فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ15%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206474 / ڈاؤنلوڈ: 5999
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ان اشعار میں ظاہر کرتا ہے کہ جو کچھ ہے یہی دنیا ہے ، اس عالم کےسوا اور کوئی عالم نہیں ہے لہذا یہاں کی نعمتوں اور لذتوں سے محروم نہ رہنا چاہیے ۔ یہ وہ اشعار ہیں جو اس کے دیوان میں درج ہیں اور ابوالفرج ابن جوزی نے کتاب الرد علی المتعصب الغلید میں ان کی شہادت دی ہے۔

من جملہ ان اشعار کے جو اس کے کفر و بے دینی اور الحاد پر گواہ ہیں وہ شعر بھی ہیں جو سبط ابن جوزی نے تذکرہ میں ان کے جد ابو الفرج نے تفصیل سے درج کئے ہیں ۔ ان کے مطلع میں کہتا ہے۔

عليه هاتی ناول ي نی و ترنمی حد ي ثک انی لا احب التناج ي ا

اپنی معشوقہ سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے ، اے میری محبوبہ قریب آ اور مجھ کو اپنے دلی مطالب سے کھل کر آگاہ کر کیونکہ میں تیرے آہستہ بولنے کو پسند نہیں کرتا ( یہاں تک کہ کہتا ہے)

فان الذی حدثت عن ي وم بعثنا احاد ي ث زور تترک القلب ساه ي ا

یعنی جو شخص قیامت کے قصے سے ڈرتا ہے تو یہ سب جھوٹی باتیں ہیں جو دل کو سازو آواز کے لطف سے محروم کرتی ہیں۔

چنانچہ ابراہیم ابن اسحق معروف “ دیک الجن” نے جو جلیل القدر شیعہ فقہاء و علماء اور فضلاء و ادباء میں سے تھے خلیفہ ہارون الرشید عباسی کے سامنے یہ سارے اشعار پڑھے تو اس نے بے اختیار یزید پر لعنت کی اور کہا زندیق نے خدا اور حشر و نشر کا پورا انکار کیا ہے۔

منجملہ ان اشعار کے جو اس کے کفر و الحاد پر دلالت کرتے ہیں وہ بھی ہیں جو وہ اپنے عیش و ترنم کے موقع پر پڑھا کرتا تھا :

ي ا معشر الندمان قوموا واسمعوا صوت الاغانی

واشربوا کاس مدامواترکوا ذکر المعانی

شغلتنی نغمة الع ي دان عن صوت الاذان

و نغوضت عن الحور عجوزا فی الدنان

ماحصل معنی یہ ہیں کہ اپنے ہم مشرب اور ہم پیالہ لوگوں سے کہتا ہے کہ اٹھو اور سازو آواز پر کان لگاؤ اور شراب ناب کے جام پیو اور دینی خرافات کو چھوڑو ، کیونکہ سازو نغمہ نے مجھ کو اذان کی آواز سے ہٹا کر اپنی طرف جذب کر لیا ہے اور میں بہشت کی حوروں کے عوض بوڑھی مغینہ عورتوں کو قبول کرتا ہوں۔

کتب مقاتل میں ہرجگہ منقول ہے اور سبط ابن جوزی نے بھی تذکرہ ص148 پر لکھا کہ جب اہل بیت رسالت(ص) شام میں لائے گئے تو یزید پلید اپنے محل کے بالا خانے پر جو محلہ جیروں کے سامنے تھا، بیٹھا اور یہ دو شعر پڑھ کر اپنے کفر کو ثابت کیا :

۱۲۱

لما بدت تلك الحمول و اشرقت تلك الشموس على ربي جيرود

نعب الغراب فقتل نح او لا تنح فلقد قضيت من الغريم ديونى!

خلاصہ مطلب یہ کہ اسیران آل محمد(ص) کی محملیں ظاہر ہوئیں تو ایک کوے نے آواز دی ( کیونکہ عرب میں اس آواز کو شگونہ بد سمجھتے تھے) تو میں نے کہا ، اے کوئے تو بول یا نہ بول میں نے پیغمبر(ص) سے اپنے قرضے وصول کرلیے ۔

کنایہ اس بات کا ہے کہ پیغمبر(ص) نے میرے بزرگ اور اقارب کو بدر و احد اور حنین میں قتل کیا تھا لہذا میں نے بھی اس کا بدلہ لیا اور ان کی اولاد کو قتل کیا ۔ اور یزید کے کفر کی دلیلوں میں سے یہ بھی ہے کہ جب اس نے فرزند رسول(ص) کی شہادت پر جشن کی محفل منعقد کی تو مثالا اس نے عبداﷲ بن الزبعری کے کفر آمیز اشعار پڑھے یہاں تک کہ سبط ابن جوزی ابو ریحان بیرونی اور دوسرے لوگوں نے لکھا ہے کہ اس نے اپنے اجداد میں سے ان لوگوں کی موجودگی اور حیات کی تمنا کی جو سب کے سب مشرک اور کافر محض تھے اور خدا و رسول(ص) کے حکم سے بدر کبرے کی جنگ میں مارے گئے تھے بظاہر ان میں سے دوسرا اور پانچواں شعر خود یزید ہی کا ہے جو اس نے مسلمانوں، یہودیوں اور نصرانیوں کے مجمع عام کے سامنے پڑھے۔

ليت أشياخي ببدر شهدوا جزع الخزرج من وقع الأسل

فأهلّوا و استهلّوا فرحاثمّ قالوا: يا يزيد لا تشل

قد قتلنا القرم من ساداتهم و عدلناه ببدر فاعتدل

لعبت هاشم بالملك فلاخبر جاء و لا وحي نزل

لست من خندف إن لم أنتقم من بني أحمد ما كان فعل

قد اخذنا من علی ثارنا و قتلنا الفارس الل ي ث البطل

یعنی اے کاش میرے وہ بزرگان قبیلہ جو بدر میں قتل کئے گئے اور قبیلہ خزرج والوں کا ( جنگ احد میں) نیزے لگنے کی وجہ سے گریہ و زاری دیکھنے والے موجود ہوتے تو خوشی سے چیختے اور کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں کیونکہ ہم نے ان کے بزرگان قوم اور سرداروں کو قتل کیا، اور یہ کام ہم نے بدر کے عوض میں کیا جو پورا ہوا۔ بنی ہاشم نےسلطنت کے ساتھ کھیل کھیلا ورنہ نہ آسمان سے کوئی خبر آئی نہ وحی نازل ہوئی۔ میں خندق کے خاندان سے نہیں تھا، اگر فرزندانِ پیغمبر(ص) سے ان کے افعال کا انتقام نہ لیتا۔ ہم نے علی(ع) سے اپنے خون کا بدلہ لیا اور شہسوار بہادر شیر کو قتل کیا۔)

آپ کے بعض علماء جیسے ابو الفرج ، شیخ عبداﷲ بن محمد بن عامر شیرازی شافعی کتاب الاتحاف بحب الاشراف ص18 میں ، خطیب خوارزمی مقتل الحسین(ع) جلد دوم میں اور دوسرے لوگ لکھتے ہیں کہ یزید لعین

۱۲۲

ان حضرات کے لب و دندان کے ساتھ چھڑی سے بے ادبی کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھ رہا تھا۔

یزید پلید(لع) کی لعن پر علمائے اہل سنت کی اجازت

آپ کے اکثر علماء نے اس ملعون زندیق کو کافر سمجھا ہے یہاں تک امام احمد بن حنبل اور آپ کے بہت سے اکابر علماء نے اس پر لعنت کرنے کو جائز قرار دیا ہے ، خصوصا عبدالرحمن ابوالفرج ابن جوزی نے اس بارے میں ایک مستقل کتاب موسوم بہ “ کتاب الرد علی المتعصب الغلید المانع عن لعن یزید لعنہ اﷲ ” لکھی ہے اور ابوالعلاء مصری نے اس باب میں کہا ہے :

أرى الأيّام تفعل كلّ نكر فما أنا في العجائب مستزيد

أليس قريشكم قتلت حسينا و كان على خلافتكم يزيد

( حاصل معنی یہ ہے کہ زمانہ ، توحید و اہل توحید کی ضد میں برابر شیطانی نقشے بناتا ہے اور اس طرح کے عجائبات اور مکاریوں پر مجھ کو تعجب نہیں کیا ایسا نہیں ہے کہ تمہارے قریش نے حسین(ع) کو قتل کیا اور اپنے امور اور خلافت کی باگ ڈور یزید ملعون کے ہاتھ میں دے دی) صرف آپ کے چند متعصب علماء جیسے غزالی نے یزید کی طرفداری کی ہے اور اس ملعون کی صفائی میں مضحکہ خیز اور مہمل عذرات تراشے ہیں در آنحالیکہ عام طور پر آپ کے علماء نے اس کے کفر آمیز اعمال اور ظالمانہ اطوار کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ کیونکہ وہ ملسمانوں کی مسند ریاست پر بظاہر تو خلافت کے عنوان سے قابض تھا لیکن عملی طور پر کوشش کرتا تھا کہ وین و توحید کی بساط ہی الٹ دے اور بڑے افعال کو نیک اعمال کے عنوان سے عمل میں لاتا تھا ۔ چنانچہ دمیری نے حیواہ الحیوان میں اور مسعودی نے مروج الذہب میں لکھا ہے کہ وہ بہت سے بندر پالے ہوئے تھا جن کو عمدہ قسم کے ریشمی لباس اور گردنوں میں سونے کے طوق پہنا کر گھوڑوں پر سوار کراتا تھا اسی طرح بہت سے کتوں کو طوق پہنچائے ہوئے تھا۔ ان کو اپنے ہاتھسے نہلاتا دہلاتا تھا ، سونے کے برتنوں میں ان کو پانی دیتا تھا اور ان کا پس خوردہ خود استعمال کرتا تھا ، مکمل طور پر شراب کا عادی تھا اور ہمیشہ مست و مخمور رہتا تھا۔

مسعودی مروج الذہب جلد دوم میں کہتے ہیں کہ یزید کی سیرت فرعون کی سیرت تھی بلکہ فرعون رعیت داری میں یزید سے زیادہ انصاف پرور تھا۔ اس کی سلطنت اسلام کے اندر انتہائی باعث ننگ تھی، کیونکہ اس کی بہت سی بداعمالیوں جیسے شراب نوشی، فرزند رسول(ص) کا قتل، وصی پیغمبر (ص) علی ابن ابی طالب(ع) پر لعنت

۱۲۳

کرنا، خانہ خدا ( مسجد الحرام ) کو جلانا اور برباد کرنا، کثرت کے ساتھ خونریزی ( خصوصا اہل مدینہ کا قتل عام) اور بے شمار فسق و فجور وغیرہ جس کا حساب نہیں ہوسکتا ، اس کی عدم مغفرت اور جہنمی ہونے کو ثابت کررہی ہیں۔

نواب : قبلہ صاحب ! یزید کے حکم سے مدینے کے قتل عام کا کیا معاملہ تھا؟ متمنی ہوں کہ اس کو بیان فرمائیے۔

خیر طلب : عام طور پر مورخین اور بالخصوص سبط ابن جوزی تذکرہ صفحہ63 میں لکھتے ہیں کہ سنہ62ھ میں اہل مدینہ کی ایک جماعت شام کی طرف گئی ، جب وہاں ان لوگوں کو یزید کی بدکاریوں اور کفریات کا علم ہوا تو مدینہ واپس آکر اس کی بیعت توڑ دی ، بالاعلان اس پر لعنت کرنے لگے اور اس کے عامل عثمان بن محمد بن ابی سفیان کو نکال کر باہر کیا۔ عبداﷲ بن حنظلہ ( غسیل الملائکہ) نے کہا اے لوگو ہم لوگ شام سے واپس نہیں ہوئے اور یزید پر خروج نہیں کیا لیکن اس وقت جب ہم نے دیکھا کہ :

" ه و رجل لا دين ل ه ينکح الام ه ات والبنات والاخوات و يشرب الخمر ويدع الصلوة و يقتل اولاد النبيين ۔"

(یعنی وہ ایسا بے دین شخص ہے جو ماؤں بیٹیوں اور بہنوں سے حرام کاری کرتا ہے ، شراب پیتا ہے ، نماز نہیں پڑھتا ہے اور اولاد انبیاء کو قتل کرتا ہے۔)

یزید کی بیعت توڑنے کے جرم میں اہل مدینہ کا قتل عام

جب یہ خبر یزید کو پہنچی تو اس نے اہل شام کے ایک بھاری لشکر کے ساتھ مسلم ابن عقبہ کو اہل مدینہ کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا، اور ان لوگوں نے تین شبانہ روز مسلسل اہل مدینہ کا قتل عام کیا ابن جوزی اور مسعودی وغیرہ لکھتے ہیں کہ اس قدر کشت و خون کیا گیا کہ راستوں میں خون بہہ نکلا

" وخاض الناس فی الدماء حتی وصلت الدماء قبر رسول اﷲ صلی اﷲ علي ه و آله وسلم وامتلات الروضة والمسجد "

یعنی مدینے کے کوچوں میں اس کثرت سے خون جاری ہوا کہ لوگ خون میں شرابور ہوگئے تھے، یہاں تک کہ خون رسول اﷲ(ص) کی قبر تک پہنچ گیا اور روضہ رسول(ص) اور مسجد خون سے بھر گئی۔

اشراف قریش اورمہاجرین و اںصار میں سے سات سو محترم اور سربرآوردہ افراد کو قتل کیا اور عام مسلمانوں میں سے دس ہزار اشخاص تہ تیغ ہوئے مسلمانوں کی ہتک حرمت اور بے آبروئی کے حالات بیان کرتے ہوئے مجھ کو شرم محسوس ہوتی ہے لہذا تذکرہ سبط ابن جوزی صفحہ163 کی عبارتوں

۱۲۴

میں سے صرف ایک کو نقل کرنے پر اکتفا کرتا ہوں جس کو ابوالحسن مدائنی سے نقل کرتے ہیں کہ “ ولدت الف امراة بعد الحرة من غير زوج ” یعنی واقعہ حرہ ( مدینہ کے قتل عام) کے بعد ایک ہزار کنواری عورتوں کے یہاں بچے پیدا ہوئے ( کنایہ یہ کہ فاتح لشکر کی عصمت دری سے وہ عورتیں حاملہ ہوئیں)۔

میں اس سے زیادہ اہل بزم کا وقت لینا اور ان کو متاثر کرنا نہیں چاہتا ۔ خیالات کو صاف کرنے کے لیے اسی قدر کافی ہے۔

