فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ10%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206457 / ڈاؤنلوڈ: 5999
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

(۴۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

عند المسير إلى الشام قيل إنه خطب بها وهو بالنخيلة خارجا من الكوفة إلى صفين

الْحَمْدُ لِلَّه كُلَّمَا وَقَبَ لَيْلٌ وغَسَقَ والْحَمْدُ لِلَّه كُلَّمَا لَاحَ نَجْمٌ وخَفَقَ والْحَمْدُ لِلَّه غَيْرَ مَفْقُودِ الإِنْعَامِ ولَا مُكَافَإِ الإِفْضَالِ.

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَعَثْتُ مُقَدِّمَتِي وأَمَرْتُهُمْ بِلُزُومِ هَذَا الْمِلْطَاطِ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرِي - وقَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَقْطَعَ هَذِه النُّطْفَةَ إِلَى شِرْذِمَةٍ مِنْكُمْ - مُوَطِّنِينَ أَكْنَافَ دِجْلَةَ - فَأُنْهِضَهُمْ مَعَكُمْ إِلَى عَدُوِّكُمْ - وأَجْعَلَهُمْ مِنْ أَمْدَادِ الْقُوَّةِ لَكُمْ.

قال السيد الشريف أقول يعنيعليه‌السلام بالملطاط هاهنا السمت الذي أمرهم بلزومه وهو شاطئ الفرات ويقال ذلك أيضا لشاطئ البحر وأصله ما استوى من الأرض ويعني بالنطفة ماء الفرات وهو من غريب العبارات وعجيبها.

(۴۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جو صفین کے لئے کوفہ سے نکلتے ہوئے مقام نخیلہ پر ارشاد فرمایا تھا)

پروردگار کی حمد ہے جب بھی رات آئے اورتاریکی چھائے یا ستارہ چمکے اورڈوب جائے۔پروردگار کی حمدوثنا ہے کہ اس کی نعمتیں ختم نہیں ہوتی ہیں اور اس کے احسانات کا بدلہ نہیں دیا جا سکتا ہے۔

امابعد! میں نے اپنے لشکر کا ہر اول دستہ روانہ کردیا ہے اور انہیں حکم دے دیا ہے کہ اس نہر کے کنارے ٹھہر کر میرے حکم کا انتظار کریں۔میں چاہتا ہوں کہ اس دریائے دجلہ کو عبور کرکے تمہاری(۱) ایک مختصرجماعت تک پہنچ جائوں جو اطراف دجلہ میں مقیم ہیں تاکہ انہیں تمہارے ساتھ جہاد کے لئے آمادہ کر سکوں اور ان کے ذریعہ تمہاری قوت میں اضافہ کر سکوں۔

سید رضی : ملطاط سے مراد دریا کا کنار ہ ہے اور اصل میں یہ لفظ ہموار زمین کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ نطفہ سے مراد فرات کا پانی ہے اور یہ عجیب و غریب تعبیرات میں ہے۔

(۱)اس جماعت سے مراد اہل مدائن ہیں جنہیں حضرت اس جہاد میں شامل کرنا چاہتے تھے اور ان کے ذریعہ لشکر کی قوت میں اضافہ کرنا چاہتے تھے۔خطبہ کے آغاز میں رات اور ستاروں کاذکر اسامر کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ لشکراسلام کو رات کی تاریکی اورستارہ کے غروب و زوال سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔نور مطلق اور ضیاء مکمل ساتھ ہے تو تاریکی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے اور ستاروں کا کیا بھروسہ ہے۔ستارے تو ڈوب بھی جاتے ہیں لیکن جو پروردگار قابل حمدو ثناء ہے اس کے لئے زوال و غروب نہیں ہے اور وہ ہمیشہ بندۂ مومن کے ساتھ رہتا ہے۔!

۸۱

(۴۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه جملة من صفات الربوبية والعلم الإلهي

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي بَطَنَ خَفِيَّاتِ الأَمُوُرِ - ودَلَّتْ عَلَيْه أَعْلَامُ الظُّهُورِ - وامْتَنَعَ عَلَى عَيْنِ الْبَصِيرِ - فَلَا عَيْنُ مَنْ لَمْ يَرَه تُنْكِرُه - ولَا قَلْبُ مَنْ أَثْبَتَه يُبْصِرُه - سَبَقَ فِي الْعُلُوِّ فَلَا شَيْءَ أَعْلَى مِنْه - وقَرُبَ فِي الدُّنُوِّ فَلَا شَيْءَ أَقْرَبُ مِنْه - فَلَا اسْتِعْلَاؤُه بَاعَدَه عَنْ شَيْءٍ مِنْ خَلْقِه - ولَا قُرْبُه سَاوَاهُمْ فِي الْمَكَانِ بِه - لَمْ يُطْلِعِ الْعُقُولَ عَلَى تَحْدِيدِ صِفَتِه - ولَمْ يَحْجُبْهَا عَنْ وَاجِبِ مَعْرِفَتِه - فَهُوَ الَّذِي تَشْهَدُ لَه أَعْلَامُ الْوُجُودِ - عَلَى إِقْرَارِ قَلْبِ ذِي الْجُحُودِ - تَعَالَى اللَّه عَمَّا يَقُولُه الْمُشَبِّهُونَ بِه - والْجَاحِدُونَ لَه عُلُوّاً كَبِيراً!

(۴۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں پروردگار کے مختلف صفات اور اس کے علم کا تذکرہ کیا گیا ہے)

ساری تعریف اس خداکے لئے ہے جو مخفی امور کی گہرائیوں سے با خبر ہے اوراس کے وجود کی رہنمائی ظہور کی تمام نشانیاں کر رہی ہیں۔وہ دیکھنے والوں کی نگاہ میں آنے والا نہیں ہے لیکن نہ کسی نہ دیکھنے والے کی آنکھ اس کا انکار کر سکتی ہے۔اورنہ کسی اثبات کرنے والے کا دل اس کی حقیقت کو دیکھ سکتا ہے۔وہ بلندیوں میں اتنا آگے ہے کہ کوئی شے اس سے بلند تر نہیں ہے اور قربت میں اتنا قریب ہے کہ کوئی شے اس سے قریب تر نہیں ہے۔نہ اس کی بلندی اسے مخلوقات سے دور بنا سکتی ہے اور نہ اس کی قربت برابر کی جگہ پر لا سکتی ہے۔اس نے عقلوں کو اپنی صفتوں کی حدوں سے باخبر نہیں کیاہے اوربقدر واجب معرفت سے محروم بھی نہیں رکھا ہے۔وہ ایسی ہستی ہے کہ اس کے انکار کرن والے کے دل پر اس کے وجود کی نشانیاں شہادت دے رہی ہیں۔وہ مخلوقات سے تشبیہ دینے والے اور انکار کرنے والے دونوں کی باتوں سے بلند وبالاتر ہے۔

۸۲

(۵۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه بيان لما يخرب العالم به من الفتن وبيان هذه الفتن

إِنَّمَا بَدْءُ وُقُوعِ الْفِتَنِ أَهْوَاءٌ تُتَّبَعُ وأَحْكَامٌ تُبْتَدَعُ - يُخَالَفُ فِيهَا كِتَابُ اللَّه - ويَتَوَلَّى عَلَيْهَا رِجَالٌ رِجَالًا عَلَى غَيْرِ دِينِ اللَّه - فَلَوْ أَنَّ الْبَاطِلَ خَلَصَ مِنْ مِزَاجِ الْحَقِّ - لَمْ يَخْفَ عَلَى الْمُرْتَادِينَ ولَوْ أَنَّ الْحَقَّ خَلَصَ مِنْ لَبْسِ الْبَاطِلِ - انْقَطَعَتْ عَنْه أَلْسُنُ الْمُعَانِدِينَ - ولَكِنْ يُؤْخَذُ مِنْ هَذَا ضِغْثٌ ومِنْ هَذَا ضِغْثٌ فَيُمْزَجَانِ - فَهُنَالِكَ يَسْتَوْلِي الشَّيْطَانُ عَلَى أَوْلِيَائِه - ويَنْجُو( الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ ) مِنَ اللَّه( الْحُسْنى ).

(۵۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(اس میں ان فتنوں کا تذکرہ ہے جو لوگوں کو تباہ کر دیتے ہیں اور ان کے اثرات کا بھی تذکرہ ہے)

فتنوں) ۱) کی ابتدا ان خواہشات سے ہوتی ہے جن کا اتباع کیا جاتا ہے اور ان جدید ترین احکام سے ہوتی ہے جوگڑھ لئے جاتے ہیں اور سراسر کتاب خدا کے خلاف ہوتے ہیں۔اس میں کچھ لوگ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہو جاتے ہیں اور دین خدا سے الگ ہو جاتے ہیں کہ اگر باطل حق کی آمیزش سے الگ رہتا تو حق کے طلب گاروں پرمخفی نہ ہو سکتا اور اگر حق باطل کی ملاوٹ سے الگ رہتا تو دشمنوں کی زبانیں نہ کھل سکتیں۔لیکن ایک حصہ اس میں سے لیا جاتا ہے اور ایک اس میں سے ' اور پھر دونوں کو ملا دیا جاتا ہے اورایسے ہی مواقع پر شیطان اپنے ساتھیوں پر مسلط ہو جاتا ہے اورصرف وہ لوگ نجات حاصل کر پاتے ہی جن کے لئے پروردگار کی طرف سے نیکی پہلے ہی پہنچ جاتی ہے۔

(۱)اس ارشاد گرامی کا آغاز لفظ انما سے ہوا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ دنیا کا ہرفتنہ خواہشات کی پیروی اور بدعتوں کی ایجاد سے شروع ہوتا ہے اور یہی تاریخی حقیقت ہے کہ اگر امت اسلامیہ نے روز اول کتاب خدا کے خلاف میراث کے احکام وضع نہ کئے ہوتے اور اگرمنصب و اقتدار کی خواہش میں ''من کنت مولاہ '' کا انکار نہ کیا ہوتااور کچھ لوگ کچھ لوگوں کے ہمدرد نہ ہوگئے ہوتے اور نص پیغمبر (ص) کے ساتھ سن و سال اورصحابیت و قرابت کے جھگڑے نہ شامل کردئیے ہوتے تو آج اسلام بالکل خالص اورصریح ہوتا اور امت میں کسی طرح کا فتنہ وفساد نہ ہوتا۔لیکن افسوس کہ یہ سب کچھ ہوگیا اور امت ایک دائمی فتنہ میں مبتلا ہوگئی جس کا سلسلہ چودہ صدیوں سے جاری ہے اور خدا جانے کب تک جاری رہے گا۔

۸۳

(۵۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

لما غلب أصحاب معاوية أصحابهعليه‌السلام على شريعة الفرات بصفين ومنعوهم الماء

قَدِ اسْتَطْعَمُوكُمُ الْقِتَالَ فَأَقِرُّوا عَلَى مَذَلَّةٍ وتَأْخِيرِ مَحَلَّةٍ - أَوْ رَوُّوا السُّيُوفَ مِنَ الدِّمَاءِ تَرْوَوْا مِنَ الْمَاءِ فَالْمَوْتُ فِي حَيَاتِكُمْ مَقْهُورِينَ،والْحَيَاةُ فِي مَوْتِكُمْ قَاهِرِينَ - أَلَا وإِنَّ مُعَاوِيَةَ قَادَ لُمَةً مِنَ الْغُوَاةِ - وعَمَّسَ عَلَيْهِمُ الْخَبَرَ - حَتَّى جَعَلُوا نُحُورَهُمْ أَغْرَاضَ الْمَنِيَّةِ.

(۵۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي في التزهيد في الدنيا وثواب الله للزاهد ونعم الله على الخالق

التزهيد في الدنيا

أَلَا وإِنَّ الدُّنْيَا قَدْ تَصَرَّمَتْ وآذَنَتْ بِانْقِضَاءٍ - وتَنَكَّرَ مَعْرُوفُهَا وأَدْبَرَتْ حَذَّاءَ فَهِيَ تَحْفِزُ بِالْفَنَاءِ سُكَّانَهَا - وتَحْدُو بِالْمَوْتِ جِيرَانَهَا

(۵۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جب معاویہ کے ساتھیوں نے آپ کے ساتھیوں کو ہٹا کر صفین کے قریب فرات پرغلبہ حاصل کرلیا اور پانی بند کردیا)

دیکھو دشمنوں نے تم سے غذائے جنگ کا مطالبہ کردیا ہے اب یا تو تم ذلت اوراپنے مقام کی پستی پر قائم رہ جائو'یااپنی تلواروں کو خون سے سیراب کر دو اورخود پانی سے سیراب ہو جائو۔در حقیقت موت ذلت کی زندگی میں ہے اور زندگی عزت کی موت میں ہے۔آگاہ ہو جائو کہ معاویہ گمراہوں کی ایک جماعت کی قیادت کر رہا ہے جس پر تمام حقائق پوشیدہ ہیں اور انہوں نے جہالت کی بناپ ر اپنی گردنوں کو تیر اجل کا نشانہ بنادیا ہے۔

(۵۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں دنیا میں زہد کی ترغیب اور پیش پروردگاراس کے ثواب اور مخلوقات پر خالق کی نعمتوں کاتذکرہ کیا گیا ہے )

آگاہ ہو جائو دنیا جا رہی ہے اور اس نے اپنی رخصت کا اعلان کردیا ہے اور اس کی جانی پہچانی چیزیں بھی اجنبی ہوگئی ہیں۔وہ تیزی سے منہ پھیر رہی ہے اور اپنے باشندوں کو فنا کی طرف سے جا رہی ہے اور اپنے ہمسایوں کو موت کی طرف ڈھکیل رہی ہے۔

۸۴

وقَدْ أَمَرَّ فِيهَا مَا كَانَ حُلْواً وكَدِرَ مِنْهَا مَا كَانَ صَفْواً - فَلَمْ يَبْقَ مِنْهَا إِلَّا سَمَلَةٌ كَسَمَلَةِ الإِدَاوَةِ أَوْ جُرْعَةٌ كَجُرْعَةِ الْمَقْلَةِ لَوْ تَمَزَّزَهَا الصَّدْيَانُ لَمْ يَنْقَعْ فَأَزْمِعُوا عِبَادَ اللَّه - الرَّحِيلَ عَنْ هَذِه الدَّارِ الْمَقْدُورِ عَلَى أَهْلِهَا الزَّوَالُ - ولَا يَغْلِبَنَّكُمْ فِيهَا الأَمَلُ - ولَا يَطُولَنَّ عَلَيْكُمْ فِيهَا الأَمَدُ.

ثواب الزهاد

فَوَاللَّه لَوْ حَنَنْتُمْ حَنِينَ الْوُلَّه الْعِجَالِودَعَوْتُمْ بِهَدِيلِ الْحَمَامِ وجَأَرْتُمْ جُؤَارَ مُتَبَتِّلِي الرُّهْبَانِ - وخَرَجْتُمْ إِلَى اللَّه مِنَ الأَمْوَالِ والأَوْلَادِ - الْتِمَاسَ الْقُرْبَةِ إِلَيْه فِي ارْتِفَاعِ دَرَجَةٍ عِنْدَه - أَوْ غُفْرَانِ سَيِّئَةٍ أَحْصَتْهَا كُتُبُه - وحَفِظَتْهَا رُسُلُه لَكَانَ قَلِيلًا فِيمَا أَرْجُو لَكُمْ مِنْ ثَوَابِه - وأَخَافُ عَلَيْكُمْ مِنْ عِقَابِه.

