فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ10%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206447 / ڈاؤنلوڈ: 5999
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

سوال نمبر۱

قرآن مجید کے متعلق شیعوں کا کیا نظریہ ہے کہ قرآن کریم جب امت محمد ؐ یہ کے حالات پر نظر ڈ التا ہے اور اللہ کے نزدیک ان کے درجات اور مقام و منزلت کو تعین کرتا ہے اور انھیں دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے!

ایک قسم وہ جو زمانے سے محدود ہے یہ وہ لوگ ہیں جن پر سابقون،اوّلون کا اطلاق ہوتا ہے چاہے وہ انصار میں سے ہوں یا مہاجتیں میں سے اور عام طور سے صحابہ و غیرہ کا لفظ قرآن اور حدیث میں جہاں بھی آیا ہے اس سے یہی سابقون اوّلون مراد ہیں چاہے یہ لوگ احسان کی پیروی کریں یا نہ کریں،اللہ بہرحال ان سے راضی ہے.

دوسری قسم وہ ہے جن کے لئے اتباع بالاحسان کی شرط رکھی گئی ہے،حالانکہ ان میں بھی اکثر افراد پر قرآن مجید کی زیر نظر آیت کے دوسرے حصے میں((صحابہ،لفظ کا اطلاق ہوتا ہے ارشاد ہوتا ہے کہ:((اور سابقوں اوّلون کے مہاجر و انصار اور وہ لوگ جنھوں نے نیکی میں ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں،ان کے لئے ایسے باغات تیار کئے گئے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے))

(سورہ توبہ آیت ۱۰۰)

۲۱

تو پھر اگر ان سابقون اوّلون میں سے کسی کے بارے میں کوئی ایسی بات منقول ہو جس میں ان کا گناہ،نافرمانی،حق کی مخالفت،یا بدبختی ثابت ہو تو کیا ہم متاخرین کے لئے یہ صحیح ہے کہ ہم اپنی زبان کو ان کے بارے میں آزاد چھوڑدیں؟(اور جو منھ میں آئے کہہ ڈ الیں)جب کہ سنّت نبوی ؐ کا فیصلہ ہے کہ ہم ایسا نہیں کرسکتے اور نہ ہی اس صحابہ کی اس فعل قبیح میں پیروی کرسکتے ہیں جس کی برائی ظاہر ہے بلکہ بہتر یہ ہے کہ اس صحابی کی منزلت جو اللہ کے نزدیک ہے اس کا مسئلہ اللہ پر چھوڑدیں اس لئے کہ اللہ ہی ان کے حالات سے اچھی طرح باخبر ہے جیسا کہ حاطب ابن ابی ہلتعہ کے واقعہ سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے،جب پیغمبر ؐ نے حاطب کو برا کہنےوالے کو یہ کہہ کر خاموش کردیا کہ:

اللہ اصحاب بدر سے اچھی طرح واقف ہے))اس نے فرما دیا ہے کہ میں نے تمہیں معاف کردیا ہے اب تم جو چاہو کرو.

سوال نمبر۔ ۲

ہم اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ صحابہ کے اندر کچھ کمزوریاں پائی جاتی تھیں،مثلاً ذاتی تنازعہ،کسی مصلحت کی بنا پر ایک صحابی کا دوسرے صحابی پر تشدد بلکہ ایک صحابی دوسرے صحابی سے رشک و حسد میں بھی گرفتار تھا اور یہی حالات اس قول کو محال قرار دیتے ہیں کہ صحابہ بشری کمزوریوں سے پاک تھے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ ان سے راضی ہے جبکہ وہ بہت سی غلطیان کرچکے ہیں اور خدا کی رضا کسی وقت سے مخصوص نہیں ہے ۔ مثلاً صرف نبی ؐ کے زمانے ہی میں انھیں یہ رضا حاصل نہیں تھی بلکہ یہ حصول رضا مطلق اور عام ہے اور بغیر کسی نص شرعی کے اس رضا کی حدوں سے کسی کو باہر نہیں کیا جاسکتا،پھر شیعہ علما اس بات کے قائل کیوں نہیں ہوجاتے کہ عمر و ابوبکر اور عثمان کا خلافت پر علی ؑ کی موجودگی میں قبضہ کرنا انھیں بشری کمزوریوں کا تقاضا تھا جن کا مواخذہ شرعی طور پر ضروری نہیں ہے یا اس وجہ سے تھا کہ کچھ دوسرے امور تھے جن کی بنیاد پر خلافت کے معاملے میں یہ آپس میں راضی ہوگئے تھے جب کہ شیعوں کا یہ اعتقاد ہے کہ مولائے کائنات ؑ کلافت کے زیادہ مستحق تھے،(وہ اپنے اس عقیدہ پر باقی رہیں تو کوئی حرج نہیں لیکن خلفائے ثلاثہ کے فعل کی مندرجہ بالا توجیہ کر کے انہیں قبول کرلیں ۔ )

۲۲

سوال نمبر۔ ۳

شیعہ و سنی دونوں فرقے ان معاملات میں جو صدر اسلام میں واقع ہوئے مولائے کائنات اور اہلبیت ؑ امام حسن ؑ کی سیرت پر کیوں نہیں عمل کرتے یعنی ہم ان باتوں کا اقرار کریں جن کا ان حضرات نے اقرار کیا اور ان باتوں کا انکار کریں جن کا ان حضرات نے انکار کیا تھا اور اس طرز عمل کو ضرور سمجھیں:

۱ ۔ ابوبکر کی خلافت کا امام علی ؑ کی جانت سے اقرار ۔ ۲ ۔ ابوبکر کے ذریعہ خلافت کے لئے عمر کی تنصیب کا اقرار ۔ ۳ ۔ شوریٰ کا اقرار اور شوریٰ کی ایک فرد ہونے پر رضایت ۔ ۴ ۔ معاویہ کا شام کی ولایت پر عدم اقرار ۔ اس لئے کہ حضرت علی ؑ اسے اس کام کے لئے نااہل سمجھتے تھے باوجودیکہ اسے برطرف کرنے سے اسلامی سماج میں بہت سی خرابیان پیدا ہورہی تھیں ۔

سوال نمبر۔ ۴

کیا جمہور کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ مولائے کائنات ؑ کی بیعت پر واضح نص شرعی کی موجودگی میں(اگر وہ موجود ہو)اس سے غافل رہے ہوں جبکہ ان کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے معین کئے گئے ہو کہ انھیں اچھی باتوں کا حکم دو اور برائیوں سے روکو(۱)

سوال نمبر۔ ۵

کیا آپ نہیں دیکھتے ہیں کہ عالم اسلام اس دن سے غمگین ہے جب سے اسلامی خلافت کا انہدام ہوا اور اس غم میں دونوں برابر کے شریک ہیں،چاہے سنی ہوں یا شیعہ،تو پھر کیوں نہ کسی ایسے شخص کی تنصیب،خلافت کے لئے واجب قرار دی جائے جو امت کے مصالح کے مطابق کام کرے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(آل عمران آیت۱۱۰)

۲۳

خصوصاً اہل سنت تو آج کل خلافت سے محروم ہیں لیکن آپ شیعہ حضرات بھی اس دور غیبت میں سنیوں کی طرح قیادت سے محرومی کا احساس کررہے ہیں اور ایسے شخص کی ضرورت محسوس کررہے ہیں جو امت کے مصالح کو قائم اور باقی رکھے کیا آپ کی نظر میں اس کا حصول ممکن ہے اور اس امر کے حصول کے لئے کوشش کی جانی چاہئے؟

سوال نمبر۔ ۶

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابوبکر کو اس وقت امامت کا حکم دیا جب آپ خود مرض کی شدت کی وجہ سے لوگوں کی امامت نہیں کرسکتے تھے،اس سلسلہ میں آپ کا کیا خیال ہے کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضور ؐ اپنے بعد خلافت ابوبکر پر راضی تھے؟

سوال نمبر ۔ ۷

کیا یہ صحیح ہے کہ انسانی زندگی کے مسائل اور ضروریات دین کا علم صرف ائمہ ؑ سے مختص ہے حالانکہ خدا کہتا ہے((آج ہم نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر نعمتوں کو منزل کمال تک پہنچا دیا اور تمہارے لئے دین اسلام سے راضی ہوگیا))(سورہ مائدہ:آیت ۳)

سوال نمبر۔ ۸

اہل سنّت اور شیعہ دونوں فرقے قرآن کی حجیت اور اس کی قطعیت صدور پر متفق ہیں اختلافات سنّت میں ہے اس لئے کہ دونوں کےنزدیک سنّت کا مصدر مختلف ہے ۔

سنی صرف ان حدیثوں کو لیتے ہیں جو ثقہ راویوں کے ذریعہ پیغمبر ؐ سے روایت کی گئی ہیں اور بس،جب کہ شیعہ ائمہ اہلبیت ؑ سے بھی حدیثیں لیتے ہیں چاہے ان کا زمانہ رسول خدا ؐ سے کتنی ہی دور ہو اس لئے کہ وہ اماموں کی عصمت کے دعویدار ہیں حالانکہ جو لوگ اماموں سے روایت لینےوالے ہیں وہ

۲۴

سب کے سب سنیوں کے راویوں کی طرح غیر معصوم ہیں،پھر شیعہ حضرات سنیوں کی کتابوں کو قابل اعتماد کیوں نہیں سمجھتے خصوصاً وہ شیعہ رواۃ جو ثقہ سے روایت لینے کے قائل ہیں چاہے وہ ان کے مذہب کا مخالف ہی کیوں نہ ہو یا اس کی روایت شیعہ مذہب کے خلاف ہی کیوں نہ ہو لیکن یہ بات کہ سنی بھی شیعہ راویوں کی طرف کیوں نہیں رجوع کرتے؟مناسب نہیں ہے اس لئے کہ سنی صرف پیغمبر ؐ سے روایت اخذ کرتے ہیں اور وہ عصمت ائمہ ؑ کے قائل بھی نہیں ہیں؟

سوال نمبر ۔ ۹

شیعوں کے اصول دین میں خبر آحاد پر عمل نہیں کیا جاتا جب کہ اماموں کی تشخیص تواتر سے ثابت نہیں ہے پس اگر امام کی تشخیص خبر آحاد کے ذریعہ ہو تو اس پر عمل واجب نہیں ہوگا اور غیر مشخص امام کی پیروی جائز نہیں ہے

(عبدالکریم)

عمان،اردن

۷ / دستمبر ۲۰۰۰ سنہ

۲۵

۲۶

بسم الله الرحمٰن الرحیم

خدا کی تعریف اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کی آل پاک پر درود و سلام اور روز قیامت تک ان کے تمام دشمنوں پر لعنت کے بعد:

السلام علیکم

محترم کریم بھائی.........خدا آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے میری دعا ہے کہ خداوند عالم آپ کو اور آپ کے تمام دینی بھائیوں کو توفیقات عنایت فرمائے اور آپ حضرات کو اپنے پرہیزگاروں میں قرار دے ۔

الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ وَأُوْلَئِكَ هُمْ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ

ترجمہ آیت:(وہ لوگ جو تمام باتیں سن کے ان میں سے سب سے بہترین بات کی پیروی کرتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جن کی اللہ نے ہدایت کی ہے اور یہی لوگ سمجھدار ہیں)) ۔(۱)

میری دعا ہے کہ خداوند عالم اپنی رحمت کے فیضان سے آپ کی دین و دنیا میں اصلاح کرے اور آخرت اور معاد میں بھی بھلائی عنایت فرمائے بے شک وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا اور مومنین کا سرپرست ہے ۔

آپ کا گرامی نامہ ملا اور مجھے پڑھکے بہت خوشی ہوئی جب یہ معلوم ہوا کہ ہماری گفتگو حقیقت کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورۂ زمر آیت ۱۸.

