فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ10%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206539 / ڈاؤنلوڈ: 6000
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

جو صحابہ حق پر ثابت قدم رہے ان کی محبت دینی فریضہ ہے

بلکہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام تو،ان صحابہ کی محبت کو جو حق پر ثابت قدم رہے ایک دینی فریضہ سمجھتے ہیں اور اسلام کے ان شرائع میں شمار کرتے ہیں جن کی پابندی واجب ہے،اعمش کی ایک حدیث ملاحظہ ہو،جو انھوں نے ابوعبداللہ جعفر بن محمد علیہ السلام کے حوالہ سے نقل کی ہے کہ امام ؑ نے دینی شرائع کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:((اور اولیا خدا کی محبت اور ان سے ولا واجب ہے،ان کے دشمنوں سے الگ رہنا اور ان سے الگ رہنا جنھوں نے آل محمد ؐ پر ظلم کیا،پیغمبر ؐ کی ہتک حرمت کی،ظلم کی بنیاد رکھی،سنت پیغمبر ؐ کو بدلا،انصاب و ازلام اور گمراہیوں کے امام،ظلم کی قیادت کرنے والے،بلکہ ہر دور کے ظالم سے الگ رہنا واجب ہے،اہل بیت ؑ کے تمام قاتلوں سے اظہار برائت کرنا واجب ہے،ان مومنین کی محبت واجب ہے جنھوں نے نبی ؐ کے بعد دین کو نہیں بدلا اور تغیر نہیں کیا جیسے سلمان فارسی ؓ ،ابوذر غفاری ؓ ،مقداد بن اسود کندی ؓ ،عمار بن یاسر ؓ ،جابر بن عبداللہ انصاری ؓ ،ابوالھیثم بن تیہان ؓ ،سہل بن حنیف،ابوایوب انصاری ؒ عبداللہ بن الصامت ؒ ،عبادہ بن الصامت ؒ ،خزیمہ بن الثابت ؓ ذوالشہادتین،ابوسعید خدری اور جو لوگ ان کے راستوں پر چلتے رہے اور ان کے جیسے اعمال انجام دیتے رہے،ایسے لوگوں کی پیروی کرنے والوں اور ان کی اقتدار میں رہنے والوں اور ان کی ہدایتوں پر عمل کرنے والوں سے بھی محبت واجب ہے)) ۔(1)

مامون عباسی نے حضرت ابوالحسن امام الرضا علیہ السلام سے عرض کیا کہ مختصر طور پر اسلام کی تعریف لکھ دیں،آپ نے تحریر فرمایا:((اسلام محض یہ ہے کہ انسان لا الہ الا اللہ کی شہادت دے))پھر آپ نے اسلام کے اصول و فروع لکھے من جملہ ان کے واجبات اسلام بھی بیان کئے پھر آپ نے لکھا کہ اور ان سے اظہار برائت کرنا جنھوں نے آل محمد کو قتل کیا انھیں ان کے گھروں سے بےگھر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الخصال ص:607۔101،608،باب:فضائل من شرائع الدین۔

۳۰۱

کیا ان پر ظلم کئے،ظلم کا طریقہ اپنایا اور نبی ؐ کی سنت کو بدل دیا اور امیرالمومنین علی علیہ السلام کی ولایت اور ان لوگوں سے محبت جو اپنے نبی ؐ کے راستے پر چلے،نہ تغیر کیا نہ تبدیلی،جیسے سلمان فارسی،ابوذر غفاری،مقداد بن اسود،عمار بن یاسر،حذیفہ یمانی،ابوالہیثم بن تیہان،سہل بن حنیف،عبادہ بن صامت،ابوایوب انصاری،خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین،ابوسعید خدری اور ان جیسے لوگ خدا ان سے راضی ہو اور ان پر خدا کی رحمت ہو اور ان کی پیروی کرنے والوں سے محبت کرنا،ان کے چاہئے والوں سے محبت کرنا اور ان کی ہدایتوں پر عمل کرنے والوں سے محبت کرنا ۔(1)

شیعوں کے پاک اماموں نے انھیں سمجھایا اور بتایا کہ صحابہ پیغمبر ؐ قابل تعظیم و احترام ہیں شیعوں نے اپنے اماموں سے ان کے مرتبوں کو پہچانا،یہی وجہ ہے کہ شیعہ،اپنے اماموں کی پیروی میں صحابہ پیغمبر ؐ سے محبت کرتے ہیں اور ان کی عزت کرتے ہیں،مقصد صرف یہ ہے کہ ان کا حق ادا ہو اور رضائے خدا حاصل ہوجائے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ((اور وہ لوگ جو ان کے(صاحبان ایمان کے)بعد آئے کہتے ہیں پالنے والے ہمیں بخش دے اور مہارے ان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے باایمان رہ چکے ہیں اور ان صاحبان ایمان کی طرف سے ہمارے دل میں کھوٹ نہ قرار دے،اے ہمارے پروردگار بےشک تو مہربان بھی ہے اور رحیم بھی ہے،(2) ہمارے ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کا کردار اس سلسلہ میں کافی ہے ۔

میں نے آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں بھی عرض کیا تھا کہ دین صرف راہ خدا میں محبت اور خدا کے لئے بغض کا نام ہے دین اولیا خدا سے موالات اور دشمنان خدا سے دشمنی عداوت کا نام ہے اس سلسلہ میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں،جن میں سے بعض کا تذکرہ یہاں حسب حال کردیا گیا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) عیون الاخبار ج: 1 ص: 129 ۔ 134 ،اس باب میں کہ جو امام رضاؑ نے مامون کو اسلام و دین کی شریعت کے باب میں لکھا تھا

( 2) سورہ حشر آیت: 10

۳۰۲

نتیجہ گفتگو

گذشتہ بیانات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر شیعوں کے قول کے مطابق امیرالمومنین علیہ السلام کی ولایت پر نص تھی اس نص کی تردید بہت کم لوگوں نے صرف ان لوگوں نے اس نص کو نہیں مانا یا تجاہل برتاجو تھے یا تو مہاجر و انصار لیکن امیرالمومنین ؑ کے خلاف قیام کے بانی تھے اسی طرح ان لوگوں کی پیروی کرنے والی جماعت بھی نص سے غافل رہی جیسے حدیث الاسلام لوگ جو کسی طرح اسلام میں داخل ہوگئے تھے لیکن باقی مہاجرین و انصار جو دین میں اپنی ایک حیثیت رکھتے تھے وہ نص کے مخالف نہیں تھے نہ انھوں نے ص کی تردید کی(بلکہ واقعات گواہ ہیں کہ انھیں نص کا یقین تھا اور اس یقین کا وہ موقعہ پاتے ہی اظہار کرنے لگتے تھے)

یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے مولائے کائنات ؑ کی نصرت میں کوتاہی کی اور شروع میں حق نصرت ادا نہیں کرسکے،لیکن ان میں بھی کچھ وہ تھے جو مسلسل حق کی حمایت میں بولتے رہے اگر چہ ایسے کم لوگ تھے،بہرحال جب انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ مولائے کائنات ؑ کی ولایت میں واپس آئے،آپ کی حمایت کرتے رہے آپ کے ساتھ جنگوں میں شرکت کی آپ کی کمر مضبوط کی اور آپ کی نصرت میں کوئی کوتاہی نہیں کی خدا کی نظر میں ان کی کوششیں منظور ہیں،خدا نے ان کے گناہوں کو بخش دیا،پھر پورا ثواب دیا،بےشک وہ توبہ قبول کرنے والا شکور غفور ہے ۔

صحابہ کا یہ شرف تھا کہ وہ نص کا یقین رکھتے تھے

آخر کلام میں ایک بہت ضروری بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم نے نص کے سلسلے میں جو بھی گفتگو کی اسے پڑھ کے یہ غلط فہمی نہیں پیدا ہونی چاہئے کہ ہم نص کی تائید یا اس کی مدافعت اس لئے کررہے ہیں کہ صحابہ کے طرز عمل میں اقرار نص اور اس سے عدم تجاہل پایا جاتا ہے یا یہ کہ مولائے کائنات ؑ کی فضیلت اور آپ کے مرتبہ کی بلندی،جو کچھ بھی ہے وہ اس لئے ہے کہ صحابہ آپ

۳۰۳

سے محبت کرتے تھے اور صحابہ کی تائید آپ کو حاصل تھی اور صحابہ نے جنگوں میں آپ کا ساتھ دیا ۔

بلکہ نص نذات خود اتنی واضح اور روشن تھی اور مولائے کائنات ؑ کی فضیلت،آپ کی بلندیاں فی نفسہ اتنی واضح اور روشن کہ یہ دونوں حقیقتیں کسی بھی تائید و اظہار سے بےنیاز تھیں،نص موجود تھی،صحابہ کی تائید سے اس کی حقیقت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا،مولائے کائنات ؑ افضل ہیں،حق و باطل کے فاروق اعظم ہیں اور حق کی علامت ہیں،کسی کی تائید سے اس حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑےگا اور کسی کی تردید سے اس حقیقت پر کوئی الٹا اثر نہیں پڑے گا،نص کا وضوح اور مولیٰ کی افضلیت تائید اقرار سے بےنیاز ہے اس کی طرف خود امیرالمومنین ؑ نے اپنے خطبہ میں اشارہ فرمایا ہے،آپ فرماتے ہیں میرے پاس لوگوں کی کثرت سے نہ میری عزت میں کوئی زیادتی ہوتی ہے نہ لوگوں کے چھوڑ کر ہٹ جانے میں میری وحشت میں کوئی اضافہ ہوگا ۔(1)

بلکہ پیروی کرنے والوں،نص پر یقین کرنے والوں اور اس راہ میں لبیک کہتے ہوئے جہاد کرنےوالوں کے لئے شرف و فضیلت کی علامت ہیں،میں نے جو تائید نص اور تائید صحابہ کی باتیں کی ہیں اس سے مقصد یہ تھا کہ صحابہ کی فضیلت ظاہر ہو نہ کہ علی ؑ کی فضیلت ظاہر کرنا مقصد تھا ۔

میں اصل میں صحابہ کی مدافعت کرنا چاہتا تھا اور ان پر جو الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے عہد کو توڑا،راستے کو بدلا،حق اور اہل حق کا راستہ چھوڑ دیا و غیرہ میں صحابہ کو ان الزامات سے بری کرنا چاہتا تھا،کوشش یہ نہیں تھی کہ صحابہ کی تائید کے ذریعہ نص کا وجود ثابت کیا جائے اور مولائے کائنات ؑ کی فضیلت ثابت کی جائے بلکہ کوشش یہ تھی کہ صحابہ پر جو تجاھل بالنص کا الزام اور مولائے کائنات ؑ سے منھ موڑنے کا جو الزام عائد کیا جاتا ہے اس کی تردید کی جائے ۔

اب تک جو گفتگو ہوتی رہی ہے وہ اسی تناظر میں ہوتی رہی ہے اور شیعان اہل بیت ؑ کے صالح اسلاف کا طریقہ رہا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) نہج البلاغہ ج: 3 ص: 62 ،الامامۃ و السیاسۃ ج: 1 ص: 51 ،الاغانی ج: 16 ص: 290 ،

۳۰۴

اس موقعہ پر چند واقعات اپنے بیان کی تائید میں پیش کر رہا ہوں:

عبدالرحمان بن حجاج کہتے ہیں:ہم ابان بن تغلب کی خدمت میں تھےکہ ایک نوجوان آیا اور اس نے پوچھا اے ابوسعید!(ابان کی کنیت)ہمیں بتایئے کہ علی ؑ کے ساتھ پیغمبر ؐ کے کتنے صحابی تھے؟ابان نے کہا:کیا تائید صحابہ سے تم فضیلت علی ؑ کو تولنا چاہتے ہو؟اس نے کہا:ایسی ہی بات ہے،ابان نے کہا:خدا کی قسم ہم تو فضائل صحابہ کو اتباع علی ؑ سے تولتے ہیں ۔(1)

اس حدیث سے مشابہ ایک اور حدیث ہے،عبداللہ بن احمد بن حنبل کہتے ہیں:ایک دن میں اپنے باپ کے پاس بیٹھا تھا کہ کرخیوں کا ایک گروہ آیا اور ابوبکر،عمر اور عثمان کی خلافت کی بات چل نکلی اور لوگ بہت دیر تک اس موضوع پر باتیں کرتے رہے پس میرے باپ نے سر اٹھایا اور کہا:تم نے کتنی مرتبہ کہا علی ؑ اور خلافت،خلافت اور علی ؑ ،سنو!خلافت نے علی ؑ کو زینت نہیں دی تھی بلکہ علی ؑ نے خلافت کو زینت دی تھی ۔(2)

