فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ10%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206461 / ڈاؤنلوڈ: 5999
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

الگ ہوا وہ مجھ سے الگ ہوا،(۱) اور فرمایا:جو میری اطاعت کرے و اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور جو میری نافرمانی کرے وہ اللہ کی نافرمانی کرتا ہے جو علیؑ کی اطاعت کرے وہ میری اطاعت کرتا ہے اور جو علیؑ کی نافرمانی کرے وہ میری نافرمانی کرتا ہے۔(۲) اور فرمایا:شب معراج میں مجھ پر وحی آئی کہ علیؑ کی تین صفتیں ہیں،۱۔علیؑ سیدالمومنین ہے،۲۔علیؑ امام المتقین ہے۔۳۔اور علیؑ روشن پیشانی والوں کا قائد ہے))(۳) آپ نے اکثر علیؑ کا تعارف امیرالمومنین(۴) کہہ کے کرایا ہے،بلکہ مسلمانوں کی ایک جماعت کو حکم دیا کہ علیؑ کو امیرالمومنین کہہ کے سلام کریں(۵) آپ جنگ تبوک میں جانے لگے تو علیؑ ہی کو اہل مدینہ پر خلیفہ مقرر کیا اور فرمایا:مناسب نہیں ہے کہ میں چلا جاؤں مگر یہ کہ تم(علیؑ)میرے خلیفہ رہو،(۶) اور یہ کہ مدینہ کی اصلاح ہو ہی نہیں سکتی مگر مجھ سے یا تم(علیؑ)(۷) سے،دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا((تم میرے لئے ویسے ہی ہو جیسے ہاروں موسیٰ کے لئے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبیؐ نہ ہوگا۔(۸)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۳۳،کتاب معرفۃ الصحابہ،مجمع الزوائد ج:۹ص:۱۳۵،کتاب مناقب،باب الحق مع علی،مسند البراز ج:۹ص:۴۵۵،معجم شیوخ ابی بکر الاسماعیلی ج:۳ص:۸۰۰،المعجم الکبیر ج:۱۲،ص:۴۲۳،فضائل صحابۃ ج:۲ص:۵۷۰،فیض القدیر ج:۴ص:۳۵۷،میزان الاعتدال ج:۳ص:۳۰،داود بن عوف کے حالات میں،ص:۷۵،رزین بن عقبہ کے حالات میں،تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۰۷،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،و غیرہ

(۲)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۳۱،کتاب معرفۃ الصحابہ معجم شیوخ ابی بکر اسماعیلی ج:۱ص:۴۸۵،الکامل فی ضعفا الرجال ج:۴ص:۳۴۹،عبادۃ بن زیاد کے حالات میں،تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۰۷،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،و غیرہ

(۳)اس کا مدرک چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے

(۴)اس کا حوالہ چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے (۵)تاریخ دمشق ج:۴۲ص:۳۰۳

(۶)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۴۳،کتاب معرفت صحابہ امیرالمومنینؑ کے اسلام کا ذکر،مجمع الزوائد ج:۹ص:۱۲۰،کتاب مناقب باب مناقب علی بن ابی طالبؑ میں،مسند احمد ج:۱ص:۳۳۰،مسند عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب،المعجم الکبیر ج:۱۲،ص:۹۸،السنۃ لابن ابی عاصم ج:۲ص:۵۶۶۔۵۶۵،الاصابۃ ج:۴ص:۵۶۸،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،ریاض النضرۃ ج:۲ص:۱۹۰،تیسری فصل میں،فضائل صحابہ لابن حنبل ج:۲ص:۶۴۸،

(۷)المستدرک علی صحیحین ج:۲ص:۳۶۷،کتاب تفسیر،تفسیر سورہ توبہ،کنزالعمال ج:۱۱ص:۶۰۷،حدیث۳۲۹۳۳،ج:۱۳ص:۱۷۲،حدیث:۳۶۵۱۷،ینابیع المودۃ ج:۱ص:۳۴۴،میزان الاعتدال ج:۲ص:۳۲۴،حفص بن عمر الابلی کے حالات میں،لسان المیزان ج:۲ص:۳۲۴،حفض بن عمر الابلی کے حالات میں،و غیرہ

(۸)اس کا مدرک چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے

۳۴۱

ابن عباس سے روایت ہے:وہ امیرالمومنین ؑ کے حوالے سے کہتے ہیں جب نبی ؐ پر یہ آیت نازل ہوئی((وانذر عشیرتک الاقربین))اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے)) تو بنی عبدالمطلب سے نبی ؐ سے گفتگو ہونے لگی پھر نبی ؐ نے خطبہ دیا اور فرمایا:اے بنوعبدالمطلب!میں تمہارے پاس دنیا آخرت کی بھلائی لیکر آیا ہوں،مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ میں تم لوگوں کو اس کی طرف بلاؤں،پس تم میں سے کون ہے جو اس شرط پر میرا ہاتھ بٹائے کہ وہ تمہارے درمیان میرا بھائی،وصی اور خلیفہ قرار پائے))ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ سن کے لوگ آپ کو چھوڑ ک چلے گئے ۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ مولائے کائنات ؑ نے فرمایا:میں اس وقت بہت کمسن تھا میری آنکھیں چھوٹی اور پن ڈ لیاں پتلی تھیں،لیکن میں نے آواز دی یا رسول اللہ ؐ میں آپ کا ہاتھ بٹاؤں گا اور اس امر میں آپ کی وزارت کروں گا سرکار دو عالم ؐ نے یہ سن کے میری گردن پر ہاتھ رکھا اور فرمایا:بےشک یہ میرا بھائی میرا وصی اور تم لوگوں میں میرا خلیفہ ہے ۔ اس کی باتیں سنو اور اس کا حکم مانو!علی ؑ فرماتے ہیں یہ سن کے لوگ ہنسنے لگے اور(میرے والد)ابوطالب ؑ سے کہنے لگے کہ یہ)حضور اکرم ؐ )تو کو حکم دیتے ہیں کہ اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کا حکم مانو!(۱)

اللہ نے ولایت علی ؑ کو یہ کہہ کے ثابت کیا کہ((بےشک تمہارا ولی تو اللہ ہے اور اس کا رسول ؐ ہے اور وہ صاحبان ایمان ہیں جو حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں))(۲) حدیثیں بتاتی ہیں کہ یہ آیت امیرالمومنین ؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) تاریخ طبری ج: ۱ ص: ۵۴۲ ۔ ۵۴۳ ، ،شرح نہج البلاغہ ج:۳ ص۲۱۰ ،تفسیر ابن کثیر ج:۳ ص ۳۵۲ البدایہ والنہایہ ج :۳ص:۴۰ تفسیر طبری ج۹ص:۱۲۲

(۲)سورہ مائدہآیت :۵۵

(۱)تفسیر قرطبی ج: ۶ ص: ۲۸۸ ،تفسیر ابن کثیر ج: ۲ ص: ۷۲ مجمع الزوائد ج: ۷ ص: ۱۷ ،کتاب التفسیر، ،کتاب المعجم الاوسط ج: ۶ ص: ۲۱۸ ۔فتح القدیر ج: ۲ ص: ۳ ،زاد المسیر ج: ۲ ص: ۳۸۲ ،احکام القرآن جصاص،ج: ۴ ص: ۱۰۲ ،باب نماز میں معمولی فعل،روح المعانی ج: ۶ ص: ۱۶۷ ،شواہد التزیل،حسکانی ج: ۱ ص: ۲۱۱ ۔ ۲۱۰ ۔ ۲۰۹ ،تاریخ دمشق ج: ۴۲ ،ص: ۳۵۷ ،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں اور ج: ۵ ص: ۳۰۳ ،عمر بن علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،کنز العمال ج: ۱۳ ،ص: ۱۰۸ ،حدیث: ۳۶۳۵۴ ،و غیرہ منابع،

۳۴۲

اسی طرح پیغمبر ؐ نے بھی ولایت علی ؑ یہ کہہ کے ثابت کی ہے کہ((میرے بعد علی ہی تمہارے ولی ہیں))(۱) بلکہ نبی ؐ نے علی ؑ کو مومنین پر ان کے نفوس سے بھی اولیٰ قرار دیا ہے،حدیث غدیر آپ کے سابقہ سوالوں کے ساتویں سوال کے جواب میں گذرچکی ہے،حدیث غدیر کے سیاق سے امیرالمومنین ؑ کی امامت ثابت ہوتی ہے اس لئے کہ اولیٰ بالمومنین صرف وہی ہوسکتا ہے جس کے اندر مومنین کی قیادت کی صلاحیت ہو پس ثابت ہوا کہ امامت مکمل ہو ہی نہیں سکتی جب تک امام کو ماموم پر اولیت نہ حاصل ہو،اس کتاب کے مقدمہ میں اس سلسلے میں گفتگو ہوچکی ہے،اس کے علاوہ بھی بہت سی حدیثیں ہیں جو خاص طور سے علی ؑ اور عام طور سے اہل بیت ؑ کے حق میں وارد ہوئی ہیں ۔

