فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ15%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206498 / ڈاؤنلوڈ: 6000
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ہونے کے باوجود باقی مباحث کلامی کی بہ نسبت مشکل اور پیچیدہ ہے لہٰذا قیامت کی مباحث میں بہت سے ایسے مسائل بھی ہیں کہ جن کی توضیح اور درک کرنا ہر عام و خاص کی بساط سے باہر ہے کہ انھیں میں سے ایک نامہئ اعمال ہے اگر چہ نامہئ اعمال کا مسئلہ اہم ترین مسئلہ بھی ہے کیونکہ بہت سی روایتیں اور آیات کی روشنی میں معلوم ہوتاہے کہ انسان کے تمام اعمال قیامت کے دن مجسم ہوکر حاضر ہوں گے نیز جن اعضاء و جوارح وہ اعمال انجام دئے گئے وہی اعضاء اسی پر گواہی دیتا ہے لہٰذا اس طرح کی باتیں نامہئ اعمال کے متعلق روایات اور آیات میں زیادہ ہیں اور اعمال کی حقیقت اور کیفیت کو درک کرنا انسان کی قدرت سے باہر ہے اگرچہ محقق ہی کیوں نہ ہو لہٰذا بوعلی سینا کا یہ قول ہے کہ میری تحقیقات معاد جسمانی کو ثابت کرنے سے قاصر رہی۔

لیکن میرا مولا امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے لہٰذا میں سر تسلیم خم کرتا ہوں۔اور نامہئ اعمال کی اتنی اہمیت ہے کہ جنت اور جہنم کا فیصلہ ہی نامہئ اعمال کا نتیجہ ہے گویا مباحث معاد میں نامہئ اعمال کو ہی مرکزیت حاصل ہے لیکن اس کی حقیقت اور ماہیت روشن کرنا اس کتاب کی گنجائش سے خارج ہے لہٰذا مختصر یہ ہے کہ قیامت کے دن نامہئ اعمال یا دائیں ہاتھ یا بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ نامہئ اعمال جس ہاتھ میں دیا جائے کیا فرق پڑتا ہے؟ اس سوال کا جواب محققین دے چکے ہیں لیکن پھر بھی ایک اشارہ لازم ہے کہ نامہئ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جنّتی ہے اور اس کے سارے اعمال قبول ہونے کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ ابدی زندگی آباد ہونے پر بھی دلیل ہے اسی طرح نامہئ اعمال بائیں ہاتھ میں دینے کا مطلب بھی واضح ہے کہ خدا کی نظر میں اعمال قابل قبول نہ ہونے کی علامت ہے اسی لئے آئمہ معصومین علہیم السلام سے منقول بہت سی دعاؤں میں اس طرح کے جملات مذکور ہیں۔ کہ پالنے والے! روز قیامت میرا نامہئ اعمال دائیں ہاتھ میں لینے کی توفیق دے لہٰذا قیامت کے دن جن لوگوں کا نامہئ اعمال جب دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ لوگ خوش اور ان کے چہرے نور سے منور ہونگے لیکن جن لوگوں کے نامہئ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائیگا وہ خدا سے التجاء کریں گے:

۱۲۱

اے خدا وند کاش میرے نامہئ اعمال پیش نہ کیا جاتا اے کاش آج میرے تمام گناہوں اور برائیوں کو اس طرح میدان میں آشکار نہ کیا جاتا لہٰذا ایسی بڑی مشکل میں مبتلاء ہونے کا سبب ہمارے برے اعمال ہیں چنانچہ اگر انسان روز قیامت ایسے شرمناک اور ہولناک حالات سے نجات کا خواہاں ہے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز شب انجام دے لہٰذا روایات میں وارد ہوا ہے اگر آپ نے نماز شب انجام دی تو خدا اس کے عوض میں ان کے نامہئ اعمال دائیں ہاتھ میں عطا فرمائے گانیز حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا اگر کوئی شخص رات کے آخری وقت میں خدا کی عبادت اور نماز شب پڑھنے میں مشغول رہے تو خدا اس کے بدلے میں روز قیامت اس کے نامہئ اعمال کو دائیں ہاتھ میں عطا فرمائے گا۔ اسی طرح دوسری روایات بھی آنحضرتؑ سے منقول ہے کہ آپؑ نے فرمایا: اگر کوئی شخص رات کے چوتھائی حصے عبادات اور نماز شب انجام دینے میں گزارے تو اﷲ تبارک و تعالیٰ اسے قیامت کے دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جوار میں جگہ عطا فرمانے کے علاوہ اس کے نامہئ اعمال کو دائیں ہاتھ میں دیگا۔(١)

لہٰذا خلاصہ یہ ہوا کہ نامہئ اعمال کے دائیں ہاتھ میں دئےے جانے، اعمال کے قبول ہونے خدا کی رضایت کے شامل حال ہونے اور جنت میں داخل کیا جانے جاودانی زندگی پانے اور تنگدست لوگوں کے امیر بننے کا سبب نماز شب ہے لہٰذا خدا سے ہماری دعا ہے کہ ہمیں نماز شب انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔

٤۔پل صراط سے بامیدی عبور کا سبب

روز قیامت سے مربوط نماز شب کے فوائد میں سے ایک اور فائدہ یہ ہے اگر کوئی شخص نماز شب جیسی بابرکت عبادت کو انجام دے تو قیامت کے دن پل صراط سے بآسانی گذرسکتا ہے لیکن پل صراط خود کیا ہے اور اس کی سختی کے بارے میں شاید قارئین کرام جانتے ہوں روایات سے صراط کی کیفیت اس طرح روشن ہوتی ہے کہ جب قیامت برپا ہوگی تو قیامت کے دن رونما ہونے والی مشکلات

____________________

(١)ثواب الاعمال و عقابہاص١٠٠.

۱۲۲

میں سے ایک مشکل صراط کی صورت میں پیش آئے گی کیونکہ روایت میں صراط کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ بال سے زیادہ باریک ، تلوار سے زیادہ تیز، اور آگ سے زیادہ گرم ہوگا کہ جو خدا نے جہنم کے اوپر خلق کیا ہے تاکہ جنّت میں جانے سے پہلے اس سے عبور کرے کہ ایسے اوصاف کے حامل راستے کو عبور کرنا عام عادی انسانوں کے لئے یقینا بہت سخت اور مشکل امر ہے لیکن ایسے دشوار راہ سے اگر بہ آسانی گذرنا چاہے تو رات کے وقت خدا کی عبادت اور نماز شب انجام دے۔ کیونکہ نماز شب میں خدا نے ایسے فوائد مؤمنین کے لئے مخفی رکھا ہے کہ ہر مشکل امر کا راہ حل نماز شب ہے چنانچہ اس مسئلہ کو حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے اگر کوئی شخص رات کے تین حصے گذر جانے کے بعد نیند کی لذت چھوڑ کر اٹھے اور نماز شب انجام دے تو خداوند قیامت کے دن اس شخص کو مؤمنین کی پہلی صف میں قرار دے گا اور صراط سے عبور کے وقت آسانی، حساب و کتاب میں تخفیف اور کسی مشکل کے بغیر جنّت میں داخل کیا جائے گا۔(١)

پس نماز شب کی اہمیت اور فضیلت کا اندازہ کرنا شاید ہماری قدرت سے خارج ہو اسی لئے بہت سی روایات میں اشارہ کیا گیا ہے کہ نماز شب دنیا و قبر اور آخرت کے تمام مشکلات کے لئے راہ نجات ہے کہ اس طرح کی اہمیت اور ثواب اسلام میں شاید کسی اور عبادت اور کار خیر کو ذکر نہیں کیا ہے۔ تب ہی تو پورے انبیاء

____________________

(١)ثواب الاعمال ص١٠٠

۱۲۳

اور آئمہ ٪ اور دیگر مؤمنین کی سیرت طیبہ ہمیشہ یہی رہی ہیں کہ رات کے آخری وقت خدا سے راز و نیاز کیا کرتے تھے۔

٥۔جنت کے جس دروازے سے چاہیں داخل ہوجائیں

روایات اور آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ جنت کے متعدد دروازے ہیں کہ ہر ایک دروازے کا مقام و منزلت دوسروں سے مختلف ہے۔ لہٰذا جنت ایک ایسی جگہ ہے کہ جہاں کسی قسم کا آپس میں ٹکراؤ یا الجھاؤ نہیں پایا جاتا۔ کیونکہ ہر جنّتی کے مراتب اور درجات مختلف ہیں لہٰذا اسی بناء پر ہر ایک طبقے کا جنّت میں داخل ہونے کا الگ دروازہ مخصوص کیا گیا ہے لیکن اس قانون سے ایک گروہ مستثنیٰ ہے کہ وہ طبقہ ایسا خوش نصیب طبقہ ہے جو دنیا میں نماز شب کو انجام دیتا رہا ہے ایسے افراد جنّت کے آٹھ دروازے سے چاہے گذر سکتا ہے کہ اس مطلب کو حضرت علی علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا ہے کہ ہر وہ شخص جو رات کے اوقات میں سے کوئی ایک وقت نماز میںگذاریں گے تو خداوند کریم اپنے محبوب ترین فرشتوں سے کہا کرتے ہیں میرے اس تہجد گذار بندے سے عام انسان کی طرح تم ملاقات نہ کرو بلکہ اس سے ایک خاص اہتمام اور شان و شوکت کے ساتھ پیش آئیں اور خدا کے ہاں ان کا مقام ومنزلت دیکھ کر فرشتے تعجب کریں گے اور فرشتے انہی افراد سے عر ض کریں گے کہ آپ جنت کے جس دروازے سے چاہیں گذر سکتے ہیں.

۱۲۴

٦۔آتش جہنم سے نجات کا باعث

قیامت کے مسائل میں سے سنگین ترین مسئلہ آتش جہنم ہے اور اسی حوالے سے قرآن و سنت اور انبیاء و آئمہ٪ کی تعلیمات سے یہ ملتا ہے کہ تم لوگ کسی ایسے جرم کا ارتکاب نہ کرو کہ جس کا نتیجہ آتش جہنم ہو لیکن جہنم کی آگ کی حقیقت دنیوی آگ کی مانند نہیں ہے اور جس طرح دنیوی آگ کی گرمائش اور جلن قابل تحمل نہیں تو جہنم کی آگ کیسے قابل تحمل ہوسکتی ہے جبکہ جہنم کی آگ کی تپش و جلن دنیوی آگ کی بہ نسبت نوگنا زیادہ ہوگی۔ لہٰذاآتش جہنم کی سختی کا اندازہ اور ان سے پیدا ہونے والے خوف و ہراس کا سبب یہی ہے پس اگر کوئی شخص ایسی آگ سے نجات چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز شب سے مدد مانگے چنانچہ اس مطلب کو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے یوں ذکر فرمایا ہے کہ ہر وہ شخص جو عبادت الٰہی میں شب بیداری کریں گے تو خداوند اس کو جہنم کی سختیوں سے نجات دیتا ہے اور عذاب الٰہی سے محفوظ رہے گا۔(١)

اسی طرح قرآن کریم میں جہنم کی آگ کے متعلق متعدد آیات نازل ہوئی ہیں۔ جیسے:

____________________

(١)ثواب الاعمال ص١٠٠.

۱۲۵

( فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِی وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِینَ ) (١)

پس تم اس آگ سے بچو کہ جس کے ایندھن انسان اور پتھر ہوں گی جو کافروں کے لئے خلق کیا ہے۔

نیز فرمایا:

( إِنَّ الْمُنَافِقِینَ فِی الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنْ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِیرًا ) (٢)

بے شک منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوگا اور تم ان کی حمایت میں کوئی مددگار نہ پاؤگے۔

پس اگر کوئی انسان ایسی آگ سے نجات کا خواہاں ہے تو آج نماز شب انجام دینے کا عزم کریں۔

٧۔آخرت کی زادو راہ نماز شب

یہ امر طبیعی ہے کہ جب کوئی شخص اپنے ملک یا شہر سے دوسرے شہر یا ملک کی طرف سفر کرنا چاہتا ہے تو سفر کے تمام ضروریات کو سفر سے پہلے مہیا کرتا ہے

____________________

(١)سورہئ بقرۃ آیت ٢٤.

(٢)سورہئ نساء آیت ١٤٥

۱۲۶

تاکہ سفر کے دوران کسی مشکل سے دوچار نہ ہو لیکن یہ بڑی تعجب کی بات ہے کہ انسان اس دنیا میں معمولی سفر شروع کرنے سے پہلے کچھ زادوراہ آمادہ کرتاہے لیکن جب اخروی سفر اور ابدی عالم کی طرف جانے لگتا ہے تو سفر کے ضروریات اور لوازمات سے بالکل غافل ہے جبکہ وہ یہ جانتا بھی ہے کہ یہ سفر کس قدر طولانی ہے اور زادوراہ کس قدر زیادہ ہونا چاہیے پس اگر کوئی شخص عالم آخرت کے سفر کا تصور کرے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ سفر دنیوی سفر سے بہت زیادہ اور طولانی اورمشکل ہے لہٰذا اس سفر کے زادو راہ میں سے ایک نماز شب ہے۔

چنانچہ اس مطلب کو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا وہ شخص خوش قسمت ہے جو سردی کے موسم میں رات کے اوقات میں سے کسی خاص وقت میں عالم آخرت کے زادو راہ مہیا کرنے میں گزارے اسی طرح دوسری روایت میں پیغمبر اکر م ؐنے فرمایا:''فان صلاة اللیل تدفع عن اهلها حرا النار لیوم القیامة'' (١)

بے شک روز قیامت نماز شب نمازی کو جہنم کے حرارت سے نجات دیتی ہے پس ان روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز شب آخرت کے لئے ایک ایسا زخیرہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا اتنی فضیلت اور اہمیت کے باوجود انجام نہ دینا ہماری غفلت وکوتا ہی کا نتیجہ ہے ۔

____________________

(١)کننرالعمال ج ٧.