شیخ : آپ نے جو کچھ بیان کیا ، یہ سب یزید کے فسق و فجور پر دلالت کرتا ہے اور ہر فاسق و گنہگار انسان کا عمل معافی اور چشم پوشی کے قابل ہے یزید نےقطعا توبہ کر لی اور خدا بھی غفار الذنوب ہے اس نے بخش دیا ، پھر آپ کس وجہ سے برابر اس پر لعنت کرتے اور اس کو ملعون کہتے ہیں؟

خیر طلب : بعض دعویداروں کے وکیل اس غرض سے کہ ان کو فیس وغیرہ ملتی رہے چار و ناچار آخری وقت تک اپنے موکل کی طرف سے پیروی کرتے رہتے ہیں چاہتے حق بات ان پر ظاہرہو ہی جائے۔ لیکن مجھ کو نہیں معلوم کہ جناب عالی کن فوائد کے پیش نظر اس لعین پلید کی وکالت میں اس قدر ثابت قدمی دکھا رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یزدی نے توبہ کر لی ہے۔ حالانکہ یزدی کیکفر آمیز گفتگو، اولیائے خدا کی شہادت اور اہل مدینہ کا قتل عام وغیرہ درایت ہے اور آپ کا یہ فرمانا کہ اس نے توبہ کر لی روایت ہے جو ثابت نہیں ہوسکی اور درایت کے مقابلے میں نہیں آسکتی۔

آیا مبدا و معاد اور وحی و رسالت سے انکار اور دین سے مرتد ہونا آپ کی نظر میں لعنت کا مستحق نہیں بناتا ۔ آیا خدا نے قرآن مجید میں ظالمین پر کھلی ہوئی لعنت نہیں فرمائی ہے؟

آیا آپ یزید کو ظالم نہیں سمجھتے ؟

اگر آپ کے ایسے یزید ابن معاویہ کے خاندانی پیروکار وکیل ( حاضرین کا پر زور قہقہہ ) کی نگاہ میں یہ دلائل کافی نہیں ہیں تو میں آپ کی اجازت سے آپ کے بزرگ علماء کے منقولات سے دو حدیثیں بھی نقل کرتا ہوں اور اس کے بعد اپنی گذارش ختم کرتا ہوں۔

بخاری اور مسلم نے اپنی صحیحیں میں ، علامہ سمہودی نے تاریخ المدینہ میں، ابن جوزی نے کتاب الرد علی المتعصب العنید میں، سبط ابن جوزی نے تذکرة خواص الامہ میں۔ امام احمد بن حنبل مسند میں اور دوسروں نے حضرت رسول اکرم(ص) سے نقل کیا ہے کہ فرمایا :

"من أخاف أهل المدينة أخافه اللّه، و عليه لعنة اللّه و الملائكة و النّاس أجمعين لا يقبل اﷲ

۱۲۵

منه يوم القيمة صرفا ولا عدلا"

یعنی جو شخص ظلم سے اہل مدینہ کو خوف زدہ کرے خدائے تعالی، اس کو ( روز قیامت) خوف زدہ کرے گا ۔ اس پر خدا اور ملائکہ اور سارے انسانوں کی لعنت ہو۔ قیامت کے روز خدا ایسے شخص سے کوئی عمل قبول نہیں کرے گا۔

نیز فرمایا “ لعن اﷲ من اخاف مدینتی( ای اھل مدینتی) یعنی خدا کی ایسے شخص پر جو میرے شہر ( یعنی اہل مدینہ ) کو ڈرائے”

کیا مدینے کے اندر یہ سارا قتل عام ، ہتک حرمت او لوٹ مار وہاں کے باشندوں کے لیے ڈر اور خوف کا باعث نہیں تھا ؟ اور اگر تھا تو تصدیق کیجئے کہ وہ کمینہ اور پلید خدا و رسول(ص) ، ملائکہ اور تمام انسانوں کی زبان سے ملعون تھا اور قیامت تک رہے گا۔

آپ کے اکثر علماء یزید پلید پرلعنت کی ہے اور اس پر لعن کے جائز ہونے پر کتابیں لکھی ہیں من جملہ ان کے علامہ جلیل القدر عبداﷲ بن محمد بن عامر شبراوی شافعی کتاب الاتحاف بحب الاشراف ص20 میں لعن یزید کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ جس وقت ملا سعد تفتازانی کے سامنے یزید کا نام لیا گیا تو انہوں نے کہا " فلعنة اﷲ عليه و علی انصاره و علی اعوانه" ( یعنی لعنت ہو خدا کی اس پر اور اس کے اعوان و اںصاری پر) اور جواہر العقدین علامہ سمہودی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا

"اتفق العلماء علی جواز لعن من قتل الحسين رضی اﷲ عنه او امر بقتله او اجازه اور رضی به من غير تعيين"

یعنی عام طور پر علماء نے اس شخص پر لعنت کے جائز ہونے پر اتفاق کیا ہے جس نے حسین رضی اﷲ کو قتل کیا یا ان کے قتل کا حکم دیا یا اس کی اجازت دی یا اس پر رضا مند ہوا بلا تخصیص۔

اور ابن جوزی ، ابو یعلی اور صالح ابن احمد بن حنبل سے نقل کرتے ہیں کہ آیات قرآن وغیرہ کے دلائل پیش کرتے ہوئے یہ حضرات لعن یزید کو ثابت کرتے ہیں لیکن جلسہ کا وقت اس سے زیادہ گفتگو کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔

نشست کافی لمبی ہوچکی ہے اور آدھی رات سے بھی کئی گھنٹے زیادہ گزر چکے ہیں، ورنہ یہ معمہ حل ہونا بہت ضروری تھا تاکہ آپ حضرات ان مقدمات سے اس عظیم حق کا پتہ لگائیں جو حضرت امام حسین (ع) اسلام اکھاڑ پھینکایا اپنے اپل بیت کے خون سے لا الہ الا اﷲ کے شجرہ طیبہ کی آبیاری کی جو بنی امیہ اور بالخصوص یزید پلید کے ظلم سے خشک ہونے کے قریب تھا، اور اسلام و توحید کو ایک نئی زندگی عطا کی۔

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ آپ بجائے اس کے کہ ان بزرگوار کے خدمات کی قدر کرتے

۱۲۶

ان کے زائرین کے زیارت کے لیے جانے پر اعتراض اور نکتہ چینی کرتے ہیں ، اس کا نام مردہ پرستی رکھتے ہیں اور افسوس کرتے ہیں کہ کس لیے کروڑوں انسان ہر سال ان حضرات کے مرقد مطہر کی زیارت کو جاتے ہیں، مجلس عزا برپا کرتے ہیں اور ان مظلوم کی غریبی پر گریہ کرتے ہیں۔

گمنام جاں نثار

ہم کتب و رسائل اور اخبارات میں پڑھتے ہیں اور سیاحت کرنے والے بتاتے ہیں کہ دنیا کے متمدن ممالک کے مرکزی مقامات جیسے پیرس، لندن، برلن اور واشنگٹن وغیرہ میں“ گمنام جاں نثار ” کے نام سے کچھ محترم مزارات موجود ہیں۔

کہتے ہیں کہ اس جوانمرد نے وطن کی حفاظت میں ظالموں کے ظلم کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان قربان کی ہے۔ لیکن اس کے جسم و لباس میں کوئی ایسی واضح علامت نہیں پائی گئی جس سے معلوم ہوتا کہ یہ کس قوم و قبیلہ اور شہر کا باشندہ ہے۔

باوجودیکہ وہ ایک گمنام اور بے نام و نشان شخصیت ہے لیکن صرف اس خیال سے کہ اس نے ظلم و ظالم کے مقابلہ میں اپنے خون کی قربانی دی ہے جب کوئی بادشاہ صدر جمہوریہ، وزیر یا کسی طبقے کا کوئی شریف و بزرگ انسان ان شہروں میں وارد ہوتا ہے تو احتراما اس گمنام۔۔۔۔۔ جاں باز کی زیارت کو جاتا ہے او پھولوں کا تاج اس کی قبر پر رکھتا ہے۔

قدر دانی کے نام پر ایک غیر معروف سپاہی کا اس قدر احترام اس لیے کرتے ہیں کہ اقوام عالم کے سامنے اپنی قومی حیثیتوں کا تحفظ کرسکیں۔

لیکن صاحبان اںصاف کیا یہ شرم کی بات نہیں ہے کہ ہم مسلمان لوگ باوجودیکہ بہتر با نام و نشان سر فروش رکھتے ہیں جوسب کےسب عالم و عابد، صاحبان تقوی اور بعض ان میں سے قاری و حافظ قرآن تھے اور جنہوں نے دین و توحید ، حریم اسلام کے تحفظ اور عدل و انصاف کی راہ میں ظالموں کے ظلم کا مقابلہ کرتےہوئے جان دی اور ان میں سے زیادہ تر خدا و رسول (ص) اور عترت پیغمبر (ص) کی امانت تھے لیکن بجائے قدردانی اور لوگوں کو ان کی زیارت کا شوق دلانے اور ان کی قبروں کے احترام کا حکم دینے کے نکتہ چینی کی کوشش کرتے ہیں اور ایک دوسرے فرقے والے علاوہ عیب جوئی اور اعتراض کے اپنے متعصب علماء کے بھڑکانے سے ان کی قبروں کو برباد کرتے ہیں اور ان کے صندوق بالائے قبر کو

۱۲۷

جلا کر قہوہ بناتے ہیں۔

چنانچہ سنہ1216 ہجری میں عید غدیر کے روز جب کربلا کے سارے باشندے ( سوا تھوڑے افراد کے) زیارت کے لیے نجف اشرف گئے ہوئے تھے نجدی وہابیوں نے موقع غنیمت سمجھ کر حملہ کر دیا۔ ضعیف وغیر ضعیف شیعوں کے قتل و غارت میں مشغول ہوئے اور دین کے نام پر فدائیاں دین توحید ( یعنی سید شہداء حضرت امام حسین (ع) اور آپ کے انصار) کی مقدس قبروں کو برباد اور زمین کے برابر کردیا ( تقریبا پانچ ہزار) باشندگان کربلا علماء اور ناتوان ضعفاء یہاں تک کہ شیعوں کی عورتوں اور بے گناہ بچوں کو قتل کیا۔ حضرت سید شہداء (ع) کا خزانہ لوٹ لیا، جواہرات ، سونے کی قندیلیں، قیمتی اشیاء اور بڑے بڑے پیش بہا فرش اٹھا لےگئے قبر مطہر کے اوپر کا قیمتی صندوق جلا کر اس سے قہوہ بنایا اور ایک کثیر جماعت کو قید کر کے اپنے ہمراہ لے گئے انا ﷲ و انا ال يه راجعون ۔ ( افسوس ہے ایسے اسلام پر)۔

واقعی بہت افسوس ناک بات ہے کہ تمام متمدن مملاک ، علماء سلاطین اور دانش مندوں کی یہاں تک کہ اپنے گمنام سپاہی کی قبروں کا احترام کریں لیکن مسلمان جو اپنے مایہ ناز افراد کے قبور کی حفاظت میں سب سے زیادہ اولی اور احق ہیں وہ آدم خور وحشیوں کی طرح ان کے مزارات کو مسمار اور تباہ و بردباد کریں حتی کہ مکہ اور مدینہ میں حضرت حمزہ سید شہداء (ع) جیسے شہدائے احد، پیغمبر (ص) کے آباء و اجداد جیسے جناب عبدالمطلب و عبداﷲ آں حضرت(ص) کے اعمام و اہل وقوم، فرزندان رسول خدا(ص) جیسے سبط اکبر حضرت امام حسن(ع) مسموم ، سید الساجدین حضرت امام زین العابدین (ع) ، باقر العلوم حضرت امام باقر(ع)، صادق آل محمد حضرت امام جعفر صادق علیہم السلام ، دوسرے بنی ہاشم ، علمائے اعلام اور مفاخر اسلام کی قبروں کو زمین کے برابر کر دیں اور اس کے بعد بھی اپنے کو مسلمان کہیں۔ ہاں اپنے بزرگوں اور بادشاہوں کے مقبرے البتہ بہت شاندار طریقے سے تعمیر کریں۔ حالانکہ ہمارے اور آپ کے علماء نے قبور مومنین کی زیارت پر راغب کرنے کے لیے کس قدر کثرت سے حدیثیں نقل کی ہیں تاکہ اس ذریعے سے مومنین کی قبریں حوادث زمانہ کی دستبرد سے محفوظ رہیں۔

خود رسول اﷲ(ص) قبور مومنین کی زیارت کو تشریف لے جاتے تھے اور ان کے لیے مغفرت طلب فرماتے تھے مسئلہ یہ کہ کچھ خفیہ مقاصد کے ماتحت مذہب کے نام پر اپنے ہی ہاتھوں اپنی قابل فخر ہستیوں کی قبریں خراب اور خاک کے برابر کریں اور ان کا نشان بھی دنیا میں باقی نہ رہنے دیں بات ختم کرتا ہوں ورنہ دل میں ابھی بہت کچھ ہے۔

۱۲۸

شرح این ہجراں و ایں خون جگر ایں زمان بگزار تا وقت دگر

آل محمد(ص) شہدائے راہ خدا اور زندہ ہیں

آیا آپ اس جلیل القدر خانوادہ کو جس نے دین اور توحید کی راہ م ی ں جا نی ں دیں ، شہ ی د سمجھتے ہیں یا ن ہیں ؟ اگر کہئے کہ شہید نہیں ہیں تو اس پر آپ کی کیا دلیل ہے؟ اور اگر شہید ہیں تو پھر آپ انہیں مردہ کیوں سمجھتے ہیں؟ حالانکہ قرآن مجید میں کھلا ہوا ارشاد ہے " احياء عند ربهم يرزقون " یعنی وہ زندہ ہیں اور اپنے خدا کے پاس رزق پاتے ہیں۔ 12 مترجم) پس قرآنی آیات اور معتبر احادیث کی بنا پر مقدس ہستیاں زندہ ہیں، مردہ نہیں ہیں۔ چنانچہ ہم لوگ بھی مردہ پرست نہیں ہیں اور مردے پر سلام نہیں کرتے بلکہ زندوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔

علاوہ اس کے کوئی با سواد یا جاہل شیعہ ان حضرات کو حاجت روائی میں خود مختار نہیں سمجھتا بلکہ ان کو خدا کے نیک بندے اور معبود کی طرف ایک بلند مرتبہ واسطہ جانتا ہے ( جیسا کہ اسی کتاب کے صفحہ97 میں مذکور ہے)