آیہ:کنتم خیر امة، پر گفتگو

اب ایک بات رہ جاتی ہے(وہ یہ کہ آپ نے فرمایا ہے کہ اگر بقول شیعہ نص موجود تھی تو اس دور کے مسلمانوں نے تائید کیوں نہیں کی؟جب کہ ان کی مدح خیر امت کی آیت اتری ہے اور اللہ انھیں خیرالامم کا خطاب دے رہا ہے)آیت یہ ہے کہ(تم سب سے بہترین امت جو لوگوں کے لئے منتخب کئے گئے ہو تمہاری خاصیت یہ ہے کہ تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہو( 1 ) شاید آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ خیر امت سے مراد صحابہ ہیں اور جب صحابہ کٰر امت ہیں تو انہوں نے نص کی تائید کیوں نہی کی اور تجاہل کیوں برتا،یہ بات بعید از قیاس ہے اور سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ کے ذہن میں یہ سوال کیسے پیدا ہوا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) معجم الرجال الحدیث،ص: 133 ،ابان بن تغلب کے حالات میں۔

( 2)( تاریخ دمشق ج: 42 ص: 446 ،علی بن ابی طالبؑ کی سوانح حیات میں،تاریخ بغداد ج: 1 ص: 135 ،علی بن ابی طالبؑ کی سوانح حیات میں،المنتظم ج: 5 ص: 35،62 سنہ کےواقعات

۳۰۵

اہل لغت کی صریحات تو دیکھیں!اہل لغت نے امت کے مختلف معانی بیان کئے ہیں،لیکن ظاہرتر اور سب سے جامع معنی وہ ہیں جو مفردات راغب میں لکھے ہیں،راغب کہتے ہیں:امت ہر اس جماعت کو کہتے ہیں جو کسی کام کے لئے مجتمع ہوں،ایک دین پر جمع ہونے والے بھی امت ہیں،ایک زمانے میں جمع ہونے والے بھی امت ہیں،ایک جگہ پر جمع ہونے والے بھی امت ہیں(1) البتہ یہاں اس آیت میں امت سے مراد عام امت مسلمہ ہے،اس امت کو خیر امت اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ خاتم الامم ہے اس کے نبی ؐ خاتم الانبیاء ہیں اور تمام انبیا سے اشرف ہیں،اس کا دین خاتم الادیان اور تمام دینوں سے افضل ہے،اس کی شریعت خاتم الشرائع اور تمام شریعتوں سے اکمل ہے اور اس لئے بھی کہ اس امت میں چاہے جتنا بھی اختلاف ہوجائے لیکن کفر باللہ اور شرک سے محفوظ رہے گی،یہودی،نبی ؐ کی غیبت میں مشرک ہوگئے تھے،انھوں نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی تھی انھوں نے یہ بھی کہا تھا:((اے موسیٰ ؑ !ہمارے لئے ان کے خدا جیسا ایک خدا قرار دیجئے موسیٰ ؑ نے کہا:تم جاہل لوگ ہو،یہ لوگ جس مذہب پر ہیں وہ یقیناً برباد ہوجائےگا اور جو عمل یہ لوگ کر رہے ہیں وہ سب ملیا میٹ ہوجائےگا))(2) اور جس طرح عیسائی کافر ہوگئے،کہنے لگے((مسیح بن مریم ہی اللہ ہیں،(3) اور مشرک بھی ہوگئے،کہنے لگے((اللہ تو بس تین میں کا تیسرا ہے،(4) لیکن اس امت نے آج تک خود کو کفر و شرک سے بچائے رکھا،یہی وجہ ہے کہ یہ امت تمام امتوں سے افضل ہے ۔(5)

حدیث میں ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام سے ایک یہودی نے کہا کہ ابھی تم نے اپنے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ آل عمران:آیت 110

( 2) مفردات غریب القرآن ص: 23 ،ام کے مادہ میں۔

( 3) سورہ اعراف آیت: 138 ۔ 139

( 4) سورہ مائدہ آیت: 72

( 5) سورہ مائدہ آیت: 73

۳۰۶

نبی ﷺ کو دفن بھی نہیں کیا تھا کہ تمہارے درمیان نبی ؐ کے بارے میں اختلاف ہوگیا آپ نے فرمایا:ہمارے درمیان نبی ؐ کی ذات اختلاف کا موضوع نہیں تھی بلکہ نبی ؐ کے معاملات میں اختلاف ہوا تھا،لیکن تم رو دریائے نیل سے نکلے اور ابھی تمہارے پیر خشک بھی نہیں ہوئے تھے کہ تم نے اپنے نبی سے کہا:ہمیں کافروں جیسا ایک خدا دیدیجئے اور تمہارے نبی نے کہا کہ تم جاہل لوگ ہو ۔(1)

جہاں تک صحابہ کا سوال ہے تو وہ امت کے عام افراد سے کوئی الگ نہیں ہیں ان میں بدکردار بھی ہیں،اچھے بھی ہیں،عہد خدا کی پائیداری کرنے والے بھی ہیں اور عہد خدا کو توڑنے والے بھی ہیں،اس سلسلے میں تفصیلی گفتگو آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں عرض کی جاچکی ہے،اسے دہرانے سے کوئی فائدہ نہیں ۔

اور اگر یہی فرض کرلیا جائے کہ اس آیت میں امت سے مراد عام امت مسلمہ نہیں ہے بلکہ صرف وہ لوگ ہیں جو زمانہ خطاب میں موجود تھے تب تو یہ آیت صرف صحابہ کے لئے مخصوص نہیں ہوگی بلکہ اس دور کے تمام مسلمانوں کے لئے ہوگی جو مسلمان نزول آیت کے وقت موجود تھے چاہے انھیں حقیقت ہے کہ وہ سارے مسلمان کے لئے ہوگی جو مسلمان نزول آیت کے وقت موجود تھے چاہے انھیں صحبت پیغمبر نصیب ہوئی یا نبی ؐ سے دور رہنے کی وجہ سے شرف صحبت حاصل نہ ہوا ہو اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ سارے مسلمان،کجی اور کمزوریوں سے مامون و محفوظ نہیں تھے لٰہذا آیت کے مصداق صرف چند افراد ہی قرار پائیں گے اور اگر یہ مان لیا جائے کہ یہاں امت سے مراد صرف صحابی ہیں،صحابی وہ جس نے نبی ؐ کو دیکھا اور آپ سے حدیث سنی تو مدعیٰ یہ ہوگا کہ وہ سب کے سب خیر ہیں ان میں شر ذرا بھی نہیں ہے تو پھر دعویٰ دو طریقوں سے رد ہوجاتا ہے ۔

1 ۔ آیہ شریفہ یہ بالکل نہیں کہتی کہ جس کے اندر خیر ہے وہ شر سے خالی ہے فضیلت صاحب خیر کو اس لئے حاصل ہے کہ اس کے اندر خیر زیادہ ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے اندر شر بالکل بھی نہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) نہج البلاغہ ج: 4 ص: 75

۳۰۷

2 ۔ اسی سوال کے جواب میں جو واقعات و احادیث بیان کی گئی ہیں ان سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت صحابہ کے مناسب حال ہو ہی نہیں سکتی،یہ ایسی بات ہے جس کا کوئی قائل نہیں ہے،یہاں تک کہ اہل سنت بھی تمام صحابہ کے خیر کے قائل نہیں ہیں وہ صحابہ کو شر سے پاک نہیں مانتے،نہ ان کی عصمت کے قائل ہیں،زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اہل سنت تمام صحابہ کی عدالت کے قائل ہیں لیکن عدالت کے ساتھ شر تو جمع ہوسکتا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ صحابہ کے اندر خیر نسبت کے لحاظ سے ہے یعنی صحابہ میں خیر کا تناسب دوسروں سے زیادہ ہے تو پھر امیرالمومنین ؑ پر نص سے جو اعراض کیا ہے یہ دعویٰ اس کے منافی ہے،اگر بقول شیعہ نص موجود ہوتی اس لئے کہ نص سے اعراض نہ انھیں کافر بنانا ہے نہ مشرک اس لئے کہ انبیائے ماسبق کے اصحاب تو کفر و شرک کے مرتکب ہوچکے ہیں اور دوسرے انبیا کے اصحاب کی جو تعداد حق پر ثابت قدم رہی وہ ہمارے نبی ؐ کے اصحاب کی تعداد سے بہت کم ہے نسبت کے اعتبار سے یہی بات صحابہ کے خیر پر ہونے کے لئے کافی ہے ۔

بہرحال جو بھی ہو یہ آیہ کریمہ ہمارے موضوع سے کسی طرح میل نہیں کھاتی اور آپ کے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے بہرحال نافع نہیں ہے ۔

اس لئے کہ آپ نے کہا:یہ بات بعید از قیاس ہے کہ نص کی موجودگی میں خیر امت صحابہ نے تجاہل کیا،میں نے عرض کیا کہ یہ کوئی بعید از قیاس بات نہیں ہے اس لئے کہ نص کے اعراض سے گذشتہ بیان کے مطابق ان کےخیر امت ہونے پر حڑف نہیں آتا،ضرورت یہ ہے کہ نص پر غور یا جائے اور اس کے تلاش کی کوشش کی جائے،اس کی سند اور دلالت کی تحقیق کی جائے،نص کے مخالفین اگر موجود ہیں تو ان کی پیروی نہ کی جائے اس لئے کہ اس معاملے میں بڑی عظیم ذمہ داری ہے اور غلطی کا امکان بہت زیادہ ہے،لہذا نص کی تلاش خلوص نیت کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے،اس سلسلے میں کٹھ حجتی تحکم اور فتنہ و فساد سے پرہیز کرتے ہوئے خدا سے توفیق و تسدید کی التجا کی جائے کیونکہ تمام

۳۰۸

امور اسی کے ہاتھ میں ہیں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے کہ:

خدا پر واجب ہے کہ وہ سیدھا راستہ دکھائے اور راستہ سے الگ ہٹ کر چلنے والا بھی انھیں میں سے ہے،اگر خدا چاہے تو تم سب کی ہدایت کردے))(1)

اور دوسرےمقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کرتے ہیں اللہ ایک کام کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔(2) خدا ہی سیدھے راستہ کا ہادی ہے،وہی ہمارے لئے کافی ہے اور بہترین وکیل ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ نحل آیت:9

(2)سورہ عنکبوت آیت:69

۳۰۹

۳۱۰

سوال نمبر5

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ جب سے اسلامی خلافت ہوئی ہے مسلمان انتشار و افتراق کا شکار ہیں اس لئے مسلمانوں کو چاہئے بلکہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اس پر فتن دور میں محض انتشار و افتراق سے بچنے کے لئے یا دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ رہنے کے لئے کسی ایک شخص کی خلافت یا امامت پر متحد ہوجائیں اور شیعہ و سنی متحد ہو کر اسے امام بنالیں،اس لئے کہ سنیوں کے پاس اس وقت کوئی خلیفہ نہیں ہے اور شیعوں کا بھی زمانہ غیبت میں یہی حال ہے کہ ان کے پاس کوئی مرکزی قیادت نہیں ہے،آپ کی اس سلسلہ میں کیا رائے ہے ۔ ؟

جواب:نے شک دور حاضر میں مسلمانوں کی حالت افسوسناک،بلکہ دردناک ہے،لیکن مسلمان اگر اپنے لئے کوئی خلیفہ امت کے انتظام اور اسلامی شریعت کے مطابق امور کے نفاذ کے لئے بنانا ضروری سمجھتے ہیں تو پھر دو باتوں پر سب سے پہلے غور کرنا پڑےگا ۔

اول:پہلے تو یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ کون شخص ہے جس کو یہ عظیم منصب پر فائز کیا جائے کہ شریعت کے معیار پر پورا اترسکے یا یہ کہ شریعت کا لحاظ نہ کر کے اس کو اختیار کیفی سے دیا جائے کہ جیسے چاہے کرلے،شریعت کے میزان پر اس کو تولنے کی ضرورت نہیں ہے،اس کی دو صورت ہے ۔

۳۱۱

اولاً:اگر شریعت کو معیار نہ بنا کے کسی کو بھی اس منصب کے لئے منتخب کیا جاتا ہے تو اس سے نہ واجب ادا ہوگا نہ انسان خدا کے سامنے جواب دہی سے بچ سکےگا،بلکہ جسکو ذمہ دار بنایا جائےگا وہ مسلمانوں کی طرف سے غیرشرعی طور پر مسلمانوں کے خون،مال،عزت اور مصالح کا ذمہ دار ہوجائےگا وہ مسلمان ان نتائج کے جھیلنے پر مجبور ہوں گے جو اس کے غیر شرعی اقدامات سے حاصل ہوں گے ۔

