فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ15%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206462 / ڈاؤنلوڈ: 5999
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

بسم الله الرحمن الرحیم

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

(ترجمہ فی رحاب العقیدۃ)

مولف

آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی حکیم (مد ظلہ العالی)

ترجمہ : مولانا شاہ مظاہر حسین

دوسری جلد

ناشر : انتشارات مرکز جہانی علوم اسلامی (قم ایران)

پہلاایڈیشن سنہ 1428 ھ مطابق سنہ 2007 ء سہ 1326 ھ شمسی

۱

عرض ناشر

خدا وند متعال کی لامتناہی عنایتوں اور ائمہ معصومین کی لاتعداد توجہات کے سہارے آج ہم دنیا میں انقلاب تغیر مشاہدہ کررہے ہین وہ بھی ایسا بے نظیر انقلاب اور تغیر جو تمام آسمانی ادیان میں صرف دین " اسلام" میں پایا جاتا ہے

گویا عصر حاضر میں اسلام نے اپنا ایک نیا رخ پیش کیا ہے یعنی دنیا کے تمام مسلمان بیدار ہوکر اپنی اصل ،(اسلام)کی طرف واپس ہورہے ہیں اور اپنے اصول وفروع ی تلاش کررہے ہیں-

آخر ایسے انقلاب وتغیر کی وجہ کیا ہوسکتی ہے ؟ سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم اس بات پرغور کریں کہ اس وقت اس کے آثار تمام اسلامی ممالک حتی مغربی دنیا میں بھی رونما ہوچکی ہے ۔اور دنیا کے آزاد فکر انسان تیزی کے ساتھ اسلام کی طرف مائل ہورہے ہیناور اسلامی معارف اور اصول سے واقف اور آگاہ ہونے کے طالب ہیں اور یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اسلام دنیا والوں کو ہرروز کونسا جدید پیغام دے رہا ہے ؟

ایسے حساس اور نازک موقعوں پر ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسلام کوکسی قسم کی کمی اور زیادتی کے بغیر واضح الفاظ، قابل درک ، سادہ عبارتوں اورآسان انداز مین عوام بلکہ دنیا والوں کے سامنے پیش کریں اور جو حضرات اسلام اور دیگر مذاہب سے آشنا ہونا چاہتے ہیں ہم اسلام کی حقیقت بیانی سے ان کی صدیوں ی پیاس بجھادیں اور کسی کو اپنی جگہ کوئی بات کہنے یا فیصلہ لینے کا موقع نہ دیں۔

۲

لیکن اس فرق کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ان سے تال میل نہ رکھا جائے یا ان کا نزدیک سے تعاون نہ کیا جائے ہونا تو یہ چایئے کہ تمام مسلمان ایک ہوکر ایک دوسرے کی مدد کریں اور اپنے اس آپسی تعاون اور تال میل کے سہارے مغرب کی ثقافتی حملوں کا جواب دیں اور اپنی حیثیت اور وجود کا اظہار کریں نیز اپنے مخالفین کو ان کے منصوبوں مین بھی کامیاب ہونے نہ دیں

سچ تو یہ ہے کہ ایسی مفاہمت ، تال میل ،مضبوطی اور گہرائی اسی وقت آسکتی ہے جب ہم اصول وضوابط کی رعایت کریں اس سے بھی اہم یہ ہے کہ تمام اسلامی فرقے ایک دوسرے ک معرفت اور شناخت حاصل کریں تاکہ ہر ایک کی خصوصیت دوسرے پر واضح ہو ، کیونکہ صرف معرفت سے ہی سوئے تفاہم ،غلط فہمی اور بدگمانی دورہوجائے گی اور امداد ،تعاون کا راستہ بھی خودبخود کھل جائے گا۔