ہم صرف اس لئے اپنی حاجتوں کو ان کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ وہ برحق ائمہ اور عالی منزلت صالحین ، خدا سے دعا فرمائیں تاکہ وہ ہم نا اہل انسانوں پر کرم فرمائے۔ اور اگر زبان سے یہ کہتے ہیں کہ یا علی ادرکنی ، یا حسین ادرکنی تو اس کی مثال بعینہ اسی آدمی کی ایسی ہے جو کسی با اقتدار بادشاہ سے کوئی حاجت رکھتا ہے تو وزیر اعظم کے دروازے پر جاتا ہے اور کہتا ہے کہ جناب وزیر صاحب میری فریاد کو پہنچئے۔ لیکن یہ کہنے والا وزیر کو ہرگز بادشاہ اور اپنی حاجت روائی میں خود مختار نہیں مانتا ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ چونکہ بادشاہ کی نظر میں با عزت ہیں۔ لہذا میری سفارش کردیجئے تاکہ میرا کام بن جائے۔

شیعہ بھی آل محمد علیہم السلام کو خدا اور خدائی کاموں میں شریک نہیں جانتے ہیں بلکہ ان کو اﷲ کے صالح بندے سمجھتے ہیں جو علاوہ اپنی پاک فطرت کے عبادت و تقوی اور دینی خدمات کے نتیجہ میں حق تعالی کے منظور نظر قرار پائے لہذا دونوں عالم میں ان کو امامت و ولایت کے عہدے اور بلند و بالا درجات عطا کیئے تاکہ پروردگار کے حکم اور اجازت سے موجودات میں تصرف کرسکیں۔ چونکہ یہ حضرات خدائے ذوالجلال کے امانت دار اور نمائندے ہیں اس بنا پر حاجت مندوں کے ضروریات خدا کی بارگاہ میں پیش

۱۲۹

کرتے ہیں ، اگر سائل کی حاجت روائی مصلحت کے مطابق ہوتی ہے تو قبول فرماتا ہے ورنہ آخرت میں اس کا عوض دیتا ہے ۔ چنانچہ عملی طور پر ہم ایسا دیکھتے بھی ہیں اور نتائج بھی حاصل کرتے ہیں۔

یہ مشتے نمونہ از خود ؟؟؟؟؟؟؟؟ چند مختصر جملے تھے جو مجبورا آپ کی اس بات کے جواب میں عرض کئے گئے کہ مردے سے خطاب کیوں کرتے ہو اس مقام پر یہ نکتہ بھی بغیر کہے نہ رہ جائے کہ شیعہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی منزل اس سے بالاتر سمجھتے ہیں کہ دوسرے شہدائے اسلام کی طرح ان کےلیے بھی صرف ایک زندگی ثابت کریں۔

حافظ : آپ کے بیان میں یہ فقرہ ایک معمہ ہے جس کے حل کی ضرورت ہے ۔ آخر آپ کے اماموں میں دوسرے اماموں سے کیا فرق ہے؟ صرف سیادت کی منزلت اور رسول اکرم(ص) سے ان کی نسبت نے ان کو دوسروں کے مقابلے میں ممتاز بنا دیا ہے۔

خیر طلب : اس میں کوئی معمہ قطعی نہیں ہے صرف اس مطلب کا تصور آپ کےلیے دشوار ہے کیونکہ ساری زندگی منزل امامت کی معرفت سے دور رہے ہیں۔ سب سے پہلے ضرورت اس کی ہے کہ اپنی عادت اور تعصب سے الگ ہو کر علم و عقل اور منطق و اںصاف کی نظر سے مقام امامت کا مطالعہ فرمائیے اس کے بعد آپ کو اندازہ ہوگا کہ شیعہ اعتقاد کے لحاظ سے منصب امامت اور آپ کے عقائد کے مطابق امامت کے درمیان ایک بین اور واضح فرق یہ۔ اگر میں اس مقصد کو ثابت کرنے بیٹھوں تو صبح تک انتظار کرنا ہوگا۔ اب یہ اہم موضوع ایک اطمیانی نشست کے لیے ملتوی کرتا ہوں جس میں گفتگو کا پورا وقت ہو انشاء اﷲ۔

( اس کے بعد ہم لوگوں نے جلسہ برخاست کیا ۔ چونکہ اذان صبح کا وقت قریب تھا اور سلسلہ گفتگو طولانی ہوچکا تھا لہذا لوگوں نے کہا کہ اب امامت کا موضوع کل رات پر رہا ہم نے خوش طبعی اور مزاح کے ساتھ ان حضرات کو کچھ دور چل کر رخصت کیا اور وہ بخیر و عافیت تشریف لے گئے۔)

۱۳۰

چوتھی نشست

شب دوشنبہ 26 رجب سنہ1345ھ

آپ نے حقیقت کا نکشاف کر کے ہم پر احسان کیا

مغرب کے اول وقت حضرات اہل سنت میں سے تین نفر تشریف لائے اور کہا کہ جلسہ شروع ہونے سے قبل ہم آپ کی اطلاع کے لیے عرض کرتے ہیں کہ آج غروب آفتاب تک مسجدوں ، مکانوں، دفتروں اور بازاروں میں ہر جگہ آپ ہی کا تذکرہ تھا جس جگہ کسی کے ہاتھ میں آج کا اخبار تھا وہاں چاروں طرف کثرت سے لوگ اکٹھا تھے اور آپ کی تقریروں کےبارے میں بحث کررہے تھے۔ ہم لوگوں کو آپ سے کافی تعلق خاطر پیدا ہوگیا ہے۔ ہم سب کے دلوں میں آپ نے گھر کر لیا ہے اور ہم پر آپ کا بہت بڑا حق ہے کیونکہ آپ ان شبہات کو حل کر رہے ہیں جن کو ہمارے پیشواؤں نے بچپن ہی سے ہم کو الٹے طریقے پر سمجھایا تھا۔ہم اس کے لیے تہ دل سے معذرت خواہ ہیں کہ ہم شیعہ جماعت کو مشرک سمجھتے تھے ہم کیا کریں ہم کو ہمیشہ سے تعلیم ہی یہی دی گئے ہے۔ امید ہے کہ خداوند غفور ہماری توبہ قبول کرے گا۔ ادھر چند روز سے ہر شب کی بحثیں رسالوں اور اخباروں میں شائع ہو رہی ہیں تو اکثر اخبارات کے خریداروں اور بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھل گئی ہیں، خصوصا ہم لوگ جو شریک جلسہ اور آپ کی لطیف گفتگو سے بہرہ اندوز ہوتے ہیں بہت متاثر ہوئے ہیں خاص طور پر گذشتہ شب کیونکہ آپ نے خوب خوب پردے اٹھائے اور پوشیدہ حقائق کو ظاہر فرمایا امید ہے کہ مزید انکشافات ہوں گے اور اس سے زیادہ حقیقتیں بے نقاب ہوں گی۔

دوسری بات جس کی طرف ہم آپ کی توجہ منذول کرانا چاہتے ہیں یہ ہے کہ ہم پر اور ہماری جماعت پر جو چیز سب سے زیادہ اثر انداز ہوئی ہے وہ جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں آپ کی واضح اور سادہ گفتگو ہے۔ کیونکہ آپ ہماری ہی زبان میں مطلب کو اس قدر مفصل اور عام فہم طریقے سے بیان فرماتے ہیں کہ ہمارے تمام بے سواد افراد کو اپنی طرف جذب کر لیتے ہیں ، آپ قطعی طور پر یہ پہلو پیش نظر رکھیں کہ ساری جماعت میں فی صد پانچ نفر سے زیادہ صاحبان علم و خبر نہیں ہیں۔ کورکورانہ طور بچپن سے جو کچھ سن رکھا ہے اس نے ان کے

۱۳۱

قلب و دماغ میں جگہ پکڑ لی ہے اب تو انہیں صرف سادگی ہی کے ذریعے سمجھایا جاسکتا ہے ، چنانچہ آپ اسی بات پر عمل کر رہے ہیں اور امید ہے کہ پورا پورا نتیجہ حاصل ہوگا۔

اتنے میں حضرات علماء تشریف لے آئے اور ہم نے گرم جوشی اور خندہ پیشانی کےساتھ ان کو خوش آمدید کہا ۔ چائے نوشی اور معمولی خاطر تواضع کے بعد جلسے کی کاروائی شروع ہوئی۔

نواب : قبلہ صاحب گزشتہ رات طے پایا تھا کہ آج کی شب امامت کے بارے میں گفتگو ہوگی، ہم اس خاص موضوع کو سمجھنے کے لیے بہت مشتاق ہیں اور چونکہ اسی موضوع پر دوسرے مطالب کی بنیاد ہے لہذا ہماری تمنا ہے کہ صرف اسی مسئلے کو مورد بحث قرار دیں تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ ہمارے اور آپ کے درمیاں موضوع امامت میں کیا اختلاف ہے۔

خیر طلب : مجھ کو کوئی عذر نہیں ہے، چنانچہ اگر مولوی صاحبان اسی طرف مائل ہوں تو میں حاضر ہوں۔

حافظ : ( اڑے ہوئے رنگ اور اترے ہوئے چہرے کے ساتھ) ہماری طرف سے بھی کوئی اختلاف نہیں ہے آپ جس طرح سے مناسب سمجھیں بیان فرمائیں۔

امامت کے بارے میں بحث

خیر طلب : آپ حضرات کو بخوبی معلوم ہے کہ لغت اور اصطلاح کی حیثیت سے امام کے کئی معنی ہیں۔ لغت میں امام پیشوا کے معنی رکھتا ہے الامام هو المتقدم بالناس یعنی امام انسانوں کا پیشوا ہے۔ امام جماعت یعنی نماز جماعت میں لوگوں کا پیشوا۔ امام الناس یعنی امور سیاسی یا روحانی وغیرہ میں آدمیوں کا پیشوا۔ امام جمعہ یعنی جو شخص نماز جمعہ میں پیشوائی کرے۔

اہلسنت کے مذاہب اربعہ پر بحث اور کشف حقیقت

اس بنا پر جماعت اہل تسنن یعنی مذاہب اربعہ کے پیرو اپنے پیشواؤں کو امام کہتے ہیں جیسے امام ابو حنیفہ ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل۔ یعنی وہ فقہاء و مجتہدین جو امر دین میں ان کے پیشوا ہیں اور جنہوں نے اپنی عقل و فکر کے ذریعہ اجتہاد یا قیاس کے ساتھ ان کے لیے حلال و حرام کے احکام معین کئے ہیں۔

۱۳۲

یہی وجہ سے کہ جب ہم آپ کے چاروں اماموں کی فقہی کتابون کا مطالعہ کرتے ہیں تو اصول و فروع کی حیثیت سے ان میں بہت اختلافات نظر آتے ہیں۔ اس طرح کے ائمہ اور پشوا تمام ادیان و مذاہب کے اندر ہیں۔ یہاں تک کہ مذہب شیعہ میں بھی علماء فقہاء وہی درجہ رکھتے ہیں جس کے آپ اپنے اماموں کے لیے قائل ہیں۔ لہذا وہ حضرت امام عصر عجل اﷲ فرجہ کی غیبت میں ہر عہد اور زمانےمیں موازین علمی کی روسے کتاب و سنت اور عقل و اجماع کے ادلہ اربعہ کے ساتھ فتوے دیتے ہیں۔ پھر بھی ہم ان کو امام نہیں کہتے ہیں کیونکہ امامت عترت طاہرہ(ع) سے بارہ اوصیاء کے ساتھ مخصوص ہے۔ ایک فرق یہ ہے کہ آپ کے بزرگوں نے بعد کے لیے اجتہاد کا دروازہ بند رکھا ہے یعنی پانچویں صدی ہجری سے جب کہ بادشاہ کے حکم سے علماء و فقہاء کی ایجاد کردہ رائیں جمع کی گئیں، صرف چار کے اندر منحصر کر کے مذاہب اربعہ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی کو رائج کیا گیا اور لوگوں کو مجبور کیا گیا ہے ان چاروں میں سے کسی ایک مذہب پر عمل کریں جیسا کہ اب تک رواج ہے معلوم نہیں کہ مقام تقلید میں ایک فرد کو دوسرے افراد پر کس دلیل و برہان سے ترجیح حاصل ہے۔ حنفیوں کے امام میں کیا خصوصیت ہے جو مالکیوں کو نہیں ملی اور شافعیوں کا امام کیا فضیلت رکھتا ہے جو حںبلیوں کے پاس نہیں۔

اگرملت اسلامی اس پر مجبور ہے کہ ان چاروں کے فتاوی سے باہر نہ جائے تو جماعت مسلمین بہت سخت جمود کے پنجے میں گرفتار ہوگئی ہے اور کبھی ان میں ترقی اور بلندی پیدا نہیں ہوسکتی ۔ حالانکہ مقدس دین اسلام کے خصوصیات میں سے ایک یہی ہے کہ ہر دور اور زمانے میں قافلہ تمدن کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور یہ مقصد لازمی طور پر ایسے فقہاء و مجتہدین چاہتا ہے جو ہر عہد میں موازین شرعیہ کے تحفظ کے ساتھ کاروانِ تہذیب کے ہمراہ آگے بڑھیں اور مذہب کی مرکزیت کو محفوظ رکھیں۔

کیونکہ بہت سے امور ایسے ہیں ج کے تجدد کی وجہ سے ان میں تقلید میت کی گنجائش نہیں ہے ۔ بلکہ حتمی طور پر زندہ فقیہ اور مجتہد کی طرف رجوع کرنا ان کی دماغی کاوش سے فائدہ حاصل کرنا اورا ن کے فتوی کو اپنا لائحہ عمل بنانا ضروری ہوتا ہے۔ باوجودیکہ بعد کے زمانوں میں آپ کے یہاں ایسے عالی منزلت مجتہدین اور فقہاء پیدا ہوئے جو ان چاروں اماموں سے بدرجہا اعلم اور افقہ تھے لیکن معلوم نہیں یہ ترجیح بلا مرجح ، مقام اجتہاد کو ان چار نفر کے اندر محصور کر دینا اور دوسروں کے علمی افادات کو ضائع کرنا کس مصلحت کی بنا پر تھا۔ البتہ جماعت شیعہ کے اندر ظہور امام آخرالزمان عجل ا ﷲ فرجہ تک ہر دور اور ہر زمانے میں تمام فقہاء اور مجتہدین کو فتاوی کا حق حاصل ہے اور ہم مسائل جدیدہ میں ابتداء تقلید میت کو ہرگز جائز نہیں سمجھتے ۔

