فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ15%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206463 / ڈاؤنلوڈ: 5999
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

سوال نمبر۱

قرآن مجید کے متعلق شیعوں کا کیا نظریہ ہے کہ قرآن کریم جب امت محمد ؐ یہ کے حالات پر نظر ڈ التا ہے اور اللہ کے نزدیک ان کے درجات اور مقام و منزلت کو تعین کرتا ہے اور انھیں دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے!

ایک قسم وہ جو زمانے سے محدود ہے یہ وہ لوگ ہیں جن پر سابقون،اوّلون کا اطلاق ہوتا ہے چاہے وہ انصار میں سے ہوں یا مہاجتیں میں سے اور عام طور سے صحابہ و غیرہ کا لفظ قرآن اور حدیث میں جہاں بھی آیا ہے اس سے یہی سابقون اوّلون مراد ہیں چاہے یہ لوگ احسان کی پیروی کریں یا نہ کریں،اللہ بہرحال ان سے راضی ہے.

دوسری قسم وہ ہے جن کے لئے اتباع بالاحسان کی شرط رکھی گئی ہے،حالانکہ ان میں بھی اکثر افراد پر قرآن مجید کی زیر نظر آیت کے دوسرے حصے میں((صحابہ،لفظ کا اطلاق ہوتا ہے ارشاد ہوتا ہے کہ:((اور سابقوں اوّلون کے مہاجر و انصار اور وہ لوگ جنھوں نے نیکی میں ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں،ان کے لئے ایسے باغات تیار کئے گئے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے))

(سورہ توبہ آیت ۱۰۰)

۲۱

تو پھر اگر ان سابقون اوّلون میں سے کسی کے بارے میں کوئی ایسی بات منقول ہو جس میں ان کا گناہ،نافرمانی،حق کی مخالفت،یا بدبختی ثابت ہو تو کیا ہم متاخرین کے لئے یہ صحیح ہے کہ ہم اپنی زبان کو ان کے بارے میں آزاد چھوڑدیں؟(اور جو منھ میں آئے کہہ ڈ الیں)جب کہ سنّت نبوی ؐ کا فیصلہ ہے کہ ہم ایسا نہیں کرسکتے اور نہ ہی اس صحابہ کی اس فعل قبیح میں پیروی کرسکتے ہیں جس کی برائی ظاہر ہے بلکہ بہتر یہ ہے کہ اس صحابی کی منزلت جو اللہ کے نزدیک ہے اس کا مسئلہ اللہ پر چھوڑدیں اس لئے کہ اللہ ہی ان کے حالات سے اچھی طرح باخبر ہے جیسا کہ حاطب ابن ابی ہلتعہ کے واقعہ سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے،جب پیغمبر ؐ نے حاطب کو برا کہنےوالے کو یہ کہہ کر خاموش کردیا کہ:

اللہ اصحاب بدر سے اچھی طرح واقف ہے))اس نے فرما دیا ہے کہ میں نے تمہیں معاف کردیا ہے اب تم جو چاہو کرو.

سوال نمبر۔ ۲

ہم اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ صحابہ کے اندر کچھ کمزوریاں پائی جاتی تھیں،مثلاً ذاتی تنازعہ،کسی مصلحت کی بنا پر ایک صحابی کا دوسرے صحابی پر تشدد بلکہ ایک صحابی دوسرے صحابی سے رشک و حسد میں بھی گرفتار تھا اور یہی حالات اس قول کو محال قرار دیتے ہیں کہ صحابہ بشری کمزوریوں سے پاک تھے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ ان سے راضی ہے جبکہ وہ بہت سی غلطیان کرچکے ہیں اور خدا کی رضا کسی وقت سے مخصوص نہیں ہے ۔ مثلاً صرف نبی ؐ کے زمانے ہی میں انھیں یہ رضا حاصل نہیں تھی بلکہ یہ حصول رضا مطلق اور عام ہے اور بغیر کسی نص شرعی کے اس رضا کی حدوں سے کسی کو باہر نہیں کیا جاسکتا،پھر شیعہ علما اس بات کے قائل کیوں نہیں ہوجاتے کہ عمر و ابوبکر اور عثمان کا خلافت پر علی ؑ کی موجودگی میں قبضہ کرنا انھیں بشری کمزوریوں کا تقاضا تھا جن کا مواخذہ شرعی طور پر ضروری نہیں ہے یا اس وجہ سے تھا کہ کچھ دوسرے امور تھے جن کی بنیاد پر خلافت کے معاملے میں یہ آپس میں راضی ہوگئے تھے جب کہ شیعوں کا یہ اعتقاد ہے کہ مولائے کائنات ؑ کلافت کے زیادہ مستحق تھے،(وہ اپنے اس عقیدہ پر باقی رہیں تو کوئی حرج نہیں لیکن خلفائے ثلاثہ کے فعل کی مندرجہ بالا توجیہ کر کے انہیں قبول کرلیں ۔ )

۲۲

سوال نمبر۔ ۳

شیعہ و سنی دونوں فرقے ان معاملات میں جو صدر اسلام میں واقع ہوئے مولائے کائنات اور اہلبیت ؑ امام حسن ؑ کی سیرت پر کیوں نہیں عمل کرتے یعنی ہم ان باتوں کا اقرار کریں جن کا ان حضرات نے اقرار کیا اور ان باتوں کا انکار کریں جن کا ان حضرات نے انکار کیا تھا اور اس طرز عمل کو ضرور سمجھیں:

۱ ۔ ابوبکر کی خلافت کا امام علی ؑ کی جانت سے اقرار ۔ ۲ ۔ ابوبکر کے ذریعہ خلافت کے لئے عمر کی تنصیب کا اقرار ۔ ۳ ۔ شوریٰ کا اقرار اور شوریٰ کی ایک فرد ہونے پر رضایت ۔ ۴ ۔ معاویہ کا شام کی ولایت پر عدم اقرار ۔ اس لئے کہ حضرت علی ؑ اسے اس کام کے لئے نااہل سمجھتے تھے باوجودیکہ اسے برطرف کرنے سے اسلامی سماج میں بہت سی خرابیان پیدا ہورہی تھیں ۔

سوال نمبر۔ ۴

کیا جمہور کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ مولائے کائنات ؑ کی بیعت پر واضح نص شرعی کی موجودگی میں(اگر وہ موجود ہو)اس سے غافل رہے ہوں جبکہ ان کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے معین کئے گئے ہو کہ انھیں اچھی باتوں کا حکم دو اور برائیوں سے روکو(۱)

سوال نمبر۔ ۵

کیا آپ نہیں دیکھتے ہیں کہ عالم اسلام اس دن سے غمگین ہے جب سے اسلامی خلافت کا انہدام ہوا اور اس غم میں دونوں برابر کے شریک ہیں،چاہے سنی ہوں یا شیعہ،تو پھر کیوں نہ کسی ایسے شخص کی تنصیب،خلافت کے لئے واجب قرار دی جائے جو امت کے مصالح کے مطابق کام کرے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(آل عمران آیت۱۱۰)

۲۳

خصوصاً اہل سنت تو آج کل خلافت سے محروم ہیں لیکن آپ شیعہ حضرات بھی اس دور غیبت میں سنیوں کی طرح قیادت سے محرومی کا احساس کررہے ہیں اور ایسے شخص کی ضرورت محسوس کررہے ہیں جو امت کے مصالح کو قائم اور باقی رکھے کیا آپ کی نظر میں اس کا حصول ممکن ہے اور اس امر کے حصول کے لئے کوشش کی جانی چاہئے؟

سوال نمبر۔ ۶

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابوبکر کو اس وقت امامت کا حکم دیا جب آپ خود مرض کی شدت کی وجہ سے لوگوں کی امامت نہیں کرسکتے تھے،اس سلسلہ میں آپ کا کیا خیال ہے کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضور ؐ اپنے بعد خلافت ابوبکر پر راضی تھے؟

سوال نمبر ۔ ۷

کیا یہ صحیح ہے کہ انسانی زندگی کے مسائل اور ضروریات دین کا علم صرف ائمہ ؑ سے مختص ہے حالانکہ خدا کہتا ہے((آج ہم نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر نعمتوں کو منزل کمال تک پہنچا دیا اور تمہارے لئے دین اسلام سے راضی ہوگیا))(سورہ مائدہ:آیت ۳)

سوال نمبر۔ ۸

اہل سنّت اور شیعہ دونوں فرقے قرآن کی حجیت اور اس کی قطعیت صدور پر متفق ہیں اختلافات سنّت میں ہے اس لئے کہ دونوں کےنزدیک سنّت کا مصدر مختلف ہے ۔

سنی صرف ان حدیثوں کو لیتے ہیں جو ثقہ راویوں کے ذریعہ پیغمبر ؐ سے روایت کی گئی ہیں اور بس،جب کہ شیعہ ائمہ اہلبیت ؑ سے بھی حدیثیں لیتے ہیں چاہے ان کا زمانہ رسول خدا ؐ سے کتنی ہی دور ہو اس لئے کہ وہ اماموں کی عصمت کے دعویدار ہیں حالانکہ جو لوگ اماموں سے روایت لینےوالے ہیں وہ

۲۴

سب کے سب سنیوں کے راویوں کی طرح غیر معصوم ہیں،پھر شیعہ حضرات سنیوں کی کتابوں کو قابل اعتماد کیوں نہیں سمجھتے خصوصاً وہ شیعہ رواۃ جو ثقہ سے روایت لینے کے قائل ہیں چاہے وہ ان کے مذہب کا مخالف ہی کیوں نہ ہو یا اس کی روایت شیعہ مذہب کے خلاف ہی کیوں نہ ہو لیکن یہ بات کہ سنی بھی شیعہ راویوں کی طرف کیوں نہیں رجوع کرتے؟مناسب نہیں ہے اس لئے کہ سنی صرف پیغمبر ؐ سے روایت اخذ کرتے ہیں اور وہ عصمت ائمہ ؑ کے قائل بھی نہیں ہیں؟

سوال نمبر ۔ ۹

شیعوں کے اصول دین میں خبر آحاد پر عمل نہیں کیا جاتا جب کہ اماموں کی تشخیص تواتر سے ثابت نہیں ہے پس اگر امام کی تشخیص خبر آحاد کے ذریعہ ہو تو اس پر عمل واجب نہیں ہوگا اور غیر مشخص امام کی پیروی جائز نہیں ہے

(عبدالکریم)

عمان،اردن

۷ / دستمبر ۲۰۰۰ سنہ

۲۵

۲۶

بسم الله الرحمٰن الرحیم

خدا کی تعریف اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کی آل پاک پر درود و سلام اور روز قیامت تک ان کے تمام دشمنوں پر لعنت کے بعد:

السلام علیکم

محترم کریم بھائی.........خدا آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے میری دعا ہے کہ خداوند عالم آپ کو اور آپ کے تمام دینی بھائیوں کو توفیقات عنایت فرمائے اور آپ حضرات کو اپنے پرہیزگاروں میں قرار دے ۔

الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ وَأُوْلَئِكَ هُمْ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ

ترجمہ آیت:(وہ لوگ جو تمام باتیں سن کے ان میں سے سب سے بہترین بات کی پیروی کرتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جن کی اللہ نے ہدایت کی ہے اور یہی لوگ سمجھدار ہیں)) ۔(۱)

میری دعا ہے کہ خداوند عالم اپنی رحمت کے فیضان سے آپ کی دین و دنیا میں اصلاح کرے اور آخرت اور معاد میں بھی بھلائی عنایت فرمائے بے شک وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا اور مومنین کا سرپرست ہے ۔

آپ کا گرامی نامہ ملا اور مجھے پڑھکے بہت خوشی ہوئی جب یہ معلوم ہوا کہ ہماری گفتگو حقیقت کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورۂ زمر آیت ۱۸.

۲۷

پردہ کشائی میں نفع بخش ہے اور غموض(اگر ہے)تو چھٹ رہا ہے اور مجھے بہرحال امید و اطمینان ہے کہ میں نے جواب میں بہت وضاحت سے کام لیا ہے اور صاف گوئی کا جو اہتمام کیا ہے اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ہےیہ بات ہماری سابقہ گفتگو سے آپ پر ظاہر ہوچکی ہوگی اور اس گفتگو سے بھی انشااللہ تعالی یہ بات سمجھ میں آجائے گی ۔

تلاش حقیقت کے وقت جستجو کے حق کو ادا کرنا ضروری ہے

ہم لوگ اس وقت ایک ایسے مسئلہ کو موضوع گفتگو بنانے جارہے ہیں جس میں دھیرے دھیرے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے تا کہ حقیقت معلوم ہوجائے اور حقیقت تک پہنچا جاسکے ہمیں چاہیئے کہ سختی سے اس بات کی پابندی کریں کہ ہر حال میں بحث و تمحیص کا حق ادا ہوتا رہے اور ہم اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآسکیں اس لئے کہ جو بات معلوم نہیں ہے اس کے مقابلے میں معلومات پر عمل کرنا کافی ہے(۱) اور علم بغیر عمل کے ایسا ہے جیسے درخت بغیر ثمر کے(۲) جیسا کہ رسول ؐ و آل رسول ؐ سے وارد احادیث میں آیا ہے ۔ معرفت اگر عمل سے خالی ہو تو صاحبت معرفت کو نقصان پہنچاسکتی ہے،اس لئے کہ معرفت یا تو اس پر حجت تمام کردیتی ہے یا اتمام حجت کو مزید پختہ کردیتی ہے دونوں ہی صورت میں اسکی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ جس حقیقت کو اس نے سمجھ لیا ہے اس پر سختی سے عمل کرے اور خدا کی طرف سے جو فرض ہے وہ اس کا مطالبہ بھی کرےگا اس کا حساب بھی ہوگا

(لَايَنفَعُنَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا) (۳)

ترجمہ آیت:(جو شخص پہلے سے ایمان نہیں لائےگا یا مومن ہونے کی حالت میں نیک کام نہیں کئے ہوگا تو اس کا ایمان اس کے لئے مفید نہیں ہوگا)) ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) توحید شیخ صدوق،ص ۴۱۶ اوربحارالانوار،ج ۲ ص ۲۸۱ اور نورالبراہین،ج ۲ ص ۴۴۷

( ۲) عیون الحکمہ و الواعظ،ص ۳۴۰ اور محاسبۃ النفس،ص ۱۶۶ (۳) سورہ انعام آیت: ۱۵۸

۲۸

حساب کا دن تو اچانک آئےگا پہلے سے خبر نہیں دی جائےگی اس لئے حساب کے لئے تیار رہنا اور اس کے خطروں سے حفاظت کا انتظام کرنا بہت ضروری ہے،خدا کے سامنے بری الذمہ ہونے کے لئے کوئی عذر ہونا ہی چاہئے ۔

اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ میں آپ کو بغیر بصیرت اور دلیل کے کسی خاص مسلک کو اختیار کرنے کی دعوت دے رہاہوں اس لئے کہ ارشاد ہوتا ہے:

وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولـئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً

ترجمہ آیت:((جس چیز کے بارے میں نہیں جانتے اس کے پیچھے مت پڑا کرو اس لئے کہ کان آنکھ اور دل سب سے سوال کیا جائےگا،سب کے بارے میں پوچھا جائےگا)) ۔(۱)