۲۷

پردہ کشائی میں نفع بخش ہے اور غموض(اگر ہے)تو چھٹ رہا ہے اور مجھے بہرحال امید و اطمینان ہے کہ میں نے جواب میں بہت وضاحت سے کام لیا ہے اور صاف گوئی کا جو اہتمام کیا ہے اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ہےیہ بات ہماری سابقہ گفتگو سے آپ پر ظاہر ہوچکی ہوگی اور اس گفتگو سے بھی انشااللہ تعالی یہ بات سمجھ میں آجائے گی ۔

تلاش حقیقت کے وقت جستجو کے حق کو ادا کرنا ضروری ہے

ہم لوگ اس وقت ایک ایسے مسئلہ کو موضوع گفتگو بنانے جارہے ہیں جس میں دھیرے دھیرے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے تا کہ حقیقت معلوم ہوجائے اور حقیقت تک پہنچا جاسکے ہمیں چاہیئے کہ سختی سے اس بات کی پابندی کریں کہ ہر حال میں بحث و تمحیص کا حق ادا ہوتا رہے اور ہم اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآسکیں اس لئے کہ جو بات معلوم نہیں ہے اس کے مقابلے میں معلومات پر عمل کرنا کافی ہے(۱) اور علم بغیر عمل کے ایسا ہے جیسے درخت بغیر ثمر کے(۲) جیسا کہ رسول ؐ و آل رسول ؐ سے وارد احادیث میں آیا ہے ۔ معرفت اگر عمل سے خالی ہو تو صاحبت معرفت کو نقصان پہنچاسکتی ہے،اس لئے کہ معرفت یا تو اس پر حجت تمام کردیتی ہے یا اتمام حجت کو مزید پختہ کردیتی ہے دونوں ہی صورت میں اسکی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ جس حقیقت کو اس نے سمجھ لیا ہے اس پر سختی سے عمل کرے اور خدا کی طرف سے جو فرض ہے وہ اس کا مطالبہ بھی کرےگا اس کا حساب بھی ہوگا

(لَايَنفَعُنَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا) (۳)

ترجمہ آیت:(جو شخص پہلے سے ایمان نہیں لائےگا یا مومن ہونے کی حالت میں نیک کام نہیں کئے ہوگا تو اس کا ایمان اس کے لئے مفید نہیں ہوگا)) ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) توحید شیخ صدوق،ص ۴۱۶ اوربحارالانوار،ج ۲ ص ۲۸۱ اور نورالبراہین،ج ۲ ص ۴۴۷

( ۲) عیون الحکمہ و الواعظ،ص ۳۴۰ اور محاسبۃ النفس،ص ۱۶۶ (۳) سورہ انعام آیت: ۱۵۸

۲۸

حساب کا دن تو اچانک آئےگا پہلے سے خبر نہیں دی جائےگی اس لئے حساب کے لئے تیار رہنا اور اس کے خطروں سے حفاظت کا انتظام کرنا بہت ضروری ہے،خدا کے سامنے بری الذمہ ہونے کے لئے کوئی عذر ہونا ہی چاہئے ۔

اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ میں آپ کو بغیر بصیرت اور دلیل کے کسی خاص مسلک کو اختیار کرنے کی دعوت دے رہاہوں اس لئے کہ ارشاد ہوتا ہے:

وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولـئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً

ترجمہ آیت:((جس چیز کے بارے میں نہیں جانتے اس کے پیچھے مت پڑا کرو اس لئے کہ کان آنکھ اور دل سب سے سوال کیا جائےگا،سب کے بارے میں پوچھا جائےگا)) ۔(۱)

بلکہ میرا مطلب یہ ہےکہ بحث کرنےوالا جذباتیت سے آزاد رہے اور ہٹ دھرمی اور بیکار کی بحث سے پرہیز کرے،جس حقیقت کے بارے میں بحث کر رہا ہے اس کے لئے اپنی بصیرت اور اپنے ضمیر کو حاکم بنائے جب وہ اس حقیقت تک پہنچ جائے اور بات اس کے سامنے واضح ہوجائے تو اس کے حق کو ادا کردے تا کہ خدا کے سامنے اپنی ذمَہ داری سے عہدہ برآ ہوسکے ۔

لیکن حق کب اور کیسے واضح ہوگا؟تو اس کی ذمہ داری خود بحث کرنےوالے پر عائد ہوتی ہے کہ پہلے وہ اپنے وجدان سے حق کی صحیح تعریف کرے اس لئے کہ

بَلِ الْإِنسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ

ترجمہ آیت:((انسان تو اپنے آپ سے خوب واقف ہے)) ۔(۲)

اس کے بعد خداوند عالم،حاکم و عادل ہے چاہے انسان کے حق میں فیصلہ دے چاہے اس کے خلاف ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ اسراءآیت ۳۶

( ۲) سورہ قیامت آیت ۱۴

۲۹

میں خدا سے اپنے لئے اور آپ کے لئے توفیق و تسدید کا سوال کرتا ہوں اور ہراس آدمی کے لئے یہی دعا ہے جو حق کو پہچاننے کا اور اس تک پہنچنے کا حوصلہ رکھتا ہے اور حق کو پہچان کر اس کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا چاہتا ہے ۔

آخر کلام میں ایک خاص بات کی طرف آپ کو متوجہ کرانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ غدیر کے متعلق سوال میں ایک لفظ رہ گیا تھا وہ ہے واقعۂ بیعت غدیر،اصل میں اشکال واقعۂ بیعت پر ہے نہ کہ واقعہ غدیر پر،اس لئے کہ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ واقعۂ غدیر کے تذکرہ سے تو اہل سنّت کی کتابیں بھری پھڑی ہیں میں امید کرتا ہوں کہ آپ آئندہ خط میں اس موضوع پر روشنی ڈ الیں گے،خدا کا شکر ہے کہ آپ کی کوششیں ضائع نہیں ہو رہی ہیں بلکہ اس کے فوائد دیکھنے میں آرہے ہیں،اس لئے کہ آپ کے اس جواب کا طریقہ اور ترتیب اس شخص کے لئے نادرالوجود ہے جو اس طرح کے سوالوں کا جواب دیتا ہو ۔

آخر میں آپ سے امید کرتا ہوں کہ میرے لئے خدا سے دعا کریں گے مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ ہمیں اپنے محبوب اور پسندیدہ اور مسلمانوں کے لئے خیر کے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

و آخر دعوانا ان الحمدلله ربّ العالمین

۳۰

اگر آپ بیعت سے یہ سمجھتے ہیں کہ غدیر میں لوگ نبی ؐ کی خدمت موجود تھے اور آپ کا خطبہ سن رہے تھے انھوں نے اپنے ہاتھ کو علی ؑ کے ہاتھ سے مس کرتے ہوئے مضمون خطبہ کے اقرار کا ثبوت دیا یعنی بیعت سے مراد غدیر میں ہاتھ پر ہاتھ رکھنا ہے تو اس بات کو نہ شہرت حاصل ہے اور نہ اس کے لئے دعوائے تواتر کیا گیا ہے،سنّیوں کی بات تو چھوڑیئے شیعوں کے یہاں بھی اس کے تواتر کا دعویٰ نہیں پایا جاتا ہے ۔

سنّی اور شیعہ روایتوں میں ہاتھ میں ہاتھ دینے کے معنی میں بیعت کا تذکرہ

واقعۂ بیعت کو شیعوں نے متعدد طریقوں سے نقل کیا ہے علامہ مجلسی ؒ نے ان میں سے کچھ لوگوں کا ذکر کیا ہے(۱) جیسے علامہ طبری حضرت امام ابوجعفر محمد بن علی باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں اور سلسلۂ نبی تک پہنچتا ہے کہ اس موقعہ پر حضور ؐ نے ایک طویل خطبہ دیا اور مولائے کائنات ؑ کی ولایت پر نص کرنے کے بعد فرمایا(اے لوگو تم بہت زیادہ ہو اور میرے لئے ایک ہاتھ پر بیعت کثرت افراد کی وجہ سے ممکن نہیں ہے مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ تمہاری زبانوں سے علی ؑ کے بارے میں مومنین پر جو امارت طے ہوئی ہے اس کا اقرار اور ان لوگوں کی امامت کا اقرار لےلوں جو مجھ سے اور علی ؑ کے بارے میں مومنین پر جو امارت طے ہوئی ہے اس کا اقرار اور ان لوگوں کی امامت کا اقرار لےلوں جو مجھ سے اور علی ؑ سے آئندہ زمانے میں امام ہونےوالے ہیں اس لئے کہ میں تمہیں پہلے بتاچکا ہوں کہ میری ذریت علی ؑ کی صلب میں ہے تو تم سب مل کر کہو کہ ہم لوگ سننے والے،اطاعت کرنےوالے،راضی رہنےوالے اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) بحارالانوار،ج ۳۷ باب ۵۲ ص ۱۱۹،۱۳۳،۱۳۸

۳۱

پیروی کرنےوالے ہیں اس چیز کے بارے میں جو آپ نے علی ؑ کے بارے میں اور ان کی صلب سے ہونےوالے اماموں کے بارے میں اپنے اور ہمارے رب کی طرف سے ہم تک پہنچائی ہے ہم اس بات پر دل،جان،زبان اور ہاتھ سے آپ کی بیعت کرتے ہیں،اے لوگو!ایسی بات کہو جس سے خدا تم سے راضی ہو اور یاد رکھو کہ اگر تم اور روئے زمین کے تمام لوگ سب کے سب کافر ہوجاؤ تو اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچےگا،پروردگارا!تمام اہل ایمان کو معاف کردے اور کافرین پر غضب نازل فرما ۔