آپ کے سامنے موجودہ " فی رحاب العقیدہ: نامی کتاب حضرت آیت اللہ العظمی سید محمد سعید حکیم دام ظلہ کی انتھک اور بے لوث کوششوں کا نتیجہ ہے جیسے اپنی مصروفیتوں کے باوجود کافی عرق ریزی کے ساتھ ، حوزہ علمیہ کھجوا بہار کے افاضل جناب مولانا مظاہر حسین صاحب نے ترجمہ سے آراستہ کیا اور حوزہ علمیہ کے ہونہار طالب افاضل نے اپنی بے مثال کوششوں سے نوک پلک سنوارتے ہوئے اس کتاب کی نشر واشاعت میں تعاول کیا ہے لہذا ہم اپنے تمام معاونین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے خداوند منان سے دعا گو ہیں کہ ہو ان تمام حضرات کو اپنے سایہ لطف وکرم میں رکھتے ہوئے روز افزوں ان کی توفیقات میں اضافہ کرے اور لغزشوں کو اپنی عفو وبخشش سے درگزر فرمائے ۔ آمین

مرکز جہانی علوم اسلامی

معاونت تحقیق

۳

فہرست

عرض ناشر 2

پیش لفظ 17

سوال نمبر 1 21

سوال نمبر۔ 2 22

سوال نمبر۔ 3 23

سوال نمبر۔ 4 23

سوال نمبر۔ 5 23

سوال نمبر۔ 6 24

سوال نمبر ۔ 7 24

سوال نمبر۔ 8 24

سوال نمبر ۔ 9 25

تلاش حقیقت کے وقت جستجو کے حق کو ادا کرنا ضروری ہے 28

سنّی اور شیعہ روایتوں میں ہاتھ میں ہاتھ دینے کے معنی میں بیعت کا تذکرہ 31

اقرار ولایت اور قبول ولایت کے معنی میں بیعت ثابت ہے 33

حدیث غدیر سے استدلال بیعت پر موقوف نہیں ہے 34

حدیث غدیر سے امامت و خلافت پر مزید تاکید کے لئے شیعہ بیعت پر زور دیتے ہیں 35

حدیث غدیر سے امامت پر دلالت کو بعض قرینے ثابت کرتے ہیں 36

۴

جو ولی ہے وہی امام ہے اور اس کی اطاعت واجب ہے 37

سوال نمبر ۔ 1 39

لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ رضائے پروردگار کسی کے مرنے تک باقی رہے یعنی خدا ان سے مرنے کے وقت تک راضی رہے! 41

جنت کے وعدے کی وجہ سے سابقون اوّلون کی نجات پر استدلال 41

مدعا کے دو رخ ممکن ہیں 41

ہر مہاجر اور انصار کے لئے کامیابی اور جنت کا وعدہ 42

ہر صالح مومن کے لئے کامیابی کا وعدہ ہے 44

ہر مومن سے جنت اور کامیابی کا وعدہ ہے 45

ہر گنہگار اور بےراہ کو خسران اور عذاب کی وعید ہے 45

الہی وعدے حُسن خاتمہ سے مشروط ہیں 47

صحابہ کو فتنہ اور پھر جانے سے بچنے کی ہدایت 48

پھر کامیابی کا وعدہ مطلق کیوں؟ 51

تھوڑی سی گفتگو تا بعین کے بارے میں بھی ہوجائے 52

سابقون اوّلون میں کچھ لوگ مرتد بھی ہوگئے 53

سابقین اوّلین کے حالات ایسے نہیں کہ سب کی کامیابی کا یقین کر لیا جائے! 54

سابقین اوّلین کو قطعی طور پر نجات یافتہ مان لینا انھیں برائیوں کی طرف ترغیب دینا ہے 55