۱۲۷

٨۔نماز شب آخرت کی خوشی کا باعث اگر انسان دنیا میںخوف خدا میں آنسوبہا ئے تو روزقیامت اس کو کسی چیز کے خوف سے رونا نہیں پڑے گا اسی لئے سکونی نے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے روایت کی ہے

''قال قال رسول الله (ص)کل عین باکیة یوم القیامه الا ثلاثة اعین عین بکت من خشة الله وعین غضت عن محارم الله وعین باتت ساهرة فی سبیل الله '' (١)

روز قیامت تین آنکھوںکے علاوہ باقی تمام آنکھیں اشک بارہونگی (١)وہ آنکھوں جو خوف خدا کی وجہ سے روتی رہی ہو(٢) وہ آنکھ جو حرام نگاہوں سے اجتناب کرتی رہی ہے (٣) وہ آنکھ جو راہ خدا میں شب بیداری کرتی رہی ہو اسی طرح دوسری روایت میں فرمایا:

روز قیامت تمام آنکھوں سے آنسو جاری ہوں گے مگر تین آنکھیں، (١) جو محرمات الٰہی سے پرہیز کرتی رہی دوسری وہ آنکھیں جو رات کی تاریکی میں خوف خدا کے نتیجے میں گریہ وزاری میں رہی ہے تیسری وہ آنکھیں جو اطاعت الہٰی کے خاطر اپنے آپ کو نیند سے محروم کرکے شب بیداری کرتی رہی ہو لہٰذا

____________________

(١) خصال صدوق ص ٩٨

۱۲۸

قرآن کریم میں بھی یوں فرمایا ہے :

( فلیضحکو اقلیلا والیبکواکثیرا )

یعنی زیادہ رویا کرو اور خوشحالی کم کرو۔

اسی طرح تمام انبیاء اور اوصیاء علیہم السلام کی سیرت بھی یہی رہی ہے کہ وہ آخرت کے خوف سے دنیا میں رویا کرتے تھے اور بہتیرین رونے کا وقت رات کی تاریکی ہے کہ جس وقت نماز شب انجام دیجاتی ہے پس دنیا میں جہنم کی آگ اور عذاب کے خوف میں رونا اور آنسو بہانا اخروی شرمندگی سے نجات کا باعث ہوگا۔

٩۔آخرت کی زینت نماز شب

ہر عالم میں کچھ چیزیں باعث زینت ہوا کرتی ہے لیکن ان کا آپس میں بہت بڑا فرق بھی ہے چنانچہ اس مطلب کو حضرت امام جفرصادق علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا ہے :

''ان الله عزوجل قال المال والبنون زینة الحیاة الدنیا وان ثمان رکعات التی یصلیها العبد اخراللیل زینة الاخرة ۔''(١)

خدا نے فرمایا کہ اولاد اور دولت دنیوی زندگی کی زینت ہے لیکن آٹھ

____________________

(١) بحار الانوار ج ٨٣

۱۲۹

رکعات نماز جو رات کے آخری وقت میںانجام دی جاتی ہے وہ آخرت کی زینت ہے پس اس روایت سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ عالم دنیا میں لوگوں کی نظر میں زینت کا ذریعہ اولاد اور دولت سمجھا جا تا ہے جب کہ عالم آخرت میں باعث زینت نماز شب اور دوسرے اعمال صالحہ ہوں گے چنانچہ خدا نے اسی مذکورہ آیہ شریفہ کے ذیل میں یوں اشارہ فرمایا والباقیات الصالحات لہٰذا نماز شب انجام دینے والے روز قیامت دوسروں سے مزین اور منور نظر آتا ہے

١٠۔جنت میں خصوصی مقام ملنے کا سبب

روایات کی روشنی میں یہ بات مسلم ہے کہ جنت میں ہر جنتی کا مقام ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہے کہ جس طرح دنیا میں ہر ایک کی جگہ اور منزل یکسان نہیں ہے اسی طرح جنت میں بھی سکونت کی جگہ اور دیگر سہولیات کے حوالے سے مختلف ہے لہٰذا اگر کوئی شخص دنیا میں نماز شب کا عادی اور نیک اعمال کے پابند ہوتو روز قیامت جنت میں اس کو ایسے خصوصی قصر دیا جائے گا کہ جو مختلف کمروں پر مشتمل ہونے کے علاوہ اس کی زینت فیروزہ یاقوت اور زبرجد جیسے قیمتی پھتروں سے کی گئی ہے چنانچہ اس مسئلہ کو پیغمبر اکرم)ص(نے یوں ارشاد فرمایا ہے :

''ان فی الجنة غرفا یری ظاهرها من باطنها وباطنها من ظاهر ها یسکنها من امتی من اطاب الکلام واطعم الطعام وافش السلام وادام الصیام وصلی بااللیل والناس ینام ۔''

بے شک جنت میں کچھ اسے قصر بھی تیار کیا گیا ہے کہ جن کے باہر کی زینت اندرسے اور اندر کی زینت باہر سے نظر آئے گی کہ ایسے کمروں میں میری امت میں سے ان لوگوں کی سکونت ہوگی کہ جن کا سلوک دنیاء میں لوگوں کے ساتھ اچھا رہا اور لوگوں کو کھنا کھلایا اور سرعام یعنی کھلم کھلا لوگوں کو سلام کرنے کے عادی رہے ہو اور ہمیشہ روزہ رکھنے کے علاوہ رات کے وقت نماز شب انجام دیتے رہیں جب کہ باقی افراد خواب غفلت میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں ۔

۱۳۰

تحلیل وتفسیر:

اگر کوئی شخص دنیا میں نیک گفتاری کا مالک اور سلام کرنے کا عادی اور روزہ رکھنے پر پابند ہو تو خدا اس کے نیکی کا بدلہ روز قیامت ایسا گھر عطا فرمائے گا کہ جن کی خوبصورتی اور زینت کھلم کھلا نظر آئے گی اسی طرح نماز شب کی برکت سے جنت میں نماز شب انجام دینے والے ایسا گھر اور قصر کا مالک ہوگا نیز اگر دنیا میں نماز شب انجام دینے کی توفیق ہوئی ہو تو محشر کے میدان میں حساب وکتاب کے وقت نماز شب ایک بادل کی طرح اس شخص کی پیشانی پرسایہ کئے ہوئے نظر آئے گی چنانچہ پیغمبر اکرم)ص( نے ارشاد فرمایا :

'' صلاةاللیل ظلا فوقه ''

یعنی نماز شب اس کے سرپر سایہ کی طرح نمودار ہوگی وتاجاًعلی راسہ یعنی نماز شب قیامت کے دن ایک تاج کی مانند ظاہر ہوگی نیز فرمایا ولباسا علی بدنہ نماز شب اس کے بدن پر لباس کی مانند ایک پردہ ہے ونورا سعی بین یدیہ اور نماز شب نور بن کر اس کے سامنے روشن ہوجائے گی وسترا بینہ وبین النار اور نماز شب نمازی اور جہنم کے درمیان ایک پردہ ہے وحجۃ بین یدی اللہ تعالی۔

خدا اور نمازی کے درمیان دلیل اور برہان ہوگی، وثقلا فی المیزان اور نامہ اعمال کے سنگین ہونے کا سبب ہے پس خلاصہ نماز شب حساب وکتاب میزان عمل حشرو نشر کے مو قع پر کام آنے والا واحد ذریعہ ہے لہٰذا فراموش نہ کیجئے ۔

۱۳۱

تیسری فصل :

نماز شب سے محروم ہونے کی علت

نماز شب کے اس قدر فضائل وفوائد کے باوجود اسے انجام نہ دینے کی وجہ کیا ہے ؟ کہ اس علت سے بھی آگاہ ہونا مؤمنین کے لئے بہت ضروری ہے کیونکہ جب کسی کام کا عملی جامہ پہنانا چاہتے تو اس کے دو پہلو کو مد نظر رکھنا چاہئیے تا کہ اس کام سے فائدہ اأٹھایا جاسکے وہ پہلو یہ ہے کہ جن شرائط پروہ کام موقوف ہے ان کو انجام دینا اور ان کے موانع اور رکاوٹوں کو برطرف کرنا کہ یہ دونوں مقدمے تمام افعال میں مسلم ہے اور عقل بھی اس کے انجام دینے کا حکم دیتی ہے اگر چہ ہر فعل کی شرائط اور موانع کی تعریف کے بارے میں علماء اور محققین کے درمیان اختلا ف آراء پائی جاتی ہے لیکن اس طرح کے اختلاف سے شرائط کی ضرورت اور موانع کی برطرفی کے لازم ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لہٰذا نماز شب کی شرائط اور موانع کو مدنظر رکھنا لازم ہے تاکہ نماز شب سے محروم نہ رہ سکے لیکن جو موانع روایات میں ذکر کیا گیا ہے وہ بہت ہی زیادہ ہے کہ جن کا تذکرہ کرنا اس کتابچہ کی گنجائش سے خارج ہے لہٰذا راقم الحروف صرف اشارہ پر اکتفاء کرتا ہے۔

۱۳۲

الف۔ گناہ :

کسی بھی نیک اور اہم کام سے محروم ہونے کے اسباب میں سے ایک گناہ ہے کہ جن کے مرتکب ہونے سے انسان نماز شب جیسے بابرکت کام کو انجام دینے سے محروم ہو جاتا ہے جیسا کہ اس مطلب کو متعدد روایات میں واضح اور روشن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے حضرت امام علی ابن ابیطالب علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ جب کسی نے آپ سے دریافت کیا ۔

''لرجل قال له انی حرمت الصلاة بااللیل انت رجل قد قیدتک ذنوبک'' (١)

(یاعلی) میں نماز شب سے محروم ہوجاتا ہوں اس کی کیا وجہ ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ تمہارے گناہوں نے تجھے جھکڑرکھا ہے اسی طرح دوسری روایت میں فرمایا:

''ان الرجل یکذب الکذب یحرم بها صلاة اللیل''

بے شک اگر کوئی شخص جھوٹ بولنے کا عادی ہو تو وہ اس جھوٹ کی وجہ سے نماز شب سے محروم رہے گا نیز اور ایک روایت میں فرمایا :

''ان الرجل یذنب الذنب فیحرم صلاة اللیل وان العمل

____________________

(١) اصول کافی ج ٣

۱۳۳

السیئی اسرع فی صاحبه من السکین فی اللحم ''

بے شک گناہ کرنے سے انسان نماز شب انجام دینے کی توفیق سے محروم ہوجاتا ہے اور برے کام میں مرتکب ہونے والے افراد میںاس طرح تیزی سے برائی کا اثر ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح چاقو گوشت کو ٹکرے ٹکرے کردیتاہے

تحلیل وتفسیر:

مذکورہ روایتوں سے دومطلب ثابت ہوجاتے ہیں:

١۔گناہ ہر نیک اور اچھے عمل سے محروم ہونے کا سبب ہے۔

٢۔ برے اعمال کا اثر ظاہر ہونے کا طریقہ۔

لہٰذا اگر نماز شب انجام دینے کی خواہش ہو تو گناہ سے اجتناب لازم ہے تاکہ اس کو انجام دینے کی توفیق سے محروم نہ رہے

ب۔نماز شب سے محروم ہونے کا دوسرا سبب

انسان اپنی روز مرہ زندگی میں خداوند کی عطا کردہ نیند جیسی عظیم نعمت سے بہرہ مند ہورہا ہے چاہے مسلمان ہو یا کافر مرد ہویا عورت، نوجوان ہو یا بچے، غریب ہو یا دولت مند جاہل ہو یا عالم ہر انسان اس نعمت سے بہرہ مندہے لیکن اب تک اکیسویں صدی کا انسان نیند کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہے اور محققین نیند کی حقیقت کے بارے میں پریشان ہے لہٰذا مختلف تعبیرات کا اظہار کیا جاتاہے اسی طرح نیند کی اہمیت بھی اس طرح بیان کئے ہیں کہ انسان ایک ہفتہ تک بغیر کھانے پینے کے زندہ رہ سکتا ہے لیکن ایک ہفتہ تک نہ سوئے تو زندہ رہنا ناممکن ہے اس روسے نیند کی حقیقت مبہم اور مجمل نظر آتی ہے لہٰذا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نیند کی دوقسمیں ہیں:١۔ کسی اصول وضوابط کے ساتھ سونا کہ جس کو انسانی خواب سے تعبیر کیا گیاہے۔٢۔ کسی اصول وضوابط کے بغیر سونا کہ جس کو حیوانی نیند سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

۱۳۴

لہٰذا آیات اور روایات کی روسے مسلم ہے کہ نیند ایک نعمت ا لٰہی ہے اگر اس نعمت کو اصول وضوابط کے ساتھ استفادہ کرے تو صحت پر برے اثرات نہ پڑنے کے باوجود شریعت میں ایسی نیند کی مدح بھی کی گئی ہے لیکن اگر اس کے آداب کی رعایت نہ کرے تو صحت پر برا اثر پڑتا ہے اور شریعت میں اس کی مذمت ہے اسی حوالے سے آج کل کے محققین انسان کو ٹائم ٹیبل کے مطابق سونے اور اٹھنے کی سفارش کرتے ہیں تاکہ کثرت سے سونے والوں کو ان کے منفی اثرات سے بچایا جاسکے پس نماز شب سے محروم ہونے والے اسباب میں سے ایک کثرت سے سونا ہے چنانچہ پیغمبر اکرم )ص( کا ارشاد گرامی ہے :