(والحمدلله ربّ العالمین)

امام ابوجعفر ؑ فرماتے ہیں کہ(خطبہ سن کے)لوگوں نے آواز دی ہم نے سنا ہم اللہ اور رسول اللہ ؐ کے امر کی اپنے ہاتھ زبان اور دل سے اطاعت کا عہد کرتے ہیں پھر لوگوں نے پیغمبر ؐ اور علی ؑ کے پاس ہجوم کیا اور اپنے ہاتھ سے بیعت کرنے لگے....)(۱)

علّامہ مجلسی ؒ نے مذکورہ بالا روایت کو علامہ طبرسی ؒ سے لیا ہے پھر فرمایا ہے کہ مخالفین کے علما میں احمد بن محمد طبری نے اس روایت کو لکھا ہے اور ہم نے انہیں سے اپنی کتاب کشف الیقین میں یہ روایت نقل کی ہے(۲) اسی طرح علامہ شیخ امینی ؒ نے بھی جہاں مبارک بادی کا تذکرہ کیا ہے اور مبارک بادی کو بعض علما جمہور سے نقل کیا ہے وہیں یہ بھی(۳) کہا ہے کہ بیعت کی بات بھی ان لوگوں نے روایت کی ہے ۔

مگر یہ تمام باتیں حد تواتر تو نہیں پہنچی اور میرا خیال ہے کہ کسی نے تواتر کا دعویٰ بھی نہیں کیا ہے مگر یہ کہ وہ ہم سے مخفی معلومات پر مطلع ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) احتجاج، ج ۱ ص ۸۲ سے ۸۴ تک،یوم الغدیر علی الخلق کلهم و فی غیره من الایام بولایة علی بن ابی طالب علیه السلام اور اس کے بعد

( ۲)( بحارالانوار،ج ۳۷ ص ۲۱۸ باب ۵۲ نصوص کے باب میں جو دلالت کرتی ہیں اور بعض وہ دلیلیں جو اس پر قائم ہیں،امیرالمومنینؑ کی امامت پر عام و خاص طریقہ سے)

( ۳) الغدیر،ج: ۱ ص: ۲۷۰ ۔ ۲۷۱

۳۲

اقرار ولایت اور قبول ولایت کے معنی میں بیعت ثابت ہے

یہ بات بعید از فہم نہیں ہے کہ بیعت سے مراد شاہدین خطبہ کی طرف سے قبول ولایت کا اعلان اور اذعان ہو،کیوں کہ خطبہ میں ولایت امیرالمومنین ؑ فرض کی گئی ہے،سابقہ حدیث بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے،اس لئے کہ اکثر لوگ بیعت کا یہی مطلب سمجھتے ہیں ۔ ہر دور میں مسلمانوں کی سیرت رہی ہے کہ خلیفہ جدید کے لئے عام انسانوں کی بیعت محض اس کی خلافت کو تسلیم کر لینا ہے اور اس کی قیادت کو مان لینا ہے بیعت کا شرف تو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے،وہ لوگ جو صاحب مرتبہ ہوتے ہیں انھیں کو یہ شرف حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے اقرار کا اعلان خلیفہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر کریں،ورنہ مذکورہ بالا معنیٰ میں بیعت تو واقعۂ غدیر میں حاصل ہوچکی تھی ۔

اس لئے کہ جو لوگ نبی ؐ کے خطبہ میں حاضر تھے اور علی ؑ کے بارے میں اعلان ولایت کے شاہد تھے اگر ان میں سے کسی نبی ؐ کی تردید کی ہوتی یا نبی ؐ پر اعتراض کیا ہوتا تو بات چھپی نہیں رہتی ظاہر اور واضح ہوجاتی،یہ امر طبیعی ہے تاریخ اس کو نقل کرتی ہے،جیسا کہ حارث ابن نعمان فہری کے معاملے میں ہوا جس کا ذکر میں نے آپ کے ساتویں سوال کے جواب میں حدیث غدیر کے ذیل میں کیا ہے یا جیسا کہ تہنیت ے بارے میں حدیثوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے کہ حاضرین نے امیرالمومنین علیہ السلام کو ولایت کی تہنیت دی،علامہ شیخ امینی ؒ نے اہل سنّت کی ساٹھ ۶۰ کتابوں سے اس کا حوالہ دیا ہے ۔

خاص طور سے وہ حدیثیں جن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضور نے امیرالمومنین ؑ کو ایک الگ خیمے مٰں بٹھایا اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ اس خیمے میں جا کے امیرالمومنین علیہ السلام کو ولایت کی مبارک باد دیں(۱) اس لئے کہ یہ معلوم ہے کہ اس طرح سے تہنیت دینے کا مطلب ہی ہے کہ مسلمان آپ کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب،ج ۱ ص ۲۷۱.

۳۳

ولایت کا اقرار کررہے ہیں آپ کی ولایت کو تسلیم کررہے ہیں اور یہ دونوں ہی باتیں معنائے بیعت کو ادا کرتی ہیں،حاصل گفتگو یہ ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کی ولایت کا قبول اور اقرار کا تلازم عادتاً خطبہ غدیر کے ساتھ ہے اور خطبہ کا تواتر یہ ہے کہ معنائے مذکور میں بیعت کو بھی تواتر حاصل ہے ۔

حدیث غدیر سے استدلال بیعت پر موقوف نہیں ہے

اس کے علاوہ حدیث غدیر سے استدلال بیعت پر موقوف نہیں ہے اس لئے کہ جب خدا نے امیرالمومنین ؑ کی ولایت فرض کردی اور نبی ؐ نے پہنچا بھی دیا تو اب لوگوں پر واجب ہے کہ وہ اس کو تسلیم کریں،اس کو مانیں بیعت تو صرف اس کے توابع میں سے ہے چاہے ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اس لئے کہ ولایت کا اذعان و اعلان اور اس پر عمل کا وجوب بیعت پر موقوف نہیں ہے اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بیعت کا تحقق نہیں ہے یا نبی ؐ نے بیعت کا مطالبہ نہیں کیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ نبی ؐ کی زندگی میں بیعت کا کوئی اثر بھی تو ظاہر نہیں ہوتا،وفات نبی ؐ سے پہلے بیعت کی ضرورت بھی کیا تھی بیعت کی ضرورت تو وفات پیغمبر ؐ کے بعد تھی اس لئے کہ وفات نبی ؐ کے بعد بیعت کا مطلب ہے کہ خدا کے حکم کو مسلمان مان رہا ہے اور اس پر عمل کر رہا ہے،حالانکہ اس وقت بھی بیعت،امیرالمومنین کی ولایت کا ثبوت نہیں ہوتی اور نہ ہی ولایت امیرالمونین ؑ پر عمل کا وجود آپ کی قیادت اور اطاعت و بیعت پر موقوف ہوتا جیسا کہ میں عرض کیا،البتہ اہل سنّت کے نزدیک ولایت و خلافت بیعت اور اس کے بعد پر موقوف ہوتی ہے،اس لئے کہ ان کے یہاں خلافت نص سے ثابت نہیں ہوتی جب تک لوگ اس کی بیعت نہ کرلیں اس لئے کہ ان کے یہاں بیعت کا کردار بہت اہم ہے اور خلافت اپنے ثبوت میں بیعت کی محتاج ہے ۔

۳۴

حدیث غدیر سے امامت و خلافت پر مزید تاکید کے لئے شیعہ بیعت پر زور دیتے ہیں

میرا خیال ہے کہ بعض شیعہ بیعت پر اس لئے زور دیتے ہیں کہ امیرالمومنین ؑ کی ولایت پر حدیث شریف کی دلالت موکد ہوجائے اور یہ بات پکی ہوجائے کہ مولائے کائنات ؑ نبی ؐ کے بعد مومنین کے ولی،ان کے امام اور خلیفہ ہیں ۔

حقیقت تو یہ ہے کہ جمہور مسلمین بلکہ تمام مخالفین نے بھرپور کوشش کی کہ امر ولایت کو مقام تشکیک میں ڈ ال دیا جائے،پہلے تو سند حدیث پر طعن کی کوشش کی لیکن حدیث غدیر اپنے اسناد و طرق کی وجہ سے تواتر سے بھی کچھ آگے تھی اس لئے کہ سند حدیث پر سوائے چند بے حیثیت افراد کے کوئی بھی طعن کرنے کی ہمّت نہیں کرسکا،تب انھوں نے لفظ مولیٰ کے اجمال کا دعویٰ کر ڈ الا،اس لئے کہ مولیٰ کے بہت سے معنی ہیں،مولیٰ یعنی محبّ،مولیٰ یعنی ناصر،مولیٰ یعنی ابن عم،و غیری یعنی مولیٰ کا مطلب خاص طور سے اولیٰ بالامر نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ بعض شیعہ بیعت پر تاکید کرتے ہیں تا کہ بیعت کے ذریعہ یہ ثابت ہو کہ مولیٰ بہ معنیٰ اولیٰ استعمال ہوا ہے اس لئے کہ مولیٰ بہ معنی اولیٰ بیعت کی مناسبت سے ہی ثابت ہوتا ہے کسی دوسرے معنیٰ سے نہیں ۔

یہ بات اگر چہ بہت عمدہ ہے لیکن پہلے یہ دیکھئے کہ آپ بات کس سے کررہے ہیں؟اگر آپ کی گفتگو کسی متعصب آدمی سے ہورہی ہے جو آپ سے عناد رکھتا ہے اور بات سے بات نکال کے شک پیدا کرتا ہے تو پھر بیعت والی بات بےفائدہ ہے،کیونکہ دنیا کی کوئی حقیقت ایسی نہیں ہے جس کے گرد دشمنوں نے شبہ کے تانے بانے نہ پھیلائے ہوں آپ اس سے بات ہی مت کیجئے اس لئے کہ وہ بات جھگڑے تک پہنچ جائےگی اور جھگڑے کے بارے میں حدیثوں میں نہی وارد ہوئی ہے بہتر یہ ہے کہ اس کے معاملات کو اللہ پر چھوڑ دیجئے اس لئے کہ اللہ سے جھگڑا کر کے وہ کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکےگا

ہاں اگر آپ کی بات کسی حق پرست اور انصاف پسند آدمی سے ہورہی ہے جو حقیقت تک پہنچنا

۳۵

چاہتا ہے،چاہے جس صورت میں بھی ہو تو یہ امر اس کے سامنے بہت واضح ہے،اس لئے کہ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ مولا کے بہت سے معنیٰ ہیں اور سارے معانی اولیٰ میں نہیں پائے جاتے تو کافی ہے کہ مولا کو اولیٰ پر حمل کیا جائے اس لئے کہ متن حدیث میں دونوں دلیلیں موجود ہیں ۔

