب الاشراف ص ۶۲و ۶۸ بلکہ بعض بے وقوف تو اسے اپنا راہنما ، امام اور رہبر مانتے ہیں اور ایڑی چوٹی کازور لگا کر اسے معصوم ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں _

۲) الصواعق المحرقہ ص ۲۲۱_ (۳) اقتضاء الصراط المستقیم ص ۲۹۹ _۳۰۰ و نظم دررالسمطین ص ۲۲۸_

۱۶۷

قتل ہوگیا اور اس لئے بھی کہ اسکا والد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پھوپھی زاد تھا ...''(۱) _

افسوس صد افسوس کہ مصعب جیسے دنیاپرست ، جاہ طلب اور دشمن اہل بیتعليه‌السلام کو سید الشہداءعليه‌السلام جیسی عظیم ہستی کی مثل بنادیاگیا جو گلستان پیامبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حسین اور خوشبو دار پھول ہے، جنت کے جوانوں کا سردار ہے، امت کا امام ، طالب حق اور دین کا مددگار ہے _ وہ تو کبھی بھی ان کے ہم پلہ نہیں ہو سکتا _

البتہ یہ سب کچھ معدن رسالت ، مراد آیت مودّت یعنی اہل بیتعليه‌السلام نبوت کے خلاف قدیم اور پوشیدہ کینے اور دشمنی کا نتیجہ تھا_حالانکہ انہی شخصیات کے متعلق خداوند عالم نے محبت و مودّت کا حکم فرمایاہے:

( قل لا اسالکم علیه اجراً الا المودة فی القربی ) (شوری ،۲۳)

۲_ابن کثیر نے ۳۶۳ ھ کے واقعات لکھتے ہوئے کہاہے: '' لوگوں نے اس سال روز عاشور رافضیوں کی پیروی میں ایک بہت ہی بری بدعت شروع کی تو بغداد میں اہل سنت اور رافضیوں کے درمیان ایک بہت بڑا فتنہ بپا ہوا_ دونوں فریق کم عقل یا بے عقل اورصحیح راستے سے بھٹکے ہوئے تھے_ہوا یہ کہ اہل سنت میں سے کچھ افرادنے ایک خاتون کو اونٹ پر سوارکرکے اسے بی بی عائشہ کا نام دیانیز دو اور افراد سوار ہوئے جنہیں طلحہ اور زبیر کہا گیا _ انہوں نے کہا ہم اصحاب علیعليه‌السلام سے جنگ کرنے آئے ہیں_ بس پھر کیا تھا فریقین کی ایک کثیر تعداد اسی ڈرامے میں قتل ہوگئی''(۲) لیکن اس صاحب نے شیعوں کو اہل بیتعليه‌السلام اوران کے پیرو کاروں کے دشمن یعنی ناصبیوں کے برابر قرار دے کر ان پر ظلم اور زیادتی کی ہے _ کیونکہ شیعوں کا یہ فعل عین دین اور عین عقل ہے لیکن ان کے دشمنوں کاکام بے عقلی ، بے دینی اور حماقت پر مبنی تھا _

۳_ قوت اور طاقت کا استعمال کیا گیا _ تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے کہ ہر سال لوگ محرم کا چاند کیسے دیکھتے تھے_ان سالناموں میں '' اس روز(روز عاشور) رافضیوں اور اہل سنت کی ایک کثیر تعدادآپس میں

____________________

۱) شذرات الذھب ج/۳ ص ۱۳۰از العبر، الامام الصادقعليه‌السلام والمذاھب الاربعہ ج/۱ ص ۹۵ ، بحوث مع اھل السنہ و السلفیہ ص ۱۴۵ ، المنتظم لابن الجوزی ج/۷ ص ۲۰۶_

۲) البدایہ و النہایہ ، ج ۱۱ ص ۲۷۵ ، الامام الصادقعليه‌السلام و المذاہب الاربعہ ، ج ۱ ص ۹۴، بحوث مع اہل السنة و السلفیہ ص ۱۴۴و ص ۱۳۴_

۱۶۸

لڑتی تھی '' اس سلسلے میں المنتظم ابن الجوزی اور دیگر کتب کی طرف رجوع کریں(۱) _ ان میں سب سے زیادہ دردناک اور شدیدترین واقعہ شاید ''کرخ بغداد'' کاہے_ جس میں شیعیان اہل بیتعليه‌السلام کوگھیر کران کے گھروں کو آگ لگائی گئی اور انکے ہزاروں مردوںاور بچوں کو قتل کردیا گیا(۲) _ اس بارے میں چند دستاویزات کا ذکر ہم نے اپنی کتاب ''صراع الحریة فی عصر المفید'' ( شیخ مفید کے دور میں آزادی کی جنگ) میں کیا ہے _ خواہشمند افراد وہاں مراجعہ فرمائیں_ البتہ یہاں یہ ذکر کرتے چلیں کہ ۴۳۷ ہجری میں بغداد میں روز عاشورا شیعوں اور سنیوں کے درمیان ایک سخت جھگڑا ہوا لیکن آخر کار فریقین نے اس بات پر اتفاق کرلیا کہ وہاں موجود یہودیوں کے گھروں کو لوٹ لیا جائے اور ان کے گرجاؤں کو نذر آتش کردیا جائے(۳)

اور ۴۴۲ ہجری کے واقعات میں لکھتے ہیں : '' بغداد کے شیعوں اور سنیوں نے آپس میں صلح کرلی اور سب کے سب حضرت امام علیعليه‌السلام اور حضرت امام حسینعليه‌السلام کے روضہ ہائے اقدس کی زیارت کو گئے اور پھر کرخ میں سب نے صحابہ کے حق میں دعائے رحمت اور مغفرت کی ''(۴) _

یہاں ہم انہی مطالب پر اکتفا کرتے ہیں، کیونکہ یہاں اس سے زیادہ تحقیق و جستجو کی ضرورت اور گنجائشے نہیں ہے_

____________________

۱) بحوث مع اہل السنة و السفلیہ ص ۱۴۵_ شاید یہ سلسلہ امام زمانہ (عج) کے ظہور تک کبھی بھی رکنے میں نہ آئے ، روز عاشور عزاداروں کا قتل عام اب صرف جزیرہ نمائے عرب یا عراق تک محدود، نہیں ہے بلکہ پاکستان، ہندوستان ، ایران اور دیگر ممالک تک اس کا دائرہ وسیع ہوگیا ہے اور ہوتا جا رہا ہے_ اور ذرائع بھی جدید ہوگئے ہیں_ اس سے ایک بات کا علم ضرور ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے تمام تر مظالم کے باوجود شیعہ مذہب دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا ہے _ اس لئے مظالم کا دائرہ بھی وسیع ہوتا جا رہا ہے_ لیکن سوال تو یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اگر یہ مذہب مطابق عقل ہے تو اس پر خون خرابا کیسا؟ اور اگر بدعت ہے تو کیا اپنے مذہب کی بدعتیں ختم ہوگئی ہیں جو شیعوں کے در پے ہوئے ہیں؟ اور اگر یزید اور اس کے اگلوں پچھلوں پر لعنت برداشت نہیں تو یہ کیسے مسلمان ہیں کہ شاتم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہودیوں اور عیسائیوں کے تو جگری دوست ہیں لیکن قاتلان رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر لعنت کرنے والوں کے جانی دشمن؟ کیا یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شر مائیں یہود؟ (۲) البدایہ و النہایہ ، ج ۱۱ ص ۲۷۵ (۳)البدایہ و النہایہ ، ج ۱۲ ص ۵۴

۴) البدایہ و النہایہ ، ج ۲۱ ص ۱۶_ ان بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں بھی یہودیوں یا ان کی ریشہ دوانیوں کا وجود رہا مسلمان آپس میں لڑتے رہے اور ایک دوسرے کو کاٹتے رہے_ اور جو نہی کسی خطے سے ان کا وجود ختم ہوا اور ان کے وجود سے وہ خطہ پاک ہوا تو وہ خطہ امن و آشتی کا گہوارہ بن گیا_ عراق کی تازہ ترین صورتحال اس کی گواہ ہے نیزان لوگوں کا ایک مقولہ'' لڑاؤ اور حکومت کرو'' نہایت مشہور ہے_

۱۶۹

پانچویں فصل:

اسلام میں جہاد کی اہمیت

۱۷۰

اسلام اور تلوار

اسلام دشمن عیسائی مشنری اس بات کو بڑی اہمیت اور اہتمام کے ساتھ بیان کرتی ہے کہ اسلام تلوار اور طاقت کا دین ہے_یہاں تک کہ بعض کتابوں میں انہوں نے ایسے کارٹون بنائے ہیں جن میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں تلوارہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کے سروں پر کھڑے ہیں اور یہ عبارت تحریر ہے ''قرآن پر ایمان لے آؤ ورنہ تلوار سے تمہاری گردنیں اڑادونگا'' پس دشمن گویا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو اسلام '' ادع الی سبیل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة''(۱) کا دعویدار ہے وہ اپنے اس دعوے میں سچا نہیں ہے بلکہ وہ عملی طور پر تلوار سے اپنی تبلیغ کا دعویدار ہے_

اس نظریئےی تقویت میں خود مسلمانوں کی اس مقولے میں طبعی شک و تردید نے بھی مدد کی ہے کہ ''اسلام حضرت خدیجہعليه‌السلام کے مال اور حضرت علیعليه‌السلام کی تلوار سے پھیلا''(۲) _ مسلمانوں نے اس جملے کے الفاظ پر تو توجہ کی لیکن اس کے مفہوم پر گہری دقت نہیں کی_ ...بلکہ ایسا ہوا کہ بعض قدیم مورخین اور قصہ نویس حضرات نے بھی اس مفہوم کو اسلام سے خارج کرنے میں مدد کی _ کتاب ''فتوح الشام للواقدی'' سے یہ مطلب بڑی حد تک واضح ہوتاہے_ کیونکہ اس کتاب کا شاید ہی کوئی ایسا صفحہ ہو جو اس طرح کے محیر العقول اور خارق العادہ کارناموں اور تباہ کن واقعات سے خالی ہو_ یہ سب کچھ بعض پس پردہ اہداف کی خاطر تھا تا کہ عوام کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے ساتھ ساتھ امویوں کی قدرت اور عظمت بیان کی جائے اموی حکومت کے منظور نظر افراد کے لئے خیالی بہادریاں ثابت کی جائیں اور اس ذریعہ سے

____________________

۱) اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور موعظہ حسنة سے دعوت دو_ ( النحل۱۲۵)

۲) مفکر اسلام شہید مطہری کا مقالہ مجلہ '' جمہوری اسلامی'' میں(۱۰جمادی الثانی ۱۴۱۰ ھ شمارہ ۲۶۱_

