فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 367
مشاہدے: 183663
ڈاؤنلوڈ: 4413


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 183663 / ڈاؤنلوڈ: 4413
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

جو صحابہ حق پر ثابت قدم رہے ان کی محبت دینی فریضہ ہے

بلکہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام تو،ان صحابہ کی محبت کو جو حق پر ثابت قدم رہے ایک دینی فریضہ سمجھتے ہیں اور اسلام کے ان شرائع میں شمار کرتے ہیں جن کی پابندی واجب ہے،اعمش کی ایک حدیث ملاحظہ ہو،جو انھوں نے ابوعبداللہ جعفر بن محمد علیہ السلام کے حوالہ سے نقل کی ہے کہ امام ؑ نے دینی شرائع کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:((اور اولیا خدا کی محبت اور ان سے ولا واجب ہے،ان کے دشمنوں سے الگ رہنا اور ان سے الگ رہنا جنھوں نے آل محمد ؐ پر ظلم کیا،پیغمبر ؐ کی ہتک حرمت کی،ظلم کی بنیاد رکھی،سنت پیغمبر ؐ کو بدلا،انصاب و ازلام اور گمراہیوں کے امام،ظلم کی قیادت کرنے والے،بلکہ ہر دور کے ظالم سے الگ رہنا واجب ہے،اہل بیت ؑ کے تمام قاتلوں سے اظہار برائت کرنا واجب ہے،ان مومنین کی محبت واجب ہے جنھوں نے نبی ؐ کے بعد دین کو نہیں بدلا اور تغیر نہیں کیا جیسے سلمان فارسی ؓ ،ابوذر غفاری ؓ ،مقداد بن اسود کندی ؓ ،عمار بن یاسر ؓ ،جابر بن عبداللہ انصاری ؓ ،ابوالھیثم بن تیہان ؓ ،سہل بن حنیف،ابوایوب انصاری ؒ عبداللہ بن الصامت ؒ ،عبادہ بن الصامت ؒ ،خزیمہ بن الثابت ؓ ذوالشہادتین،ابوسعید خدری اور جو لوگ ان کے راستوں پر چلتے رہے اور ان کے جیسے اعمال انجام دیتے رہے،ایسے لوگوں کی پیروی کرنے والوں اور ان کی اقتدار میں رہنے والوں اور ان کی ہدایتوں پر عمل کرنے والوں سے بھی محبت واجب ہے)) ۔(1)

مامون عباسی نے حضرت ابوالحسن امام الرضا علیہ السلام سے عرض کیا کہ مختصر طور پر اسلام کی تعریف لکھ دیں،آپ نے تحریر فرمایا:((اسلام محض یہ ہے کہ انسان لا الہ الا اللہ کی شہادت دے))پھر آپ نے اسلام کے اصول و فروع لکھے من جملہ ان کے واجبات اسلام بھی بیان کئے پھر آپ نے لکھا کہ اور ان سے اظہار برائت کرنا جنھوں نے آل محمد کو قتل کیا انھیں ان کے گھروں سے بےگھر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الخصال ص:607۔101،608،باب:فضائل من شرائع الدین۔

۳۰۱

کیا ان پر ظلم کئے،ظلم کا طریقہ اپنایا اور نبی ؐ کی سنت کو بدل دیا اور امیرالمومنین علی علیہ السلام کی ولایت اور ان لوگوں سے محبت جو اپنے نبی ؐ کے راستے پر چلے،نہ تغیر کیا نہ تبدیلی،جیسے سلمان فارسی،ابوذر غفاری،مقداد بن اسود،عمار بن یاسر،حذیفہ یمانی،ابوالہیثم بن تیہان،سہل بن حنیف،عبادہ بن صامت،ابوایوب انصاری،خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین،ابوسعید خدری اور ان جیسے لوگ خدا ان سے راضی ہو اور ان پر خدا کی رحمت ہو اور ان کی پیروی کرنے والوں سے محبت کرنا،ان کے چاہئے والوں سے محبت کرنا اور ان کی ہدایتوں پر عمل کرنے والوں سے محبت کرنا ۔(1)

شیعوں کے پاک اماموں نے انھیں سمجھایا اور بتایا کہ صحابہ پیغمبر ؐ قابل تعظیم و احترام ہیں شیعوں نے اپنے اماموں سے ان کے مرتبوں کو پہچانا،یہی وجہ ہے کہ شیعہ،اپنے اماموں کی پیروی میں صحابہ پیغمبر ؐ سے محبت کرتے ہیں اور ان کی عزت کرتے ہیں،مقصد صرف یہ ہے کہ ان کا حق ادا ہو اور رضائے خدا حاصل ہوجائے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ((اور وہ لوگ جو ان کے(صاحبان ایمان کے)بعد آئے کہتے ہیں پالنے والے ہمیں بخش دے اور مہارے ان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے باایمان رہ چکے ہیں اور ان صاحبان ایمان کی طرف سے ہمارے دل میں کھوٹ نہ قرار دے،اے ہمارے پروردگار بےشک تو مہربان بھی ہے اور رحیم بھی ہے،(2) ہمارے ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کا کردار اس سلسلہ میں کافی ہے ۔

میں نے آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں بھی عرض کیا تھا کہ دین صرف راہ خدا میں محبت اور خدا کے لئے بغض کا نام ہے دین اولیا خدا سے موالات اور دشمنان خدا سے دشمنی عداوت کا نام ہے اس سلسلہ میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں،جن میں سے بعض کا تذکرہ یہاں حسب حال کردیا گیا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) عیون الاخبار ج: 1 ص: 129 ۔ 134 ،اس باب میں کہ جو امام رضاؑ نے مامون کو اسلام و دین کی شریعت کے باب میں لکھا تھا

