فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ15%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206473 / ڈاؤنلوڈ: 5999
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ رضائے پروردگار کسی کے مرنے تک باقی رہے یعنی خدا ان سے مرنے کے وقت تک راضی رہے!

اخبار بالرضا کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت اللہ نے اس کی خبر دی اس وقت وہ ان سے راضی تھا اور مخصوص وقت وہ ہے جب آیت شریفہ نازل ہوئی ۔ اس سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ یہ رضایت ان کے مرنے تک برقرار رہی اور وہ لوگ جب مرے تو اللہ ان سے راضی تھا،اس لئے کہ مولا اپنے بندے سے اسی وقت تک راضی رہتا ہے جب تک اس کا بندہ اس کا مطیع رہتا ہے چاہے وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرکے اس کو راضی کرے،حالات کی تبدیلی کے ساتھ رضائے مولا بھی بدلتی رہتی ہے،یہ بندے کے اعمال پر منحصر ہے،ایسا ہوتا ہے کہ آج بندے کی اطاعت شعاری سے خوش ہو کے مولا راضی ہوگیا پھر بندے نے اس کی نافرمانی کی اور وہ بندے سے غضبناک ہوگیا پھر جب بندے نے توبہ کی اور اس کی اطاعت کی تو مولا خوش ہوگیا،رضا اور غضب کا معاملی یونہی چلتا رہتا ہے،رضا کی شان یہ نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ باقی رہے اور زائل ہی نہ ہو،اس سے پتہ چلتا ہے کہ خدا کی رضا سے ان کی نجات پر استدلال کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔

جنت کے وعدے کی وجہ سے سابقون اوّلون کی نجات پر استدلال

رہ گیا ان کے لئے جنت کا وعدہ اور ان کی عظیم کامیابی کا فیصلہ تو یقیناً اس سے دعوے پر استدلال کیا جاسکتا ہے اور ہم اس سلسلے میں آئندہ گفتگو کریں گے،لیکن پہلے ہم مدعا تو طے کرلیں اس کے بعد دیکھیں کہ آیت شریفہ اس پر دلالت کرتی ہے یا نہیں ۔

مدعا کے دو رخ ممکن ہیں

پہلی توجیہ یہ ہے کہ:(سابقون اوّلون کی سلامتی قطعی ہے اور جنت یقینی)

وجہ اول۔سابقون اوّلون قطعی طور پر آخرت میں سلامت رہیں گے اور نجات یافتہ ہونگے اور جنت حاصل کرلیں گےتو کیوں؟یا تو اس لئے کہ وہ گناہوں سے معصوم ہیں یا اس لئے کہ ان کی توبہ پر

۴۱

قبولیت کا مہر لگ چکی ہے یا اس لئے کہ اللہ نے ان کو اپنی خاص مہربانی سے معاف کردیا ہے اور مغفور قرار دیا ہے،چاہے وہ گناہگاری کی حالت میں مرے ہوں ۔

آیت کریمہ اس کی طرف دلالت کرتی ہے،اس لئے کہ رضا کا تذکرے کے فوراً بعد ان کے لئے جنت کی تیاری کی اور ان کی کامیابی کی خبر دی گئی،جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی سلامتی یقینی ہے،لیکن یہ بات یوں کٹ جاتی ہے کہ مندرجہ بالا وعدہ صرف سابقون اوّلون ہی سے مخصوص نہیں ہے،اس لئے کہ جو باتیں ان کے بارے میں وارد ہوئی ہیں،وہی باتیں دوسروں کے بارے میں بھی وارد ہوئی ہیں ۔

ہر مہاجر اور انصار کے لئے کامیابی اور جنت کا وعدہ

اللہ کا ارشاد ہے:(فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِّنْ عِندِ اللَّهِ وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ) (۱)

ترجمہ آیت:(تو ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کرلی اور فرمایا کہ ہم تم میں سے کسی کام کرنےوالے کے کام کو ضائع نہیں کرتے وہ مرد ہو یا عورت اس میں کسی کی کوئی خصوصیت نہیں،اس لئے کہ تم ایک دوسرے کی جنس ہو،جو لوگ آوارہ وطن ہوئے اور شہر بدر کئے گئے اور ہماری راہ میں اذیتیں اٹھائیں اور کفار سے جنگ کی اور شہید ہوئے ہیں میں ان کی برائیوں سے ضرور درگذر کروں گا اور انھیں بہشت کے ان باغون میں لے جاؤں گا جس کے نیچے نہریں جاری ہیں،خدا کے یہاں یہ ان کے کام کا بدلہ ہے اور خدا کے پاس تو اچھا ہی بدلہ ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ آل عمران آیت ۱۹۵

۴۲

اور دوسری جگہ ارشاد ہوا:(وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ قُتِلُوا أَوْ مَاتُوا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللَّهُ رِزْقًا حَسَنًاوَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ-لَيُدْخِلَنَّهُم مُّدْخَلًا يَرْضَوْنَهُوَإِنَّ اللَّهَ لَعَلِيمٌ حَلِيمٌ) (۱)

ترجمہ آیت:(اور جن لوگوں نے خدا کی راہ میں اپنے دیس چھوڑے پھر شہید کئے گئے یا آپ اپنی موت مرگئے،خدا انھیں آخرت میں ضرور عمدہ رزق عنایت فرمائےگا اور بیشک تمام روزی دینے والوں میں خدا ہی سب سے بہتر ہے،وہ انھیں ضرور ایسی(بہشت)پہنچائےگا جس سے وہ نہال ہوجائیں گے اور بیشک خدا بڑا واقف کار اور بردبار ہے) ۔

اسی طرح کی دوسری آیتیں بھی ہیں جن میں مہاجر کے لئے جنت کا وعدہ کیا گیا ہے چاہے وہ سابقون میں سے نہ ہو بلکہ وعدہ میں عموم پایا جاتا ہے یعنی مہاجر کی لفظ مطلق وارد ہوئی ہے ہر اس شخص کے لئے جو بلاد کفر سے بلاد اسلام کی طرف ہجرت کرے،چاہے اسنے نبی ؐ کے دور میں ہجرت کی ہو یا نبی ؐ کے بعد ۔

ملاحظہ ہو ارشاد ہوتا ہے:(وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَّهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ) (۲)

ترجمہ آیت:اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور خدا کی راہ میں لڑے بھڑے اور جن لوگوں نے ایسے نازک وقت میں مہاجرین کو پناہ دی اور ان کی ہر طرح خبر گیری کی وہی لوگ سچے ایمان دار ہیں انہیں کے واسطے مغفرت اور عزت و آبرو والی روزی ہے) ۔

اس آیت کا مقتضا تو یہ ہے کہ سلامتی اور کامیابی سب کے لئے عام ہے چاہے وہ مہاجرین ہوں چاہے انصار ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ حج آیت ۵۸ ۔ ۵۹

( ۲) سورہ انفال آیت ۷۴

۴۳

ہر صالح مومن کے لئے کامیابی کا وعدہ ہے

آیتوں میں تو عام مومنین کے لئے کامیابی اور جنت کا وعدہ ہے شرط یہ ہے کہ وہ مومن صالح ہو ۔ ارشاد ہوتا ہے:(وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ) (۱)

ترجمہ آیت:(آپ خوش خبری دیں صاحبان ایمان اور عمل صالح کرنےوالوں کو کہ ان کے لئے جنت ہے جس میں نہریں جاری ہیں) ۔

ارشاد ہوتا ہوا: (وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُبَوِّئَنَّهُم مِّنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا نِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ) (۲)

ترجمہ آیت:(جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح انجام دیتے ہیں انھیں ہم ضرور جنت میں کمرے عنایت فرمائیں گے(وہ جنت)جس کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور عمل کرنےوالوں کو بہتر بدلہ ملےگا) ۔

دوسری جگہ ارشاد ہوا:(وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي رَوْضَاتِ الْجَنَّاتِلَهُم مَّا يَشَاءُونَ عِندَ رَبِّهِمْ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ-ذَٰلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ) (۳)

ترجمہ آیت:(جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے وہ بہشت کے باغوں میں ہوں گے وہ جو کچھ چاہیں گے ان کے لئے ان کے پروردگار کی بارگاہ میں موجود ہے تو خدا کا بڑا فضل ہے،یہی(انعام)ہے جس کی خدا اپنے بندوں کو خوشخبری دیتا ہے،جو ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے) ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ بقرہ آیت ۲۵

( ۲) سورہ عنکبوت آیت ۵۸

( ۳) سورہ شوریٰ آیت ۲۳،۲۲

۴۴

(اے رسول)تم کہہ دو کہ میں اس تبلیغ رسالت کا اپنے قرابت داروں(اہل بیت)کی محبت کے سوا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا اور جو شخص نیکی حاصل کرےگا ہم اس کے لئے اس کی خوبی میں اضافہ کردیں گے بیشک خدا بڑا بخشنےوالا قدردان ہے ۔

ہر مومن سے جنت اور کامیابی کا وعدہ ہے

بلکہ بعض آیتوں میں تو عمل صالح کی قید بھی نہیں لگائی گئی ہے،بلکہ مطلقاً تمام مومنین سے کامیابی اور جنت کا وعدہ کیا گیا ہے ملاحظہ ہو:

(وَعَدَاللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّهِ أَكْبَرُ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ) (۱)

ترجمہ آیت:(خدا نے ایمان دار مردوں سے اور ایماندار عورتوں سے(بہشت)کے ان باغوں کا وعدہ کرلیا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے،بہشتِ عدن میں عمدہ عمدہ مکانات کا بھی وعدہ فرمایا ہے،خدا کی خوشنودی ان سب سے بالاتر ہے یہی تو بڑی کامیابی ہے) ۔

ہر گنہگار اور بےراہ کو خسران اور عذاب کی وعید ہے

اسی طرح کتاب مجید اور سنت پاک میں ہر گنہگار اور کھ رو کو اس کے گناہ اور کجروی کی وجہ سے عذاب اور خسران کی دھمکی دی گئی ہے ۔

(وَمَن يُشَاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ)(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ توبہ آیت ۷۲

( ۲) سورہ انفال آیت ۱۳

۴۵

ترجمہ آیت:(اور جو شخص بھی خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کرے تو یاد رہے کہ خدا بہت سخت عذاب کرنےوالا ہے) ۔

ارشاد ہوا:(وَمَن يُشَاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ) (۱)

ترجمہ آیت:(جس نے بھی خدا کی مخالفت کی(تو یاد رہے کہ)خدا بڑا سخت عذاب دینےوالا ہے) ۔

اور اسی طرح دوسری جگہ فرمایا:(وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَوَسَاءَتْ مَصِيرًا) (۲)

ترجمہ آیت:(سورۂ نساء میں ارشاد ہوا:(اور جو شخص راہ راست کے ظاہر ہونے کے بعد رسول ؐ سے سرکشی کرے اور مومنین کے طریقے کے علاوہ کسی اور راہ پر چلے تو جدھر وہ پھر گیا ہے ہم ادھر ہی پھیر دیں گے اور آخر میں اسے جہنم میں جھونک دیں گے،وہ تو برا ٹھکانہ ہے) ۔

دوسری جگہ ارشاد ہوا :(وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا) (۳)

ترجمہ آیت:(اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کے مار ڈ الے اس کی سزا صرف دوزخ ہے،وہ اس میں ہمیشہ رہےگا،خدا نے اس پر اپنا غضب ڈ ھایا ہے اور لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا سخت عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

اس کے علاوہ بھی بہت سے آیتیں ہیں جن کا شمار ممکن نہین اور حدیثوں کا بھی یہی حال ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۲) سورہ حشر آیت ۴

( ۳) سورہ نساءآیت ۱۱۴

( ۴) سورہ نساءآیت ۹۳

۴۶

الہی وعدے حُسن خاتمہ سے مشروط ہیں

مذکورہ ساری آیتوں کو مد نظر رکھا جائے تو دو گروہ ہوجاتے ہیں ایک وعدوالے ہیں دوسرے وعیدوالے دونوں میں جمع کی صورت نکالنا بہت ضروری ہے اور وہ اس طریقہ سے کہ:

وعد کی دلیلیں ان کے لئے ہیں جن کا خاتمہ بالخیر ہو خاتمہ بالخیر بھی دو وجہ سے ہوسکتا ہے یا تو وہ دین حق اور عمل صالح پر آخر وقت تک قائم رہے ہوں یا تو یہ کہ درمیان میں غلطی ہوئی لیکن انہوں نے فوراً توبہ کر لی اور کجروی سے نکل کر حق کی طرف واپس آگئے ۔

آیتیں،حدیثیں دوسرےوالے سبب کا فائدہ پہنچاتی ہیں،ملاحظہ ہو: (يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ-إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ) (۱)

ترجمہ آیت:ایسا دن کے جس میں نہ مال فائدہ پہنچائےگا نہ اولا مگر یہ کہ صاف اور سلیم دل کے ساتھ خدا کے پاس واپس آئے ۔

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے: (إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ) (۲)

ترجمہ آیت:(وہ لوگ جنھوں نے یہ کہہ دیا کہ ہمارا پروردگار تو بس خدا ہے پھر اپنی بات پر قائم رہے ان پر رشتے نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ڈ رو نہین اور غم نہ کرو تمھیں جنت کی بشارت ہو کہ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔

اور پھر دوسری آیت: (أُولَٰئِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ-خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ شعراءآیت ۸۸ اور ۸۹

( ۲) فصلت آیت ۳۰

۴۷

وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ-إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ)(۱)

ترجمہ آیت:(یہ وہ لوگ ہیں جو کو بدلے میں خدا کی فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ملی ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ان کے عذاب میں تخفیف ہوگی نہ ان کو مہلت دی جائےگی سوا ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے بعد(گناہوں کے بعد)توبہ کی اور اپنی اصلاح کرلی تو بیشک اللہ بخشنےوالا اور رحم کرنے والا ہے) ۔

اب ظاہر ہے کہ اس آیت کو تو سابقون اولون پر بھی جاری کیا جائےگا اور اس آیت پر بھی جس سے آپ نے استدلال کیا ہے اس لئے کہ اس آیت میں خصوصی طور پر ان لوگوں کا تذکرہ ہے بلکہ خاص طور سے ان پر محمول کیا جارہا ہے جو عہد کی پابندی پر قائم رہے اور امر خدا سےمنحرف نہیں ہوئے ۔