ثانیاً:جس کو بھی بغیر معیار شریعت کے خلیفہ بنایا جائے گا،ظاہر ہے کہ اس کو مسلمانوں کی عقیدت تو حاصل نہیں ہوگی نہ وہ شرعی طور پر مقدس سمجھا جائےگا،مسلمان اس کے حکم کو ماننا اپن مذہبی ذمہ داری نہیں سمجھے گا،جب کہ تنصیب خلافت کی بنیاد ہی یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان مذہبیت کا احساس پیدا کیا جاسکے ۔

اس کے علاوہ فقہی اختلافات بھی ایک بڑا مسئلہ ہے،مسلمانوں کے مختلف فرقے ہیں ہر ایک کی فقہ الگ الگ ہے،اگر منصوب خلافت کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ فقہ میں کوئی ایسا نظریہ دے سکے جس پر تمام اسلامی فرقہ متحد ہو کے عمل کریں اور اس عمل کے بعد خود کو بری الذمہ سمجھیں تو اس سے بہتر کیا ہوگا؟ورنہ پھر ہر ایک کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اپنے اجتھاد پر عمل کرے اور خود کو بری الذمہ محسوس کرے تا خدا کے سامنے مسئولیت سے محفوظ رہے ۔

ایسا ممکن ہے یا نہیں؟ایسا کرنے سے مقصد پورا ہوسکےگا یا نہیں؟یہ وہ سوالات ہیں جن کا وجاب کافی بحث و تمحیص کے بعد حاصل ہوگا،بلکہ ضروری یہ ہے کہ امت کے خاص لوگ س بحث کو موضوع بنا کہ بہت سنجیدگی کے ساتھ فقہی بحث کریں تا کہ امت مسلمہ ایک بہت بڑے خطرہ سے محفوظ رہ جائے اور اختلاف کو دور کر کے ایک پلیٹ فارم پر آجائے ۔

اس مشروع نظریہ کو عمل میں لانے کے لئے دور حاضر کے ماحول کا سازگار ہونا ضروری ہے

الثانی:آج مسلمان جس پُر محن دور سے گذر رہےہیں وہ آپ کے سامنے ہے،ساری دنیا مسلمانوں کو مٹانے پر تلی ہوئی ہے،طرح طرح کے مسائل نے اس امت کو گھیر رکھا ہے اور یہ دور مسلمانوں کے

۳۱۲

خلاف صف بندی کرچکا ہے ایسے خطرناک دور میں کسی بھی ایسے اقدام سے بچنا بےحد ضروری ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے اختلاف میں اضافہ ہو،اس لئے خلیفہ منتخب کرنے سے پہلے بہت غور و خوض کر لیجئے کہ آپ کا یہ قدم وقت کے پہلے تو نہیں اٹھ رہا ہے؟اور کہیں اس سے مسلمان مزید مسائل سے تو نہیں دوچار ہوجائےگا؟اگر ایسا ہے تو بہت پرہیز کریں اور بھرپور گریز کریں،جذبات میں آکے کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس کے نتیجہ میں امت مرحومہ کو مزید مصیبت میں گرفتار ہونا پڑے ۔

اس مشروع نظریہ کو نافذ نہ کرنے کی صورت میں دور حاضر میں مسلمانوں کی ذمہ داری

یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ آپ کے تجویز کردہ اصول کو عالم اسلام میں اجتماعی طور پر عمل میں نہیں لایا جاسکتا لیکن کم از کم مندرجہ ذیل باتوں کی طرف توجہ دی جاسکتی ہے اور ان پر عمل کر کے ہر صاحب ذوق اپنے واجب سے ادا ہوسکتا ہے اور اپنے فریضہ کو پورا کرسکتا ہے ۔

1 ۔ آپ کے تجویز کردہ اصول کے نافذ نہیں ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلمان آپس میں اختلاف کے شکار ہیں اور ایک مرکز پر مرتکز نہیں ہیں،اختلاف یا تو مذہبی ہے یا سیاسی،اس سیاسی اختلاف کی وجہ بھی وہ حکومتیں ہیں جن پر اسلام کا لیل و نہار اور مسلمانوں کے ذھن و دماغ پر ہر دور میں اپنی چھاپ چھوڑتی رہی ہیں،اسلام دشمن عناصر کی حوصلہ افزائی اسی وجہ سے ہوئی اور اسلام دشمن عناصر کے حوصلہ بھی سی اختلاف کی وجہ سے بڑھے ہیں،اسی اختلافات کی بنیاد پردہ مسلمانوں کو کمزور کرتے ہیں،ان کے اندر انتشار پیدا کرتے ہے اور ان کی جماعت کو منتشر کرتے ہیں،اختلاف کی یہ زمین دشمنوں کے فتنوں کے بیج کو خواب اپج دیتی ہے اور دشمن مسلمانوں کے درمیان بغض و عداوت کی بہت اچھی فصل کاشت کرلیتا ہے کمزور،بیمار ذھن شبھوں کے گرفتار دماغ اور سادہ لوح عوام کو بہکا کے دشمن اسلام اور مسلمانوں کو خوب نقصان پہنچاتا ہے ۔

۳۱۳

مذہبی اختلاف کی خلیج کو کم کرنا بہت ضروری ہے

اگر مسلمان اپنی جگہ یہ طے کرلیں کہ ہم اس سیاسی اختلاف کو ہوا نہیں دیں گے اسے اپنی انا کا سوال نہیں بنائیں گے اور اس سیاسی اختلاف کی وجہ سے ہم آپس میں نہیں لڑیں گے تو بےشک مسلمانوں کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہوجائے گی کہ وہ اپنے مذہبی اختلاف کی خلیجوں کو اگر پاٹ نہیں سکیں گے تو دوریوں کو کم ضرور کرسکیں گے،اس موضوع پر آپ کے سابقہ سوالوں کے نویں سوال کے جواب میں کافی گفتگو ہوچکی ہے برائے کرم اسے پھر ایک بار دیکھ لیں ۔

اگر مذہبی اختلاف میں کمی ہوئی اور مسلمان کھلے دل سے ایک مرکز پر جمع ہوسکے تو ان کی عظیم کامیابی ہوگی اگر تمام مسلمان آپ کی پیش کردہ تجویز کے تحت ایک شخص پر متحد نہ بھی ہوسکے اور شریعت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کوئی حکومت قائم نہ بھی ہوسکی جب مسلمانوں کے لئے یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی ۔

بلکہ اگر تمام عالم اسلام ایک سطح پر نہ آئے اور یہ جذبہ اگر انفرادی طور پر پیدا ہو تو اس کی قدر کرنی چاہئے اور اسے معمولی نہیں سمجھنا چاہئے اگر ایک فرد کے اندر بھی یہ جذبہ پیدا ہوجائے کہ وہ مسلمانوں کے اختلافات کو مٹانے کی کوشش کر کے اور عالم اسلام کو ایک پائیدار اتحاد دینے کی خواہش رکھتا ہے تو ایسے شخص کی ہر غیور مسلمان کو قدر کرنی چاہئے کہ وہ ایسے آدمی کو اہمیت دے اور اس کی بھلائی کے بارے میں غور کرے اس لئے کہ وہ پوری امت کی بھلائی کے بارے میں سوچ رہا ہے کیونکہ جس کا حصول مشکل ہے اس کی وجہ سے مشکل الحصول کو ساقط نہیں کیا جاسکتا اور آدمی اپنے ہاتھ میں آئی ہوئی چڑیا کو درخت پر بیٹھی ہوئی چڑیا کی امید میں نہیں چھوڑسکتا یہ غقلمندی نہیں ہے ۔

۳۱۴

یہ معلوم کرنا بہت ضروری ہے کہ مسلمانوں کے اختلاف اور سیاسی انحطاط کا سبب کیا ہے؟

تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں کا یہ سیاسی انحطاط اور یہ قابل افسوس حالت اس وجہ سے نہیں ہے کہ ماضی قریب میں ترکی حکومت یعنی اموی خلافت کا سقوط ہوگیا بلکہ قرن اولیٰ سے ہی مسلمان اس بیماری کا شکار ہیں،البتہ وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی پستی اور انحطاط میں اضافہ ہی ہوا ہے اور آج مسلمان تنزل کی اس منزل میں پہنچ گیا ہے جسے دیکھ کے دوسرے بھی افسوس کررہے ہیں،یہ منزل،یہ انحطاط،یہ بدحالی صرف اس وجہ سے آئی کہ مسلمان اسلام کے ان اصول سے منحرف ہوگئے جن پر اللہ انھیں چلانا چاہتا تھا،در اصل مسمانوں نے مفہوم خلافت کو سمجھا ہی نہیں خلافت کا نظام اپنے ہاتھ میں لیکے ہر ایرے غیرے کو خلیفہ تسلیم کرتے رہے اور زمانے کے انقلاب نے اس مقدس دین خلافت کو عثمانیوں کے ہاتھ میں پہنچادیا اور پھر ذلت کی انتہا یہ ہوئی کہ خلافت ان کے ہاتھوں سے نکل گئی اور مسلمانوں کی حالت مزید افسوسناک ہوگئی،وجہ صرف یہ تھی کہ مسلمانوں نے حکم اسلام کو ماننے سے انکار کیا اور خلافت کو لغو قرار دیا پھر اسلامی ملکوں کی تو تقیسم ہونے لگی وہ ممالک جو عثمانی خلافت کے ماتحت تھے مختلف ملکوں میں تقسیم ہوئے،ان پر مختلف افراد کی حکومت قائم ہوئی اور باقی ملکوں میں علامتی،رسمی یا عملی حکومتیں قائم ہوئیں،نتیجہ میں اسلام سیاسی،ثقافتی اور فی اعتبار سے تنزل پزیر ہوگیا ۔

یہ سب کچھ تو ہوا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک غیور اور خوددار مسلمان کی ذمہ داری کیا ہے؟اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے نفس سے سوال کرے یہ دین خدا کا دین ہے یا نہیں؟کیا یہ وہی دین نہیں ہے جس کے بارے میں اللہ کا فیصلہ ہے کہ یہ دین خاتم الادیان ہے؟کیا اللہ نے یہ بتایا نہیں ہے یہ دین اس وقت تک باقی رہے گا جب تک زمین اور زمین پر رہنے والے باقی رہیں گے؟کیا اللہ نے یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ یہ دین زمین پر حکومت کرے گا اور اسی کے مطابق عمل کرنے سے انسان اس دنیا کے خیرات و ثمرات سے بہرہ اندوز ہوسکے گا؟اور وہ اللہ جو عالم الغیب ہے کیا اسے نہیں معلوم

۳۱۵

تھا کہ اسلام کہاں پہنچے گا؟مسلمان پستی اور تنزلی کی کون سی کھائیوں کی سیر کریں گے اور ان کی یہ حالت ہوجائے گی؟ان تمام سوالوں کا جواب یہ ہے کہ خدا سب کچھ جانتا تھا کہ مسلمان کی کیا حالت ہونےوالی ہے اور تنزلی اور پستیوں کی کن وادیوں کی سیر کریں گے اللہ یہ جانتا تھا تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے اپنے دین کو ان مشکلات کے حل کرنے کا طریقہ کیوں نہیں بتایا؟یہ دین مکمل ہے،یہ دین اپنے اندر تمام نعمتوں کو رکھتا ہے،یہ دین قیامت تک کے انسانوں کے لئے کافی ہے،یہ دین تمام عالم انسانیت کے لئے واجب العمل ہے،نہ اس کے پاس کوئی نظام حکومت نہیں ہے ایسا نظام حکومت جو تمام انسانوں کے لئے قابل تسلیم اور قابل عمل ہو،اپنے نفس سے پوچھو کیا ایسا ممکن ہے؟کیا یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ خدا نے اپنے اس مضبوط قانون میں مسلمانوں کی اس پستی کا کوئی حل رکھا ہو؟کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ نے عزت اسلام کی حفاظت کے لئے اسلامی حکومت کو دنیا میں باقی رکھنے کے لئے اسلام کے علم کو سربلند رکھنے کے لئے،اسلامی نعمتوں سے عالم اسلام کو بہر اندوز ہونے کے لئے اور اسلام کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لئے اپنے دین میں کوئی راستہ معین نہیں کیا اور نہ کوئی طریقہ بتایا،کیا ایک انصاف پسند اور عزت دار صاحب ایمان اس بات کو پسند کرے گا کہ(خدا اپنے دین سے اتنا لاپرواہ ہوجائے اور اپنے دین کی باگ ڈ ور چوروں،رہزنوں،قذاقوں اور غیرذمہ دار کے ہاتھ میں دیکے)عالم انسانیت کو دائرہ اسلام میں آنے کے بعد قیامت تک ذلیل و خوار ہونے کے چھوڑ دے ۔