اس کی شیرینی تلخ ہو چکی ہے اور اس کی صفائی مکدر ہو چکی ہے۔اب اس میں صرف اتنا ہی پانی باقی رہ گیا ہے جو تہہ میں بچا ہوا ہے اور وہ نپا تلا گھونٹ رہ گیا ہے جسے پیا سا پی بھی لے تو اس کی پیاس نہیں بجھ سکتی ہے۔لہٰذا بندگان خدا اب اس دنیا سے کوچ کرنے کا ارادہ کرلو جس کے رہنے والوں کا مقدر زوال ہے اور خبر دار! تم پر خواہشات غالب نہ آنے پائیں اور اس مختصر مدت کو طویل نہ سمجھ لینا۔

خدا کی قسم اگر تم ان اونٹنیوں کی طرح بھی فریاد کرو جن کا بچہ گم ہوگیا ہو اور ان کبوتروں کی طرح نالہ و فغاں کرو جو اپنے جھنڈ سے الگ ہوگئے ہوں اور ان راہبوں کی طرح بھی گریہ و فریاد کرو جو اپنے گھر بار کو چھوڑ چکے ہیں اور مال و اولاد کو چھوڑ کر قربت خدا کی تلاش میں نکل پڑو تاکہ اس کی بارگاہ میں درجات بلند ہو جائیں یا وہ گناہ معاف ہو جائیں جو اس کے دفتر میں ثبت ہوگئے ہیں اور فرشتوں نے انہیں محفوظ کرلیا ہے تو بھی یہ سب اس ثواب سے کم ہوگا(۱) جس کی میں تمہارے بارے میں امید رکھتا ہوں یا جس عذاب کا تمہارے بارے میں خوف رکھتا ہوں۔

(۱)کھلی ہوئی بات ہے کہ '' فکر ہر کس بقدر ہمت اوست'' دنیا کا انسان کتنا ہی بلند نظر اور عالی ہمت کیوں نہ ہو جائے مولائے کائنات کی بلندی فکر کو نہیں پا سکتا ہے اور اس درجہ علم پرفائز نہیں ہو سکتا ہے جس پر مالک کائنات نے باب مدینتہ العلم کوفائز کیا ہے۔آپ فرمانا چاہتے ہیں کہ تم لوگ میری اطاعت کرو اور میرے احکام پر عمل کرو۔اس کا اجروثواب تمہارے افکار کی رسائی کی حدوں سے بالاتر ہے۔میں تمہارے لئے بہترین ثواب کی امید رکھتا ہوں اور تمہیں بد ترین عذاب سے بچانا چاہتا ہوں لیکن اس راہ میں میرے احکام کی اطاعت کرنا ہوگی اور میرے راستہ پر چلنا ہوگا جو در حقیقت شہادت اورقربانی کا راستہ ہے اور انسان اسی راستہ پر قدم آگے بڑھانے سے گھبراتا ہے اورحیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک دنیا دار انسان جس کی ساری فکر مال دنیا اورثروت دنیا ہے وہ بھی کسی ہلاکت کے خطرہ میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اپنے کو ہلاکت سے بچانے کے لئے سارا مال و متاع قربان کردیتا ہے تو پھرآخر دیندار انسان میں یہ جذبہ کیوں نہیں پایا جاتا ہے؟ وہ جنت النعیم کو حاصل کرنے اور عذاب جہنم سے بچنے کے لئے اپنی دنیا کو قربان کیوں نہیں کرتا ہے؟ اس کا تو عقیدہ یہی ہے کہ دنیا چند روزہ اور فانی ہے اور آخرت ابدی اور دائمی ہے تو پھر فانی کوباقی کی راہ میں کیوں قربان نہیں کردیتا ؟''اف هذا الشی عجاب''

۸۵

نعم الله

وتَاللَّه لَوِ انْمَاثَتْ قُلُوبُكُمُ انْمِيَاثاً وسَالَتْ عُيُونُكُمْ مِنْ رَغْبَةٍ إِلَيْه أَوْ رَهْبَةٍ مِنْه دَماً - ثُمَّ عُمِّرْتُمْ فِي الدُّنْيَا مَا الدُّنْيَا بَاقِيَةٌ مَا جَزَتْ أَعْمَالُكُمْ عَنْكُمْ - ولَوْ لَمْ تُبْقُوا شَيْئاً مِنْ جُهْدِكُمْ - أَنْعُمَه عَلَيْكُمُ الْعِظَامَ وهُدَاه إِيَّاكُمْ لِلإِيمَانِ.

(۵۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذكرى يوم النحر وصفة الأضحية

ومِنْ تَمَامِ الأُضْحِيَّةِ اسْتِشْرَافُ أُذُنِهَا وسَلَامَةُ عَيْنِهَا - فَإِذَا سَلِمَتِ الأُذُنُ والْعَيْنُ سَلِمَتِ الأُضْحِيَّةُ وتَمَّتْ - ولَوْ كَانَتْ عَضْبَاءَ الْقَرْنِ تَجُرُّ رِجْلَهَا إِلَى الْمَنْسَكِ

قال السيد الشريف والمنسك هاهنا المذبح.

(۵۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها يصف أصحابه بصفين حين طال منعهم له من قتال أهل الشام

خدا کی قسم اگر تمہارے دل بالکل پگھل جائیں اور تمہاری آنکھوں سے آنسوئوں کے بجائے رغبت ثواب یا خوف عذاب میں خون جاری ہوجائے اور تمہیں دنیا میں آخر تک باقی رہنے کا موقع دے دیا جائے تو بھی تمہارے اعمال اس کی عظیم ترین نعمتوں اور ہدایت ایمان کا بدلہ نہیں ہو سکتے ہیں چاہے ان کی راہ میں تم کوئی کسر اٹھا کر نہ رکھو۔

(۵۳)

(جس میں روز عید الضحیٰ کا تذکرہ ہے اورقربانی کے صفات کاذکر کیا گیا ہے)

قربانی کے جانور کا کمال یہ ہے کہ اس کے کان بلند ہوں اور آنکھیں سلامت ہوں کہ اگر کان اور آنکھ سلامت ہیں توگویا قربانی سالم اورمکمل ہے چاہے اس کی سینگ ٹوٹی ہوئی ہو اور وہ پیروں کو گھسیٹ کر اپنے کوقربان گاہ تک لے جائے۔

سید رضی : اس مقام پر منسلک سے مراد مذبح اورقربان گاہ ہے۔

(۵۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں آپ نے اپنی بیعت کا تذکرہ کیا ہے)

۸۶

فَتَدَاكُّوا عَلَيَّ تَدَاكَّ الإِبِلِ الْهِيمِ يَوْمَ وِرْدِهَا وقَدْ أَرْسَلَهَا

رَاعِيهَا وخُلِعَتْ مَثَانِيهَا حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُمْ قَاتِلِيَّ أَوْ بَعْضُهُمْ قَاتِلُ بَعْضٍ لَدَيَّ - وقَدْ قَلَّبْتُ هَذَا الأَمْرَ بَطْنَه وظَهْرَه حَتَّى مَنَعَنِي النَّوْمَ - فَمَا وَجَدْتُنِي يَسَعُنِي إِلَّا قِتَالُهُمْ - أَوِ الْجُحُودُ بِمَا جَاءَ بِه مُحَمَّدٌصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَكَانَتْ مُعَالَجَةُ الْقِتَالِ أَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ مُعَالَجَةِ الْعِقَابِ - ومَوْتَاتُ الدُّنْيَا أَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ مَوْتَاتِ الآخِرَةِ.

(۵۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد استبطأ أصحابه إذنه لهم في القتال بصفين

لوگ مجھ) ۱ ( پر یوں ٹوٹ پڑے جیسے وہ پیاسے اونٹ پانی پر ٹوٹ پڑتے ہیں جن کے نگرانوں نے انہیں آزاد چھوڑ دیا ہو اور ان کے پیروں کی رسیاں کھول دی ہوں یہاں تک کہ مجھے یہ احساس پیدا ہوگیا کہ یہ مجھے مار ہی ڈالیں گے یا ایک دوسرے کوقتل کردیں گے۔میں نے اس امرخلافت کو یوں الٹ پلٹ کردیکھاہے کہ میری نیند تک اڑ گئی ہے اور اب یہ محسوس کیا ہے کہ یا ان سے جہاد کرنا ہوگا یا پیغمبر (ص) کے احکام کا انکار کر دینا ہوگا۔ظاہر ہے کہ میرے لئے جنگ کی سختیوں کا برداشت کرنا عذاب کی سختی برداشت کرنے سے آسان تر ہے اور دنیا کی موت آخرت کی موت اورتباہی سے سبک تر ہے۔

(۵۵)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کے اصحاب نے یہ اظہار کیا کہ اہل صفین سے جہاد کی اجازت میں تاخیر سے کام لے رہے ہیں)

(۱)سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس اسلام میں روز اول سے بزور شمشیر بیعت لی جا رہی تھی اور انکار بیعت کرنے پر گھروں میں آگ لگائی جا رہی تھی یا لوگوں کو خنجر و شمشیر اورتازیانہ و درہ کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔اس میں یکبارگی یہ انقلاب کیسے آگیا کہ لوگ ایک انسان کی بیعت کرنے کے لئے ٹوٹ پڑے اوریہ محسوس ہونے لگا کہ جیسے ایک دوسرے کو قتل کردیں گے۔کیا اس کا راز یہ تھا کہ لوگ اس ایک شخص کے علم و فضل ' زہد و تقویٰ اور شجاعت و کرم سے متاثر ہوگئے تھے۔ایسا ہوت تو یہ صورت حال بہت پہلے پیدا ہو جاتی اور لوگ اس شخص پر قربان ہو جاتے۔حالانکہ ایسا نہیں ہو سکا جس کا مطلب یہ ہے کہ قوم نے شخصیت سے زیادہ حالات کو سمجھ لیا تھا۔اوریہ اندازہ کرلیا تھا کہ وہ شخص جو امت کے درمیان واقعی انصاف کر سکتا ہے اور جس کی زندگی ایک عام انسان کی زندگی کی طرح سادگی رکھتی ہے اور اس میں کسی طرح کی حرص و طمع کا گزر نہیں ہے وہ اس مرد مومن اور کل ایمان کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی بیعت میں سبقت کرنا ایک انسانی اور ایمان فریضہ ہے اور در حقیقت مولائے کائنات نے اس پوری صورت حال کو ایک لفظ میں واضح کردیا ہے کہ یہ دن در حقیقت پیاسوں کے سیراب ہونے کادن تھا اور لوگ مدتوں سے تشنہ اورتشنہ کام تھے لہٰذا ان کاٹوٹ پڑنا حق بجانب تھا اس ایک تشبیہ سے ماضی اورحال دونوں کا مکمل اندازہ کیا جا سکتا ہے۔!

۸۷

أَمَّا قَوْلُكُمْ أَكُلَّ ذَلِكَ كَرَاهِيَةَ الْمَوْتِ - فَوَاللَّه مَا أُبَالِي - دَخَلْتُ إِلَى الْمَوْتِ أَوْ خَرَجَ الْمَوْتُ إِلَيَّ - وأَمَّا قَوْلُكُمْ شَكَّاً فِي أَهْلِ الشَّامِ - فَوَاللَّه مَا دَفَعْتُ الْحَرْبَ يَوْماً - إِلَّا وأَنَا أَطْمَعُ أَنْ تَلْحَقَ بِي طَائِفَةٌ فَتَهْتَدِيَ بِي - وتَعْشُوَ إِلَى ضَوْئِي - وذَلِكَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَقْتُلَهَا عَلَى ضَلَالِهَا - وإِنْ كَانَتْ تَبُوءُ بِآثَامِهَا.

(۵۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يصف أصحاب رسول الله وذلك يوم صفين حين أمر الناس بالصلح

ولَقَدْ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - نَقْتُلُ آبَاءَنَا وأَبْنَاءَنَا وإِخْوَانَنَا وأَعْمَامَنَا - مَا يَزِيدُنَا ذَلِكَ إِلَّا إِيمَاناً وتَسْلِيماً -

تمہارا یہ سوال کہ کیا یہ تاخیر موت کی ناگواری سے ہے تو خدا کی قسم مجھے موت کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ میں اس کے پاس وارد ہو جائوں یا وہ میری طرف نکل کر آجائے۔اور تمہارا یہ خیال کہ مجھے اہل شام کے باطل کے بارے میں کوئی شک ہے۔تو خدا گواہ ہے کہ میں نے ایک دن بھی جنگ کو نہیں ٹالا ہے مگر اس خیال سے کہ شائد کوئی گروہ مجھ سے ملحق ہو جائے اور ہدایت پاجائے اورمیری روشنی میں اپنی کمزور آنکھوں کا علاج کرلے کہ یہ بات میرے نزدیک اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ میں اس کی گمراہی کی بنا پر اسے قتل کردوں اگرچہ اس قتل کا گناہ اسی کے ذمہ ہوگا۔

(۵۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں اصحاب رسول (ص) کویاد کیا گیا ہے اس وقت جب صفین کے موقع پر آپنے لوگوں کو صلح کا حکم دیا تھا)

ہم(۱) رسول اکرم (ص) کے ساتھ اپنے خاندان کے بزرگ' بچے 'بھائی اور چچائوں کو بھی قتل کردیا کرتے تھے اوراس سے ہمارے ایمان اور جذبہ تسلیم میں اضافہ ہی ہوتا

(۱)حضرت محمد بن ابی بکر شہادت کے بعد معاویہ نے عبداللہ بن عامر حضرمی کو بصرہ میں دوبارہ فساد پھیلانے کے لئے بھیج دیا۔وہاں حضرت کے والی ابن عباس تھے اور وہ محمد کی تعریف کے لئے کوفہ آگئے تھے۔زیاد بن عبید ان کے نائب تھے۔انہوں نے حضرت کو اطلاع دی۔آپ نے بصرہ کے بنی تمیم کا عثمانی رجحان دیکھ کر کوفہ کے بنی تمیم کو مقابلہ پر بھیجنا چاہا لیکن ان لوگوں نے برادری سے جنگ کرنے سے انکار کردیا تو حضرت نے اپنے دور قدیم کا حوالہ دیا کہ اگر رسول اکرم (ص) کے ساتھ ہم لوگ بھی قبائلی تعصب کا شکار ہوگئے ہوتے تو آج اسلام کا نام و نشان بھی نہ ہوتا۔اسلام حق و صداقت کا مذہب ہے اس میں قومی اورقبائلی رجحانات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

۸۸

ومُضِيّاً عَلَى

اللَّقَمِ وصَبْراً عَلَى مَضَضِ الأَلَمِ وجِدّاً فِي جِهَادِ الْعَدُوِّ - ولَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ مِنَّا والآخَرُ مِنْ عَدُوِّنَا - يَتَصَاوَلَانِ تَصَاوُلَ الْفَحْلَيْنِ يَتَخَالَسَانِ أَنْفُسَهُمَا أَيُّهُمَا يَسْقِي صَاحِبَه كَأْسَ الْمَنُونِ - فَمَرَّةً لَنَا مِنْ عَدُوِّنَا ومَرَّةً لِعَدُوِّنَا مِنَّا - فَلَمَّا رَأَى اللَّه صِدْقَنَا أَنْزَلَ بِعَدُوِّنَا الْكَبْتَ وأَنْزَلَ عَلَيْنَا النَّصْرَ - حَتَّى اسْتَقَرَّ الإِسْلَامُ مُلْقِياً جِرَانَه ومُتَبَوِّئاً أَوْطَانَه - ولَعَمْرِي لَوْ كُنَّا نَأْتِي مَا أَتَيْتُمْ - مَا قَامَ لِلدِّينِ عَمُودٌ ولَا اخْضَرَّ لِلإِيمَانِ عُودٌ - وايْمُ اللَّه لَتَحْتَلِبُنَّهَا دَماً ولَتُتْبِعُنَّهَا نَدَماً!