فضائل علی ؑ و اہل بیت ؑ میں،میں نے یہ آیتیں اور حدیثیں پیش کردی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان تمام آیات و احادیث کے حوالہ اسناد بھی پیش کروں گا اور یہ کہ ہر حدیث و آیت کا مدلول کیا ہے؟اور ان آیات و احادیث پر کیا اعتراضات ہوئے ہیں؟دشمنان اہل بیت ؑ نے جو ان حدیثوں کے رخ کو موڑنا چاہا ہے اس کے مفہوم میں تحریف کی ہے اور شیعوں نے جو اس کے جوابات دیئے ہیں ان تمام باتوں کو میں اس وقت عرض کرنے کی حالت(پوزیشن)میں نہین ہوں،اگر چہ یہ سب کچھ لکھا جائے تو کئی جلد کتابیں تیار ہوجائیں گی اور گفتگو بہت طویل ہوجائے گی،اس سلسلے میں ہمارے علمائے ابرار ؓ نے جو کتابیں تحریر فرمائی ہیں اور ان آیات و احادیث کی جو چھان بین کی ہے وہی کافی ہے،میں نے بہت اختصار و اجمال سے کام لیا ہے اور جو کچھ بھی عرض کیا ہے وہ سند اور حوالے کا محتاج نہیں ہے ۔

----------------

( ۱) مجمع الزوائد ج: ۹ ص: ۱۲۸ ،سنن کبری نسائی ج: ۵ ص: ۱۳۳ ،کتاب خصائص خصوصیت علی بن ابی طالبؑ میں،المعجم الاوسط ج: ۶ ص: ۱۶۳ ،مسند احمد ج: ۵ ص: ۳۵۶ ،برید اسلمی کی حدیث میں،الفردوس بما ثور الخطاب ج: ۵ ص: ۳۹۲ ،فتح الباری ج: ۸ ص: ۶۷ ،تحفۃ الاحوذی ج: ۱۰ ،ص: ۱۴۷ ۔ ۱۴۶ ،فیض القدیر ج: ۴ ص: ۳۵۷ ،الاصابۃ ج: ۶ ص: ۶۲۳ ،وہب بن حمزہ کے حالات میں،الریاض النضرۃ ج: ۲ ص: ۱۸۷ ،تاریخ دمشق ج: ۴۲ ص: ۱۸۹ ،حالات علی بن ابی طالب،فضائل الصحابہ لابن حنبل ج: ۲ ص: ۶۸۸ ،البدایۃ و النہایۃ ج: ۷ ص: ۳۴۶ ۔ ۳۴۴ ،

۳۴۳

اسی طرح میرا مقصد یہ بھی نہیں ہے کہ ہر حدیث کے مدلول کی کوئی تعریف کروں کہ کونسی حدیث علی ؑ اور اہل بیت ؑ کی کس فضیلت پر دلالت کرتی ہے،بلکہ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ ایک انصاف پسند کو یقین آجائے کہ ایک طرف اہل بیت ؑ اور علی ؑ کے فضائل میں احادیث و آیات کا ذخیرہ موجود ہے جو متفق علیہ اور ناقبال انکار ہے،ان مضبوط دلیلوں کے مقابلے میں ابوبکر کی فضیلت میں ایک لولی لنگڑی اور مریض حدیث حادثہ صلوٰۃ کی ہے،کیا ان مضبوط دلائل کو چھوڑ کے اس اپاہج حدیث کی بنیاد پر ایک صاحب انصاف کی نظر میں علی ؑ کو محروم اور ابوبکر کو خلیفہ تسلیم کرلینا صحیح ہے؟انصاف آپ کے ہاتھ میں ہے ۔

ان تمام باتوں کا ماحصل یہ ہے کہ حقائق آپ کے سامنے ہیں اور ہر انسان کو اختیار ہے کہ جو اسے اچھا لگے وہ اپنالے اور آثار و قرائن کی بنیاد جو واقعیت سے قریب معلوم ہو اسے اختیار کر لے،البتہ مقصد رضائے پروردگار ہونا چاہئے اور خدا کے سامنے معقول عذر پیش کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئے اس لئے کہ ہم سب کو اسی کے سامنے پیش ہونا ہے اور اس کے سامنے کھڑے ہونا ہے،ارشاد ہوتا ہے((ایک دن آئے گا جب ہر نفس پنی انجام دی ہوئی نیکیوں کو اپنے سامنے موجود پائے گا اور جس نے برائیاں انجام دی ہیں وہ تمنا کریں گے کہ کاش ان کے اور ان کے اعمال کے درمیان ایک لمبا فاصلہ ہوتا،اللہ اپنے آپ سے تمہیں ڈ راتا ہے اور اللہ تو اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے))(۱) غالباً گذشتہ صفحات میں اور ابھی تھوڑی دیر پہلے بھی یہ بات عرض کی جاچکی ہے کہ بعض مورخین کے مطابق عام مہاجرین و انصار کو اس معاملے میں ذرا بھی شک نہیں تھا کہ خلافت علی ؑ کا حق ہے اور علی ؑ ہی پیغمبر ؐ کے بعد صاحب امر ہیں،جیسا کہ اہل بیت ؑ اور ایک بڑی جماعت بھی یہ سمجھ رہی تھی کہ خلافت اہل بیت ؑ کا حق ہے اور اہل بیت ؑ میں بھی خاص طور سے علی ؑ کا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ آل عمران آیت ۳۰

۳۴۴

خلافت ایک اہم منصب ہے،اس کی طرف صرف اشار کرنا کافی نہیں ہے

۴ ۔ خلافت کی اہمیت کے پیش نظر صرف اس کی طرف اشارہ و تلمیح سے کام لے کر خلیفہ کا معین کرنا کافی نہیں ہے،خصوصاً اس لئے بھی کہ یہ منصب اپنے اندر اتنی چمک اور کشش رکھتا ہے کہ ہر ایک کے دل میں اس کی خواہش پیدا ہوسکتی ہے اور کوئی بھی اس کی طمع کرسکتا ہے ۔

یہاں تو لوگ نصوص صریحہ کی تاویل کرنے سے باز نہیں آتے بلکہ ان کو اپنے مقصد کے مطابق توڑ مروڑ کے تحریف کرکے ان کے رخ کو اپنی طرف موڑ دیتے ہیں اور اصل منصوص بالخلافۃ کو محروم کردے رہے ہیں پھر اشارے کنائے کی کیا حیثیت ہے؟اشاروں سے غافل رہنا تو آسان ہے،جس طرح اشاروں سے کھیلنا آسان ہے،بلکہ اس طرح کے اہم امور میں اشاروں پر اکتفا کرنا تو فتنوں کو جنم دیتا ہے امت میں اختلاف کا سبب بنتا ہے،امت کو وادی حیرت و ضلال میں ڈ ال دیتا ہے،حالانکہ اسلام کی مضبوط شریعت ان کمزوریوں سے پاک ہے اور اسلام کا عظیم نبی ؐ ان نقائص سے منزّہ ہے ۔

حقیقت کا شبہات سے پاک ہونا ضروری ہے

سابقہ سوالوں کے جواب میں یہ بات عرض کی جاچکی ہے کہ حقیقت روشن ہوتی ہے،اس میں شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہوتی،اس لئے کہ خداوند عالم نے اس کے لئے حجت کا فیہ کا انتظام کیا ہے،جس سے انکار وہی کرےا جس کو حق سے دشمنی ہوگی یا پھر وہ انکار کرے گا جو حق کو محض غفلت اور سستی کی وجہ سے ٹالنا چاہتا ہے اور خدا کے نزدیک ان دونوں کے پاس کوئی عذر نہیں ہے ہمارے لئے بہتر یہی ہے کہ اس سلسلے میں کافی وقت نظر کے ساتھ حقیقت کا یقین اور اس کی حد بندی کرلیں گذشتہ باتوں کی بنیاد پر ہم اس حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں،لیکن اس کے ان مضامین کا بلکہ اکثر مضامین کا تذکرہ کرنا بہتر ہے ۔

۳۴۵

دعوتِ اصلاح کے راستے میں رکاوٹیں

اصلاحی دوتوں کو بہت سی رکاوٹوں اور مشکلوں کا سامان کرنا پڑتا ہے،یہ مشکلات دعوت کی نشر و اشاعت کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہیں اور سماج کے ہر طبقہ تک نہیں پہنچنے دیتی ہیں یہ مشکلیں دعوت کے اوامر و نواہی میں مانع ہوتی ہیں اور ان کی تنقید نہیں ہوپاتی،ایسا یا تو دعوت کی کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے یا وہ خارجی عوامل ہیں جن کی وجہ سے دعوت کے پھیلنے میں تاخیر،بلکہ تعویق ہوتی ہے۔

سب سے بڑی رکاوٹ خود اہل دعوت کا داخلی اختلافات ہوتا ہے

دعوت اصلاح کے سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ اہل دعوت کا داخلی اختلافات ہوتا ہے جو ان کے ذاتی اجتھاد کا نتیجہ ہوتا ہے یا پھر یہ کہ لوگ جان بوجھ کے اپنے اغراض و اھداف کے مطابق ان کی تحریف کرلیتے ہیں اور دعوت کو اس کی حدوں سے باہر نکال دیتے ہیں تا کہ اس تحریف سے وہ مقاصد حاصل ہوسکیں جو دعوت کے خلاف یا اس کو نقصان پہنچانے والے ہیں،اکثر تو ایسا ہوتا ہے کہ داخلی اختلافات اور ذاتی اجتھاد کی وجہ سے خود دعوت کا چہر مسخ ہوجاتا ہے اور اصلاح کی دعوت کو موت آجاتی ہے ۔