( 2) سورہ حشر آیت: 10

۳۰۲

نتیجہ گفتگو

گذشتہ بیانات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر شیعوں کے قول کے مطابق امیرالمومنین علیہ السلام کی ولایت پر نص تھی اس نص کی تردید بہت کم لوگوں نے صرف ان لوگوں نے اس نص کو نہیں مانا یا تجاہل برتاجو تھے یا تو مہاجر و انصار لیکن امیرالمومنین ؑ کے خلاف قیام کے بانی تھے اسی طرح ان لوگوں کی پیروی کرنے والی جماعت بھی نص سے غافل رہی جیسے حدیث الاسلام لوگ جو کسی طرح اسلام میں داخل ہوگئے تھے لیکن باقی مہاجرین و انصار جو دین میں اپنی ایک حیثیت رکھتے تھے وہ نص کے مخالف نہیں تھے نہ انھوں نے ص کی تردید کی(بلکہ واقعات گواہ ہیں کہ انھیں نص کا یقین تھا اور اس یقین کا وہ موقعہ پاتے ہی اظہار کرنے لگتے تھے)

یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے مولائے کائنات ؑ کی نصرت میں کوتاہی کی اور شروع میں حق نصرت ادا نہیں کرسکے،لیکن ان میں بھی کچھ وہ تھے جو مسلسل حق کی حمایت میں بولتے رہے اگر چہ ایسے کم لوگ تھے،بہرحال جب انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ مولائے کائنات ؑ کی ولایت میں واپس آئے،آپ کی حمایت کرتے رہے آپ کے ساتھ جنگوں میں شرکت کی آپ کی کمر مضبوط کی اور آپ کی نصرت میں کوئی کوتاہی نہیں کی خدا کی نظر میں ان کی کوششیں منظور ہیں،خدا نے ان کے گناہوں کو بخش دیا،پھر پورا ثواب دیا،بےشک وہ توبہ قبول کرنے والا شکور غفور ہے ۔

صحابہ کا یہ شرف تھا کہ وہ نص کا یقین رکھتے تھے

آخر کلام میں ایک بہت ضروری بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم نے نص کے سلسلے میں جو بھی گفتگو کی اسے پڑھ کے یہ غلط فہمی نہیں پیدا ہونی چاہئے کہ ہم نص کی تائید یا اس کی مدافعت اس لئے کررہے ہیں کہ صحابہ کے طرز عمل میں اقرار نص اور اس سے عدم تجاہل پایا جاتا ہے یا یہ کہ مولائے کائنات ؑ کی فضیلت اور آپ کے مرتبہ کی بلندی،جو کچھ بھی ہے وہ اس لئے ہے کہ صحابہ آپ

۳۰۳

سے محبت کرتے تھے اور صحابہ کی تائید آپ کو حاصل تھی اور صحابہ نے جنگوں میں آپ کا ساتھ دیا ۔

بلکہ نص نذات خود اتنی واضح اور روشن تھی اور مولائے کائنات ؑ کی فضیلت،آپ کی بلندیاں فی نفسہ اتنی واضح اور روشن کہ یہ دونوں حقیقتیں کسی بھی تائید و اظہار سے بےنیاز تھیں،نص موجود تھی،صحابہ کی تائید سے اس کی حقیقت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا،مولائے کائنات ؑ افضل ہیں،حق و باطل کے فاروق اعظم ہیں اور حق کی علامت ہیں،کسی کی تائید سے اس حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑےگا اور کسی کی تردید سے اس حقیقت پر کوئی الٹا اثر نہیں پڑے گا،نص کا وضوح اور مولیٰ کی افضلیت تائید اقرار سے بےنیاز ہے اس کی طرف خود امیرالمومنین ؑ نے اپنے خطبہ میں اشارہ فرمایا ہے،آپ فرماتے ہیں میرے پاس لوگوں کی کثرت سے نہ میری عزت میں کوئی زیادتی ہوتی ہے نہ لوگوں کے چھوڑ کر ہٹ جانے میں میری وحشت میں کوئی اضافہ ہوگا ۔(1)

بلکہ پیروی کرنے والوں،نص پر یقین کرنے والوں اور اس راہ میں لبیک کہتے ہوئے جہاد کرنےوالوں کے لئے شرف و فضیلت کی علامت ہیں،میں نے جو تائید نص اور تائید صحابہ کی باتیں کی ہیں اس سے مقصد یہ تھا کہ صحابہ کی فضیلت ظاہر ہو نہ کہ علی ؑ کی فضیلت ظاہر کرنا مقصد تھا ۔

میں اصل میں صحابہ کی مدافعت کرنا چاہتا تھا اور ان پر جو الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے عہد کو توڑا،راستے کو بدلا،حق اور اہل حق کا راستہ چھوڑ دیا و غیرہ میں صحابہ کو ان الزامات سے بری کرنا چاہتا تھا،کوشش یہ نہیں تھی کہ صحابہ کی تائید کے ذریعہ نص کا وجود ثابت کیا جائے اور مولائے کائنات ؑ کی فضیلت ثابت کی جائے بلکہ کوشش یہ تھی کہ صحابہ پر جو تجاھل بالنص کا الزام اور مولائے کائنات ؑ سے منھ موڑنے کا جو الزام عائد کیا جاتا ہے اس کی تردید کی جائے ۔

اب تک جو گفتگو ہوتی رہی ہے وہ اسی تناظر میں ہوتی رہی ہے اور شیعان اہل بیت ؑ کے صالح اسلاف کا طریقہ رہا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) نہج البلاغہ ج: 3 ص: 62 ،الامامۃ و السیاسۃ ج: 1 ص: 51 ،الاغانی ج: 16 ص: 290 ،

۳۰۴

اس موقعہ پر چند واقعات اپنے بیان کی تائید میں پیش کر رہا ہوں:

عبدالرحمان بن حجاج کہتے ہیں:ہم ابان بن تغلب کی خدمت میں تھےکہ ایک نوجوان آیا اور اس نے پوچھا اے ابوسعید!(ابان کی کنیت)ہمیں بتایئے کہ علی ؑ کے ساتھ پیغمبر ؐ کے کتنے صحابی تھے؟ابان نے کہا:کیا تائید صحابہ سے تم فضیلت علی ؑ کو تولنا چاہتے ہو؟اس نے کہا:ایسی ہی بات ہے،ابان نے کہا:خدا کی قسم ہم تو فضائل صحابہ کو اتباع علی ؑ سے تولتے ہیں ۔(1)