(۵۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في صفة رجل مذموم ثم في فضله هوعليه‌السلام

أَمَّا إِنَّه سَيَظْهَرُ عَلَيْكُمْ بَعْدِي رَجُلٌ رَحْبُ الْبُلْعُومِ مُنْدَحِقُ الْبَطْنِ يَأْكُلُ مَا يَجِدُ

تھا اور ہم برابر سیدھے راستہ پر بڑھتے ہی جا رہے تھے اور مصیبتوں کی سختیوں پر صبر ہی کرتے جا رہے تھے اور دشمن سے جہاد میں کوششیں ہی کرتے جا رہے تھے۔ہمارا سپاہی دشمن کے سپاہی سے اس طرح مقابلہ کرتا تھا جس طرح مردوں کا مقابلہ ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہو جائیں۔اور ہر ایک کو یہی فکر ہو کہ دوسرے کو موت کا جام پلادیں۔پھر کبھی ہم دشمن کو مار لیتے تھے اور کبھی دشمن کو ہم پر غلبہ ہوجاتا تھا۔اس کے بعد جب خدا نے ہماری صداقت(۱) کوآزما لیا تو ہمارے دشمن پر ذلت نازل کردی اورہماری اوپر نصرت کا نزول فرمادیا یہاں تک کہ اسلام سینہ ٹیک کر اپنی جگہ جم گیا اور اپنی منزل پر قائم ہوگیا۔ میری جان کی قسم اگر ہمارا کرداربھی تمہیں جیسا ہوتا تو نہ دین کا کوئی ستون قائم ہوتا اور نہ ایمان کی کوئی شاخ ہری ہوتی۔خدا کی قسم تم اپنے کرتوت سے دودھ کے بدلے خون دوھوگے اور آخرمیں پچھتائو گے۔

(۵۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(ایک قابل مذمت شخص کے بارے میں)

آگاہ ہو جائو کہ عنقریب تم پر ایک شخص مسلط ہو گا جس کا حلق کشادہ اور پیٹ بڑا ہوگا۔جو پاجائے گا کھا جائے گا

(۱)ایک عظیم حقیقت کا اعلان ہےکہ پروردگار اپنے بندوں کی بہر حال مدد کرتا ہے۔اس نے صاف کہہ دیا ہے کہ'' کان حقا علینا نصر المومنین '' (مومنین کی مدد ہماری ذمہ دری ہے )'' ان الله مع الصابرین '' ( اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) لیکن اس سلسلہ میں اس حقیقت کو بہرحال سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نصرت ایمان کے اظہار کے بعد اوریہ معیت صبر کیے بعد سامنے آتی ہے جب تک انسان اپنے ایمان و صبر کا ثبوت نہیں دیدیتا ہے خدائی امداد کا نزول نہیں ہوتا ہے۔'' ان تصنرو الله ینصر کم '' (اگرتم اللہ کی مدد کروگے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔نصرت الٰہی تحفہ نہیں ہے مجاہدات کا انعام ہے۔پہلے مجاہدہ نفس اس کے بعد انعام۔!

۸۹

ويَطْلُبُ مَا لَا يَجِدُ - فَاقْتُلُوه ولَنْ تَقْتُلُوه - أَلَا وإِنَّه سَيَأْمُرُكُمْ بِسَبِّي والْبَرَاءَةِ مِنِّي - فَأَمَّا السَّبُّ فَسُبُّونِي فَإِنَّه لِي زَكَاةٌ ولَكُمْ نَجَاةٌ - وأَمَّا الْبَرَاءَةُ فَلَا تَتَبَرَّءُوا مِنِّي - فَإِنِّي وُلِدْتُ عَلَى الْفِطْرَةِ وسَبَقْتُ إِلَى الإِيمَانِ والْهِجْرَةِ.

(۵۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

كلم به الخوارج حين اعتزلوا الحكومة وتنادوا أن لا حكم إلا لله أَصَابَكُمْ حَاصِبٌ ولَا بَقِيَ مِنْكُمْ آثِرٌ أَبَعْدَ إِيمَانِي بِاللَّه،

وجِهَادِي مَعَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - أَشْهَدُ عَلَى نَفْسِي بِالْكُفْرِ - لَالْكُفْرِ( قَدْ ضَلَلْتُ إِذاً وما أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ ) - فَأُوبُوا شَرَّ مَآبٍ وارْجِعُوا عَلَى أَثَرِ الأَعْقَابِ أَمَا إِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي ذُلاًّ شَامِلًا وسَيْفاً قَاطِعاً - وأَثَرَةً

اور جونہ پائے گا اس کی جستجو میں رہے گا۔تمہاری ذمہ داری ہوگی کہ اسے قتل کردو مگر تم ہر گز قتل نہ کرو گے۔ خیروہ عنقریب تمہیں' مجھے گالیاں دینے اور مجھ سے بیزاری کرنے کا بھی حکم دے گا۔تو اگر گالیوں کی بات ہو تو مجھے برا بھلا کہہ لینا کہ یہ میرے لئے پاکیزگی کا سامان ہے اورتمہارے لئے دشمن سے نجات کا۔لیکن خبردار مجھ سے برائت نہ کرنا کہ میں فطرت اسلام پر پیدا ہوا ہوں اور میں نے ایمان اور ہجرت دونوں میں سبقت کی ہے۔

(۵۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس کا مخاطب ان خوارج کو بنایا گیا ہے جو تحکیم سے کنارہ کش ہوگئے اور '' لاحکم الا اللہ '' کا نعرہ لگانے لگے)

خدا کرے۔تم پرسخت آندھیاں آئیں اور کوئی تمہارے حال کا اصلاح کرنے والا نہ رہ جائے۔کیا میں پروردگار پر ایمان لانے اور رسول اکرم (ص) کے ساتھ جہاد کرنے کے بعد اپنے بارے میں کفر کا اعلان کردوں۔ایسا کروں گا تو میں گمراہ ہو جائوں گا اور ہدایت یافتہ لوگوں میں نہ رہ جائوں گا۔جائو پلٹ جائو اپنی بدترین منزل کی طرف اور واپس چلے جائو اپنے نشانات قدم پر۔مگرآگاہ رہو کہ میرے بعد تمہیں ہمہ گیر ذلت اور کاٹنے والی تلوار کا سامنا کرنا ہوگا اور اس طریقۂ کار کا مقابلہ کرنا ہوگا

۹۰

يَتَّخِذُهَا الظَّالِمُونَ فِيكُمْ سُنَّةً.

قال الشريف قولهعليه‌السلام ولا بقي منكم آبر يروى على ثلاثة أوجه:

أحدها أن يكون كما ذكرناه آبر بالراء - من قولهم للذي يأبر النخل أي يصلحه -. ويروى آثر وهو الذي يأثر الحديث ويرويه - أي يحكيه وهو أصح الوجوه عندي - كأنهعليه‌السلام قال لا بقي منكم مخبر -. ويروى آبز بالزاي المعجمة وهو الواثب - والهالك أيضا يقال له آبز

(۵۹)

وقالعليه‌السلام

لما عزم على حرب الخوارج - وقيل له:

إن القوم عبروا جسر النهروان!

مَصَارِعُهُمْ دُونَ النُّطْفَةِ - واللَّه لَا يُفْلِتُ مِنْهُمْ عَشَرَةٌ ولَا يَهْلِكُ مِنْكُمْ عَشَرَةٌ.

جسے ظالم تمہارے بارے میں اپنی سنت بنالیں گے یعنی ہر چیز کو اپنے لئے مخصوص کرلینا۔

سید رضی : حضرت کا ارشاد 'لا بقی منکم آبر'' تین طریقوں سے نقل کیا گیا ہے:

آبر: وہ شخص جو درخت خرمہ کو کانٹ چھانٹ کر اس کی اصلاح کرتا ہے۔

آثر: روایت کرنے والا۔یعنی تمہاری خبر دینے والا بھی کوئی نہ رہ جائے گا۔اوریہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

آبر: کودنے والا یا ہلاک ہونے والا کہ مزید ہلاکت کے لئے بھی کوئی نہ رہ جائے گا۔

(۵۹)

آپ نے اس وقت ارشاد فرمایا

جب آپ نے خوارج سے جنگ کا عزم کرلیا اور نہر وان کے پل کو پار کرلیا

یادرکھو(۱) !دشمنوں کی قتل گاہ دریا کے اس طرف ہے۔خدا کی قسم نہ ان میں کے دس باقی بچیں گے اور نہ تمہارے دس ہلاک ہو سکیں گے ۔

(۱)جب امیر المومنین کو یہ خبردی گئی کہ خوارج نے سارے ملک میں فساد پھیلانا شروع کردیا ہے ۔جناب عبداللہ بن خباب بن الارت کو ان کے گھر کی عورتوں سمیت قتل کردیا ہے اور لوگوں میں مسلسل دہشت پھیلا رہے ہیں تو آپ نے ایک شخص کو سمجھانے کے لئے بھیجا۔ان ظالموں نے اسے بھی قتل کردیا۔اس کے بعد جب حضرت عبداللہ بن خباب کے قاتلوں کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تو صاف کہہ دیا کہ ہم سب قاتل ہیں۔اس کے بعد حضرت نے بنفس نفیس توبہ کی دعوت دی لیکن ان لوگوں نے اسے بھی ٹھکرادیا۔آخر ایک دن وہ آگیا جب لوگ ایک لاش کو لے کرآئے اور سوال کیا کہ سرکار اب فرمائیں اب کیا حکم ہے؟ تو آپ نے نعرہ تکبیر بلندکرکے جہاد کا حکم دے دیا اور پروردگار کے دئیے ہوئے علم غیب کی بناپر انجام کار سے بھی با خبر کردیا جو بقول ابن الحدید صد فیصد صحیح ثابت ہوا اور خوارج کے صرف نو افراد بچے اور حضرت کے ساتھیوں میں صرف آٹھ افراد شہید ہوئے۔

۹۱

قال الشريف يعني بالنطفة ماء النهر - وهي أفصح كناية عن الماء وإن كان كثيرا جما - وقد أشرنا إلى ذلك فيما تقدم عند مضي ما أشبهه.

(۶۰)

وقالعليه‌السلام

لما قتل الخوارج فقيل له يا أمير المؤمنين هلك القوم بأجمعهم

كَلَّا واللَّه إِنَّهُمْ نُطَفٌ فِي أَصْلَابِ الرِّجَالِ وقَرَارَاتِ النِّسَاءِ،كُلَّمَا نَجَمَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ - حَتَّى يَكُونَ آخِرُهُمْ لُصُوصاً سَلَّابِينَ.

(۶۱)

وقالعليه‌السلام

لَا تُقَاتِلُوا الْخَوَارِجَ بَعْدِي - فَلَيْسَ مَنْ طَلَبَ الْحَقَّ فَأَخْطَأَه - كَمَنْ طَلَبَ الْبَاطِلَ فَأَدْرَكَه.

قال الشريف - يعني معاوية وأصحابه.

(۶۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما خوف من الغيلة

وإِنَّ عَلَيَّ مِنَ اللَّه جُنَّةً حَصِينَةً -.

سید رضی : نطفہ سے مراد نہر کا شفاف پانی ہے۔جو بہترین کنایہ ہے پانی کے بارے میں چاہے اس کی مقدار کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو

(۶۰)

آپ نے فرمایا

(اس وقت جب خوارج کے قتل کے بعد لوگوں نے کہا کہ اب تو قوم کاخاتمہ ہوچکا ہے)

ہرگز نہیں۔خدا گواہ ہے کہ یہ ابھی مردوں کے صلب اورعورتوں کے رحم میں موجود ہیں اور جب بھی ان میں کوئی سر نکالے گا اسے کاٹ دیا جائے گا۔یہاں تک کہ آخرمیں صرف لٹیرے اورچور ہو کر رہ جائیں گے۔

(۶۱)

آپ نے فرمایا

خبر دار میرے بعد خروج کرنے والوں سے جنگ نہ کرنا کہ حق کی طلب میں نکل کر بہک جانے والا اس کا جیسا نہیں ہوتا ہے جو باطل کی تلاش میں نکلے اورحاصل بھی کرلے۔

سید شریف رضی نے فرمایا : یعنی معاویہ اور اس کے پیروکار

(۶۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ کو اچانک قتل سے ڈرایا گیا )

یاد رکھو میرے لئے خداکی طرف سے ایک مضبوط و مستحکم سپر ہے

۹۲

فَإِذَا جَاءَ يَوْمِي انْفَرَجَتْ عَنِّي وأَسْلَمَتْنِي - فَحِينَئِذٍ لَا يَطِيشُ السَّهْمُ ولَا يَبْرَأُ الْكَلْمُ

(۶۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يحذر من فتنة الدنيا

أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا دَارٌ لَا يُسْلَمُ مِنْهَا إِلَّا فِيهَا - ولَا يُنْجَى بِشَيْءٍ كَانَ لَهَا - ابْتُلِيَ النَّاسُ بِهَا فِتْنَةً - فَمَا أَخَذُوه مِنْهَا لَهَا أُخْرِجُوا مِنْه وحُوسِبُوا عَلَيْه - ومَا أَخَذُوه مِنْهَا لِغَيْرِهَا قَدِمُوا عَلَيْه وأَقَامُوا فِيه - فَإِنَّهَا عِنْدَ ذَوِي الْعُقُولِ كَفَيْءِ الظِّلِّ - بَيْنَا تَرَاه سَابِغاً حَتَّى قَلَصَ وزَائِداً حَتَّى نَقَصَ.

(۶۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في المبادرة إلى صالح الأعمال

فَاتَّقُوا اللَّه عِبَادَ اللَّه وبَادِرُوا آجَالَكُمْ بِأَعْمَالِكُمْ وابْتَاعُوا

اس کے بعد جب میرا دن آجائے گا تو یہ سپر مجھ سے الگ ہوجائےگااور مجھے موت کے حوالے کردے گا۔اس وقت نہ تیر خطاکرےگا اورنہ زخم مندمل ہو سکے گا

(۶۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں دنیا کے فتنوں سے ڈرایا گیا ہے)

آگاہ ہوجائو کہ یہ دنیا ایساگھر ہےجس سےسلامتی کاسامان اسی کےاندرسےکیاجاسکتا ہےاورکوئی ایسی شےوسیلہ نجات نہیں ہوسکتی ہےجو دنیا ہی کےلئے ہولوگ اس دنیاکے ذریعہ آزمائےجاتے ہیں جولوگ دنیاکاسامان دنیا ہی کےلئے حاصل کرتے ہیں وہ اسےچھوڑکرچلےجاتےہیں اورپھرحساب بھی دینا ہوتا ہےاورجولوگ یہاں سےوہاں کےلئےحاصل کرتےہیں وہ وہاں جاکرپالیتےہیں اوراسی میں مقیم ہو جاتے ہیں۔یہ دنیا درحقیقت صاحبان عقل کی نظرمیں ایک سایہ جیسی ہے جودیکھتے دیکھتےسمٹ جاتا ہے اورپھیلتے پھیلتے کم ہو جاتا ہے۔

(۶۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(نیک اعمال کی طرف سبقت کے بارے میں )

بندگان خدا! اللہ سے ڈرو اور اعمال کے ساتھ اجل(۱) کی طرف سبقت کرو۔اس دنیا کے فانی مال کے

(۱)انسان کے قدم موت کی طرف بلا اختیاربڑھتے جا رہے ہیں اور اسے اس امر کا احساس ا بھی نہیں ہوتا ہے نتیجہ یہ ہتا ہے کہ ایک دن موت کے منہ میں چلا جاتا ہے اور دائمی خسارہ اورعذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے لہٰذا تقاضائے عقل و دانش یہی ہے کہ اعمال کو ساتھ لے کر آگے بڑھے گاتا کہ جب موت کا سامانا ہوتواعمال کا سہارا رہے اورعذاب الیم سے نجات حاصل کرنے کا وسیلہ ہاتھ میں رہے۔

۹۳

مَا يَبْقَى لَكُمْ بِمَا يَزُولُ عَنْكُمْ وتَرَحَّلُوا فَقَدْ جُدَّ بِكُمْ واسْتَعِدُّوا لِلْمَوْتِ فَقَدْ أَظَلَّكُمْ وكُونُوا قَوْماً صِيحَ بِهِمْ فَانْتَبَهُوا - وعَلِمُوا أَنَّ الدُّنْيَا لَيْسَتْ لَهُمْ بِدَارٍ فَاسْتَبْدَلُوا - فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه لَمْ يَخْلُقْكُمْ عَبَثاً ولَمْ يَتْرُكْكُمْ سُدًى ومَا بَيْنَ أَحَدِكُمْ وبَيْنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ - إِلَّا الْمَوْتُ أَنْ يَنْزِلَ بِه - وإِنَّ غَايَةً تَنْقُصُهَا اللَّحْظَةُ وتَهْدِمُهَا السَّاعَةُ - لَجَدِيرَةٌ بِقِصَرِ الْمُدَّةِ - وإِنَّ غَائِباً يَحْدُوه الْجَدِيدَانِ - اللَّيْلُ والنَّهَارُ لَحَرِيٌّ بِسُرْعَةِ الأَوْبَةِ وإِنَّ قَادِماً يَقْدُمُ بِالْفَوْزِ أَوِ الشِّقْوَةِ - لَمُسْتَحِقٌّ لأَفْضَلِ الْعُدَّةِ - فَتَزَوَّدُوا فِي الدُّنْيَا مِنَ الدُّنْيَا - مَا تَحْرُزُونَ بِه أَنْفُسَكُمْ غَداً فَاتَّقَى عَبْدٌ رَبَّه نَصَحَ نَفْسَه وقَدَّمَ تَوْبَتَه وغَلَبَ شَهْوَتَه - فَإِنَّ أَجَلَه مَسْتُورٌ عَنْه وأَمَلَه خَادِعٌ لَه - والشَّيْطَانُ مُوَكَّلٌ بِه يُزَيِّنُ لَه الْمَعْصِيَةَ لِيَرْكَبَهَا - ويُمَنِّيه التَّوْبَةَ لِيُسَوِّفَهَا