اختلاف و افتراق ہی کے درمیان آسمانی مذہب کی جانچ ہوجاتی ہے

آسمانی مذہب کی جانچ پرکھ تو اسی اختلاف و افتراق پر منحصر ہے،اس لئے آسمانی مذہب کسی بھی کمی یا نقص سے پاک ہوتا ہے،کیونکہ آسمانی مذہب اس خدائے واحد و عادل کی طرف سے صادر ہوتا ہے،جو مدیر،لطیف خبیر،علیم اور حکیم ہے ۔(۱) (( گوشہ چشم کے اشاروں کے ساتھ دلوں کے حالات بھی جانتا ہے))اس کی نظر سے آسمان و زمین کا کوئی ذرہ بھی پوشیدہ نہیں ہے(۲) اور وہ ہر چیز پر محیط ہے اس پروردگار کی طرف سے جو بھی نظام آئے گا وہ اسکا مشروع کیا ہوا ہوگا،سب سے کامل نظام ہوگا اور جہاں بھی وہ نظام بھیجا جائے گا وہاں کے ماحول کے مطابق ہوگا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ غافر آیت: ۱۹ (۲) سورہ سبا آیت: ۳

۳۴۶

قرآن مجید،اختلاف سے بچنے کی سخت ہدایت کرتا ہے

یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید اختلاف و افتراق سے بچنے کی سخت تاکید کرتا ہے اور وحدت اور اتفاق کی پر زور دعوت دیتا ہے ارشاد ہوتا ہے((اور خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور اختلاف نہ کرو)(۱) دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے:ان کے جیسے نہ ہوجاؤ جنہوں نے آپس میں اختلاف کیا اور روشن نشانیاں آنے بعد متفرق ہوگئے،ان کے لئے بڑا عذاب ہے ۔(۲)

پھر ارشاد ہوتا ہے : وہ لوگ جو اپنے دین میں تفرقہ پیدا کرکے ایک الگ گروہ بناتے ہیں آپ ان سے کوئی مطلب نہیں ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ، پھر انھیں بتایا جائے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں(۳)

نبی کا اعلان کہ امت میں فرقے ہوں گے

اس کے ساتھ ہی پیغِمبر اعظم ؐ نے بھی بارہا اعلان کیا کہ امت میں اختلاف ہوگا اور فرقے پیدا ہوجائیں گےٹھیک اسی طرح جیسے سابقہ امتوں میں اختلاف ہوچکا ہے،آپ نے فرمایا:یہودیوں کے اکہتر فرقے ہوئے ایک جنتی بقیہ جہنمی ہیں،نصرانیوں کے بہتر فرقے ہوئے ایک جنتی اور اکہتر جہنمی ہیں اور یہ(میری)امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوگی،بہتر جہنمی اور ایک جہنمی اور ایک جنتی ہوگا ۔(۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ آل عمران آیت:۱۰۳

(۲)سورہ آل عمران آیت:۱۰۵

(۳)سورہ نعام آیت:۱۵۹

(۴)مجمع الزوائد ج:۶ص:۲۳۳،کتاب قتال اہل بغی باب خوارج اور ج:۷ص:۲۵۸،کتاب فتن،باب امتوں کا مختلف فرقوں میں بٹ جانا،اور سنتوں کی پیروی کرنا،تفسیر قرطبی ج:۴ص:۱۶۰،تفسیر ابن کثیر ج:۲ص:۷۸،سنن درامی ج:۲ص:۳۱۴،کتاب سیر باب امتوں کا آپس میں فرقہ فرقہ ہونا،مصابح الزجاجۃ ج:۴ص:۱۷۹،کتاب فتن،امتوں کا آپس میں بٹ جانا،مسند ابی یعلی ج:۶ص:۳۴۱،وہ روایات جو ابونضرہ بن انس سے کی ہے،معجم الکبیر ج:۸ص:۲۷۳،اعتقاد اہل سنت ج:۱ص:۱۰۳،السنۃ لابن عاصم ج:۱ص:۳۲،الترغیب و الترھیب ج:۱ص:۴۴،حلیۃ الاولیاء ج:۳ص:۲۲۷)

۳۴۷

یہ روایت ان حدیثوں کے مطابق ہے جو سرکار دو عالم ؐ سے تواتر کے ساتھ وارد ہوئی ہیں(کہ امت مسلمہ سابقہ امتوں کے راستے پر چلے گی)حدیث میں ہے کہ(بیشک تم ضرور پیروی کروگے اپنے پہلے والوں کے قدم بہ قدم اور دست بہ دست،اگر وہ بجوکے سوراخ میں بھی داخل ہوتے تھے تو تم بھی داخل ہوگے)راوی نے پوچھا کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد گذشتہ لوگوں سے یہود و نصاریٰ ہیں؟آپ نے فرمایا پھر کون؟(۱)

اس لئے سابقہ امتوں کے افتراق میں شک کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں ہے،قرآن مجید بہت وضاحت سے ان کے اختلاف پر روشنی ڈ التا ہے ۔

مسلمانوں کو فتنوں سے ڈرایا گیا اور انہیں خوف دلایا گیا

افتراق امت کی پیش گوئی کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو اکثر فتنوں سے ڈ رایا گیا اور ان کے برے انجام سے آگاہ کیا گیا،انہیں بتایا گیا کہ ان کا امتحان لازمی ہے اور آزمائش حتمی ہے،ارشاد ہوتا ہے کہ:((وہ لوگ جو امر الٰہی کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈ رنا چاہئے کہ انہیں یا تو کوئی فتنہ دبوچ لے گا یا وہ عذاب الیم سے دوچار ہوجائیں گے)) ۔(۲) ایک مقام پر ارشاد ہوا ہے کہ:اس فتنہ سے ڈ رو جو خاص ان لوگوں کو نہیں پہنچے گا جنھوں نے ظلم کیا ہے اور یہ جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے(۳) اور پھر ارشاد ہوا:محمد نہیں ہیں مگر رسول ان کے پہلے بھی رسول گذرچکے ہیں،پس اگر وہ مرجائیں یا قتل ہوجائیں تو کیا تم اپنے پچھلے مذہب پر واپس ہوجاؤگے؟اور جو اپنے پچھلے پیروں واپس ہوگا اس سے خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا،خدا عنقریب شکرگذاروں کو جزا دے گا ۔(۴) ارشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) صحیح بخاری ج: ۶ ص: ۲۲۶۹ ،اور ج: ۳ ص: ۱۲۷۴ ،سنن ابن ماجہ ج: ۲ ص: ۱۳۲۲ ،کتاب فتن،امتوں کا آپس میں فرقہ فرقہ ہونا،مجمع الزوائد ج: ۷ ص: ۲۶۱ ،مستدرک علی صحیحین ج: ۱ ص: ۹۳ ،صحیح ابن جبان ج: ۱۵ ص: ۹۵ ،مسند احمد ج: ۲ ص: ۵۱۱ ۔ ۳۲۷ ،مسند ابی ہریرہ ج: ۳ ص: ۸۹ ،مسند طیالسی ج: ۲ ص: ۲۸۹ ،

( ۲) سورہ نور آیت: ۶۳ (۳) سورہ انفال آیت: ۲۵ (۴) سورہ آل عمران آیت: ۱۴۴

۳۴۸

خداوند ہوا کہ((کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ انھیں یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا اور آزمایا نہیں جائے گا؟اس سے پہلے بھی ہم لوگوں کو آزماچکے ہیں اور اللہ تو جانتا ہی ہے کہ ان میں جھوٹا کون ہے اور سچا کون ہے؟(۱) ایک مقام پر خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے((اللہ مومنین کو اسی حال میں نہیں چھوڑ دےگا جیسے تم ہو یہاں تک کہ خبیث اور طیب الگ الگ ہوجائے اللہ تمہیں غیب کی خبر نہیں دینے جارہا ہے ۔(۲)

سرکار دو عالم ؐ نے فرمایا:ہمارے بعد کا فرمت ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو))اور حدیث حوض میں آپ نے ارشاد فرمایا:

لیکن تم نے میرے بعد بہت سے حرکتیں انجام دیں اور پچھلے مذہب پر رجعت قہری کر بیٹھے))اس کے علاوہ بھی بہت سی حدیثیں ہیں جو آپ کے سابقہ سوالوں میں سے دوسرے سوال کے جواب میں پیش کی جاچکی ہیں ۔

