فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ15%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206456 / ڈاؤنلوڈ: 5999
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

(۴۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

عند المسير إلى الشام قيل إنه خطب بها وهو بالنخيلة خارجا من الكوفة إلى صفين

الْحَمْدُ لِلَّه كُلَّمَا وَقَبَ لَيْلٌ وغَسَقَ والْحَمْدُ لِلَّه كُلَّمَا لَاحَ نَجْمٌ وخَفَقَ والْحَمْدُ لِلَّه غَيْرَ مَفْقُودِ الإِنْعَامِ ولَا مُكَافَإِ الإِفْضَالِ.

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَعَثْتُ مُقَدِّمَتِي وأَمَرْتُهُمْ بِلُزُومِ هَذَا الْمِلْطَاطِ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرِي - وقَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَقْطَعَ هَذِه النُّطْفَةَ إِلَى شِرْذِمَةٍ مِنْكُمْ - مُوَطِّنِينَ أَكْنَافَ دِجْلَةَ - فَأُنْهِضَهُمْ مَعَكُمْ إِلَى عَدُوِّكُمْ - وأَجْعَلَهُمْ مِنْ أَمْدَادِ الْقُوَّةِ لَكُمْ.

قال السيد الشريف أقول يعنيعليه‌السلام بالملطاط هاهنا السمت الذي أمرهم بلزومه وهو شاطئ الفرات ويقال ذلك أيضا لشاطئ البحر وأصله ما استوى من الأرض ويعني بالنطفة ماء الفرات وهو من غريب العبارات وعجيبها.

(۴۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جو صفین کے لئے کوفہ سے نکلتے ہوئے مقام نخیلہ پر ارشاد فرمایا تھا)

پروردگار کی حمد ہے جب بھی رات آئے اورتاریکی چھائے یا ستارہ چمکے اورڈوب جائے۔پروردگار کی حمدوثنا ہے کہ اس کی نعمتیں ختم نہیں ہوتی ہیں اور اس کے احسانات کا بدلہ نہیں دیا جا سکتا ہے۔

امابعد! میں نے اپنے لشکر کا ہر اول دستہ روانہ کردیا ہے اور انہیں حکم دے دیا ہے کہ اس نہر کے کنارے ٹھہر کر میرے حکم کا انتظار کریں۔میں چاہتا ہوں کہ اس دریائے دجلہ کو عبور کرکے تمہاری(۱) ایک مختصرجماعت تک پہنچ جائوں جو اطراف دجلہ میں مقیم ہیں تاکہ انہیں تمہارے ساتھ جہاد کے لئے آمادہ کر سکوں اور ان کے ذریعہ تمہاری قوت میں اضافہ کر سکوں۔

سید رضی : ملطاط سے مراد دریا کا کنار ہ ہے اور اصل میں یہ لفظ ہموار زمین کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ نطفہ سے مراد فرات کا پانی ہے اور یہ عجیب و غریب تعبیرات میں ہے۔

(۱)اس جماعت سے مراد اہل مدائن ہیں جنہیں حضرت اس جہاد میں شامل کرنا چاہتے تھے اور ان کے ذریعہ لشکر کی قوت میں اضافہ کرنا چاہتے تھے۔خطبہ کے آغاز میں رات اور ستاروں کاذکر اسامر کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ لشکراسلام کو رات کی تاریکی اورستارہ کے غروب و زوال سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔نور مطلق اور ضیاء مکمل ساتھ ہے تو تاریکی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے اور ستاروں کا کیا بھروسہ ہے۔ستارے تو ڈوب بھی جاتے ہیں لیکن جو پروردگار قابل حمدو ثناء ہے اس کے لئے زوال و غروب نہیں ہے اور وہ ہمیشہ بندۂ مومن کے ساتھ رہتا ہے۔!

۸۱

(۴۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه جملة من صفات الربوبية والعلم الإلهي

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي بَطَنَ خَفِيَّاتِ الأَمُوُرِ - ودَلَّتْ عَلَيْه أَعْلَامُ الظُّهُورِ - وامْتَنَعَ عَلَى عَيْنِ الْبَصِيرِ - فَلَا عَيْنُ مَنْ لَمْ يَرَه تُنْكِرُه - ولَا قَلْبُ مَنْ أَثْبَتَه يُبْصِرُه - سَبَقَ فِي الْعُلُوِّ فَلَا شَيْءَ أَعْلَى مِنْه - وقَرُبَ فِي الدُّنُوِّ فَلَا شَيْءَ أَقْرَبُ مِنْه - فَلَا اسْتِعْلَاؤُه بَاعَدَه عَنْ شَيْءٍ مِنْ خَلْقِه - ولَا قُرْبُه سَاوَاهُمْ فِي الْمَكَانِ بِه - لَمْ يُطْلِعِ الْعُقُولَ عَلَى تَحْدِيدِ صِفَتِه - ولَمْ يَحْجُبْهَا عَنْ وَاجِبِ مَعْرِفَتِه - فَهُوَ الَّذِي تَشْهَدُ لَه أَعْلَامُ الْوُجُودِ - عَلَى إِقْرَارِ قَلْبِ ذِي الْجُحُودِ - تَعَالَى اللَّه عَمَّا يَقُولُه الْمُشَبِّهُونَ بِه - والْجَاحِدُونَ لَه عُلُوّاً كَبِيراً!

(۴۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں پروردگار کے مختلف صفات اور اس کے علم کا تذکرہ کیا گیا ہے)

ساری تعریف اس خداکے لئے ہے جو مخفی امور کی گہرائیوں سے با خبر ہے اوراس کے وجود کی رہنمائی ظہور کی تمام نشانیاں کر رہی ہیں۔وہ دیکھنے والوں کی نگاہ میں آنے والا نہیں ہے لیکن نہ کسی نہ دیکھنے والے کی آنکھ اس کا انکار کر سکتی ہے۔اورنہ کسی اثبات کرنے والے کا دل اس کی حقیقت کو دیکھ سکتا ہے۔وہ بلندیوں میں اتنا آگے ہے کہ کوئی شے اس سے بلند تر نہیں ہے اور قربت میں اتنا قریب ہے کہ کوئی شے اس سے قریب تر نہیں ہے۔نہ اس کی بلندی اسے مخلوقات سے دور بنا سکتی ہے اور نہ اس کی قربت برابر کی جگہ پر لا سکتی ہے۔اس نے عقلوں کو اپنی صفتوں کی حدوں سے باخبر نہیں کیاہے اوربقدر واجب معرفت سے محروم بھی نہیں رکھا ہے۔وہ ایسی ہستی ہے کہ اس کے انکار کرن والے کے دل پر اس کے وجود کی نشانیاں شہادت دے رہی ہیں۔وہ مخلوقات سے تشبیہ دینے والے اور انکار کرنے والے دونوں کی باتوں سے بلند وبالاتر ہے۔

۸۲

(۵۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه بيان لما يخرب العالم به من الفتن وبيان هذه الفتن

إِنَّمَا بَدْءُ وُقُوعِ الْفِتَنِ أَهْوَاءٌ تُتَّبَعُ وأَحْكَامٌ تُبْتَدَعُ - يُخَالَفُ فِيهَا كِتَابُ اللَّه - ويَتَوَلَّى عَلَيْهَا رِجَالٌ رِجَالًا عَلَى غَيْرِ دِينِ اللَّه - فَلَوْ أَنَّ الْبَاطِلَ خَلَصَ مِنْ مِزَاجِ الْحَقِّ - لَمْ يَخْفَ عَلَى الْمُرْتَادِينَ ولَوْ أَنَّ الْحَقَّ خَلَصَ مِنْ لَبْسِ الْبَاطِلِ - انْقَطَعَتْ عَنْه أَلْسُنُ الْمُعَانِدِينَ - ولَكِنْ يُؤْخَذُ مِنْ هَذَا ضِغْثٌ ومِنْ هَذَا ضِغْثٌ فَيُمْزَجَانِ - فَهُنَالِكَ يَسْتَوْلِي الشَّيْطَانُ عَلَى أَوْلِيَائِه - ويَنْجُو( الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ ) مِنَ اللَّه( الْحُسْنى ).

(۵۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(اس میں ان فتنوں کا تذکرہ ہے جو لوگوں کو تباہ کر دیتے ہیں اور ان کے اثرات کا بھی تذکرہ ہے)

فتنوں) ۱) کی ابتدا ان خواہشات سے ہوتی ہے جن کا اتباع کیا جاتا ہے اور ان جدید ترین احکام سے ہوتی ہے جوگڑھ لئے جاتے ہیں اور سراسر کتاب خدا کے خلاف ہوتے ہیں۔اس میں کچھ لوگ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہو جاتے ہیں اور دین خدا سے الگ ہو جاتے ہیں کہ اگر باطل حق کی آمیزش سے الگ رہتا تو حق کے طلب گاروں پرمخفی نہ ہو سکتا اور اگر حق باطل کی ملاوٹ سے الگ رہتا تو دشمنوں کی زبانیں نہ کھل سکتیں۔لیکن ایک حصہ اس میں سے لیا جاتا ہے اور ایک اس میں سے ' اور پھر دونوں کو ملا دیا جاتا ہے اورایسے ہی مواقع پر شیطان اپنے ساتھیوں پر مسلط ہو جاتا ہے اورصرف وہ لوگ نجات حاصل کر پاتے ہی جن کے لئے پروردگار کی طرف سے نیکی پہلے ہی پہنچ جاتی ہے۔

(۱)اس ارشاد گرامی کا آغاز لفظ انما سے ہوا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ دنیا کا ہرفتنہ خواہشات کی پیروی اور بدعتوں کی ایجاد سے شروع ہوتا ہے اور یہی تاریخی حقیقت ہے کہ اگر امت اسلامیہ نے روز اول کتاب خدا کے خلاف میراث کے احکام وضع نہ کئے ہوتے اور اگرمنصب و اقتدار کی خواہش میں ''من کنت مولاہ '' کا انکار نہ کیا ہوتااور کچھ لوگ کچھ لوگوں کے ہمدرد نہ ہوگئے ہوتے اور نص پیغمبر (ص) کے ساتھ سن و سال اورصحابیت و قرابت کے جھگڑے نہ شامل کردئیے ہوتے تو آج اسلام بالکل خالص اورصریح ہوتا اور امت میں کسی طرح کا فتنہ وفساد نہ ہوتا۔لیکن افسوس کہ یہ سب کچھ ہوگیا اور امت ایک دائمی فتنہ میں مبتلا ہوگئی جس کا سلسلہ چودہ صدیوں سے جاری ہے اور خدا جانے کب تک جاری رہے گا۔

۸۳

(۵۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

لما غلب أصحاب معاوية أصحابهعليه‌السلام على شريعة الفرات بصفين ومنعوهم الماء

قَدِ اسْتَطْعَمُوكُمُ الْقِتَالَ فَأَقِرُّوا عَلَى مَذَلَّةٍ وتَأْخِيرِ مَحَلَّةٍ - أَوْ رَوُّوا السُّيُوفَ مِنَ الدِّمَاءِ تَرْوَوْا مِنَ الْمَاءِ فَالْمَوْتُ فِي حَيَاتِكُمْ مَقْهُورِينَ،والْحَيَاةُ فِي مَوْتِكُمْ قَاهِرِينَ - أَلَا وإِنَّ مُعَاوِيَةَ قَادَ لُمَةً مِنَ الْغُوَاةِ - وعَمَّسَ عَلَيْهِمُ الْخَبَرَ - حَتَّى جَعَلُوا نُحُورَهُمْ أَغْرَاضَ الْمَنِيَّةِ.

(۵۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي في التزهيد في الدنيا وثواب الله للزاهد ونعم الله على الخالق

التزهيد في الدنيا

أَلَا وإِنَّ الدُّنْيَا قَدْ تَصَرَّمَتْ وآذَنَتْ بِانْقِضَاءٍ - وتَنَكَّرَ مَعْرُوفُهَا وأَدْبَرَتْ حَذَّاءَ فَهِيَ تَحْفِزُ بِالْفَنَاءِ سُكَّانَهَا - وتَحْدُو بِالْمَوْتِ جِيرَانَهَا

(۵۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جب معاویہ کے ساتھیوں نے آپ کے ساتھیوں کو ہٹا کر صفین کے قریب فرات پرغلبہ حاصل کرلیا اور پانی بند کردیا)

دیکھو دشمنوں نے تم سے غذائے جنگ کا مطالبہ کردیا ہے اب یا تو تم ذلت اوراپنے مقام کی پستی پر قائم رہ جائو'یااپنی تلواروں کو خون سے سیراب کر دو اورخود پانی سے سیراب ہو جائو۔در حقیقت موت ذلت کی زندگی میں ہے اور زندگی عزت کی موت میں ہے۔آگاہ ہو جائو کہ معاویہ گمراہوں کی ایک جماعت کی قیادت کر رہا ہے جس پر تمام حقائق پوشیدہ ہیں اور انہوں نے جہالت کی بناپ ر اپنی گردنوں کو تیر اجل کا نشانہ بنادیا ہے۔

(۵۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں دنیا میں زہد کی ترغیب اور پیش پروردگاراس کے ثواب اور مخلوقات پر خالق کی نعمتوں کاتذکرہ کیا گیا ہے )

آگاہ ہو جائو دنیا جا رہی ہے اور اس نے اپنی رخصت کا اعلان کردیا ہے اور اس کی جانی پہچانی چیزیں بھی اجنبی ہوگئی ہیں۔وہ تیزی سے منہ پھیر رہی ہے اور اپنے باشندوں کو فنا کی طرف سے جا رہی ہے اور اپنے ہمسایوں کو موت کی طرف ڈھکیل رہی ہے۔

۸۴

وقَدْ أَمَرَّ فِيهَا مَا كَانَ حُلْواً وكَدِرَ مِنْهَا مَا كَانَ صَفْواً - فَلَمْ يَبْقَ مِنْهَا إِلَّا سَمَلَةٌ كَسَمَلَةِ الإِدَاوَةِ أَوْ جُرْعَةٌ كَجُرْعَةِ الْمَقْلَةِ لَوْ تَمَزَّزَهَا الصَّدْيَانُ لَمْ يَنْقَعْ فَأَزْمِعُوا عِبَادَ اللَّه - الرَّحِيلَ عَنْ هَذِه الدَّارِ الْمَقْدُورِ عَلَى أَهْلِهَا الزَّوَالُ - ولَا يَغْلِبَنَّكُمْ فِيهَا الأَمَلُ - ولَا يَطُولَنَّ عَلَيْكُمْ فِيهَا الأَمَدُ.

ثواب الزهاد

فَوَاللَّه لَوْ حَنَنْتُمْ حَنِينَ الْوُلَّه الْعِجَالِودَعَوْتُمْ بِهَدِيلِ الْحَمَامِ وجَأَرْتُمْ جُؤَارَ مُتَبَتِّلِي الرُّهْبَانِ - وخَرَجْتُمْ إِلَى اللَّه مِنَ الأَمْوَالِ والأَوْلَادِ - الْتِمَاسَ الْقُرْبَةِ إِلَيْه فِي ارْتِفَاعِ دَرَجَةٍ عِنْدَه - أَوْ غُفْرَانِ سَيِّئَةٍ أَحْصَتْهَا كُتُبُه - وحَفِظَتْهَا رُسُلُه لَكَانَ قَلِيلًا فِيمَا أَرْجُو لَكُمْ مِنْ ثَوَابِه - وأَخَافُ عَلَيْكُمْ مِنْ عِقَابِه.

اس کی شیرینی تلخ ہو چکی ہے اور اس کی صفائی مکدر ہو چکی ہے۔اب اس میں صرف اتنا ہی پانی باقی رہ گیا ہے جو تہہ میں بچا ہوا ہے اور وہ نپا تلا گھونٹ رہ گیا ہے جسے پیا سا پی بھی لے تو اس کی پیاس نہیں بجھ سکتی ہے۔لہٰذا بندگان خدا اب اس دنیا سے کوچ کرنے کا ارادہ کرلو جس کے رہنے والوں کا مقدر زوال ہے اور خبر دار! تم پر خواہشات غالب نہ آنے پائیں اور اس مختصر مدت کو طویل نہ سمجھ لینا۔

خدا کی قسم اگر تم ان اونٹنیوں کی طرح بھی فریاد کرو جن کا بچہ گم ہوگیا ہو اور ان کبوتروں کی طرح نالہ و فغاں کرو جو اپنے جھنڈ سے الگ ہوگئے ہوں اور ان راہبوں کی طرح بھی گریہ و فریاد کرو جو اپنے گھر بار کو چھوڑ چکے ہیں اور مال و اولاد کو چھوڑ کر قربت خدا کی تلاش میں نکل پڑو تاکہ اس کی بارگاہ میں درجات بلند ہو جائیں یا وہ گناہ معاف ہو جائیں جو اس کے دفتر میں ثبت ہوگئے ہیں اور فرشتوں نے انہیں محفوظ کرلیا ہے تو بھی یہ سب اس ثواب سے کم ہوگا(۱) جس کی میں تمہارے بارے میں امید رکھتا ہوں یا جس عذاب کا تمہارے بارے میں خوف رکھتا ہوں۔

(۱)کھلی ہوئی بات ہے کہ '' فکر ہر کس بقدر ہمت اوست'' دنیا کا انسان کتنا ہی بلند نظر اور عالی ہمت کیوں نہ ہو جائے مولائے کائنات کی بلندی فکر کو نہیں پا سکتا ہے اور اس درجہ علم پرفائز نہیں ہو سکتا ہے جس پر مالک کائنات نے باب مدینتہ العلم کوفائز کیا ہے۔آپ فرمانا چاہتے ہیں کہ تم لوگ میری اطاعت کرو اور میرے احکام پر عمل کرو۔اس کا اجروثواب تمہارے افکار کی رسائی کی حدوں سے بالاتر ہے۔میں تمہارے لئے بہترین ثواب کی امید رکھتا ہوں اور تمہیں بد ترین عذاب سے بچانا چاہتا ہوں لیکن اس راہ میں میرے احکام کی اطاعت کرنا ہوگی اور میرے راستہ پر چلنا ہوگا جو در حقیقت شہادت اورقربانی کا راستہ ہے اور انسان اسی راستہ پر قدم آگے بڑھانے سے گھبراتا ہے اورحیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک دنیا دار انسان جس کی ساری فکر مال دنیا اورثروت دنیا ہے وہ بھی کسی ہلاکت کے خطرہ میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اپنے کو ہلاکت سے بچانے کے لئے سارا مال و متاع قربان کردیتا ہے تو پھرآخر دیندار انسان میں یہ جذبہ کیوں نہیں پایا جاتا ہے؟ وہ جنت النعیم کو حاصل کرنے اور عذاب جہنم سے بچنے کے لئے اپنی دنیا کو قربان کیوں نہیں کرتا ہے؟ اس کا تو عقیدہ یہی ہے کہ دنیا چند روزہ اور فانی ہے اور آخرت ابدی اور دائمی ہے تو پھر فانی کوباقی کی راہ میں کیوں قربان نہیں کردیتا ؟''اف هذا الشی عجاب''

۸۵

نعم الله

وتَاللَّه لَوِ انْمَاثَتْ قُلُوبُكُمُ انْمِيَاثاً وسَالَتْ عُيُونُكُمْ مِنْ رَغْبَةٍ إِلَيْه أَوْ رَهْبَةٍ مِنْه دَماً - ثُمَّ عُمِّرْتُمْ فِي الدُّنْيَا مَا الدُّنْيَا بَاقِيَةٌ مَا جَزَتْ أَعْمَالُكُمْ عَنْكُمْ - ولَوْ لَمْ تُبْقُوا شَيْئاً مِنْ جُهْدِكُمْ - أَنْعُمَه عَلَيْكُمُ الْعِظَامَ وهُدَاه إِيَّاكُمْ لِلإِيمَانِ.