بلکہ میرا مطلب یہ ہےکہ بحث کرنےوالا جذباتیت سے آزاد رہے اور ہٹ دھرمی اور بیکار کی بحث سے پرہیز کرے،جس حقیقت کے بارے میں بحث کر رہا ہے اس کے لئے اپنی بصیرت اور اپنے ضمیر کو حاکم بنائے جب وہ اس حقیقت تک پہنچ جائے اور بات اس کے سامنے واضح ہوجائے تو اس کے حق کو ادا کردے تا کہ خدا کے سامنے اپنی ذمَہ داری سے عہدہ برآ ہوسکے ۔

لیکن حق کب اور کیسے واضح ہوگا؟تو اس کی ذمہ داری خود بحث کرنےوالے پر عائد ہوتی ہے کہ پہلے وہ اپنے وجدان سے حق کی صحیح تعریف کرے اس لئے کہ

بَلِ الْإِنسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ

ترجمہ آیت:((انسان تو اپنے آپ سے خوب واقف ہے)) ۔(۲)

اس کے بعد خداوند عالم،حاکم و عادل ہے چاہے انسان کے حق میں فیصلہ دے چاہے اس کے خلاف ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ اسراءآیت ۳۶

( ۲) سورہ قیامت آیت ۱۴

۲۹

میں خدا سے اپنے لئے اور آپ کے لئے توفیق و تسدید کا سوال کرتا ہوں اور ہراس آدمی کے لئے یہی دعا ہے جو حق کو پہچاننے کا اور اس تک پہنچنے کا حوصلہ رکھتا ہے اور حق کو پہچان کر اس کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا چاہتا ہے ۔

آخر کلام میں ایک خاص بات کی طرف آپ کو متوجہ کرانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ غدیر کے متعلق سوال میں ایک لفظ رہ گیا تھا وہ ہے واقعۂ بیعت غدیر،اصل میں اشکال واقعۂ بیعت پر ہے نہ کہ واقعہ غدیر پر،اس لئے کہ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ واقعۂ غدیر کے تذکرہ سے تو اہل سنّت کی کتابیں بھری پھڑی ہیں میں امید کرتا ہوں کہ آپ آئندہ خط میں اس موضوع پر روشنی ڈ الیں گے،خدا کا شکر ہے کہ آپ کی کوششیں ضائع نہیں ہو رہی ہیں بلکہ اس کے فوائد دیکھنے میں آرہے ہیں،اس لئے کہ آپ کے اس جواب کا طریقہ اور ترتیب اس شخص کے لئے نادرالوجود ہے جو اس طرح کے سوالوں کا جواب دیتا ہو ۔

آخر میں آپ سے امید کرتا ہوں کہ میرے لئے خدا سے دعا کریں گے مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ ہمیں اپنے محبوب اور پسندیدہ اور مسلمانوں کے لئے خیر کے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

و آخر دعوانا ان الحمدلله ربّ العالمین

۳۰

اگر آپ بیعت سے یہ سمجھتے ہیں کہ غدیر میں لوگ نبی ؐ کی خدمت موجود تھے اور آپ کا خطبہ سن رہے تھے انھوں نے اپنے ہاتھ کو علی ؑ کے ہاتھ سے مس کرتے ہوئے مضمون خطبہ کے اقرار کا ثبوت دیا یعنی بیعت سے مراد غدیر میں ہاتھ پر ہاتھ رکھنا ہے تو اس بات کو نہ شہرت حاصل ہے اور نہ اس کے لئے دعوائے تواتر کیا گیا ہے،سنّیوں کی بات تو چھوڑیئے شیعوں کے یہاں بھی اس کے تواتر کا دعویٰ نہیں پایا جاتا ہے ۔

سنّی اور شیعہ روایتوں میں ہاتھ میں ہاتھ دینے کے معنی میں بیعت کا تذکرہ

واقعۂ بیعت کو شیعوں نے متعدد طریقوں سے نقل کیا ہے علامہ مجلسی ؒ نے ان میں سے کچھ لوگوں کا ذکر کیا ہے(۱) جیسے علامہ طبری حضرت امام ابوجعفر محمد بن علی باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں اور سلسلۂ نبی تک پہنچتا ہے کہ اس موقعہ پر حضور ؐ نے ایک طویل خطبہ دیا اور مولائے کائنات ؑ کی ولایت پر نص کرنے کے بعد فرمایا(اے لوگو تم بہت زیادہ ہو اور میرے لئے ایک ہاتھ پر بیعت کثرت افراد کی وجہ سے ممکن نہیں ہے مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ تمہاری زبانوں سے علی ؑ کے بارے میں مومنین پر جو امارت طے ہوئی ہے اس کا اقرار اور ان لوگوں کی امامت کا اقرار لےلوں جو مجھ سے اور علی ؑ کے بارے میں مومنین پر جو امارت طے ہوئی ہے اس کا اقرار اور ان لوگوں کی امامت کا اقرار لےلوں جو مجھ سے اور علی ؑ سے آئندہ زمانے میں امام ہونےوالے ہیں اس لئے کہ میں تمہیں پہلے بتاچکا ہوں کہ میری ذریت علی ؑ کی صلب میں ہے تو تم سب مل کر کہو کہ ہم لوگ سننے والے،اطاعت کرنےوالے،راضی رہنےوالے اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) بحارالانوار،ج ۳۷ باب ۵۲ ص ۱۱۹،۱۳۳،۱۳۸

۳۱

پیروی کرنےوالے ہیں اس چیز کے بارے میں جو آپ نے علی ؑ کے بارے میں اور ان کی صلب سے ہونےوالے اماموں کے بارے میں اپنے اور ہمارے رب کی طرف سے ہم تک پہنچائی ہے ہم اس بات پر دل،جان،زبان اور ہاتھ سے آپ کی بیعت کرتے ہیں،اے لوگو!ایسی بات کہو جس سے خدا تم سے راضی ہو اور یاد رکھو کہ اگر تم اور روئے زمین کے تمام لوگ سب کے سب کافر ہوجاؤ تو اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچےگا،پروردگارا!تمام اہل ایمان کو معاف کردے اور کافرین پر غضب نازل فرما ۔

(والحمدلله ربّ العالمین)

امام ابوجعفر ؑ فرماتے ہیں کہ(خطبہ سن کے)لوگوں نے آواز دی ہم نے سنا ہم اللہ اور رسول اللہ ؐ کے امر کی اپنے ہاتھ زبان اور دل سے اطاعت کا عہد کرتے ہیں پھر لوگوں نے پیغمبر ؐ اور علی ؑ کے پاس ہجوم کیا اور اپنے ہاتھ سے بیعت کرنے لگے....)(۱)

علّامہ مجلسی ؒ نے مذکورہ بالا روایت کو علامہ طبرسی ؒ سے لیا ہے پھر فرمایا ہے کہ مخالفین کے علما میں احمد بن محمد طبری نے اس روایت کو لکھا ہے اور ہم نے انہیں سے اپنی کتاب کشف الیقین میں یہ روایت نقل کی ہے(۲) اسی طرح علامہ شیخ امینی ؒ نے بھی جہاں مبارک بادی کا تذکرہ کیا ہے اور مبارک بادی کو بعض علما جمہور سے نقل کیا ہے وہیں یہ بھی(۳) کہا ہے کہ بیعت کی بات بھی ان لوگوں نے روایت کی ہے ۔

مگر یہ تمام باتیں حد تواتر تو نہیں پہنچی اور میرا خیال ہے کہ کسی نے تواتر کا دعویٰ بھی نہیں کیا ہے مگر یہ کہ وہ ہم سے مخفی معلومات پر مطلع ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) احتجاج، ج ۱ ص ۸۲ سے ۸۴ تک،یوم الغدیر علی الخلق کلهم و فی غیره من الایام بولایة علی بن ابی طالب علیه السلام اور اس کے بعد

( ۲)( بحارالانوار،ج ۳۷ ص ۲۱۸ باب ۵۲ نصوص کے باب میں جو دلالت کرتی ہیں اور بعض وہ دلیلیں جو اس پر قائم ہیں،امیرالمومنینؑ کی امامت پر عام و خاص طریقہ سے)

( ۳) الغدیر،ج: ۱ ص: ۲۷۰ ۔ ۲۷۱

۳۲

اقرار ولایت اور قبول ولایت کے معنی میں بیعت ثابت ہے

یہ بات بعید از فہم نہیں ہے کہ بیعت سے مراد شاہدین خطبہ کی طرف سے قبول ولایت کا اعلان اور اذعان ہو،کیوں کہ خطبہ میں ولایت امیرالمومنین ؑ فرض کی گئی ہے،سابقہ حدیث بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے،اس لئے کہ اکثر لوگ بیعت کا یہی مطلب سمجھتے ہیں ۔ ہر دور میں مسلمانوں کی سیرت رہی ہے کہ خلیفہ جدید کے لئے عام انسانوں کی بیعت محض اس کی خلافت کو تسلیم کر لینا ہے اور اس کی قیادت کو مان لینا ہے بیعت کا شرف تو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے،وہ لوگ جو صاحب مرتبہ ہوتے ہیں انھیں کو یہ شرف حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے اقرار کا اعلان خلیفہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر کریں،ورنہ مذکورہ بالا معنیٰ میں بیعت تو واقعۂ غدیر میں حاصل ہوچکی تھی ۔

اس لئے کہ جو لوگ نبی ؐ کے خطبہ میں حاضر تھے اور علی ؑ کے بارے میں اعلان ولایت کے شاہد تھے اگر ان میں سے کسی نبی ؐ کی تردید کی ہوتی یا نبی ؐ پر اعتراض کیا ہوتا تو بات چھپی نہیں رہتی ظاہر اور واضح ہوجاتی،یہ امر طبیعی ہے تاریخ اس کو نقل کرتی ہے،جیسا کہ حارث ابن نعمان فہری کے معاملے میں ہوا جس کا ذکر میں نے آپ کے ساتویں سوال کے جواب میں حدیث غدیر کے ذیل میں کیا ہے یا جیسا کہ تہنیت ے بارے میں حدیثوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے کہ حاضرین نے امیرالمومنین علیہ السلام کو ولایت کی تہنیت دی،علامہ شیخ امینی ؒ نے اہل سنّت کی ساٹھ ۶۰ کتابوں سے اس کا حوالہ دیا ہے ۔

خاص طور سے وہ حدیثیں جن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضور نے امیرالمومنین ؑ کو ایک الگ خیمے مٰں بٹھایا اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ اس خیمے میں جا کے امیرالمومنین علیہ السلام کو ولایت کی مبارک باد دیں(۱) اس لئے کہ یہ معلوم ہے کہ اس طرح سے تہنیت دینے کا مطلب ہی ہے کہ مسلمان آپ کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب،ج ۱ ص ۲۷۱.

۳۳

ولایت کا اقرار کررہے ہیں آپ کی ولایت کو تسلیم کررہے ہیں اور یہ دونوں ہی باتیں معنائے بیعت کو ادا کرتی ہیں،حاصل گفتگو یہ ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کی ولایت کا قبول اور اقرار کا تلازم عادتاً خطبہ غدیر کے ساتھ ہے اور خطبہ کا تواتر یہ ہے کہ معنائے مذکور میں بیعت کو بھی تواتر حاصل ہے ۔

حدیث غدیر سے استدلال بیعت پر موقوف نہیں ہے

اس کے علاوہ حدیث غدیر سے استدلال بیعت پر موقوف نہیں ہے اس لئے کہ جب خدا نے امیرالمومنین ؑ کی ولایت فرض کردی اور نبی ؐ نے پہنچا بھی دیا تو اب لوگوں پر واجب ہے کہ وہ اس کو تسلیم کریں،اس کو مانیں بیعت تو صرف اس کے توابع میں سے ہے چاہے ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اس لئے کہ ولایت کا اذعان و اعلان اور اس پر عمل کا وجوب بیعت پر موقوف نہیں ہے اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بیعت کا تحقق نہیں ہے یا نبی ؐ نے بیعت کا مطالبہ نہیں کیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ نبی ؐ کی زندگی میں بیعت کا کوئی اثر بھی تو ظاہر نہیں ہوتا،وفات نبی ؐ سے پہلے بیعت کی ضرورت بھی کیا تھی بیعت کی ضرورت تو وفات پیغمبر ؐ کے بعد تھی اس لئے کہ وفات نبی ؐ کے بعد بیعت کا مطلب ہے کہ خدا کے حکم کو مسلمان مان رہا ہے اور اس پر عمل کر رہا ہے،حالانکہ اس وقت بھی بیعت،امیرالمومنین کی ولایت کا ثبوت نہیں ہوتی اور نہ ہی ولایت امیرالمونین ؑ پر عمل کا وجود آپ کی قیادت اور اطاعت و بیعت پر موقوف ہوتا جیسا کہ میں عرض کیا،البتہ اہل سنّت کے نزدیک ولایت و خلافت بیعت اور اس کے بعد پر موقوف ہوتی ہے،اس لئے کہ ان کے یہاں خلافت نص سے ثابت نہیں ہوتی جب تک لوگ اس کی بیعت نہ کرلیں اس لئے کہ ان کے یہاں بیعت کا کردار بہت اہم ہے اور خلافت اپنے ثبوت میں بیعت کی محتاج ہے ۔

۳۴

حدیث غدیر سے امامت و خلافت پر مزید تاکید کے لئے شیعہ بیعت پر زور دیتے ہیں

میرا خیال ہے کہ بعض شیعہ بیعت پر اس لئے زور دیتے ہیں کہ امیرالمومنین ؑ کی ولایت پر حدیث شریف کی دلالت موکد ہوجائے اور یہ بات پکی ہوجائے کہ مولائے کائنات ؑ نبی ؐ کے بعد مومنین کے ولی،ان کے امام اور خلیفہ ہیں ۔

حقیقت تو یہ ہے کہ جمہور مسلمین بلکہ تمام مخالفین نے بھرپور کوشش کی کہ امر ولایت کو مقام تشکیک میں ڈ ال دیا جائے،پہلے تو سند حدیث پر طعن کی کوشش کی لیکن حدیث غدیر اپنے اسناد و طرق کی وجہ سے تواتر سے بھی کچھ آگے تھی اس لئے کہ سند حدیث پر سوائے چند بے حیثیت افراد کے کوئی بھی طعن کرنے کی ہمّت نہیں کرسکا،تب انھوں نے لفظ مولیٰ کے اجمال کا دعویٰ کر ڈ الا،اس لئے کہ مولیٰ کے بہت سے معنی ہیں،مولیٰ یعنی محبّ،مولیٰ یعنی ناصر،مولیٰ یعنی ابن عم،و غیری یعنی مولیٰ کا مطلب خاص طور سے اولیٰ بالامر نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ بعض شیعہ بیعت پر تاکید کرتے ہیں تا کہ بیعت کے ذریعہ یہ ثابت ہو کہ مولیٰ بہ معنیٰ اولیٰ استعمال ہوا ہے اس لئے کہ مولیٰ بہ معنی اولیٰ بیعت کی مناسبت سے ہی ثابت ہوتا ہے کسی دوسرے معنیٰ سے نہیں ۔