اختلاف کے نتائج سے آگاہ کیا گیا اور اس کے خطروں سے خبردار کیا گیا

کسی بھی حقیقت پسند انسان کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ فتنوں سے بچنے کے لئے اور اختلاف سے پرہیز کی ہدایت کے لئے جو آیتیں اور احادیث وارد ہوئی ہیں ان کے مضامین بہت سخت ہیں اور ان میں بھیانک نتائج سے متنبہ کیا گیا ہے مثلاً جو لوگ اس فتنے میں ملوث ہوں گے انھیں انقلاب پذیر،مرتد،خبیث اور کافر جیسے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے،یہ فیصلہ کردیا گیا ہے کہ جو حق کی مخالفت کرکے کوئی فرقہ بنائے گا وہ اپنے فرقہ کے ساتھ جہنم میں جائے گا اس لئے کہ فرقہ حق سے خروج کے بعد کفر سے الحاق لازمی ہے،جو خسران اور ہلاکت کا سبب ہے،صرف اسلام کی ظاہری صورت اور اس کا اعلان دعوت کسی بھی طرح نفع بخش نہیں ہوگا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ عنکبوت آیت: ۲ ۔ ۳

( ۲) سورہ آل عمران آیت: ۱۷۹

۳۴۹

قرآن مجید نے سابقہ امتوں کے کردار کو مقام مثال میں رکھ کے سمجھایا ہے ارشاد ہوا:اور ان لوگوں کی طرح مت ہوجاؤ جنھوں نے فرقے بنائے اور روشن آیتیں آنے کے بعد بھی اختلاف کر بیٹھے،ان کے لئے تو بڑا عذاب ہے،اس دن کچھ چہرے نورانی اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے ان سے کہا جائے گا کہ کیا تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے اب اپنے کفر کا مزہ چکھو اور جن کے چہرےنورانی ہوں گے وہ تو اللہ کی رحمت کے سائے میں ہوں گے اور ہمیشہ رحمت میں ہی رہیں گے ۔(۱)

ارشاد خداوندی ہوا کہ:((اللہ چاہتا تو وہ لوگ جنھوں نے دلیلیں آنے کے بعد بھی آپس میں قتال کیا نہ کرتے لیکن انھوں نے اختلاف کیا پس ان میں سے کچھ تو مومن ہی رہے اور کچھ کافی ہوگئے)) ۔(۲)

ایک اور مقام پر ارشاد ہوا:((اس سے اختلاف کرنے والے تو صرف بغاوت کی بنا پر اختلاف کر رہے ہیں اس لئے کہ یہ اختلاف،ان کے پاس نشانیاں آنے کے بعد شروع ہوا ہے،پس صاحبان ایمان کو تو اللہ نے ہدایت پر باقی رکھا اور اس اختلاف سے انھیں اپنی اجازت سے بچائے رکھا اور اللہ جسے چاہتا ہے راہ مستقیم کی ہدایت کرتا ہے))(۳)

خطرناک اختلاف کے پیش نظر واضح و آشکار حجت کا ہونا لازم ہے

دین میں اختلاف،ایک خطرناک اختلاف ہے،دین میں فرقہ بندی ایک بہت ہی نقصان دہ عمل ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس کے خلاف واضح حجت اور کافی مواد موجود ہوتا کہ اگر کوئی دین سے خارج ہوجائے تو روز قیامت یہ عذر نہ پیش کرسکے کہ ہم کیا کریں؟سمجھ نہیں پائے بلکہ دلیلیں اتنی واضح ہونی چاہئیں کہ جو دین سے خارج ہوتا ہے وہ صرف اپنے دل کی گندگی و شقاوت ہی کی بنیاد پر نکلے یا پھر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ آل عمران آیت: ۱۰۵ ۔ ۱۰۷

( ۲) سورہ بقری آیت: ۲۵۳

( ۳) سورہ بقری آیت: ۲۱۳

۳۵۰

پھر اس وجہ سے کہ وہ چمگادڑ کی طرح اندھا ہی رہنا چاہتا ہے اور حق کو دیکھنا ہی نہیں چاہتا اس کے سامنے سورج موجود ہے لیکن آنکھوں کو بند کئے پڑا ہے،سچائی سے غفلت یا تو اندھی تقلید کی وجہ سے ہے یا بےجا تعصب کی وجہ سے یا کوئی ایسا سبب ہے جسے کوئی معقول عذر نہیں کہا جاسکتا ۔ ارشاد درب العزت ہوتا ہے((ہم نے جہنم کے لئے بہت سے ایسےانسان و جنّات پیدا کئے ہیں جن کے پاس آنکھیں ہیں لیکن وہ دیکھ نہیں سکتے،کان ہے لیکن وہ سنتے نہیں ہیں،دل رکھتے ہیں لیکن سمجھاتے نہیں،وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے زیادہ گمراہ،اصل میں وہ غافل لوگ ہیں ۔(۱)

آپ جانتے ہیں کہ انبیا کی بیعثت کا اہم ترین مقصد یہ ہے کہ حق پر حجۃ کا فیہ قائم ہوجائے،ہدایت کی علامتیں اور ایمان کے راستے واضح ہوجائیں تا کہ انسان جہنم سے بچنے اور جنت کے حاصل کرنے کا طریقہ جان لے،((تا کہ جو ہلاکت ہو وہ بغیر دلیل کے ہلاک نہ ہو اور جو زندہ رہے وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے))(۲) (( اور تا کہ پیغمبروں کے بھیجنے کے بعد لوگوں کو خدا کے خلاف کوئی حجت میسر نہ ہو))(۳) ارشاد خدائے تعالیٰ ہوتا ہے:((خدا کسی قوم کی ہدایت کرنے کے بعد گمراہ نہیں کیا کرتا،جب تک ان چیزوں کو واضح نہ کردے جن سے انھیں ڈ رنا ہے،اللہ تو ہر چیز سے واقف ہے))(۴)

اسی طرح کے مضامین آیات کریمہ اور احادیث شریفہ سے مستفاد ہوتے ہیں جب اللہ یہ کہہ چکا ہے،خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور فرقے نہ بناؤ(۵) اور یہ بھی ارشاد ہوا کہ((بیشک یہ میرا راستہ ہے جو بالکل سیدھا ہے،پس اس کی پیروی کرو اور دوسرے راستوں کی پیروی نہ کرو،ورنہ تم خدا کے راستہ سے الگ ہوجاؤگے،اللہ اسی بات کی تم سے سفارش کرتا ہے تا کہ تم صاحب تقویٰ ہوجاؤ)) ۔(۶)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ اعراف آیت:۱۷۹ (۲)سورہ انفال آیت:۴۲

(۳)سورہ نسائ آیت:۱۶۵

(۴)سورہ توبہ آیت:۱۱۵

(۵)سورہ آل عمران آیت:۱۰۳

(۶)سورہ انعام آیت:۱۵۳

۳۵۱

تو جب فرقہ بنانا اور اختلاف پیدا کرنا اتنا بڑا گناہ اور خطرناک عمل ہے تو کیا رفع اختلاف کے لئے یہ کافی ہے کہ حق کو مبہم چھوڑ دیا جائے کہ حبل متین کو شک کے تانے بانے میں الجھا دیا جائے یہ نہ بتایا جائے کہ حبل متین سے اعتصام کیسے ہوگا؟صراط مستقیم کیا ہے؟اور اس کی پیروی کرنے والوں کے لئے کیسے تحقق ہوگا؟سب کچھ تشنہ تفسیر رہے اور لوگوں کو اپنے طور پر اجتھاد کرنے کی کھلی چھوٹ مل جائے اس کے بعد پھر ہر فرقہ یہ دعویٰ کرنے لگے کہ حق تو فقط اسی کے پاس ہے اور دوسرے افراد باطل والے ہیں نہیں:بلکہ حق یہ ہے کہ خداوند عالم عادل اور کریم ہے،وہ کبھی نہیں چاہتا کہ اس کے بندے جہنم کے ایندھن بنیں،وہ یہ نہیں چاہتا کہ بندوں کے پاس جہالت کو رفع کرنے کے لئے واضح حجت نہ ہو اور قطعی عذر نہ ہو،خدا نہیں چاہتا ہے کہ حق کے بارے میں شک کی تھوڑی سی بھی گنجائش باقی رہ جائے اور نہ اتنا پیچیدہ ہوجائے کہ اصول کے بارے میں اجتھاد،تلاش،غور و فکر کی ضرورت محسوس کی جائے ۔

یہ تمام باتیں اس لئے عرض کررہا ہوں تا کہ آپ کو اس بات کا یقین ہوجائے کہ جب لوگ حقیقت سے اختلاف کی کوشش کرتے ہیں اور حق کو شک کے گھیرے میں لیکر بحث و مناظرہ کرتے ہیں تو حق کے پاس اپنے ثبوت کے لئے بہت ہی محکم دلیلیں اورروشن نشانیاں ہوتی ہین جن سے انکار کی بنیاد صرف دشمنی یا سیاہ بختی ہی ہوسکتی ہے ۔

اس بات کی مزید تائید خداوند عالم کے اس قول سے ہوتی ہے ارشاد ہوا((ان کے جیسے نہ ہوجانا جو دلیلیں آنے کے بعد بھی فرقہ بن گئے اور اختلاف کر بیٹھے(۱) اس لئے کہ اختلاف و فرقہ بندی سے روکنے کے لئے کافی دلیلیں موجود تھیں اگر وہ لوگ اس کی پیروی کرتے اور عمداً ان دلیلوں کو نظرانداز نہ کرتے تو حق تک بہرحال پہنچ سکتے تھے ۔

خود سرور کائنات ؑ نے ارشاد فرمایا کہ:میں نے تمہیں روشنی میں کھڑا کردیا ہے،اس(روشنی)میں لا کے چھوڑا ہے جس کی راتیں بھی دن کی طرح روشن ہیں،اس کے باجود بھی گمراہ نہیں ہوگا مگر وہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ آل عمران آیت:۱۰۵