(۵۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذكرى يوم النحر وصفة الأضحية

ومِنْ تَمَامِ الأُضْحِيَّةِ اسْتِشْرَافُ أُذُنِهَا وسَلَامَةُ عَيْنِهَا - فَإِذَا سَلِمَتِ الأُذُنُ والْعَيْنُ سَلِمَتِ الأُضْحِيَّةُ وتَمَّتْ - ولَوْ كَانَتْ عَضْبَاءَ الْقَرْنِ تَجُرُّ رِجْلَهَا إِلَى الْمَنْسَكِ

قال السيد الشريف والمنسك هاهنا المذبح.

(۵۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها يصف أصحابه بصفين حين طال منعهم له من قتال أهل الشام

خدا کی قسم اگر تمہارے دل بالکل پگھل جائیں اور تمہاری آنکھوں سے آنسوئوں کے بجائے رغبت ثواب یا خوف عذاب میں خون جاری ہوجائے اور تمہیں دنیا میں آخر تک باقی رہنے کا موقع دے دیا جائے تو بھی تمہارے اعمال اس کی عظیم ترین نعمتوں اور ہدایت ایمان کا بدلہ نہیں ہو سکتے ہیں چاہے ان کی راہ میں تم کوئی کسر اٹھا کر نہ رکھو۔

(۵۳)

(جس میں روز عید الضحیٰ کا تذکرہ ہے اورقربانی کے صفات کاذکر کیا گیا ہے)

قربانی کے جانور کا کمال یہ ہے کہ اس کے کان بلند ہوں اور آنکھیں سلامت ہوں کہ اگر کان اور آنکھ سلامت ہیں توگویا قربانی سالم اورمکمل ہے چاہے اس کی سینگ ٹوٹی ہوئی ہو اور وہ پیروں کو گھسیٹ کر اپنے کوقربان گاہ تک لے جائے۔

سید رضی : اس مقام پر منسلک سے مراد مذبح اورقربان گاہ ہے۔

(۵۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں آپ نے اپنی بیعت کا تذکرہ کیا ہے)

۸۶

فَتَدَاكُّوا عَلَيَّ تَدَاكَّ الإِبِلِ الْهِيمِ يَوْمَ وِرْدِهَا وقَدْ أَرْسَلَهَا

رَاعِيهَا وخُلِعَتْ مَثَانِيهَا حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُمْ قَاتِلِيَّ أَوْ بَعْضُهُمْ قَاتِلُ بَعْضٍ لَدَيَّ - وقَدْ قَلَّبْتُ هَذَا الأَمْرَ بَطْنَه وظَهْرَه حَتَّى مَنَعَنِي النَّوْمَ - فَمَا وَجَدْتُنِي يَسَعُنِي إِلَّا قِتَالُهُمْ - أَوِ الْجُحُودُ بِمَا جَاءَ بِه مُحَمَّدٌصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَكَانَتْ مُعَالَجَةُ الْقِتَالِ أَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ مُعَالَجَةِ الْعِقَابِ - ومَوْتَاتُ الدُّنْيَا أَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ مَوْتَاتِ الآخِرَةِ.

(۵۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد استبطأ أصحابه إذنه لهم في القتال بصفين

لوگ مجھ) ۱ ( پر یوں ٹوٹ پڑے جیسے وہ پیاسے اونٹ پانی پر ٹوٹ پڑتے ہیں جن کے نگرانوں نے انہیں آزاد چھوڑ دیا ہو اور ان کے پیروں کی رسیاں کھول دی ہوں یہاں تک کہ مجھے یہ احساس پیدا ہوگیا کہ یہ مجھے مار ہی ڈالیں گے یا ایک دوسرے کوقتل کردیں گے۔میں نے اس امرخلافت کو یوں الٹ پلٹ کردیکھاہے کہ میری نیند تک اڑ گئی ہے اور اب یہ محسوس کیا ہے کہ یا ان سے جہاد کرنا ہوگا یا پیغمبر (ص) کے احکام کا انکار کر دینا ہوگا۔ظاہر ہے کہ میرے لئے جنگ کی سختیوں کا برداشت کرنا عذاب کی سختی برداشت کرنے سے آسان تر ہے اور دنیا کی موت آخرت کی موت اورتباہی سے سبک تر ہے۔

(۵۵)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کے اصحاب نے یہ اظہار کیا کہ اہل صفین سے جہاد کی اجازت میں تاخیر سے کام لے رہے ہیں)

(۱)سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس اسلام میں روز اول سے بزور شمشیر بیعت لی جا رہی تھی اور انکار بیعت کرنے پر گھروں میں آگ لگائی جا رہی تھی یا لوگوں کو خنجر و شمشیر اورتازیانہ و درہ کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔اس میں یکبارگی یہ انقلاب کیسے آگیا کہ لوگ ایک انسان کی بیعت کرنے کے لئے ٹوٹ پڑے اوریہ محسوس ہونے لگا کہ جیسے ایک دوسرے کو قتل کردیں گے۔کیا اس کا راز یہ تھا کہ لوگ اس ایک شخص کے علم و فضل ' زہد و تقویٰ اور شجاعت و کرم سے متاثر ہوگئے تھے۔ایسا ہوت تو یہ صورت حال بہت پہلے پیدا ہو جاتی اور لوگ اس شخص پر قربان ہو جاتے۔حالانکہ ایسا نہیں ہو سکا جس کا مطلب یہ ہے کہ قوم نے شخصیت سے زیادہ حالات کو سمجھ لیا تھا۔اوریہ اندازہ کرلیا تھا کہ وہ شخص جو امت کے درمیان واقعی انصاف کر سکتا ہے اور جس کی زندگی ایک عام انسان کی زندگی کی طرح سادگی رکھتی ہے اور اس میں کسی طرح کی حرص و طمع کا گزر نہیں ہے وہ اس مرد مومن اور کل ایمان کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی بیعت میں سبقت کرنا ایک انسانی اور ایمان فریضہ ہے اور در حقیقت مولائے کائنات نے اس پوری صورت حال کو ایک لفظ میں واضح کردیا ہے کہ یہ دن در حقیقت پیاسوں کے سیراب ہونے کادن تھا اور لوگ مدتوں سے تشنہ اورتشنہ کام تھے لہٰذا ان کاٹوٹ پڑنا حق بجانب تھا اس ایک تشبیہ سے ماضی اورحال دونوں کا مکمل اندازہ کیا جا سکتا ہے۔!

۸۷

أَمَّا قَوْلُكُمْ أَكُلَّ ذَلِكَ كَرَاهِيَةَ الْمَوْتِ - فَوَاللَّه مَا أُبَالِي - دَخَلْتُ إِلَى الْمَوْتِ أَوْ خَرَجَ الْمَوْتُ إِلَيَّ - وأَمَّا قَوْلُكُمْ شَكَّاً فِي أَهْلِ الشَّامِ - فَوَاللَّه مَا دَفَعْتُ الْحَرْبَ يَوْماً - إِلَّا وأَنَا أَطْمَعُ أَنْ تَلْحَقَ بِي طَائِفَةٌ فَتَهْتَدِيَ بِي - وتَعْشُوَ إِلَى ضَوْئِي - وذَلِكَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَقْتُلَهَا عَلَى ضَلَالِهَا - وإِنْ كَانَتْ تَبُوءُ بِآثَامِهَا.

(۵۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يصف أصحاب رسول الله وذلك يوم صفين حين أمر الناس بالصلح

ولَقَدْ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - نَقْتُلُ آبَاءَنَا وأَبْنَاءَنَا وإِخْوَانَنَا وأَعْمَامَنَا - مَا يَزِيدُنَا ذَلِكَ إِلَّا إِيمَاناً وتَسْلِيماً -

تمہارا یہ سوال کہ کیا یہ تاخیر موت کی ناگواری سے ہے تو خدا کی قسم مجھے موت کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ میں اس کے پاس وارد ہو جائوں یا وہ میری طرف نکل کر آجائے۔اور تمہارا یہ خیال کہ مجھے اہل شام کے باطل کے بارے میں کوئی شک ہے۔تو خدا گواہ ہے کہ میں نے ایک دن بھی جنگ کو نہیں ٹالا ہے مگر اس خیال سے کہ شائد کوئی گروہ مجھ سے ملحق ہو جائے اور ہدایت پاجائے اورمیری روشنی میں اپنی کمزور آنکھوں کا علاج کرلے کہ یہ بات میرے نزدیک اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ میں اس کی گمراہی کی بنا پر اسے قتل کردوں اگرچہ اس قتل کا گناہ اسی کے ذمہ ہوگا۔

(۵۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں اصحاب رسول (ص) کویاد کیا گیا ہے اس وقت جب صفین کے موقع پر آپنے لوگوں کو صلح کا حکم دیا تھا)

ہم(۱) رسول اکرم (ص) کے ساتھ اپنے خاندان کے بزرگ' بچے 'بھائی اور چچائوں کو بھی قتل کردیا کرتے تھے اوراس سے ہمارے ایمان اور جذبہ تسلیم میں اضافہ ہی ہوتا

(۱)حضرت محمد بن ابی بکر شہادت کے بعد معاویہ نے عبداللہ بن عامر حضرمی کو بصرہ میں دوبارہ فساد پھیلانے کے لئے بھیج دیا۔وہاں حضرت کے والی ابن عباس تھے اور وہ محمد کی تعریف کے لئے کوفہ آگئے تھے۔زیاد بن عبید ان کے نائب تھے۔انہوں نے حضرت کو اطلاع دی۔آپ نے بصرہ کے بنی تمیم کا عثمانی رجحان دیکھ کر کوفہ کے بنی تمیم کو مقابلہ پر بھیجنا چاہا لیکن ان لوگوں نے برادری سے جنگ کرنے سے انکار کردیا تو حضرت نے اپنے دور قدیم کا حوالہ دیا کہ اگر رسول اکرم (ص) کے ساتھ ہم لوگ بھی قبائلی تعصب کا شکار ہوگئے ہوتے تو آج اسلام کا نام و نشان بھی نہ ہوتا۔اسلام حق و صداقت کا مذہب ہے اس میں قومی اورقبائلی رجحانات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

۸۸

ومُضِيّاً عَلَى

اللَّقَمِ وصَبْراً عَلَى مَضَضِ الأَلَمِ وجِدّاً فِي جِهَادِ الْعَدُوِّ - ولَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ مِنَّا والآخَرُ مِنْ عَدُوِّنَا - يَتَصَاوَلَانِ تَصَاوُلَ الْفَحْلَيْنِ يَتَخَالَسَانِ أَنْفُسَهُمَا أَيُّهُمَا يَسْقِي صَاحِبَه كَأْسَ الْمَنُونِ - فَمَرَّةً لَنَا مِنْ عَدُوِّنَا ومَرَّةً لِعَدُوِّنَا مِنَّا - فَلَمَّا رَأَى اللَّه صِدْقَنَا أَنْزَلَ بِعَدُوِّنَا الْكَبْتَ وأَنْزَلَ عَلَيْنَا النَّصْرَ - حَتَّى اسْتَقَرَّ الإِسْلَامُ مُلْقِياً جِرَانَه ومُتَبَوِّئاً أَوْطَانَه - ولَعَمْرِي لَوْ كُنَّا نَأْتِي مَا أَتَيْتُمْ - مَا قَامَ لِلدِّينِ عَمُودٌ ولَا اخْضَرَّ لِلإِيمَانِ عُودٌ - وايْمُ اللَّه لَتَحْتَلِبُنَّهَا دَماً ولَتُتْبِعُنَّهَا نَدَماً!

(۵۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في صفة رجل مذموم ثم في فضله هوعليه‌السلام

أَمَّا إِنَّه سَيَظْهَرُ عَلَيْكُمْ بَعْدِي رَجُلٌ رَحْبُ الْبُلْعُومِ مُنْدَحِقُ الْبَطْنِ يَأْكُلُ مَا يَجِدُ

تھا اور ہم برابر سیدھے راستہ پر بڑھتے ہی جا رہے تھے اور مصیبتوں کی سختیوں پر صبر ہی کرتے جا رہے تھے اور دشمن سے جہاد میں کوششیں ہی کرتے جا رہے تھے۔ہمارا سپاہی دشمن کے سپاہی سے اس طرح مقابلہ کرتا تھا جس طرح مردوں کا مقابلہ ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہو جائیں۔اور ہر ایک کو یہی فکر ہو کہ دوسرے کو موت کا جام پلادیں۔پھر کبھی ہم دشمن کو مار لیتے تھے اور کبھی دشمن کو ہم پر غلبہ ہوجاتا تھا۔اس کے بعد جب خدا نے ہماری صداقت(۱) کوآزما لیا تو ہمارے دشمن پر ذلت نازل کردی اورہماری اوپر نصرت کا نزول فرمادیا یہاں تک کہ اسلام سینہ ٹیک کر اپنی جگہ جم گیا اور اپنی منزل پر قائم ہوگیا۔ میری جان کی قسم اگر ہمارا کرداربھی تمہیں جیسا ہوتا تو نہ دین کا کوئی ستون قائم ہوتا اور نہ ایمان کی کوئی شاخ ہری ہوتی۔خدا کی قسم تم اپنے کرتوت سے دودھ کے بدلے خون دوھوگے اور آخرمیں پچھتائو گے۔

(۵۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(ایک قابل مذمت شخص کے بارے میں)

آگاہ ہو جائو کہ عنقریب تم پر ایک شخص مسلط ہو گا جس کا حلق کشادہ اور پیٹ بڑا ہوگا۔جو پاجائے گا کھا جائے گا

(۱)ایک عظیم حقیقت کا اعلان ہےکہ پروردگار اپنے بندوں کی بہر حال مدد کرتا ہے۔اس نے صاف کہہ دیا ہے کہ'' کان حقا علینا نصر المومنین '' (مومنین کی مدد ہماری ذمہ دری ہے )'' ان الله مع الصابرین '' ( اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) لیکن اس سلسلہ میں اس حقیقت کو بہرحال سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نصرت ایمان کے اظہار کے بعد اوریہ معیت صبر کیے بعد سامنے آتی ہے جب تک انسان اپنے ایمان و صبر کا ثبوت نہیں دیدیتا ہے خدائی امداد کا نزول نہیں ہوتا ہے۔'' ان تصنرو الله ینصر کم '' (اگرتم اللہ کی مدد کروگے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔نصرت الٰہی تحفہ نہیں ہے مجاہدات کا انعام ہے۔پہلے مجاہدہ نفس اس کے بعد انعام۔!

۸۹

ويَطْلُبُ مَا لَا يَجِدُ - فَاقْتُلُوه ولَنْ تَقْتُلُوه - أَلَا وإِنَّه سَيَأْمُرُكُمْ بِسَبِّي والْبَرَاءَةِ مِنِّي - فَأَمَّا السَّبُّ فَسُبُّونِي فَإِنَّه لِي زَكَاةٌ ولَكُمْ نَجَاةٌ - وأَمَّا الْبَرَاءَةُ فَلَا تَتَبَرَّءُوا مِنِّي - فَإِنِّي وُلِدْتُ عَلَى الْفِطْرَةِ وسَبَقْتُ إِلَى الإِيمَانِ والْهِجْرَةِ.

(۵۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

كلم به الخوارج حين اعتزلوا الحكومة وتنادوا أن لا حكم إلا لله أَصَابَكُمْ حَاصِبٌ ولَا بَقِيَ مِنْكُمْ آثِرٌ أَبَعْدَ إِيمَانِي بِاللَّه،

وجِهَادِي مَعَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - أَشْهَدُ عَلَى نَفْسِي بِالْكُفْرِ - لَالْكُفْرِ( قَدْ ضَلَلْتُ إِذاً وما أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ ) - فَأُوبُوا شَرَّ مَآبٍ وارْجِعُوا عَلَى أَثَرِ الأَعْقَابِ أَمَا إِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي ذُلاًّ شَامِلًا وسَيْفاً قَاطِعاً - وأَثَرَةً

اور جونہ پائے گا اس کی جستجو میں رہے گا۔تمہاری ذمہ داری ہوگی کہ اسے قتل کردو مگر تم ہر گز قتل نہ کرو گے۔ خیروہ عنقریب تمہیں' مجھے گالیاں دینے اور مجھ سے بیزاری کرنے کا بھی حکم دے گا۔تو اگر گالیوں کی بات ہو تو مجھے برا بھلا کہہ لینا کہ یہ میرے لئے پاکیزگی کا سامان ہے اورتمہارے لئے دشمن سے نجات کا۔لیکن خبردار مجھ سے برائت نہ کرنا کہ میں فطرت اسلام پر پیدا ہوا ہوں اور میں نے ایمان اور ہجرت دونوں میں سبقت کی ہے۔

(۵۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس کا مخاطب ان خوارج کو بنایا گیا ہے جو تحکیم سے کنارہ کش ہوگئے اور '' لاحکم الا اللہ '' کا نعرہ لگانے لگے)

خدا کرے۔تم پرسخت آندھیاں آئیں اور کوئی تمہارے حال کا اصلاح کرنے والا نہ رہ جائے۔کیا میں پروردگار پر ایمان لانے اور رسول اکرم (ص) کے ساتھ جہاد کرنے کے بعد اپنے بارے میں کفر کا اعلان کردوں۔ایسا کروں گا تو میں گمراہ ہو جائوں گا اور ہدایت یافتہ لوگوں میں نہ رہ جائوں گا۔جائو پلٹ جائو اپنی بدترین منزل کی طرف اور واپس چلے جائو اپنے نشانات قدم پر۔مگرآگاہ رہو کہ میرے بعد تمہیں ہمہ گیر ذلت اور کاٹنے والی تلوار کا سامنا کرنا ہوگا اور اس طریقۂ کار کا مقابلہ کرنا ہوگا

۹۰

يَتَّخِذُهَا الظَّالِمُونَ فِيكُمْ سُنَّةً.

