فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 367
مشاہدے: 183653
ڈاؤنلوڈ: 4413


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 183653 / ڈاؤنلوڈ: 4413
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ رضائے پروردگار کسی کے مرنے تک باقی رہے یعنی خدا ان سے مرنے کے وقت تک راضی رہے!

اخبار بالرضا کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت اللہ نے اس کی خبر دی اس وقت وہ ان سے راضی تھا اور مخصوص وقت وہ ہے جب آیت شریفہ نازل ہوئی ۔ اس سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ یہ رضایت ان کے مرنے تک برقرار رہی اور وہ لوگ جب مرے تو اللہ ان سے راضی تھا،اس لئے کہ مولا اپنے بندے سے اسی وقت تک راضی رہتا ہے جب تک اس کا بندہ اس کا مطیع رہتا ہے چاہے وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرکے اس کو راضی کرے،حالات کی تبدیلی کے ساتھ رضائے مولا بھی بدلتی رہتی ہے،یہ بندے کے اعمال پر منحصر ہے،ایسا ہوتا ہے کہ آج بندے کی اطاعت شعاری سے خوش ہو کے مولا راضی ہوگیا پھر بندے نے اس کی نافرمانی کی اور وہ بندے سے غضبناک ہوگیا پھر جب بندے نے توبہ کی اور اس کی اطاعت کی تو مولا خوش ہوگیا،رضا اور غضب کا معاملی یونہی چلتا رہتا ہے،رضا کی شان یہ نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ باقی رہے اور زائل ہی نہ ہو،اس سے پتہ چلتا ہے کہ خدا کی رضا سے ان کی نجات پر استدلال کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔

جنت کے وعدے کی وجہ سے سابقون اوّلون کی نجات پر استدلال

رہ گیا ان کے لئے جنت کا وعدہ اور ان کی عظیم کامیابی کا فیصلہ تو یقیناً اس سے دعوے پر استدلال کیا جاسکتا ہے اور ہم اس سلسلے میں آئندہ گفتگو کریں گے،لیکن پہلے ہم مدعا تو طے کرلیں اس کے بعد دیکھیں کہ آیت شریفہ اس پر دلالت کرتی ہے یا نہیں ۔

مدعا کے دو رخ ممکن ہیں

پہلی توجیہ یہ ہے کہ:(سابقون اوّلون کی سلامتی قطعی ہے اور جنت یقینی)

وجہ اول۔سابقون اوّلون قطعی طور پر آخرت میں سلامت رہیں گے اور نجات یافتہ ہونگے اور جنت حاصل کرلیں گےتو کیوں؟یا تو اس لئے کہ وہ گناہوں سے معصوم ہیں یا اس لئے کہ ان کی توبہ پر

۴۱

قبولیت کا مہر لگ چکی ہے یا اس لئے کہ اللہ نے ان کو اپنی خاص مہربانی سے معاف کردیا ہے اور مغفور قرار دیا ہے،چاہے وہ گناہگاری کی حالت میں مرے ہوں ۔

آیت کریمہ اس کی طرف دلالت کرتی ہے،اس لئے کہ رضا کا تذکرے کے فوراً بعد ان کے لئے جنت کی تیاری کی اور ان کی کامیابی کی خبر دی گئی،جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی سلامتی یقینی ہے،لیکن یہ بات یوں کٹ جاتی ہے کہ مندرجہ بالا وعدہ صرف سابقون اوّلون ہی سے مخصوص نہیں ہے،اس لئے کہ جو باتیں ان کے بارے میں وارد ہوئی ہیں،وہی باتیں دوسروں کے بارے میں بھی وارد ہوئی ہیں ۔

ہر مہاجر اور انصار کے لئے کامیابی اور جنت کا وعدہ

اللہ کا ارشاد ہے:(فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِّنْ عِندِ اللَّهِ وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ) (1)

ترجمہ آیت:(تو ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کرلی اور فرمایا کہ ہم تم میں سے کسی کام کرنےوالے کے کام کو ضائع نہیں کرتے وہ مرد ہو یا عورت اس میں کسی کی کوئی خصوصیت نہیں،اس لئے کہ تم ایک دوسرے کی جنس ہو،جو لوگ آوارہ وطن ہوئے اور شہر بدر کئے گئے اور ہماری راہ میں اذیتیں اٹھائیں اور کفار سے جنگ کی اور شہید ہوئے ہیں میں ان کی برائیوں سے ضرور درگذر کروں گا اور انھیں بہشت کے ان باغون میں لے جاؤں گا جس کے نیچے نہریں جاری ہیں،خدا کے یہاں یہ ان کے کام کا بدلہ ہے اور خدا کے پاس تو اچھا ہی بدلہ ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ آل عمران آیت 195

۴۲

اور دوسری جگہ ارشاد ہوا:(وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ قُتِلُوا أَوْ مَاتُوا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللَّهُ رِزْقًا حَسَنًاوَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ-لَيُدْخِلَنَّهُم مُّدْخَلًا يَرْضَوْنَهُوَإِنَّ اللَّهَ لَعَلِيمٌ حَلِيمٌ) (1)

ترجمہ آیت:(اور جن لوگوں نے خدا کی راہ میں اپنے دیس چھوڑے پھر شہید کئے گئے یا آپ اپنی موت مرگئے،خدا انھیں آخرت میں ضرور عمدہ رزق عنایت فرمائےگا اور بیشک تمام روزی دینے والوں میں خدا ہی سب سے بہتر ہے،وہ انھیں ضرور ایسی(بہشت)پہنچائےگا جس سے وہ نہال ہوجائیں گے اور بیشک خدا بڑا واقف کار اور بردبار ہے) ۔