۳۵۲

جس کے مقدر میں ہلاکت ہے ۔(۱)

اس لئے کہ حق واضح اور روشن ہے اگر امت خلوص دل سے طلب کرنے کی کوشش کرے تو ہرگز محروم نہیں رہے گی،فتنہ پرور راتیں اور امتحان کے اندھرے شبہ کی تاریکیاں،حق پر پردہ نہیں ڈ ال سکتی ہیں اور حق کی علامتوں کو ضائع کرسکتی ہیں نہ اس کے آثار مٹاسکتی ہیں،بشرطیکہ چشم بینا اور گوش شنوا ہو ۔

اختلاف کا سب سے بڑا سبب ریاست طلبی ہے

حق تو یہ ہے کہ اختلاف اور فرقہ بندی کا سب سے بڑا سبب اقتدار و حکومت ہے،لوگوں پر حکومت کرنے کی خواہش اور انسانوں پر تسلّط حاصل کرنے کا جذبہ وہ ہے جس کی وجہ سے دعوت اصلاح دینے والوں کے درمیان اختلاف اور انتشار پیدا ہوتا ہے

۱ ۔ ہر انسان میں فطری پر حکومت و اقتدار کی خواہش ہوتی ہے اور کبھی کبھی یہ جذبہ بہت شدید ہوجاتا ہے،نتیجہ میں انسان حکومت وقت سے اختلاف کر کے اپنا ایک الگ گروہ بنا لیتا ہے

۲ ۔ حق بہرحال تلخ ہوتا ہے اور حق کی حکومت کو عام انسان برداشت کرنے میں مشکل محسوس کرتا ہے حالانکہ دعوت اصلاح کا پہلا اصول حکومت حقّہ کا قیام اور حق کا نفاذ ہے،ظاہر ہے کہ حق کو اکثریت برداشت نہیں کر پاتی اور اس کے خلاف علم بغاوت بلند کردیتی ہے چونکہ اصول پرست افراد جو حکومت حقہ کے ذمہ دار ہوتے ہیں،وہ حرف بہ حرف قانون کے پابند ہوتے ہیں اور قانون کی پابندی کرنا چاہتے ہیں،یہ بات بھی عام لوگوں پر گراں گذرتی ہے ۔

اسی کی طرف عمر بن خطاب نے اشارہ کیا تھا،جب امر خلافت کے سلسلے میں ابن عباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) مسند احمد ج: ۴ ص: ۱۲۶ ،تفسیر قرطبی ج: ۷ ص: ۱۳۸ ،مستدرک علی صحیحین ج: ۱ ص: ۱۷۵ ،السنۃ لابن ابی عاصم ج: ۱ ص: ۱۹ ،معجم الکبیر ج: ۱۸ ص: ۲۴۷ ۔ ۲۵۷ ،مصباح الزجاجۃ ج: ۱ ص: ۵ ۔

۳۵۳

سے ان کی گفتگو ہورہی تھی تو عمر نے کہا تھا:خدا کی قسم اے ابن عباس!بے شک تمہارے چچازاد بھائی علی ؑ خلافت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں لیکن قریش ان کو برداشت نہیں کرپائیں گے،اس لئے کہ اگر انھیں حاکم بنادیا جائے تو وہ قریش کو حق کی تلخی کا مزہ چکھا کے رہیں گے،ان کی حکومت میں رخصت کی گنجائش نہیں ہوگی،نتیجہ میں لوگ ان کی بیعت توڑ دیں گے اور ان سے جنگ کرنا شروع کردیں گے ۔(۱) امام جماعت ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس آدمی کے اندر امامت عامّہ کی بھی صلاحیت ہے ۔

اسلام میں پہلا اختلاف سلطنت ہی کے لئے ہوا اور یہ سب سے خطرناک اختلاف تھا

یہاں یہ بات بھی عرض کرتا چلوں کہ سب سے بڑا اور سب سے پہلا اختلاف جو امت اسلامیہ میں پیدا ہوا وہ خلافت و امامت کے سلسلے میں ہوا اور مصیبت یہ ہے کہ جیسے ہی حضور اکرم ؐ کی وفات ہوئی اس عظیم اختلاف میں امت مبتلا ہوگئی ۔

امامت اور خلافت کے موضوع پر صدر اسلام میں اتنے فتنے پیدا ہوئے،وہ چیخ پکار مچی اور اتنا ہنگامہ ہوا کہ جو بیان کے لائق نہیں ہے،یہاں تک کہ مخالفین اسلام بھی مسلمانوں پر طعن و تشنیع کرنے لگے اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔

لٰہذا ہمیں اس بات پر غور کرنا بہت ضروری ہے کہ جب امامت اسلام کا سب سے اختلافی مسئلہ ہے تو اللہ نے اسے تشنہ تفسیر نہیں چھوڑا ہوگا بلکہ اس مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر اور اس میں گنجائش اختلاف ہونے کی وجہ سے اللہ نے سب سے زیادہ اسی کی وضاحت پر زور دیا ہوگا،اس مسئلہ کی شرعی حیثیت اور قانونی اہمیت کے پیش نظر اس کو سب سے زیادہ روشن،واضع صاف اور کھلا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ یعقوبی ج:۲ص:۱۵۹،عمر بن خطاب کے ایام میں

۳۵۴

ہوا ہونا چاہئے کہ یہ فتنہ انگیز راتوں میں بھی سورج کی طرح چمکتا ہوا نظر آئے تا کہ اتمام حجت کے بعد بھی اگر کوئی اختلاف کرے،روشن دلیلوں کے بعد بھی اگر کوئی ہٹ دھرمی سے کام لے،حجتوں کے غلبے کے باوجود اگر کوئی اختلاف پر اصرار کرے تو نگاہ اعتبار فوراً یہ فیصلہ کرلے کہ اس اختلاف کے نتیجہ میں مخالف کو صرف گمراہی،ہلاکت،ہمیشہ کا نقصان اور جہنم کا ٹھکانہ نصیب ہوگا ۔

اسلام،معرفتِ امام کو سختی سے واجب اور اس کی اطاعت فرض قرار دیتا ہے

مندرجہ بالا مضمون کی تائید میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں جیسے((جو مرجائے اور اپنے امام وقت کو نہ پہچانے وہ جاہلیت کی موت مرا ہے))یا((جو بغیر امام کے مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرا ہے))اسی طرح کی بہت سی حدیثیں جو سابقہ سوالوں کے چوتھے سوال کے جواب میں گذرچکی ہیں ۔

ان احادیث سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ امام کو نہ پہنچاننے والا سخت سزا کا مستحق ہے،بلکہ ہلاکت کا حقدار ہے اور امام وقت کو امام تسلیم نہ کرنے سے اور اس کا یقین نہ رکھنے سے مخالف امام کے خلاف حجت واضحہ قائم ہوجاتی ہے،جس حجت سے نکلنانا ممکن ہے اور جہالت کا عذر ناقابل قبول ہے ۔

حاکم برحق کی مادی کمزوری یہ ہے کہ وہ قانون شرع میں رعایت نہیں کرتا

خصوصاً حاکم صالح کی اصول پسندی جس کی وجہ سے وہ نظام الٰہی کو چلانے کی ذمہ داری کا حامل ہوا،اس کو اجازت نہیں دیتی کہ حکومت کو برقرار رکھنے کے لئے اور اپنی سلطنت کو چلانے کے لئے شریعت کے معاملے میں نرم پالیسی اختیار کرے اور سیاست سے کام لے اور یہی اس کی مادّی کمزوری ہے جسے اگر وہ دور کرنا چاہے تو اسے دین سے سودے بازی کرنی پڑے گی اور اس کے بدلے میں قانون الٰہی کو اس کی تمام وضاحتوں کے ساتھ چھوڑ دینا پڑے گا،دین کی سختی اور تیزی جس کے اوپر عمل کے مطابق وعد و وعید کا ترتب ہوتا ہے اسے چھوڑنی پڑے گی،لیکن اس کی اصول پسندی اس بات کو گوارہ

۳۵۵

نہیں کرے گی بلکہ وہ تو نفاذ قانون میں اتنا سخت ہوتا ہے کہ اہل دین تقویٰ اور اپنے خاص لوگوں کو بھی شریعت کے حدود سے آگے نہیں بڑھنے دیتا،اگر چہ وہ لوگ اس کی دعوت کا اعلان کرنا چاہتے ہیں اور حق سے متمسک بھی رہتے ہیں،لیکن وہ انھیں دین کی حدود سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دیتا،تا کہ ان کے ذریعہ وہ دوسروں پر حجت قائم کرے اور انہیں اہل دین کو ایک نمونہ بنا کے پیش کرسکے ۔

ناممکن ہے کہ نبیؐ نے امامت کی طرف صرف اشارے پر اکتفا کی ہو

اسی وجہ سے یہ بات عقل میں نہیں آتی اور عام آدمی اسے ناممکن سمجھتا ہے کہ نبی ؐ نے امر خلافت کی وضاحت کے لئے صرف تلمیحات،اشارات اور کنایات پر اکتفا کیا ہے،صورت مسئلہ کا تو تقاضا یہ ہے کہ یہاں بیان صریح ہونا چاہئے اور ایسی وضاحت ہونا چاہئے جس میں شک کی کوئی گنجائش اور اشتباہ کا کوئ شائبہ بھی نہ رہ جائے کہ اگر کوئی حد سے نکلے بھی تو محض اپنے عناد اور دشمنی کی وجہ سے یا پھر وہ ایسا جاہل ہو جس کی جہالت کا عذر ناقابل قبول ہو،آپ نے ابھی جو فرمایا کہ حادثہ صلواۃ میں امامتِ ابوبکر کی طرف اشارہ ملتا ہے تو آپ کو یہ جاننا چاہئے کہ مسئلہ امامت،اشارات و کنایات سے حل ہونے والا نہیں ہے،اس کے لئے تو واضح اور روشن دلیل چاہئے ۔

اسلام کے پاس ایسے نظام کا ہونا ضروری ہے جو خلافت کی تکمیل کرتا ہو!