یہ بات اگر چہ بہت عمدہ ہے لیکن پہلے یہ دیکھئے کہ آپ بات کس سے کررہے ہیں؟اگر آپ کی گفتگو کسی متعصب آدمی سے ہورہی ہے جو آپ سے عناد رکھتا ہے اور بات سے بات نکال کے شک پیدا کرتا ہے تو پھر بیعت والی بات بےفائدہ ہے،کیونکہ دنیا کی کوئی حقیقت ایسی نہیں ہے جس کے گرد دشمنوں نے شبہ کے تانے بانے نہ پھیلائے ہوں آپ اس سے بات ہی مت کیجئے اس لئے کہ وہ بات جھگڑے تک پہنچ جائےگی اور جھگڑے کے بارے میں حدیثوں میں نہی وارد ہوئی ہے بہتر یہ ہے کہ اس کے معاملات کو اللہ پر چھوڑ دیجئے اس لئے کہ اللہ سے جھگڑا کر کے وہ کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکےگا

ہاں اگر آپ کی بات کسی حق پرست اور انصاف پسند آدمی سے ہورہی ہے جو حقیقت تک پہنچنا

۳۵

چاہتا ہے،چاہے جس صورت میں بھی ہو تو یہ امر اس کے سامنے بہت واضح ہے،اس لئے کہ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ مولا کے بہت سے معنیٰ ہیں اور سارے معانی اولیٰ میں نہیں پائے جاتے تو کافی ہے کہ مولا کو اولیٰ پر حمل کیا جائے اس لئے کہ متن حدیث میں دونوں دلیلیں موجود ہیں ۔

حدیث غدیر سے امامت پر دلالت کو بعض قرینے ثابت کرتے ہیں

۱ ۔ جس طرح یہ حدیث مولا کی لفظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے،یعنی جس کا میں مولا ہوں اس کے علی ؑ مولیٰ ہیں،اسی طرح ولی کا بھی لفظ استعمال کیا گیا ہے یعنی حضور ؐ نے فرمایا جس کا میں ولی ہوں اس کے علی ؑ ولی ہیں،ظاہر ہے کہ دونوں حدیثوں میں اختلاف کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ ایک دوسرے کو جھٹلا رہی ہیں اور نہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک غلط ہے بلکہ دونوں حدیثوں کا مقصد بغیر الفاظ نص کی پابندی کے محض معنیٰ کو نقل کرنا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مولیٰ بہ معنیٰ ولی استعمال کیا گیا ہے اور ولی اس صاحب اقدار کو کہتے ہیں جو امر ولایت کا ذمّہ دار ہو ۔

۲ ۔ حدیث غدیر کے جو سلسلے تواتر تک پہنچے ہوئے ہیں یا تواتر سے بھی آگے ہیں ان میں ولایت پر نص کے پہلے پیغمبر اعظم ؐ کا ایک سوال بھی وارد ہوا ہے(کیا میں مومنین پر ان سے زیادہ اولیٰ نہیں ہوں؟)اور پھر فوراً ہی جملہ ارشاد ہوا کہ(میں جس کا مولیٰ ہوں علی بھی اس کے مولیٰ ہیں)اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مقدمۃُ اولیٰ کی لفظ آئی ہے بعد میں مولیٰ کی لفظ ہے جیسے کہ اولیٰ سے مولیٰ کی تفسیر کی جارہی ہو،پس لزوم ذہنی یہ کہتا ہے کہ مولیٰ کو اولیٰ ہی کے معنی میں لیا جائے چاہے مولیٰ کے جتنے بھی معنی ہوں لیکن دوسرے معانی کا امکان اور اولیٰ کے معنیٰ کا لزوم پایا جاتا ہے،اس کے علاوہ بھی دوسرے بہت سے داخلی اور خارجی قرینے ہیں اور ہمارے علما نے اس پر لمبی بحثیں کی ہیں شاید کہ علامہ امینی ؒ نے اس سلسلے میں سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر بحث فرمائی ہے(۱) اور مجھے خوش ہوگی اگر کوئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب۔ج ۱ ص ۳۴۰ تا ۳۹۹

۳۶

حدیثوں کی تاویل کرنےوالا اس حدیث کی تاویل اس کے مخالف معنی میں کرے پھر وہ متن حدیث کی مذکورہ معنی میں تاویل کرے،پھر دونوں کا تقابل کرکے تمام قرینوں کا احاطہ کرے اور اس کے بعد فیصلے کا اختیار اپنے وجدان اور ضمیر کو دیدے اور یہ دیکھے کہ اسکا وجدان کون سے معنی اختیار کرتا ہے ۔

جو ولی ہے وہی امام ہے اور اس کی اطاعت واجب ہے

جب یہ بات مان لی گئی کہ حدیث غدیر میں امیرالمومنین ؑ کے ولایت کی ضمانت لی گئی ہے اور یہ کہ آپ تمام مومنین پر ان کے نفسوں سے زیادہ حق رکھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ آپ کی امامت اور خلافت ثابت ہے اور آپ کی طاعت واجب ہے اس لئے کہ ولایت کا مطلب سوائے امامت کے کچھ نہیں ہوتا اور امامت بالولایۃ مکمل نہیں ہوسکتی جب تک اطاعت کا وجوب نہ ہو،پھر یہ دیکھیں کہ مسلمانوں پر نبی ؐ کی امامت کیسے ثابت ہوئی ہے؟ظاہر ہے احادیث اور آیتوں کے ذریعہ وہی احادیث اور آیا الٰہیہ جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضور کی طاعت واجب ہے،حضور مومنین کے ولی ہیں،حضور ان کے نفسوں پر ان سے زیادہ اولیٰ ہیں،(تو پھر آپ ولایت امیرالمومنین ؑ کے لئے نشان بیعت کیوں تلاش کررہے ہیں کیا صرف آیتیں اور حدیثیں کافی نہیں ہیں؟)پس خدا ہی عالم ہے وہی بچانے والا ہے وہ ہمارے لئے کافی ہے اور اچھا وکیل ہے ۔

۳۷

۳۸

سوال نمبر ۔ ۱

شیعوں کا اس قرآنی فیصلے کے بارے میں کیا نظریہ ہے؟

قرآن جن امت محمدیہ کی حالت کو پیش کرتے ہوئے ان کے درجہ بندی کرتا ہے تو انہیں دو قسموں میں تقسیم کرتا ہے ۔

ایک قسم جو زمانے سے محدود ہے،یہ وہ لوگ ہیں جن پر قرآن کی زبان میں سابقون اوّلون کا اطلاق ہوتا ہے،چاہے وہ مہاجر ہوں یا انصار،عام طور پر قرآن یا حدیثوں میں جہاں صحابہ یا اس کے مثل کوئی لفظ استعمال کی گئی ہے اس سے مراد یہی سابقون اوّلون ہیں،یہ وہ قسم ہے جس سے اللہ نے اپنے راضی ہونے کا اعلان کیا ہے اور اتباع بالاحسان کی شرط نہیں لگائی ہے جبکہ قسم ثانی کے ساتھ ایسا نہیں ہے ۔

قسم ثانی وہ ہے جس میں اتباع بالاحسان کی شرط لگائی گئی ہے،یاد رہے کہ قسم ثانی میں بہت سے افراد پر صحابہ کی لفظ کا اطلاق ہوتا ہے،آیت مذکورہ کے دوسرے حصہ میں شامل ہیں:

ارشاد ہوتا ہے:(وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ) (۱)

ترجمہ آیت:(مہاجرین اور انصار میں جو سابقون اوّلون ہیں اور وہ لوگ جو نیکی میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ توبہ:آیت ۱۰۰

۳۹

ان کی پیروی کرتے ہیں خدا ان سے راضی ہے اور وہ خدا سے راضی ہیں،ان کے لئے باغات تیار کئے گئے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے) ۔

تو اب سابقون اوّلون میں سے چاہے وہ انصار ہوں یا مہاجرین اگر کوئی ایسی بات منقول ہوتی ہے،(جس میں ان کے کردار کی کمزوری ظاہر ہو)جیسے گناہ،نافرمانی،آپس کی رسّہ کشی،بدبختی تو کیا یہ مناسب ہے کہ ہم جو متاخرین میں ہیں اپنی زبان کو آزاد چھوڑیں دیں(اور جو منھ میں آئے کہتے چلے جائیں)جب کہ سنّت نبی کا فیصلہ ہے کہ ہم ایسا نہیں کرسکتے اور ایسے عمل کی پیروی بھی نہیں کرسکتے جس کا فساد ظاہر ہے اور ایسے صحابی کے بارے میں منھ کھولنے سے پہلے ہم یہ دیکھ لیں کہ اللہ نے ان کو ایک خاص منزلت دی ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر ہم باز رہیں،جیسا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کے معاملہ سے ظاہر ہوتا ہے،سرکار دو عالم ؐ نے اس شخص پر جو حاطب ابن ابی بلتعہ کو برا کہہ رہا تھا یہ کہہ کر احتجاج کیا کہ خدا اہل بدر کے حالات سے تم سے زیادہ واقف ہے اور اس نے کہہ دیا ہے،جو چاہو کرو ہم نے تمہیں معاف کردیا ہے ۔

جواب:آپ کے اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل باتیں عرض ہیں!

امر اول:قرآن مجید میں سابقون اوّلون اور نیکی میں ان کی پیروی کرنےوالوں کا تذکرہ صرف اس ایک آیت میں کیا گیا ہے ۔

(سابقون اوّلون چاہے مہاجر ہوں یا انصار اور نیکی میں ان کی پیروی کرنے والے خدا ان سے راضی ہے اور وہ خدا سے راضی ہیں ان کے لئے باغات تیار کئے گئے ہیں جن میں نہریں بہتی ہیں،وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی عظیم کامیابی ہے)(۱) ظاہر ہے کہ اس آیت شریفہ میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں ۔

الف:سابقون اوّلون سے خدا کی رضایت کا اعلان ۔

ب:اللہ نے ان سے جنت کا وعدہ کیا ہےا ور فوز عظیم کا حکم لگایا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ توبہ:آیت: ۱۰۰

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

(۷۰)

وقالعليه‌السلام

في سحرة اليوم الذي ضرب فيه

مَلَكَتْنِي عَيْنِي وأَنَا جَالِسٌ - فَسَنَحَ لِي رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّه - مَا ذَا لَقِيتُ مِنْ أُمَّتِكَ مِنَ الأَوَدِ واللَّدَدِ فَقَالَ ادْعُ عَلَيْهِمْ فَقُلْتُ أَبْدَلَنِي اللَّه بِهِمْ خَيْراً مِنْهُمْ - وأَبْدَلَهُمْ بِي شَرّاً لَهُمْ مِنِّي.

قال الشريف - يعني بالأود الاعوجاج وباللدد الخصام - وهذا من أفصح الكلام.

(۷۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذم أهل العراق

وفيها يوبخهم على ترك القتال والنصر يكاد يتم ثم تكذيبهم له

أَمَّا بَعْدُ يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ فَإِنَّمَا أَنْتُمْ كَالْمَرْأَةِ الْحَامِلِ - حَمَلَتْ فَلَمَّا أَتَمَّتْ أَمْلَصَتْ

(۷۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(اس سحرکے ہنگام جب آپکےسر اقدس پر ضربت لگائی گئی)

ابھی میں بیٹھا(۱) ہواتھا کہ اچانک آنکھ لگ گئی اور ایسا محسوس ہوا کہ رسول اکرم (ص) سامنے تشریف فرما ہیں۔میں نے عرض کی کہ میں نے آپ کی امت سے بے پناہ کجروی اوردشمنی کامشاہدہ کیا ہے۔فرمایا کہ بد دعا کرو ؟ تو میں نے یہ دعا کی۔خدایا مجھے ان سے بہتر قوم دیدے اور انہیں مجھ سے سخت تر رہنما دیدے۔

سید رضی فرماتا ہے اود سے مراد کجروی اور لدد سے مراد دشمنی ہے اور یہ فصیح ترین کلام میں سے ہے

(۷۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(اہل عراق کی مذمت کے بارے میں)

اما بعد!اے اہل عراق ! بس تمہاری مثال اس حاملہ عورت کی ہے جو(۹) ماہ تک بچہ کو شکم میں رکھے اور جب ولادت کا وقت آئے تو ساقط کردے

(۱)یہ بھی رویا ئے صادقہ کی ایک قسم ہے جہاں انسان واقعاً یہ دیکھتا ہے اور محسوس کرتا ہے جیسے خواب کی باتوں کو بیداری کے عالم میں دیکھ رہا رسول اکرم (ص) کا خواب میں آاا کسی طرح کی تردید اور تشکیک کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے لیکن یہ مسئلہ بہر حال قابل غور ہے کہ جس وصی نے اتنے سارے مصائب برداشت کرلئے اوراف تک نہیں کی اس نے خواب میں رسول اکرم(ص)کو دیکھتے ہیں فریاد کیوں شروع کردی اورجس نبی نے ساری زندگی مظالم و مصائب کا سامنا کیا اور بد دعا نہیں کی' اس نے بد دعا کرنے کاحکم کس طرح دے دیا؟حقیقت امر یہ ہے کہ حالات اس منزل پرتھے جس کے بعد فریاد بھی برحق تھی اور بد دعا بھی لازم تھی۔اب یہ مولائے کائنات کا کمال کردار ہے کہ براہ راست قوم کی تباہی اور بربادی کی دعا نہیں کی بلکہ انہیں خود انہیں کے نظریات کے حوالہ کردیا کہ خدایا!یہ میری نظرمیں برے ہیں تو مجھے ان سے بہتر اصحاب دیدے اور میں ان کی نظرمیں برا ہوںتو انہیں مجھ سے بدترحاکم دیدے تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ برا حاکم کیسا ہوتا ہے۔

مولائے کائنات کی یہ دعا فی الفور قبول ہوگی اورچند لمحوں کے بعد آپ کو معصوم بندگان خدا کا جوار حاصل ہوگیا اور شریر قوم سے نجات مل گئی۔

۱۰۱

ومَاتَ قَيِّمُهَا وطَالَ تَأَيُّمُهَا ووَرِثَهَا أَبْعَدُهَا -. أَمَا واللَّه مَا أَتَيْتُكُمُ اخْتِيَاراً - ولَكِنْ جِئْتُ إِلَيْكُمْ سَوْقاً - ولَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّكُمْ تَقُولُونَ عَلِيٌّ يَكْذِبُ قَاتَلَكُمُ اللَّه تَعَالَى - فَعَلَى مَنْ أَكْذِبُ أَعَلَى اللَّه فَأَنَا أَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِه - أَمْ عَلَى نَبِيِّه فَأَنَا أَوَّلُ مَنْ صَدَّقَه - كَلَّا واللَّه لَكِنَّهَا لَهْجَةٌ غِبْتُمْ عَنْهَا - ولَمْ تَكُونُوا مِنْ أَهْلِهَا - وَيْلُ أُمِّه كَيْلًا بِغَيْرِ ثَمَنٍ لَوْ كَانَ لَه وِعَاءٌ - «ولَتَعْلَمُنَّ نَبَأَه بَعْدَ حِينٍ».

