فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ10%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206560 / ڈاؤنلوڈ: 6001
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

ابوبکر کی نماز کے بارے میں شیعوں کی روایت

جہاں تک شیعوں کا خیال ہے تو وہ اس روایت سے انکار کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ نبی ؐ نے ابوبکر کو ہرگز حکم نہیں دیا تھا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں بلکہ شیعوں کا خیال ہے اور ان کی روایت کے مطابق یہ حرکت عائشہ کی تھی،عائشہ نے ابوبکر کو سرکار دو عالم ؐ کی حالت بتاتے ہوئے پیغام بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھادیں تا کہ ان کا مرتبہ بڑھے،ان کی خلافت کے لئے زمین ہموار ہوا اور خلافت کو علی ؑ سے آسانی سے غصب کیا جاسکے اور تمام اہل بیت ؑ کو عمومی طور پر محروم کیا جاسکے.

آخر وقت میں حضور ؐ نے حفصہ کو ڈ انٹا تھا یہ بات سب کو معلوم ہے حضرت ؐ نے فرمایا تھا کہ تم سب کے سب یوسف والیاں ہو،حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ جملہ بھی حفصہ کی کمزوری کی نشان دہی کرتا تھا،اصل میں دونوں خواتین سرکار دو عالم ؐ کے وقت آخر میں اپنے اپنے باپ کو آگے بڑھانے کے چکر میں تھیں اور حضور ؐ اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ گئے تھے ۔

حضور اکرم ؐ یوں بھی ابوبکر و عمر سے خاص طور سے رنجیدہ خاطر تھے اس لئے آپ نے ان دونوں کو اسامہ کے لشکر میں شامل کیا تھا اور انھیں اس وقت اسامہ کے ساتھ سفر میں ہونا چاہئے تھا،حضور ؐ نے تاکید فرمائی تھی کہ اسامہ کا لشکر جلد از جلد مدینہ چھوڑ دے،جیسا کہ سابقہ سوال کے دوسرے سوال کے جواب میں عرض کیا جاچکا ہے ۔

جب حضور اکرم ﷺ نے دیکھا کہ عائشہ کے حکم پر فوراً عمل ہوا اور ابوبکر نمازیوں کے امام بن گئے تو آپ اسی شدت مرض میں بےچین ہوکے باہر آئے تا کہ ابوبکر کو امامت سے روک دیں(مقصد تھا شبہ کو دور کرنا اور دشمنوں کا منہ بند کرنا)آپ اس حال میں نکلے کہ ایک ہاتھ علی ؑ کے کاندھے پر اور ایک ہاتھ فضل بن عباس کے کاندھے پر تھا اور کسی طرح مسجد میں پہنچ گئے،ابوبکر کو محراب سے ہٹایا اور خود آپ نے بیٹھ کے لوگوں کو نماز پڑھائی،((چرا کاری کند عاقل کہ باز آید پشیمانی))لیکن افسوس کہ سرکار دو عالم ؐ کا عمل شبہ کو دفع نہیں کرسکا وجہ یہ ہے کہ حکومت پر انھیں لوگوں نے

۳۲۱

قبضہ جمالیا اور پھر اپنے اس اقدام کو صحیح ثابت کرنے کے لئے دلیلیں تالش کرنے لگے ۔

ظاہر ہے کہ وہی لوگ اسلام کی تقدیر کے مالک بن بیٹھے تھے،اب مذکورہ حادثہ کو جس طرح چاہا تو ڑمروڑ کے اپنے موقف کے مطابق کہا اور اسی کو اپنی حکومت پر نص کے طور پر استعمال کیا،ایسا کرنے سے انھیں کون روک سکتا تھا؟بہرحال یہی وہ اسباب تھے،جس کی وجہ سے سرکار دو عالم ؐ کا یہ عمل شبہہ کو دفع نہیں کرسکا اور مخالفین کو بات کرنے کی گنجائیش مل گئی،صحابہ کو پختہ یقین تھا کہ امیرالمومنین ہی وصی پیغمبر ہیں ۔

حادثہ صلوٰۃ کے سلسلے میں امیرالمومنینؑ کا عقیدہ سنیوں کی نظر میں

ابن ابی الحدید معتزلی نے عائشہ کے بارے میں امیرالمومنین کا یہ قول نقل کیا ہے((لیکن فلانی تو اس کو نسوانی نقطہ نظر نے گرفتار کرلیا(۱) اور وہ اس حسد کا شکار ہوگئی جو اس کے دل میں پانی کی کھولتی ہوئی پتیلی کی طرح جوش مار رہا تھا))اس کے بعد ابن ابی الحدید نے اپنے شیخ ابویعقوب یوسف بن اسماعیل لمعانی کی ایک طویل گفتگو نقل کی ہے،جس میں انھوں نے یہ بتایا ہے کہ دو پارٹیاں تھیں،ایک طرف عائشہ اور ابوبکر تھے اور دوسرے طرف پارٹی میں جناب فاطمہ ؐ اور حضرت علی ؑ تھ اور ان دونوں پارٹیوں کے درمیان بغض و حسد اور عداوت و کینہ پروری کے کچھ اسباب تھے،ان دونوں پارٹیوں میں اختلاف کی وجہ ان کے مذہب کے مطابق یہ تھی کہ چونکہ سرکار دو عالم ؐ کے محبوب اور قریبی یہ چاروں تھے اور خدا کے نزدیک بھی بلند مرتبہ اور مقرب بارگاہ تھے اس لئے اگر ان کے دل میں نام و نمود کی خواہش اور جاہ و منصب کی طلب تھی تو تعجب نہیں ہونا چاہئے،یہ حضرات جاہ و منصب کی طلب میں ایک دوسرے و نیچا دکھانے کے لئے تہمتیں لگاتے تھے،ایک دوسرے کے خلاف بدگمان تھے اور دونوں پارٹیوں کے دل میں اپنے مخالف کے لئے بغض و حسد کے جذبات کا پایا جانا فطری بات تھی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) شرح نہج البلاغہ ج: ۹ ص: ۱۸۹

۳۲۲

بہرحال یہ سب باتیں تو سوال دوم کے جواب میں بھی عرض کی جاچکی ہیں فی الحال میں عبارت کے ان حصول کو پیش کررہا ہوں جو ہمارے موضوع سے متعلق ہے،ہمارا موضوع ابوبکر کی نماز ہے ۔

ابن ابی الحدید اپنے استاد کی بات کا ذکر کررہے ہیں کہ انھوں نے دونون پارٹیوں میں بغض اور حسد کا بیان کرنے کے بعد(حالانکہ یہ سب بھی ان کے استاد کے نظریہ اور مسلمات کی اپج ہے)(وہ لکھتے ہیں کہ مذکورہ اسباب کی بنا پر فاطمہ ؐ و علی ؑ اور عائشہ و ابوبکر کی پارٹیاں الگ الگ تھیں اور دونوں میں بغض اور عناد حیات نبی ؐ میں بھی پایا جاتا تھا اور یہ اختلاف اپنی جگہ پر برقرار رہا،یہاں تک کہ نبی ؐ کو وہ مرض ہوا جس میں آپ کی وفات ہوئی تھی،مرض نے طول پکڑا،علی ؑ کو اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ نبی ؐ کے بعد لوگ میری ہی بیعت کریں گے اور کوئی آدمی کم از کم خلافت کے معاملہ میں مجھ سے نہیں لڑئےگا،علی ؑ کو اس حد تک یقین تھا کہ جب ان کے چچا نے وفات پیغمبر ؐ کے بعد علی ؑ سے کہا تم ہاتھ کھولو میں تمھاری بیعت کرتا ہوں تا کہ لوگ دیکھیں کہ عم پیغمبر ؐ نے ابن عم پیغمبر ؐ کی بیعت کرلی پھر دو آدمی بھی آپ کے خلافت نہیں جائیں گے تو علی ؑ نے کہا:چچا کیا میرے علاوہ بھی کسی کے دل میں خلافت کی خواہش پیدا ہوسکتی ہے؟عباس ابن مطلب نے کہا:یہ تو بعد میں معلوم ہوگا مولائے کائنات ؑ نے فرمایا چچا!میں نہیں چاہتا کہ بیعت جیسا اہم کام پردے میں ہو،میں چاہتا ہوں کہ یہ کام بالاعلان ہو!یہ سن کر عمّ پیغمبر ؐ خاموش ہوگئے ۔

جب حضور اکرم ﷺ کے اوپر مرض کی شدت ہوئی تو آپ نے اسامہ کا لشکر بھیجا اور اس لشکر میں ابوبکر و عمر کو شامل کردیا،ان کے علاوہ بڑے بڑے مہاجرین و انصار بھی شامل تھے،اس وجہ سے علی ؑ کو پختہ یقین ہوگیا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کچھ ہوگیا تو انھیں خلافت بہرحال حاصل ہوگی،اس لئے کہ مدینہ مخالفین سے خالی ہوچکا تھا علی ؑ یہ سمجھ گئے کہ زمین بالکل ہموار ہے،ان کی بیعت کا کام پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا اور اگر مخالفین جیش اسامہ سے اپس آکر مخالفت بھی کریں گے تو فسخ بیعت نہیں کرسکیں گے ۔

پھر اچانک پانسہ پلٹا،عائشہ نے اپنا آدمی بھیج کے ابوبکر کو جیش اسامہ سے واپس بلالیا،عائشہ نے

۳۲۳

پیغام بھیجا کہ حضور ؐ کی موت کا وقت قریب ہے،اسی وقت ابوبکر کے نماز پڑھانے کا واقعہ بھی ہوا،علی ؑ فرماتے ہیں،عائشہ نے اپنے باپ کے غلام بلال سے کہا کہ جا کے ابا سے کہہ دو نماز پڑھادیں،حالانکہ پیغمبر ؐ نے یہ نہیں کہا تھا(جیسا کہ روایت کی جاتی ہے)بلکہ یہ فرمایا تھا کہ حاضرین میں سے کوئی نماز پڑھادے،کسی معین شخص کے بارے میں نہین فرمایا تھا،صبح کی نماز کا وقت تھا کہ حضور ؐ خود باہر نکلے،آپ کا آخری وقت تھا،ایک ہاتھ علی ؑ کے کاندھے پر تھا،دوسرا ہاتھ فضل بن عباس کے کاندھے پر،یہاں تک کہ آپ محراب میں داخل ہوئے،جیسا کہ خبروں میں ہے پھر آپ نماز پڑھ کے اپنے حجرے میں تشریف لے گئے اور سورج جب بلند ہوا تو آپ نے جان،جان آفرین کے سپرد کی،لوگوں نے ابوبکر کی نماز میں امامت کو ان کی خلافت کے لئے دلیل قرار دیا اور کہنے لگے کہ تم میں سے س کا نفس اتنا پاک ہے کہ جسے نبی ؐ خود نماز میں دو قدم آگے بڑھادیں،ان کا یہ کہنا ہے کہ نبی ؐ ،ابوبکر کو امامت سے ہٹانے کے لئے نہیں نکلے تھے بلکہ نبی ؐ نماز کی پابندی دکھانا چاہتے تھے کہ جتنا ممکن ہو انسان خود کو نبی ؐ ہی کی طرح پابند رکھے ۔ بہرحال اس بنیاد پر ابوبکر کی بیعت ہوگئی،حالانکہ مولائے کائنات ؑ کا کہنا ہے کہ یہ سازش عائشہ کی تھی،علی ؑ اس بات کا ذکر اپنے اصحاب سے اکثر کیا کرتے تھے،علی ؑ کا کہنا تھا کہ حضور ؐ نے اپنی عورتوں کو صواحب یوسف سے مشابہ اس لئے بنایا تھا کہ آپ ان کی اس سازش کی نشان دہی کرنا چاہتے تھے اور آپ ابوبکر کی امامت سے غضبناک تھے،اس لئے کہ عائشہ اور حفصہ دونوں نے اپنے اپنے باپ کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رکھی تھی اور علی ؑ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خلافت ابوبکر سے انکار جو محسوس کیا اس کی وجہ تھی آپ کا اپنے حجرے سے نکلنا اور محراب سے ابوبکر کو ہٹانا،بہرحال اس کا کوئی اثر نہیں ہوا خلافت علی ؑ کو نہیں ملی،اس کی وجہ عائشہ کی سازش کامیاب ہوئی،علی ؑ کی خلافت سے محرومی،علی ؑ کے لئے سب سے عظیم مصیبت بلکہ حادثہ فاجعہ کا درجہ رکھتی تھی اور اس مصیبت کا سب علی ؑ کی نظر میں سوائے عائشہ کے کوئی نہیں تھا،اس واقعہ کا لگاؤ صرف عائشہ سےھا اس لئے علی ؑ اپنی تنہایوں میں اور اپنے خاص لوگوں کے درمیان عائشہ پر بدعا کرتے رہتے تھے اور اللہ سے عائشہ کے اس ظلم کی شکایت کرتے رہتے تھے ۔

۳۲۴

ابن ابی الحدید کہتے ہیں میں نے اپنے استاد سے عرض کیا کہ کیا آپ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ابوبکر کو عائشہ نے نماز کے لئے معین کیا تھا؟پیغمبر ؐ نے نہیں؟انھوں نے کہا:میں تو نہیں کتا لیکن علی ؑ کہتے ہیں اور میری تکلیف ان کی تکلیف سے الگ ہے،علی ؑ وہاں موجود تھے،وہاں موجود نہیں تھا،میرے پاس تو دلیل کے طور پر صرف وہ خبریں ہیں جو مجھ تک پہنچی ہیں اور ان خبروں میں یہ ہے کہ پیغمبر ؐ نے ابوبکر کو امامت کے لئے معین کیا تھا لیکن علی ؑ کا نظریہ خبروں کی بنیاد پر نہیں اپنے ذاتی علم کی بنیاد پر ہے یا اس بنیاد پر کہ حالات کا جائزہ لینے علی ؑ کو ظن غالب حاصل ہوا تھا،تو یہ میرے استاد شیخ ابویعقوب کے کلام کا خلاصہ،یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ وہ شیعہ ہرگز نہیں تھے بلکہ بہت بڑے معتزلی تھے،البتہ نظریہ تفصیل میں وہ بغدادی تھے ۔(۱)

میں نے ابن ابی الحدید کا یہ لمبا چوڑا بیان یہاں نقل کردینا اس لئے ضروری سمجھاتا کہ آپ پر یہ واضح ہوجائے کہ((خود حضور ؐ نے ابوبکر کی امامت کے لئے تقدیم کی تھی))یہ روایت متفق علیہ بہرحال نہیں ہے،شیعوں کو تو چھوڑ دیجئے خود اہل سنت کے علما اس بات کے قائل ہیں کہ اس نظریہ سے امیرالمومنین ؑ کو انکار تھا اور آپ عائشہ کی اس سازش سے بہت ناراض تھے،اہل سنت کے علما یہ کہتے ہیں کہ مولائے کائنات ؑ کے خیال کے مطابق عائشہ نے سرکار دو عالم ؐ کی بیماری اور کمزوری سے فائدہ اٹھایا اور ابوبکر کی امامت کے لئے نبی ؐ کی طرف سے جھوٹ کہلایا کہ ابوبکر ہی نماز پڑھادیں مقصد تھا ابوبکر کی خلاف کے لئے زمین ہموار کرنا اور نص کے خلاف جو حرکتیں انجام دی گئیں یہ عمل بھی من جملہ انھیں میں سے تھا،اس کی طرف میں ان سوالوں میں سے چوتھے سوال کے جواب میں اشارہ کرچکا ہوں،جب میں نے عرض کیا تھا کہ قریش نے انصار کو خلافت سے دور رکھنا چاہا اور کامیاب ہوئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) شرح نہج البلاغہ ج: ۹ ص: ۱۹۶ ۔ ۱۹۹