۵ ۔ پانچویں بات یہ ہے کہ امر خلافت اسلام کا سب سے اہم مسئلہ بھی ہے اور سب سے زیادہ الجھا ہوا مسئلہ بھی ہے،یہ ناممکن ہے کہ نبی ؐ نے صرف ابوبکر کی امامت کی طرف اشارہ کو کافی سمجھا ہو یا کسی دوسرے شخص کی طرف اشارہ کردیا ہو،بلکہ کسی ایک شخص کو امام معیّن کرنا بھی کافی نہیں ہوگا چاہے کتنی ہی وضاحت کے ذریعہ معیّن کیا جائے ۔

یہاں تو ضرورت ایک ایسے نظام کام کی ہے،ایک ایسے پیمانے کی ہے کہ جو پیمانہ ہمیشہ ہمیشہ تک قائم رہے کہ جب بھی کوئی امام دنیا سے اٹھے دوسرے امام اسی اصول و ضوابط کے معیار پر معیّن

۳۵۶

ہوجائے یعنی ایک معیار ہونا چاہئے جس کے مطابق امام کی شناخت ہوسکے،نظام بھی ایسا ہو جو واضح دلیلوں اور روشن حجتوں کا حامل ہو جس سے مسلمان کسی بھی دور میں اختلاف نہ کرسکے اور جس کی مخالفت کے لئے کوئی عذر نہ پیش کرسکے،چونکہ اسلام رہتی دنیا تک باقی رہے گا اس لئے وہ نظام جس کے معیار پر خلیفہ کا تعّین ہوتا ہے،اسے بھی اتنا پائدار ہونا چاہئے کہ وہ رہتی دنیا تک قائم رہے ۔

آپ کے سابقہ سوالوں کے چوتھے سوال کے جواب میں یہ تمام باتیں عرض کی جاچکی ہیں،ظاہر ہے کہ انہیں دُہرانے کی یہاں ضرورت نہیں ہے،جو حق کو پہچاننا چاہتا ہے،حقیقت تک پہنچنا چاہتا ہے اور اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ ان عبارتوں کا مطالعہ کرے ۔

آپ کے سوالوں کا یہی جواب ممکن ہوسکا ہے،میں اللہ سے مدد اور توفیق،تسدید اور تائید کا سوال کرتا ہوں،وہی ہمارے لئے کافی ہے اور بہترین وکیل ہے ۔

۳۵۷
۳۵۸

سوال نمبر ۔ ۷

کیا یہ صحیح ہے کہ ائمہ ہدیٰ علیہم السلام ہی معاملات زندگی اور ضروریات دین کے علم سے مخصوص ہیں،دوسرے لوگ نہیں،جب کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ((آج میں نے تمہارے دین کو کامل کیا،تم پر نعمتیں تمام کیں اور میں تمہارے لئے دین اسلام سے راضی ہوا،(۱)

جواب: ۔ اس سوال کے جواب میں چند باتیں عرض کی جارہی ہیں

ائمہؑ کا علم دین سے اختصاص اکمال دین کے منافی نہیں ہے

۱ ۔ پہلی بات یہ کہ ائمہ ہدی علیہم السلام کا اختصاص بالعلم،اکمال دین کے منافی نہیں ہے اس لئے کہ اکمال دین کا مطلب ہے اس کے تمام احکام کی تشریع ہونا اور امت کے حق میں اسے صحیح قرار دینا،لیکن لوگوں تک اس دین کا پہنچنا اور اس کی تبلیغ معنائے اکمال سے خارج ہے،یہ تو ایک الحاقی مرحلہ ہے جو قانون بننے اور اس قانون کو صحیح قرار دینے کے بعد کی ضرورت ہے ۔

مثلاً ہمارے اس دور میں بھی قانون ساز اسمبلی یا کونسل قانون بناتی ہے اور تا امکان ایسے قوانین(جو ضروریات انسانی کے تقاضوں کو پورا کرنے میں کامل صلاحیت رکھتے ہیں)وضع کرتی ہے،پھر اس قانون کو می ڈ یا کے حوالے کرتی ہے تا کہ اس کا اعلان سرکاری جریدوں میں یا ری ڈ یو و غیرہ پر ہوجائے کیونکہ قانون بنانے کا فائدہ اس وقت تک حاصل نہیں ہوگا جب تک قانون لوگوں تک پہنچا نہ دیا جائے تا کہ لوگ اس پر عمل کرنا شروع کردیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں،اب دین اسلام کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ مائدہ آیت ۳

۳۵۹

طرف آئیں،اللہ نے اسلام کا قانون وضع کیا،لیکن صرف قانون وضع کردینے سے لوگوں کو کای فائدہ ہوا؟اس لئے لطف الٰہی کے قاعدہ کو تسلیم کرتے ہوئے فرقہ امامیہ کہتا ہے کہ اس کی حکمت اور لطف و کرم کا تقاضا یہ ہے کہ وہ پیغمبروں اور اماموں کو بھیجے،یہ ارسال(انبیا و ائمہ علیہم السلام کا خدا کی طرف بھیجا جانا)اس پر واجب ہے،لیکن یہ ایک دوسری بات ہے اس کا اکمال دین سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یعنی دین کا کامل ہونا اس کی تبلیغ پر موقوف نہیں ہے ۔

اتنا ہی بتا دینا کافی ہے کہ احکام دین کا مرجع کون ہے؟

لیکن اکمال دین کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امت کہ ہر فرد کو احکام دین سے واقف کرادیا جائے اور دین کا ہر فرعی حکم ان تک بلکہ ان میں سے ہر ایک تک پہنچا دیا جائے،بلکہ حصول علم کا امکان پیدا کردینا کافی ہے اور یہ امکان اس وقت بہرحال حاصل ہوجاتا ہے جب ائمہ ؑ کے بارے میں یہ مان لیا جاے کہ وہ اللہ سے علم حاصل کرتے ہیں اور ان کے پاس علم حاصل کرنے کا طریقہ اور ذریعہ موجود ہے،یہی وجہ ہے کہ وہ امت پر امام نصب کیے گئے ہیں،انھیں اللہ نے حلال اور حرام کی دلیل بنایا ہے،تشریع و احکام کی معرفت کا مرجع قرار دیا ہے،انھیں کو امت کے اوپر حجت کافیہ بنایا ہے تا کہ امت دین کے معاملات میں ان کی طرف رجوع کرے اور ان سے دین کو سمجھے ۔

اسے یوں سمجھ لیجئے کہ دور نبی ؐ میں بھی امت کے تمام افراد تو دین کے قوانین اور اس کے تمام احکام سے واقف نہیں تھے،دین کے تمام احکام کا علم تو صرف نبی ؐ سے مخصوص تھا البتہ امت کے لئے یہ ممکن تھا کہ نبی ؐ کی طرف رجوع کرکے دین کے احکام و قوانین کو حاصل کرلے،اس لئے امت کو نبی ؐ کی اطاعت کا حکم دیا گیا تھا اور یہ کہ نبی ؐ سے دین حاصل کریں ۔

بلکہ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جمہور اہل سنت کے نزدیک بھی عام مسلمان ہر دور میں احکام دین سے جاہل رہتا ہے وہ احکام جو کتاب و سنت میں بیان کردئے گئے ہیں اگر چہ سنت کے تعین میں اختلاف ہے،مگر بہرحال مسلمان ان احکام سے ناواقف رہتا ہے اور جب تک ان فقیہوں کی طرف

۳۶۰

رجوع نہیں کرتا جنہیں احکام دین میں دلیلوں کے ذریعہ صلاحیت استنباط حاصل ہے تو اسے دین کی معرفت نہیں ہو پاتی حالانکہ اس سے دین کے کامل ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔

اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ شیعوں کے نزدیک ائمہ اہل بیت ؑ ان فقیہوں سے زیادہ حقدار ہیں کہ امت ان کی طرف رجوع کرے،اس لئے کہ وہ معصوم عن الخطا ہیں اور ان پر بھروسہ کر کے امت کو کسی طرح کے نقصان کا امکان نہیں ہے جب کہ فقہا کی طرف رجوع کرنے سے بہت سے احکام میں امت نقصان اٹھاتی رہتی ہے،اس لئے کہ فقہا کا علم بہرحال ناقص ہے اور ان سے اکثر غلطیان سرزد ہوتی رہتی ہیں اور اختلاف ہوتا رہتا ہے،جیسا کہ ظاہر ہے ۔