(۷۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

علم فيها الناس الصلاة على النبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

وفيها بيان صفات الله سبحانه وصفة النبي والدعاء له

اور پھر اس کا شوہربھی مرجائے اوربیوگی کی مدت بھی طویل ہو جائے کہ قریب کا کوئی وارث نہ رہ جائے اور دور والے وارث ہو جائیں

خدا گواہ ہے کہ میں تمہارے پاس اپنے اختیارسے نہیں آیا ہوں بلکہ حالات کے جبر سے آیا ہوں اور مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم لوگ مجھ پرجھوٹ کا الزام لگاتے ہو۔خدا تمہیں غارت کرے۔میں کس کے خلاف غلط بیانی کروں گا؟

خدا کے خلاف؟ جب کہ میں نے سب سے پہلے ان کی تصدیق کی ہے۔

ہر گز نہیں ! بلکہ یہ بات ایسی تھی جو تمہاری سمجھ سے بالا تر تھی اور تم اس کے اہل نہیں تھے ۔خدا تم سے سمجھے۔میں تمہیں جواہر پارے ناپ ناپ کردے رہا ہوں اور کوئی قیمت نہیں مانگ رہا ہوں۔مگر اے کاش تمہارے پاس اس کا ظرف ہوتا۔اورعنقریب تمہیں اس کی حقیقت معلوم ہوجائے گی۔

(۷۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں لوگوں کو صلوات کی تعلیم دی گئی ہے اور صفات خدا و رسول (ص) کا ذکر کیا گیا ہے )

۱۰۲

صفات الله

اللَّهُمَّ دَاحِيَ الْمَدْحُوَّاتِ ودَاعِمَ الْمَسْمُوكَاتِ وجَابِلَ الْقُلُوبِ عَلَى فِطْرَتِهَا شَقِيِّهَا وسَعِيدِهَا.

صفات النبي

اجْعَلْ شَرَائِفَ صَلَوَاتِكَ - ونَوَامِيَ بَرَكَاتِكَ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ ورَسُولِكَ - الْخَاتِمِ لِمَا سَبَقَ والْفَاتِحِ لِمَا انْغَلَقَ والْمُعْلِنِ الْحَقَّ بِالْحَقِّ والدَّافِعِ جَيْشَاتِ الأَبَاطِيلِ والدَّامِغِ صَوْلَاتِ الأَضَالِيلِ كَمَا حُمِّلَ فَاضْطَلَعَ قَائِماً بِأَمْرِكَ

اے خدا! اے فرش زمین کے بچھانے) ۱) والے اور بلند ترین آسمانوں کو روکنے والے اوردلوں کو ان کی نیک بخت یا بد بخت فطرتوں پر پیدا کرنے والے '

اپنی پاکیزہ ترین اور مسلسل بڑھنے والے برکات کو اپنے بندہ اور رسول حضرت محمد (ص) پر قراردے جو سابق نبوتوں کے ختم کرنے والے ' دل و دماغ کے بند دروازوں کو کھولنے والے ' حق کے ذریعہ(۲) حق کا اعلان کرنے والے' باطل کے جوش و خروش کودفع کرنے والے اور گمراہیوں کے حملوں کا سر کچلنے والے تھے۔جو بار جس طرح ان کے حوالہ کیا گیا انہوں نے اٹھالیا۔تیرے امر کے ساتھ قیام کیا۔

(۱)وحوالارض کے بارے میں دو طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں۔بعض حضرت کاخیال ہے کہ زمین کوآفتاب سے الگ کرکے فضائے بسیط میں لڑھکا دیا گیا اوراسی کا نام دحوالارض ہے اوربعض حضرات کا کہنا ہے کہ دحو کے معنی فرش بچھانے کے ہیں۔گویا کہ زمین کو ہموار بنا کر قابل سکونت بنادیا گیا اور یہی دحوالارض ہے۔بہر حال روایات میں اس کی تاریخ ۲۵ ذی قعدہ بتائی گئی ہے جس تاریخ کو سرکار دو عالم (ص)حجة الوداع کے لئے مدینہ سے برآمد ہوئے تھے اورتخلیق ارض کی تاریخ مقصد تخلیق سے ہم آہنگ ہوگئی تھی۔اس تاریخ میں روزہ رکھنا بے پناہ ثواب کا حامل ہے اوریہ تاریخ سال کے ان چار دنوں میں شامل ہے جس کا روزہ اجربے حساب رکھتا ہے۔ ۲۵ ذی قعدہ۔۱۷ ربیع الاول۔۲۷ رجب۔۱۸ ذی الحجہ

غور کیجئے ' تو یہ نہایت درجہ حسین انتخاب قدرت ہے کہ پہلا دن وہ ہے جس میں زمین کا فرش بچھایا گیا ۔دوسرا دن وہ ہے جب مقصد تخلیق کائنات کو زمین پر بھیجا گیاتیسرا دن وہ ہے جب اس کے منصب کا اعلان کرکے اس کا کام شروع کرایا گیا اور آخری دن وہ ہے جب اس کا کام مکمل ہوگیا اورصاحب منصب کو''اکملت لکم دینکم'' کی سند مل گئی۔

(۲)یہ اسلام کا مخصوص فلسفہ ہے جو دنیا داری کے کسی نظام میں نہیں پایا جاتاہے۔دنیا داری کا مشہور و معروف نظام و اصول یہ ہے کہ مقصد ہرذریعہ کو جائز بنادیتا ہے۔انسانت کوفقط یہ دیکھنا چاہیے کہ مقصد صحیح اوربلند ہو۔اس کے بعد اس مقصد تک پہنچنے کے لئے کوئی بھی راستہ اختیار کرلے اس میں کوئی حرج اورمضائقہ نہیں ہے لیکن اسلام کا نظام اس سے بالکل مختلف ہے۔وہ دنیا میں مقصد اور مذہب دونوں کا پیغام لے کرآیا ہے۔اس نے'' ان الدین '' کہہ کر اعلان کیا ہے کہ اسلام طریقہ حیات ہے اورعند الله '' کہہ کر واضح کیا ہے کہ اس کا ہدف حقیقی ذات پروردگار سے۔لہٰذا وہ نہ غلط مقصد کو مقصد قرا دینے کی اجازت دے سکتا ہے اورنہ غلط راستہ کو راستہ قرار دینے کی۔اس کا منشاء یہ ہے کہ اس کے ماننے والے صحیح راستہ پرچلیں اور اسی راستہ کے ذریعہ منزل تک پہنچیں۔چنانچہ مولائے کائنات نے سرکاردو عالم (ص) کی اسی فضیلت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آپ نے جاہلیت کے نقار خانہ میں آواز حق بلند کی ہے لیکن اسآواز کو بلند کرنے کا طریقہ اور راستہ بھی صحیح اختیار کیا ہے ورنہ جاہلیت میں آواز بلند کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ اس قدرش ور مچائو کہ دوسرے کی آواز نہ سنائی دے۔اسلام ایسے احمقانہ انداز فکر کی حمایت نہیں کر سکتا ہے۔وہ اپنے فاتحین سے بھی یہی مطالبہ کرتا ہے کہ حق کا پیغام حق کے راستہ ے پہنچائوں' غارت گری اور لو ٹ مار کے ذریعہ نہیں۔یہ اسلام کی پیغام رسانی نہیں ہے۔خدا اور رسول (ص) کے لئے ایذا رسانی ہے جس کا جرم انتہائی سنگین ہے اور اس کی سزا دنیا و آخرت دونوں کی لعنت ہے۔

۱۰۳

مُسْتَوْفِزاً فِي مَرْضَاتِكَ - غَيْرَ نَاكِلٍ عَنْ قُدُمٍ ولَا وَاه فِي عَزْمٍ - وَاعِياً لِوَحْيِكَ حَافِظاً لِعَهْدِكَ - مَاضِياً عَلَى نَفَاذِ أَمْرِكَ حَتَّى أَوْرَى قَبَسَ الْقَابِسِ وأَضَاءَ الطَّرِيقَ لِلْخَابِطِ وهُدِيَتْ بِه الْقُلُوبُ بَعْدَ خَوْضَاتِ الْفِتَنِ والآثَامِ - وأَقَامَ بِمُوضِحَاتِ الأَعْلَامِ ونَيِّرَاتِ الأَحْكَامِ - فَهُوَ أَمِينُكَ الْمَأْمُونُ وخَازِنُ عِلْمِكَ الْمَخْزُونِ وشَهِيدُكَ يَوْمَ الدِّينِ وبَعِيثُكَ بِالْحَقِّ - ورَسُولُكَ إِلَى الْخَلْقِ.

الدعاء للنبي

اللَّهُمَّ افْسَحْ لَه مَفْسَحاً فِي ظِلِّكَ واجْزِه مُضَاعَفَاتِ الْخَيْرِ مِنْ فَضْلِكَ - اللَّهُمَّ وأَعْلِ عَلَى بِنَاءِ الْبَانِينَ بِنَاءَه - وأَكْرِمْ لَدَيْكَ مَنْزِلَتَه وأَتْمِمْ لَه نُورَه - واجْزِه مِنِ ابْتِعَاثِكَ لَه مَقْبُولَ الشَّهَادَةِ - مَرْضِيَّ الْمَقَالَةِ ذَا مَنْطِقٍ عَدْلٍ وخُطْبَةٍ فَصْلٍ - اللَّهُمَّ اجْمَعْ بَيْنَنَا وبَيْنَه فِي بَرْدِ الْعَيْشِ وقَرَارِ النِّعْمَةِ ومُنَى الشَّهَوَاتِ وأَهْوَاءِ اللَّذَّاتِ، ورَخَاءِ الدَّعَةِ ومُنْتَهَى الطُّمَأْنِينَةِ وتُحَفِ الْكَرَامَةِ

تیری مرضی کی راہ میں تیز قدم بڑھاتے رہے۔نہ آگے بڑھنے سے انکارکیا اور نہ ان کے ارادوں میں کمزوری آئی۔تیری وحی کو محفوظ کیا۔تیرے عہد کی حفاظت کی تیرے حکم کے نفاذ کی راہمیں بڑھتے رہے۔یہاں تک کہ روشنی کی جستجو کرنے والوں کے لئے آگ روشن کردی اور گم کر دہ راہ کے لئے راستہ واضح کردیا۔ان کے ذریعہ دلوں نے فتنوں اور گناہوں میں غرق رہنے کے بعد بھی ہدایت پالی اور انہوں نے راستہ دکھانے والے نشانات اور واضح احکام قائم کردئیے۔وہ تیرے امانت داربندہ' تیرے پوشیدہ علوم کے خزانہ دار' روز قیامت کے لئے تیرے گواہ' حق کے ساتھ بھیجے ہوئے اورمخلوقات کی طرف تیرے نمائندہ تھے۔

خدایا ان کے لئے اپنے سایہ رحمت میں وسیع ترین منزل قراردیدے اور ان کے خیر کو اپنے فضل سے دگنا چوگنا کردے۔خدایا ان کی عمارت کو تمام عمارتوں سے بلند تر اور ان کی منزل کو اپنے پاس بزرگ تربنادے۔ان کے نورکی تکمیل فرما اور اپنی رسالت کے صلہ میں انہیں مقبول شہادت اور پسندیدہ اقوال کا انعام عنایت کرکہ ان کی گفتگو ہمیشہ عادلانہ اور ان کا فیصلہ ہمیشہ حق و باطل کے درمیان حد فاصل رہا ہے۔

خدایا ہمیں ان کے ساتھ خوشگوارزندگی' نعمات کی منزل ' خواہشات و لذات کی تکمیل کے مرکز۔آرائش و طمانیت کے مقام اور کرامت و شرافت کے تحفوں کی منزل پر جمع کردے ۔

۱۰۴

(۷۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله لمروان بن الحكم بالبصرة

قَالُوا: أُخِذَ مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ أَسِيراً يَوْمَ الْجَمَلِ - فَاسْتَشْفَعَ الْحَسَنَ والْحُسَيْنَعليه‌السلام إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام - فَكَلَّمَاه فِيه فَخَلَّى سَبِيلَه فَقَالَا لَه - يُبَايِعُكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ

قَالَعليه‌السلام :

أَولَمْ يُبَايِعْنِي بَعْدَ قَتْلِ عُثْمَانَ - لَا حَاجَةَ لِي فِي بَيْعَتِه إِنَّهَا كَفٌّ يَهُودِيَّةٌ لَوْ بَايَعَنِي بِكَفِّه لَغَدَرَ بِسَبَّتِه أَمَا إِنَّ لَه إِمْرَةً كَلَعْقَةِ الْكَلْبِ أَنْفَه - وهُوَ أَبُو الأَكْبُشِ الأَرْبَعَةِ وسَتَلْقَى الأُمَّةُ مِنْه ومِنْ وَلَدِه يَوْماً أَحْمَرَ.

(۷۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

لما عزموا على بيعة عثمان

(۷۳)

(جو مروان بن الحکم سے بصرہ میں فرمایا)

کہا جاتا ہے کہ جب مروان بن الحکم جنگ جمل میں گرفتار ہوگیا تو امام حسن و حسین) ۱ ( نے امیرالمومنین سے اس کی سفارش کی اور آپ نے اسے آزاد کردیا تو دونوں حضرت نے عرض کی کہ یا امیرالمومنین ! یہ اب آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہے۔تو آپ نے فرمایا:

کیا اس نے قتل عثمان کے بعد میری بیعت نہیں کی تھی؟ مجھے اس کے بیعت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔یہ ایک یہودی قسم کا ہاتھ ہے۔اگر ہاتھ سے بیعت کر بھی لے گا تو رکیک طریقہ سے اسے توڑ ڈالے گا۔یاد رکھو اسے بھی حکومت ملے گی مگر صر ف اتنی دیر جتنی دیرمیں کتا اپنی ناک چاٹتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ چار بیٹیوں کا باپ بھی ہے اور امت اسلامیہ اس سے اور اس کی اولاد سے بد ترین دن دیکھنے والی ہے۔

(۷۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کرنے کا ارادہ کیا)

(۱)آل محمد (ص) کے اس کردار کا تاریخ کائنات میں کوئی جواب نہیں ہے۔انہوں نے ہمیشہ فضل و کرم سے کام لیا ہے۔حد یہ ہے کہ اگر معاذ اللہ امام حسن و امام حسین کی سفارش کو مستقبل کے حالات سے نا واقفیت بھی تصور کرلیا جائے تو امام زین العابدین کے طرز عمل کو کیا کہا جا سکتا ہے جنہوں نے واقعہ کربلا کے بعد بھی مروان کے گھر والوں کو پناہ دی ہے اور اس بے حیا نے حضرت سے پناہ کی درخواست کی ہے۔درحقیقت یہ بھی یہودیت کی ایک شاخ ہے کہ وقت پڑنے پر ہر ایک کے سامنے ذلیل بن جائو اور کام نکلنے کے بعد پروردگار کی نصیحتوں کی بھی پرواہ نہ کرو۔اللہ دین اسلام کو ہر دور کی یہودیت سے محفوظ رکھے۔

۱۰۵

لَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي أَحَقُّ النَّاسِ بِهَا مِنْ غَيْرِي - ووَ اللَّه لأُسْلِمَنَّ مَا سَلِمَتْ أُمُورُ الْمُسْلِمِينَ - ولَمْ يَكُنْ فِيهَا جَوْرٌ إِلَّا عَلَيَّ خَاصَّةً - الْتِمَاساً لأَجْرِ ذَلِكَ وفَضْلِه - وزُهْداً فِيمَا تَنَافَسْتُمُوه مِنْ زُخْرُفِه وزِبْرِجِه

(۷۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما بلغه اتهام بني أمية له بالمشاركة في دم عثمان

أَولَمْ يَنْه بَنِي أُمَيَّةَ عِلْمُهَا بِي عَنْ قَرْفِي أَومَا وَزَعَ الْجُهَّالَ سَابِقَتِي عَنْ تُهَمَتِي - ولَمَا وَعَظَهُمُ اللَّه بِه أَبْلَغُ مِنْ لِسَانِي - أَنَا حَجِيجُ الْمَارِقِينَ وخَصِيمُ النَّاكِثِينَ الْمُرْتَابِينَ وعَلَى كِتَابِ اللَّه تُعْرَضُ الأَمْثَالُ وبِمَا فِي الصُّدُورِ تُجَازَى الْعِبَادُ!