''قالت ام سلمان ابن داود یابنی ایاک وکثرة النوم بااللیل فان کثرة النوم بااللیل تدفع الرجل فقرا یوم القیامه'' (١)

حضرت سلیمان ابن داود کی ماں نے کہا اے بیٹا رات کو زیادہ سونے سے

____________________

(١)بحار ج ٨٧

۱۳۵

اجتناب کرو کیونکہ رات کو زیادہ سونا قیامت کے دن فقرو فاقہ کاباعث بنتا ہے۔

پس اس روایت سے بخوبی روشن ہوتا ہے کہ زیادہ سونا نیک کاموں کے انجام دہی کےلئے رکاوٹ اور محرومیت اخروی کا سبب ہے

ج۔نماز شب سے محروم ہونے کاتیسرا سبب

جب انسان کسی نیک عمل کا موقع ضائع کردیتا ہے تو سب سے پہلے اس کی اپنی فطرت اس کی ملامت کرتی ہے لیکن انسان اتنا غافل ہے کہ اس ملامت فطری سے بچنے کی خاطر تو جیہات سے کام لیتا ہے تاکہ وہ اپنی ایسی عادت کو قائم رکھ سکیں لہٰذا اگر ہم کسی طالب علم سے نماز شب کے بارے میں سوال کرے کہ آپ کیوں اس عظیم نعمت سے استفادہ نہیں کرتے تو فورا جواب دیتا ہے کہ مجھے نیند آتی جس سے نماز شب نہیں پڑھ سکتا اور ایسی نیند صحت کے لئے ضروری بھی ہے لہٰذا ایسے بہانوں میں انسان غرق ہوجاتا ہے پس نماز شب سے محروم ہونے کی ایک علت بہانے اور توجیہات ہے جبکہ نماز شب ادا کرنے کے لئے بیس منٹ یا آدھ گھنٹہ سے زیادہ وقت کی ضرورت نہیں پڑتی اگر نماز شب کے انجام دینے کے وقت میں نہ سونے سے صحت پر برا اثر پڑتا تو خدا وند بھی اپنے بندوں کو رات کے اس مخصوص وقت میں نماز شب مستحب نہ فرماتے کیونکہ وہی انسان کے حقیقی مصالح اور مفاسد کا علم رکھتا ہے کہ نیند انسان کو صحت مند بنانے کے ضامن نہیں ہے بلکہ نماز شب ہے جو انسانی ترقی اور جسمانی صحت کا ضامن قرار پاتی ہے لہٰذا تحصیل علم اور دنیوی ترقی کے بہترین ذریعہ نماز شب ہے کہ جس کی برکت سے انبیاء اور ائمہ علیہم السلام اور مؤمنین کو قرب الٰہی حاصل ہوتا ہے۔

۱۳۶

د۔ پر خوری

شاید اب تک کسی محقق نے اپنی تحقیقات میں شکم پوری اور زیادہ کھانے کے عمل کو اچھے کام سے تعبیر نہ ہو۔

لہٰذا اسلامی تعلیمات میں بھی جب اسی حوالہ سے مطالعہ کیا جائے تو پر خوری مذموم اور نامرغوب نظر آتا ہیں کیونکہ زیادہ کھانے سے انسانی معدہ مختلف قسم کے امراض کا شکار ہو جاتاہے اور اسی طرح پرخوری مادی اور معنوی امور کے لئے مانع بھی بن جاتا ہے لہٰذا پر خوری کا نتیجہ ہے انسان نماز شب جیسی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے چنانچہ اس مطلب کو امیرالمؤمنین حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا ہے زیادہ غذا کھانے سے پرہیز کرو کیونکہ زیادہ کھانا کھانے سے نماز شب سے محروم اور جسم میں مختلف قسم کے امراض اور قلب میں قساوت جیسی بیماری پیدا ہوجاتی ہے۔(١)

ھ۔عجب اور تکبر

عجب اور تکبر دوایسی بیماری ہے جن کی وجہ سے انسان تمام معنویات الہٰی

____________________

(١) غررالحکم ص٨٠.

۱۳۷

سے محروم ہوجاتا ہے لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ چھ ہزار سال عبادت میں مشغول ہونے کے باوجود شیطان تکبر کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ نہ کرنے کے سبب ہمیشہ کے لئے لعنت خدا کا مستحق قرار پایا لہٰذا عجب اور تکبر نماز شب سے محروم ہونے کا ایک ذریعہ ہے چنانچہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم )ص( نے یوں ارشاد فرمایا ہے :

''قال رسول الله قال الله عزوجل ان من عبادی المؤمنین لمن یجتهد فی عبادتی فیقوم.... ''(١)

(ترجمہ) پیغمبر اکرم )ص( نے فرمایا کہ خدا نے فرمایا ہے بے شک میرے مؤمن بندوں میں سے کچھ اس طرح میری عبادت کرنے میں مشغول ہیں نیند سے اٹھ کر اپنے آپ کو بستر کی نرمی اور گرمی کی لذتوں سے محروم کرکے میری عبادت کرنے کے خاطر زحمت میں ڈالتے ہیں لیکن میں اس کی آرام کی خاطر اپنی لطف اورمحبت کے ذریعے ان پر نیند کا غلبہ کرتا ہوں تاکہ ایک یادو راتیں نماز شب اور عباد ت سے محروم رہے کہ جس پر وہ پریشان اور اپنی مذمت کرنے لگتا ہے لیکن میں اگر اس طرح نہ کروں بلکہ اس کو اپنی حالت پر چھوڑدیتا تو وہ میری عبادت کرتے کرتے عجب کے مرض کا شکار ہوجاتا کہ عجب ایک ایسا مرض ہے کہ جس سے مؤمن کے اعمال کی ارزش ختم ہونے کے علاوہ اس کی نابودی کا باعث بھی بن جاتا

____________________

(١) اصول کافی

۱۳۸

ہے لہٰذا کئے ہوئے اعمال پر ناز کرتے ہوئے کہا کرتے ہیں کہ میں تمام عبادت گزار حضرات سے بالاتر اور افضل ہوں جبکہ اس نے میری عبادت کرنے میں افراط وتفریط سے کام لیا ہے پس وہ مجھ سے دور ہے لیکن وہ گمان کرتا ہے کہ ہم خدا کے مقرب بندوں میں سے ہیں ۔

اس روایت میں پیغمبر اکرم )ص( نے کئی مطالب کی طرف اشارہ فرمایا ہے :

١) خدا کی عبادت کر نے میں افراط وتفریط مضرہے۔

٢) اپنی عبادت پر ناز کرنا بربادی ونابودی کا سبب ہے۔

٣) اصول وضوابط کے بغیر عبادت فائدہ مند نہیں ہے۔

لہٰذا تمام عبادات میں اخلاص شرط ہے پس اگر ہم نماز شب اخلاص کے بغیر انجام دے تووہ صحیح تہجد گزار نہیں بن سکتا

۱۳۹

چوتھی فصل:

جاگنے کے عزم پر سونے کا ثواب

گذشتہ بحث میں نیند کے اقسام اور ان کے فوائد کا مختصر ذکر کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ سونے کی دوقسمیں ہیں :

١) انسانی طریقہ پر سونا۔

٢) حیوانی طریقہ پر سونا اور انسانی طریقہ کی نیند خودتین قسموں میں تقسیم ہوتی ہے:

١)اصول وضوابط اور نماز شب کو انجام دینے کے عزم کے بغیر سونا کہ ایسی نیند کو محققین نے صحت بدن کے لئے بھی مضر قراردیا ہے اور اسلام کی نظر میں ایسی نیند پر کوئی ثواب نہیں ہے کیونکہ پیغمبر اکرم )ص(کی روایت ہے کہ انما الاعمال باالنیۃ تما م کاموں کے دارومدار نیت پر ہے اور مؤمن کی نیت ان کے اعمال سے بہتر ہے۔

٢) دوسری قسم نیند وہ ہے جس میں اصول وضوابط کے ساتھ ساتھ نماز شب کے انجام دینے کی نیت بھی ہوئی ہے جبکہ اس پر نیند کا غلبہ ہونے کی وجہ سے وہ نماز شب ادا نہیں کر سکتا ایسی نیند پر صحت بدن کے لئے مفید ہونے کے علاوہ ثواب بھی دیا جاتاہے چنانچہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم )ص( نے یوں ارشاد فرمایا ہے :

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

ابوبکر کی نماز کے بارے میں شیعوں کی روایت

جہاں تک شیعوں کا خیال ہے تو وہ اس روایت سے انکار کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ نبی ؐ نے ابوبکر کو ہرگز حکم نہیں دیا تھا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں بلکہ شیعوں کا خیال ہے اور ان کی روایت کے مطابق یہ حرکت عائشہ کی تھی،عائشہ نے ابوبکر کو سرکار دو عالم ؐ کی حالت بتاتے ہوئے پیغام بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھادیں تا کہ ان کا مرتبہ بڑھے،ان کی خلافت کے لئے زمین ہموار ہوا اور خلافت کو علی ؑ سے آسانی سے غصب کیا جاسکے اور تمام اہل بیت ؑ کو عمومی طور پر محروم کیا جاسکے.

آخر وقت میں حضور ؐ نے حفصہ کو ڈ انٹا تھا یہ بات سب کو معلوم ہے حضرت ؐ نے فرمایا تھا کہ تم سب کے سب یوسف والیاں ہو،حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ جملہ بھی حفصہ کی کمزوری کی نشان دہی کرتا تھا،اصل میں دونوں خواتین سرکار دو عالم ؐ کے وقت آخر میں اپنے اپنے باپ کو آگے بڑھانے کے چکر میں تھیں اور حضور ؐ اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ گئے تھے ۔

حضور اکرم ؐ یوں بھی ابوبکر و عمر سے خاص طور سے رنجیدہ خاطر تھے اس لئے آپ نے ان دونوں کو اسامہ کے لشکر میں شامل کیا تھا اور انھیں اس وقت اسامہ کے ساتھ سفر میں ہونا چاہئے تھا،حضور ؐ نے تاکید فرمائی تھی کہ اسامہ کا لشکر جلد از جلد مدینہ چھوڑ دے،جیسا کہ سابقہ سوال کے دوسرے سوال کے جواب میں عرض کیا جاچکا ہے ۔

جب حضور اکرم ﷺ نے دیکھا کہ عائشہ کے حکم پر فوراً عمل ہوا اور ابوبکر نمازیوں کے امام بن گئے تو آپ اسی شدت مرض میں بےچین ہوکے باہر آئے تا کہ ابوبکر کو امامت سے روک دیں(مقصد تھا شبہ کو دور کرنا اور دشمنوں کا منہ بند کرنا)آپ اس حال میں نکلے کہ ایک ہاتھ علی ؑ کے کاندھے پر اور ایک ہاتھ فضل بن عباس کے کاندھے پر تھا اور کسی طرح مسجد میں پہنچ گئے،ابوبکر کو محراب سے ہٹایا اور خود آپ نے بیٹھ کے لوگوں کو نماز پڑھائی،((چرا کاری کند عاقل کہ باز آید پشیمانی))لیکن افسوس کہ سرکار دو عالم ؐ کا عمل شبہ کو دفع نہیں کرسکا وجہ یہ ہے کہ حکومت پر انھیں لوگوں نے

۳۲۱

قبضہ جمالیا اور پھر اپنے اس اقدام کو صحیح ثابت کرنے کے لئے دلیلیں تالش کرنے لگے ۔

ظاہر ہے کہ وہی لوگ اسلام کی تقدیر کے مالک بن بیٹھے تھے،اب مذکورہ حادثہ کو جس طرح چاہا تو ڑمروڑ کے اپنے موقف کے مطابق کہا اور اسی کو اپنی حکومت پر نص کے طور پر استعمال کیا،ایسا کرنے سے انھیں کون روک سکتا تھا؟بہرحال یہی وہ اسباب تھے،جس کی وجہ سے سرکار دو عالم ؐ کا یہ عمل شبہہ کو دفع نہیں کرسکا اور مخالفین کو بات کرنے کی گنجائیش مل گئی،صحابہ کو پختہ یقین تھا کہ امیرالمومنین ہی وصی پیغمبر ہیں ۔

