فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ15%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206452 / ڈاؤنلوڈ: 5999
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

میں شامل ہوجاتے ہیں پھر ان کی حد بندی مشکل ہے ہاں یہ ممکن ہے کہ اس لفظ کے معنی کو چند افراد میں جامد کردیا جائے یعنی بس وہی لوگ سابقون اولون ہیں جو اسلام کی طرف پہلی دعوت کے وقت اسلام میں داخل ہوئے اور نبی ؐ کی آواز پر لبیک کہی ظاہر ہے کہ یہ چند افراد ہوں گے جنہیں انگلیوں پر شمار کیا جاسکتا ہے اور ان کی نجات کا یقین ہونا صحیح لگتا ہے وہ بھی اس لئے نہیں کہ آیہ شریفہ میں سابقون اوّلون سے نجات کا وعدہ کیا گیا ہے بلکہ اس لئے کہ ان کے حالات صحیح تھے اور ان کا خاتمہ اسلام پر ہوا ہے اگر ایسا ممکن ہو تو ان کے حالات دیکھ کر ان کی سلامتی کو یقینی قرار دیا جاسکتا ہے لیکن سابقون اوّلون کی لفظ کی عموم پر محمول کرنا اور ان لوگوں کو سابقون اوّلون میں شامل کرنا جن کو عام آدمی سابقون اوّلون سمجھتا ہے تو اس کو ثابت کرنےکے لئے دلیل لانی پڑےگی اگر دلیل مل بھی جائے تب بھی سابقون اوّلون کی دقیق حد بندی کرنا دشوار ہے ۔

سابقون اوّلون نقد و جرح سے بالاتر نہیں ہیں اس پر امت کا اجماع ہے

میرے خیال میں جمہور مسلمین بھی سابقون اولون کو جرح و تنقید سے بالا نہیں سمجھتا اور ان کو صرف اس وجہ سے کہ ان کی سلامتی قطعی اور نجات یقینی ہے کوئی خاص خصوصیت دیتے(چاہے شیعہ مسلمان ہو یا سنّی،یعنی سابقون اوّلون کی مذکورہ بالا خصوصیت کی بنیاد پر انھیں کوئی خاص امتیاز حاصل نہیں ہے)

جہاں تک شیعوں کا سوال ہے تو یہ تو سبھی جانتے ہیں(کہ یہ قوم شخصیت پرست نہیں اور کسی کے رعب میں اس کی سبقت و غیرہ کی وجہ سے نہیں آنےوالی)لیکن اہل سنت اکثریت کے نزدیک صحابی وہ ہے جو پیغمبر ؐ کو دیکھے اور ان سے حدیث سنے اور بعض وہ لوگ ہیں جبھیں صحابہ کی تنقید انھیں مجبور کرتی ہے اور وہ ان کے حالات جاننے کی کوشش کرتے ہیں میں نے آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں اس سلسلے میں بہت کچھ عرض کردیا ہے ۔

۶۱

صحابہ کی لفظ کا صرف سابقون اوّلون پر محمول کرنا ہی قابل تامل ہے

دوسرا امر ۔ آپ نے فرمایا عام مسلمان سابقون اوّلون ان لوگوں کو سمجھتے ہیں جو احادیث نبی ؐ اور قرآنی آیات میں صحابہ یا اسی کے ہم معنی لفظ سے یاد کئے جاتے ہیں،

جواباً عرض ہے کہ پورے قرآن میں اصحاب نبی ؐ کو صحابہ کے نام سے صرف ایک جگہ معنوں کیا گیا ہے،ارشاد ہوتا ہے کہ:(إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا) (۱)

ترجمہ آیت:(اگر تم اس کی مدد نہیں کروگے تو نہ کرو اللہ اس کی مدد کرے گا جب اس کو(نبی ؐ کو)کفار نے مکہ سے نکال دیا تھا تو وہ دو میں کا دوسرا تھا جب وہ دونوں نماز میں تھے جب وہ اپنے صحابی سے کہہ رہا تھا کہ ڈ رو نہیں اور غم نہ کرو بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اپنے نبی ؐ پر سکینہ نازل کیا اور ایسے لشکر سے مدد کی جس کو تم نہیں دیکھ سکتے) ۔

اس آیت میں ظاہر ہے کہ صاحب سے مراد صحبت مکانی ہے اور بس اب رہ گیا دوسری آیتوں میں خطاب تو وہ صحابی کی لفظ سے ہے ہی نہیں بلکہ مخاطب عام مومنین ہیں ۔

ارشاد ہوتا ہے:(مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُعَلَىالْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ...) (۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ توبہ آیت ۴۰

( ۲) سورہ فتح آیت ۲۹

۶۲

ترجمہ آیت:محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں اور وہ لوگ جو آپ پر ایمان لائے کافروں پر سخت اور آپس میں رحم دل ہیں تم انہیں رکوع اور سجدہ کی حالت میں پاؤگے وہ خدا کے فضل کو تلاش کرتے رہتے ہیں ان کی پیشانیاں نشان سجدی سے چمکتی رہتی ہیں،ان کی مثال تو راۃ میں اور انجیل میں...

صدر آیت کے الفاظ تو عموم کا تقاضا کرتے ہیں ہر وہ شخص جو نبی ؐ کے ساتھ ہے وہ عام طور پر صحابی کہا جاتا ہے اس آیت کے تحت تو ہر وہ آدمی جو نبی ؐ کے ساتھ ہے چاہے سابقون اوّلون میں ہو چاہے ان کے بعد والا صحابی کہا جاسکتا ہے مشکل یہ ہے کہ آپ کے قول کے مطابق صحابہ صرف سابقون اوّلون کو کہا جاتا ہے لیکن آیت صحابیت کی حدود کو وسعت عنایت کر رہی ہے اس لئے یہ آیت سورہ فتح کی ہے اور سورہ فتح صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی تھی جب لوگ کثرت سے مسلمان ہوچکے تھے صلح حدیبیہ میں تو بہت سے مسلمان ہلاکت کے قریب پہنچ چکے تھے اس لئے کہ انہوں نے نبی ؐ کی آواز پر لبیک نہیں کہی تھی جیسا کہ حدیثوں میں وارد ہے اور آپ کے سوال ثانی کے جواب میں لکھا جاچکا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ یہ آیت صلح حدیبیہ کے سال میں جو عمرہ قضا ہوا تھا اس کی ادائیگی کے وقت نازل ہوئی ہو اور اس سال تو لوگ کثرت سے مسلمان ہوچکے تھے بلکہ بہت سے لوگ ضعف الایمان بھی تھے جو دائرہ اسلام میں داخل ہوکے کلمہ پڑھ چکے تھے البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ آیت انہیں لوگوں پر محمول ہوتی ہے جن کے اندر آیت کی بیان کردہ صفتیں پائی جاتی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ لوگ صحابہ کی اس خاص قسم سے تعلق رکھتے تھے جنہیں ان کی دینی قوت دین کے لئے فعالیت اور نبی ؐ کی سیرت اور کردار کو اپنانے کی وجہ سے عف عام میں انھیں خاص صحابی سے تعبیر کیا جاتا تھا اکثر انھیں ہی مقام مدح میں صحابی کہا جاتا تھا اس لئے کہ عرف عام میں کسی کو صحابی اس وقت کہتے ہیں جب وہ رئیس کا خاص آدمی ہو جس سے اس کی خاص معاشرت ہو اور وہ ان کے ساتھ مل کے کام کرتا ہو اور صحابی اس رئیس کی سیرت پر چل رہا ہو ۔

ظاہراً سابقون اوّلون اور اس آیت کے ممدوحین کے درمیان کسی طرح کا تطابق لازم نہیں ہے بلکہ ممکن ہے کہ بہت سے سابقون اوّلون میں آیت کی بیان کردہ صفتیں مفقود ہوں جس طرح یہ ممکن

۶۳

ہے کہ غیر سابقون اوّلون میں آیت کی بیان کردہ صفتیں موجود ہوں ظاہر ہے کہ ان صحابہ کو پہچاننے کے لئے اور ان کا یقین کرنے کے لئے ان کے ذاتی کردار ان کی زندگی کے واقعات ان کا چال چلن اور ان کی سریت کا ناقدانہ مطالعہ تو کرنا ہی پڑےگا ۔

ایک بات اور قابل توجہ ہے کہ آیت شریفہ میں بیان کردہ تمام صفات عالیہ کے باوجود خدا نے انہیں سلامتی اور نجات کا یقین نہیں دلایا ہے،نہ ہی ان سے کامیابی کا وعدہ کیا،مگر یہ کہ استقامت اور ایمان و عمل صالح پر ثابت قدم رہنے کی شرط لگادی ہے ملاحظہ ہو اس آیت کا اختتامیہ.ارشاد ہوتا ہے: (وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا) (۱)

ترجمہ آیت:(ان لوگوں میں جو لوگ مومن رہے اور عمل صالح کرتے رہے ان سے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے) ۔

ظاہر ہے کہ جب اللہ ایسے پاک اور پاکیزہ لوگوں کے لئے مغفرت اور اجر عظیم میں استقامت کی شرط لگاتا ہے تو پھر دوسروں کے لئے کیوں نہیں شرط لگائےگا؟

اب رہ گیا سنّت شریفہ کا سوال تو میری یہ سمجھ میں نہیں آتا ہے احادیث نبوی میں جو حدیثیں صحابہ کی مدحت میں وارد ہوئی ہیں انھیں سابقون اوّلون پر اور مذمت والی احادیث کو غیر سابقین پر حمل کیا جاسکتا ہے؟کیا یہ زبردستی اور بےدلیل قرینہ حکم نہیں ہے؟(مذمت والی بعض احادیث حدیث خوض کی بحث میں گذرچکی ہیں جنھیں دوسرے سوال کے جواب کے ضمن میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ )اگر کوئی قرینہ ہے تو وہ زبردستی اور ہٹ دھرمی کے قرینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے،ان حدیثوں کے مضامین میں کچھ تو عموم کا فائدہ دیتے ہیں یعنی قرینہ عموم پایا جاتا ہے،آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں عرض کیا تھا کہ نبی ؐ نے اصحاب کو خطاب کرکے فرمایا((تم ضرور ضرور پیروی کروگے اپنے پہلے والوں کی حتیٰ کہ اگر وہ سوسمار کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی ان میں داخل ہوگے))اس حدیث میں حضرت نے کسی مخصوص مسلمان کے بارے میں نہیں کہا ہے ایسی عام بات فرمائی کہ تم اُمَم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ فتح آیت۲۹

۶۴

سابقہ کی طرح انحراف کروگے اس عموم میں سب شامل ہیں بلکہ وہ بھی جو صحابہ میں صاحب مقام شمار کئے جاتے ہیں اس لئے کہ اُمَم سابقہ میں بہت سے مقام و منزلت والے بھی انحراف اور کجروی کا شکار ہوگئے تھے جیسے امت موسیٰ ؑ کا خالہ زاد بھائی تھا یہ جعفر صادق علیہ السلام کا قول ہے(۱) اور ابن عباس(۲) کا بھی یہی قول ہے ابن اسحٰق(۳) کہتے ہیں چچازاد بھائی تھا اور سامری شان اور مرتبہ والا تھا(عام لوگوں سے اس کی نگاہیں تیز تھیں)قرآن کہتا ہے کہ:(قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَٰلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي) ( ۴ )

ترجمہ آیت:(سامری نے کہا مجھے وہ چیز دکھائی دی جو اوروں کو نہ سوجھی جبرئیل گھوڑے پر سوار جارہے تھے تو میں نے جبرئیل(فرشتے کے گھوڑے)کے نشان کے قدم کی ایک مٹھی خاک اٹھالی اس وقت میرے نفس نے اس کا سوال کیا) ۔