تمہیں معلوم ہے کہ میں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ خلافت کا حقدار ہوں اور خدا گواہ ہے کہ میں اس وقت تک حالات(۲) کاساتھ دیتا رہوں گا جب تک مسلمانوں کے مسائل ٹھیک رہیں اور ظلم صرف میری ذات تک محدود رہے تاکہ میں اس کا اجرو ثواب حاصل کر سکوں اور اس زیب و زینت دنیا سے اپنی بے نیازی کا اظہار کر سکوں جس کے لئے تم سب مرے جا رہے ہو۔

(۷۵)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کو خبر ملی کہ بنی امیہ آپ پر خون عثمان کا الزام لگا رہے ہیں)

کیا بنی امیہ کے واقعی معلومات انہیں مجھ پر الزام تراشی سے نہیں روک سکے اور کیا جاہلوں کو میرے کارنامے اس اتہام سے باز نہیں رکھ سکے؟ یقینا پروردگار نے تہمت و افترا کے خلاف جو نصیحت فرمائی ہے وہ میرے بیان سے کہیں زیادہ بلیغ ہے۔میں بہر حال ان بے دینوں پرحجت تمام کرنے والا'ان عہد شکن مبتلائے تشکیک افراد کا دشمن ہوں۔اور تمام مشتبہ معاملات کو کتاب خداپرپیش کرنا چاہیے۔اور روز قیامت بندوں کا حساب ان کے دلوں کے مضمرات (نیتوں) ہی پر ہوگا۔

(۲)امیر المومنین کا مقصد یہ ہے کہ خلافت میرے لئے کسی ہدف اور مقصد حیات کا مرتبہ نہیں رکھتی ہے۔یہ در حقیقت عام انسانیت کے لئے سکون و اطمینان فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔لہٰذا اگر یہ مقصد کسی بھی ذریعہ سے حاصل ہوگیا تو میرے لئے سکوت جائز ہو جائے گا اور میں اپنے اوپر ظلم کو برداشت کرلوں گا۔دوسرا فقرہ اس بات کی دلیل ہے کہ باطل خلافت سے مکمل عدل و اناصف اور سکون و اطمینان کی توقع محال ہے لیکن مولائے کائنات کا منشاء یہ ہے کہ اگر ظلم کا نشانہ میری ذات ہوگی تو برداشت کرلوں گا لیکن عوام الناس ہوں گے اور میرے پاس مادی طاقت ہوگی تو ہرگز برداشت نہ کروں گا کہ یہ عہد الٰہی کے خلاف ہے۔

۱۰۶

(۷۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في الحث على العمل الصالح

رَحِمَ اللَّه امْرَأً سَمِعَ حُكْماً فَوَعَىودُعِيَ إِلَى رَشَادٍ فَدَنَا وأَخَذَ بِحُجْزَةِ هَادٍ فَنَجَا - رَاقَبَ رَبَّه وخَافَ ذَنْبَه قَدَّمَ خَالِصاً وعَمِلَ صَالِحاً - اكْتَسَبَ مَذْخُوراً واجْتَنَبَ مَحْذُوراً - ورَمَى غَرَضاً وأَحْرَزَ عِوَضاً كَابَرَ هَوَاه وكَذَّبَ مُنَاه - جَعَلَ الصَّبْرَ مَطِيَّةَ نَجَاتِه والتَّقْوَى عُدَّةَ وَفَاتِه - رَكِبَ الطَّرِيقَةَ الْغَرَّاءَ ولَزِمَ الْمَحَجَّةَ الْبَيْضَاءَ - اغْتَنَمَ الْمَهَلَ وبَادَرَ الأَجَلَ وتَزَوَّدَ مِنَ الْعَمَلِ.

(۷۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں عمل صالح پرآمادہ کیا گیا ہے)

خدا رحمت نازل(۱) کرے اس بندہ پر جو کسی حکمت کو سنے تو محفوظ کرلے اور اسے کسی ہدایت کی دعوت دی جائے تو اس سے قریب تر ہو جائے اور کسی راہنما سے وابستہ ہو جائے تو نجات حاصل کرلے۔اپنے پروردگار کو ہر وقت نظر میں رکھے اور گناہوں سے ڈرتا رہے۔خالص اعمال کوآگے بڑھائے اور نیک اعمال کرتا رہے۔قابل ذخیرہ ثواب حاصل کرے۔قابل پرہیز چیزوں سے اجتناب کرے۔مقصد کو نگاہوں میں رکھے۔اجرسمیٹ لے۔خواہشات پر غالب آجائے اورتمنائوں کو جھٹلادے ۔صبر کو نجات کا مرکب بنالے اورتقویٰ کو وفات کاذخیرہ قرار دے لے۔روشن راستہ پر چلے اور واضح شاہراہ کو اختیار کرلے۔مہلت حیات کو غنیمت قراردے اور موت کی طرف خود سبقت کرے اور عمل کا زاد راہ لے کرآگے بڑھے۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ رحمت الٰہی کا دائرہ بے حد وسیع ہے اور مسلم و کافر۔دین دارو بے دین سب کو شامل ہے۔یہ ہمیشہ غضب الٰہی سے آگے آگے چلتی ہے۔لیکن روز قیامت اس رحمت کا استحقاق آسان نہیں ہے۔وہ حساب کادن ہے اور خدائے واحد قہار کی حکومت کا دن ہے۔لہٰذا اس دن رحمت خداکے استحقاق کے لئے ان تمام چیزوں کواختیارکرنا ہوگا جن کی طرف مولائے کائنات نے اشارہ کیا ہے اور ان کے بغیر رحمة اللعالمین کا کلمہ اور ان کی محبت کا دعویٰ بھی کام نہیں آسکتا ہے۔دنیا کے احکام الگ ہیں اور آخرت کے احکام الگ ہیں۔یہاں کا نظام رحمت الگ ہے اور وہاں کا نظام مکافات و مجازات الگ۔

۱۰۷

(۷۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وذلك حين منعه سعيد بن العاص حقه

إِنَّ بَنِي أُمَيَّةَ لَيُفَوِّقُونَنِي تُرَاثَ مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تَفْوِيقاً - واللَّه لَئِنْ بَقِيتُ لَهُمْ - لأَنْفُضَنَّهُمْ نَفْضَ اللَّحَّامِ الْوِذَامَ التَّرِبَةَ!

قال الشريف - ويروى التراب الوذمة وهو على القلب

قال الشريف وقولهعليه‌السلام ليفوقونني - أي يعطونني من المال قليلا كفواق الناقة - وهو الحلبة الواحدة من لبنها -. والوذام جمع وذمة - وهي الحزة من الكرش أو الكبد تقع في التراب فتنفض.

(۷۸)

من كلمات كانعليه‌السلام

من كلمات كانعليه‌السلام يدعو بها

اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِه مِنِّي - فَإِنْ عُدْتُ فَعُدْ عَلَيَّ بِالْمَغْفِرَةِ

(۷۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب سعید بن العاص نے آپ کو آپ کے حق سے محروم کردیا)

یہ بنی امیہ مجھے میراث پیغمبر(ص) کوبھی تھوڑا تھوڑا کرکے دے رہے ہیں حالانکہ اگر میں زندہ رہ گیا تو اس طرح جھاڑ کرپھینک(۱) دوں گاجس طرح قصاب گوشت کے ٹکڑے سے مٹی کوجھاڑ دیتا ہے۔

سید رضی :بعض روایات میں '' وذام تربہ''کے بجائے ''تراب الوذمہ''ہے جو معنی کے اعتبارسےمعکوس ترکیب ہے۔''لیفو قوفنی''کامفہوم ہے مال کا تھوڑا تھوڑا کرکے دنیا جس طرح کہ اونٹ کا دودھ نکالا جاتا ہے۔فواق اونٹ کا ایک مرتبہ کا دوھا ہوا دودھ ہے اوروذام وذمہ کی جمع ہے جس کے معنی ٹکڑےکےہیں یعنی جگہ یاآنتوں کاوہ ٹکڑا جوزمین پر گر جائے۔

(۷۸)

آپ کی دعا

(جسے برابر تکرار فرمایا کرتے تھے)

خدایا میری خاطر ان چیزوں کو معاف کردے جنہیں تو مجھ سے بہتر جانتا ہے اور اگر پھران امور کی تکرار ہوتو تو ' بھی مغفرت کی تکرار فرما:

(۱)کتنی حسین تشبیہ ہے کہ بنی امیہ کی حیثیت اسلام میں نہ جگر کی ہے نہ معدہ کی اورنہ جگر کے ٹکڑے کی ۔یہ وہ گروہیں جو الگ ہو جانے والے کپڑے سے چپک جاتی ہے لیکن گوشت کا استعمال کرنے والا اسے بھی برداشت نہیں کرتا ہے اوراسے جھاڑنے کے بعد ہی خریدار کے حوالے کر تا ہے تاکہ دکان بد نام نہ ہونے پائے اور تاجر نا تجربہ کار اور بذ ذوق نہ کہا جاسکے !

۱۰۸

اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا وَأَيْتُ مِنْ نَفْسِي ولَمْ تَجِدْ لَه وَفَاءً عِنْدِي - اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا تَقَرَّبْتُ بِه إِلَيْكَ بِلِسَانِي ثُمَّ خَالَفَه قَلْبِي اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي رَمَزَاتِ الأَلْحَاظِ وسَقَطَاتِ الأَلْفَاظِ وشَهَوَاتِ الْجَنَانِ وهَفَوَاتِ اللِّسَانِ

(۷۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله لبعض أصحابه - لما عزم على المسير إلى الخوارج، وقد قال له: إن سرت يا أمير المؤمنين، في هذا الوقت، خشيت ألا تظفر بمرادك، من طريق علم النجوم

فقالعليه‌السلام : أَتَزْعُمُ أَنَّكَ تَهْدِي إِلَى السَّاعَةِ الَّتِي مَنْ سَارَ فِيهَا صُرِفَ عَنْه السُّوءُ - وتُخَوِّفُ مِنَ السَّاعَةِ الَّتِي مَنْ سَارَ فِيهَا حَاقَ بِه الضُّرُّ فَمَنْ صَدَّقَكَ بِهَذَا فَقَدْ كَذَّبَ الْقُرْآنَ - واسْتَغْنَى عَنِ الِاسْتِعَانَةِ بِاللَّه - فِي نَيْلِ الْمَحْبُوبِ ودَفْعِ الْمَكْرُوه وتَبْتَغِي فِي قَوْلِكَ لِلْعَامِلِ بِأَمْرِكَ - أَنْ يُولِيَكَ الْحَمْدَ دُونَ رَبِّه - لأَنَّكَ بِزَعْمِكَ أَنْتَ هَدَيْتَه إِلَى السَّاعَةِ - الَّتِي نَالَ فِيهَا النَّفْعَ وأَمِنَ الضُّرَّ.

خدایا ان وعدوں کے بارے میں بھی مغفرت فرما جن کا تجھ سے وعدہ کیا گیا لیکن انہیں وفا نہ کیا جاسکا۔خدایا ان اعمال کی بھی غفرت فرما جن میں زبان سے تیری قربت اختیار کی گئی لیکن دل نے اس کی مخالفت ہی کی۔

خدایا آنکھوں کے طنز یہ اشاروں ۔دہن کے ناشائستہ کلمات۔دل کی بے جا خواہشات اور زبان کی ہر زہ سرائیوں کو بھی معاف فرمادے۔

(۷۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب جنگ خوارج کے لئے نکلتے وقت بعض اصحاب نے کہا کہ امیر المومنین اس سفر کے لئے کوئی دوسرا وقت اختیار فرمائیں۔اس وقت کامیابی کے امکانات نہیں ہیں کہ علم نجوم کے حسابات سے یہی اندازہ ہوتا ہے)

کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ تمہیں وہ ساعت معلوم ہے جس میں نکلنے والے سے بلائیں ٹل جائیں گی اورتم اس ساعت سے ڈرانا چاہتے ہو جس میں سفر کرنے والا نقصانات میں گھرجائے گا؟ یاد رکھو جو تمہارے اس بیان کی تصدیق کرے گا وہ قرآن کی تکذیب کرنے والا ہوگا اور محبوب اشیاء کے حصول اور نا پسندیدہ امور کے دفع کرنے میں مدد خدا سے بے نیاز ہو جائے گا۔کیا تمہاریخواہش یہ ہے کہ تمہارے افعال کے مطابق عمل کرنے والا پروردگار کے بجائے تمہاری ہی تعریف کرے اس لئے کہ تم نے اپنے خیال میں اسے اس ساعت کا پتہ بتا دیا ہے جس میں منفعت حاصل کی جاتی ہے اور نقصانات سے محفوظ رہا جاتا ہے۔

۱۰۹

ثم أقبلعليه‌السلام على الناس فقال:

أَيُّهَا النَّاسُ - إِيَّاكُمْ وتَعَلُّمَ النُّجُومِ إِلَّا مَا يُهْتَدَى بِه فِي بَرٍّ أَوْ بَحْرٍ - فَإِنَّهَا تَدْعُو إِلَى الْكَهَانَةِ - والْمُنَجِّمُ كَالْكَاهِنِ والْكَاهِنُ كَالسَّاحِرِ والسَّاحِرُ كَالْكَافِرِ - والْكَافِرُ فِي النَّارِ سِيرُوا عَلَى اسْمِ اللَّه

(۸۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

بعد فراغه من حرب الجمل في ذم النساء ببيان نقصهن

مَعَاشِرَ النَّاسِ إِنَّ النِّسَاءَ نَوَاقِصُ الإِيمَانِ - نَوَاقِصُ الْحُظُوظِ، نَوَاقِصُ الْعُقُولِ

ایہا الناس! خبر دار نجوم کا(۱) مت حاصل کرو مگر اتنا ہی جس سے برو بحر میں راستے دریافت کئے جا سکیں۔ کہ یہ علم کہانت کی طرف لے جاتا ہے اور منجم بھی ایک طرح کا کاہن ( غیب کی خبر دینے والا ) ہو جاتا ہے جب کہ کاہن جادوگرجیسا ہوتا ہے اور جادو گر کافر جیسا ہوتا ہے اور کافر کا انجام جہنم ہے۔چلو نام خدا لے کرنکل پڑو۔

(۸۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جنگ جمل سے فراغت کے بعد عورتوں کی مذمت کے بارے میں)