اس حدیث سے مشابہ ایک اور حدیث ہے،عبداللہ بن احمد بن حنبل کہتے ہیں:ایک دن میں اپنے باپ کے پاس بیٹھا تھا کہ کرخیوں کا ایک گروہ آیا اور ابوبکر،عمر اور عثمان کی خلافت کی بات چل نکلی اور لوگ بہت دیر تک اس موضوع پر باتیں کرتے رہے پس میرے باپ نے سر اٹھایا اور کہا:تم نے کتنی مرتبہ کہا علی ؑ اور خلافت،خلافت اور علی ؑ ،سنو!خلافت نے علی ؑ کو زینت نہیں دی تھی بلکہ علی ؑ نے خلافت کو زینت دی تھی ۔(2)

آیہ:کنتم خیر امة، پر گفتگو

اب ایک بات رہ جاتی ہے(وہ یہ کہ آپ نے فرمایا ہے کہ اگر بقول شیعہ نص موجود تھی تو اس دور کے مسلمانوں نے تائید کیوں نہیں کی؟جب کہ ان کی مدح خیر امت کی آیت اتری ہے اور اللہ انھیں خیرالامم کا خطاب دے رہا ہے)آیت یہ ہے کہ(تم سب سے بہترین امت جو لوگوں کے لئے منتخب کئے گئے ہو تمہاری خاصیت یہ ہے کہ تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہو( 1 ) شاید آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ خیر امت سے مراد صحابہ ہیں اور جب صحابہ کٰر امت ہیں تو انہوں نے نص کی تائید کیوں نہی کی اور تجاہل کیوں برتا،یہ بات بعید از قیاس ہے اور سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ کے ذہن میں یہ سوال کیسے پیدا ہوا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) معجم الرجال الحدیث،ص: 133 ،ابان بن تغلب کے حالات میں۔

( 2)( تاریخ دمشق ج: 42 ص: 446 ،علی بن ابی طالبؑ کی سوانح حیات میں،تاریخ بغداد ج: 1 ص: 135 ،علی بن ابی طالبؑ کی سوانح حیات میں،المنتظم ج: 5 ص: 35،62 سنہ کےواقعات

۳۰۵

اہل لغت کی صریحات تو دیکھیں!اہل لغت نے امت کے مختلف معانی بیان کئے ہیں،لیکن ظاہرتر اور سب سے جامع معنی وہ ہیں جو مفردات راغب میں لکھے ہیں،راغب کہتے ہیں:امت ہر اس جماعت کو کہتے ہیں جو کسی کام کے لئے مجتمع ہوں،ایک دین پر جمع ہونے والے بھی امت ہیں،ایک زمانے میں جمع ہونے والے بھی امت ہیں،ایک جگہ پر جمع ہونے والے بھی امت ہیں(1) البتہ یہاں اس آیت میں امت سے مراد عام امت مسلمہ ہے،اس امت کو خیر امت اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ خاتم الامم ہے اس کے نبی ؐ خاتم الانبیاء ہیں اور تمام انبیا سے اشرف ہیں،اس کا دین خاتم الادیان اور تمام دینوں سے افضل ہے،اس کی شریعت خاتم الشرائع اور تمام شریعتوں سے اکمل ہے اور اس لئے بھی کہ اس امت میں چاہے جتنا بھی اختلاف ہوجائے لیکن کفر باللہ اور شرک سے محفوظ رہے گی،یہودی،نبی ؐ کی غیبت میں مشرک ہوگئے تھے،انھوں نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی تھی انھوں نے یہ بھی کہا تھا:((اے موسیٰ ؑ !ہمارے لئے ان کے خدا جیسا ایک خدا قرار دیجئے موسیٰ ؑ نے کہا:تم جاہل لوگ ہو،یہ لوگ جس مذہب پر ہیں وہ یقیناً برباد ہوجائےگا اور جو عمل یہ لوگ کر رہے ہیں وہ سب ملیا میٹ ہوجائےگا))(2) اور جس طرح عیسائی کافر ہوگئے،کہنے لگے((مسیح بن مریم ہی اللہ ہیں،(3) اور مشرک بھی ہوگئے،کہنے لگے((اللہ تو بس تین میں کا تیسرا ہے،(4) لیکن اس امت نے آج تک خود کو کفر و شرک سے بچائے رکھا،یہی وجہ ہے کہ یہ امت تمام امتوں سے افضل ہے ۔(5)

حدیث میں ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام سے ایک یہودی نے کہا کہ ابھی تم نے اپنے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ آل عمران:آیت 110

( 2) مفردات غریب القرآن ص: 23 ،ام کے مادہ میں۔

( 3) سورہ اعراف آیت: 138 ۔ 139

( 4) سورہ مائدہ آیت: 72

( 5) سورہ مائدہ آیت: 73

۳۰۶

نبی ﷺ کو دفن بھی نہیں کیا تھا کہ تمہارے درمیان نبی ؐ کے بارے میں اختلاف ہوگیا آپ نے فرمایا:ہمارے درمیان نبی ؐ کی ذات اختلاف کا موضوع نہیں تھی بلکہ نبی ؐ کے معاملات میں اختلاف ہوا تھا،لیکن تم رو دریائے نیل سے نکلے اور ابھی تمہارے پیر خشک بھی نہیں ہوئے تھے کہ تم نے اپنے نبی سے کہا:ہمیں کافروں جیسا ایک خدا دیدیجئے اور تمہارے نبی نے کہا کہ تم جاہل لوگ ہو ۔(1)