۱۳۳

مذاہب اربعہ کی پیروی پر کوئی دلیل نہیں ہے

تعجب ہے کہ آپ شیعہ فرقے کو تو بدعتی اور مردہ پرست کہتے ہیں جو اہل بیت رسول(ص) میں سے بارہ ائمہ(ع) کی ہدایتوں پر آں حضرت(ص) ہی کے حکم سے ( ان نصوص خاصہ کے ساتھ جو آپ کی کتابوں میں بھی تشریح کے ساتھ مندرج ہیں) عمل کرتے ہیں لیکن معلوم نہیں آپ حضرات کس دلیل سے مسلمانوں کو مجبور کرتے ہیں کہ اصول میں اشعری یا معتزلی مذہب پر اور فروع میں لازمی طور پر مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک پر عمل پیرا ہوں۔ اور اگر ان باتوں پر جو آپ بغیر دلیل کے کہتے ہیں عمل نہ کریں۔ یعنی اشعری یا معتزلی مذہب یا مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک کے پیرو نہ بنیں تو رافضی ، مشرک اور گردن زدنی قرار پائیں۔

اگر آپ پر ایراد کیا جائے کہ چونکہ ابو الحسن اشعری یا ابو حنیفہ ، مالک ابن انس، محمد ابن ادریس شافعی اور احمد بن حنبل کی پیروی کے لیے پیغمبر(ص) کا کوئی فرمان نافذ نہیں ہوا ہے اور یہ بھی من جملہ اور اسلامی علماء و فقہاء کے تھے لہذا صرف انہیں کی تقلید پر اںحصار کرنا بدعت ہے تو کیا جواب دیجئیے گا؟

حافظ : ائمہ اربعہ چونکہ زہد و ورع تقوی و امانت اور عدالت کے ساتھ ساتھ فقاہت اور علم و اجتہاد کی منزل پر فائز تھے لہذا ان کی پیروی ہم پر لازمی ہوگئی۔

خیر طلب : اول تو جو کچھ آپ نے فرمایا یہ ایسے دلائل نہیں ہیں جو حصر کا سبب بن جائیں کہ روز قیامت تک مسلمان ان کے طریقے کی پیروی کرنے پر مجبور ہوں۔ اس لیے کہ آپ اپنے سارے علماء و فقہاء کے لیے ان صفات کے قائل ہیں اور ان چاروں کے اندر اںحصار کرنا بعد کے علماء کے توہین ہے۔ کسی ایک فرد یا افراد کی پیروی پر اسی وقت مجبور کیا جاسکتا ہے جب کہ خاتم الانبیاء(ص) سے کوئی ہدایت یا نص مروی ہو حالانکہ آپ کے ائمہ اربعہ کے بارے میں ایسا کوئی حکم یا نص آنحضرت(ص) سے منقول نہیں ہے لہذا آپ نے کیونکہ مذاہب کو چار کے اندر محدود کردیا اور ان چار اماموں میں سے ایک کی پیروی کا لازمی ہونا حق سمجھتے ہیں؟

یہ عجیب معاملہ صاحبان عقل و اںصاف کے لیے قابل غور ہے

بہت مضحکہ خیز بات ہے کہ چند شب پہلے آپ نے شیعہ مذہب کو سیاسی قرار دیا اور کہا کہ یہ مذہب چونکہ رسول اﷲ(ص) کے زمانے میں نہیں تھا اور خلافت عثمان میں پیدا ہوا ہے۔ لہذا اس کی پیروی

۱۳۴

جائز نہیں ہے۔ حالانکہ پرسوں شب میں نے عقلی و نقلی دلائل سے ثابت کردیا کہ مذہب شیعہ کی بنیاد رسول اﷲ(ص) کے زمانے میں آں حضرت(ص) ہی کی ہدایت سے قائم ہوئی اور شیعوں کے سردار امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے بچپن ہی سے دامن نبوت میں پرورش پائی۔ آں حضرت (ص) سے معالم دین کی تعلیم حاصل کی، ان روایات کے مطابق جو آپ کی معتبر کتابوں میں منقول ہیں آںحضرت(ص) نے آپ کو اپنے علم کا دروازہ فرمایا اور صراحت کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ علی(ع) کی اطاعت میری اطاعت ہے اور ان کی مخالت میری مخالفت ہے، ستر ہزار مسلمانوں کے مجمع میں آپ کو امارت و خلافت کے عہدے پر منصوب فرمایا اور عام مسلمانوں کو یہاں تک کہ عمر اور ابوبکر کو بھی حکم دیا اور ان لوگوں نے آپ کی بیعت کی۔

لیکن آپ کے چاروں مذاہب حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کس بنیاء پر قائم ہوئے ہیں؟ آپ کے ان چار اماموں میں سے کس نے رسول خدا(ص) سے ملاقات کی ہے یا کس کے بارے میں آںحضرت(ص) کی طرف سے کوئی ہدایت جاری ہوئی ہے تاکہ مسلمان آنکھیں بند کر کے ان کی پیروی پر مجبور ہوں؟ جیسا کہ آپ بھی بغیر کسی دلیل کے اپنے اسلاف کے قدم بقدم چلتے ہوئے ان چار اماموں کی پیروی کر رہے ہیں جن کی امامت مطلقہ پر ایک دلیل بھی دلیل نہیں رکھتے سوا اس کے کہ آپ نے فرمایا وہ فقیہ، عالم، مجتہد، زاہد اور صاحبان تقوی تھے تو ہر ایک کے زمانے والوں کو صرف ان کی زندگی میں ان علماء کے فتاوی پر عمل کرنا چاہئیے تھا نہ یہ کہ ساری دنیا کے مسلمان روز قیامت تک ان کی اطاعت کے پابند بنا دیے جائیں۔

علاوہ ان باتوں کے اگر رسول اﷲ(ص) کے صریحی ارشادات کے ساتھ ساتھ یہ صفات بھی ہزاروں گنا زیادہ آں حضرت (ص) کی عترت میں جمع ہوگئی ہوں تو بدرجہ ادنی ان حضرات کا اتباع اور پیروی فرض ہے بہ نسبت ان لوگوں کے جن کے بارے میں قطعا کوئی نص یا فرمان نافذ نہیں ہوا ہے۔ آیا وہ مذاہب جن کا رسول(ص) کے زمانے میں کوئی نشان نہیں تھا اور ائمہ اربعہ میں سے کوئی ایک بھی آں حضرت(ص) کے عہد میں موجود نہیں تھا نہ ان کے بارے میں آں حضرت (ص) سے کوئی حکم منقول ہے اور ایک صدی کے بعد دنیا میں رونما ہوئے ، ایجاد بندہ اور سیاسی ہیں؟ یا وہ مذہب جس کے بانی رسول خدا(ص) اور جس کا پیشوا آں حضرت(ص) کے ہاتھوں میں تربیت پایا ہوا تھا؟ اور اسی طرح باقی گیارہ امام جن سب کے لیے فردا فردا حدیثیں مروی ہیں، ان کو عدیل قرآن قرار دیا ہے اور حدیث ثقلین میں صاف ارشاد فرمایا ہے کہ :

" من تمسک بهما فقد نجی و من تخلف عنهما فقد هلک ۔" (1)

جس نے ان دونوں سے تمسک کیا وہ یقینا نجات یافتہ ہے اور جس نے ان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ اسی کتاب کے صفحہ92 صفحہ93 میں اس کی اصل اور اسناد کی طرف اشارہ ہوچکا ہے۔

۱۳۵

دونوں سے رو گردانی کی وہ یقینا ہلاک ہوا 12 مترجم) اور حدیث سفینہ میں فرمایا ہے کہ من تخلف عنهم فقد هلک (1) یعنی اور جس نے ان سے منہ موڑا پس وہ یقینا ہلاک میں گرفتار ہوا۔ 12 مترجم)

ابن حجر صواعق باب وحیتہ النبی صفحہ135 میں آن حضرت(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ فرمایا “ قرآن اور میری عترت تمہارے درمیان میری امانت ہیں کہ اگر ان دوںوں سے ایک ساتھ تمسک اختیار کرو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے”

پھر ابن حجر کہتے ہیں کہ اس قول کی موید ایک دوسری حدیث ہے جو آں حضرت (ص) نے قرآن و عترت کے بارے میں ارشاد فرمائی ہے۔" فلا تقدموهما فتهلكوا، و لا تعلموهما فإنهما أعلم منكم." ( یعنی قرآن اور میری عترت پر پیش قدمی نہ کرو۔ اور ان کی خدمت میں کوتاہی نہ کرو۔ ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے۔ اور میری عترت کو تعلیم نہ دو۔ کیونکہ وہ تم سے زیادہ جاننے والے ہیں۔)

اس کے بعد ابن حجر نے تبصرہ کیا ہے کہ “ یہ” حدیث شریف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آں حضرت(ص) کی عترت اور اہل بیت(ع) مراتب علمیہ اور وظائف دینیہ میں دوسروں پر تقدم کا حق رکھتے ہیں۔” حیرت ہے کہ اس بات کا یقین رکھتے ہوئے بھی کہ عترت و اہل بیت رسول(ص) کو دوسروں پر مقدم ہونا چاہیئے بغیر کسی دلیل و برہان کے اصولی ہیں ابوالحسن اشعری کو اور فروع میں ان چاروں فقہا کو اس خاندان جلیلی پر مقدم قرار دیتے ہیں۔ در حقیقت فقیہ امام علم و ورع اور تقوی اور عدالت کی وجہ سے پیشوا قرار پائے تو ان میں سے ایک نے دوسرے پر فسق اور کفر کا فتوی کس لیے لگایا ہے؟

حافظ : آپ بہت زیادتی کرتے ہیں کہ جو کچھ آپ کے منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں، یہاں تک کہ ہمارے فقہا اور اماموں پر تہمت لگاتے ہیں کہ یہ لوگ ایک دوسرے کی تردید و توہین یا تفسیق و تکفیر پر اتر آئے ہیں۔ آپ کا یہ بیان قطعا کھلا ہوا جھوٹ ہے۔ اگر ان کے بادے میں کوئی تردید یا تنقید کی گئی ہے تو وہ شیعہ علماء کی طرف سے ہے ورنہ ہمارے علماء کی جانب سے سوا تعظیم و تکریم کے جو ان حضرات کے شایان شان تھی ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا ہے۔

خیر طلب : معلوم ہوتا ہے کہ جناب عالی کو اپنے علماء کی معتبر کتابوں کے مندرجات پر کوئی توجہ نہیں ہے یا جان بوجھ کر انجان بنتے ہیں یعنی جانتے ہوئے مغالطہ دے رہے ہیں ، ورنہ آپ کے بڑے بڑے علماء نے ان کی رد میں کتابیں لکھی ہیں یہاں تک کہ خود چاروں اماموں نے ایک دوسرے کو فاسق اور کافر بنایا ہے۔

--------------

1۔ اسی کتاب کے صفحہ92 صفحہ93 میں اس کی اصل اور اسناد کی طرف اشارہ ہوچکا ہے۔

۱۳۶

حافظ : فرمائیے وہ علماء کون ہیں اور ان کی کتابوں کے اندراجات کیا ہیں؟ اگر آپ کی نظر میں ہو تو بیان کیجئے۔

خیر طلب : اصحاب ابو حنیفہ اور ابن حزم ( علی ابن احمد اندلسی متوفی سنہ456ھ) وغیرہ برابر امام مالک اور محمد بن ادریس شافعی پر طعن کرتے رہے ہیں اور اسی طرح اصحاب شافعی جیسے امام الحرمین اور امام غزالی وغیرہ ابو حنیفہ اور مالک پر طعن کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ میں جناب عالی سے پوچھتا ہوں کہ فرمائیے امام شافعی، ابو حامد محمد بن محمد عزالی اور جار اﷲ زمخشری کیسے اشخاص ہیں؟

حافظ : ہمارے بزرگ ترین فقہاء و علماء میں سے ، ثقہ اور اہل سنت واجماعت کے امام ہیں۔

اہل تسنن کے علماء اور اماموں کا ابوحنیفہ کو رد کرنا

خیر طلب : امام شافعی کہتے ہیں ما ولد فی الاسلام اشام من ابی حنیفہ۔ ( یعنی اسلام کے اندر کوئی شخص ابو حنیفہ سے زیادہ منحوس پیدا نہیں ہوا) نیز کہا ہے

" نظرت في كتب أصحاب أبي حنيفة فإذا فيها مائة و ثلاثون ورقة خلاف الكتاب و السنة."