قال الشريف قولهعليه‌السلام ولا بقي منكم آبر يروى على ثلاثة أوجه:

أحدها أن يكون كما ذكرناه آبر بالراء - من قولهم للذي يأبر النخل أي يصلحه -. ويروى آثر وهو الذي يأثر الحديث ويرويه - أي يحكيه وهو أصح الوجوه عندي - كأنهعليه‌السلام قال لا بقي منكم مخبر -. ويروى آبز بالزاي المعجمة وهو الواثب - والهالك أيضا يقال له آبز

(۵۹)

وقالعليه‌السلام

لما عزم على حرب الخوارج - وقيل له:

إن القوم عبروا جسر النهروان!

مَصَارِعُهُمْ دُونَ النُّطْفَةِ - واللَّه لَا يُفْلِتُ مِنْهُمْ عَشَرَةٌ ولَا يَهْلِكُ مِنْكُمْ عَشَرَةٌ.

جسے ظالم تمہارے بارے میں اپنی سنت بنالیں گے یعنی ہر چیز کو اپنے لئے مخصوص کرلینا۔

سید رضی : حضرت کا ارشاد 'لا بقی منکم آبر'' تین طریقوں سے نقل کیا گیا ہے:

آبر: وہ شخص جو درخت خرمہ کو کانٹ چھانٹ کر اس کی اصلاح کرتا ہے۔

آثر: روایت کرنے والا۔یعنی تمہاری خبر دینے والا بھی کوئی نہ رہ جائے گا۔اوریہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

آبر: کودنے والا یا ہلاک ہونے والا کہ مزید ہلاکت کے لئے بھی کوئی نہ رہ جائے گا۔

(۵۹)

آپ نے اس وقت ارشاد فرمایا

جب آپ نے خوارج سے جنگ کا عزم کرلیا اور نہر وان کے پل کو پار کرلیا

یادرکھو(۱) !دشمنوں کی قتل گاہ دریا کے اس طرف ہے۔خدا کی قسم نہ ان میں کے دس باقی بچیں گے اور نہ تمہارے دس ہلاک ہو سکیں گے ۔

(۱)جب امیر المومنین کو یہ خبردی گئی کہ خوارج نے سارے ملک میں فساد پھیلانا شروع کردیا ہے ۔جناب عبداللہ بن خباب بن الارت کو ان کے گھر کی عورتوں سمیت قتل کردیا ہے اور لوگوں میں مسلسل دہشت پھیلا رہے ہیں تو آپ نے ایک شخص کو سمجھانے کے لئے بھیجا۔ان ظالموں نے اسے بھی قتل کردیا۔اس کے بعد جب حضرت عبداللہ بن خباب کے قاتلوں کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تو صاف کہہ دیا کہ ہم سب قاتل ہیں۔اس کے بعد حضرت نے بنفس نفیس توبہ کی دعوت دی لیکن ان لوگوں نے اسے بھی ٹھکرادیا۔آخر ایک دن وہ آگیا جب لوگ ایک لاش کو لے کرآئے اور سوال کیا کہ سرکار اب فرمائیں اب کیا حکم ہے؟ تو آپ نے نعرہ تکبیر بلندکرکے جہاد کا حکم دے دیا اور پروردگار کے دئیے ہوئے علم غیب کی بناپر انجام کار سے بھی با خبر کردیا جو بقول ابن الحدید صد فیصد صحیح ثابت ہوا اور خوارج کے صرف نو افراد بچے اور حضرت کے ساتھیوں میں صرف آٹھ افراد شہید ہوئے۔

۹۱

قال الشريف يعني بالنطفة ماء النهر - وهي أفصح كناية عن الماء وإن كان كثيرا جما - وقد أشرنا إلى ذلك فيما تقدم عند مضي ما أشبهه.

(۶۰)

وقالعليه‌السلام

لما قتل الخوارج فقيل له يا أمير المؤمنين هلك القوم بأجمعهم

كَلَّا واللَّه إِنَّهُمْ نُطَفٌ فِي أَصْلَابِ الرِّجَالِ وقَرَارَاتِ النِّسَاءِ،كُلَّمَا نَجَمَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ - حَتَّى يَكُونَ آخِرُهُمْ لُصُوصاً سَلَّابِينَ.

(۶۱)

وقالعليه‌السلام

لَا تُقَاتِلُوا الْخَوَارِجَ بَعْدِي - فَلَيْسَ مَنْ طَلَبَ الْحَقَّ فَأَخْطَأَه - كَمَنْ طَلَبَ الْبَاطِلَ فَأَدْرَكَه.

قال الشريف - يعني معاوية وأصحابه.

(۶۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما خوف من الغيلة

وإِنَّ عَلَيَّ مِنَ اللَّه جُنَّةً حَصِينَةً -.

سید رضی : نطفہ سے مراد نہر کا شفاف پانی ہے۔جو بہترین کنایہ ہے پانی کے بارے میں چاہے اس کی مقدار کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو

(۶۰)

آپ نے فرمایا

(اس وقت جب خوارج کے قتل کے بعد لوگوں نے کہا کہ اب تو قوم کاخاتمہ ہوچکا ہے)

ہرگز نہیں۔خدا گواہ ہے کہ یہ ابھی مردوں کے صلب اورعورتوں کے رحم میں موجود ہیں اور جب بھی ان میں کوئی سر نکالے گا اسے کاٹ دیا جائے گا۔یہاں تک کہ آخرمیں صرف لٹیرے اورچور ہو کر رہ جائیں گے۔

(۶۱)

آپ نے فرمایا

خبر دار میرے بعد خروج کرنے والوں سے جنگ نہ کرنا کہ حق کی طلب میں نکل کر بہک جانے والا اس کا جیسا نہیں ہوتا ہے جو باطل کی تلاش میں نکلے اورحاصل بھی کرلے۔

سید شریف رضی نے فرمایا : یعنی معاویہ اور اس کے پیروکار

(۶۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کو اچانک قتل سے ڈرایا گیا )

یاد رکھو میرے لئے خداکی طرف سے ایک مضبوط و مستحکم سپر ہے

۹۲

فَإِذَا جَاءَ يَوْمِي انْفَرَجَتْ عَنِّي وأَسْلَمَتْنِي - فَحِينَئِذٍ لَا يَطِيشُ السَّهْمُ ولَا يَبْرَأُ الْكَلْمُ

(۶۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يحذر من فتنة الدنيا

أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا دَارٌ لَا يُسْلَمُ مِنْهَا إِلَّا فِيهَا - ولَا يُنْجَى بِشَيْءٍ كَانَ لَهَا - ابْتُلِيَ النَّاسُ بِهَا فِتْنَةً - فَمَا أَخَذُوه مِنْهَا لَهَا أُخْرِجُوا مِنْه وحُوسِبُوا عَلَيْه - ومَا أَخَذُوه مِنْهَا لِغَيْرِهَا قَدِمُوا عَلَيْه وأَقَامُوا فِيه - فَإِنَّهَا عِنْدَ ذَوِي الْعُقُولِ كَفَيْءِ الظِّلِّ - بَيْنَا تَرَاه سَابِغاً حَتَّى قَلَصَ وزَائِداً حَتَّى نَقَصَ.

(۶۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في المبادرة إلى صالح الأعمال

فَاتَّقُوا اللَّه عِبَادَ اللَّه وبَادِرُوا آجَالَكُمْ بِأَعْمَالِكُمْ وابْتَاعُوا

اس کے بعد جب میرا دن آجائے گا تو یہ سپر مجھ سے الگ ہوجائےگااور مجھے موت کے حوالے کردے گا۔اس وقت نہ تیر خطاکرےگا اورنہ زخم مندمل ہو سکے گا

(۶۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں دنیا کے فتنوں سے ڈرایا گیا ہے)

آگاہ ہوجائو کہ یہ دنیا ایساگھر ہےجس سےسلامتی کاسامان اسی کےاندرسےکیاجاسکتا ہےاورکوئی ایسی شےوسیلہ نجات نہیں ہوسکتی ہےجو دنیا ہی کےلئے ہولوگ اس دنیاکے ذریعہ آزمائےجاتے ہیں جولوگ دنیاکاسامان دنیا ہی کےلئے حاصل کرتے ہیں وہ اسےچھوڑکرچلےجاتےہیں اورپھرحساب بھی دینا ہوتا ہےاورجولوگ یہاں سےوہاں کےلئےحاصل کرتےہیں وہ وہاں جاکرپالیتےہیں اوراسی میں مقیم ہو جاتے ہیں۔یہ دنیا درحقیقت صاحبان عقل کی نظرمیں ایک سایہ جیسی ہے جودیکھتے دیکھتےسمٹ جاتا ہے اورپھیلتے پھیلتے کم ہو جاتا ہے۔

(۶۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(نیک اعمال کی طرف سبقت کے بارے میں )

بندگان خدا! اللہ سے ڈرو اور اعمال کے ساتھ اجل(۱) کی طرف سبقت کرو۔اس دنیا کے فانی مال کے

(۱)انسان کے قدم موت کی طرف بلا اختیاربڑھتے جا رہے ہیں اور اسے اس امر کا احساس ا بھی نہیں ہوتا ہے نتیجہ یہ ہتا ہے کہ ایک دن موت کے منہ میں چلا جاتا ہے اور دائمی خسارہ اورعذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے لہٰذا تقاضائے عقل و دانش یہی ہے کہ اعمال کو ساتھ لے کر آگے بڑھے گاتا کہ جب موت کا سامانا ہوتواعمال کا سہارا رہے اورعذاب الیم سے نجات حاصل کرنے کا وسیلہ ہاتھ میں رہے۔

۹۳

مَا يَبْقَى لَكُمْ بِمَا يَزُولُ عَنْكُمْ وتَرَحَّلُوا فَقَدْ جُدَّ بِكُمْ واسْتَعِدُّوا لِلْمَوْتِ فَقَدْ أَظَلَّكُمْ وكُونُوا قَوْماً صِيحَ بِهِمْ فَانْتَبَهُوا - وعَلِمُوا أَنَّ الدُّنْيَا لَيْسَتْ لَهُمْ بِدَارٍ فَاسْتَبْدَلُوا - فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه لَمْ يَخْلُقْكُمْ عَبَثاً ولَمْ يَتْرُكْكُمْ سُدًى ومَا بَيْنَ أَحَدِكُمْ وبَيْنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ - إِلَّا الْمَوْتُ أَنْ يَنْزِلَ بِه - وإِنَّ غَايَةً تَنْقُصُهَا اللَّحْظَةُ وتَهْدِمُهَا السَّاعَةُ - لَجَدِيرَةٌ بِقِصَرِ الْمُدَّةِ - وإِنَّ غَائِباً يَحْدُوه الْجَدِيدَانِ - اللَّيْلُ والنَّهَارُ لَحَرِيٌّ بِسُرْعَةِ الأَوْبَةِ وإِنَّ قَادِماً يَقْدُمُ بِالْفَوْزِ أَوِ الشِّقْوَةِ - لَمُسْتَحِقٌّ لأَفْضَلِ الْعُدَّةِ - فَتَزَوَّدُوا فِي الدُّنْيَا مِنَ الدُّنْيَا - مَا تَحْرُزُونَ بِه أَنْفُسَكُمْ غَداً فَاتَّقَى عَبْدٌ رَبَّه نَصَحَ نَفْسَه وقَدَّمَ تَوْبَتَه وغَلَبَ شَهْوَتَه - فَإِنَّ أَجَلَه مَسْتُورٌ عَنْه وأَمَلَه خَادِعٌ لَه - والشَّيْطَانُ مُوَكَّلٌ بِه يُزَيِّنُ لَه الْمَعْصِيَةَ لِيَرْكَبَهَا - ويُمَنِّيه التَّوْبَةَ لِيُسَوِّفَهَا

ذریعہ باقی رہنے والی آخرت کو خرید لو اور یہاں سے کوچ کر جائو کہ تمہیں تیزی سے لیجا یا جا رہا ہے اور موت کے لئے آمادہ ہوجائو کہ وہ تمہارے سروں پر منڈلا رہی ہے اس قوم جیسے ہو جائو جیسے پکارا گیا تو فورا ہوشیار ہوگئی۔اوراس نے جان لیا کہ دنیا اس کی منزل نہیں ہے تو اسے آخرت سے بدل لیا۔اس لئے کہ پروردگار نے تمہیں بیکارنہیں پیداکیا اور نہ مہمل چھوڑ دیا ہے اور یاد رکھو کہ تمہارے اور جنت و جہنم کے درمیان اتنا ہی وقفہ ہے کہ موت نازل ہو جائے اور انجام سامنے آجائے اور وہ مدت حیات جیسے ہر لحظہ کم کر رہا ہو اور ہر ساعت اس کی عمارت کو منہدم کر رہی ہو وہ قصیر المدة ہی سمجھنے کا لائق ہے اور وہ موت جسے دن و رات ڈھکیل کر آگے لا رہے ہوں اسے بہت جلد آنے والا ہی خیال کرنا چاہیے اور وہ شخص جس کے سامنے کامیابی یا ناکامی اوربد بختی آنے والی ہے اسے بہترین سامان مہیا ہی کرنا چاہیے۔لہٰذا تم دنیا میں رہ کر دنیا سے زاد راہ حاصل کر لو جس سے کل اپنے نفس کاتحفظ کرس کو۔اس کا راستہ یہ ہے کہ بندہ اپنے پروردگار سے ڈرے۔اپنے نفس سے اخلاص رکھتے ' توبہ کو مقدم کرے۔خواہشات پر غلبہ حاصل کرے اس لئے کہ اس کی اجل اس سے پوشیدہ ہے اور اس کی خواہش اسے مسلسل دھوکہ دینے والی ہے اور شیطان اس کے سر پر سوار ہے جو معصیتوں کو آراستہ کر رہا ہے تاکہ انسان مرتکب ہو جائے اور توبہ کی امیدیں دلاتا ہے تاکہ اس میں تاخیر کرے یہاں تک کہ غفلت اور بے خبری کے عالم میں موت اس پر

۹۴

إِذَا هَجَمَتْ مَنِيَّتُه عَلَيْه أَغْفَلَ مَا يَكُونُ عَنْهَا - فَيَا لَهَا حَسْرَةً عَلَى كُلِّ ذِي غَفْلَةٍ أَنْ يَكُونَ عُمُرُه عَلَيْه حُجَّةً - وأَنْ تُؤَدِّيَه أَيَّامُه إِلَى الشِّقْوَةِ - نَسْأَلُ اللَّه سُبْحَانَه - أَنْ يَجْعَلَنَا وإِيَّاكُمْ مِمَّنْ لَا تُبْطِرُه نِعْمَةٌ ولَا تُقَصِّرُ بِه عَنْ طَاعَةِ رَبِّه غَايَةٌ - ولَا تَحُلُّ بِه بَعْدَ الْمَوْتِ نَدَامَةٌ ولَا كَآبَةٌ.

(۶۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها مباحث لطيفة من العلم الإلهي

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَمْ تَسْبِقْ لَه حَالٌ حَالًا - فَيَكُونَ أَوَّلًا قَبْلَ أَنْ يَكُونَ آخِراً - ويَكُونَ ظَاهِراً قَبْلَ أَنْ يَكُونَ بَاطِناً - كُلُّ مُسَمًّى بِالْوَحْدَةِ غَيْرَه قَلِيلٌ - وكُلُّ عَزِيزٍ غَيْرَه ذَلِيلٌ وكُلُّ قَوِيٍّ غَيْرَه ضَعِيفٌ - وكُلُّ مَالِكٍ غَيْرَه مَمْلُوكٌ وكُلُّ عَالِمٍ غَيْرَه مُتَعَلِّمٌ - وكُلُّ قَادِرٍ غَيْرَه يَقْدِرُ ويَعْجَزُ - وكُلُّ سَمِيعٍ غَيْرَه يَصَمُّ

حملہ آور ہوجاتی ہے۔ ہائے کس قدر حسرت کا مقام ہے کہ انسان کی عمر ہی اس کے خلاف حجت بن جائے اور اس کا روز گار ہی اسے بدبختی تک پہنچادے۔پروردگار سے دعا ہے کہ ہمیں اور تمہیں ان لوگوں میں قرار دے جنہیں نعمتیں مغرور نہیں بناتی ہیں اور کوئی مقصد اطاعت خدا میں کوتاہی پرآمادہ نہیں کرتا ہے اور موت کے بعد ان پر ندامت اور رنج و غم کا نزول نہیں ہوتا ہے۔

(۶۵)

(جس میں علم الٰہی کے لطیف ترین مباحث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے)

تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس کے صفات میں تقدم(۱) و تاخرنہیں ہوتا ہے کہ وہ آخر ہونے سے پہلے اول رہا ہو اور باطن بننے سے پہلے ظاہر رہا ہو۔اس کے علاوہ جسے بھی واحد کہا جاتا ہے اس کی وحدت قلت ہے اور جسے بھی عزیز سمجھا جاتا ہے ہے اس کی عزت ذلت ہے۔اس کے سامنے ہر قوی ضعیف ہے اور ہر مالک مملوک ہے' ہر عالم متعلم ہے اور ہر قادر عاجز ہے' ہر سننے والا لطیف آوازوں کے لئے بہرہ ہے اور اونچی آوازیں بھی اسے بہرہ بنا دیتی ہیں

(۱)یہ اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ پروردگار کے صفات کمال عین ذات ہیں اور ذات سے الگ کوئی شے نہیں ہیں۔وہ علم کی وجہ سے عالم نہیں ہے۔بلکہ عین حقیقت علم ہے اور قدرت کے ذریعہ قادر نہیں ہے بلکہ عین قدرت کاملہ ہے اور جب یہ سارے صفات عین ذات ہیں تو ان میں تقدم و تاخر کا کوئی سوال ہی نہیں ہے وہ جس لحظہ اول ہے اسی لحظہ آخر بھی ہے اور جس اندازسے ظاہر ہے اسی اندازسے باطن بھی ہے۔اس کی ذات اقدس میں کسی طرح کا تغیر قابل تصور نہیں ہے حدیہ ہے کہ اس کی سماعت و بصارت بھی مخلوقات کی سماعت و بصارت سے بالکل الگ ہے۔دنیا کا ہر سمیع و بصیر کسی شے کو دیکھتا اور سنتا ہے اور کسی شے کے دیکھنے اورسننے سے قاصر رہتا ہے لیکن پروردگار کی ذات اقدس ایسی نہیں ہے وہ مخفی ترین مناظر ک دیکھ رہا ہے اور لطیف ترین آوازوں کو سن رہا ہے ۔وہ ایسا ظاہر ہے جو باطن نہیں ہے اور ایسا باطن ہے جو کسی عقل و فہم پرظاہر نہیں ہو سکتا ہے۔!