حادثہ صلوٰۃ کے سلسلے میں امیرالمومنینؑ کا عقیدہ سنیوں کی نظر میں

ابن ابی الحدید معتزلی نے عائشہ کے بارے میں امیرالمومنین کا یہ قول نقل کیا ہے((لیکن فلانی تو اس کو نسوانی نقطہ نظر نے گرفتار کرلیا(۱) اور وہ اس حسد کا شکار ہوگئی جو اس کے دل میں پانی کی کھولتی ہوئی پتیلی کی طرح جوش مار رہا تھا))اس کے بعد ابن ابی الحدید نے اپنے شیخ ابویعقوب یوسف بن اسماعیل لمعانی کی ایک طویل گفتگو نقل کی ہے،جس میں انھوں نے یہ بتایا ہے کہ دو پارٹیاں تھیں،ایک طرف عائشہ اور ابوبکر تھے اور دوسرے طرف پارٹی میں جناب فاطمہ ؐ اور حضرت علی ؑ تھ اور ان دونوں پارٹیوں کے درمیان بغض و حسد اور عداوت و کینہ پروری کے کچھ اسباب تھے،ان دونوں پارٹیوں میں اختلاف کی وجہ ان کے مذہب کے مطابق یہ تھی کہ چونکہ سرکار دو عالم ؐ کے محبوب اور قریبی یہ چاروں تھے اور خدا کے نزدیک بھی بلند مرتبہ اور مقرب بارگاہ تھے اس لئے اگر ان کے دل میں نام و نمود کی خواہش اور جاہ و منصب کی طلب تھی تو تعجب نہیں ہونا چاہئے،یہ حضرات جاہ و منصب کی طلب میں ایک دوسرے و نیچا دکھانے کے لئے تہمتیں لگاتے تھے،ایک دوسرے کے خلاف بدگمان تھے اور دونوں پارٹیوں کے دل میں اپنے مخالف کے لئے بغض و حسد کے جذبات کا پایا جانا فطری بات تھی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) شرح نہج البلاغہ ج: ۹ ص: ۱۸۹

۳۲۲

بہرحال یہ سب باتیں تو سوال دوم کے جواب میں بھی عرض کی جاچکی ہیں فی الحال میں عبارت کے ان حصول کو پیش کررہا ہوں جو ہمارے موضوع سے متعلق ہے،ہمارا موضوع ابوبکر کی نماز ہے ۔

ابن ابی الحدید اپنے استاد کی بات کا ذکر کررہے ہیں کہ انھوں نے دونون پارٹیوں میں بغض اور حسد کا بیان کرنے کے بعد(حالانکہ یہ سب بھی ان کے استاد کے نظریہ اور مسلمات کی اپج ہے)(وہ لکھتے ہیں کہ مذکورہ اسباب کی بنا پر فاطمہ ؐ و علی ؑ اور عائشہ و ابوبکر کی پارٹیاں الگ الگ تھیں اور دونوں میں بغض اور عناد حیات نبی ؐ میں بھی پایا جاتا تھا اور یہ اختلاف اپنی جگہ پر برقرار رہا،یہاں تک کہ نبی ؐ کو وہ مرض ہوا جس میں آپ کی وفات ہوئی تھی،مرض نے طول پکڑا،علی ؑ کو اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ نبی ؐ کے بعد لوگ میری ہی بیعت کریں گے اور کوئی آدمی کم از کم خلافت کے معاملہ میں مجھ سے نہیں لڑئےگا،علی ؑ کو اس حد تک یقین تھا کہ جب ان کے چچا نے وفات پیغمبر ؐ کے بعد علی ؑ سے کہا تم ہاتھ کھولو میں تمھاری بیعت کرتا ہوں تا کہ لوگ دیکھیں کہ عم پیغمبر ؐ نے ابن عم پیغمبر ؐ کی بیعت کرلی پھر دو آدمی بھی آپ کے خلافت نہیں جائیں گے تو علی ؑ نے کہا:چچا کیا میرے علاوہ بھی کسی کے دل میں خلافت کی خواہش پیدا ہوسکتی ہے؟عباس ابن مطلب نے کہا:یہ تو بعد میں معلوم ہوگا مولائے کائنات ؑ نے فرمایا چچا!میں نہیں چاہتا کہ بیعت جیسا اہم کام پردے میں ہو،میں چاہتا ہوں کہ یہ کام بالاعلان ہو!یہ سن کر عمّ پیغمبر ؐ خاموش ہوگئے ۔

جب حضور اکرم ﷺ کے اوپر مرض کی شدت ہوئی تو آپ نے اسامہ کا لشکر بھیجا اور اس لشکر میں ابوبکر و عمر کو شامل کردیا،ان کے علاوہ بڑے بڑے مہاجرین و انصار بھی شامل تھے،اس وجہ سے علی ؑ کو پختہ یقین ہوگیا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کچھ ہوگیا تو انھیں خلافت بہرحال حاصل ہوگی،اس لئے کہ مدینہ مخالفین سے خالی ہوچکا تھا علی ؑ یہ سمجھ گئے کہ زمین بالکل ہموار ہے،ان کی بیعت کا کام پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا اور اگر مخالفین جیش اسامہ سے اپس آکر مخالفت بھی کریں گے تو فسخ بیعت نہیں کرسکیں گے ۔

پھر اچانک پانسہ پلٹا،عائشہ نے اپنا آدمی بھیج کے ابوبکر کو جیش اسامہ سے واپس بلالیا،عائشہ نے

۳۲۳

پیغام بھیجا کہ حضور ؐ کی موت کا وقت قریب ہے،اسی وقت ابوبکر کے نماز پڑھانے کا واقعہ بھی ہوا،علی ؑ فرماتے ہیں،عائشہ نے اپنے باپ کے غلام بلال سے کہا کہ جا کے ابا سے کہہ دو نماز پڑھادیں،حالانکہ پیغمبر ؐ نے یہ نہیں کہا تھا(جیسا کہ روایت کی جاتی ہے)بلکہ یہ فرمایا تھا کہ حاضرین میں سے کوئی نماز پڑھادے،کسی معین شخص کے بارے میں نہین فرمایا تھا،صبح کی نماز کا وقت تھا کہ حضور ؐ خود باہر نکلے،آپ کا آخری وقت تھا،ایک ہاتھ علی ؑ کے کاندھے پر تھا،دوسرا ہاتھ فضل بن عباس کے کاندھے پر،یہاں تک کہ آپ محراب میں داخل ہوئے،جیسا کہ خبروں میں ہے پھر آپ نماز پڑھ کے اپنے حجرے میں تشریف لے گئے اور سورج جب بلند ہوا تو آپ نے جان،جان آفرین کے سپرد کی،لوگوں نے ابوبکر کی نماز میں امامت کو ان کی خلافت کے لئے دلیل قرار دیا اور کہنے لگے کہ تم میں سے س کا نفس اتنا پاک ہے کہ جسے نبی ؐ خود نماز میں دو قدم آگے بڑھادیں،ان کا یہ کہنا ہے کہ نبی ؐ ،ابوبکر کو امامت سے ہٹانے کے لئے نہیں نکلے تھے بلکہ نبی ؐ نماز کی پابندی دکھانا چاہتے تھے کہ جتنا ممکن ہو انسان خود کو نبی ؐ ہی کی طرح پابند رکھے ۔ بہرحال اس بنیاد پر ابوبکر کی بیعت ہوگئی،حالانکہ مولائے کائنات ؑ کا کہنا ہے کہ یہ سازش عائشہ کی تھی،علی ؑ اس بات کا ذکر اپنے اصحاب سے اکثر کیا کرتے تھے،علی ؑ کا کہنا تھا کہ حضور ؐ نے اپنی عورتوں کو صواحب یوسف سے مشابہ اس لئے بنایا تھا کہ آپ ان کی اس سازش کی نشان دہی کرنا چاہتے تھے اور آپ ابوبکر کی امامت سے غضبناک تھے،اس لئے کہ عائشہ اور حفصہ دونوں نے اپنے اپنے باپ کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رکھی تھی اور علی ؑ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خلافت ابوبکر سے انکار جو محسوس کیا اس کی وجہ تھی آپ کا اپنے حجرے سے نکلنا اور محراب سے ابوبکر کو ہٹانا،بہرحال اس کا کوئی اثر نہیں ہوا خلافت علی ؑ کو نہیں ملی،اس کی وجہ عائشہ کی سازش کامیاب ہوئی،علی ؑ کی خلافت سے محرومی،علی ؑ کے لئے سب سے عظیم مصیبت بلکہ حادثہ فاجعہ کا درجہ رکھتی تھی اور اس مصیبت کا سب علی ؑ کی نظر میں سوائے عائشہ کے کوئی نہیں تھا،اس واقعہ کا لگاؤ صرف عائشہ سےھا اس لئے علی ؑ اپنی تنہایوں میں اور اپنے خاص لوگوں کے درمیان عائشہ پر بدعا کرتے رہتے تھے اور اللہ سے عائشہ کے اس ظلم کی شکایت کرتے رہتے تھے ۔

۳۲۴

ابن ابی الحدید کہتے ہیں میں نے اپنے استاد سے عرض کیا کہ کیا آپ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ابوبکر کو عائشہ نے نماز کے لئے معین کیا تھا؟پیغمبر ؐ نے نہیں؟انھوں نے کہا:میں تو نہیں کتا لیکن علی ؑ کہتے ہیں اور میری تکلیف ان کی تکلیف سے الگ ہے،علی ؑ وہاں موجود تھے،وہاں موجود نہیں تھا،میرے پاس تو دلیل کے طور پر صرف وہ خبریں ہیں جو مجھ تک پہنچی ہیں اور ان خبروں میں یہ ہے کہ پیغمبر ؐ نے ابوبکر کو امامت کے لئے معین کیا تھا لیکن علی ؑ کا نظریہ خبروں کی بنیاد پر نہیں اپنے ذاتی علم کی بنیاد پر ہے یا اس بنیاد پر کہ حالات کا جائزہ لینے علی ؑ کو ظن غالب حاصل ہوا تھا،تو یہ میرے استاد شیخ ابویعقوب کے کلام کا خلاصہ،یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ وہ شیعہ ہرگز نہیں تھے بلکہ بہت بڑے معتزلی تھے،البتہ نظریہ تفصیل میں وہ بغدادی تھے ۔(۱)

میں نے ابن ابی الحدید کا یہ لمبا چوڑا بیان یہاں نقل کردینا اس لئے ضروری سمجھاتا کہ آپ پر یہ واضح ہوجائے کہ((خود حضور ؐ نے ابوبکر کی امامت کے لئے تقدیم کی تھی))یہ روایت متفق علیہ بہرحال نہیں ہے،شیعوں کو تو چھوڑ دیجئے خود اہل سنت کے علما اس بات کے قائل ہیں کہ اس نظریہ سے امیرالمومنین ؑ کو انکار تھا اور آپ عائشہ کی اس سازش سے بہت ناراض تھے،اہل سنت کے علما یہ کہتے ہیں کہ مولائے کائنات ؑ کے خیال کے مطابق عائشہ نے سرکار دو عالم ؐ کی بیماری اور کمزوری سے فائدہ اٹھایا اور ابوبکر کی امامت کے لئے نبی ؐ کی طرف سے جھوٹ کہلایا کہ ابوبکر ہی نماز پڑھادیں مقصد تھا ابوبکر کی خلاف کے لئے زمین ہموار کرنا اور نص کے خلاف جو حرکتیں انجام دی گئیں یہ عمل بھی من جملہ انھیں میں سے تھا،اس کی طرف میں ان سوالوں میں سے چوتھے سوال کے جواب میں اشارہ کرچکا ہوں،جب میں نے عرض کیا تھا کہ قریش نے انصار کو خلافت سے دور رکھنا چاہا اور کامیاب ہوئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) شرح نہج البلاغہ ج: ۹ ص: ۱۹۶ ۔ ۱۹۹

۳۲۵

جب سرکار دو عالم ؐ نماز کے لئے نکلے تو آپ نے کیا کہا؟یہ بھی اختلافی مسئلہ ہے

حضور ؐ نے جب سنا کہ ابوبکر نماز پڑھا رہے ہیں تو آپ سے برداشت نہیں ہوا اور اس شدت سے مرض میں اپنوں کا سہارا لے کے باہر نکل پڑے،لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟اس میں اختلاف ہے ۔

۱ ۔ اہل سنت کی کتابوں میں نماز کی جو روایتیں ملتی ہیں ان میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ابوبکر نماز پڑھا رہے تھے،حضور باہر نکل پڑے،پھر اس کے بعد کیا ہوا؟اس میں شدید اختلاف ہے کیا نبی ؐ نے باہر نکلتے ہی امامت کی باگ ڈ ور خود سنبھال لی اور ابوبکر کو ہٹادیا،پھر آپ نے بیٹھ کے نماز پڑھائی جن میں ابوبکر بھی شامل تھے یا ابوبکر باقی رکھی اور خود آپ نےلوگوں کے ساتھ مل کے ابوبکر کی اقتدا میں نماز پڑھی؟صحیح صورت حال کیا تھی؟اس میں اختلاف ہے،ابن حجر(۱) اور علامہ شوکافی(۲) کہتے ہیں کہ پہلی صورت حال روایتوں کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے ۔

تو اگر پہلی صورت حال زیادہ صحیح ہے یعنی نبی ؐ نے ابوبکر کو ہٹا کے خود امامت کی تو یہ شیعوں کے دعویٰ سے زیادہ مطابق رکھتا ہے اس لئے کہ اگر حضور ؐ نے ابوبکر کو امامت صلوٰۃ(نماز)کے لئے اس لئے بڑھایا تا کہ اس سے خلافت ابوبکر کی طرف اشارہ مراد لیا جائے تو حضور ؐ کا نکلنا اور خود نماز کی امامت کرنا،یہ سب کچھ اس اشارہ کی نفی کرتا ہے یا کم سے کم سرکار ؐ کے اس عمل سے یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ آپ امامت کی غرض سے اس لئے بروقت نکل پڑے تا کہ لوگ ابوبکر کی امامت کو ان کی خلافت کے لئے دلیل نہ بنالیں،لہذا حضور ؐ کے نکلنے کا مقصد شبہہ کا ازالہ تھا،خلافت کی طرف اشارہ تو بہرحال نہیں تھا ۔