حدیث غدیر سے امامت پر دلالت کو بعض قرینے ثابت کرتے ہیں

۱ ۔ جس طرح یہ حدیث مولا کی لفظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے،یعنی جس کا میں مولا ہوں اس کے علی ؑ مولیٰ ہیں،اسی طرح ولی کا بھی لفظ استعمال کیا گیا ہے یعنی حضور ؐ نے فرمایا جس کا میں ولی ہوں اس کے علی ؑ ولی ہیں،ظاہر ہے کہ دونوں حدیثوں میں اختلاف کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ ایک دوسرے کو جھٹلا رہی ہیں اور نہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک غلط ہے بلکہ دونوں حدیثوں کا مقصد بغیر الفاظ نص کی پابندی کے محض معنیٰ کو نقل کرنا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مولیٰ بہ معنیٰ ولی استعمال کیا گیا ہے اور ولی اس صاحب اقدار کو کہتے ہیں جو امر ولایت کا ذمّہ دار ہو ۔

۲ ۔ حدیث غدیر کے جو سلسلے تواتر تک پہنچے ہوئے ہیں یا تواتر سے بھی آگے ہیں ان میں ولایت پر نص کے پہلے پیغمبر اعظم ؐ کا ایک سوال بھی وارد ہوا ہے(کیا میں مومنین پر ان سے زیادہ اولیٰ نہیں ہوں؟)اور پھر فوراً ہی جملہ ارشاد ہوا کہ(میں جس کا مولیٰ ہوں علی بھی اس کے مولیٰ ہیں)اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مقدمۃُ اولیٰ کی لفظ آئی ہے بعد میں مولیٰ کی لفظ ہے جیسے کہ اولیٰ سے مولیٰ کی تفسیر کی جارہی ہو،پس لزوم ذہنی یہ کہتا ہے کہ مولیٰ کو اولیٰ ہی کے معنی میں لیا جائے چاہے مولیٰ کے جتنے بھی معنی ہوں لیکن دوسرے معانی کا امکان اور اولیٰ کے معنیٰ کا لزوم پایا جاتا ہے،اس کے علاوہ بھی دوسرے بہت سے داخلی اور خارجی قرینے ہیں اور ہمارے علما نے اس پر لمبی بحثیں کی ہیں شاید کہ علامہ امینی ؒ نے اس سلسلے میں سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر بحث فرمائی ہے(۱) اور مجھے خوش ہوگی اگر کوئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب۔ج ۱ ص ۳۴۰ تا ۳۹۹

۳۶

حدیثوں کی تاویل کرنےوالا اس حدیث کی تاویل اس کے مخالف معنی میں کرے پھر وہ متن حدیث کی مذکورہ معنی میں تاویل کرے،پھر دونوں کا تقابل کرکے تمام قرینوں کا احاطہ کرے اور اس کے بعد فیصلے کا اختیار اپنے وجدان اور ضمیر کو دیدے اور یہ دیکھے کہ اسکا وجدان کون سے معنی اختیار کرتا ہے ۔

جو ولی ہے وہی امام ہے اور اس کی اطاعت واجب ہے

جب یہ بات مان لی گئی کہ حدیث غدیر میں امیرالمومنین ؑ کے ولایت کی ضمانت لی گئی ہے اور یہ کہ آپ تمام مومنین پر ان کے نفسوں سے زیادہ حق رکھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ آپ کی امامت اور خلافت ثابت ہے اور آپ کی طاعت واجب ہے اس لئے کہ ولایت کا مطلب سوائے امامت کے کچھ نہیں ہوتا اور امامت بالولایۃ مکمل نہیں ہوسکتی جب تک اطاعت کا وجوب نہ ہو،پھر یہ دیکھیں کہ مسلمانوں پر نبی ؐ کی امامت کیسے ثابت ہوئی ہے؟ظاہر ہے احادیث اور آیتوں کے ذریعہ وہی احادیث اور آیا الٰہیہ جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضور کی طاعت واجب ہے،حضور مومنین کے ولی ہیں،حضور ان کے نفسوں پر ان سے زیادہ اولیٰ ہیں،(تو پھر آپ ولایت امیرالمومنین ؑ کے لئے نشان بیعت کیوں تلاش کررہے ہیں کیا صرف آیتیں اور حدیثیں کافی نہیں ہیں؟)پس خدا ہی عالم ہے وہی بچانے والا ہے وہ ہمارے لئے کافی ہے اور اچھا وکیل ہے ۔

۳۷

۳۸

سوال نمبر ۔ ۱

شیعوں کا اس قرآنی فیصلے کے بارے میں کیا نظریہ ہے؟

قرآن جن امت محمدیہ کی حالت کو پیش کرتے ہوئے ان کے درجہ بندی کرتا ہے تو انہیں دو قسموں میں تقسیم کرتا ہے ۔

ایک قسم جو زمانے سے محدود ہے،یہ وہ لوگ ہیں جن پر قرآن کی زبان میں سابقون اوّلون کا اطلاق ہوتا ہے،چاہے وہ مہاجر ہوں یا انصار،عام طور پر قرآن یا حدیثوں میں جہاں صحابہ یا اس کے مثل کوئی لفظ استعمال کی گئی ہے اس سے مراد یہی سابقون اوّلون ہیں،یہ وہ قسم ہے جس سے اللہ نے اپنے راضی ہونے کا اعلان کیا ہے اور اتباع بالاحسان کی شرط نہیں لگائی ہے جبکہ قسم ثانی کے ساتھ ایسا نہیں ہے ۔

قسم ثانی وہ ہے جس میں اتباع بالاحسان کی شرط لگائی گئی ہے،یاد رہے کہ قسم ثانی میں بہت سے افراد پر صحابہ کی لفظ کا اطلاق ہوتا ہے،آیت مذکورہ کے دوسرے حصہ میں شامل ہیں:

ارشاد ہوتا ہے:(وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ) (۱)

ترجمہ آیت:(مہاجرین اور انصار میں جو سابقون اوّلون ہیں اور وہ لوگ جو نیکی میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ توبہ:آیت ۱۰۰

۳۹

ان کی پیروی کرتے ہیں خدا ان سے راضی ہے اور وہ خدا سے راضی ہیں،ان کے لئے باغات تیار کئے گئے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے) ۔

تو اب سابقون اوّلون میں سے چاہے وہ انصار ہوں یا مہاجرین اگر کوئی ایسی بات منقول ہوتی ہے،(جس میں ان کے کردار کی کمزوری ظاہر ہو)جیسے گناہ،نافرمانی،آپس کی رسّہ کشی،بدبختی تو کیا یہ مناسب ہے کہ ہم جو متاخرین میں ہیں اپنی زبان کو آزاد چھوڑیں دیں(اور جو منھ میں آئے کہتے چلے جائیں)جب کہ سنّت نبی کا فیصلہ ہے کہ ہم ایسا نہیں کرسکتے اور ایسے عمل کی پیروی بھی نہیں کرسکتے جس کا فساد ظاہر ہے اور ایسے صحابی کے بارے میں منھ کھولنے سے پہلے ہم یہ دیکھ لیں کہ اللہ نے ان کو ایک خاص منزلت دی ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر ہم باز رہیں،جیسا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کے معاملہ سے ظاہر ہوتا ہے،سرکار دو عالم ؐ نے اس شخص پر جو حاطب ابن ابی بلتعہ کو برا کہہ رہا تھا یہ کہہ کر احتجاج کیا کہ خدا اہل بدر کے حالات سے تم سے زیادہ واقف ہے اور اس نے کہہ دیا ہے،جو چاہو کرو ہم نے تمہیں معاف کردیا ہے ۔

جواب:آپ کے اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل باتیں عرض ہیں!

امر اول:قرآن مجید میں سابقون اوّلون اور نیکی میں ان کی پیروی کرنےوالوں کا تذکرہ صرف اس ایک آیت میں کیا گیا ہے ۔

(سابقون اوّلون چاہے مہاجر ہوں یا انصار اور نیکی میں ان کی پیروی کرنے والے خدا ان سے راضی ہے اور وہ خدا سے راضی ہیں ان کے لئے باغات تیار کئے گئے ہیں جن میں نہریں بہتی ہیں،وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی عظیم کامیابی ہے)(۱) ظاہر ہے کہ اس آیت شریفہ میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں ۔

الف:سابقون اوّلون سے خدا کی رضایت کا اعلان ۔

ب:اللہ نے ان سے جنت کا وعدہ کیا ہےا ور فوز عظیم کا حکم لگایا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ توبہ:آیت: ۱۰۰

۴۰

لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ رضائے پروردگار کسی کے مرنے تک باقی رہے یعنی خدا ان سے مرنے کے وقت تک راضی رہے!

اخبار بالرضا کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت اللہ نے اس کی خبر دی اس وقت وہ ان سے راضی تھا اور مخصوص وقت وہ ہے جب آیت شریفہ نازل ہوئی ۔ اس سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ یہ رضایت ان کے مرنے تک برقرار رہی اور وہ لوگ جب مرے تو اللہ ان سے راضی تھا،اس لئے کہ مولا اپنے بندے سے اسی وقت تک راضی رہتا ہے جب تک اس کا بندہ اس کا مطیع رہتا ہے چاہے وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرکے اس کو راضی کرے،حالات کی تبدیلی کے ساتھ رضائے مولا بھی بدلتی رہتی ہے،یہ بندے کے اعمال پر منحصر ہے،ایسا ہوتا ہے کہ آج بندے کی اطاعت شعاری سے خوش ہو کے مولا راضی ہوگیا پھر بندے نے اس کی نافرمانی کی اور وہ بندے سے غضبناک ہوگیا پھر جب بندے نے توبہ کی اور اس کی اطاعت کی تو مولا خوش ہوگیا،رضا اور غضب کا معاملی یونہی چلتا رہتا ہے،رضا کی شان یہ نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ باقی رہے اور زائل ہی نہ ہو،اس سے پتہ چلتا ہے کہ خدا کی رضا سے ان کی نجات پر استدلال کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔

جنت کے وعدے کی وجہ سے سابقون اوّلون کی نجات پر استدلال

رہ گیا ان کے لئے جنت کا وعدہ اور ان کی عظیم کامیابی کا فیصلہ تو یقیناً اس سے دعوے پر استدلال کیا جاسکتا ہے اور ہم اس سلسلے میں آئندہ گفتگو کریں گے،لیکن پہلے ہم مدعا تو طے کرلیں اس کے بعد دیکھیں کہ آیت شریفہ اس پر دلالت کرتی ہے یا نہیں ۔

مدعا کے دو رخ ممکن ہیں

پہلی توجیہ یہ ہے کہ:(سابقون اوّلون کی سلامتی قطعی ہے اور جنت یقینی)