۹۵

عَنْ لَطِيفِ الأَصْوَاتِ - ويُصِمُّه كَبِيرُهَا ويَذْهَبُ عَنْه مَا بَعُدَ مِنْهَا - وكُلُّ بَصِيرٍ غَيْرَه يَعْمَى عَنْ خَفِيِّ الأَلْوَانِ ولَطِيفِ الأَجْسَامِ - وكُلُّ ظَاهِرٍ غَيْرَه بَاطِنٌ وكُلُّ بَاطِنٍ غَيْرَه غَيْرُ ظَاهِرٍ - لَمْ يَخْلُقْ مَا خَلَقَه لِتَشْدِيدِ سُلْطَانٍ - ولَا تَخَوُّفٍ مِنْ عَوَاقِبِ زَمَانٍ - ولَا اسْتِعَانَةٍ عَلَى نِدٍّ مُثَاوِرٍ ولَا شَرِيكٍ مُكَاثِرٍ ولَا ضِدٍّ مُنَافِرٍ ولَكِنْ خَلَائِقُ مَرْبُوبُونَ وعِبَادٌ دَاخِرُونَلَمْ يَحْلُلْ فِي الأَشْيَاءِ فَيُقَالَ هُوَ كَائِنٌ - ولَمْ يَنْأَ عَنْهَا فَيُقَالَ هُوَ مِنْهَا بَائِنٌ لَمْ يَؤُدْه خَلْقُ مَا ابْتَدَأَ - ولَا تَدْبِيرُ مَا ذَرَأَ ولَا وَقَفَ بِه عَجْزٌ عَمَّا خَلَقَ - ولَا وَلَجَتْ عَلَيْه شُبْهَةٌ فِيمَا قَضَى وقَدَّرَ - بَلْ قَضَاءٌ مُتْقَنٌ وعِلْمٌ مُحْكَمٌ - وأَمْرٌ مُبْرَمٌ الْمَأْمُولُ مَعَ النِّقَمِ - الْمَرْهُوبُ مَعَ النِّعَمِ!

اور دور کی آوازیں بھی اس کی حد سے باہر نکل جاتی ہیں اور اس طرح اس کے علاوہ ہر دیکھنے والا مخفی رنگ اور لطیف جسم کو نہیں دیکھ سکتا ہے۔اس کے علاوہ ہر ظاہر غیر باطن ہے اور ہر باطن غیر ظاہر ۔اس نے مخلوقات کو اپنی حکومت کے استحکام یا زمانہ کے نتائج کے خوف سے نہیں پیدا کیا ہے۔نہ اسے کسی برابر والے حملہ آور یا صاحب کثرت شریک یا ٹکرانیوالے مد مقابل کے مقابلہ میں مدد لینا تھی۔ یہ ساری مخلوق اسی کی پیدا کی ہوئی اورپالی ہوئی ہے اور یہ سارے بندے اسی کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔اس نے اشیاء میں حلول نہیں کیا ہے کہ اسے کسی کے اندر سمایا ہوا کہا جائے اور نہ اتنا دور ہوگیا ہے کہ الگ تھلگ خیال کیا جائے۔مخلوقات کی خلقت اورمصنوعات کی تدبیر اسے تھکا نہیں سکتی ہے اور نہ کوئی تخلیق اسے عاجز بنا سکتی ہے اور نہ کسی قضاو قدر میں اسے کوئی شبہ پیدا ہو سکتا ہے۔اس کا ہر فیصلہ محکم اوراس کا ہر علم متقن اور اس کا ہر حکم مستحکم ہے۔ناراضگی میں بھی اس سے امید وابستہ کی جاتی ہے اورنعمتوں میں بھی اس کا خوف لاحق رہتا ہے۔

۹۶

(۶۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في تعليم الحرب والمقاتلة

والمشهور أنه قاله لأصحابه ليلة الهرير أو أول اللقاء بصفين

مَعَاشِرَ الْمُسْلِمِينَ اسْتَشْعِرُوا الْخَشْيَةَ وتَجَلْبَبُوا السَّكِينَةَ وعَضُّوا عَلَى النَّوَاجِذِ فَإِنَّه أَنْبَى لِلسُّيُوفِ عَنِ الْهَامِ وأَكْمِلُوا اللأْمَةَ وقَلْقِلُوا السُّيُوفَ فِي أَغْمَادِهَا قَبْلَ سَلِّهَا - والْحَظُوا الْخَزْرَ واطْعُنُوا الشَّزْرَ ونَافِحُوا بِالظُّبَى وصِلُوا السُّيُوفَ بِالْخُطَا واعْلَمُوا أَنَّكُمْ بِعَيْنِ اللَّه ومَعَ ابْنِ عَمِّ رَسُولِ اللَّه - فَعَاوِدُوا الْكَرَّ واسْتَحْيُوا مِنَ الْفَرِّ فَإِنَّه عَارٌ فِي الأَعْقَابِ ونَارٌ يَوْمَ الْحِسَابِ - وطِيبُوا عَنْ أَنْفُسِكُمْ نَفْساً - وامْشُوا إِلَى الْمَوْتِ مَشْياً سُجُحاً وعَلَيْكُمْ بِهَذَا السَّوَادِ الأَعْظَمِ والرِّوَاقِ الْمُطَنَّبِ فَاضْرِبُوا ثَبَجَه فَإِنَّ الشَّيْطَانَ كَامِنٌ فِي كِسْرِه

(۶۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(تعلیم جنگ کے بارے میں )

مسلمانو!خوف(۱) خداکو اپنا شعار بنائو۔سکون و وقار کی چادر اوڑھ لو۔دانتوں کو بھینچ لو کہ اس سے تلواریں سروں سے اچٹ جاتی ہیں۔زرہ پوشی کو مکمل کرلو۔تلواروں کو نیام سے نکالنے سے پہلے نیام کے اندرحرکت دے لو۔دشمن کو ترچھی نظر سے دیکھتے رہو اور نیزوں سے دونوں طرف وار کرتے رہو۔اسے اپنی تلواروں کی باڑھ پر رکھو اور تلواروں کے حملے قدم آگے بڑھا کرکرو اوریہ یاد رکھو کہ تم پروردگار کی نگا ہ میں اور رسول اکرم (ص) کے ابن عم کے ساتھ ہو ۔دشمن پر مسلسل حملے کرتے رہو اور فرار سے شرم کرو کہ اس کا عار نسلوں میں رہ جاتا ہے اوراس کا انجام جہنم ہوتا ہے۔اپنے نفس کو ہنسی خوشی خدا کے حوالے کردو اور موت کی طرف نہایت درجہ سکون و اطمینان سے قدم آگے بڑھائو۔تمہارا نشانہ ایک دشمن کا عظیم لشکراورطناب دار خیمہ ہونا چاہیے کہ اسی کے وسط پرحملہ کرو کہ شیطان اسی کے ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا

(۱)ان تعلیمات پرسنجیدگی سے غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ایک مرد مسلم کے جہاد کا انداز کیا ہونا چاہیے اوراسے دشمن کے مقابلہ میں کس طرح جنگ آزما ہونا چاہیے۔ان تعلیمات کا مختصرخلاصہ یہ ہے:۔ ۱۔دل کے اندر خوف خدا ہو'۲۔باہر سکون و اطمینان کا مظاہر ہو' ۳۔دانتوں کو بھینچ لیا جائے'۴۔آلات جنگ کو مکمل طورپر ساتھ رکھا جائے' ۵۔تلوار کو نیام کے اندرحرکت دے لی جائے کہ بر وقت نکالنے میں زحمت نہ ہو'۶۔دشمن پر غیط آلود نگاہ کی جائے ' ۷۔نیزوں کے حملے ہر طرف ہوں'۸۔تلوار دشمن کے سامنے رہے '۹۔تلوار دشمن تک نہ پہنچے توقدم بڑھاکرحملہ کرے' ۱۰۔فرار کا ارادہ نہ کرے ' ۱۱۔موت کی طرف سکون کے ساتھ قدم بڑھائے'۱۲۔جان جان آفریں کے حوالے کردے' ۱۳۔ہدف اورنشانہ پرنگاہ رکھے '۱۴۔یہ اطمینان رکھے کہ خدا ہمارے اعمال کودیکھ رہا ہے اور پیغمبر (ص) کا بھائی ہماری نگاہ کے سامنے ہے۔

ظاہر ہے کہ ان آداب میں بعض آداب ' تقویٰ ' ایمان وغیرہ دائمی حیثیت رکھتے ہیں اور بعض کا تعلق نیزہ و شمشیر کے دور سے ہے لیکن اسے بھی ہردور کے آلات حرب و ضرب پرمنطبق کیاجاسکتا ہے اور اس سے فادئہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

۹۷

وقَدْ قَدَّمَ لِلْوَثْبَةِ يَداً وأَخَّرَ لِلنُّكُوصِ رِجْلًا - فَصَمْداً صَمْداً حَتَّى يَنْجَلِيَ لَكُمْ عَمُودُ الْحَقِّ –( وأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ والله مَعَكُمْ ولَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمالَكُمْ )

(۶۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قالوا لما انتهت إلى أمير المؤمنينعليه‌السلام أنباء السقيفة بعد وفاة رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قالعليه‌السلام :ما قالت الأنصار قالوا قالت منا أمير ومنكم أمير قالعليه‌السلام :

فَهَلَّا احْتَجَجْتُمْ عَلَيْهِمْ - بِأَنَّ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَصَّى بِأَنْ يُحْسَنَ إِلَى مُحْسِنِهِمْ - ويُتَجَاوَزَ عَنْ مُسِيئِهِمْ؟

قَالُوا ومَا فِي هَذَا مِنَ الْحُجَّةِ عَلَيْهِمْ؟

ہے۔اس کا حال یہ ہے کہ اس نے ایک قدم حملہ کے لئے آگے بڑھا رکھا ہے۔اور ایک بھاگنے کے لئے پیچھے کر رکھا ہے لہٰذا تم مضبوطی سے اپنے ارادہ پرجمے رہو یہاں تک کہ حق صبح کے اجالے کی طرح واضح ہو جائے اور مطمئن ہو کر بلندی تمہارا حصہ ہے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ تمہارے اعمال کو ضائع نہیں کر سکتا ہے۔

(۶۷)

آپ کا ارشاد گرامی

جب رسول اکرم (ص)کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ(۱) کی خبریں پہنچیں اور آپ نے پوچھا کہ انصار نے کیا احتجاج کیا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ایک امیر ہمارا ہوگا اور ایک تمہارا۔تو آپ نے فرمایا:۔

تم لوگوں نے ان کے خلاف یہ استدلال کیوں نہیں کیا کہ رسول اکرم (ص) نے تمہارے نیک کرداروں کے ساتھ حسن سلوک اور خطا کاروں سے در گزر کرنے کی وصیت فرمائی ہے ؟

لوگوں نے کہا کہ اس میں کیا استد لال ہے؟

(۱)استاد احمد حسن یعقوب نے کتاب نظریہ عدالت صحابہ میں ایک مفصل بحث کی ہے کہ سقیفہ میں کوئی قانونی اجتماع انتخاب خلیفہ کے لئے نہیں ہوا تھا اور نہ کوئی اس کا ایجنڈہ تھا اورنہ سوا لاکھ صحابہ کی بستی میں سے دس بیس ہزار افراد جمع ہوئے تھے بلکہ سعد بن عبادہ کی بیماری کی بناپر انصارعیادت کے لئے جمع ہوئے تھے اوربعض مہاجرین نے اس اجتماع کودیکھ کر یہ محسوس کیا کہ کہیں خلافت کا فیصلہ نہ ہوجائے' تو بر وقت پہنچ کر اس قدر ہنگامہ کیا کہ انصار میں پھوٹ پڑ گئی اور فی الفور حضرت ابو بکر کی خلافت کا اعلان کردیا اور ساری کاروائی لمحوں میں یوں مکمل ہوگئی کہ سعد بن عبادہ کو پامال کردیا گیا اور حضرت ابو بکر ''تاج خلافت ''سر پر رکھے ہوئے سقیفہ سے برآمد ہوگئے۔اس شان سے کہ اس عظیم مہم کی بنا پرجنازۂ رسول میں شرکت سے بھی محروم ہوگئے اورخلافت کا پہلا اثر سامنے آگیا۔

۹۸

فَقَالَعليه‌السلام :

لَوْ كَانَ الإِمَامَةُ فِيهِمْ لَمْ تَكُنِ الْوَصِيَّةُ بِهِمْ.

ثُمَّ قَالَعليه‌السلام :

فَمَا ذَا قَالَتْ قُرَيْشٌ - قَالُوا احْتَجَّتْ بِأَنَّهَا شَجَرَةُ الرَّسُولِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَقَالَعليه‌السلام احْتَجُّوا بِالشَّجَرَةِ وأَضَاعُوا الثَّمَرَةَ.

(۶۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما قلد محمد بن أبي بكر مصر فملكت عليه وقتل

وقَدْ أَرَدْتُ تَوْلِيَةَ مِصْرَ هَاشِمَ بْنَ عُتْبَةَ - ولَوْ وَلَّيْتُه إِيَّاهَا لَمَّا خَلَّى لَهُمُ الْعَرْصَةَولَا أَنْهَزَهُمُ الْفُرْصَةَ بِلَا ذَمٍّ لِمُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ - فَلَقَدْ كَانَ إِلَيَّ حَبِيباً وكَانَ لِي رَبِيباً.

فرمایاکہ اگر امارت ان کا حصہ ہوتی تو ان سے وصیت کی جاتی نہ کہ ان کے بارے میں وصیت کی جاتی ۔اس کے بعد آپ نے سوال کیا کہ قریش کی دلیل کیا تھی؟ لوگوں نے کہا کہ وہ اپنے کو رسول اکرم (ص) کے شجرہ میں ثابت کر رہے تھے۔فرمایا کہ افسوس شجرہ سے استدلال کیا اورثمرہ کو ضائع کردیا

(۶۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ نے محمدبن ابی بکر کو مصر کی ذمہ داری حوالہ کی اور انہیں قتل کردیا گیا)

میرا ارادہ تھا کہ مصر کاحاکم ہاشم بن(۱) عتبہ کو بنائوں اور اگر انہیں بنا دیتا تو ہرگزمیدان کو مخالفین کے لئے خالی نہ چھوڑتے اور انہیں موقع سے فائدہ نہ اٹھانے دیتے ( لیکن حالات نے ایسا نہ کرنے دیا)

اس بیان کا مقصد محمد بن ابی بکر کی مذمت نہیں ہے اس لئے کہ وہ مجھے عزیز تھا اور میرا ہی پروردہ(۲) تھا۔

(۱)ہاشم بن عتبہ صفین میں عملدارلشکر امیر المومنین تھے۔مرقال ان کا لقب تھا کہ نہایت تیز رفتاری اورچابکدستی سے حملہ کرتے تھے۔

(۲)محمد بن ابی بکر اسما بنت عمیس کے بطن سے تھے۔جو پہلے جناب جعفر طیارکی زوجہ تھیں اور ان سے عبداللہ بن جعفر پیدا ہوئے تھے اس کے بعد ان کی شہادت کے بعد ابو بکر کی زوجیت میں آگئیں جن سے محمد پیدا ہوئے اور ان کی وفات کے بعد مولائے کائنات کی زوجیت میں آئیں اور محمد نے آپ کے زیر اثر تربیت پائی یہ اوربات ہے کہ جب عمرو عاص نے چار ہزار کے لشکرکے ساتھ مصر پرحملہ کیا تو اپنے آبائی اصول جنگ کی بنا پرمیدان سے فرار اختیار کیا اور بالآخر قتل ہوگئے اورلاش کو گدھے کی کھال میں رکھ کرجلا دیا گیا یا بروایتے زندہ ہی جلادئیے گئے اور معاویہ نے اس خبرکوسن کر انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔ (مروج الذہب)

امیر المومنین نے اس موقع پر ہاشم کو اسی لئے یاد کیاتھا کہ وہ میدان سے فرار نہ کر سکتے تھے اور کسی گھر کے اندر پناہ لینے کا ارادہ بھی نہیں کر سکتے تھے ۔

۹۹

(۶۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في توبيخ بعض أصحابه

كَمْ أُدَارِيكُمْ كَمَا تُدَارَى الْبِكَارُ الْعَمِدَةُ والثِّيَابُ الْمُتَدَاعِيَةُ !كُلَّمَا حِيصَتْ مِنْ جَانِبٍ تَهَتَّكَتْ مِنْ آخَرَ - كُلَّمَا أَطَلَّ عَلَيْكُمْ مَنْسِرٌ مِنْ مَنَاسِرِ أَهْلِ الشَّامِ - أَغْلَقَ كُلُّ رَجُلٍ مِنْكُمْ بَابَه - وانْجَحَرَ انْجِحَارَ الضَّبَّةِ فِي جُحْرِهَا والضَّبُعِ فِي وِجَارِهَا الذَّلِيلُ واللَّه مَنْ نَصَرْتُمُوه - ومَنْ رُمِيَ بِكُمْ فَقَدْ رُمِيَ بِأَفْوَقَ نَاصِلٍ إِنَّكُمْ واللَّه لَكَثِيرٌ فِي الْبَاحَاتِ قَلِيلٌ تَحْتَ الرَّايَاتِ - وإِنِّي لَعَالِمٌ بِمَا يُصْلِحُكُمْ ويُقِيمُ أَوَدَكُمْ ولَكِنِّي لَا أَرَى إِصْلَاحَكُمْ بِإِفْسَادِ نَفْسِي - أَضْرَعَ اللَّه خُدُودَكُمْ وأَتْعَسَ جُدُودَكُمْ لَا تَعْرِفُونَ الْحَقَّ كَمَعْرِفَتِكُمُ الْبَاطِلَ - ولَا تُبْطِلُونَ الْبَاطِلَ كَإِبْطَالِكُمُ الْحَقَّ!