البتہ اگر ائمہ اہل بیت علیہم السلام بھی(معاذ اللہ)علم دین کو(جو ان کے پاس ہے)چھپانا شروع کردیں اور اس کے افادہ میں امت کے ساتھ بخالت سے کام لیں تو چونکہ علم دین ان کے لئے مخصوص ہے اس لئے ایسی صورت میں امت نقصان سے دوچار ہوگی اور علم سے محروم رہ جائے گی ۔ لیکن یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ ائمہ اہل بیت ؑ نے افادہ علم میں کبھی کوتاہی نہیں کی اور طالبان علم سے کبھی اپنا علم نہیں چھپایا بلکہ وہ حضرات ؑ ہمیشہ امت کی رشد و ہدایت کے لئے تیار رہے اور ان کی خواہش رہی کہ امت کے اندر دین حقیقی کا طور و طریقہ اور مذہبی ماحول پیدا ہوسکے اس سلسلے میں دلیل کے طور پر مولائے کائنات ؑ کا وہ مشہور قول پیش کرتا ہوں کہ آپ نے فرمایا:مجھ سے جو پوچھنا چاہو پوچھ لو قبل اس کے کہ مجھے اپنے ہاتھوں سے کھودو!(1)

اور اسی طرح کا اعلان امام جعفر صادق ؑ نے بھی فرمایا جو آپ کے تیسرے سوال کے جواب میں تحریر کیا جاچکا ہے ۔

اب یہ الگ بات ہے کہ امت نے اپنے بادشاہوں اور سلاطین کے رعب و اثر میں آکے خود ہی ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے منھ موڑلیا،بلکہ ان پر زندگی تنگ کردی اور انہیں گوشہ نشین ہونے پر مجبور کردیا،نتیجہ میں امت ان کے خیر سے محروم رہی اور ان کے علوم و معارف سے فائدہ نہیں اٹھاسکی،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) اس کا مدرک گذشتہ سوال نمبر تین کے جواب میں گذرچکا ہے

۳۶۱

اس کے باوجود وہ حضرات اپنے پاکیزہ علم کو نشر کرتے رہے اور شیعہ ان سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ شیعوں کو ان کے علوم کا بہترین حصہ حاصل ہوا ۔

آپ کے تیسری سوال کے جواب میں یہ بات عرض کی جاچکی ہے ۔

جمہور اہل سنت کی روایتوں کے مطابق بھی بہت سے صحابہ علم میں ممتاز تھے

2 ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جمہور اہل سنت کا دعویٰ ہے کہ بہت سے صحابہ کو بعض علوم دینیہ میں خاص معرفت حاصل تھی اور شریعت کے کچھ احکام وہ انفرادی طور پر جانتے تھے،اہل سنت نے اس سلسلے میں حدیثیں بھی روایت کی ہیں ۔ مسروق سے روایت ہے کہ ہم عبداللہ بن عمر کے پاس بیٹھا کرتے تھے اور ان سے حدیثیں لیتے تھے مسروق کہتے ہیں کہ ان کے پاس ایک دن ابن نمیر بیٹھے تھے تو ہم نے عبداللہ بن مسعود کا ذکر کیا عبداللہ بن عمر نے کہا:تم نے ایسے شخص کو یاد کیا ہے کہ جب سے میں نے پیغمبر ؐ سے ان کے بارے میں ایک جملہ سنا ہے،اس وقت سے میں ان سےمحبت کرنے لگا ہوں حضور ؐ نے فرمایا کہ:قرآن کو چار افراد سے حاصل کرو!آپ نے ابن ام عبد کے نام سے ابتدا کی پھر فرمایا:معاذ بن جبل،ابی بن کعب اور ابوحذیفہ کے غلام سالم ۔(1)

(ابن ام عبد سے مراد عبداللہ بن مسعود ہیں)

ابن غنم کہتے ہیں کہ ہم نے ابوعبیدہ اور عبادہ ابن صامت سے سنا،جب ہم عبداللہ کے پاس بیٹھے تھے،وہ دونوں کہہ رہے تھے:معاذ بن جبل انبیا کے بعد اولین و آخرین میں سب سے بڑے عالم ہیں اور بیشک اللہ ان کے ذریعہ ملائکہ پر فخر کرتا ہے(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) صحیح مسلم ج: 3 ،ص: 1913 ،اور اسی طرح،ص: 1914 ،صحیح بخاری ج: 3 ،ص: 1372 ،ص: 1385 ،ج: 4 ص: 1912 ،المستدرک علیٰ صحیحین،ج: 3 ص: 250 ،سنن الترمذی،ج: 5 ص: 673 ،السنن الکبریٰ للنسائی،ج: 5 ص: 9 مسند احمد،ج: 2 ،ص: 189

( 2) المستدرک علیٰ صحیحین،ج: 3 ص: 304 ،سیر اعلام النبلاء،ج: 1 ص: 460 ،کشف الحثیث ج: 1 ،ص: 178 ،لسان المیزان ج: 4 ،ص: 118

۳۶۲

ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک دن عمر نے جابیہ میں خطبہ دیا اور کہا:اے لوگو!جو قرآن کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہے وہ ابی ابن کعب کے پاس جائے،جو فرائض کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہے وہ زید بن ثابت سے رجوع کرے،جو فقہ کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہے وہ معاذ بن جبل کے پاس جائے،اور جو مال چاہتا ہے وہ میرے پاس آئے مجھے(عمر کے خیال کے مطابق)اللہ نے مال کا مالک اور اس کا تقسیم کرنے والا بنایا ہے ۔(1)

ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں:عمر کے بارے میں یہ روایت صحیح ہے کہ انھوں نے کہا:جو فقہ چاہتا ہے وہ معاذ کے پاس جائے ۔(2)

یزید بن عمیر کہتے ہیں کہ جب معاذ ابن جبل مرنے لگے تو لوگوں نے ان سے کہا ابوعبدالرحمٰن ہمیں وصیت کرو،انھوں نے کہا مجھے بٹھادو،پھر بولے:علم اور ایمان کے مکانات ہیں جو انھیں تلاش کرے گا وہ حاصل کرلے گا یہ بات تین مرتبہ کہی،پس علم چار آدمیوں سے طلب کرو،عویمر ابودردا سے،سلمان فارسی سے،عبداللہ بن مسعود سے اور عبداللہ بن سلام سے،جو یہودی سے مسلمان ہوئے ہیں،میں نے پیغمبر ؐ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ وہ جنت میں داخل ہونے والے دس افراد میں دسویں ہیں ۔(3)

اب میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ آخر ان لوگوں کے دعوائے اختصاص بالعلم پر آپ کو اعتراض کیوں نہیں ہے؟اور ائمہ اہل بیت ؑ کے بارے میں اعتراض کیوں ہے؟ ۔ ان لوگوں کا بعض علوم سے اختصاص کمال دین کے منافی کیوں نہیں ہے؟اور ائمہ اہل بیت ؑ کا اختصاص کمال دین کا منافی کیوں ہے؟جب کہ ائمہ اہل بیت ؑ کا علم ان کے جد امجد مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے میراث میں ملا ہے،وہ علی ؑ جن کے بارے میں سلونی کے دعویٰ کو آپ غلط نہیں کہہ سکتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مجمع الزوائد ج:1ص:135،مستدرک علی صحیحین ج:3ص:306سنن کبری للبیھقی ج:6ص:210،سنن کبریٰ للنسائی ج:2ص:156،

(2)فتح الباری ج:7ص:126

(3)مستدرک علی صحیحین ج:3ص:304،صحیح ابن حبان ج:16ص:122،سنن کبریٰ للنسائی ج:5ص:70،مسند احمد ج:5ص:242

۳۶۳

وہ صحابہ کے علما اور ان کے سادات میں شمار ہوتے ہیں اگر آپ اہل بیتؑ کی ایک جماعت شیعوں کے اس دعوے کو قبول نہ کریں کہ علی صحابہ میں اعلم اور ان کے سردار ہیں۔

اہل سنت کو اہل بیتؑ کے ممتاز بالعلم ہونے کا اعتراف ہے

3۔ تیسری بات یہ ہے کہ صرف شیعہ ہی اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ ائمہ اہل بیتؑ علم میں امتیازی شان رکھتے ہیں،بلکہ اکثر اہل سنت بھی اس کے قائل ہیں۔ 1۔ پیغمبر کی مشہور حدیث ہے کہ علیؑ مسلمانوں میں اعلم یا صحابہ میں اعلم ہیں اور ان سب سے افضل ہیں))(1) اور سب سے بڑے قاضی ہیں۔ (2) -2۔ عبداللہ بن مسعود سے حدیث ہے کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا اور ہر حرف کا ظاہر اور باطل ہے اور علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہی کو اس کے ظاہر و باطن کا علم ہے۔ (3)

3۔ ابن عباس کہتے ہیں علیؑ کے پاس ستّر ایسے عہد(مجموعہ علمی جسے رسول خداؐ نے عطا فرمایا تھا)ہیں جن میں سے ان کے غیر کو ایک بھی عہد حاصل نہیں ہے۔ (4)