وجہ اول۔سابقون اوّلون قطعی طور پر آخرت میں سلامت رہیں گے اور نجات یافتہ ہونگے اور جنت حاصل کرلیں گےتو کیوں؟یا تو اس لئے کہ وہ گناہوں سے معصوم ہیں یا اس لئے کہ ان کی توبہ پر

۴۱

قبولیت کا مہر لگ چکی ہے یا اس لئے کہ اللہ نے ان کو اپنی خاص مہربانی سے معاف کردیا ہے اور مغفور قرار دیا ہے،چاہے وہ گناہگاری کی حالت میں مرے ہوں ۔

آیت کریمہ اس کی طرف دلالت کرتی ہے،اس لئے کہ رضا کا تذکرے کے فوراً بعد ان کے لئے جنت کی تیاری کی اور ان کی کامیابی کی خبر دی گئی،جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی سلامتی یقینی ہے،لیکن یہ بات یوں کٹ جاتی ہے کہ مندرجہ بالا وعدہ صرف سابقون اوّلون ہی سے مخصوص نہیں ہے،اس لئے کہ جو باتیں ان کے بارے میں وارد ہوئی ہیں،وہی باتیں دوسروں کے بارے میں بھی وارد ہوئی ہیں ۔

ہر مہاجر اور انصار کے لئے کامیابی اور جنت کا وعدہ

اللہ کا ارشاد ہے:(فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِّنْ عِندِ اللَّهِ وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ) (1)

ترجمہ آیت:(تو ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کرلی اور فرمایا کہ ہم تم میں سے کسی کام کرنےوالے کے کام کو ضائع نہیں کرتے وہ مرد ہو یا عورت اس میں کسی کی کوئی خصوصیت نہیں،اس لئے کہ تم ایک دوسرے کی جنس ہو،جو لوگ آوارہ وطن ہوئے اور شہر بدر کئے گئے اور ہماری راہ میں اذیتیں اٹھائیں اور کفار سے جنگ کی اور شہید ہوئے ہیں میں ان کی برائیوں سے ضرور درگذر کروں گا اور انھیں بہشت کے ان باغون میں لے جاؤں گا جس کے نیچے نہریں جاری ہیں،خدا کے یہاں یہ ان کے کام کا بدلہ ہے اور خدا کے پاس تو اچھا ہی بدلہ ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ آل عمران آیت 195

۴۲

اور دوسری جگہ ارشاد ہوا:(وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ قُتِلُوا أَوْ مَاتُوا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللَّهُ رِزْقًا حَسَنًاوَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ-لَيُدْخِلَنَّهُم مُّدْخَلًا يَرْضَوْنَهُوَإِنَّ اللَّهَ لَعَلِيمٌ حَلِيمٌ) (1)

ترجمہ آیت:(اور جن لوگوں نے خدا کی راہ میں اپنے دیس چھوڑے پھر شہید کئے گئے یا آپ اپنی موت مرگئے،خدا انھیں آخرت میں ضرور عمدہ رزق عنایت فرمائےگا اور بیشک تمام روزی دینے والوں میں خدا ہی سب سے بہتر ہے،وہ انھیں ضرور ایسی(بہشت)پہنچائےگا جس سے وہ نہال ہوجائیں گے اور بیشک خدا بڑا واقف کار اور بردبار ہے) ۔

اسی طرح کی دوسری آیتیں بھی ہیں جن میں مہاجر کے لئے جنت کا وعدہ کیا گیا ہے چاہے وہ سابقون میں سے نہ ہو بلکہ وعدہ میں عموم پایا جاتا ہے یعنی مہاجر کی لفظ مطلق وارد ہوئی ہے ہر اس شخص کے لئے جو بلاد کفر سے بلاد اسلام کی طرف ہجرت کرے،چاہے اسنے نبی ؐ کے دور میں ہجرت کی ہو یا نبی ؐ کے بعد ۔

ملاحظہ ہو ارشاد ہوتا ہے:(وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَّهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ) (2)

ترجمہ آیت:اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور خدا کی راہ میں لڑے بھڑے اور جن لوگوں نے ایسے نازک وقت میں مہاجرین کو پناہ دی اور ان کی ہر طرح خبر گیری کی وہی لوگ سچے ایمان دار ہیں انہیں کے واسطے مغفرت اور عزت و آبرو والی روزی ہے) ۔

اس آیت کا مقتضا تو یہ ہے کہ سلامتی اور کامیابی سب کے لئے عام ہے چاہے وہ مہاجرین ہوں چاہے انصار ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ حج آیت 58 ۔ 59

( 2) سورہ انفال آیت 74

۴۳

ہر صالح مومن کے لئے کامیابی کا وعدہ ہے

آیتوں میں تو عام مومنین کے لئے کامیابی اور جنت کا وعدہ ہے شرط یہ ہے کہ وہ مومن صالح ہو ۔ ارشاد ہوتا ہے:(وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ) (1)

ترجمہ آیت:(آپ خوش خبری دیں صاحبان ایمان اور عمل صالح کرنےوالوں کو کہ ان کے لئے جنت ہے جس میں نہریں جاری ہیں) ۔

ارشاد ہوتا ہوا: (وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُبَوِّئَنَّهُم مِّنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا نِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ) (2)

ترجمہ آیت:(جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح انجام دیتے ہیں انھیں ہم ضرور جنت میں کمرے عنایت فرمائیں گے(وہ جنت)جس کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور عمل کرنےوالوں کو بہتر بدلہ ملےگا) ۔

دوسری جگہ ارشاد ہوا:(وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي رَوْضَاتِ الْجَنَّاتِلَهُم مَّا يَشَاءُونَ عِندَ رَبِّهِمْ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ-ذَٰلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ) (3)

ترجمہ آیت:(جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے وہ بہشت کے باغوں میں ہوں گے وہ جو کچھ چاہیں گے ان کے لئے ان کے پروردگار کی بارگاہ میں موجود ہے تو خدا کا بڑا فضل ہے،یہی(انعام)ہے جس کی خدا اپنے بندوں کو خوشخبری دیتا ہے،جو ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے) ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ بقرہ آیت 25

( 2) سورہ عنکبوت آیت 58

( 3) سورہ شوریٰ آیت 23،22

۴۴

(اے رسول)تم کہہ دو کہ میں اس تبلیغ رسالت کا اپنے قرابت داروں(اہل بیت)کی محبت کے سوا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا اور جو شخص نیکی حاصل کرےگا ہم اس کے لئے اس کی خوبی میں اضافہ کردیں گے بیشک خدا بڑا بخشنےوالا قدردان ہے ۔

ہر مومن سے جنت اور کامیابی کا وعدہ ہے

بلکہ بعض آیتوں میں تو عمل صالح کی قید بھی نہیں لگائی گئی ہے،بلکہ مطلقاً تمام مومنین سے کامیابی اور جنت کا وعدہ کیا گیا ہے ملاحظہ ہو:

(وَعَدَاللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّهِ أَكْبَرُ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ) (1)

ترجمہ آیت:(خدا نے ایمان دار مردوں سے اور ایماندار عورتوں سے(بہشت)کے ان باغوں کا وعدہ کرلیا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے،بہشتِ عدن میں عمدہ عمدہ مکانات کا بھی وعدہ فرمایا ہے،خدا کی خوشنودی ان سب سے بالاتر ہے یہی تو بڑی کامیابی ہے) ۔

ہر گنہگار اور بےراہ کو خسران اور عذاب کی وعید ہے

اسی طرح کتاب مجید اور سنت پاک میں ہر گنہگار اور کھ رو کو اس کے گناہ اور کجروی کی وجہ سے عذاب اور خسران کی دھمکی دی گئی ہے ۔

(وَمَن يُشَاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ)(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ توبہ آیت 72

( 2) سورہ انفال آیت 13

۴۵

ترجمہ آیت:(اور جو شخص بھی خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کرے تو یاد رہے کہ خدا بہت سخت عذاب کرنےوالا ہے) ۔

ارشاد ہوا:(وَمَن يُشَاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ) (1)

ترجمہ آیت:(جس نے بھی خدا کی مخالفت کی(تو یاد رہے کہ)خدا بڑا سخت عذاب دینےوالا ہے) ۔

اور اسی طرح دوسری جگہ فرمایا:(وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَوَسَاءَتْ مَصِيرًا) (2)

ترجمہ آیت:(سورۂ نساء میں ارشاد ہوا:(اور جو شخص راہ راست کے ظاہر ہونے کے بعد رسول ؐ سے سرکشی کرے اور مومنین کے طریقے کے علاوہ کسی اور راہ پر چلے تو جدھر وہ پھر گیا ہے ہم ادھر ہی پھیر دیں گے اور آخر میں اسے جہنم میں جھونک دیں گے،وہ تو برا ٹھکانہ ہے) ۔

دوسری جگہ ارشاد ہوا :(وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا) (3)

ترجمہ آیت:(اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کے مار ڈ الے اس کی سزا صرف دوزخ ہے،وہ اس میں ہمیشہ رہےگا،خدا نے اس پر اپنا غضب ڈ ھایا ہے اور لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا سخت عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

اس کے علاوہ بھی بہت سے آیتیں ہیں جن کا شمار ممکن نہین اور حدیثوں کا بھی یہی حال ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 2) سورہ حشر آیت 4

( 3) سورہ نساءآیت 114

( 4) سورہ نساءآیت 93

۴۶

الہی وعدے حُسن خاتمہ سے مشروط ہیں

مذکورہ ساری آیتوں کو مد نظر رکھا جائے تو دو گروہ ہوجاتے ہیں ایک وعدوالے ہیں دوسرے وعیدوالے دونوں میں جمع کی صورت نکالنا بہت ضروری ہے اور وہ اس طریقہ سے کہ:

وعد کی دلیلیں ان کے لئے ہیں جن کا خاتمہ بالخیر ہو خاتمہ بالخیر بھی دو وجہ سے ہوسکتا ہے یا تو وہ دین حق اور عمل صالح پر آخر وقت تک قائم رہے ہوں یا تو یہ کہ درمیان میں غلطی ہوئی لیکن انہوں نے فوراً توبہ کر لی اور کجروی سے نکل کر حق کی طرف واپس آگئے ۔

آیتیں،حدیثیں دوسرےوالے سبب کا فائدہ پہنچاتی ہیں،ملاحظہ ہو: (يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ-إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ) (1)

ترجمہ آیت:ایسا دن کے جس میں نہ مال فائدہ پہنچائےگا نہ اولا مگر یہ کہ صاف اور سلیم دل کے ساتھ خدا کے پاس واپس آئے ۔

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے: (إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ) (2)