پھر ایک بہت اہم سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ مسلمانوں کی یہ پستی،یہ ذلت،یہ خواری صرف اس انحراف کا نتیجہ ہے جو نبی ؐ کے بعد روز اول مسلمانوں سے سرزد ہوا تھا اور مسلمان اسلامی خطوط پر چلنے کے بجائے اپنے ہاتھوں سے خلیفہ بنانے بیٹھ گئے اور بنا بھی لیا،مسلمانوں کی یہ پستی،یہ ذلت اور یہ بدحالی بہت بڑی دلیل ہے اس بات کی کہ مسلمان روز اول ہی صراط مستقیم سے بھٹک گئے تھے اور جب صراط مستقیم سے بھٹک گئے تو اس کے نتیجہ میں ذلت و خواری کے شکار ہوگئے،یہ نتیجہ ہے فیصلہ اپنے ہاتھ میں لینے کا ۔

۳۱۶

یہ سب کچھ ہونے کے بعد بھی کیا مسلمانوں کے لئے آج یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کریں،روز اول جو انحراف ان سے سرزد ہوا تھا اس راستے کو چھوڑ دیں اور اس دینی حقیقت کو تلاش کریں جس کی وجہ سے اللہ نے اپنے دین کو کامل اور نعمتوںو تمام کر کے مسلمانوں کو عظمت بخشی تھی ۔

ہر مسلمان پر واجب ہے کہ ان مسائل کا جواب تلاش کرے جذبات سے آزاد ہو کے،عصبیت سے پاک ہو کے اور سابقہ منازعات یا مسلّمات سے نظر پھیر کے ان سوالوں کا جواب تلاش کرے،دنیا نے مسلمانوں کو بہت ذلیل کیا ۔ اب اس کو اپنے پرانے نظریات چھوڑ کے لکیر کا فقیر ہونا چھوڑ کے ان سوالوں کا جواب تلاش کرنا چاہئے ۔

ارشاد ہوتا ہے کہ:اے حبیب آپ ان سے کہہ دیں کہ خدا کی حجت تو منزل کمال تک پہنچانے والی ہے اگر خدا چاہے تو تم سب کی ہدایت کردے:(1)

اے حبیب!آپ انھیں یاد دلاتے رہیں،بیشک آپ تو صرف یا دلانے والے ہیں اور آپ ان کے نگران(ٹھیکیدار)تو ہیں نہیں ۔(2)

ہم تو صرف اللہ سے ہی توفیق مانگتے ہیں اور اسی سے امید لگاتے ہیں وہ ہمارے لئے کافی ہے اور وہی بہترین وکیل ہے چوتھے سوال کے جواب میں بھی کچھ باتیں عرض کی جاچکی ہیں جو یہاں بھی فائدہ بخش ثابت ہوں گی،ان کی طرف رجوع کرلیں تو بہتر ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ انعام آیت: 149

( 2) سورہ غاشیہ آیت: 21 ۔ 22

۳۱۷
۳۱۸

سوال نمبر۔6

روایتوں میں ہے کہ سرکار دو عالم ؐ نے شدت مرض کی حالت میں ابوبکر کو نماز کی امامت کا حکم دیا تھا کیا اس بات کی طرف اشارہ نہیں ہے کہ سرکار دو عالم ؐ اپنے بعد ابوبکر کی خلافت پسند کرتے تھے،آپ کا اس سلسلے میں کیا خیال ہے؟

جواب:اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل امور کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں ۔

امر اول:پہلی بات تو یہ ہے کہ جس روایت میں مدعی تنہا ہو اور فریق مخالف کے پاس بھی جو روایت نہیں پائی جاتی ہو اس روایت کو حجت بنا کے بحث کرنا احتجاج عقیم ہے جس سے نہ حق ثابت ہوتا نہ باطل کو دفع کیا جاسکتا ہے،صاحبان عقل کے نزدیک ایسا احتجاج منطقی نہیں ہے،اسی وجہ سے فریق مخالف کے خلاف نہ وہ حجت بن سکتا ہے،نہ فریق مخالفت اسے ماننا لازم سمجھتا ہے ۔

اگر شیعہ بھی اسی طرح صرف اپنے روایت کردہ واقعات سے احتجاج کرنا شروع کردیں تو پھر آفت آجائےگی،اس لئے کہ ان کے پاس ان کے موقف کی حمایت میں آپ سے زیادہ روایتیں پائی جاتی ہیں اگر چہ حد تواتر تک ںہیں پہونچی ہیں لیکن مقام آحاد میں ان کے پاس بہت سی روایتیں ہیں،اگر وہ ان روایتوں سے احتجاج کرنے لگے تو ان کے پاس ایسی روایتوں کی کمی نہیں ہے ۔

اس طرح کا احتجاج ممکن ہے کہ اہل سنت کی نظر میں صحیح ہو لیکن اللہ کی نظر میں صحیح نہیں ہے اس سوال کے جواب کے آخر میں مزید وضاحت ہوجائے گی انشااللہ تعالیٰ ۔

۳۱۹

ایک بات کا یقین رکھئے کہ جہاں ایسا نزاع و اختلاف ہوتا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں پھوٹ پڑنے کا امکان ہو،تو وہاں اللہ حق کو اس طرح واضح کرتا ہے کہ شک و شبہ کا لباس اتر جاتا ہے اور حق اس طرح روشن ہوتا ہے کہ اس کو نہیں ماننے کا کوئی بہانہ ہاتھ نہیں آتا،مکابرہ،ہٹ دھرمی اور کٹ حجتی کی بات دوسری ہے،جس کا اتکاب یا تو حد سے آگے بڑھنے والا کرتا ہے یا غفلت میں پیچھے رہ جانےوالا۔گذشتہ بیان کا لازمی نتیجہ ی نکلا کہ جب دو فریق حق کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں تو ان میں سے کوئی ایک ضرور غلط ہوتا ہے اور اس کے ناحق ہونے کا احتمال بہرحال پایا جاتا ہے اب حق سے یہ انحراف یا دشمنی کی وجہ سے ہے یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے،اس لئے ان دونوں میں سے کوئی ایک ہٹ دھرمی یا عناد کی وجہ سے جھٹ ضرور بول رہا ہے،اب ایسا آدمی اگر اپنے نظریہ کی تائید میں کوئی روایت کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ دوسرے فریق کے لئے قابل اعتبار ہوگا،چاہے اس کے مذہب کے ماننے والے اس کے بارے میں کتنا ہی حُسن ظن رکھتے ہوں اور اسے کتنا ہی قابل اعتبار سمجھتے ہوں۔

البتہ جب حق روشن دلیلوں اور قطعی حجتوں کے ذریعہ ثابت ہوکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے اور حق،باطل سے الگ ہوجاتا ہے اس طرح کہ اس کے اندر کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے تو صاحبان حق بھی باطل پرستوں سے ممیّز ہوجاتے ہیں،صاحبان بصیرت اندھوں سے الگ ہوجاتے ہیں تو پھر نگاہ اعتبار کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے اور حسن ظن اس سے متعلق ہوجاتا ہے جسے اللہ نے حق کو ثابت کرنے کے لئے توفیق عنایت فرمائی ہے جس کی وجہ سے وہ راہ حق کا مالک ہوا اور اسے مزید روشن کیا،حق سے تمسک کیا اور اسے لازم سمجھا،ظاہر ہے کہ وہ آدمی اس کے مقابلہ میں تو صاحب عزت سمجھا جائے گا ہی جس نے حق کا انکار کیا اور خدا نے اسے ذلیل کر کے اس کے دل کو باطل کے سانچے میں ڈ ھال دیا جس کی وجہ سے وہ حق سے بے بہرہ رہا اور الگ ہوگیا،اب وہ اپنے پیچھے چلنے والے افراد کی نظر میں چاہے کتنا ہی بلند مرتبہ ہو اہل حق کی نظر میں تو ذلیل ہی رہے گا،یہاں امیرالمومنین علیہ السلام کا قول قابل غور ہے،کہ آپ نے فرمایا:((حق کو پہچانو!اہل حق کو پہچان لوگے))(1) سابقہ سوالوں میں چوتھے سوال کے جواب میں امیرالمومنین علیہ السلام کا یہ قول عرض کیا جاچکا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) تفسیر قرطبی ج: 1 ص: 340 ،فیض القدیر ج: 1 ص: 210 ،ج: 4 ص: 17 ،البیان و التبیین ج: 1 ص: 491 ،تاریخ یعقوبی ج: 2 ص: 210 ،خلافت امیرالمومنینؑ کے بیان میں،انساب الاشراف ج: 3 ص: 35 ،جمل کے واقعہ کے بیان میں۔

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

الگ ہوا وہ مجھ سے الگ ہوا،(۱) اور فرمایا:جو میری اطاعت کرے و اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور جو میری نافرمانی کرے وہ اللہ کی نافرمانی کرتا ہے جو علیؑ کی اطاعت کرے وہ میری اطاعت کرتا ہے اور جو علیؑ کی نافرمانی کرے وہ میری نافرمانی کرتا ہے۔(۲) اور فرمایا:شب معراج میں مجھ پر وحی آئی کہ علیؑ کی تین صفتیں ہیں،۱۔علیؑ سیدالمومنین ہے،۲۔علیؑ امام المتقین ہے۔۳۔اور علیؑ روشن پیشانی والوں کا قائد ہے))(۳) آپ نے اکثر علیؑ کا تعارف امیرالمومنین(۴) کہہ کے کرایا ہے،بلکہ مسلمانوں کی ایک جماعت کو حکم دیا کہ علیؑ کو امیرالمومنین کہہ کے سلام کریں(۵) آپ جنگ تبوک میں جانے لگے تو علیؑ ہی کو اہل مدینہ پر خلیفہ مقرر کیا اور فرمایا:مناسب نہیں ہے کہ میں چلا جاؤں مگر یہ کہ تم(علیؑ)میرے خلیفہ رہو،(۶) اور یہ کہ مدینہ کی اصلاح ہو ہی نہیں سکتی مگر مجھ سے یا تم(علیؑ)(۷) سے،دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا((تم میرے لئے ویسے ہی ہو جیسے ہاروں موسیٰ کے لئے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبیؐ نہ ہوگا۔(۸)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۳۳،کتاب معرفۃ الصحابہ،مجمع الزوائد ج:۹ص:۱۳۵،کتاب مناقب،باب الحق مع علی،مسند البراز ج:۹ص:۴۵۵،معجم شیوخ ابی بکر الاسماعیلی ج:۳ص:۸۰۰،المعجم الکبیر ج:۱۲،ص:۴۲۳،فضائل صحابۃ ج:۲ص:۵۷۰،فیض القدیر ج:۴ص:۳۵۷،میزان الاعتدال ج:۳ص:۳۰،داود بن عوف کے حالات میں،ص:۷۵،رزین بن عقبہ کے حالات میں،تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۰۷،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،و غیرہ

(۲)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۳۱،کتاب معرفۃ الصحابہ معجم شیوخ ابی بکر اسماعیلی ج:۱ص:۴۸۵،الکامل فی ضعفا الرجال ج:۴ص:۳۴۹،عبادۃ بن زیاد کے حالات میں،تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۰۷،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،و غیرہ

(۳)اس کا مدرک چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے

(۴)اس کا حوالہ چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے (۵)تاریخ دمشق ج:۴۲ص:۳۰۳

(۶)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۴۳،کتاب معرفت صحابہ امیرالمومنینؑ کے اسلام کا ذکر،مجمع الزوائد ج:۹ص:۱۲۰،کتاب مناقب باب مناقب علی بن ابی طالبؑ میں،مسند احمد ج:۱ص:۳۳۰،مسند عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب،المعجم الکبیر ج:۱۲،ص:۹۸،السنۃ لابن ابی عاصم ج:۲ص:۵۶۶۔۵۶۵،الاصابۃ ج:۴ص:۵۶۸،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،ریاض النضرۃ ج:۲ص:۱۹۰،تیسری فصل میں،فضائل صحابہ لابن حنبل ج:۲ص:۶۴۸،