یہ الگ بات ہے کہ وقت نے اجازت نہیں دی اور ماحول سازگار نہیں تھا جس کی وجہ سے حضور کو اتنا موقعہ نہیں مل سکا کہ آپ امور کا کما حقّہ تدارک کرسکتے اور شبہہ کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتے،اگر چہ شبہہ کرنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) فتح الباری ج: ۲ ص: ۱۵۵ (۲) نیل الاوطا ج: ۳ ص: ۱۸۴

۳۲۶

روایت کی کچھ کمزوریاں،جو اس روایت کے لئے مصیبت بنی ہوئی ہیں

۲ ۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ روایت اتنی باحال پریشان ہے کہ جس نے بھی اس کہانی کو لکھا ہے اپنے ڈ ھنگ سے لکھا ہے،روایت کے اختلاف ہر عقلمند کے لئے قابل غور ہیں،اس اضطراب کا کچھ حصہ تو پہلے گذرچکا ہے،کچھ علمائے شیعہ نے بیان کیا ہے،کچھ علمائے اہل سنت نے بھی اس طرف توجہ دی ہے تفصیل میں جانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے،اس لئے کہ اس حدیث کے کئی شعبے ہیں اور ہر شعبہ،شبہات و اختلافات کی زد میں ہے ۔

یہ الگ بات ہے کہ بہت سے لوگ جن باتوں سے غافل رہے ہماری نظر وہاں تک پہنچ گئی،ابوبکر عبداللہ بن ابوملیکہ کی حدیث ملاحظہ ہو لکھتے ہیں،جب پیر کا دن آیا تو حضور سرور کائنات ؐ صبح کے وقت سر اقدس پر عصابہ(پٹی)باندھے ہوئے نکلے،ابوبکر لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے تو پیغمبر ؐ مسجد میں داخل ہوئے لوگوں نے آپ ؐ کو راستہ دینا شروع کیا اور ابوبکر کو احساس ہوگیا کہ پیغمبر ؐ مسجد میں داخل ہوچکے ہیں اس لئے کہ لوگ جس انداز سے راستہ دے رہے تھے وہ پیغمبر ؐ کے لئے ہی مخصوص تھا،بہرحال ابوبکر نے محراب سے ہٹ جانا چاہا،نبی نے ابوبکر کی پشت پر ہاتھ رکھا اور فرمایا لوگوں کو نماز پڑھاؤ،پھر آپ ابوبکر کے برابر میں داہنی طرف بیٹھ گئے اور نماز پڑھی ۔

جب آپ ؐ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کے سامنے آئے اور بآواز بلند خطبہ دینے لگے آواز اتنی بلند تھی کہ مسجد کے دروازے تک سنائی دے رہی تھی آپ نے فرمایا((لوگو!آگ بھڑک اٹھی ہے،فتنے اندھری رات کے ٹکڑوں کی طرح بڑھ رہے ہیں،خدا کی قسم میرے ذمہ تمہارا کچھ بھی نہیں ہے،میں نے حلال نہیں کیا مگر اسے جسے قرآن نے حلال کیا اور میں نے حرام نہیں کیا مگر اسے جسے تمہارے لئے قرآن نے حرام کیا))پس جب آپ فارغ ہوئے ۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) تاریخ طبری ج: ۲ ص: ۲۳۱ ،گیارہویں سال کے احداث کے بارے میں،السیرۃ النبویۃ ج: ۶ ص: ۷۱ ،البدءُ و التاریخ ج: ۵ ص: ۶۱

۳۲۷

اب ہم اس موضوع پر تو بحث کرنا نہیں چاہتے کہ ابوبکر نے نبی ؐ کو نماز پڑھائی اس لئے کہ یہ بات اہل سنت کے نزدیک ممتنع نہیں ہے ہم تو اس جگہ نبی ؐ کے خطبہ کی طرف آپ کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں،آپ محسوس کر رہے ہیں کہ نبی ؐ نے نماز کے بعد جو خطبہ دیا اس کے لہجہ میں کتنی سختی ہے؟آپ امت کو بتا رہے ہیں کہ فتنے اور انقلاب کے لئے ماحول تیار ہوچکا ہے،آگ لہک چکی ہے ایسا لگتا ہے کہ ابھی ابھی اجو واقعہ ہوا ہے اس سے نبی ؐ کو بہت رنج پہنچا ہے،اس لئے کہ آپ نے حلال قرآن کو حلال اور حرام قرآن کو حرام کیا تھا ۔

اگر حضور ؐ نے ابوبکر کو امامت کا حکم اس نیت سے دیا تھا کہ لوگ اس سے ابوبکر کی خلافت کی طرف اشارہ سمجھیں تو پھر فتنہ اور انقلاب کی کیا بات تھی،کام تو آپ کے حکم کے مطابق ہی ہوا تھا اور چونکہ آپ کا ارادہ ہے تو ابوبکر کی امامت قرآن کے موافق ہوئی تھی،اس سے امت فتنوں سے محفوظ رہتی اس لئے کہ کام قرآن کے مطابق ہو رہا تھا،پھر آپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ آگ بھڑک گئی ہے،آپ کو تہدید و تشدید بھی نہیں کرنی چاہئے تھی،البتہ شیعوں کے نظریوں کے مطابق آپ ؐ کی تہدید اور فتنوں سے تخویف و غیرہ بالکل صحیح تھی،سرکار دو عالم ؐ بالکل صحیح فرما رہے تھے ۔

(سازش کی آگ عائشہ کی طرف سے بھڑکی اور ابوبکر کی امامت کا فتنہ بلند ہوا اور پھر رات کی سیاہی کی طرح تاریکی کے تین ٹکڑے پے در پے آگے بڑھے ۔ )

اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ حضور ؐ نے اپنے آخری خطبہ میں فتنہ سے مراد اہل ردہ کو لیا تھا تو یہ بات ماننے کے قابل نہیں ہے،اس لئے کہ ارتداد تو نبی ؐ کے بعد ہوا تھا اس کی وجہ سےنبی ؐ کا رنجیدہ ہونا ممکن ہی نہیں تھا پھر اسے فتنہ کہہ کے ماضی کے صیغے سے تعبیر کرنا اور اپنے خطبے میں شامل کرنا مناسب نہٰیں تھا،اس لئے حضور ؐ اپنے خطبے میں حلال و حرام کے لئے قرآن کے حوالہ سے بات کررہے ہیں،اگر اہل ردہ مراد تھے تو اہل ردہ انھیں کہا ہی جاتا ہے جو قرآن سے پھر گئے ہیں اور قرآن کو نہیں مانتے،پھر حضور اکرم ؐ ان کے لئے مقام استدلال میں قرآن کو کیوں لاتے ۔

میں نے یہ باتیں اس لئے عرض کردیں،تا کہ کوئی ہمیں ان باتوں سے غافل نہ سمجھے،اگر چہ آپ

۳۲۸

کے سوال کا جواب ان باتوں پر موقوف نہٰیں ہے،سب سے اہم بات جس کو ہم ثابت کرنا چاہتے تھے وہ یہ کہ اس بات پر اتفاق نہیں ہے کہ نبی ؐ نے ابوبکر کو امامت کا حکم دیا تھا اور ہم یہ بات ثابت کرچکے ہیں،میں نے پہلے سوال کے جواب میں بھی عرض کیا تھا کہ لوگوں نے سنت پیغمبر ؐ کو توڑ مروڑ کے اہلبیت ؑ کے خلاف پیش کیا ہے،تا کہ دشمنان و مخالفین اہل بیت ؑ کو صحیح ٹھہرایا جائے اور اہل بیت ؑ کا حق غصب کیا جائے،آپ پہلے سوال کا جواب دوبارہ ملاحظہ فرمائیں ۔

نہ داستان نماز،ابوبکر کی خلافت پر نص ہے اور نہ ہی اصحاب نے اسے بیعت ابوبکر کے لئے لازم سمجھا

دوسری بات یہ ہے کہ حادث صلوٰۃ چاہے جیسے بھی واقع ہوا ہو خلافت ابوبکر پر نص بہرحال نہیں ہے،اس لئے کہ جمہور اہل سنت بالاتفاق اس بات کے قائل ہیں کہ پیغمبر ؐ نے اپنے بعد کے لئے کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہا،زیادہ سے زیادہ اس بات کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ یہ اقدام ابوبکر کی بیعت کی طرف محض ایک اشارہ تھا،آپ نے اپنے سوال میں بھی یہی بات بیان کی ہے،آپ جانتے ہیں کہ کوئی بھی واقعہ،دیکھنے اور محسوس کرنے والوں کے زاویہ نگاہ کے اختلاف کے ساتھ مختلف نتیجے دے سکتا ہے،اس میں دیکھنے اور محسوس کرنے والوں کے رجحان فکر اور میلان نفس کا زیادہ دخل ہوتا ہے ۔

اب اس واقعہ کی اہمیت آپ اسی سے سمجھ لیں کہ یہ سب کچھ ہونے کے بعد انصار نے دعوائے خلافت کردیا اور خلافت کے لئے سعد بن عبادہ کی بیعت کا مطالبہ کردیا اور ابوبکر نے عمر اور ابوعبیدہ کو خلافت کے لئے پیش کردیا ان کی بیعت کی پیش کش کی پھر مرنے کے وقت جب جادو سر چڑھ کے بولنے لگا تو کہنے لگے:مجھے کسی بات کا افسوس نہیں مگر صرف تین حرکتوں کا،کاش میں نے یہ تینوں کام انجام نہ دیئے ہوتے اور تین کام میں نے نہیں کئے ہیں اے کاش کہ میں نے وہ تین کام انجام دئے ہوتے اور تین چیزوں کے بارے میں پس رسول خدا ؐ سے سوال کرنا چاہتا تھا اب وہ تین کام کہ کاش

۳۲۹

میں انجام نہ دئے ہوتے پہلی بات تو یہ ہے کہ کاش سقیفہ کے دن میں خلافت کا ڈ ھول ابوعبیدہ یا عمر کے گلے میں باندھ دیتا،ان میں سے کوئی ایک امیر ہوتا اور میں وزیر...اور وہ تین چیزیں جن کے بارے میں کاش کہ رسول خدا ؐ سے پوچھ لیا ہو ان میں سے ایک یہ ہے کہ کاش میں پوچھ لیتا کہ آپ کے بعد خلیفہ کون ہوگا تا کہ کوئی خلافت کی اہلیت رکھنے والوں سے نزاع نہ کرنا..(۱) غور کریں کہ اگر ابوبکر امامت صلوٰۃ سے اپنی خلافت کی طرف اشارہ سمجھتے ہوتے تو ہو بے چارے اس گومگو کی کیفیت میں کیوں رہتے؟نہ انھیں پیغمبر ؐ سے سوال کرنے کی خواہش ہوتی،نہ یہ آرزو کہ خلافت کی ڈ ھول ان دونوں میں سے کسی ایک کے گلے میں باندھ دیتے ۔

اسی طرح اگر نماز کے وقت کے حاضرین اسے خلافت ابوبکر کی طرف اشارہ سمجھتے تو امیرالمومنین علی ؑ ،عام بنوہاشم اور خواص صحابہ ابوبکر کی بیعت سے ہرگز کوتاہی نہ کرتے اور آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے ۴،۳ نمبر کے سوالوں کے جواب میں یہ عرض کیا ہے کہ ابوبکر کی بیعت سے مولائے کائنات ؑ اور مہاجرین و انصار کے نمایاں افراد نے صاف طور پر انکار کیا اور بیعت کی بھی تو بہت ہی مکروہ عمل سمجھ کے کی ۔

اور سقیفہ میں جب انصار،سعد بن عبادہ کی طرف اور ابوبکر،عمر و ابوعبیدہ کی بیعت کی طرف مائل تھے،حالانکہ اگر حادثہ صلوٰۃ میں ابوبکر کی خلافت کی طرف اشارہ موجود تھا تو آخر یہ حضرات اس اشارہ سے کیوں منحرف تھے اگر اس لئے کہ ان لوگوں کا یہ عمل محض ارتجالاً اور بے سوچا سمجھا اقدام تھا اور ان کی جنگجو طبعیت کا تقاضا تھا،جس کی وجہ سے صلوٰۃ سے غفلت برتی گئی اور جب وقت آیا تو اسے مقام استدلال میں پیش نہیں کیا گیا،اس کا مطلب ہے کہ اس حادثہ کا ان لوگوں پر کوئی خاص اثر نہیں تھا تو ایسی صورت میں امیرالمومنین ؑ اور آپ جیسے لوگوں کا موقف اس بات کی دلیل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مجمع الزوائد ج:۵ص:۲۰۱۔۲۰۳،الاحادیث المختارۃ،ج:۱ص:۸۹۔۹۰معجم الکبیر ج:۱ص:۶۲،الضعفاء للعقیلی ج:۳ص:۴۲۰۔۴۲۱،میزان الاعتدال ج:۵ص:۱۳۵۔۱۳۶،لسان المیزان ج:۴ص:۱۸۹،تاریخ طبری ج:۲ص:۳۵۳۔۳۵۴،تاریخ دمشق ج:۳۰ص:۴۱۸۔۴۲۰۔۴۲۱۔۴۲۲

۳۳۰

ہے کہ ان حضرات کو بیعت ابوبکر سے اختلاف تھا اور ان کا ہر عمل احتجاج کی راہ میں تھا،جیسا کہ تیسرے اور چوتھے سوال کے جواب سے ظاہر ہے ۔