سابق الایمان ہونے سے ذمّہ داریاں بڑھ جاتی ہیں 57

کیا سابقون اولون کے معاملے میں دخل دینا چاہئے 58

۵

سابقون اوّلون مشخص ہی نہیں ہیں! 60

سابقون اوّلون نقد و جرح سے بالاتر نہیں ہیں اس پر امت کا اجماع ہے 61

صحابہ کی لفظ کا صرف سابقون اوّلون پر محمول کرنا ہی قابل تامل ہے 62

حاطب ابن ابی بلتعہ کے قصہ سے استدلال 66

حاطب بن ابی بلتعہ کے قصے میں احتیاط 67

مقام تقدّس میں صحابہ کو اہل بیت ؑ کے مقابلے میں لانے کی کوشش 67

نبی پر درود پڑھتے وقت اہل بیتؑ کو شامل کرنے کے بارے میں اہل سنّت کا نظریہ 68

اہل سنت کے نظریہ کی توجیہ میں طحاوی کا بیان 69

حدیث نبوی میں اختلاف اور امیرالمومنینؑ کا مشورہ 71

حضرت امام محمد باقرؑ کے وضعی حدیثوں کے بارے میں ارشادات 75

جعلی حدیثوں کے بارے میں مدائنی اور نفطو یہ کی روایت 77

جعلی حدیثوں میں صحاحِ ستّہ کا حصّہ 79

اہل بدر کے بارے میں وارد حدیثوں کا متن 80

مذکورہ حدیث کا پس منظر 81

قرآن مجید حاطب کے فعل کو غلط ثابت کرتا ہے 82

حدیث،اہل بدر کی قطعی سلامتی اور نجات کی ضمانت نہیں لیتی 84

اہل بدر کی قطعی سلامتی کا اعلان انھیں گناہ پر ابھارےگا 85

اس طرح کی حدیثوں میں گناہ کبیرہ سے بچنے کی قید لگانا ضروری ہے 87

۶

قرآن مجید حاطب کی جس طرح تہدید کرتا ہے اس سے سلامت قطعی نہیں سمجھی جاسکتی 88

تھوڑی سی گفتگو حدیث حاطب جیسی حدیثوں کے بارے میں 90

حکمت اور عقل کا تقاضا یہ ہے کہ حدیث حاطب کی تاویل کی جائے 91

واقعہ بدر کے علاوہ بھی ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں سلامت قطعی وارد ہوئی ہے 93

حدیث مذکورہ اہل بدر سے مخصوص ہے نہ کی باقی سابقون اوّلون سے 96

سوال نمبر ۔ 2 97

بیعت رضوان کے بارے میں گفتگو 98

آیہ کریمہ رضا کو مطلق نہیں کرتے بلکہ رضا کا سبب بیان کرتی ہے 98

بعض آیتیں بتاتی ہیں کہ اس بیعت کے عہد کو پورا کرنا سلامتی کی شرط ہے 98

خدا کی رضا صرف بیعت رضوان والوں سے مخصوص نہیں ہے 100

رضا بشرط استقامت ہے اور اس کی تائید باقی رہےگی 102

غطبہ اور حسد میں فرق ہے 103

حسد اعظم محرمات میں سے ہے 104

اپنے اماموں کے بارے میں شیعوں کا نظریہ سنیوں کے اماموں کے بارے میں سنیوں کا نظریہ ان دونوں میں بہت فرق ہے 105

سوال نمبر۔ 3 109

جو ہورہا ہے اس کو ہونے دینا 110

حالات حاضرہ کو جاری رکھنا اور شرعی شکل دینا 110

خلافت کا تعین خدا کرتا ہے خلیفہ کو حق(نہیں کہ وہ دوسرے کے حق میں دست بردار ہوجائے) 111

۷

منصب(امامت)کی اہلیت صرف اسی میں ہوتی ہے جس کو اللہ منصب کے لئے معین کرتا ہے 113

عثمان کی خلافت پر کوئی نص نہیں تھی مگر وہ معزول ہونے پر تیار نہیں تھے 117

دورخلافت کے جاری رکھنے سے معالم حق کی بربادی لازم آتی ہے 118

اسلام کی اعلی ظرفی اجازت نہیں دیتی کہ شریعت الٰہیہ کی پیروی قہر و غلبہ اور بزور کروائی جائے 122

خلیفہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ امت کے کاروبار کو چلانے کے لئے اپنا نائب بنائے 123

شیعہ اچھی طرح اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اہل بیت ؑ اپنے حق سے دست بردا رنہیں ہوئے 123

یہ دعویٰ کرنا کہ شیعہ اپنے اماموں کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں کہاںتک حقیقت پر مبنی ہے؟ 124

مذکورہ دعوی کی تردید اور شیعوں کی صداقت کے شواہد 124

جھوٹ بولنے کی کوئی وجہ نہیں ہے جب کہ شیعہ انھیں عقیدوں کی وجہ سے ہمیشہ بلاؤں کا سامنا کرتے رہے 125

اگر شیعہ مفتری ہوتے تو ان کے امام ان سے الگ ہوجاتے 126

ائمہ اہل بیتؑ کی میراث کا تحفظ شیعوں ہی نے کیا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شیعہ ان حضرات سے مخصوص تھے 127