۱۷۱

حضرت علیعليه‌السلام کے موقف اور کارناموں کو لوگوں کی نظروں سے گرا دیا جائے _ اس کے علاوہ اور بھی مقاصد تھے جن کے متعلق گفتگو کی گنجائشے یہاں نہیں ہے _ ان بڑے بڑے سفید جھوٹوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام ایک تباہ کن طوفانی موج ( سونامی کی لہروں ) اور قتل و غارت کا دین دکھائی دینے گا _ یہاں تک کہ خود اکثر مسلمانوں کے لئے بھی یہ مسئلہ نہایت پیچیدہ ہوگیا جس کا جواب دینے کے لئے انہوں نے دائیں بائیں جانا شروع کردیا_ ان مسلمانوں نے جواباً جو مناسب سمجھا اور جس راستے کو اپنی خواہشات کے مطابق دیکھا اختیار کرلیا_

اگر چہ یہ بات تاریخ سے مربوط ہے اور یہاں اس گفتگو کو طول دینے سے خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکتاتا ہم اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کے لئے سر راہے چند نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں _

۱: اسلام اور دیگر ادیان میں جنگ کے خد و خال

جنگ بدر سے پہلے کے سرایا اور غزوات کی فصل میں اپنی افواج کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نصیحتوں کا مختصر ذکر ہوگا _ انہیں دقت سے پڑھنے اور ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے _ مزید مطالعہ کے خواہش مند حضرات بحار الانوار اور کافی کے علاوہ حدیث اور تاریخ کی دیگر کتابوں کا بھی مطالعہ فرمائیں_

ساتھ ہی کتب حدیث اور تاریخ کا دقت سے مطالعہ کرتے وقت جنگی قیدیوں کے ساتھ مسلمانوں کے مثالی سلوک سے آگاہی بھی ضروری ہے _ ہم بھی جنگ بدر کی بحث میں انشاء اللہ اس موضوع پر روشنی ڈالیں گے _ اسی طرح علامہ احمدی نے بھی اپنی کتاب '' الا سیر فی الاسلام'' میں اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے _ لیکن اس کے مقابلے میں مندرجہ ذیل مطالب ملاحظہ فرمائیں_

الف: انجیل میں لکھاہے''یہ گمان بھی نہیں کرو کہ میں زمین پر امن پھیلانے آیا ہوں، میں زمین پر سلامتی پھیلانے نہیں بلکہ تلوار کے ساتھ جنگ کے لئے آیاہوں''(۱)

باء : تورات میں یوں تحریر کیا گیاہے'' جب تم جنگ کے لئے شہر کے قریب جاؤ گے تو وہاں کے لوگوں

____________________

۱)انجیل متی اصحاح ( سورت ) ۲۰ سطر ۳۴_

۱۷۲

سے صلح کی استدعا کرو_ اگرانہوں نے مثبت جواب دیا تو وہ تیرے لئے فتح ہوجائے گا _ پس وہاں موجود تمام افراد تیرے غلام ہوں گے_ لیکن اگرانہوں نے صلح نہ کی اور جنگ ہی کی تو شہر کا محاصرہ کر لو اور جب تیرا رب، تیرا معبود تجھے فتح دے دے تو تمام مردوں کی گردنیں تلوار سے اڑادے_لیکن خواتین، بچے اور حیوانات اور جو کچھ شہر میں ہے یہ سب کچھ مال غنیمت ہے جو صرف تیرے لئے ہے_ دشمنوں کا مال غنیمت جو تیرے رب اور معبود نے تجھے عطا کیاہے کھالے، استعمال کر_ وہ تمام علاقے جو تجھ سے بہت دور ہیں اور یہ علاقے ان اقوام کے نہیں ہیں ،ان میں بھی یہی اعمال انجام دے_ لیکن وہ علاقے جو یہاں کی اقوام کے ہیں اور تیرے رب اور تیرے معبود نے تجھے عنایت کیے ہیں وہاں کا کوئی ذی روح بھی زندہ نہیں رہنا چاہئے''(۱) _

جیم: تورات ہی میں لکھا ہے''شہر والوں کو تلوار سے اڑاکے رکھ دو_ شہر کو اس میں موجود تمام چیزوں سمیت جلا دو_اسکے ساتھ حیوانات و غیرہ جو کچھ بھی ہے سب کو تلوار سے نابود کردو _ تما م اشیاء کو اکٹھا کرو اور شہر کے چوک میں جمع کرکے انہیں شہرسمیت آگ لگادو _اس سے وہ شہر ابد تک راکھ کا ٹیلہ بن جائے گا(۲) _

یہاں مزیددستاویزات بھی ہیں جن کی تحقیق کا موقع و محل نہیں(۳) _

ایک اشارہ

امویوںاور عباسیوں و غیرہ کے کرتو توں نیز جنگوں اور ذاتی دشمنیوں میں ان کے مظالم اور قتل و غارتگری کی وجہ سے ہونے والی اسلام کی بربادی اسلام کی پہچان نہیں بلکہ اسلام پر ہونے والا ظلم ، زیادتی اور خیانت ہے _ کیونکہ اسلام اپنے سے منحرفین کی بدکرداری کا ضامن نہیں ہے اس لئے کہ اسلام اور چیز ہے اور منحرفین کا کردار اور چیز ہے_

____________________

۱) سفر تثنیہ'' اصحاح'' ۲۰ سطر/۱۰ _ ۱۷

۲) سفر تثنیہ ''اصحاح'' ۱۳ سطر۱۵_

۳) سفر تثنیہ الاصحاح ۷ ;سطر۱ ، ۲ سفر سموئیل اوّل الاصحاح ۱۵ ، عبرانیوں کو پولس کا خط الاصحاح ۱۱ سطر ۳۲ اور اسکے بعد ، انیس الاعلام ج/۵ ص ۳۰۲ و ۳۱۶ اور دیگر کتب_

۱۷۳

۲ : جب جنگ ناگزیرہو

اگر ہم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی مشرکوں کے خلافلڑی جانے والی جنگوں کا مطالعہ کرنا چاہیں تو انہیں مندرجہ ذیل نکات میں خلاصہ کر سکتے ہیں:

الف : وراثت و غیرہ جیسے عوامل سے قطع نظر انسان کی شخصیت; اسکی خصوصیات، عادات، صفات اور مختلف نفسیاتی، روحانی ، فکری ، جذباتی اور دیگر پہلو عام طور پر اس ماحول کے زیر اثر ہوتے ہیں جہاں انسان رہتاہے_ وہ والدین ، استاد اور دو ست و غیرہ سے افکار اور دینی مفاہیم و اقدار حاصل کرتا ہے_

پس وہ شخص ذلیل و بزدل ہوگا جس کی تربیت کرنے والوں نے خوف اور دہشت کا رویہ اختیار کیا ہو اور وہ شخص شجاع اور جنگجو ہوگا جسکی تربیت کرنے والوں نے خوف کے برخلاف حوصلہ افزائی کی روش اختیار کی ہو(۱) _ اسی طرح وہ بچہ جسے بچپن میں بہت زیادہ توجہ اور شفقت ملی ہو اس کی پرورش بالکل مختلف ہوگی اور جو ظلم و قساوت کو دیکھے گا تو اس کا رد عمل بہت مختلف ہوگا _ چاہے ان دو بچوں نے ایک ہی گھر میں پرورش پائی ہو اور وہ دونوں حقیقی جڑواںبھائی ہوں_

بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ ذہنی تصورات جنہیں انسان حو اس کے ذریعے حاصل کرتاہے اور انہیں اپنے علم و ادراک کا اہم منبع قرار دیتاہے وہ بھی دوسروں سے بہت مختلف ہوتے ہیں_ اگر ہم دو ایسے جڑواں بچوں کو فرض کر لیں جو اکٹھے رہتے ہوں ان کے حالات بھی ایک جیسے ہوں اور یہ بھی فرض کرلیں کہ تعلیم و تربیت ،وسائل اور حالات زندگی و غیرہ تک بھی یکساں ہوں تو اسکے باوجود بھی ہم دیکھیں گے کہ ان دونوں کے افکار ، نفسیات اور احساسات و غیرہ ایک دوسرے سے بہت حد تک مختلف ہیں_ اسکی وجہ وہ ذہنی تصورات ہیں جو دونوں نے اخذ کیے ہیں اورجن سے ان کے تفکر کی تشکیل ہوئی اور ان دونوں کا ان خیالات پر رد عمل مختلف تھا_ جی ہاں چاہے وہ دونوں ایک ہی کمرے میں بیٹھے ہوں، ایک ہی راستے پر چل رہے ہوں اورایک ہی سکول اور مدرسے میں پڑھ رہے ہوں پھر بھی دونوں کا ذہن ایک ہی خیال کے متعلق مختلف رد عمل ظاہر کرے گا

____________________

۱) یعنی خوف ، دھمکیوں اور دہشت کے سائے میں پلنے والا بچہ خود اعتمادی کے فقدان سے بزدل اور ذلت پسند ہوگا _ لیکن محبت اور شفقت کے سائے میں پلنے والا بچہ خود اعتمادی کے وجود سے بہادر اور سوشل ہوگا_ البتہ لاڈ اور ناز کے سائے میں پلنے والا بچہ خود پسند اور مغرور ہوگا_

۱۷۴

چاہے وہ اختلاف جزوی ہی ہو _ اور اس کا سبب یہ ہے کہ ہر ایک کانقطہ نظر مختلف ہے_ یہی صورت حال آوازوں،اور خوشبوؤں و غیرہ کے بارے میںہے _یہ صورت اسکے ہاں اپناایک خاص مقام اور ایک خاص اثر رکھتی ہے، اس کے فکری خطوط کو بھی بدل دیتی ہے_ کبھی تو ان خطوط کو آگے بڑھاتی ہے اور کبھی اس کے آگے بند با ندھ دیتی ہے _

تصورات کا اختلاف ان کے ذہنوں میں مختلف نتائج کو جنم دیتاہے_ اسی طرح یہ تصورات روح ، آداب اور احساسات پر مختلف اثرات مرتب کرتے ہیں_

ان باتوں سے ہمیں پتہ چل سکتا ہے کہ لوگ آداب، افکاراور اخلاقیات و غیرہ کے لحاظ سے ایک دوسرے پر کتنے اثر انداز ہوتے ہیں_آپ خود اگر کسی بدمزاج، غصیلے اور ترش رو دوکاندا ر کے پاس کھڑے ہوں اور پھر کسی ایسے مہذب دوکاندار کے پاس کھڑے ہوںجو مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ملے اور بہت اچھے اور میٹھے لہجے کے ساتھ آپ سے گفتگو کرے تو آپ یقیناًاپنے رگ و پے میں ان دونوں کا فرق محسوس کریں گے_ اس سارے عمل کا اثر بچوںاور دوستوں و غیرہ کے ساتھ آپ کے تعلقات پر یقیناً مرتب ہوگا_