(۶۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(اپنے اصحاب کو سر زنش کرتے ہوئے)

کب تک میں تمہارے ساتھ وہ نرمی کا برتائو کروں جو بیمار اونٹ کے ساتھ کیا جاتا ہے جس کا کوہان اندر سے کھوکھلا ہوگیا ہو یا اس بوسیدہ کپڑے کے ساتھ کیا جاتا ہے جسے ایک طرف سے سیا جائے تو دوسری طرف سے پھٹ جاتا ہے۔ جب بھی شام کا کوئی دستہ تمہارے کسی دستہ کے سامنے آتا ہے تو تم میں س ے ہر شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کر لیتاہے اور اس طرح چھپ جاتا ہے جیسے سوراخ میں گوہ یا بھٹ میں بجو۔ خدا کی قسم ذلیل وہی ہوگا جس کے تم جیسے مدد گار ہوں گے اور جو تمہارے ذریعہ تیر اندازی کرے گا گویا وہ سو فار شکستہ اورپیکان نداشتہ تیرے نشانہ لگائے گا۔خدا کی قسم تم صحن خانہ میں بہت دکھائی دیتے ہواور پرچم لشکرکے زیر سایہ بہت کم نظرآتے ہو۔میں تمہاری اصلاح کا طریقہ جانتا ہوں اور تمہیں سیدھا کر سکتا ہوں لیکن کیا کروں اپنے دین کو برباد کرکے تمہاری اصلاح نہیں کرنا چاہتا ہوں۔خدا تمہارے چہروں کو ذلیل کرے اور تمہارے نصیب کو بد نصیب کرے۔تم حق کو اس طرح نہیں پہچانتے ہو جس طرح باطل کی معرفت رکھتے ہو اور باطل کو اس طرح باطل نہیں قراردیتے ہو جس طرح حق کو غلط ٹھہراتے ہو۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

ابوبکر کی نماز کے بارے میں شیعوں کی روایت

جہاں تک شیعوں کا خیال ہے تو وہ اس روایت سے انکار کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ نبی ؐ نے ابوبکر کو ہرگز حکم نہیں دیا تھا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں بلکہ شیعوں کا خیال ہے اور ان کی روایت کے مطابق یہ حرکت عائشہ کی تھی،عائشہ نے ابوبکر کو سرکار دو عالم ؐ کی حالت بتاتے ہوئے پیغام بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھادیں تا کہ ان کا مرتبہ بڑھے،ان کی خلافت کے لئے زمین ہموار ہوا اور خلافت کو علی ؑ سے آسانی سے غصب کیا جاسکے اور تمام اہل بیت ؑ کو عمومی طور پر محروم کیا جاسکے.

آخر وقت میں حضور ؐ نے حفصہ کو ڈ انٹا تھا یہ بات سب کو معلوم ہے حضرت ؐ نے فرمایا تھا کہ تم سب کے سب یوسف والیاں ہو،حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ جملہ بھی حفصہ کی کمزوری کی نشان دہی کرتا تھا،اصل میں دونوں خواتین سرکار دو عالم ؐ کے وقت آخر میں اپنے اپنے باپ کو آگے بڑھانے کے چکر میں تھیں اور حضور ؐ اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ گئے تھے ۔

حضور اکرم ؐ یوں بھی ابوبکر و عمر سے خاص طور سے رنجیدہ خاطر تھے اس لئے آپ نے ان دونوں کو اسامہ کے لشکر میں شامل کیا تھا اور انھیں اس وقت اسامہ کے ساتھ سفر میں ہونا چاہئے تھا،حضور ؐ نے تاکید فرمائی تھی کہ اسامہ کا لشکر جلد از جلد مدینہ چھوڑ دے،جیسا کہ سابقہ سوال کے دوسرے سوال کے جواب میں عرض کیا جاچکا ہے ۔

جب حضور اکرم ﷺ نے دیکھا کہ عائشہ کے حکم پر فوراً عمل ہوا اور ابوبکر نمازیوں کے امام بن گئے تو آپ اسی شدت مرض میں بےچین ہوکے باہر آئے تا کہ ابوبکر کو امامت سے روک دیں(مقصد تھا شبہ کو دور کرنا اور دشمنوں کا منہ بند کرنا)آپ اس حال میں نکلے کہ ایک ہاتھ علی ؑ کے کاندھے پر اور ایک ہاتھ فضل بن عباس کے کاندھے پر تھا اور کسی طرح مسجد میں پہنچ گئے،ابوبکر کو محراب سے ہٹایا اور خود آپ نے بیٹھ کے لوگوں کو نماز پڑھائی،((چرا کاری کند عاقل کہ باز آید پشیمانی))لیکن افسوس کہ سرکار دو عالم ؐ کا عمل شبہ کو دفع نہیں کرسکا وجہ یہ ہے کہ حکومت پر انھیں لوگوں نے

۳۲۱

قبضہ جمالیا اور پھر اپنے اس اقدام کو صحیح ثابت کرنے کے لئے دلیلیں تالش کرنے لگے ۔

ظاہر ہے کہ وہی لوگ اسلام کی تقدیر کے مالک بن بیٹھے تھے،اب مذکورہ حادثہ کو جس طرح چاہا تو ڑمروڑ کے اپنے موقف کے مطابق کہا اور اسی کو اپنی حکومت پر نص کے طور پر استعمال کیا،ایسا کرنے سے انھیں کون روک سکتا تھا؟بہرحال یہی وہ اسباب تھے،جس کی وجہ سے سرکار دو عالم ؐ کا یہ عمل شبہہ کو دفع نہیں کرسکا اور مخالفین کو بات کرنے کی گنجائیش مل گئی،صحابہ کو پختہ یقین تھا کہ امیرالمومنین ہی وصی پیغمبر ہیں ۔

حادثہ صلوٰۃ کے سلسلے میں امیرالمومنینؑ کا عقیدہ سنیوں کی نظر میں

ابن ابی الحدید معتزلی نے عائشہ کے بارے میں امیرالمومنین کا یہ قول نقل کیا ہے((لیکن فلانی تو اس کو نسوانی نقطہ نظر نے گرفتار کرلیا(۱) اور وہ اس حسد کا شکار ہوگئی جو اس کے دل میں پانی کی کھولتی ہوئی پتیلی کی طرح جوش مار رہا تھا))اس کے بعد ابن ابی الحدید نے اپنے شیخ ابویعقوب یوسف بن اسماعیل لمعانی کی ایک طویل گفتگو نقل کی ہے،جس میں انھوں نے یہ بتایا ہے کہ دو پارٹیاں تھیں،ایک طرف عائشہ اور ابوبکر تھے اور دوسرے طرف پارٹی میں جناب فاطمہ ؐ اور حضرت علی ؑ تھ اور ان دونوں پارٹیوں کے درمیان بغض و حسد اور عداوت و کینہ پروری کے کچھ اسباب تھے،ان دونوں پارٹیوں میں اختلاف کی وجہ ان کے مذہب کے مطابق یہ تھی کہ چونکہ سرکار دو عالم ؐ کے محبوب اور قریبی یہ چاروں تھے اور خدا کے نزدیک بھی بلند مرتبہ اور مقرب بارگاہ تھے اس لئے اگر ان کے دل میں نام و نمود کی خواہش اور جاہ و منصب کی طلب تھی تو تعجب نہیں ہونا چاہئے،یہ حضرات جاہ و منصب کی طلب میں ایک دوسرے و نیچا دکھانے کے لئے تہمتیں لگاتے تھے،ایک دوسرے کے خلاف بدگمان تھے اور دونوں پارٹیوں کے دل میں اپنے مخالف کے لئے بغض و حسد کے جذبات کا پایا جانا فطری بات تھی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) شرح نہج البلاغہ ج: ۹ ص: ۱۸۹

۳۲۲

بہرحال یہ سب باتیں تو سوال دوم کے جواب میں بھی عرض کی جاچکی ہیں فی الحال میں عبارت کے ان حصول کو پیش کررہا ہوں جو ہمارے موضوع سے متعلق ہے،ہمارا موضوع ابوبکر کی نماز ہے ۔

ابن ابی الحدید اپنے استاد کی بات کا ذکر کررہے ہیں کہ انھوں نے دونون پارٹیوں میں بغض اور حسد کا بیان کرنے کے بعد(حالانکہ یہ سب بھی ان کے استاد کے نظریہ اور مسلمات کی اپج ہے)(وہ لکھتے ہیں کہ مذکورہ اسباب کی بنا پر فاطمہ ؐ و علی ؑ اور عائشہ و ابوبکر کی پارٹیاں الگ الگ تھیں اور دونوں میں بغض اور عناد حیات نبی ؐ میں بھی پایا جاتا تھا اور یہ اختلاف اپنی جگہ پر برقرار رہا،یہاں تک کہ نبی ؐ کو وہ مرض ہوا جس میں آپ کی وفات ہوئی تھی،مرض نے طول پکڑا،علی ؑ کو اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ نبی ؐ کے بعد لوگ میری ہی بیعت کریں گے اور کوئی آدمی کم از کم خلافت کے معاملہ میں مجھ سے نہیں لڑئےگا،علی ؑ کو اس حد تک یقین تھا کہ جب ان کے چچا نے وفات پیغمبر ؐ کے بعد علی ؑ سے کہا تم ہاتھ کھولو میں تمھاری بیعت کرتا ہوں تا کہ لوگ دیکھیں کہ عم پیغمبر ؐ نے ابن عم پیغمبر ؐ کی بیعت کرلی پھر دو آدمی بھی آپ کے خلافت نہیں جائیں گے تو علی ؑ نے کہا:چچا کیا میرے علاوہ بھی کسی کے دل میں خلافت کی خواہش پیدا ہوسکتی ہے؟عباس ابن مطلب نے کہا:یہ تو بعد میں معلوم ہوگا مولائے کائنات ؑ نے فرمایا چچا!میں نہیں چاہتا کہ بیعت جیسا اہم کام پردے میں ہو،میں چاہتا ہوں کہ یہ کام بالاعلان ہو!یہ سن کر عمّ پیغمبر ؐ خاموش ہوگئے ۔

جب حضور اکرم ﷺ کے اوپر مرض کی شدت ہوئی تو آپ نے اسامہ کا لشکر بھیجا اور اس لشکر میں ابوبکر و عمر کو شامل کردیا،ان کے علاوہ بڑے بڑے مہاجرین و انصار بھی شامل تھے،اس وجہ سے علی ؑ کو پختہ یقین ہوگیا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کچھ ہوگیا تو انھیں خلافت بہرحال حاصل ہوگی،اس لئے کہ مدینہ مخالفین سے خالی ہوچکا تھا علی ؑ یہ سمجھ گئے کہ زمین بالکل ہموار ہے،ان کی بیعت کا کام پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا اور اگر مخالفین جیش اسامہ سے اپس آکر مخالفت بھی کریں گے تو فسخ بیعت نہیں کرسکیں گے ۔

پھر اچانک پانسہ پلٹا،عائشہ نے اپنا آدمی بھیج کے ابوبکر کو جیش اسامہ سے واپس بلالیا،عائشہ نے

۳۲۳

پیغام بھیجا کہ حضور ؐ کی موت کا وقت قریب ہے،اسی وقت ابوبکر کے نماز پڑھانے کا واقعہ بھی ہوا،علی ؑ فرماتے ہیں،عائشہ نے اپنے باپ کے غلام بلال سے کہا کہ جا کے ابا سے کہہ دو نماز پڑھادیں،حالانکہ پیغمبر ؐ نے یہ نہیں کہا تھا(جیسا کہ روایت کی جاتی ہے)بلکہ یہ فرمایا تھا کہ حاضرین میں سے کوئی نماز پڑھادے،کسی معین شخص کے بارے میں نہین فرمایا تھا،صبح کی نماز کا وقت تھا کہ حضور ؐ خود باہر نکلے،آپ کا آخری وقت تھا،ایک ہاتھ علی ؑ کے کاندھے پر تھا،دوسرا ہاتھ فضل بن عباس کے کاندھے پر،یہاں تک کہ آپ محراب میں داخل ہوئے،جیسا کہ خبروں میں ہے پھر آپ نماز پڑھ کے اپنے حجرے میں تشریف لے گئے اور سورج جب بلند ہوا تو آپ نے جان،جان آفرین کے سپرد کی،لوگوں نے ابوبکر کی نماز میں امامت کو ان کی خلافت کے لئے دلیل قرار دیا اور کہنے لگے کہ تم میں سے س کا نفس اتنا پاک ہے کہ جسے نبی ؐ خود نماز میں دو قدم آگے بڑھادیں،ان کا یہ کہنا ہے کہ نبی ؐ ،ابوبکر کو امامت سے ہٹانے کے لئے نہیں نکلے تھے بلکہ نبی ؐ نماز کی پابندی دکھانا چاہتے تھے کہ جتنا ممکن ہو انسان خود کو نبی ؐ ہی کی طرح پابند رکھے ۔ بہرحال اس بنیاد پر ابوبکر کی بیعت ہوگئی،حالانکہ مولائے کائنات ؑ کا کہنا ہے کہ یہ سازش عائشہ کی تھی،علی ؑ اس بات کا ذکر اپنے اصحاب سے اکثر کیا کرتے تھے،علی ؑ کا کہنا تھا کہ حضور ؐ نے اپنی عورتوں کو صواحب یوسف سے مشابہ اس لئے بنایا تھا کہ آپ ان کی اس سازش کی نشان دہی کرنا چاہتے تھے اور آپ ابوبکر کی امامت سے غضبناک تھے،اس لئے کہ عائشہ اور حفصہ دونوں نے اپنے اپنے باپ کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رکھی تھی اور علی ؑ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خلافت ابوبکر سے انکار جو محسوس کیا اس کی وجہ تھی آپ کا اپنے حجرے سے نکلنا اور محراب سے ابوبکر کو ہٹانا،بہرحال اس کا کوئی اثر نہیں ہوا خلافت علی ؑ کو نہیں ملی،اس کی وجہ عائشہ کی سازش کامیاب ہوئی،علی ؑ کی خلافت سے محرومی،علی ؑ کے لئے سب سے عظیم مصیبت بلکہ حادثہ فاجعہ کا درجہ رکھتی تھی اور اس مصیبت کا سب علی ؑ کی نظر میں سوائے عائشہ کے کوئی نہیں تھا،اس واقعہ کا لگاؤ صرف عائشہ سےھا اس لئے علی ؑ اپنی تنہایوں میں اور اپنے خاص لوگوں کے درمیان عائشہ پر بدعا کرتے رہتے تھے اور اللہ سے عائشہ کے اس ظلم کی شکایت کرتے رہتے تھے ۔

۳۲۴

ابن ابی الحدید کہتے ہیں میں نے اپنے استاد سے عرض کیا کہ کیا آپ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ابوبکر کو عائشہ نے نماز کے لئے معین کیا تھا؟پیغمبر ؐ نے نہیں؟انھوں نے کہا:میں تو نہیں کتا لیکن علی ؑ کہتے ہیں اور میری تکلیف ان کی تکلیف سے الگ ہے،علی ؑ وہاں موجود تھے،وہاں موجود نہیں تھا،میرے پاس تو دلیل کے طور پر صرف وہ خبریں ہیں جو مجھ تک پہنچی ہیں اور ان خبروں میں یہ ہے کہ پیغمبر ؐ نے ابوبکر کو امامت کے لئے معین کیا تھا لیکن علی ؑ کا نظریہ خبروں کی بنیاد پر نہیں اپنے ذاتی علم کی بنیاد پر ہے یا اس بنیاد پر کہ حالات کا جائزہ لینے علی ؑ کو ظن غالب حاصل ہوا تھا،تو یہ میرے استاد شیخ ابویعقوب کے کلام کا خلاصہ،یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ وہ شیعہ ہرگز نہیں تھے بلکہ بہت بڑے معتزلی تھے،البتہ نظریہ تفصیل میں وہ بغدادی تھے ۔(۱)

میں نے ابن ابی الحدید کا یہ لمبا چوڑا بیان یہاں نقل کردینا اس لئے ضروری سمجھاتا کہ آپ پر یہ واضح ہوجائے کہ((خود حضور ؐ نے ابوبکر کی امامت کے لئے تقدیم کی تھی))یہ روایت متفق علیہ بہرحال نہیں ہے،شیعوں کو تو چھوڑ دیجئے خود اہل سنت کے علما اس بات کے قائل ہیں کہ اس نظریہ سے امیرالمومنین ؑ کو انکار تھا اور آپ عائشہ کی اس سازش سے بہت ناراض تھے،اہل سنت کے علما یہ کہتے ہیں کہ مولائے کائنات ؑ کے خیال کے مطابق عائشہ نے سرکار دو عالم ؐ کی بیماری اور کمزوری سے فائدہ اٹھایا اور ابوبکر کی امامت کے لئے نبی ؐ کی طرف سے جھوٹ کہلایا کہ ابوبکر ہی نماز پڑھادیں مقصد تھا ابوبکر کی خلاف کے لئے زمین ہموار کرنا اور نص کے خلاف جو حرکتیں انجام دی گئیں یہ عمل بھی من جملہ انھیں میں سے تھا،اس کی طرف میں ان سوالوں میں سے چوتھے سوال کے جواب میں اشارہ کرچکا ہوں،جب میں نے عرض کیا تھا کہ قریش نے انصار کو خلافت سے دور رکھنا چاہا اور کامیاب ہوئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) شرح نہج البلاغہ ج: ۹ ص: ۱۹۶ ۔ ۱۹۹

۳۲۵

جب سرکار دو عالم ؐ نماز کے لئے نکلے تو آپ نے کیا کہا؟یہ بھی اختلافی مسئلہ ہے

حضور ؐ نے جب سنا کہ ابوبکر نماز پڑھا رہے ہیں تو آپ سے برداشت نہیں ہوا اور اس شدت سے مرض میں اپنوں کا سہارا لے کے باہر نکل پڑے،لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟اس میں اختلاف ہے ۔