۳۲۵

جب سرکار دو عالم ؐ نماز کے لئے نکلے تو آپ نے کیا کہا؟یہ بھی اختلافی مسئلہ ہے

حضور ؐ نے جب سنا کہ ابوبکر نماز پڑھا رہے ہیں تو آپ سے برداشت نہیں ہوا اور اس شدت سے مرض میں اپنوں کا سہارا لے کے باہر نکل پڑے،لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟اس میں اختلاف ہے ۔

۱ ۔ اہل سنت کی کتابوں میں نماز کی جو روایتیں ملتی ہیں ان میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ابوبکر نماز پڑھا رہے تھے،حضور باہر نکل پڑے،پھر اس کے بعد کیا ہوا؟اس میں شدید اختلاف ہے کیا نبی ؐ نے باہر نکلتے ہی امامت کی باگ ڈ ور خود سنبھال لی اور ابوبکر کو ہٹادیا،پھر آپ نے بیٹھ کے نماز پڑھائی جن میں ابوبکر بھی شامل تھے یا ابوبکر باقی رکھی اور خود آپ نےلوگوں کے ساتھ مل کے ابوبکر کی اقتدا میں نماز پڑھی؟صحیح صورت حال کیا تھی؟اس میں اختلاف ہے،ابن حجر(۱) اور علامہ شوکافی(۲) کہتے ہیں کہ پہلی صورت حال روایتوں کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے ۔

تو اگر پہلی صورت حال زیادہ صحیح ہے یعنی نبی ؐ نے ابوبکر کو ہٹا کے خود امامت کی تو یہ شیعوں کے دعویٰ سے زیادہ مطابق رکھتا ہے اس لئے کہ اگر حضور ؐ نے ابوبکر کو امامت صلوٰۃ(نماز)کے لئے اس لئے بڑھایا تا کہ اس سے خلافت ابوبکر کی طرف اشارہ مراد لیا جائے تو حضور ؐ کا نکلنا اور خود نماز کی امامت کرنا،یہ سب کچھ اس اشارہ کی نفی کرتا ہے یا کم سے کم سرکار ؐ کے اس عمل سے یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ آپ امامت کی غرض سے اس لئے بروقت نکل پڑے تا کہ لوگ ابوبکر کی امامت کو ان کی خلافت کے لئے دلیل نہ بنالیں،لہذا حضور ؐ کے نکلنے کا مقصد شبہہ کا ازالہ تھا،خلافت کی طرف اشارہ تو بہرحال نہیں تھا ۔

یہ الگ بات ہے کہ وقت نے اجازت نہیں دی اور ماحول سازگار نہیں تھا جس کی وجہ سے حضور کو اتنا موقعہ نہیں مل سکا کہ آپ امور کا کما حقّہ تدارک کرسکتے اور شبہہ کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتے،اگر چہ شبہہ کرنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) فتح الباری ج: ۲ ص: ۱۵۵ (۲) نیل الاوطا ج: ۳ ص: ۱۸۴

۳۲۶

روایت کی کچھ کمزوریاں،جو اس روایت کے لئے مصیبت بنی ہوئی ہیں

۲ ۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ روایت اتنی باحال پریشان ہے کہ جس نے بھی اس کہانی کو لکھا ہے اپنے ڈ ھنگ سے لکھا ہے،روایت کے اختلاف ہر عقلمند کے لئے قابل غور ہیں،اس اضطراب کا کچھ حصہ تو پہلے گذرچکا ہے،کچھ علمائے شیعہ نے بیان کیا ہے،کچھ علمائے اہل سنت نے بھی اس طرف توجہ دی ہے تفصیل میں جانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے،اس لئے کہ اس حدیث کے کئی شعبے ہیں اور ہر شعبہ،شبہات و اختلافات کی زد میں ہے ۔

یہ الگ بات ہے کہ بہت سے لوگ جن باتوں سے غافل رہے ہماری نظر وہاں تک پہنچ گئی،ابوبکر عبداللہ بن ابوملیکہ کی حدیث ملاحظہ ہو لکھتے ہیں،جب پیر کا دن آیا تو حضور سرور کائنات ؐ صبح کے وقت سر اقدس پر عصابہ(پٹی)باندھے ہوئے نکلے،ابوبکر لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے تو پیغمبر ؐ مسجد میں داخل ہوئے لوگوں نے آپ ؐ کو راستہ دینا شروع کیا اور ابوبکر کو احساس ہوگیا کہ پیغمبر ؐ مسجد میں داخل ہوچکے ہیں اس لئے کہ لوگ جس انداز سے راستہ دے رہے تھے وہ پیغمبر ؐ کے لئے ہی مخصوص تھا،بہرحال ابوبکر نے محراب سے ہٹ جانا چاہا،نبی نے ابوبکر کی پشت پر ہاتھ رکھا اور فرمایا لوگوں کو نماز پڑھاؤ،پھر آپ ابوبکر کے برابر میں داہنی طرف بیٹھ گئے اور نماز پڑھی ۔

جب آپ ؐ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کے سامنے آئے اور بآواز بلند خطبہ دینے لگے آواز اتنی بلند تھی کہ مسجد کے دروازے تک سنائی دے رہی تھی آپ نے فرمایا((لوگو!آگ بھڑک اٹھی ہے،فتنے اندھری رات کے ٹکڑوں کی طرح بڑھ رہے ہیں،خدا کی قسم میرے ذمہ تمہارا کچھ بھی نہیں ہے،میں نے حلال نہیں کیا مگر اسے جسے قرآن نے حلال کیا اور میں نے حرام نہیں کیا مگر اسے جسے تمہارے لئے قرآن نے حرام کیا))پس جب آپ فارغ ہوئے ۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) تاریخ طبری ج: ۲ ص: ۲۳۱ ،گیارہویں سال کے احداث کے بارے میں،السیرۃ النبویۃ ج: ۶ ص: ۷۱ ،البدءُ و التاریخ ج: ۵ ص: ۶۱

۳۲۷

اب ہم اس موضوع پر تو بحث کرنا نہیں چاہتے کہ ابوبکر نے نبی ؐ کو نماز پڑھائی اس لئے کہ یہ بات اہل سنت کے نزدیک ممتنع نہیں ہے ہم تو اس جگہ نبی ؐ کے خطبہ کی طرف آپ کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں،آپ محسوس کر رہے ہیں کہ نبی ؐ نے نماز کے بعد جو خطبہ دیا اس کے لہجہ میں کتنی سختی ہے؟آپ امت کو بتا رہے ہیں کہ فتنے اور انقلاب کے لئے ماحول تیار ہوچکا ہے،آگ لہک چکی ہے ایسا لگتا ہے کہ ابھی ابھی اجو واقعہ ہوا ہے اس سے نبی ؐ کو بہت رنج پہنچا ہے،اس لئے کہ آپ نے حلال قرآن کو حلال اور حرام قرآن کو حرام کیا تھا ۔

اگر حضور ؐ نے ابوبکر کو امامت کا حکم اس نیت سے دیا تھا کہ لوگ اس سے ابوبکر کی خلافت کی طرف اشارہ سمجھیں تو پھر فتنہ اور انقلاب کی کیا بات تھی،کام تو آپ کے حکم کے مطابق ہی ہوا تھا اور چونکہ آپ کا ارادہ ہے تو ابوبکر کی امامت قرآن کے موافق ہوئی تھی،اس سے امت فتنوں سے محفوظ رہتی اس لئے کہ کام قرآن کے مطابق ہو رہا تھا،پھر آپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ آگ بھڑک گئی ہے،آپ کو تہدید و تشدید بھی نہیں کرنی چاہئے تھی،البتہ شیعوں کے نظریوں کے مطابق آپ ؐ کی تہدید اور فتنوں سے تخویف و غیرہ بالکل صحیح تھی،سرکار دو عالم ؐ بالکل صحیح فرما رہے تھے ۔

(سازش کی آگ عائشہ کی طرف سے بھڑکی اور ابوبکر کی امامت کا فتنہ بلند ہوا اور پھر رات کی سیاہی کی طرح تاریکی کے تین ٹکڑے پے در پے آگے بڑھے ۔ )

اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ حضور ؐ نے اپنے آخری خطبہ میں فتنہ سے مراد اہل ردہ کو لیا تھا تو یہ بات ماننے کے قابل نہیں ہے،اس لئے کہ ارتداد تو نبی ؐ کے بعد ہوا تھا اس کی وجہ سےنبی ؐ کا رنجیدہ ہونا ممکن ہی نہیں تھا پھر اسے فتنہ کہہ کے ماضی کے صیغے سے تعبیر کرنا اور اپنے خطبے میں شامل کرنا مناسب نہٰیں تھا،اس لئے حضور ؐ اپنے خطبے میں حلال و حرام کے لئے قرآن کے حوالہ سے بات کررہے ہیں،اگر اہل ردہ مراد تھے تو اہل ردہ انھیں کہا ہی جاتا ہے جو قرآن سے پھر گئے ہیں اور قرآن کو نہیں مانتے،پھر حضور اکرم ؐ ان کے لئے مقام استدلال میں قرآن کو کیوں لاتے ۔

میں نے یہ باتیں اس لئے عرض کردیں،تا کہ کوئی ہمیں ان باتوں سے غافل نہ سمجھے،اگر چہ آپ

۳۲۸

کے سوال کا جواب ان باتوں پر موقوف نہٰیں ہے،سب سے اہم بات جس کو ہم ثابت کرنا چاہتے تھے وہ یہ کہ اس بات پر اتفاق نہیں ہے کہ نبی ؐ نے ابوبکر کو امامت کا حکم دیا تھا اور ہم یہ بات ثابت کرچکے ہیں،میں نے پہلے سوال کے جواب میں بھی عرض کیا تھا کہ لوگوں نے سنت پیغمبر ؐ کو توڑ مروڑ کے اہلبیت ؑ کے خلاف پیش کیا ہے،تا کہ دشمنان و مخالفین اہل بیت ؑ کو صحیح ٹھہرایا جائے اور اہل بیت ؑ کا حق غصب کیا جائے،آپ پہلے سوال کا جواب دوبارہ ملاحظہ فرمائیں ۔

نہ داستان نماز،ابوبکر کی خلافت پر نص ہے اور نہ ہی اصحاب نے اسے بیعت ابوبکر کے لئے لازم سمجھا

دوسری بات یہ ہے کہ حادث صلوٰۃ چاہے جیسے بھی واقع ہوا ہو خلافت ابوبکر پر نص بہرحال نہیں ہے،اس لئے کہ جمہور اہل سنت بالاتفاق اس بات کے قائل ہیں کہ پیغمبر ؐ نے اپنے بعد کے لئے کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہا،زیادہ سے زیادہ اس بات کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ یہ اقدام ابوبکر کی بیعت کی طرف محض ایک اشارہ تھا،آپ نے اپنے سوال میں بھی یہی بات بیان کی ہے،آپ جانتے ہیں کہ کوئی بھی واقعہ،دیکھنے اور محسوس کرنے والوں کے زاویہ نگاہ کے اختلاف کے ساتھ مختلف نتیجے دے سکتا ہے،اس میں دیکھنے اور محسوس کرنے والوں کے رجحان فکر اور میلان نفس کا زیادہ دخل ہوتا ہے ۔

اب اس واقعہ کی اہمیت آپ اسی سے سمجھ لیں کہ یہ سب کچھ ہونے کے بعد انصار نے دعوائے خلافت کردیا اور خلافت کے لئے سعد بن عبادہ کی بیعت کا مطالبہ کردیا اور ابوبکر نے عمر اور ابوعبیدہ کو خلافت کے لئے پیش کردیا ان کی بیعت کی پیش کش کی پھر مرنے کے وقت جب جادو سر چڑھ کے بولنے لگا تو کہنے لگے:مجھے کسی بات کا افسوس نہیں مگر صرف تین حرکتوں کا،کاش میں نے یہ تینوں کام انجام نہ دیئے ہوتے اور تین کام میں نے نہیں کئے ہیں اے کاش کہ میں نے وہ تین کام انجام دئے ہوتے اور تین چیزوں کے بارے میں پس رسول خدا ؐ سے سوال کرنا چاہتا تھا اب وہ تین کام کہ کاش

۳۲۹

میں انجام نہ دئے ہوتے پہلی بات تو یہ ہے کہ کاش سقیفہ کے دن میں خلافت کا ڈ ھول ابوعبیدہ یا عمر کے گلے میں باندھ دیتا،ان میں سے کوئی ایک امیر ہوتا اور میں وزیر...اور وہ تین چیزیں جن کے بارے میں کاش کہ رسول خدا ؐ سے پوچھ لیا ہو ان میں سے ایک یہ ہے کہ کاش میں پوچھ لیتا کہ آپ کے بعد خلیفہ کون ہوگا تا کہ کوئی خلافت کی اہلیت رکھنے والوں سے نزاع نہ کرنا..(۱) غور کریں کہ اگر ابوبکر امامت صلوٰۃ سے اپنی خلافت کی طرف اشارہ سمجھتے ہوتے تو ہو بے چارے اس گومگو کی کیفیت میں کیوں رہتے؟نہ انھیں پیغمبر ؐ سے سوال کرنے کی خواہش ہوتی،نہ یہ آرزو کہ خلافت کی ڈ ھول ان دونوں میں سے کسی ایک کے گلے میں باندھ دیتے ۔

اسی طرح اگر نماز کے وقت کے حاضرین اسے خلافت ابوبکر کی طرف اشارہ سمجھتے تو امیرالمومنین علی ؑ ،عام بنوہاشم اور خواص صحابہ ابوبکر کی بیعت سے ہرگز کوتاہی نہ کرتے اور آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے ۴،۳ نمبر کے سوالوں کے جواب میں یہ عرض کیا ہے کہ ابوبکر کی بیعت سے مولائے کائنات ؑ اور مہاجرین و انصار کے نمایاں افراد نے صاف طور پر انکار کیا اور بیعت کی بھی تو بہت ہی مکروہ عمل سمجھ کے کی ۔

اور سقیفہ میں جب انصار،سعد بن عبادہ کی طرف اور ابوبکر،عمر و ابوعبیدہ کی بیعت کی طرف مائل تھے،حالانکہ اگر حادثہ صلوٰۃ میں ابوبکر کی خلافت کی طرف اشارہ موجود تھا تو آخر یہ حضرات اس اشارہ سے کیوں منحرف تھے اگر اس لئے کہ ان لوگوں کا یہ عمل محض ارتجالاً اور بے سوچا سمجھا اقدام تھا اور ان کی جنگجو طبعیت کا تقاضا تھا،جس کی وجہ سے صلوٰۃ سے غفلت برتی گئی اور جب وقت آیا تو اسے مقام استدلال میں پیش نہیں کیا گیا،اس کا مطلب ہے کہ اس حادثہ کا ان لوگوں پر کوئی خاص اثر نہیں تھا تو ایسی صورت میں امیرالمومنین ؑ اور آپ جیسے لوگوں کا موقف اس بات کی دلیل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مجمع الزوائد ج:۵ص:۲۰۱۔۲۰۳،الاحادیث المختارۃ،ج:۱ص:۸۹۔۹۰معجم الکبیر ج:۱ص:۶۲،الضعفاء للعقیلی ج:۳ص:۴۲۰۔۴۲۱،میزان الاعتدال ج:۵ص:۱۳۵۔۱۳۶،لسان المیزان ج:۴ص:۱۸۹،تاریخ طبری ج:۲ص:۳۵۳۔۳۵۴،تاریخ دمشق ج:۳۰ص:۴۱۸۔۴۲۰۔۴۲۱۔۴۲۲