ذریعہ باقی رہنے والی آخرت کو خرید لو اور یہاں سے کوچ کر جائو کہ تمہیں تیزی سے لیجا یا جا رہا ہے اور موت کے لئے آمادہ ہوجائو کہ وہ تمہارے سروں پر منڈلا رہی ہے اس قوم جیسے ہو جائو جیسے پکارا گیا تو فورا ہوشیار ہوگئی۔اوراس نے جان لیا کہ دنیا اس کی منزل نہیں ہے تو اسے آخرت سے بدل لیا۔اس لئے کہ پروردگار نے تمہیں بیکارنہیں پیداکیا اور نہ مہمل چھوڑ دیا ہے اور یاد رکھو کہ تمہارے اور جنت و جہنم کے درمیان اتنا ہی وقفہ ہے کہ موت نازل ہو جائے اور انجام سامنے آجائے اور وہ مدت حیات جیسے ہر لحظہ کم کر رہا ہو اور ہر ساعت اس کی عمارت کو منہدم کر رہی ہو وہ قصیر المدة ہی سمجھنے کا لائق ہے اور وہ موت جسے دن و رات ڈھکیل کر آگے لا رہے ہوں اسے بہت جلد آنے والا ہی خیال کرنا چاہیے اور وہ شخص جس کے سامنے کامیابی یا ناکامی اوربد بختی آنے والی ہے اسے بہترین سامان مہیا ہی کرنا چاہیے۔لہٰذا تم دنیا میں رہ کر دنیا سے زاد راہ حاصل کر لو جس سے کل اپنے نفس کاتحفظ کرس کو۔اس کا راستہ یہ ہے کہ بندہ اپنے پروردگار سے ڈرے۔اپنے نفس سے اخلاص رکھتے ' توبہ کو مقدم کرے۔خواہشات پر غلبہ حاصل کرے اس لئے کہ اس کی اجل اس سے پوشیدہ ہے اور اس کی خواہش اسے مسلسل دھوکہ دینے والی ہے اور شیطان اس کے سر پر سوار ہے جو معصیتوں کو آراستہ کر رہا ہے تاکہ انسان مرتکب ہو جائے اور توبہ کی امیدیں دلاتا ہے تاکہ اس میں تاخیر کرے یہاں تک کہ غفلت اور بے خبری کے عالم میں موت اس پر

۹۴

إِذَا هَجَمَتْ مَنِيَّتُه عَلَيْه أَغْفَلَ مَا يَكُونُ عَنْهَا - فَيَا لَهَا حَسْرَةً عَلَى كُلِّ ذِي غَفْلَةٍ أَنْ يَكُونَ عُمُرُه عَلَيْه حُجَّةً - وأَنْ تُؤَدِّيَه أَيَّامُه إِلَى الشِّقْوَةِ - نَسْأَلُ اللَّه سُبْحَانَه - أَنْ يَجْعَلَنَا وإِيَّاكُمْ مِمَّنْ لَا تُبْطِرُه نِعْمَةٌ ولَا تُقَصِّرُ بِه عَنْ طَاعَةِ رَبِّه غَايَةٌ - ولَا تَحُلُّ بِه بَعْدَ الْمَوْتِ نَدَامَةٌ ولَا كَآبَةٌ.

(۶۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها مباحث لطيفة من العلم الإلهي

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَمْ تَسْبِقْ لَه حَالٌ حَالًا - فَيَكُونَ أَوَّلًا قَبْلَ أَنْ يَكُونَ آخِراً - ويَكُونَ ظَاهِراً قَبْلَ أَنْ يَكُونَ بَاطِناً - كُلُّ مُسَمًّى بِالْوَحْدَةِ غَيْرَه قَلِيلٌ - وكُلُّ عَزِيزٍ غَيْرَه ذَلِيلٌ وكُلُّ قَوِيٍّ غَيْرَه ضَعِيفٌ - وكُلُّ مَالِكٍ غَيْرَه مَمْلُوكٌ وكُلُّ عَالِمٍ غَيْرَه مُتَعَلِّمٌ - وكُلُّ قَادِرٍ غَيْرَه يَقْدِرُ ويَعْجَزُ - وكُلُّ سَمِيعٍ غَيْرَه يَصَمُّ

حملہ آور ہوجاتی ہے۔ ہائے کس قدر حسرت کا مقام ہے کہ انسان کی عمر ہی اس کے خلاف حجت بن جائے اور اس کا روز گار ہی اسے بدبختی تک پہنچادے۔پروردگار سے دعا ہے کہ ہمیں اور تمہیں ان لوگوں میں قرار دے جنہیں نعمتیں مغرور نہیں بناتی ہیں اور کوئی مقصد اطاعت خدا میں کوتاہی پرآمادہ نہیں کرتا ہے اور موت کے بعد ان پر ندامت اور رنج و غم کا نزول نہیں ہوتا ہے۔

(۶۵)

(جس میں علم الٰہی کے لطیف ترین مباحث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے)

تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس کے صفات میں تقدم(۱) و تاخرنہیں ہوتا ہے کہ وہ آخر ہونے سے پہلے اول رہا ہو اور باطن بننے سے پہلے ظاہر رہا ہو۔اس کے علاوہ جسے بھی واحد کہا جاتا ہے اس کی وحدت قلت ہے اور جسے بھی عزیز سمجھا جاتا ہے ہے اس کی عزت ذلت ہے۔اس کے سامنے ہر قوی ضعیف ہے اور ہر مالک مملوک ہے' ہر عالم متعلم ہے اور ہر قادر عاجز ہے' ہر سننے والا لطیف آوازوں کے لئے بہرہ ہے اور اونچی آوازیں بھی اسے بہرہ بنا دیتی ہیں

(۱)یہ اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ پروردگار کے صفات کمال عین ذات ہیں اور ذات سے الگ کوئی شے نہیں ہیں۔وہ علم کی وجہ سے عالم نہیں ہے۔بلکہ عین حقیقت علم ہے اور قدرت کے ذریعہ قادر نہیں ہے بلکہ عین قدرت کاملہ ہے اور جب یہ سارے صفات عین ذات ہیں تو ان میں تقدم و تاخر کا کوئی سوال ہی نہیں ہے وہ جس لحظہ اول ہے اسی لحظہ آخر بھی ہے اور جس اندازسے ظاہر ہے اسی اندازسے باطن بھی ہے۔اس کی ذات اقدس میں کسی طرح کا تغیر قابل تصور نہیں ہے حدیہ ہے کہ اس کی سماعت و بصارت بھی مخلوقات کی سماعت و بصارت سے بالکل الگ ہے۔دنیا کا ہر سمیع و بصیر کسی شے کو دیکھتا اور سنتا ہے اور کسی شے کے دیکھنے اورسننے سے قاصر رہتا ہے لیکن پروردگار کی ذات اقدس ایسی نہیں ہے وہ مخفی ترین مناظر ک دیکھ رہا ہے اور لطیف ترین آوازوں کو سن رہا ہے ۔وہ ایسا ظاہر ہے جو باطن نہیں ہے اور ایسا باطن ہے جو کسی عقل و فہم پرظاہر نہیں ہو سکتا ہے۔!

۹۵

عَنْ لَطِيفِ الأَصْوَاتِ - ويُصِمُّه كَبِيرُهَا ويَذْهَبُ عَنْه مَا بَعُدَ مِنْهَا - وكُلُّ بَصِيرٍ غَيْرَه يَعْمَى عَنْ خَفِيِّ الأَلْوَانِ ولَطِيفِ الأَجْسَامِ - وكُلُّ ظَاهِرٍ غَيْرَه بَاطِنٌ وكُلُّ بَاطِنٍ غَيْرَه غَيْرُ ظَاهِرٍ - لَمْ يَخْلُقْ مَا خَلَقَه لِتَشْدِيدِ سُلْطَانٍ - ولَا تَخَوُّفٍ مِنْ عَوَاقِبِ زَمَانٍ - ولَا اسْتِعَانَةٍ عَلَى نِدٍّ مُثَاوِرٍ ولَا شَرِيكٍ مُكَاثِرٍ ولَا ضِدٍّ مُنَافِرٍ ولَكِنْ خَلَائِقُ مَرْبُوبُونَ وعِبَادٌ دَاخِرُونَلَمْ يَحْلُلْ فِي الأَشْيَاءِ فَيُقَالَ هُوَ كَائِنٌ - ولَمْ يَنْأَ عَنْهَا فَيُقَالَ هُوَ مِنْهَا بَائِنٌ لَمْ يَؤُدْه خَلْقُ مَا ابْتَدَأَ - ولَا تَدْبِيرُ مَا ذَرَأَ ولَا وَقَفَ بِه عَجْزٌ عَمَّا خَلَقَ - ولَا وَلَجَتْ عَلَيْه شُبْهَةٌ فِيمَا قَضَى وقَدَّرَ - بَلْ قَضَاءٌ مُتْقَنٌ وعِلْمٌ مُحْكَمٌ - وأَمْرٌ مُبْرَمٌ الْمَأْمُولُ مَعَ النِّقَمِ - الْمَرْهُوبُ مَعَ النِّعَمِ!

اور دور کی آوازیں بھی اس کی حد سے باہر نکل جاتی ہیں اور اس طرح اس کے علاوہ ہر دیکھنے والا مخفی رنگ اور لطیف جسم کو نہیں دیکھ سکتا ہے۔اس کے علاوہ ہر ظاہر غیر باطن ہے اور ہر باطن غیر ظاہر ۔اس نے مخلوقات کو اپنی حکومت کے استحکام یا زمانہ کے نتائج کے خوف سے نہیں پیدا کیا ہے۔نہ اسے کسی برابر والے حملہ آور یا صاحب کثرت شریک یا ٹکرانیوالے مد مقابل کے مقابلہ میں مدد لینا تھی۔ یہ ساری مخلوق اسی کی پیدا کی ہوئی اورپالی ہوئی ہے اور یہ سارے بندے اسی کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔اس نے اشیاء میں حلول نہیں کیا ہے کہ اسے کسی کے اندر سمایا ہوا کہا جائے اور نہ اتنا دور ہوگیا ہے کہ الگ تھلگ خیال کیا جائے۔مخلوقات کی خلقت اورمصنوعات کی تدبیر اسے تھکا نہیں سکتی ہے اور نہ کوئی تخلیق اسے عاجز بنا سکتی ہے اور نہ کسی قضاو قدر میں اسے کوئی شبہ پیدا ہو سکتا ہے۔اس کا ہر فیصلہ محکم اوراس کا ہر علم متقن اور اس کا ہر حکم مستحکم ہے۔ناراضگی میں بھی اس سے امید وابستہ کی جاتی ہے اورنعمتوں میں بھی اس کا خوف لاحق رہتا ہے۔

۹۶

(۶۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في تعليم الحرب والمقاتلة

والمشهور أنه قاله لأصحابه ليلة الهرير أو أول اللقاء بصفين

مَعَاشِرَ الْمُسْلِمِينَ اسْتَشْعِرُوا الْخَشْيَةَ وتَجَلْبَبُوا السَّكِينَةَ وعَضُّوا عَلَى النَّوَاجِذِ فَإِنَّه أَنْبَى لِلسُّيُوفِ عَنِ الْهَامِ وأَكْمِلُوا اللأْمَةَ وقَلْقِلُوا السُّيُوفَ فِي أَغْمَادِهَا قَبْلَ سَلِّهَا - والْحَظُوا الْخَزْرَ واطْعُنُوا الشَّزْرَ ونَافِحُوا بِالظُّبَى وصِلُوا السُّيُوفَ بِالْخُطَا واعْلَمُوا أَنَّكُمْ بِعَيْنِ اللَّه ومَعَ ابْنِ عَمِّ رَسُولِ اللَّه - فَعَاوِدُوا الْكَرَّ واسْتَحْيُوا مِنَ الْفَرِّ فَإِنَّه عَارٌ فِي الأَعْقَابِ ونَارٌ يَوْمَ الْحِسَابِ - وطِيبُوا عَنْ أَنْفُسِكُمْ نَفْساً - وامْشُوا إِلَى الْمَوْتِ مَشْياً سُجُحاً وعَلَيْكُمْ بِهَذَا السَّوَادِ الأَعْظَمِ والرِّوَاقِ الْمُطَنَّبِ فَاضْرِبُوا ثَبَجَه فَإِنَّ الشَّيْطَانَ كَامِنٌ فِي كِسْرِه

(۶۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(تعلیم جنگ کے بارے میں )

مسلمانو!خوف(۱) خداکو اپنا شعار بنائو۔سکون و وقار کی چادر اوڑھ لو۔دانتوں کو بھینچ لو کہ اس سے تلواریں سروں سے اچٹ جاتی ہیں۔زرہ پوشی کو مکمل کرلو۔تلواروں کو نیام سے نکالنے سے پہلے نیام کے اندرحرکت دے لو۔دشمن کو ترچھی نظر سے دیکھتے رہو اور نیزوں سے دونوں طرف وار کرتے رہو۔اسے اپنی تلواروں کی باڑھ پر رکھو اور تلواروں کے حملے قدم آگے بڑھا کرکرو اوریہ یاد رکھو کہ تم پروردگار کی نگا ہ میں اور رسول اکرم (ص) کے ابن عم کے ساتھ ہو ۔دشمن پر مسلسل حملے کرتے رہو اور فرار سے شرم کرو کہ اس کا عار نسلوں میں رہ جاتا ہے اوراس کا انجام جہنم ہوتا ہے۔اپنے نفس کو ہنسی خوشی خدا کے حوالے کردو اور موت کی طرف نہایت درجہ سکون و اطمینان سے قدم آگے بڑھائو۔تمہارا نشانہ ایک دشمن کا عظیم لشکراورطناب دار خیمہ ہونا چاہیے کہ اسی کے وسط پرحملہ کرو کہ شیطان اسی کے ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا

(۱)ان تعلیمات پرسنجیدگی سے غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ایک مرد مسلم کے جہاد کا انداز کیا ہونا چاہیے اوراسے دشمن کے مقابلہ میں کس طرح جنگ آزما ہونا چاہیے۔ان تعلیمات کا مختصرخلاصہ یہ ہے:۔ ۱۔دل کے اندر خوف خدا ہو'۲۔باہر سکون و اطمینان کا مظاہر ہو' ۳۔دانتوں کو بھینچ لیا جائے'۴۔آلات جنگ کو مکمل طورپر ساتھ رکھا جائے' ۵۔تلوار کو نیام کے اندرحرکت دے لی جائے کہ بر وقت نکالنے میں زحمت نہ ہو'۶۔دشمن پر غیط آلود نگاہ کی جائے ' ۷۔نیزوں کے حملے ہر طرف ہوں'۸۔تلوار دشمن کے سامنے رہے '۹۔تلوار دشمن تک نہ پہنچے توقدم بڑھاکرحملہ کرے' ۱۰۔فرار کا ارادہ نہ کرے ' ۱۱۔موت کی طرف سکون کے ساتھ قدم بڑھائے'۱۲۔جان جان آفریں کے حوالے کردے' ۱۳۔ہدف اورنشانہ پرنگاہ رکھے '۱۴۔یہ اطمینان رکھے کہ خدا ہمارے اعمال کودیکھ رہا ہے اور پیغمبر (ص) کا بھائی ہماری نگاہ کے سامنے ہے۔

ظاہر ہے کہ ان آداب میں بعض آداب ' تقویٰ ' ایمان وغیرہ دائمی حیثیت رکھتے ہیں اور بعض کا تعلق نیزہ و شمشیر کے دور سے ہے لیکن اسے بھی ہردور کے آلات حرب و ضرب پرمنطبق کیاجاسکتا ہے اور اس سے فادئہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