جہاں تک صحابہ کا سوال ہے تو وہ امت کے عام افراد سے کوئی الگ نہیں ہیں ان میں بدکردار بھی ہیں،اچھے بھی ہیں،عہد خدا کی پائیداری کرنے والے بھی ہیں اور عہد خدا کو توڑنے والے بھی ہیں،اس سلسلے میں تفصیلی گفتگو آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں عرض کی جاچکی ہے،اسے دہرانے سے کوئی فائدہ نہیں ۔

اور اگر یہی فرض کرلیا جائے کہ اس آیت میں امت سے مراد عام امت مسلمہ نہیں ہے بلکہ صرف وہ لوگ ہیں جو زمانہ خطاب میں موجود تھے تب تو یہ آیت صرف صحابہ کے لئے مخصوص نہیں ہوگی بلکہ اس دور کے تمام مسلمانوں کے لئے ہوگی جو مسلمان نزول آیت کے وقت موجود تھے چاہے انھیں حقیقت ہے کہ وہ سارے مسلمان کے لئے ہوگی جو مسلمان نزول آیت کے وقت موجود تھے چاہے انھیں صحبت پیغمبر نصیب ہوئی یا نبی ؐ سے دور رہنے کی وجہ سے شرف صحبت حاصل نہ ہوا ہو اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ سارے مسلمان،کجی اور کمزوریوں سے مامون و محفوظ نہیں تھے لٰہذا آیت کے مصداق صرف چند افراد ہی قرار پائیں گے اور اگر یہ مان لیا جائے کہ یہاں امت سے مراد صرف صحابی ہیں،صحابی وہ جس نے نبی ؐ کو دیکھا اور آپ سے حدیث سنی تو مدعیٰ یہ ہوگا کہ وہ سب کے سب خیر ہیں ان میں شر ذرا بھی نہیں ہے تو پھر دعویٰ دو طریقوں سے رد ہوجاتا ہے ۔

1 ۔ آیہ شریفہ یہ بالکل نہیں کہتی کہ جس کے اندر خیر ہے وہ شر سے خالی ہے فضیلت صاحب خیر کو اس لئے حاصل ہے کہ اس کے اندر خیر زیادہ ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے اندر شر بالکل بھی نہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) نہج البلاغہ ج: 4 ص: 75

۳۰۷

2 ۔ اسی سوال کے جواب میں جو واقعات و احادیث بیان کی گئی ہیں ان سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت صحابہ کے مناسب حال ہو ہی نہیں سکتی،یہ ایسی بات ہے جس کا کوئی قائل نہیں ہے،یہاں تک کہ اہل سنت بھی تمام صحابہ کے خیر کے قائل نہیں ہیں وہ صحابہ کو شر سے پاک نہیں مانتے،نہ ان کی عصمت کے قائل ہیں،زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اہل سنت تمام صحابہ کی عدالت کے قائل ہیں لیکن عدالت کے ساتھ شر تو جمع ہوسکتا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ صحابہ کے اندر خیر نسبت کے لحاظ سے ہے یعنی صحابہ میں خیر کا تناسب دوسروں سے زیادہ ہے تو پھر امیرالمومنین ؑ پر نص سے جو اعراض کیا ہے یہ دعویٰ اس کے منافی ہے،اگر بقول شیعہ نص موجود ہوتی اس لئے کہ نص سے اعراض نہ انھیں کافر بنانا ہے نہ مشرک اس لئے کہ انبیائے ماسبق کے اصحاب تو کفر و شرک کے مرتکب ہوچکے ہیں اور دوسرے انبیا کے اصحاب کی جو تعداد حق پر ثابت قدم رہی وہ ہمارے نبی ؐ کے اصحاب کی تعداد سے بہت کم ہے نسبت کے اعتبار سے یہی بات صحابہ کے خیر پر ہونے کے لئے کافی ہے ۔

بہرحال جو بھی ہو یہ آیہ کریمہ ہمارے موضوع سے کسی طرح میل نہیں کھاتی اور آپ کے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے بہرحال نافع نہیں ہے ۔

اس لئے کہ آپ نے کہا:یہ بات بعید از قیاس ہے کہ نص کی موجودگی میں خیر امت صحابہ نے تجاہل کیا،میں نے عرض کیا کہ یہ کوئی بعید از قیاس بات نہیں ہے اس لئے کہ نص کے اعراض سے گذشتہ بیان کے مطابق ان کےخیر امت ہونے پر حڑف نہیں آتا،ضرورت یہ ہے کہ نص پر غور یا جائے اور اس کے تلاش کی کوشش کی جائے،اس کی سند اور دلالت کی تحقیق کی جائے،نص کے مخالفین اگر موجود ہیں تو ان کی پیروی نہ کی جائے اس لئے کہ اس معاملے میں بڑی عظیم ذمہ داری ہے اور غلطی کا امکان بہت زیادہ ہے،لہذا نص کی تلاش خلوص نیت کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے،اس سلسلے میں کٹھ حجتی تحکم اور فتنہ و فساد سے پرہیز کرتے ہوئے خدا سے توفیق و تسدید کی التجا کی جائے کیونکہ تمام

۳۰۸

امور اسی کے ہاتھ میں ہیں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے کہ:

خدا پر واجب ہے کہ وہ سیدھا راستہ دکھائے اور راستہ سے الگ ہٹ کر چلنے والا بھی انھیں میں سے ہے،اگر خدا چاہے تو تم سب کی ہدایت کردے))(1)

اور دوسرےمقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کرتے ہیں اللہ ایک کام کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔(2) خدا ہی سیدھے راستہ کا ہادی ہے،وہی ہمارے لئے کافی ہے اور بہترین وکیل ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ نحل آیت:9