اسی طرح کی دوسری آیتیں بھی ہیں جن میں مہاجر کے لئے جنت کا وعدہ کیا گیا ہے چاہے وہ سابقون میں سے نہ ہو بلکہ وعدہ میں عموم پایا جاتا ہے یعنی مہاجر کی لفظ مطلق وارد ہوئی ہے ہر اس شخص کے لئے جو بلاد کفر سے بلاد اسلام کی طرف ہجرت کرے،چاہے اسنے نبی ؐ کے دور میں ہجرت کی ہو یا نبی ؐ کے بعد ۔

ملاحظہ ہو ارشاد ہوتا ہے:(وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَّهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ) (2)

ترجمہ آیت:اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور خدا کی راہ میں لڑے بھڑے اور جن لوگوں نے ایسے نازک وقت میں مہاجرین کو پناہ دی اور ان کی ہر طرح خبر گیری کی وہی لوگ سچے ایمان دار ہیں انہیں کے واسطے مغفرت اور عزت و آبرو والی روزی ہے) ۔

اس آیت کا مقتضا تو یہ ہے کہ سلامتی اور کامیابی سب کے لئے عام ہے چاہے وہ مہاجرین ہوں چاہے انصار ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ حج آیت 58 ۔ 59

( 2) سورہ انفال آیت 74

۴۳

ہر صالح مومن کے لئے کامیابی کا وعدہ ہے

آیتوں میں تو عام مومنین کے لئے کامیابی اور جنت کا وعدہ ہے شرط یہ ہے کہ وہ مومن صالح ہو ۔ ارشاد ہوتا ہے:(وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ) (1)

ترجمہ آیت:(آپ خوش خبری دیں صاحبان ایمان اور عمل صالح کرنےوالوں کو کہ ان کے لئے جنت ہے جس میں نہریں جاری ہیں) ۔

ارشاد ہوتا ہوا: (وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُبَوِّئَنَّهُم مِّنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا نِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ) (2)

ترجمہ آیت:(جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح انجام دیتے ہیں انھیں ہم ضرور جنت میں کمرے عنایت فرمائیں گے(وہ جنت)جس کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور عمل کرنےوالوں کو بہتر بدلہ ملےگا) ۔

دوسری جگہ ارشاد ہوا:(وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي رَوْضَاتِ الْجَنَّاتِلَهُم مَّا يَشَاءُونَ عِندَ رَبِّهِمْ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ-ذَٰلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ) (3)

ترجمہ آیت:(جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے وہ بہشت کے باغوں میں ہوں گے وہ جو کچھ چاہیں گے ان کے لئے ان کے پروردگار کی بارگاہ میں موجود ہے تو خدا کا بڑا فضل ہے،یہی(انعام)ہے جس کی خدا اپنے بندوں کو خوشخبری دیتا ہے،جو ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے) ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ بقرہ آیت 25

( 2) سورہ عنکبوت آیت 58

( 3) سورہ شوریٰ آیت 23،22

۴۴

(اے رسول)تم کہہ دو کہ میں اس تبلیغ رسالت کا اپنے قرابت داروں(اہل بیت)کی محبت کے سوا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا اور جو شخص نیکی حاصل کرےگا ہم اس کے لئے اس کی خوبی میں اضافہ کردیں گے بیشک خدا بڑا بخشنےوالا قدردان ہے ۔

ہر مومن سے جنت اور کامیابی کا وعدہ ہے

بلکہ بعض آیتوں میں تو عمل صالح کی قید بھی نہیں لگائی گئی ہے،بلکہ مطلقاً تمام مومنین سے کامیابی اور جنت کا وعدہ کیا گیا ہے ملاحظہ ہو:

(وَعَدَاللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّهِ أَكْبَرُ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ) (1)

ترجمہ آیت:(خدا نے ایمان دار مردوں سے اور ایماندار عورتوں سے(بہشت)کے ان باغوں کا وعدہ کرلیا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے،بہشتِ عدن میں عمدہ عمدہ مکانات کا بھی وعدہ فرمایا ہے،خدا کی خوشنودی ان سب سے بالاتر ہے یہی تو بڑی کامیابی ہے) ۔

ہر گنہگار اور بےراہ کو خسران اور عذاب کی وعید ہے

اسی طرح کتاب مجید اور سنت پاک میں ہر گنہگار اور کھ رو کو اس کے گناہ اور کجروی کی وجہ سے عذاب اور خسران کی دھمکی دی گئی ہے ۔

(وَمَن يُشَاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ)(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ توبہ آیت 72

( 2) سورہ انفال آیت 13

۴۵

ترجمہ آیت:(اور جو شخص بھی خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کرے تو یاد رہے کہ خدا بہت سخت عذاب کرنےوالا ہے) ۔

ارشاد ہوا:(وَمَن يُشَاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ) (1)

ترجمہ آیت:(جس نے بھی خدا کی مخالفت کی(تو یاد رہے کہ)خدا بڑا سخت عذاب دینےوالا ہے) ۔

اور اسی طرح دوسری جگہ فرمایا:(وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَوَسَاءَتْ مَصِيرًا) (2)

ترجمہ آیت:(سورۂ نساء میں ارشاد ہوا:(اور جو شخص راہ راست کے ظاہر ہونے کے بعد رسول ؐ سے سرکشی کرے اور مومنین کے طریقے کے علاوہ کسی اور راہ پر چلے تو جدھر وہ پھر گیا ہے ہم ادھر ہی پھیر دیں گے اور آخر میں اسے جہنم میں جھونک دیں گے،وہ تو برا ٹھکانہ ہے) ۔

دوسری جگہ ارشاد ہوا :(وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا) (3)