پس جب ایک فکر اتنی اہمیت کی حامل اور حساس ہے کہ اس سے انسانی عقیدہ تشکیل پاتا ہے اور انسان اس سے متاثر ہوتا ہے تو یقینا کسی معاشرے میں پیدا ہونے والا انحراف چاہے وہ محدود پیمانے پر ہی ہو وہ صرف انحراف کے مرتکب ہونے والے تک محدود نہیں رہے گا بلکہ چاہے تھوڑی مقدار اور محدود پیمانے پر ہی سہی وہ اس کے ساتھ رہنے والوں اور اس کے دور یا نزدیک کے تعلق داروں پر بھی اثر انداز ہوگا پھر ان سے دوسروں میں سرایت کرجائے گا اور اسی طرح وہ انحراف آگے پھیلتا جائے گا_ ( اور انحراف کے مرتکب فرد کا حلقہ شناسائی اور دائرہ اثرجتنا وسیع اور پھیلا ہوا ہوگا انحراف بھی اتنے وسیع پیمانے پر اور تیزی سے پھیلے گا مترجم)_

یہی سبب ہے کہ اسلام برائی سے پوری طاقت کے ساتھ اورعلانیہ نبرد آزما ہوتاہے_ اسلام نے تو چھپ چھپ کر گناہ والے کی غیبت سے بھی منع کیا ہے تا کہ لوگ کسی بھی برائی یا انحراف کی خبرسننے کی عادت

۱۷۵

نہ اپنا لیں کیونکہ اس سے ان کے ذہن برائی سے مانوس ہو جائیں گے پھر ان کے لئے برائی کا ارتکاب آسان ہو جائے گا اور وہ اس کی عادت بنالیں گے _ اسلام تو اتنا بھی نہیں چاہتا کہ ان کے ذہنوں میں برائی کے تصور کابھی گزر ہو چہ جائیکہ وہ شخص خوداس برائی کی عادت اپنالے کیونکہ اسلام چاہتا ہے کہ لوگ برائیوں سے دور رہیں لیکن اس کے اثر سے لوگ برائیوں کے مرتکب ہوں گے _ آپ ذرابرائیوں اور نقصان دہ امو ر پر لفظ '' المنکر''کے اطلاق پر غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اسلام چاہتاہے کہ لوگ ان باتوں سے دور اور لاعلم رہیں_ اسی طرح جہاں اسلام چھپ چھپ کر گناہ کرنے والے کی غیبت سے منع کرتاہے تو وہ یہچاہتاہے کہ گناہگار انسان کو ایک فرصت مہیا کی جائے تا کہ وہ اپنے گناہوں سے چھٹکارا حاصل کرسکے نیز اس کی شخصیت کی تعمیر و ترقی کے لئے اسے ایک مناسب معاشرتی فضا مہیا کرے نیزاس کی عزت و شرافت و غیرہ کی حفاظت کرے اس کے علاوہ اور بھی مقاصد ہیں جن کے بیان کا مقام یہاں نہیں ہے _

پس اگر انحراف اور کجی کا نقصان اسکے ارتکاب کرنے والے تک محدود نہ رہے اور وہ دوسروں تک سرایت کر جائے تو پھر دوسروں کوبھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ خود کو اس نقصان سے محفوظ کریں_ اگر شریعت کی بات نہ بھی ہو تو بھی عقل و فطرت کا یہی حکم ہے _ البتہ شریعت ،ذات کے اس حق دفاع کے اعتراف پر ہی اکتفا نہیں کرتی بلکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے وجوب کے ذریعہ اس دفاع کو ہر فردپر واجب اور فرض قرار دیتی ہے تا کہ ایک تو یہ لوگ اپنی حفاظت کریں اور دوسرا اس انحراف اور برائی سے دوسروں کو بچائیں(۱) _

گذشتہ تمام گفتگو کی روشنی میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے اس فرمان کا راز بھی معلوم ہو جاتاہے کہ اسلام کی نظر میں

____________________

۱)برائی کے ا نجام دینے والے کو دو عذاب (ایک برائی کے انجام دینے پر اور دوسرا عذاب دوسروںکو مبتلاکرنے پر)نہیں ہوں گے بلکہ اس شخص کے لئے صرف ایک ہی عذاب ہے ، وہ اس لئے کہ اس نے (برائی نہ کرنے پر )دوسروں کے اختیار کو سلب نہیں کیا اور نہ ہی اسکا یہ ارادہ تھا_ البتہ اسکے فعل نے دوسروں کے لئے برائی انجام دینے کی راہ ہموار کی اور یہ امر دوسروں کی برائی کا مسبب نہیں_ارتکاب گناہ میں ارادہ اور نیت نیز عذاب کے استحقاق یا عدم استحقاق کے عنصر کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری بات اور مندرجہ ذیل معروف حدیث کے درمیان فرق واضح ہوجائے گا _ معروف حدیث یہ ہے :'' جس کسی نے ایک نیک عمل کی بنیاد رکھی اس کو اسکا اجر اور قیامت تک ہر اس شخص کے عمل کا اجر ملے گا جو اس پر عمل کرتا رہے گااورجس کسی نے ایک برے عمل کی بنیاد رکھی تو اس کو اپنے عمل کاگناہ اور قیامت تک ہر اس شخص کے عمل کاگناہ بھی ملے گا جو یہ برائی انجام دے گا''_

۱۷۶

سب مؤمن ایک جسم کی مانند ہیں کہ جب بھی جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بے خوابی و پریشانی میں مبتلارہتاہے_

پس اس بنا پر برائی سے روکنے اور نیکی کا حکم دینے والے کو یہ نہیں کہا جاسکتاکہ تجھے کیا ؟ تجھے اس سے کوئی مطلب ؟ یا میں آزاد ہوں یا اسطرح کے جملے_ کیونکہ یہ امر بالمعروف ہی ہے جو در حقیقت آپ کی حفاظت کرتا ہے_ اور ہر کسی کی آزادی اتنی ہے کہ وہ دوسروں پر کسی قسم کی بھی زیادتی نہ کرے اور نہ ہی اس کی آزادی کو کوئی نقصان ہو _ او رانحراف تو زیادتی کی خطرناک ترین اور ناپسندیدہ ترین صورت ہے _

یہ بڑی واضح سی بات ہے کہ انحراف کے خطرے کو دور کرنے اوربرائی کے خاتمے کی خاطر مختلف مدارج اور مراحل کا خیال رکھا جانا چاہئے_ جیسے آپکا بیٹا اگرکسی برائی یا غلطی کا مرتکب ہوتا ہے تو پہلے مرحلے میں آپ اسے منع کریں گے ، پھراسے سمجھائیں گے ، پھر ڈرائیںدھمکائیں گے،پھر ماریں پیٹیں گے اور پھر خود سے دور کریں گے _ اسی طرح شدت اختیار کرتے جائیں گے_ یہ سب مراحل و مدارج شرعی ، عقلی اور فطری ہیں_ انسان کا کوئی ایک عضواگر بیماری میں مبتلا ہوجائے تو پہلا مرحلہ دوائیوں سے علاج ہے_ اگرپھر بھی ٹھیک نہ ہو تو جراحی '' operation '' کا مرحلہ آتا ہے _اور اگر اس کے باوجود مرض اتنی خطرناک صورت اختیار کرجائے اور زخم ناسور بن جائے کہ وہ عضو نہ صرف پورے جسم پر بے فائدہ بوجھ بن جائے بلکہ اس کا درد اوراس کی بیماری دوسرے اعضاء میں سرایت کرنے لگے اور انہیں صحیح طریقے سے کام نہ کرنے دے تو اس صورت میں اگر طبیب اس حصے کو علیحدہ نہیں کرے گا تو خود انسان کے تلف ہونے کا خطرہ پیدا ہوجائے گا_ اس مرحلے میں بدن کے اس حصے کو کاٹنے کی نوبت بھی آسکتی ہے _ نہ کاٹنے کی صورت میں وہ طبیب اس بیمار سے خیانت کا مرتکب ہوگا_ یہی سبب ہے کہ اسلام ، عقل اور فطرت نے مسلمانوں کو ایک جسم کی طرح قرار دیاہے _ جب ایک عضو میں درد ہو تو سارا بدن درد و اضطراب میں مبتلا ہوجاتاہے_یہ بات صرف مسلمانوں ہی سے مخصوص نہیں بلکہ تمام بنی آدم کے ساتھ ایسا ہی ہے_ پس جو شخص عقیدہ و اخلاق اور آداب و کردار کے لحاظ سے منحرف ہوجائے تو ضروری ہے کہ سب سے پہلے حکمت ، پیاراور موعظہ حسنہ سے

۱۷۷

اسکی اصلاح کی جائے پھر ڈرایا دھمکایا جائے اسکے بعد سختی اور شدت کا استعمال کیا جائے _ اگر یہ سارے ذرائع اور و سائل کامیاب نہ ہوں تو پھر اس کاآخری علاج اسے قرنطینہ کرنا ہے اور اگربیماری انتہائی خطرناک اور ناسورہو جائے تو پھر( نہ صرف اس شخص کو قرنطینہ کرنا چاہئے بلکہ) ضروری ہو جاتا ہے کہ اس بیماری کو ہی جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے_اس صورت میں عضو فاسدکو نہ کاٹنا پوری امت بلکہ نسلوں اور انسانیت کے ساتھ خیانت ہوگی_ بلکہ دینی اور عقیدتی انحراف کا خطرہ تو جسمی اور بدنی امراض سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ جسمانی امراض کا دائرہ نسبتاً محدود ہے لیکن دینی، عقیدتی، فکر ی اور اخلاقی انحراف سے جسم، مال و اموال،مقام، انسان ، اخلاقی اقدار ، انسانیتبلکہ سارا معاشرہ تباہ ہوجاتاہے جس کے اثرات آنے والی نسلوں پر بھی پڑتے ہیں _ یہ اس وقت ہوتاہے جب اس منحرف شخص کو جرم اور گناہ انجام دینے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آتی اور وہ بڑے سے بڑا جرم و گناہ انجام دیتاچلا جاتاہے_جب اس انسان کی کسوٹی اورمعیار ،فقط اور فقط اسکے ذاتی مفادات ہوں ، تب وہ شخص کسی اور چیز کو اہمیت نہیں دیتا، اللہ کی خوشنودی کو اہم نہیں سمجھتا، امت کی اجتماعی مصلحتوں کو مدنظر نہیں رکھتا، شریعت اور دین کے احکام کو غیر اہم سمجھتا ہے اورعقل و منطق کو کوئی حیثیت نہیں دیتا_

اسی لئے جہاد در حقیقت اس انحراف کو روکنے کا ایک ذریعہ ہونے کی وجہ سے دین اور شریعت سے بڑھ کر عقل اورفطرت کے احکام میں سے ایک حکم ہے_