۳۳۰

ہے کہ ان حضرات کو بیعت ابوبکر سے اختلاف تھا اور ان کا ہر عمل احتجاج کی راہ میں تھا،جیسا کہ تیسرے اور چوتھے سوال کے جواب سے ظاہر ہے ۔

پھر ابوبکر نے اسی بیماری کے دور میں جو کچھ کہا وہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ حادثہ صلوٰۃ ان کی خلافت پر اشارہ نہیں تھا،جب ابوبکر کو مرتبہ خلافت ملا اور وہ اس تجربہ سے گذرے تو ان کی سمجھ میں بات آگئی کہ خلافت کرنے اور کپڑے بننے میں بہت فرق ہے،خلافت کی ذمہ داریوں کا احساس کر کے اور خود کو نااہل سمجھ ک انھوں نے بہت ہی حسرت و یاس کی حالت میں مذکورہ باتیں کہیں ہیں ۔

گذشتہ تصریحات آپ کے سامنے ہیں،نتیجہ نکالنا آپ کا کام ہے لیکن ان سب باتوں سے جو بات میری سمجھ میں آتی ہے وہ دو حال سے خالی نہیں ہے ۔

۱ ۔ پہلی بات تو یہ ہے ک ابوبکر کو نماز کی امامت کرنے کا حکم پیِغمبر ؐ نے سرے سے دیا ہی نہیں تھا،بلکہ نماز کا معاملہ ایک سازش تھی اور یہ سازش اس طرح رچی گئی تھی کہ لوگوں کو خلافت ابوبکر پر نص جیسی معلوم ہونے لگے،بلکہ ایک طرح سے اس سازش میں نص کی طرف موڑنے کا اشارہ ملفوف تھا ۔

سازش کرنے والی نے ایک کمزور وقت اور وقت کے ایک کمزور لمحے سے فائدہ اٹھانا چاہا تھا تا کہ اس واقعہ کے سہارے اہل بیت ؑ سے حکومت چھین لی جائے اور جب کوئی مخالفت کرے جیسے شیعیان اہل بیت ؑ تو اس واقعہ کو مقام استدلال پیش کردیا جائے ۔

امام جماعت ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس آدمی کے اندر امامت عامّہ کی بھی صلاحیت ہے

۲ ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ سرکار دو عالم ؐ نے ابوبکر کو امامت صلوٰۃ کا حکم دیا تھا تو اس سے بھی آپ کے موقف پر کوئی دلیل قائم نہیں ہوتی،اس لئے کہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ نماز میں امام ہونا اور ہے اور عالم اسلام کی سیاسی،مذہبی اور علمی امامت اور ہے کوئی ضروری نہیں کہ مسجد کے

۳۳۱

امام کے اندر امت کی امامت کی صلاحت بھی موجود ہو ۔ تاریخ سے پوچھیئےمجب عمر زخمی ہوئے تو عبدالرحمٰن بن عوف نے امامت نماز کے فرائض انجام دیئے(۱) خود عمر نے صھیب کو حکم دیا تھا کہ ان کے ہلاک ہونے کے بعد جب تک شوریٰ میں خلیفہ معین نہ ہوجائے(۲) ( اور اس کی مدت تین دن تھی)اس وقت تک صھیب نماز پڑھاتے رہیں،اسی طرح جب مولائے کائنات ؐ مسجد کوفہ میں ابن ملجم ملعون کے ہاتھوں زخمی ہوئے تو آپ نے جعدہ بن ہبیرہ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا ۔(۳)

اب اگر کوئی یہ کہے کہ اسی امامت صلوٰۃ کی وجہ سے عمر نے ابوبکر کو آگے بڑھایا اور ان کی بیعت کی پیشکش کی تو میں عرض کروں گا کہ...

۱ ۔ عمر نے اس امامت صلوٰۃ کی وجہ سے ابوبکر کو ّگے نہیں بڑھایا تھا،نہ اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ نبی ؐ نے ہی ان کو آگے بڑھایا ہے،اس لئے ہم انھیں امام مانتے ہیں اور نہ وہ اس بات کے دعویدار تھے کہ نبی ؐ کا ابوبکر کو امام بنانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے اندر امامت عامّہ کی اہلیت بھی ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عمر کی نظر میں نماز کی امامت ابوبکر کی ایک فضیلت تھی اس لئے انھوں نے ابوبکر کو آگے بڑھادیا،جیسے وہ اس بات کے قائل تھے کہ(اگر میں ابوعبیدہ جراح کو پاتا تو انھیں اپنے بعد خلیفہ بناتا،پھر جب اپنے رب کے پاس جاتا اور میرا رب مجھ سے پوچھتا کہ امت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) صحیح بخاری ج: ۳ ص: ۱۳۵۴ ،صحیح ابن حبان ج: ۱۴ ص: ۱۹۳ ،المستدرک علی صحیحین ج: ۳ ص: ۹۷ ،سنن کبریٰ بیقھی ج: ۳ ص: ۱۱۳ ،المصنف لابن ابی شیبۃ ج: ۱ ص: ۴۰۶ ،مسند ابی یعلی ج: ۵ ص: ۱۱۶ ،حلیۃ الاولیاء ج: ۴ ص: ۱۵۱ ،کتاب الآثار:ص: ۱۴۷ الثقات ج: ۲ ص: ۲۳۸ ،طبقات الکبریٰ ج: ۳ ص: ۳۳۷ ،نیل الاوطار ج: ۶ ص: ۱۵۸ ،موارد الظمان ص: ۵۳۷ ،مجمع الزوائد ج: ۹ ص: ۷۶ مسند الحارث ج: ۲ ص: ۶۲۲)

( ۲) صحیح ابن حبان ج: ۱۵ ص: ۳۳۳ ،المصنف لابن ابی شیبۃ ج: ۷ ص: ۴۳۷ ،مجمع الزوائد ج: ۵ ص: ۱۹۵ طبقات الکبریٰ ج: ۳ ص: ۶۱ ،ج: ۳ ص: ۳۴۱ ،فتح الباری ج: ۷ ص: ۶۸ سیرہ اعلام نبلاء ج: ۲ ص: ۲۶)

( ۳) الاستیعاب ج: ۳ ص: ۱۱۲۵ ،حضرت علیؑ کی سوانح حیات میں،مجمع الزوائد ج: ۹ ص: ۱۴۱ ،باب مناقب علی بن ابی طالبؑ،کتاب مناقب،معجم الکبیر ج: ۱ ص: ۹۹ ،علی بن ابی طالب حالات میں،نظم دررالمسطین ص: ۱۴۱ مناقب للخوارزمی ص: ۳۸۳ ،المنتظم ج: ۵ ص: ۱۷۳ کامل فی التاریخ ج: ۳ ص: ۲۵۶ ،ذخائز العقبی فی مناقب القربیٰ ج: ۱ ص: ۱۱۴

۳۳۲

ؐ محمد کی خلافت کس کے حوالے کر کے آئے تو میں کہتا کہ میں نے تیرے بندے اور خلیل سے یہ سنا تھا کہ ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین ابوعبیدہ جراح ہے)(۱) تو جس طرح عمر،ابوعبیدہ کے اندر فضیلت کے قائل تھے کہ انھیں پیغمبر ؐ نے امامت صلوٰۃ سونپی تھی،بشرطیکہ ایسا ہوا ہو،عمر تو یہ بھی کہتے تھے کہ((اگر میں ابوحذیفہ کے غلام کو پاتا تو اسی کو خلیفہ بنادیتا اور اپنے مالک سے جا کے کہتا کہ تیرے نبی ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ سالم اللہ سے شدید محبت کرنے والا ہے(۲) اور عمر یہ بھی کہتے تھے کہ میں معاذ بن جبل کو پاتا تو اسے خلیفہ بنادیتا اور جب میرا مالک پوچھتا تو میں کہتا کہ تیرے حبیب کو یہ کہتے سنا تھا کہ جب علما قیامت کے دن اپنے پروردگار کے حضور میں حاضر ہوں گے تو معاذ بن جبل ان کے درمیان ایک بلند چٹان کی طرح ہوں گے ۔(۳)

۲ ۔ دوسری بات یہ ہے کہ عمر نے یہ دیکھا کہ حادثہ صلوٰۃ ان کے ہدف کو ثابت کرتا ہے اس لئے حادثہ صلوٰۃ کو توڑ مروڑ کے پیش کیا اور کمزور لمحون کا فائدہ اٹھا کے اپنے عمل کو ایک شرعی حیثیت دیدی،حالانکہ ابوبکر کی بیعت کا عمل خود ان کے کہنے کے مطابق ایک لغزش تھی لیکن عمر نے موقعہ سے خوب فائدہ اٹھایا اور کسی وضاحت کے طلب کرنے یا رد و تردید کرنے کا کوئی موقع ہی نہیں دیا،نہ کسی کو اس بات کا موقعہ دیا کہ وہ اس حادثہ کے مدلول حقیقی پر روشنی ڈ ال سکے ۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سیاست کے مداری اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے اور اپنے مختلف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مسند الشیاشیی ج:۲ص:۹۳،مناقب ابی عبید اور اسکے علاوہ،مسند احمد ج:۱ص:۱۸،مسند عمر بن خطاب میں،فتح الباری ج:۱۳ص:۱۱۹،تحفۃ الاحوذی ج:۶ص:۳۹۹،فیض القدیر ج:۳ص:۱۹۰سیر اعلام نبلاء،ج:۱ص:۳۷۲،خالد بن ولید کے حالات میں،صفوۃ الصفوۃ ج:۱ص:۳۶۷،تاریخ طبری ج:۲ص:۵۸۰،تاریخ دمشق ج:۵۸ص:۴۰۵،معاذ بن جبل کے حالات میں،مستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۳۰۰،کتاب معرفۃ صحابہ ابی عبیدہ بن جراح کے مناقب میں،طبقات الکبریٰ ج:۳ص:۴۱۳،ابی عبیدہ بن جراح کے حالات میں،فضائل الصحابہ لابن حنبل ج:۲ص:۷۴۲،اور تاریخ دمشق ج:۲۵ص:۴۶۱،عامر بن عبداللہ بن جراح کے حالات میں۔

(۲)اس کا مدرک چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے

(۳)اس کا مدرک چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے

۳۳۳

اہداف تک پہنچنےکے لئے ایسے ہی لمحے کی تلاش میں رہتے ہیں(بیتو کا کام کرتے ہیں)موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں،وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہیں اور بیوقف عوام کو دھوکا دینے کے لئے بےہودہ استدلال اور بلاوجہ کی لفاظی سے فائدہ اٹھاتے ہیں ان کی دلیلیں جیسے صحرا میں سراب،جسے پیاسا پانی سمجھتا ہے لیکن جب وہاں پہنچتا ہے تو کچھ بھی نہیں پاتا بلکہ وہاں خود اللہ موجود رہتا ہے اور اس کا پورا پورا حساب کردیتا ہے،(۱) اگر عمر نے ابوبکر کے لئے امامت صلوٰۃ کو دلیل خلافت بنا کے پیش کیا بھی تو یہ محض وقت کی آواز تھی ورنہ عمر،پیغمبر ؐ کے مرض کی حالت میں آپ کے ارشادات کی طرف کب دھیاں دینے والے تھے ۔

عمر نے ارشادات نبوی ؐ کا بھی احترام نہیں کیا خاص طور سے سرکار دو عالم ؐ نے بیماری کی حالت میں جو ہدایتیں دیں،عمر کی نظر میں ان کی کوئی اہمیت نہیں تھی آپ کہتے ہیں کہ حالت مرض میں نبی ؐ نے ابوبکر کو امامت نماز کا حکم دیا،عمر نے اس حکم کو خلافت ابوبکر کی دلیل بنا کے پیش کیا تو میں عرض کرتا ہوں کہ تعجب ہے عمر نے بیمار پیغمبر ؐ کو اتنی اہمیت کیسے دی؟

یہ واقعہ دوشنبہ کا ہے،ابھی چار دن قبل یعنی پنجشنبہ کے دن سرکار دو عالم ؐ حالت بیماری میں یہ فرما رہے تھے کہ:((قلم اور دوات لاؤ میں ایسی تحریر لکھ دوں کہ میرے بعد تم لوگ کبھی گمراہ نہ ہوگے))ادھر عمر اور حامیان عمر آپ کے قول کو رد کررہے تھے،عمر نے کہا آپ(معاذ اللہ)ہزیان بک رہے ہیں،پھر کہا کہ آپ پر درد کا غلبہ ہے،ہمارے لئے کتاب خدا کافی ہے یہ تمام باتیں دوسرے سوال کے جواب میں عرض کی جاچکی ہیں ۔

اس حدیث قرطاس کے بعد حادثہ صلوٰۃ سامنے آتا ہے،بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نبی ؐ کی وفات کے دن کا حادثہ ہے یعنی دوشنبہ کے دن کا ۔

اب تو مرض مزید بڑھ گیا ہوگا لیکن عمر نے نہیں کہا کہ حضور نے درد سے گھبرا کے ایسا حکم دیا ہوگا ذرا سونچئے گا کہ یہ سب کیوں ہورہا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ نور آیت:۳۹

۳۳۴

عمر نے خلافت کے بارے میں جب بھی گفتگو کی حادثہ صلوٰۃ کا ذکر بالکل نہیں کیا

لطف کی بات تو یہ ہے کہ سقیفہ کے بعد مر نے ابن عباس سے کئی دفعہ گفتگو کی،سقیفہ کی خوبیاں گنائیں،ابوبکر کی بیعت کو جائز قرار دیا،اپنے داماد کی بھرپور پیروی کی،بہت سی توجیہات پیش کیں،لیکن کبھی یہ نہیں کہا کہ ابوبکر کی بیعت اس لئے ضروری تھی کہ انھوں نے نبیؐ کے حکم سے ایک دن نماز جماعت کی امامت کی تھی،انھوں نے مولیٰ علیؑ کو خلافت سے محروم رکھنے کے لئے مکڑی کی طرح جالے بنے،جیسے یہ کہا کہ علیؑ خلافت کے لئے مناسب نہیں تھے اس لئے کہ وہ بہت کمسب تھے،اس لئے کہ وہ بنی عبدالمطلب سے محبت کرتے تھے،اس لئے کہ قریش کو یہ گوارہ نہ تھا کہ خاندان بنی ہاشم میں نبوت و خلافت(دونوں)جمع ہو و غیرہ..یہ بھی کہا کہ ابوبکر کی بیعت اچانک ایک حادثہ تھی اور یہ عرض کیا جاچکا ہے کہ فلتہ کا مطلب کم سے کم یہ ہوتا ہے کہ کسی کام کا بغیر مشورے کے اچانک ہوجانا،لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ بیعت میں جلد بازی فتنہ کے خوف سے کی گئی(۱)