۹۷

وقَدْ قَدَّمَ لِلْوَثْبَةِ يَداً وأَخَّرَ لِلنُّكُوصِ رِجْلًا - فَصَمْداً صَمْداً حَتَّى يَنْجَلِيَ لَكُمْ عَمُودُ الْحَقِّ –( وأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ والله مَعَكُمْ ولَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمالَكُمْ )

(۶۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قالوا لما انتهت إلى أمير المؤمنينعليه‌السلام أنباء السقيفة بعد وفاة رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قالعليه‌السلام :ما قالت الأنصار قالوا قالت منا أمير ومنكم أمير قالعليه‌السلام :

فَهَلَّا احْتَجَجْتُمْ عَلَيْهِمْ - بِأَنَّ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَصَّى بِأَنْ يُحْسَنَ إِلَى مُحْسِنِهِمْ - ويُتَجَاوَزَ عَنْ مُسِيئِهِمْ؟

قَالُوا ومَا فِي هَذَا مِنَ الْحُجَّةِ عَلَيْهِمْ؟

ہے۔اس کا حال یہ ہے کہ اس نے ایک قدم حملہ کے لئے آگے بڑھا رکھا ہے۔اور ایک بھاگنے کے لئے پیچھے کر رکھا ہے لہٰذا تم مضبوطی سے اپنے ارادہ پرجمے رہو یہاں تک کہ حق صبح کے اجالے کی طرح واضح ہو جائے اور مطمئن ہو کر بلندی تمہارا حصہ ہے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ تمہارے اعمال کو ضائع نہیں کر سکتا ہے۔

(۶۷)

آپ کا ارشاد گرامی

جب رسول اکرم (ص)کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ(۱) کی خبریں پہنچیں اور آپ نے پوچھا کہ انصار نے کیا احتجاج کیا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ایک امیر ہمارا ہوگا اور ایک تمہارا۔تو آپ نے فرمایا:۔

تم لوگوں نے ان کے خلاف یہ استدلال کیوں نہیں کیا کہ رسول اکرم (ص) نے تمہارے نیک کرداروں کے ساتھ حسن سلوک اور خطا کاروں سے در گزر کرنے کی وصیت فرمائی ہے ؟

لوگوں نے کہا کہ اس میں کیا استد لال ہے؟

(۱)استاد احمد حسن یعقوب نے کتاب نظریہ عدالت صحابہ میں ایک مفصل بحث کی ہے کہ سقیفہ میں کوئی قانونی اجتماع انتخاب خلیفہ کے لئے نہیں ہوا تھا اور نہ کوئی اس کا ایجنڈہ تھا اورنہ سوا لاکھ صحابہ کی بستی میں سے دس بیس ہزار افراد جمع ہوئے تھے بلکہ سعد بن عبادہ کی بیماری کی بناپر انصارعیادت کے لئے جمع ہوئے تھے اوربعض مہاجرین نے اس اجتماع کودیکھ کر یہ محسوس کیا کہ کہیں خلافت کا فیصلہ نہ ہوجائے' تو بر وقت پہنچ کر اس قدر ہنگامہ کیا کہ انصار میں پھوٹ پڑ گئی اور فی الفور حضرت ابو بکر کی خلافت کا اعلان کردیا اور ساری کاروائی لمحوں میں یوں مکمل ہوگئی کہ سعد بن عبادہ کو پامال کردیا گیا اور حضرت ابو بکر ''تاج خلافت ''سر پر رکھے ہوئے سقیفہ سے برآمد ہوگئے۔اس شان سے کہ اس عظیم مہم کی بنا پرجنازۂ رسول میں شرکت سے بھی محروم ہوگئے اورخلافت کا پہلا اثر سامنے آگیا۔

۹۸

فَقَالَعليه‌السلام :

لَوْ كَانَ الإِمَامَةُ فِيهِمْ لَمْ تَكُنِ الْوَصِيَّةُ بِهِمْ.

ثُمَّ قَالَعليه‌السلام :

فَمَا ذَا قَالَتْ قُرَيْشٌ - قَالُوا احْتَجَّتْ بِأَنَّهَا شَجَرَةُ الرَّسُولِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَقَالَعليه‌السلام احْتَجُّوا بِالشَّجَرَةِ وأَضَاعُوا الثَّمَرَةَ.

(۶۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما قلد محمد بن أبي بكر مصر فملكت عليه وقتل

وقَدْ أَرَدْتُ تَوْلِيَةَ مِصْرَ هَاشِمَ بْنَ عُتْبَةَ - ولَوْ وَلَّيْتُه إِيَّاهَا لَمَّا خَلَّى لَهُمُ الْعَرْصَةَولَا أَنْهَزَهُمُ الْفُرْصَةَ بِلَا ذَمٍّ لِمُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ - فَلَقَدْ كَانَ إِلَيَّ حَبِيباً وكَانَ لِي رَبِيباً.

فرمایاکہ اگر امارت ان کا حصہ ہوتی تو ان سے وصیت کی جاتی نہ کہ ان کے بارے میں وصیت کی جاتی ۔اس کے بعد آپ نے سوال کیا کہ قریش کی دلیل کیا تھی؟ لوگوں نے کہا کہ وہ اپنے کو رسول اکرم (ص) کے شجرہ میں ثابت کر رہے تھے۔فرمایا کہ افسوس شجرہ سے استدلال کیا اورثمرہ کو ضائع کردیا

(۶۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ نے محمدبن ابی بکر کو مصر کی ذمہ داری حوالہ کی اور انہیں قتل کردیا گیا)

میرا ارادہ تھا کہ مصر کاحاکم ہاشم بن(۱) عتبہ کو بنائوں اور اگر انہیں بنا دیتا تو ہرگزمیدان کو مخالفین کے لئے خالی نہ چھوڑتے اور انہیں موقع سے فائدہ نہ اٹھانے دیتے ( لیکن حالات نے ایسا نہ کرنے دیا)

اس بیان کا مقصد محمد بن ابی بکر کی مذمت نہیں ہے اس لئے کہ وہ مجھے عزیز تھا اور میرا ہی پروردہ(۲) تھا۔

(۱)ہاشم بن عتبہ صفین میں عملدارلشکر امیر المومنین تھے۔مرقال ان کا لقب تھا کہ نہایت تیز رفتاری اورچابکدستی سے حملہ کرتے تھے۔

(۲)محمد بن ابی بکر اسما بنت عمیس کے بطن سے تھے۔جو پہلے جناب جعفر طیارکی زوجہ تھیں اور ان سے عبداللہ بن جعفر پیدا ہوئے تھے اس کے بعد ان کی شہادت کے بعد ابو بکر کی زوجیت میں آگئیں جن سے محمد پیدا ہوئے اور ان کی وفات کے بعد مولائے کائنات کی زوجیت میں آئیں اور محمد نے آپ کے زیر اثر تربیت پائی یہ اوربات ہے کہ جب عمرو عاص نے چار ہزار کے لشکرکے ساتھ مصر پرحملہ کیا تو اپنے آبائی اصول جنگ کی بنا پرمیدان سے فرار اختیار کیا اور بالآخر قتل ہوگئے اورلاش کو گدھے کی کھال میں رکھ کرجلا دیا گیا یا بروایتے زندہ ہی جلادئیے گئے اور معاویہ نے اس خبرکوسن کر انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔ (مروج الذہب)

امیر المومنین نے اس موقع پر ہاشم کو اسی لئے یاد کیاتھا کہ وہ میدان سے فرار نہ کر سکتے تھے اور کسی گھر کے اندر پناہ لینے کا ارادہ بھی نہیں کر سکتے تھے ۔

۹۹

(۶۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في توبيخ بعض أصحابه

كَمْ أُدَارِيكُمْ كَمَا تُدَارَى الْبِكَارُ الْعَمِدَةُ والثِّيَابُ الْمُتَدَاعِيَةُ !كُلَّمَا حِيصَتْ مِنْ جَانِبٍ تَهَتَّكَتْ مِنْ آخَرَ - كُلَّمَا أَطَلَّ عَلَيْكُمْ مَنْسِرٌ مِنْ مَنَاسِرِ أَهْلِ الشَّامِ - أَغْلَقَ كُلُّ رَجُلٍ مِنْكُمْ بَابَه - وانْجَحَرَ انْجِحَارَ الضَّبَّةِ فِي جُحْرِهَا والضَّبُعِ فِي وِجَارِهَا الذَّلِيلُ واللَّه مَنْ نَصَرْتُمُوه - ومَنْ رُمِيَ بِكُمْ فَقَدْ رُمِيَ بِأَفْوَقَ نَاصِلٍ إِنَّكُمْ واللَّه لَكَثِيرٌ فِي الْبَاحَاتِ قَلِيلٌ تَحْتَ الرَّايَاتِ - وإِنِّي لَعَالِمٌ بِمَا يُصْلِحُكُمْ ويُقِيمُ أَوَدَكُمْ ولَكِنِّي لَا أَرَى إِصْلَاحَكُمْ بِإِفْسَادِ نَفْسِي - أَضْرَعَ اللَّه خُدُودَكُمْ وأَتْعَسَ جُدُودَكُمْ لَا تَعْرِفُونَ الْحَقَّ كَمَعْرِفَتِكُمُ الْبَاطِلَ - ولَا تُبْطِلُونَ الْبَاطِلَ كَإِبْطَالِكُمُ الْحَقَّ!

(۶۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(اپنے اصحاب کو سر زنش کرتے ہوئے)

کب تک میں تمہارے ساتھ وہ نرمی کا برتائو کروں جو بیمار اونٹ کے ساتھ کیا جاتا ہے جس کا کوہان اندر سے کھوکھلا ہوگیا ہو یا اس بوسیدہ کپڑے کے ساتھ کیا جاتا ہے جسے ایک طرف سے سیا جائے تو دوسری طرف سے پھٹ جاتا ہے۔ جب بھی شام کا کوئی دستہ تمہارے کسی دستہ کے سامنے آتا ہے تو تم میں س ے ہر شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کر لیتاہے اور اس طرح چھپ جاتا ہے جیسے سوراخ میں گوہ یا بھٹ میں بجو۔ خدا کی قسم ذلیل وہی ہوگا جس کے تم جیسے مدد گار ہوں گے اور جو تمہارے ذریعہ تیر اندازی کرے گا گویا وہ سو فار شکستہ اورپیکان نداشتہ تیرے نشانہ لگائے گا۔خدا کی قسم تم صحن خانہ میں بہت دکھائی دیتے ہواور پرچم لشکرکے زیر سایہ بہت کم نظرآتے ہو۔میں تمہاری اصلاح کا طریقہ جانتا ہوں اور تمہیں سیدھا کر سکتا ہوں لیکن کیا کروں اپنے دین کو برباد کرکے تمہاری اصلاح نہیں کرنا چاہتا ہوں۔خدا تمہارے چہروں کو ذلیل کرے اور تمہارے نصیب کو بد نصیب کرے۔تم حق کو اس طرح نہیں پہچانتے ہو جس طرح باطل کی معرفت رکھتے ہو اور باطل کو اس طرح باطل نہیں قراردیتے ہو جس طرح حق کو غلط ٹھہراتے ہو۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

الگ ہوا وہ مجھ سے الگ ہوا،(۱) اور فرمایا:جو میری اطاعت کرے و اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور جو میری نافرمانی کرے وہ اللہ کی نافرمانی کرتا ہے جو علیؑ کی اطاعت کرے وہ میری اطاعت کرتا ہے اور جو علیؑ کی نافرمانی کرے وہ میری نافرمانی کرتا ہے۔(۲) اور فرمایا:شب معراج میں مجھ پر وحی آئی کہ علیؑ کی تین صفتیں ہیں،۱۔علیؑ سیدالمومنین ہے،۲۔علیؑ امام المتقین ہے۔۳۔اور علیؑ روشن پیشانی والوں کا قائد ہے))(۳) آپ نے اکثر علیؑ کا تعارف امیرالمومنین(۴) کہہ کے کرایا ہے،بلکہ مسلمانوں کی ایک جماعت کو حکم دیا کہ علیؑ کو امیرالمومنین کہہ کے سلام کریں(۵) آپ جنگ تبوک میں جانے لگے تو علیؑ ہی کو اہل مدینہ پر خلیفہ مقرر کیا اور فرمایا:مناسب نہیں ہے کہ میں چلا جاؤں مگر یہ کہ تم(علیؑ)میرے خلیفہ رہو،(۶) اور یہ کہ مدینہ کی اصلاح ہو ہی نہیں سکتی مگر مجھ سے یا تم(علیؑ)(۷) سے،دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا((تم میرے لئے ویسے ہی ہو جیسے ہاروں موسیٰ کے لئے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبیؐ نہ ہوگا۔(۸)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۳۳،کتاب معرفۃ الصحابہ،مجمع الزوائد ج:۹ص:۱۳۵،کتاب مناقب،باب الحق مع علی،مسند البراز ج:۹ص:۴۵۵،معجم شیوخ ابی بکر الاسماعیلی ج:۳ص:۸۰۰،المعجم الکبیر ج:۱۲،ص:۴۲۳،فضائل صحابۃ ج:۲ص:۵۷۰،فیض القدیر ج:۴ص:۳۵۷،میزان الاعتدال ج:۳ص:۳۰،داود بن عوف کے حالات میں،ص:۷۵،رزین بن عقبہ کے حالات میں،تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۰۷،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،و غیرہ

(۲)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۳۱،کتاب معرفۃ الصحابہ معجم شیوخ ابی بکر اسماعیلی ج:۱ص:۴۸۵،الکامل فی ضعفا الرجال ج:۴ص:۳۴۹،عبادۃ بن زیاد کے حالات میں،تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۰۷،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،و غیرہ

(۳)اس کا مدرک چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے

(۴)اس کا حوالہ چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے (۵)تاریخ دمشق ج:۴۲ص:۳۰۳

(۶)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۴۳،کتاب معرفت صحابہ امیرالمومنینؑ کے اسلام کا ذکر،مجمع الزوائد ج:۹ص:۱۲۰،کتاب مناقب باب مناقب علی بن ابی طالبؑ میں،مسند احمد ج:۱ص:۳۳۰،مسند عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب،المعجم الکبیر ج:۱۲،ص:۹۸،السنۃ لابن ابی عاصم ج:۲ص:۵۶۶۔۵۶۵،الاصابۃ ج:۴ص:۵۶۸،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،ریاض النضرۃ ج:۲ص:۱۹۰،تیسری فصل میں،فضائل صحابہ لابن حنبل ج:۲ص:۶۴۸،

(۷)المستدرک علی صحیحین ج:۲ص:۳۶۷،کتاب تفسیر،تفسیر سورہ توبہ،کنزالعمال ج:۱۱ص:۶۰۷،حدیث۳۲۹۳۳،ج:۱۳ص:۱۷۲،حدیث:۳۶۵۱۷،ینابیع المودۃ ج:۱ص:۳۴۴،میزان الاعتدال ج:۲ص:۳۲۴،حفص بن عمر الابلی کے حالات میں،لسان المیزان ج:۲ص:۳۲۴،حفض بن عمر الابلی کے حالات میں،و غیرہ

(۸)اس کا مدرک چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے

۳۴۱

ابن عباس سے روایت ہے:وہ امیرالمومنین ؑ کے حوالے سے کہتے ہیں جب نبی ؐ پر یہ آیت نازل ہوئی((وانذر عشیرتک الاقربین))اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے)) تو بنی عبدالمطلب سے نبی ؐ سے گفتگو ہونے لگی پھر نبی ؐ نے خطبہ دیا اور فرمایا:اے بنوعبدالمطلب!میں تمہارے پاس دنیا آخرت کی بھلائی لیکر آیا ہوں،مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ میں تم لوگوں کو اس کی طرف بلاؤں،پس تم میں سے کون ہے جو اس شرط پر میرا ہاتھ بٹائے کہ وہ تمہارے درمیان میرا بھائی،وصی اور خلیفہ قرار پائے))ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ سن کے لوگ آپ کو چھوڑ ک چلے گئے ۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ مولائے کائنات ؑ نے فرمایا:میں اس وقت بہت کمسن تھا میری آنکھیں چھوٹی اور پن ڈ لیاں پتلی تھیں،لیکن میں نے آواز دی یا رسول اللہ ؐ میں آپ کا ہاتھ بٹاؤں گا اور اس امر میں آپ کی وزارت کروں گا سرکار دو عالم ؐ نے یہ سن کے میری گردن پر ہاتھ رکھا اور فرمایا:بےشک یہ میرا بھائی میرا وصی اور تم لوگوں میں میرا خلیفہ ہے ۔ اس کی باتیں سنو اور اس کا حکم مانو!علی ؑ فرماتے ہیں یہ سن کے لوگ ہنسنے لگے اور(میرے والد)ابوطالب ؑ سے کہنے لگے کہ یہ)حضور اکرم ؐ )تو کو حکم دیتے ہیں کہ اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کا حکم مانو!(۱)