گزشتہ بحث کی روشنی میں ہم نہایت جرا ت کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اگر اسلا م، جہادکے لئے تلوار استعمال نہ کرتا تووہ حق اور عدل نیز فطرت اور عقل کا دین ہی نہ ہوتا_ اس طرح نہ صرف معاشرے بلکہ ابد تک کے لئے تمام انسانیت کا خائن ہوتا_ ہم جانتے ہیں کہ فکر ، عقل اور قوت مدافعت پر مبنی سیاسست ہی عدل قائم کرنے والے اور ظلم کو مٹانے والے دین ،اسلام کا اصل اصول ہے_

ارشاد باری تعالی ہے:

( و لقد ارسلنا رسلنا بالبینات و انزلنا معهم الکتاب و

۱۷۸

المیزان لیقوم الناس بالقسط و انزلنا الحدید فیه باس شدید و منافع للناس و لیعلم الله من ینصره و رسله بالغیب ان الله قوی عزیز ) ( حدید /۲۵ )

بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجاہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا تا کہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں اور ہم نے لوہے کو بھی نازل کیا ہے جس میں شدید سختی اور لوگوں کے لئے بہت سے دوسرے فوائدبھی ہیںیہ سب اس لئے ہے کہ خدا یہ دیکھے کہ کون بغیر دیکھے اسکی اور اسکے رسول کی مدد کرتاہے اور یقیناً اللہ بڑا صاحب قوت اور صاحب عزت ہے_

اگر دین خیانت کو اپنی عادت اور اصول قرار دیتا، انسانی نسلوں کی مصلحتوں سے تجاہل برتتااور اس کے احکام میں یہ بہت بڑے نقائص ہوتے تو اس کے قوانین کی انسانوں اور انسانی سماج کو قطعاً ضرورت نہ ہوتی _ پھر تو اسکی راہ میں قربانی دینے بلکہ اس کی حفاظت کرنے اور دین کی عظمت اور سر بلندی کی خاطر کسی بھی کام کا کوئی معنی اور فائدہ نہ رہتا _ یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ کیوں جہاد کو جنت کے دروازوں میں سے ایک ایسا دروازہ قرار دیا گیا ہے جسے اللہ نے اپنے خاص اولیاء کے لئے کھول رکھاہے_ یہ تقوی کا لباس، اللہ تعالی کی مضبوط زرہ اور قابل اعتماد ڈھال ہے(۱) _

یہ سب تونظریاتی لحاظ سے ہے_ البتہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے کے تاریخی حقائق کیا تھے جہاد کے متعلق گفتگو کے دوران اس کی طرف اشارہ کریں گے_

باء :اہل مکہ کے مقابلے میں اپنا دفاع کرنا ہرمسلمان کا حق تھا کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کو ان کے دین سے ہٹانے کے لئے سازشیں کیں اور اللہ کے راستے میں رکاوٹیں ڈالیں_ اس لئے ان سب کا حق بنتا تھا کہ وہ عقیدہ ، بیان ، فکر اور دعوت الی اللہ کی آزادی کے حصول کے لئے اہل مکہ کے خلاف جنگ کرتے یہ جنگ خصوصاً اس وقت ضروری ہوجاتی ہے جب دشمن تشدد کے استعمال پر اصرار کرے اور اس کے نیز اس

____________________

۱)ملاحظہ ہو: نہج البلاغہ شرح محمد عبدہ خطبہ جہاد ج ۱ ص ۶۳_

۱۷۹

کے عقائد کے سامنے منطق اور دلیل کی کوئی حقیقت نہ ہو _ پس اسلام یہ نہیں چاہتا کہ کوئی جبراً اس کو قبول کرے_اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ سب کو عقیدے، فکر ، اور موقف میں آزادی حاصل ہو _ اس لئے اسلام نے جو علاقے فتح کئے وہاں کے لوگوں کو بعض معاملات میں اختیار دیا_ ان میں سے ایک '' قبول اسلام''بھی تھا_ جو کوئی اسلام قبول کرتا وہ پوری رغبت وشوق ، آزادی اور ارادے کے ساتھ نیزمسلمانوں کی طرف سے کسی رسمی سے دباؤ کے بھی بغیر قبول کرتا_ بہت سارے علاقوں میں تو اسلامی فتح کا انتظار بھی نہ کیا گیا_ فقط اسلام کی اطلاع پر ہی لوگ اسلام کے سامنے جھک گئے_

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلا م اور مسلمان اپنے خلاف ہر طرح کی سختی،زیادتی اور مسلسل ظلم کے سامنے ہاتھ باندھے رکھیں کہ ظالم ان کا خون چوستے رہیں _ یاان لوگوں کے ہر دباؤ اور فیصلوں کے سامنے جھک جائیں جو ہر حال میں انکے خلاف ہیں_نیز اس آزادی کا یہ مطلب بھی نہیںکہ مسلمانوں کو اپنے دشمنوں کے مقابلے میںایسی تیاری بھی بالکل نہیں کرنی چاہئے کہ جس سے وہ اللہ اور اپنے دشمن کو خوف زدہ کرسکیں_ جس اسلام کی طرف مسلمان دعوت دیتے ہیں اور آزادی فکر و نظرسے اسے قبول کرنے کے خواہاں ہیں وہ فقط ایک انفرادی مذہبی اعمال یا تزکیہ نفس جیسے اعمال ہی کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ اسلام ایک ایساعمومی نظام حیات ہے جو عالمی سطح پر یکسر تبدیلیوں کی قیادت کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتاہے _ اور ایک ایسا نظام ہے جس میں سب انسانوں کے حقوق محفوظ ہوں_ یہی وہ بات ہے جس نے اسلام کی وسیع سطح پر حمایت کو یقینی بنایاہے_ کیونکہ اسلام کو ان جابر و ظالم اور لالچی افراد سے ٹکر لینی ہے جو اپنی نفسانی خواہشات اور رجحانات کے مطابق لوگوں پر حکومت کرنا چاہتے ہیں _ہاں جب رائے، فکر اور عقیدہ کی آزادی کا حصول صرف طاقت کے استعمال سے ہی ممکن ہو تو پھر سختی اور شدت استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ معاشرے میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے لئے ایک مناسب فضا مہیا کی جائے نیز حقیقی اسلام، ان حکمرانوں کے اسلام میں تبدیل نہ ہوجائے جو اسلام کو اپنی خواہشات اور مفادات کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں_ جیسا کہ بعض فرقوں اور مذاہب کے ساتھ ایسا ہی ہوا اور وہ اس شدید بیماری میں مبتلا ہوگئے ،نیز اسلامی

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

جو صحابہ حق پر ثابت قدم رہے ان کی محبت دینی فریضہ ہے

بلکہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام تو،ان صحابہ کی محبت کو جو حق پر ثابت قدم رہے ایک دینی فریضہ سمجھتے ہیں اور اسلام کے ان شرائع میں شمار کرتے ہیں جن کی پابندی واجب ہے،اعمش کی ایک حدیث ملاحظہ ہو،جو انھوں نے ابوعبداللہ جعفر بن محمد علیہ السلام کے حوالہ سے نقل کی ہے کہ امام ؑ نے دینی شرائع کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:((اور اولیا خدا کی محبت اور ان سے ولا واجب ہے،ان کے دشمنوں سے الگ رہنا اور ان سے الگ رہنا جنھوں نے آل محمد ؐ پر ظلم کیا،پیغمبر ؐ کی ہتک حرمت کی،ظلم کی بنیاد رکھی،سنت پیغمبر ؐ کو بدلا،انصاب و ازلام اور گمراہیوں کے امام،ظلم کی قیادت کرنے والے،بلکہ ہر دور کے ظالم سے الگ رہنا واجب ہے،اہل بیت ؑ کے تمام قاتلوں سے اظہار برائت کرنا واجب ہے،ان مومنین کی محبت واجب ہے جنھوں نے نبی ؐ کے بعد دین کو نہیں بدلا اور تغیر نہیں کیا جیسے سلمان فارسی ؓ ،ابوذر غفاری ؓ ،مقداد بن اسود کندی ؓ ،عمار بن یاسر ؓ ،جابر بن عبداللہ انصاری ؓ ،ابوالھیثم بن تیہان ؓ ،سہل بن حنیف،ابوایوب انصاری ؒ عبداللہ بن الصامت ؒ ،عبادہ بن الصامت ؒ ،خزیمہ بن الثابت ؓ ذوالشہادتین،ابوسعید خدری اور جو لوگ ان کے راستوں پر چلتے رہے اور ان کے جیسے اعمال انجام دیتے رہے،ایسے لوگوں کی پیروی کرنے والوں اور ان کی اقتدار میں رہنے والوں اور ان کی ہدایتوں پر عمل کرنے والوں سے بھی محبت واجب ہے)) ۔(۱)

مامون عباسی نے حضرت ابوالحسن امام الرضا علیہ السلام سے عرض کیا کہ مختصر طور پر اسلام کی تعریف لکھ دیں،آپ نے تحریر فرمایا:((اسلام محض یہ ہے کہ انسان لا الہ الا اللہ کی شہادت دے))پھر آپ نے اسلام کے اصول و فروع لکھے من جملہ ان کے واجبات اسلام بھی بیان کئے پھر آپ نے لکھا کہ اور ان سے اظہار برائت کرنا جنھوں نے آل محمد کو قتل کیا انھیں ان کے گھروں سے بےگھر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الخصال ص:۶۰۷۔۱۰۱،۶۰۸،باب:فضائل من شرائع الدین۔

۳۰۱

کیا ان پر ظلم کئے،ظلم کا طریقہ اپنایا اور نبی ؐ کی سنت کو بدل دیا اور امیرالمومنین علی علیہ السلام کی ولایت اور ان لوگوں سے محبت جو اپنے نبی ؐ کے راستے پر چلے،نہ تغیر کیا نہ تبدیلی،جیسے سلمان فارسی،ابوذر غفاری،مقداد بن اسود،عمار بن یاسر،حذیفہ یمانی،ابوالہیثم بن تیہان،سہل بن حنیف،عبادہ بن صامت،ابوایوب انصاری،خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین،ابوسعید خدری اور ان جیسے لوگ خدا ان سے راضی ہو اور ان پر خدا کی رحمت ہو اور ان کی پیروی کرنے والوں سے محبت کرنا،ان کے چاہئے والوں سے محبت کرنا اور ان کی ہدایتوں پر عمل کرنے والوں سے محبت کرنا ۔(۱)