بہرحال اگر حادثہ صلوٰۃ اس قابل ہوتا کہ اسے مقام احتجاج میں پیش کیا جاسکے تو پھر کوئی تو کہتا،بلکہ سب سے پہلے اس کو پیش کیا جاتا کہ خلافت ابوبکر پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ حضورؐ نے ان کو امامت کا حکم دیا ہے۔ان تمام باتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس حادثہ کو صرف سقیفہ کے دن ہی پکڑے رہنا اور اس کو دلیل بنانا اصل میں مدلول حقیقی سے نگاہیں پھیرنے کی اور حقیقت حق سے باطل کی طرف موڑنے کی ایک کوشش تھی۔تیسری بات یہ ہے کہ مدعی کے لئے اپنے دعوے پر اس طرح کی کمزور دلیلیں لانا جو اشارے کنائے پر مشتمل ہو،منطق کا تقاضہ نہیں ہےجب کہ اس کے مخالف کے پاس اس طرح کی کمزور دلیلوں کو توڑنےکے لئے وافر مقدار میں مواد موجود ہیں،یہاں تو واضح دلیلیں اور روشن حجتیں پیش کرنے کی ضرورت ہے،جو مخالف کو لاجواب کردے اس دلیل کو توڑنے کے لئے شیعوں کے پاس تو اتنا مواد ہے کہ اس کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں ہے،لیکن میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ حادثہ صلوٰۃ کا تقابل ان واقعات سے ضرور کیا جائےجو امیرالمومنینؑ کے حق میں جاتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)ریاض النضرۃ،ج:۲ص:۲۰۶،پہلا باب رسول اللہ کے خلیفہ ابوبکر کے فضائل کے بیان میں،فصل ۱۳،خلافت کے بیان میں اور جو چیز صحابہ سے متعلق ہے،سقیفہ کی بیعت کو ذکر کیا اور جو اس میں پیش آیا۔

۳۳۵

ایک تقابلی مطالعہ

میں صاحبان انصاف سے صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا حادثہ صلوٰۃ کی دلیل(جو ابوبکر کی خلافت کے حق میں ان کے قول کے مطابق ہے)ان روایتوں کے مقابلے میں کچھ دیر بھی ٹھہرسکے گی،جن روایتوں سے نبی کا امیرالمومنین ؑ سے اختصاص اور قربت مستفاد ہوتی ہے،احادثہ صلوٰۃ کی دلیل ان تمام روایتوں سے قوی تر ہے؟کیا تاریخ یہ نہیں بتاتی کہ علی ؑ نبی ؐ کے اخص تھے؟نبی ؐ کی زندگی میں اور نبی ؐ کے مرنے کے بعد بھی ان کے تمام امور کے ذمہ دار علی ؑ ہی تھے؟یہاں تک کہ آپ ہی نے نبی ؐ کی تجہیز و تکفین کی اور انھیں قبر میں اتارا،نبی ؐ نے تمام صحابہ کے درمیان علی ؑ کو یہ خصوصیت دی کہ آپ کو اپنا بھائی بتایا اور صی ٖ ہ مواخاۃ جاری کیا(۱) نبی ؐ نے خدا کے حکم سے اپنی صاحبزادی فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا کا عقد حضرت علی ؑ سے کیا ۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) المستدرک علی صحیحین،ج: ۳ ص: ۱۶ ۔ ۱۵ ،کتاب الھجرۃ،سنن ترمذی ج: ۵ ص: ۶۳۶ ،کتاب مناقب،علل دارقطنی،ج: ۹ ص ۲۰۵ ،الطبقات الکبریٰ ج: ۳ ص: ۲۲ ،علی ابن ابی طالبؑ کے حالات میں،فضائل صحابہ،ابن حنبل،ج: ۲ ص: ۵۹۷ ،فضائل علیؑ ص: ۶۱۷ ،البدایۃ النھایۃ ج: ۷ ص: ۳۵،۲۲۴ سنہکے حالات میں جس میں عثمان کے قتل کا بھی تذکرہ ہے اور امیرالمومنین علیؑ کی خلافت کا ذکر بھی ہے،تاریخ الخلفا ص: ۱۷۰ ،السیرۃ النبویۃ،ج: ۳ ص: ۳۶ ،مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارگی،تاریخ دمشق ج: ۴۲ ،ص: ۹۶ ۔ ۶۱ ۔ ۵۳ ۔ ۵۲ ۔ ۵۱ ۔ ۱۸ ،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،تہذیب الاسما ص: ۳۱۸ ،فیض القدیر،ج: ۴ ص: ۳۵۵ ،الریاض النضرۃ ج: ۱ ص: ۲۰۵ ،التدوین فی اخبار قزوین ج: ۲ ص: ۱۲۶ ،تحفۃ الاحوزی،ج: ۱۰ ص: ۱۵۲ ،تہذیب الکمال ج: ۲ ص: ۴۸۴ ،

( ۲) مجمع الزوائد ج: ۹ ص: ۲۰۴ ،کتاب مناقب باب فاطمہ بنت رسول اللہؐ،المعجم الکبیر ج: ۱۰ ص: ۱۵۶ ،عبداللہ بن مسعود کی مسند میں،ج: ۲۲ ص: ۴۰۷ ،فاطمہ صلوٰۃ اللہ علیھا کی عمر،اور ان کی شہادت،مناقب اور کنیت و غیرہ کا ذکر،اور جناب فاطمہ کی شادی کا ذکر،تاریخ دمشق ج: ۳۷ ص: ۱۳ ،عبدالملک بن حبار کے حالات میں،ج: ۴۲ ،ص: ۱۲۶ ۔ ۱۲۹ ،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،ج: ۵۲ ،ص: ۴۴۵ ۔ ۴۴۴ ،محمد بن دینا عرقی کے حالات میں،کنزالعمال ج: ۱۱ ص: ۶۰۰ ،حدیث: ۳۲۸۹۱ ،ص: ۶۰۶ ،حدیث: ۳۲۹۲۹ ،البیان و التعریف،ج: ۱ ص: ۱۷۴ ،ج: ۲ ص: ۳۰۱ ،میزان الاعتدال ج: ۴ ص: ۴۲۲ ،عبدالنور بن عبداللہ المسمعی کے حالات میں،لسان المیزان ج: ۴ ص: ۷۷ عبدالنور عبداللہ مسمعی کے حالات میں،الکشف الحثیث،ص: ۱۷۴ ،عبدالنور عبداللہ مسمعی کے حالات میں،

۳۳۶

اور حضرت علی ؑ ہی آپ کی ذیرت کے باپ قرار پائے ۔(۱)

نبی ؐ نے مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازوں کو بند کرادیا سوائے علی ؑ کے گھر کے دروازہ کے ۔(۲) اس سے پتہ چلا کہ جو علی ؑ کے لئے حلال ہے وہ نبی ؐ کے لئے حلال ہے ۔(۳) فاطمہ زہرا ؐ اور آپ کے دونوں صحاب زادے امام حسن ؑ و امام حسین ؑ ہیں(۴) جن سے اللہ نے رجس کو دور رکھا ہے اور ایسا پاک کیا ہے جیسا پاک کرنے کا حق ہے اور نبی ؐ نے فرمایا کہ((اہل بیت ؑ کی مثال سفینہ نوح ؑ جیسی ہے،جو اس پر سوار ہوا وہ نجات پاگیا اور جو اس سے منھ موڑے گا وہ غرق ہوگا اور ہلاک ہوجائے گا ۔(۵)

پھر نبی ؐ نے یہ نص فرمائی کہ((اہل بیت ؑ سے مراد امیرالمومنین علی ؑ ،آپ کی شریک حیات اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) مجمع الزوائد ج: ۹ ص: ۱۷۲ ،کتاب مناقب فاطمہ زہراؐ کے فضائل کا باب میں،اور آپ کی علیؑ سے شادی کے باب میں،معجم الکبیر ج: ۳ ص: ۴۳ ،جامع الصغیر ج: ۱ ص: ۲۶۲ ،فردوس ماثور الخطاب ج: ۱ ص: ۱۷۲ ،فیض القدیر ج: ۲ ص: ۲۳۳ ،کنز العمال ج: ۱۱ ص: ۶۰۰ حدیث: ۳۲۸۹۲ ،تاریخ دمشق ج: ۴۲ ص: ۲۵۹ ،تاریخ بغداد ج: ۱ ص: ۳۱۷ ،ینابیع المودۃ ج: ۲ ص: ۹۰ ۔ ۲۳۷ ۔ ۲۹۲ ۔ ۲۴۵ ۔ ۳۹۹ ۔ ۴۴۷ ،میزان الاعتدال ج: ۴ ص: ۳۱۳ ،ض: ۷ ص: ۲۰۷ ،لسان المیزان ج: ۳ ص: ۴۲۹ ،علل متناہیہ ج: ۱ ص: ۲۱۴ ،کشف الخفاء ج: ۲ ص: ۱۵۷ ،نیل الاوطار ج: ۶ ص: ۱۳۹)

( ۲) السنن الکبریٰ،نسائی ج: ۵ کتاب الخصائص،امیرالمومنین علی بن ابی طالبؑ کی خصوصیات،ص: ۱۱۳ ،اس سلسلے میں عمران بن حصین کی خبر کا تذکرہ،ص: ۱۱۹ ۔ ۱۱۸ ،رسول اکرمؐ کا بیان کہ میں علی کے دروازہ کے علاوہ سارے دروازوں کے بند کرنے کا حکم دیا ہے،سنن ترمذی ج: ۵ ص: ۶۴۱ ،المستدرک علی صحیحین ج: ۳ ص: ۱۳۵ ،مسند احمد بن حنبل ج: ۱ ص: ۱۷۵ ،مسند ابی اسحاق سعد بن وقاص،ص: ۳۳۰ ،معتصر المختصر ج: ۲ ص: ۳۳۲ ،مجمع الزوائد ج: ۹ ،ص: ۱۱۵ ۔ ۱۱۴ ،مسند رویانی ج: ۱ ص: ۲۷۷ ،مسند ابی یعلی ج: ۲ ص: ۶۱ ،مسند سعد بن ابی وقاص،ابن ابی عاصم کی سنت کے عنوان سے،ج: ۲ ص: ۶۰۳ ۔ ۵۹۹ ،باب فضائل علیؑ کا تذکرہ،فتح الباری ج: ۷ ص: ۱۴ ،تفسیر قرطبی،ج: ۵ ص: ۲۰۸ ،

( ۳) تاریخ دمشق ج: ۴۲ ص: ۱۴۰ ۔ ۱۳۹ مسند الشاشیی ج: ۱ ص: ۱۴۶ ،میزان الاعتدال ج: ۲ ص: ۲۱۰ ،لسان میزان ج: ۲ ص: ۱۸۲ ،مناقب الخوارزمی ص: ۱۰۹ ،ینابیع المودۃ ج: ۱ ص: ۱۶۰ ،تاریخ المدینۃ ج: ۱ ص: ۳۸

( ۴) صحیح ابن حبان ج: ۱۵ ص: ۴۳۲ ،کتاب اخبار،مناقب صحابہ،السنن الکبری للنسائی ج: ۵ ص: ۱۰۷ ،کتاب خصائص،امیرالمومنین علی بن ابی طالبؑ کی خصوصیات میں،سنن ترمذی ج: ۵ ص: ۳۵۱ ،کتاب فضائل قرآن،المستدرک علی صحیحین ج: ۲ ص: ۴۵۱ ،کتاب تفسیر،تفسیر سورہ احزاب،مسند احمد ج: ۴ ص: ۱۰۷ ،واثلہ بن اسقع کی حدیث میں ج: ۶ ص: ۲۹۲ ،رسول اللہؐ کی بیوی ام سلمہؐ کی حدیث میں،معتصر المختصر ج: ۲ ص: ۲۶۶ ،مجمع الزوائد ج: ۹ ص: ۱۶۷ ،کتاب مناقب،مسند البراز ج: ۶ ص: ۲۱۰ ،المعجم الکبیر ج: ۳ ص: ۵۳ ،اخبار حسن بن علیؑ میں،ج: ۲۵ ص: ۹ ،مسند عمر بن ابی سلمۃ میں،ج: ۲۲ ص: ۶۶ مسند واثل - ( ۵) اس کا مدرک گذشتہ چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے۔

۳۳۷

پھر فرمایا:کہ اہل بیت ؑ ہی ان ثقلین میں سے ایک ثقل ہیں جنھیں نبی ؐ نے اپنی امت کا خلیفہ بنایا ہے،آپ کے سابقہ سوالوں میں چھٹے سوال کے جواب میں اس حدیث پر کافی گفتگو ہوچکی ہے ۔

حضور سرور کائنات ؐ اہل بیت ؑ ہی کو لیکے نصارائے نجران کے مقابلہ میں نکلے(۱) تا کہ معولم ہوجائے کہ یہ حضرات صرف نبی ؐ ہی کے قرابتدار نہیں ہیں بلکہ بارگاہ الٰہی میں بھی اتنے مقرب ہیں کہ ان کی دعا کا اثر ہوتا ہے ۔

اللہ ان کی دعائیں سنتا ہے اور قبول کرتا ہے،یہ بھی ثابت ہوجائے کہ یہ حضرات ہی در حقیقت دعوت اسلام کے ذمہ دار ہیں،اس کی حمایت میں لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس کے عہد کے پابند ہیں ۔

انھیں کے لئے نبی ؐ نے فرمایا:میں اس سے صلح کروں گا جو ان سے صلح کرے گا اور اس سے جنگ کروں گا جو ان سے لڑے گا،(۲) پھر آپ نے امیرالمومنین ؑ کو وصی بنایا اور یہ بات اتنی مشہور ہوئی کہ لوگ امیرالمومنین ؑ کو وصی کے نام سے پہچاننے لگے ۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) صحیح مسلم ج: ۴ ص: ۱۸۷۱ ،کتاب فضائل صحابہ،باب فضائل علی ابن بی طالبؑ میں،المستدرک علی صحیحین ج: ۳ ص: ۱۶۳ ،کتاب معرفت صحابہ،سنن الکبری بیھقی،ج: ۷ ص: ۶۳ ،کتاب قسم الصدقات،مسند احمد ج: ۱ ص: ۱۸۵ ،مسند ابی اسحاق سعد بن ابی وقاص میں مسند سعد ص: ۵۱ ،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،الاصابۃ ج: ۴ ص: ۵۶۹ ،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،معرفت علوم حدیث ص: ۵۰ ،تفسیر طبری ج: ۱ ص: ۳۹۸ ،روح المعانی ج: ۴ ص: ۱۸۸ ،اسباب نزول آیات،ص: ۶۸ ،شواہد التنزیل للحسکانی ج: ۱ ص: ۱۵۶ ۔ ۱۵۹ ۔ ۱۶۳ ۔ ۱۶۴ ،وغیرہ۔

( ۲) اس کا مدرک چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے۔

( ۳) المستدرک علی صحیحین ج: ۳ ص: ۱۸۸ ،مسند ابی یعلی ج: ۴ ص: ۳۴۴ ،مجمع الزوائد ج: ۹ ص: ۱۱۴ ۔ ۱۱۳ ،حلیۃ الاولیاء ج: ۲ ص: ۷۴ ،معجم الکبیر ج: ۶ ص: ۲۲۱ الاصابۃ ج: ۵ ص: ۵۷۶ ،فضائل الصحابہ ج: ۲ ص: ۶۱۵ ،سیرہ اعلام نبلاء ج: ۴ ص: ۱۱۳ ،بقیۃ الکمال ج: ۲۶ ص: ۱۵۱ ،تھذیب التھذیب ج: ۳ ص: ۹۱ ،تاریخ دمشق ج: ۴۲ ص: ۵۳۲ ۔ ۳۹۲ ،تاریخ واسط ص: ۱۵۴ ،تاریخ بغداد ج: ۱۱ ص: ۱۱۲ ،ج:! ۳ ص: ۲۹۸ ،الذریۃ الطاہرہ ص: ۷۴ ،فردوس بما ثور الخطاب ج: ۳ ص: ۳۳۶ ،فتح الباری ج: ۸ ص: ۳۸۷ ج: ۵ ص: ۱۳۹ ،الکامل الضعفا الرجال ج: ۴ ص: ۱۴ ،المجروحین ج: ۱ ص: ۲۷۹ ،بدایۃ النہایہ ج: ۱۳ ص: ۲۵۸ تاریخ طبری ج: ۲ ص: ۶۹۶ ،ج: ۳ ص: ۳۱۹ ،الکامل فی التاریخ ج: ۳ ص: ۴۱۹ ،المعرکۃ ج: ۵ ص: ۱۵۲ ،المنتظم ج: ۱۰ ص: ۱۲۸ ،البدءو التاریخ ج: ۵ ص: ۲۲۵ وفیات الاعیان ج: ۵ ص: ۳۷۹ ،تاریخ یعقوبی ج: ۲ ص: ۱۷۱ فی ایام عثمان بن عفان ص: ۱۷۹ اور خلافت امیرالمومنین میں ص: ۲۲۸