ترجمہ آیت:(وہ لوگ جنھوں نے یہ کہہ دیا کہ ہمارا پروردگار تو بس خدا ہے پھر اپنی بات پر قائم رہے ان پر رشتے نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ڈ رو نہین اور غم نہ کرو تمھیں جنت کی بشارت ہو کہ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔

اور پھر دوسری آیت: (أُولَٰئِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ-خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ شعراءآیت 88 اور 89

( 2) فصلت آیت 30

۴۷

وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ-إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ)(1)

ترجمہ آیت:(یہ وہ لوگ ہیں جو کو بدلے میں خدا کی فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ملی ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ان کے عذاب میں تخفیف ہوگی نہ ان کو مہلت دی جائےگی سوا ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے بعد(گناہوں کے بعد)توبہ کی اور اپنی اصلاح کرلی تو بیشک اللہ بخشنےوالا اور رحم کرنے والا ہے) ۔

اب ظاہر ہے کہ اس آیت کو تو سابقون اولون پر بھی جاری کیا جائےگا اور اس آیت پر بھی جس سے آپ نے استدلال کیا ہے اس لئے کہ اس آیت میں خصوصی طور پر ان لوگوں کا تذکرہ ہے بلکہ خاص طور سے ان پر محمول کیا جارہا ہے جو عہد کی پابندی پر قائم رہے اور امر خدا سےمنحرف نہیں ہوئے ۔

صحابہ کو فتنہ اور پھر جانے سے بچنے کی ہدایت

خاص طور سے صحابہ کو یہ ہدایت دی گئی ہےہ وہ خود کو فتنہ اور اسلام سے برگشتہ ہوجانے سے محفوظ رکھیں ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو لوگ آگے چل کے بدل جائیں گے ان کے لئے عذاب اور خسران مبین ہی ہوگا،ارشاد ہوتا ہے:( مَّا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ) (2)

ترجمہ آیت:(ایسا نہیں کہ برے بھلے کی تمیز کئے بغیر خدا اسی حالت پر مؤمنون کو چھوڑدے گا ۔ اور ایسا نہیں ہے کہ وہ تمہیں غیب کی باتیں بتادےگا مگر ہاں خدا اپنے رسولوں میں جسے چاہتا ہے(غیب کے لئے)چن لیتا ہے) ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ آل عمران آیت 87 تا 89 (2) سورہ آل عمران آیت 179

۴۸

ظاہر ہے کہ اس آیت سے مراد وہ لوگ ہرگز نہیں ہیں جنہیں نزول آیت سے پہلے ہی منافقین کے نام سے بہچانا جاتا تھا جیسا کہ میں آپ کے دوسرےسوال میں متوجہ کرچکا ہوں ۔

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:خطاب اوائل ہجرت کے مسلمانوں سے ہے بات واقعۂ بدر کی ہے جب کہ بعض صحابہ یا سب کے سب ان سابقون میں تھے جو آپ کی زبان میں سابقون ہیں

(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْوَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ-وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةًوَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ)(1)

ترجمہ آیت:(اے ایمان لانےوالو!جب ہمارا رسول ایسے کام کے لئے بلائے جو تمہاری روحانی زندگی کا باعث ہو تو تم خدا اور رسول کا حکم دل سے قبول کرو اور جان لو کہ وہ خدا قادر مطلق ہے کہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان آجاتا ہے اور یہ بھی سمجھ لو کہ تم سب کے سب اس کے سامنے حاضر کئے جاؤگے اور اس فتنہ سے ڈ رتے رہو جو خاص انہیں لوگوں پر نہیں پڑےگا جنھوں نے تم میں سےظلم کیا(بلکہ تم سب کے سب اس میں پڑجاوگے)اور یقین جانو کہ خدا بڑا سخت عذاب کرنےوالا ہے) ۔

عون ابن قتادہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے زبیر بن عوام نے بیان کیا پیغمبر ؐ ہمیں اس فتنہ سے ڈ راتے تھے جس کے بارے میں وہم و گمان بھی نہ تھا کہ ہم اس کے لئے پیدا ہوئے ہیں پھر مندرجہ بالا آیت پڑھی زبیر کہتے ہیں کہ ہم اس آیت کو ایک مدت تک پڑھتے رہے اور پھر ہم ہی اس آیت کا عنوان بن گئے راوی نے کہا جب ایسا،ہوا تو آپ لوگ اس فتنہ نکل کیوں نہیں گئے؟کہنے لگے تجھ پروائے ہو ہم جان گئے تھے لیکن صبر نہیں کرسکے ۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ انفال آیت 24 اور 25

(2)سنن الواردہ فی الفتن ج1ص204،باب قول اللہ(واتقوا فتنۃ)تفسیر ابن کثیرج2ص300

۴۹

اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو خاص طور سے ان لوگوں کو جو احد کے دن فرار کر گئے تھے جو سب کے سب یا ان میں سے زیادہ تر سابقون اولون میں سے تھے خطاب کر کے عذاب آمیز لہجے میں فرماتا ہے: (وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ) (1)

ترجمہ آیت:(محمد ؐ تو بس رسول ہے ان کے پہلے بھی بہت سے رسول گذرچکے ہیں تو اگر وہ مرگئے یا قتل ہوگئے تو کیا تم اپنے پچھلے پیروں واپس پلٹ جاؤگے؟اور جو اپنے پچھلے مذہب پر واپس جائےگا وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کرےگا اور خدا شکر گذاروں کو بدلہ دےگا) ۔

دوسری جگہ ارشاد ہوا:(وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُوَأُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ-يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌفَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ-وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللَّهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ) (2)

ترجمہ آیت:ان لوگوں کے جیسے نہ ہوجانا جو آپس میں پھوٹ ڈ ال کے بیٹھے ہوں اور روزن دلیلیں آنے کے بعد بھی ایک منھ اور ایک زبان نہ ہوسکے اور ایسے ہی لوگوں کے لئے بڑا(بھاری)عذاب ہے اس دن سے ڈ رو جس دن کچھ لوگوں کے چہرے تو سفید نورانی ہوں گے اور کچھ لوگوں کے چہرے سیاہ،بس جن لوگوں کے منھ میں کالک لگی ہوگی ان سے کہا جائےگا تم تو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے تھے بولو(اور اب)اپنے کفر کی سزا میں عذاب کے مزے چکھو اور جن کے چہرے نورانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ آل عمران آیت144

(2)سورہ آل عمران آیت105تا107

۵۰

ہوں گے وہ تو خدا کی رحمت میں رہیں گے اور ہمیشہ اسی کے سائے میں رہیں گے ۔

اور دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ) (1)

ترجمہ آیت:(اے ایمان لانےوالو!خدا کی اور اس کے رسول ؐ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو باطل نہ کرو) ۔

اسی طرح کے مضامین پر مشتمل بہت سی آیتیں ہیں جن میں کچھ کا تذکرہ آپ کے سابقہ سوالات میں دوسرے سوال کے جواب میں ہوچکا ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی آیتیں ہیں جنھیں میں نے ذکر نہیں کیا ہے ۔

ان تمام باتوں سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے جس آیت کو مقام استدلال میں پیش کیا ہے اس کو اس بات پر محمول کیا جائے کہ اس میں خاتمہ بالخیر ہونے کی شرط ہے(یعنی سابقین اولین ممدوح ہیں لیکن اس شرط پر کہ آخر تک ایمان و عمل صالح قائم رہے ہوں اور موت بھی ایمان کی حالت پر ہوئی ہو)جیسا کہ یہی دلیل ان تمام لوگوں کے بارے میں دی جاتی ہے جن کی سلامتی قطعی ہے آپ کے کلام میں یہی بات ظاہر ہوتی ہے اور میں نے اس کا تذکرہ نہیں کیا ہے اصل میں بات اتنی واضح ہے کہ اس پر مزید روشنی ڈ النے کی ضرورت نہیں ہے پھر گنجائش بھی نہیں ہے کہ لمبی چوڑی بحث کی جائے ۔

پھر کامیابی کا وعدہ مطلق کیوں؟

آیہ مذکورہ اور دوسری آیت میں اطلاق اسی شرط پر مانا جاسکتا ہے کہ اس آیت میں ممدوح حضرات کو ایمان پر استقامت بھی حاصل ہو اور خاتمہ بھی بالخیر ہو!یہ بات اتنی واضح ہے کہ محتاج دلیل نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ محمدآیت 33

۵۱

بلکہ اتنی واضح ہے کہ اس شرط پر نص کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے اس لئے کہ سب جانتے ہیں کہ شرعی اور عقلی اعتبار سے کامیابی کا مستحق صرف وہ ہے جو ایمان اور عمل صالح رکھتا ہو یا عمل خیر کی طرف سبقت کرتا ہو تو ایمان اور عمل صالح کی غیر موجودگی میں کامیابی کوئی معنی نہیں رکھتی جو آدمی خدا کے فرائض کو انجام ہی نہ دیتا ہو اور صراط مستقیم کو چھوڑچکا ہو وہ کامیاب کیسے ہوسکتا ہے؟

تھوڑی سی گفتگو تا بعین کے بارے میں بھی ہوجائے

اگر آیہ شریفہ کو مندرجہ بالا معنی پر محمول نہیں کریں گے تو پھر تابعین کے لئے بھی اطلاق کو ماننا پڑےگا اس لئے کہ سابقین اوّلین کے احسان سے مراد ایمان اور عمل صالح ہے،تو اگر تھوڑے وقت کے لئے بھی سابقین اوّلین کے احسان پر وہ عمل پیرا ہوجاتے ہیں تو وہی قلیل مدت ہی انھیں تابعین کے زمرہ میں شامل کردےگی بھلے ہی بعد میں وہ بدل جائیں اور اگر سابقین کے احسان سے مراد یہ ہے کہ اس میں استمرار اور استقامت پائی جاتی ہو اور ان کا خاتمہ بالخیر یعنی وہ خدا سے راہ حق پر چلتے ہوے ملاقی ہوئے ہوں تو تابعین کا اتباع بھی اسی معنی میں محقق ہوگا،ورنہ کوئی سبب نہیں ہے کہ ہم تابعین کے لئے تو استقامت و استمرار اور خاتمہ بالخیر کی شرط لگائیں اور سابقین اوّلین کو آزاد چھوڑ دیں ۔

ہاں اگر اس آیت کی تفسیر اس طرح کی جائے کہ((مہاجرین و انصار میں سے جو سابقین اوّلین ہیں(1) اور وہ لوگ جو کہ ان کی پیروی کرتے ہیں احسان میں اور استقامت رکھتے ہیں اور اسی احسان و نیکی پر چلتے ہوئے(مرجاتے ہیں)تو اللہ ان سے راضی ہے......)