(2)سورہ عنکبوت آیت:69

۳۰۹

۳۱۰

سوال نمبر5

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ جب سے اسلامی خلافت ہوئی ہے مسلمان انتشار و افتراق کا شکار ہیں اس لئے مسلمانوں کو چاہئے بلکہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اس پر فتن دور میں محض انتشار و افتراق سے بچنے کے لئے یا دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ رہنے کے لئے کسی ایک شخص کی خلافت یا امامت پر متحد ہوجائیں اور شیعہ و سنی متحد ہو کر اسے امام بنالیں،اس لئے کہ سنیوں کے پاس اس وقت کوئی خلیفہ نہیں ہے اور شیعوں کا بھی زمانہ غیبت میں یہی حال ہے کہ ان کے پاس کوئی مرکزی قیادت نہیں ہے،آپ کی اس سلسلہ میں کیا رائے ہے ۔ ؟

جواب:نے شک دور حاضر میں مسلمانوں کی حالت افسوسناک،بلکہ دردناک ہے،لیکن مسلمان اگر اپنے لئے کوئی خلیفہ امت کے انتظام اور اسلامی شریعت کے مطابق امور کے نفاذ کے لئے بنانا ضروری سمجھتے ہیں تو پھر دو باتوں پر سب سے پہلے غور کرنا پڑےگا ۔

اول:پہلے تو یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ کون شخص ہے جس کو یہ عظیم منصب پر فائز کیا جائے کہ شریعت کے معیار پر پورا اترسکے یا یہ کہ شریعت کا لحاظ نہ کر کے اس کو اختیار کیفی سے دیا جائے کہ جیسے چاہے کرلے،شریعت کے میزان پر اس کو تولنے کی ضرورت نہیں ہے،اس کی دو صورت ہے ۔

۳۱۱

اولاً:اگر شریعت کو معیار نہ بنا کے کسی کو بھی اس منصب کے لئے منتخب کیا جاتا ہے تو اس سے نہ واجب ادا ہوگا نہ انسان خدا کے سامنے جواب دہی سے بچ سکےگا،بلکہ جسکو ذمہ دار بنایا جائےگا وہ مسلمانوں کی طرف سے غیرشرعی طور پر مسلمانوں کے خون،مال،عزت اور مصالح کا ذمہ دار ہوجائےگا وہ مسلمان ان نتائج کے جھیلنے پر مجبور ہوں گے جو اس کے غیر شرعی اقدامات سے حاصل ہوں گے ۔

ثانیاً:جس کو بھی بغیر معیار شریعت کے خلیفہ بنایا جائے گا،ظاہر ہے کہ اس کو مسلمانوں کی عقیدت تو حاصل نہیں ہوگی نہ وہ شرعی طور پر مقدس سمجھا جائےگا،مسلمان اس کے حکم کو ماننا اپن مذہبی ذمہ داری نہیں سمجھے گا،جب کہ تنصیب خلافت کی بنیاد ہی یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان مذہبیت کا احساس پیدا کیا جاسکے ۔

اس کے علاوہ فقہی اختلافات بھی ایک بڑا مسئلہ ہے،مسلمانوں کے مختلف فرقے ہیں ہر ایک کی فقہ الگ الگ ہے،اگر منصوب خلافت کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ فقہ میں کوئی ایسا نظریہ دے سکے جس پر تمام اسلامی فرقہ متحد ہو کے عمل کریں اور اس عمل کے بعد خود کو بری الذمہ سمجھیں تو اس سے بہتر کیا ہوگا؟ورنہ پھر ہر ایک کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اپنے اجتھاد پر عمل کرے اور خود کو بری الذمہ محسوس کرے تا خدا کے سامنے مسئولیت سے محفوظ رہے ۔

ایسا ممکن ہے یا نہیں؟ایسا کرنے سے مقصد پورا ہوسکےگا یا نہیں؟یہ وہ سوالات ہیں جن کا وجاب کافی بحث و تمحیص کے بعد حاصل ہوگا،بلکہ ضروری یہ ہے کہ امت کے خاص لوگ س بحث کو موضوع بنا کہ بہت سنجیدگی کے ساتھ فقہی بحث کریں تا کہ امت مسلمہ ایک بہت بڑے خطرہ سے محفوظ رہ جائے اور اختلاف کو دور کر کے ایک پلیٹ فارم پر آجائے ۔

اس مشروع نظریہ کو عمل میں لانے کے لئے دور حاضر کے ماحول کا سازگار ہونا ضروری ہے

الثانی:آج مسلمان جس پُر محن دور سے گذر رہےہیں وہ آپ کے سامنے ہے،ساری دنیا مسلمانوں کو مٹانے پر تلی ہوئی ہے،طرح طرح کے مسائل نے اس امت کو گھیر رکھا ہے اور یہ دور مسلمانوں کے

۳۱۲

خلاف صف بندی کرچکا ہے ایسے خطرناک دور میں کسی بھی ایسے اقدام سے بچنا بےحد ضروری ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے اختلاف میں اضافہ ہو،اس لئے خلیفہ منتخب کرنے سے پہلے بہت غور و خوض کر لیجئے کہ آپ کا یہ قدم وقت کے پہلے تو نہیں اٹھ رہا ہے؟اور کہیں اس سے مسلمان مزید مسائل سے تو نہیں دوچار ہوجائےگا؟اگر ایسا ہے تو بہت پرہیز کریں اور بھرپور گریز کریں،جذبات میں آکے کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس کے نتیجہ میں امت مرحومہ کو مزید مصیبت میں گرفتار ہونا پڑے ۔

اس مشروع نظریہ کو نافذ نہ کرنے کی صورت میں دور حاضر میں مسلمانوں کی ذمہ داری

یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ آپ کے تجویز کردہ اصول کو عالم اسلام میں اجتماعی طور پر عمل میں نہیں لایا جاسکتا لیکن کم از کم مندرجہ ذیل باتوں کی طرف توجہ دی جاسکتی ہے اور ان پر عمل کر کے ہر صاحب ذوق اپنے واجب سے ادا ہوسکتا ہے اور اپنے فریضہ کو پورا کرسکتا ہے ۔