۳۳۸

آنحضرت ؐ نے فرمایا:میرا وصی تمام اوصیا سے بہتر ہے ۔(۱) چوتھے سوال کے جواب میں عرض کیا جاچکا ہے کہ یہاں وصایت سے مراد نبوت کی وصایت ہے مولائے کائنات پیغمبر خدا ؐ کے قرضوں کو ادا کرنے والے ہیں اور نبی ؐ کے وعدوں کو پورا کرنے والے ہیں ۔(۲) اور امت نبی ؐ کے اختلافی مسائل کو حل کرنے والے ہیں،(۳) آپ علم نبی ؐ کے وارث ہیں(۴) اور شہر علم نبی ؐ کے دروازہ ہیں(۵) جس سے داخل ہو کر علم نبی ؐ تک پہنچا جاسکتا ہے،جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے((نیکی یہ نہیں ہے کہ تم گھروں میں پس پشت داخل ہو،بلکہ نیکی یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کرو،گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہوا اور اللہ سے ڈ رو تا کہ تمہارا بھلا ہو)) ۔(۶)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سیرہ ابن اسحاق ج:۲ص:۱۰۵،مجمع الزوائد ج:۹ص:۱۶۵،معجم الاوسط ج:۶ص:۳۲۷معجم الکبیر ج:۳ص:۵۷

(۲)مجمع الزوائد ج:۹ص:۱۱۳ اور باب وصیت میں ص:۱۲۱،احادیث المختار ج:۲ص:۱۳۱فضائل الصحابہ لابن حنبل ج:۲ص:۶۱۵تفسیر ابن کثیر ج:۳ص:۳۵۱،مسند احمد ج:۱ص:۱۱۱،تاریخ دمشق ج:۴۲ص:۴۷۔۴۹۔۵۰۔۵۶۔۴۷۱،الفردوس بما ثور الخطاب ج:۳ص:۶۱،معجم الکبیر ج:۱۲ص:۴۲۰،میزان الاعتدال ج:۶ص:۴۴۶،ج:۷ص:۵الکامل فی الضعفاء الرجال ج:۶ص:۳۹۷،المجروحین،ج:۳ص:۵

(۳)اس کا مدرک چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے۔

(۴)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۳۶،کتاب معرفۃ الصحابہ(صحابیوں کی پہچان،مناقب علی بن ابی طالبؑ،الاحاد و المثانی،ج:۵ص:۱۷۲،زید بن ابی اوفی کے حالات میں،المعجم الکبیر،ج:۵ص:۲۲۱،روایت زید بن ابی اوفی،ریاض النضرہ،ج:۱ص:۱۹۸،پہلا باب،فضائل الصحابہ لابن حنبل،ج:۲ص:۶۶۶۔۶۳۸،فضائل علیؑ تاریخ دمشق ج:۲۱،ص:۴۱۵،سلمان بن اسلام کے حالات میں،ج:۳۲،ص:۵۳،علی بن ابی طالب کے حالات میں،و غیرہ۔

(۵)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۳۸۔۱۳۷،کتاب معرفۃ الصحابۃ،مجمع الزوائد،ج:۹ص:۱۱۴،کتاب مناقب،علی بن ابی طالب ع کے مناقب میں،المعجم الکبیر ج:۱۱ص:۶۵،ابن عباس سے روایت،تذکرۃ الحفاظ ج:۴ص:۱۲۳۱،سمرقندی کے حالات میں،سیر اعلام النبلاء ج:۱۱ص:۴۳۷،ابی صلت کے حالات میں تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۸۳۔۳۸۲۔۳۸۰۔۳۷۹۔۳۷۸،علی بن ابی طالب کے حالات میں،تہذیب التہذیب ج:۷ص:۲۹۶،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،ص:۳۷۴،عمر بن اسماعیل بن مجالد کے حالات میں،تہذیب الکمال ج:۱۸،ص:۷۹۔۷۸۔۷۷،عبدالسلام بن صالح کے حالات میں،ج:۲۰ص:۴۸۵،علی بن ابی طالب کے حالات میں،تاریخ جرجان ص:۶۵،احمد بن سلمۃ بن عمر الکوفی کے حالات میں،تاریخ بغداد ج:۷ص:۱۷۲،جعفر بن محمد ابی جعفر کے حالات میں،ج:۱۱ص:۵۰۔۴۹۔۴۸،عبدالسلام بن صالح بن سلیمان کے حالات میں،کشف الخفاء ص:۲۳۵،الفردوس بما ثور الخطاب ص:۴۴،فیض القدیر ج:۳ص:۴۶،الجرح و التعدیل ج:۶ص:۹۹عمر بن اسماعیل بن مجالد کے حالات میں،و غیرہ۔ (۶)سورہ بقرہ آیت:۱۸۹۔

۳۳۹

علی ؑ ہی امت نبی ؐ کے سب بڑے قاضی ہیں ۔(۱) اور دنیا و آخرت میں آپ کے علمدار ہیں(۲) اور یہ بھی کہ حضور سرور کائنات ؐ نے سورہ برائت کے ابتدائی حصوں کو ابوبکر کے حوالہ کیا کہ وہ جا کر مشرکین کے درمیان سنادیں پھر آپ نے امیرالمومنین ؑ کو بھیجا کہ ابوبکر سے سورہ لے لیں اور پیغِمبر ؐ کی طرف سے مشرکین کے درمیان اس سورہ کو پڑھ کے سنادیں،جب ابوبکر واپس آئے تو نبی ؐ سے پوچھا کہ خدا کے رسول ؐ کیا میرے بارے میں خداوند عالم نے کچھ نازل فرمایا ہے آپ نے فرمایا:نہیں لیکن جبرئیل آئے اور کہا کہ یہ فریضہ کوئی ادا نہیں کرسکتا مگر خود آپ یا پھر وہ جو آپ سے ہو ۔(۳)

اور نبی ؐ نے فرمایا کہ علی ؑ مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں،میری طرف سے واجبات کوئی ادا نہیں کرسکتا مگر علی ؑ(۴) اور فرمایا:اے علی ؑ جو مجھ سے الگ ہوا وہ خدا سے الگ ہوا اور جو تم سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الاستیعاب ج:۱ص:۱۷،فتح الباری ج:۸ص:۱۶۷،المعجم الصغیر ج:۱ص:۳۳۵،کشف الخفا ج:۱ص:۱۸۴،الریاض النضرۃ ج:۱ص:۲۲۸،تیسرا باب،تاریخ دمشق ج:۴۷،ص:۱۱۲،عویمر بن زید بن قیس ابی الدردا کے حالات میں،کنز العمال ج:۱۱ص:۶۴۲،حدیث:۳۳۱۲۱،ینابیع المودۃ ج:۲ص:۱۷۳،و غیرہ

(۲)المعجم الکبیر ج:۲ص:۲۴۷،روایت سماک بن حزب،تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۳۱۔۷۵،علی ابن ابی طالبؑ کے حالات میں،ج:۳۹،ص:۱۰۲،عثمان بن عفان کے حالات میں،الفردوس بما ثور الخطاب ج:۱ص:،کنزالعمال ج:۱۱ص:۶۱۲،حدیث:۳۲۹۶۵،ج:۱۳ص:۱۳۶،حدیث:۳۶۴۳۷،ینابیع المودۃ ج:۲ص:۱۶۷،المناقب للخوارزمی ص:۳۵۸،میزان الاعتدال ج:۷ص:۵،ناصح بن عبداللہ کوفی کے حالات میں،الکامل فی الضعفا الرجال ج:۷ص:۴۷،ناصح بن عبداللہ کے حالات میں و غیرہ

(۳)مجمع الزوائد ج:۷ص:۲۹ المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۵۳،تفسیر ابن کثیر ج:۲ص:۳۳۴،مسند احمد ج:۱ص:۱۵۱،فتح الباری ج:۸ص:۳۲۰۔۳۱۸،تحفۃ الاحوذی ج:۸ص:۳۸۶،فضائل الصحابہ لابن حنبل ج:۲ص:۷۰۳،تاریخ دمشق ج:۴۲ص:۳۴۸،شواہد التنزیل للحسکانی ج:۱ص:۳۱۱،کنز اعمال ج:۲ص:۴۲۲،حدیث:۴۴۰۰

(۴)سنن ترمذی ج:۵ص:۶۳۶،کتاب مناقب،سنن ابن ماجۃ ج:۱ص:۴۴،علی بن ابی طالبؑ کے فضائل میں،سنن کبریٰ نسائی ج:۵ص:۴۵،ابوبکر و عمر و عثمان کے فضائل میں،مسند احمد ج:۴ص:۱۶۵،الاحاد و المثانی ج:۳ص:۱۸۳،المعجم الکبیر ج:۴ص:۱۶،حبشی بن جنادہ سلولی کی روایت السنۃ لابن ابی عاصم ج:۲ص:۵۶۶۔۵۹۸،تذکرۃ الحفاظ،ج:۲ص:۴۵۵،کشف الخفا ج:۱ص:۲۳۶،تہذیب السما ج:۱ص:۳۱۸،فضائل الصحابۃ لابن حنبل ج:۲ص:۵۹۹،سیر اعلام النبلا ج:۸ص:۲۱۲،تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۴۵،علی بن ابی طالب کے حالات میں،و غیرہ

۳۴۰

الگ ہوا وہ مجھ سے الگ ہوا،(1) اور فرمایا:جو میری اطاعت کرے و اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور جو میری نافرمانی کرے وہ اللہ کی نافرمانی کرتا ہے جو علیؑ کی اطاعت کرے وہ میری اطاعت کرتا ہے اور جو علیؑ کی نافرمانی کرے وہ میری نافرمانی کرتا ہے۔(2) اور فرمایا:شب معراج میں مجھ پر وحی آئی کہ علیؑ کی تین صفتیں ہیں،1۔علیؑ سیدالمومنین ہے،2۔علیؑ امام المتقین ہے۔3۔اور علیؑ روشن پیشانی والوں کا قائد ہے))(3) آپ نے اکثر علیؑ کا تعارف امیرالمومنین(4) کہہ کے کرایا ہے،بلکہ مسلمانوں کی ایک جماعت کو حکم دیا کہ علیؑ کو امیرالمومنین کہہ کے سلام کریں(5) آپ جنگ تبوک میں جانے لگے تو علیؑ ہی کو اہل مدینہ پر خلیفہ مقرر کیا اور فرمایا:مناسب نہیں ہے کہ میں چلا جاؤں مگر یہ کہ تم(علیؑ)میرے خلیفہ رہو،(6) اور یہ کہ مدینہ کی اصلاح ہو ہی نہیں سکتی مگر مجھ سے یا تم(علیؑ)(7) سے،دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا((تم میرے لئے ویسے ہی ہو جیسے ہاروں موسیٰ کے لئے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبیؐ نہ ہوگا۔(8)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)المستدرک علی صحیحین ج:3ص:133،کتاب معرفۃ الصحابہ،مجمع الزوائد ج:9ص:135،کتاب مناقب،باب الحق مع علی،مسند البراز ج:9ص:455،معجم شیوخ ابی بکر الاسماعیلی ج:3ص:800،المعجم الکبیر ج:12،ص:423،فضائل صحابۃ ج:2ص:570،فیض القدیر ج:4ص:357،میزان الاعتدال ج:3ص:30،داود بن عوف کے حالات میں،ص:75،رزین بن عقبہ کے حالات میں،تاریخ دمشق ج:42،ص:307،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،و غیرہ

(2)المستدرک علی صحیحین ج:3ص:131،کتاب معرفۃ الصحابہ معجم شیوخ ابی بکر اسماعیلی ج:1ص:485،الکامل فی ضعفا الرجال ج:4ص:349،عبادۃ بن زیاد کے حالات میں،تاریخ دمشق ج:42،ص:307،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،و غیرہ

(3)اس کا مدرک چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے

(4)اس کا حوالہ چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے (5)تاریخ دمشق ج:42ص:303

(6)المستدرک علی صحیحین ج:3ص:143،کتاب معرفت صحابہ امیرالمومنینؑ کے اسلام کا ذکر،مجمع الزوائد ج:9ص:120،کتاب مناقب باب مناقب علی بن ابی طالبؑ میں،مسند احمد ج:1ص:330،مسند عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب،المعجم الکبیر ج:12،ص:98،السنۃ لابن ابی عاصم ج:2ص:566۔565،الاصابۃ ج:4ص:568،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،ریاض النضرۃ ج:2ص:190،تیسری فصل میں،فضائل صحابہ لابن حنبل ج:2ص:648،

(7)المستدرک علی صحیحین ج:2ص:367،کتاب تفسیر،تفسیر سورہ توبہ،کنزالعمال ج:11ص:607،حدیث32933،ج:13ص:172،حدیث:36517،ینابیع المودۃ ج:1ص:344،میزان الاعتدال ج:2ص:324،حفص بن عمر الابلی کے حالات میں،لسان المیزان ج:2ص:324،حفض بن عمر الابلی کے حالات میں،و غیرہ

(8)اس کا مدرک چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے

۳۴۱

ابن عباس سے روایت ہے:وہ امیرالمومنین ؑ کے حوالے سے کہتے ہیں جب نبی ؐ پر یہ آیت نازل ہوئی((وانذر عشیرتک الاقربین))اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے)) تو بنی عبدالمطلب سے نبی ؐ سے گفتگو ہونے لگی پھر نبی ؐ نے خطبہ دیا اور فرمایا:اے بنوعبدالمطلب!میں تمہارے پاس دنیا آخرت کی بھلائی لیکر آیا ہوں،مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ میں تم لوگوں کو اس کی طرف بلاؤں،پس تم میں سے کون ہے جو اس شرط پر میرا ہاتھ بٹائے کہ وہ تمہارے درمیان میرا بھائی،وصی اور خلیفہ قرار پائے))ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ سن کے لوگ آپ کو چھوڑ ک چلے گئے ۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ مولائے کائنات ؑ نے فرمایا:میں اس وقت بہت کمسن تھا میری آنکھیں چھوٹی اور پن ڈ لیاں پتلی تھیں،لیکن میں نے آواز دی یا رسول اللہ ؐ میں آپ کا ہاتھ بٹاؤں گا اور اس امر میں آپ کی وزارت کروں گا سرکار دو عالم ؐ نے یہ سن کے میری گردن پر ہاتھ رکھا اور فرمایا:بےشک یہ میرا بھائی میرا وصی اور تم لوگوں میں میرا خلیفہ ہے ۔ اس کی باتیں سنو اور اس کا حکم مانو!علی ؑ فرماتے ہیں یہ سن کے لوگ ہنسنے لگے اور(میرے والد)ابوطالب ؑ سے کہنے لگے کہ یہ)حضور اکرم ؐ )تو کو حکم دیتے ہیں کہ اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کا حکم مانو!(1)