اللہ نے ولایت علی ؑ کو یہ کہہ کے ثابت کیا کہ((بےشک تمہارا ولی تو اللہ ہے اور اس کا رسول ؐ ہے اور وہ صاحبان ایمان ہیں جو حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں))(۲) حدیثیں بتاتی ہیں کہ یہ آیت امیرالمومنین ؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) تاریخ طبری ج: ۱ ص: ۵۴۲ ۔ ۵۴۳ ، ،شرح نہج البلاغہ ج:۳ ص۲۱۰ ،تفسیر ابن کثیر ج:۳ ص ۳۵۲ البدایہ والنہایہ ج :۳ص:۴۰ تفسیر طبری ج۹ص:۱۲۲

(۲)سورہ مائدہآیت :۵۵

(۱)تفسیر قرطبی ج: ۶ ص: ۲۸۸ ،تفسیر ابن کثیر ج: ۲ ص: ۷۲ مجمع الزوائد ج: ۷ ص: ۱۷ ،کتاب التفسیر، ،کتاب المعجم الاوسط ج: ۶ ص: ۲۱۸ ۔فتح القدیر ج: ۲ ص: ۳ ،زاد المسیر ج: ۲ ص: ۳۸۲ ،احکام القرآن جصاص،ج: ۴ ص: ۱۰۲ ،باب نماز میں معمولی فعل،روح المعانی ج: ۶ ص: ۱۶۷ ،شواہد التزیل،حسکانی ج: ۱ ص: ۲۱۱ ۔ ۲۱۰ ۔ ۲۰۹ ،تاریخ دمشق ج: ۴۲ ،ص: ۳۵۷ ،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں اور ج: ۵ ص: ۳۰۳ ،عمر بن علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،کنز العمال ج: ۱۳ ،ص: ۱۰۸ ،حدیث: ۳۶۳۵۴ ،و غیرہ منابع،

۳۴۲

اسی طرح پیغمبر ؐ نے بھی ولایت علی ؑ یہ کہہ کے ثابت کی ہے کہ((میرے بعد علی ہی تمہارے ولی ہیں))(۱) بلکہ نبی ؐ نے علی ؑ کو مومنین پر ان کے نفوس سے بھی اولیٰ قرار دیا ہے،حدیث غدیر آپ کے سابقہ سوالوں کے ساتویں سوال کے جواب میں گذرچکی ہے،حدیث غدیر کے سیاق سے امیرالمومنین ؑ کی امامت ثابت ہوتی ہے اس لئے کہ اولیٰ بالمومنین صرف وہی ہوسکتا ہے جس کے اندر مومنین کی قیادت کی صلاحیت ہو پس ثابت ہوا کہ امامت مکمل ہو ہی نہیں سکتی جب تک امام کو ماموم پر اولیت نہ حاصل ہو،اس کتاب کے مقدمہ میں اس سلسلے میں گفتگو ہوچکی ہے،اس کے علاوہ بھی بہت سی حدیثیں ہیں جو خاص طور سے علی ؑ اور عام طور سے اہل بیت ؑ کے حق میں وارد ہوئی ہیں ۔

فضائل علی ؑ و اہل بیت ؑ میں،میں نے یہ آیتیں اور حدیثیں پیش کردی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان تمام آیات و احادیث کے حوالہ اسناد بھی پیش کروں گا اور یہ کہ ہر حدیث و آیت کا مدلول کیا ہے؟اور ان آیات و احادیث پر کیا اعتراضات ہوئے ہیں؟دشمنان اہل بیت ؑ نے جو ان حدیثوں کے رخ کو موڑنا چاہا ہے اس کے مفہوم میں تحریف کی ہے اور شیعوں نے جو اس کے جوابات دیئے ہیں ان تمام باتوں کو میں اس وقت عرض کرنے کی حالت(پوزیشن)میں نہین ہوں،اگر چہ یہ سب کچھ لکھا جائے تو کئی جلد کتابیں تیار ہوجائیں گی اور گفتگو بہت طویل ہوجائے گی،اس سلسلے میں ہمارے علمائے ابرار ؓ نے جو کتابیں تحریر فرمائی ہیں اور ان آیات و احادیث کی جو چھان بین کی ہے وہی کافی ہے،میں نے بہت اختصار و اجمال سے کام لیا ہے اور جو کچھ بھی عرض کیا ہے وہ سند اور حوالے کا محتاج نہیں ہے ۔

----------------

( ۱) مجمع الزوائد ج: ۹ ص: ۱۲۸ ،سنن کبری نسائی ج: ۵ ص: ۱۳۳ ،کتاب خصائص خصوصیت علی بن ابی طالبؑ میں،المعجم الاوسط ج: ۶ ص: ۱۶۳ ،مسند احمد ج: ۵ ص: ۳۵۶ ،برید اسلمی کی حدیث میں،الفردوس بما ثور الخطاب ج: ۵ ص: ۳۹۲ ،فتح الباری ج: ۸ ص: ۶۷ ،تحفۃ الاحوذی ج: ۱۰ ،ص: ۱۴۷ ۔ ۱۴۶ ،فیض القدیر ج: ۴ ص: ۳۵۷ ،الاصابۃ ج: ۶ ص: ۶۲۳ ،وہب بن حمزہ کے حالات میں،الریاض النضرۃ ج: ۲ ص: ۱۸۷ ،تاریخ دمشق ج: ۴۲ ص: ۱۸۹ ،حالات علی بن ابی طالب،فضائل الصحابہ لابن حنبل ج: ۲ ص: ۶۸۸ ،البدایۃ و النہایۃ ج: ۷ ص: ۳۴۶ ۔ ۳۴۴ ،

۳۴۳

اسی طرح میرا مقصد یہ بھی نہیں ہے کہ ہر حدیث کے مدلول کی کوئی تعریف کروں کہ کونسی حدیث علی ؑ اور اہل بیت ؑ کی کس فضیلت پر دلالت کرتی ہے،بلکہ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ ایک انصاف پسند کو یقین آجائے کہ ایک طرف اہل بیت ؑ اور علی ؑ کے فضائل میں احادیث و آیات کا ذخیرہ موجود ہے جو متفق علیہ اور ناقبال انکار ہے،ان مضبوط دلیلوں کے مقابلے میں ابوبکر کی فضیلت میں ایک لولی لنگڑی اور مریض حدیث حادثہ صلوٰۃ کی ہے،کیا ان مضبوط دلائل کو چھوڑ کے اس اپاہج حدیث کی بنیاد پر ایک صاحب انصاف کی نظر میں علی ؑ کو محروم اور ابوبکر کو خلیفہ تسلیم کرلینا صحیح ہے؟انصاف آپ کے ہاتھ میں ہے ۔

ان تمام باتوں کا ماحصل یہ ہے کہ حقائق آپ کے سامنے ہیں اور ہر انسان کو اختیار ہے کہ جو اسے اچھا لگے وہ اپنالے اور آثار و قرائن کی بنیاد جو واقعیت سے قریب معلوم ہو اسے اختیار کر لے،البتہ مقصد رضائے پروردگار ہونا چاہئے اور خدا کے سامنے معقول عذر پیش کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئے اس لئے کہ ہم سب کو اسی کے سامنے پیش ہونا ہے اور اس کے سامنے کھڑے ہونا ہے،ارشاد ہوتا ہے((ایک دن آئے گا جب ہر نفس پنی انجام دی ہوئی نیکیوں کو اپنے سامنے موجود پائے گا اور جس نے برائیاں انجام دی ہیں وہ تمنا کریں گے کہ کاش ان کے اور ان کے اعمال کے درمیان ایک لمبا فاصلہ ہوتا،اللہ اپنے آپ سے تمہیں ڈ راتا ہے اور اللہ تو اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے))(۱) غالباً گذشتہ صفحات میں اور ابھی تھوڑی دیر پہلے بھی یہ بات عرض کی جاچکی ہے کہ بعض مورخین کے مطابق عام مہاجرین و انصار کو اس معاملے میں ذرا بھی شک نہیں تھا کہ خلافت علی ؑ کا حق ہے اور علی ؑ ہی پیغمبر ؐ کے بعد صاحب امر ہیں،جیسا کہ اہل بیت ؑ اور ایک بڑی جماعت بھی یہ سمجھ رہی تھی کہ خلافت اہل بیت ؑ کا حق ہے اور اہل بیت ؑ میں بھی خاص طور سے علی ؑ کا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ آل عمران آیت ۳۰

۳۴۴

خلافت ایک اہم منصب ہے،اس کی طرف صرف اشار کرنا کافی نہیں ہے

۴ ۔ خلافت کی اہمیت کے پیش نظر صرف اس کی طرف اشارہ و تلمیح سے کام لے کر خلیفہ کا معین کرنا کافی نہیں ہے،خصوصاً اس لئے بھی کہ یہ منصب اپنے اندر اتنی چمک اور کشش رکھتا ہے کہ ہر ایک کے دل میں اس کی خواہش پیدا ہوسکتی ہے اور کوئی بھی اس کی طمع کرسکتا ہے ۔

یہاں تو لوگ نصوص صریحہ کی تاویل کرنے سے باز نہیں آتے بلکہ ان کو اپنے مقصد کے مطابق توڑ مروڑ کے تحریف کرکے ان کے رخ کو اپنی طرف موڑ دیتے ہیں اور اصل منصوص بالخلافۃ کو محروم کردے رہے ہیں پھر اشارے کنائے کی کیا حیثیت ہے؟اشاروں سے غافل رہنا تو آسان ہے،جس طرح اشاروں سے کھیلنا آسان ہے،بلکہ اس طرح کے اہم امور میں اشاروں پر اکتفا کرنا تو فتنوں کو جنم دیتا ہے امت میں اختلاف کا سبب بنتا ہے،امت کو وادی حیرت و ضلال میں ڈ ال دیتا ہے،حالانکہ اسلام کی مضبوط شریعت ان کمزوریوں سے پاک ہے اور اسلام کا عظیم نبی ؐ ان نقائص سے منزّہ ہے ۔

حقیقت کا شبہات سے پاک ہونا ضروری ہے

سابقہ سوالوں کے جواب میں یہ بات عرض کی جاچکی ہے کہ حقیقت روشن ہوتی ہے،اس میں شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہوتی،اس لئے کہ خداوند عالم نے اس کے لئے حجت کا فیہ کا انتظام کیا ہے،جس سے انکار وہی کرےا جس کو حق سے دشمنی ہوگی یا پھر وہ انکار کرے گا جو حق کو محض غفلت اور سستی کی وجہ سے ٹالنا چاہتا ہے اور خدا کے نزدیک ان دونوں کے پاس کوئی عذر نہیں ہے ہمارے لئے بہتر یہی ہے کہ اس سلسلے میں کافی وقت نظر کے ساتھ حقیقت کا یقین اور اس کی حد بندی کرلیں گذشتہ باتوں کی بنیاد پر ہم اس حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں،لیکن اس کے ان مضامین کا بلکہ اکثر مضامین کا تذکرہ کرنا بہتر ہے ۔

۳۴۵

دعوتِ اصلاح کے راستے میں رکاوٹیں

اصلاحی دوتوں کو بہت سی رکاوٹوں اور مشکلوں کا سامان کرنا پڑتا ہے،یہ مشکلات دعوت کی نشر و اشاعت کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہیں اور سماج کے ہر طبقہ تک نہیں پہنچنے دیتی ہیں یہ مشکلیں دعوت کے اوامر و نواہی میں مانع ہوتی ہیں اور ان کی تنقید نہیں ہوپاتی،ایسا یا تو دعوت کی کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے یا وہ خارجی عوامل ہیں جن کی وجہ سے دعوت کے پھیلنے میں تاخیر،بلکہ تعویق ہوتی ہے۔

سب سے بڑی رکاوٹ خود اہل دعوت کا داخلی اختلافات ہوتا ہے

دعوت اصلاح کے سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ اہل دعوت کا داخلی اختلافات ہوتا ہے جو ان کے ذاتی اجتھاد کا نتیجہ ہوتا ہے یا پھر یہ کہ لوگ جان بوجھ کے اپنے اغراض و اھداف کے مطابق ان کی تحریف کرلیتے ہیں اور دعوت کو اس کی حدوں سے باہر نکال دیتے ہیں تا کہ اس تحریف سے وہ مقاصد حاصل ہوسکیں جو دعوت کے خلاف یا اس کو نقصان پہنچانے والے ہیں،اکثر تو ایسا ہوتا ہے کہ داخلی اختلافات اور ذاتی اجتھاد کی وجہ سے خود دعوت کا چہر مسخ ہوجاتا ہے اور اصلاح کی دعوت کو موت آجاتی ہے ۔

اختلاف و افتراق ہی کے درمیان آسمانی مذہب کی جانچ ہوجاتی ہے

آسمانی مذہب کی جانچ پرکھ تو اسی اختلاف و افتراق پر منحصر ہے،اس لئے آسمانی مذہب کسی بھی کمی یا نقص سے پاک ہوتا ہے،کیونکہ آسمانی مذہب اس خدائے واحد و عادل کی طرف سے صادر ہوتا ہے،جو مدیر،لطیف خبیر،علیم اور حکیم ہے ۔(۱) (( گوشہ چشم کے اشاروں کے ساتھ دلوں کے حالات بھی جانتا ہے))اس کی نظر سے آسمان و زمین کا کوئی ذرہ بھی پوشیدہ نہیں ہے(۲) اور وہ ہر چیز پر محیط ہے اس پروردگار کی طرف سے جو بھی نظام آئے گا وہ اسکا مشروع کیا ہوا ہوگا،سب سے کامل نظام ہوگا اور جہاں بھی وہ نظام بھیجا جائے گا وہاں کے ماحول کے مطابق ہوگا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ غافر آیت: ۱۹ (۲) سورہ سبا آیت: ۳

۳۴۶

قرآن مجید،اختلاف سے بچنے کی سخت ہدایت کرتا ہے

یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید اختلاف و افتراق سے بچنے کی سخت تاکید کرتا ہے اور وحدت اور اتفاق کی پر زور دعوت دیتا ہے ارشاد ہوتا ہے((اور خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور اختلاف نہ کرو)(۱) دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے:ان کے جیسے نہ ہوجاؤ جنہوں نے آپس میں اختلاف کیا اور روشن نشانیاں آنے بعد متفرق ہوگئے،ان کے لئے بڑا عذاب ہے ۔(۲)

پھر ارشاد ہوتا ہے : وہ لوگ جو اپنے دین میں تفرقہ پیدا کرکے ایک الگ گروہ بناتے ہیں آپ ان سے کوئی مطلب نہیں ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ، پھر انھیں بتایا جائے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں(۳)

نبی کا اعلان کہ امت میں فرقے ہوں گے

اس کے ساتھ ہی پیغِمبر اعظم ؐ نے بھی بارہا اعلان کیا کہ امت میں اختلاف ہوگا اور فرقے پیدا ہوجائیں گےٹھیک اسی طرح جیسے سابقہ امتوں میں اختلاف ہوچکا ہے،آپ نے فرمایا:یہودیوں کے اکہتر فرقے ہوئے ایک جنتی بقیہ جہنمی ہیں،نصرانیوں کے بہتر فرقے ہوئے ایک جنتی اور اکہتر جہنمی ہیں اور یہ(میری)امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوگی،بہتر جہنمی اور ایک جہنمی اور ایک جنتی ہوگا ۔(۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ آل عمران آیت:۱۰۳