لیکن آیت شریفہ کا میرے بیان کردہ مطلب کے علاوہ کوئی مطلب بھی نہیں نکلتا ہے آپ بھی تھوڑا غور کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) کلمہ((اور))بڑھا دیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ سابقین اولین میں حُسن خاتمہ اور ایمان و عمل کی شرط نہیں ہے لیکن تابعین میں ہے(مترجم)

۵۲

سابقون اوّلون میں کچھ لوگ مرتد بھی ہوگئے

1 ۔ سابقین اوّلین میں کچھ لوگ مرتد بھی ہوگئے تھے،جیسے عبیداللہ بن جحش وہ حبشہ کی طرف نکل گیا تھا اور وہاں جا کے نصرانی ہوگیا(1) کیا آپ کو اس کی ہلاکت میں شک ہے کیا آیت شریفہ اس کا بھی احاطہ کرتی ہے،نہیں آیت اس کو اپنے دائرے میں لینے سے قاصر ہے اور یہ قصور صرف اس لئے ہے کہ آیت میں استقامت کی شرط ہے جیسا کہ ابھی عرض کیا گیا اسی طرح نضیر بن حارث عبدری کا معاملہ ہے یہ نضر کا بھائی تھا نضر کو امیرالمومنین ؑ نے واقعہ بدر کے بعد حکم پیغمبر ؐ سے بند کر کے قتل کردیا تھا روایتوں میں ہے کہ یہ نضیر سابقین اوّلین میں تھا حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی تھی پھر مکہ میں مرتد ہوکے واپس آیا فتح مکہ کے دن پھر مسلمان ہوگیا(2) یہ مولفۃ القلوب میں سے تھا حضور ؐ نے اس کی تالیف قلب کے لئے حنین کے دن اس کو سونا قے دیے اور یرموک میں شہید ہوا ۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) مستدرک علی صحیحین ج: 4 ص: 21 کتاب معرفۃ الصحابہ:ابی سفیان کی بیٹی ام حبیبہ نے ذکر کیا ہے۔حاشیۃ ابن القیم ج: 6 ص: 75 عون المعبودج: 6 ص: 74 ،تھذیب التھذیب ج: 12 ص: 437 ،حبیبۃ بنت عبیداللہ بن جحش سوانح حیات میں،تھذیب الکمال ج: 35 ص: 175 ،رملۃ بنت ابی سفیان کی سوانح حیات میں،التعدیل و التجریح لمن خرج لہ البخاری فی الجامع الصحیح ج: 3 ص 1283 رملۃ بنت ابی سفیان کی سوانح حیات میں،الاستیعاب ج: 3 ص: 877 فی ترجمۃ عبداللہ بن جحش سوانح حیات میں،ج: 4 ص: 1809 حبیبۃ ابنۃ ابی سفیان کی سوانح حیات میں،ص: 1844 ،رملۃ بنت ابی سفیان سوانح حیات میں،الاصابۃ ج: 7 ص 651 رملۃ بنت ابی سفیان کے سوانح حیات میں،الاکمال لابن ماکولا ج: 7 ص: 125 ،کبیر و کثیر و کثیر و کنیز و کنیز کے باب میں،السیرۃ النبویۃ ج: 2 ص 51 ،ذکر کیا ہے ورقۃ ابن نوفل بن اسد نے تاریخ دمشق ج: 3 ص: 173 النبی محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب کی سوانح حیات میں:جناب عبدالمطلب کے لڑکے و لڑکیوں اور بیویوں کے باب میں،ص: 415 باب اخبار الاخبار بنبوتہ و الرھبان و ما یذکر من امرہ عن العلماء و الکھان،

( 2) الاصابۃ ج: 6 ص: 430 ،نضر بن الحارث کے سوانح حیات میں،انساب الشراف ج: 1 ص 232 ،ان لوگوں کے نام کے بارے میں جن مسلمانوں نے حبشہ کی طرف اپنے دین کی خاطر لڑنے کے لئے مشرکوں سے جو قریش میں سے تھے اور وہ نبیؐ کے اذن سے تھی۔تاریخ دمشق ج: 62 ص 105 ،نضیر بن الحارث کے سوانح حیات میں۔

( 3) الاصابۃ ج: 6 ص: 436 ،نضر بن الحارث کے سوانح حیات میں،الاستیعاب ج: 4 ص: 1525 ،نضر بن الحارث کے سوانح حیات میں،تاریخ دمشق ج: 62 ص 101 ،نضیر بن الحارث کے سوانح حیات میں،

۵۳

سابقین اوّلین کے حالات ایسے نہیں کہ سب کی کامیابی کا یقین کر لیا جائے!

2 ۔ سابقین اوّلین کا کردار اور ان کے آپسی اختلافات اور اپنے بارے میں ان کے نظریات یا دوسرے صحابہ کے ان کے بارے میں نظریات کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا تو قطعی مناسب نہیں ہے کہ سب کے سب کامیاب و کامران ہیں ہم نے اس سلسلہ میں دوسرے نمبر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کچھ باتیں پیش بھی کی تھیں وہ واقعات اگر چہ عام صحابہ متعلق ہیں لیکن اکثر واقعات تو خاص طور سے سابقون اوّلون سے متعلق ہیں آپ اپنے دوسرے سوال کے جواب کو دیکھیں بات واضح ہوجائے گی میں ان باتوں کا اعادہ کرنا ضروری نہیں سمجھتا ۔ آپ جانتے ہیں کہ سقیفہ کے دن لوگوں نے سعد بن عبادہ انصاری کی بیعت کرنا چاہی تو ابوعبیدہ انصاری بول اٹھے،اے گروہ انصار تم لوگوں نے سب سے پہلے نبی ؐ کی نصرت کی تھی کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی دین نبی ؐ میں سب سے پہلے تغیر و تبدل دینےوالے بن جاؤ!(1)

آپ دیکھ رہے ہیں کہ ابوعبیدہ تغیر سے ڈ را رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ نصرت میں سبقت تغیر کے ساتھ فائدہ نہیں دےگی بلکہ استقامت کے ساتھ فائدہ دےگی،یہ تمام باتیں شہادت دیتی ہیں کہ صحابہ اگر چہ ایسے ماحول میں تھے جس میں یہ آیت نازل ہوئی تھی لیکن پھر بھی خود کو یقینی طور پر نجات یافتہ اور کامیاب نہیں سمجھتے تھے اور اس آیت کے گرد و پیش جو قرینے ہیں ان پر نظر رکھتے تھے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ یعقوبی ج:2ص:123،سقیفہ بنی ساعدۃ و بیعتہ ابی بکر کی خبر میں،واللفظ لہ،تاریخ الطبری ج:2ص:243ذکر الخیر عما جری بین المھاجرین و الانصار امر الامارۃ فی سقیفۃ بنی ساعدۃ،الامامۃ و السیاسۃ ج:1ص:12ذکر السقیفۃ و ما جری فیھا من القول،

۵۴

سابقین اوّلین کو قطعی طور پر نجات یافتہ مان لینا انھیں برائیوں کی طرف ترغیب دینا ہے

3 ۔ ظاہر ہے کہ مذکورہ بالا آیت بہت سے سابقون اولون ہی کی زندگی میں نازل ہوچکی تھی یہ بات بعید از فہم ہے کہ اللہ سابقون اولون کو استقامت کی شررط کے بغیر اور دین سے پھر جانے کی قید کے بغیر ہی سلامتی اور کامیابی کا یقین دلا دے،اس سے تو ان سابقون اولون کو برائی کی ترغیب ملےگی عقل کا فیصلہ ہے کہ سب سے بڑی خرابی عقیدہ اور عمل میں انقلاب اور کجی ہے عیقدہ اور عمل ہی قیامت کے دن خدا کی سب سے بڑی حجت ہوں گے اس لئے کہ انہیں کے ذریعہ خوف ہلاکت سے بچا جاسکتا ہے جب عقیدہ اور عمل ہی معاف کردیا گیا(تو گویا سابقون اولون حساب سے بری ہوگئے)تو برائیوں سے روکنے کی دعوت بھی ہلکی ہوجائےگی اور یہ بات لوگوں پر قیام حجت الٰہی کی حکمت کے خلاف ہے نیز اس طرح سے(چھوٹ دے کر)خدا ان کی اصلاح نہیں کرسکتا سلامت قطعی کا وعدہ خدا کا ابتدائی فضل بھی نہیں ہے کہ ان لوگوں کی اطاعت کے ذریعہ اظہار تشکر کرنے سے روک رہا ہے بلکہ یہ وعدہ شخص موعود کے عمل کی بنا پر کیا گیا ہے اس لئے کہ عمل صالح اور خیالی دنیا میں مراتب کامیابی عام انسانوں کے اندر غرور،تفاخر اور اتراہٹ پیدا کرتے ہیں عام انسان تو ان خرابیوں کا شکار ہو ہی جاتا ہے،)ہاں اگر اللہ کی طرف سے توفیق حاصل ہو تو بچ سکتا ہے ۔

پھر یہ بھی تو دیکھئے کہ سابقون اولون کے درمیان آپس میں کتنی صف بندی ہے سابقہ نظریات اور موہوم مراتب کی وجہ سے ہر آدمی اولویت کا دعوےدار ہے اور آپس کا اختلاف دعوت اور اتباع کو مستقل نقصان پہنچاتا رہا ہے نتیجہ ظاہر ہے سابقون اولون کی تاریخ تفاخر اختلافات اور آپس کی فرقہ بندی سے بھری پڑی ہے جب کہ صحیح یہ ہے کہ کسی کو بھی اپنی نجات کا یقین نہیں اور پھر کوئی بھی اخروی کامیابی قطعی نہیں سمجھتا بلکہ اکثر سابقون اولون تو آخرت سے خوف زدہ ہیں جبکہ انھیں نہیں معلوم کہ ان کا

۵۵

ٹھکانہ کہاں ہے؟یہ باتیں پہلے بھی میں آپ کی خدمت میں دوسرے سوالوں کے جواب میں عرض کرچکا ہوں(وہ اپنے انجام کے بارے میں مشکوک تھے اس کے باوجود تاریخ ان کی بےراہ روی سے بھری پڑی ہے)تو اگر انھیں آخرت کی سلامتی اور نجات کا یقین دلا دیا جاتا تو وہ کیا گل کھلاتے؟ویسے بھی یہ بات ہرگز نہیں سمجھ میں آتی کہ اللہ کسی ایک آدمی کو اس کی زندگی ہی میں جنت کا یقین دلادے چہ جائے کہ ایک پوری جماعت کو جو کہ تفاخر اور آپسی لڑاتئی جھگڑے و غیرہ کی مرتکب ہو نیز امت کی قیادت کے لئے مقابلے میں اترسکتی ہے جیسا کہ ابھی تک ایسا ہوتا چلا آتا ہے پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے جب کہ حضور سرکار دو عالم ؐ جن کی رفعت سے کسی کو انکار نہیں نہ اس سے انکار ہے کہ آپ نے خواہش نفسانی پر قبضہ پالیا ہے لیکن اللہ مقام ہدایت میں آپ کی بھی تبلیغ یا دہانی سے نہیں چوکتا اور آپ کو انحراف اور کجی کا انجام بار بار تباتا ہے تا کہ آپ بھی محتاط رہیں اور دوسرے بھی سمجھ لیں کہ جب انحراف اور گمراہی نبی ؐ کے لئے ہلاکت خیز ہوسکتا ہے تو ہم اور آپ کس شمار میں آتے ہیں ۔