اللہ نے ولایت علی ؑ کو یہ کہہ کے ثابت کیا کہ((بےشک تمہارا ولی تو اللہ ہے اور اس کا رسول ؐ ہے اور وہ صاحبان ایمان ہیں جو حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں))(2) حدیثیں بتاتی ہیں کہ یہ آیت امیرالمومنین ؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) تاریخ طبری ج: 1 ص: 542 ۔ 543 ، ،شرح نہج البلاغہ ج:3 ص210 ،تفسیر ابن کثیر ج:3 ص 352 البدایہ والنہایہ ج :3ص:40 تفسیر طبری ج9ص:122

(2)سورہ مائدہآیت :55

(1)تفسیر قرطبی ج: 6 ص: 288 ،تفسیر ابن کثیر ج: 2 ص: 72 مجمع الزوائد ج: 7 ص: 17 ،کتاب التفسیر، ،کتاب المعجم الاوسط ج: 6 ص: 218 ۔فتح القدیر ج: 2 ص: 3 ،زاد المسیر ج: 2 ص: 382 ،احکام القرآن جصاص،ج: 4 ص: 102 ،باب نماز میں معمولی فعل،روح المعانی ج: 6 ص: 167 ،شواہد التزیل،حسکانی ج: 1 ص: 211 ۔ 210 ۔ 209 ،تاریخ دمشق ج: 42 ،ص: 357 ،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں اور ج: 5 ص: 303 ،عمر بن علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،کنز العمال ج: 13 ،ص: 108 ،حدیث: 36354 ،و غیرہ منابع،

۳۴۲

اسی طرح پیغمبر ؐ نے بھی ولایت علی ؑ یہ کہہ کے ثابت کی ہے کہ((میرے بعد علی ہی تمہارے ولی ہیں))(1) بلکہ نبی ؐ نے علی ؑ کو مومنین پر ان کے نفوس سے بھی اولیٰ قرار دیا ہے،حدیث غدیر آپ کے سابقہ سوالوں کے ساتویں سوال کے جواب میں گذرچکی ہے،حدیث غدیر کے سیاق سے امیرالمومنین ؑ کی امامت ثابت ہوتی ہے اس لئے کہ اولیٰ بالمومنین صرف وہی ہوسکتا ہے جس کے اندر مومنین کی قیادت کی صلاحیت ہو پس ثابت ہوا کہ امامت مکمل ہو ہی نہیں سکتی جب تک امام کو ماموم پر اولیت نہ حاصل ہو،اس کتاب کے مقدمہ میں اس سلسلے میں گفتگو ہوچکی ہے،اس کے علاوہ بھی بہت سی حدیثیں ہیں جو خاص طور سے علی ؑ اور عام طور سے اہل بیت ؑ کے حق میں وارد ہوئی ہیں ۔

فضائل علی ؑ و اہل بیت ؑ میں،میں نے یہ آیتیں اور حدیثیں پیش کردی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان تمام آیات و احادیث کے حوالہ اسناد بھی پیش کروں گا اور یہ کہ ہر حدیث و آیت کا مدلول کیا ہے؟اور ان آیات و احادیث پر کیا اعتراضات ہوئے ہیں؟دشمنان اہل بیت ؑ نے جو ان حدیثوں کے رخ کو موڑنا چاہا ہے اس کے مفہوم میں تحریف کی ہے اور شیعوں نے جو اس کے جوابات دیئے ہیں ان تمام باتوں کو میں اس وقت عرض کرنے کی حالت(پوزیشن)میں نہین ہوں،اگر چہ یہ سب کچھ لکھا جائے تو کئی جلد کتابیں تیار ہوجائیں گی اور گفتگو بہت طویل ہوجائے گی،اس سلسلے میں ہمارے علمائے ابرار ؓ نے جو کتابیں تحریر فرمائی ہیں اور ان آیات و احادیث کی جو چھان بین کی ہے وہی کافی ہے،میں نے بہت اختصار و اجمال سے کام لیا ہے اور جو کچھ بھی عرض کیا ہے وہ سند اور حوالے کا محتاج نہیں ہے ۔

----------------

( 1) مجمع الزوائد ج: 9 ص: 128 ،سنن کبری نسائی ج: 5 ص: 133 ،کتاب خصائص خصوصیت علی بن ابی طالبؑ میں،المعجم الاوسط ج: 6 ص: 163 ،مسند احمد ج: 5 ص: 356 ،برید اسلمی کی حدیث میں،الفردوس بما ثور الخطاب ج: 5 ص: 392 ،فتح الباری ج: 8 ص: 67 ،تحفۃ الاحوذی ج: 10 ،ص: 147 ۔ 146 ،فیض القدیر ج: 4 ص: 357 ،الاصابۃ ج: 6 ص: 623 ،وہب بن حمزہ کے حالات میں،الریاض النضرۃ ج: 2 ص: 187 ،تاریخ دمشق ج: 42 ص: 189 ،حالات علی بن ابی طالب،فضائل الصحابہ لابن حنبل ج: 2 ص: 688 ،البدایۃ و النہایۃ ج: 7 ص: 346 ۔ 344 ،

۳۴۳

اسی طرح میرا مقصد یہ بھی نہیں ہے کہ ہر حدیث کے مدلول کی کوئی تعریف کروں کہ کونسی حدیث علی ؑ اور اہل بیت ؑ کی کس فضیلت پر دلالت کرتی ہے،بلکہ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ ایک انصاف پسند کو یقین آجائے کہ ایک طرف اہل بیت ؑ اور علی ؑ کے فضائل میں احادیث و آیات کا ذخیرہ موجود ہے جو متفق علیہ اور ناقبال انکار ہے،ان مضبوط دلیلوں کے مقابلے میں ابوبکر کی فضیلت میں ایک لولی لنگڑی اور مریض حدیث حادثہ صلوٰۃ کی ہے،کیا ان مضبوط دلائل کو چھوڑ کے اس اپاہج حدیث کی بنیاد پر ایک صاحب انصاف کی نظر میں علی ؑ کو محروم اور ابوبکر کو خلیفہ تسلیم کرلینا صحیح ہے؟انصاف آپ کے ہاتھ میں ہے ۔

ان تمام باتوں کا ماحصل یہ ہے کہ حقائق آپ کے سامنے ہیں اور ہر انسان کو اختیار ہے کہ جو اسے اچھا لگے وہ اپنالے اور آثار و قرائن کی بنیاد جو واقعیت سے قریب معلوم ہو اسے اختیار کر لے،البتہ مقصد رضائے پروردگار ہونا چاہئے اور خدا کے سامنے معقول عذر پیش کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئے اس لئے کہ ہم سب کو اسی کے سامنے پیش ہونا ہے اور اس کے سامنے کھڑے ہونا ہے،ارشاد ہوتا ہے((ایک دن آئے گا جب ہر نفس پنی انجام دی ہوئی نیکیوں کو اپنے سامنے موجود پائے گا اور جس نے برائیاں انجام دی ہیں وہ تمنا کریں گے کہ کاش ان کے اور ان کے اعمال کے درمیان ایک لمبا فاصلہ ہوتا،اللہ اپنے آپ سے تمہیں ڈ راتا ہے اور اللہ تو اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے))(1) غالباً گذشتہ صفحات میں اور ابھی تھوڑی دیر پہلے بھی یہ بات عرض کی جاچکی ہے کہ بعض مورخین کے مطابق عام مہاجرین و انصار کو اس معاملے میں ذرا بھی شک نہیں تھا کہ خلافت علی ؑ کا حق ہے اور علی ؑ ہی پیغمبر ؐ کے بعد صاحب امر ہیں،جیسا کہ اہل بیت ؑ اور ایک بڑی جماعت بھی یہ سمجھ رہی تھی کہ خلافت اہل بیت ؑ کا حق ہے اور اہل بیت ؑ میں بھی خاص طور سے علی ؑ کا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ آل عمران آیت 30

۳۴۴

خلافت ایک اہم منصب ہے،اس کی طرف صرف اشار کرنا کافی نہیں ہے

4 ۔ خلافت کی اہمیت کے پیش نظر صرف اس کی طرف اشارہ و تلمیح سے کام لے کر خلیفہ کا معین کرنا کافی نہیں ہے،خصوصاً اس لئے بھی کہ یہ منصب اپنے اندر اتنی چمک اور کشش رکھتا ہے کہ ہر ایک کے دل میں اس کی خواہش پیدا ہوسکتی ہے اور کوئی بھی اس کی طمع کرسکتا ہے ۔

یہاں تو لوگ نصوص صریحہ کی تاویل کرنے سے باز نہیں آتے بلکہ ان کو اپنے مقصد کے مطابق توڑ مروڑ کے تحریف کرکے ان کے رخ کو اپنی طرف موڑ دیتے ہیں اور اصل منصوص بالخلافۃ کو محروم کردے رہے ہیں پھر اشارے کنائے کی کیا حیثیت ہے؟اشاروں سے غافل رہنا تو آسان ہے،جس طرح اشاروں سے کھیلنا آسان ہے،بلکہ اس طرح کے اہم امور میں اشاروں پر اکتفا کرنا تو فتنوں کو جنم دیتا ہے امت میں اختلاف کا سبب بنتا ہے،امت کو وادی حیرت و ضلال میں ڈ ال دیتا ہے،حالانکہ اسلام کی مضبوط شریعت ان کمزوریوں سے پاک ہے اور اسلام کا عظیم نبی ؐ ان نقائص سے منزّہ ہے ۔

حقیقت کا شبہات سے پاک ہونا ضروری ہے

سابقہ سوالوں کے جواب میں یہ بات عرض کی جاچکی ہے کہ حقیقت روشن ہوتی ہے،اس میں شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہوتی،اس لئے کہ خداوند عالم نے اس کے لئے حجت کا فیہ کا انتظام کیا ہے،جس سے انکار وہی کرےا جس کو حق سے دشمنی ہوگی یا پھر وہ انکار کرے گا جو حق کو محض غفلت اور سستی کی وجہ سے ٹالنا چاہتا ہے اور خدا کے نزدیک ان دونوں کے پاس کوئی عذر نہیں ہے ہمارے لئے بہتر یہی ہے کہ اس سلسلے میں کافی وقت نظر کے ساتھ حقیقت کا یقین اور اس کی حد بندی کرلیں گذشتہ باتوں کی بنیاد پر ہم اس حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں،لیکن اس کے ان مضامین کا بلکہ اکثر مضامین کا تذکرہ کرنا بہتر ہے ۔

۳۴۵

دعوتِ اصلاح کے راستے میں رکاوٹیں

اصلاحی دوتوں کو بہت سی رکاوٹوں اور مشکلوں کا سامان کرنا پڑتا ہے،یہ مشکلات دعوت کی نشر و اشاعت کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہیں اور سماج کے ہر طبقہ تک نہیں پہنچنے دیتی ہیں یہ مشکلیں دعوت کے اوامر و نواہی میں مانع ہوتی ہیں اور ان کی تنقید نہیں ہوپاتی،ایسا یا تو دعوت کی کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے یا وہ خارجی عوامل ہیں جن کی وجہ سے دعوت کے پھیلنے میں تاخیر،بلکہ تعویق ہوتی ہے۔

سب سے بڑی رکاوٹ خود اہل دعوت کا داخلی اختلافات ہوتا ہے

دعوت اصلاح کے سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ اہل دعوت کا داخلی اختلافات ہوتا ہے جو ان کے ذاتی اجتھاد کا نتیجہ ہوتا ہے یا پھر یہ کہ لوگ جان بوجھ کے اپنے اغراض و اھداف کے مطابق ان کی تحریف کرلیتے ہیں اور دعوت کو اس کی حدوں سے باہر نکال دیتے ہیں تا کہ اس تحریف سے وہ مقاصد حاصل ہوسکیں جو دعوت کے خلاف یا اس کو نقصان پہنچانے والے ہیں،اکثر تو ایسا ہوتا ہے کہ داخلی اختلافات اور ذاتی اجتھاد کی وجہ سے خود دعوت کا چہر مسخ ہوجاتا ہے اور اصلاح کی دعوت کو موت آجاتی ہے ۔

اختلاف و افتراق ہی کے درمیان آسمانی مذہب کی جانچ ہوجاتی ہے

آسمانی مذہب کی جانچ پرکھ تو اسی اختلاف و افتراق پر منحصر ہے،اس لئے آسمانی مذہب کسی بھی کمی یا نقص سے پاک ہوتا ہے،کیونکہ آسمانی مذہب اس خدائے واحد و عادل کی طرف سے صادر ہوتا ہے،جو مدیر،لطیف خبیر،علیم اور حکیم ہے ۔(1) (( گوشہ چشم کے اشاروں کے ساتھ دلوں کے حالات بھی جانتا ہے))اس کی نظر سے آسمان و زمین کا کوئی ذرہ بھی پوشیدہ نہیں ہے(2) اور وہ ہر چیز پر محیط ہے اس پروردگار کی طرف سے جو بھی نظام آئے گا وہ اسکا مشروع کیا ہوا ہوگا،سب سے کامل نظام ہوگا اور جہاں بھی وہ نظام بھیجا جائے گا وہاں کے ماحول کے مطابق ہوگا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ غافر آیت: 19 (2) سورہ سبا آیت: 3

۳۴۶

قرآن مجید،اختلاف سے بچنے کی سخت ہدایت کرتا ہے

یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید اختلاف و افتراق سے بچنے کی سخت تاکید کرتا ہے اور وحدت اور اتفاق کی پر زور دعوت دیتا ہے ارشاد ہوتا ہے((اور خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور اختلاف نہ کرو)(1) دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے:ان کے جیسے نہ ہوجاؤ جنہوں نے آپس میں اختلاف کیا اور روشن نشانیاں آنے بعد متفرق ہوگئے،ان کے لئے بڑا عذاب ہے ۔(2)

پھر ارشاد ہوتا ہے : وہ لوگ جو اپنے دین میں تفرقہ پیدا کرکے ایک الگ گروہ بناتے ہیں آپ ان سے کوئی مطلب نہیں ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ، پھر انھیں بتایا جائے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں(3)

نبی کا اعلان کہ امت میں فرقے ہوں گے

اس کے ساتھ ہی پیغِمبر اعظم ؐ نے بھی بارہا اعلان کیا کہ امت میں اختلاف ہوگا اور فرقے پیدا ہوجائیں گےٹھیک اسی طرح جیسے سابقہ امتوں میں اختلاف ہوچکا ہے،آپ نے فرمایا:یہودیوں کے اکہتر فرقے ہوئے ایک جنتی بقیہ جہنمی ہیں،نصرانیوں کے بہتر فرقے ہوئے ایک جنتی اور اکہتر جہنمی ہیں اور یہ(میری)امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوگی،بہتر جہنمی اور ایک جہنمی اور ایک جنتی ہوگا ۔(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ آل عمران آیت:103

(2)سورہ آل عمران آیت:105

(3)سورہ نعام آیت:159

(4)مجمع الزوائد ج:6ص:233،کتاب قتال اہل بغی باب خوارج اور ج:7ص:258،کتاب فتن،باب امتوں کا مختلف فرقوں میں بٹ جانا،اور سنتوں کی پیروی کرنا،تفسیر قرطبی ج:4ص:160،تفسیر ابن کثیر ج:2ص:78،سنن درامی ج:2ص:314،کتاب سیر باب امتوں کا آپس میں فرقہ فرقہ ہونا،مصابح الزجاجۃ ج:4ص:179،کتاب فتن،امتوں کا آپس میں بٹ جانا،مسند ابی یعلی ج:6ص:341،وہ روایات جو ابونضرہ بن انس سے کی ہے،معجم الکبیر ج:8ص:273،اعتقاد اہل سنت ج:1ص:103،السنۃ لابن عاصم ج:1ص:32،الترغیب و الترھیب ج:1ص:44،حلیۃ الاولیاء ج:3ص:227)