صحابہ کو فتنہ اور پھر جانے سے بچنے کی ہدایت

خاص طور سے صحابہ کو یہ ہدایت دی گئی ہےہ وہ خود کو فتنہ اور اسلام سے برگشتہ ہوجانے سے محفوظ رکھیں ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو لوگ آگے چل کے بدل جائیں گے ان کے لئے عذاب اور خسران مبین ہی ہوگا،ارشاد ہوتا ہے:( مَّا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ) (۲)

ترجمہ آیت:(ایسا نہیں کہ برے بھلے کی تمیز کئے بغیر خدا اسی حالت پر مؤمنون کو چھوڑدے گا ۔ اور ایسا نہیں ہے کہ وہ تمہیں غیب کی باتیں بتادےگا مگر ہاں خدا اپنے رسولوں میں جسے چاہتا ہے(غیب کے لئے)چن لیتا ہے) ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ آل عمران آیت ۸۷ تا ۸۹ (۲) سورہ آل عمران آیت ۱۷۹

۴۸

ظاہر ہے کہ اس آیت سے مراد وہ لوگ ہرگز نہیں ہیں جنہیں نزول آیت سے پہلے ہی منافقین کے نام سے بہچانا جاتا تھا جیسا کہ میں آپ کے دوسرےسوال میں متوجہ کرچکا ہوں ۔

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:خطاب اوائل ہجرت کے مسلمانوں سے ہے بات واقعۂ بدر کی ہے جب کہ بعض صحابہ یا سب کے سب ان سابقون میں تھے جو آپ کی زبان میں سابقون ہیں

(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْوَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ-وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةًوَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ)(۱)

ترجمہ آیت:(اے ایمان لانےوالو!جب ہمارا رسول ایسے کام کے لئے بلائے جو تمہاری روحانی زندگی کا باعث ہو تو تم خدا اور رسول کا حکم دل سے قبول کرو اور جان لو کہ وہ خدا قادر مطلق ہے کہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان آجاتا ہے اور یہ بھی سمجھ لو کہ تم سب کے سب اس کے سامنے حاضر کئے جاؤگے اور اس فتنہ سے ڈ رتے رہو جو خاص انہیں لوگوں پر نہیں پڑےگا جنھوں نے تم میں سےظلم کیا(بلکہ تم سب کے سب اس میں پڑجاوگے)اور یقین جانو کہ خدا بڑا سخت عذاب کرنےوالا ہے) ۔

عون ابن قتادہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے زبیر بن عوام نے بیان کیا پیغمبر ؐ ہمیں اس فتنہ سے ڈ راتے تھے جس کے بارے میں وہم و گمان بھی نہ تھا کہ ہم اس کے لئے پیدا ہوئے ہیں پھر مندرجہ بالا آیت پڑھی زبیر کہتے ہیں کہ ہم اس آیت کو ایک مدت تک پڑھتے رہے اور پھر ہم ہی اس آیت کا عنوان بن گئے راوی نے کہا جب ایسا،ہوا تو آپ لوگ اس فتنہ نکل کیوں نہیں گئے؟کہنے لگے تجھ پروائے ہو ہم جان گئے تھے لیکن صبر نہیں کرسکے ۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ انفال آیت ۲۴ اور ۲۵

(۲)سنن الواردہ فی الفتن ج۱ص۲۰۴،باب قول اللہ(واتقوا فتنۃ)تفسیر ابن کثیرج۲ص۳۰۰

۴۹

اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو خاص طور سے ان لوگوں کو جو احد کے دن فرار کر گئے تھے جو سب کے سب یا ان میں سے زیادہ تر سابقون اولون میں سے تھے خطاب کر کے عذاب آمیز لہجے میں فرماتا ہے: (وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ) (۱)

ترجمہ آیت:(محمد ؐ تو بس رسول ہے ان کے پہلے بھی بہت سے رسول گذرچکے ہیں تو اگر وہ مرگئے یا قتل ہوگئے تو کیا تم اپنے پچھلے پیروں واپس پلٹ جاؤگے؟اور جو اپنے پچھلے مذہب پر واپس جائےگا وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کرےگا اور خدا شکر گذاروں کو بدلہ دےگا) ۔

دوسری جگہ ارشاد ہوا:(وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُوَأُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ-يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌفَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ-وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللَّهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ) (۲)

ترجمہ آیت:ان لوگوں کے جیسے نہ ہوجانا جو آپس میں پھوٹ ڈ ال کے بیٹھے ہوں اور روزن دلیلیں آنے کے بعد بھی ایک منھ اور ایک زبان نہ ہوسکے اور ایسے ہی لوگوں کے لئے بڑا(بھاری)عذاب ہے اس دن سے ڈ رو جس دن کچھ لوگوں کے چہرے تو سفید نورانی ہوں گے اور کچھ لوگوں کے چہرے سیاہ،بس جن لوگوں کے منھ میں کالک لگی ہوگی ان سے کہا جائےگا تم تو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے تھے بولو(اور اب)اپنے کفر کی سزا میں عذاب کے مزے چکھو اور جن کے چہرے نورانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ آل عمران آیت۱۴۴

(۲)سورہ آل عمران آیت۱۰۵تا۱۰۷

۵۰

ہوں گے وہ تو خدا کی رحمت میں رہیں گے اور ہمیشہ اسی کے سائے میں رہیں گے ۔

اور دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ) (۱)

ترجمہ آیت:(اے ایمان لانےوالو!خدا کی اور اس کے رسول ؐ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو باطل نہ کرو) ۔

اسی طرح کے مضامین پر مشتمل بہت سی آیتیں ہیں جن میں کچھ کا تذکرہ آپ کے سابقہ سوالات میں دوسرے سوال کے جواب میں ہوچکا ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی آیتیں ہیں جنھیں میں نے ذکر نہیں کیا ہے ۔

ان تمام باتوں سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے جس آیت کو مقام استدلال میں پیش کیا ہے اس کو اس بات پر محمول کیا جائے کہ اس میں خاتمہ بالخیر ہونے کی شرط ہے(یعنی سابقین اولین ممدوح ہیں لیکن اس شرط پر کہ آخر تک ایمان و عمل صالح قائم رہے ہوں اور موت بھی ایمان کی حالت پر ہوئی ہو)جیسا کہ یہی دلیل ان تمام لوگوں کے بارے میں دی جاتی ہے جن کی سلامتی قطعی ہے آپ کے کلام میں یہی بات ظاہر ہوتی ہے اور میں نے اس کا تذکرہ نہیں کیا ہے اصل میں بات اتنی واضح ہے کہ اس پر مزید روشنی ڈ النے کی ضرورت نہیں ہے پھر گنجائش بھی نہیں ہے کہ لمبی چوڑی بحث کی جائے ۔

پھر کامیابی کا وعدہ مطلق کیوں؟

آیہ مذکورہ اور دوسری آیت میں اطلاق اسی شرط پر مانا جاسکتا ہے کہ اس آیت میں ممدوح حضرات کو ایمان پر استقامت بھی حاصل ہو اور خاتمہ بھی بالخیر ہو!یہ بات اتنی واضح ہے کہ محتاج دلیل نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ محمدآیت ۳۳

۵۱

بلکہ اتنی واضح ہے کہ اس شرط پر نص کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے اس لئے کہ سب جانتے ہیں کہ شرعی اور عقلی اعتبار سے کامیابی کا مستحق صرف وہ ہے جو ایمان اور عمل صالح رکھتا ہو یا عمل خیر کی طرف سبقت کرتا ہو تو ایمان اور عمل صالح کی غیر موجودگی میں کامیابی کوئی معنی نہیں رکھتی جو آدمی خدا کے فرائض کو انجام ہی نہ دیتا ہو اور صراط مستقیم کو چھوڑچکا ہو وہ کامیاب کیسے ہوسکتا ہے؟

تھوڑی سی گفتگو تا بعین کے بارے میں بھی ہوجائے

اگر آیہ شریفہ کو مندرجہ بالا معنی پر محمول نہیں کریں گے تو پھر تابعین کے لئے بھی اطلاق کو ماننا پڑےگا اس لئے کہ سابقین اوّلین کے احسان سے مراد ایمان اور عمل صالح ہے،تو اگر تھوڑے وقت کے لئے بھی سابقین اوّلین کے احسان پر وہ عمل پیرا ہوجاتے ہیں تو وہی قلیل مدت ہی انھیں تابعین کے زمرہ میں شامل کردےگی بھلے ہی بعد میں وہ بدل جائیں اور اگر سابقین کے احسان سے مراد یہ ہے کہ اس میں استمرار اور استقامت پائی جاتی ہو اور ان کا خاتمہ بالخیر یعنی وہ خدا سے راہ حق پر چلتے ہوے ملاقی ہوئے ہوں تو تابعین کا اتباع بھی اسی معنی میں محقق ہوگا،ورنہ کوئی سبب نہیں ہے کہ ہم تابعین کے لئے تو استقامت و استمرار اور خاتمہ بالخیر کی شرط لگائیں اور سابقین اوّلین کو آزاد چھوڑ دیں ۔

ہاں اگر اس آیت کی تفسیر اس طرح کی جائے کہ((مہاجرین و انصار میں سے جو سابقین اوّلین ہیں(۱) اور وہ لوگ جو کہ ان کی پیروی کرتے ہیں احسان میں اور استقامت رکھتے ہیں اور اسی احسان و نیکی پر چلتے ہوئے(مرجاتے ہیں)تو اللہ ان سے راضی ہے......)

لیکن آیت شریفہ کا میرے بیان کردہ مطلب کے علاوہ کوئی مطلب بھی نہیں نکلتا ہے آپ بھی تھوڑا غور کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) کلمہ((اور))بڑھا دیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ سابقین اولین میں حُسن خاتمہ اور ایمان و عمل کی شرط نہیں ہے لیکن تابعین میں ہے(مترجم)

۵۲

سابقون اوّلون میں کچھ لوگ مرتد بھی ہوگئے

۱ ۔ سابقین اوّلین میں کچھ لوگ مرتد بھی ہوگئے تھے،جیسے عبیداللہ بن جحش وہ حبشہ کی طرف نکل گیا تھا اور وہاں جا کے نصرانی ہوگیا(۱) کیا آپ کو اس کی ہلاکت میں شک ہے کیا آیت شریفہ اس کا بھی احاطہ کرتی ہے،نہیں آیت اس کو اپنے دائرے میں لینے سے قاصر ہے اور یہ قصور صرف اس لئے ہے کہ آیت میں استقامت کی شرط ہے جیسا کہ ابھی عرض کیا گیا اسی طرح نضیر بن حارث عبدری کا معاملہ ہے یہ نضر کا بھائی تھا نضر کو امیرالمومنین ؑ نے واقعہ بدر کے بعد حکم پیغمبر ؐ سے بند کر کے قتل کردیا تھا روایتوں میں ہے کہ یہ نضیر سابقین اوّلین میں تھا حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی تھی پھر مکہ میں مرتد ہوکے واپس آیا فتح مکہ کے دن پھر مسلمان ہوگیا(۲) یہ مولفۃ القلوب میں سے تھا حضور ؐ نے اس کی تالیف قلب کے لئے حنین کے دن اس کو سونا قے دیے اور یرموک میں شہید ہوا ۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) مستدرک علی صحیحین ج: ۴ ص: ۲۱ کتاب معرفۃ الصحابہ:ابی سفیان کی بیٹی ام حبیبہ نے ذکر کیا ہے۔حاشیۃ ابن القیم ج: ۶ ص: ۷۵ عون المعبودج: ۶ ص: ۷۴ ،تھذیب التھذیب ج: ۱۲ ص: ۴۳۷ ،حبیبۃ بنت عبیداللہ بن جحش سوانح حیات میں،تھذیب الکمال ج: ۳۵ ص: ۱۷۵ ،رملۃ بنت ابی سفیان کی سوانح حیات میں،التعدیل و التجریح لمن خرج لہ البخاری فی الجامع الصحیح ج: ۳ ص ۱۲۸۳ رملۃ بنت ابی سفیان کی سوانح حیات میں،الاستیعاب ج: ۳ ص: ۸۷۷ فی ترجمۃ عبداللہ بن جحش سوانح حیات میں،ج: ۴ ص: ۱۸۰۹ حبیبۃ ابنۃ ابی سفیان کی سوانح حیات میں،ص: ۱۸۴۴ ،رملۃ بنت ابی سفیان سوانح حیات میں،الاصابۃ ج: ۷ ص ۶۵۱ رملۃ بنت ابی سفیان کے سوانح حیات میں،الاکمال لابن ماکولا ج: ۷ ص: ۱۲۵ ،کبیر و کثیر و کثیر و کنیز و کنیز کے باب میں،السیرۃ النبویۃ ج: ۲ ص ۵۱ ،ذکر کیا ہے ورقۃ ابن نوفل بن اسد نے تاریخ دمشق ج: ۳ ص: ۱۷۳ النبی محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب کی سوانح حیات میں:جناب عبدالمطلب کے لڑکے و لڑکیوں اور بیویوں کے باب میں،ص: ۴۱۵ باب اخبار الاخبار بنبوتہ و الرھبان و ما یذکر من امرہ عن العلماء و الکھان،

( ۲) الاصابۃ ج: ۶ ص: ۴۳۰ ،نضر بن الحارث کے سوانح حیات میں،انساب الشراف ج: ۱ ص ۲۳۲ ،ان لوگوں کے نام کے بارے میں جن مسلمانوں نے حبشہ کی طرف اپنے دین کی خاطر لڑنے کے لئے مشرکوں سے جو قریش میں سے تھے اور وہ نبیؐ کے اذن سے تھی۔تاریخ دمشق ج: ۶۲ ص ۱۰۵ ،نضیر بن الحارث کے سوانح حیات میں۔

( ۳) الاصابۃ ج: ۶ ص: ۴۳۶ ،نضر بن الحارث کے سوانح حیات میں،الاستیعاب ج: ۴ ص: ۱۵۲۵ ،نضر بن الحارث کے سوانح حیات میں،تاریخ دمشق ج: ۶۲ ص ۱۰۱ ،نضیر بن الحارث کے سوانح حیات میں،

۵۳

سابقین اوّلین کے حالات ایسے نہیں کہ سب کی کامیابی کا یقین کر لیا جائے!