یعنی میں نے اصحاب ابوحنیفہ کی کتابوں میں نظر کی تو ان میں مجھ کو ایک سو تیس ورق کتاب خدا اور سنت رسول(ص) کے خلاف ملے۔)

ابو حامد غزالی کتاب متحول فی علم الاصول میں کہتے ہیں:

"فأمّا أبو حنيفة فقد قلب الشريعة ظهرا لبطن و شوّش مسلكها و غيّر نظامها، و أردف جميع قواعد الشريعة بأصل هدم به شرع محمّد المصطفى صلّى اللّه عليه و آله و سلم، و من فعل شيئا من هذا مستحلّا كفر، و من فعل غير مستحلّ فسق"

یعنی در حقیقت ابوحنیفہ نے شریعت کو پلٹ دیا، اس کے راستے کو مشتبہ بنا دیا، اس کے نظام کو بدل ڈالا اور قوانین شرع میں سے ہر ایک کو ایک ایسی اصل کے ساتھ جوڑ دیا جس کے ذریعے رسول اﷲ(ص) کی شرع کو برباد کر دیا۔ جو شخص عمدا ایسی حرکت کرے اور اس کو جائز سمجھے وہ کافر ہے اور جو شخص نا جائز سمجھتے ہوئے ایسا کرے وہ بدکار ہے۔ چنانچہ اس بزرگ عالم کے قول کے مطابق ابوحنیفہ یا کافر تھے یا فاسق۔ اس کے بعد اس باب میں ان کی طعن درد اور تفسیق میں بہت سی باتیں لکھی ہیں جن کا بیان میں ترک کرتا ہوں اور جار اﷲ زمخشری صاحب تفسیر کشاف نے جو آپ کے ثقات علماء میں سے ہیں ربیع الابرار میں لکھا ہے :

" قال يوسف بن اسباط رد ابو حنيفه علی رسول اﷲ اربعة مائة حديث او اکثر. "

یعنی یوسف بن اسباط نے کہا ہے کہ ابو حنیفہ نےرسول خدا(ص) پر چار سویا اس سے زیادہ حدیثیں روکیں۔ نیز یوسف کہتا ہے کہ ابو حنیفہ کہتا تھا لو ادرکنی

۱۳۷

رسول اﷲ لاخذ بکثیر من قولی۔ یعنی اگر رسول اﷲ مجھ کو پاتے تو میرے بہت سے اقوال اختیار کرتے یعنی میری باتوں کی پیروی کرتے) ۔ اسی طرح کے بکثرت مطاعن ابو حنیفہ اور باقی تین اماموں کے بارے میں آپ کے علماء سے منقول ہیں جو غزالی کی کتاب متحول، شافعی کی کتاب نکت الشریف زمخشری کی ربیع الابرار اور ابن جوزی کی منتظم وغیرہ دیکھنے سے معلوم ہوسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ امام غزالی متحول میں کہتے ہیں :

" ان ابا حنيفه النعمان بن ثابت الکوفی يحق فی الکلام ولا يصرف اللغة والنحو ولا يعرف الاحاديث ۔"

( یعنی ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کوفی کے کلام میں غلطیاں بہت ہیں۔ ان کو لغت و نحو اور احادیث کا علم نہیں تھا) نیز لکھتے یں کہ یہ چونکہ علم حدیث سے ( جو قرآن کے بعد دین کا ستون اور بنیاد ہے) واقف نہیں تھے لہذا فقط قیاس رپ عمل کرتے تھے، حالانکہ اول من قاس ابلیس یعنی سب سے پہلے جس نے قیاس پر عمل کیا وہ شیطان تھا۔ ( چنانچہ جو شخص قیاس پر عمل کرے اس کا حشر ابلیس کے ساتھ ہوگا۔)

اور ابن جوزی منتظم میں کہتے ہیں اتفق الکل علی الطعن فیہ۔ یعنی سارے علماء ابو حنیفہ پر طعن کرنے میں متفق ہیں نتیجہ یہ نکلا کہ طعن کرنے والے تین قسم کے ہیں۔ ایک گروہ نے ان کو اس لئے مورد طعن قرار دیا ہے کہ یہ اصول عقائد میں متزلزل تھے۔ دوسری جماعت نے کہا ہے کہ ان کے پاس حافظ اور ضبط روایات کی قوت نہیں تھی اور تیسری صنف کا اعتراض یہ ہے کہ یہ اپنی رائے اور قیاس سے کام لیتے تھے اور ان کی رائے ہمیشہ صحیح حدیثوں کی مخالفت ہوتی تھی۔

غرضیکہ آپ کے اماموں کے بارے میں آپ ہی کے علماء کی طرف سے اس طرح کی گفتگو اور مطاعن بہت ہیں۔ جن کے بیان کا فی الحال وقت نہیں ہے کیونکہ میں تردید اور انتقاد کی منزل میں نہیں تھا۔ آپ نے بات کا سلسلہ یہاں تک پہنچا دیا کہ فرمایا جو مطاعن منقول ہیں وہ صرف علمائے کی طرف سے ہیں اور جو کچھ تمہارے منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہو لہذا میں نے یہ بتا دینا چاہا کہ آپ کا اعتراض بے جا ہے اور آپ محض گریز کا راستہ تلاش کرنے کے لیے بغیر عقل و منطق کے مقابلہ کر رہے ہیں ورنہ اصلیت اسکے خلاف ہے جو کچھ میری زبان پر جاری ہوتا ہے وہ علم و عقل اور منطق کے مطابق اور تعصب سے خالی ہوتا ہے علماء شیعہ نے آپ کے چاروں اماموں سے سوا ان باتوں کے جو خود آپ کے علماء نے لکھی ہیں کوئی نئی چیز منسوب نہیں کی ہے اور نہ ان کی توہین ہی کرتے ہیں۔ لیکن آپ کے علماء کے بر خلاف علمائے شیعہ امامیہ کے درمیان ہمارے بارہ ائمہ (ع) کے مقامات مقدسہ کی نسبت کسی طرح کا کوئی ایراد یا اعتراض موجود نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہم ائمہ طاہرین سلام اﷲ علیہم

۱۳۸

اجمعین کو ایک ہی مدرسے کے شاگرد جانتے ہیں جن پر یکساں طور پر فیض خداوندی جارہی تھا اور یہ حضرات من اولہم الی آخرہم بالعموم قوانین الہیہ کے مطابق جو خاتم النبیین سے ان کو پہنچے تھے عمل فرماتے تھے۔ رائے و قیاس اور ایجاد بندہ پر کار بند نہیں تھے بلکہ جو کچھ ان کے پاس تھا وہ پیغمبر(ص) کی طرف سے تھا لہذا بارہ اماموں کے درمیان کوئی اختلاف نہ تھا( جیسے کہ آپ کے چاروں اماموں کے درمیان سارے عقائد و احکام میں اختلاف موجود ہیں) کیونکہ یہ حضرات امام تھے۔ لیکن امام لغوی نہیں جس کے معنی صرف آگے چلنے والے کے ہوں۔

امامت شیعوں کے عقیدے میں ریاست عالیہ الہیہ ہے

بلکہ علم کلام کی اصطلاح میں جیسا کہ محققین علماء نے بیان کیا ہے یہ امامت ریاست عالیہ الہیہ کے معنی میں اور اصول دین میں سے ایک اصل ہے اور ہم بھی اسی عقیدے پر ہیں کہ : “ الامامة ہی الریاسة العامة الہیة خلافة عن رسول اﷲ فی امور الدین و الدنیا بحیث یجب اتباعہ علی کافة الامة” یعن امامت سارے خلائق پر ایک عمومی ریاست الہی ہے بطریق خلافت رسول اﷲ(ص) کی طرف سے امور دین و دنیا میں اس صورت سے کہ اس کی متابعت سارے انسانوں پر واجب ہے۔”

شیخ : بہتر تھا کہ آپ قطعی اور حتمی طور سے یہ نہ فرماتے کہ امامت اصطلاحی اصول دین میں سے ہے کیونکہ بڑے بڑے علمائے اسلام کہتے ہیں کہ امامت اصول دین میں سے نہیں ہے بلکہ مسلمہ فروعات میں سے ہے، جس کو آپ کے علماء نے بغیر دلیل کے اصول دین کا جز بنا دیا۔

خیر طلب : میرا یہ بیان صرف شیعوں سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ آپ کے اکابر علماء بھی اسی عقیدے پر ہیں من جملہ ان کے آپ کے مشہور مفسر قاضی بیضاوی کتاب منہاج الاصول میں بسلسلہ بحث اخبار انتہائی صراحت کے ساتھ کہتے ہیں :

" أن الإمامة من أعظم مسائل أصول الدين التي مخالفتها توجب الكفر و البدعة "

یعنی حقیقتا امامت اصول دین کے عظیم ترین مسائل میں سے ہے جس کی مخالفت کفر و بدعت کا سبب ہے۔

ملا علی قوشجی شرح تجرید مبحث امامت میں کہتے ہیں :

" «الإمامة رئاسة عامّة في أمور الدين و الدنيا خلافة عن النبيّ "

یعنی امامت ایک ریاست عمومی ہے امور دین و دنیا میں بطریق خلافت پیغمبر(ص) کی طرف سے) اور قاضی روز بہان جیسے آپ کے انتہائی متعصب عالم نے بھی اسی مفہوم کو نقل کیا ہے کہ امامت ریاست براست اور نیابت و خلافت رسول(ص)

۱۳۹

ہے اس عبارت کے ساتھ کہ :" و الإمامة عند الأشاعرة: هي خلافة الرسول في إقامة الدين و حفظ حوزة الملّة، بحيث يجب اتّباعه على كافّة الأمّة."

یعنی امامت اشاعرہ کے نزدیک رسول اﷲ(ص) کی خلافت ہے دین کو قائم کرنے اور حلقہ ملت اسلام کی حفاظت کرنے میں، اس طرح سے کہ ساری امت پر اس کا اتباع واجب ہے۔

اگر امامت فروع دین میں سے ہوتی تو رسول اﷲ(ص) یہ نہ فرماتے کہ جو شخص بغیر امام کو پہچانے ہوئے مرے تو اس کی موت طریقہ جاہلیت پر ہے۔ چنانچہ آپ کے اکابر علماء جیسے حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں، ملا سعد تفتازانی نے شرح عقائد نصفی میں اور دوسروں نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا :

"من مات و هو لا يعرف امام زمانه مات ميتة جاهلية" (1)

بدیہی چیز ہے کہ فروع دین میں سے کسی ایک فرع کی معرفت نہ ہوتا دین کے تزلزل اور طریقہ جاہلیت پر مرنے کا سبب نہیں ہوسکتا جیسا کہ بیضاوی صریحی طور پر کہتے ہیں کہ اس کی مخالفت کفر و بدعت کا سبب قرار پائے۔ پس ثابت ہے کہ امامت اصول دین میں داخل اور مقام نبوت کا تتمہ ہے۔ لہذا امامت کے معنی میں بہت بڑا فرق ہے ، آپ جو اپنے علماء کو امام کہتے ہیں جیسے امام اعظم ، امام مالک ، امام شافعی، امام احمد حنبل، امام فخرالدین ، امام ثعلبی امام غزالی وغیرہ تو یہ لغوی معنی کے لحاظ سے ہے۔ ہم بھی امام جمعہ اور امام جماعت رکھتے ہیں ، اماموں کی اس نوع کا دامن وسیع ہے اور ممکن ہے کہ ایک وقت میں سیکڑوں امام موجود ہوں، لیکن اس معنی میں جو میں نے عرض کیا امام ریاست عامہ مسلمین کے عہدے پر ہے۔ یہ ہر زمانے میں صرف ایک ہوتا ہے، ایسا امام کہ اس کو حتمی طور پر سارے صفات حمیدہ و اخلاق پسندیدہ کا حامل ، علم وفضل ، شجاعت ، زہد، ورع اور تقوی میں سارے انسانوں سے بہتر اور منزل عصمت پر فائز ہونا چاہیئے۔ اور کبھی روز قیامت تک زمین ایسے امام کے وجود سے خالی نہ رہے گی۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کا امام جو انسانیت کے تمام صفات حالیہ کا حامل ہو صفات روحانیت کے بلند ترین مقام پر ہوگا۔ اور یقینا ایسے امام کو خدائے تعالی کی طرف سے خصوص اور رسول اﷲ (ص) کی طرف سے منصوب ہونا چاہیئے کیونکہ یہ سارے ؟؟؟؟؟ حتی کہ انبیائے کرام سے بھی اعلی و ارفع ہوتا ہے۔

حافظ : ایک طرف تو آپ غالیوں کی مذمت کرتے ہیں اور دوسری طرف خود ہی امام کے بارے میں غلو کرتے ہیں اور اس کی منزل کو مقام بنوت سے بالاتر سمجھتے ہیں، حالانکہ عقلی دلائل کے علاوہ قرآن مجید نے بھی انبیاء کی منزل کو سب سے بلند قرار دیا ہے اور واجب و ممکن کے درمیان صرف انبیاء(ع) ہی کا مقام ہے آپ کا یہ دعوی چونکہ بلا دلیل ہے لہذا سراسر زبردستی اور نا قابل قبول چیز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ جو شخص اس حالت میں مرجائے کہ اپنے امام زمان کو نہ پہچانتا ہو تو وہ حقیقت میں جاہلیت کی موت مرا۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

جو صحابہ حق پر ثابت قدم رہے ان کی محبت دینی فریضہ ہے

بلکہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام تو،ان صحابہ کی محبت کو جو حق پر ثابت قدم رہے ایک دینی فریضہ سمجھتے ہیں اور اسلام کے ان شرائع میں شمار کرتے ہیں جن کی پابندی واجب ہے،اعمش کی ایک حدیث ملاحظہ ہو،جو انھوں نے ابوعبداللہ جعفر بن محمد علیہ السلام کے حوالہ سے نقل کی ہے کہ امام ؑ نے دینی شرائع کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:((اور اولیا خدا کی محبت اور ان سے ولا واجب ہے،ان کے دشمنوں سے الگ رہنا اور ان سے الگ رہنا جنھوں نے آل محمد ؐ پر ظلم کیا،پیغمبر ؐ کی ہتک حرمت کی،ظلم کی بنیاد رکھی،سنت پیغمبر ؐ کو بدلا،انصاب و ازلام اور گمراہیوں کے امام،ظلم کی قیادت کرنے والے،بلکہ ہر دور کے ظالم سے الگ رہنا واجب ہے،اہل بیت ؑ کے تمام قاتلوں سے اظہار برائت کرنا واجب ہے،ان مومنین کی محبت واجب ہے جنھوں نے نبی ؐ کے بعد دین کو نہیں بدلا اور تغیر نہیں کیا جیسے سلمان فارسی ؓ ،ابوذر غفاری ؓ ،مقداد بن اسود کندی ؓ ،عمار بن یاسر ؓ ،جابر بن عبداللہ انصاری ؓ ،ابوالھیثم بن تیہان ؓ ،سہل بن حنیف،ابوایوب انصاری ؒ عبداللہ بن الصامت ؒ ،عبادہ بن الصامت ؒ ،خزیمہ بن الثابت ؓ ذوالشہادتین،ابوسعید خدری اور جو لوگ ان کے راستوں پر چلتے رہے اور ان کے جیسے اعمال انجام دیتے رہے،ایسے لوگوں کی پیروی کرنے والوں اور ان کی اقتدار میں رہنے والوں اور ان کی ہدایتوں پر عمل کرنے والوں سے بھی محبت واجب ہے)) ۔(۱)

مامون عباسی نے حضرت ابوالحسن امام الرضا علیہ السلام سے عرض کیا کہ مختصر طور پر اسلام کی تعریف لکھ دیں،آپ نے تحریر فرمایا:((اسلام محض یہ ہے کہ انسان لا الہ الا اللہ کی شہادت دے))پھر آپ نے اسلام کے اصول و فروع لکھے من جملہ ان کے واجبات اسلام بھی بیان کئے پھر آپ نے لکھا کہ اور ان سے اظہار برائت کرنا جنھوں نے آل محمد کو قتل کیا انھیں ان کے گھروں سے بےگھر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الخصال ص:۶۰۷۔۱۰۱،۶۰۸،باب:فضائل من شرائع الدین۔