۳۴۷

یہ روایت ان حدیثوں کے مطابق ہے جو سرکار دو عالم ؐ سے تواتر کے ساتھ وارد ہوئی ہیں(کہ امت مسلمہ سابقہ امتوں کے راستے پر چلے گی)حدیث میں ہے کہ(بیشک تم ضرور پیروی کروگے اپنے پہلے والوں کے قدم بہ قدم اور دست بہ دست،اگر وہ بجوکے سوراخ میں بھی داخل ہوتے تھے تو تم بھی داخل ہوگے)راوی نے پوچھا کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد گذشتہ لوگوں سے یہود و نصاریٰ ہیں؟آپ نے فرمایا پھر کون؟(1)

اس لئے سابقہ امتوں کے افتراق میں شک کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں ہے،قرآن مجید بہت وضاحت سے ان کے اختلاف پر روشنی ڈ التا ہے ۔

مسلمانوں کو فتنوں سے ڈرایا گیا اور انہیں خوف دلایا گیا

افتراق امت کی پیش گوئی کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو اکثر فتنوں سے ڈ رایا گیا اور ان کے برے انجام سے آگاہ کیا گیا،انہیں بتایا گیا کہ ان کا امتحان لازمی ہے اور آزمائش حتمی ہے،ارشاد ہوتا ہے کہ:((وہ لوگ جو امر الٰہی کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈ رنا چاہئے کہ انہیں یا تو کوئی فتنہ دبوچ لے گا یا وہ عذاب الیم سے دوچار ہوجائیں گے)) ۔(2) ایک مقام پر ارشاد ہوا ہے کہ:اس فتنہ سے ڈ رو جو خاص ان لوگوں کو نہیں پہنچے گا جنھوں نے ظلم کیا ہے اور یہ جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے(3) اور پھر ارشاد ہوا:محمد نہیں ہیں مگر رسول ان کے پہلے بھی رسول گذرچکے ہیں،پس اگر وہ مرجائیں یا قتل ہوجائیں تو کیا تم اپنے پچھلے مذہب پر واپس ہوجاؤگے؟اور جو اپنے پچھلے پیروں واپس ہوگا اس سے خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا،خدا عنقریب شکرگذاروں کو جزا دے گا ۔(4) ارشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) صحیح بخاری ج: 6 ص: 2269 ،اور ج: 3 ص: 1274 ،سنن ابن ماجہ ج: 2 ص: 1322 ،کتاب فتن،امتوں کا آپس میں فرقہ فرقہ ہونا،مجمع الزوائد ج: 7 ص: 261 ،مستدرک علی صحیحین ج: 1 ص: 93 ،صحیح ابن جبان ج: 15 ص: 95 ،مسند احمد ج: 2 ص: 511 ۔ 327 ،مسند ابی ہریرہ ج: 3 ص: 89 ،مسند طیالسی ج: 2 ص: 289 ،

( 2) سورہ نور آیت: 63 (3) سورہ انفال آیت: 25 (4) سورہ آل عمران آیت: 144

۳۴۸

خداوند ہوا کہ((کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ انھیں یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا اور آزمایا نہیں جائے گا؟اس سے پہلے بھی ہم لوگوں کو آزماچکے ہیں اور اللہ تو جانتا ہی ہے کہ ان میں جھوٹا کون ہے اور سچا کون ہے؟(1) ایک مقام پر خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے((اللہ مومنین کو اسی حال میں نہیں چھوڑ دےگا جیسے تم ہو یہاں تک کہ خبیث اور طیب الگ الگ ہوجائے اللہ تمہیں غیب کی خبر نہیں دینے جارہا ہے ۔(2)

سرکار دو عالم ؐ نے فرمایا:ہمارے بعد کا فرمت ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو))اور حدیث حوض میں آپ نے ارشاد فرمایا:

لیکن تم نے میرے بعد بہت سے حرکتیں انجام دیں اور پچھلے مذہب پر رجعت قہری کر بیٹھے))اس کے علاوہ بھی بہت سی حدیثیں ہیں جو آپ کے سابقہ سوالوں میں سے دوسرے سوال کے جواب میں پیش کی جاچکی ہیں ۔

اختلاف کے نتائج سے آگاہ کیا گیا اور اس کے خطروں سے خبردار کیا گیا

کسی بھی حقیقت پسند انسان کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ فتنوں سے بچنے کے لئے اور اختلاف سے پرہیز کی ہدایت کے لئے جو آیتیں اور احادیث وارد ہوئی ہیں ان کے مضامین بہت سخت ہیں اور ان میں بھیانک نتائج سے متنبہ کیا گیا ہے مثلاً جو لوگ اس فتنے میں ملوث ہوں گے انھیں انقلاب پذیر،مرتد،خبیث اور کافر جیسے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے،یہ فیصلہ کردیا گیا ہے کہ جو حق کی مخالفت کرکے کوئی فرقہ بنائے گا وہ اپنے فرقہ کے ساتھ جہنم میں جائے گا اس لئے کہ فرقہ حق سے خروج کے بعد کفر سے الحاق لازمی ہے،جو خسران اور ہلاکت کا سبب ہے،صرف اسلام کی ظاہری صورت اور اس کا اعلان دعوت کسی بھی طرح نفع بخش نہیں ہوگا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ عنکبوت آیت: 2 ۔ 3

( 2) سورہ آل عمران آیت: 179

۳۴۹

قرآن مجید نے سابقہ امتوں کے کردار کو مقام مثال میں رکھ کے سمجھایا ہے ارشاد ہوا:اور ان لوگوں کی طرح مت ہوجاؤ جنھوں نے فرقے بنائے اور روشن آیتیں آنے کے بعد بھی اختلاف کر بیٹھے،ان کے لئے تو بڑا عذاب ہے،اس دن کچھ چہرے نورانی اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے ان سے کہا جائے گا کہ کیا تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے اب اپنے کفر کا مزہ چکھو اور جن کے چہرےنورانی ہوں گے وہ تو اللہ کی رحمت کے سائے میں ہوں گے اور ہمیشہ رحمت میں ہی رہیں گے ۔(1)

ارشاد خداوندی ہوا کہ:((اللہ چاہتا تو وہ لوگ جنھوں نے دلیلیں آنے کے بعد بھی آپس میں قتال کیا نہ کرتے لیکن انھوں نے اختلاف کیا پس ان میں سے کچھ تو مومن ہی رہے اور کچھ کافی ہوگئے)) ۔(2)

ایک اور مقام پر ارشاد ہوا:((اس سے اختلاف کرنے والے تو صرف بغاوت کی بنا پر اختلاف کر رہے ہیں اس لئے کہ یہ اختلاف،ان کے پاس نشانیاں آنے کے بعد شروع ہوا ہے،پس صاحبان ایمان کو تو اللہ نے ہدایت پر باقی رکھا اور اس اختلاف سے انھیں اپنی اجازت سے بچائے رکھا اور اللہ جسے چاہتا ہے راہ مستقیم کی ہدایت کرتا ہے))(3)

خطرناک اختلاف کے پیش نظر واضح و آشکار حجت کا ہونا لازم ہے

دین میں اختلاف،ایک خطرناک اختلاف ہے،دین میں فرقہ بندی ایک بہت ہی نقصان دہ عمل ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس کے خلاف واضح حجت اور کافی مواد موجود ہوتا کہ اگر کوئی دین سے خارج ہوجائے تو روز قیامت یہ عذر نہ پیش کرسکے کہ ہم کیا کریں؟سمجھ نہیں پائے بلکہ دلیلیں اتنی واضح ہونی چاہئیں کہ جو دین سے خارج ہوتا ہے وہ صرف اپنے دل کی گندگی و شقاوت ہی کی بنیاد پر نکلے یا پھر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ آل عمران آیت: 105 ۔ 107

( 2) سورہ بقری آیت: 253

( 3) سورہ بقری آیت: 213

۳۵۰

پھر اس وجہ سے کہ وہ چمگادڑ کی طرح اندھا ہی رہنا چاہتا ہے اور حق کو دیکھنا ہی نہیں چاہتا اس کے سامنے سورج موجود ہے لیکن آنکھوں کو بند کئے پڑا ہے،سچائی سے غفلت یا تو اندھی تقلید کی وجہ سے ہے یا بےجا تعصب کی وجہ سے یا کوئی ایسا سبب ہے جسے کوئی معقول عذر نہیں کہا جاسکتا ۔ ارشاد درب العزت ہوتا ہے((ہم نے جہنم کے لئے بہت سے ایسےانسان و جنّات پیدا کئے ہیں جن کے پاس آنکھیں ہیں لیکن وہ دیکھ نہیں سکتے،کان ہے لیکن وہ سنتے نہیں ہیں،دل رکھتے ہیں لیکن سمجھاتے نہیں،وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے زیادہ گمراہ،اصل میں وہ غافل لوگ ہیں ۔(1)

آپ جانتے ہیں کہ انبیا کی بیعثت کا اہم ترین مقصد یہ ہے کہ حق پر حجۃ کا فیہ قائم ہوجائے،ہدایت کی علامتیں اور ایمان کے راستے واضح ہوجائیں تا کہ انسان جہنم سے بچنے اور جنت کے حاصل کرنے کا طریقہ جان لے،((تا کہ جو ہلاکت ہو وہ بغیر دلیل کے ہلاک نہ ہو اور جو زندہ رہے وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے))(2) (( اور تا کہ پیغمبروں کے بھیجنے کے بعد لوگوں کو خدا کے خلاف کوئی حجت میسر نہ ہو))(3) ارشاد خدائے تعالیٰ ہوتا ہے:((خدا کسی قوم کی ہدایت کرنے کے بعد گمراہ نہیں کیا کرتا،جب تک ان چیزوں کو واضح نہ کردے جن سے انھیں ڈ رنا ہے،اللہ تو ہر چیز سے واقف ہے))(4)

اسی طرح کے مضامین آیات کریمہ اور احادیث شریفہ سے مستفاد ہوتے ہیں جب اللہ یہ کہہ چکا ہے،خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور فرقے نہ بناؤ(5) اور یہ بھی ارشاد ہوا کہ((بیشک یہ میرا راستہ ہے جو بالکل سیدھا ہے،پس اس کی پیروی کرو اور دوسرے راستوں کی پیروی نہ کرو،ورنہ تم خدا کے راستہ سے الگ ہوجاؤگے،اللہ اسی بات کی تم سے سفارش کرتا ہے تا کہ تم صاحب تقویٰ ہوجاؤ)) ۔(6)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ اعراف آیت:179 (2)سورہ انفال آیت:42

(3)سورہ نسائ آیت:165

(4)سورہ توبہ آیت:115

(5)سورہ آل عمران آیت:103

(6)سورہ انعام آیت:153

۳۵۱

تو جب فرقہ بنانا اور اختلاف پیدا کرنا اتنا بڑا گناہ اور خطرناک عمل ہے تو کیا رفع اختلاف کے لئے یہ کافی ہے کہ حق کو مبہم چھوڑ دیا جائے کہ حبل متین کو شک کے تانے بانے میں الجھا دیا جائے یہ نہ بتایا جائے کہ حبل متین سے اعتصام کیسے ہوگا؟صراط مستقیم کیا ہے؟اور اس کی پیروی کرنے والوں کے لئے کیسے تحقق ہوگا؟سب کچھ تشنہ تفسیر رہے اور لوگوں کو اپنے طور پر اجتھاد کرنے کی کھلی چھوٹ مل جائے اس کے بعد پھر ہر فرقہ یہ دعویٰ کرنے لگے کہ حق تو فقط اسی کے پاس ہے اور دوسرے افراد باطل والے ہیں نہیں:بلکہ حق یہ ہے کہ خداوند عالم عادل اور کریم ہے،وہ کبھی نہیں چاہتا کہ اس کے بندے جہنم کے ایندھن بنیں،وہ یہ نہیں چاہتا کہ بندوں کے پاس جہالت کو رفع کرنے کے لئے واضح حجت نہ ہو اور قطعی عذر نہ ہو،خدا نہیں چاہتا ہے کہ حق کے بارے میں شک کی تھوڑی سی بھی گنجائش باقی رہ جائے اور نہ اتنا پیچیدہ ہوجائے کہ اصول کے بارے میں اجتھاد،تلاش،غور و فکر کی ضرورت محسوس کی جائے ۔

یہ تمام باتیں اس لئے عرض کررہا ہوں تا کہ آپ کو اس بات کا یقین ہوجائے کہ جب لوگ حقیقت سے اختلاف کی کوشش کرتے ہیں اور حق کو شک کے گھیرے میں لیکر بحث و مناظرہ کرتے ہیں تو حق کے پاس اپنے ثبوت کے لئے بہت ہی محکم دلیلیں اورروشن نشانیاں ہوتی ہین جن سے انکار کی بنیاد صرف دشمنی یا سیاہ بختی ہی ہوسکتی ہے ۔

اس بات کی مزید تائید خداوند عالم کے اس قول سے ہوتی ہے ارشاد ہوا((ان کے جیسے نہ ہوجانا جو دلیلیں آنے کے بعد بھی فرقہ بن گئے اور اختلاف کر بیٹھے(1) اس لئے کہ اختلاف و فرقہ بندی سے روکنے کے لئے کافی دلیلیں موجود تھیں اگر وہ لوگ اس کی پیروی کرتے اور عمداً ان دلیلوں کو نظرانداز نہ کرتے تو حق تک بہرحال پہنچ سکتے تھے ۔

خود سرور کائنات ؑ نے ارشاد فرمایا کہ:میں نے تمہیں روشنی میں کھڑا کردیا ہے،اس(روشنی)میں لا کے چھوڑا ہے جس کی راتیں بھی دن کی طرح روشن ہیں،اس کے باجود بھی گمراہ نہیں ہوگا مگر وہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ آل عمران آیت:105

۳۵۲

جس کے مقدر میں ہلاکت ہے ۔(1)

اس لئے کہ حق واضح اور روشن ہے اگر امت خلوص دل سے طلب کرنے کی کوشش کرے تو ہرگز محروم نہیں رہے گی،فتنہ پرور راتیں اور امتحان کے اندھرے شبہ کی تاریکیاں،حق پر پردہ نہیں ڈ ال سکتی ہیں اور حق کی علامتوں کو ضائع کرسکتی ہیں نہ اس کے آثار مٹاسکتی ہیں،بشرطیکہ چشم بینا اور گوش شنوا ہو ۔

اختلاف کا سب سے بڑا سبب ریاست طلبی ہے

حق تو یہ ہے کہ اختلاف اور فرقہ بندی کا سب سے بڑا سبب اقتدار و حکومت ہے،لوگوں پر حکومت کرنے کی خواہش اور انسانوں پر تسلّط حاصل کرنے کا جذبہ وہ ہے جس کی وجہ سے دعوت اصلاح دینے والوں کے درمیان اختلاف اور انتشار پیدا ہوتا ہے

1 ۔ ہر انسان میں فطری پر حکومت و اقتدار کی خواہش ہوتی ہے اور کبھی کبھی یہ جذبہ بہت شدید ہوجاتا ہے،نتیجہ میں انسان حکومت وقت سے اختلاف کر کے اپنا ایک الگ گروہ بنا لیتا ہے