(قرینہ کہتا ہے کہ سامری اور قارون دونوں ہی امت موسیٰ کے سابقون اوّلون میں شامل تھے)یہ سمجھنا بعید از فہم ہے کہ انھوں نے موسیٰ کی دعوت قبول کرنے میں تاخیر کی ہوگی یا ان کی تصدیق کرنے میں کوتاہی کی ہوگی(اس لئے عذاب کا شکار ہوئے نہیں بلکہ وہ لوگ پہلے ہی دعوت موسیٰ پر لبیک کہہ چکے تھے اور شریعت موسیٰ کو گلے لگا چکے تھے کیوں کی دعوت موسوی بنی اسرائیل کی نجات پر مبتنی تھی یہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔

اس کے قبل ایک حدیث موطا ابن مالک سے پیش کی جاچکی ہے،مجھ سے مالک نے اور ان سے عمر بن عبیداللہ کے غلام ابونضر نے بیان کیا کہ ان تک یہ بات پہنچی کہ حضور ؐ نے شہدا احد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مجمع البیان ج:۷ص:۴۵۹

(۲)مجمع البیان ج:۷ص:۴۵۹

(۳)تفسیر القرطبی ج:۱۳ص:۳۱۰،تفسیر الطبری ج:۲۰ص:۱۰۵،تفسیر ابن کثیرج:۳ص:۴۰۰

(۴)سورہ طٰہ آیت:۹۶

۶۵

کے بارے میں فرمایا:پالنےوالے میں ان پر گوہ ہوں،ابوبکر نے کہا یا رسول اللہ ؐ کیا ہم ان کے بھائی نہیں ہیں حضور ؐ نے فرمایا ہاں تم بھائی ہو لیکن مجھے نہیں معلوم کہ تم میرے بعد کیا کروگے؟،پھر نافع کی روایت بھی عرض کی جاچکی ہے وہ عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ سرکار ؐ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور آپ نے عایشہ کے گھر کی طرف اشارہ کر کے تین بار فرمایا،یہاں فتنہ ہے،یہیں سے شیطان کے سینگ نکلےگی))دوسری حدیثیں بھی اس کے قریب المعنی ہیں جیسے سرکار ؐ کے مولائے کائنات ؑ کو ناکثین سے لڑنے کا حکم دینا حالانکہ ناکثین میں تین نام سب سے آگے ہیں طلحہ،زبیر اور عایشہ ۔

ام سلمہ نے عبدالرحمٰن بن عوف کو حکم دیا کہ خدا کی راہ میں خرچ کیا کرو اس لئے کہ سرکار ؐ نے فرمایا تھا کہ میرے کچھ ایسے صحابی ہیں جنہیں مرنے کے بعد میں نہیں دیکھ سکوں گا اور نہ وہ مجھےکبھی دیک سکیں گے،ظاہر ہے کہ ام المومنین کا عبدالرحمٰن بن عوف کو انفاق کا حکم دینے میں یہی مصلحت تھی کہ کہیں وہ مردود اصحاب میں سے نہ ہوجائے حالانکہ عامتہ الناس کے مطابق وہ سابقون اوّلون میں سے تھے ان کے علاوہ ام المومنین کی حدیث میں جہاں صحابہ کی لفظ آئی ہے ان صحابہ میں سابقون اوّلون بھی شامل ہیں ۔

میرے بیان کو مزید تقویت اس وقت پہنچتی ہے جب ہم خود صحابہ کے حالات پر نظر کرتے ہیں اور ایک صحابی کا دوسرے صحابی کے بارے میں کیا نظریہ تھا اس کو دیکھتے ہیں صحابہ کے حالات بہرحال اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ انہیں مذکورہ خصوصیت(قطعی نجات اور سلامتی کا تغمہ)دی جائے میرے گذشتہ بیانات کو پڑھیے ۔

حاطب ابن ابی بلتعہ کے قصہ سے استدلال

تیسرا امر ۔ آپ فرماتے ہیں کہ سابقون اوّلون پر لعن طعن کرنے کی اجازت ہمیں سنت نبوی سے نہیں ملتی اور یہ کہ ہم صحابی اور اس کی منزلت کا فیصلہ اللہ پر چھوڑدیں اس لئے کہ اس وحدہ لاشریک نے

۶۶

انہیں اس منزلت سے سرفراز کیا ہے جیسا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کی حدیث سے ملتا ہے کہ کوئی حاطب بن ابی بلتعہ کی سرزنش کررہا تھا اللہ اہل بدر کے حالات سے خوب واقف ہے اور اس کا ارشاد ہے:تمہاری جو سمجھ میں آئے کرو اس لئے کہ میں تمھیں معاف کرچکا ہوں ۔

حاطب بن ابی بلتعہ کے قصے میں احتیاط

میں عرض کرتا ہوں کہ اس حدیث کو اہل سنت کے علما نے متعدد طریقوں سے نقل کیا ہے میں اس کے طریقوں میں سے کچھ کا بیان کروں گا،بہرحال یہ حدیث اتنی نقل کی گئی کہ اہل سنت کے یہاں تقریباً مسلمات میں شامل کردی گئی،فی الحال ابھی میں اس حدیث سے انکار بھی نہیں کرتا البتہ اس کا معنی سمجھنے میں تھوڑا احتیاط کرتا ہوں،پہلی بات یہ ہے کہ مجھے اس حدیث کے صادق ہونے کا پورا یقین نہیں ہے،دوسری بات یہ ہے کہ میں اس سے وہ معنی نہیں سمجھتا جو اہل سنت سمجھتے ہیں یعنی میں نہین سمجھتا کہ اس حدیث کی بنیاد پر عام اہل بدر کو سلامت قطعی اور نجات اخروی کی سند دیدی جائے ۔

مقام تقدّس میں صحابہ کو اہل بیت ؑ کے مقابلے میں لانے کی کوشش

اس موضوع پر گفتگو کرنے سے پہلے مقدمۃً کچھ باتوں کی طرف متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو اس منزل میں بھی اور دوسری جگہوں پر بھی نفع بخش ہیں ۔ ہر ایک انصاف پسند اور ذوقِ جستجو رکھنےوالے آدمی سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ اہل سنت کے علما فقہ ہوں یا رواۃ حدیث یا ان کے دشمن اہلبیت ؑ بادشاہ ہیں بہرحال جمہور اہل سنت کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ مقام تقدس میں اہل بیت ؑ کے مقابلے میں صحابہ کو لا کر کھڑا کریں اور صحابہ کو اہل بیت ؑ سے زیادہ قابل احترام ثابت کریں یعنی اہل بیت ؑ کا تقدس جیسے قرآن مجید:(لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ) (۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ فصلت آیت۴۲

۶۷

ترجمہ آیت:(جس کے سامنے یا پیچھے سے باطل آ ہی نہیں سکتا وہ خدائے حکیم و حمید کا نازل کردہ ہے) ۔

اسی نے بیان کیا ہے اور سنت شریفہ نے جس کی تاکید کی ہے اس کے مقابلے میں صحابہ کو لائیں(تا کہ قرآن اور حدیث کے بیان کردہ)فضائل صرف اہل بیت ؑ سے مخصوص ہو کے نہ رہ جائیں یہ کوشش صرف اس لئے کی گئی کہ صحابہ کو کھینچ کے اہل بیت ؑ کے مقابلے میں لانے سے مسلمان صحابہ کو مرکز توجہ بنالےگا اور صحابہ کے فضائل میں مشغول ہو کے اہل بیت ؑ کی طرف مڑ کے نہیں دیکھےگا،جیسے جیسے وقت گذرتا گیا اور شیعہ مذہب کی طرف دعوت میں شدت ہوتی گئی اور شیعہ مقام اہل بیت ؑ اور ان حضرات کے مراتب جلیلہ کو قولاً و فعلاً واضح کرتے رہے اسی حساب سے اہل سنت صحابہ کے فضایل میں(جھوٹی باتیں)بیان کر کے ان کو محترم اور مقدس ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے یہاں تک کہ یہ ایک مستقل مذہب بن گیا،ان کوششوں کا مقصد یہ ہے کہ عالم اسلام صرف صحابہ پھر بھروسہ کرے انھیں کی طرف منسوب ہو جس طرح شیعہ اہل بیت اطہار ؑ پر اعتماد کرتے ہیں اور ان حضرات ہی کی طرف خود منسوب کرتے ہیں تا کہ مسلمان اہل بیت ؑ سے اعراج کا جواز پاجائے یا کم سے کم مقام تظیم و تقدس میں اہل بیت ؑ اور صحابہ میں افتراق نہ کرے ۔

نبی پر درود پڑھتے وقت اہل بیتؑ کو شامل کرنے کے بارے میں اہل سنّت کا نظریہ

اس بات کے علمی مشاہدہ کے لئے وہ حدیثیں کافی ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ اہل سنت اہل بیت کو داخل صلوات کرنے پر کس طرح تیار ہوئے

کعب بن عجرہ کہتے ہیں کہ پیغمبر ؐ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ ؐ آپ پر سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہے درود کیسے بھیجیں آپ نے فرمایا کہو:اللهم صل علیٰ محمد و علیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ آل ابراهیم انک حمید مجید پالنےوالے درود بھیج محمد ؐ اور ان کی آل پاک ؑ پر جیسا کہ تو نے آل ابراہیم ؑ پر درود بھیجا ہے بیشک تو قابل حمد اور بزرگ ہے پالنےوالے برکت

۶۸

دے محمدؐ کو جیسا کہ تو نے ابراہیمؑ کو برکت دی بیشک تو حمید و مجید ہے(۱)

بلکہ ناقص صلوات بھیجنے کی نہی(۲) وارد ہوئی ہے ناقص صلوات کا مطلب ہے آل کو چھوڑ کے صرف سرکار دو عالمؐ پر درود بھیجنا حالانکہ ہم اہل سنت کی صلوات کو دیکھتے ہیں تو تعجب ہوتا ہے یا تو یہ حضرات صرف نبیؐ پر صلوات بھیجتے ہیں یا اگر آل پر صلوات بھیجی تو اصحاب کو ضرور شامل کر لیتے ہیں ایسا صرف اس لئے ہے کہ یہ لوگ مقام تکریم و تقدیس میں صحابہ اور اہل بیتؑ میں تمیز نہیں کرتے۔