ترجمہ آیت:(اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کے مار ڈ الے اس کی سزا صرف دوزخ ہے،وہ اس میں ہمیشہ رہےگا،خدا نے اس پر اپنا غضب ڈ ھایا ہے اور لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا سخت عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

اس کے علاوہ بھی بہت سے آیتیں ہیں جن کا شمار ممکن نہین اور حدیثوں کا بھی یہی حال ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 2) سورہ حشر آیت 4

( 3) سورہ نساءآیت 114

( 4) سورہ نساءآیت 93

۴۶

الہی وعدے حُسن خاتمہ سے مشروط ہیں

مذکورہ ساری آیتوں کو مد نظر رکھا جائے تو دو گروہ ہوجاتے ہیں ایک وعدوالے ہیں دوسرے وعیدوالے دونوں میں جمع کی صورت نکالنا بہت ضروری ہے اور وہ اس طریقہ سے کہ:

وعد کی دلیلیں ان کے لئے ہیں جن کا خاتمہ بالخیر ہو خاتمہ بالخیر بھی دو وجہ سے ہوسکتا ہے یا تو وہ دین حق اور عمل صالح پر آخر وقت تک قائم رہے ہوں یا تو یہ کہ درمیان میں غلطی ہوئی لیکن انہوں نے فوراً توبہ کر لی اور کجروی سے نکل کر حق کی طرف واپس آگئے ۔

آیتیں،حدیثیں دوسرےوالے سبب کا فائدہ پہنچاتی ہیں،ملاحظہ ہو: (يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ-إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ) (1)

ترجمہ آیت:ایسا دن کے جس میں نہ مال فائدہ پہنچائےگا نہ اولا مگر یہ کہ صاف اور سلیم دل کے ساتھ خدا کے پاس واپس آئے ۔

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے: (إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ) (2)

ترجمہ آیت:(وہ لوگ جنھوں نے یہ کہہ دیا کہ ہمارا پروردگار تو بس خدا ہے پھر اپنی بات پر قائم رہے ان پر رشتے نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ڈ رو نہین اور غم نہ کرو تمھیں جنت کی بشارت ہو کہ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔

اور پھر دوسری آیت: (أُولَٰئِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ-خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ شعراءآیت 88 اور 89

( 2) فصلت آیت 30

۴۷

وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ-إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ)(1)

ترجمہ آیت:(یہ وہ لوگ ہیں جو کو بدلے میں خدا کی فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ملی ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ان کے عذاب میں تخفیف ہوگی نہ ان کو مہلت دی جائےگی سوا ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے بعد(گناہوں کے بعد)توبہ کی اور اپنی اصلاح کرلی تو بیشک اللہ بخشنےوالا اور رحم کرنے والا ہے) ۔

اب ظاہر ہے کہ اس آیت کو تو سابقون اولون پر بھی جاری کیا جائےگا اور اس آیت پر بھی جس سے آپ نے استدلال کیا ہے اس لئے کہ اس آیت میں خصوصی طور پر ان لوگوں کا تذکرہ ہے بلکہ خاص طور سے ان پر محمول کیا جارہا ہے جو عہد کی پابندی پر قائم رہے اور امر خدا سےمنحرف نہیں ہوئے ۔

صحابہ کو فتنہ اور پھر جانے سے بچنے کی ہدایت

خاص طور سے صحابہ کو یہ ہدایت دی گئی ہےہ وہ خود کو فتنہ اور اسلام سے برگشتہ ہوجانے سے محفوظ رکھیں ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو لوگ آگے چل کے بدل جائیں گے ان کے لئے عذاب اور خسران مبین ہی ہوگا،ارشاد ہوتا ہے:( مَّا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ) (2)

ترجمہ آیت:(ایسا نہیں کہ برے بھلے کی تمیز کئے بغیر خدا اسی حالت پر مؤمنون کو چھوڑدے گا ۔ اور ایسا نہیں ہے کہ وہ تمہیں غیب کی باتیں بتادےگا مگر ہاں خدا اپنے رسولوں میں جسے چاہتا ہے(غیب کے لئے)چن لیتا ہے) ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ آل عمران آیت 87 تا 89 (2) سورہ آل عمران آیت 179

۴۸

ظاہر ہے کہ اس آیت سے مراد وہ لوگ ہرگز نہیں ہیں جنہیں نزول آیت سے پہلے ہی منافقین کے نام سے بہچانا جاتا تھا جیسا کہ میں آپ کے دوسرےسوال میں متوجہ کرچکا ہوں ۔

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:خطاب اوائل ہجرت کے مسلمانوں سے ہے بات واقعۂ بدر کی ہے جب کہ بعض صحابہ یا سب کے سب ان سابقون میں تھے جو آپ کی زبان میں سابقون ہیں

(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْوَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ-وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةًوَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ)(1)

ترجمہ آیت:(اے ایمان لانےوالو!جب ہمارا رسول ایسے کام کے لئے بلائے جو تمہاری روحانی زندگی کا باعث ہو تو تم خدا اور رسول کا حکم دل سے قبول کرو اور جان لو کہ وہ خدا قادر مطلق ہے کہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان آجاتا ہے اور یہ بھی سمجھ لو کہ تم سب کے سب اس کے سامنے حاضر کئے جاؤگے اور اس فتنہ سے ڈ رتے رہو جو خاص انہیں لوگوں پر نہیں پڑےگا جنھوں نے تم میں سےظلم کیا(بلکہ تم سب کے سب اس میں پڑجاوگے)اور یقین جانو کہ خدا بڑا سخت عذاب کرنےوالا ہے) ۔