(۷)المستدرک علی صحیحین ج:۲ص:۳۶۷،کتاب تفسیر،تفسیر سورہ توبہ،کنزالعمال ج:۱۱ص:۶۰۷،حدیث۳۲۹۳۳،ج:۱۳ص:۱۷۲،حدیث:۳۶۵۱۷،ینابیع المودۃ ج:۱ص:۳۴۴،میزان الاعتدال ج:۲ص:۳۲۴،حفص بن عمر الابلی کے حالات میں،لسان المیزان ج:۲ص:۳۲۴،حفض بن عمر الابلی کے حالات میں،و غیرہ

(۸)اس کا مدرک چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے

۳۴۱

ابن عباس سے روایت ہے:وہ امیرالمومنین ؑ کے حوالے سے کہتے ہیں جب نبی ؐ پر یہ آیت نازل ہوئی((وانذر عشیرتک الاقربین))اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے)) تو بنی عبدالمطلب سے نبی ؐ سے گفتگو ہونے لگی پھر نبی ؐ نے خطبہ دیا اور فرمایا:اے بنوعبدالمطلب!میں تمہارے پاس دنیا آخرت کی بھلائی لیکر آیا ہوں،مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ میں تم لوگوں کو اس کی طرف بلاؤں،پس تم میں سے کون ہے جو اس شرط پر میرا ہاتھ بٹائے کہ وہ تمہارے درمیان میرا بھائی،وصی اور خلیفہ قرار پائے))ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ سن کے لوگ آپ کو چھوڑ ک چلے گئے ۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ مولائے کائنات ؑ نے فرمایا:میں اس وقت بہت کمسن تھا میری آنکھیں چھوٹی اور پن ڈ لیاں پتلی تھیں،لیکن میں نے آواز دی یا رسول اللہ ؐ میں آپ کا ہاتھ بٹاؤں گا اور اس امر میں آپ کی وزارت کروں گا سرکار دو عالم ؐ نے یہ سن کے میری گردن پر ہاتھ رکھا اور فرمایا:بےشک یہ میرا بھائی میرا وصی اور تم لوگوں میں میرا خلیفہ ہے ۔ اس کی باتیں سنو اور اس کا حکم مانو!علی ؑ فرماتے ہیں یہ سن کے لوگ ہنسنے لگے اور(میرے والد)ابوطالب ؑ سے کہنے لگے کہ یہ)حضور اکرم ؐ )تو کو حکم دیتے ہیں کہ اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کا حکم مانو!(۱)

اللہ نے ولایت علی ؑ کو یہ کہہ کے ثابت کیا کہ((بےشک تمہارا ولی تو اللہ ہے اور اس کا رسول ؐ ہے اور وہ صاحبان ایمان ہیں جو حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں))(۲) حدیثیں بتاتی ہیں کہ یہ آیت امیرالمومنین ؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) تاریخ طبری ج: ۱ ص: ۵۴۲ ۔ ۵۴۳ ، ،شرح نہج البلاغہ ج:۳ ص۲۱۰ ،تفسیر ابن کثیر ج:۳ ص ۳۵۲ البدایہ والنہایہ ج :۳ص:۴۰ تفسیر طبری ج۹ص:۱۲۲

(۲)سورہ مائدہآیت :۵۵

(۱)تفسیر قرطبی ج: ۶ ص: ۲۸۸ ،تفسیر ابن کثیر ج: ۲ ص: ۷۲ مجمع الزوائد ج: ۷ ص: ۱۷ ،کتاب التفسیر، ،کتاب المعجم الاوسط ج: ۶ ص: ۲۱۸ ۔فتح القدیر ج: ۲ ص: ۳ ،زاد المسیر ج: ۲ ص: ۳۸۲ ،احکام القرآن جصاص،ج: ۴ ص: ۱۰۲ ،باب نماز میں معمولی فعل،روح المعانی ج: ۶ ص: ۱۶۷ ،شواہد التزیل،حسکانی ج: ۱ ص: ۲۱۱ ۔ ۲۱۰ ۔ ۲۰۹ ،تاریخ دمشق ج: ۴۲ ،ص: ۳۵۷ ،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں اور ج: ۵ ص: ۳۰۳ ،عمر بن علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،کنز العمال ج: ۱۳ ،ص: ۱۰۸ ،حدیث: ۳۶۳۵۴ ،و غیرہ منابع،

۳۴۲

اسی طرح پیغمبر ؐ نے بھی ولایت علی ؑ یہ کہہ کے ثابت کی ہے کہ((میرے بعد علی ہی تمہارے ولی ہیں))(۱) بلکہ نبی ؐ نے علی ؑ کو مومنین پر ان کے نفوس سے بھی اولیٰ قرار دیا ہے،حدیث غدیر آپ کے سابقہ سوالوں کے ساتویں سوال کے جواب میں گذرچکی ہے،حدیث غدیر کے سیاق سے امیرالمومنین ؑ کی امامت ثابت ہوتی ہے اس لئے کہ اولیٰ بالمومنین صرف وہی ہوسکتا ہے جس کے اندر مومنین کی قیادت کی صلاحیت ہو پس ثابت ہوا کہ امامت مکمل ہو ہی نہیں سکتی جب تک امام کو ماموم پر اولیت نہ حاصل ہو،اس کتاب کے مقدمہ میں اس سلسلے میں گفتگو ہوچکی ہے،اس کے علاوہ بھی بہت سی حدیثیں ہیں جو خاص طور سے علی ؑ اور عام طور سے اہل بیت ؑ کے حق میں وارد ہوئی ہیں ۔

فضائل علی ؑ و اہل بیت ؑ میں،میں نے یہ آیتیں اور حدیثیں پیش کردی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان تمام آیات و احادیث کے حوالہ اسناد بھی پیش کروں گا اور یہ کہ ہر حدیث و آیت کا مدلول کیا ہے؟اور ان آیات و احادیث پر کیا اعتراضات ہوئے ہیں؟دشمنان اہل بیت ؑ نے جو ان حدیثوں کے رخ کو موڑنا چاہا ہے اس کے مفہوم میں تحریف کی ہے اور شیعوں نے جو اس کے جوابات دیئے ہیں ان تمام باتوں کو میں اس وقت عرض کرنے کی حالت(پوزیشن)میں نہین ہوں،اگر چہ یہ سب کچھ لکھا جائے تو کئی جلد کتابیں تیار ہوجائیں گی اور گفتگو بہت طویل ہوجائے گی،اس سلسلے میں ہمارے علمائے ابرار ؓ نے جو کتابیں تحریر فرمائی ہیں اور ان آیات و احادیث کی جو چھان بین کی ہے وہی کافی ہے،میں نے بہت اختصار و اجمال سے کام لیا ہے اور جو کچھ بھی عرض کیا ہے وہ سند اور حوالے کا محتاج نہیں ہے ۔

----------------

( ۱) مجمع الزوائد ج: ۹ ص: ۱۲۸ ،سنن کبری نسائی ج: ۵ ص: ۱۳۳ ،کتاب خصائص خصوصیت علی بن ابی طالبؑ میں،المعجم الاوسط ج: ۶ ص: ۱۶۳ ،مسند احمد ج: ۵ ص: ۳۵۶ ،برید اسلمی کی حدیث میں،الفردوس بما ثور الخطاب ج: ۵ ص: ۳۹۲ ،فتح الباری ج: ۸ ص: ۶۷ ،تحفۃ الاحوذی ج: ۱۰ ،ص: ۱۴۷ ۔ ۱۴۶ ،فیض القدیر ج: ۴ ص: ۳۵۷ ،الاصابۃ ج: ۶ ص: ۶۲۳ ،وہب بن حمزہ کے حالات میں،الریاض النضرۃ ج: ۲ ص: ۱۸۷ ،تاریخ دمشق ج: ۴۲ ص: ۱۸۹ ،حالات علی بن ابی طالب،فضائل الصحابہ لابن حنبل ج: ۲ ص: ۶۸۸ ،البدایۃ و النہایۃ ج: ۷ ص: ۳۴۶ ۔ ۳۴۴ ،

۳۴۳

اسی طرح میرا مقصد یہ بھی نہیں ہے کہ ہر حدیث کے مدلول کی کوئی تعریف کروں کہ کونسی حدیث علی ؑ اور اہل بیت ؑ کی کس فضیلت پر دلالت کرتی ہے،بلکہ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ ایک انصاف پسند کو یقین آجائے کہ ایک طرف اہل بیت ؑ اور علی ؑ کے فضائل میں احادیث و آیات کا ذخیرہ موجود ہے جو متفق علیہ اور ناقبال انکار ہے،ان مضبوط دلیلوں کے مقابلے میں ابوبکر کی فضیلت میں ایک لولی لنگڑی اور مریض حدیث حادثہ صلوٰۃ کی ہے،کیا ان مضبوط دلائل کو چھوڑ کے اس اپاہج حدیث کی بنیاد پر ایک صاحب انصاف کی نظر میں علی ؑ کو محروم اور ابوبکر کو خلیفہ تسلیم کرلینا صحیح ہے؟انصاف آپ کے ہاتھ میں ہے ۔

ان تمام باتوں کا ماحصل یہ ہے کہ حقائق آپ کے سامنے ہیں اور ہر انسان کو اختیار ہے کہ جو اسے اچھا لگے وہ اپنالے اور آثار و قرائن کی بنیاد جو واقعیت سے قریب معلوم ہو اسے اختیار کر لے،البتہ مقصد رضائے پروردگار ہونا چاہئے اور خدا کے سامنے معقول عذر پیش کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئے اس لئے کہ ہم سب کو اسی کے سامنے پیش ہونا ہے اور اس کے سامنے کھڑے ہونا ہے،ارشاد ہوتا ہے((ایک دن آئے گا جب ہر نفس پنی انجام دی ہوئی نیکیوں کو اپنے سامنے موجود پائے گا اور جس نے برائیاں انجام دی ہیں وہ تمنا کریں گے کہ کاش ان کے اور ان کے اعمال کے درمیان ایک لمبا فاصلہ ہوتا،اللہ اپنے آپ سے تمہیں ڈ راتا ہے اور اللہ تو اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے))(۱) غالباً گذشتہ صفحات میں اور ابھی تھوڑی دیر پہلے بھی یہ بات عرض کی جاچکی ہے کہ بعض مورخین کے مطابق عام مہاجرین و انصار کو اس معاملے میں ذرا بھی شک نہیں تھا کہ خلافت علی ؑ کا حق ہے اور علی ؑ ہی پیغمبر ؐ کے بعد صاحب امر ہیں،جیسا کہ اہل بیت ؑ اور ایک بڑی جماعت بھی یہ سمجھ رہی تھی کہ خلافت اہل بیت ؑ کا حق ہے اور اہل بیت ؑ میں بھی خاص طور سے علی ؑ کا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ آل عمران آیت ۳۰

۳۴۴

خلافت ایک اہم منصب ہے،اس کی طرف صرف اشار کرنا کافی نہیں ہے

۴ ۔ خلافت کی اہمیت کے پیش نظر صرف اس کی طرف اشارہ و تلمیح سے کام لے کر خلیفہ کا معین کرنا کافی نہیں ہے،خصوصاً اس لئے بھی کہ یہ منصب اپنے اندر اتنی چمک اور کشش رکھتا ہے کہ ہر ایک کے دل میں اس کی خواہش پیدا ہوسکتی ہے اور کوئی بھی اس کی طمع کرسکتا ہے ۔

یہاں تو لوگ نصوص صریحہ کی تاویل کرنے سے باز نہیں آتے بلکہ ان کو اپنے مقصد کے مطابق توڑ مروڑ کے تحریف کرکے ان کے رخ کو اپنی طرف موڑ دیتے ہیں اور اصل منصوص بالخلافۃ کو محروم کردے رہے ہیں پھر اشارے کنائے کی کیا حیثیت ہے؟اشاروں سے غافل رہنا تو آسان ہے،جس طرح اشاروں سے کھیلنا آسان ہے،بلکہ اس طرح کے اہم امور میں اشاروں پر اکتفا کرنا تو فتنوں کو جنم دیتا ہے امت میں اختلاف کا سبب بنتا ہے،امت کو وادی حیرت و ضلال میں ڈ ال دیتا ہے،حالانکہ اسلام کی مضبوط شریعت ان کمزوریوں سے پاک ہے اور اسلام کا عظیم نبی ؐ ان نقائص سے منزّہ ہے ۔