لوگو! یاد رکھو کہ عورتیں ایمان کے اعتبارسے' میراث کے حصہ کے اعتبار سے اور عقل کے اعتبارسے ناقص ہوتی ہیں۔

(۱)واضح رہے کہ علم نجوم حاصل کرنے سے مراوان اثرات ونتائج کا معلوم کرنا ہے جو ستاروں کی حرکات کے بارے میں اس علم کے مدعی حضرات نے بیان کئے ہیں ورنہ اصل ستاروں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا کوئی عیب نہیں ہے۔اس سے انسان کے ایمان اورعقیدہ میں بھی استحکام پیدا ہوتا ہے اور بہت سے دوسرے مسائل بھی حل ہو جاتے ہیں۔اور ستاروں کاوہ علم جو ان کے حقیقی اثرات پرمبنی ہے ایک فضل و شرف ہے اورعلم پروردگارکا ایک شعبہ ہے وہ جسے چاہتا ہے عنایت کر دیتا ہے۔

امام علیہ السلام نے اولا علم نجوم کو کہانت کا ایک شعبہ قرار دیا کہ غیب کی خبر دینے والے اپنے اخبار کے مختلف مآخذ ومدارک بیان کرتے ہیں۔جن میں سے ایک علم نجوم بھی ہے۔اس کے بعد جب ہ غیب کی خبریں بیان کر دیتے ہیں تو انہیں خبروں کے ذریعہ انسان کے دل و دماغ پر مسلط ہو جانا چاہتے ہیں جو جادوگری کا ایک شعبہ ہے اور جادوگری انسان کو یہ محسوس کرانا چاہتی ہے کہ اس کائنات میں عمل دخل ہمارا ہی ہے اور اس جادو کا چڑھانا اوراتارنا ہمارے ہی بس کا کام ہے' دوسرا کوئی یہ کارنامہ انجام نہیں دے سکتا ہے اور اسی کا نام کفر ہے۔

۱۱۰

فَأَمَّا نُقْصَانُ إِيمَانِهِنَّ - فَقُعُودُهُنَّ عَنِ الصَّلَاةِ والصِّيَامِ فِي أَيَّامِ حَيْضِهِنَّ - وأَمَّا نُقْصَانُ عُقُولِهِنَّ فَشَهَادَةُ امْرَأَتَيْنِ كَشَهَادَةِ الرَّجُلِ الْوَاحِدِ - وأَمَّا نُقْصَانُ حُظُوظِهِنَّ - فَمَوَارِيثُهُنَّ عَلَى الأَنْصَافِ مِنْ مَوَارِيثِ الرِّجَالِ - فَاتَّقُوا شِرَارَ النِّسَاءِ وكُونُوا مِنْ خِيَارِهِنَّ عَلَى حَذَرٍ - ولَا تُطِيعُوهُنَّ فِي الْمَعْرُوفِ حَتَّى لَا يَطْمَعْنَ فِي الْمُنْكَرِ.

(۸۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في الزهد

أَيُّهَا النَّاسُ الزَّهَادَةُ قِصَرُ الأَمَلِ - والشُّكْرُ عِنْدَ النِّعَمِ والتَّوَرُّعُ عِنْدَ الْمَحَارِمِ - فَإِنْ عَزَبَ ذَلِكَ عَنْكُمْ فَلَا يَغْلِبِ الْحَرَامُ صَبْرَكُمْ - ولَا تَنْسَوْا عِنْدَ النِّعَمِ شُكْرَكُمْ

ایمان کے اعتبار(۱) سے ناقص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ امام حیض میں نماز روزہ سے بیٹھ جاتی ہیں اور عقلوں کے اعتبار سے ناقص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں دو عورتوں کی گواہی ایک مردکے برابر ( ہوتی ہے۔حصہ کی کمی یہ ہے کہ انہیں میراث میں حصہ مردوں کے آدھے حصہ کے برابر ملتا ہے ۔ لہٰذا تم بدترین عورتوں سے بچتے رہو اور بہترین عورتوں سے بھی ہوشیار رہو اورخبردار نیک کام بھی ان کی اطاعت کی بنا پر انجام نہ دینا کہ انہیں برے کام کا حکم دینے کاخیال پیدا ہو جائے۔

(۸۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(زہد کے بارے میں)

ایہاالناس! زاہد امیدوں کے کم کرنے' نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے اورمحرمات سے پرہیز کرنے کا نام ہے۔اب اگر یہ کام تمہارے لئے مشکل ہو جائے تو کم از کم اتنا کرناکہ حرام تمہاری قوت برداشت پر غالب نہ آنے پائے اور نعمتوں کے موقع پر شکریہ کو فراموش نہ کر دینا

(۱)اس خطبہ میں اس نکتہ پر نظر رکھنا ضروری ہے کہ یہ جنگ جمل کے بعد ارشاد فرمایا گیا ہے اور اس کے مفاہیم میں کلیات کی طرح صورت حال اور تجربات کابھی دخل ہو سکتا ہے یعنی یہ کوئی لازم نہیں ہے کہ اس کا اطلاق ہر عورت پر ہو جائے۔دنیا میں ایسی خاتون بھی ہو سکتی ہے جو نسوانی عوارض سے پاک ہو۔اس کی گواہی بنض قرآن تنہا قابل قبول ہو اور وہ اپنے باپ کی تنہا وارث ہو۔ظاہر ہے کہ اس خاتون میں کسی طرح کا نقص نہیں پایا جاتا ہے جیسے جناب فاطمہ اور ایسی عورت بھی ہو سکتی ہے جس میں سارے نقائص پائے جاتے ہوں اور ان فطری نقائص کے ساتھ کرداری اور ایمانی نقائص بھی ہوں کہ یہ عورت ہر اعتبار سے قابل لعنت و مذمت ہو۔قوانین کا دارومدار نہ قسم اول پر ہوسکتا ہے اورنہ قسم دوم پر۔قوانین کا اطلاق درمیانی قسم پر ہوتا ہے۔جس میں کسی طرح کا امتیاز نہ پایا جاتا ہو اور صرف فطرت نسوانی کی کارفرمائی ہواور امیر المومنین کی اطاعت کی تھی یا انہیں بھڑکایا تھا۔پھر امیر المومنین امام معصوم ہیں کوئی جذباتی انسان نہیں ہیں اور ان سے پہلے رسول اکرم (ص) بھی یہ بات فرماچکے ہیں۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس اعلان کے لئے ایک مناسب موقع ہاتھ آگیا جہاں اپنی بات کو بخوبی واضح کیا جا سکتا ہے اور عورت کے اتباع کے نتائج سے باخبر کیا جا سکتا ہے۔

۱۱۱

فَقَدْ أَعْذَرَ اللَّه إِلَيْكُمْ بِحُجَجٍ مُسْفِرَةٍ ظَاهِرَةٍ - وكُتُبٍ بَارِزَةِ الْعُذْرِ وَاضِحَةٍ.

(۸۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في ذم صفة الدنيا

مَا أَصِفُ مِنْ دَارٍ أَوَّلُهَا عَنَاءٌ وآخِرُهَا فَنَاءٌ - فِي حَلَالِهَا حِسَابٌ وفِي حَرَامِهَا عِقَابٌ - مَنِ اسْتَغْنَى فِيهَا فُتِنَ - ومَنِ افْتَقَرَ فِيهَا حَزِنَ ومَنْ سَاعَاهَا فَاتَتْه - ومَنْ قَعَدَ عَنْهَا وَاتَتْه ومَنْ أَبْصَرَ بِهَا بَصَّرَتْه ومَنْ أَبْصَرَ إِلَيْهَا أَعْمَتْه.

قال الشريف - أقول وإذا تأمل المتأمل قولهعليه‌السلام ومن أبصر بها بصرته - وجد تحته من المعنى العجيب والغرض البعيد - ما لا تبلغ غايته ولا يدرك غوره - لا سيما إذا قرن إليه قوله ومن أبصر إليها أعمته - فإنه يجد الفرق بين أبصر بها - وأبصر إليها واضحا نيرا وعجيبا باهرا

کہ پروردگار نے نہایت درجہ واضح اور روشن دلیلوں اورحجت تمام کرنے والی کتابوں کے ذریعہ تمہارے ہر عذر کا خاتمہ کردیا ہے۔

(۸۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(دنیا کے صفات کے بارے میں )

میں اس دنیا کے بارے میں کیا کہوں جس کی ابتدا رنج و غم اورانتہا فنا ونیستی ہے۔اس کے حلال میں حساب میں ہے اور حرام میں عقاب ۔جو اس میں غنی ہو جائے وہ آزمائشوں میں مبتلا ہو جائے اور جو فقیر ہو جائے وہ رنجیدہ و افسردہ ہو جائے۔جو اس کی طرف دوڑ لگائے اس کے ہاتھ سے نکل جائے اور جو منہ پھیر کر بیٹھ رہے اس کے پاس حاضر ہو جائے۔جو اس کو ذریعہ بنا کر آگے دیکھے اسے بینا بنا دے اور جو اس کو منظور نظر بنالے اسے اندھا بنادے۔

سید رضی : اگر کوئی شخص حضرت کے اس ارشاد گرامی'' من ابصر بها بصرته'' میں غورکرے تو عجیب و غریب معانی اور دور رس حقائق کا ادراک کرلے گا جن کی بلندیوں اورگہرائیوں کا ادراک ممکن نہیں ہے۔خصوصیت کے ساتھ اگر دوسرے فقرہ'' من ابصر الیها اعتمه'' کوملایا جائے تو''ابصر بها '' اور ''ابصر الیها '' کا فرق اور نمایاں ہو جائے گا اور عقل مدہوش ہو جائے گی۔

۱۱۲

(۸۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي الخطبة العجيبة تسمى «الغراء»

وفيها نعوت اللَّه جل شأنه، ثم الوصية بتقواهثم التنفير من الدنيا، ثم ما يلحق من دخولالقيامة، ثم تنبيه الخلق إلى ما هم فيه من الأعراض، ثم فضلهعليه‌السلام في التذكير

صفته جل شأنه

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي عَلَا بِحَوْلِه ودَنَا بِطَوْلِه مَانِحِ كُلِّ غَنِيمَةٍ وفَضْلٍ وكَاشِفِ كُلِّ عَظِيمَةٍ وأَزْلٍ أَحْمَدُه عَلَى عَوَاطِفِ كَرَمِه وسَوَابِغِ نِعَمِه وأُومِنُ بِه أَوَّلًا بَادِياً وأَسْتَهْدِيه قَرِيباً هَادِياً - وأَسْتَعِينُه قَاهِراً قَادِراً وأَتَوَكَّلُ عَلَيْه كَافِياً نَاصِراً - وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَبْدُه ورَسُولُه

(۸۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

اس خطبہ میں پروردگارکے صفات 'تقویٰ کی نصیحت ' دنیا سے بیزاری کاسبق قیامت کےحالات لوگوں کی بے رخی پر تنبیہ اورپھر یادخدا دلانے میں اپنی فضیلت کا ذکر کیا گیا ہے۔

ساری تعریف(۱) اس اللہ کے لئے ہے جو اپنی طاقت کی بنا پر بلند اور اپنے احسانات کی بنا پر بندوں سے قریب تر ہے۔وہ ہر فائدہ اورفضل کا عطا کرنے والا اور ہر مصیبت اوررنج کا ٹالنے والا ہے۔میں اس کی کرم نوازیوں اورنعمتوں کی فراوانیوں کی بنا پر اس کی تعریف کرتا ہوں اور اس پر ایمان رکھتا ہوں کہ وہی اول اور ظاہر ہے اور اسی سے ہدایت طلب کرتا ہو کہ وہی قریب اور ہادی ہے۔اسی سے مددچاہتا ہوں کہ وہی قادر اور قاہر ہے۔اور اسی پر بھروسہ کرتا ہوں کہ وہی کافی اور ناصر ہے۔اور میں گواہی دیتا ہو کہ حضرت محمد (ص) اس کے بندہ اور رسول ہیں

(۱) یوں تو امیر المومنین کے کسی بھی خطبہ کی تعریف کرنا سورج کوچراغ دکھانے کے مترادف ہے لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ یہ خطبہ غراء کہے جانے کے قابل ہے جس میں اس قدرحقائق و معارف اور معانی و مفاہیم کو جمع کردیا گیا ہے کہ ان کا شمار کرنا بھی طاقت بشر سے بالا تر ہے ۔ آغاز خطبہ میں مالک کائنات کے بظاہر دو متضاد صفات و کمالات کاذکر کیا یا ہے کہ وہ اپنی طاقت کے اعتبارسے انتہائی بلند تر ہے لیکن اس کے بعد بھی بندوں سے دورنہیں ہے اس لئے کہ ہرآن اپنے بندوں پر ایسا کرم کرتا رہتا ہے کہ یہ کرم اسے بندوں سے قریب تر بنائے ہوئے ہے اور اسے دورنہیں ہونے دیتا ہے۔لفظ'' بحولہ'' میں اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اس کی بلندی کسی وسیلہ اورذریعہ کی بنا پر نہیں ہے بلکہ یہ اپنی ذاتی طاقت اور قدرت کا نتجیہ ہے ورنہ اس کے علاوہ ہر ایک کوبلندی اس کے فضل و کرم سے وابستہ ہے اور اس کے بغیر بلندی کا کوئی امکان نہیں ہے۔وہ اگر چاہے تو بندہ کو قاب قوسین کی منزلوں تک بلند کردے ''اسری بعبدہ'' اوراگر چاہے تو '' صاحب معراج '' کے کاندھوں پربلند کردے ''وعلی واضع اقدامہ ۔فی محل وضع اللہ یدہ ''۔اس کے بعد پیغمبر اسلام (ص) کی بعثت کے تین بنیادی مقاصد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اس بعثت کا اصل مقصد یہ تھا کہ الٰہی احکام نافذہو جائیں بندوں پرحجت تمام ہو جائے اورانہیں قیامت میں پیش آنے والے حالات سے قبل از وقت با خبر کردیا جائے کہ یہ کام نمائندہ پروردگار کے علاوہ کوئی دوسرا انجام نہیں دے سکتا ہے اوری ہخدائی نمائندگی کے فوائد میں سب سے عظیم تر فائدہ ہے جس کی بنا پرانسان رسالت الہیہ سے کسی وقت بھی بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے۔

۱۱۳

أَرْسَلَه لإِنْفَاذِ أَمْرِه وإِنْهَاءِ عُذْرِه وتَقْدِيمِ نُذُرِه

الوصية بالتقوى

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه الَّذِي ضَرَبَ الأَمْثَالَ ووَقَّتَ لَكُمُ الآجَالَ وأَلْبَسَكُمُ الرِّيَاشَ وأَرْفَغَ لَكُمُ الْمَعَاشَ وأَحَاطَ بِكُمُ الإِحْصَاءَ وأَرْصَدَ لَكُمُ الْجَزَاءَ وآثَرَكُمْ بِالنِّعَمِ السَّوَابِغِ، والرِّفَدِ الرَّوَافِغِ وأَنْذَرَكُمْ بِالْحُجَجِ الْبَوَالِغِ فَأَحْصَاكُمْ عَدَداً - ووَظَّفَ لَكُمْ مُدَداً فِي قَرَارِ خِبْرَةٍ ودَارِ عِبْرَةٍ - أَنْتُمْ مُخْتَبَرُونَ فِيهَا ومُحَاسَبُونَ عَلَيْهَا.