شیعوں کے پاک اماموں نے انھیں سمجھایا اور بتایا کہ صحابہ پیغمبر ؐ قابل تعظیم و احترام ہیں شیعوں نے اپنے اماموں سے ان کے مرتبوں کو پہچانا،یہی وجہ ہے کہ شیعہ،اپنے اماموں کی پیروی میں صحابہ پیغمبر ؐ سے محبت کرتے ہیں اور ان کی عزت کرتے ہیں،مقصد صرف یہ ہے کہ ان کا حق ادا ہو اور رضائے خدا حاصل ہوجائے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ((اور وہ لوگ جو ان کے(صاحبان ایمان کے)بعد آئے کہتے ہیں پالنے والے ہمیں بخش دے اور مہارے ان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے باایمان رہ چکے ہیں اور ان صاحبان ایمان کی طرف سے ہمارے دل میں کھوٹ نہ قرار دے،اے ہمارے پروردگار بےشک تو مہربان بھی ہے اور رحیم بھی ہے،(۲) ہمارے ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کا کردار اس سلسلہ میں کافی ہے ۔

میں نے آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں بھی عرض کیا تھا کہ دین صرف راہ خدا میں محبت اور خدا کے لئے بغض کا نام ہے دین اولیا خدا سے موالات اور دشمنان خدا سے دشمنی عداوت کا نام ہے اس سلسلہ میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں،جن میں سے بعض کا تذکرہ یہاں حسب حال کردیا گیا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) عیون الاخبار ج: ۱ ص: ۱۲۹ ۔ ۱۳۴ ،اس باب میں کہ جو امام رضاؑ نے مامون کو اسلام و دین کی شریعت کے باب میں لکھا تھا

( ۲) سورہ حشر آیت: ۱۰

۳۰۲

نتیجہ گفتگو

گذشتہ بیانات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر شیعوں کے قول کے مطابق امیرالمومنین علیہ السلام کی ولایت پر نص تھی اس نص کی تردید بہت کم لوگوں نے صرف ان لوگوں نے اس نص کو نہیں مانا یا تجاہل برتاجو تھے یا تو مہاجر و انصار لیکن امیرالمومنین ؑ کے خلاف قیام کے بانی تھے اسی طرح ان لوگوں کی پیروی کرنے والی جماعت بھی نص سے غافل رہی جیسے حدیث الاسلام لوگ جو کسی طرح اسلام میں داخل ہوگئے تھے لیکن باقی مہاجرین و انصار جو دین میں اپنی ایک حیثیت رکھتے تھے وہ نص کے مخالف نہیں تھے نہ انھوں نے ص کی تردید کی(بلکہ واقعات گواہ ہیں کہ انھیں نص کا یقین تھا اور اس یقین کا وہ موقعہ پاتے ہی اظہار کرنے لگتے تھے)

یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے مولائے کائنات ؑ کی نصرت میں کوتاہی کی اور شروع میں حق نصرت ادا نہیں کرسکے،لیکن ان میں بھی کچھ وہ تھے جو مسلسل حق کی حمایت میں بولتے رہے اگر چہ ایسے کم لوگ تھے،بہرحال جب انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ مولائے کائنات ؑ کی ولایت میں واپس آئے،آپ کی حمایت کرتے رہے آپ کے ساتھ جنگوں میں شرکت کی آپ کی کمر مضبوط کی اور آپ کی نصرت میں کوئی کوتاہی نہیں کی خدا کی نظر میں ان کی کوششیں منظور ہیں،خدا نے ان کے گناہوں کو بخش دیا،پھر پورا ثواب دیا،بےشک وہ توبہ قبول کرنے والا شکور غفور ہے ۔

صحابہ کا یہ شرف تھا کہ وہ نص کا یقین رکھتے تھے

آخر کلام میں ایک بہت ضروری بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم نے نص کے سلسلے میں جو بھی گفتگو کی اسے پڑھ کے یہ غلط فہمی نہیں پیدا ہونی چاہئے کہ ہم نص کی تائید یا اس کی مدافعت اس لئے کررہے ہیں کہ صحابہ کے طرز عمل میں اقرار نص اور اس سے عدم تجاہل پایا جاتا ہے یا یہ کہ مولائے کائنات ؑ کی فضیلت اور آپ کے مرتبہ کی بلندی،جو کچھ بھی ہے وہ اس لئے ہے کہ صحابہ آپ

۳۰۳

سے محبت کرتے تھے اور صحابہ کی تائید آپ کو حاصل تھی اور صحابہ نے جنگوں میں آپ کا ساتھ دیا ۔

بلکہ نص نذات خود اتنی واضح اور روشن تھی اور مولائے کائنات ؑ کی فضیلت،آپ کی بلندیاں فی نفسہ اتنی واضح اور روشن کہ یہ دونوں حقیقتیں کسی بھی تائید و اظہار سے بےنیاز تھیں،نص موجود تھی،صحابہ کی تائید سے اس کی حقیقت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا،مولائے کائنات ؑ افضل ہیں،حق و باطل کے فاروق اعظم ہیں اور حق کی علامت ہیں،کسی کی تائید سے اس حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑےگا اور کسی کی تردید سے اس حقیقت پر کوئی الٹا اثر نہیں پڑے گا،نص کا وضوح اور مولیٰ کی افضلیت تائید اقرار سے بےنیاز ہے اس کی طرف خود امیرالمومنین ؑ نے اپنے خطبہ میں اشارہ فرمایا ہے،آپ فرماتے ہیں میرے پاس لوگوں کی کثرت سے نہ میری عزت میں کوئی زیادتی ہوتی ہے نہ لوگوں کے چھوڑ کر ہٹ جانے میں میری وحشت میں کوئی اضافہ ہوگا ۔(۱)

بلکہ پیروی کرنے والوں،نص پر یقین کرنے والوں اور اس راہ میں لبیک کہتے ہوئے جہاد کرنےوالوں کے لئے شرف و فضیلت کی علامت ہیں،میں نے جو تائید نص اور تائید صحابہ کی باتیں کی ہیں اس سے مقصد یہ تھا کہ صحابہ کی فضیلت ظاہر ہو نہ کہ علی ؑ کی فضیلت ظاہر کرنا مقصد تھا ۔

میں اصل میں صحابہ کی مدافعت کرنا چاہتا تھا اور ان پر جو الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے عہد کو توڑا،راستے کو بدلا،حق اور اہل حق کا راستہ چھوڑ دیا و غیرہ میں صحابہ کو ان الزامات سے بری کرنا چاہتا تھا،کوشش یہ نہیں تھی کہ صحابہ کی تائید کے ذریعہ نص کا وجود ثابت کیا جائے اور مولائے کائنات ؑ کی فضیلت ثابت کی جائے بلکہ کوشش یہ تھی کہ صحابہ پر جو تجاھل بالنص کا الزام اور مولائے کائنات ؑ سے منھ موڑنے کا جو الزام عائد کیا جاتا ہے اس کی تردید کی جائے ۔

اب تک جو گفتگو ہوتی رہی ہے وہ اسی تناظر میں ہوتی رہی ہے اور شیعان اہل بیت ؑ کے صالح اسلاف کا طریقہ رہا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) نہج البلاغہ ج: ۳ ص: ۶۲ ،الامامۃ و السیاسۃ ج: ۱ ص: ۵۱ ،الاغانی ج: ۱۶ ص: ۲۹۰ ،

۳۰۴

اس موقعہ پر چند واقعات اپنے بیان کی تائید میں پیش کر رہا ہوں:

عبدالرحمان بن حجاج کہتے ہیں:ہم ابان بن تغلب کی خدمت میں تھےکہ ایک نوجوان آیا اور اس نے پوچھا اے ابوسعید!(ابان کی کنیت)ہمیں بتایئے کہ علی ؑ کے ساتھ پیغمبر ؐ کے کتنے صحابی تھے؟ابان نے کہا:کیا تائید صحابہ سے تم فضیلت علی ؑ کو تولنا چاہتے ہو؟اس نے کہا:ایسی ہی بات ہے،ابان نے کہا:خدا کی قسم ہم تو فضائل صحابہ کو اتباع علی ؑ سے تولتے ہیں ۔(۱)

اس حدیث سے مشابہ ایک اور حدیث ہے،عبداللہ بن احمد بن حنبل کہتے ہیں:ایک دن میں اپنے باپ کے پاس بیٹھا تھا کہ کرخیوں کا ایک گروہ آیا اور ابوبکر،عمر اور عثمان کی خلافت کی بات چل نکلی اور لوگ بہت دیر تک اس موضوع پر باتیں کرتے رہے پس میرے باپ نے سر اٹھایا اور کہا:تم نے کتنی مرتبہ کہا علی ؑ اور خلافت،خلافت اور علی ؑ ،سنو!خلافت نے علی ؑ کو زینت نہیں دی تھی بلکہ علی ؑ نے خلافت کو زینت دی تھی ۔(۲)

آیہ:کنتم خیر امة، پر گفتگو

اب ایک بات رہ جاتی ہے(وہ یہ کہ آپ نے فرمایا ہے کہ اگر بقول شیعہ نص موجود تھی تو اس دور کے مسلمانوں نے تائید کیوں نہیں کی؟جب کہ ان کی مدح خیر امت کی آیت اتری ہے اور اللہ انھیں خیرالامم کا خطاب دے رہا ہے)آیت یہ ہے کہ(تم سب سے بہترین امت جو لوگوں کے لئے منتخب کئے گئے ہو تمہاری خاصیت یہ ہے کہ تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہو( ۱ ) شاید آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ خیر امت سے مراد صحابہ ہیں اور جب صحابہ کٰر امت ہیں تو انہوں نے نص کی تائید کیوں نہی کی اور تجاہل کیوں برتا،یہ بات بعید از قیاس ہے اور سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ کے ذہن میں یہ سوال کیسے پیدا ہوا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) معجم الرجال الحدیث،ص: ۱۳۳ ،ابان بن تغلب کے حالات میں۔

( ۲)( تاریخ دمشق ج: ۴۲ ص: ۴۴۶ ،علی بن ابی طالبؑ کی سوانح حیات میں،تاریخ بغداد ج: ۱ ص: ۱۳۵ ،علی بن ابی طالبؑ کی سوانح حیات میں،المنتظم ج: ۵ ص: ۳۵،۶۲ سنہ کےواقعات