۲ ۔ سابقین اوّلین کا کردار اور ان کے آپسی اختلافات اور اپنے بارے میں ان کے نظریات یا دوسرے صحابہ کے ان کے بارے میں نظریات کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا تو قطعی مناسب نہیں ہے کہ سب کے سب کامیاب و کامران ہیں ہم نے اس سلسلہ میں دوسرے نمبر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کچھ باتیں پیش بھی کی تھیں وہ واقعات اگر چہ عام صحابہ متعلق ہیں لیکن اکثر واقعات تو خاص طور سے سابقون اوّلون سے متعلق ہیں آپ اپنے دوسرے سوال کے جواب کو دیکھیں بات واضح ہوجائے گی میں ان باتوں کا اعادہ کرنا ضروری نہیں سمجھتا ۔ آپ جانتے ہیں کہ سقیفہ کے دن لوگوں نے سعد بن عبادہ انصاری کی بیعت کرنا چاہی تو ابوعبیدہ انصاری بول اٹھے،اے گروہ انصار تم لوگوں نے سب سے پہلے نبی ؐ کی نصرت کی تھی کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی دین نبی ؐ میں سب سے پہلے تغیر و تبدل دینےوالے بن جاؤ!(۱)

آپ دیکھ رہے ہیں کہ ابوعبیدہ تغیر سے ڈ را رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ نصرت میں سبقت تغیر کے ساتھ فائدہ نہیں دےگی بلکہ استقامت کے ساتھ فائدہ دےگی،یہ تمام باتیں شہادت دیتی ہیں کہ صحابہ اگر چہ ایسے ماحول میں تھے جس میں یہ آیت نازل ہوئی تھی لیکن پھر بھی خود کو یقینی طور پر نجات یافتہ اور کامیاب نہیں سمجھتے تھے اور اس آیت کے گرد و پیش جو قرینے ہیں ان پر نظر رکھتے تھے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ یعقوبی ج:۲ص:۱۲۳،سقیفہ بنی ساعدۃ و بیعتہ ابی بکر کی خبر میں،واللفظ لہ،تاریخ الطبری ج:۲ص:۲۴۳ذکر الخیر عما جری بین المھاجرین و الانصار امر الامارۃ فی سقیفۃ بنی ساعدۃ،الامامۃ و السیاسۃ ج:۱ص:۱۲ذکر السقیفۃ و ما جری فیھا من القول،

۵۴

سابقین اوّلین کو قطعی طور پر نجات یافتہ مان لینا انھیں برائیوں کی طرف ترغیب دینا ہے

۳ ۔ ظاہر ہے کہ مذکورہ بالا آیت بہت سے سابقون اولون ہی کی زندگی میں نازل ہوچکی تھی یہ بات بعید از فہم ہے کہ اللہ سابقون اولون کو استقامت کی شررط کے بغیر اور دین سے پھر جانے کی قید کے بغیر ہی سلامتی اور کامیابی کا یقین دلا دے،اس سے تو ان سابقون اولون کو برائی کی ترغیب ملےگی عقل کا فیصلہ ہے کہ سب سے بڑی خرابی عقیدہ اور عمل میں انقلاب اور کجی ہے عیقدہ اور عمل ہی قیامت کے دن خدا کی سب سے بڑی حجت ہوں گے اس لئے کہ انہیں کے ذریعہ خوف ہلاکت سے بچا جاسکتا ہے جب عقیدہ اور عمل ہی معاف کردیا گیا(تو گویا سابقون اولون حساب سے بری ہوگئے)تو برائیوں سے روکنے کی دعوت بھی ہلکی ہوجائےگی اور یہ بات لوگوں پر قیام حجت الٰہی کی حکمت کے خلاف ہے نیز اس طرح سے(چھوٹ دے کر)خدا ان کی اصلاح نہیں کرسکتا سلامت قطعی کا وعدہ خدا کا ابتدائی فضل بھی نہیں ہے کہ ان لوگوں کی اطاعت کے ذریعہ اظہار تشکر کرنے سے روک رہا ہے بلکہ یہ وعدہ شخص موعود کے عمل کی بنا پر کیا گیا ہے اس لئے کہ عمل صالح اور خیالی دنیا میں مراتب کامیابی عام انسانوں کے اندر غرور،تفاخر اور اتراہٹ پیدا کرتے ہیں عام انسان تو ان خرابیوں کا شکار ہو ہی جاتا ہے،)ہاں اگر اللہ کی طرف سے توفیق حاصل ہو تو بچ سکتا ہے ۔

پھر یہ بھی تو دیکھئے کہ سابقون اولون کے درمیان آپس میں کتنی صف بندی ہے سابقہ نظریات اور موہوم مراتب کی وجہ سے ہر آدمی اولویت کا دعوےدار ہے اور آپس کا اختلاف دعوت اور اتباع کو مستقل نقصان پہنچاتا رہا ہے نتیجہ ظاہر ہے سابقون اولون کی تاریخ تفاخر اختلافات اور آپس کی فرقہ بندی سے بھری پڑی ہے جب کہ صحیح یہ ہے کہ کسی کو بھی اپنی نجات کا یقین نہیں اور پھر کوئی بھی اخروی کامیابی قطعی نہیں سمجھتا بلکہ اکثر سابقون اولون تو آخرت سے خوف زدہ ہیں جبکہ انھیں نہیں معلوم کہ ان کا

۵۵

ٹھکانہ کہاں ہے؟یہ باتیں پہلے بھی میں آپ کی خدمت میں دوسرے سوالوں کے جواب میں عرض کرچکا ہوں(وہ اپنے انجام کے بارے میں مشکوک تھے اس کے باوجود تاریخ ان کی بےراہ روی سے بھری پڑی ہے)تو اگر انھیں آخرت کی سلامتی اور نجات کا یقین دلا دیا جاتا تو وہ کیا گل کھلاتے؟ویسے بھی یہ بات ہرگز نہیں سمجھ میں آتی کہ اللہ کسی ایک آدمی کو اس کی زندگی ہی میں جنت کا یقین دلادے چہ جائے کہ ایک پوری جماعت کو جو کہ تفاخر اور آپسی لڑاتئی جھگڑے و غیرہ کی مرتکب ہو نیز امت کی قیادت کے لئے مقابلے میں اترسکتی ہے جیسا کہ ابھی تک ایسا ہوتا چلا آتا ہے پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے جب کہ حضور سرکار دو عالم ؐ جن کی رفعت سے کسی کو انکار نہیں نہ اس سے انکار ہے کہ آپ نے خواہش نفسانی پر قبضہ پالیا ہے لیکن اللہ مقام ہدایت میں آپ کی بھی تبلیغ یا دہانی سے نہیں چوکتا اور آپ کو انحراف اور کجی کا انجام بار بار تباتا ہے تا کہ آپ بھی محتاط رہیں اور دوسرے بھی سمجھ لیں کہ جب انحراف اور گمراہی نبی ؐ کے لئے ہلاکت خیز ہوسکتا ہے تو ہم اور آپ کس شمار میں آتے ہیں ۔

ارشاد ہوا:(وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ) (۱)

ترجمہ آیت:(میں نے آپ پر اور آپ کے پہلے انبیا پر وحی نازل کرکے یہ بتا دیا ہے کہ اگر آپ شرک کریں گے تو آپ کے سارے اعمال حبط ہوجائیں گے اور آپ یقیناً بہت نقصان اٹھانےوالوں میں ہوں گے) ۔

پھر دوسری جگہ ارشاد ہوا:(وَلَوْلَا أَن ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدتَّ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا-إِذًا لَّأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا) (۲)

ترجمہ آیت:(اگر میں نے آپ کو ثابت قدم کی توفیق نہیں دی ہوتی تو آپ(کافروں کی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ زمرآیت ۶۵

( ۲) سورہ اسراءآیت ۷۴ اور ۷۵

۵۶

طرف تھوڑ ٓ سا جھک جاتے اور اگر ایسا ہوتا پھر آپ مرمر کے جیتے جب بھی آپ کو میرے خلاف کوئی مددگار نہیں ملتا) ۔

دوسری جگہ ارشاد ہوا:(وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ-لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ-ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ-فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ) (۱)

ترجمہ آیت:(اگر رسول ؐ ہماری نسبت کوئی جھوٹ بات بنالاتے تو ہم انکا داہنہ ہاتھ پکڑ لیتے پھر ہم ضرور ان کی گردن اڑادیتے تو تم میں سے کوئی بھی مجھے روک نہ سکتا) ۔

خود حضور سرکار دو عالم ؐ فرماتے ہیں کہ:رحمت کی مدد سے صرف عمل ہی نجات دے سکتا ہے اگر میں بھی نافرمانی کروں تو برباد ہوجاؤں گا(۲) اور اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں ۔

سابق الایمان ہونے سے ذمّہ داریاں بڑھ جاتی ہیں

البتہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ آیت شریفہ کا ظاہری معنی یہ ثابت کرتا ہے کہ بہرحال ایمان پر سبقت اور عمل صالح ایک بڑی فضیلت ہے لیکن سابقین ایمان کی ذمّہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں اس لئے کہ مومن کی شان جس قدر بلند ہوتی ہے اور جیسے جیسے اس کو رفعت حاصل ہوتی جاتی ہے اور ان پر خدا کی نعمتیں بڑھتی جاتی ہے اور اس کی حمایت میں دلیلیں اکھٹی ہوتی جاتی ہیں اور اسی حساب سے اس کی ذمّہ داری بھی بڑھ جاتی ہے اور اس کے ایمان اور یقین کے لئے خطرے بھی بہت پیدا ہوجاتے ہیں تو اگر وہ اپنی ذمّہ داریوں سے عہد برآ ہوتا رہتا ہے اور اپنی بلند کرداری اور سیرت کو برقرار رکھتا ہے تو اس کی شان بھی بڑھتی رہتی ہے اور اجر بھی بڑھتا رہتا ہے لیکن اگر اس کا دل ٹیڑھا ہوجائے اور وہ پستیوں کی طرف جھک جائے تو اسی حساب سے اس کی سزا بھی بڑھ جاتی ہے اس لئے کہ اس پر تو حجت تمام ہوچکی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ حاقہ آیت ۴۴ تا ۴۷

( ۲) شرح نہج البلاغہ ج: ۱ ص: ۱۸۴ ،الارشاد للشیخ المفیدج: ۱ ص: ۱۸۲

۵۷

خود سوچیں سابقوں اولون اپنے بعد آنےوالوں کے لئے نمونہ عمل ہیں اگر وہی کجرو اور گمراہ ہوگئے تو بعد کے آنےوالے ان کی پیروی میں گمراہ ہوں گے،پھر ان کی گمراہی کا سبب کون بنا ظاہر ہے جن کی ان لوگوں نے پیروی کی ہے نتیجہ یہ ہوا کہ سابقون اولون اپنی گمراہی کی وجہ سے دو گنا عذاب کے مستحق قرار پائے یعنی ان کی مسؤلیت نے انہیں دو گنا عذاب کا مستحق بنادیا،جیسا کہ یہ ساری باتیں سابقہ سوالوں کے دوسرے سوال کے جواب میں کہہ چکے ہیں ۔

کیا سابقون اولون کے معاملے میں دخل دینا چاہئے

دوسری وجہ ۔ آپ کے سوال سے ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے،وہ یہ ہے کہ اگر سابقون اولون کی نجات یقینی نہیں ہے نہ ان کی کامیابی یقینی ہے لیکن پھر متاخرین کو ان پر ان کی حرکتوں کی وجہ سے اور بدکرداری کی وجہ سے اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے متاخرین کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ان پر جرح کریں یا طعن کریں اس لئے کہ انھیں بہرحال ایمان میں سبقت حاصل ہے اور یہی حرمت سبقت ہمیں روکتی ہے ہمیں چاہئے کہ ان کا معاملہ اللہ کے حوالے کردیں وہ ان کا حساب لےگا وہ چاہےگا تو عدالت کی بنیاد پر سزا دےگا اور چاہےگا تو اپنے فضل سے بخش دےگا(ہم کون ہوتے ہیں انہیں برا بھلا کہنےوالے ان کی حرمت سبقت کا تو خیال ہمیں کرنا ہی چاہئے)دوسرے لفظوں میں ہمیں ان کے بارے میں کچھ نہیں بولنا چاہئے اگر چہ ہمیں ان کی نجات اور کامیابی کا یقین نہین ہے لیکن معاملہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ چاہے تو ان گناہوں کی وجہ سے انہیں سزا دے اور ان کی بدفعلوں کا مواخذہ کرے لیکن ہم متاخرین کو حق حاصل نہیں ہے کہ ہم ان کے معاملات میں دخل دیں انہیں لعن و طعن کریں اس لئے کہ وہ بہرحال ہم سے سابق ہونے کی وجہ سے محترم اور بلند ہیں اور ہم اس سطح پر نہیں کہ ان پر تنقید کریں خدا نے انہیں اس مقام خاص سے مخصوص کیا یہ سوال تو پیدا ہوتا ہے ۔

لیکن میں عرض کروں گا کہ آپ کی مندرجہ بالا باتیں ثبوت کی محتاج ہیں اس لئے کہ جس آیت

۵۸

کو آپ نے دلیل بنایا ہے وہ اس بات پر دلالت نہیں کرتی اس آیت کریمہ میں سابقون اولون کے بارے میں عوام کا نظریہ نہیں پیش کیا گیا ہے خدا کا نظریہ پیش کیا گیا ہے اور اگرچہ آیت ان کی کامیابی اور سلامتی کی ضمانت لیتی ہے لیکن پہلے عرض کرچکا ہوں کہ سلامتی کا یقین استقامت اور حُسن انجام سے مشروط ہے،آیت ان لوگوں کو اپنے دائرے میں لینے سے قاصر ہے جن کے اندر استقامت نہیں پائی جاتی اور جنہوں نے بعد میں اپنے عقیدے اور سلوک میں کجروی اختیار کرلی ۔ لہذا ضروری ہے کہ ادلہ عامہ کی طرف دیکھا جائے کہ عمومی طور پر قرآن کا کیا اصول ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کہتا ہے بزرگ لوگوں سے صرف ان کی بزرگی کی خاطر عقیدت رکھنا حرام اور ان پر لعن طعن ضروری اور ان کی جرح و تنقید واجب ہے ملاحظہ فرمائیں:(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ) (۱)

ترجمہ آیت:(جن پر اللہ نے اپنا غضب نازل کیا ہے اور وہ آخرت سے یوں ہی مایوس ہوگئے جس طرح کفار اصحاب قبور سے مایوس ہیں) ۔