اہل سنت کے نظریہ کی توجیہ میں طحاوی کا بیان

طحاوی نے اہل سنت کے اس نظریہ کی عجیب و غریب توجیہ کی ہے وہ کہتا ہے:ظاہر ہے کہ آل و اصحاب کا ذکر صلوات میں مندوب ہے اصحاب تو اس لئے کہ وہ ہمارے اسلاف ہیں اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ان کے لئے حصول رضایت الٰہی کی دعا کریں رضی اللہ عنہ کہیں ان پر لعنت نہ کریں اب رہ گئی آل تو ان کو بھی صلوات میں شامل کرنا ہی پڑےگا اس لئے کہ حضور ؐ نے فرمایا مجھ پر دم کٹی صلوات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) صحیح بخاری ج: ۴ ص: ۱۸۰۲ کتاب التفسیر:باب(ان الله و ملائکة یصلون علی النبی یا ایها الذین آمنوا) ج: ۳ ص: ۱۲۳۳ کتاب الانبیاء:باب یزفون النسلان فی المشی ،ج: ۵ ص: ۲۳۳۸ کتاب الدعوات:نبیؐ پر صلواۃ بھیجنے کے باب میں مسلم ج: ۱ ص: ۳۰۵ کتاب الصلاۃ:نبیؐ پر تشہد کے بعد درود بھیجنے کے باب میں،السنن الکبریٰ للنسائی ج: ۱ ص: ۳۸۱،۳۸۲ کتابصفة الصلاة:الأمر بالصلاة علی النبی،ج:۶،کتاب عمل الیوم و اللیلة،ص:۱۷،کیف المسألة و ثواب من سأل له ذلک ،ص: ۹۷ کیف الرد،صحیح بن حبان ج: ۳ ص: ۹۳ اباب الادعیۃ:ذکر الاخبار المفسرۃ لقولہ جل و علا:(یا ایها الذین آمنوا صلوا علیه و سلموا تسلیما) ج: ۵ باب صفۃ الصلاۃ،ص: ۲۸۶ ،ذکرو صف الصلاۃ علی المصطفیؐ الذی یتعقب السلام الذی وصفنا،ص: ۲۸۹ ،ذکر البیان بان النبیؐ انّما سئل عن الصلاۃ علیہ فی الصلاۃ عند ذکرھم ایاہ فی التشھد،ص: ۲۹۵ ،ذکر الأمر با الصلاة علی المصطفیٰ و ذکر کیفیتها و غیرها من المصادر الکثیرة،

( ۲) جواھر العقدین القسم الثانی ج: ۱ ص: ۴۹ ،فی الثانی ذکر أمره بالصلاة علیهم فی امتثال ما شرعه الله من الصلاة علیهم و وجه الدلالة علی ایجاب ذلک فی الصلاة حاشیۃ الطحاوی علی مراقی الفلاح ج: ۱ ص: ۸ ،الصواعق المحرقۃ ج: ۲ ص: ۴۳۰ الباب الحادی عشر:اہل بیت نبوکےفضائل میں:پہلی فصل الآیات الواردۃ فیھم،ینابیع المودۃ ج: ۱ س: ۳۷ ،ج: ۲ ص: ۴۳۴ ،

۶۹

نہ بھیجنا لوگوں نے پوچھا کہ دم کٹی صلوات کیا ہے؟آپ نے فرمایا تم کہتے ہو:اللہم صل علی محمد اور بس بلکہ(مکمل صلوات یہ ہے)کہا کرواللهم صل علیٰ محمد و آل محمد اس حدیث کو فاسی و غیرہ نے بھی نقل کیا ہے ۔(۱)

آپ خود دیکھیں کہ درود میں صحابہ کو نبی ؐ سے زبردستی کس طرح ملحق کیا گیا ہے؟تا کہ وہ اہل بیت ؑ کے شریک ہوجائیں دلیل یہ ہے کہ وہ ہمارے اسلاف ہیں اور اللہ نے ہمیں ان کو راضی رکھنے کا حکم دیا ہے اور ہمیں ان پر لعنت کرنے سے روکا ہے و غیرہ....میں کہتا ہوں اگر مذکورہ بالا توجیہ مان بھی لی جائے تو اس سے صرف صحابہ کو راضی رکھنے کا استحباب ثابت ہوتا ہے نہ کہ ان کو درود میں شامل کرنا ۔ اس توجیہ سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان پر ترضی مستحب اور لعنت کرنا حرام ہے نبی ؐ کے ساتھ ان کو درود میں شامل کرنے کے استحباب پر تو پھر کوئی دلیل چاہئے جیسا کہ آل کے بارے میں دلیل اسی حدیث میں موجود ہے خصوصاً جب کہ طحاوی نے سرکار دو عالم پر درود کی شرح کرنے کے لئے ایسی حدیث نقل کی ہے جس میں حضرت نے دم کٹی صلوت سے منع کیا ہے اور فرمایا کہ کامل صلوات کی شرط آل محمد کا درود ہے الحاق ہے لیکن اصحاب کا کوئی ذکر نہیں آیا ۔

اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ طحاوی نے صلوات بترا(دم کٹی صلوات)والی حدیث نقل کر کے یہ محسوس کیا کہ اس حدیث سے اہل بیت ؑ کو کوئی ایسی خصوصیت حاصل ہوگئی جس میں ان کا کوئی شریک نہیں ہے بس فوراً ہی حدیث کے رخ کو موڑدیا اور یہ کہہ دیا کہ آل سے مراد امت محمدی ہے یہاں تک کہ فساق بھی شامل ہیں لہذا کلام سابق کے بعد بلافصل کہتا ہے(یہاں پر آل سے سرکار کی ساری امت مراد ہے یعنی مطلق ساری امت کے لئے دعا کی جائے)اور حضور ؐ کا یہ قول کہ ((آل محمد متقی ہیں)اس سے مراد یہ ہے کہ امت محمد ؐ شرک سے پاک ہے یعنی شرک سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے مقام دعا میں یہی درست ہے ۔ (یعنی ہر غیر مشرک کے لئے دعا کرسکتے ہیں ۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح:ج:۱ص:۸

(۲)حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ج:۱ص:۸

۷۰

جی چاہتا ہے کہ طحاوی سے پوچھوں کہ جب آل سے ساری امت مراد ہے تو صحابہ کا درود الحاق کرنا ضروری کیوں ہے؟(کیا صحابہ امت میں شامل نہیں ہیں)؟پھر آپ نے صحابہ کے الحاق کے لئے سابق میں بےمغز اور بھون ڈ ی دلیل کیوں دی؟کیا صحابہ اجابہ میں سے نہیں تھے؟آپ نے طحاوی کا بیان پڑھ لیا،اب اہل سنت کا طرز عمل ملاحظہ ہو،سمجھ میں بات نہیں آتی کہ اس حدیث کی موجودگی میں اہل سنت دم کٹی صلوات بھیجنے پر اصرار کیوں کرتے ہیں اور آل پر اقتصار کرتے ہوئے صرف انھیں کو نبی ؐ سے ملحق کیوں نہیں کرتے جیسا کہ مضمون حدیث(آل پر انحصار)یہی ہے جسے خود طحاوی نے ذکر کیا ہے،کنایہ اس لئے نہیں ہے اہل بیت ؑ کی مایۂ امتیاز شرافت و بزرگی کے ذکر سے جو انھیں بڑی گراں گذرتی ہے پرہیز کیا جائے یہ سارا زور اس لئے ہے کہ اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ آل سے مراد صرف اہل بیتِ رسول ؐ ہیں نہ کہ سارے امتی حتیٰ کے فاسقین بھی ۔

پھر ہم اپنی بات کی تکرار کررہے ہیں کہ جمہور صحابہ نے متعلق چارہ جوئی اور نفوس قدسیہ میں اضافہ کوشش کررہے تھے نیز ان اسباب و علل کی جو اس کا باعث ہوتے ہیں لیکن یہ ایک طولانی اور وسیع موضوع ہے لہذا اس مختصر میں اس کی گنجائش نہیں ہے جب کہ شیعہ علماء اور اُن کی کتابوں نے اس اضطراب کی طرف راہنمائی کی ہے لہذا حقیقت جو افراد اس کی طرف رجوع کریں ۔

حدیث نبوی میں اختلاف اور امیرالمومنینؑ کا مشورہ

حدیث پیغمبر کے بارے میں کچھ اور بھی عرض کرنا بہتر سمجھتا ہوں،ایک سائل نے مولائے کائنات ؑ سے حدیث بدع اور لوگوں کے پاس جو حدیثیں ہیں ان کے اختلاف کے بارے میں پوچھا آپ نے فرمایا:لوگوں کے پاس تو حق و باطل بھی،صدق و کذب بھی،ناسخ و منسوخ،عام خاص،محکم مُتشابہ اور حفظ و وہم سب کچھ ہے اور پیغمبر ؐ پر تو آپ کی زندگی میں ہی بہتان لگایا گیا نتیجہ میں حضور ؐ خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور فرمایا جو مجھ پر جان بوجھ کے بہتان لگائے اس نشست کو آگ سے بھردیا جائےگا،

۷۱

تمہارے پاس ایسے طار طرح کے لوگ حدیث لائیں گے جن کا پانچواں نہیں ہوگا ایک تو منافق مرد(حدیث لائےگا)جو ایمان کو ظاہر کرتا ہے اور اسلام میں تصنع برتتا ہے،خود کو نہ گناہ گار محسوس کرتا ہے اور(نہ ہی جھوٹ بولنے میں)کوئی حرج محسوس کرتا ہے پیغمبر ؐ پر جان بوجھ کے جھوٹ باندھتا ہے اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ وہ منافق ہے تو اس سے حدیث قبول ہی نہ کریں گے اور نہ اس کی تصدیق کریں گے لیکن وہ لوگ تو کہتے ہیں کہ یہ نبی ؐ کا صحابی ہے اس نے نبی کو دیکھا ہے ان سے حدیث سنی ہے اور ان سے حاصل کیا ہے اس لئے لوگ اس سے حدیثیں لیتے ہیں حالانکہ اللہ نے تمہیں منافقین کے بارے میں خبردار کردیا ہے اور ان کی صفتیں بتادی ہیں یہ منافقین نبی ؐ کے بعد بھی باقی رہے اور گمراہی کے اماموں،جھوٹ اور بہتان کے ذریعہ جہنم کی طرف دعوت دینےوالوں کے یہاں تقرب حاصل کرلیا نتیجہ میں انھیں اعمال کا ولی بنادیا اور لوگوں کی گردنوں پر انھیں مسلط کردیا پھر ان کے توسط سے خوب مال دنیا سمیٹا اس لئے کہ لوگ تو بادشاہ اور(مال)دنیا کے ساتھ رہتے ہی ہیں مگر یہ کہ جس کی خدا حفاظت کرے(۱)

نبیؐ کے بعد منافقین کی حرکتیں اور تیزدستیوں کے بارے میں ابن الحدید کی گفتگو

ابن ابی الحدید مولائے کائنات ؑ کی مذکورہ بالا حدیث کی تشریح کے بعد لکھتے ہیں کہ حضرت نے محدثین کی بالکل صحیح تقسیم کی ہے منافقین دور پیغمبر میں بھی تھے آپ کے بعد بھی باقی رہے پھر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حضور کی وفات کے ساتھ ہی نفاق بھی مرگیا البتہ پیغمبر کے بعد منافقین کے حالات پوشیدہ رہنے کی وجہ یہ ہے کہ سرکار دو عالم ؐ کے دور میں وحی کا سلسلہ جاری تھا قرآن میں منافقین کے بارے میں جو کچھ نازل ہوتا تھا سرکار مسلمانوں کو اس سے باخبر کردیا کرتے تھے لیکن جب سرکار ؐ کی وفات کی وجہ سے وحی کا سلسلہ بند ہوگیا تو اب کوئی ایسا آدمی نہیں رہا جو منافقین کی غلطیوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) نہج البلاغہ ج: ۲ ص: ۱۸۹،۱۸۸ ،اسی طرح ینابیع المودۃ ج: ۳ ص: ۴۱۰،۴۰۹