پھر ابوبکر نے اسی بیماری کے دور میں جو کچھ کہا وہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ حادثہ صلوٰۃ ان کی خلافت پر اشارہ نہیں تھا،جب ابوبکر کو مرتبہ خلافت ملا اور وہ اس تجربہ سے گذرے تو ان کی سمجھ میں بات آگئی کہ خلافت کرنے اور کپڑے بننے میں بہت فرق ہے،خلافت کی ذمہ داریوں کا احساس کر کے اور خود کو نااہل سمجھ ک انھوں نے بہت ہی حسرت و یاس کی حالت میں مذکورہ باتیں کہیں ہیں ۔

گذشتہ تصریحات آپ کے سامنے ہیں،نتیجہ نکالنا آپ کا کام ہے لیکن ان سب باتوں سے جو بات میری سمجھ میں آتی ہے وہ دو حال سے خالی نہیں ہے ۔

۱ ۔ پہلی بات تو یہ ہے ک ابوبکر کو نماز کی امامت کرنے کا حکم پیِغمبر ؐ نے سرے سے دیا ہی نہیں تھا،بلکہ نماز کا معاملہ ایک سازش تھی اور یہ سازش اس طرح رچی گئی تھی کہ لوگوں کو خلافت ابوبکر پر نص جیسی معلوم ہونے لگے،بلکہ ایک طرح سے اس سازش میں نص کی طرف موڑنے کا اشارہ ملفوف تھا ۔

سازش کرنے والی نے ایک کمزور وقت اور وقت کے ایک کمزور لمحے سے فائدہ اٹھانا چاہا تھا تا کہ اس واقعہ کے سہارے اہل بیت ؑ سے حکومت چھین لی جائے اور جب کوئی مخالفت کرے جیسے شیعیان اہل بیت ؑ تو اس واقعہ کو مقام استدلال پیش کردیا جائے ۔

امام جماعت ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس آدمی کے اندر امامت عامّہ کی بھی صلاحیت ہے

۲ ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ سرکار دو عالم ؐ نے ابوبکر کو امامت صلوٰۃ کا حکم دیا تھا تو اس سے بھی آپ کے موقف پر کوئی دلیل قائم نہیں ہوتی،اس لئے کہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ نماز میں امام ہونا اور ہے اور عالم اسلام کی سیاسی،مذہبی اور علمی امامت اور ہے کوئی ضروری نہیں کہ مسجد کے

۳۳۱

امام کے اندر امت کی امامت کی صلاحت بھی موجود ہو ۔ تاریخ سے پوچھیئےمجب عمر زخمی ہوئے تو عبدالرحمٰن بن عوف نے امامت نماز کے فرائض انجام دیئے(۱) خود عمر نے صھیب کو حکم دیا تھا کہ ان کے ہلاک ہونے کے بعد جب تک شوریٰ میں خلیفہ معین نہ ہوجائے(۲) ( اور اس کی مدت تین دن تھی)اس وقت تک صھیب نماز پڑھاتے رہیں،اسی طرح جب مولائے کائنات ؐ مسجد کوفہ میں ابن ملجم ملعون کے ہاتھوں زخمی ہوئے تو آپ نے جعدہ بن ہبیرہ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا ۔(۳)

اب اگر کوئی یہ کہے کہ اسی امامت صلوٰۃ کی وجہ سے عمر نے ابوبکر کو آگے بڑھایا اور ان کی بیعت کی پیشکش کی تو میں عرض کروں گا کہ...

۱ ۔ عمر نے اس امامت صلوٰۃ کی وجہ سے ابوبکر کو ّگے نہیں بڑھایا تھا،نہ اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ نبی ؐ نے ہی ان کو آگے بڑھایا ہے،اس لئے ہم انھیں امام مانتے ہیں اور نہ وہ اس بات کے دعویدار تھے کہ نبی ؐ کا ابوبکر کو امام بنانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے اندر امامت عامّہ کی اہلیت بھی ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عمر کی نظر میں نماز کی امامت ابوبکر کی ایک فضیلت تھی اس لئے انھوں نے ابوبکر کو آگے بڑھادیا،جیسے وہ اس بات کے قائل تھے کہ(اگر میں ابوعبیدہ جراح کو پاتا تو انھیں اپنے بعد خلیفہ بناتا،پھر جب اپنے رب کے پاس جاتا اور میرا رب مجھ سے پوچھتا کہ امت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) صحیح بخاری ج: ۳ ص: ۱۳۵۴ ،صحیح ابن حبان ج: ۱۴ ص: ۱۹۳ ،المستدرک علی صحیحین ج: ۳ ص: ۹۷ ،سنن کبریٰ بیقھی ج: ۳ ص: ۱۱۳ ،المصنف لابن ابی شیبۃ ج: ۱ ص: ۴۰۶ ،مسند ابی یعلی ج: ۵ ص: ۱۱۶ ،حلیۃ الاولیاء ج: ۴ ص: ۱۵۱ ،کتاب الآثار:ص: ۱۴۷ الثقات ج: ۲ ص: ۲۳۸ ،طبقات الکبریٰ ج: ۳ ص: ۳۳۷ ،نیل الاوطار ج: ۶ ص: ۱۵۸ ،موارد الظمان ص: ۵۳۷ ،مجمع الزوائد ج: ۹ ص: ۷۶ مسند الحارث ج: ۲ ص: ۶۲۲)

( ۲) صحیح ابن حبان ج: ۱۵ ص: ۳۳۳ ،المصنف لابن ابی شیبۃ ج: ۷ ص: ۴۳۷ ،مجمع الزوائد ج: ۵ ص: ۱۹۵ طبقات الکبریٰ ج: ۳ ص: ۶۱ ،ج: ۳ ص: ۳۴۱ ،فتح الباری ج: ۷ ص: ۶۸ سیرہ اعلام نبلاء ج: ۲ ص: ۲۶)

( ۳) الاستیعاب ج: ۳ ص: ۱۱۲۵ ،حضرت علیؑ کی سوانح حیات میں،مجمع الزوائد ج: ۹ ص: ۱۴۱ ،باب مناقب علی بن ابی طالبؑ،کتاب مناقب،معجم الکبیر ج: ۱ ص: ۹۹ ،علی بن ابی طالب حالات میں،نظم دررالمسطین ص: ۱۴۱ مناقب للخوارزمی ص: ۳۸۳ ،المنتظم ج: ۵ ص: ۱۷۳ کامل فی التاریخ ج: ۳ ص: ۲۵۶ ،ذخائز العقبی فی مناقب القربیٰ ج: ۱ ص: ۱۱۴

۳۳۲

ؐ محمد کی خلافت کس کے حوالے کر کے آئے تو میں کہتا کہ میں نے تیرے بندے اور خلیل سے یہ سنا تھا کہ ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین ابوعبیدہ جراح ہے)(۱) تو جس طرح عمر،ابوعبیدہ کے اندر فضیلت کے قائل تھے کہ انھیں پیغمبر ؐ نے امامت صلوٰۃ سونپی تھی،بشرطیکہ ایسا ہوا ہو،عمر تو یہ بھی کہتے تھے کہ((اگر میں ابوحذیفہ کے غلام کو پاتا تو اسی کو خلیفہ بنادیتا اور اپنے مالک سے جا کے کہتا کہ تیرے نبی ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ سالم اللہ سے شدید محبت کرنے والا ہے(۲) اور عمر یہ بھی کہتے تھے کہ میں معاذ بن جبل کو پاتا تو اسے خلیفہ بنادیتا اور جب میرا مالک پوچھتا تو میں کہتا کہ تیرے حبیب کو یہ کہتے سنا تھا کہ جب علما قیامت کے دن اپنے پروردگار کے حضور میں حاضر ہوں گے تو معاذ بن جبل ان کے درمیان ایک بلند چٹان کی طرح ہوں گے ۔(۳)

۲ ۔ دوسری بات یہ ہے کہ عمر نے یہ دیکھا کہ حادثہ صلوٰۃ ان کے ہدف کو ثابت کرتا ہے اس لئے حادثہ صلوٰۃ کو توڑ مروڑ کے پیش کیا اور کمزور لمحون کا فائدہ اٹھا کے اپنے عمل کو ایک شرعی حیثیت دیدی،حالانکہ ابوبکر کی بیعت کا عمل خود ان کے کہنے کے مطابق ایک لغزش تھی لیکن عمر نے موقعہ سے خوب فائدہ اٹھایا اور کسی وضاحت کے طلب کرنے یا رد و تردید کرنے کا کوئی موقع ہی نہیں دیا،نہ کسی کو اس بات کا موقعہ دیا کہ وہ اس حادثہ کے مدلول حقیقی پر روشنی ڈ ال سکے ۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سیاست کے مداری اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے اور اپنے مختلف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مسند الشیاشیی ج:۲ص:۹۳،مناقب ابی عبید اور اسکے علاوہ،مسند احمد ج:۱ص:۱۸،مسند عمر بن خطاب میں،فتح الباری ج:۱۳ص:۱۱۹،تحفۃ الاحوذی ج:۶ص:۳۹۹،فیض القدیر ج:۳ص:۱۹۰سیر اعلام نبلاء،ج:۱ص:۳۷۲،خالد بن ولید کے حالات میں،صفوۃ الصفوۃ ج:۱ص:۳۶۷،تاریخ طبری ج:۲ص:۵۸۰،تاریخ دمشق ج:۵۸ص:۴۰۵،معاذ بن جبل کے حالات میں،مستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۳۰۰،کتاب معرفۃ صحابہ ابی عبیدہ بن جراح کے مناقب میں،طبقات الکبریٰ ج:۳ص:۴۱۳،ابی عبیدہ بن جراح کے حالات میں،فضائل الصحابہ لابن حنبل ج:۲ص:۷۴۲،اور تاریخ دمشق ج:۲۵ص:۴۶۱،عامر بن عبداللہ بن جراح کے حالات میں۔

(۲)اس کا مدرک چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے

(۳)اس کا مدرک چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے

۳۳۳

اہداف تک پہنچنےکے لئے ایسے ہی لمحے کی تلاش میں رہتے ہیں(بیتو کا کام کرتے ہیں)موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں،وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہیں اور بیوقف عوام کو دھوکا دینے کے لئے بےہودہ استدلال اور بلاوجہ کی لفاظی سے فائدہ اٹھاتے ہیں ان کی دلیلیں جیسے صحرا میں سراب،جسے پیاسا پانی سمجھتا ہے لیکن جب وہاں پہنچتا ہے تو کچھ بھی نہیں پاتا بلکہ وہاں خود اللہ موجود رہتا ہے اور اس کا پورا پورا حساب کردیتا ہے،(۱) اگر عمر نے ابوبکر کے لئے امامت صلوٰۃ کو دلیل خلافت بنا کے پیش کیا بھی تو یہ محض وقت کی آواز تھی ورنہ عمر،پیغمبر ؐ کے مرض کی حالت میں آپ کے ارشادات کی طرف کب دھیاں دینے والے تھے ۔

عمر نے ارشادات نبوی ؐ کا بھی احترام نہیں کیا خاص طور سے سرکار دو عالم ؐ نے بیماری کی حالت میں جو ہدایتیں دیں،عمر کی نظر میں ان کی کوئی اہمیت نہیں تھی آپ کہتے ہیں کہ حالت مرض میں نبی ؐ نے ابوبکر کو امامت نماز کا حکم دیا،عمر نے اس حکم کو خلافت ابوبکر کی دلیل بنا کے پیش کیا تو میں عرض کرتا ہوں کہ تعجب ہے عمر نے بیمار پیغمبر ؐ کو اتنی اہمیت کیسے دی؟

یہ واقعہ دوشنبہ کا ہے،ابھی چار دن قبل یعنی پنجشنبہ کے دن سرکار دو عالم ؐ حالت بیماری میں یہ فرما رہے تھے کہ:((قلم اور دوات لاؤ میں ایسی تحریر لکھ دوں کہ میرے بعد تم لوگ کبھی گمراہ نہ ہوگے))ادھر عمر اور حامیان عمر آپ کے قول کو رد کررہے تھے،عمر نے کہا آپ(معاذ اللہ)ہزیان بک رہے ہیں،پھر کہا کہ آپ پر درد کا غلبہ ہے،ہمارے لئے کتاب خدا کافی ہے یہ تمام باتیں دوسرے سوال کے جواب میں عرض کی جاچکی ہیں ۔

اس حدیث قرطاس کے بعد حادثہ صلوٰۃ سامنے آتا ہے،بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نبی ؐ کی وفات کے دن کا حادثہ ہے یعنی دوشنبہ کے دن کا ۔

اب تو مرض مزید بڑھ گیا ہوگا لیکن عمر نے نہیں کہا کہ حضور نے درد سے گھبرا کے ایسا حکم دیا ہوگا ذرا سونچئے گا کہ یہ سب کیوں ہورہا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ نور آیت:۳۹

۳۳۴

عمر نے خلافت کے بارے میں جب بھی گفتگو کی حادثہ صلوٰۃ کا ذکر بالکل نہیں کیا

لطف کی بات تو یہ ہے کہ سقیفہ کے بعد مر نے ابن عباس سے کئی دفعہ گفتگو کی،سقیفہ کی خوبیاں گنائیں،ابوبکر کی بیعت کو جائز قرار دیا،اپنے داماد کی بھرپور پیروی کی،بہت سی توجیہات پیش کیں،لیکن کبھی یہ نہیں کہا کہ ابوبکر کی بیعت اس لئے ضروری تھی کہ انھوں نے نبیؐ کے حکم سے ایک دن نماز جماعت کی امامت کی تھی،انھوں نے مولیٰ علیؑ کو خلافت سے محروم رکھنے کے لئے مکڑی کی طرح جالے بنے،جیسے یہ کہا کہ علیؑ خلافت کے لئے مناسب نہیں تھے اس لئے کہ وہ بہت کمسب تھے،اس لئے کہ وہ بنی عبدالمطلب سے محبت کرتے تھے،اس لئے کہ قریش کو یہ گوارہ نہ تھا کہ خاندان بنی ہاشم میں نبوت و خلافت(دونوں)جمع ہو و غیرہ..یہ بھی کہا کہ ابوبکر کی بیعت اچانک ایک حادثہ تھی اور یہ عرض کیا جاچکا ہے کہ فلتہ کا مطلب کم سے کم یہ ہوتا ہے کہ کسی کام کا بغیر مشورے کے اچانک ہوجانا،لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ بیعت میں جلد بازی فتنہ کے خوف سے کی گئی(۱)