ارشاد ہوا:(وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ) (۲)

ترجمہ آیت:(ظالموں کی طرف مت جھکو ورنہ تمہیں آگ جلادےگی) ۔

(فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ-أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَىٰ أَبْصَارَهُمْ)(۳)

ترجمہ آیت:(کیا تم سے کچھ دور ہے کہ اگر تم حاکم ہوتے تو روئے زمین میں فساد پھیلاتے اور رشتے ناتے کو توڑنے لگتے یہ وہی لوگ ہیں جن پر خدا کی لعنت کی ہے اور ان کے کانوں کو بہرا اور آنکھوں کو اندھا کردیا ہے) ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ ممتحنہ آیت ۱۳ (۲) سورہ ھود آیت ۱۱۳

( ۳) سورہ محمد آیت ۲۲ اور ۲۳

۵۹

دوبارہ ارشاد ہوا: (إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ) (۱)

ترجمہ آیت:(بیشک وہ لوگ جو ان روشن ہدایتوں کو چھپاتے ہیں جنہیں اللہ نے نازل کیا ہے اور لوگوں کے لئے وضاحت کردی ہے ان پر اللہ کی لعنت ہے اور لعنت کرنےوالے ان پر لعنت کرتے ہیں) ۔

پھر دوسری جگہ ارشاد ہوا: (وَالَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ) (۲)

ترجمہ آیت:(اور وہ لوگ جو اللہ سے عہد کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اللہ نے جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے ان کو توڑتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے لعنت ہے اور ان لوگوں کے لئے برا گھر ہے) ۔

اس مضمون کی دوسری آیتیں بھی ہیں ۔

میرا خیال ہے کہ صحابہ تابعین اور ان کے بعد آنےوالے چاہے وہ سابقون اولون میں سے ہوں یا دوسرے لوگ ان کے بارے میں یہی سب سے بہتر نظریہ ہے،اس لئے کہ جو احکام ان پر جاری ہوتے ہیں وہی ہم پر بھی جاری ہونگے کیونکہ ہم دین میں ان کے شریک اور شریعت میں ان سے متحد و متفق ہیں ۔

سابقون اوّلون مشخص ہی نہیں ہیں!

سابقون اولون کون ہیں ان کا مشخص کرنا مشکل ہے مثلاً بہت سے مہاجرین و انصار متاخر ہیں لیکن اپنے بعد والے کے لئے وہی سابقین اولین ہیں اور وہ اپنے بعد والوں کی نسبت سے سابقون

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ بقرہ:آیت ۱۵۹ (۲) سورہ رعدآیت ۲۵

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ان اشعار میں ظاہر کرتا ہے کہ جو کچھ ہے یہی دنیا ہے ، اس عالم کےسوا اور کوئی عالم نہیں ہے لہذا یہاں کی نعمتوں اور لذتوں سے محروم نہ رہنا چاہیے ۔ یہ وہ اشعار ہیں جو اس کے دیوان میں درج ہیں اور ابوالفرج ابن جوزی نے کتاب الرد علی المتعصب الغلید میں ان کی شہادت دی ہے۔

من جملہ ان اشعار کے جو اس کے کفر و بے دینی اور الحاد پر گواہ ہیں وہ شعر بھی ہیں جو سبط ابن جوزی نے تذکرہ میں ان کے جد ابو الفرج نے تفصیل سے درج کئے ہیں ۔ ان کے مطلع میں کہتا ہے۔

عليه هاتی ناول ي نی و ترنمی حد ي ثک انی لا احب التناج ي ا

اپنی معشوقہ سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے ، اے میری محبوبہ قریب آ اور مجھ کو اپنے دلی مطالب سے کھل کر آگاہ کر کیونکہ میں تیرے آہستہ بولنے کو پسند نہیں کرتا ( یہاں تک کہ کہتا ہے)

فان الذی حدثت عن ي وم بعثنا احاد ي ث زور تترک القلب ساه ي ا

یعنی جو شخص قیامت کے قصے سے ڈرتا ہے تو یہ سب جھوٹی باتیں ہیں جو دل کو سازو آواز کے لطف سے محروم کرتی ہیں۔

چنانچہ ابراہیم ابن اسحق معروف “ دیک الجن” نے جو جلیل القدر شیعہ فقہاء و علماء اور فضلاء و ادباء میں سے تھے خلیفہ ہارون الرشید عباسی کے سامنے یہ سارے اشعار پڑھے تو اس نے بے اختیار یزید پر لعنت کی اور کہا زندیق نے خدا اور حشر و نشر کا پورا انکار کیا ہے۔

منجملہ ان اشعار کے جو اس کے کفر و الحاد پر دلالت کرتے ہیں وہ بھی ہیں جو وہ اپنے عیش و ترنم کے موقع پر پڑھا کرتا تھا :

ي ا معشر الندمان قوموا واسمعوا صوت الاغانی

واشربوا کاس مدامواترکوا ذکر المعانی

شغلتنی نغمة الع ي دان عن صوت الاذان

و نغوضت عن الحور عجوزا فی الدنان

ماحصل معنی یہ ہیں کہ اپنے ہم مشرب اور ہم پیالہ لوگوں سے کہتا ہے کہ اٹھو اور سازو آواز پر کان لگاؤ اور شراب ناب کے جام پیو اور دینی خرافات کو چھوڑو ، کیونکہ سازو نغمہ نے مجھ کو اذان کی آواز سے ہٹا کر اپنی طرف جذب کر لیا ہے اور میں بہشت کی حوروں کے عوض بوڑھی مغینہ عورتوں کو قبول کرتا ہوں۔

کتب مقاتل میں ہرجگہ منقول ہے اور سبط ابن جوزی نے بھی تذکرہ ص148 پر لکھا کہ جب اہل بیت رسالت(ص) شام میں لائے گئے تو یزید پلید اپنے محل کے بالا خانے پر جو محلہ جیروں کے سامنے تھا، بیٹھا اور یہ دو شعر پڑھ کر اپنے کفر کو ثابت کیا :

۱۲۱

لما بدت تلك الحمول و اشرقت تلك الشموس على ربي جيرود

نعب الغراب فقتل نح او لا تنح فلقد قضيت من الغريم ديونى!

خلاصہ مطلب یہ کہ اسیران آل محمد(ص) کی محملیں ظاہر ہوئیں تو ایک کوے نے آواز دی ( کیونکہ عرب میں اس آواز کو شگونہ بد سمجھتے تھے) تو میں نے کہا ، اے کوئے تو بول یا نہ بول میں نے پیغمبر(ص) سے اپنے قرضے وصول کرلیے ۔

کنایہ اس بات کا ہے کہ پیغمبر(ص) نے میرے بزرگ اور اقارب کو بدر و احد اور حنین میں قتل کیا تھا لہذا میں نے بھی اس کا بدلہ لیا اور ان کی اولاد کو قتل کیا ۔ اور یزید کے کفر کی دلیلوں میں سے یہ بھی ہے کہ جب اس نے فرزند رسول(ص) کی شہادت پر جشن کی محفل منعقد کی تو مثالا اس نے عبداﷲ بن الزبعری کے کفر آمیز اشعار پڑھے یہاں تک کہ سبط ابن جوزی ابو ریحان بیرونی اور دوسرے لوگوں نے لکھا ہے کہ اس نے اپنے اجداد میں سے ان لوگوں کی موجودگی اور حیات کی تمنا کی جو سب کے سب مشرک اور کافر محض تھے اور خدا و رسول(ص) کے حکم سے بدر کبرے کی جنگ میں مارے گئے تھے بظاہر ان میں سے دوسرا اور پانچواں شعر خود یزید ہی کا ہے جو اس نے مسلمانوں، یہودیوں اور نصرانیوں کے مجمع عام کے سامنے پڑھے۔

ليت أشياخي ببدر شهدوا جزع الخزرج من وقع الأسل

فأهلّوا و استهلّوا فرحاثمّ قالوا: يا يزيد لا تشل

قد قتلنا القرم من ساداتهم و عدلناه ببدر فاعتدل

لعبت هاشم بالملك فلاخبر جاء و لا وحي نزل

لست من خندف إن لم أنتقم من بني أحمد ما كان فعل

قد اخذنا من علی ثارنا و قتلنا الفارس الل ي ث البطل

یعنی اے کاش میرے وہ بزرگان قبیلہ جو بدر میں قتل کئے گئے اور قبیلہ خزرج والوں کا ( جنگ احد میں) نیزے لگنے کی وجہ سے گریہ و زاری دیکھنے والے موجود ہوتے تو خوشی سے چیختے اور کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں کیونکہ ہم نے ان کے بزرگان قوم اور سرداروں کو قتل کیا، اور یہ کام ہم نے بدر کے عوض میں کیا جو پورا ہوا۔ بنی ہاشم نےسلطنت کے ساتھ کھیل کھیلا ورنہ نہ آسمان سے کوئی خبر آئی نہ وحی نازل ہوئی۔ میں خندق کے خاندان سے نہیں تھا، اگر فرزندانِ پیغمبر(ص) سے ان کے افعال کا انتقام نہ لیتا۔ ہم نے علی(ع) سے اپنے خون کا بدلہ لیا اور شہسوار بہادر شیر کو قتل کیا۔)

آپ کے بعض علماء جیسے ابو الفرج ، شیخ عبداﷲ بن محمد بن عامر شیرازی شافعی کتاب الاتحاف بحب الاشراف ص18 میں ، خطیب خوارزمی مقتل الحسین(ع) جلد دوم میں اور دوسرے لوگ لکھتے ہیں کہ یزید لعین

۱۲۲

ان حضرات کے لب و دندان کے ساتھ چھڑی سے بے ادبی کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھ رہا تھا۔

یزید پلید(لع) کی لعن پر علمائے اہل سنت کی اجازت

آپ کے اکثر علماء نے اس ملعون زندیق کو کافر سمجھا ہے یہاں تک امام احمد بن حنبل اور آپ کے بہت سے اکابر علماء نے اس پر لعنت کرنے کو جائز قرار دیا ہے ، خصوصا عبدالرحمن ابوالفرج ابن جوزی نے اس بارے میں ایک مستقل کتاب موسوم بہ “ کتاب الرد علی المتعصب الغلید المانع عن لعن یزید لعنہ اﷲ ” لکھی ہے اور ابوالعلاء مصری نے اس باب میں کہا ہے :

أرى الأيّام تفعل كلّ نكر فما أنا في العجائب مستزيد

أليس قريشكم قتلت حسينا و كان على خلافتكم يزيد

( حاصل معنی یہ ہے کہ زمانہ ، توحید و اہل توحید کی ضد میں برابر شیطانی نقشے بناتا ہے اور اس طرح کے عجائبات اور مکاریوں پر مجھ کو تعجب نہیں کیا ایسا نہیں ہے کہ تمہارے قریش نے حسین(ع) کو قتل کیا اور اپنے امور اور خلافت کی باگ ڈور یزید ملعون کے ہاتھ میں دے دی) صرف آپ کے چند متعصب علماء جیسے غزالی نے یزید کی طرفداری کی ہے اور اس ملعون کی صفائی میں مضحکہ خیز اور مہمل عذرات تراشے ہیں در آنحالیکہ عام طور پر آپ کے علماء نے اس کے کفر آمیز اعمال اور ظالمانہ اطوار کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ کیونکہ وہ ملسمانوں کی مسند ریاست پر بظاہر تو خلافت کے عنوان سے قابض تھا لیکن عملی طور پر کوشش کرتا تھا کہ وین و توحید کی بساط ہی الٹ دے اور بڑے افعال کو نیک اعمال کے عنوان سے عمل میں لاتا تھا ۔ چنانچہ دمیری نے حیواہ الحیوان میں اور مسعودی نے مروج الذہب میں لکھا ہے کہ وہ بہت سے بندر پالے ہوئے تھا جن کو عمدہ قسم کے ریشمی لباس اور گردنوں میں سونے کے طوق پہنا کر گھوڑوں پر سوار کراتا تھا اسی طرح بہت سے کتوں کو طوق پہنچائے ہوئے تھا۔ ان کو اپنے ہاتھسے نہلاتا دہلاتا تھا ، سونے کے برتنوں میں ان کو پانی دیتا تھا اور ان کا پس خوردہ خود استعمال کرتا تھا ، مکمل طور پر شراب کا عادی تھا اور ہمیشہ مست و مخمور رہتا تھا۔

مسعودی مروج الذہب جلد دوم میں کہتے ہیں کہ یزید کی سیرت فرعون کی سیرت تھی بلکہ فرعون رعیت داری میں یزید سے زیادہ انصاف پرور تھا۔ اس کی سلطنت اسلام کے اندر انتہائی باعث ننگ تھی، کیونکہ اس کی بہت سی بداعمالیوں جیسے شراب نوشی، فرزند رسول(ص) کا قتل، وصی پیغمبر (ص) علی ابن ابی طالب(ع) پر لعنت

۱۲۳

کرنا، خانہ خدا ( مسجد الحرام ) کو جلانا اور برباد کرنا، کثرت کے ساتھ خونریزی ( خصوصا اہل مدینہ کا قتل عام) اور بے شمار فسق و فجور وغیرہ جس کا حساب نہیں ہوسکتا ، اس کی عدم مغفرت اور جہنمی ہونے کو ثابت کررہی ہیں۔

نواب : قبلہ صاحب ! یزید کے حکم سے مدینے کے قتل عام کا کیا معاملہ تھا؟ متمنی ہوں کہ اس کو بیان فرمائیے۔

خیر طلب : عام طور پر مورخین اور بالخصوص سبط ابن جوزی تذکرہ صفحہ63 میں لکھتے ہیں کہ سنہ62ھ میں اہل مدینہ کی ایک جماعت شام کی طرف گئی ، جب وہاں ان لوگوں کو یزید کی بدکاریوں اور کفریات کا علم ہوا تو مدینہ واپس آکر اس کی بیعت توڑ دی ، بالاعلان اس پر لعنت کرنے لگے اور اس کے عامل عثمان بن محمد بن ابی سفیان کو نکال کر باہر کیا۔ عبداﷲ بن حنظلہ ( غسیل الملائکہ) نے کہا اے لوگو ہم لوگ شام سے واپس نہیں ہوئے اور یزید پر خروج نہیں کیا لیکن اس وقت جب ہم نے دیکھا کہ :