۳۰۱

کیا ان پر ظلم کئے،ظلم کا طریقہ اپنایا اور نبی ؐ کی سنت کو بدل دیا اور امیرالمومنین علی علیہ السلام کی ولایت اور ان لوگوں سے محبت جو اپنے نبی ؐ کے راستے پر چلے،نہ تغیر کیا نہ تبدیلی،جیسے سلمان فارسی،ابوذر غفاری،مقداد بن اسود،عمار بن یاسر،حذیفہ یمانی،ابوالہیثم بن تیہان،سہل بن حنیف،عبادہ بن صامت،ابوایوب انصاری،خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین،ابوسعید خدری اور ان جیسے لوگ خدا ان سے راضی ہو اور ان پر خدا کی رحمت ہو اور ان کی پیروی کرنے والوں سے محبت کرنا،ان کے چاہئے والوں سے محبت کرنا اور ان کی ہدایتوں پر عمل کرنے والوں سے محبت کرنا ۔(۱)

شیعوں کے پاک اماموں نے انھیں سمجھایا اور بتایا کہ صحابہ پیغمبر ؐ قابل تعظیم و احترام ہیں شیعوں نے اپنے اماموں سے ان کے مرتبوں کو پہچانا،یہی وجہ ہے کہ شیعہ،اپنے اماموں کی پیروی میں صحابہ پیغمبر ؐ سے محبت کرتے ہیں اور ان کی عزت کرتے ہیں،مقصد صرف یہ ہے کہ ان کا حق ادا ہو اور رضائے خدا حاصل ہوجائے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ((اور وہ لوگ جو ان کے(صاحبان ایمان کے)بعد آئے کہتے ہیں پالنے والے ہمیں بخش دے اور مہارے ان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے باایمان رہ چکے ہیں اور ان صاحبان ایمان کی طرف سے ہمارے دل میں کھوٹ نہ قرار دے،اے ہمارے پروردگار بےشک تو مہربان بھی ہے اور رحیم بھی ہے،(۲) ہمارے ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کا کردار اس سلسلہ میں کافی ہے ۔

میں نے آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں بھی عرض کیا تھا کہ دین صرف راہ خدا میں محبت اور خدا کے لئے بغض کا نام ہے دین اولیا خدا سے موالات اور دشمنان خدا سے دشمنی عداوت کا نام ہے اس سلسلہ میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں،جن میں سے بعض کا تذکرہ یہاں حسب حال کردیا گیا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) عیون الاخبار ج: ۱ ص: ۱۲۹ ۔ ۱۳۴ ،اس باب میں کہ جو امام رضاؑ نے مامون کو اسلام و دین کی شریعت کے باب میں لکھا تھا

( ۲) سورہ حشر آیت: ۱۰

۳۰۲

نتیجہ گفتگو

گذشتہ بیانات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر شیعوں کے قول کے مطابق امیرالمومنین علیہ السلام کی ولایت پر نص تھی اس نص کی تردید بہت کم لوگوں نے صرف ان لوگوں نے اس نص کو نہیں مانا یا تجاہل برتاجو تھے یا تو مہاجر و انصار لیکن امیرالمومنین ؑ کے خلاف قیام کے بانی تھے اسی طرح ان لوگوں کی پیروی کرنے والی جماعت بھی نص سے غافل رہی جیسے حدیث الاسلام لوگ جو کسی طرح اسلام میں داخل ہوگئے تھے لیکن باقی مہاجرین و انصار جو دین میں اپنی ایک حیثیت رکھتے تھے وہ نص کے مخالف نہیں تھے نہ انھوں نے ص کی تردید کی(بلکہ واقعات گواہ ہیں کہ انھیں نص کا یقین تھا اور اس یقین کا وہ موقعہ پاتے ہی اظہار کرنے لگتے تھے)

یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے مولائے کائنات ؑ کی نصرت میں کوتاہی کی اور شروع میں حق نصرت ادا نہیں کرسکے،لیکن ان میں بھی کچھ وہ تھے جو مسلسل حق کی حمایت میں بولتے رہے اگر چہ ایسے کم لوگ تھے،بہرحال جب انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ مولائے کائنات ؑ کی ولایت میں واپس آئے،آپ کی حمایت کرتے رہے آپ کے ساتھ جنگوں میں شرکت کی آپ کی کمر مضبوط کی اور آپ کی نصرت میں کوئی کوتاہی نہیں کی خدا کی نظر میں ان کی کوششیں منظور ہیں،خدا نے ان کے گناہوں کو بخش دیا،پھر پورا ثواب دیا،بےشک وہ توبہ قبول کرنے والا شکور غفور ہے ۔

صحابہ کا یہ شرف تھا کہ وہ نص کا یقین رکھتے تھے

آخر کلام میں ایک بہت ضروری بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم نے نص کے سلسلے میں جو بھی گفتگو کی اسے پڑھ کے یہ غلط فہمی نہیں پیدا ہونی چاہئے کہ ہم نص کی تائید یا اس کی مدافعت اس لئے کررہے ہیں کہ صحابہ کے طرز عمل میں اقرار نص اور اس سے عدم تجاہل پایا جاتا ہے یا یہ کہ مولائے کائنات ؑ کی فضیلت اور آپ کے مرتبہ کی بلندی،جو کچھ بھی ہے وہ اس لئے ہے کہ صحابہ آپ

۳۰۳

سے محبت کرتے تھے اور صحابہ کی تائید آپ کو حاصل تھی اور صحابہ نے جنگوں میں آپ کا ساتھ دیا ۔

بلکہ نص نذات خود اتنی واضح اور روشن تھی اور مولائے کائنات ؑ کی فضیلت،آپ کی بلندیاں فی نفسہ اتنی واضح اور روشن کہ یہ دونوں حقیقتیں کسی بھی تائید و اظہار سے بےنیاز تھیں،نص موجود تھی،صحابہ کی تائید سے اس کی حقیقت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا،مولائے کائنات ؑ افضل ہیں،حق و باطل کے فاروق اعظم ہیں اور حق کی علامت ہیں،کسی کی تائید سے اس حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑےگا اور کسی کی تردید سے اس حقیقت پر کوئی الٹا اثر نہیں پڑے گا،نص کا وضوح اور مولیٰ کی افضلیت تائید اقرار سے بےنیاز ہے اس کی طرف خود امیرالمومنین ؑ نے اپنے خطبہ میں اشارہ فرمایا ہے،آپ فرماتے ہیں میرے پاس لوگوں کی کثرت سے نہ میری عزت میں کوئی زیادتی ہوتی ہے نہ لوگوں کے چھوڑ کر ہٹ جانے میں میری وحشت میں کوئی اضافہ ہوگا ۔(۱)

بلکہ پیروی کرنے والوں،نص پر یقین کرنے والوں اور اس راہ میں لبیک کہتے ہوئے جہاد کرنےوالوں کے لئے شرف و فضیلت کی علامت ہیں،میں نے جو تائید نص اور تائید صحابہ کی باتیں کی ہیں اس سے مقصد یہ تھا کہ صحابہ کی فضیلت ظاہر ہو نہ کہ علی ؑ کی فضیلت ظاہر کرنا مقصد تھا ۔

میں اصل میں صحابہ کی مدافعت کرنا چاہتا تھا اور ان پر جو الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے عہد کو توڑا،راستے کو بدلا،حق اور اہل حق کا راستہ چھوڑ دیا و غیرہ میں صحابہ کو ان الزامات سے بری کرنا چاہتا تھا،کوشش یہ نہیں تھی کہ صحابہ کی تائید کے ذریعہ نص کا وجود ثابت کیا جائے اور مولائے کائنات ؑ کی فضیلت ثابت کی جائے بلکہ کوشش یہ تھی کہ صحابہ پر جو تجاھل بالنص کا الزام اور مولائے کائنات ؑ سے منھ موڑنے کا جو الزام عائد کیا جاتا ہے اس کی تردید کی جائے ۔

اب تک جو گفتگو ہوتی رہی ہے وہ اسی تناظر میں ہوتی رہی ہے اور شیعان اہل بیت ؑ کے صالح اسلاف کا طریقہ رہا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) نہج البلاغہ ج: ۳ ص: ۶۲ ،الامامۃ و السیاسۃ ج: ۱ ص: ۵۱ ،الاغانی ج: ۱۶ ص: ۲۹۰ ،

۳۰۴

اس موقعہ پر چند واقعات اپنے بیان کی تائید میں پیش کر رہا ہوں:

عبدالرحمان بن حجاج کہتے ہیں:ہم ابان بن تغلب کی خدمت میں تھےکہ ایک نوجوان آیا اور اس نے پوچھا اے ابوسعید!(ابان کی کنیت)ہمیں بتایئے کہ علی ؑ کے ساتھ پیغمبر ؐ کے کتنے صحابی تھے؟ابان نے کہا:کیا تائید صحابہ سے تم فضیلت علی ؑ کو تولنا چاہتے ہو؟اس نے کہا:ایسی ہی بات ہے،ابان نے کہا:خدا کی قسم ہم تو فضائل صحابہ کو اتباع علی ؑ سے تولتے ہیں ۔(۱)

اس حدیث سے مشابہ ایک اور حدیث ہے،عبداللہ بن احمد بن حنبل کہتے ہیں:ایک دن میں اپنے باپ کے پاس بیٹھا تھا کہ کرخیوں کا ایک گروہ آیا اور ابوبکر،عمر اور عثمان کی خلافت کی بات چل نکلی اور لوگ بہت دیر تک اس موضوع پر باتیں کرتے رہے پس میرے باپ نے سر اٹھایا اور کہا:تم نے کتنی مرتبہ کہا علی ؑ اور خلافت،خلافت اور علی ؑ ،سنو!خلافت نے علی ؑ کو زینت نہیں دی تھی بلکہ علی ؑ نے خلافت کو زینت دی تھی ۔(۲)

آیہ:کنتم خیر امة، پر گفتگو

اب ایک بات رہ جاتی ہے(وہ یہ کہ آپ نے فرمایا ہے کہ اگر بقول شیعہ نص موجود تھی تو اس دور کے مسلمانوں نے تائید کیوں نہیں کی؟جب کہ ان کی مدح خیر امت کی آیت اتری ہے اور اللہ انھیں خیرالامم کا خطاب دے رہا ہے)آیت یہ ہے کہ(تم سب سے بہترین امت جو لوگوں کے لئے منتخب کئے گئے ہو تمہاری خاصیت یہ ہے کہ تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہو( ۱ ) شاید آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ خیر امت سے مراد صحابہ ہیں اور جب صحابہ کٰر امت ہیں تو انہوں نے نص کی تائید کیوں نہی کی اور تجاہل کیوں برتا،یہ بات بعید از قیاس ہے اور سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ کے ذہن میں یہ سوال کیسے پیدا ہوا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) معجم الرجال الحدیث،ص: ۱۳۳ ،ابان بن تغلب کے حالات میں۔

( ۲)( تاریخ دمشق ج: ۴۲ ص: ۴۴۶ ،علی بن ابی طالبؑ کی سوانح حیات میں،تاریخ بغداد ج: ۱ ص: ۱۳۵ ،علی بن ابی طالبؑ کی سوانح حیات میں،المنتظم ج: ۵ ص: ۳۵،۶۲ سنہ کےواقعات

۳۰۵

اہل لغت کی صریحات تو دیکھیں!اہل لغت نے امت کے مختلف معانی بیان کئے ہیں،لیکن ظاہرتر اور سب سے جامع معنی وہ ہیں جو مفردات راغب میں لکھے ہیں،راغب کہتے ہیں:امت ہر اس جماعت کو کہتے ہیں جو کسی کام کے لئے مجتمع ہوں،ایک دین پر جمع ہونے والے بھی امت ہیں،ایک زمانے میں جمع ہونے والے بھی امت ہیں،ایک جگہ پر جمع ہونے والے بھی امت ہیں(۱) البتہ یہاں اس آیت میں امت سے مراد عام امت مسلمہ ہے،اس امت کو خیر امت اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ خاتم الامم ہے اس کے نبی ؐ خاتم الانبیاء ہیں اور تمام انبیا سے اشرف ہیں،اس کا دین خاتم الادیان اور تمام دینوں سے افضل ہے،اس کی شریعت خاتم الشرائع اور تمام شریعتوں سے اکمل ہے اور اس لئے بھی کہ اس امت میں چاہے جتنا بھی اختلاف ہوجائے لیکن کفر باللہ اور شرک سے محفوظ رہے گی،یہودی،نبی ؐ کی غیبت میں مشرک ہوگئے تھے،انھوں نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی تھی انھوں نے یہ بھی کہا تھا:((اے موسیٰ ؑ !ہمارے لئے ان کے خدا جیسا ایک خدا قرار دیجئے موسیٰ ؑ نے کہا:تم جاہل لوگ ہو،یہ لوگ جس مذہب پر ہیں وہ یقیناً برباد ہوجائےگا اور جو عمل یہ لوگ کر رہے ہیں وہ سب ملیا میٹ ہوجائےگا))(۲) اور جس طرح عیسائی کافر ہوگئے،کہنے لگے((مسیح بن مریم ہی اللہ ہیں،(۳) اور مشرک بھی ہوگئے،کہنے لگے((اللہ تو بس تین میں کا تیسرا ہے،(۴) لیکن اس امت نے آج تک خود کو کفر و شرک سے بچائے رکھا،یہی وجہ ہے کہ یہ امت تمام امتوں سے افضل ہے ۔(۵)

حدیث میں ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام سے ایک یہودی نے کہا کہ ابھی تم نے اپنے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ آل عمران:آیت ۱۱۰

( ۲) مفردات غریب القرآن ص: ۲۳ ،ام کے مادہ میں۔

( ۳) سورہ اعراف آیت: ۱۳۸ ۔ ۱۳۹

( ۴) سورہ مائدہ آیت: ۷۲

( ۵) سورہ مائدہ آیت: ۷۳

۳۰۶

نبی ﷺ کو دفن بھی نہیں کیا تھا کہ تمہارے درمیان نبی ؐ کے بارے میں اختلاف ہوگیا آپ نے فرمایا:ہمارے درمیان نبی ؐ کی ذات اختلاف کا موضوع نہیں تھی بلکہ نبی ؐ کے معاملات میں اختلاف ہوا تھا،لیکن تم رو دریائے نیل سے نکلے اور ابھی تمہارے پیر خشک بھی نہیں ہوئے تھے کہ تم نے اپنے نبی سے کہا:ہمیں کافروں جیسا ایک خدا دیدیجئے اور تمہارے نبی نے کہا کہ تم جاہل لوگ ہو ۔(۱)

جہاں تک صحابہ کا سوال ہے تو وہ امت کے عام افراد سے کوئی الگ نہیں ہیں ان میں بدکردار بھی ہیں،اچھے بھی ہیں،عہد خدا کی پائیداری کرنے والے بھی ہیں اور عہد خدا کو توڑنے والے بھی ہیں،اس سلسلے میں تفصیلی گفتگو آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں عرض کی جاچکی ہے،اسے دہرانے سے کوئی فائدہ نہیں ۔