۷۲

اور لغزشون کی نشان دہی کرے ان کے اعمال پر ان کی توبیخ کرے اور مسلمانوں کو ان سے پرہیز کرنے کی تلقین کرے نیز کبھی کھل کے اور کبھی اشاروں،کنایوں میں بات کو سمجھائے سرکار دو عالم ؐ کے بعد جو لوگ حکومت میں تھے وہ منافقین کے ظاہر کو دیکھتے ہوئے ان سےحسن سلوک پر مجبور تھے اس لئے کہ دین اور دنیاوی سیاست انھیں ظاہر پر عمل کرنے کا حکم دیتی ہے چونکہ خلفا ان کے بارےمیں کچھ نہیں بولتے تھے اس لئے ان کا ذکر قریب معدوم ہوگیا نتیجہ میں منافقین نے اس بات پر اقتصار کیا کہ ان کے دل میں جو کچھ ہے اسے چھپائے رہیں اور ظاہری طور پر مسلمانوں سے ملتے رہیں( ۱) اور مسلمانوں سے معاملات کرتے رہیں اس کے بعد تو مسلمان فتوحات میں مصروف ہوگئے اور مال غنیمت آنےلگا منافقین مال غنیمت میں مشغول ہوگئے اور پیغمبر ؐ کے زمانے میں جو حرکتیں کرتے تھے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) ابن ابی الحدید یا تو غافل ہیں یا تجاہل عارفانہ کررہے ہیں اور شاید انھوں نے حذیفہ کا جملہ نہیں دیکھا ہے جس میں انھوں نے فرمایا ہے کہ:آج کے منافقین کل کے منافقین سے زیادہ خطرناک ہیں عہد رسول میں وہ اپنے نفاق کو مخفی رکھتے تھے جب کہ آج کل اس کے اظہار سے وہ کوئی خوف و ہراسی نہیں رکھتے،حذیفہ کا ہی یہ قول بھی ہے کہ:عہد رسول میں نفاق نفاق تھا لیکن آج نفاق نہیں بلکہ ایمان کے بعد کفر میں بدل گیا ہے جیسا کہ ابن ابی الحدید نے مولیٰ کے سابقہ کلام سے غفلت کی ہے یا جان بوجھ کر تغافل کیا ہے اس لئے کہ اہل بدعت اور روایات کے اختلاف کے متعلق سوال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس قوم کی جعلی روایتیں مولیٰ علیؑ کے دور میں دہن بہ دہن نقل ہورہی تھیں حق اور باطل کا تمیز دینا مشکل ہوگیا تھا اس لئے سائل نے اپنی حیرانی و سرگردانی دور کرنے کے لئے یہ سوال کیا اور مولیٰ علیؑ کا جواب قرینہ ہے کہ منافقین سابق حکام سے تعاون کرتے تھے اور سابقہ حکام کو ان کے کرتوت کا علم تھا بلکہ ان کی شبہ جعل سازی کا سلسلہ قائم تھا اور منافقین اپنے حالات کو چھپانے کی ضرورت نہیں محسوس کرتے تھے،بلکہ معاویہ کے زمانے میں جو جعلی احادیث نشر ہوئی ہیں تو اس میں کسی کا کوئی کلام نہیں ہے کہ اس میں خود معاویہ کا تعاون تھا اور یہ عہد امیرالمومنین کے بعد کا مسئلہ ہے لہذا سوال کا تعلق مولیٰ کے دور سے کیا بھی نہیں جاسکتا،اس مقام پر امام علیؑ کا یہ قول بہت مناسب ہے جس میں آپ فرماتے ہیں:(کہاں ہے وہ لوگ جو ظلم و سرکشی اور ہمارے اوپر زیادتی کی خاطر تصور کرتے ہیں کہ وہ راسخون فی العلم ہیں،ہم راسخون فی العلم ہیں،اللہ نے ہمیں مرتبہ بنایا اور انھیں ذلیل و رسوا کردیا ہے،ہمیں علم و فضل سے نوازا ہے اور انھیں محروم رکھا ہے ہمیں اپنی رحمت و مغفرت کے زمرہ میں شامل کرلیا ہے جب کہ انھیں اس سے نکال کر باہر کردیا ہے،ہماری بدولت ہدایت و سعادت کو حاصل کیا جاسکتا ہے اور....

۷۳

اب مال دنیا دیکھ کے وہ حرکتیں روک دیں خلفاء نے بھی انہیں مسلمان اسراء کے ساتھ بلاد فارس و روم میں بھیج دیا وہاں دنیا نے انہیں ایسا الجھایا کہ وہ دور پیغمبر ؐ کی تمام حرکتیں جن پر انہیں سزا ملتی رہتی تھی بھول گئے اور ان میں سے کچھ تو راہ راست پر آگئے اور ان کی نیت میں خلوص آگیا کیونکہ فتوحات کا سلسلہ چل پڑا تھا ۔

جب انہیں چھوڑدیا گیا تو انہوں نے بھی اپنی حرکتیں چھوڑدیں اور جب ان کے بارے میں خاموشی برتی گئی تو وہ اسلام کے بارے میں جو واہی بکتے تھے اس کو بند کردیا مگر یہ کہ زیرزمین سازشوں میں مصروف ہوگئے ۔

اسی کی طرف سرکار مولائے کائنات ؑ نے اشارہ فرمایا ہے کہ منافقین کی سازش کی وجہ سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

......ہمارے ہی ذریعہ گناہوں کا اندھا پن دور کیا جاسکتا ہے

تعجب تو یہ ہے کہ خود ابن ابی الحدید نے اسی جملہ پر حاشیہ آرائی فرماتے ہوئے لکھا ہے:(امام کا یہ فرمانا کہ:کہاں ہیں وہ لوگ اپنے کو راسخون فی العلم گمان کرتے ہیں)یہ کلام صحابہ کی ایک جماعت کی طرف اشارہ و کنایہ ہے جو مولیٰ سے فضل و فضیلت میں نزاع کرتے رہتے تھے،صحابہ میں سے کچھ ایسے تھے جو اپنے کو فرائض کا ماہر،سب سے بڑا قاری قرآن،ذہین و فہیم اور حلال و حرام کے متعلق سب سے زیادہ علم رکھنےوالا سمجھتے تھے جب کہ سب کو یہ معلوم تھا کہ حضرت علیؑ ہیں،امت مسلمہ کے سب سے بڑے قاضی اور قضاوت بےپناہ علم و فضل کی طالب ہے جب کہ دوسرے فضائل ایک دوسرے کے محتاج ہیں لہذا ثابت ہو کہ مولیٰ سب سے بڑے فقیہ اور صحابہ میں سب سے زیادہ صحاب علم تھے،اس کے بووجود آپ اس بات سے راضی نہ تھے اور سابقہ روایت بھی سچی نہیں ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فلاں صاحب سب سے زیادہ فرائض و واجبات سے آگاہ تھے بلکہ مذکورہ روایت کذب و افتراء ہے اور اسے کچھ حاسد قسم کے صحابیوں نے از راہ سرکشی و بر بناء ظلم و ستم،نیز بنی ہاشم کے گھرانے سے دشمنی و عناد نے گڑھنے پر مجبور کردیا ہے کیوں کہ اللہ نے انھیں بلندی عطا کی ہے جب کہ بنی ہاشم کے علاوہ لوگوں کو محروم رکھا ہے)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید،ج:۹ص:۸۶

مسند احمدج:۵ص:۳۹۱۔حدیث:حذیفہ بن یمان نے نبی سے حدیث نقل کی،مجمع الزوائد،ج:۱۰،ص:۶۳،کتاب مناقب،باب،کوفہ میں آنا،مسند احمد،ج:۵ص:۳۹۰،حدیث:حذیفہ بن یمان نے نبی سے حدیث نقل کی،مصنف لابن ابی شیبۃ،ج:۷ص:۴۶۰،کتاب الفتن،تفسیر ابن کثیرج:۲ص:۳۰۰،احمد ابن حنبل،ص:۴۳،حلیۃ الاولیاء،ج:۱ص:۲۷۹،حذیفہ بن یمان کے حالات میں

۷۴

حدیثوں میں کثرت سے جھوٹ شامل ہوگیا یہ جھوٹ(منافقین)غلط عقیدہ رکھنےوالوں نے صادر کیا،مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو گمراہ کردیا جائے،دل اور دل کے عقیدوں کو خبط کردیا جائے،اس سلسلہ میں انہوں نے کچھ لوگوں کے بارے میں بڑھا چڑھا کے حدیثیں بنانی شروع کیں حالانکہ ان کی مدح میں دنیاوی مقاصد پوشیدہ تھے کہا جاتا ہے کہ معاویہ کے دور میں اس طرح کی حدیثیں بہت بنائی گئیں ۔

جن لوگوں کو علم حدیث میں رسوخ حاصل تھا وہ اس حادثے پر خاموش نہیں رہے بلکہ انہوں نے بہت سی موضوعی حدیثوں کا ذکر کیا اور صاف کہہ دیا کہ یہ حدیثیں موضعی ہیں اور ان کے رواۃ قابل اعتبار نہیں ہیں مگر یہ محدیثین صرف ان پر ہی طعن کرتے تھے،جو صحابیت کے مرتبے سے نیچے تھے اور ان پر طعن کرنے کی جسارت نہیں کرتے تھے،جن کے لئے صحابہ کا لفظ استعمال ہوتا تھا( ۱) لیکن کبھی وہ بُسر بن ارطاۃ جیسے صحابی پر طعن کرنے سے نہیں چوکتے تھے ۔

حضرت امام محمد باقرؑ کے وضعی حدیثوں کے بارے میں ارشادات

پھر ابن حدید لکھتے ہیں ابوجعفر محمد باقر ؑ نے اپنے بعض اصحاب سے فرمایا:تم دیکھتے ہو کہ قریش نے ہم پر کیسے کیسے ظلم کئے اور ہمارے خلاف کیسے مظاہرے کئے ہمارے شیعہ اور چاہنےوالوں کو لوگوں نے کس طرح ستایا حضور ؐ سرور کائنات کی وفات ہوگئی،حضور ؐ نے بتادیا تھا کہ ہم اہلبیت ؑ عام لوگوں سے زیادہ مستحق ہیں لیکن قریش نے چشم پوشی کی اور حکومت اس کے معدن(مستحقین)کے ہاتھ سے نکل گئی(لطف یہ ہے کہ قریش نے انصار پر ہمارے حق سے احتجاج کیا اور جب حکومت حاصل ہو گئی تو وہ حکومت کو ایک کے بعد دوسرے کے ہاتھ میں گھماتے رہے یہاں تک کہ عثمان کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) کلام امیرالمومنینؑ میں احادیث وضعی و جعلی سے مراد وہ احادیث ہیں جو منافق صحابہ نے وہ بھی رسول خدا کے دور میں گڑھی تھیں۔

( ۲) شرح نہج البلاغہ ج: ۱۱ ص: ۴۲،۴۱

۷۵

بعد)حکومت ہماری طرف واپس ہوئی،انھوں نے ہماری بیعت توڑ دی اور ہم سے جنگ کرنے کو اُٹھ کھڑے ہوئے صاحب امر مسلسل ان کے ہاتھ سے تنگی اور سختیاں جھیلتا رہا یہاں تک کہ شہید کردیا گیا پھر(امیرالمومنین ؑ کے صاحبزادے)امام حسن ؑ کی بیعت کی گئی اور معاہدے کئے گئے پھر ان معاہدوں کو توڑے کے غداری کی گئی اور اہل عراق ان پر ٹوٹ پڑے یہاں تک کہ آپ کے پہلو کو خنجر سے زخمی کردیا اور آپ کی لشکرگاہ کو لوٹ لیا گیا آپ کی عورتوں کے زیور لوٹ لئے گئے اور آپ کو حکومت کی باگ ڈ ور معاویہ کے سپرد کردینا پڑی اور اس نے آپ کا اورآپ کے اہل بیت ؑ کا خون بہانا شروع کیا حالانکہ وہ تو پہلے ہی سے کم تھے ۔

پھر لوگوں نے امام حسین ؑ کی بیعت کی تقریباً بیس ہزار لوگوں نے آپ کی بیعت کی اور پھر لوگوں نے دھوکا دیا اور آپ کو شہید کر ڈ الا جب کہ ان کی گردنوں میں آپ کا قلادہ بیعت موجود تھا ۔