حقیقت کا شبہات سے پاک ہونا ضروری ہے

سابقہ سوالوں کے جواب میں یہ بات عرض کی جاچکی ہے کہ حقیقت روشن ہوتی ہے،اس میں شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہوتی،اس لئے کہ خداوند عالم نے اس کے لئے حجت کا فیہ کا انتظام کیا ہے،جس سے انکار وہی کرےا جس کو حق سے دشمنی ہوگی یا پھر وہ انکار کرے گا جو حق کو محض غفلت اور سستی کی وجہ سے ٹالنا چاہتا ہے اور خدا کے نزدیک ان دونوں کے پاس کوئی عذر نہیں ہے ہمارے لئے بہتر یہی ہے کہ اس سلسلے میں کافی وقت نظر کے ساتھ حقیقت کا یقین اور اس کی حد بندی کرلیں گذشتہ باتوں کی بنیاد پر ہم اس حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں،لیکن اس کے ان مضامین کا بلکہ اکثر مضامین کا تذکرہ کرنا بہتر ہے ۔

۳۴۵

دعوتِ اصلاح کے راستے میں رکاوٹیں

اصلاحی دوتوں کو بہت سی رکاوٹوں اور مشکلوں کا سامان کرنا پڑتا ہے،یہ مشکلات دعوت کی نشر و اشاعت کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہیں اور سماج کے ہر طبقہ تک نہیں پہنچنے دیتی ہیں یہ مشکلیں دعوت کے اوامر و نواہی میں مانع ہوتی ہیں اور ان کی تنقید نہیں ہوپاتی،ایسا یا تو دعوت کی کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے یا وہ خارجی عوامل ہیں جن کی وجہ سے دعوت کے پھیلنے میں تاخیر،بلکہ تعویق ہوتی ہے۔

سب سے بڑی رکاوٹ خود اہل دعوت کا داخلی اختلافات ہوتا ہے

دعوت اصلاح کے سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ اہل دعوت کا داخلی اختلافات ہوتا ہے جو ان کے ذاتی اجتھاد کا نتیجہ ہوتا ہے یا پھر یہ کہ لوگ جان بوجھ کے اپنے اغراض و اھداف کے مطابق ان کی تحریف کرلیتے ہیں اور دعوت کو اس کی حدوں سے باہر نکال دیتے ہیں تا کہ اس تحریف سے وہ مقاصد حاصل ہوسکیں جو دعوت کے خلاف یا اس کو نقصان پہنچانے والے ہیں،اکثر تو ایسا ہوتا ہے کہ داخلی اختلافات اور ذاتی اجتھاد کی وجہ سے خود دعوت کا چہر مسخ ہوجاتا ہے اور اصلاح کی دعوت کو موت آجاتی ہے ۔

اختلاف و افتراق ہی کے درمیان آسمانی مذہب کی جانچ ہوجاتی ہے

آسمانی مذہب کی جانچ پرکھ تو اسی اختلاف و افتراق پر منحصر ہے،اس لئے آسمانی مذہب کسی بھی کمی یا نقص سے پاک ہوتا ہے،کیونکہ آسمانی مذہب اس خدائے واحد و عادل کی طرف سے صادر ہوتا ہے،جو مدیر،لطیف خبیر،علیم اور حکیم ہے ۔(۱) (( گوشہ چشم کے اشاروں کے ساتھ دلوں کے حالات بھی جانتا ہے))اس کی نظر سے آسمان و زمین کا کوئی ذرہ بھی پوشیدہ نہیں ہے(۲) اور وہ ہر چیز پر محیط ہے اس پروردگار کی طرف سے جو بھی نظام آئے گا وہ اسکا مشروع کیا ہوا ہوگا،سب سے کامل نظام ہوگا اور جہاں بھی وہ نظام بھیجا جائے گا وہاں کے ماحول کے مطابق ہوگا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ غافر آیت: ۱۹ (۲) سورہ سبا آیت: ۳

۳۴۶

قرآن مجید،اختلاف سے بچنے کی سخت ہدایت کرتا ہے

یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید اختلاف و افتراق سے بچنے کی سخت تاکید کرتا ہے اور وحدت اور اتفاق کی پر زور دعوت دیتا ہے ارشاد ہوتا ہے((اور خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور اختلاف نہ کرو)(۱) دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے:ان کے جیسے نہ ہوجاؤ جنہوں نے آپس میں اختلاف کیا اور روشن نشانیاں آنے بعد متفرق ہوگئے،ان کے لئے بڑا عذاب ہے ۔(۲)

پھر ارشاد ہوتا ہے : وہ لوگ جو اپنے دین میں تفرقہ پیدا کرکے ایک الگ گروہ بناتے ہیں آپ ان سے کوئی مطلب نہیں ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ، پھر انھیں بتایا جائے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں(۳)

نبی کا اعلان کہ امت میں فرقے ہوں گے

اس کے ساتھ ہی پیغِمبر اعظم ؐ نے بھی بارہا اعلان کیا کہ امت میں اختلاف ہوگا اور فرقے پیدا ہوجائیں گےٹھیک اسی طرح جیسے سابقہ امتوں میں اختلاف ہوچکا ہے،آپ نے فرمایا:یہودیوں کے اکہتر فرقے ہوئے ایک جنتی بقیہ جہنمی ہیں،نصرانیوں کے بہتر فرقے ہوئے ایک جنتی اور اکہتر جہنمی ہیں اور یہ(میری)امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوگی،بہتر جہنمی اور ایک جہنمی اور ایک جنتی ہوگا ۔(۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ آل عمران آیت:۱۰۳

(۲)سورہ آل عمران آیت:۱۰۵

(۳)سورہ نعام آیت:۱۵۹

(۴)مجمع الزوائد ج:۶ص:۲۳۳،کتاب قتال اہل بغی باب خوارج اور ج:۷ص:۲۵۸،کتاب فتن،باب امتوں کا مختلف فرقوں میں بٹ جانا،اور سنتوں کی پیروی کرنا،تفسیر قرطبی ج:۴ص:۱۶۰،تفسیر ابن کثیر ج:۲ص:۷۸،سنن درامی ج:۲ص:۳۱۴،کتاب سیر باب امتوں کا آپس میں فرقہ فرقہ ہونا،مصابح الزجاجۃ ج:۴ص:۱۷۹،کتاب فتن،امتوں کا آپس میں بٹ جانا،مسند ابی یعلی ج:۶ص:۳۴۱،وہ روایات جو ابونضرہ بن انس سے کی ہے،معجم الکبیر ج:۸ص:۲۷۳،اعتقاد اہل سنت ج:۱ص:۱۰۳،السنۃ لابن عاصم ج:۱ص:۳۲،الترغیب و الترھیب ج:۱ص:۴۴،حلیۃ الاولیاء ج:۳ص:۲۲۷)

۳۴۷

یہ روایت ان حدیثوں کے مطابق ہے جو سرکار دو عالم ؐ سے تواتر کے ساتھ وارد ہوئی ہیں(کہ امت مسلمہ سابقہ امتوں کے راستے پر چلے گی)حدیث میں ہے کہ(بیشک تم ضرور پیروی کروگے اپنے پہلے والوں کے قدم بہ قدم اور دست بہ دست،اگر وہ بجوکے سوراخ میں بھی داخل ہوتے تھے تو تم بھی داخل ہوگے)راوی نے پوچھا کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد گذشتہ لوگوں سے یہود و نصاریٰ ہیں؟آپ نے فرمایا پھر کون؟(۱)

اس لئے سابقہ امتوں کے افتراق میں شک کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں ہے،قرآن مجید بہت وضاحت سے ان کے اختلاف پر روشنی ڈ التا ہے ۔

مسلمانوں کو فتنوں سے ڈرایا گیا اور انہیں خوف دلایا گیا

افتراق امت کی پیش گوئی کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو اکثر فتنوں سے ڈ رایا گیا اور ان کے برے انجام سے آگاہ کیا گیا،انہیں بتایا گیا کہ ان کا امتحان لازمی ہے اور آزمائش حتمی ہے،ارشاد ہوتا ہے کہ:((وہ لوگ جو امر الٰہی کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈ رنا چاہئے کہ انہیں یا تو کوئی فتنہ دبوچ لے گا یا وہ عذاب الیم سے دوچار ہوجائیں گے)) ۔(۲) ایک مقام پر ارشاد ہوا ہے کہ:اس فتنہ سے ڈ رو جو خاص ان لوگوں کو نہیں پہنچے گا جنھوں نے ظلم کیا ہے اور یہ جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے(۳) اور پھر ارشاد ہوا:محمد نہیں ہیں مگر رسول ان کے پہلے بھی رسول گذرچکے ہیں،پس اگر وہ مرجائیں یا قتل ہوجائیں تو کیا تم اپنے پچھلے مذہب پر واپس ہوجاؤگے؟اور جو اپنے پچھلے پیروں واپس ہوگا اس سے خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا،خدا عنقریب شکرگذاروں کو جزا دے گا ۔(۴) ارشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) صحیح بخاری ج: ۶ ص: ۲۲۶۹ ،اور ج: ۳ ص: ۱۲۷۴ ،سنن ابن ماجہ ج: ۲ ص: ۱۳۲۲ ،کتاب فتن،امتوں کا آپس میں فرقہ فرقہ ہونا،مجمع الزوائد ج: ۷ ص: ۲۶۱ ،مستدرک علی صحیحین ج: ۱ ص: ۹۳ ،صحیح ابن جبان ج: ۱۵ ص: ۹۵ ،مسند احمد ج: ۲ ص: ۵۱۱ ۔ ۳۲۷ ،مسند ابی ہریرہ ج: ۳ ص: ۸۹ ،مسند طیالسی ج: ۲ ص: ۲۸۹ ،

( ۲) سورہ نور آیت: ۶۳ (۳) سورہ انفال آیت: ۲۵ (۴) سورہ آل عمران آیت: ۱۴۴

۳۴۸

خداوند ہوا کہ((کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ انھیں یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا اور آزمایا نہیں جائے گا؟اس سے پہلے بھی ہم لوگوں کو آزماچکے ہیں اور اللہ تو جانتا ہی ہے کہ ان میں جھوٹا کون ہے اور سچا کون ہے؟(۱) ایک مقام پر خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے((اللہ مومنین کو اسی حال میں نہیں چھوڑ دےگا جیسے تم ہو یہاں تک کہ خبیث اور طیب الگ الگ ہوجائے اللہ تمہیں غیب کی خبر نہیں دینے جارہا ہے ۔(۲)

سرکار دو عالم ؐ نے فرمایا:ہمارے بعد کا فرمت ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو))اور حدیث حوض میں آپ نے ارشاد فرمایا:

لیکن تم نے میرے بعد بہت سے حرکتیں انجام دیں اور پچھلے مذہب پر رجعت قہری کر بیٹھے))اس کے علاوہ بھی بہت سی حدیثیں ہیں جو آپ کے سابقہ سوالوں میں سے دوسرے سوال کے جواب میں پیش کی جاچکی ہیں ۔

اختلاف کے نتائج سے آگاہ کیا گیا اور اس کے خطروں سے خبردار کیا گیا

کسی بھی حقیقت پسند انسان کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ فتنوں سے بچنے کے لئے اور اختلاف سے پرہیز کی ہدایت کے لئے جو آیتیں اور احادیث وارد ہوئی ہیں ان کے مضامین بہت سخت ہیں اور ان میں بھیانک نتائج سے متنبہ کیا گیا ہے مثلاً جو لوگ اس فتنے میں ملوث ہوں گے انھیں انقلاب پذیر،مرتد،خبیث اور کافر جیسے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے،یہ فیصلہ کردیا گیا ہے کہ جو حق کی مخالفت کرکے کوئی فرقہ بنائے گا وہ اپنے فرقہ کے ساتھ جہنم میں جائے گا اس لئے کہ فرقہ حق سے خروج کے بعد کفر سے الحاق لازمی ہے،جو خسران اور ہلاکت کا سبب ہے،صرف اسلام کی ظاہری صورت اور اس کا اعلان دعوت کسی بھی طرح نفع بخش نہیں ہوگا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ عنکبوت آیت: ۲ ۔ ۳

( ۲) سورہ آل عمران آیت: ۱۷۹

۳۴۹

قرآن مجید نے سابقہ امتوں کے کردار کو مقام مثال میں رکھ کے سمجھایا ہے ارشاد ہوا:اور ان لوگوں کی طرح مت ہوجاؤ جنھوں نے فرقے بنائے اور روشن آیتیں آنے کے بعد بھی اختلاف کر بیٹھے،ان کے لئے تو بڑا عذاب ہے،اس دن کچھ چہرے نورانی اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے ان سے کہا جائے گا کہ کیا تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے اب اپنے کفر کا مزہ چکھو اور جن کے چہرےنورانی ہوں گے وہ تو اللہ کی رحمت کے سائے میں ہوں گے اور ہمیشہ رحمت میں ہی رہیں گے ۔(۱)