" ه و رجل لا دين ل ه ينکح الام ه ات والبنات والاخوات و يشرب الخمر ويدع الصلوة و يقتل اولاد النبيين ۔"

(یعنی وہ ایسا بے دین شخص ہے جو ماؤں بیٹیوں اور بہنوں سے حرام کاری کرتا ہے ، شراب پیتا ہے ، نماز نہیں پڑھتا ہے اور اولاد انبیاء کو قتل کرتا ہے۔)

یزید کی بیعت توڑنے کے جرم میں اہل مدینہ کا قتل عام

جب یہ خبر یزید کو پہنچی تو اس نے اہل شام کے ایک بھاری لشکر کے ساتھ مسلم ابن عقبہ کو اہل مدینہ کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا، اور ان لوگوں نے تین شبانہ روز مسلسل اہل مدینہ کا قتل عام کیا ابن جوزی اور مسعودی وغیرہ لکھتے ہیں کہ اس قدر کشت و خون کیا گیا کہ راستوں میں خون بہہ نکلا

" وخاض الناس فی الدماء حتی وصلت الدماء قبر رسول اﷲ صلی اﷲ علي ه و آله وسلم وامتلات الروضة والمسجد "

یعنی مدینے کے کوچوں میں اس کثرت سے خون جاری ہوا کہ لوگ خون میں شرابور ہوگئے تھے، یہاں تک کہ خون رسول اﷲ(ص) کی قبر تک پہنچ گیا اور روضہ رسول(ص) اور مسجد خون سے بھر گئی۔

اشراف قریش اورمہاجرین و اںصار میں سے سات سو محترم اور سربرآوردہ افراد کو قتل کیا اور عام مسلمانوں میں سے دس ہزار اشخاص تہ تیغ ہوئے مسلمانوں کی ہتک حرمت اور بے آبروئی کے حالات بیان کرتے ہوئے مجھ کو شرم محسوس ہوتی ہے لہذا تذکرہ سبط ابن جوزی صفحہ163 کی عبارتوں

۱۲۴

میں سے صرف ایک کو نقل کرنے پر اکتفا کرتا ہوں جس کو ابوالحسن مدائنی سے نقل کرتے ہیں کہ “ ولدت الف امراة بعد الحرة من غير زوج ” یعنی واقعہ حرہ ( مدینہ کے قتل عام) کے بعد ایک ہزار کنواری عورتوں کے یہاں بچے پیدا ہوئے ( کنایہ یہ کہ فاتح لشکر کی عصمت دری سے وہ عورتیں حاملہ ہوئیں)۔

میں اس سے زیادہ اہل بزم کا وقت لینا اور ان کو متاثر کرنا نہیں چاہتا ۔ خیالات کو صاف کرنے کے لیے اسی قدر کافی ہے۔

شیخ : آپ نے جو کچھ بیان کیا ، یہ سب یزید کے فسق و فجور پر دلالت کرتا ہے اور ہر فاسق و گنہگار انسان کا عمل معافی اور چشم پوشی کے قابل ہے یزید نےقطعا توبہ کر لی اور خدا بھی غفار الذنوب ہے اس نے بخش دیا ، پھر آپ کس وجہ سے برابر اس پر لعنت کرتے اور اس کو ملعون کہتے ہیں؟

خیر طلب : بعض دعویداروں کے وکیل اس غرض سے کہ ان کو فیس وغیرہ ملتی رہے چار و ناچار آخری وقت تک اپنے موکل کی طرف سے پیروی کرتے رہتے ہیں چاہتے حق بات ان پر ظاہرہو ہی جائے۔ لیکن مجھ کو نہیں معلوم کہ جناب عالی کن فوائد کے پیش نظر اس لعین پلید کی وکالت میں اس قدر ثابت قدمی دکھا رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یزدی نے توبہ کر لی ہے۔ حالانکہ یزدی کیکفر آمیز گفتگو، اولیائے خدا کی شہادت اور اہل مدینہ کا قتل عام وغیرہ درایت ہے اور آپ کا یہ فرمانا کہ اس نے توبہ کر لی روایت ہے جو ثابت نہیں ہوسکی اور درایت کے مقابلے میں نہیں آسکتی۔

آیا مبدا و معاد اور وحی و رسالت سے انکار اور دین سے مرتد ہونا آپ کی نظر میں لعنت کا مستحق نہیں بناتا ۔ آیا خدا نے قرآن مجید میں ظالمین پر کھلی ہوئی لعنت نہیں فرمائی ہے؟

آیا آپ یزید کو ظالم نہیں سمجھتے ؟

اگر آپ کے ایسے یزید ابن معاویہ کے خاندانی پیروکار وکیل ( حاضرین کا پر زور قہقہہ ) کی نگاہ میں یہ دلائل کافی نہیں ہیں تو میں آپ کی اجازت سے آپ کے بزرگ علماء کے منقولات سے دو حدیثیں بھی نقل کرتا ہوں اور اس کے بعد اپنی گذارش ختم کرتا ہوں۔

بخاری اور مسلم نے اپنی صحیحیں میں ، علامہ سمہودی نے تاریخ المدینہ میں، ابن جوزی نے کتاب الرد علی المتعصب العنید میں، سبط ابن جوزی نے تذکرة خواص الامہ میں۔ امام احمد بن حنبل مسند میں اور دوسروں نے حضرت رسول اکرم(ص) سے نقل کیا ہے کہ فرمایا :

"من أخاف أهل المدينة أخافه اللّه، و عليه لعنة اللّه و الملائكة و النّاس أجمعين لا يقبل اﷲ

۱۲۵

منه يوم القيمة صرفا ولا عدلا"

یعنی جو شخص ظلم سے اہل مدینہ کو خوف زدہ کرے خدائے تعالی، اس کو ( روز قیامت) خوف زدہ کرے گا ۔ اس پر خدا اور ملائکہ اور سارے انسانوں کی لعنت ہو۔ قیامت کے روز خدا ایسے شخص سے کوئی عمل قبول نہیں کرے گا۔

نیز فرمایا “ لعن اﷲ من اخاف مدینتی( ای اھل مدینتی) یعنی خدا کی ایسے شخص پر جو میرے شہر ( یعنی اہل مدینہ ) کو ڈرائے”

کیا مدینے کے اندر یہ سارا قتل عام ، ہتک حرمت او لوٹ مار وہاں کے باشندوں کے لیے ڈر اور خوف کا باعث نہیں تھا ؟ اور اگر تھا تو تصدیق کیجئے کہ وہ کمینہ اور پلید خدا و رسول(ص) ، ملائکہ اور تمام انسانوں کی زبان سے ملعون تھا اور قیامت تک رہے گا۔

آپ کے اکثر علماء یزید پلید پرلعنت کی ہے اور اس پر لعن کے جائز ہونے پر کتابیں لکھی ہیں من جملہ ان کے علامہ جلیل القدر عبداﷲ بن محمد بن عامر شبراوی شافعی کتاب الاتحاف بحب الاشراف ص20 میں لعن یزید کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ جس وقت ملا سعد تفتازانی کے سامنے یزید کا نام لیا گیا تو انہوں نے کہا " فلعنة اﷲ عليه و علی انصاره و علی اعوانه" ( یعنی لعنت ہو خدا کی اس پر اور اس کے اعوان و اںصاری پر) اور جواہر العقدین علامہ سمہودی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا

"اتفق العلماء علی جواز لعن من قتل الحسين رضی اﷲ عنه او امر بقتله او اجازه اور رضی به من غير تعيين"

یعنی عام طور پر علماء نے اس شخص پر لعنت کے جائز ہونے پر اتفاق کیا ہے جس نے حسین رضی اﷲ کو قتل کیا یا ان کے قتل کا حکم دیا یا اس کی اجازت دی یا اس پر رضا مند ہوا بلا تخصیص۔

اور ابن جوزی ، ابو یعلی اور صالح ابن احمد بن حنبل سے نقل کرتے ہیں کہ آیات قرآن وغیرہ کے دلائل پیش کرتے ہوئے یہ حضرات لعن یزید کو ثابت کرتے ہیں لیکن جلسہ کا وقت اس سے زیادہ گفتگو کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔

نشست کافی لمبی ہوچکی ہے اور آدھی رات سے بھی کئی گھنٹے زیادہ گزر چکے ہیں، ورنہ یہ معمہ حل ہونا بہت ضروری تھا تاکہ آپ حضرات ان مقدمات سے اس عظیم حق کا پتہ لگائیں جو حضرت امام حسین (ع) اسلام اکھاڑ پھینکایا اپنے اپل بیت کے خون سے لا الہ الا اﷲ کے شجرہ طیبہ کی آبیاری کی جو بنی امیہ اور بالخصوص یزید پلید کے ظلم سے خشک ہونے کے قریب تھا، اور اسلام و توحید کو ایک نئی زندگی عطا کی۔

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ آپ بجائے اس کے کہ ان بزرگوار کے خدمات کی قدر کرتے

۱۲۶

ان کے زائرین کے زیارت کے لیے جانے پر اعتراض اور نکتہ چینی کرتے ہیں ، اس کا نام مردہ پرستی رکھتے ہیں اور افسوس کرتے ہیں کہ کس لیے کروڑوں انسان ہر سال ان حضرات کے مرقد مطہر کی زیارت کو جاتے ہیں، مجلس عزا برپا کرتے ہیں اور ان مظلوم کی غریبی پر گریہ کرتے ہیں۔

گمنام جاں نثار

ہم کتب و رسائل اور اخبارات میں پڑھتے ہیں اور سیاحت کرنے والے بتاتے ہیں کہ دنیا کے متمدن ممالک کے مرکزی مقامات جیسے پیرس، لندن، برلن اور واشنگٹن وغیرہ میں“ گمنام جاں نثار ” کے نام سے کچھ محترم مزارات موجود ہیں۔

کہتے ہیں کہ اس جوانمرد نے وطن کی حفاظت میں ظالموں کے ظلم کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان قربان کی ہے۔ لیکن اس کے جسم و لباس میں کوئی ایسی واضح علامت نہیں پائی گئی جس سے معلوم ہوتا کہ یہ کس قوم و قبیلہ اور شہر کا باشندہ ہے۔

باوجودیکہ وہ ایک گمنام اور بے نام و نشان شخصیت ہے لیکن صرف اس خیال سے کہ اس نے ظلم و ظالم کے مقابلہ میں اپنے خون کی قربانی دی ہے جب کوئی بادشاہ صدر جمہوریہ، وزیر یا کسی طبقے کا کوئی شریف و بزرگ انسان ان شہروں میں وارد ہوتا ہے تو احتراما اس گمنام۔۔۔۔۔ جاں باز کی زیارت کو جاتا ہے او پھولوں کا تاج اس کی قبر پر رکھتا ہے۔

قدر دانی کے نام پر ایک غیر معروف سپاہی کا اس قدر احترام اس لیے کرتے ہیں کہ اقوام عالم کے سامنے اپنی قومی حیثیتوں کا تحفظ کرسکیں۔

لیکن صاحبان اںصاف کیا یہ شرم کی بات نہیں ہے کہ ہم مسلمان لوگ باوجودیکہ بہتر با نام و نشان سر فروش رکھتے ہیں جوسب کےسب عالم و عابد، صاحبان تقوی اور بعض ان میں سے قاری و حافظ قرآن تھے اور جنہوں نے دین و توحید ، حریم اسلام کے تحفظ اور عدل و انصاف کی راہ میں ظالموں کے ظلم کا مقابلہ کرتےہوئے جان دی اور ان میں سے زیادہ تر خدا و رسول (ص) اور عترت پیغمبر (ص) کی امانت تھے لیکن بجائے قدردانی اور لوگوں کو ان کی زیارت کا شوق دلانے اور ان کی قبروں کے احترام کا حکم دینے کے نکتہ چینی کی کوشش کرتے ہیں اور ایک دوسرے فرقے والے علاوہ عیب جوئی اور اعتراض کے اپنے متعصب علماء کے بھڑکانے سے ان کی قبروں کو برباد کرتے ہیں اور ان کے صندوق بالائے قبر کو

۱۲۷

جلا کر قہوہ بناتے ہیں۔

چنانچہ سنہ1216 ہجری میں عید غدیر کے روز جب کربلا کے سارے باشندے ( سوا تھوڑے افراد کے) زیارت کے لیے نجف اشرف گئے ہوئے تھے نجدی وہابیوں نے موقع غنیمت سمجھ کر حملہ کر دیا۔ ضعیف وغیر ضعیف شیعوں کے قتل و غارت میں مشغول ہوئے اور دین کے نام پر فدائیاں دین توحید ( یعنی سید شہداء حضرت امام حسین (ع) اور آپ کے انصار) کی مقدس قبروں کو برباد اور زمین کے برابر کردیا ( تقریبا پانچ ہزار) باشندگان کربلا علماء اور ناتوان ضعفاء یہاں تک کہ شیعوں کی عورتوں اور بے گناہ بچوں کو قتل کیا۔ حضرت سید شہداء (ع) کا خزانہ لوٹ لیا، جواہرات ، سونے کی قندیلیں، قیمتی اشیاء اور بڑے بڑے پیش بہا فرش اٹھا لےگئے قبر مطہر کے اوپر کا قیمتی صندوق جلا کر اس سے قہوہ بنایا اور ایک کثیر جماعت کو قید کر کے اپنے ہمراہ لے گئے انا ﷲ و انا ال يه راجعون ۔ ( افسوس ہے ایسے اسلام پر)۔

واقعی بہت افسوس ناک بات ہے کہ تمام متمدن مملاک ، علماء سلاطین اور دانش مندوں کی یہاں تک کہ اپنے گمنام سپاہی کی قبروں کا احترام کریں لیکن مسلمان جو اپنے مایہ ناز افراد کے قبور کی حفاظت میں سب سے زیادہ اولی اور احق ہیں وہ آدم خور وحشیوں کی طرح ان کے مزارات کو مسمار اور تباہ و بردباد کریں حتی کہ مکہ اور مدینہ میں حضرت حمزہ سید شہداء (ع) جیسے شہدائے احد، پیغمبر (ص) کے آباء و اجداد جیسے جناب عبدالمطلب و عبداﷲ آں حضرت(ص) کے اعمام و اہل وقوم، فرزندان رسول خدا(ص) جیسے سبط اکبر حضرت امام حسن(ع) مسموم ، سید الساجدین حضرت امام زین العابدین (ع) ، باقر العلوم حضرت امام باقر(ع)، صادق آل محمد حضرت امام جعفر صادق علیہم السلام ، دوسرے بنی ہاشم ، علمائے اعلام اور مفاخر اسلام کی قبروں کو زمین کے برابر کر دیں اور اس کے بعد بھی اپنے کو مسلمان کہیں۔ ہاں اپنے بزرگوں اور بادشاہوں کے مقبرے البتہ بہت شاندار طریقے سے تعمیر کریں۔ حالانکہ ہمارے اور آپ کے علماء نے قبور مومنین کی زیارت پر راغب کرنے کے لیے کس قدر کثرت سے حدیثیں نقل کی ہیں تاکہ اس ذریعے سے مومنین کی قبریں حوادث زمانہ کی دستبرد سے محفوظ رہیں۔