۳۰۵

اہل لغت کی صریحات تو دیکھیں!اہل لغت نے امت کے مختلف معانی بیان کئے ہیں،لیکن ظاہرتر اور سب سے جامع معنی وہ ہیں جو مفردات راغب میں لکھے ہیں،راغب کہتے ہیں:امت ہر اس جماعت کو کہتے ہیں جو کسی کام کے لئے مجتمع ہوں،ایک دین پر جمع ہونے والے بھی امت ہیں،ایک زمانے میں جمع ہونے والے بھی امت ہیں،ایک جگہ پر جمع ہونے والے بھی امت ہیں(۱) البتہ یہاں اس آیت میں امت سے مراد عام امت مسلمہ ہے،اس امت کو خیر امت اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ خاتم الامم ہے اس کے نبی ؐ خاتم الانبیاء ہیں اور تمام انبیا سے اشرف ہیں،اس کا دین خاتم الادیان اور تمام دینوں سے افضل ہے،اس کی شریعت خاتم الشرائع اور تمام شریعتوں سے اکمل ہے اور اس لئے بھی کہ اس امت میں چاہے جتنا بھی اختلاف ہوجائے لیکن کفر باللہ اور شرک سے محفوظ رہے گی،یہودی،نبی ؐ کی غیبت میں مشرک ہوگئے تھے،انھوں نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی تھی انھوں نے یہ بھی کہا تھا:((اے موسیٰ ؑ !ہمارے لئے ان کے خدا جیسا ایک خدا قرار دیجئے موسیٰ ؑ نے کہا:تم جاہل لوگ ہو،یہ لوگ جس مذہب پر ہیں وہ یقیناً برباد ہوجائےگا اور جو عمل یہ لوگ کر رہے ہیں وہ سب ملیا میٹ ہوجائےگا))(۲) اور جس طرح عیسائی کافر ہوگئے،کہنے لگے((مسیح بن مریم ہی اللہ ہیں،(۳) اور مشرک بھی ہوگئے،کہنے لگے((اللہ تو بس تین میں کا تیسرا ہے،(۴) لیکن اس امت نے آج تک خود کو کفر و شرک سے بچائے رکھا،یہی وجہ ہے کہ یہ امت تمام امتوں سے افضل ہے ۔(۵)

حدیث میں ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام سے ایک یہودی نے کہا کہ ابھی تم نے اپنے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ آل عمران:آیت ۱۱۰

( ۲) مفردات غریب القرآن ص: ۲۳ ،ام کے مادہ میں۔

( ۳) سورہ اعراف آیت: ۱۳۸ ۔ ۱۳۹

( ۴) سورہ مائدہ آیت: ۷۲

( ۵) سورہ مائدہ آیت: ۷۳

۳۰۶

نبی ﷺ کو دفن بھی نہیں کیا تھا کہ تمہارے درمیان نبی ؐ کے بارے میں اختلاف ہوگیا آپ نے فرمایا:ہمارے درمیان نبی ؐ کی ذات اختلاف کا موضوع نہیں تھی بلکہ نبی ؐ کے معاملات میں اختلاف ہوا تھا،لیکن تم رو دریائے نیل سے نکلے اور ابھی تمہارے پیر خشک بھی نہیں ہوئے تھے کہ تم نے اپنے نبی سے کہا:ہمیں کافروں جیسا ایک خدا دیدیجئے اور تمہارے نبی نے کہا کہ تم جاہل لوگ ہو ۔(۱)

جہاں تک صحابہ کا سوال ہے تو وہ امت کے عام افراد سے کوئی الگ نہیں ہیں ان میں بدکردار بھی ہیں،اچھے بھی ہیں،عہد خدا کی پائیداری کرنے والے بھی ہیں اور عہد خدا کو توڑنے والے بھی ہیں،اس سلسلے میں تفصیلی گفتگو آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں عرض کی جاچکی ہے،اسے دہرانے سے کوئی فائدہ نہیں ۔

اور اگر یہی فرض کرلیا جائے کہ اس آیت میں امت سے مراد عام امت مسلمہ نہیں ہے بلکہ صرف وہ لوگ ہیں جو زمانہ خطاب میں موجود تھے تب تو یہ آیت صرف صحابہ کے لئے مخصوص نہیں ہوگی بلکہ اس دور کے تمام مسلمانوں کے لئے ہوگی جو مسلمان نزول آیت کے وقت موجود تھے چاہے انھیں حقیقت ہے کہ وہ سارے مسلمان کے لئے ہوگی جو مسلمان نزول آیت کے وقت موجود تھے چاہے انھیں صحبت پیغمبر نصیب ہوئی یا نبی ؐ سے دور رہنے کی وجہ سے شرف صحبت حاصل نہ ہوا ہو اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ سارے مسلمان،کجی اور کمزوریوں سے مامون و محفوظ نہیں تھے لٰہذا آیت کے مصداق صرف چند افراد ہی قرار پائیں گے اور اگر یہ مان لیا جائے کہ یہاں امت سے مراد صرف صحابی ہیں،صحابی وہ جس نے نبی ؐ کو دیکھا اور آپ سے حدیث سنی تو مدعیٰ یہ ہوگا کہ وہ سب کے سب خیر ہیں ان میں شر ذرا بھی نہیں ہے تو پھر دعویٰ دو طریقوں سے رد ہوجاتا ہے ۔

۱ ۔ آیہ شریفہ یہ بالکل نہیں کہتی کہ جس کے اندر خیر ہے وہ شر سے خالی ہے فضیلت صاحب خیر کو اس لئے حاصل ہے کہ اس کے اندر خیر زیادہ ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے اندر شر بالکل بھی نہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) نہج البلاغہ ج: ۴ ص: ۷۵

۳۰۷

۲ ۔ اسی سوال کے جواب میں جو واقعات و احادیث بیان کی گئی ہیں ان سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت صحابہ کے مناسب حال ہو ہی نہیں سکتی،یہ ایسی بات ہے جس کا کوئی قائل نہیں ہے،یہاں تک کہ اہل سنت بھی تمام صحابہ کے خیر کے قائل نہیں ہیں وہ صحابہ کو شر سے پاک نہیں مانتے،نہ ان کی عصمت کے قائل ہیں،زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اہل سنت تمام صحابہ کی عدالت کے قائل ہیں لیکن عدالت کے ساتھ شر تو جمع ہوسکتا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ صحابہ کے اندر خیر نسبت کے لحاظ سے ہے یعنی صحابہ میں خیر کا تناسب دوسروں سے زیادہ ہے تو پھر امیرالمومنین ؑ پر نص سے جو اعراض کیا ہے یہ دعویٰ اس کے منافی ہے،اگر بقول شیعہ نص موجود ہوتی اس لئے کہ نص سے اعراض نہ انھیں کافر بنانا ہے نہ مشرک اس لئے کہ انبیائے ماسبق کے اصحاب تو کفر و شرک کے مرتکب ہوچکے ہیں اور دوسرے انبیا کے اصحاب کی جو تعداد حق پر ثابت قدم رہی وہ ہمارے نبی ؐ کے اصحاب کی تعداد سے بہت کم ہے نسبت کے اعتبار سے یہی بات صحابہ کے خیر پر ہونے کے لئے کافی ہے ۔

بہرحال جو بھی ہو یہ آیہ کریمہ ہمارے موضوع سے کسی طرح میل نہیں کھاتی اور آپ کے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے بہرحال نافع نہیں ہے ۔

اس لئے کہ آپ نے کہا:یہ بات بعید از قیاس ہے کہ نص کی موجودگی میں خیر امت صحابہ نے تجاہل کیا،میں نے عرض کیا کہ یہ کوئی بعید از قیاس بات نہیں ہے اس لئے کہ نص کے اعراض سے گذشتہ بیان کے مطابق ان کےخیر امت ہونے پر حڑف نہیں آتا،ضرورت یہ ہے کہ نص پر غور یا جائے اور اس کے تلاش کی کوشش کی جائے،اس کی سند اور دلالت کی تحقیق کی جائے،نص کے مخالفین اگر موجود ہیں تو ان کی پیروی نہ کی جائے اس لئے کہ اس معاملے میں بڑی عظیم ذمہ داری ہے اور غلطی کا امکان بہت زیادہ ہے،لہذا نص کی تلاش خلوص نیت کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے،اس سلسلے میں کٹھ حجتی تحکم اور فتنہ و فساد سے پرہیز کرتے ہوئے خدا سے توفیق و تسدید کی التجا کی جائے کیونکہ تمام

۳۰۸

امور اسی کے ہاتھ میں ہیں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے کہ:

خدا پر واجب ہے کہ وہ سیدھا راستہ دکھائے اور راستہ سے الگ ہٹ کر چلنے والا بھی انھیں میں سے ہے،اگر خدا چاہے تو تم سب کی ہدایت کردے))(۱)

اور دوسرےمقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کرتے ہیں اللہ ایک کام کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔(۲) خدا ہی سیدھے راستہ کا ہادی ہے،وہی ہمارے لئے کافی ہے اور بہترین وکیل ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ نحل آیت:۹

(۲)سورہ عنکبوت آیت:۶۹

۳۰۹

۳۱۰

سوال نمبر۵

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ جب سے اسلامی خلافت ہوئی ہے مسلمان انتشار و افتراق کا شکار ہیں اس لئے مسلمانوں کو چاہئے بلکہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اس پر فتن دور میں محض انتشار و افتراق سے بچنے کے لئے یا دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ رہنے کے لئے کسی ایک شخص کی خلافت یا امامت پر متحد ہوجائیں اور شیعہ و سنی متحد ہو کر اسے امام بنالیں،اس لئے کہ سنیوں کے پاس اس وقت کوئی خلیفہ نہیں ہے اور شیعوں کا بھی زمانہ غیبت میں یہی حال ہے کہ ان کے پاس کوئی مرکزی قیادت نہیں ہے،آپ کی اس سلسلہ میں کیا رائے ہے ۔ ؟

جواب:نے شک دور حاضر میں مسلمانوں کی حالت افسوسناک،بلکہ دردناک ہے،لیکن مسلمان اگر اپنے لئے کوئی خلیفہ امت کے انتظام اور اسلامی شریعت کے مطابق امور کے نفاذ کے لئے بنانا ضروری سمجھتے ہیں تو پھر دو باتوں پر سب سے پہلے غور کرنا پڑےگا ۔

اول:پہلے تو یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ کون شخص ہے جس کو یہ عظیم منصب پر فائز کیا جائے کہ شریعت کے معیار پر پورا اترسکے یا یہ کہ شریعت کا لحاظ نہ کر کے اس کو اختیار کیفی سے دیا جائے کہ جیسے چاہے کرلے،شریعت کے میزان پر اس کو تولنے کی ضرورت نہیں ہے،اس کی دو صورت ہے ۔

۳۱۱

اولاً:اگر شریعت کو معیار نہ بنا کے کسی کو بھی اس منصب کے لئے منتخب کیا جاتا ہے تو اس سے نہ واجب ادا ہوگا نہ انسان خدا کے سامنے جواب دہی سے بچ سکےگا،بلکہ جسکو ذمہ دار بنایا جائےگا وہ مسلمانوں کی طرف سے غیرشرعی طور پر مسلمانوں کے خون،مال،عزت اور مصالح کا ذمہ دار ہوجائےگا وہ مسلمان ان نتائج کے جھیلنے پر مجبور ہوں گے جو اس کے غیر شرعی اقدامات سے حاصل ہوں گے ۔