شیعوں کے کردار میں اماموں کے اخلاق کی جھلک 129

اہل سنت کی ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے کنارہ کشی 131

شیعیان اہل بیت ع اور دشمنان اہل بیت ع کے بارے میں سنیوں کا نظریہ 131

ائمہ اہل بیت ؑ کے بارے میں علما اہل سنت کے کچھ نظریے 132

ائمہ اہل بیتؑ کے بارے میں عام سنیوں کے کچھ نظریئے 137

ائمہ اہل بیتؑ نے امت کی ہدایت و ثقافت اور تہذیب اخلاق کو اہمیت دی 141

جب جمہور نے منھ موڑ لیا تو آپ حضرات نے اپنے شیعوں کو بہت اہمیت دی 143

۸

عالم اسلام میں ائمہ اہل بیتؑ کا بہرحال ایک مقام ہے 144

خلافت کے معاملے میں ائمہ اہل بیت(ہدیٰ)علیہم السلام اور ان کے خاص لوگوں کی تصریحات 145

امیرالمومنین علیہ السلام کا امر خلافت کے معاملے میں صریحی بیان 146

امیرالمومنین علیہ السلام کے شکوے کی بہت سی خبریں ہیں 159

امیرالمومنینؑ کے شکوے پر ابن ابی الحدید کا نوٹ 160

امیرالمومنین علیہ السلام کے کلام سے رضا ظاہر نہیں ہوتی 161

خلافت کے بارے میں صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کا موقف 162

خلافت کے معاملے میں امام حسن علیہ السلام کا موقف 165

خلافت کے معاملے میں امام حسین علیہ السلام کا موقف 167

خلافت کے معاملے میں امام زین العابدین علیہ السلام کا موقف 170

خلافت کے معاملے میں امام محمد باقر علیہ السلام کا موقف 172

خلافت کے مسئلہ میں محمد بن حنفیہ کا موقف 173

خلافت کے بارے میں عباس بن عبدالمطلب کا موقف 174

امر خلافت میں فضل بن عباس کا نظریہ 174

امر خلافت میں عبداللہ بن عباس کا موقف 175

خطبہ شقشقیہ مقام تنقید میں 178

امیرالمومنین علی علیہ السلام کے خاص اصحاب اور امر خلافت 179

صادق اللہجہ ابوذر اور امر خلافت 179

۹

حذیفہ اور امر خلافت 180

شوریٰ کے متعلق بعض صحابہ کا موقف 180

بعض اعلام جمہور کی تصریحات 185

عمر بن خطاب کا اعتراف حق 185

خلافت کے بارے میں عثمان بن عفان کا نظریہ 188

معاویہ کا خط محمد بن ابی بکر کے نام 189

دوسری جگہوں پر معاویہ کا اعتراف حق 191

عمرو بن عاص کی بات بھی سنئے 192

عبداللہ بن زبیر کا نظریہ 192

علامہ علی بن فارقی کی باتیں 193

وہ واقعات جن سے اہل بیتؑ کا خلافت پر عدم اقرار ثابت ہوتا ہے 194

سقیفہ کی باتیں 194

سقیفہ کے بعد کیا ہوا 195

واقعات سقیفہ پر صدیقہ طاہرہ صلوات اللہ علیہا کا رد عمل 196

ابوبکر کی بیعت سے امیرالمومنینؑ کا باز رہنا 198

شوریٰ کے واقعات اور امیرالمومنینؑ اور آپؑ کے اصحاب کا نظریہ 198

امیرالمومنین ؑ اور آپ کے معاصرین کے کلام کا اثر یہ ہوا کہ شیعیت کے عقائد ظاہر ہوگئے 201

امیرالمومنین کا واضح موقف اور علما اہل سنت کا ادراک 207

۱۰

شیخین کے متعلق امیرالمومنین ؑ کے موقف کے بارے میں اسمٰعیل حنبلی کا واقعہ 207

یہ دعویٰ کہ ائمہ ؑ شیخین کی خلافت کا اقرار کرتے تھے اور ان سے راضی تھےمحتاج دلیل ہے 209