عون ابن قتادہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے زبیر بن عوام نے بیان کیا پیغمبر ؐ ہمیں اس فتنہ سے ڈ راتے تھے جس کے بارے میں وہم و گمان بھی نہ تھا کہ ہم اس کے لئے پیدا ہوئے ہیں پھر مندرجہ بالا آیت پڑھی زبیر کہتے ہیں کہ ہم اس آیت کو ایک مدت تک پڑھتے رہے اور پھر ہم ہی اس آیت کا عنوان بن گئے راوی نے کہا جب ایسا،ہوا تو آپ لوگ اس فتنہ نکل کیوں نہیں گئے؟کہنے لگے تجھ پروائے ہو ہم جان گئے تھے لیکن صبر نہیں کرسکے ۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ انفال آیت 24 اور 25

(2)سنن الواردہ فی الفتن ج1ص204،باب قول اللہ(واتقوا فتنۃ)تفسیر ابن کثیرج2ص300

۴۹

اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو خاص طور سے ان لوگوں کو جو احد کے دن فرار کر گئے تھے جو سب کے سب یا ان میں سے زیادہ تر سابقون اولون میں سے تھے خطاب کر کے عذاب آمیز لہجے میں فرماتا ہے: (وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ) (1)

ترجمہ آیت:(محمد ؐ تو بس رسول ہے ان کے پہلے بھی بہت سے رسول گذرچکے ہیں تو اگر وہ مرگئے یا قتل ہوگئے تو کیا تم اپنے پچھلے پیروں واپس پلٹ جاؤگے؟اور جو اپنے پچھلے مذہب پر واپس جائےگا وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کرےگا اور خدا شکر گذاروں کو بدلہ دےگا) ۔

دوسری جگہ ارشاد ہوا:(وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُوَأُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ-يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌفَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ-وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللَّهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ) (2)

ترجمہ آیت:ان لوگوں کے جیسے نہ ہوجانا جو آپس میں پھوٹ ڈ ال کے بیٹھے ہوں اور روزن دلیلیں آنے کے بعد بھی ایک منھ اور ایک زبان نہ ہوسکے اور ایسے ہی لوگوں کے لئے بڑا(بھاری)عذاب ہے اس دن سے ڈ رو جس دن کچھ لوگوں کے چہرے تو سفید نورانی ہوں گے اور کچھ لوگوں کے چہرے سیاہ،بس جن لوگوں کے منھ میں کالک لگی ہوگی ان سے کہا جائےگا تم تو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے تھے بولو(اور اب)اپنے کفر کی سزا میں عذاب کے مزے چکھو اور جن کے چہرے نورانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ آل عمران آیت144

(2)سورہ آل عمران آیت105تا107

۵۰

ہوں گے وہ تو خدا کی رحمت میں رہیں گے اور ہمیشہ اسی کے سائے میں رہیں گے ۔

اور دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ) (1)

ترجمہ آیت:(اے ایمان لانےوالو!خدا کی اور اس کے رسول ؐ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو باطل نہ کرو) ۔

اسی طرح کے مضامین پر مشتمل بہت سی آیتیں ہیں جن میں کچھ کا تذکرہ آپ کے سابقہ سوالات میں دوسرے سوال کے جواب میں ہوچکا ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی آیتیں ہیں جنھیں میں نے ذکر نہیں کیا ہے ۔

ان تمام باتوں سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے جس آیت کو مقام استدلال میں پیش کیا ہے اس کو اس بات پر محمول کیا جائے کہ اس میں خاتمہ بالخیر ہونے کی شرط ہے(یعنی سابقین اولین ممدوح ہیں لیکن اس شرط پر کہ آخر تک ایمان و عمل صالح قائم رہے ہوں اور موت بھی ایمان کی حالت پر ہوئی ہو)جیسا کہ یہی دلیل ان تمام لوگوں کے بارے میں دی جاتی ہے جن کی سلامتی قطعی ہے آپ کے کلام میں یہی بات ظاہر ہوتی ہے اور میں نے اس کا تذکرہ نہیں کیا ہے اصل میں بات اتنی واضح ہے کہ اس پر مزید روشنی ڈ النے کی ضرورت نہیں ہے پھر گنجائش بھی نہیں ہے کہ لمبی چوڑی بحث کی جائے ۔

پھر کامیابی کا وعدہ مطلق کیوں؟

آیہ مذکورہ اور دوسری آیت میں اطلاق اسی شرط پر مانا جاسکتا ہے کہ اس آیت میں ممدوح حضرات کو ایمان پر استقامت بھی حاصل ہو اور خاتمہ بھی بالخیر ہو!یہ بات اتنی واضح ہے کہ محتاج دلیل نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ محمدآیت 33

۵۱

بلکہ اتنی واضح ہے کہ اس شرط پر نص کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے اس لئے کہ سب جانتے ہیں کہ شرعی اور عقلی اعتبار سے کامیابی کا مستحق صرف وہ ہے جو ایمان اور عمل صالح رکھتا ہو یا عمل خیر کی طرف سبقت کرتا ہو تو ایمان اور عمل صالح کی غیر موجودگی میں کامیابی کوئی معنی نہیں رکھتی جو آدمی خدا کے فرائض کو انجام ہی نہ دیتا ہو اور صراط مستقیم کو چھوڑچکا ہو وہ کامیاب کیسے ہوسکتا ہے؟