پھر ہم اہل بیت ؑ مسلسل ذلت و رسوائی اور قتل و غارت گری صحرا اور بیابانوں کی آوارگی جلاوطنی کو جھیلتے رہے ہمیں شہید کیا جاتا رہا ہمیں طرح طرح سے ڈ رایا جاتا رہا، نہ ہم اپنی جان کو محفوظ سمجھتے ہیں نہ اپنےچاہئے والوں کی جان کو محفوظ سمجھتے ہیں،آج صورت حال یہ ہے کہ کاذبین و جاحدین اپنے کذب و جحود کو اپنے ظالم بادشاہوں اور بدکردار گورنروں کے پاس تقرب کا ذریعہ بنا کے استعمال کرتے ہیں تا کہ ہر شہر میں ان بادشاہوں اور گورنروں کے قریب رہ سکیں،پس انھوں نے جھوٹی اور مصنوعی حدیثیں بیان کرنا شروع کردیں اور ہم سے ایسی حدیثوں کو منسوب کرتے ہیں جو نہ ہم نے کہی ہے نہ نقل کیا ہے،مقصد یہ ہے کہ اس جھوٹ کے ذریعہ وہ لوگوں کے دلوں میں ہمارا بغض پیدا کرسکیں،امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد معاویہ کے دور میں یہ کام بڑے پیمانے پر ہوا،صورت حال یہ تھی کہ ایک آدمی جس کا لوگ خیر کے ساتھ ذکر کرتے تھے اور اس کو نہایت متقی اور سچا بھی سمجھتے رہے،وہی خلفا کی فضیلت میں بڑی عجیب حدیثیں بیان کرتا تھا،ایسی باتیں جنھیں

۷۶

اللہ نے پیدا ہی نہیں کیا اورجن کا عالم واقع میں کوئی وجود نہیں انہیں بیان کرتا تھا اورسمجھتا تھا کہ یہ باتیں حق ہیں اس لئے کہ یہ باتیں ان کثیر افراد کے ذریعہ پھیلائی گئی ہیں جنہیں لوگ جھوٹا نہیں مانتے اور ورع وتقدس میں کم نہیں سمجھتے-(۱)

جعلی حدیثوں کے بارے میں مدائنی اور نفطو یہ کی روایت

پھر ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ:"ابو الحسن علی بن محمد بن ابوسیف مدائنی ، اپنی کتاب " الاحداث "میں لکھتے ہیں: معاویہ نے عام الجماعت کے بعد اپنے گورنروں کو ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں لکھا تھا کہ جو بھی ابوتراب اور ان کےاہل بیت ع کے فضائل میں کوئی حدیث بیان کرے گا اس سے میں بری الذمہ ہوں پس خطیبوں نے قریہ قریہ ، شہر شہر پابندی کے ساتھ ہر منبر سے علی پر لعنت بھیجنی اور ان کے اہل بیت ع سے تبراء کرنا شروع کردیا ،وہ علی اور اہل بیت علی کو برابھلاء کہتے تھے پھر معاویہ نے حکومت کے تمام گورنروں کو لکھا کہ شیعیان علی اور اہل بیت علی کی گواہی نہ قبول کی جائے اس نے لکھ بھیجا کہ عثمان کے شیعہ اس کے چاہنے والے اور اس سے محبت کرنے والوں کو نیز وہ لوگ جو اس کے فضائل ومناقب بیان کرتے ہیں انہیں اپنی مجلسوں میں منزلت دی جائے اور ان کی عزت کی جائے ایسے لوگوں کی روایتیں اور ان کا اور انکے باپ کا نام اور ان کے قبیلوں کا نام لکھ کر کے میرے پاس بھیج دیا جائے، گورنروں نے ایسا ہی کیا نتیجہ میں عثمان کے فضائل ومناقب کی کثرت ہوگئی ، تب معاویہ نے اپنے گورنروں کو لکھا کہ عثمان کے فضائل بہت ہوگئے ہیں اور تمام جگہوں پر کثرت سے پھیل گئے ہیں جب میرا خط تم تک پہنچے تو تم لوگوں کو ایسی روایتوں کی طرف ترغیب دو جس میں صحابہ اور خلفاء اولین کے فضائل بیان کئے گئے ہیں اور ابو تراب فضیلت میں اگرکوئی مسلمان کوئی حدیث بیان کرتا ہو تو تم فورا صحابہ کی فضیلت میں اس کے متناقض حدیث بنالو یہ کام میرے لئے محبوب تر ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک کا سبب ہے اور اس طرح علی اور ان کے شیعوں

-----------------

(۱)شرح نہج البلاغہ ج :۱۱ ص ۴۳،۴۴

۷۷

کی حجت باطل کرنا آسان ہوگا اور عثمان کا بیان ان پر بڑا گرا ہوگا،یہ خط جب لوگوں کے سامنے پڑھا گیا تو لوگوں نے صحابہ کے فضائل میں ڈ ھیر ساری حدیثیں گڑھ ڈ الیں جن کی کوئی حقیقت نہیں تھی اور پھر لوگ اسی راستے پر نئی نئی حدیثیں بناتے چلے گئے یہاں تک کہ منبروں سے یہ مفتریات بیان ہونے لگے اور انھیں جعلی حدیثوں کو مدرسوں کے معلمین کے سپرد کردیا گیا اور انھوں نے بچوں اور لڑکوں کو یہ حدیثیں بڑے پیمانے پر پڑھانی شروع کردیں اور بچے ان جعلیات کو اس طرح سیکھنے لگے جیسے قرآن سیکھتے تھے حد تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں عورتوں،خادموں اور چوکیداروں کو ان مفتریات کی تعلیم دی اور جب تک خدا نے چاہا یہ صورت حال برقرار ہی نتیجہ میں بہت سے موضوع کی حدیثیں ظاہر ہوگئیں،بہتانوں کی اشاعت ہوئی اور فقہا،قضاۃ اور وُلاۃ سبھی اسی راستے پر چل نکلے اس بلا میں سب سے زیادہ ریاکار قاریوں کا ٹولہ اور کمزور عقلوں والے گرفتار ہوئے جو صرف اپنے حلوے مان ڈ ے کے لئے اور اپنے امیروں کی خدمت میں تقرب حاصل کرنے کے لئے ان جعلی حدیثوں سے کھیلتے تھے نتیجہ میں انھوں نے ان حدیثوں سے خوب مال بنایا اور انعام اور مرتبے حاصل کئے،اب تو صورت حال یہ ہوگئی کہ یہ جھوٹی اور جعلی حدیثیں ان کے ہاتھوں میں بھی پہنچ گئیں جو دیانتدار تھے ۔ اور کذب و بہتان کو قبول نہیں کرتے تھے انھوں نے ان حدیثوں کو حق سمجھ کر قبول کرلیا اور اگر انھیں معلوم ہوتا کہ یہ حدیثیں باطل ہیں تو ان کی روایت کبھی نہیں کرتے ۔

یہی سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ امام حسن بن علی علیہ السلام کی شہادت ہوجاتی اور فتنہ اور مصیبت میں اضافہ ہوجاتا ہے،پھر ایسا کوئی باقی نہیں بچا جز یہ کہ وہ اپنی جان کا خطرہ محسوس کرتایا جلاوطنی اور دربدری کا خوف رکھتا ہو،پھر امام حسین علیہ السلام کے قتل کے بعد یہ گھٹن اور اضطراب کا دور آجاتا ہے اور عبدالملک بن مروان حاکم ہوجاتا ہے تو شیعوں کے لئے سختیوں کا سامنا ہوتا ہے اور ان پر حجاج بن یوسف کو حاکم قرار دیا جاتا ہے پھر تو اہل تقویٰ اور دیندار صاحب ورع اور پرہیزگار افراد علی کے بغض کو بہانا بنا کر اس سے قریب ہوجاتے ہیں بلکہ اُن کے تمام چاہنےوالوں کی دشمنی کو تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے اور اُن کے فضل اور گذشتہ کارناموں اور فضائل و مناقب میں روایات کی

۷۸

بھرمار ہوجاتی ہے اور علی سے دشمنی میں اُن کے فضائل سے چشم پوشی کی جاتی ہے اور ان پر عیوب لگا کر اُن پر لعن طعن شروع ہوجاتی ہے

ابن عرفہ جو نَفطویہ کے نام سے مشہور ہیں اور بڑے محدثین بلکہ ان کے اعلام میں شمار کئے جاتے ہیں اپنی تاریخ میں اسی مناسبت سے فرماتے ہیں:صحابہ کے فضائل میں موضوعی حدیثیں زیادہ تر بنوامیہ کے دور میں گڑھی گئیں،تا کہ ان سے تقرب حاصل ہوسکے،بنوامیہ یہ سمجھتے تھے کہ ان وضعی حدیثوں کے ذریعہ ہم بنوہاشم کی ناک رگڑدیتے ہیں ۔(۱)

جعلی حدیثوں میں صحاحِ ستّہ کا حصّہ

ممکن ہے کوئی کہے کہ ان جعلی حدیثوں کو صحاح میں جگہ ملی ہوگی،لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہے،ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ صحیح مسلم اور صحیح بخاری نے عمروعاص جیسے آدمی سے حدیث لی ہے،اسناد کو عمروعاص سے ملا کے یہ حدیث لکھی ہے کہ عمروعاص نے کہا میں نے ہادی برحق کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ،بنوہاشم میرے اولیا نہیں ہیں،ہمارا ولی تو صرف اللہ اور صالح المومنین ہیں(۲)

ہاں حدیثوں میں بگاڑ پیدا ہونے سے جہاں یہ فائدہ حاصل ہوا کہ متاخرین کے دماغ میں صحابہ کی عدالت مستحکم ہوگئی یہاں تک کہ عمروعاص جیسے مکار آدمی کی عدالت اور صحیحین(بخاری اور مسلم)میں اس کا نام آجانے سے اس کی عظمت بھی ثابت ہوگئی،وہاں یہ نقصان ہوا کہ اہل حدیث((طالب))کا کلمہ حذف کرنے پر مجبور ہوگئے یا تو اس کی جگہ چھوڑ دیا کرتے تھے یا پھر وہاں پر اس کے نام کی جگہ((فلان))لکھ دیا کرتے تھے،ابن حجر عسقلانی نے اس موضوع پر طویل بحث کی ہے،آپ کو چاہئے کہ ان کی اس بحث کو دیکھیں ۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) شرح نہج البلاغہ ج: ۱۱ ص: ۴۴ ۔ ۴۶

( ۲) شرح نہج البلاغہ ج: ۴ ص: ۶۴ ،کلام امیرالمومنینؑ کے ذیل میں،ج: ۱۱ ص: ۴۲

( ۳) فتح الباری ج: ۱ ص: ۳۳۱ مقدمہ میں

۷۹

انشااللہ آپ کے آٹھویں سوال کے جواب میں صحاح کے بارے میں باقی گفتگو کی جائےگی،اہل سنت حدیثوں پر یوں بھی زیادہ نظر رکھتے ہیں کہ انھوں نے جرح و تعدیل کے جو قواعد بنائے ہیں ان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اہل بیت اطہار صلوات اللہ علیھم کے بارے میں ان کے کیا نظریات ہیں اور ان کے دشمنوں کے بارے میں اہل سنت کا کیا نظریہ ہے،آٹھویں سوال کے جواب میں انشااللہ کچھ باتیں بھی آئیں جو نفع بخش ہوں گی،ہمارے علما نے بھی اس موضوع پر طویل گفتگو کی ہے،ذوق جستجو رکھنےوالوں کو ان کی کتابیں بھی پڑھنی چاہئے،ہم نے تو اتنی باتیں صرف اس لئے کردیں تا کہ معلوم ہوجائے اہل بدر کی حدیث ہماری نظر میں ہے مگر صرف ہم اس کا تحفظ کیا ہے،تردید یا انکار نہیں کیا ہے،اس لئے کہ انکار کے لئے دلیل چاہئے،جس طرح اثبات محتاج دلیل ہے،لیکن تحفظ کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں ہے،اس حدیث کے ظروف و سلبیات کا تذکرہ کردینا کافی ہے تا کہ یہ حدیث کس ماحول میں وارد ہوئی ہے پتہ چل سکے اور میں نے گذشتہ سطروں میں یہ ضرورت پوری کردی ہے ۔