1 ۔ آپ کے تجویز کردہ اصول کے نافذ نہیں ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلمان آپس میں اختلاف کے شکار ہیں اور ایک مرکز پر مرتکز نہیں ہیں،اختلاف یا تو مذہبی ہے یا سیاسی،اس سیاسی اختلاف کی وجہ بھی وہ حکومتیں ہیں جن پر اسلام کا لیل و نہار اور مسلمانوں کے ذھن و دماغ پر ہر دور میں اپنی چھاپ چھوڑتی رہی ہیں،اسلام دشمن عناصر کی حوصلہ افزائی اسی وجہ سے ہوئی اور اسلام دشمن عناصر کے حوصلہ بھی سی اختلاف کی وجہ سے بڑھے ہیں،اسی اختلافات کی بنیاد پردہ مسلمانوں کو کمزور کرتے ہیں،ان کے اندر انتشار پیدا کرتے ہے اور ان کی جماعت کو منتشر کرتے ہیں،اختلاف کی یہ زمین دشمنوں کے فتنوں کے بیج کو خواب اپج دیتی ہے اور دشمن مسلمانوں کے درمیان بغض و عداوت کی بہت اچھی فصل کاشت کرلیتا ہے کمزور،بیمار ذھن شبھوں کے گرفتار دماغ اور سادہ لوح عوام کو بہکا کے دشمن اسلام اور مسلمانوں کو خوب نقصان پہنچاتا ہے ۔

۳۱۳

مذہبی اختلاف کی خلیج کو کم کرنا بہت ضروری ہے

اگر مسلمان اپنی جگہ یہ طے کرلیں کہ ہم اس سیاسی اختلاف کو ہوا نہیں دیں گے اسے اپنی انا کا سوال نہیں بنائیں گے اور اس سیاسی اختلاف کی وجہ سے ہم آپس میں نہیں لڑیں گے تو بےشک مسلمانوں کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہوجائے گی کہ وہ اپنے مذہبی اختلاف کی خلیجوں کو اگر پاٹ نہیں سکیں گے تو دوریوں کو کم ضرور کرسکیں گے،اس موضوع پر آپ کے سابقہ سوالوں کے نویں سوال کے جواب میں کافی گفتگو ہوچکی ہے برائے کرم اسے پھر ایک بار دیکھ لیں ۔

اگر مذہبی اختلاف میں کمی ہوئی اور مسلمان کھلے دل سے ایک مرکز پر جمع ہوسکے تو ان کی عظیم کامیابی ہوگی اگر تمام مسلمان آپ کی پیش کردہ تجویز کے تحت ایک شخص پر متحد نہ بھی ہوسکے اور شریعت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کوئی حکومت قائم نہ بھی ہوسکی جب مسلمانوں کے لئے یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی ۔

بلکہ اگر تمام عالم اسلام ایک سطح پر نہ آئے اور یہ جذبہ اگر انفرادی طور پر پیدا ہو تو اس کی قدر کرنی چاہئے اور اسے معمولی نہیں سمجھنا چاہئے اگر ایک فرد کے اندر بھی یہ جذبہ پیدا ہوجائے کہ وہ مسلمانوں کے اختلافات کو مٹانے کی کوشش کر کے اور عالم اسلام کو ایک پائیدار اتحاد دینے کی خواہش رکھتا ہے تو ایسے شخص کی ہر غیور مسلمان کو قدر کرنی چاہئے کہ وہ ایسے آدمی کو اہمیت دے اور اس کی بھلائی کے بارے میں غور کرے اس لئے کہ وہ پوری امت کی بھلائی کے بارے میں سوچ رہا ہے کیونکہ جس کا حصول مشکل ہے اس کی وجہ سے مشکل الحصول کو ساقط نہیں کیا جاسکتا اور آدمی اپنے ہاتھ میں آئی ہوئی چڑیا کو درخت پر بیٹھی ہوئی چڑیا کی امید میں نہیں چھوڑسکتا یہ غقلمندی نہیں ہے ۔

۳۱۴

یہ معلوم کرنا بہت ضروری ہے کہ مسلمانوں کے اختلاف اور سیاسی انحطاط کا سبب کیا ہے؟

تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں کا یہ سیاسی انحطاط اور یہ قابل افسوس حالت اس وجہ سے نہیں ہے کہ ماضی قریب میں ترکی حکومت یعنی اموی خلافت کا سقوط ہوگیا بلکہ قرن اولیٰ سے ہی مسلمان اس بیماری کا شکار ہیں،البتہ وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی پستی اور انحطاط میں اضافہ ہی ہوا ہے اور آج مسلمان تنزل کی اس منزل میں پہنچ گیا ہے جسے دیکھ کے دوسرے بھی افسوس کررہے ہیں،یہ منزل،یہ انحطاط،یہ بدحالی صرف اس وجہ سے آئی کہ مسلمان اسلام کے ان اصول سے منحرف ہوگئے جن پر اللہ انھیں چلانا چاہتا تھا،در اصل مسمانوں نے مفہوم خلافت کو سمجھا ہی نہیں خلافت کا نظام اپنے ہاتھ میں لیکے ہر ایرے غیرے کو خلیفہ تسلیم کرتے رہے اور زمانے کے انقلاب نے اس مقدس دین خلافت کو عثمانیوں کے ہاتھ میں پہنچادیا اور پھر ذلت کی انتہا یہ ہوئی کہ خلافت ان کے ہاتھوں سے نکل گئی اور مسلمانوں کی حالت مزید افسوسناک ہوگئی،وجہ صرف یہ تھی کہ مسلمانوں نے حکم اسلام کو ماننے سے انکار کیا اور خلافت کو لغو قرار دیا پھر اسلامی ملکوں کی تو تقیسم ہونے لگی وہ ممالک جو عثمانی خلافت کے ماتحت تھے مختلف ملکوں میں تقسیم ہوئے،ان پر مختلف افراد کی حکومت قائم ہوئی اور باقی ملکوں میں علامتی،رسمی یا عملی حکومتیں قائم ہوئیں،نتیجہ میں اسلام سیاسی،ثقافتی اور فی اعتبار سے تنزل پزیر ہوگیا ۔