تھوڑی سی گفتگو تا بعین کے بارے میں بھی ہوجائے

اگر آیہ شریفہ کو مندرجہ بالا معنی پر محمول نہیں کریں گے تو پھر تابعین کے لئے بھی اطلاق کو ماننا پڑےگا اس لئے کہ سابقین اوّلین کے احسان سے مراد ایمان اور عمل صالح ہے،تو اگر تھوڑے وقت کے لئے بھی سابقین اوّلین کے احسان پر وہ عمل پیرا ہوجاتے ہیں تو وہی قلیل مدت ہی انھیں تابعین کے زمرہ میں شامل کردےگی بھلے ہی بعد میں وہ بدل جائیں اور اگر سابقین کے احسان سے مراد یہ ہے کہ اس میں استمرار اور استقامت پائی جاتی ہو اور ان کا خاتمہ بالخیر یعنی وہ خدا سے راہ حق پر چلتے ہوے ملاقی ہوئے ہوں تو تابعین کا اتباع بھی اسی معنی میں محقق ہوگا،ورنہ کوئی سبب نہیں ہے کہ ہم تابعین کے لئے تو استقامت و استمرار اور خاتمہ بالخیر کی شرط لگائیں اور سابقین اوّلین کو آزاد چھوڑ دیں ۔

ہاں اگر اس آیت کی تفسیر اس طرح کی جائے کہ((مہاجرین و انصار میں سے جو سابقین اوّلین ہیں(1) اور وہ لوگ جو کہ ان کی پیروی کرتے ہیں احسان میں اور استقامت رکھتے ہیں اور اسی احسان و نیکی پر چلتے ہوئے(مرجاتے ہیں)تو اللہ ان سے راضی ہے......)

لیکن آیت شریفہ کا میرے بیان کردہ مطلب کے علاوہ کوئی مطلب بھی نہیں نکلتا ہے آپ بھی تھوڑا غور کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) کلمہ((اور))بڑھا دیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ سابقین اولین میں حُسن خاتمہ اور ایمان و عمل کی شرط نہیں ہے لیکن تابعین میں ہے(مترجم)

۵۲

سابقون اوّلون میں کچھ لوگ مرتد بھی ہوگئے

1 ۔ سابقین اوّلین میں کچھ لوگ مرتد بھی ہوگئے تھے،جیسے عبیداللہ بن جحش وہ حبشہ کی طرف نکل گیا تھا اور وہاں جا کے نصرانی ہوگیا(1) کیا آپ کو اس کی ہلاکت میں شک ہے کیا آیت شریفہ اس کا بھی احاطہ کرتی ہے،نہیں آیت اس کو اپنے دائرے میں لینے سے قاصر ہے اور یہ قصور صرف اس لئے ہے کہ آیت میں استقامت کی شرط ہے جیسا کہ ابھی عرض کیا گیا اسی طرح نضیر بن حارث عبدری کا معاملہ ہے یہ نضر کا بھائی تھا نضر کو امیرالمومنین ؑ نے واقعہ بدر کے بعد حکم پیغمبر ؐ سے بند کر کے قتل کردیا تھا روایتوں میں ہے کہ یہ نضیر سابقین اوّلین میں تھا حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی تھی پھر مکہ میں مرتد ہوکے واپس آیا فتح مکہ کے دن پھر مسلمان ہوگیا(2) یہ مولفۃ القلوب میں سے تھا حضور ؐ نے اس کی تالیف قلب کے لئے حنین کے دن اس کو سونا قے دیے اور یرموک میں شہید ہوا ۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) مستدرک علی صحیحین ج: 4 ص: 21 کتاب معرفۃ الصحابہ:ابی سفیان کی بیٹی ام حبیبہ نے ذکر کیا ہے۔حاشیۃ ابن القیم ج: 6 ص: 75 عون المعبودج: 6 ص: 74 ،تھذیب التھذیب ج: 12 ص: 437 ،حبیبۃ بنت عبیداللہ بن جحش سوانح حیات میں،تھذیب الکمال ج: 35 ص: 175 ،رملۃ بنت ابی سفیان کی سوانح حیات میں،التعدیل و التجریح لمن خرج لہ البخاری فی الجامع الصحیح ج: 3 ص 1283 رملۃ بنت ابی سفیان کی سوانح حیات میں،الاستیعاب ج: 3 ص: 877 فی ترجمۃ عبداللہ بن جحش سوانح حیات میں،ج: 4 ص: 1809 حبیبۃ ابنۃ ابی سفیان کی سوانح حیات میں،ص: 1844 ،رملۃ بنت ابی سفیان سوانح حیات میں،الاصابۃ ج: 7 ص 651 رملۃ بنت ابی سفیان کے سوانح حیات میں،الاکمال لابن ماکولا ج: 7 ص: 125 ،کبیر و کثیر و کثیر و کنیز و کنیز کے باب میں،السیرۃ النبویۃ ج: 2 ص 51 ،ذکر کیا ہے ورقۃ ابن نوفل بن اسد نے تاریخ دمشق ج: 3 ص: 173 النبی محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب کی سوانح حیات میں:جناب عبدالمطلب کے لڑکے و لڑکیوں اور بیویوں کے باب میں،ص: 415 باب اخبار الاخبار بنبوتہ و الرھبان و ما یذکر من امرہ عن العلماء و الکھان،

( 2) الاصابۃ ج: 6 ص: 430 ،نضر بن الحارث کے سوانح حیات میں،انساب الشراف ج: 1 ص 232 ،ان لوگوں کے نام کے بارے میں جن مسلمانوں نے حبشہ کی طرف اپنے دین کی خاطر لڑنے کے لئے مشرکوں سے جو قریش میں سے تھے اور وہ نبیؐ کے اذن سے تھی۔تاریخ دمشق ج: 62 ص 105 ،نضیر بن الحارث کے سوانح حیات میں۔

( 3) الاصابۃ ج: 6 ص: 436 ،نضر بن الحارث کے سوانح حیات میں،الاستیعاب ج: 4 ص: 1525 ،نضر بن الحارث کے سوانح حیات میں،تاریخ دمشق ج: 62 ص 101 ،نضیر بن الحارث کے سوانح حیات میں،

۵۳

سابقین اوّلین کے حالات ایسے نہیں کہ سب کی کامیابی کا یقین کر لیا جائے!