اہل بدر کے بارے میں وارد حدیثوں کا متن

بہرحال مذکورہ حدیث کے بارے میں گفتگو کرنا بہتر نہیں ہے جب تک متن حدیث کو نہ پیش کردیا جائے،یہ حدیث(مختلف اللفظ)لیکن متقارب المعنی صورتوں میں وارد ہوئی ہے،ہم صحیح مسلم کی عبارت آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں،مسلم نے اپنی سند کے ساتھ عبیداللہ بن ابی رافع سے روایت کی ہے،انہوں نے کہا میں نے علی ؑ سے سنا ہے کہ ایک دن پیغمبر اعظم ؐ نے مجھے،زبیر اور مقداد کو بلایا اور فرمایا کہ((روضہ خاخ،تک جاؤ وہاں ایک عماری ہے(جس میں ایک عورت بیٹھی ہے)اس کے پاس ایک خط ہے اس کو لےلو پس ہم چلے اور وہ خط لاکے حضور ؐ کی خدمت میں پیش کردیا،وہ خط

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سوالات :

۱ _ اصحاب نے جب کفار کے بارے میں لعن اور نفرین کی بات کہی تو اس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا جواب دیا؟

۲ _ عفو کیونکر انسان کے کمالات کی زمین ہموار کرتاہے؟

۳ _ سب سے بلند اور سب سے بہترین معافی کون سی معافی تھی ؟

۴ _ فتح مکہ کے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سعد بن عبادہ سے کیا فرمایا تھا؟

۵ _ فتح مکہ کے دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو عفو اور درگذر کے نمونے پیش کئے ان میں سے ایک نمونہ بیان فرمایئے؟

۱۴۱

دسواں سبق:

(بدزبانی کرنے والوں سے درگزر)

عفو،درگذر، معافی اور چشم پوشی کے حوالے سے رسول اکرم، اور ائمہ اطہار علیہم السلام کا سبق آموز برتاؤ وہاں بھی نظر آتاہے جہاں ان ہستیوں نے ان لوگوں کو معاف فرمادیا کہ جو ان عظیم و کریم ہستیوں کے حضور توہین، جسارت اور بدزبانی کے مرتکب ہوئے تھے، یہ وہ افراد تھے جو ان گستاخوں کو معاف کرکے ان کو شرمندہ کردیتے تھے اور اس طرح ہدایت کا راستہ فراہم ہوجایا کرتا تھا_

اعرابی کا واقعہ

ایک دن ایک اعرابی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہونچا اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کوئی چیز مانگی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کو وہ چیز دینے کے بعد فرمایا کہ : کیا میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا نہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہرگز مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا ہے _ اصحاب کو غصہ

۱۴۲

آگیا وہ آگے بڑھے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو منع کیا ، پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر کے اندر تشریف لے گئے اور واپس آکر کچھ اور بھی عطا فرمایا اور اس سے پوچھا کہ کیا اب میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا ہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے احسان کیا ہے خدا آپ کو جزائے خیر دے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : تم نے جو بات میرے اصحاب کہ سامنے کہی تھی ہوسکتاہے کہ اس سے ان کے دل میں تمہاری طرف سے بدگمانی پیدا ہوگئی ہو لہذا اگر تم پسند کرو تو ان کے سامنے چل کر اپنی رضامندی کا اظہار کردو تا کہ ان کے دل میں کوئی بات باقی نہ رہ جائے، وہ اصحاب کے پاس آیا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: یہ شخص مجھ سے راضی ہوگیا ہے،کیا ایسا ہی ہے ؟ اس شخص نے کہا جی ہاں خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان کو جزائے خیردے، پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا میری اور اس شخص کی مثال اس آدمی جیسی ہے جسکی اونٹنی کھل کر بھاگ گئی ہو لوگ اس کا پیچھا کررہے ہوں اور وہ بھاگی جارہی ہو،اونٹنی کا مالک کہے کہ تم لوگ ہٹ جاو مجھے معلوم ہے کہ اس کو کیسے رام کیا جاتا ہے پھر مالک آگے بڑھے اور اس کے سر اور چہرہ پر ہاتھ پھیرے اس کے جسم اور چہرہ سے گرد و غبار صاف کرے اور اسکی رسی پکڑلے، اگر کل میں تم کو چھوڑ دیتا تو تم بد زبانی کی بناپر اس کو قتل کردیتے اور یہ جہنم میں چلاجاتا_

___________________

۱)(سفینةا لبحار ج۱ ص۴۱۶)_

۱۴۳

امام حسن مجتبی اورشامی شخص

ایک دن حسن مجتبیعليه‌السلام مدینہ میں چلے جارہے تھے ایک مرد شامی سے ملاقات ہوئی اس نے آپعليه‌السلام کو برا بھلا کہنا شروع کردیا کیونکہ حاکم شام کے زہریلے پروپیگنڈہ کی بناپر شام کے رہنے والے علیعليه‌السلام اور فرزندان علیعليه‌السلام کے دشمن تھے، اس شخص نے یہ چاہا کہ اپنے دل کے بھڑ اس نکال لے، امامعليه‌السلام خاموش رہے ، وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوگیا تو آپعليه‌السلام نے مسکراتے ہوئے کہا '' اے شخص میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور تم میرے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوئے ہو ( یعنی تو دشمنوں کے پروپیگنڈوں سے متاثر ہے ) لہذا اگر تو مجھ سے میری رضامندے حاصل کرنا چاہے تو میں تجھ سے راضی ہوجاونگا ، اگر کچھ سوال کروگے تو ہم عطا کریں گے ، اگر رہنمائی اور ہدایت کا طالب ہے تو ہم تیری رہنمایی کریں گے _ اگر کسی خدمتگار کی تجھ کو ضرورت ہے تو ہم تیرے لئے اس کا بھی انتظام کریں گے _ اگر تو بھوکا ہوگا تو ہم تجھے سیر کریں گے محتاج لباس ہوگا تو ہم تجھے لباس دیں گے_ محتاج ہوگا تو ہم تجھے بے نیاز کریں گے _ پناہ چاہتے ہو تو ہم پناہ دیں گے _ اگر تیری کوئی بھی حاجت ہو تو ہم تیری حاجت روائی کریں گے _ اگر تو میرے گھر مہمان بننا چاہتاہے تو میں راضی ہوں یہ تیرے لئے بہت ہی اچھا ہوگا اس لئے کہ میرا گھر بہت وسیع ہے اور میرے پاس عزت و دولت سبھی کچھ موجود ہے _

جب اس شامی نے یہ باتیں سنیں تو رونے لگا اور اس نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ

۱۴۴

آپعليه‌السلام زمیں پر خلیفة اللہ ہیں ، خدا ہی بہتر جانتا ہے اپنی رسالت اور خلافت کو کہاں قرار دے گا _ اس ملاقات سے پہلے آپعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام کے پدر بزرگوار میرے نزدیک بہت بڑے دشمن تھے اب سب سے زیادہ محبوب آپ ہی حضرات ہیں _

پھروہ امام کے گھر گیا اور جب تک مدینہ میں رہا آپ ہی کا مہمان رہا پھر آپ کے دوستوں اور اہلبیت (علیہم السلام )کے ماننے والوں میں شامل ہو گیا _(۱)

امام سجادعليه‌السلام اور آپ کا ایک دشمن

منقول ہے کہ ایک شخص نے امام زین العابدینعليه‌السلام کو برا بھلا کہا آپ کو اس نے دشنام دی آپعليه‌السلام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ، پھر آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے پلٹ کر کہا: آپ لوگوں نے اس شخص کی باتیں سنں ؟ اب آپ ہمارے ساتھ آئیں تا کہ ہمارا بھی جواب سن لیں وہ لوگ آپ کے ساتھ چل دیئے اور جواب کے منتظر رہے _ لیکن انہوں نے دیکھا کہ امامعليه‌السلام راستے میں مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کر رہے ہیں _

( و الکاظمین الغیظ و العافین عن الناس و الله یحب المحسنین ) (۲)

وہ لوگ جو اپنے غصہ کوپی جاتے ہیں; لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ، خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے _

___________________

۱) ( منتہی الامال ج ۱ ص ۱۶۲)_

۲) (آل عمران۱۳۴)_

۱۴۵

ان لوگوں نے سمجھا کہ امامعليه‌السلام اس شخص کو معاف کردینا چاہتے ہیں جب اس شخص کے دروازہ پر پہونچے او حضرتعليه‌السلام نے فرمایا : تم اس کو جاکر بتادو علی بن الحسینعليه‌السلام آئے ہیں ، وہ شخص ڈراگیا اور اس نے سمجھا کہ آپعليه‌السلام ان باتوں کا بدلہ لینے آئے ہیں جو باتیں وہ پہلے کہہ کے آیا تھا ، لیکن امامعليه‌السلام نے فرمایا: میرے بھائی تیرے منہ میں جو کچھ ۱آیا تو کہہ کے چلا آیا تو نے جو کچھ کہا تھا اگر وہ باتیں میرے اندر موجود ہیں تو میں خدا سے مغفرت کا طالب ہوں اور اگر نہیں ہیں تو خدا تجھے معاف کرے ، اس شخص نے حضرت کی پیشانی کا بوسہ دیا اور کہا میں نے جو کچھ کہا تھا وہ باتیں آپ میں نہیں ہیں وہ باتیں خود میرے اندر پائی جاتی ہیں _(۱)

ائمہ معصومین (علیہم السلام ) صرف پسندیدہ صفات اور اخلاق کریمہ کی بلندیوں کے مالک نہ تھے بلکہ ان کے مکتب کے پروردہ افراد بھی شرح صدر اور وسعت قلب اور مہربانیوں کا مجسمہ تھے نیز نا واقف اور خود غرض افراد کو معاف کردیا کرتے تھے _

مالک اشتر کی مہربانی اور عفو

جناب مالک اشتر مکتب اسلام کے شاگرد اور حضرت امیرالمومنین علیعليه‌السلام کے تربیت کردہ تھے اور حضرت علیعليه‌السلام کے لشکر کے سپہ سالار بھی تھے آپ کی شجاعت کا یہ عالم تھا کہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ عرب اور عجم میں علیعليه‌السلام کے علاوہ مالک اشتر