سوال نمبر ۔ 4 211

صحابہ کا نص سے تغافل یا نبی ؐ کا امر امت سے اہمال،کون بدتر ہے؟ 211

اس مفروضہ غفلت اور اہمال کا نتیجہ 216

اسلام کی پائیدار بلندی اور اس کا کمال رفعت 217

عدم نص کے نظریہ کی ناکامی وجود نص کی سب سے بڑی دلیل ہے 219

خود نبی ؐ کی حیات میں صحابہ کی نص سے مخالفت 219

حدیث حوض اور فتنوں سے ڈرانےوالی احادیث کی سنگینی کا پتہ دیتی ہیں 221

سابقہ امتوں کے واقعات 221

مخالفت تو ایسی نصوص کی بھی کی گئی جو امامت کے لئے دلیل نہیں تھی 222

انصار نے الائمۃ من قریش کی مخالفت کی 228

نبی نے صحابہ کو خبردار کردیا تھا کہ وہ امیرالمومنینؑ کے بارے میں نصوص کی مخالفت کریں گے 230

جن لوگوں نے نص کی مخالفت کی،ان کی تعداد بہت کم ہے 231

انسانی سماج کا مزاق وقت کے دھارے کے ساتھ مڑجاتا رہا ہے 232

ابوبکر کی بیعت پر اہل مدینہ کے اتفاق کا دعویٰ 233

مذکورہ دعویٰ کے بطلان کے شواہد 233

انصار کی کوشش کہ سعد بن عبادہ کی بیعت ہوجائے 235

۱۱

منافقین و طلقاء کی کارستانیاں 235

آنےوالےفتنوں کےبارےمیں رسول خدا ؐ کی پیشین گوئیاں 237

نبی اعظم ؐ اور مولائے کائنات ؑ منافقین کے ٹکراؤ سے بچتے تھے 239

انصار کے آرا اور ان کے نظریے 240

انصار و غیرہ نے خلافت کے لئے امیرالمومنین ؑ کا نام لیا 241

صحابہ کی جماعت کے نمایاں افراد علی ؑ کی طرف مائل تھے 243

انصار ابوبکر کی بیعت کرکے پچھتا رہے تھے 243

امیرالمومنین ؑ کو کمزور کرنے کی کوشش میں عباس کا استعمال 244

صدیقہ طاہرہ ؐ کا خطبہ اور آپ کا انصار کو خاص طور سے قیام کی دعوت دینا 246

خطبہ کی تاثیر توڑنے کے لئے ابوبکر کی چال 247

جب تک امیرالمومنین ؑ مسلمانوں سے الگ رہے لوگ جہاد کرنے کے لئے نہیں نکلے 249

بیرون مدینہ کے قبیلوں کا نظریہ اور مرتدین سے جنگ کی حقیقت 250

اہل بیتؑ کو خلافت سے الگ رکھنے اور بیعتِ ابوبکر سے بعض عرب قبیلوں کا انکار 251

کچھ عربوں کا اہل بیت ؑ کی خلافت کے لئے احتجاج 254

سابقہ بیان سے نتجہ کیا نکلا 255

ابوبکر کی بیعت کے بارے میں جدید الاسلام لوگوں کا موقف 256

حکومت کو مضبوط کرنے میں رنگروٹ مسلمانوں کا پیش پیش ہونا 256

عام صحابہ کی نصرتِ حق میں تقصیر 260

۱۲

امیرالمومنین ؑ کے اصولی موقوف پر بعض شواہد 261

نتیجہ چاہے تو ہو،امام منصوص کی آواز پر لبیک کہنا واجب ہے 262

امام منصوص کی نصرت نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگوں نے نص کی اندیکھی کی 266

امامِ منصوص کی نصرت نہیں کرنا ایسا گناہ ہے جو قابلِ توبہ ہے 267

صحابہ کی امیرالمومنین ؑ کی طرف واپسی اور آپ کی مدد کرنا 268

قتل عثمان کے بعد صحابہ کا امیرالمومنین ؑ کی ہمراہی کرنا 268

امیر المومنین علیہ السلام کی طرف سے اصحابِ پیغمبر ؐ بڑے اور ذمہ دار عہدوں پر رکھے جاتے تھے 277