التنفير من الدنيا

فَإِنَّ الدُّنْيَا رَنِقٌ مَشْرَبُهَا رَدِغٌ مَشْرَعُهَا - يُونِقُ مَنْظَرُهَا ويُوبِقُ مَخْبَرُهَا - غُرُورٌ حَائِلٌ

انہیں پروردگارنے اپنے حکم کو نافذ کرنے ' اپنی حجت کوت مام کرنے اورعذاب کی خبریں پیش کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ بند گان خدا!میں تمہیں اس خدا سے ڈرنے کی دعوت دیتا ہوں جس نے تمہاری ہدایت کے لئے مثالیں بیان کی ہیں تمہاری زندگی کے لئے مدت معین کی ہے تمہیں مختلف قسم کے لباس پہنائے ہیں۔ تمہارے لئے اسباب معیشت کو فراواں کردیا ہے۔تمہارے اعمال کا مکمل احاطہ کر رکھا ہے اور تمہارے لئے جزا کا انتظام کر دیا ہے۔تمہیں مکمل نعمتوں اوروسیع تر عطیوں سے نوازاہے اورموثردلیلوں کے ذریعہ عذاب آخرت سے ڈرایا ہے۔تمہار ے اعداد کو شمار کرلیا ہے اور تمہارے لئے اس امتحان گاہ اور مقام عبرت میں مدتیں معین کردی ہیں۔یہیں تمہارا امتحان لیا جائے گا اور اسی کے اقوال و اعمال پر تمہارا حساب کیا جائے گا۔ یاد رکھو اس دنیا کا سرچشمہ گندہ اور اس کا گھاٹ گل آلود ہے۔اس کا منظر خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔لیکن اندر کے حالات انتہائی درجہ خطر ناک ہیں۔یہ دنیا ایک مٹ جانے والا دھوکہ(۱) ہے

(۱)ایک ایک لفظ پرغور کیا جائے اور دنیا کی حقیقت سے آشنائی پیدا کی جائے ۔صورت حال یہ ہے کہ یہ ایک دھوکہ ہے جو رہنے والا نہیں ہے ایک روشنی ہے جو بجھ جانے والی ہے۔ایک سایہ ہے جوڈھل جانے والا ہے اور ایک سہارا ہے جو گر جانے والا ہے۔انصاف سے بتائو کیا ایسی دنیا بھی دل گلانے کے قابل اور اعتبار کرنے کے لائق ہے۔حقیقت امر یہ ہے کہ دنیا سے عشق و محبت صرف جہالت اورناواقفیت کا نتیجہ ہے ورنہ انسان اس کی حقیقت و بیوفائی سے با خبر ہو جائے تو طلاق دئیے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔

قیامت یہ ہے کہ انسان دنیا کی بیوفائی ۔موت کی چیرہ دستی کا برابر مشاہدہ کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود کوئی عبرت حاصل کرنیوالا نہیں ہے اور ہرآنے والا دور گزشتہ دورکا انجام دیکھنے کے بعد بھی اسی راستہ پر چل رہاہے۔ یہ حقیقت عام انسانوں کی زندگی میں واضح نہ بھی ہو تو ظالموں اورستمگروں کی زندگی میں صبح و شام واضح ہوتی رہتی ہے کہ ہر ستمگر اپنے پہلے والے ستمگروں کا انجام دیکھنے کے بعد بھی اسی راستہ پر چل رہا ہے اور ہر مسئلہ حیات کا حل ظلم و ستم کے علاوہ کسی اور چیز کو نہیں قرار دیتا ہے۔خدا جانے ان ظالموں کی آنکھیں کب کھلیں گی اور یہ اندھا انسان کب بینا بنے گا۔مولائے کائنات ہی نے سچ فرمایا تھا کہ '' سارے انسان سو رہے ہیں جب موت آجائے گی تو بیدار ہو جائیں گے ''یعنی جب تک آنکھ کھلی رہے گی بند رہے گی اور جب بند ہو جائے گی تو کھل جائے گی۔استغفر اللہ ربی واتوب الیہ

۱۱۴

وضَوْءٌ آفِلٌ وظِلٌّ زَائِلٌ وسِنَادٌ مَائِلٌ حَتَّى إِذَا أَنِسَ نَافِرُهَا واطْمَأَنَّ نَاكِرُهَاقَمَصَتْ بِأَرْجُلِهَا وقَنَصَتْ بِأَحْبُلِهَا وأَقْصَدَتْ بِأَسْهُمِهَا وأَعْلَقَتِ الْمَرْءَ أَوْهَاقَ الْمَنِيَّةِ قَائِدَةً لَه إِلَى ضَنْكِ الْمَضْجَعِ ووَحْشَةِ الْمَرْجِعِ - ومُعَايَنَةِ الْمَحَلِّ وثَوَابِ الْعَمَلِ وكَذَلِكَ الْخَلَفُ بِعَقْبِ السَّلَفِ لَا تُقْلِعُ الْمَنِيَّةُ اخْتِرَاماً ولَا يَرْعَوِي الْبَاقُونَ اجْتِرَاماً يَحْتَذُونَ مِثَالًا ويَمْضُونَ أَرْسَالًا إِلَى غَايَةِ الِانْتِهَاءِ وصَيُّورِ الْفَنَاءِ

بعد الموت البعث

حَتَّى إِذَا تَصَرَّمَتِ الأُمُورُ - وتَقَضَّتِ الدُّهُورُ وأَزِفَ النُّشُورُ أَخْرَجَهُمْ مِنْ ضَرَائِحِ الْقُبُورِ وأَوْكَارِ الطُّيُورِ وأَوْجِرَةِ السِّبَاعِ ومَطَارِحِ الْمَهَالِكِ سِرَاعاً إِلَى أَمْرِه مُهْطِعِينَ إِلَى مَعَادِه رَعِيلًا صُمُوتاً قِيَاماً صُفُوفاً - يَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ ويُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي - عَلَيْهِمْ لَبُوسُ الِاسْتِكَانَةِ وضَرَعُ الِاسْتِسْلَامِ والذِّلَّةِ - قَدْ ضَلَّتِ الْحِيَلُ وانْقَطَعَ الأَمَلُ وهَوَتِ الأَفْئِدَةُ كَاظِمَةً

ایک بجھ جانے والی روشنی۔ایک ڈھل جانے والا سایہ اور ایک گر جانے والا سہارا ہے۔جب اس سے نفرت کرنے والا مانوس ہوجاتا ے ہے اوراسے برا سمجھنے والا مطمئن ہوجاتا ہے تو یہ اچانک اپنے پیروں کو ٹپکنے لگتی ہے اور عاشق کواپنے جال میں گرفتار کر لیتی ہے اور پھراپنے تیروں کا نشانہ بنالیتی ہے۔انسان کی گردن می ں موت کا پھنڈا ڈال دیتی ہے اور اسے کھینچ کرتنگی مرقداور وحشت منزل کی طرف لے جاتی ہے جہاں وہ اپناٹھکانہ دیکھ لیتا ہے اور اپنے اعمال کا معاوضہ حاصل کر لیتا ہے اور یوں ہی یہ سلسلہ نسلوں میں چلتا رہتا ہے کہ اولاد بزرگوں کی جگہ پرآجاتی ہے۔نہ موت چیرہ دستیوں سے بازآتی ہے اورنہ آنے والے افرادگناہوں سے باز آتے ہیں۔پرانے لوگوں کے نقش قدم پر چلتے رہتے ہیں اور تیزی کے ساتھ اپنی آخری منزل انتہاء و فنا کی طرف بڑھتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب تمام معاملات ختم ہو جائیں گے اورتمام زمانے بیت جائیں گے اورقیامت کا وقت قریب آجائے گا تو انہیں قبروں کے گوشوں۔پرندوں کے گھونسلوں ۔درندوں کے بھٹوں اور ہلاکت کی منزلوں سے نکالا جائے گا۔اس کے امر کی طرف تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے اور اپنی وعدہ گاہ کی طرف بڑھتے ہوئے۔گروہ درگروہ۔خاموش صف بستہ اوراستادہ ۔نگاہ قدرت ان پر حاوی اور داعی الٰہی کی آواز ان کے کانوںمیں۔بدن پر بیچارگی کا لباس اورخود سپردگی و ذلت کی کمزوری غالب۔تدبیر یں گم۔امیدں منقطع دل مایوس کن خاموش کے ساتھ بیٹھے ہوئے۔

۱۱۵

وخَشَعَتِ الأَصْوَاتُ مُهَيْنِمَةً وأَلْجَمَ الْعَرَقُ وعَظُمَ الشَّفَقُ وأُرْعِدَتِ الأَسْمَاعُ - لِزَبْرَةِ الدَّاعِي إِلَى فَصْلِ الْخِطَابِ ومُقَايَضَةِ الْجَزَاءِ - ونَكَالِ الْعِقَابِ ونَوَالِ الثَّوَابِ.

تنبيه الخلق

عِبَادٌ مَخْلُوقُونَ اقْتِدَاراً ومَرْبُوبُونَ اقْتِسَاراً ومَقْبُوضُونَ احْتِضَاراً ومُضَمَّنُونَ أَجْدَاثاً وكَائِنُونَ رُفَاتاً ومَبْعُوثُونَ أَفْرَاداً ومَدِينُونَ جَزَاءً ومُمَيَّزُونَ حِسَاباً قَدْ أُمْهِلُوا فِي طَلَبِ الْمَخْرَجِ وهُدُوا سَبِيلَ الْمَنْهَجِ وعُمِّرُوا مَهَلَ الْمُسْتَعْتِبِ وكُشِفَتْ عَنْهُمْ سُدَفُ الرِّيَبِ وخُلُّوا لِمِضْمَارِ

اور آوازیں دب کرخاموش ہو جائیں گی۔پسینہ منہ میں لگام لگا دے گا اور خوف عظیم ہوگا۔کان اس پکارنے والے کی آوازسے لرز اٹھیں گے جو آخری فیصلہ سنائے گا اور اعمال کا معاوضہ دینے اور آخرت کے عقاب یا ثواب کے حصول کے لئے آواز دے گا۔

تم وہ(۱) بندے ہو جو اس کے اقتدار کے اظہار کے لئے پیدا ہوئے ہو اور اس کے غلبہ و تسلط کے ساتھ ان کی تربیت ہوئی ہے۔نزع کے ہنگام ان کی روحیں قبض کرلی جائیں گی اور انہیں قبروں کے اندر چھپا دیا جائے گا۔یہ خاک کے اندر مل جائیں گے اور پھر الگ الگ اٹھائے جائیں گے۔انہیں اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے گا ور حساب کی منزل میں الگ الگ کردیا جائے گا۔انہیں دنیا میں عذاب سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کے لئے مہلت دی جا چکی ہے اور انہیں روشن راستہ کی ہدایت کی جا چکی ہے۔انہیں مرضی خدا کے حصول کا موقع بھی دیا جا چکا ہے اور ان کی نگاہوں سے شک کے پردے بھی اٹھائے جا چکے ہیں۔انہیں میدان عمل میں آزاد بھی چھوڑا جا چکا ہے تاکہ آخرت کی دوڑ کی تیاری کرلیں اور سوچ سمجھ کر

(۱)انسان کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ نہ اس کی تخلیق اتفاقات کا نتیجہ ہے اور نہ اس کی زندگی اختیارات کا مجموعہ۔ وہ ایک خالق قدیر کی قدرت کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے اور ایک حکیم خبیر کے اختیارات کے زیر اثر زندگی گذار رہا ہے۔ایک وقت آئے گا جب فرشتہ موت اس کی روح قبض کرلے گا اوراسے زمین کے اوپر سے زمین کے اندر پہنچا دیا جائے گا اور پھر ایک دن تن تنہا قبر سے نکال کر منز حساب میں لا کھڑا کردیا جائے گا اور اسے اس کے اعمال کا مکمل معاوضہ دے دیا جائے گا اور یہ کام غیرعادلانہ نہیں ہوگا اس لئے کہ اسے دنیا میں عذاب سے بچنے اور رضائے خدا حاصل کرنے کی مہلت دی جا چکی ہے۔اسے توبہ کا راستہ بھی بتایا جا چکا ہے اور عمل کے میدان کی بھی نشاندہی کی جا چکی ہے اور اس کی نگاہوں سے شک کے پردیبھی اٹھائے جا چکے ہیں اور اسے میدان عمل میں دوڑنے کا موقع بھی دیا جا چکا ہے۔اسے اس انسان جیسی مہلت بھی دی جا چکی ہے جو روشنی میں اپنے مدعا کو تلاش کرتا ہے کہ ایک طرف یہ بھی خطرہ رہتا ہے کہ تیز رفتاری میں مقصد سے آگے نہ نکل جائے اور ایک طرف یہ بھی احساس رہتا ہے کہ کہیں چراغ بجھ نہ جائے اور اس طرح اس کی روشنی انتہائی محتاط ہوتی ہے۔

۱۱۶

الْجِيَادِ ورَوِيَّةِ الِارْتِيَادِوأَنَاةِ الْمُقْتَبِسِ الْمُرْتَادِ فِي مُدَّةِ الأَجَلِ ومُضْطَرَبِ الْمَهَلِ

فضل التذكير

فَيَا لَهَا أَمْثَالًا صَائِبَةً ومَوَاعِظَ شَافِيَةً - لَوْ صَادَفَتْ قُلُوباً زَاكِيَةً وأَسْمَاعاً وَاعِيَةً - وآرَاءً عَازِمَةً وأَلْبَاباً حَازِمَةً - فَاتَّقُوا اللَّه تَقِيَّةَ مَنْ سَمِعَ فَخَشَعَ واقْتَرَفَ فَاعْتَرَفَ - ووَجِلَ فَعَمِلَ وحَاذَرَ فَبَادَرَ وأَيْقَنَ فَأَحْسَنَ وعُبِّرَ فَاعْتَبَرَوحُذِّرَ فَحَذِرَ وزُجِرَ فَازْدَجَرَ وأَجَابَ فَأَنَابَ ورَاجَعَ فَتَابَ واقْتَدَى

فَاحْتَذَى

کر منزل کی تلاش کرلیں اور اتنی مہلت پالیں جتنی فوائد کے حاصل کرنے اور آئندہ منزل کا سامان مہیا کرنے کے لئے ضروری ہوتی ہے

ہائے یہ کس قدر صحیح مثالیں(۱) اورشفا بخش نصیحتیں ہیں اگر انہیں پاکیزہ دل ' سننے والے کان ' مضبوط رائیں اور ہوشیار عقلیں نصیب ہو جائیں۔لہٰذا اللہ سے ڈرو اس شخص کی طرح جس نے نصیحتوں کو سنا تو دل میں خشوع پیدا ہوگیا اور گناہ کیا تو فوراً اعتراف کرلیا اورخوف خدا پیدا ہوا تو عمل شروع کردیا۔آخرت(۲) سے ڈرا تو عمل کی طرف سبقت کی۔قیامت کا یقین پیدا کیا تو بہترین اعمال انجام دئیے۔عبرت دلائی گئی تو عبرت حاصل کرلی ۔خوف دلایا گیا تو ڈرگی۔روکا گیا تو رک گیا۔صدائے حق پر لبیک کہی تو اس کی طرف متوجہ ہوگیااور مڑ کرآگیا تو توبہ کرلی۔بزرگوں کی اقتدا کی تو ان کے نقش قدم پر چلا