2 ۔ حق بہرحال تلخ ہوتا ہے اور حق کی حکومت کو عام انسان برداشت کرنے میں مشکل محسوس کرتا ہے حالانکہ دعوت اصلاح کا پہلا اصول حکومت حقّہ کا قیام اور حق کا نفاذ ہے،ظاہر ہے کہ حق کو اکثریت برداشت نہیں کر پاتی اور اس کے خلاف علم بغاوت بلند کردیتی ہے چونکہ اصول پرست افراد جو حکومت حقہ کے ذمہ دار ہوتے ہیں،وہ حرف بہ حرف قانون کے پابند ہوتے ہیں اور قانون کی پابندی کرنا چاہتے ہیں،یہ بات بھی عام لوگوں پر گراں گذرتی ہے ۔

اسی کی طرف عمر بن خطاب نے اشارہ کیا تھا،جب امر خلافت کے سلسلے میں ابن عباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) مسند احمد ج: 4 ص: 126 ،تفسیر قرطبی ج: 7 ص: 138 ،مستدرک علی صحیحین ج: 1 ص: 175 ،السنۃ لابن ابی عاصم ج: 1 ص: 19 ،معجم الکبیر ج: 18 ص: 247 ۔ 257 ،مصباح الزجاجۃ ج: 1 ص: 5 ۔

۳۵۳

سے ان کی گفتگو ہورہی تھی تو عمر نے کہا تھا:خدا کی قسم اے ابن عباس!بے شک تمہارے چچازاد بھائی علی ؑ خلافت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں لیکن قریش ان کو برداشت نہیں کرپائیں گے،اس لئے کہ اگر انھیں حاکم بنادیا جائے تو وہ قریش کو حق کی تلخی کا مزہ چکھا کے رہیں گے،ان کی حکومت میں رخصت کی گنجائش نہیں ہوگی،نتیجہ میں لوگ ان کی بیعت توڑ دیں گے اور ان سے جنگ کرنا شروع کردیں گے ۔(1) امام جماعت ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس آدمی کے اندر امامت عامّہ کی بھی صلاحیت ہے ۔

اسلام میں پہلا اختلاف سلطنت ہی کے لئے ہوا اور یہ سب سے خطرناک اختلاف تھا

یہاں یہ بات بھی عرض کرتا چلوں کہ سب سے بڑا اور سب سے پہلا اختلاف جو امت اسلامیہ میں پیدا ہوا وہ خلافت و امامت کے سلسلے میں ہوا اور مصیبت یہ ہے کہ جیسے ہی حضور اکرم ؐ کی وفات ہوئی اس عظیم اختلاف میں امت مبتلا ہوگئی ۔

امامت اور خلافت کے موضوع پر صدر اسلام میں اتنے فتنے پیدا ہوئے،وہ چیخ پکار مچی اور اتنا ہنگامہ ہوا کہ جو بیان کے لائق نہیں ہے،یہاں تک کہ مخالفین اسلام بھی مسلمانوں پر طعن و تشنیع کرنے لگے اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔

لٰہذا ہمیں اس بات پر غور کرنا بہت ضروری ہے کہ جب امامت اسلام کا سب سے اختلافی مسئلہ ہے تو اللہ نے اسے تشنہ تفسیر نہیں چھوڑا ہوگا بلکہ اس مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر اور اس میں گنجائش اختلاف ہونے کی وجہ سے اللہ نے سب سے زیادہ اسی کی وضاحت پر زور دیا ہوگا،اس مسئلہ کی شرعی حیثیت اور قانونی اہمیت کے پیش نظر اس کو سب سے زیادہ روشن،واضع صاف اور کھلا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ یعقوبی ج:2ص:159،عمر بن خطاب کے ایام میں

۳۵۴

ہوا ہونا چاہئے کہ یہ فتنہ انگیز راتوں میں بھی سورج کی طرح چمکتا ہوا نظر آئے تا کہ اتمام حجت کے بعد بھی اگر کوئی اختلاف کرے،روشن دلیلوں کے بعد بھی اگر کوئی ہٹ دھرمی سے کام لے،حجتوں کے غلبے کے باوجود اگر کوئی اختلاف پر اصرار کرے تو نگاہ اعتبار فوراً یہ فیصلہ کرلے کہ اس اختلاف کے نتیجہ میں مخالف کو صرف گمراہی،ہلاکت،ہمیشہ کا نقصان اور جہنم کا ٹھکانہ نصیب ہوگا ۔

اسلام،معرفتِ امام کو سختی سے واجب اور اس کی اطاعت فرض قرار دیتا ہے

مندرجہ بالا مضمون کی تائید میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں جیسے((جو مرجائے اور اپنے امام وقت کو نہ پہچانے وہ جاہلیت کی موت مرا ہے))یا((جو بغیر امام کے مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرا ہے))اسی طرح کی بہت سی حدیثیں جو سابقہ سوالوں کے چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکی ہیں ۔

ان احادیث سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ امام کو نہ پہنچاننے والا سخت سزا کا مستحق ہے،بلکہ ہلاکت کا حقدار ہے اور امام وقت کو امام تسلیم نہ کرنے سے اور اس کا یقین نہ رکھنے سے مخالف امام کے خلاف حجت واضحہ قائم ہوجاتی ہے،جس حجت سے نکلنانا ممکن ہے اور جہالت کا عذر ناقابل قبول ہے ۔

حاکم برحق کی مادی کمزوری یہ ہے کہ وہ قانون شرع میں رعایت نہیں کرتا

خصوصاً حاکم صالح کی اصول پسندی جس کی وجہ سے وہ نظام الٰہی کو چلانے کی ذمہ داری کا حامل ہوا،اس کو اجازت نہیں دیتی کہ حکومت کو برقرار رکھنے کے لئے اور اپنی سلطنت کو چلانے کے لئے شریعت کے معاملے میں نرم پالیسی اختیار کرے اور سیاست سے کام لے اور یہی اس کی مادّی کمزوری ہے جسے اگر وہ دور کرنا چاہے تو اسے دین سے سودے بازی کرنی پڑے گی اور اس کے بدلے میں قانون الٰہی کو اس کی تمام وضاحتوں کے ساتھ چھوڑ دینا پڑے گا،دین کی سختی اور تیزی جس کے اوپر عمل کے مطابق وعد و وعید کا ترتب ہوتا ہے اسے چھوڑنی پڑے گی،لیکن اس کی اصول پسندی اس بات کو گوارہ

۳۵۵

نہیں کرے گی بلکہ وہ تو نفاذ قانون میں اتنا سخت ہوتا ہے کہ اہل دین تقویٰ اور اپنے خاص لوگوں کو بھی شریعت کے حدود سے آگے نہیں بڑھنے دیتا،اگر چہ وہ لوگ اس کی دعوت کا اعلان کرنا چاہتے ہیں اور حق سے متمسک بھی رہتے ہیں،لیکن وہ انھیں دین کی حدود سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دیتا،تا کہ ان کے ذریعہ وہ دوسروں پر حجت قائم کرے اور انہیں اہل دین کو ایک نمونہ بنا کے پیش کرسکے ۔

ناممکن ہے کہ نبیؐ نے امامت کی طرف صرف اشارے پر اکتفا کی ہو

اسی وجہ سے یہ بات عقل میں نہیں آتی اور عام آدمی اسے ناممکن سمجھتا ہے کہ نبی ؐ نے امر خلافت کی وضاحت کے لئے صرف تلمیحات،اشارات اور کنایات پر اکتفا کیا ہے،صورت مسئلہ کا تو تقاضا یہ ہے کہ یہاں بیان صریح ہونا چاہئے اور ایسی وضاحت ہونا چاہئے جس میں شک کی کوئی گنجائش اور اشتباہ کا کوئ شائبہ بھی نہ رہ جائے کہ اگر کوئی حد سے نکلے بھی تو محض اپنے عناد اور دشمنی کی وجہ سے یا پھر وہ ایسا جاہل ہو جس کی جہالت کا عذر ناقابل قبول ہو،آپ نے ابھی جو فرمایا کہ حادثہ صلواۃ میں امامتِ ابوبکر کی طرف اشارہ ملتا ہے تو آپ کو یہ جاننا چاہئے کہ مسئلہ امامت،اشارات و کنایات سے حل ہونے والا نہیں ہے،اس کے لئے تو واضح اور روشن دلیل چاہئے ۔

اسلام کے پاس ایسے نظام کا ہونا ضروری ہے جو خلافت کی تکمیل کرتا ہو!

5 ۔ پانچویں بات یہ ہے کہ امر خلافت اسلام کا سب سے اہم مسئلہ بھی ہے اور سب سے زیادہ الجھا ہوا مسئلہ بھی ہے،یہ ناممکن ہے کہ نبی ؐ نے صرف ابوبکر کی امامت کی طرف اشارہ کو کافی سمجھا ہو یا کسی دوسرے شخص کی طرف اشارہ کردیا ہو،بلکہ کسی ایک شخص کو امام معیّن کرنا بھی کافی نہیں ہوگا چاہے کتنی ہی وضاحت کے ذریعہ معیّن کیا جائے ۔

یہاں تو ضرورت ایک ایسے نظام کام کی ہے،ایک ایسے پیمانے کی ہے کہ جو پیمانہ ہمیشہ ہمیشہ تک قائم رہے کہ جب بھی کوئی امام دنیا سے اٹھے دوسرے امام اسی اصول و ضوابط کے معیار پر معیّن

۳۵۶

ہوجائے یعنی ایک معیار ہونا چاہئے جس کے مطابق امام کی شناخت ہوسکے،نظام بھی ایسا ہو جو واضح دلیلوں اور روشن حجتوں کا حامل ہو جس سے مسلمان کسی بھی دور میں اختلاف نہ کرسکے اور جس کی مخالفت کے لئے کوئی عذر نہ پیش کرسکے،چونکہ اسلام رہتی دنیا تک باقی رہے گا اس لئے وہ نظام جس کے معیار پر خلیفہ کا تعّین ہوتا ہے،اسے بھی اتنا پائدار ہونا چاہئے کہ وہ رہتی دنیا تک قائم رہے ۔

آپ کے سابقہ سوالوں کے چوتھے سوال کے جواب میں یہ تمام باتیں عرض کی جاچکی ہیں،ظاہر ہے کہ انہیں دُہرانے کی یہاں ضرورت نہیں ہے،جو حق کو پہچاننا چاہتا ہے،حقیقت تک پہنچنا چاہتا ہے اور اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ ان عبارتوں کا مطالعہ کرے ۔

آپ کے سوالوں کا یہی جواب ممکن ہوسکا ہے،میں اللہ سے مدد اور توفیق،تسدید اور تائید کا سوال کرتا ہوں،وہی ہمارے لئے کافی ہے اور بہترین وکیل ہے ۔

۳۵۷
۳۵۸

سوال نمبر ۔ 7

کیا یہ صحیح ہے کہ ائمہ ہدیٰ علیہم السلام ہی معاملات زندگی اور ضروریات دین کے علم سے مخصوص ہیں،دوسرے لوگ نہیں،جب کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ((آج میں نے تمہارے دین کو کامل کیا،تم پر نعمتیں تمام کیں اور میں تمہارے لئے دین اسلام سے راضی ہوا،(1)

جواب: ۔ اس سوال کے جواب میں چند باتیں عرض کی جارہی ہیں

ائمہؑ کا علم دین سے اختصاص اکمال دین کے منافی نہیں ہے

1 ۔ پہلی بات یہ کہ ائمہ ہدی علیہم السلام کا اختصاص بالعلم،اکمال دین کے منافی نہیں ہے اس لئے کہ اکمال دین کا مطلب ہے اس کے تمام احکام کی تشریع ہونا اور امت کے حق میں اسے صحیح قرار دینا،لیکن لوگوں تک اس دین کا پہنچنا اور اس کی تبلیغ معنائے اکمال سے خارج ہے،یہ تو ایک الحاقی مرحلہ ہے جو قانون بننے اور اس قانون کو صحیح قرار دینے کے بعد کی ضرورت ہے ۔

مثلاً ہمارے اس دور میں بھی قانون ساز اسمبلی یا کونسل قانون بناتی ہے اور تا امکان ایسے قوانین(جو ضروریات انسانی کے تقاضوں کو پورا کرنے میں کامل صلاحیت رکھتے ہیں)وضع کرتی ہے،پھر اس قانون کو می ڈ یا کے حوالے کرتی ہے تا کہ اس کا اعلان سرکاری جریدوں میں یا ری ڈ یو و غیرہ پر ہوجائے کیونکہ قانون بنانے کا فائدہ اس وقت تک حاصل نہیں ہوگا جب تک قانون لوگوں تک پہنچا نہ دیا جائے تا کہ لوگ اس پر عمل کرنا شروع کردیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں،اب دین اسلام کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ مائدہ آیت 3

۳۵۹

طرف آئیں،اللہ نے اسلام کا قانون وضع کیا،لیکن صرف قانون وضع کردینے سے لوگوں کو کای فائدہ ہوا؟اس لئے لطف الٰہی کے قاعدہ کو تسلیم کرتے ہوئے فرقہ امامیہ کہتا ہے کہ اس کی حکمت اور لطف و کرم کا تقاضا یہ ہے کہ وہ پیغمبروں اور اماموں کو بھیجے،یہ ارسال(انبیا و ائمہ علیہم السلام کا خدا کی طرف بھیجا جانا)اس پر واجب ہے،لیکن یہ ایک دوسری بات ہے اس کا اکمال دین سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یعنی دین کا کامل ہونا اس کی تبلیغ پر موقوف نہیں ہے ۔

اتنا ہی بتا دینا کافی ہے کہ احکام دین کا مرجع کون ہے؟

لیکن اکمال دین کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امت کہ ہر فرد کو احکام دین سے واقف کرادیا جائے اور دین کا ہر فرعی حکم ان تک بلکہ ان میں سے ہر ایک تک پہنچا دیا جائے،بلکہ حصول علم کا امکان پیدا کردینا کافی ہے اور یہ امکان اس وقت بہرحال حاصل ہوجاتا ہے جب ائمہ ؑ کے بارے میں یہ مان لیا جاے کہ وہ اللہ سے علم حاصل کرتے ہیں اور ان کے پاس علم حاصل کرنے کا طریقہ اور ذریعہ موجود ہے،یہی وجہ ہے کہ وہ امت پر امام نصب کیے گئے ہیں،انھیں اللہ نے حلال اور حرام کی دلیل بنایا ہے،تشریع و احکام کی معرفت کا مرجع قرار دیا ہے،انھیں کو امت کے اوپر حجت کافیہ بنایا ہے تا کہ امت دین کے معاملات میں ان کی طرف رجوع کرے اور ان سے دین کو سمجھے ۔

اسے یوں سمجھ لیجئے کہ دور نبی ؐ میں بھی امت کے تمام افراد تو دین کے قوانین اور اس کے تمام احکام سے واقف نہیں تھے،دین کے تمام احکام کا علم تو صرف نبی ؐ سے مخصوص تھا البتہ امت کے لئے یہ ممکن تھا کہ نبی ؐ کی طرف رجوع کرکے دین کے احکام و قوانین کو حاصل کرلے،اس لئے امت کو نبی ؐ کی اطاعت کا حکم دیا گیا تھا اور یہ کہ نبی ؐ سے دین حاصل کریں ۔

بلکہ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جمہور اہل سنت کے نزدیک بھی عام مسلمان ہر دور میں احکام دین سے جاہل رہتا ہے وہ احکام جو کتاب و سنت میں بیان کردئے گئے ہیں اگر چہ سنت کے تعین میں اختلاف ہے،مگر بہرحال مسلمان ان احکام سے ناواقف رہتا ہے اور جب تک ان فقیہوں کی طرف

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367