امیرالمومنینؑ کا اپنے خاص اصحاب کے لئے گریہ و اضطراب 277

معاویہ اصحاب امیرالمومنینؑ سے انتقام لیتا ہے 278

حجر بن عدی اور اصحاب حجر کی شہادت پر مسلمانوں کا اظہار نفرت 278

بنوامیہ،صحابہ کی اسلامی خدمات سے لوگوں کو بےخبر رکھنا چاہتے تھے 281

بنوامیہ اور حقیقتوں کو بدلنے کی کامیاب کوشش 284

معاویہ کی ہلاکت کے بعد اہل بیتؑ کے بارے میں صحابہ کا نظریہ 285

مناقب اہل بیتؑ بیان کرنے اور نص کی روایت کرنے میں صحابہ کی کوشش 286

امام حسینؑ نے صحابہ کو اہل بیتؑ کا حق ثابت کرنے کے لئے جمع کیا 286

آخر ابوبکر اور عمر نے سنت نبوی کی اشاعت پر پابندی کیوں لگادی تھی؟ 288

اکثر صحابہ کے حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ مولائے کاتناتؑ کی امامت کے حق ہونے کا اعتراف کرتے تھے 289

حضرت علیؑ کی بیعت ہوئی تو اکثر صحابہ نے یہ سمجھا کہ اب حق،حقدار تک پہنچا 289

۱۳

صحابہ کو پختہ یقین تھا کہ امیرالمومنینؑ ہی وصی پیغمبرؐ ہیں 294

اہل بیتؑ کو جو بھی شکایتیں ہیں قریش سے ہیں نہ کہ صحابہ سے 297

بہت سے صحابہ بلند مرتبہ پر فائز تھے 297

ائمہ ہدی علیہم الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کی بہت تعریف کی ہے 298

جو صحابہ حق پر ثابت قدم رہے ان کی محبت دینی فریضہ ہے 301

نتیجہ گفتگو 303

صحابہ کا یہ شرف تھا کہ وہ نص کا یقین رکھتے تھے 303

آیہ: کنتم خیر امة، پر گفتگو 305

سوال نمبر5 311

اس مشروع نظریہ کو عمل میں لانے کے لئے دور حاضر کے ماحول کا سازگار ہونا ضروری ہے 312

اس مشروع نظریہ کو نافذ نہ کرنے کی صورت میں دور حاضر میں مسلمانوں کی ذمہ داری 313

مذہبی اختلاف کی خلیج کو کم کرنا بہت ضروری ہے 314

یہ معلوم کرنا بہت ضروری ہے کہ مسلمانوں کے اختلاف اور سیاسی انحطاط کا سبب کیا ہے؟ 315

سوال نمبر۔ 6 319

ابوبکر کی نماز کے بارے میں شیعوں کی روایت 321

حادثہ صلوٰۃ کے سلسلے میں امیرالمومنینؑ کا عقیدہ سنیوں کی نظر میں 322

جب سرکار دو عالم ؐ نماز کے لئے نکلے تو آپ نے کیا کہا؟یہ بھی اختلافی مسئلہ ہے 326

روایت کی کچھ کمزوریاں،جو اس روایت کے لئے مصیبت بنی ہوئی ہیں 327

۱۴

نہ داستان نماز،ابوبکر کی خلافت پر نص ہے اور نہ ہی اصحاب نے اسے بیعت ابوبکر کے لئے لازم سمجھا 329

امام جماعت ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس آدمی کے اندر امامت عامّہ کی بھی صلاحیت ہے 331