۱ ۔ اہل سنت کی کتابوں میں نماز کی جو روایتیں ملتی ہیں ان میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ابوبکر نماز پڑھا رہے تھے،حضور باہر نکل پڑے،پھر اس کے بعد کیا ہوا؟اس میں شدید اختلاف ہے کیا نبی ؐ نے باہر نکلتے ہی امامت کی باگ ڈ ور خود سنبھال لی اور ابوبکر کو ہٹادیا،پھر آپ نے بیٹھ کے نماز پڑھائی جن میں ابوبکر بھی شامل تھے یا ابوبکر باقی رکھی اور خود آپ نےلوگوں کے ساتھ مل کے ابوبکر کی اقتدا میں نماز پڑھی؟صحیح صورت حال کیا تھی؟اس میں اختلاف ہے،ابن حجر(۱) اور علامہ شوکافی(۲) کہتے ہیں کہ پہلی صورت حال روایتوں کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے ۔

تو اگر پہلی صورت حال زیادہ صحیح ہے یعنی نبی ؐ نے ابوبکر کو ہٹا کے خود امامت کی تو یہ شیعوں کے دعویٰ سے زیادہ مطابق رکھتا ہے اس لئے کہ اگر حضور ؐ نے ابوبکر کو امامت صلوٰۃ(نماز)کے لئے اس لئے بڑھایا تا کہ اس سے خلافت ابوبکر کی طرف اشارہ مراد لیا جائے تو حضور ؐ کا نکلنا اور خود نماز کی امامت کرنا،یہ سب کچھ اس اشارہ کی نفی کرتا ہے یا کم سے کم سرکار ؐ کے اس عمل سے یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ آپ امامت کی غرض سے اس لئے بروقت نکل پڑے تا کہ لوگ ابوبکر کی امامت کو ان کی خلافت کے لئے دلیل نہ بنالیں،لہذا حضور ؐ کے نکلنے کا مقصد شبہہ کا ازالہ تھا،خلافت کی طرف اشارہ تو بہرحال نہیں تھا ۔

یہ الگ بات ہے کہ وقت نے اجازت نہیں دی اور ماحول سازگار نہیں تھا جس کی وجہ سے حضور کو اتنا موقعہ نہیں مل سکا کہ آپ امور کا کما حقّہ تدارک کرسکتے اور شبہہ کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتے،اگر چہ شبہہ کرنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) فتح الباری ج: ۲ ص: ۱۵۵ (۲) نیل الاوطا ج: ۳ ص: ۱۸۴

۳۲۶

روایت کی کچھ کمزوریاں،جو اس روایت کے لئے مصیبت بنی ہوئی ہیں

۲ ۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ روایت اتنی باحال پریشان ہے کہ جس نے بھی اس کہانی کو لکھا ہے اپنے ڈ ھنگ سے لکھا ہے،روایت کے اختلاف ہر عقلمند کے لئے قابل غور ہیں،اس اضطراب کا کچھ حصہ تو پہلے گذرچکا ہے،کچھ علمائے شیعہ نے بیان کیا ہے،کچھ علمائے اہل سنت نے بھی اس طرف توجہ دی ہے تفصیل میں جانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے،اس لئے کہ اس حدیث کے کئی شعبے ہیں اور ہر شعبہ،شبہات و اختلافات کی زد میں ہے ۔

یہ الگ بات ہے کہ بہت سے لوگ جن باتوں سے غافل رہے ہماری نظر وہاں تک پہنچ گئی،ابوبکر عبداللہ بن ابوملیکہ کی حدیث ملاحظہ ہو لکھتے ہیں،جب پیر کا دن آیا تو حضور سرور کائنات ؐ صبح کے وقت سر اقدس پر عصابہ(پٹی)باندھے ہوئے نکلے،ابوبکر لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے تو پیغمبر ؐ مسجد میں داخل ہوئے لوگوں نے آپ ؐ کو راستہ دینا شروع کیا اور ابوبکر کو احساس ہوگیا کہ پیغمبر ؐ مسجد میں داخل ہوچکے ہیں اس لئے کہ لوگ جس انداز سے راستہ دے رہے تھے وہ پیغمبر ؐ کے لئے ہی مخصوص تھا،بہرحال ابوبکر نے محراب سے ہٹ جانا چاہا،نبی نے ابوبکر کی پشت پر ہاتھ رکھا اور فرمایا لوگوں کو نماز پڑھاؤ،پھر آپ ابوبکر کے برابر میں داہنی طرف بیٹھ گئے اور نماز پڑھی ۔

جب آپ ؐ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کے سامنے آئے اور بآواز بلند خطبہ دینے لگے آواز اتنی بلند تھی کہ مسجد کے دروازے تک سنائی دے رہی تھی آپ نے فرمایا((لوگو!آگ بھڑک اٹھی ہے،فتنے اندھری رات کے ٹکڑوں کی طرح بڑھ رہے ہیں،خدا کی قسم میرے ذمہ تمہارا کچھ بھی نہیں ہے،میں نے حلال نہیں کیا مگر اسے جسے قرآن نے حلال کیا اور میں نے حرام نہیں کیا مگر اسے جسے تمہارے لئے قرآن نے حرام کیا))پس جب آپ فارغ ہوئے ۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) تاریخ طبری ج: ۲ ص: ۲۳۱ ،گیارہویں سال کے احداث کے بارے میں،السیرۃ النبویۃ ج: ۶ ص: ۷۱ ،البدءُ و التاریخ ج: ۵ ص: ۶۱

۳۲۷

اب ہم اس موضوع پر تو بحث کرنا نہیں چاہتے کہ ابوبکر نے نبی ؐ کو نماز پڑھائی اس لئے کہ یہ بات اہل سنت کے نزدیک ممتنع نہیں ہے ہم تو اس جگہ نبی ؐ کے خطبہ کی طرف آپ کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں،آپ محسوس کر رہے ہیں کہ نبی ؐ نے نماز کے بعد جو خطبہ دیا اس کے لہجہ میں کتنی سختی ہے؟آپ امت کو بتا رہے ہیں کہ فتنے اور انقلاب کے لئے ماحول تیار ہوچکا ہے،آگ لہک چکی ہے ایسا لگتا ہے کہ ابھی ابھی اجو واقعہ ہوا ہے اس سے نبی ؐ کو بہت رنج پہنچا ہے،اس لئے کہ آپ نے حلال قرآن کو حلال اور حرام قرآن کو حرام کیا تھا ۔

اگر حضور ؐ نے ابوبکر کو امامت کا حکم اس نیت سے دیا تھا کہ لوگ اس سے ابوبکر کی خلافت کی طرف اشارہ سمجھیں تو پھر فتنہ اور انقلاب کی کیا بات تھی،کام تو آپ کے حکم کے مطابق ہی ہوا تھا اور چونکہ آپ کا ارادہ ہے تو ابوبکر کی امامت قرآن کے موافق ہوئی تھی،اس سے امت فتنوں سے محفوظ رہتی اس لئے کہ کام قرآن کے مطابق ہو رہا تھا،پھر آپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ آگ بھڑک گئی ہے،آپ کو تہدید و تشدید بھی نہیں کرنی چاہئے تھی،البتہ شیعوں کے نظریوں کے مطابق آپ ؐ کی تہدید اور فتنوں سے تخویف و غیرہ بالکل صحیح تھی،سرکار دو عالم ؐ بالکل صحیح فرما رہے تھے ۔

(سازش کی آگ عائشہ کی طرف سے بھڑکی اور ابوبکر کی امامت کا فتنہ بلند ہوا اور پھر رات کی سیاہی کی طرح تاریکی کے تین ٹکڑے پے در پے آگے بڑھے ۔ )

اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ حضور ؐ نے اپنے آخری خطبہ میں فتنہ سے مراد اہل ردہ کو لیا تھا تو یہ بات ماننے کے قابل نہیں ہے،اس لئے کہ ارتداد تو نبی ؐ کے بعد ہوا تھا اس کی وجہ سےنبی ؐ کا رنجیدہ ہونا ممکن ہی نہیں تھا پھر اسے فتنہ کہہ کے ماضی کے صیغے سے تعبیر کرنا اور اپنے خطبے میں شامل کرنا مناسب نہٰیں تھا،اس لئے حضور ؐ اپنے خطبے میں حلال و حرام کے لئے قرآن کے حوالہ سے بات کررہے ہیں،اگر اہل ردہ مراد تھے تو اہل ردہ انھیں کہا ہی جاتا ہے جو قرآن سے پھر گئے ہیں اور قرآن کو نہیں مانتے،پھر حضور اکرم ؐ ان کے لئے مقام استدلال میں قرآن کو کیوں لاتے ۔

میں نے یہ باتیں اس لئے عرض کردیں،تا کہ کوئی ہمیں ان باتوں سے غافل نہ سمجھے،اگر چہ آپ

۳۲۸

کے سوال کا جواب ان باتوں پر موقوف نہٰیں ہے،سب سے اہم بات جس کو ہم ثابت کرنا چاہتے تھے وہ یہ کہ اس بات پر اتفاق نہیں ہے کہ نبی ؐ نے ابوبکر کو امامت کا حکم دیا تھا اور ہم یہ بات ثابت کرچکے ہیں،میں نے پہلے سوال کے جواب میں بھی عرض کیا تھا کہ لوگوں نے سنت پیغمبر ؐ کو توڑ مروڑ کے اہلبیت ؑ کے خلاف پیش کیا ہے،تا کہ دشمنان و مخالفین اہل بیت ؑ کو صحیح ٹھہرایا جائے اور اہل بیت ؑ کا حق غصب کیا جائے،آپ پہلے سوال کا جواب دوبارہ ملاحظہ فرمائیں ۔

نہ داستان نماز،ابوبکر کی خلافت پر نص ہے اور نہ ہی اصحاب نے اسے بیعت ابوبکر کے لئے لازم سمجھا

دوسری بات یہ ہے کہ حادث صلوٰۃ چاہے جیسے بھی واقع ہوا ہو خلافت ابوبکر پر نص بہرحال نہیں ہے،اس لئے کہ جمہور اہل سنت بالاتفاق اس بات کے قائل ہیں کہ پیغمبر ؐ نے اپنے بعد کے لئے کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہا،زیادہ سے زیادہ اس بات کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ یہ اقدام ابوبکر کی بیعت کی طرف محض ایک اشارہ تھا،آپ نے اپنے سوال میں بھی یہی بات بیان کی ہے،آپ جانتے ہیں کہ کوئی بھی واقعہ،دیکھنے اور محسوس کرنے والوں کے زاویہ نگاہ کے اختلاف کے ساتھ مختلف نتیجے دے سکتا ہے،اس میں دیکھنے اور محسوس کرنے والوں کے رجحان فکر اور میلان نفس کا زیادہ دخل ہوتا ہے ۔

اب اس واقعہ کی اہمیت آپ اسی سے سمجھ لیں کہ یہ سب کچھ ہونے کے بعد انصار نے دعوائے خلافت کردیا اور خلافت کے لئے سعد بن عبادہ کی بیعت کا مطالبہ کردیا اور ابوبکر نے عمر اور ابوعبیدہ کو خلافت کے لئے پیش کردیا ان کی بیعت کی پیش کش کی پھر مرنے کے وقت جب جادو سر چڑھ کے بولنے لگا تو کہنے لگے:مجھے کسی بات کا افسوس نہیں مگر صرف تین حرکتوں کا،کاش میں نے یہ تینوں کام انجام نہ دیئے ہوتے اور تین کام میں نے نہیں کئے ہیں اے کاش کہ میں نے وہ تین کام انجام دئے ہوتے اور تین چیزوں کے بارے میں پس رسول خدا ؐ سے سوال کرنا چاہتا تھا اب وہ تین کام کہ کاش

۳۲۹

میں انجام نہ دئے ہوتے پہلی بات تو یہ ہے کہ کاش سقیفہ کے دن میں خلافت کا ڈ ھول ابوعبیدہ یا عمر کے گلے میں باندھ دیتا،ان میں سے کوئی ایک امیر ہوتا اور میں وزیر...اور وہ تین چیزیں جن کے بارے میں کاش کہ رسول خدا ؐ سے پوچھ لیا ہو ان میں سے ایک یہ ہے کہ کاش میں پوچھ لیتا کہ آپ کے بعد خلیفہ کون ہوگا تا کہ کوئی خلافت کی اہلیت رکھنے والوں سے نزاع نہ کرنا..(۱) غور کریں کہ اگر ابوبکر امامت صلوٰۃ سے اپنی خلافت کی طرف اشارہ سمجھتے ہوتے تو ہو بے چارے اس گومگو کی کیفیت میں کیوں رہتے؟نہ انھیں پیغمبر ؐ سے سوال کرنے کی خواہش ہوتی،نہ یہ آرزو کہ خلافت کی ڈ ھول ان دونوں میں سے کسی ایک کے گلے میں باندھ دیتے ۔

اسی طرح اگر نماز کے وقت کے حاضرین اسے خلافت ابوبکر کی طرف اشارہ سمجھتے تو امیرالمومنین علی ؑ ،عام بنوہاشم اور خواص صحابہ ابوبکر کی بیعت سے ہرگز کوتاہی نہ کرتے اور آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے ۴،۳ نمبر کے سوالوں کے جواب میں یہ عرض کیا ہے کہ ابوبکر کی بیعت سے مولائے کائنات ؑ اور مہاجرین و انصار کے نمایاں افراد نے صاف طور پر انکار کیا اور بیعت کی بھی تو بہت ہی مکروہ عمل سمجھ کے کی ۔

اور سقیفہ میں جب انصار،سعد بن عبادہ کی طرف اور ابوبکر،عمر و ابوعبیدہ کی بیعت کی طرف مائل تھے،حالانکہ اگر حادثہ صلوٰۃ میں ابوبکر کی خلافت کی طرف اشارہ موجود تھا تو آخر یہ حضرات اس اشارہ سے کیوں منحرف تھے اگر اس لئے کہ ان لوگوں کا یہ عمل محض ارتجالاً اور بے سوچا سمجھا اقدام تھا اور ان کی جنگجو طبعیت کا تقاضا تھا،جس کی وجہ سے صلوٰۃ سے غفلت برتی گئی اور جب وقت آیا تو اسے مقام استدلال میں پیش نہیں کیا گیا،اس کا مطلب ہے کہ اس حادثہ کا ان لوگوں پر کوئی خاص اثر نہیں تھا تو ایسی صورت میں امیرالمومنین ؑ اور آپ جیسے لوگوں کا موقف اس بات کی دلیل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مجمع الزوائد ج:۵ص:۲۰۱۔۲۰۳،الاحادیث المختارۃ،ج:۱ص:۸۹۔۹۰معجم الکبیر ج:۱ص:۶۲،الضعفاء للعقیلی ج:۳ص:۴۲۰۔۴۲۱،میزان الاعتدال ج:۵ص:۱۳۵۔۱۳۶،لسان المیزان ج:۴ص:۱۸۹،تاریخ طبری ج:۲ص:۳۵۳۔۳۵۴،تاریخ دمشق ج:۳۰ص:۴۱۸۔۴۲۰۔۴۲۱۔۴۲۲

۳۳۰

ہے کہ ان حضرات کو بیعت ابوبکر سے اختلاف تھا اور ان کا ہر عمل احتجاج کی راہ میں تھا،جیسا کہ تیسرے اور چوتھے سوال کے جواب سے ظاہر ہے ۔

پھر ابوبکر نے اسی بیماری کے دور میں جو کچھ کہا وہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ حادثہ صلوٰۃ ان کی خلافت پر اشارہ نہیں تھا،جب ابوبکر کو مرتبہ خلافت ملا اور وہ اس تجربہ سے گذرے تو ان کی سمجھ میں بات آگئی کہ خلافت کرنے اور کپڑے بننے میں بہت فرق ہے،خلافت کی ذمہ داریوں کا احساس کر کے اور خود کو نااہل سمجھ ک انھوں نے بہت ہی حسرت و یاس کی حالت میں مذکورہ باتیں کہیں ہیں ۔

گذشتہ تصریحات آپ کے سامنے ہیں،نتیجہ نکالنا آپ کا کام ہے لیکن ان سب باتوں سے جو بات میری سمجھ میں آتی ہے وہ دو حال سے خالی نہیں ہے ۔

۱ ۔ پہلی بات تو یہ ہے ک ابوبکر کو نماز کی امامت کرنے کا حکم پیِغمبر ؐ نے سرے سے دیا ہی نہیں تھا،بلکہ نماز کا معاملہ ایک سازش تھی اور یہ سازش اس طرح رچی گئی تھی کہ لوگوں کو خلافت ابوبکر پر نص جیسی معلوم ہونے لگے،بلکہ ایک طرح سے اس سازش میں نص کی طرف موڑنے کا اشارہ ملفوف تھا ۔

سازش کرنے والی نے ایک کمزور وقت اور وقت کے ایک کمزور لمحے سے فائدہ اٹھانا چاہا تھا تا کہ اس واقعہ کے سہارے اہل بیت ؑ سے حکومت چھین لی جائے اور جب کوئی مخالفت کرے جیسے شیعیان اہل بیت ؑ تو اس واقعہ کو مقام استدلال پیش کردیا جائے ۔

امام جماعت ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس آدمی کے اندر امامت عامّہ کی بھی صلاحیت ہے

۲ ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ سرکار دو عالم ؐ نے ابوبکر کو امامت صلوٰۃ کا حکم دیا تھا تو اس سے بھی آپ کے موقف پر کوئی دلیل قائم نہیں ہوتی،اس لئے کہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ نماز میں امام ہونا اور ہے اور عالم اسلام کی سیاسی،مذہبی اور علمی امامت اور ہے کوئی ضروری نہیں کہ مسجد کے

۳۳۱

امام کے اندر امت کی امامت کی صلاحت بھی موجود ہو ۔ تاریخ سے پوچھیئےمجب عمر زخمی ہوئے تو عبدالرحمٰن بن عوف نے امامت نماز کے فرائض انجام دیئے(۱) خود عمر نے صھیب کو حکم دیا تھا کہ ان کے ہلاک ہونے کے بعد جب تک شوریٰ میں خلیفہ معین نہ ہوجائے(۲) ( اور اس کی مدت تین دن تھی)اس وقت تک صھیب نماز پڑھاتے رہیں،اسی طرح جب مولائے کائنات ؐ مسجد کوفہ میں ابن ملجم ملعون کے ہاتھوں زخمی ہوئے تو آپ نے جعدہ بن ہبیرہ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا ۔(۳)

اب اگر کوئی یہ کہے کہ اسی امامت صلوٰۃ کی وجہ سے عمر نے ابوبکر کو آگے بڑھایا اور ان کی بیعت کی پیشکش کی تو میں عرض کروں گا کہ...