بہرحال اگر حادثہ صلوٰۃ اس قابل ہوتا کہ اسے مقام احتجاج میں پیش کیا جاسکے تو پھر کوئی تو کہتا،بلکہ سب سے پہلے اس کو پیش کیا جاتا کہ خلافت ابوبکر پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ حضورؐ نے ان کو امامت کا حکم دیا ہے۔ان تمام باتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس حادثہ کو صرف سقیفہ کے دن ہی پکڑے رہنا اور اس کو دلیل بنانا اصل میں مدلول حقیقی سے نگاہیں پھیرنے کی اور حقیقت حق سے باطل کی طرف موڑنے کی ایک کوشش تھی۔تیسری بات یہ ہے کہ مدعی کے لئے اپنے دعوے پر اس طرح کی کمزور دلیلیں لانا جو اشارے کنائے پر مشتمل ہو،منطق کا تقاضہ نہیں ہےجب کہ اس کے مخالف کے پاس اس طرح کی کمزور دلیلوں کو توڑنےکے لئے وافر مقدار میں مواد موجود ہیں،یہاں تو واضح دلیلیں اور روشن حجتیں پیش کرنے کی ضرورت ہے،جو مخالف کو لاجواب کردے اس دلیل کو توڑنے کے لئے شیعوں کے پاس تو اتنا مواد ہے کہ اس کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں ہے،لیکن میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ حادثہ صلوٰۃ کا تقابل ان واقعات سے ضرور کیا جائےجو امیرالمومنینؑ کے حق میں جاتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)ریاض النضرۃ،ج:۲ص:۲۰۶،پہلا باب رسول اللہ کے خلیفہ ابوبکر کے فضائل کے بیان میں،فصل ۱۳،خلافت کے بیان میں اور جو چیز صحابہ سے متعلق ہے،سقیفہ کی بیعت کو ذکر کیا اور جو اس میں پیش آیا۔

۳۳۵

ایک تقابلی مطالعہ

میں صاحبان انصاف سے صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا حادثہ صلوٰۃ کی دلیل(جو ابوبکر کی خلافت کے حق میں ان کے قول کے مطابق ہے)ان روایتوں کے مقابلے میں کچھ دیر بھی ٹھہرسکے گی،جن روایتوں سے نبی کا امیرالمومنین ؑ سے اختصاص اور قربت مستفاد ہوتی ہے،احادثہ صلوٰۃ کی دلیل ان تمام روایتوں سے قوی تر ہے؟کیا تاریخ یہ نہیں بتاتی کہ علی ؑ نبی ؐ کے اخص تھے؟نبی ؐ کی زندگی میں اور نبی ؐ کے مرنے کے بعد بھی ان کے تمام امور کے ذمہ دار علی ؑ ہی تھے؟یہاں تک کہ آپ ہی نے نبی ؐ کی تجہیز و تکفین کی اور انھیں قبر میں اتارا،نبی ؐ نے تمام صحابہ کے درمیان علی ؑ کو یہ خصوصیت دی کہ آپ کو اپنا بھائی بتایا اور صی ٖ ہ مواخاۃ جاری کیا(۱) نبی ؐ نے خدا کے حکم سے اپنی صاحبزادی فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا کا عقد حضرت علی ؑ سے کیا ۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) المستدرک علی صحیحین،ج: ۳ ص: ۱۶ ۔ ۱۵ ،کتاب الھجرۃ،سنن ترمذی ج: ۵ ص: ۶۳۶ ،کتاب مناقب،علل دارقطنی،ج: ۹ ص ۲۰۵ ،الطبقات الکبریٰ ج: ۳ ص: ۲۲ ،علی ابن ابی طالبؑ کے حالات میں،فضائل صحابہ،ابن حنبل،ج: ۲ ص: ۵۹۷ ،فضائل علیؑ ص: ۶۱۷ ،البدایۃ النھایۃ ج: ۷ ص: ۳۵،۲۲۴ سنہکے حالات میں جس میں عثمان کے قتل کا بھی تذکرہ ہے اور امیرالمومنین علیؑ کی خلافت کا ذکر بھی ہے،تاریخ الخلفا ص: ۱۷۰ ،السیرۃ النبویۃ،ج: ۳ ص: ۳۶ ،مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارگی،تاریخ دمشق ج: ۴۲ ،ص: ۹۶ ۔ ۶۱ ۔ ۵۳ ۔ ۵۲ ۔ ۵۱ ۔ ۱۸ ،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،تہذیب الاسما ص: ۳۱۸ ،فیض القدیر،ج: ۴ ص: ۳۵۵ ،الریاض النضرۃ ج: ۱ ص: ۲۰۵ ،التدوین فی اخبار قزوین ج: ۲ ص: ۱۲۶ ،تحفۃ الاحوزی،ج: ۱۰ ص: ۱۵۲ ،تہذیب الکمال ج: ۲ ص: ۴۸۴ ،

( ۲) مجمع الزوائد ج: ۹ ص: ۲۰۴ ،کتاب مناقب باب فاطمہ بنت رسول اللہؐ،المعجم الکبیر ج: ۱۰ ص: ۱۵۶ ،عبداللہ بن مسعود کی مسند میں،ج: ۲۲ ص: ۴۰۷ ،فاطمہ صلوٰۃ اللہ علیھا کی عمر،اور ان کی شہادت،مناقب اور کنیت و غیرہ کا ذکر،اور جناب فاطمہ کی شادی کا ذکر،تاریخ دمشق ج: ۳۷ ص: ۱۳ ،عبدالملک بن حبار کے حالات میں،ج: ۴۲ ،ص: ۱۲۶ ۔ ۱۲۹ ،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،ج: ۵۲ ،ص: ۴۴۵ ۔ ۴۴۴ ،محمد بن دینا عرقی کے حالات میں،کنزالعمال ج: ۱۱ ص: ۶۰۰ ،حدیث: ۳۲۸۹۱ ،ص: ۶۰۶ ،حدیث: ۳۲۹۲۹ ،البیان و التعریف،ج: ۱ ص: ۱۷۴ ،ج: ۲ ص: ۳۰۱ ،میزان الاعتدال ج: ۴ ص: ۴۲۲ ،عبدالنور بن عبداللہ المسمعی کے حالات میں،لسان المیزان ج: ۴ ص: ۷۷ عبدالنور عبداللہ مسمعی کے حالات میں،الکشف الحثیث،ص: ۱۷۴ ،عبدالنور عبداللہ مسمعی کے حالات میں،

۳۳۶

اور حضرت علی ؑ ہی آپ کی ذیرت کے باپ قرار پائے ۔(۱)

نبی ؐ نے مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازوں کو بند کرادیا سوائے علی ؑ کے گھر کے دروازہ کے ۔(۲) اس سے پتہ چلا کہ جو علی ؑ کے لئے حلال ہے وہ نبی ؐ کے لئے حلال ہے ۔(۳) فاطمہ زہرا ؐ اور آپ کے دونوں صحاب زادے امام حسن ؑ و امام حسین ؑ ہیں(۴) جن سے اللہ نے رجس کو دور رکھا ہے اور ایسا پاک کیا ہے جیسا پاک کرنے کا حق ہے اور نبی ؐ نے فرمایا کہ((اہل بیت ؑ کی مثال سفینہ نوح ؑ جیسی ہے،جو اس پر سوار ہوا وہ نجات پاگیا اور جو اس سے منھ موڑے گا وہ غرق ہوگا اور ہلاک ہوجائے گا ۔(۵)

پھر نبی ؐ نے یہ نص فرمائی کہ((اہل بیت ؑ سے مراد امیرالمومنین علی ؑ ،آپ کی شریک حیات اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) مجمع الزوائد ج: ۹ ص: ۱۷۲ ،کتاب مناقب فاطمہ زہراؐ کے فضائل کا باب میں،اور آپ کی علیؑ سے شادی کے باب میں،معجم الکبیر ج: ۳ ص: ۴۳ ،جامع الصغیر ج: ۱ ص: ۲۶۲ ،فردوس ماثور الخطاب ج: ۱ ص: ۱۷۲ ،فیض القدیر ج: ۲ ص: ۲۳۳ ،کنز العمال ج: ۱۱ ص: ۶۰۰ حدیث: ۳۲۸۹۲ ،تاریخ دمشق ج: ۴۲ ص: ۲۵۹ ،تاریخ بغداد ج: ۱ ص: ۳۱۷ ،ینابیع المودۃ ج: ۲ ص: ۹۰ ۔ ۲۳۷ ۔ ۲۹۲ ۔ ۲۴۵ ۔ ۳۹۹ ۔ ۴۴۷ ،میزان الاعتدال ج: ۴ ص: ۳۱۳ ،ض: ۷ ص: ۲۰۷ ،لسان المیزان ج: ۳ ص: ۴۲۹ ،علل متناہیہ ج: ۱ ص: ۲۱۴ ،کشف الخفاء ج: ۲ ص: ۱۵۷ ،نیل الاوطار ج: ۶ ص: ۱۳۹)

( ۲) السنن الکبریٰ،نسائی ج: ۵ کتاب الخصائص،امیرالمومنین علی بن ابی طالبؑ کی خصوصیات،ص: ۱۱۳ ،اس سلسلے میں عمران بن حصین کی خبر کا تذکرہ،ص: ۱۱۹ ۔ ۱۱۸ ،رسول اکرمؐ کا بیان کہ میں علی کے دروازہ کے علاوہ سارے دروازوں کے بند کرنے کا حکم دیا ہے،سنن ترمذی ج: ۵ ص: ۶۴۱ ،المستدرک علی صحیحین ج: ۳ ص: ۱۳۵ ،مسند احمد بن حنبل ج: ۱ ص: ۱۷۵ ،مسند ابی اسحاق سعد بن وقاص،ص: ۳۳۰ ،معتصر المختصر ج: ۲ ص: ۳۳۲ ،مجمع الزوائد ج: ۹ ،ص: ۱۱۵ ۔ ۱۱۴ ،مسند رویانی ج: ۱ ص: ۲۷۷ ،مسند ابی یعلی ج: ۲ ص: ۶۱ ،مسند سعد بن ابی وقاص،ابن ابی عاصم کی سنت کے عنوان سے،ج: ۲ ص: ۶۰۳ ۔ ۵۹۹ ،باب فضائل علیؑ کا تذکرہ،فتح الباری ج: ۷ ص: ۱۴ ،تفسیر قرطبی،ج: ۵ ص: ۲۰۸ ،

( ۳) تاریخ دمشق ج: ۴۲ ص: ۱۴۰ ۔ ۱۳۹ مسند الشاشیی ج: ۱ ص: ۱۴۶ ،میزان الاعتدال ج: ۲ ص: ۲۱۰ ،لسان میزان ج: ۲ ص: ۱۸۲ ،مناقب الخوارزمی ص: ۱۰۹ ،ینابیع المودۃ ج: ۱ ص: ۱۶۰ ،تاریخ المدینۃ ج: ۱ ص: ۳۸

( ۴) صحیح ابن حبان ج: ۱۵ ص: ۴۳۲ ،کتاب اخبار،مناقب صحابہ،السنن الکبری للنسائی ج: ۵ ص: ۱۰۷ ،کتاب خصائص،امیرالمومنین علی بن ابی طالبؑ کی خصوصیات میں،سنن ترمذی ج: ۵ ص: ۳۵۱ ،کتاب فضائل قرآن،المستدرک علی صحیحین ج: ۲ ص: ۴۵۱ ،کتاب تفسیر،تفسیر سورہ احزاب،مسند احمد ج: ۴ ص: ۱۰۷ ،واثلہ بن اسقع کی حدیث میں ج: ۶ ص: ۲۹۲ ،رسول اللہؐ کی بیوی ام سلمہؐ کی حدیث میں،معتصر المختصر ج: ۲ ص: ۲۶۶ ،مجمع الزوائد ج: ۹ ص: ۱۶۷ ،کتاب مناقب،مسند البراز ج: ۶ ص: ۲۱۰ ،المعجم الکبیر ج: ۳ ص: ۵۳ ،اخبار حسن بن علیؑ میں،ج: ۲۵ ص: ۹ ،مسند عمر بن ابی سلمۃ میں،ج: ۲۲ ص: ۶۶ مسند واثل - ( ۵) اس کا مدرک گذشتہ چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے۔

۳۳۷

پھر فرمایا:کہ اہل بیت ؑ ہی ان ثقلین میں سے ایک ثقل ہیں جنھیں نبی ؐ نے اپنی امت کا خلیفہ بنایا ہے،آپ کے سابقہ سوالوں میں چھٹے سوال کے جواب میں اس حدیث پر کافی گفتگو ہوچکی ہے ۔