ثانیاً:جس کو بھی بغیر معیار شریعت کے خلیفہ بنایا جائے گا،ظاہر ہے کہ اس کو مسلمانوں کی عقیدت تو حاصل نہیں ہوگی نہ وہ شرعی طور پر مقدس سمجھا جائےگا،مسلمان اس کے حکم کو ماننا اپن مذہبی ذمہ داری نہیں سمجھے گا،جب کہ تنصیب خلافت کی بنیاد ہی یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان مذہبیت کا احساس پیدا کیا جاسکے ۔

اس کے علاوہ فقہی اختلافات بھی ایک بڑا مسئلہ ہے،مسلمانوں کے مختلف فرقے ہیں ہر ایک کی فقہ الگ الگ ہے،اگر منصوب خلافت کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ فقہ میں کوئی ایسا نظریہ دے سکے جس پر تمام اسلامی فرقہ متحد ہو کے عمل کریں اور اس عمل کے بعد خود کو بری الذمہ سمجھیں تو اس سے بہتر کیا ہوگا؟ورنہ پھر ہر ایک کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اپنے اجتھاد پر عمل کرے اور خود کو بری الذمہ محسوس کرے تا خدا کے سامنے مسئولیت سے محفوظ رہے ۔

ایسا ممکن ہے یا نہیں؟ایسا کرنے سے مقصد پورا ہوسکےگا یا نہیں؟یہ وہ سوالات ہیں جن کا وجاب کافی بحث و تمحیص کے بعد حاصل ہوگا،بلکہ ضروری یہ ہے کہ امت کے خاص لوگ س بحث کو موضوع بنا کہ بہت سنجیدگی کے ساتھ فقہی بحث کریں تا کہ امت مسلمہ ایک بہت بڑے خطرہ سے محفوظ رہ جائے اور اختلاف کو دور کر کے ایک پلیٹ فارم پر آجائے ۔

اس مشروع نظریہ کو عمل میں لانے کے لئے دور حاضر کے ماحول کا سازگار ہونا ضروری ہے

الثانی:آج مسلمان جس پُر محن دور سے گذر رہےہیں وہ آپ کے سامنے ہے،ساری دنیا مسلمانوں کو مٹانے پر تلی ہوئی ہے،طرح طرح کے مسائل نے اس امت کو گھیر رکھا ہے اور یہ دور مسلمانوں کے

۳۱۲

خلاف صف بندی کرچکا ہے ایسے خطرناک دور میں کسی بھی ایسے اقدام سے بچنا بےحد ضروری ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے اختلاف میں اضافہ ہو،اس لئے خلیفہ منتخب کرنے سے پہلے بہت غور و خوض کر لیجئے کہ آپ کا یہ قدم وقت کے پہلے تو نہیں اٹھ رہا ہے؟اور کہیں اس سے مسلمان مزید مسائل سے تو نہیں دوچار ہوجائےگا؟اگر ایسا ہے تو بہت پرہیز کریں اور بھرپور گریز کریں،جذبات میں آکے کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس کے نتیجہ میں امت مرحومہ کو مزید مصیبت میں گرفتار ہونا پڑے ۔

اس مشروع نظریہ کو نافذ نہ کرنے کی صورت میں دور حاضر میں مسلمانوں کی ذمہ داری

یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ آپ کے تجویز کردہ اصول کو عالم اسلام میں اجتماعی طور پر عمل میں نہیں لایا جاسکتا لیکن کم از کم مندرجہ ذیل باتوں کی طرف توجہ دی جاسکتی ہے اور ان پر عمل کر کے ہر صاحب ذوق اپنے واجب سے ادا ہوسکتا ہے اور اپنے فریضہ کو پورا کرسکتا ہے ۔

۱ ۔ آپ کے تجویز کردہ اصول کے نافذ نہیں ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلمان آپس میں اختلاف کے شکار ہیں اور ایک مرکز پر مرتکز نہیں ہیں،اختلاف یا تو مذہبی ہے یا سیاسی،اس سیاسی اختلاف کی وجہ بھی وہ حکومتیں ہیں جن پر اسلام کا لیل و نہار اور مسلمانوں کے ذھن و دماغ پر ہر دور میں اپنی چھاپ چھوڑتی رہی ہیں،اسلام دشمن عناصر کی حوصلہ افزائی اسی وجہ سے ہوئی اور اسلام دشمن عناصر کے حوصلہ بھی سی اختلاف کی وجہ سے بڑھے ہیں،اسی اختلافات کی بنیاد پردہ مسلمانوں کو کمزور کرتے ہیں،ان کے اندر انتشار پیدا کرتے ہے اور ان کی جماعت کو منتشر کرتے ہیں،اختلاف کی یہ زمین دشمنوں کے فتنوں کے بیج کو خواب اپج دیتی ہے اور دشمن مسلمانوں کے درمیان بغض و عداوت کی بہت اچھی فصل کاشت کرلیتا ہے کمزور،بیمار ذھن شبھوں کے گرفتار دماغ اور سادہ لوح عوام کو بہکا کے دشمن اسلام اور مسلمانوں کو خوب نقصان پہنچاتا ہے ۔

۳۱۳

مذہبی اختلاف کی خلیج کو کم کرنا بہت ضروری ہے

اگر مسلمان اپنی جگہ یہ طے کرلیں کہ ہم اس سیاسی اختلاف کو ہوا نہیں دیں گے اسے اپنی انا کا سوال نہیں بنائیں گے اور اس سیاسی اختلاف کی وجہ سے ہم آپس میں نہیں لڑیں گے تو بےشک مسلمانوں کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہوجائے گی کہ وہ اپنے مذہبی اختلاف کی خلیجوں کو اگر پاٹ نہیں سکیں گے تو دوریوں کو کم ضرور کرسکیں گے،اس موضوع پر آپ کے سابقہ سوالوں کے نویں سوال کے جواب میں کافی گفتگو ہوچکی ہے برائے کرم اسے پھر ایک بار دیکھ لیں ۔

اگر مذہبی اختلاف میں کمی ہوئی اور مسلمان کھلے دل سے ایک مرکز پر جمع ہوسکے تو ان کی عظیم کامیابی ہوگی اگر تمام مسلمان آپ کی پیش کردہ تجویز کے تحت ایک شخص پر متحد نہ بھی ہوسکے اور شریعت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کوئی حکومت قائم نہ بھی ہوسکی جب مسلمانوں کے لئے یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی ۔

بلکہ اگر تمام عالم اسلام ایک سطح پر نہ آئے اور یہ جذبہ اگر انفرادی طور پر پیدا ہو تو اس کی قدر کرنی چاہئے اور اسے معمولی نہیں سمجھنا چاہئے اگر ایک فرد کے اندر بھی یہ جذبہ پیدا ہوجائے کہ وہ مسلمانوں کے اختلافات کو مٹانے کی کوشش کر کے اور عالم اسلام کو ایک پائیدار اتحاد دینے کی خواہش رکھتا ہے تو ایسے شخص کی ہر غیور مسلمان کو قدر کرنی چاہئے کہ وہ ایسے آدمی کو اہمیت دے اور اس کی بھلائی کے بارے میں غور کرے اس لئے کہ وہ پوری امت کی بھلائی کے بارے میں سوچ رہا ہے کیونکہ جس کا حصول مشکل ہے اس کی وجہ سے مشکل الحصول کو ساقط نہیں کیا جاسکتا اور آدمی اپنے ہاتھ میں آئی ہوئی چڑیا کو درخت پر بیٹھی ہوئی چڑیا کی امید میں نہیں چھوڑسکتا یہ غقلمندی نہیں ہے ۔

۳۱۴

یہ معلوم کرنا بہت ضروری ہے کہ مسلمانوں کے اختلاف اور سیاسی انحطاط کا سبب کیا ہے؟

تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں کا یہ سیاسی انحطاط اور یہ قابل افسوس حالت اس وجہ سے نہیں ہے کہ ماضی قریب میں ترکی حکومت یعنی اموی خلافت کا سقوط ہوگیا بلکہ قرن اولیٰ سے ہی مسلمان اس بیماری کا شکار ہیں،البتہ وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی پستی اور انحطاط میں اضافہ ہی ہوا ہے اور آج مسلمان تنزل کی اس منزل میں پہنچ گیا ہے جسے دیکھ کے دوسرے بھی افسوس کررہے ہیں،یہ منزل،یہ انحطاط،یہ بدحالی صرف اس وجہ سے آئی کہ مسلمان اسلام کے ان اصول سے منحرف ہوگئے جن پر اللہ انھیں چلانا چاہتا تھا،در اصل مسمانوں نے مفہوم خلافت کو سمجھا ہی نہیں خلافت کا نظام اپنے ہاتھ میں لیکے ہر ایرے غیرے کو خلیفہ تسلیم کرتے رہے اور زمانے کے انقلاب نے اس مقدس دین خلافت کو عثمانیوں کے ہاتھ میں پہنچادیا اور پھر ذلت کی انتہا یہ ہوئی کہ خلافت ان کے ہاتھوں سے نکل گئی اور مسلمانوں کی حالت مزید افسوسناک ہوگئی،وجہ صرف یہ تھی کہ مسلمانوں نے حکم اسلام کو ماننے سے انکار کیا اور خلافت کو لغو قرار دیا پھر اسلامی ملکوں کی تو تقیسم ہونے لگی وہ ممالک جو عثمانی خلافت کے ماتحت تھے مختلف ملکوں میں تقسیم ہوئے،ان پر مختلف افراد کی حکومت قائم ہوئی اور باقی ملکوں میں علامتی،رسمی یا عملی حکومتیں قائم ہوئیں،نتیجہ میں اسلام سیاسی،ثقافتی اور فی اعتبار سے تنزل پزیر ہوگیا ۔

یہ سب کچھ تو ہوا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک غیور اور خوددار مسلمان کی ذمہ داری کیا ہے؟اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے نفس سے سوال کرے یہ دین خدا کا دین ہے یا نہیں؟کیا یہ وہی دین نہیں ہے جس کے بارے میں اللہ کا فیصلہ ہے کہ یہ دین خاتم الادیان ہے؟کیا اللہ نے یہ بتایا نہیں ہے یہ دین اس وقت تک باقی رہے گا جب تک زمین اور زمین پر رہنے والے باقی رہیں گے؟کیا اللہ نے یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ یہ دین زمین پر حکومت کرے گا اور اسی کے مطابق عمل کرنے سے انسان اس دنیا کے خیرات و ثمرات سے بہرہ اندوز ہوسکے گا؟اور وہ اللہ جو عالم الغیب ہے کیا اسے نہیں معلوم