یہ سب کچھ تو ہوا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک غیور اور خوددار مسلمان کی ذمہ داری کیا ہے؟اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے نفس سے سوال کرے یہ دین خدا کا دین ہے یا نہیں؟کیا یہ وہی دین نہیں ہے جس کے بارے میں اللہ کا فیصلہ ہے کہ یہ دین خاتم الادیان ہے؟کیا اللہ نے یہ بتایا نہیں ہے یہ دین اس وقت تک باقی رہے گا جب تک زمین اور زمین پر رہنے والے باقی رہیں گے؟کیا اللہ نے یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ یہ دین زمین پر حکومت کرے گا اور اسی کے مطابق عمل کرنے سے انسان اس دنیا کے خیرات و ثمرات سے بہرہ اندوز ہوسکے گا؟اور وہ اللہ جو عالم الغیب ہے کیا اسے نہیں معلوم

۳۱۵

تھا کہ اسلام کہاں پہنچے گا؟مسلمان پستی اور تنزلی کی کون سی کھائیوں کی سیر کریں گے اور ان کی یہ حالت ہوجائے گی؟ان تمام سوالوں کا جواب یہ ہے کہ خدا سب کچھ جانتا تھا کہ مسلمان کی کیا حالت ہونےوالی ہے اور تنزلی اور پستیوں کی کن وادیوں کی سیر کریں گے اللہ یہ جانتا تھا تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے اپنے دین کو ان مشکلات کے حل کرنے کا طریقہ کیوں نہیں بتایا؟یہ دین مکمل ہے،یہ دین اپنے اندر تمام نعمتوں کو رکھتا ہے،یہ دین قیامت تک کے انسانوں کے لئے کافی ہے،یہ دین تمام عالم انسانیت کے لئے واجب العمل ہے،نہ اس کے پاس کوئی نظام حکومت نہیں ہے ایسا نظام حکومت جو تمام انسانوں کے لئے قابل تسلیم اور قابل عمل ہو،اپنے نفس سے پوچھو کیا ایسا ممکن ہے؟کیا یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ خدا نے اپنے اس مضبوط قانون میں مسلمانوں کی اس پستی کا کوئی حل رکھا ہو؟کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ نے عزت اسلام کی حفاظت کے لئے اسلامی حکومت کو دنیا میں باقی رکھنے کے لئے اسلام کے علم کو سربلند رکھنے کے لئے،اسلامی نعمتوں سے عالم اسلام کو بہر اندوز ہونے کے لئے اور اسلام کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لئے اپنے دین میں کوئی راستہ معین نہیں کیا اور نہ کوئی طریقہ بتایا،کیا ایک انصاف پسند اور عزت دار صاحب ایمان اس بات کو پسند کرے گا کہ(خدا اپنے دین سے اتنا لاپرواہ ہوجائے اور اپنے دین کی باگ ڈ ور چوروں،رہزنوں،قذاقوں اور غیرذمہ دار کے ہاتھ میں دیکے)عالم انسانیت کو دائرہ اسلام میں آنے کے بعد قیامت تک ذلیل و خوار ہونے کے چھوڑ دے ۔

پھر ایک بہت اہم سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ مسلمانوں کی یہ پستی،یہ ذلت،یہ خواری صرف اس انحراف کا نتیجہ ہے جو نبی ؐ کے بعد روز اول مسلمانوں سے سرزد ہوا تھا اور مسلمان اسلامی خطوط پر چلنے کے بجائے اپنے ہاتھوں سے خلیفہ بنانے بیٹھ گئے اور بنا بھی لیا،مسلمانوں کی یہ پستی،یہ ذلت اور یہ بدحالی بہت بڑی دلیل ہے اس بات کی کہ مسلمان روز اول ہی صراط مستقیم سے بھٹک گئے تھے اور جب صراط مستقیم سے بھٹک گئے تو اس کے نتیجہ میں ذلت و خواری کے شکار ہوگئے،یہ نتیجہ ہے فیصلہ اپنے ہاتھ میں لینے کا ۔

۳۱۶

یہ سب کچھ ہونے کے بعد بھی کیا مسلمانوں کے لئے آج یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کریں،روز اول جو انحراف ان سے سرزد ہوا تھا اس راستے کو چھوڑ دیں اور اس دینی حقیقت کو تلاش کریں جس کی وجہ سے اللہ نے اپنے دین کو کامل اور نعمتوںو تمام کر کے مسلمانوں کو عظمت بخشی تھی ۔

ہر مسلمان پر واجب ہے کہ ان مسائل کا جواب تلاش کرے جذبات سے آزاد ہو کے،عصبیت سے پاک ہو کے اور سابقہ منازعات یا مسلّمات سے نظر پھیر کے ان سوالوں کا جواب تلاش کرے،دنیا نے مسلمانوں کو بہت ذلیل کیا ۔ اب اس کو اپنے پرانے نظریات چھوڑ کے لکیر کا فقیر ہونا چھوڑ کے ان سوالوں کا جواب تلاش کرنا چاہئے ۔

ارشاد ہوتا ہے کہ:اے حبیب آپ ان سے کہہ دیں کہ خدا کی حجت تو منزل کمال تک پہنچانے والی ہے اگر خدا چاہے تو تم سب کی ہدایت کردے:(1)

اے حبیب!آپ انھیں یاد دلاتے رہیں،بیشک آپ تو صرف یا دلانے والے ہیں اور آپ ان کے نگران(ٹھیکیدار)تو ہیں نہیں ۔(2)

ہم تو صرف اللہ سے ہی توفیق مانگتے ہیں اور اسی سے امید لگاتے ہیں وہ ہمارے لئے کافی ہے اور وہی بہترین وکیل ہے چوتھے سوال کے جواب میں بھی کچھ باتیں عرض کی جاچکی ہیں جو یہاں بھی فائدہ بخش ثابت ہوں گی،ان کی طرف رجوع کرلیں تو بہتر ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ انعام آیت: 149