خود رسول اﷲ(ص) قبور مومنین کی زیارت کو تشریف لے جاتے تھے اور ان کے لیے مغفرت طلب فرماتے تھے مسئلہ یہ کہ کچھ خفیہ مقاصد کے ماتحت مذہب کے نام پر اپنے ہی ہاتھوں اپنی قابل فخر ہستیوں کی قبریں خراب اور خاک کے برابر کریں اور ان کا نشان بھی دنیا میں باقی نہ رہنے دیں بات ختم کرتا ہوں ورنہ دل میں ابھی بہت کچھ ہے۔

۱۲۸

شرح این ہجراں و ایں خون جگر ایں زمان بگزار تا وقت دگر

آل محمد(ص) شہدائے راہ خدا اور زندہ ہیں

آیا آپ اس جلیل القدر خانوادہ کو جس نے دین اور توحید کی راہ م ی ں جا نی ں دیں ، شہ ی د سمجھتے ہیں یا ن ہیں ؟ اگر کہئے کہ شہید نہیں ہیں تو اس پر آپ کی کیا دلیل ہے؟ اور اگر شہید ہیں تو پھر آپ انہیں مردہ کیوں سمجھتے ہیں؟ حالانکہ قرآن مجید میں کھلا ہوا ارشاد ہے " احياء عند ربهم يرزقون " یعنی وہ زندہ ہیں اور اپنے خدا کے پاس رزق پاتے ہیں۔ 12 مترجم) پس قرآنی آیات اور معتبر احادیث کی بنا پر مقدس ہستیاں زندہ ہیں، مردہ نہیں ہیں۔ چنانچہ ہم لوگ بھی مردہ پرست نہیں ہیں اور مردے پر سلام نہیں کرتے بلکہ زندوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔

علاوہ اس کے کوئی با سواد یا جاہل شیعہ ان حضرات کو حاجت روائی میں خود مختار نہیں سمجھتا بلکہ ان کو خدا کے نیک بندے اور معبود کی طرف ایک بلند مرتبہ واسطہ جانتا ہے ( جیسا کہ اسی کتاب کے صفحہ97 میں مذکور ہے)

ہم صرف اس لئے اپنی حاجتوں کو ان کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ وہ برحق ائمہ اور عالی منزلت صالحین ، خدا سے دعا فرمائیں تاکہ وہ ہم نا اہل انسانوں پر کرم فرمائے۔ اور اگر زبان سے یہ کہتے ہیں کہ یا علی ادرکنی ، یا حسین ادرکنی تو اس کی مثال بعینہ اسی آدمی کی ایسی ہے جو کسی با اقتدار بادشاہ سے کوئی حاجت رکھتا ہے تو وزیر اعظم کے دروازے پر جاتا ہے اور کہتا ہے کہ جناب وزیر صاحب میری فریاد کو پہنچئے۔ لیکن یہ کہنے والا وزیر کو ہرگز بادشاہ اور اپنی حاجت روائی میں خود مختار نہیں مانتا ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ چونکہ بادشاہ کی نظر میں با عزت ہیں۔ لہذا میری سفارش کردیجئے تاکہ میرا کام بن جائے۔

شیعہ بھی آل محمد علیہم السلام کو خدا اور خدائی کاموں میں شریک نہیں جانتے ہیں بلکہ ان کو اﷲ کے صالح بندے سمجھتے ہیں جو علاوہ اپنی پاک فطرت کے عبادت و تقوی اور دینی خدمات کے نتیجہ میں حق تعالی کے منظور نظر قرار پائے لہذا دونوں عالم میں ان کو امامت و ولایت کے عہدے اور بلند و بالا درجات عطا کیئے تاکہ پروردگار کے حکم اور اجازت سے موجودات میں تصرف کرسکیں۔ چونکہ یہ حضرات خدائے ذوالجلال کے امانت دار اور نمائندے ہیں اس بنا پر حاجت مندوں کے ضروریات خدا کی بارگاہ میں پیش

۱۲۹

کرتے ہیں ، اگر سائل کی حاجت روائی مصلحت کے مطابق ہوتی ہے تو قبول فرماتا ہے ورنہ آخرت میں اس کا عوض دیتا ہے ۔ چنانچہ عملی طور پر ہم ایسا دیکھتے بھی ہیں اور نتائج بھی حاصل کرتے ہیں۔

یہ مشتے نمونہ از خود ؟؟؟؟؟؟؟؟ چند مختصر جملے تھے جو مجبورا آپ کی اس بات کے جواب میں عرض کئے گئے کہ مردے سے خطاب کیوں کرتے ہو اس مقام پر یہ نکتہ بھی بغیر کہے نہ رہ جائے کہ شیعہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی منزل اس سے بالاتر سمجھتے ہیں کہ دوسرے شہدائے اسلام کی طرح ان کےلیے بھی صرف ایک زندگی ثابت کریں۔

حافظ : آپ کے بیان میں یہ فقرہ ایک معمہ ہے جس کے حل کی ضرورت ہے ۔ آخر آپ کے اماموں میں دوسرے اماموں سے کیا فرق ہے؟ صرف سیادت کی منزلت اور رسول اکرم(ص) سے ان کی نسبت نے ان کو دوسروں کے مقابلے میں ممتاز بنا دیا ہے۔

خیر طلب : اس میں کوئی معمہ قطعی نہیں ہے صرف اس مطلب کا تصور آپ کےلیے دشوار ہے کیونکہ ساری زندگی منزل امامت کی معرفت سے دور رہے ہیں۔ سب سے پہلے ضرورت اس کی ہے کہ اپنی عادت اور تعصب سے الگ ہو کر علم و عقل اور منطق و اںصاف کی نظر سے مقام امامت کا مطالعہ فرمائیے اس کے بعد آپ کو اندازہ ہوگا کہ شیعہ اعتقاد کے لحاظ سے منصب امامت اور آپ کے عقائد کے مطابق امامت کے درمیان ایک بین اور واضح فرق یہ۔ اگر میں اس مقصد کو ثابت کرنے بیٹھوں تو صبح تک انتظار کرنا ہوگا۔ اب یہ اہم موضوع ایک اطمیانی نشست کے لیے ملتوی کرتا ہوں جس میں گفتگو کا پورا وقت ہو انشاء اﷲ۔

( اس کے بعد ہم لوگوں نے جلسہ برخاست کیا ۔ چونکہ اذان صبح کا وقت قریب تھا اور سلسلہ گفتگو طولانی ہوچکا تھا لہذا لوگوں نے کہا کہ اب امامت کا موضوع کل رات پر رہا ہم نے خوش طبعی اور مزاح کے ساتھ ان حضرات کو کچھ دور چل کر رخصت کیا اور وہ بخیر و عافیت تشریف لے گئے۔)

۱۳۰

چوتھی نشست

شب دوشنبہ 26 رجب سنہ1345ھ

آپ نے حقیقت کا نکشاف کر کے ہم پر احسان کیا

مغرب کے اول وقت حضرات اہل سنت میں سے تین نفر تشریف لائے اور کہا کہ جلسہ شروع ہونے سے قبل ہم آپ کی اطلاع کے لیے عرض کرتے ہیں کہ آج غروب آفتاب تک مسجدوں ، مکانوں، دفتروں اور بازاروں میں ہر جگہ آپ ہی کا تذکرہ تھا جس جگہ کسی کے ہاتھ میں آج کا اخبار تھا وہاں چاروں طرف کثرت سے لوگ اکٹھا تھے اور آپ کی تقریروں کےبارے میں بحث کررہے تھے۔ ہم لوگوں کو آپ سے کافی تعلق خاطر پیدا ہوگیا ہے۔ ہم سب کے دلوں میں آپ نے گھر کر لیا ہے اور ہم پر آپ کا بہت بڑا حق ہے کیونکہ آپ ان شبہات کو حل کر رہے ہیں جن کو ہمارے پیشواؤں نے بچپن ہی سے ہم کو الٹے طریقے پر سمجھایا تھا۔ہم اس کے لیے تہ دل سے معذرت خواہ ہیں کہ ہم شیعہ جماعت کو مشرک سمجھتے تھے ہم کیا کریں ہم کو ہمیشہ سے تعلیم ہی یہی دی گئے ہے۔ امید ہے کہ خداوند غفور ہماری توبہ قبول کرے گا۔ ادھر چند روز سے ہر شب کی بحثیں رسالوں اور اخباروں میں شائع ہو رہی ہیں تو اکثر اخبارات کے خریداروں اور بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھل گئی ہیں، خصوصا ہم لوگ جو شریک جلسہ اور آپ کی لطیف گفتگو سے بہرہ اندوز ہوتے ہیں بہت متاثر ہوئے ہیں خاص طور پر گذشتہ شب کیونکہ آپ نے خوب خوب پردے اٹھائے اور پوشیدہ حقائق کو ظاہر فرمایا امید ہے کہ مزید انکشافات ہوں گے اور اس سے زیادہ حقیقتیں بے نقاب ہوں گی۔

دوسری بات جس کی طرف ہم آپ کی توجہ منذول کرانا چاہتے ہیں یہ ہے کہ ہم پر اور ہماری جماعت پر جو چیز سب سے زیادہ اثر انداز ہوئی ہے وہ جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں آپ کی واضح اور سادہ گفتگو ہے۔ کیونکہ آپ ہماری ہی زبان میں مطلب کو اس قدر مفصل اور عام فہم طریقے سے بیان فرماتے ہیں کہ ہمارے تمام بے سواد افراد کو اپنی طرف جذب کر لیتے ہیں ، آپ قطعی طور پر یہ پہلو پیش نظر رکھیں کہ ساری جماعت میں فی صد پانچ نفر سے زیادہ صاحبان علم و خبر نہیں ہیں۔ کورکورانہ طور بچپن سے جو کچھ سن رکھا ہے اس نے ان کے

۱۳۱

قلب و دماغ میں جگہ پکڑ لی ہے اب تو انہیں صرف سادگی ہی کے ذریعے سمجھایا جاسکتا ہے ، چنانچہ آپ اسی بات پر عمل کر رہے ہیں اور امید ہے کہ پورا پورا نتیجہ حاصل ہوگا۔

اتنے میں حضرات علماء تشریف لے آئے اور ہم نے گرم جوشی اور خندہ پیشانی کےساتھ ان کو خوش آمدید کہا ۔ چائے نوشی اور معمولی خاطر تواضع کے بعد جلسے کی کاروائی شروع ہوئی۔

نواب : قبلہ صاحب گزشتہ رات طے پایا تھا کہ آج کی شب امامت کے بارے میں گفتگو ہوگی، ہم اس خاص موضوع کو سمجھنے کے لیے بہت مشتاق ہیں اور چونکہ اسی موضوع پر دوسرے مطالب کی بنیاد ہے لہذا ہماری تمنا ہے کہ صرف اسی مسئلے کو مورد بحث قرار دیں تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ ہمارے اور آپ کے درمیاں موضوع امامت میں کیا اختلاف ہے۔

خیر طلب : مجھ کو کوئی عذر نہیں ہے، چنانچہ اگر مولوی صاحبان اسی طرف مائل ہوں تو میں حاضر ہوں۔

حافظ : ( اڑے ہوئے رنگ اور اترے ہوئے چہرے کے ساتھ) ہماری طرف سے بھی کوئی اختلاف نہیں ہے آپ جس طرح سے مناسب سمجھیں بیان فرمائیں۔

امامت کے بارے میں بحث

خیر طلب : آپ حضرات کو بخوبی معلوم ہے کہ لغت اور اصطلاح کی حیثیت سے امام کے کئی معنی ہیں۔ لغت میں امام پیشوا کے معنی رکھتا ہے الامام هو المتقدم بالناس یعنی امام انسانوں کا پیشوا ہے۔ امام جماعت یعنی نماز جماعت میں لوگوں کا پیشوا۔ امام الناس یعنی امور سیاسی یا روحانی وغیرہ میں آدمیوں کا پیشوا۔ امام جمعہ یعنی جو شخص نماز جمعہ میں پیشوائی کرے۔

اہلسنت کے مذاہب اربعہ پر بحث اور کشف حقیقت

اس بنا پر جماعت اہل تسنن یعنی مذاہب اربعہ کے پیرو اپنے پیشواؤں کو امام کہتے ہیں جیسے امام ابو حنیفہ ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل۔ یعنی وہ فقہاء و مجتہدین جو امر دین میں ان کے پیشوا ہیں اور جنہوں نے اپنی عقل و فکر کے ذریعہ اجتہاد یا قیاس کے ساتھ ان کے لیے حلال و حرام کے احکام معین کئے ہیں۔

۱۳۲

یہی وجہ سے کہ جب ہم آپ کے چاروں اماموں کی فقہی کتابون کا مطالعہ کرتے ہیں تو اصول و فروع کی حیثیت سے ان میں بہت اختلافات نظر آتے ہیں۔ اس طرح کے ائمہ اور پشوا تمام ادیان و مذاہب کے اندر ہیں۔ یہاں تک کہ مذہب شیعہ میں بھی علماء فقہاء وہی درجہ رکھتے ہیں جس کے آپ اپنے اماموں کے لیے قائل ہیں۔ لہذا وہ حضرت امام عصر عجل اﷲ فرجہ کی غیبت میں ہر عہد اور زمانےمیں موازین علمی کی روسے کتاب و سنت اور عقل و اجماع کے ادلہ اربعہ کے ساتھ فتوے دیتے ہیں۔ پھر بھی ہم ان کو امام نہیں کہتے ہیں کیونکہ امامت عترت طاہرہ(ع) سے بارہ اوصیاء کے ساتھ مخصوص ہے۔ ایک فرق یہ ہے کہ آپ کے بزرگوں نے بعد کے لیے اجتہاد کا دروازہ بند رکھا ہے یعنی پانچویں صدی ہجری سے جب کہ بادشاہ کے حکم سے علماء و فقہاء کی ایجاد کردہ رائیں جمع کی گئیں، صرف چار کے اندر منحصر کر کے مذاہب اربعہ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی کو رائج کیا گیا اور لوگوں کو مجبور کیا گیا ہے ان چاروں میں سے کسی ایک مذہب پر عمل کریں جیسا کہ اب تک رواج ہے معلوم نہیں کہ مقام تقلید میں ایک فرد کو دوسرے افراد پر کس دلیل و برہان سے ترجیح حاصل ہے۔ حنفیوں کے امام میں کیا خصوصیت ہے جو مالکیوں کو نہیں ملی اور شافعیوں کا امام کیا فضیلت رکھتا ہے جو حںبلیوں کے پاس نہیں۔