۳۱۵

تھا کہ اسلام کہاں پہنچے گا؟مسلمان پستی اور تنزلی کی کون سی کھائیوں کی سیر کریں گے اور ان کی یہ حالت ہوجائے گی؟ان تمام سوالوں کا جواب یہ ہے کہ خدا سب کچھ جانتا تھا کہ مسلمان کی کیا حالت ہونےوالی ہے اور تنزلی اور پستیوں کی کن وادیوں کی سیر کریں گے اللہ یہ جانتا تھا تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے اپنے دین کو ان مشکلات کے حل کرنے کا طریقہ کیوں نہیں بتایا؟یہ دین مکمل ہے،یہ دین اپنے اندر تمام نعمتوں کو رکھتا ہے،یہ دین قیامت تک کے انسانوں کے لئے کافی ہے،یہ دین تمام عالم انسانیت کے لئے واجب العمل ہے،نہ اس کے پاس کوئی نظام حکومت نہیں ہے ایسا نظام حکومت جو تمام انسانوں کے لئے قابل تسلیم اور قابل عمل ہو،اپنے نفس سے پوچھو کیا ایسا ممکن ہے؟کیا یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ خدا نے اپنے اس مضبوط قانون میں مسلمانوں کی اس پستی کا کوئی حل رکھا ہو؟کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ نے عزت اسلام کی حفاظت کے لئے اسلامی حکومت کو دنیا میں باقی رکھنے کے لئے اسلام کے علم کو سربلند رکھنے کے لئے،اسلامی نعمتوں سے عالم اسلام کو بہر اندوز ہونے کے لئے اور اسلام کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لئے اپنے دین میں کوئی راستہ معین نہیں کیا اور نہ کوئی طریقہ بتایا،کیا ایک انصاف پسند اور عزت دار صاحب ایمان اس بات کو پسند کرے گا کہ(خدا اپنے دین سے اتنا لاپرواہ ہوجائے اور اپنے دین کی باگ ڈ ور چوروں،رہزنوں،قذاقوں اور غیرذمہ دار کے ہاتھ میں دیکے)عالم انسانیت کو دائرہ اسلام میں آنے کے بعد قیامت تک ذلیل و خوار ہونے کے چھوڑ دے ۔

پھر ایک بہت اہم سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ مسلمانوں کی یہ پستی،یہ ذلت،یہ خواری صرف اس انحراف کا نتیجہ ہے جو نبی ؐ کے بعد روز اول مسلمانوں سے سرزد ہوا تھا اور مسلمان اسلامی خطوط پر چلنے کے بجائے اپنے ہاتھوں سے خلیفہ بنانے بیٹھ گئے اور بنا بھی لیا،مسلمانوں کی یہ پستی،یہ ذلت اور یہ بدحالی بہت بڑی دلیل ہے اس بات کی کہ مسلمان روز اول ہی صراط مستقیم سے بھٹک گئے تھے اور جب صراط مستقیم سے بھٹک گئے تو اس کے نتیجہ میں ذلت و خواری کے شکار ہوگئے،یہ نتیجہ ہے فیصلہ اپنے ہاتھ میں لینے کا ۔

۳۱۶

یہ سب کچھ ہونے کے بعد بھی کیا مسلمانوں کے لئے آج یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کریں،روز اول جو انحراف ان سے سرزد ہوا تھا اس راستے کو چھوڑ دیں اور اس دینی حقیقت کو تلاش کریں جس کی وجہ سے اللہ نے اپنے دین کو کامل اور نعمتوںو تمام کر کے مسلمانوں کو عظمت بخشی تھی ۔

ہر مسلمان پر واجب ہے کہ ان مسائل کا جواب تلاش کرے جذبات سے آزاد ہو کے،عصبیت سے پاک ہو کے اور سابقہ منازعات یا مسلّمات سے نظر پھیر کے ان سوالوں کا جواب تلاش کرے،دنیا نے مسلمانوں کو بہت ذلیل کیا ۔ اب اس کو اپنے پرانے نظریات چھوڑ کے لکیر کا فقیر ہونا چھوڑ کے ان سوالوں کا جواب تلاش کرنا چاہئے ۔

ارشاد ہوتا ہے کہ:اے حبیب آپ ان سے کہہ دیں کہ خدا کی حجت تو منزل کمال تک پہنچانے والی ہے اگر خدا چاہے تو تم سب کی ہدایت کردے:(۱)

اے حبیب!آپ انھیں یاد دلاتے رہیں،بیشک آپ تو صرف یا دلانے والے ہیں اور آپ ان کے نگران(ٹھیکیدار)تو ہیں نہیں ۔(۲)

ہم تو صرف اللہ سے ہی توفیق مانگتے ہیں اور اسی سے امید لگاتے ہیں وہ ہمارے لئے کافی ہے اور وہی بہترین وکیل ہے چوتھے سوال کے جواب میں بھی کچھ باتیں عرض کی جاچکی ہیں جو یہاں بھی فائدہ بخش ثابت ہوں گی،ان کی طرف رجوع کرلیں تو بہتر ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ انعام آیت: ۱۴۹

( ۲) سورہ غاشیہ آیت: ۲۱ ۔ ۲۲

۳۱۷
۳۱۸

سوال نمبر۔۶

روایتوں میں ہے کہ سرکار دو عالم ؐ نے شدت مرض کی حالت میں ابوبکر کو نماز کی امامت کا حکم دیا تھا کیا اس بات کی طرف اشارہ نہیں ہے کہ سرکار دو عالم ؐ اپنے بعد ابوبکر کی خلافت پسند کرتے تھے،آپ کا اس سلسلے میں کیا خیال ہے؟

جواب:اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل امور کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں ۔

امر اول:پہلی بات تو یہ ہے کہ جس روایت میں مدعی تنہا ہو اور فریق مخالف کے پاس بھی جو روایت نہیں پائی جاتی ہو اس روایت کو حجت بنا کے بحث کرنا احتجاج عقیم ہے جس سے نہ حق ثابت ہوتا نہ باطل کو دفع کیا جاسکتا ہے،صاحبان عقل کے نزدیک ایسا احتجاج منطقی نہیں ہے،اسی وجہ سے فریق مخالف کے خلاف نہ وہ حجت بن سکتا ہے،نہ فریق مخالفت اسے ماننا لازم سمجھتا ہے ۔

اگر شیعہ بھی اسی طرح صرف اپنے روایت کردہ واقعات سے احتجاج کرنا شروع کردیں تو پھر آفت آجائےگی،اس لئے کہ ان کے پاس ان کے موقف کی حمایت میں آپ سے زیادہ روایتیں پائی جاتی ہیں اگر چہ حد تواتر تک ںہیں پہونچی ہیں لیکن مقام آحاد میں ان کے پاس بہت سی روایتیں ہیں،اگر وہ ان روایتوں سے احتجاج کرنے لگے تو ان کے پاس ایسی روایتوں کی کمی نہیں ہے ۔

اس طرح کا احتجاج ممکن ہے کہ اہل سنت کی نظر میں صحیح ہو لیکن اللہ کی نظر میں صحیح نہیں ہے اس سوال کے جواب کے آخر میں مزید وضاحت ہوجائے گی انشااللہ تعالیٰ ۔

۳۱۹

ایک بات کا یقین رکھئے کہ جہاں ایسا نزاع و اختلاف ہوتا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں پھوٹ پڑنے کا امکان ہو،تو وہاں اللہ حق کو اس طرح واضح کرتا ہے کہ شک و شبہ کا لباس اتر جاتا ہے اور حق اس طرح روشن ہوتا ہے کہ اس کو نہیں ماننے کا کوئی بہانہ ہاتھ نہیں آتا،مکابرہ،ہٹ دھرمی اور کٹ حجتی کی بات دوسری ہے،جس کا اتکاب یا تو حد سے آگے بڑھنے والا کرتا ہے یا غفلت میں پیچھے رہ جانےوالا۔گذشتہ بیان کا لازمی نتیجہ ی نکلا کہ جب دو فریق حق کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں تو ان میں سے کوئی ایک ضرور غلط ہوتا ہے اور اس کے ناحق ہونے کا احتمال بہرحال پایا جاتا ہے اب حق سے یہ انحراف یا دشمنی کی وجہ سے ہے یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے،اس لئے ان دونوں میں سے کوئی ایک ہٹ دھرمی یا عناد کی وجہ سے جھٹ ضرور بول رہا ہے،اب ایسا آدمی اگر اپنے نظریہ کی تائید میں کوئی روایت کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ دوسرے فریق کے لئے قابل اعتبار ہوگا،چاہے اس کے مذہب کے ماننے والے اس کے بارے میں کتنا ہی حُسن ظن رکھتے ہوں اور اسے کتنا ہی قابل اعتبار سمجھتے ہوں۔

البتہ جب حق روشن دلیلوں اور قطعی حجتوں کے ذریعہ ثابت ہوکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے اور حق،باطل سے الگ ہوجاتا ہے اس طرح کہ اس کے اندر کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے تو صاحبان حق بھی باطل پرستوں سے ممیّز ہوجاتے ہیں،صاحبان بصیرت اندھوں سے الگ ہوجاتے ہیں تو پھر نگاہ اعتبار کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے اور حسن ظن اس سے متعلق ہوجاتا ہے جسے اللہ نے حق کو ثابت کرنے کے لئے توفیق عنایت فرمائی ہے جس کی وجہ سے وہ راہ حق کا مالک ہوا اور اسے مزید روشن کیا،حق سے تمسک کیا اور اسے لازم سمجھا،ظاہر ہے کہ وہ آدمی اس کے مقابلہ میں تو صاحب عزت سمجھا جائے گا ہی جس نے حق کا انکار کیا اور خدا نے اسے ذلیل کر کے اس کے دل کو باطل کے سانچے میں ڈ ھال دیا جس کی وجہ سے وہ حق سے بے بہرہ رہا اور الگ ہوگیا،اب وہ اپنے پیچھے چلنے والے افراد کی نظر میں چاہے کتنا ہی بلند مرتبہ ہو اہل حق کی نظر میں تو ذلیل ہی رہے گا،یہاں امیرالمومنین علیہ السلام کا قول قابل غور ہے،کہ آپ نے فرمایا:((حق کو پہچانو!اہل حق کو پہچان لوگے))(۱) سابقہ سوالوں میں چوتھے سوال کے جواب میں امیرالمومنین علیہ السلام کا یہ قول عرض کیا جاچکا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) تفسیر قرطبی ج: ۱ ص: ۳۴۰ ،فیض القدیر ج: ۱ ص: ۲۱۰ ،ج: ۴ ص: ۱۷ ،البیان و التبیین ج: ۱ ص: ۴۹۱ ،تاریخ یعقوبی ج: ۲ ص: ۲۱۰ ،خلافت امیرالمومنینؑ کے بیان میں،انساب الاشراف ج: ۳ ص: ۳۵ ،جمل کے واقعہ کے بیان میں۔

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367