۱ ۔ عمر نے اس امامت صلوٰۃ کی وجہ سے ابوبکر کو ّگے نہیں بڑھایا تھا،نہ اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ نبی ؐ نے ہی ان کو آگے بڑھایا ہے،اس لئے ہم انھیں امام مانتے ہیں اور نہ وہ اس بات کے دعویدار تھے کہ نبی ؐ کا ابوبکر کو امام بنانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے اندر امامت عامّہ کی اہلیت بھی ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عمر کی نظر میں نماز کی امامت ابوبکر کی ایک فضیلت تھی اس لئے انھوں نے ابوبکر کو آگے بڑھادیا،جیسے وہ اس بات کے قائل تھے کہ(اگر میں ابوعبیدہ جراح کو پاتا تو انھیں اپنے بعد خلیفہ بناتا،پھر جب اپنے رب کے پاس جاتا اور میرا رب مجھ سے پوچھتا کہ امت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) صحیح بخاری ج: ۳ ص: ۱۳۵۴ ،صحیح ابن حبان ج: ۱۴ ص: ۱۹۳ ،المستدرک علی صحیحین ج: ۳ ص: ۹۷ ،سنن کبریٰ بیقھی ج: ۳ ص: ۱۱۳ ،المصنف لابن ابی شیبۃ ج: ۱ ص: ۴۰۶ ،مسند ابی یعلی ج: ۵ ص: ۱۱۶ ،حلیۃ الاولیاء ج: ۴ ص: ۱۵۱ ،کتاب الآثار:ص: ۱۴۷ الثقات ج: ۲ ص: ۲۳۸ ،طبقات الکبریٰ ج: ۳ ص: ۳۳۷ ،نیل الاوطار ج: ۶ ص: ۱۵۸ ،موارد الظمان ص: ۵۳۷ ،مجمع الزوائد ج: ۹ ص: ۷۶ مسند الحارث ج: ۲ ص: ۶۲۲)

( ۲) صحیح ابن حبان ج: ۱۵ ص: ۳۳۳ ،المصنف لابن ابی شیبۃ ج: ۷ ص: ۴۳۷ ،مجمع الزوائد ج: ۵ ص: ۱۹۵ طبقات الکبریٰ ج: ۳ ص: ۶۱ ،ج: ۳ ص: ۳۴۱ ،فتح الباری ج: ۷ ص: ۶۸ سیرہ اعلام نبلاء ج: ۲ ص: ۲۶)

( ۳) الاستیعاب ج: ۳ ص: ۱۱۲۵ ،حضرت علیؑ کی سوانح حیات میں،مجمع الزوائد ج: ۹ ص: ۱۴۱ ،باب مناقب علی بن ابی طالبؑ،کتاب مناقب،معجم الکبیر ج: ۱ ص: ۹۹ ،علی بن ابی طالب حالات میں،نظم دررالمسطین ص: ۱۴۱ مناقب للخوارزمی ص: ۳۸۳ ،المنتظم ج: ۵ ص: ۱۷۳ کامل فی التاریخ ج: ۳ ص: ۲۵۶ ،ذخائز العقبی فی مناقب القربیٰ ج: ۱ ص: ۱۱۴

۳۳۲

ؐ محمد کی خلافت کس کے حوالے کر کے آئے تو میں کہتا کہ میں نے تیرے بندے اور خلیل سے یہ سنا تھا کہ ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین ابوعبیدہ جراح ہے)(۱) تو جس طرح عمر،ابوعبیدہ کے اندر فضیلت کے قائل تھے کہ انھیں پیغمبر ؐ نے امامت صلوٰۃ سونپی تھی،بشرطیکہ ایسا ہوا ہو،عمر تو یہ بھی کہتے تھے کہ((اگر میں ابوحذیفہ کے غلام کو پاتا تو اسی کو خلیفہ بنادیتا اور اپنے مالک سے جا کے کہتا کہ تیرے نبی ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ سالم اللہ سے شدید محبت کرنے والا ہے(۲) اور عمر یہ بھی کہتے تھے کہ میں معاذ بن جبل کو پاتا تو اسے خلیفہ بنادیتا اور جب میرا مالک پوچھتا تو میں کہتا کہ تیرے حبیب کو یہ کہتے سنا تھا کہ جب علما قیامت کے دن اپنے پروردگار کے حضور میں حاضر ہوں گے تو معاذ بن جبل ان کے درمیان ایک بلند چٹان کی طرح ہوں گے ۔(۳)

۲ ۔ دوسری بات یہ ہے کہ عمر نے یہ دیکھا کہ حادثہ صلوٰۃ ان کے ہدف کو ثابت کرتا ہے اس لئے حادثہ صلوٰۃ کو توڑ مروڑ کے پیش کیا اور کمزور لمحون کا فائدہ اٹھا کے اپنے عمل کو ایک شرعی حیثیت دیدی،حالانکہ ابوبکر کی بیعت کا عمل خود ان کے کہنے کے مطابق ایک لغزش تھی لیکن عمر نے موقعہ سے خوب فائدہ اٹھایا اور کسی وضاحت کے طلب کرنے یا رد و تردید کرنے کا کوئی موقع ہی نہیں دیا،نہ کسی کو اس بات کا موقعہ دیا کہ وہ اس حادثہ کے مدلول حقیقی پر روشنی ڈ ال سکے ۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سیاست کے مداری اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے اور اپنے مختلف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مسند الشیاشیی ج:۲ص:۹۳،مناقب ابی عبید اور اسکے علاوہ،مسند احمد ج:۱ص:۱۸،مسند عمر بن خطاب میں،فتح الباری ج:۱۳ص:۱۱۹،تحفۃ الاحوذی ج:۶ص:۳۹۹،فیض القدیر ج:۳ص:۱۹۰سیر اعلام نبلاء،ج:۱ص:۳۷۲،خالد بن ولید کے حالات میں،صفوۃ الصفوۃ ج:۱ص:۳۶۷،تاریخ طبری ج:۲ص:۵۸۰،تاریخ دمشق ج:۵۸ص:۴۰۵،معاذ بن جبل کے حالات میں،مستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۳۰۰،کتاب معرفۃ صحابہ ابی عبیدہ بن جراح کے مناقب میں،طبقات الکبریٰ ج:۳ص:۴۱۳،ابی عبیدہ بن جراح کے حالات میں،فضائل الصحابہ لابن حنبل ج:۲ص:۷۴۲،اور تاریخ دمشق ج:۲۵ص:۴۶۱،عامر بن عبداللہ بن جراح کے حالات میں۔

(۲)اس کا مدرک چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے

(۳)اس کا مدرک چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے

۳۳۳

اہداف تک پہنچنےکے لئے ایسے ہی لمحے کی تلاش میں رہتے ہیں(بیتو کا کام کرتے ہیں)موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں،وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہیں اور بیوقف عوام کو دھوکا دینے کے لئے بےہودہ استدلال اور بلاوجہ کی لفاظی سے فائدہ اٹھاتے ہیں ان کی دلیلیں جیسے صحرا میں سراب،جسے پیاسا پانی سمجھتا ہے لیکن جب وہاں پہنچتا ہے تو کچھ بھی نہیں پاتا بلکہ وہاں خود اللہ موجود رہتا ہے اور اس کا پورا پورا حساب کردیتا ہے،(۱) اگر عمر نے ابوبکر کے لئے امامت صلوٰۃ کو دلیل خلافت بنا کے پیش کیا بھی تو یہ محض وقت کی آواز تھی ورنہ عمر،پیغمبر ؐ کے مرض کی حالت میں آپ کے ارشادات کی طرف کب دھیاں دینے والے تھے ۔

عمر نے ارشادات نبوی ؐ کا بھی احترام نہیں کیا خاص طور سے سرکار دو عالم ؐ نے بیماری کی حالت میں جو ہدایتیں دیں،عمر کی نظر میں ان کی کوئی اہمیت نہیں تھی آپ کہتے ہیں کہ حالت مرض میں نبی ؐ نے ابوبکر کو امامت نماز کا حکم دیا،عمر نے اس حکم کو خلافت ابوبکر کی دلیل بنا کے پیش کیا تو میں عرض کرتا ہوں کہ تعجب ہے عمر نے بیمار پیغمبر ؐ کو اتنی اہمیت کیسے دی؟

یہ واقعہ دوشنبہ کا ہے،ابھی چار دن قبل یعنی پنجشنبہ کے دن سرکار دو عالم ؐ حالت بیماری میں یہ فرما رہے تھے کہ:((قلم اور دوات لاؤ میں ایسی تحریر لکھ دوں کہ میرے بعد تم لوگ کبھی گمراہ نہ ہوگے))ادھر عمر اور حامیان عمر آپ کے قول کو رد کررہے تھے،عمر نے کہا آپ(معاذ اللہ)ہزیان بک رہے ہیں،پھر کہا کہ آپ پر درد کا غلبہ ہے،ہمارے لئے کتاب خدا کافی ہے یہ تمام باتیں دوسرے سوال کے جواب میں عرض کی جاچکی ہیں ۔

اس حدیث قرطاس کے بعد حادثہ صلوٰۃ سامنے آتا ہے،بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نبی ؐ کی وفات کے دن کا حادثہ ہے یعنی دوشنبہ کے دن کا ۔

اب تو مرض مزید بڑھ گیا ہوگا لیکن عمر نے نہیں کہا کہ حضور نے درد سے گھبرا کے ایسا حکم دیا ہوگا ذرا سونچئے گا کہ یہ سب کیوں ہورہا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ نور آیت:۳۹

۳۳۴

عمر نے خلافت کے بارے میں جب بھی گفتگو کی حادثہ صلوٰۃ کا ذکر بالکل نہیں کیا

لطف کی بات تو یہ ہے کہ سقیفہ کے بعد مر نے ابن عباس سے کئی دفعہ گفتگو کی،سقیفہ کی خوبیاں گنائیں،ابوبکر کی بیعت کو جائز قرار دیا،اپنے داماد کی بھرپور پیروی کی،بہت سی توجیہات پیش کیں،لیکن کبھی یہ نہیں کہا کہ ابوبکر کی بیعت اس لئے ضروری تھی کہ انھوں نے نبیؐ کے حکم سے ایک دن نماز جماعت کی امامت کی تھی،انھوں نے مولیٰ علیؑ کو خلافت سے محروم رکھنے کے لئے مکڑی کی طرح جالے بنے،جیسے یہ کہا کہ علیؑ خلافت کے لئے مناسب نہیں تھے اس لئے کہ وہ بہت کمسب تھے،اس لئے کہ وہ بنی عبدالمطلب سے محبت کرتے تھے،اس لئے کہ قریش کو یہ گوارہ نہ تھا کہ خاندان بنی ہاشم میں نبوت و خلافت(دونوں)جمع ہو و غیرہ..یہ بھی کہا کہ ابوبکر کی بیعت اچانک ایک حادثہ تھی اور یہ عرض کیا جاچکا ہے کہ فلتہ کا مطلب کم سے کم یہ ہوتا ہے کہ کسی کام کا بغیر مشورے کے اچانک ہوجانا،لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ بیعت میں جلد بازی فتنہ کے خوف سے کی گئی(۱)

بہرحال اگر حادثہ صلوٰۃ اس قابل ہوتا کہ اسے مقام احتجاج میں پیش کیا جاسکے تو پھر کوئی تو کہتا،بلکہ سب سے پہلے اس کو پیش کیا جاتا کہ خلافت ابوبکر پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ حضورؐ نے ان کو امامت کا حکم دیا ہے۔ان تمام باتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس حادثہ کو صرف سقیفہ کے دن ہی پکڑے رہنا اور اس کو دلیل بنانا اصل میں مدلول حقیقی سے نگاہیں پھیرنے کی اور حقیقت حق سے باطل کی طرف موڑنے کی ایک کوشش تھی۔تیسری بات یہ ہے کہ مدعی کے لئے اپنے دعوے پر اس طرح کی کمزور دلیلیں لانا جو اشارے کنائے پر مشتمل ہو،منطق کا تقاضہ نہیں ہےجب کہ اس کے مخالف کے پاس اس طرح کی کمزور دلیلوں کو توڑنےکے لئے وافر مقدار میں مواد موجود ہیں،یہاں تو واضح دلیلیں اور روشن حجتیں پیش کرنے کی ضرورت ہے،جو مخالف کو لاجواب کردے اس دلیل کو توڑنے کے لئے شیعوں کے پاس تو اتنا مواد ہے کہ اس کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں ہے،لیکن میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ حادثہ صلوٰۃ کا تقابل ان واقعات سے ضرور کیا جائےجو امیرالمومنینؑ کے حق میں جاتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)ریاض النضرۃ،ج:۲ص:۲۰۶،پہلا باب رسول اللہ کے خلیفہ ابوبکر کے فضائل کے بیان میں،فصل ۱۳،خلافت کے بیان میں اور جو چیز صحابہ سے متعلق ہے،سقیفہ کی بیعت کو ذکر کیا اور جو اس میں پیش آیا۔

۳۳۵

ایک تقابلی مطالعہ

میں صاحبان انصاف سے صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا حادثہ صلوٰۃ کی دلیل(جو ابوبکر کی خلافت کے حق میں ان کے قول کے مطابق ہے)ان روایتوں کے مقابلے میں کچھ دیر بھی ٹھہرسکے گی،جن روایتوں سے نبی کا امیرالمومنین ؑ سے اختصاص اور قربت مستفاد ہوتی ہے،احادثہ صلوٰۃ کی دلیل ان تمام روایتوں سے قوی تر ہے؟کیا تاریخ یہ نہیں بتاتی کہ علی ؑ نبی ؐ کے اخص تھے؟نبی ؐ کی زندگی میں اور نبی ؐ کے مرنے کے بعد بھی ان کے تمام امور کے ذمہ دار علی ؑ ہی تھے؟یہاں تک کہ آپ ہی نے نبی ؐ کی تجہیز و تکفین کی اور انھیں قبر میں اتارا،نبی ؐ نے تمام صحابہ کے درمیان علی ؑ کو یہ خصوصیت دی کہ آپ کو اپنا بھائی بتایا اور صی ٖ ہ مواخاۃ جاری کیا(۱) نبی ؐ نے خدا کے حکم سے اپنی صاحبزادی فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا کا عقد حضرت علی ؑ سے کیا ۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) المستدرک علی صحیحین،ج: ۳ ص: ۱۶ ۔ ۱۵ ،کتاب الھجرۃ،سنن ترمذی ج: ۵ ص: ۶۳۶ ،کتاب مناقب،علل دارقطنی،ج: ۹ ص ۲۰۵ ،الطبقات الکبریٰ ج: ۳ ص: ۲۲ ،علی ابن ابی طالبؑ کے حالات میں،فضائل صحابہ،ابن حنبل،ج: ۲ ص: ۵۹۷ ،فضائل علیؑ ص: ۶۱۷ ،البدایۃ النھایۃ ج: ۷ ص: ۳۵،۲۲۴ سنہکے حالات میں جس میں عثمان کے قتل کا بھی تذکرہ ہے اور امیرالمومنین علیؑ کی خلافت کا ذکر بھی ہے،تاریخ الخلفا ص: ۱۷۰ ،السیرۃ النبویۃ،ج: ۳ ص: ۳۶ ،مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارگی،تاریخ دمشق ج: ۴۲ ،ص: ۹۶ ۔ ۶۱ ۔ ۵۳ ۔ ۵۲ ۔ ۵۱ ۔ ۱۸ ،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،تہذیب الاسما ص: ۳۱۸ ،فیض القدیر،ج: ۴ ص: ۳۵۵ ،الریاض النضرۃ ج: ۱ ص: ۲۰۵ ،التدوین فی اخبار قزوین ج: ۲ ص: ۱۲۶ ،تحفۃ الاحوزی،ج: ۱۰ ص: ۱۵۲ ،تہذیب الکمال ج: ۲ ص: ۴۸۴ ،

( ۲) مجمع الزوائد ج: ۹ ص: ۲۰۴ ،کتاب مناقب باب فاطمہ بنت رسول اللہؐ،المعجم الکبیر ج: ۱۰ ص: ۱۵۶ ،عبداللہ بن مسعود کی مسند میں،ج: ۲۲ ص: ۴۰۷ ،فاطمہ صلوٰۃ اللہ علیھا کی عمر،اور ان کی شہادت،مناقب اور کنیت و غیرہ کا ذکر،اور جناب فاطمہ کی شادی کا ذکر،تاریخ دمشق ج: ۳۷ ص: ۱۳ ،عبدالملک بن حبار کے حالات میں،ج: ۴۲ ،ص: ۱۲۶ ۔ ۱۲۹ ،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،ج: ۵۲ ،ص: ۴۴۵ ۔ ۴۴۴ ،محمد بن دینا عرقی کے حالات میں،کنزالعمال ج: ۱۱ ص: ۶۰۰ ،حدیث: ۳۲۸۹۱ ،ص: ۶۰۶ ،حدیث: ۳۲۹۲۹ ،البیان و التعریف،ج: ۱ ص: ۱۷۴ ،ج: ۲ ص: ۳۰۱ ،میزان الاعتدال ج: ۴ ص: ۴۲۲ ،عبدالنور بن عبداللہ المسمعی کے حالات میں،لسان المیزان ج: ۴ ص: ۷۷ عبدالنور عبداللہ مسمعی کے حالات میں،الکشف الحثیث،ص: ۱۷۴ ،عبدالنور عبداللہ مسمعی کے حالات میں،

۳۳۶

اور حضرت علی ؑ ہی آپ کی ذیرت کے باپ قرار پائے ۔(۱)

نبی ؐ نے مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازوں کو بند کرادیا سوائے علی ؑ کے گھر کے دروازہ کے ۔(۲) اس سے پتہ چلا کہ جو علی ؑ کے لئے حلال ہے وہ نبی ؐ کے لئے حلال ہے ۔(۳) فاطمہ زہرا ؐ اور آپ کے دونوں صحاب زادے امام حسن ؑ و امام حسین ؑ ہیں(۴) جن سے اللہ نے رجس کو دور رکھا ہے اور ایسا پاک کیا ہے جیسا پاک کرنے کا حق ہے اور نبی ؐ نے فرمایا کہ((اہل بیت ؑ کی مثال سفینہ نوح ؑ جیسی ہے،جو اس پر سوار ہوا وہ نجات پاگیا اور جو اس سے منھ موڑے گا وہ غرق ہوگا اور ہلاک ہوجائے گا ۔(۵)