اگرملت اسلامی اس پر مجبور ہے کہ ان چاروں کے فتاوی سے باہر نہ جائے تو جماعت مسلمین بہت سخت جمود کے پنجے میں گرفتار ہوگئی ہے اور کبھی ان میں ترقی اور بلندی پیدا نہیں ہوسکتی ۔ حالانکہ مقدس دین اسلام کے خصوصیات میں سے ایک یہی ہے کہ ہر دور اور زمانے میں قافلہ تمدن کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور یہ مقصد لازمی طور پر ایسے فقہاء و مجتہدین چاہتا ہے جو ہر عہد میں موازین شرعیہ کے تحفظ کے ساتھ کاروانِ تہذیب کے ہمراہ آگے بڑھیں اور مذہب کی مرکزیت کو محفوظ رکھیں۔

کیونکہ بہت سے امور ایسے ہیں ج کے تجدد کی وجہ سے ان میں تقلید میت کی گنجائش نہیں ہے ۔ بلکہ حتمی طور پر زندہ فقیہ اور مجتہد کی طرف رجوع کرنا ان کی دماغی کاوش سے فائدہ حاصل کرنا اورا ن کے فتوی کو اپنا لائحہ عمل بنانا ضروری ہوتا ہے۔ باوجودیکہ بعد کے زمانوں میں آپ کے یہاں ایسے عالی منزلت مجتہدین اور فقہاء پیدا ہوئے جو ان چاروں اماموں سے بدرجہا اعلم اور افقہ تھے لیکن معلوم نہیں یہ ترجیح بلا مرجح ، مقام اجتہاد کو ان چار نفر کے اندر محصور کر دینا اور دوسروں کے علمی افادات کو ضائع کرنا کس مصلحت کی بنا پر تھا۔ البتہ جماعت شیعہ کے اندر ظہور امام آخرالزمان عجل ا ﷲ فرجہ تک ہر دور اور ہر زمانے میں تمام فقہاء اور مجتہدین کو فتاوی کا حق حاصل ہے اور ہم مسائل جدیدہ میں ابتداء تقلید میت کو ہرگز جائز نہیں سمجھتے ۔

۱۳۳

مذاہب اربعہ کی پیروی پر کوئی دلیل نہیں ہے

تعجب ہے کہ آپ شیعہ فرقے کو تو بدعتی اور مردہ پرست کہتے ہیں جو اہل بیت رسول(ص) میں سے بارہ ائمہ(ع) کی ہدایتوں پر آں حضرت(ص) ہی کے حکم سے ( ان نصوص خاصہ کے ساتھ جو آپ کی کتابوں میں بھی تشریح کے ساتھ مندرج ہیں) عمل کرتے ہیں لیکن معلوم نہیں آپ حضرات کس دلیل سے مسلمانوں کو مجبور کرتے ہیں کہ اصول میں اشعری یا معتزلی مذہب پر اور فروع میں لازمی طور پر مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک پر عمل پیرا ہوں۔ اور اگر ان باتوں پر جو آپ بغیر دلیل کے کہتے ہیں عمل نہ کریں۔ یعنی اشعری یا معتزلی مذہب یا مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک کے پیرو نہ بنیں تو رافضی ، مشرک اور گردن زدنی قرار پائیں۔

اگر آپ پر ایراد کیا جائے کہ چونکہ ابو الحسن اشعری یا ابو حنیفہ ، مالک ابن انس، محمد ابن ادریس شافعی اور احمد بن حنبل کی پیروی کے لیے پیغمبر(ص) کا کوئی فرمان نافذ نہیں ہوا ہے اور یہ بھی من جملہ اور اسلامی علماء و فقہاء کے تھے لہذا صرف انہیں کی تقلید پر اںحصار کرنا بدعت ہے تو کیا جواب دیجئیے گا؟

حافظ : ائمہ اربعہ چونکہ زہد و ورع تقوی و امانت اور عدالت کے ساتھ ساتھ فقاہت اور علم و اجتہاد کی منزل پر فائز تھے لہذا ان کی پیروی ہم پر لازمی ہوگئی۔

خیر طلب : اول تو جو کچھ آپ نے فرمایا یہ ایسے دلائل نہیں ہیں جو حصر کا سبب بن جائیں کہ روز قیامت تک مسلمان ان کے طریقے کی پیروی کرنے پر مجبور ہوں۔ اس لیے کہ آپ اپنے سارے علماء و فقہاء کے لیے ان صفات کے قائل ہیں اور ان چاروں کے اندر اںحصار کرنا بعد کے علماء کے توہین ہے۔ کسی ایک فرد یا افراد کی پیروی پر اسی وقت مجبور کیا جاسکتا ہے جب کہ خاتم الانبیاء(ص) سے کوئی ہدایت یا نص مروی ہو حالانکہ آپ کے ائمہ اربعہ کے بارے میں ایسا کوئی حکم یا نص آنحضرت(ص) سے منقول نہیں ہے لہذا آپ نے کیونکہ مذاہب کو چار کے اندر محدود کردیا اور ان چار اماموں میں سے ایک کی پیروی کا لازمی ہونا حق سمجھتے ہیں؟

یہ عجیب معاملہ صاحبان عقل و اںصاف کے لیے قابل غور ہے

بہت مضحکہ خیز بات ہے کہ چند شب پہلے آپ نے شیعہ مذہب کو سیاسی قرار دیا اور کہا کہ یہ مذہب چونکہ رسول اﷲ(ص) کے زمانے میں نہیں تھا اور خلافت عثمان میں پیدا ہوا ہے۔ لہذا اس کی پیروی

۱۳۴

جائز نہیں ہے۔ حالانکہ پرسوں شب میں نے عقلی و نقلی دلائل سے ثابت کردیا کہ مذہب شیعہ کی بنیاد رسول اﷲ(ص) کے زمانے میں آں حضرت(ص) ہی کی ہدایت سے قائم ہوئی اور شیعوں کے سردار امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے بچپن ہی سے دامن نبوت میں پرورش پائی۔ آں حضرت (ص) سے معالم دین کی تعلیم حاصل کی، ان روایات کے مطابق جو آپ کی معتبر کتابوں میں منقول ہیں آںحضرت(ص) نے آپ کو اپنے علم کا دروازہ فرمایا اور صراحت کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ علی(ع) کی اطاعت میری اطاعت ہے اور ان کی مخالت میری مخالفت ہے، ستر ہزار مسلمانوں کے مجمع میں آپ کو امارت و خلافت کے عہدے پر منصوب فرمایا اور عام مسلمانوں کو یہاں تک کہ عمر اور ابوبکر کو بھی حکم دیا اور ان لوگوں نے آپ کی بیعت کی۔

لیکن آپ کے چاروں مذاہب حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کس بنیاء پر قائم ہوئے ہیں؟ آپ کے ان چار اماموں میں سے کس نے رسول خدا(ص) سے ملاقات کی ہے یا کس کے بارے میں آںحضرت(ص) کی طرف سے کوئی ہدایت جاری ہوئی ہے تاکہ مسلمان آنکھیں بند کر کے ان کی پیروی پر مجبور ہوں؟ جیسا کہ آپ بھی بغیر کسی دلیل کے اپنے اسلاف کے قدم بقدم چلتے ہوئے ان چار اماموں کی پیروی کر رہے ہیں جن کی امامت مطلقہ پر ایک دلیل بھی دلیل نہیں رکھتے سوا اس کے کہ آپ نے فرمایا وہ فقیہ، عالم، مجتہد، زاہد اور صاحبان تقوی تھے تو ہر ایک کے زمانے والوں کو صرف ان کی زندگی میں ان علماء کے فتاوی پر عمل کرنا چاہئیے تھا نہ یہ کہ ساری دنیا کے مسلمان روز قیامت تک ان کی اطاعت کے پابند بنا دیے جائیں۔

علاوہ ان باتوں کے اگر رسول اﷲ(ص) کے صریحی ارشادات کے ساتھ ساتھ یہ صفات بھی ہزاروں گنا زیادہ آں حضرت (ص) کی عترت میں جمع ہوگئی ہوں تو بدرجہ ادنی ان حضرات کا اتباع اور پیروی فرض ہے بہ نسبت ان لوگوں کے جن کے بارے میں قطعا کوئی نص یا فرمان نافذ نہیں ہوا ہے۔ آیا وہ مذاہب جن کا رسول(ص) کے زمانے میں کوئی نشان نہیں تھا اور ائمہ اربعہ میں سے کوئی ایک بھی آں حضرت(ص) کے عہد میں موجود نہیں تھا نہ ان کے بارے میں آں حضرت (ص) سے کوئی حکم منقول ہے اور ایک صدی کے بعد دنیا میں رونما ہوئے ، ایجاد بندہ اور سیاسی ہیں؟ یا وہ مذہب جس کے بانی رسول خدا(ص) اور جس کا پیشوا آں حضرت(ص) کے ہاتھوں میں تربیت پایا ہوا تھا؟ اور اسی طرح باقی گیارہ امام جن سب کے لیے فردا فردا حدیثیں مروی ہیں، ان کو عدیل قرآن قرار دیا ہے اور حدیث ثقلین میں صاف ارشاد فرمایا ہے کہ :

" من تمسک بهما فقد نجی و من تخلف عنهما فقد هلک ۔" (1)

جس نے ان دونوں سے تمسک کیا وہ یقینا نجات یافتہ ہے اور جس نے ان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ اسی کتاب کے صفحہ92 صفحہ93 میں اس کی اصل اور اسناد کی طرف اشارہ ہوچکا ہے۔

۱۳۵

دونوں سے رو گردانی کی وہ یقینا ہلاک ہوا 12 مترجم) اور حدیث سفینہ میں فرمایا ہے کہ من تخلف عنهم فقد هلک (1) یعنی اور جس نے ان سے منہ موڑا پس وہ یقینا ہلاک میں گرفتار ہوا۔ 12 مترجم)

ابن حجر صواعق باب وحیتہ النبی صفحہ135 میں آن حضرت(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ فرمایا “ قرآن اور میری عترت تمہارے درمیان میری امانت ہیں کہ اگر ان دوںوں سے ایک ساتھ تمسک اختیار کرو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے”

پھر ابن حجر کہتے ہیں کہ اس قول کی موید ایک دوسری حدیث ہے جو آں حضرت (ص) نے قرآن و عترت کے بارے میں ارشاد فرمائی ہے۔" فلا تقدموهما فتهلكوا، و لا تعلموهما فإنهما أعلم منكم." ( یعنی قرآن اور میری عترت پر پیش قدمی نہ کرو۔ اور ان کی خدمت میں کوتاہی نہ کرو۔ ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے۔ اور میری عترت کو تعلیم نہ دو۔ کیونکہ وہ تم سے زیادہ جاننے والے ہیں۔)

اس کے بعد ابن حجر نے تبصرہ کیا ہے کہ “ یہ” حدیث شریف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آں حضرت(ص) کی عترت اور اہل بیت(ع) مراتب علمیہ اور وظائف دینیہ میں دوسروں پر تقدم کا حق رکھتے ہیں۔” حیرت ہے کہ اس بات کا یقین رکھتے ہوئے بھی کہ عترت و اہل بیت رسول(ص) کو دوسروں پر مقدم ہونا چاہیئے بغیر کسی دلیل و برہان کے اصولی ہیں ابوالحسن اشعری کو اور فروع میں ان چاروں فقہا کو اس خاندان جلیلی پر مقدم قرار دیتے ہیں۔ در حقیقت فقیہ امام علم و ورع اور تقوی اور عدالت کی وجہ سے پیشوا قرار پائے تو ان میں سے ایک نے دوسرے پر فسق اور کفر کا فتوی کس لیے لگایا ہے؟

حافظ : آپ بہت زیادتی کرتے ہیں کہ جو کچھ آپ کے منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں، یہاں تک کہ ہمارے فقہا اور اماموں پر تہمت لگاتے ہیں کہ یہ لوگ ایک دوسرے کی تردید و توہین یا تفسیق و تکفیر پر اتر آئے ہیں۔ آپ کا یہ بیان قطعا کھلا ہوا جھوٹ ہے۔ اگر ان کے بادے میں کوئی تردید یا تنقید کی گئی ہے تو وہ شیعہ علماء کی طرف سے ہے ورنہ ہمارے علماء کی جانب سے سوا تعظیم و تکریم کے جو ان حضرات کے شایان شان تھی ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا ہے۔

خیر طلب : معلوم ہوتا ہے کہ جناب عالی کو اپنے علماء کی معتبر کتابوں کے مندرجات پر کوئی توجہ نہیں ہے یا جان بوجھ کر انجان بنتے ہیں یعنی جانتے ہوئے مغالطہ دے رہے ہیں ، ورنہ آپ کے بڑے بڑے علماء نے ان کی رد میں کتابیں لکھی ہیں یہاں تک کہ خود چاروں اماموں نے ایک دوسرے کو فاسق اور کافر بنایا ہے۔

--------------

1۔ اسی کتاب کے صفحہ92 صفحہ93 میں اس کی اصل اور اسناد کی طرف اشارہ ہوچکا ہے۔

۱۳۶

حافظ : فرمائیے وہ علماء کون ہیں اور ان کی کتابوں کے اندراجات کیا ہیں؟ اگر آپ کی نظر میں ہو تو بیان کیجئے۔

خیر طلب : اصحاب ابو حنیفہ اور ابن حزم ( علی ابن احمد اندلسی متوفی سنہ456ھ) وغیرہ برابر امام مالک اور محمد بن ادریس شافعی پر طعن کرتے رہے ہیں اور اسی طرح اصحاب شافعی جیسے امام الحرمین اور امام غزالی وغیرہ ابو حنیفہ اور مالک پر طعن کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ میں جناب عالی سے پوچھتا ہوں کہ فرمائیے امام شافعی، ابو حامد محمد بن محمد عزالی اور جار اﷲ زمخشری کیسے اشخاص ہیں؟

حافظ : ہمارے بزرگ ترین فقہاء و علماء میں سے ، ثقہ اور اہل سنت واجماعت کے امام ہیں۔

اہل تسنن کے علماء اور اماموں کا ابوحنیفہ کو رد کرنا

خیر طلب : امام شافعی کہتے ہیں ما ولد فی الاسلام اشام من ابی حنیفہ۔ ( یعنی اسلام کے اندر کوئی شخص ابو حنیفہ سے زیادہ منحوس پیدا نہیں ہوا) نیز کہا ہے

" نظرت في كتب أصحاب أبي حنيفة فإذا فيها مائة و ثلاثون ورقة خلاف الكتاب و السنة."