___________________

۱) (بحارالانوار ج ۴۶ ص ۵۵) _

۱۴۶

سے بڑھ کر کوئی شجاع نہیں ہے تو اس کی قسم صحیح ہوگی حضرت علیعليه‌السلام نے آپ کے بارے میں فرمایا : مالک اشتر میرے لئے اس طرح تھا جیسے میں رسول خدا کے لئے تھا _ نیز آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا : کاش تمہارے در میان مالک اشتر جیسے دو افراد ہوتے بلکہ ان کے جیسا کوئی ایک ہوتا _ایسی بلند شخصیت اور شجاعت کے مالک ہونے کے با وجود آپ کا دل رحم و مروت سے لبریز تھا ایک دن آپ بازار کوفہ سے گذر رہے تھے ، ایک معمولی لباس آپ نے زیب تن کر رکھا تھا اور اسی لباس کی جنس کا ایک ٹکڑا سر پر بندھا ہوا تہا ، بازار کی کسی دو کان پر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا، جب اس نے مالک کو دیکھا کہ وہ اس حالت میں چلے جارہے ہیں تو اس نے مالک کو بہت ذلیل سمجھا اور بے عزتی کرنے کی غرض سے آپ کی طرف سبزی کا ایک ٹکڑا اچھال دیا، لیکن آپ نے کوئی توجہ نہیں کی اور وہاں سے گزر گئے ایک اور شخص یہ منظر دیکھ رہاتھا وہ مالک کو پہچانتا تھا، اس نے آدمی سے پوچھا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ تم نے کس کی توہین کی ہے؟ اس نے کہا نہیں ، اس شخص نے کہا کہ وہ علیعليه‌السلام کے صحابی مالک اشتر ہیں وہ شخص کانپ اٹھا اور تیزی سے مالک کی طرف دوڑا تا کہ آپ تک پہنچ کر معذرت کرے، مالک مسجد میں داخل ہو چکے تھے اور نماز میں مشغول ہوگئے تھے، اس شخص نے مالک کے نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کیا جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو اس نے پہلے سلام کیا پھر قدموں کے بوسے لینے لگا، مالک نے اس کا شانہ پکڑ کر اٹھایا اور کہا یہ کیا کررہے ہوا؟ اس شخص نے کہا کہ جو گناہ مجھ سے سرزد ہوچکاہے میں اس کے

۱۴۷

لئے معذرت کررہاہوں، اس لئے کہ میں اب آپ کو پہچان گیا ہوں، مالک نے کہا کوئی بات نہیں تو گناہ گار نہیں ہے اس لئے کہ میں مسجد میں تیری بخشش کی دعا کرنے آیا تھا_(۱)

ظالم سے درگذر

خدا نے ابتدائے خلقت سے انسان میں غیظ و غضب کا مادہ قرار دیا ہے ، جب کوئی دشمن اس پر حملہ کرتاہے یا اس کا کوئی حق ضاءع ہوتاہے یا اس پر ظلم ہوتاہے یا اس کی توہین کی جاتی ہے تو یہ اندرونی طاقت اس کو شخصیت مفاد اور حقوق سے دفاع پر آمادہ کرتی ہے اور یہی قوت خطروں کو برطرف کرتی ہے _

قرآن کا ارشاد ہے :

( فمن اعتدی علیکم فاعتدوا بمثل ما عتدی علیکم ) (۲)

جو تم پر ظلم کرے تو تم بھی اس پر اتنی زیادتی کرسکتے ہو جتنی اس نے کی ہے _

قرآن مجید میں قانون قصاص کو بھی انسان اور معاشرہ کی حیات کا ذریعہ قرار دیا گیاہے اور یہ واقعیت پر مبنی ہے _

( و لکم فی القصاص حیوة یا اولی الالباب ) (۳)

اے عقل والو قصاص تمہاری زندگی کی حفاظت کیلئے ہے_

___________________

۱) (منتہی الامال ص ۱۵۵)_

۲) (بقرہ ۱۹۴)_

۳) (بقرہ ۱۷۹) _

۱۴۸

لیکن بلند نگاہیوں اور ہمتوں کے مالکوںکی نظر میں مقابلہ بالمثل اور قصاص سے بڑھ کر جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ آتش غضب کو آپ رحمت سے بجھا دیناہے _

( و ان تعفوااقرب للتقوی ) (۱)

اگر تم معاف کردو تو یہ تقوی سے قریب ہے_

عفو اور درگذر ہر حال میں تقوی سے نزدیک ہے اسلئے کہ جو شخص اپنے مسلم حق سے ہاتھ اٹھالے تو اس کا مرتبہ محرمات سے پرہیز کرنے والوں سے زیادہ بلند ہے(۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) پر جن لوگوں نے ظلم ڈھائے ان کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار کا ہم کو کچھ اور ہی سلوک نظر آتاہے جن لوگوں نے اپنی طاقت کے زمانہ میں حقوق کو پامال کیا اور ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا جب وہی افراد ذلیل و رسوا ہوکر نظر لطف و عنایت کے محتاج بن گئے تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار نے ان کو معاف کردیا_

امام زین العابدینعليه‌السلام اور ہشام

بیس سال تک ظلم و استبداد کے ساتھ حکومت کرنے کے بعد سنہ ۸۶ ھ میں عبدالملک بن مروان دنیا سے رخصت ہوگیا اس کے بعد اس کا بیٹا ولید تخت خلافت پر بیٹھا اس نے

___________________

۱) (بقرہ ۲۳۷)_

۲) (المیزان ج۲ ص ۲۵۸)_

۱۴۹

لوگوں کی توجہ حاصل کرنے اور عمومی مخالفت کا زور کم کرنے کے لئے حکومت کے اندر کچھ تبدیلی کی ان تبدیلیوں میں سے ایک تبدیلی یہ تھی کہ اس نے مدینہ کے گورنر ہشام بن اسماعیل کو معزول کردیا کہ جس نے اہلبیت (علیہم السلام) پر بڑا ظلم کیا تھا جب عمر بن عبدالعزیز مدینہ کا حاکم بنا تو اس نے حکم دیا کہ ہشام کو مروان حکم کے گھر کے سامنے لاکر کھڑا کیاجائے تا کہ جو اس کے مظالم کا شکا رہوئے ہیں وہ آئیں اور ان کے مظالم کی تلافی ہوجائے_لوگ گروہ در گروہ آتے اورہشام پر نفرین کرتے تھے اور اسے گالیاں دیتے تھے، ہشام علی بن الحسینعليه‌السلام سے بہت خوفزدہ تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ میں نے چونکہ ان کے باپ پر لعن کیا ہے لہذا اسکی سزا قتل سے کم نہیں ہوگی ، لیکن امامعليه‌السلام نے اپنے چاہنے والوں سے کہا کہ : یہ شخص اب ضعیف اور کمزور ہوچکاہے اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ضعیفوں کی مدد کرنی چاہئے، امامعليه‌السلام ہشام کے قریب آئے اور آپعليه‌السلام نے اس کو سلام کیا ، مصافحہ فرمایا اور کہا کہ اگر ہماری مدد کی ضرورت ہو تو ہم تیار ہیں ، آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ : تم اس کے پاس زیادہ نہ جاو اس لئے کہ تمہیں دیکھ کر اس کو شرم آئے گی ایک روایت کے مطابق امامعليه‌السلام نے خلیفہ کو خط لکھا کہ اس کو آزاد کردو اور ہشام کو چند دنوں کے بعد آزاد کردیا گیا_(۱)

___________________

۱)(بحارالانوار ج۴۶ ص ۹۴)_

۱۵۰

امام رضاعليه‌السلام اور جلودی

جلودی وہ شخص تھا جس کو محمد بن جعفر بن محمد کے قیام کے زمانہ میں مدینہ میں ہارون الرشد کی طرف سے اس بات پر مامور کیا گیا تھا کہ وہ علویوں کی سرکوبی کرے ان کو جہاں دیکھے قتل کردے ، اولاد علیعليه‌السلام کے تمام گھروں کو تاراج کردے اور بنی ہاشم کی عورتوں کے زیورات چھین لے ، اس نے یہ کام انجام بھی دیا جب وہ امام رضاعليه‌السلام کے گھر پہونچا تو اس نے آپعليه‌السلام کے گھر پر حملہ کردیاامامعليه‌السلام نے عورتوں اور بچوں کو گھر میں چھپادیا اور خود دروازہ پر کھڑے ہوگئے، اس نے کہاکہ مجھ کو خلیفہ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ عورتوںکے تمام زیورات لے لوں، امام نے فرمایا: میں قسم کھاکر کہتاہوں کہ میں خود ہی تم کو سب لاکردے دونگا کوئی بھی چیز باقی نہیں رہے گی لیکن جلودی نے امامعليه‌السلام کی بات ماننے سے انکار کردیا، یہاں تک کہ امامعليه‌السلام نے کئی مرتبہ قسم کھاکر اس سے کہا تو وہ راضی ہوگیا اور وہیں ٹھہرگیا، امامعليه‌السلام گھر کے اندر تشریف لے گئے، آپعليه‌السلام نے سب کچھ یہانتک کہ عورتوں اور بچوں کے لباس نیز جو اثاثہ بھی گھر میں تھا اٹھالائے اور اس کے حوالہ کردیا _

جب مامون نے اپنی خلافت کے زمانہ میں امام رضاعليه‌السلام کو اپنا ولی عہد بنایا تو جلودی مخالفت کرنے والوں میں تھا اور مامون کے حکم سے قید میں ڈال دیا گیا ، ایک دن قیدخانہ سے نکال کر اسکو ایسی بزم میں لایا گیا جہاں امام رضاعليه‌السلام بھی موجود تھے، مامون جلودی کو قتل کرنا چاہتا تھا لیکن امامعليه‌السلام نے کہا : اس کو معاف کردیا جائے، مامون نے کہا : اس نے آپعليه‌السلام پر

۱۵۱

بڑا ظلم کیا ہے _ آپعليه‌السلام نے فرمایا اس کی باوجود اس کو معاف کردیا جائے_

جلودی نے دیکھا کہ امام مامون سے کچھ باتیں کررہے ہیں اس نے سمجھا کہ میرے خلاف کچھ باتیں ہورہی ہیں اور شاید مجھے سزا دینے کی بات ہورہی ہے اس نے مامون کو قسم دیکر کہا کہ امامعليه‌السلام کی بات نہ قبول کی جائے ، مامون نے حکم دیا کہ جلودی کی قسم اور اس کی درخواست کے مطابق اسکو قتل کردیا جائے_(۱)

سازش کرنے والے کی معافی

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ(علیہم السلام) نے ان افراد کو بھی معاف کردیا جنہوں نے آپعليه‌السلام حضرات کے خلاف سازشیں کیں اور آپعليه‌السلام کے قتل کی سازش کی شقی اور سنگدل انسان اپنی غلط فکر کی بدولت اتنا مرجاتاہے کہ وہ حجت خدا کو قتل کرنے کی سازش کرتاہے لیکن جو افراد حقیقی ایمان کے مالک اور لطف و عنایت کے مظہر اعلی ہیں وہ ایسے لوگوں کی منحوس سازشوں کے خبر رکھنے کے باوجود ان کے ساتھ عفو و بخشش سے پیش آتے ہیں اور قتل سے پہلے قصاص نہیں لیتے البتہ ذہنوں میں اس نکتہ کا رہنا بہت ضروری ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہنے ایک طرف تو اپنے ذاتی حقوق کے پیش نظر ان کو معاف کردیا دوسری طرف انہوں نے اپنے علم غیب پر عمل نہیں کیا، ا س لئے کہ علم غیب پر عمل کرنا ان کا فریضہ نہ تھا وہ ظاہر کے

___________________

۱) ( بحارالانوار ج۹ ص ۱۶۷ ، ۱۶۶)_

۱۵۲

مطابق عمل کرنے پر مامور تھے_ لہذا جو لوگ نظام اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہیں انکا جرم ثابت ہوجانے کے بعد ممکن ہے کہ ان کو معاف نہ کیا جائے یہ چیز اسلامی معاشرہ کی عمومی مصلحت و مفسدہ کی تشخیص پر مبنی ہے اس سلسلہ میں رہبر کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتاہے_