پھر نبی ؐ نے یہ نص فرمائی کہ((اہل بیت ؑ سے مراد امیرالمومنین علی ؑ ،آپ کی شریک حیات اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) مجمع الزوائد ج: ۹ ص: ۱۷۲ ،کتاب مناقب فاطمہ زہراؐ کے فضائل کا باب میں،اور آپ کی علیؑ سے شادی کے باب میں،معجم الکبیر ج: ۳ ص: ۴۳ ،جامع الصغیر ج: ۱ ص: ۲۶۲ ،فردوس ماثور الخطاب ج: ۱ ص: ۱۷۲ ،فیض القدیر ج: ۲ ص: ۲۳۳ ،کنز العمال ج: ۱۱ ص: ۶۰۰ حدیث: ۳۲۸۹۲ ،تاریخ دمشق ج: ۴۲ ص: ۲۵۹ ،تاریخ بغداد ج: ۱ ص: ۳۱۷ ،ینابیع المودۃ ج: ۲ ص: ۹۰ ۔ ۲۳۷ ۔ ۲۹۲ ۔ ۲۴۵ ۔ ۳۹۹ ۔ ۴۴۷ ،میزان الاعتدال ج: ۴ ص: ۳۱۳ ،ض: ۷ ص: ۲۰۷ ،لسان المیزان ج: ۳ ص: ۴۲۹ ،علل متناہیہ ج: ۱ ص: ۲۱۴ ،کشف الخفاء ج: ۲ ص: ۱۵۷ ،نیل الاوطار ج: ۶ ص: ۱۳۹)

( ۲) السنن الکبریٰ،نسائی ج: ۵ کتاب الخصائص،امیرالمومنین علی بن ابی طالبؑ کی خصوصیات،ص: ۱۱۳ ،اس سلسلے میں عمران بن حصین کی خبر کا تذکرہ،ص: ۱۱۹ ۔ ۱۱۸ ،رسول اکرمؐ کا بیان کہ میں علی کے دروازہ کے علاوہ سارے دروازوں کے بند کرنے کا حکم دیا ہے،سنن ترمذی ج: ۵ ص: ۶۴۱ ،المستدرک علی صحیحین ج: ۳ ص: ۱۳۵ ،مسند احمد بن حنبل ج: ۱ ص: ۱۷۵ ،مسند ابی اسحاق سعد بن وقاص،ص: ۳۳۰ ،معتصر المختصر ج: ۲ ص: ۳۳۲ ،مجمع الزوائد ج: ۹ ،ص: ۱۱۵ ۔ ۱۱۴ ،مسند رویانی ج: ۱ ص: ۲۷۷ ،مسند ابی یعلی ج: ۲ ص: ۶۱ ،مسند سعد بن ابی وقاص،ابن ابی عاصم کی سنت کے عنوان سے،ج: ۲ ص: ۶۰۳ ۔ ۵۹۹ ،باب فضائل علیؑ کا تذکرہ،فتح الباری ج: ۷ ص: ۱۴ ،تفسیر قرطبی،ج: ۵ ص: ۲۰۸ ،

( ۳) تاریخ دمشق ج: ۴۲ ص: ۱۴۰ ۔ ۱۳۹ مسند الشاشیی ج: ۱ ص: ۱۴۶ ،میزان الاعتدال ج: ۲ ص: ۲۱۰ ،لسان میزان ج: ۲ ص: ۱۸۲ ،مناقب الخوارزمی ص: ۱۰۹ ،ینابیع المودۃ ج: ۱ ص: ۱۶۰ ،تاریخ المدینۃ ج: ۱ ص: ۳۸

( ۴) صحیح ابن حبان ج: ۱۵ ص: ۴۳۲ ،کتاب اخبار،مناقب صحابہ،السنن الکبری للنسائی ج: ۵ ص: ۱۰۷ ،کتاب خصائص،امیرالمومنین علی بن ابی طالبؑ کی خصوصیات میں،سنن ترمذی ج: ۵ ص: ۳۵۱ ،کتاب فضائل قرآن،المستدرک علی صحیحین ج: ۲ ص: ۴۵۱ ،کتاب تفسیر،تفسیر سورہ احزاب،مسند احمد ج: ۴ ص: ۱۰۷ ،واثلہ بن اسقع کی حدیث میں ج: ۶ ص: ۲۹۲ ،رسول اللہؐ کی بیوی ام سلمہؐ کی حدیث میں،معتصر المختصر ج: ۲ ص: ۲۶۶ ،مجمع الزوائد ج: ۹ ص: ۱۶۷ ،کتاب مناقب،مسند البراز ج: ۶ ص: ۲۱۰ ،المعجم الکبیر ج: ۳ ص: ۵۳ ،اخبار حسن بن علیؑ میں،ج: ۲۵ ص: ۹ ،مسند عمر بن ابی سلمۃ میں،ج: ۲۲ ص: ۶۶ مسند واثل - ( ۵) اس کا مدرک گذشتہ چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے۔

۳۳۷

پھر فرمایا:کہ اہل بیت ؑ ہی ان ثقلین میں سے ایک ثقل ہیں جنھیں نبی ؐ نے اپنی امت کا خلیفہ بنایا ہے،آپ کے سابقہ سوالوں میں چھٹے سوال کے جواب میں اس حدیث پر کافی گفتگو ہوچکی ہے ۔

حضور سرور کائنات ؐ اہل بیت ؑ ہی کو لیکے نصارائے نجران کے مقابلہ میں نکلے(۱) تا کہ معولم ہوجائے کہ یہ حضرات صرف نبی ؐ ہی کے قرابتدار نہیں ہیں بلکہ بارگاہ الٰہی میں بھی اتنے مقرب ہیں کہ ان کی دعا کا اثر ہوتا ہے ۔

اللہ ان کی دعائیں سنتا ہے اور قبول کرتا ہے،یہ بھی ثابت ہوجائے کہ یہ حضرات ہی در حقیقت دعوت اسلام کے ذمہ دار ہیں،اس کی حمایت میں لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس کے عہد کے پابند ہیں ۔

انھیں کے لئے نبی ؐ نے فرمایا:میں اس سے صلح کروں گا جو ان سے صلح کرے گا اور اس سے جنگ کروں گا جو ان سے لڑے گا،(۲) پھر آپ نے امیرالمومنین ؑ کو وصی بنایا اور یہ بات اتنی مشہور ہوئی کہ لوگ امیرالمومنین ؑ کو وصی کے نام سے پہچاننے لگے ۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) صحیح مسلم ج: ۴ ص: ۱۸۷۱ ،کتاب فضائل صحابہ،باب فضائل علی ابن بی طالبؑ میں،المستدرک علی صحیحین ج: ۳ ص: ۱۶۳ ،کتاب معرفت صحابہ،سنن الکبری بیھقی،ج: ۷ ص: ۶۳ ،کتاب قسم الصدقات،مسند احمد ج: ۱ ص: ۱۸۵ ،مسند ابی اسحاق سعد بن ابی وقاص میں مسند سعد ص: ۵۱ ،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،الاصابۃ ج: ۴ ص: ۵۶۹ ،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،معرفت علوم حدیث ص: ۵۰ ،تفسیر طبری ج: ۱ ص: ۳۹۸ ،روح المعانی ج: ۴ ص: ۱۸۸ ،اسباب نزول آیات،ص: ۶۸ ،شواہد التنزیل للحسکانی ج: ۱ ص: ۱۵۶ ۔ ۱۵۹ ۔ ۱۶۳ ۔ ۱۶۴ ،وغیرہ۔

( ۲) اس کا مدرک چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے۔

( ۳) المستدرک علی صحیحین ج: ۳ ص: ۱۸۸ ،مسند ابی یعلی ج: ۴ ص: ۳۴۴ ،مجمع الزوائد ج: ۹ ص: ۱۱۴ ۔ ۱۱۳ ،حلیۃ الاولیاء ج: ۲ ص: ۷۴ ،معجم الکبیر ج: ۶ ص: ۲۲۱ الاصابۃ ج: ۵ ص: ۵۷۶ ،فضائل الصحابہ ج: ۲ ص: ۶۱۵ ،سیرہ اعلام نبلاء ج: ۴ ص: ۱۱۳ ،بقیۃ الکمال ج: ۲۶ ص: ۱۵۱ ،تھذیب التھذیب ج: ۳ ص: ۹۱ ،تاریخ دمشق ج: ۴۲ ص: ۵۳۲ ۔ ۳۹۲ ،تاریخ واسط ص: ۱۵۴ ،تاریخ بغداد ج: ۱۱ ص: ۱۱۲ ،ج:! ۳ ص: ۲۹۸ ،الذریۃ الطاہرہ ص: ۷۴ ،فردوس بما ثور الخطاب ج: ۳ ص: ۳۳۶ ،فتح الباری ج: ۸ ص: ۳۸۷ ج: ۵ ص: ۱۳۹ ،الکامل الضعفا الرجال ج: ۴ ص: ۱۴ ،المجروحین ج: ۱ ص: ۲۷۹ ،بدایۃ النہایہ ج: ۱۳ ص: ۲۵۸ تاریخ طبری ج: ۲ ص: ۶۹۶ ،ج: ۳ ص: ۳۱۹ ،الکامل فی التاریخ ج: ۳ ص: ۴۱۹ ،المعرکۃ ج: ۵ ص: ۱۵۲ ،المنتظم ج: ۱۰ ص: ۱۲۸ ،البدءو التاریخ ج: ۵ ص: ۲۲۵ وفیات الاعیان ج: ۵ ص: ۳۷۹ ،تاریخ یعقوبی ج: ۲ ص: ۱۷۱ فی ایام عثمان بن عفان ص: ۱۷۹ اور خلافت امیرالمومنین میں ص: ۲۲۸

۳۳۸

آنحضرت ؐ نے فرمایا:میرا وصی تمام اوصیا سے بہتر ہے ۔(۱) چوتھے سوال کے جواب میں عرض کیا جاچکا ہے کہ یہاں وصایت سے مراد نبوت کی وصایت ہے مولائے کائنات پیغمبر خدا ؐ کے قرضوں کو ادا کرنے والے ہیں اور نبی ؐ کے وعدوں کو پورا کرنے والے ہیں ۔(۲) اور امت نبی ؐ کے اختلافی مسائل کو حل کرنے والے ہیں،(۳) آپ علم نبی ؐ کے وارث ہیں(۴) اور شہر علم نبی ؐ کے دروازہ ہیں(۵) جس سے داخل ہو کر علم نبی ؐ تک پہنچا جاسکتا ہے،جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے((نیکی یہ نہیں ہے کہ تم گھروں میں پس پشت داخل ہو،بلکہ نیکی یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کرو،گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہوا اور اللہ سے ڈ رو تا کہ تمہارا بھلا ہو)) ۔(۶)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سیرہ ابن اسحاق ج:۲ص:۱۰۵،مجمع الزوائد ج:۹ص:۱۶۵،معجم الاوسط ج:۶ص:۳۲۷معجم الکبیر ج:۳ص:۵۷

(۲)مجمع الزوائد ج:۹ص:۱۱۳ اور باب وصیت میں ص:۱۲۱،احادیث المختار ج:۲ص:۱۳۱فضائل الصحابہ لابن حنبل ج:۲ص:۶۱۵تفسیر ابن کثیر ج:۳ص:۳۵۱،مسند احمد ج:۱ص:۱۱۱،تاریخ دمشق ج:۴۲ص:۴۷۔۴۹۔۵۰۔۵۶۔۴۷۱،الفردوس بما ثور الخطاب ج:۳ص:۶۱،معجم الکبیر ج:۱۲ص:۴۲۰،میزان الاعتدال ج:۶ص:۴۴۶،ج:۷ص:۵الکامل فی الضعفاء الرجال ج:۶ص:۳۹۷،المجروحین،ج:۳ص:۵

(۳)اس کا مدرک چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے۔

(۴)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۳۶،کتاب معرفۃ الصحابہ(صحابیوں کی پہچان،مناقب علی بن ابی طالبؑ،الاحاد و المثانی،ج:۵ص:۱۷۲،زید بن ابی اوفی کے حالات میں،المعجم الکبیر،ج:۵ص:۲۲۱،روایت زید بن ابی اوفی،ریاض النضرہ،ج:۱ص:۱۹۸،پہلا باب،فضائل الصحابہ لابن حنبل،ج:۲ص:۶۶۶۔۶۳۸،فضائل علیؑ تاریخ دمشق ج:۲۱،ص:۴۱۵،سلمان بن اسلام کے حالات میں،ج:۳۲،ص:۵۳،علی بن ابی طالب کے حالات میں،و غیرہ۔

(۵)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۳۸۔۱۳۷،کتاب معرفۃ الصحابۃ،مجمع الزوائد،ج:۹ص:۱۱۴،کتاب مناقب،علی بن ابی طالب ع کے مناقب میں،المعجم الکبیر ج:۱۱ص:۶۵،ابن عباس سے روایت،تذکرۃ الحفاظ ج:۴ص:۱۲۳۱،سمرقندی کے حالات میں،سیر اعلام النبلاء ج:۱۱ص:۴۳۷،ابی صلت کے حالات میں تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۸۳۔۳۸۲۔۳۸۰۔۳۷۹۔۳۷۸،علی بن ابی طالب کے حالات میں،تہذیب التہذیب ج:۷ص:۲۹۶،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،ص:۳۷۴،عمر بن اسماعیل بن مجالد کے حالات میں،تہذیب الکمال ج:۱۸،ص:۷۹۔۷۸۔۷۷،عبدالسلام بن صالح کے حالات میں،ج:۲۰ص:۴۸۵،علی بن ابی طالب کے حالات میں،تاریخ جرجان ص:۶۵،احمد بن سلمۃ بن عمر الکوفی کے حالات میں،تاریخ بغداد ج:۷ص:۱۷۲،جعفر بن محمد ابی جعفر کے حالات میں،ج:۱۱ص:۵۰۔۴۹۔۴۸،عبدالسلام بن صالح بن سلیمان کے حالات میں،کشف الخفاء ص:۲۳۵،الفردوس بما ثور الخطاب ص:۴۴،فیض القدیر ج:۳ص:۴۶،الجرح و التعدیل ج:۶ص:۹۹عمر بن اسماعیل بن مجالد کے حالات میں،و غیرہ۔ (۶)سورہ بقرہ آیت:۱۸۹۔

۳۳۹

علی ؑ ہی امت نبی ؐ کے سب بڑے قاضی ہیں ۔(۱) اور دنیا و آخرت میں آپ کے علمدار ہیں(۲) اور یہ بھی کہ حضور سرور کائنات ؐ نے سورہ برائت کے ابتدائی حصوں کو ابوبکر کے حوالہ کیا کہ وہ جا کر مشرکین کے درمیان سنادیں پھر آپ نے امیرالمومنین ؑ کو بھیجا کہ ابوبکر سے سورہ لے لیں اور پیغِمبر ؐ کی طرف سے مشرکین کے درمیان اس سورہ کو پڑھ کے سنادیں،جب ابوبکر واپس آئے تو نبی ؐ سے پوچھا کہ خدا کے رسول ؐ کیا میرے بارے میں خداوند عالم نے کچھ نازل فرمایا ہے آپ نے فرمایا:نہیں لیکن جبرئیل آئے اور کہا کہ یہ فریضہ کوئی ادا نہیں کرسکتا مگر خود آپ یا پھر وہ جو آپ سے ہو ۔(۳)

اور نبی ؐ نے فرمایا کہ علی ؑ مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں،میری طرف سے واجبات کوئی ادا نہیں کرسکتا مگر علی ؑ(۴) اور فرمایا:اے علی ؑ جو مجھ سے الگ ہوا وہ خدا سے الگ ہوا اور جو تم سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الاستیعاب ج:۱ص:۱۷،فتح الباری ج:۸ص:۱۶۷،المعجم الصغیر ج:۱ص:۳۳۵،کشف الخفا ج:۱ص:۱۸۴،الریاض النضرۃ ج:۱ص:۲۲۸،تیسرا باب،تاریخ دمشق ج:۴۷،ص:۱۱۲،عویمر بن زید بن قیس ابی الدردا کے حالات میں،کنز العمال ج:۱۱ص:۶۴۲،حدیث:۳۳۱۲۱،ینابیع المودۃ ج:۲ص:۱۷۳،و غیرہ

(۲)المعجم الکبیر ج:۲ص:۲۴۷،روایت سماک بن حزب،تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۳۱۔۷۵،علی ابن ابی طالبؑ کے حالات میں،ج:۳۹،ص:۱۰۲،عثمان بن عفان کے حالات میں،الفردوس بما ثور الخطاب ج:۱ص:،کنزالعمال ج:۱۱ص:۶۱۲،حدیث:۳۲۹۶۵،ج:۱۳ص:۱۳۶،حدیث:۳۶۴۳۷،ینابیع المودۃ ج:۲ص:۱۶۷،المناقب للخوارزمی ص:۳۵۸،میزان الاعتدال ج:۷ص:۵،ناصح بن عبداللہ کوفی کے حالات میں،الکامل فی الضعفا الرجال ج:۷ص:۴۷،ناصح بن عبداللہ کے حالات میں و غیرہ

(۳)مجمع الزوائد ج:۷ص:۲۹ المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۵۳،تفسیر ابن کثیر ج:۲ص:۳۳۴،مسند احمد ج:۱ص:۱۵۱،فتح الباری ج:۸ص:۳۲۰۔۳۱۸،تحفۃ الاحوذی ج:۸ص:۳۸۶،فضائل الصحابہ لابن حنبل ج:۲ص:۷۰۳،تاریخ دمشق ج:۴۲ص:۳۴۸،شواہد التنزیل للحسکانی ج:۱ص:۳۱۱،کنز اعمال ج:۲ص:۴۲۲،حدیث:۴۴۰۰

(۴)سنن ترمذی ج:۵ص:۶۳۶،کتاب مناقب،سنن ابن ماجۃ ج:۱ص:۴۴،علی بن ابی طالبؑ کے فضائل میں،سنن کبریٰ نسائی ج:۵ص:۴۵،ابوبکر و عمر و عثمان کے فضائل میں،مسند احمد ج:۴ص:۱۶۵،الاحاد و المثانی ج:۳ص:۱۸۳،المعجم الکبیر ج:۴ص:۱۶،حبشی بن جنادہ سلولی کی روایت السنۃ لابن ابی عاصم ج:۲ص:۵۶۶۔۵۹۸،تذکرۃ الحفاظ،ج:۲ص:۴۵۵،کشف الخفا ج:۱ص:۲۳۶،تہذیب السما ج:۱ص:۳۱۸،فضائل الصحابۃ لابن حنبل ج:۲ص:۵۹۹،سیر اعلام النبلا ج:۸ص:۲۱۲،تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۴۵،علی بن ابی طالب کے حالات میں،و غیرہ

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367