2 ۔ سابقین اوّلین کا کردار اور ان کے آپسی اختلافات اور اپنے بارے میں ان کے نظریات یا دوسرے صحابہ کے ان کے بارے میں نظریات کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا تو قطعی مناسب نہیں ہے کہ سب کے سب کامیاب و کامران ہیں ہم نے اس سلسلہ میں دوسرے نمبر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کچھ باتیں پیش بھی کی تھیں وہ واقعات اگر چہ عام صحابہ متعلق ہیں لیکن اکثر واقعات تو خاص طور سے سابقون اوّلون سے متعلق ہیں آپ اپنے دوسرے سوال کے جواب کو دیکھیں بات واضح ہوجائے گی میں ان باتوں کا اعادہ کرنا ضروری نہیں سمجھتا ۔ آپ جانتے ہیں کہ سقیفہ کے دن لوگوں نے سعد بن عبادہ انصاری کی بیعت کرنا چاہی تو ابوعبیدہ انصاری بول اٹھے،اے گروہ انصار تم لوگوں نے سب سے پہلے نبی ؐ کی نصرت کی تھی کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی دین نبی ؐ میں سب سے پہلے تغیر و تبدل دینےوالے بن جاؤ!(1)

آپ دیکھ رہے ہیں کہ ابوعبیدہ تغیر سے ڈ را رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ نصرت میں سبقت تغیر کے ساتھ فائدہ نہیں دےگی بلکہ استقامت کے ساتھ فائدہ دےگی،یہ تمام باتیں شہادت دیتی ہیں کہ صحابہ اگر چہ ایسے ماحول میں تھے جس میں یہ آیت نازل ہوئی تھی لیکن پھر بھی خود کو یقینی طور پر نجات یافتہ اور کامیاب نہیں سمجھتے تھے اور اس آیت کے گرد و پیش جو قرینے ہیں ان پر نظر رکھتے تھے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ یعقوبی ج:2ص:123،سقیفہ بنی ساعدۃ و بیعتہ ابی بکر کی خبر میں،واللفظ لہ،تاریخ الطبری ج:2ص:243ذکر الخیر عما جری بین المھاجرین و الانصار امر الامارۃ فی سقیفۃ بنی ساعدۃ،الامامۃ و السیاسۃ ج:1ص:12ذکر السقیفۃ و ما جری فیھا من القول،

۵۴

سابقین اوّلین کو قطعی طور پر نجات یافتہ مان لینا انھیں برائیوں کی طرف ترغیب دینا ہے

3 ۔ ظاہر ہے کہ مذکورہ بالا آیت بہت سے سابقون اولون ہی کی زندگی میں نازل ہوچکی تھی یہ بات بعید از فہم ہے کہ اللہ سابقون اولون کو استقامت کی شررط کے بغیر اور دین سے پھر جانے کی قید کے بغیر ہی سلامتی اور کامیابی کا یقین دلا دے،اس سے تو ان سابقون اولون کو برائی کی ترغیب ملےگی عقل کا فیصلہ ہے کہ سب سے بڑی خرابی عقیدہ اور عمل میں انقلاب اور کجی ہے عیقدہ اور عمل ہی قیامت کے دن خدا کی سب سے بڑی حجت ہوں گے اس لئے کہ انہیں کے ذریعہ خوف ہلاکت سے بچا جاسکتا ہے جب عقیدہ اور عمل ہی معاف کردیا گیا(تو گویا سابقون اولون حساب سے بری ہوگئے)تو برائیوں سے روکنے کی دعوت بھی ہلکی ہوجائےگی اور یہ بات لوگوں پر قیام حجت الٰہی کی حکمت کے خلاف ہے نیز اس طرح سے(چھوٹ دے کر)خدا ان کی اصلاح نہیں کرسکتا سلامت قطعی کا وعدہ خدا کا ابتدائی فضل بھی نہیں ہے کہ ان لوگوں کی اطاعت کے ذریعہ اظہار تشکر کرنے سے روک رہا ہے بلکہ یہ وعدہ شخص موعود کے عمل کی بنا پر کیا گیا ہے اس لئے کہ عمل صالح اور خیالی دنیا میں مراتب کامیابی عام انسانوں کے اندر غرور،تفاخر اور اتراہٹ پیدا کرتے ہیں عام انسان تو ان خرابیوں کا شکار ہو ہی جاتا ہے،)ہاں اگر اللہ کی طرف سے توفیق حاصل ہو تو بچ سکتا ہے ۔

پھر یہ بھی تو دیکھئے کہ سابقون اولون کے درمیان آپس میں کتنی صف بندی ہے سابقہ نظریات اور موہوم مراتب کی وجہ سے ہر آدمی اولویت کا دعوےدار ہے اور آپس کا اختلاف دعوت اور اتباع کو مستقل نقصان پہنچاتا رہا ہے نتیجہ ظاہر ہے سابقون اولون کی تاریخ تفاخر اختلافات اور آپس کی فرقہ بندی سے بھری پڑی ہے جب کہ صحیح یہ ہے کہ کسی کو بھی اپنی نجات کا یقین نہیں اور پھر کوئی بھی اخروی کامیابی قطعی نہیں سمجھتا بلکہ اکثر سابقون اولون تو آخرت سے خوف زدہ ہیں جبکہ انھیں نہیں معلوم کہ ان کا