اور اگر یہی فرض کرلیا جائے کہ اس آیت میں امت سے مراد عام امت مسلمہ نہیں ہے بلکہ صرف وہ لوگ ہیں جو زمانہ خطاب میں موجود تھے تب تو یہ آیت صرف صحابہ کے لئے مخصوص نہیں ہوگی بلکہ اس دور کے تمام مسلمانوں کے لئے ہوگی جو مسلمان نزول آیت کے وقت موجود تھے چاہے انھیں حقیقت ہے کہ وہ سارے مسلمان کے لئے ہوگی جو مسلمان نزول آیت کے وقت موجود تھے چاہے انھیں صحبت پیغمبر نصیب ہوئی یا نبی ؐ سے دور رہنے کی وجہ سے شرف صحبت حاصل نہ ہوا ہو اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ سارے مسلمان،کجی اور کمزوریوں سے مامون و محفوظ نہیں تھے لٰہذا آیت کے مصداق صرف چند افراد ہی قرار پائیں گے اور اگر یہ مان لیا جائے کہ یہاں امت سے مراد صرف صحابی ہیں،صحابی وہ جس نے نبی ؐ کو دیکھا اور آپ سے حدیث سنی تو مدعیٰ یہ ہوگا کہ وہ سب کے سب خیر ہیں ان میں شر ذرا بھی نہیں ہے تو پھر دعویٰ دو طریقوں سے رد ہوجاتا ہے ۔

۱ ۔ آیہ شریفہ یہ بالکل نہیں کہتی کہ جس کے اندر خیر ہے وہ شر سے خالی ہے فضیلت صاحب خیر کو اس لئے حاصل ہے کہ اس کے اندر خیر زیادہ ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے اندر شر بالکل بھی نہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) نہج البلاغہ ج: ۴ ص: ۷۵

۳۰۷

۲ ۔ اسی سوال کے جواب میں جو واقعات و احادیث بیان کی گئی ہیں ان سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت صحابہ کے مناسب حال ہو ہی نہیں سکتی،یہ ایسی بات ہے جس کا کوئی قائل نہیں ہے،یہاں تک کہ اہل سنت بھی تمام صحابہ کے خیر کے قائل نہیں ہیں وہ صحابہ کو شر سے پاک نہیں مانتے،نہ ان کی عصمت کے قائل ہیں،زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اہل سنت تمام صحابہ کی عدالت کے قائل ہیں لیکن عدالت کے ساتھ شر تو جمع ہوسکتا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ صحابہ کے اندر خیر نسبت کے لحاظ سے ہے یعنی صحابہ میں خیر کا تناسب دوسروں سے زیادہ ہے تو پھر امیرالمومنین ؑ پر نص سے جو اعراض کیا ہے یہ دعویٰ اس کے منافی ہے،اگر بقول شیعہ نص موجود ہوتی اس لئے کہ نص سے اعراض نہ انھیں کافر بنانا ہے نہ مشرک اس لئے کہ انبیائے ماسبق کے اصحاب تو کفر و شرک کے مرتکب ہوچکے ہیں اور دوسرے انبیا کے اصحاب کی جو تعداد حق پر ثابت قدم رہی وہ ہمارے نبی ؐ کے اصحاب کی تعداد سے بہت کم ہے نسبت کے اعتبار سے یہی بات صحابہ کے خیر پر ہونے کے لئے کافی ہے ۔

بہرحال جو بھی ہو یہ آیہ کریمہ ہمارے موضوع سے کسی طرح میل نہیں کھاتی اور آپ کے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے بہرحال نافع نہیں ہے ۔

اس لئے کہ آپ نے کہا:یہ بات بعید از قیاس ہے کہ نص کی موجودگی میں خیر امت صحابہ نے تجاہل کیا،میں نے عرض کیا کہ یہ کوئی بعید از قیاس بات نہیں ہے اس لئے کہ نص کے اعراض سے گذشتہ بیان کے مطابق ان کےخیر امت ہونے پر حڑف نہیں آتا،ضرورت یہ ہے کہ نص پر غور یا جائے اور اس کے تلاش کی کوشش کی جائے،اس کی سند اور دلالت کی تحقیق کی جائے،نص کے مخالفین اگر موجود ہیں تو ان کی پیروی نہ کی جائے اس لئے کہ اس معاملے میں بڑی عظیم ذمہ داری ہے اور غلطی کا امکان بہت زیادہ ہے،لہذا نص کی تلاش خلوص نیت کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے،اس سلسلے میں کٹھ حجتی تحکم اور فتنہ و فساد سے پرہیز کرتے ہوئے خدا سے توفیق و تسدید کی التجا کی جائے کیونکہ تمام

۳۰۸

امور اسی کے ہاتھ میں ہیں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے کہ:

خدا پر واجب ہے کہ وہ سیدھا راستہ دکھائے اور راستہ سے الگ ہٹ کر چلنے والا بھی انھیں میں سے ہے،اگر خدا چاہے تو تم سب کی ہدایت کردے))(۱)

اور دوسرےمقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کرتے ہیں اللہ ایک کام کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔(۲) خدا ہی سیدھے راستہ کا ہادی ہے،وہی ہمارے لئے کافی ہے اور بہترین وکیل ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ نحل آیت:۹

(۲)سورہ عنکبوت آیت:۶۹

۳۰۹

۳۱۰

سوال نمبر۵

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ جب سے اسلامی خلافت ہوئی ہے مسلمان انتشار و افتراق کا شکار ہیں اس لئے مسلمانوں کو چاہئے بلکہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اس پر فتن دور میں محض انتشار و افتراق سے بچنے کے لئے یا دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ رہنے کے لئے کسی ایک شخص کی خلافت یا امامت پر متحد ہوجائیں اور شیعہ و سنی متحد ہو کر اسے امام بنالیں،اس لئے کہ سنیوں کے پاس اس وقت کوئی خلیفہ نہیں ہے اور شیعوں کا بھی زمانہ غیبت میں یہی حال ہے کہ ان کے پاس کوئی مرکزی قیادت نہیں ہے،آپ کی اس سلسلہ میں کیا رائے ہے ۔ ؟

جواب:نے شک دور حاضر میں مسلمانوں کی حالت افسوسناک،بلکہ دردناک ہے،لیکن مسلمان اگر اپنے لئے کوئی خلیفہ امت کے انتظام اور اسلامی شریعت کے مطابق امور کے نفاذ کے لئے بنانا ضروری سمجھتے ہیں تو پھر دو باتوں پر سب سے پہلے غور کرنا پڑےگا ۔

اول:پہلے تو یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ کون شخص ہے جس کو یہ عظیم منصب پر فائز کیا جائے کہ شریعت کے معیار پر پورا اترسکے یا یہ کہ شریعت کا لحاظ نہ کر کے اس کو اختیار کیفی سے دیا جائے کہ جیسے چاہے کرلے،شریعت کے میزان پر اس کو تولنے کی ضرورت نہیں ہے،اس کی دو صورت ہے ۔

۳۱۱

اولاً:اگر شریعت کو معیار نہ بنا کے کسی کو بھی اس منصب کے لئے منتخب کیا جاتا ہے تو اس سے نہ واجب ادا ہوگا نہ انسان خدا کے سامنے جواب دہی سے بچ سکےگا،بلکہ جسکو ذمہ دار بنایا جائےگا وہ مسلمانوں کی طرف سے غیرشرعی طور پر مسلمانوں کے خون،مال،عزت اور مصالح کا ذمہ دار ہوجائےگا وہ مسلمان ان نتائج کے جھیلنے پر مجبور ہوں گے جو اس کے غیر شرعی اقدامات سے حاصل ہوں گے ۔

ثانیاً:جس کو بھی بغیر معیار شریعت کے خلیفہ بنایا جائے گا،ظاہر ہے کہ اس کو مسلمانوں کی عقیدت تو حاصل نہیں ہوگی نہ وہ شرعی طور پر مقدس سمجھا جائےگا،مسلمان اس کے حکم کو ماننا اپن مذہبی ذمہ داری نہیں سمجھے گا،جب کہ تنصیب خلافت کی بنیاد ہی یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان مذہبیت کا احساس پیدا کیا جاسکے ۔

اس کے علاوہ فقہی اختلافات بھی ایک بڑا مسئلہ ہے،مسلمانوں کے مختلف فرقے ہیں ہر ایک کی فقہ الگ الگ ہے،اگر منصوب خلافت کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ فقہ میں کوئی ایسا نظریہ دے سکے جس پر تمام اسلامی فرقہ متحد ہو کے عمل کریں اور اس عمل کے بعد خود کو بری الذمہ سمجھیں تو اس سے بہتر کیا ہوگا؟ورنہ پھر ہر ایک کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اپنے اجتھاد پر عمل کرے اور خود کو بری الذمہ محسوس کرے تا خدا کے سامنے مسئولیت سے محفوظ رہے ۔

ایسا ممکن ہے یا نہیں؟ایسا کرنے سے مقصد پورا ہوسکےگا یا نہیں؟یہ وہ سوالات ہیں جن کا وجاب کافی بحث و تمحیص کے بعد حاصل ہوگا،بلکہ ضروری یہ ہے کہ امت کے خاص لوگ س بحث کو موضوع بنا کہ بہت سنجیدگی کے ساتھ فقہی بحث کریں تا کہ امت مسلمہ ایک بہت بڑے خطرہ سے محفوظ رہ جائے اور اختلاف کو دور کر کے ایک پلیٹ فارم پر آجائے ۔

اس مشروع نظریہ کو عمل میں لانے کے لئے دور حاضر کے ماحول کا سازگار ہونا ضروری ہے

الثانی:آج مسلمان جس پُر محن دور سے گذر رہےہیں وہ آپ کے سامنے ہے،ساری دنیا مسلمانوں کو مٹانے پر تلی ہوئی ہے،طرح طرح کے مسائل نے اس امت کو گھیر رکھا ہے اور یہ دور مسلمانوں کے

۳۱۲

خلاف صف بندی کرچکا ہے ایسے خطرناک دور میں کسی بھی ایسے اقدام سے بچنا بےحد ضروری ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے اختلاف میں اضافہ ہو،اس لئے خلیفہ منتخب کرنے سے پہلے بہت غور و خوض کر لیجئے کہ آپ کا یہ قدم وقت کے پہلے تو نہیں اٹھ رہا ہے؟اور کہیں اس سے مسلمان مزید مسائل سے تو نہیں دوچار ہوجائےگا؟اگر ایسا ہے تو بہت پرہیز کریں اور بھرپور گریز کریں،جذبات میں آکے کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس کے نتیجہ میں امت مرحومہ کو مزید مصیبت میں گرفتار ہونا پڑے ۔

اس مشروع نظریہ کو نافذ نہ کرنے کی صورت میں دور حاضر میں مسلمانوں کی ذمہ داری

یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ آپ کے تجویز کردہ اصول کو عالم اسلام میں اجتماعی طور پر عمل میں نہیں لایا جاسکتا لیکن کم از کم مندرجہ ذیل باتوں کی طرف توجہ دی جاسکتی ہے اور ان پر عمل کر کے ہر صاحب ذوق اپنے واجب سے ادا ہوسکتا ہے اور اپنے فریضہ کو پورا کرسکتا ہے ۔

۱ ۔ آپ کے تجویز کردہ اصول کے نافذ نہیں ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلمان آپس میں اختلاف کے شکار ہیں اور ایک مرکز پر مرتکز نہیں ہیں،اختلاف یا تو مذہبی ہے یا سیاسی،اس سیاسی اختلاف کی وجہ بھی وہ حکومتیں ہیں جن پر اسلام کا لیل و نہار اور مسلمانوں کے ذھن و دماغ پر ہر دور میں اپنی چھاپ چھوڑتی رہی ہیں،اسلام دشمن عناصر کی حوصلہ افزائی اسی وجہ سے ہوئی اور اسلام دشمن عناصر کے حوصلہ بھی سی اختلاف کی وجہ سے بڑھے ہیں،اسی اختلافات کی بنیاد پردہ مسلمانوں کو کمزور کرتے ہیں،ان کے اندر انتشار پیدا کرتے ہے اور ان کی جماعت کو منتشر کرتے ہیں،اختلاف کی یہ زمین دشمنوں کے فتنوں کے بیج کو خواب اپج دیتی ہے اور دشمن مسلمانوں کے درمیان بغض و عداوت کی بہت اچھی فصل کاشت کرلیتا ہے کمزور،بیمار ذھن شبھوں کے گرفتار دماغ اور سادہ لوح عوام کو بہکا کے دشمن اسلام اور مسلمانوں کو خوب نقصان پہنچاتا ہے ۔

۳۱۳

مذہبی اختلاف کی خلیج کو کم کرنا بہت ضروری ہے

اگر مسلمان اپنی جگہ یہ طے کرلیں کہ ہم اس سیاسی اختلاف کو ہوا نہیں دیں گے اسے اپنی انا کا سوال نہیں بنائیں گے اور اس سیاسی اختلاف کی وجہ سے ہم آپس میں نہیں لڑیں گے تو بےشک مسلمانوں کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہوجائے گی کہ وہ اپنے مذہبی اختلاف کی خلیجوں کو اگر پاٹ نہیں سکیں گے تو دوریوں کو کم ضرور کرسکیں گے،اس موضوع پر آپ کے سابقہ سوالوں کے نویں سوال کے جواب میں کافی گفتگو ہوچکی ہے برائے کرم اسے پھر ایک بار دیکھ لیں ۔

اگر مذہبی اختلاف میں کمی ہوئی اور مسلمان کھلے دل سے ایک مرکز پر جمع ہوسکے تو ان کی عظیم کامیابی ہوگی اگر تمام مسلمان آپ کی پیش کردہ تجویز کے تحت ایک شخص پر متحد نہ بھی ہوسکے اور شریعت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کوئی حکومت قائم نہ بھی ہوسکی جب مسلمانوں کے لئے یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی ۔