(۲)سورہ آل عمران آیت:۱۰۵

(۳)سورہ نعام آیت:۱۵۹

(۴)مجمع الزوائد ج:۶ص:۲۳۳،کتاب قتال اہل بغی باب خوارج اور ج:۷ص:۲۵۸،کتاب فتن،باب امتوں کا مختلف فرقوں میں بٹ جانا،اور سنتوں کی پیروی کرنا،تفسیر قرطبی ج:۴ص:۱۶۰،تفسیر ابن کثیر ج:۲ص:۷۸،سنن درامی ج:۲ص:۳۱۴،کتاب سیر باب امتوں کا آپس میں فرقہ فرقہ ہونا،مصابح الزجاجۃ ج:۴ص:۱۷۹،کتاب فتن،امتوں کا آپس میں بٹ جانا،مسند ابی یعلی ج:۶ص:۳۴۱،وہ روایات جو ابونضرہ بن انس سے کی ہے،معجم الکبیر ج:۸ص:۲۷۳،اعتقاد اہل سنت ج:۱ص:۱۰۳،السنۃ لابن عاصم ج:۱ص:۳۲،الترغیب و الترھیب ج:۱ص:۴۴،حلیۃ الاولیاء ج:۳ص:۲۲۷)

۳۴۷

یہ روایت ان حدیثوں کے مطابق ہے جو سرکار دو عالم ؐ سے تواتر کے ساتھ وارد ہوئی ہیں(کہ امت مسلمہ سابقہ امتوں کے راستے پر چلے گی)حدیث میں ہے کہ(بیشک تم ضرور پیروی کروگے اپنے پہلے والوں کے قدم بہ قدم اور دست بہ دست،اگر وہ بجوکے سوراخ میں بھی داخل ہوتے تھے تو تم بھی داخل ہوگے)راوی نے پوچھا کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد گذشتہ لوگوں سے یہود و نصاریٰ ہیں؟آپ نے فرمایا پھر کون؟(۱)

اس لئے سابقہ امتوں کے افتراق میں شک کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں ہے،قرآن مجید بہت وضاحت سے ان کے اختلاف پر روشنی ڈ التا ہے ۔

مسلمانوں کو فتنوں سے ڈرایا گیا اور انہیں خوف دلایا گیا

افتراق امت کی پیش گوئی کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو اکثر فتنوں سے ڈ رایا گیا اور ان کے برے انجام سے آگاہ کیا گیا،انہیں بتایا گیا کہ ان کا امتحان لازمی ہے اور آزمائش حتمی ہے،ارشاد ہوتا ہے کہ:((وہ لوگ جو امر الٰہی کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈ رنا چاہئے کہ انہیں یا تو کوئی فتنہ دبوچ لے گا یا وہ عذاب الیم سے دوچار ہوجائیں گے)) ۔(۲) ایک مقام پر ارشاد ہوا ہے کہ:اس فتنہ سے ڈ رو جو خاص ان لوگوں کو نہیں پہنچے گا جنھوں نے ظلم کیا ہے اور یہ جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے(۳) اور پھر ارشاد ہوا:محمد نہیں ہیں مگر رسول ان کے پہلے بھی رسول گذرچکے ہیں،پس اگر وہ مرجائیں یا قتل ہوجائیں تو کیا تم اپنے پچھلے مذہب پر واپس ہوجاؤگے؟اور جو اپنے پچھلے پیروں واپس ہوگا اس سے خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا،خدا عنقریب شکرگذاروں کو جزا دے گا ۔(۴) ارشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) صحیح بخاری ج: ۶ ص: ۲۲۶۹ ،اور ج: ۳ ص: ۱۲۷۴ ،سنن ابن ماجہ ج: ۲ ص: ۱۳۲۲ ،کتاب فتن،امتوں کا آپس میں فرقہ فرقہ ہونا،مجمع الزوائد ج: ۷ ص: ۲۶۱ ،مستدرک علی صحیحین ج: ۱ ص: ۹۳ ،صحیح ابن جبان ج: ۱۵ ص: ۹۵ ،مسند احمد ج: ۲ ص: ۵۱۱ ۔ ۳۲۷ ،مسند ابی ہریرہ ج: ۳ ص: ۸۹ ،مسند طیالسی ج: ۲ ص: ۲۸۹ ،

( ۲) سورہ نور آیت: ۶۳ (۳) سورہ انفال آیت: ۲۵ (۴) سورہ آل عمران آیت: ۱۴۴

۳۴۸

خداوند ہوا کہ((کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ انھیں یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا اور آزمایا نہیں جائے گا؟اس سے پہلے بھی ہم لوگوں کو آزماچکے ہیں اور اللہ تو جانتا ہی ہے کہ ان میں جھوٹا کون ہے اور سچا کون ہے؟(۱) ایک مقام پر خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے((اللہ مومنین کو اسی حال میں نہیں چھوڑ دےگا جیسے تم ہو یہاں تک کہ خبیث اور طیب الگ الگ ہوجائے اللہ تمہیں غیب کی خبر نہیں دینے جارہا ہے ۔(۲)

سرکار دو عالم ؐ نے فرمایا:ہمارے بعد کا فرمت ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو))اور حدیث حوض میں آپ نے ارشاد فرمایا:

لیکن تم نے میرے بعد بہت سے حرکتیں انجام دیں اور پچھلے مذہب پر رجعت قہری کر بیٹھے))اس کے علاوہ بھی بہت سی حدیثیں ہیں جو آپ کے سابقہ سوالوں میں سے دوسرے سوال کے جواب میں پیش کی جاچکی ہیں ۔

اختلاف کے نتائج سے آگاہ کیا گیا اور اس کے خطروں سے خبردار کیا گیا

کسی بھی حقیقت پسند انسان کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ فتنوں سے بچنے کے لئے اور اختلاف سے پرہیز کی ہدایت کے لئے جو آیتیں اور احادیث وارد ہوئی ہیں ان کے مضامین بہت سخت ہیں اور ان میں بھیانک نتائج سے متنبہ کیا گیا ہے مثلاً جو لوگ اس فتنے میں ملوث ہوں گے انھیں انقلاب پذیر،مرتد،خبیث اور کافر جیسے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے،یہ فیصلہ کردیا گیا ہے کہ جو حق کی مخالفت کرکے کوئی فرقہ بنائے گا وہ اپنے فرقہ کے ساتھ جہنم میں جائے گا اس لئے کہ فرقہ حق سے خروج کے بعد کفر سے الحاق لازمی ہے،جو خسران اور ہلاکت کا سبب ہے،صرف اسلام کی ظاہری صورت اور اس کا اعلان دعوت کسی بھی طرح نفع بخش نہیں ہوگا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ عنکبوت آیت: ۲ ۔ ۳

( ۲) سورہ آل عمران آیت: ۱۷۹

۳۴۹

قرآن مجید نے سابقہ امتوں کے کردار کو مقام مثال میں رکھ کے سمجھایا ہے ارشاد ہوا:اور ان لوگوں کی طرح مت ہوجاؤ جنھوں نے فرقے بنائے اور روشن آیتیں آنے کے بعد بھی اختلاف کر بیٹھے،ان کے لئے تو بڑا عذاب ہے،اس دن کچھ چہرے نورانی اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے ان سے کہا جائے گا کہ کیا تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے اب اپنے کفر کا مزہ چکھو اور جن کے چہرےنورانی ہوں گے وہ تو اللہ کی رحمت کے سائے میں ہوں گے اور ہمیشہ رحمت میں ہی رہیں گے ۔(۱)

ارشاد خداوندی ہوا کہ:((اللہ چاہتا تو وہ لوگ جنھوں نے دلیلیں آنے کے بعد بھی آپس میں قتال کیا نہ کرتے لیکن انھوں نے اختلاف کیا پس ان میں سے کچھ تو مومن ہی رہے اور کچھ کافی ہوگئے)) ۔(۲)

ایک اور مقام پر ارشاد ہوا:((اس سے اختلاف کرنے والے تو صرف بغاوت کی بنا پر اختلاف کر رہے ہیں اس لئے کہ یہ اختلاف،ان کے پاس نشانیاں آنے کے بعد شروع ہوا ہے،پس صاحبان ایمان کو تو اللہ نے ہدایت پر باقی رکھا اور اس اختلاف سے انھیں اپنی اجازت سے بچائے رکھا اور اللہ جسے چاہتا ہے راہ مستقیم کی ہدایت کرتا ہے))(۳)

خطرناک اختلاف کے پیش نظر واضح و آشکار حجت کا ہونا لازم ہے

دین میں اختلاف،ایک خطرناک اختلاف ہے،دین میں فرقہ بندی ایک بہت ہی نقصان دہ عمل ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس کے خلاف واضح حجت اور کافی مواد موجود ہوتا کہ اگر کوئی دین سے خارج ہوجائے تو روز قیامت یہ عذر نہ پیش کرسکے کہ ہم کیا کریں؟سمجھ نہیں پائے بلکہ دلیلیں اتنی واضح ہونی چاہئیں کہ جو دین سے خارج ہوتا ہے وہ صرف اپنے دل کی گندگی و شقاوت ہی کی بنیاد پر نکلے یا پھر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ آل عمران آیت: ۱۰۵ ۔ ۱۰۷

( ۲) سورہ بقری آیت: ۲۵۳

( ۳) سورہ بقری آیت: ۲۱۳

۳۵۰

پھر اس وجہ سے کہ وہ چمگادڑ کی طرح اندھا ہی رہنا چاہتا ہے اور حق کو دیکھنا ہی نہیں چاہتا اس کے سامنے سورج موجود ہے لیکن آنکھوں کو بند کئے پڑا ہے،سچائی سے غفلت یا تو اندھی تقلید کی وجہ سے ہے یا بےجا تعصب کی وجہ سے یا کوئی ایسا سبب ہے جسے کوئی معقول عذر نہیں کہا جاسکتا ۔ ارشاد درب العزت ہوتا ہے((ہم نے جہنم کے لئے بہت سے ایسےانسان و جنّات پیدا کئے ہیں جن کے پاس آنکھیں ہیں لیکن وہ دیکھ نہیں سکتے،کان ہے لیکن وہ سنتے نہیں ہیں،دل رکھتے ہیں لیکن سمجھاتے نہیں،وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے زیادہ گمراہ،اصل میں وہ غافل لوگ ہیں ۔(۱)

آپ جانتے ہیں کہ انبیا کی بیعثت کا اہم ترین مقصد یہ ہے کہ حق پر حجۃ کا فیہ قائم ہوجائے،ہدایت کی علامتیں اور ایمان کے راستے واضح ہوجائیں تا کہ انسان جہنم سے بچنے اور جنت کے حاصل کرنے کا طریقہ جان لے،((تا کہ جو ہلاکت ہو وہ بغیر دلیل کے ہلاک نہ ہو اور جو زندہ رہے وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے))(۲) (( اور تا کہ پیغمبروں کے بھیجنے کے بعد لوگوں کو خدا کے خلاف کوئی حجت میسر نہ ہو))(۳) ارشاد خدائے تعالیٰ ہوتا ہے:((خدا کسی قوم کی ہدایت کرنے کے بعد گمراہ نہیں کیا کرتا،جب تک ان چیزوں کو واضح نہ کردے جن سے انھیں ڈ رنا ہے،اللہ تو ہر چیز سے واقف ہے))(۴)

اسی طرح کے مضامین آیات کریمہ اور احادیث شریفہ سے مستفاد ہوتے ہیں جب اللہ یہ کہہ چکا ہے،خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور فرقے نہ بناؤ(۵) اور یہ بھی ارشاد ہوا کہ((بیشک یہ میرا راستہ ہے جو بالکل سیدھا ہے،پس اس کی پیروی کرو اور دوسرے راستوں کی پیروی نہ کرو،ورنہ تم خدا کے راستہ سے الگ ہوجاؤگے،اللہ اسی بات کی تم سے سفارش کرتا ہے تا کہ تم صاحب تقویٰ ہوجاؤ)) ۔(۶)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ اعراف آیت:۱۷۹ (۲)سورہ انفال آیت:۴۲

(۳)سورہ نسائ آیت:۱۶۵

(۴)سورہ توبہ آیت:۱۱۵

(۵)سورہ آل عمران آیت:۱۰۳

(۶)سورہ انعام آیت:۱۵۳

۳۵۱

تو جب فرقہ بنانا اور اختلاف پیدا کرنا اتنا بڑا گناہ اور خطرناک عمل ہے تو کیا رفع اختلاف کے لئے یہ کافی ہے کہ حق کو مبہم چھوڑ دیا جائے کہ حبل متین کو شک کے تانے بانے میں الجھا دیا جائے یہ نہ بتایا جائے کہ حبل متین سے اعتصام کیسے ہوگا؟صراط مستقیم کیا ہے؟اور اس کی پیروی کرنے والوں کے لئے کیسے تحقق ہوگا؟سب کچھ تشنہ تفسیر رہے اور لوگوں کو اپنے طور پر اجتھاد کرنے کی کھلی چھوٹ مل جائے اس کے بعد پھر ہر فرقہ یہ دعویٰ کرنے لگے کہ حق تو فقط اسی کے پاس ہے اور دوسرے افراد باطل والے ہیں نہیں:بلکہ حق یہ ہے کہ خداوند عالم عادل اور کریم ہے،وہ کبھی نہیں چاہتا کہ اس کے بندے جہنم کے ایندھن بنیں،وہ یہ نہیں چاہتا کہ بندوں کے پاس جہالت کو رفع کرنے کے لئے واضح حجت نہ ہو اور قطعی عذر نہ ہو،خدا نہیں چاہتا ہے کہ حق کے بارے میں شک کی تھوڑی سی بھی گنجائش باقی رہ جائے اور نہ اتنا پیچیدہ ہوجائے کہ اصول کے بارے میں اجتھاد،تلاش،غور و فکر کی ضرورت محسوس کی جائے ۔

یہ تمام باتیں اس لئے عرض کررہا ہوں تا کہ آپ کو اس بات کا یقین ہوجائے کہ جب لوگ حقیقت سے اختلاف کی کوشش کرتے ہیں اور حق کو شک کے گھیرے میں لیکر بحث و مناظرہ کرتے ہیں تو حق کے پاس اپنے ثبوت کے لئے بہت ہی محکم دلیلیں اورروشن نشانیاں ہوتی ہین جن سے انکار کی بنیاد صرف دشمنی یا سیاہ بختی ہی ہوسکتی ہے ۔

اس بات کی مزید تائید خداوند عالم کے اس قول سے ہوتی ہے ارشاد ہوا((ان کے جیسے نہ ہوجانا جو دلیلیں آنے کے بعد بھی فرقہ بن گئے اور اختلاف کر بیٹھے(۱) اس لئے کہ اختلاف و فرقہ بندی سے روکنے کے لئے کافی دلیلیں موجود تھیں اگر وہ لوگ اس کی پیروی کرتے اور عمداً ان دلیلوں کو نظرانداز نہ کرتے تو حق تک بہرحال پہنچ سکتے تھے ۔

خود سرور کائنات ؑ نے ارشاد فرمایا کہ:میں نے تمہیں روشنی میں کھڑا کردیا ہے،اس(روشنی)میں لا کے چھوڑا ہے جس کی راتیں بھی دن کی طرح روشن ہیں،اس کے باجود بھی گمراہ نہیں ہوگا مگر وہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ آل عمران آیت:۱۰۵

۳۵۲

جس کے مقدر میں ہلاکت ہے ۔(۱)

اس لئے کہ حق واضح اور روشن ہے اگر امت خلوص دل سے طلب کرنے کی کوشش کرے تو ہرگز محروم نہیں رہے گی،فتنہ پرور راتیں اور امتحان کے اندھرے شبہ کی تاریکیاں،حق پر پردہ نہیں ڈ ال سکتی ہیں اور حق کی علامتوں کو ضائع کرسکتی ہیں نہ اس کے آثار مٹاسکتی ہیں،بشرطیکہ چشم بینا اور گوش شنوا ہو ۔

اختلاف کا سب سے بڑا سبب ریاست طلبی ہے

حق تو یہ ہے کہ اختلاف اور فرقہ بندی کا سب سے بڑا سبب اقتدار و حکومت ہے،لوگوں پر حکومت کرنے کی خواہش اور انسانوں پر تسلّط حاصل کرنے کا جذبہ وہ ہے جس کی وجہ سے دعوت اصلاح دینے والوں کے درمیان اختلاف اور انتشار پیدا ہوتا ہے