یعنی میں نے اصحاب ابوحنیفہ کی کتابوں میں نظر کی تو ان میں مجھ کو ایک سو تیس ورق کتاب خدا اور سنت رسول(ص) کے خلاف ملے۔)

ابو حامد غزالی کتاب متحول فی علم الاصول میں کہتے ہیں:

"فأمّا أبو حنيفة فقد قلب الشريعة ظهرا لبطن و شوّش مسلكها و غيّر نظامها، و أردف جميع قواعد الشريعة بأصل هدم به شرع محمّد المصطفى صلّى اللّه عليه و آله و سلم، و من فعل شيئا من هذا مستحلّا كفر، و من فعل غير مستحلّ فسق"

یعنی در حقیقت ابوحنیفہ نے شریعت کو پلٹ دیا، اس کے راستے کو مشتبہ بنا دیا، اس کے نظام کو بدل ڈالا اور قوانین شرع میں سے ہر ایک کو ایک ایسی اصل کے ساتھ جوڑ دیا جس کے ذریعے رسول اﷲ(ص) کی شرع کو برباد کر دیا۔ جو شخص عمدا ایسی حرکت کرے اور اس کو جائز سمجھے وہ کافر ہے اور جو شخص نا جائز سمجھتے ہوئے ایسا کرے وہ بدکار ہے۔ چنانچہ اس بزرگ عالم کے قول کے مطابق ابوحنیفہ یا کافر تھے یا فاسق۔ اس کے بعد اس باب میں ان کی طعن درد اور تفسیق میں بہت سی باتیں لکھی ہیں جن کا بیان میں ترک کرتا ہوں اور جار اﷲ زمخشری صاحب تفسیر کشاف نے جو آپ کے ثقات علماء میں سے ہیں ربیع الابرار میں لکھا ہے :

" قال يوسف بن اسباط رد ابو حنيفه علی رسول اﷲ اربعة مائة حديث او اکثر. "

یعنی یوسف بن اسباط نے کہا ہے کہ ابو حنیفہ نےرسول خدا(ص) پر چار سویا اس سے زیادہ حدیثیں روکیں۔ نیز یوسف کہتا ہے کہ ابو حنیفہ کہتا تھا لو ادرکنی

۱۳۷

رسول اﷲ لاخذ بکثیر من قولی۔ یعنی اگر رسول اﷲ مجھ کو پاتے تو میرے بہت سے اقوال اختیار کرتے یعنی میری باتوں کی پیروی کرتے) ۔ اسی طرح کے بکثرت مطاعن ابو حنیفہ اور باقی تین اماموں کے بارے میں آپ کے علماء سے منقول ہیں جو غزالی کی کتاب متحول، شافعی کی کتاب نکت الشریف زمخشری کی ربیع الابرار اور ابن جوزی کی منتظم وغیرہ دیکھنے سے معلوم ہوسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ امام غزالی متحول میں کہتے ہیں :

" ان ابا حنيفه النعمان بن ثابت الکوفی يحق فی الکلام ولا يصرف اللغة والنحو ولا يعرف الاحاديث ۔"

( یعنی ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کوفی کے کلام میں غلطیاں بہت ہیں۔ ان کو لغت و نحو اور احادیث کا علم نہیں تھا) نیز لکھتے یں کہ یہ چونکہ علم حدیث سے ( جو قرآن کے بعد دین کا ستون اور بنیاد ہے) واقف نہیں تھے لہذا فقط قیاس رپ عمل کرتے تھے، حالانکہ اول من قاس ابلیس یعنی سب سے پہلے جس نے قیاس پر عمل کیا وہ شیطان تھا۔ ( چنانچہ جو شخص قیاس پر عمل کرے اس کا حشر ابلیس کے ساتھ ہوگا۔)

اور ابن جوزی منتظم میں کہتے ہیں اتفق الکل علی الطعن فیہ۔ یعنی سارے علماء ابو حنیفہ پر طعن کرنے میں متفق ہیں نتیجہ یہ نکلا کہ طعن کرنے والے تین قسم کے ہیں۔ ایک گروہ نے ان کو اس لئے مورد طعن قرار دیا ہے کہ یہ اصول عقائد میں متزلزل تھے۔ دوسری جماعت نے کہا ہے کہ ان کے پاس حافظ اور ضبط روایات کی قوت نہیں تھی اور تیسری صنف کا اعتراض یہ ہے کہ یہ اپنی رائے اور قیاس سے کام لیتے تھے اور ان کی رائے ہمیشہ صحیح حدیثوں کی مخالفت ہوتی تھی۔

غرضیکہ آپ کے اماموں کے بارے میں آپ ہی کے علماء کی طرف سے اس طرح کی گفتگو اور مطاعن بہت ہیں۔ جن کے بیان کا فی الحال وقت نہیں ہے کیونکہ میں تردید اور انتقاد کی منزل میں نہیں تھا۔ آپ نے بات کا سلسلہ یہاں تک پہنچا دیا کہ فرمایا جو مطاعن منقول ہیں وہ صرف علمائے کی طرف سے ہیں اور جو کچھ تمہارے منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہو لہذا میں نے یہ بتا دینا چاہا کہ آپ کا اعتراض بے جا ہے اور آپ محض گریز کا راستہ تلاش کرنے کے لیے بغیر عقل و منطق کے مقابلہ کر رہے ہیں ورنہ اصلیت اسکے خلاف ہے جو کچھ میری زبان پر جاری ہوتا ہے وہ علم و عقل اور منطق کے مطابق اور تعصب سے خالی ہوتا ہے علماء شیعہ نے آپ کے چاروں اماموں سے سوا ان باتوں کے جو خود آپ کے علماء نے لکھی ہیں کوئی نئی چیز منسوب نہیں کی ہے اور نہ ان کی توہین ہی کرتے ہیں۔ لیکن آپ کے علماء کے بر خلاف علمائے شیعہ امامیہ کے درمیان ہمارے بارہ ائمہ (ع) کے مقامات مقدسہ کی نسبت کسی طرح کا کوئی ایراد یا اعتراض موجود نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہم ائمہ طاہرین سلام اﷲ علیہم

۱۳۸

اجمعین کو ایک ہی مدرسے کے شاگرد جانتے ہیں جن پر یکساں طور پر فیض خداوندی جارہی تھا اور یہ حضرات من اولہم الی آخرہم بالعموم قوانین الہیہ کے مطابق جو خاتم النبیین سے ان کو پہنچے تھے عمل فرماتے تھے۔ رائے و قیاس اور ایجاد بندہ پر کار بند نہیں تھے بلکہ جو کچھ ان کے پاس تھا وہ پیغمبر(ص) کی طرف سے تھا لہذا بارہ اماموں کے درمیان کوئی اختلاف نہ تھا( جیسے کہ آپ کے چاروں اماموں کے درمیان سارے عقائد و احکام میں اختلاف موجود ہیں) کیونکہ یہ حضرات امام تھے۔ لیکن امام لغوی نہیں جس کے معنی صرف آگے چلنے والے کے ہوں۔

امامت شیعوں کے عقیدے میں ریاست عالیہ الہیہ ہے

بلکہ علم کلام کی اصطلاح میں جیسا کہ محققین علماء نے بیان کیا ہے یہ امامت ریاست عالیہ الہیہ کے معنی میں اور اصول دین میں سے ایک اصل ہے اور ہم بھی اسی عقیدے پر ہیں کہ : “ الامامة ہی الریاسة العامة الہیة خلافة عن رسول اﷲ فی امور الدین و الدنیا بحیث یجب اتباعہ علی کافة الامة” یعن امامت سارے خلائق پر ایک عمومی ریاست الہی ہے بطریق خلافت رسول اﷲ(ص) کی طرف سے امور دین و دنیا میں اس صورت سے کہ اس کی متابعت سارے انسانوں پر واجب ہے۔”

شیخ : بہتر تھا کہ آپ قطعی اور حتمی طور سے یہ نہ فرماتے کہ امامت اصطلاحی اصول دین میں سے ہے کیونکہ بڑے بڑے علمائے اسلام کہتے ہیں کہ امامت اصول دین میں سے نہیں ہے بلکہ مسلمہ فروعات میں سے ہے، جس کو آپ کے علماء نے بغیر دلیل کے اصول دین کا جز بنا دیا۔

خیر طلب : میرا یہ بیان صرف شیعوں سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ آپ کے اکابر علماء بھی اسی عقیدے پر ہیں من جملہ ان کے آپ کے مشہور مفسر قاضی بیضاوی کتاب منہاج الاصول میں بسلسلہ بحث اخبار انتہائی صراحت کے ساتھ کہتے ہیں :

" أن الإمامة من أعظم مسائل أصول الدين التي مخالفتها توجب الكفر و البدعة "

یعنی حقیقتا امامت اصول دین کے عظیم ترین مسائل میں سے ہے جس کی مخالفت کفر و بدعت کا سبب ہے۔

ملا علی قوشجی شرح تجرید مبحث امامت میں کہتے ہیں :

" «الإمامة رئاسة عامّة في أمور الدين و الدنيا خلافة عن النبيّ "

یعنی امامت ایک ریاست عمومی ہے امور دین و دنیا میں بطریق خلافت پیغمبر(ص) کی طرف سے) اور قاضی روز بہان جیسے آپ کے انتہائی متعصب عالم نے بھی اسی مفہوم کو نقل کیا ہے کہ امامت ریاست براست اور نیابت و خلافت رسول(ص)

۱۳۹

ہے اس عبارت کے ساتھ کہ :" و الإمامة عند الأشاعرة: هي خلافة الرسول في إقامة الدين و حفظ حوزة الملّة، بحيث يجب اتّباعه على كافّة الأمّة."

یعنی امامت اشاعرہ کے نزدیک رسول اﷲ(ص) کی خلافت ہے دین کو قائم کرنے اور حلقہ ملت اسلام کی حفاظت کرنے میں، اس طرح سے کہ ساری امت پر اس کا اتباع واجب ہے۔

اگر امامت فروع دین میں سے ہوتی تو رسول اﷲ(ص) یہ نہ فرماتے کہ جو شخص بغیر امام کو پہچانے ہوئے مرے تو اس کی موت طریقہ جاہلیت پر ہے۔ چنانچہ آپ کے اکابر علماء جیسے حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں، ملا سعد تفتازانی نے شرح عقائد نصفی میں اور دوسروں نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا :

"من مات و هو لا يعرف امام زمانه مات ميتة جاهلية" (1)

بدیہی چیز ہے کہ فروع دین میں سے کسی ایک فرع کی معرفت نہ ہوتا دین کے تزلزل اور طریقہ جاہلیت پر مرنے کا سبب نہیں ہوسکتا جیسا کہ بیضاوی صریحی طور پر کہتے ہیں کہ اس کی مخالفت کفر و بدعت کا سبب قرار پائے۔ پس ثابت ہے کہ امامت اصول دین میں داخل اور مقام نبوت کا تتمہ ہے۔ لہذا امامت کے معنی میں بہت بڑا فرق ہے ، آپ جو اپنے علماء کو امام کہتے ہیں جیسے امام اعظم ، امام مالک ، امام شافعی، امام احمد حنبل، امام فخرالدین ، امام ثعلبی امام غزالی وغیرہ تو یہ لغوی معنی کے لحاظ سے ہے۔ ہم بھی امام جمعہ اور امام جماعت رکھتے ہیں ، اماموں کی اس نوع کا دامن وسیع ہے اور ممکن ہے کہ ایک وقت میں سیکڑوں امام موجود ہوں، لیکن اس معنی میں جو میں نے عرض کیا امام ریاست عامہ مسلمین کے عہدے پر ہے۔ یہ ہر زمانے میں صرف ایک ہوتا ہے، ایسا امام کہ اس کو حتمی طور پر سارے صفات حمیدہ و اخلاق پسندیدہ کا حامل ، علم وفضل ، شجاعت ، زہد، ورع اور تقوی میں سارے انسانوں سے بہتر اور منزل عصمت پر فائز ہونا چاہیئے۔ اور کبھی روز قیامت تک زمین ایسے امام کے وجود سے خالی نہ رہے گی۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کا امام جو انسانیت کے تمام صفات حالیہ کا حامل ہو صفات روحانیت کے بلند ترین مقام پر ہوگا۔ اور یقینا ایسے امام کو خدائے تعالی کی طرف سے خصوص اور رسول اﷲ (ص) کی طرف سے منصوب ہونا چاہیئے کیونکہ یہ سارے ؟؟؟؟؟ حتی کہ انبیائے کرام سے بھی اعلی و ارفع ہوتا ہے۔

حافظ : ایک طرف تو آپ غالیوں کی مذمت کرتے ہیں اور دوسری طرف خود ہی امام کے بارے میں غلو کرتے ہیں اور اس کی منزل کو مقام بنوت سے بالاتر سمجھتے ہیں، حالانکہ عقلی دلائل کے علاوہ قرآن مجید نے بھی انبیاء کی منزل کو سب سے بلند قرار دیا ہے اور واجب و ممکن کے درمیان صرف انبیاء(ع) ہی کا مقام ہے آپ کا یہ دعوی چونکہ بلا دلیل ہے لہذا سراسر زبردستی اور نا قابل قبول چیز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ جو شخص اس حالت میں مرجائے کہ اپنے امام زمان کو نہ پہچانتا ہو تو وہ حقیقت میں جاہلیت کی موت مرا۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367