۵۵

ٹھکانہ کہاں ہے؟یہ باتیں پہلے بھی میں آپ کی خدمت میں دوسرے سوالوں کے جواب میں عرض کرچکا ہوں(وہ اپنے انجام کے بارے میں مشکوک تھے اس کے باوجود تاریخ ان کی بےراہ روی سے بھری پڑی ہے)تو اگر انھیں آخرت کی سلامتی اور نجات کا یقین دلا دیا جاتا تو وہ کیا گل کھلاتے؟ویسے بھی یہ بات ہرگز نہیں سمجھ میں آتی کہ اللہ کسی ایک آدمی کو اس کی زندگی ہی میں جنت کا یقین دلادے چہ جائے کہ ایک پوری جماعت کو جو کہ تفاخر اور آپسی لڑاتئی جھگڑے و غیرہ کی مرتکب ہو نیز امت کی قیادت کے لئے مقابلے میں اترسکتی ہے جیسا کہ ابھی تک ایسا ہوتا چلا آتا ہے پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے جب کہ حضور سرکار دو عالم ؐ جن کی رفعت سے کسی کو انکار نہیں نہ اس سے انکار ہے کہ آپ نے خواہش نفسانی پر قبضہ پالیا ہے لیکن اللہ مقام ہدایت میں آپ کی بھی تبلیغ یا دہانی سے نہیں چوکتا اور آپ کو انحراف اور کجی کا انجام بار بار تباتا ہے تا کہ آپ بھی محتاط رہیں اور دوسرے بھی سمجھ لیں کہ جب انحراف اور گمراہی نبی ؐ کے لئے ہلاکت خیز ہوسکتا ہے تو ہم اور آپ کس شمار میں آتے ہیں ۔

ارشاد ہوا:(وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ) (1)

ترجمہ آیت:(میں نے آپ پر اور آپ کے پہلے انبیا پر وحی نازل کرکے یہ بتا دیا ہے کہ اگر آپ شرک کریں گے تو آپ کے سارے اعمال حبط ہوجائیں گے اور آپ یقیناً بہت نقصان اٹھانےوالوں میں ہوں گے) ۔

پھر دوسری جگہ ارشاد ہوا:(وَلَوْلَا أَن ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدتَّ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا-إِذًا لَّأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا) (2)

ترجمہ آیت:(اگر میں نے آپ کو ثابت قدم کی توفیق نہیں دی ہوتی تو آپ(کافروں کی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ زمرآیت 65

( 2) سورہ اسراءآیت 74 اور 75

۵۶

طرف تھوڑ ٓ سا جھک جاتے اور اگر ایسا ہوتا پھر آپ مرمر کے جیتے جب بھی آپ کو میرے خلاف کوئی مددگار نہیں ملتا) ۔

دوسری جگہ ارشاد ہوا:(وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ-لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ-ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ-فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ) (1)

ترجمہ آیت:(اگر رسول ؐ ہماری نسبت کوئی جھوٹ بات بنالاتے تو ہم انکا داہنہ ہاتھ پکڑ لیتے پھر ہم ضرور ان کی گردن اڑادیتے تو تم میں سے کوئی بھی مجھے روک نہ سکتا) ۔

خود حضور سرکار دو عالم ؐ فرماتے ہیں کہ:رحمت کی مدد سے صرف عمل ہی نجات دے سکتا ہے اگر میں بھی نافرمانی کروں تو برباد ہوجاؤں گا(2) اور اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں ۔

سابق الایمان ہونے سے ذمّہ داریاں بڑھ جاتی ہیں

البتہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ آیت شریفہ کا ظاہری معنی یہ ثابت کرتا ہے کہ بہرحال ایمان پر سبقت اور عمل صالح ایک بڑی فضیلت ہے لیکن سابقین ایمان کی ذمّہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں اس لئے کہ مومن کی شان جس قدر بلند ہوتی ہے اور جیسے جیسے اس کو رفعت حاصل ہوتی جاتی ہے اور ان پر خدا کی نعمتیں بڑھتی جاتی ہے اور اس کی حمایت میں دلیلیں اکھٹی ہوتی جاتی ہیں اور اسی حساب سے اس کی ذمّہ داری بھی بڑھ جاتی ہے اور اس کے ایمان اور یقین کے لئے خطرے بھی بہت پیدا ہوجاتے ہیں تو اگر وہ اپنی ذمّہ داریوں سے عہد برآ ہوتا رہتا ہے اور اپنی بلند کرداری اور سیرت کو برقرار رکھتا ہے تو اس کی شان بھی بڑھتی رہتی ہے اور اجر بھی بڑھتا رہتا ہے لیکن اگر اس کا دل ٹیڑھا ہوجائے اور وہ پستیوں کی طرف جھک جائے تو اسی حساب سے اس کی سزا بھی بڑھ جاتی ہے اس لئے کہ اس پر تو حجت تمام ہوچکی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ حاقہ آیت 44 تا 47

( 2) شرح نہج البلاغہ ج: 1 ص: 184 ،الارشاد للشیخ المفیدج: 1 ص: 182

۵۷

خود سوچیں سابقوں اولون اپنے بعد آنےوالوں کے لئے نمونہ عمل ہیں اگر وہی کجرو اور گمراہ ہوگئے تو بعد کے آنےوالے ان کی پیروی میں گمراہ ہوں گے،پھر ان کی گمراہی کا سبب کون بنا ظاہر ہے جن کی ان لوگوں نے پیروی کی ہے نتیجہ یہ ہوا کہ سابقون اولون اپنی گمراہی کی وجہ سے دو گنا عذاب کے مستحق قرار پائے یعنی ان کی مسؤلیت نے انہیں دو گنا عذاب کا مستحق بنادیا،جیسا کہ یہ ساری باتیں سابقہ سوالوں کے دوسرے سوال کے جواب میں کہہ چکے ہیں ۔