۱ ۔ ہر انسان میں فطری پر حکومت و اقتدار کی خواہش ہوتی ہے اور کبھی کبھی یہ جذبہ بہت شدید ہوجاتا ہے،نتیجہ میں انسان حکومت وقت سے اختلاف کر کے اپنا ایک الگ گروہ بنا لیتا ہے

۲ ۔ حق بہرحال تلخ ہوتا ہے اور حق کی حکومت کو عام انسان برداشت کرنے میں مشکل محسوس کرتا ہے حالانکہ دعوت اصلاح کا پہلا اصول حکومت حقّہ کا قیام اور حق کا نفاذ ہے،ظاہر ہے کہ حق کو اکثریت برداشت نہیں کر پاتی اور اس کے خلاف علم بغاوت بلند کردیتی ہے چونکہ اصول پرست افراد جو حکومت حقہ کے ذمہ دار ہوتے ہیں،وہ حرف بہ حرف قانون کے پابند ہوتے ہیں اور قانون کی پابندی کرنا چاہتے ہیں،یہ بات بھی عام لوگوں پر گراں گذرتی ہے ۔

اسی کی طرف عمر بن خطاب نے اشارہ کیا تھا،جب امر خلافت کے سلسلے میں ابن عباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) مسند احمد ج: ۴ ص: ۱۲۶ ،تفسیر قرطبی ج: ۷ ص: ۱۳۸ ،مستدرک علی صحیحین ج: ۱ ص: ۱۷۵ ،السنۃ لابن ابی عاصم ج: ۱ ص: ۱۹ ،معجم الکبیر ج: ۱۸ ص: ۲۴۷ ۔ ۲۵۷ ،مصباح الزجاجۃ ج: ۱ ص: ۵ ۔

۳۵۳

سے ان کی گفتگو ہورہی تھی تو عمر نے کہا تھا:خدا کی قسم اے ابن عباس!بے شک تمہارے چچازاد بھائی علی ؑ خلافت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں لیکن قریش ان کو برداشت نہیں کرپائیں گے،اس لئے کہ اگر انھیں حاکم بنادیا جائے تو وہ قریش کو حق کی تلخی کا مزہ چکھا کے رہیں گے،ان کی حکومت میں رخصت کی گنجائش نہیں ہوگی،نتیجہ میں لوگ ان کی بیعت توڑ دیں گے اور ان سے جنگ کرنا شروع کردیں گے ۔(۱) امام جماعت ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس آدمی کے اندر امامت عامّہ کی بھی صلاحیت ہے ۔

اسلام میں پہلا اختلاف سلطنت ہی کے لئے ہوا اور یہ سب سے خطرناک اختلاف تھا

یہاں یہ بات بھی عرض کرتا چلوں کہ سب سے بڑا اور سب سے پہلا اختلاف جو امت اسلامیہ میں پیدا ہوا وہ خلافت و امامت کے سلسلے میں ہوا اور مصیبت یہ ہے کہ جیسے ہی حضور اکرم ؐ کی وفات ہوئی اس عظیم اختلاف میں امت مبتلا ہوگئی ۔

امامت اور خلافت کے موضوع پر صدر اسلام میں اتنے فتنے پیدا ہوئے،وہ چیخ پکار مچی اور اتنا ہنگامہ ہوا کہ جو بیان کے لائق نہیں ہے،یہاں تک کہ مخالفین اسلام بھی مسلمانوں پر طعن و تشنیع کرنے لگے اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔

لٰہذا ہمیں اس بات پر غور کرنا بہت ضروری ہے کہ جب امامت اسلام کا سب سے اختلافی مسئلہ ہے تو اللہ نے اسے تشنہ تفسیر نہیں چھوڑا ہوگا بلکہ اس مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر اور اس میں گنجائش اختلاف ہونے کی وجہ سے اللہ نے سب سے زیادہ اسی کی وضاحت پر زور دیا ہوگا،اس مسئلہ کی شرعی حیثیت اور قانونی اہمیت کے پیش نظر اس کو سب سے زیادہ روشن،واضع صاف اور کھلا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ یعقوبی ج:۲ص:۱۵۹،عمر بن خطاب کے ایام میں

۳۵۴

ہوا ہونا چاہئے کہ یہ فتنہ انگیز راتوں میں بھی سورج کی طرح چمکتا ہوا نظر آئے تا کہ اتمام حجت کے بعد بھی اگر کوئی اختلاف کرے،روشن دلیلوں کے بعد بھی اگر کوئی ہٹ دھرمی سے کام لے،حجتوں کے غلبے کے باوجود اگر کوئی اختلاف پر اصرار کرے تو نگاہ اعتبار فوراً یہ فیصلہ کرلے کہ اس اختلاف کے نتیجہ میں مخالف کو صرف گمراہی،ہلاکت،ہمیشہ کا نقصان اور جہنم کا ٹھکانہ نصیب ہوگا ۔

اسلام،معرفتِ امام کو سختی سے واجب اور اس کی اطاعت فرض قرار دیتا ہے

مندرجہ بالا مضمون کی تائید میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں جیسے((جو مرجائے اور اپنے امام وقت کو نہ پہچانے وہ جاہلیت کی موت مرا ہے))یا((جو بغیر امام کے مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرا ہے))اسی طرح کی بہت سی حدیثیں جو سابقہ سوالوں کے چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکی ہیں ۔

ان احادیث سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ امام کو نہ پہنچاننے والا سخت سزا کا مستحق ہے،بلکہ ہلاکت کا حقدار ہے اور امام وقت کو امام تسلیم نہ کرنے سے اور اس کا یقین نہ رکھنے سے مخالف امام کے خلاف حجت واضحہ قائم ہوجاتی ہے،جس حجت سے نکلنانا ممکن ہے اور جہالت کا عذر ناقابل قبول ہے ۔

حاکم برحق کی مادی کمزوری یہ ہے کہ وہ قانون شرع میں رعایت نہیں کرتا

خصوصاً حاکم صالح کی اصول پسندی جس کی وجہ سے وہ نظام الٰہی کو چلانے کی ذمہ داری کا حامل ہوا،اس کو اجازت نہیں دیتی کہ حکومت کو برقرار رکھنے کے لئے اور اپنی سلطنت کو چلانے کے لئے شریعت کے معاملے میں نرم پالیسی اختیار کرے اور سیاست سے کام لے اور یہی اس کی مادّی کمزوری ہے جسے اگر وہ دور کرنا چاہے تو اسے دین سے سودے بازی کرنی پڑے گی اور اس کے بدلے میں قانون الٰہی کو اس کی تمام وضاحتوں کے ساتھ چھوڑ دینا پڑے گا،دین کی سختی اور تیزی جس کے اوپر عمل کے مطابق وعد و وعید کا ترتب ہوتا ہے اسے چھوڑنی پڑے گی،لیکن اس کی اصول پسندی اس بات کو گوارہ

۳۵۵

نہیں کرے گی بلکہ وہ تو نفاذ قانون میں اتنا سخت ہوتا ہے کہ اہل دین تقویٰ اور اپنے خاص لوگوں کو بھی شریعت کے حدود سے آگے نہیں بڑھنے دیتا،اگر چہ وہ لوگ اس کی دعوت کا اعلان کرنا چاہتے ہیں اور حق سے متمسک بھی رہتے ہیں،لیکن وہ انھیں دین کی حدود سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دیتا،تا کہ ان کے ذریعہ وہ دوسروں پر حجت قائم کرے اور انہیں اہل دین کو ایک نمونہ بنا کے پیش کرسکے ۔

ناممکن ہے کہ نبیؐ نے امامت کی طرف صرف اشارے پر اکتفا کی ہو

اسی وجہ سے یہ بات عقل میں نہیں آتی اور عام آدمی اسے ناممکن سمجھتا ہے کہ نبی ؐ نے امر خلافت کی وضاحت کے لئے صرف تلمیحات،اشارات اور کنایات پر اکتفا کیا ہے،صورت مسئلہ کا تو تقاضا یہ ہے کہ یہاں بیان صریح ہونا چاہئے اور ایسی وضاحت ہونا چاہئے جس میں شک کی کوئی گنجائش اور اشتباہ کا کوئ شائبہ بھی نہ رہ جائے کہ اگر کوئی حد سے نکلے بھی تو محض اپنے عناد اور دشمنی کی وجہ سے یا پھر وہ ایسا جاہل ہو جس کی جہالت کا عذر ناقابل قبول ہو،آپ نے ابھی جو فرمایا کہ حادثہ صلواۃ میں امامتِ ابوبکر کی طرف اشارہ ملتا ہے تو آپ کو یہ جاننا چاہئے کہ مسئلہ امامت،اشارات و کنایات سے حل ہونے والا نہیں ہے،اس کے لئے تو واضح اور روشن دلیل چاہئے ۔

اسلام کے پاس ایسے نظام کا ہونا ضروری ہے جو خلافت کی تکمیل کرتا ہو!

۵ ۔ پانچویں بات یہ ہے کہ امر خلافت اسلام کا سب سے اہم مسئلہ بھی ہے اور سب سے زیادہ الجھا ہوا مسئلہ بھی ہے،یہ ناممکن ہے کہ نبی ؐ نے صرف ابوبکر کی امامت کی طرف اشارہ کو کافی سمجھا ہو یا کسی دوسرے شخص کی طرف اشارہ کردیا ہو،بلکہ کسی ایک شخص کو امام معیّن کرنا بھی کافی نہیں ہوگا چاہے کتنی ہی وضاحت کے ذریعہ معیّن کیا جائے ۔

یہاں تو ضرورت ایک ایسے نظام کام کی ہے،ایک ایسے پیمانے کی ہے کہ جو پیمانہ ہمیشہ ہمیشہ تک قائم رہے کہ جب بھی کوئی امام دنیا سے اٹھے دوسرے امام اسی اصول و ضوابط کے معیار پر معیّن

۳۵۶

ہوجائے یعنی ایک معیار ہونا چاہئے جس کے مطابق امام کی شناخت ہوسکے،نظام بھی ایسا ہو جو واضح دلیلوں اور روشن حجتوں کا حامل ہو جس سے مسلمان کسی بھی دور میں اختلاف نہ کرسکے اور جس کی مخالفت کے لئے کوئی عذر نہ پیش کرسکے،چونکہ اسلام رہتی دنیا تک باقی رہے گا اس لئے وہ نظام جس کے معیار پر خلیفہ کا تعّین ہوتا ہے،اسے بھی اتنا پائدار ہونا چاہئے کہ وہ رہتی دنیا تک قائم رہے ۔

آپ کے سابقہ سوالوں کے چوتھے سوال کے جواب میں یہ تمام باتیں عرض کی جاچکی ہیں،ظاہر ہے کہ انہیں دُہرانے کی یہاں ضرورت نہیں ہے،جو حق کو پہچاننا چاہتا ہے،حقیقت تک پہنچنا چاہتا ہے اور اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ ان عبارتوں کا مطالعہ کرے ۔

آپ کے سوالوں کا یہی جواب ممکن ہوسکا ہے،میں اللہ سے مدد اور توفیق،تسدید اور تائید کا سوال کرتا ہوں،وہی ہمارے لئے کافی ہے اور بہترین وکیل ہے ۔

۳۵۷
۳۵۸

سوال نمبر ۔ ۷

کیا یہ صحیح ہے کہ ائمہ ہدیٰ علیہم السلام ہی معاملات زندگی اور ضروریات دین کے علم سے مخصوص ہیں،دوسرے لوگ نہیں،جب کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ((آج میں نے تمہارے دین کو کامل کیا،تم پر نعمتیں تمام کیں اور میں تمہارے لئے دین اسلام سے راضی ہوا،(۱)

جواب: ۔ اس سوال کے جواب میں چند باتیں عرض کی جارہی ہیں

ائمہؑ کا علم دین سے اختصاص اکمال دین کے منافی نہیں ہے

۱ ۔ پہلی بات یہ کہ ائمہ ہدی علیہم السلام کا اختصاص بالعلم،اکمال دین کے منافی نہیں ہے اس لئے کہ اکمال دین کا مطلب ہے اس کے تمام احکام کی تشریع ہونا اور امت کے حق میں اسے صحیح قرار دینا،لیکن لوگوں تک اس دین کا پہنچنا اور اس کی تبلیغ معنائے اکمال سے خارج ہے،یہ تو ایک الحاقی مرحلہ ہے جو قانون بننے اور اس قانون کو صحیح قرار دینے کے بعد کی ضرورت ہے ۔

مثلاً ہمارے اس دور میں بھی قانون ساز اسمبلی یا کونسل قانون بناتی ہے اور تا امکان ایسے قوانین(جو ضروریات انسانی کے تقاضوں کو پورا کرنے میں کامل صلاحیت رکھتے ہیں)وضع کرتی ہے،پھر اس قانون کو می ڈ یا کے حوالے کرتی ہے تا کہ اس کا اعلان سرکاری جریدوں میں یا ری ڈ یو و غیرہ پر ہوجائے کیونکہ قانون بنانے کا فائدہ اس وقت تک حاصل نہیں ہوگا جب تک قانون لوگوں تک پہنچا نہ دیا جائے تا کہ لوگ اس پر عمل کرنا شروع کردیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں،اب دین اسلام کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ مائدہ آیت ۳

۳۵۹

طرف آئیں،اللہ نے اسلام کا قانون وضع کیا،لیکن صرف قانون وضع کردینے سے لوگوں کو کای فائدہ ہوا؟اس لئے لطف الٰہی کے قاعدہ کو تسلیم کرتے ہوئے فرقہ امامیہ کہتا ہے کہ اس کی حکمت اور لطف و کرم کا تقاضا یہ ہے کہ وہ پیغمبروں اور اماموں کو بھیجے،یہ ارسال(انبیا و ائمہ علیہم السلام کا خدا کی طرف بھیجا جانا)اس پر واجب ہے،لیکن یہ ایک دوسری بات ہے اس کا اکمال دین سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یعنی دین کا کامل ہونا اس کی تبلیغ پر موقوف نہیں ہے ۔

اتنا ہی بتا دینا کافی ہے کہ احکام دین کا مرجع کون ہے؟

لیکن اکمال دین کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امت کہ ہر فرد کو احکام دین سے واقف کرادیا جائے اور دین کا ہر فرعی حکم ان تک بلکہ ان میں سے ہر ایک تک پہنچا دیا جائے،بلکہ حصول علم کا امکان پیدا کردینا کافی ہے اور یہ امکان اس وقت بہرحال حاصل ہوجاتا ہے جب ائمہ ؑ کے بارے میں یہ مان لیا جاے کہ وہ اللہ سے علم حاصل کرتے ہیں اور ان کے پاس علم حاصل کرنے کا طریقہ اور ذریعہ موجود ہے،یہی وجہ ہے کہ وہ امت پر امام نصب کیے گئے ہیں،انھیں اللہ نے حلال اور حرام کی دلیل بنایا ہے،تشریع و احکام کی معرفت کا مرجع قرار دیا ہے،انھیں کو امت کے اوپر حجت کافیہ بنایا ہے تا کہ امت دین کے معاملات میں ان کی طرف رجوع کرے اور ان سے دین کو سمجھے ۔

اسے یوں سمجھ لیجئے کہ دور نبی ؐ میں بھی امت کے تمام افراد تو دین کے قوانین اور اس کے تمام احکام سے واقف نہیں تھے،دین کے تمام احکام کا علم تو صرف نبی ؐ سے مخصوص تھا البتہ امت کے لئے یہ ممکن تھا کہ نبی ؐ کی طرف رجوع کرکے دین کے احکام و قوانین کو حاصل کرلے،اس لئے امت کو نبی ؐ کی اطاعت کا حکم دیا گیا تھا اور یہ کہ نبی ؐ سے دین حاصل کریں ۔

بلکہ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جمہور اہل سنت کے نزدیک بھی عام مسلمان ہر دور میں احکام دین سے جاہل رہتا ہے وہ احکام جو کتاب و سنت میں بیان کردئے گئے ہیں اگر چہ سنت کے تعین میں اختلاف ہے،مگر بہرحال مسلمان ان احکام سے ناواقف رہتا ہے اور جب تک ان فقیہوں کی طرف

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367