عمر نے خلافت کے بارے میں جب بھی گفتگو کی حادثہ صلوٰۃ کا ذکر بالکل نہیں کیا 335

ایک تقابلی مطالعہ 336

خلافت ایک اہم منصب ہے،اس کی طرف صرف اشار کرنا کافی نہیں ہے 345

حقیقت کا شبہات سے پاک ہونا ضروری ہے 345

دعوتِ اصلاح کے راستے میں رکاوٹیں 346

سب سے بڑی رکاوٹ خود اہل دعوت کا داخلی اختلافات ہوتا ہے 346

اختلاف و افتراق ہی کے درمیان آسمانی مذہب کی جانچ ہوجاتی ہے 346

قرآن مجید،اختلاف سے بچنے کی سخت ہدایت کرتا ہے 347

نبی کا اعلان کہ امت میں فرقے ہوں گے 347

مسلمانوں کو فتنوں سے ڈرایا گیا اور انہیں خوف دلایا گیا 348

اختلاف کے نتائج سے آگاہ کیا گیا اور اس کے خطروں سے خبردار کیا گیا 349

خطرناک اختلاف کے پیش نظر واضح و آشکار حجت کا ہونا لازم ہے 350

اختلاف کا سب سے بڑا سبب ریاست طلبی ہے 353

اسلام میں پہلا اختلاف سلطنت ہی کے لئے ہوا اور یہ سب سے خطرناک اختلاف تھا 354

اسلام،معرفتِ امام کو سختی سے واجب اور اس کی اطاعت فرض قرار دیتا ہے 355

حاکم برحق کی مادی کمزوری یہ ہے کہ وہ قانون شرع میں رعایت نہیں کرتا 355

۱۵

ناممکن ہے کہ نبیؐ نے امامت کی طرف صرف اشارے پر اکتفا کی ہو 356

اسلام کے پاس ایسے نظام کا ہونا ضروری ہے جو خلافت کی تکمیل کرتا ہو! 356

سوال نمبر ۔ 7 359

ائمہؑ کا علم دین سے اختصاص اکمال دین کے منافی نہیں ہے 359

اتنا ہی بتا دینا کافی ہے کہ احکام دین کا مرجع کون ہے؟ 360

جمہور اہل سنت کی روایتوں کے مطابق بھی بہت سے صحابہ علم میں ممتاز تھے 362

اہل سنت کو اہل بیتؑ کے ممتاز بالعلم ہونے کا اعتراف ہے 364

۱۶

پیش لفظ

الحمد لله علی رب العالمین و الصلاة و السلام علی اشرف الانبیاء و المرسلین وخاتم النبیین و علی آله المعصومین

بے شک خالق کائنات کی معرفت اور دین کی تبلیغ و ترویج انسان کا پہلا فریضہ ہے اور دین اسلام میں سب سے زیادہ اہمیت عقیدہ کی ہے جس پر انسان کی سعادت و کامیابی اور نجات کا انحصار ہے جیسا کہ قرآن کریم اور احادیث پیغمبر اعظمؐ سے صاف واضح ہے کہ جنت عقیدہ ہی کی بنیاد پر ملے گی عمل کے ذریعہ نہیں اور ویسے بھی خود عمل کا دار و مدار عقیدہ ہی پر ہے، اسی وجہ سے دین میں عقیدہ اور عمل کی مثال درخت کی جڑ اور شاخوں سے دی جاتی ہے اور یہ بات ہر ذی عقل و شعور پر واضح ہے کہ اگر جڑ میں خرابی آجائے تو شاخیں خودبخود خشک ہوجاتی ہیں اسی بنا پر جڑ کی اہمیت زیادہ ہے اور اس کا تحفظ اور خیال زیادہ رکھا جاتا ہے اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرکز تحقیقات نشر علوم اسلامی امام حسن عسگری علیہ السلام نے جس کی بنیاد 16 جمادی الثانی 1425 ؁ بمطابق 2003 ؁کو رکھی گئی، خدمت دین اور انسانی عقیدہ کی صحت اور پختگی کے لئے عالم جلیل و فاضل و کامل بحرالشریعہ آیۃ اللہ فی العالمین عالم تشیع کے عظیم الشان مرجع حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید

۱۷

محمد سعید حکیم طباطبائی گراں بہا تالیف کا اردو ترجمہ کرایا جسے مرکز جہانی علوم اسلامی نے زیور طبع سے آراستہ کیا تا کہ ہر ایک کے لئے عقیدہ کی اصلاح و پختگی و تکمیل آسان ہوجائے،آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد سعید حکیم طباطبائی دنیائے عالم کے عظیم المرتبت مرجع تشیع سید محسن حکیم طاب ثراہ کے نواسے ہیں جن کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے موصوف کی اس کے علاوہ بھی دیگر کتابیں زیر طبع ہیں جو انشااللہ عنقریب خدا کی توفیق و مدد اور آپ حضرات کی دعا سے منظر عام پر آجائیں گی،ادارہ بصد خلوص شکر گزار ہے آیۃ اللہ کا جنہوں نے اس گراں بہا تالیف کے ذریعہ سے قوم کی بے لوث خدمت کی اور ان محترم و مکرم علمائ و فضلائ مولانا مظاہر شاہ صاحب و مولانا کوثر مظہری صاحب مولانا سید نسیم رضا صاحب کا جنہوں نے اس کتاب کے ترجمہ و تصحیح کے ذریعہ ادارہ کا تعاون فرمایا ہم اس خدمت دین میں آپ حضرات کے نیک مشوروں کے خواہاں ہیں۔