کیا سابقون اولون کے معاملے میں دخل دینا چاہئے

دوسری وجہ ۔ آپ کے سوال سے ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے،وہ یہ ہے کہ اگر سابقون اولون کی نجات یقینی نہیں ہے نہ ان کی کامیابی یقینی ہے لیکن پھر متاخرین کو ان پر ان کی حرکتوں کی وجہ سے اور بدکرداری کی وجہ سے اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے متاخرین کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ان پر جرح کریں یا طعن کریں اس لئے کہ انھیں بہرحال ایمان میں سبقت حاصل ہے اور یہی حرمت سبقت ہمیں روکتی ہے ہمیں چاہئے کہ ان کا معاملہ اللہ کے حوالے کردیں وہ ان کا حساب لےگا وہ چاہےگا تو عدالت کی بنیاد پر سزا دےگا اور چاہےگا تو اپنے فضل سے بخش دےگا(ہم کون ہوتے ہیں انہیں برا بھلا کہنےوالے ان کی حرمت سبقت کا تو خیال ہمیں کرنا ہی چاہئے)دوسرے لفظوں میں ہمیں ان کے بارے میں کچھ نہیں بولنا چاہئے اگر چہ ہمیں ان کی نجات اور کامیابی کا یقین نہین ہے لیکن معاملہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ چاہے تو ان گناہوں کی وجہ سے انہیں سزا دے اور ان کی بدفعلوں کا مواخذہ کرے لیکن ہم متاخرین کو حق حاصل نہیں ہے کہ ہم ان کے معاملات میں دخل دیں انہیں لعن و طعن کریں اس لئے کہ وہ بہرحال ہم سے سابق ہونے کی وجہ سے محترم اور بلند ہیں اور ہم اس سطح پر نہیں کہ ان پر تنقید کریں خدا نے انہیں اس مقام خاص سے مخصوص کیا یہ سوال تو پیدا ہوتا ہے ۔

لیکن میں عرض کروں گا کہ آپ کی مندرجہ بالا باتیں ثبوت کی محتاج ہیں اس لئے کہ جس آیت

۵۸

کو آپ نے دلیل بنایا ہے وہ اس بات پر دلالت نہیں کرتی اس آیت کریمہ میں سابقون اولون کے بارے میں عوام کا نظریہ نہیں پیش کیا گیا ہے خدا کا نظریہ پیش کیا گیا ہے اور اگرچہ آیت ان کی کامیابی اور سلامتی کی ضمانت لیتی ہے لیکن پہلے عرض کرچکا ہوں کہ سلامتی کا یقین استقامت اور حُسن انجام سے مشروط ہے،آیت ان لوگوں کو اپنے دائرے میں لینے سے قاصر ہے جن کے اندر استقامت نہیں پائی جاتی اور جنہوں نے بعد میں اپنے عقیدے اور سلوک میں کجروی اختیار کرلی ۔ لہذا ضروری ہے کہ ادلہ عامہ کی طرف دیکھا جائے کہ عمومی طور پر قرآن کا کیا اصول ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کہتا ہے بزرگ لوگوں سے صرف ان کی بزرگی کی خاطر عقیدت رکھنا حرام اور ان پر لعن طعن ضروری اور ان کی جرح و تنقید واجب ہے ملاحظہ فرمائیں:(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ) (1)

ترجمہ آیت:(جن پر اللہ نے اپنا غضب نازل کیا ہے اور وہ آخرت سے یوں ہی مایوس ہوگئے جس طرح کفار اصحاب قبور سے مایوس ہیں) ۔

ارشاد ہوا:(وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ) (2)

ترجمہ آیت:(ظالموں کی طرف مت جھکو ورنہ تمہیں آگ جلادےگی) ۔

(فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ-أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَىٰ أَبْصَارَهُمْ)(3)

ترجمہ آیت:(کیا تم سے کچھ دور ہے کہ اگر تم حاکم ہوتے تو روئے زمین میں فساد پھیلاتے اور رشتے ناتے کو توڑنے لگتے یہ وہی لوگ ہیں جن پر خدا کی لعنت کی ہے اور ان کے کانوں کو بہرا اور آنکھوں کو اندھا کردیا ہے) ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ ممتحنہ آیت 13 (2) سورہ ھود آیت 113

( 3) سورہ محمد آیت 22 اور 23

۵۹

دوبارہ ارشاد ہوا: (إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ) (1)

ترجمہ آیت:(بیشک وہ لوگ جو ان روشن ہدایتوں کو چھپاتے ہیں جنہیں اللہ نے نازل کیا ہے اور لوگوں کے لئے وضاحت کردی ہے ان پر اللہ کی لعنت ہے اور لعنت کرنےوالے ان پر لعنت کرتے ہیں) ۔

پھر دوسری جگہ ارشاد ہوا: (وَالَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ) (2)

ترجمہ آیت:(اور وہ لوگ جو اللہ سے عہد کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اللہ نے جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے ان کو توڑتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے لعنت ہے اور ان لوگوں کے لئے برا گھر ہے) ۔

اس مضمون کی دوسری آیتیں بھی ہیں ۔

میرا خیال ہے کہ صحابہ تابعین اور ان کے بعد آنےوالے چاہے وہ سابقون اولون میں سے ہوں یا دوسرے لوگ ان کے بارے میں یہی سب سے بہتر نظریہ ہے،اس لئے کہ جو احکام ان پر جاری ہوتے ہیں وہی ہم پر بھی جاری ہونگے کیونکہ ہم دین میں ان کے شریک اور شریعت میں ان سے متحد و متفق ہیں ۔

سابقون اوّلون مشخص ہی نہیں ہیں!

سابقون اولون کون ہیں ان کا مشخص کرنا مشکل ہے مثلاً بہت سے مہاجرین و انصار متاخر ہیں لیکن اپنے بعد والے کے لئے وہی سابقین اولین ہیں اور وہ اپنے بعد والوں کی نسبت سے سابقون

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ بقرہ:آیت 159 (2) سورہ رعدآیت 25

۶۰