4۔ انس بن مالک کہتے ہیں کہ نبیؐ نے علیؑ سے کہا کہ امت کے اختلاف کی میرے بعد تم ہی وضاحت کروگے(تمہارے ہی ذریعہ اختلاف ختم ہوگا)(5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مستدرک علی صحیحین ج:3ص:57،مجمع الزوائد ج:9ص:101۔102،فردوس بما ثور الخطاب ج:1ص:370،مسند احمد ج:5ص:26،معجم الکبیر ج:1ص:94،ج:20ص:229،المصنف لابن ابی شیبۃ ج:6ص:374۔371،المصنف لعبد الرزاق ج:5ص:490،الاحاد و المثانی ج:1ص:142،

(2)چھٹے سوال کے جواب میں اس کا مدرک گذرچکا ہے

(3)تاریخ دمشق ج:42ص:400،فیض القدیر ج:3ص:46،حلیۃ الاولیاء ج:1ص:65،ینابیع المودۃ ج:1ص:215،ج:3ص:146

(4)تاریخ دمشق ج:42ص:391،السنۃ لابن ابی عاصم ج:2ص:564،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،مجمع الزوائد ج:9ص:113،معجم الصغیر ج:2ص:161،فیض القدیر ج:4ص:357،تھذیب التھذیب ج:1ص:173،تھذیب الکمال ج:2ص:311،ینابیع المودۃ ج:1ص:233،حلیۃ الاولیاء ج:1ص:68،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،

(5)چوتھے سوال کے جواب میں اس کا مدرک گذرچکا ہے

۳۶۴

5 ۔ شافعی کہتے ہیں:علی ؑ نہ ہوتے تو باغیوں کے بارے میں حکم معلوم ہی نہ ہوتا ۔(1)

6 ۔ اور اب تمام باتوں سے اوپر امیرالمومنین ؑ کے بارے میں ایک قول مشہور اور متواتر ہے کہ آپ ؑ ہی شہر علم نبی ؐ کا در ہیں ۔(2)

نبی کی حکمت کے دروازہ ہیں ۔(3) علم نبی ؐ کے وارث ہیں،(4) علوم کے خزانہ ہیں،(5) خازن ہیں،(6) اور ظرف قابل ہیں ۔(7)

7 ۔ خود امیرالمومنین ؑ فرماتے ہیں کہ مجھے پیغمبر ؐ نے علم کے ہزار ابواب تعلیم فرمائے اور ہر باب سے مجھ پر علم کے ہزار باب کھلے ۔

اس حدیث کو جمہور اہل سنت نے روایت کیا ہے ۔(8)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) صواعق محرقہ ص: 79

( 2) چھٹے سوال کے جواب میں اس کا مدرک گذرچکا ہے،اور کتاب الغدیر میں بھی ہے ج: 6 ص: 61

( 3) سنن ترمذی ج: 5 ص: 637 ،حدیث خیثمہ ص: 200 ،حلیۃ الاولیاء ج: 1 ص: 64 فضائل الصحابہ ج: 2 ص: 31 ،تھذیب الاسماء ص: 319 ،علل ترمذی للقاضی ص: 375 ،فیض القدیر ج: 3 ص: 46 ،میزان الاعتدال ج: 5 ص: 53 ،ج: 6 ص: 31 ،ص: 279 ،المجروحین ج: 2 ص: 94 ،لسان المیزان ج: 4 ص: 144 ،ج: 5 ص: 19 ،الکامل فی الضعفاء الرجال ج: 5 ص: 177 ،الکشف الحثیث ص: 214 ،تھذیب الکمال ج: 21 ص: 277 ،تاریخ بغداد ج: 11 ص: 203 ،علل الدار قطنی ج: 3 ص: 247 ،سوالات البرذعی ص: 519 ،کشف الخفاء ج: 1 ص: 235 ،

( 4) چھٹے سوال کے جواب میں اس کا مدرک گذرچکا ہے

( 5) تاریخ دمشق ج: 42 ص: 385 ،فیض القدیر ج: 4 ص: 356 ،میزان الاعتدال ج: 3 ص: 449 الکامل فی الضعفاء الرجال ج: 3 ص: 101 ،التدوین فی اخبار قزوین ج: 1 ص: 89 ،علل متناھیہ ج: 1 ص: 226 جامع الصغیر ج: 2 ص: 177 ،حدیث 5593 ،ینابیع المودۃ ج: 1 ص: 159 ۔ 389 ۔ 390 ،ج: 2 ص: 96 ۔ 77 ،مناقب للخوارزمی ص: 87 ،شرح نہج البلاغہ ج: 9 ص: 165

( 6) شرح نہج البلاغہ ج: 9 ص: 165 (7) کفایۃ الطالب ص: 167 ۔ 168 ،باب 37

( 8) کنزالعمال ج: 13 ص: 114 ۔ 115 ،حدیث: 36372 ،تاریخ دمشق ج: 42 ،ص: 385 ،سیر اعلام نبلاء ج: 8 ص: 24 ۔ 26 ،البدایۃ و النہایۃ،ج: 7 ص: 360 ،فتح الباری ج: 5 ص: 363 ،میزان الاعتدال ج: 2 ص: 401 ج: 4 ص: 174 ،الکامل فی الضعفاء ج: 2 ص: 450 ،کشف الحثیث ج: 1 ص: 160 ،المجروحین ج: 2 ص: 14 ،علل متناہیہ ج: 1 ص: 221 ،درر السمطین ص: 113 ،ینابیع المودۃ ج: 1 ص: 222 ۔ 231

۳۶۵

شیخ صدوق ؒ نے پانچ طریقوں سے امیرالمومنین ؑ سے روایت کیا ہے اور بیس سے زائد طریقوں سے آپ کی اولاد طاہرین میں سے ائمہ ؐ سے نقل کیا ہے،اس کے ساتھ ہی کچھ الفاظ بھی وارد کئے ہیں،جن سے اس مضمون کی تائید ہوتی ہے ۔(1)

بکیر کہتے ہیں کہ مجھ سے اس شخص نے اس حدیث کی روایت کی ہے جس نے ابوجعفر محمد باقر علیہ السلام سے یہ روایت سنی ہے پھر فرمایا:(ان ہزار ابواب میں سے)سوائے ایک باب کے،دوسروں کے لئے کوئی باب بھی نہیں کھلا صرف ایک باب یا دو باب اور جہاں تک میرا علم ساتھ دیتا ہے ایک ہی باب فرمایا تھا ۔(2)

ابوبصیر کی حدیث میں ہے کہ ان ابواب میں سے قیامت تک لوگوں کو صرف دو حرفوں کا علم حاصل ہوگا ۔(3)

یہ بھی مشہور ہے کہ عمر اور ابوبکر،خاص طور سے عمر پیچیدہ مسائل میں علی ؑ ہی کے در پر آتے تھے،ابھی چوتھے سوال کے جواب میں یہ بات گذرچکی ہے کہ ثاقب ابن شماس ابن قیس نے علی ؑ کی بیعت کے وقت کہا تھا کہ لوگوں سے نہ آپ کا مرتبہ پوشیدہ ہے نہ خود آپ سے آپ کا مرتبہ پوشیدہ ہے،آپ اپنی منزل سے خدا نخواستہ جاہل نہیں ہیں،لوگ جن باتوں کو نہیں جانتے ان کے لئے آپ کے محتاج ہیں اور آپ اپنے علم کی وجہ سے کسی کے محتاج نہیں ہیں ۔(4)

یہاں تک کہ خلیل ابن احمد فراہیدی سے علی ؑ کی امامت پر بھرپور دلیل مانگی گئی تو انھوں نے کہا:((احتیاج الکل الیہ و استغناء عن الکل))حضرت علی علیہ السلام کی امامت کا ثبوت یہ ہے کہ سب علم میں علی ؑ کے محتاج ہیں اور علی سب سے بےنیاز ہیں(کسی کے محتاج نہیں)(5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الخصاص ص:164 (2)الخصاص ص:642۔252،

(2)الخصال ص:649

(4)تاریخ یعقوبی ج:2ص:179

(5)معجم رجال الحدیث ج:8ص:81،خلیل نحوی کی سوانح حیات

۳۶۶

تو علی ؑ کی معصوم اولاد یعنی ائمہ اہل بیت ؑ کو بھی علی ؑ کو بھی علی ؑ کا علم اسی طرح میراث میں ملا جس طرح علی ؑ کو علم پیغمبر ؐ میراث میں ملا ہے اور پیغمبر ؐ کو انبیائے ماسبق کا علم میراث میں ملا ہے،ائمہ ؑ علم علی ؑ کے وارث علی ؑ پیغمبر ؐ کے وارث اور پیغمبر ؐ علم انبیائے ماسلف کے وارث،اسی لئے شیعہ بھی علم دین کی روایت انھیں ائمہ اہل بیت ؑ سے نقل کرتے ہیں.

ائمہ اہل بیت ؑ کی برکت سے ہی شیعوں کا دینی ماحول اور ثقافت علمی پروان چڑھتی ہے ۔

آپ کے تیسرے سوال کے جواب میں بھی کچھ باتیں عرض کی گئیں جو یہاں پر نفع بخش ہیں ۔

والحمد لله رب العالمین

۳۶۷