( 2) سورہ غاشیہ آیت: 21 ۔ 22

۳۱۷
۳۱۸

سوال نمبر۔6

روایتوں میں ہے کہ سرکار دو عالم ؐ نے شدت مرض کی حالت میں ابوبکر کو نماز کی امامت کا حکم دیا تھا کیا اس بات کی طرف اشارہ نہیں ہے کہ سرکار دو عالم ؐ اپنے بعد ابوبکر کی خلافت پسند کرتے تھے،آپ کا اس سلسلے میں کیا خیال ہے؟

جواب:اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل امور کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں ۔

امر اول:پہلی بات تو یہ ہے کہ جس روایت میں مدعی تنہا ہو اور فریق مخالف کے پاس بھی جو روایت نہیں پائی جاتی ہو اس روایت کو حجت بنا کے بحث کرنا احتجاج عقیم ہے جس سے نہ حق ثابت ہوتا نہ باطل کو دفع کیا جاسکتا ہے،صاحبان عقل کے نزدیک ایسا احتجاج منطقی نہیں ہے،اسی وجہ سے فریق مخالف کے خلاف نہ وہ حجت بن سکتا ہے،نہ فریق مخالفت اسے ماننا لازم سمجھتا ہے ۔

اگر شیعہ بھی اسی طرح صرف اپنے روایت کردہ واقعات سے احتجاج کرنا شروع کردیں تو پھر آفت آجائےگی،اس لئے کہ ان کے پاس ان کے موقف کی حمایت میں آپ سے زیادہ روایتیں پائی جاتی ہیں اگر چہ حد تواتر تک ںہیں پہونچی ہیں لیکن مقام آحاد میں ان کے پاس بہت سی روایتیں ہیں،اگر وہ ان روایتوں سے احتجاج کرنے لگے تو ان کے پاس ایسی روایتوں کی کمی نہیں ہے ۔

اس طرح کا احتجاج ممکن ہے کہ اہل سنت کی نظر میں صحیح ہو لیکن اللہ کی نظر میں صحیح نہیں ہے اس سوال کے جواب کے آخر میں مزید وضاحت ہوجائے گی انشااللہ تعالیٰ ۔

۳۱۹

ایک بات کا یقین رکھئے کہ جہاں ایسا نزاع و اختلاف ہوتا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں پھوٹ پڑنے کا امکان ہو،تو وہاں اللہ حق کو اس طرح واضح کرتا ہے کہ شک و شبہ کا لباس اتر جاتا ہے اور حق اس طرح روشن ہوتا ہے کہ اس کو نہیں ماننے کا کوئی بہانہ ہاتھ نہیں آتا،مکابرہ،ہٹ دھرمی اور کٹ حجتی کی بات دوسری ہے،جس کا اتکاب یا تو حد سے آگے بڑھنے والا کرتا ہے یا غفلت میں پیچھے رہ جانےوالا۔گذشتہ بیان کا لازمی نتیجہ ی نکلا کہ جب دو فریق حق کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں تو ان میں سے کوئی ایک ضرور غلط ہوتا ہے اور اس کے ناحق ہونے کا احتمال بہرحال پایا جاتا ہے اب حق سے یہ انحراف یا دشمنی کی وجہ سے ہے یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے،اس لئے ان دونوں میں سے کوئی ایک ہٹ دھرمی یا عناد کی وجہ سے جھٹ ضرور بول رہا ہے،اب ایسا آدمی اگر اپنے نظریہ کی تائید میں کوئی روایت کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ دوسرے فریق کے لئے قابل اعتبار ہوگا،چاہے اس کے مذہب کے ماننے والے اس کے بارے میں کتنا ہی حُسن ظن رکھتے ہوں اور اسے کتنا ہی قابل اعتبار سمجھتے ہوں۔

البتہ جب حق روشن دلیلوں اور قطعی حجتوں کے ذریعہ ثابت ہوکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے اور حق،باطل سے الگ ہوجاتا ہے اس طرح کہ اس کے اندر کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے تو صاحبان حق بھی باطل پرستوں سے ممیّز ہوجاتے ہیں،صاحبان بصیرت اندھوں سے الگ ہوجاتے ہیں تو پھر نگاہ اعتبار کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے اور حسن ظن اس سے متعلق ہوجاتا ہے جسے اللہ نے حق کو ثابت کرنے کے لئے توفیق عنایت فرمائی ہے جس کی وجہ سے وہ راہ حق کا مالک ہوا اور اسے مزید روشن کیا،حق سے تمسک کیا اور اسے لازم سمجھا،ظاہر ہے کہ وہ آدمی اس کے مقابلہ میں تو صاحب عزت سمجھا جائے گا ہی جس نے حق کا انکار کیا اور خدا نے اسے ذلیل کر کے اس کے دل کو باطل کے سانچے میں ڈ ھال دیا جس کی وجہ سے وہ حق سے بے بہرہ رہا اور الگ ہوگیا،اب وہ اپنے پیچھے چلنے والے افراد کی نظر میں چاہے کتنا ہی بلند مرتبہ ہو اہل حق کی نظر میں تو ذلیل ہی رہے گا،یہاں امیرالمومنین علیہ السلام کا قول قابل غور ہے،کہ آپ نے فرمایا:((حق کو پہچانو!اہل حق کو پہچان لوگے))(1) سابقہ سوالوں میں چوتھے سوال کے جواب میں امیرالمومنین علیہ السلام کا یہ قول عرض کیا جاچکا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) تفسیر قرطبی ج: 1 ص: 340 ،فیض القدیر ج: 1 ص: 210 ،ج: 4 ص: 17 ،البیان و التبیین ج: 1 ص: 491 ،تاریخ یعقوبی ج: 2 ص: 210 ،خلافت امیرالمومنینؑ کے بیان میں،انساب الاشراف ج: 3 ص: 35 ،جمل کے واقعہ کے بیان میں۔

۳۲۰