حضور سرور کائنات ؐ اہل بیت ؑ ہی کو لیکے نصارائے نجران کے مقابلہ میں نکلے(۱) تا کہ معولم ہوجائے کہ یہ حضرات صرف نبی ؐ ہی کے قرابتدار نہیں ہیں بلکہ بارگاہ الٰہی میں بھی اتنے مقرب ہیں کہ ان کی دعا کا اثر ہوتا ہے ۔

اللہ ان کی دعائیں سنتا ہے اور قبول کرتا ہے،یہ بھی ثابت ہوجائے کہ یہ حضرات ہی در حقیقت دعوت اسلام کے ذمہ دار ہیں،اس کی حمایت میں لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس کے عہد کے پابند ہیں ۔

انھیں کے لئے نبی ؐ نے فرمایا:میں اس سے صلح کروں گا جو ان سے صلح کرے گا اور اس سے جنگ کروں گا جو ان سے لڑے گا،(۲) پھر آپ نے امیرالمومنین ؑ کو وصی بنایا اور یہ بات اتنی مشہور ہوئی کہ لوگ امیرالمومنین ؑ کو وصی کے نام سے پہچاننے لگے ۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) صحیح مسلم ج: ۴ ص: ۱۸۷۱ ،کتاب فضائل صحابہ،باب فضائل علی ابن بی طالبؑ میں،المستدرک علی صحیحین ج: ۳ ص: ۱۶۳ ،کتاب معرفت صحابہ،سنن الکبری بیھقی،ج: ۷ ص: ۶۳ ،کتاب قسم الصدقات،مسند احمد ج: ۱ ص: ۱۸۵ ،مسند ابی اسحاق سعد بن ابی وقاص میں مسند سعد ص: ۵۱ ،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،الاصابۃ ج: ۴ ص: ۵۶۹ ،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،معرفت علوم حدیث ص: ۵۰ ،تفسیر طبری ج: ۱ ص: ۳۹۸ ،روح المعانی ج: ۴ ص: ۱۸۸ ،اسباب نزول آیات،ص: ۶۸ ،شواہد التنزیل للحسکانی ج: ۱ ص: ۱۵۶ ۔ ۱۵۹ ۔ ۱۶۳ ۔ ۱۶۴ ،وغیرہ۔

( ۲) اس کا مدرک چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے۔

( ۳) المستدرک علی صحیحین ج: ۳ ص: ۱۸۸ ،مسند ابی یعلی ج: ۴ ص: ۳۴۴ ،مجمع الزوائد ج: ۹ ص: ۱۱۴ ۔ ۱۱۳ ،حلیۃ الاولیاء ج: ۲ ص: ۷۴ ،معجم الکبیر ج: ۶ ص: ۲۲۱ الاصابۃ ج: ۵ ص: ۵۷۶ ،فضائل الصحابہ ج: ۲ ص: ۶۱۵ ،سیرہ اعلام نبلاء ج: ۴ ص: ۱۱۳ ،بقیۃ الکمال ج: ۲۶ ص: ۱۵۱ ،تھذیب التھذیب ج: ۳ ص: ۹۱ ،تاریخ دمشق ج: ۴۲ ص: ۵۳۲ ۔ ۳۹۲ ،تاریخ واسط ص: ۱۵۴ ،تاریخ بغداد ج: ۱۱ ص: ۱۱۲ ،ج:! ۳ ص: ۲۹۸ ،الذریۃ الطاہرہ ص: ۷۴ ،فردوس بما ثور الخطاب ج: ۳ ص: ۳۳۶ ،فتح الباری ج: ۸ ص: ۳۸۷ ج: ۵ ص: ۱۳۹ ،الکامل الضعفا الرجال ج: ۴ ص: ۱۴ ،المجروحین ج: ۱ ص: ۲۷۹ ،بدایۃ النہایہ ج: ۱۳ ص: ۲۵۸ تاریخ طبری ج: ۲ ص: ۶۹۶ ،ج: ۳ ص: ۳۱۹ ،الکامل فی التاریخ ج: ۳ ص: ۴۱۹ ،المعرکۃ ج: ۵ ص: ۱۵۲ ،المنتظم ج: ۱۰ ص: ۱۲۸ ،البدءو التاریخ ج: ۵ ص: ۲۲۵ وفیات الاعیان ج: ۵ ص: ۳۷۹ ،تاریخ یعقوبی ج: ۲ ص: ۱۷۱ فی ایام عثمان بن عفان ص: ۱۷۹ اور خلافت امیرالمومنین میں ص: ۲۲۸

۳۳۸

آنحضرت ؐ نے فرمایا:میرا وصی تمام اوصیا سے بہتر ہے ۔(۱) چوتھے سوال کے جواب میں عرض کیا جاچکا ہے کہ یہاں وصایت سے مراد نبوت کی وصایت ہے مولائے کائنات پیغمبر خدا ؐ کے قرضوں کو ادا کرنے والے ہیں اور نبی ؐ کے وعدوں کو پورا کرنے والے ہیں ۔(۲) اور امت نبی ؐ کے اختلافی مسائل کو حل کرنے والے ہیں،(۳) آپ علم نبی ؐ کے وارث ہیں(۴) اور شہر علم نبی ؐ کے دروازہ ہیں(۵) جس سے داخل ہو کر علم نبی ؐ تک پہنچا جاسکتا ہے،جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے((نیکی یہ نہیں ہے کہ تم گھروں میں پس پشت داخل ہو،بلکہ نیکی یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کرو،گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہوا اور اللہ سے ڈ رو تا کہ تمہارا بھلا ہو)) ۔(۶)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سیرہ ابن اسحاق ج:۲ص:۱۰۵،مجمع الزوائد ج:۹ص:۱۶۵،معجم الاوسط ج:۶ص:۳۲۷معجم الکبیر ج:۳ص:۵۷

(۲)مجمع الزوائد ج:۹ص:۱۱۳ اور باب وصیت میں ص:۱۲۱،احادیث المختار ج:۲ص:۱۳۱فضائل الصحابہ لابن حنبل ج:۲ص:۶۱۵تفسیر ابن کثیر ج:۳ص:۳۵۱،مسند احمد ج:۱ص:۱۱۱،تاریخ دمشق ج:۴۲ص:۴۷۔۴۹۔۵۰۔۵۶۔۴۷۱،الفردوس بما ثور الخطاب ج:۳ص:۶۱،معجم الکبیر ج:۱۲ص:۴۲۰،میزان الاعتدال ج:۶ص:۴۴۶،ج:۷ص:۵الکامل فی الضعفاء الرجال ج:۶ص:۳۹۷،المجروحین،ج:۳ص:۵

(۳)اس کا مدرک چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے۔

(۴)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۳۶،کتاب معرفۃ الصحابہ(صحابیوں کی پہچان،مناقب علی بن ابی طالبؑ،الاحاد و المثانی،ج:۵ص:۱۷۲،زید بن ابی اوفی کے حالات میں،المعجم الکبیر،ج:۵ص:۲۲۱،روایت زید بن ابی اوفی،ریاض النضرہ،ج:۱ص:۱۹۸،پہلا باب،فضائل الصحابہ لابن حنبل،ج:۲ص:۶۶۶۔۶۳۸،فضائل علیؑ تاریخ دمشق ج:۲۱،ص:۴۱۵،سلمان بن اسلام کے حالات میں،ج:۳۲،ص:۵۳،علی بن ابی طالب کے حالات میں،و غیرہ۔

(۵)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۳۸۔۱۳۷،کتاب معرفۃ الصحابۃ،مجمع الزوائد،ج:۹ص:۱۱۴،کتاب مناقب،علی بن ابی طالب ع کے مناقب میں،المعجم الکبیر ج:۱۱ص:۶۵،ابن عباس سے روایت،تذکرۃ الحفاظ ج:۴ص:۱۲۳۱،سمرقندی کے حالات میں،سیر اعلام النبلاء ج:۱۱ص:۴۳۷،ابی صلت کے حالات میں تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۸۳۔۳۸۲۔۳۸۰۔۳۷۹۔۳۷۸،علی بن ابی طالب کے حالات میں،تہذیب التہذیب ج:۷ص:۲۹۶،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،ص:۳۷۴،عمر بن اسماعیل بن مجالد کے حالات میں،تہذیب الکمال ج:۱۸،ص:۷۹۔۷۸۔۷۷،عبدالسلام بن صالح کے حالات میں،ج:۲۰ص:۴۸۵،علی بن ابی طالب کے حالات میں،تاریخ جرجان ص:۶۵،احمد بن سلمۃ بن عمر الکوفی کے حالات میں،تاریخ بغداد ج:۷ص:۱۷۲،جعفر بن محمد ابی جعفر کے حالات میں،ج:۱۱ص:۵۰۔۴۹۔۴۸،عبدالسلام بن صالح بن سلیمان کے حالات میں،کشف الخفاء ص:۲۳۵،الفردوس بما ثور الخطاب ص:۴۴،فیض القدیر ج:۳ص:۴۶،الجرح و التعدیل ج:۶ص:۹۹عمر بن اسماعیل بن مجالد کے حالات میں،و غیرہ۔ (۶)سورہ بقرہ آیت:۱۸۹۔

۳۳۹

علی ؑ ہی امت نبی ؐ کے سب بڑے قاضی ہیں ۔(۱) اور دنیا و آخرت میں آپ کے علمدار ہیں(۲) اور یہ بھی کہ حضور سرور کائنات ؐ نے سورہ برائت کے ابتدائی حصوں کو ابوبکر کے حوالہ کیا کہ وہ جا کر مشرکین کے درمیان سنادیں پھر آپ نے امیرالمومنین ؑ کو بھیجا کہ ابوبکر سے سورہ لے لیں اور پیغِمبر ؐ کی طرف سے مشرکین کے درمیان اس سورہ کو پڑھ کے سنادیں،جب ابوبکر واپس آئے تو نبی ؐ سے پوچھا کہ خدا کے رسول ؐ کیا میرے بارے میں خداوند عالم نے کچھ نازل فرمایا ہے آپ نے فرمایا:نہیں لیکن جبرئیل آئے اور کہا کہ یہ فریضہ کوئی ادا نہیں کرسکتا مگر خود آپ یا پھر وہ جو آپ سے ہو ۔(۳)

اور نبی ؐ نے فرمایا کہ علی ؑ مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں،میری طرف سے واجبات کوئی ادا نہیں کرسکتا مگر علی ؑ(۴) اور فرمایا:اے علی ؑ جو مجھ سے الگ ہوا وہ خدا سے الگ ہوا اور جو تم سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الاستیعاب ج:۱ص:۱۷،فتح الباری ج:۸ص:۱۶۷،المعجم الصغیر ج:۱ص:۳۳۵،کشف الخفا ج:۱ص:۱۸۴،الریاض النضرۃ ج:۱ص:۲۲۸،تیسرا باب،تاریخ دمشق ج:۴۷،ص:۱۱۲،عویمر بن زید بن قیس ابی الدردا کے حالات میں،کنز العمال ج:۱۱ص:۶۴۲،حدیث:۳۳۱۲۱،ینابیع المودۃ ج:۲ص:۱۷۳،و غیرہ

(۲)المعجم الکبیر ج:۲ص:۲۴۷،روایت سماک بن حزب،تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۳۱۔۷۵،علی ابن ابی طالبؑ کے حالات میں،ج:۳۹،ص:۱۰۲،عثمان بن عفان کے حالات میں،الفردوس بما ثور الخطاب ج:۱ص:،کنزالعمال ج:۱۱ص:۶۱۲،حدیث:۳۲۹۶۵،ج:۱۳ص:۱۳۶،حدیث:۳۶۴۳۷،ینابیع المودۃ ج:۲ص:۱۶۷،المناقب للخوارزمی ص:۳۵۸،میزان الاعتدال ج:۷ص:۵،ناصح بن عبداللہ کوفی کے حالات میں،الکامل فی الضعفا الرجال ج:۷ص:۴۷،ناصح بن عبداللہ کے حالات میں و غیرہ

(۳)مجمع الزوائد ج:۷ص:۲۹ المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۵۳،تفسیر ابن کثیر ج:۲ص:۳۳۴،مسند احمد ج:۱ص:۱۵۱،فتح الباری ج:۸ص:۳۲۰۔۳۱۸،تحفۃ الاحوذی ج:۸ص:۳۸۶،فضائل الصحابہ لابن حنبل ج:۲ص:۷۰۳،تاریخ دمشق ج:۴۲ص:۳۴۸،شواہد التنزیل للحسکانی ج:۱ص:۳۱۱،کنز اعمال ج:۲ص:۴۲۲،حدیث:۴۴۰۰

(۴)سنن ترمذی ج:۵ص:۶۳۶،کتاب مناقب،سنن ابن ماجۃ ج:۱ص:۴۴،علی بن ابی طالبؑ کے فضائل میں،سنن کبریٰ نسائی ج:۵ص:۴۵،ابوبکر و عمر و عثمان کے فضائل میں،مسند احمد ج:۴ص:۱۶۵،الاحاد و المثانی ج:۳ص:۱۸۳،المعجم الکبیر ج:۴ص:۱۶،حبشی بن جنادہ سلولی کی روایت السنۃ لابن ابی عاصم ج:۲ص:۵۶۶۔۵۹۸،تذکرۃ الحفاظ،ج:۲ص:۴۵۵،کشف الخفا ج:۱ص:۲۳۶،تہذیب السما ج:۱ص:۳۱۸،فضائل الصحابۃ لابن حنبل ج:۲ص:۵۹۹،سیر اعلام النبلا ج:۸ص:۲۱۲،تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۴۵،علی بن ابی طالب کے حالات میں،و غیرہ

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367