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مالک کائنات کی بیان کی ہوئی مثالیں صائب و صحیح اور اس کی نصیحتیں صحت مند اورشفا بخش ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ کوئی نسخہ شفا صرف نسخہ کی حد تک کارآمد نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کا استعمال کرنا اور استعمال کے ساتھ پرہیز کرنابھی ضروری ہوتا ہے ۔اور انسانوں میں اسی شرط کی کمی ہے۔نصیحتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے چارعناصر کاہونالازمی ہے۔سننے والے کان ہوں۔طیب و طاہر دل ہوں۔رائے میں استحکام ہو اورفکر میں ہوشیاری ہو۔یہ چاروں عناصر نہیں ہیں تو نصیحتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا ہے اور عالم بشریت کی کمزوری یہی ہے کہ اسمیں انہیں عناصر میں سے کوئی نہ کوئی عنصر کم ہو جاتا ہے اوروہ مواعظ و نصائح کے اثرات سے محروم رہ جاتا ہے۔

(۲)ایک مرد مومن کی زندگی کا حسین ترین اور پاکیزہ ترین نقشہ یہی ہے کہ لیکن یہ الفاظ فصاحت و بلاغت سے لطف اندوز ہونے کے لئے نہیں ہیں۔زندگی پر منطبق کرنے کے لئے اور زندگی کا امتحان کرنے کے لئے ہیں کہ کیا واقعاً ہماری زندگی میں یہ حالات اور کیفیات پائے جاتے ہیں۔اگر ایسا ہے توہماری عاقبت بخیر ہے اور ہمیں نجات کی امید رکھنا چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں اس دار عبرت میں گذشتہ لوگوں کے حالات سے عبرت حاصل کرنی چاہیے اور اب سے اصلاح دنیا وآخرت کے عمل میں لگ جانا چاہیے۔ایسا نہ ہو کہ موت اچانک نازل ہو جائے اور وصیت کرنے کا موقع بھی فراہم نہ ہو سکے۔کتنا بلیغ فقرہ ہے مولائے کائنات کا کہ گذشتہ لوگ ہر قید و بند اور ہر پابندی حیات سے آزاد ہوگئے لیکن موت کے چنگل سے آزاد نہ ہو سکے اور اس نے بالآخر انہیں گرفتار کرلیا اوران کی وعدہ گاہ تک پہنچا دیا۔

۱۱۷

وأُرِيَ فَرَأَى فَأَسْرَعَ طَالِباً ونَجَا هَارِباً - فَأَفَادَ ذَخِيرَةً وأَطَابَ سَرِيرَةً وعَمَّرَ مَعَاداً - واسْتَظْهَرَ زَاداً لِيَوْمِ رَحِيلِه ووَجْه سَبِيلِه وحَالِ حَاجَتِه - ومَوْطِنِ فَاقَتِه وقَدَّمَ أَمَامَه لِدَارِ مُقَامِه - فَاتَّقُوا اللَّه عِبَادَ اللَّه جِهَةَ مَا خَلَقَكُمْ لَه - واحْذَرُوا مِنْه كُنْه مَا حَذَّرَكُمْ مِنْ نَفْسِه - واسْتَحِقُّوا مِنْه مَا أَعَدَّ لَكُمْ بِالتَّنَجُّزِ لِصِدْقِ مِيعَادِه - والْحَذَرِ مِنْ هَوْلِ مَعَادِه.

التذكير بضروب النعم

ومنها: جَعَلَ لَكُمْ أَسْمَاعاً لِتَعِيَ مَا عَنَاهَا وأَبْصَاراً لِتَجْلُوَ عَنْ عَشَاهَا وأَشْلَاءً جَامِعَةً لأَعْضَائِهَا - مُلَائِمَةً لأَحْنَائِهَا فِي تَرْكِيبِ صُوَرِهَا ومُدَدِ عُمُرِهَا بِأَبْدَانٍ قَائِمَةٍ بِأَرْفَاقِهَا وقُلُوبٍ رَائِدَةٍ لأَرْزَاقِهَا - فِي مُجَلِّلَاتِ نِعَمِه ومُوجِبَاتِ مِنَنِه وحَوَاجِزِ عَافِيَتِه وقَدَّرَ لَكُمْ أَعْمَاراً

منظر حق دکھایا گیا تو دیکھ لیا۔طلب حق میں تیز رفتاری سے بڑھا اور باطل سے فرار کرکے نجات حاصل کرلی۔اپنے لئے ذخیرہ آخرت جمع کرلیا اور اپنے باطن کو پاک کرلیا۔آخرت کے گھر کو آباد کیا اور زاد راہ کو جمع کرلیا اس دن کے لئے جس دن یہاں سے کوچ کرنا ہے اور آخرت کا راستہ اختیار کرنا ہے اور اعمال کا محتاج ہونا ہے اورمحل فقر کی طرف جانا ہے اور ہمیشہ کے گھر کے لئے سامان آگے آگے بھیج دیا۔ اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اس جہت کی غرض سے جس کے لئے تم کو پیدا کیا گیا ہے اور اس کاخوف پیدا کرو اس طرح جس طرح اس نے تمہیں اپنے عظمت کا خوف دلایا ہے اور اس اجر کا استحقاق پیدا کرو جس کو اس نے تمہارے لئے مہیا کیا ہے اس کے سچے وعدہ کے پورا کرنے اور قیامت کے ہول سے بچنے کے مطالبہ کے ساتھ۔

اس نے تمہیں کان عنایت کئے ہیں تاکہ ضروری باتوں کو سنیں اور آنکھیں دی ہیں تاکہ بے بصری میں روشنی عطا کریں اور جسم کے وہ حصے دئیے جو مختلف اعضاء کو سمیٹنے والے ہیں اور ان کے پیچ و خم کے لئے مناسب ہیں۔صورتوں کی ترکیب اور عمروں کی مدت کے اعتبارسے ایسے بدنوں کے ساتھ جو اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے والے ہیں اور ایسے دلوں کے ساتھ جو اپنے رزق کی تلاش میں رہتے ہیں اس کی عظیم ترین نعمتوں ' احسان مند بنانے والی بخششوں اور سلامتی کے حصاروں کے درمیان۔اس نے تمہارے لئے وہ عمریں قرار دی ہیں جن

۱۱۸

سَتَرَهَا عَنْكُمْ - وخَلَّفَ لَكُمْ عِبَراً مِنْ آثَارِ الْمَاضِينَ قَبْلَكُمْ - مِنْ مُسْتَمْتَعِ خَلَاقِهِمْ ومُسْتَفْسَحِ خَنَاقِهِمْ أَرْهَقَتْهُمُ الْمَنَايَا دُونَ الآمَالِ وشَذَّبَهُمْ عَنْهَا تَخَرُّمُ الآجَالِ - لَمْ يَمْهَدُوا فِي سَلَامَةِ الأَبْدَانِ - ولَمْ يَعْتَبِرُوا فِي أُنُفِ الأَوَانِ فَهَلْ يَنْتَظِرُ أَهْلُ بَضَاضَةِ الشَّبَابِ إِلَّا حَوَانِيَ الْهَرَمِ - وأَهْلُ غَضَارَةِ الصِّحَّةِ إِلَّا نَوَازِلَ السَّقَمِ - وأَهْلُ مُدَّةِ الْبَقَاءِ إِلَّا آوِنَةَ الْفَنَاءِ مَعَ قُرْبِ الزِّيَالِ وأُزُوفِ الِانْتِقَالِ وعَلَزِ الْقَلَقِ وأَلَمِ الْمَضَضِ وغُصَصِ الْجَرَضِ وتَلَفُّتِ الِاسْتِغَاثَةِ بِنُصْرَةِ الْحَفَدَةِ والأَقْرِبَاءِ - والأَعِزَّةِ والْقُرَنَاءِ فَهَلْ دَفَعَتِ الأَقَارِبُ

کو تم سے مخفی رکھا ہے اور تمہارے لئے ماضی میں گر جانے والوں کے آثار میں عبرتیں فراہم کردی ہیں۔وہ لوگ جو اپنے خط و نصیب سے لطف و اندوز ہو رہوے تھے اور ہر بندھن سے آزاد تھے لیکن موت نے انہیں امیدوں کی تکمیل سے پہلے ہی گرفتار کرلیا اور اجل کی ہلاکت سامانیوں نے انہیں حصول مقصد سے الگ کردیا۔انہوں نے بدن کی سلامتی کے وقت کوئی تیاری نہیں کی تھی اور ابتدائی اوقات میں کوئی عبرت حاصل نہیں کی تھی۔تو کیا جوانی کی ترو تازہ عمریں رکھنے والے بڑھاپے میں کمرجھک جانے کا انتظار کر رہے ہیں اور کیا صحت کی تازگی رکھنے والے مصیبتوں اور بیماریوں کے حوادث کا انتظار کر رہے ہیں اور کیا بقا کی مدت رکھنے والے فنا کے وقت کے منتظر ہیں جب کہ وقت زوال قریب ہوگا اورانتقال کی ساعت نزدیک تر ہوگی اور بستر مرگ پر قلق کی بے چینیاں(۱) اورسوزو تپش کا رنج و الم اور لعاب دہن کے پھندے ہوں گے اور وہ ہنگام ہوگا جب انسان اقربا اولاد اعزا احباب سے مدد طلب کرنے کے لئے ادھر ادھر دیکھ رہا ہوگا۔تو کیا آج تک کبھی اقربا نے موت کو دفع کردیا

(۱)ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان جب دنیا کے تمام مشاغل تمام کرکے بستر پرآئے تو اس خطبہ کی تلاوت کرے اور اس کے مضامین پر غور کرے۔پھر اگر ممکن ہوتو کمرہ کی روشنی گل کرکے دروازہ بند کرکے قبر کا تصور پیدا کرے اور یہ سوچے کہ اگر اس وقت کسی طرف سے سانپ، بچھوحملہ آور ہو جائیں اور کمرہ کی آواز باہرنہ جا سکے اور دروازہ کھول کر بھاگنے کا امکان بھی نہ ہو تو انسان کیا کرے گا اور اس مصیبت سے کس طرح نجات حاصل کرے گا۔شائد یہی تصوراسے قبر کے بارے میں سوچنے اور اس کے ہولناک مناظر سے بچنے کے راستے نکالنے پرآمادہ کر سکے ورنہ دنیا کی رنگینیاں ایک لمحے کے لئے بھی آخرت کے بارے میں سوچنے کا موقعنہیں دیتی ہیں اور کسی نہ کسی وہم میں مبتلا کرکے نجات کا یقین دلا دیتی ہیں اور پھر انسان اعمال سے یکسر غافل ہو جاتا ہے۔

۱۱۹

أَوْ نَفَعَتِ النَّوَاحِبُ وقَدْ غُودِرَ فِي مَحَلَّةِ الأَمْوَاتِ رَهِيناً وفِي ضِيقِ الْمَضْجَعِ وَحِيداً قَدْ هَتَكَتِ الْهَوَامُّ جِلْدَتَه - وأَبْلَتِ النَّوَاهِكُ جِدَّتَه وعَفَتِ الْعَوَاصِفُ آثَارَه - ومَحَا الْحَدَثَانُ مَعَالِمَه وصَارَتِ الأَجْسَادُ شَحِبَةً بَعْدَ بَضَّتِهَا والْعِظَامُ نَخِرَةً بَعْدَ قُوَّتِهَا - والأَرْوَاحُ مُرْتَهَنَةً بِثِقَلِ أَعْبَائِهَا مُوقِنَةً بِغَيْبِ أَنْبَائِهَا لَا تُسْتَزَادُ مِنْ صَالِحِ عَمَلِهَا - ولَا تُسْتَعْتَبُ مِنْ سَيِّئِ زَلَلِهَا أَولَسْتُمْ أَبْنَاءَ الْقَوْمِ والآبَاءَ وإِخْوَانَهُمْ والأَقْرِبَاءَ - تَحْتَذُونَ أَمْثِلَتَهُمْ وتَرْكَبُونَ قِدَّتَهُمْ وتَطَئُونَ جَادَّتَهُمْ فَالْقُلُوبُ قَاسِيَةٌ عَنْ حَظِّهَا لَاهِيَةٌ عَنْ رُشْدِهَا - سَالِكَةٌ فِي غَيْرِ مِضْمَارِهَا كَأَنَّ الْمَعْنِيَّ سِوَاهَا وكَأَنَّ الرُّشْدَ فِي إِحْرَازِ دُنْيَاهَا.

التحذير من هول الصراط

واعْلَمُوا أَنَّ مَجَازَكُمْ عَلَى الصِّرَاطِ ومَزَالِقِ دَحْضِه وأَهَاوِيلِ زَلَلِه وتَارَاتِ أَهْوَالِه فَاتَّقُوا اللَّه عِبَادَ اللَّه -

ہے یا فریاد کسی کے کام آئی ہے ؟ ہرگز نہیں۔مرنے والے کو تو قبرستان میں گرفتار کردیا گیا ہے اور تنگی قبر میں تنہا چھوڑ دیا گیا ہے اس عالم میں کہ کیڑے مکوڑے اس کی جلد کو پارہ پارہ کر رہے ہیں اور پامالیوں نے اس کے جسم کی تازگی کو بوسیدہ کردیا ہے۔آندھیوں نے اس کے آثار کو مٹا دیا ہے اور روز گار کے حادثات نے اس کے نشانات کو محو کردیا ہے۔جسم تازگی کے بعدہلاک ہوگئے ہیں اور ہڈیاں طاقت کے بعد بوسیدہ ہوگئی ہیں۔روحیں اپنے بوجھ کی گرانی میں گرفتار ہیں اور اب غیب کی خبروں کا یقین آگیا ہے۔اب نہ نیک اعمال میں کوئی اضافہ ہو سکتا ہے۔اور ہ بد ترین لغزشوں کی معافی طلب کی جا سکتی ہے۔تو کیا تم لوگ انہیں آباء اجداد کی اولاد نہیں ہو اور کیا انہیں کے بھائی بندے نہیں ہو کہ پھر انہیں کے نقش قدم پر چلے جا رہے ہو اور انہیں کے طریقہ کو پانئاے ہوئے ہو اور انہیں کے راستہ پر گامزن ہو؟ ۔حقیقت یہ ہے کہ دل اپنا حصہ حاصل کرنے میں سخت ہوگئے ہیں اور راہ ہدایت سے غافل ہوگئے ہیں' غلط میدانوں میں قدم جمائے ہوئے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا مخاطب ان کے علاوہ کوئی اور ہے اور شائد ساری عقلمندی دنیا ہی کے جمع کر لینے میں ہے۔یاد رکھو تمہاری گزر گاہ صراط اور اس کی ہلاکت خیز لغزشیں ہیں۔تمہیں ان لغزشوں کے ہولناک مراحل اور طرح طرح کے خطر ناک منازل سے گزرنا ہے۔اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو۔اس طرح جس طرح وہ

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367