ارشاد خداوندی ہوا کہ:((اللہ چاہتا تو وہ لوگ جنھوں نے دلیلیں آنے کے بعد بھی آپس میں قتال کیا نہ کرتے لیکن انھوں نے اختلاف کیا پس ان میں سے کچھ تو مومن ہی رہے اور کچھ کافی ہوگئے)) ۔(۲)

ایک اور مقام پر ارشاد ہوا:((اس سے اختلاف کرنے والے تو صرف بغاوت کی بنا پر اختلاف کر رہے ہیں اس لئے کہ یہ اختلاف،ان کے پاس نشانیاں آنے کے بعد شروع ہوا ہے،پس صاحبان ایمان کو تو اللہ نے ہدایت پر باقی رکھا اور اس اختلاف سے انھیں اپنی اجازت سے بچائے رکھا اور اللہ جسے چاہتا ہے راہ مستقیم کی ہدایت کرتا ہے))(۳)

خطرناک اختلاف کے پیش نظر واضح و آشکار حجت کا ہونا لازم ہے

دین میں اختلاف،ایک خطرناک اختلاف ہے،دین میں فرقہ بندی ایک بہت ہی نقصان دہ عمل ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس کے خلاف واضح حجت اور کافی مواد موجود ہوتا کہ اگر کوئی دین سے خارج ہوجائے تو روز قیامت یہ عذر نہ پیش کرسکے کہ ہم کیا کریں؟سمجھ نہیں پائے بلکہ دلیلیں اتنی واضح ہونی چاہئیں کہ جو دین سے خارج ہوتا ہے وہ صرف اپنے دل کی گندگی و شقاوت ہی کی بنیاد پر نکلے یا پھر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ آل عمران آیت: ۱۰۵ ۔ ۱۰۷

( ۲) سورہ بقری آیت: ۲۵۳

( ۳) سورہ بقری آیت: ۲۱۳

۳۵۰

پھر اس وجہ سے کہ وہ چمگادڑ کی طرح اندھا ہی رہنا چاہتا ہے اور حق کو دیکھنا ہی نہیں چاہتا اس کے سامنے سورج موجود ہے لیکن آنکھوں کو بند کئے پڑا ہے،سچائی سے غفلت یا تو اندھی تقلید کی وجہ سے ہے یا بےجا تعصب کی وجہ سے یا کوئی ایسا سبب ہے جسے کوئی معقول عذر نہیں کہا جاسکتا ۔ ارشاد درب العزت ہوتا ہے((ہم نے جہنم کے لئے بہت سے ایسےانسان و جنّات پیدا کئے ہیں جن کے پاس آنکھیں ہیں لیکن وہ دیکھ نہیں سکتے،کان ہے لیکن وہ سنتے نہیں ہیں،دل رکھتے ہیں لیکن سمجھاتے نہیں،وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے زیادہ گمراہ،اصل میں وہ غافل لوگ ہیں ۔(۱)

آپ جانتے ہیں کہ انبیا کی بیعثت کا اہم ترین مقصد یہ ہے کہ حق پر حجۃ کا فیہ قائم ہوجائے،ہدایت کی علامتیں اور ایمان کے راستے واضح ہوجائیں تا کہ انسان جہنم سے بچنے اور جنت کے حاصل کرنے کا طریقہ جان لے،((تا کہ جو ہلاکت ہو وہ بغیر دلیل کے ہلاک نہ ہو اور جو زندہ رہے وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے))(۲) (( اور تا کہ پیغمبروں کے بھیجنے کے بعد لوگوں کو خدا کے خلاف کوئی حجت میسر نہ ہو))(۳) ارشاد خدائے تعالیٰ ہوتا ہے:((خدا کسی قوم کی ہدایت کرنے کے بعد گمراہ نہیں کیا کرتا،جب تک ان چیزوں کو واضح نہ کردے جن سے انھیں ڈ رنا ہے،اللہ تو ہر چیز سے واقف ہے))(۴)

اسی طرح کے مضامین آیات کریمہ اور احادیث شریفہ سے مستفاد ہوتے ہیں جب اللہ یہ کہہ چکا ہے،خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور فرقے نہ بناؤ(۵) اور یہ بھی ارشاد ہوا کہ((بیشک یہ میرا راستہ ہے جو بالکل سیدھا ہے،پس اس کی پیروی کرو اور دوسرے راستوں کی پیروی نہ کرو،ورنہ تم خدا کے راستہ سے الگ ہوجاؤگے،اللہ اسی بات کی تم سے سفارش کرتا ہے تا کہ تم صاحب تقویٰ ہوجاؤ)) ۔(۶)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ اعراف آیت:۱۷۹ (۲)سورہ انفال آیت:۴۲

(۳)سورہ نسائ آیت:۱۶۵

(۴)سورہ توبہ آیت:۱۱۵

(۵)سورہ آل عمران آیت:۱۰۳

(۶)سورہ انعام آیت:۱۵۳

۳۵۱

تو جب فرقہ بنانا اور اختلاف پیدا کرنا اتنا بڑا گناہ اور خطرناک عمل ہے تو کیا رفع اختلاف کے لئے یہ کافی ہے کہ حق کو مبہم چھوڑ دیا جائے کہ حبل متین کو شک کے تانے بانے میں الجھا دیا جائے یہ نہ بتایا جائے کہ حبل متین سے اعتصام کیسے ہوگا؟صراط مستقیم کیا ہے؟اور اس کی پیروی کرنے والوں کے لئے کیسے تحقق ہوگا؟سب کچھ تشنہ تفسیر رہے اور لوگوں کو اپنے طور پر اجتھاد کرنے کی کھلی چھوٹ مل جائے اس کے بعد پھر ہر فرقہ یہ دعویٰ کرنے لگے کہ حق تو فقط اسی کے پاس ہے اور دوسرے افراد باطل والے ہیں نہیں:بلکہ حق یہ ہے کہ خداوند عالم عادل اور کریم ہے،وہ کبھی نہیں چاہتا کہ اس کے بندے جہنم کے ایندھن بنیں،وہ یہ نہیں چاہتا کہ بندوں کے پاس جہالت کو رفع کرنے کے لئے واضح حجت نہ ہو اور قطعی عذر نہ ہو،خدا نہیں چاہتا ہے کہ حق کے بارے میں شک کی تھوڑی سی بھی گنجائش باقی رہ جائے اور نہ اتنا پیچیدہ ہوجائے کہ اصول کے بارے میں اجتھاد،تلاش،غور و فکر کی ضرورت محسوس کی جائے ۔

یہ تمام باتیں اس لئے عرض کررہا ہوں تا کہ آپ کو اس بات کا یقین ہوجائے کہ جب لوگ حقیقت سے اختلاف کی کوشش کرتے ہیں اور حق کو شک کے گھیرے میں لیکر بحث و مناظرہ کرتے ہیں تو حق کے پاس اپنے ثبوت کے لئے بہت ہی محکم دلیلیں اورروشن نشانیاں ہوتی ہین جن سے انکار کی بنیاد صرف دشمنی یا سیاہ بختی ہی ہوسکتی ہے ۔

اس بات کی مزید تائید خداوند عالم کے اس قول سے ہوتی ہے ارشاد ہوا((ان کے جیسے نہ ہوجانا جو دلیلیں آنے کے بعد بھی فرقہ بن گئے اور اختلاف کر بیٹھے(۱) اس لئے کہ اختلاف و فرقہ بندی سے روکنے کے لئے کافی دلیلیں موجود تھیں اگر وہ لوگ اس کی پیروی کرتے اور عمداً ان دلیلوں کو نظرانداز نہ کرتے تو حق تک بہرحال پہنچ سکتے تھے ۔

خود سرور کائنات ؑ نے ارشاد فرمایا کہ:میں نے تمہیں روشنی میں کھڑا کردیا ہے،اس(روشنی)میں لا کے چھوڑا ہے جس کی راتیں بھی دن کی طرح روشن ہیں،اس کے باجود بھی گمراہ نہیں ہوگا مگر وہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ آل عمران آیت:۱۰۵

۳۵۲

جس کے مقدر میں ہلاکت ہے ۔(۱)

اس لئے کہ حق واضح اور روشن ہے اگر امت خلوص دل سے طلب کرنے کی کوشش کرے تو ہرگز محروم نہیں رہے گی،فتنہ پرور راتیں اور امتحان کے اندھرے شبہ کی تاریکیاں،حق پر پردہ نہیں ڈ ال سکتی ہیں اور حق کی علامتوں کو ضائع کرسکتی ہیں نہ اس کے آثار مٹاسکتی ہیں،بشرطیکہ چشم بینا اور گوش شنوا ہو ۔

اختلاف کا سب سے بڑا سبب ریاست طلبی ہے

حق تو یہ ہے کہ اختلاف اور فرقہ بندی کا سب سے بڑا سبب اقتدار و حکومت ہے،لوگوں پر حکومت کرنے کی خواہش اور انسانوں پر تسلّط حاصل کرنے کا جذبہ وہ ہے جس کی وجہ سے دعوت اصلاح دینے والوں کے درمیان اختلاف اور انتشار پیدا ہوتا ہے

۱ ۔ ہر انسان میں فطری پر حکومت و اقتدار کی خواہش ہوتی ہے اور کبھی کبھی یہ جذبہ بہت شدید ہوجاتا ہے،نتیجہ میں انسان حکومت وقت سے اختلاف کر کے اپنا ایک الگ گروہ بنا لیتا ہے

۲ ۔ حق بہرحال تلخ ہوتا ہے اور حق کی حکومت کو عام انسان برداشت کرنے میں مشکل محسوس کرتا ہے حالانکہ دعوت اصلاح کا پہلا اصول حکومت حقّہ کا قیام اور حق کا نفاذ ہے،ظاہر ہے کہ حق کو اکثریت برداشت نہیں کر پاتی اور اس کے خلاف علم بغاوت بلند کردیتی ہے چونکہ اصول پرست افراد جو حکومت حقہ کے ذمہ دار ہوتے ہیں،وہ حرف بہ حرف قانون کے پابند ہوتے ہیں اور قانون کی پابندی کرنا چاہتے ہیں،یہ بات بھی عام لوگوں پر گراں گذرتی ہے ۔

اسی کی طرف عمر بن خطاب نے اشارہ کیا تھا،جب امر خلافت کے سلسلے میں ابن عباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) مسند احمد ج: ۴ ص: ۱۲۶ ،تفسیر قرطبی ج: ۷ ص: ۱۳۸ ،مستدرک علی صحیحین ج: ۱ ص: ۱۷۵ ،السنۃ لابن ابی عاصم ج: ۱ ص: ۱۹ ،معجم الکبیر ج: ۱۸ ص: ۲۴۷ ۔ ۲۵۷ ،مصباح الزجاجۃ ج: ۱ ص: ۵ ۔

۳۵۳

سے ان کی گفتگو ہورہی تھی تو عمر نے کہا تھا:خدا کی قسم اے ابن عباس!بے شک تمہارے چچازاد بھائی علی ؑ خلافت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں لیکن قریش ان کو برداشت نہیں کرپائیں گے،اس لئے کہ اگر انھیں حاکم بنادیا جائے تو وہ قریش کو حق کی تلخی کا مزہ چکھا کے رہیں گے،ان کی حکومت میں رخصت کی گنجائش نہیں ہوگی،نتیجہ میں لوگ ان کی بیعت توڑ دیں گے اور ان سے جنگ کرنا شروع کردیں گے ۔(۱) امام جماعت ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس آدمی کے اندر امامت عامّہ کی بھی صلاحیت ہے ۔

اسلام میں پہلا اختلاف سلطنت ہی کے لئے ہوا اور یہ سب سے خطرناک اختلاف تھا

یہاں یہ بات بھی عرض کرتا چلوں کہ سب سے بڑا اور سب سے پہلا اختلاف جو امت اسلامیہ میں پیدا ہوا وہ خلافت و امامت کے سلسلے میں ہوا اور مصیبت یہ ہے کہ جیسے ہی حضور اکرم ؐ کی وفات ہوئی اس عظیم اختلاف میں امت مبتلا ہوگئی ۔

امامت اور خلافت کے موضوع پر صدر اسلام میں اتنے فتنے پیدا ہوئے،وہ چیخ پکار مچی اور اتنا ہنگامہ ہوا کہ جو بیان کے لائق نہیں ہے،یہاں تک کہ مخالفین اسلام بھی مسلمانوں پر طعن و تشنیع کرنے لگے اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔

لٰہذا ہمیں اس بات پر غور کرنا بہت ضروری ہے کہ جب امامت اسلام کا سب سے اختلافی مسئلہ ہے تو اللہ نے اسے تشنہ تفسیر نہیں چھوڑا ہوگا بلکہ اس مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر اور اس میں گنجائش اختلاف ہونے کی وجہ سے اللہ نے سب سے زیادہ اسی کی وضاحت پر زور دیا ہوگا،اس مسئلہ کی شرعی حیثیت اور قانونی اہمیت کے پیش نظر اس کو سب سے زیادہ روشن،واضع صاف اور کھلا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ یعقوبی ج:۲ص:۱۵۹،عمر بن خطاب کے ایام میں

۳۵۴

ہوا ہونا چاہئے کہ یہ فتنہ انگیز راتوں میں بھی سورج کی طرح چمکتا ہوا نظر آئے تا کہ اتمام حجت کے بعد بھی اگر کوئی اختلاف کرے،روشن دلیلوں کے بعد بھی اگر کوئی ہٹ دھرمی سے کام لے،حجتوں کے غلبے کے باوجود اگر کوئی اختلاف پر اصرار کرے تو نگاہ اعتبار فوراً یہ فیصلہ کرلے کہ اس اختلاف کے نتیجہ میں مخالف کو صرف گمراہی،ہلاکت،ہمیشہ کا نقصان اور جہنم کا ٹھکانہ نصیب ہوگا ۔

اسلام،معرفتِ امام کو سختی سے واجب اور اس کی اطاعت فرض قرار دیتا ہے

مندرجہ بالا مضمون کی تائید میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں جیسے((جو مرجائے اور اپنے امام وقت کو نہ پہچانے وہ جاہلیت کی موت مرا ہے))یا((جو بغیر امام کے مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرا ہے))اسی طرح کی بہت سی حدیثیں جو سابقہ سوالوں کے چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکی ہیں ۔

ان احادیث سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ امام کو نہ پہنچاننے والا سخت سزا کا مستحق ہے،بلکہ ہلاکت کا حقدار ہے اور امام وقت کو امام تسلیم نہ کرنے سے اور اس کا یقین نہ رکھنے سے مخالف امام کے خلاف حجت واضحہ قائم ہوجاتی ہے،جس حجت سے نکلنانا ممکن ہے اور جہالت کا عذر ناقابل قبول ہے ۔

حاکم برحق کی مادی کمزوری یہ ہے کہ وہ قانون شرع میں رعایت نہیں کرتا

خصوصاً حاکم صالح کی اصول پسندی جس کی وجہ سے وہ نظام الٰہی کو چلانے کی ذمہ داری کا حامل ہوا،اس کو اجازت نہیں دیتی کہ حکومت کو برقرار رکھنے کے لئے اور اپنی سلطنت کو چلانے کے لئے شریعت کے معاملے میں نرم پالیسی اختیار کرے اور سیاست سے کام لے اور یہی اس کی مادّی کمزوری ہے جسے اگر وہ دور کرنا چاہے تو اسے دین سے سودے بازی کرنی پڑے گی اور اس کے بدلے میں قانون الٰہی کو اس کی تمام وضاحتوں کے ساتھ چھوڑ دینا پڑے گا،دین کی سختی اور تیزی جس کے اوپر عمل کے مطابق وعد و وعید کا ترتب ہوتا ہے اسے چھوڑنی پڑے گی،لیکن اس کی اصول پسندی اس بات کو گوارہ

۳۵۵

نہیں کرے گی بلکہ وہ تو نفاذ قانون میں اتنا سخت ہوتا ہے کہ اہل دین تقویٰ اور اپنے خاص لوگوں کو بھی شریعت کے حدود سے آگے نہیں بڑھنے دیتا،اگر چہ وہ لوگ اس کی دعوت کا اعلان کرنا چاہتے ہیں اور حق سے متمسک بھی رہتے ہیں،لیکن وہ انھیں دین کی حدود سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دیتا،تا کہ ان کے ذریعہ وہ دوسروں پر حجت قائم کرے اور انہیں اہل دین کو ایک نمونہ بنا کے پیش کرسکے ۔

ناممکن ہے کہ نبیؐ نے امامت کی طرف صرف اشارے پر اکتفا کی ہو

اسی وجہ سے یہ بات عقل میں نہیں آتی اور عام آدمی اسے ناممکن سمجھتا ہے کہ نبی ؐ نے امر خلافت کی وضاحت کے لئے صرف تلمیحات،اشارات اور کنایات پر اکتفا کیا ہے،صورت مسئلہ کا تو تقاضا یہ ہے کہ یہاں بیان صریح ہونا چاہئے اور ایسی وضاحت ہونا چاہئے جس میں شک کی کوئی گنجائش اور اشتباہ کا کوئ شائبہ بھی نہ رہ جائے کہ اگر کوئی حد سے نکلے بھی تو محض اپنے عناد اور دشمنی کی وجہ سے یا پھر وہ ایسا جاہل ہو جس کی جہالت کا عذر ناقابل قبول ہو،آپ نے ابھی جو فرمایا کہ حادثہ صلواۃ میں امامتِ ابوبکر کی طرف اشارہ ملتا ہے تو آپ کو یہ جاننا چاہئے کہ مسئلہ امامت،اشارات و کنایات سے حل ہونے والا نہیں ہے،اس کے لئے تو واضح اور روشن دلیل چاہئے ۔

اسلام کے پاس ایسے نظام کا ہونا ضروری ہے جو خلافت کی تکمیل کرتا ہو!

۵ ۔ پانچویں بات یہ ہے کہ امر خلافت اسلام کا سب سے اہم مسئلہ بھی ہے اور سب سے زیادہ الجھا ہوا مسئلہ بھی ہے،یہ ناممکن ہے کہ نبی ؐ نے صرف ابوبکر کی امامت کی طرف اشارہ کو کافی سمجھا ہو یا کسی دوسرے شخص کی طرف اشارہ کردیا ہو،بلکہ کسی ایک شخص کو امام معیّن کرنا بھی کافی نہیں ہوگا چاہے کتنی ہی وضاحت کے ذریعہ معیّن کیا جائے ۔

یہاں تو ضرورت ایک ایسے نظام کام کی ہے،ایک ایسے پیمانے کی ہے کہ جو پیمانہ ہمیشہ ہمیشہ تک قائم رہے کہ جب بھی کوئی امام دنیا سے اٹھے دوسرے امام اسی اصول و ضوابط کے معیار پر معیّن

۳۵۶

ہوجائے یعنی ایک معیار ہونا چاہئے جس کے مطابق امام کی شناخت ہوسکے،نظام بھی ایسا ہو جو واضح دلیلوں اور روشن حجتوں کا حامل ہو جس سے مسلمان کسی بھی دور میں اختلاف نہ کرسکے اور جس کی مخالفت کے لئے کوئی عذر نہ پیش کرسکے،چونکہ اسلام رہتی دنیا تک باقی رہے گا اس لئے وہ نظام جس کے معیار پر خلیفہ کا تعّین ہوتا ہے،اسے بھی اتنا پائدار ہونا چاہئے کہ وہ رہتی دنیا تک قائم رہے ۔

آپ کے سابقہ سوالوں کے چوتھے سوال کے جواب میں یہ تمام باتیں عرض کی جاچکی ہیں،ظاہر ہے کہ انہیں دُہرانے کی یہاں ضرورت نہیں ہے،جو حق کو پہچاننا چاہتا ہے،حقیقت تک پہنچنا چاہتا ہے اور اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ ان عبارتوں کا مطالعہ کرے ۔

آپ کے سوالوں کا یہی جواب ممکن ہوسکا ہے،میں اللہ سے مدد اور توفیق،تسدید اور تائید کا سوال کرتا ہوں،وہی ہمارے لئے کافی ہے اور بہترین وکیل ہے ۔

۳۵۷
۳۵۸

سوال نمبر ۔ ۷

کیا یہ صحیح ہے کہ ائمہ ہدیٰ علیہم السلام ہی معاملات زندگی اور ضروریات دین کے علم سے مخصوص ہیں،دوسرے لوگ نہیں،جب کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ((آج میں نے تمہارے دین کو کامل کیا،تم پر نعمتیں تمام کیں اور میں تمہارے لئے دین اسلام سے راضی ہوا،(۱)

جواب: ۔ اس سوال کے جواب میں چند باتیں عرض کی جارہی ہیں

ائمہؑ کا علم دین سے اختصاص اکمال دین کے منافی نہیں ہے

۱ ۔ پہلی بات یہ کہ ائمہ ہدی علیہم السلام کا اختصاص بالعلم،اکمال دین کے منافی نہیں ہے اس لئے کہ اکمال دین کا مطلب ہے اس کے تمام احکام کی تشریع ہونا اور امت کے حق میں اسے صحیح قرار دینا،لیکن لوگوں تک اس دین کا پہنچنا اور اس کی تبلیغ معنائے اکمال سے خارج ہے،یہ تو ایک الحاقی مرحلہ ہے جو قانون بننے اور اس قانون کو صحیح قرار دینے کے بعد کی ضرورت ہے ۔

مثلاً ہمارے اس دور میں بھی قانون ساز اسمبلی یا کونسل قانون بناتی ہے اور تا امکان ایسے قوانین(جو ضروریات انسانی کے تقاضوں کو پورا کرنے میں کامل صلاحیت رکھتے ہیں)وضع کرتی ہے،پھر اس قانون کو می ڈ یا کے حوالے کرتی ہے تا کہ اس کا اعلان سرکاری جریدوں میں یا ری ڈ یو و غیرہ پر ہوجائے کیونکہ قانون بنانے کا فائدہ اس وقت تک حاصل نہیں ہوگا جب تک قانون لوگوں تک پہنچا نہ دیا جائے تا کہ لوگ اس پر عمل کرنا شروع کردیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں،اب دین اسلام کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ مائدہ آیت ۳

۳۵۹

طرف آئیں،اللہ نے اسلام کا قانون وضع کیا،لیکن صرف قانون وضع کردینے سے لوگوں کو کای فائدہ ہوا؟اس لئے لطف الٰہی کے قاعدہ کو تسلیم کرتے ہوئے فرقہ امامیہ کہتا ہے کہ اس کی حکمت اور لطف و کرم کا تقاضا یہ ہے کہ وہ پیغمبروں اور اماموں کو بھیجے،یہ ارسال(انبیا و ائمہ علیہم السلام کا خدا کی طرف بھیجا جانا)اس پر واجب ہے،لیکن یہ ایک دوسری بات ہے اس کا اکمال دین سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یعنی دین کا کامل ہونا اس کی تبلیغ پر موقوف نہیں ہے ۔

اتنا ہی بتا دینا کافی ہے کہ احکام دین کا مرجع کون ہے؟

لیکن اکمال دین کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امت کہ ہر فرد کو احکام دین سے واقف کرادیا جائے اور دین کا ہر فرعی حکم ان تک بلکہ ان میں سے ہر ایک تک پہنچا دیا جائے،بلکہ حصول علم کا امکان پیدا کردینا کافی ہے اور یہ امکان اس وقت بہرحال حاصل ہوجاتا ہے جب ائمہ ؑ کے بارے میں یہ مان لیا جاے کہ وہ اللہ سے علم حاصل کرتے ہیں اور ان کے پاس علم حاصل کرنے کا طریقہ اور ذریعہ موجود ہے،یہی وجہ ہے کہ وہ امت پر امام نصب کیے گئے ہیں،انھیں اللہ نے حلال اور حرام کی دلیل بنایا ہے،تشریع و احکام کی معرفت کا مرجع قرار دیا ہے،انھیں کو امت کے اوپر حجت کافیہ بنایا ہے تا کہ امت دین کے معاملات میں ان کی طرف رجوع کرے اور ان سے دین کو سمجھے ۔

اسے یوں سمجھ لیجئے کہ دور نبی ؐ میں بھی امت کے تمام افراد تو دین کے قوانین اور اس کے تمام احکام سے واقف نہیں تھے،دین کے تمام احکام کا علم تو صرف نبی ؐ سے مخصوص تھا البتہ امت کے لئے یہ ممکن تھا کہ نبی ؐ کی طرف رجوع کرکے دین کے احکام و قوانین کو حاصل کرلے،اس لئے امت کو نبی ؐ کی اطاعت کا حکم دیا گیا تھا اور یہ کہ نبی ؐ سے دین حاصل کریں ۔

بلکہ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جمہور اہل سنت کے نزدیک بھی عام مسلمان ہر دور میں احکام دین سے جاہل رہتا ہے وہ احکام جو کتاب و سنت میں بیان کردئے گئے ہیں اگر چہ سنت کے تعین میں اختلاف ہے،مگر بہرحال مسلمان ان احکام سے ناواقف رہتا ہے اور جب تک ان فقیہوں کی طرف

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367