ارشاد ہوا:(وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ) (1)

ترجمہ آیت:(میں نے آپ پر اور آپ کے پہلے انبیا پر وحی نازل کرکے یہ بتا دیا ہے کہ اگر آپ شرک کریں گے تو آپ کے سارے اعمال حبط ہوجائیں گے اور آپ یقیناً بہت نقصان اٹھانےوالوں میں ہوں گے) ۔

پھر دوسری جگہ ارشاد ہوا:(وَلَوْلَا أَن ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدتَّ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا-إِذًا لَّأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا) (2)

ترجمہ آیت:(اگر میں نے آپ کو ثابت قدم کی توفیق نہیں دی ہوتی تو آپ(کافروں کی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ زمرآیت 65

( 2) سورہ اسراءآیت 74 اور 75

۵۶

طرف تھوڑ ٓ سا جھک جاتے اور اگر ایسا ہوتا پھر آپ مرمر کے جیتے جب بھی آپ کو میرے خلاف کوئی مددگار نہیں ملتا) ۔

دوسری جگہ ارشاد ہوا:(وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ-لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ-ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ-فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ) (1)

ترجمہ آیت:(اگر رسول ؐ ہماری نسبت کوئی جھوٹ بات بنالاتے تو ہم انکا داہنہ ہاتھ پکڑ لیتے پھر ہم ضرور ان کی گردن اڑادیتے تو تم میں سے کوئی بھی مجھے روک نہ سکتا) ۔

خود حضور سرکار دو عالم ؐ فرماتے ہیں کہ:رحمت کی مدد سے صرف عمل ہی نجات دے سکتا ہے اگر میں بھی نافرمانی کروں تو برباد ہوجاؤں گا(2) اور اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں ۔

سابق الایمان ہونے سے ذمّہ داریاں بڑھ جاتی ہیں

البتہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ آیت شریفہ کا ظاہری معنی یہ ثابت کرتا ہے کہ بہرحال ایمان پر سبقت اور عمل صالح ایک بڑی فضیلت ہے لیکن سابقین ایمان کی ذمّہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں اس لئے کہ مومن کی شان جس قدر بلند ہوتی ہے اور جیسے جیسے اس کو رفعت حاصل ہوتی جاتی ہے اور ان پر خدا کی نعمتیں بڑھتی جاتی ہے اور اس کی حمایت میں دلیلیں اکھٹی ہوتی جاتی ہیں اور اسی حساب سے اس کی ذمّہ داری بھی بڑھ جاتی ہے اور اس کے ایمان اور یقین کے لئے خطرے بھی بہت پیدا ہوجاتے ہیں تو اگر وہ اپنی ذمّہ داریوں سے عہد برآ ہوتا رہتا ہے اور اپنی بلند کرداری اور سیرت کو برقرار رکھتا ہے تو اس کی شان بھی بڑھتی رہتی ہے اور اجر بھی بڑھتا رہتا ہے لیکن اگر اس کا دل ٹیڑھا ہوجائے اور وہ پستیوں کی طرف جھک جائے تو اسی حساب سے اس کی سزا بھی بڑھ جاتی ہے اس لئے کہ اس پر تو حجت تمام ہوچکی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ حاقہ آیت 44 تا 47

( 2) شرح نہج البلاغہ ج: 1 ص: 184 ،الارشاد للشیخ المفیدج: 1 ص: 182

۵۷

خود سوچیں سابقوں اولون اپنے بعد آنےوالوں کے لئے نمونہ عمل ہیں اگر وہی کجرو اور گمراہ ہوگئے تو بعد کے آنےوالے ان کی پیروی میں گمراہ ہوں گے،پھر ان کی گمراہی کا سبب کون بنا ظاہر ہے جن کی ان لوگوں نے پیروی کی ہے نتیجہ یہ ہوا کہ سابقون اولون اپنی گمراہی کی وجہ سے دو گنا عذاب کے مستحق قرار پائے یعنی ان کی مسؤلیت نے انہیں دو گنا عذاب کا مستحق بنادیا،جیسا کہ یہ ساری باتیں سابقہ سوالوں کے دوسرے سوال کے جواب میں کہہ چکے ہیں ۔

کیا سابقون اولون کے معاملے میں دخل دینا چاہئے

دوسری وجہ ۔ آپ کے سوال سے ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے،وہ یہ ہے کہ اگر سابقون اولون کی نجات یقینی نہیں ہے نہ ان کی کامیابی یقینی ہے لیکن پھر متاخرین کو ان پر ان کی حرکتوں کی وجہ سے اور بدکرداری کی وجہ سے اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے متاخرین کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ان پر جرح کریں یا طعن کریں اس لئے کہ انھیں بہرحال ایمان میں سبقت حاصل ہے اور یہی حرمت سبقت ہمیں روکتی ہے ہمیں چاہئے کہ ان کا معاملہ اللہ کے حوالے کردیں وہ ان کا حساب لےگا وہ چاہےگا تو عدالت کی بنیاد پر سزا دےگا اور چاہےگا تو اپنے فضل سے بخش دےگا(ہم کون ہوتے ہیں انہیں برا بھلا کہنےوالے ان کی حرمت سبقت کا تو خیال ہمیں کرنا ہی چاہئے)دوسرے لفظوں میں ہمیں ان کے بارے میں کچھ نہیں بولنا چاہئے اگر چہ ہمیں ان کی نجات اور کامیابی کا یقین نہین ہے لیکن معاملہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ چاہے تو ان گناہوں کی وجہ سے انہیں سزا دے اور ان کی بدفعلوں کا مواخذہ کرے لیکن ہم متاخرین کو حق حاصل نہیں ہے کہ ہم ان کے معاملات میں دخل دیں انہیں لعن و طعن کریں اس لئے کہ وہ بہرحال ہم سے سابق ہونے کی وجہ سے محترم اور بلند ہیں اور ہم اس سطح پر نہیں کہ ان پر تنقید کریں خدا نے انہیں اس مقام خاص سے مخصوص کیا یہ سوال تو پیدا ہوتا ہے ۔

لیکن میں عرض کروں گا کہ آپ کی مندرجہ بالا باتیں ثبوت کی محتاج ہیں اس لئے کہ جس آیت

۵۸

کو آپ نے دلیل بنایا ہے وہ اس بات پر دلالت نہیں کرتی اس آیت کریمہ میں سابقون اولون کے بارے میں عوام کا نظریہ نہیں پیش کیا گیا ہے خدا کا نظریہ پیش کیا گیا ہے اور اگرچہ آیت ان کی کامیابی اور سلامتی کی ضمانت لیتی ہے لیکن پہلے عرض کرچکا ہوں کہ سلامتی کا یقین استقامت اور حُسن انجام سے مشروط ہے،آیت ان لوگوں کو اپنے دائرے میں لینے سے قاصر ہے جن کے اندر استقامت نہیں پائی جاتی اور جنہوں نے بعد میں اپنے عقیدے اور سلوک میں کجروی اختیار کرلی ۔ لہذا ضروری ہے کہ ادلہ عامہ کی طرف دیکھا جائے کہ عمومی طور پر قرآن کا کیا اصول ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کہتا ہے بزرگ لوگوں سے صرف ان کی بزرگی کی خاطر عقیدت رکھنا حرام اور ان پر لعن طعن ضروری اور ان کی جرح و تنقید واجب ہے ملاحظہ فرمائیں:(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ) (1)

ترجمہ آیت:(جن پر اللہ نے اپنا غضب نازل کیا ہے اور وہ آخرت سے یوں ہی مایوس ہوگئے جس طرح کفار اصحاب قبور سے مایوس ہیں) ۔

ارشاد ہوا:(وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ) (2)

ترجمہ آیت:(ظالموں کی طرف مت جھکو ورنہ تمہیں آگ جلادےگی) ۔

(فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ-أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَىٰ أَبْصَارَهُمْ)(3)

ترجمہ آیت:(کیا تم سے کچھ دور ہے کہ اگر تم حاکم ہوتے تو روئے زمین میں فساد پھیلاتے اور رشتے ناتے کو توڑنے لگتے یہ وہی لوگ ہیں جن پر خدا کی لعنت کی ہے اور ان کے کانوں کو بہرا اور آنکھوں کو اندھا کردیا ہے) ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ ممتحنہ آیت 13 (2) سورہ ھود آیت 113

( 3) سورہ محمد آیت 22 اور 23

۵۹

دوبارہ ارشاد ہوا: (إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ) (1)

ترجمہ آیت:(بیشک وہ لوگ جو ان روشن ہدایتوں کو چھپاتے ہیں جنہیں اللہ نے نازل کیا ہے اور لوگوں کے لئے وضاحت کردی ہے ان پر اللہ کی لعنت ہے اور لعنت کرنےوالے ان پر لعنت کرتے ہیں) ۔

پھر دوسری جگہ ارشاد ہوا: (وَالَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ) (2)

ترجمہ آیت:(اور وہ لوگ جو اللہ سے عہد کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اللہ نے جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے ان کو توڑتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے لعنت ہے اور ان لوگوں کے لئے برا گھر ہے) ۔

اس مضمون کی دوسری آیتیں بھی ہیں ۔

میرا خیال ہے کہ صحابہ تابعین اور ان کے بعد آنےوالے چاہے وہ سابقون اولون میں سے ہوں یا دوسرے لوگ ان کے بارے میں یہی سب سے بہتر نظریہ ہے،اس لئے کہ جو احکام ان پر جاری ہوتے ہیں وہی ہم پر بھی جاری ہونگے کیونکہ ہم دین میں ان کے شریک اور شریعت میں ان سے متحد و متفق ہیں ۔

سابقون اوّلون مشخص ہی نہیں ہیں!

سابقون اولون کون ہیں ان کا مشخص کرنا مشکل ہے مثلاً بہت سے مہاجرین و انصار متاخر ہیں لیکن اپنے بعد والے کے لئے وہی سابقین اولین ہیں اور وہ اپنے بعد والوں کی نسبت سے سابقون

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ بقرہ:آیت 159 (2) سورہ رعدآیت 25

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367