بلکہ اگر تمام عالم اسلام ایک سطح پر نہ آئے اور یہ جذبہ اگر انفرادی طور پر پیدا ہو تو اس کی قدر کرنی چاہئے اور اسے معمولی نہیں سمجھنا چاہئے اگر ایک فرد کے اندر بھی یہ جذبہ پیدا ہوجائے کہ وہ مسلمانوں کے اختلافات کو مٹانے کی کوشش کر کے اور عالم اسلام کو ایک پائیدار اتحاد دینے کی خواہش رکھتا ہے تو ایسے شخص کی ہر غیور مسلمان کو قدر کرنی چاہئے کہ وہ ایسے آدمی کو اہمیت دے اور اس کی بھلائی کے بارے میں غور کرے اس لئے کہ وہ پوری امت کی بھلائی کے بارے میں سوچ رہا ہے کیونکہ جس کا حصول مشکل ہے اس کی وجہ سے مشکل الحصول کو ساقط نہیں کیا جاسکتا اور آدمی اپنے ہاتھ میں آئی ہوئی چڑیا کو درخت پر بیٹھی ہوئی چڑیا کی امید میں نہیں چھوڑسکتا یہ غقلمندی نہیں ہے ۔

۳۱۴

یہ معلوم کرنا بہت ضروری ہے کہ مسلمانوں کے اختلاف اور سیاسی انحطاط کا سبب کیا ہے؟

تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں کا یہ سیاسی انحطاط اور یہ قابل افسوس حالت اس وجہ سے نہیں ہے کہ ماضی قریب میں ترکی حکومت یعنی اموی خلافت کا سقوط ہوگیا بلکہ قرن اولیٰ سے ہی مسلمان اس بیماری کا شکار ہیں،البتہ وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی پستی اور انحطاط میں اضافہ ہی ہوا ہے اور آج مسلمان تنزل کی اس منزل میں پہنچ گیا ہے جسے دیکھ کے دوسرے بھی افسوس کررہے ہیں،یہ منزل،یہ انحطاط،یہ بدحالی صرف اس وجہ سے آئی کہ مسلمان اسلام کے ان اصول سے منحرف ہوگئے جن پر اللہ انھیں چلانا چاہتا تھا،در اصل مسمانوں نے مفہوم خلافت کو سمجھا ہی نہیں خلافت کا نظام اپنے ہاتھ میں لیکے ہر ایرے غیرے کو خلیفہ تسلیم کرتے رہے اور زمانے کے انقلاب نے اس مقدس دین خلافت کو عثمانیوں کے ہاتھ میں پہنچادیا اور پھر ذلت کی انتہا یہ ہوئی کہ خلافت ان کے ہاتھوں سے نکل گئی اور مسلمانوں کی حالت مزید افسوسناک ہوگئی،وجہ صرف یہ تھی کہ مسلمانوں نے حکم اسلام کو ماننے سے انکار کیا اور خلافت کو لغو قرار دیا پھر اسلامی ملکوں کی تو تقیسم ہونے لگی وہ ممالک جو عثمانی خلافت کے ماتحت تھے مختلف ملکوں میں تقسیم ہوئے،ان پر مختلف افراد کی حکومت قائم ہوئی اور باقی ملکوں میں علامتی،رسمی یا عملی حکومتیں قائم ہوئیں،نتیجہ میں اسلام سیاسی،ثقافتی اور فی اعتبار سے تنزل پزیر ہوگیا ۔

یہ سب کچھ تو ہوا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک غیور اور خوددار مسلمان کی ذمہ داری کیا ہے؟اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے نفس سے سوال کرے یہ دین خدا کا دین ہے یا نہیں؟کیا یہ وہی دین نہیں ہے جس کے بارے میں اللہ کا فیصلہ ہے کہ یہ دین خاتم الادیان ہے؟کیا اللہ نے یہ بتایا نہیں ہے یہ دین اس وقت تک باقی رہے گا جب تک زمین اور زمین پر رہنے والے باقی رہیں گے؟کیا اللہ نے یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ یہ دین زمین پر حکومت کرے گا اور اسی کے مطابق عمل کرنے سے انسان اس دنیا کے خیرات و ثمرات سے بہرہ اندوز ہوسکے گا؟اور وہ اللہ جو عالم الغیب ہے کیا اسے نہیں معلوم

۳۱۵

تھا کہ اسلام کہاں پہنچے گا؟مسلمان پستی اور تنزلی کی کون سی کھائیوں کی سیر کریں گے اور ان کی یہ حالت ہوجائے گی؟ان تمام سوالوں کا جواب یہ ہے کہ خدا سب کچھ جانتا تھا کہ مسلمان کی کیا حالت ہونےوالی ہے اور تنزلی اور پستیوں کی کن وادیوں کی سیر کریں گے اللہ یہ جانتا تھا تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے اپنے دین کو ان مشکلات کے حل کرنے کا طریقہ کیوں نہیں بتایا؟یہ دین مکمل ہے،یہ دین اپنے اندر تمام نعمتوں کو رکھتا ہے،یہ دین قیامت تک کے انسانوں کے لئے کافی ہے،یہ دین تمام عالم انسانیت کے لئے واجب العمل ہے،نہ اس کے پاس کوئی نظام حکومت نہیں ہے ایسا نظام حکومت جو تمام انسانوں کے لئے قابل تسلیم اور قابل عمل ہو،اپنے نفس سے پوچھو کیا ایسا ممکن ہے؟کیا یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ خدا نے اپنے اس مضبوط قانون میں مسلمانوں کی اس پستی کا کوئی حل رکھا ہو؟کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ نے عزت اسلام کی حفاظت کے لئے اسلامی حکومت کو دنیا میں باقی رکھنے کے لئے اسلام کے علم کو سربلند رکھنے کے لئے،اسلامی نعمتوں سے عالم اسلام کو بہر اندوز ہونے کے لئے اور اسلام کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لئے اپنے دین میں کوئی راستہ معین نہیں کیا اور نہ کوئی طریقہ بتایا،کیا ایک انصاف پسند اور عزت دار صاحب ایمان اس بات کو پسند کرے گا کہ(خدا اپنے دین سے اتنا لاپرواہ ہوجائے اور اپنے دین کی باگ ڈ ور چوروں،رہزنوں،قذاقوں اور غیرذمہ دار کے ہاتھ میں دیکے)عالم انسانیت کو دائرہ اسلام میں آنے کے بعد قیامت تک ذلیل و خوار ہونے کے چھوڑ دے ۔

پھر ایک بہت اہم سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ مسلمانوں کی یہ پستی،یہ ذلت،یہ خواری صرف اس انحراف کا نتیجہ ہے جو نبی ؐ کے بعد روز اول مسلمانوں سے سرزد ہوا تھا اور مسلمان اسلامی خطوط پر چلنے کے بجائے اپنے ہاتھوں سے خلیفہ بنانے بیٹھ گئے اور بنا بھی لیا،مسلمانوں کی یہ پستی،یہ ذلت اور یہ بدحالی بہت بڑی دلیل ہے اس بات کی کہ مسلمان روز اول ہی صراط مستقیم سے بھٹک گئے تھے اور جب صراط مستقیم سے بھٹک گئے تو اس کے نتیجہ میں ذلت و خواری کے شکار ہوگئے،یہ نتیجہ ہے فیصلہ اپنے ہاتھ میں لینے کا ۔

۳۱۶

یہ سب کچھ ہونے کے بعد بھی کیا مسلمانوں کے لئے آج یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کریں،روز اول جو انحراف ان سے سرزد ہوا تھا اس راستے کو چھوڑ دیں اور اس دینی حقیقت کو تلاش کریں جس کی وجہ سے اللہ نے اپنے دین کو کامل اور نعمتوںو تمام کر کے مسلمانوں کو عظمت بخشی تھی ۔

ہر مسلمان پر واجب ہے کہ ان مسائل کا جواب تلاش کرے جذبات سے آزاد ہو کے،عصبیت سے پاک ہو کے اور سابقہ منازعات یا مسلّمات سے نظر پھیر کے ان سوالوں کا جواب تلاش کرے،دنیا نے مسلمانوں کو بہت ذلیل کیا ۔ اب اس کو اپنے پرانے نظریات چھوڑ کے لکیر کا فقیر ہونا چھوڑ کے ان سوالوں کا جواب تلاش کرنا چاہئے ۔

ارشاد ہوتا ہے کہ:اے حبیب آپ ان سے کہہ دیں کہ خدا کی حجت تو منزل کمال تک پہنچانے والی ہے اگر خدا چاہے تو تم سب کی ہدایت کردے:(۱)

اے حبیب!آپ انھیں یاد دلاتے رہیں،بیشک آپ تو صرف یا دلانے والے ہیں اور آپ ان کے نگران(ٹھیکیدار)تو ہیں نہیں ۔(۲)

ہم تو صرف اللہ سے ہی توفیق مانگتے ہیں اور اسی سے امید لگاتے ہیں وہ ہمارے لئے کافی ہے اور وہی بہترین وکیل ہے چوتھے سوال کے جواب میں بھی کچھ باتیں عرض کی جاچکی ہیں جو یہاں بھی فائدہ بخش ثابت ہوں گی،ان کی طرف رجوع کرلیں تو بہتر ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ انعام آیت: ۱۴۹

( ۲) سورہ غاشیہ آیت: ۲۱ ۔ ۲۲

۳۱۷
۳۱۸

سوال نمبر۔۶

روایتوں میں ہے کہ سرکار دو عالم ؐ نے شدت مرض کی حالت میں ابوبکر کو نماز کی امامت کا حکم دیا تھا کیا اس بات کی طرف اشارہ نہیں ہے کہ سرکار دو عالم ؐ اپنے بعد ابوبکر کی خلافت پسند کرتے تھے،آپ کا اس سلسلے میں کیا خیال ہے؟

جواب:اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل امور کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں ۔

امر اول:پہلی بات تو یہ ہے کہ جس روایت میں مدعی تنہا ہو اور فریق مخالف کے پاس بھی جو روایت نہیں پائی جاتی ہو اس روایت کو حجت بنا کے بحث کرنا احتجاج عقیم ہے جس سے نہ حق ثابت ہوتا نہ باطل کو دفع کیا جاسکتا ہے،صاحبان عقل کے نزدیک ایسا احتجاج منطقی نہیں ہے،اسی وجہ سے فریق مخالف کے خلاف نہ وہ حجت بن سکتا ہے،نہ فریق مخالفت اسے ماننا لازم سمجھتا ہے ۔

اگر شیعہ بھی اسی طرح صرف اپنے روایت کردہ واقعات سے احتجاج کرنا شروع کردیں تو پھر آفت آجائےگی،اس لئے کہ ان کے پاس ان کے موقف کی حمایت میں آپ سے زیادہ روایتیں پائی جاتی ہیں اگر چہ حد تواتر تک ںہیں پہونچی ہیں لیکن مقام آحاد میں ان کے پاس بہت سی روایتیں ہیں،اگر وہ ان روایتوں سے احتجاج کرنے لگے تو ان کے پاس ایسی روایتوں کی کمی نہیں ہے ۔

اس طرح کا احتجاج ممکن ہے کہ اہل سنت کی نظر میں صحیح ہو لیکن اللہ کی نظر میں صحیح نہیں ہے اس سوال کے جواب کے آخر میں مزید وضاحت ہوجائے گی انشااللہ تعالیٰ ۔

۳۱۹

ایک بات کا یقین رکھئے کہ جہاں ایسا نزاع و اختلاف ہوتا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں پھوٹ پڑنے کا امکان ہو،تو وہاں اللہ حق کو اس طرح واضح کرتا ہے کہ شک و شبہ کا لباس اتر جاتا ہے اور حق اس طرح روشن ہوتا ہے کہ اس کو نہیں ماننے کا کوئی بہانہ ہاتھ نہیں آتا،مکابرہ،ہٹ دھرمی اور کٹ حجتی کی بات دوسری ہے،جس کا اتکاب یا تو حد سے آگے بڑھنے والا کرتا ہے یا غفلت میں پیچھے رہ جانےوالا۔گذشتہ بیان کا لازمی نتیجہ ی نکلا کہ جب دو فریق حق کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں تو ان میں سے کوئی ایک ضرور غلط ہوتا ہے اور اس کے ناحق ہونے کا احتمال بہرحال پایا جاتا ہے اب حق سے یہ انحراف یا دشمنی کی وجہ سے ہے یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے،اس لئے ان دونوں میں سے کوئی ایک ہٹ دھرمی یا عناد کی وجہ سے جھٹ ضرور بول رہا ہے،اب ایسا آدمی اگر اپنے نظریہ کی تائید میں کوئی روایت کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ دوسرے فریق کے لئے قابل اعتبار ہوگا،چاہے اس کے مذہب کے ماننے والے اس کے بارے میں کتنا ہی حُسن ظن رکھتے ہوں اور اسے کتنا ہی قابل اعتبار سمجھتے ہوں۔

البتہ جب حق روشن دلیلوں اور قطعی حجتوں کے ذریعہ ثابت ہوکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے اور حق،باطل سے الگ ہوجاتا ہے اس طرح کہ اس کے اندر کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے تو صاحبان حق بھی باطل پرستوں سے ممیّز ہوجاتے ہیں،صاحبان بصیرت اندھوں سے الگ ہوجاتے ہیں تو پھر نگاہ اعتبار کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے اور حسن ظن اس سے متعلق ہوجاتا ہے جسے اللہ نے حق کو ثابت کرنے کے لئے توفیق عنایت فرمائی ہے جس کی وجہ سے وہ راہ حق کا مالک ہوا اور اسے مزید روشن کیا،حق سے تمسک کیا اور اسے لازم سمجھا،ظاہر ہے کہ وہ آدمی اس کے مقابلہ میں تو صاحب عزت سمجھا جائے گا ہی جس نے حق کا انکار کیا اور خدا نے اسے ذلیل کر کے اس کے دل کو باطل کے سانچے میں ڈ ھال دیا جس کی وجہ سے وہ حق سے بے بہرہ رہا اور الگ ہوگیا،اب وہ اپنے پیچھے چلنے والے افراد کی نظر میں چاہے کتنا ہی بلند مرتبہ ہو اہل حق کی نظر میں تو ذلیل ہی رہے گا،یہاں امیرالمومنین علیہ السلام کا قول قابل غور ہے،کہ آپ نے فرمایا:((حق کو پہچانو!اہل حق کو پہچان لوگے))(۱) سابقہ سوالوں میں چوتھے سوال کے جواب میں امیرالمومنین علیہ السلام کا یہ قول عرض کیا جاچکا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) تفسیر قرطبی ج: ۱ ص: ۳۴۰ ،فیض القدیر ج: ۱ ص: ۲۱۰ ،ج: ۴ ص: ۱۷ ،البیان و التبیین ج: ۱ ص: ۴۹۱ ،تاریخ یعقوبی ج: ۲ ص: ۲۱۰ ،خلافت امیرالمومنینؑ کے بیان میں،انساب الاشراف ج: ۳ ص: ۳۵ ،جمل کے واقعہ کے بیان میں۔

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367