ایک اعرابی کا واقعہ

جنگ خندق سے واپسی کے بعد سنہ ۵ ھ میں ابوسفیان نے ایک دن قریش کے مجمع میں کہا کہ مدینہ جاکر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کون قتل کرسکتاہے؟ کیونکہ وہ مدینہ کے بازاروں میں اکیلے ہی گھومتے رہتے ہیں ، ایک اعرابی نے کہا کہ اگر تم مجھے تیار کردو تو میں اس کام کیلئے حاضر ہوں، ابوسفیان نے اس کو سواری اور اسلحہ دیکر آدھی رات خاموشی کے ساتھ مدینہ روانہ کردیا،اعرابی مدینہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ڈھنڈھتاہوا مسجد میں پہنچاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب اسکو دیکھا تو کہا کہ یہ مکار شخص اپنے دل میں برا ارادہ رکھتاہے، وہ شخص جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب آیا تو اس نے پوچھاکہ تم میں سے فرزند عبدالمطلب کون ہے ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میں ہوں، اعرابی آگے بڑھ گیا اسید بن خضیر کھڑے ہوئے اسے پکڑلیا اور اس سے کہا : تم جیسا گستاخ آگے نہیں جاسکتا، جب اسکی تلاشی لی تو اس کے پاس خنجر نکلاوہ اعرابی فریاد کرنے لگا پھر اس نے اسید کے پیروں کا بوسہ دیا _

۱۵۳

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : سچ سچ بتادو کہ تم کہاں سے اور کیوں آئے تھے؟ اعرابی نے پہلے امان چاہی پھر سارا ماجرا بیان کردیا،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کے مطابق اسید نے اسکو قید کردیا ، کچھ دنوں بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسکو بلاکر کہا تم جہاں بھی جانا چاہتے ہو چلے جاو لیکن اسلام قبول کرلو تو (تمہارے لئے) بہتر ہے اعرابی ایمان لایا اور اس نے کہا میں تلوار سے نہیں ڈرا لیکن جب میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا تو مجھ پر ضعف اور خوف طاری ہوگیا، آپ تو میرے ضمیر و ارادہ سے آگاہ ہوگئے حالانکہ ابوسفیان اور میرے علاوہ کسی کو اس بات کی خبر نہیں تھی، کچھ دنوں وہاں رہنے کے بعد اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اجازت حاصل کی اور مکہ واپس چلا گیا _(۱)

اس طرح پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عفو اور درگذر کی بناپر ایک جانی دشمن کیلئے ہدایت کا راستہ پیدا ہوگیا اور وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شامل ہوگیا_

یہودیہ عورت کی مسموم غذا

امام محمد باقرعليه‌السلام سے منقول ہے کہ ایک یہودی عورت نے ایک گوسفند کی ران کو زہرآلود کرکے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے پیش کیا ، لیکن پیغمبر نے جب کھانا چاہا تو گوسفند نے کلام کی اور کہا اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں مسموم ہوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ کھائیں _پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے دل میں یہ سوچا تھا کہ

___________________

۱) (ناسخ التواریخ ج۲ ص۱۵۱)_

۱۵۴

اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر ہیں ، تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو زہر نقصان نہیں کریگا اور اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر نہیں ہیں تو لوگوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے چھٹکارا مل جائیگا، رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو معاف کردیا _(۱)

علیعليه‌السلام اور ابن ملجم

حضرت علیعليه‌السلام اگرچہ ابن ملجم کے برے ارادہ سے واقف تھے لیکن آپعليه‌السلام نے اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا اصحاب امیر المؤمنینعليه‌السلام کو اس کی سازش سے کھٹکا تھا انہوں نے عرض کی کہ آپعليه‌السلام ابن ملجم کو پہچانتے ہیں اور آپعليه‌السلام نے ہم کو یہ بتایا بھی ہے کہ وہ آپ کا قاتل ہے پھر اس کو قتل کیوں نہیں کرتے؟ آپعليه‌السلام نے فرمایا: ابھی اس نے کچھ نہیں کیا ہے میں اسکو کیسے قتل کردوں ؟ ماہ رمضان میں ایک دن علیعليه‌السلام نے منبر سے اسی مہینہ میں اپنے شہید ہوجانے کی خبر دی ابن ملجم بھی اس میں موجود تھا، آپعليه‌السلام کی تقریر ختم ہونے کے بعد آپعليه‌السلام کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میرے دائیں بائیں ہاتھ میرے پاس ہیں آپعليه‌السلام حکم دےدیجئے کہ میرے ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں یا میری گردن اڑادی جائے _

حضرت علیعليه‌السلام نے فرمایا: تجھ کو کیسے قتل کردوں حالانکہ ابھی تک تجھ سے کوئی جرم نہیں سرزد ہوا ہے_(۲)

___________________

۱) (حیات القلوب ج۲ ص ۱۲۱)_

۲) (ناسخ التواریخ ج۱ ص ۲۷۱ ، ۲۶۸)_

۱۵۵

جب ابن ملجم نے آپعليه‌السلام کے سرپر ضربت لگائی تو اسکو گرفتار کرکے آپعليه‌السلام کے پاس لایا گیا آپعليه‌السلام نے فرمایا: میں نے یہ جانتے ہوئے تیرے ساتھ نیکی کہ تو میرا قاتل ہے ، میں چاہتا تھا کہ خدا کی حجت تیرے اوپر تمام ہوجائے پھر اس کے بعد بھی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا_(۱)

سختی

اب تک رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ (علیہم السلام)کے دشمن پر عفو و مہربانی کے نمونے پیش کئے گئے ہیں اور یہ مہربانیاں ایسے موقع پر ہوتی ہیں جب ذاتی حق کو پامال کیا جائے یا ان کی توہین کی جائے اور ان کی شان میں گستاخی کی جائے، مثلا ً فتح مکہ میں کفار قریش کو معاف کردیا گیا حالانکہ انہوں نے مسلمانوں پر بڑا ظلم ڈھایا تھا لیکن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چونکہ مومنین کے ولی ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق حاصل ہے ، اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلامی معاشرہ کی مصلحت کے پیش نظر بہت سے مشرکین کو معاف فرمادیا تو بعض مشرکین کو قتل بھی کیا ، یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ معاف کردینے اور درگذر کرنے کی بات ہر مقام پر نہیں ہے اس لئے کہ جہاں احکام الہی کی بات ہو اور حدود الہی سامنے آجائیں اور کوئی شخص اسلامی قوانین کو پامال کرکے مفاسد اور منکرات کا مرتکب ہوجائے یا سماجی حقوق اور مسلمانوں

___________________

۱) (اقتباس از ترجمہ ارشاد مفید رسول محلاتی ص ۱۱)

۱۵۶

کے بیت المال پر حملہ کرنا چاہے کہ جس میں سب کا حق ہے تو وہ معاف کردینے کی جگہ نہیں ہے وہاں تو حق یہ ہے کہ تمام افراد پر قانون کا اجرا ہوجائے چاہے وہ اونچی سطح کے لوگ ہوں یا نیچی سطح کے ، شریف ہوں یا رذیل_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ( والحافظون لحدود الله ) (۱) (حدود و قوانین الہی کے جاری کرنے والے اور انکی محافظت کرنے والے) کے مکمل مصداق ہیں_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی اور حضرت علیعليه‌السلام کے دور حکومت میں ایسے بہت سے نمونے مل جاتے ہیں جن میں آپ حضرات نے احکام الہی کو جاری کرنے میں سختی سے کام لیا ہے معمولی سی ہی چشم پوشی نہیں کی _

مخزومیہ عورت

جناب عائشہ سے منقول ہے کہ ایک مخزومی عورت کسی جرم کی مرتکب ہوئی ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے اسکا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر ہوا ، اس کے قبیلہ والوں نے اس حد کے جاری ہونے میں اپنی بے عزتی محسوس کی تو انہوں نے اسامہ کو واسطہ بنایا تا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس کردہ ان کی سفارش کریں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اسامہ، حدود خدا کے بارے میں تم کو ئی بات نہ کرنا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطبہ میں فرمایا: خدا کی قسم تم سے پہلے کی امتیں اس لئے ہلاک

___________________

۱) (سورہ توبہ ۱۱۲) _

۱۵۷

ہوگئیں کہ ان میں اہل شرف اور بڑے افراد چوری کیا کرتے تھے ان کو چھوڑدیا جاتا تھا اگر کوئی چھوٹا آدمی چوری کرتا تھا تو اس پر حکم خدا کے مطابق حد جاری کرتے تھے ، خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی اس جرم کی مرکتب ہو تو بھی میرا یہی فیصلہ ہوگا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمائی(۱)

آخرمیں خداوند عالم کی بارگاہ میں یہ دعا ہے کہ وہ ہم کو رحمة للعالمین کے سچے پیروکاروں میں شامل کرے اور یہ توفیق دے کہ ہم( والذین معه اشداء علی الکفار و رحماء بینهم ) کے مصداق بن جائیں، دشمن کے ساتھ سختی کرنیوالے اور آپس میں مہر و محبت سے پیش آنیوالے قرار پائیں _

___________________

۱) (میزان الحکمہ ج۲ ص ۳۰۸)_

۱۵۸

خلاصہ درس

۱) رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کاایک تربیتی درس یہ بھی ہے کہ بدزبانی کے بدلے عفو اور چشم پوشی سے کام لیا جائے_

۲ ) نہ صرف یہ کہ ائمہ معصومین ہی پسندیدہ صفات کی بلندیوں پر فائز تھے بلکہ آپعليه‌السلام کے مکتب اخلاق و معرفت کے تربیت یافتہ افراد بھی شرح صدر اور مہربان دل کے مالک تھے، کہ ناواقف اور خودغرض افراد کے ساتھ مہربانی اور رحم و مروت کا سلوک کیا کرتے تھے_

۳) جن لوگوں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کے اوپر ظلم کیا ان کو بھی ان بزرگ شخصیتوں نے معاف کردیا ، یہ معافی اور درگزر کی بڑی مثال ہے _

۴ ) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہعليه‌السلام کے عفو کا ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ آپ حضرات نے ان لوگوں کو بھی معاف کردیا جن لوگوں نے آپ کے قتل کی سازش کی تھی_

۵ ) قابل توجہ بات یہ ہے کہ معافی ہر جگہ نہیں ہے اس لئے کہ جب احکام الہی کی بات ہو تو اور حقوق الہی پامال ہونے کی بات ہو اور جو لوگ قوانین الہی کو پامال کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے معافی کو کوئی گنجائشے نہیں ہے بلکہ عدالت یہ ہے کہ تمام افراد کے ساتھ قانون الہی جاری کرنے میں برابر کا سلوک کیا جائے_

۱۵۹

سوالات

۱ _ وہ اعرابی جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ طلب کررہا تھا اس کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا سلوک کیا تفصیل سے تحریر کیجئے؟

۲_ امام زین العابدینعليه‌السلام کی جس شخص نے امانت کی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) نے اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو کب معاف فرمایا؟

۴ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین ( علیہم السلا م) جب سازشوں سے واقف تھے تو انہوں نے سازش کرنیوالوں کو تنبیہ کاکوئی اقدام کیوں نہیں کیا ، مثال کے ذریعہ واضح کیجئے؟

۵ _ جن جگہوں پر قوانین الہی پامال ہورہے ہوں کیاوہاں معاف کیا جاسکتاہے یا نہیں ؟ مثال کے ذریعہ سمجھایئے

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367