آخر کلام میں خدائے مہربان سے دعاگو ہیں کہ ہمیں خلوص اور صدق نیت کے ساتھ خدمت دین کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے۔

سید نسیم رضا زیدی

مرکز تحقیقات نشر علوم اسلامی امام حسن عسکریؑ قم المقدسہ ایران

۱۸

بسم الله الرحمن الرحیم

خدا کی تعریف اور اشرف انبیا ؐ اور آپ کی آل ؑ پاک اور اصحاب مکرمین پر درود و سلام کے بعد،علامہ عالی قدر جناب سید محمد سعید الحکیم صاحب خداوند عالم آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کی عمر طولانی فرمائے.

السلام علیکم و رحمة الله و برکاته

آپ نے میرے سوالوں کے جواب بھیجے وہ مجھ تک پہنچے،آپ نے جواب دینے میں بڑی محنت کی ہے،ہم آپ کے بےحد شکرگذار ہیں کہ آپ نے جواب دینے کی ذمہ داری قبول فرمائی اور کشادہ دلی سے کام لیا ۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ سنّی اور شیعہ کے درمیان علمی گفتگو کا ایک دروازہ کھلا جو بہت اہم بات ہے،خاص طور سے شیعوں کے شرعی معاملات کو ان کے تصورات کے اعتبار سے سمجھنے کا موقعہ ملا جس کی وجہ سے تاریکی زائل ہوگئی اور اہل سنّت،شیعہ مذہب کی جو غلط تفسیریں کرتے ہیں وہ بات معلوم ہوگئی اب سنّی حضرات،شیعوں کے بارے میں نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوگئے اور انھیں انصاف کی نظر سے دیکھنے لگے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ موضوع کتنا اہم ہے

معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ آپ نے جو جوابات دئیے ہیں اس کی کچھ تعلیقات بھی ہیں لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں ان کا جواب بھی بہت جگرکاوی چاہتا ہے،اس لئے کہ آپ کے دئیے ہوئے

۱۹

جوابوں کو بہت توجہ سے پڑھنے کی ضروت ہے،ہمارے شہر کے سنّی علما کی بھی یہی رائے ہے اور ان کا بھی نظریہ اس گفتگو اور جواب کے بارے میں یہی ہے،میں دوسرے خطوں سے آپ کے علم میں ان کے نظریات لانے کی کوشش کروں گا،البتہ اس وقت کچھ دوسرے سوالات جن کا لگاؤ نفس ہدف سے ہے آپ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں اور امید کرتا ہوں کہ جناب عالی ان کا جواب مرحمت فرمائیں گے،جس سے آپ کا نقطہ نظر واضح ہوسکے.

آخر میں ایک ضروری بات کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ غدیر کے بارے میں جو سوال میں نے کیا تھا اس میں ایک بہت ضروری بات رہ گئی جو بیعت کی بات تھی

اس سوال کا مقصد یہ تھا کہ غدیر میں مولائے کائنات علی علیہ السلام کی بیعت واقع ہوئی تھی یا نہیں؟واقعۂ غدیر کے بارے میں تو مجھے معلوم ہے کہ اہل سنّت کی کتابیں خصوصی طور پر اس واقعہ کے ذکر سے بھری پڑی ہیں امید کرتا ہوں کہ اس موضوع پر بھی آئندہ خطوط میں آپ توجہ فرمائیں گے ۔

الحمداللہ آپ کے جوابات بےمقصد نہیں ہیں،بلکہ ان سے فائدہ جلیلہ حاصل ہورہا ہے آپ کے جواب دینے کا طریقہ بہت اچھا ہے اور ترتیب بےمثال ہے خصوصاً اس کے لئے جو ایسے سوالوں کا جواب دے رہا ہو،آخر میں التماس ہے کہ آپ اپنی دعاؤں میں مجھے یاد رکھیں گے میں خدا سے امید کرتا ہوں کہ وہ مجھے توفیق عطا فرمائے تا کہ میں اس کے محبوب و پسندیدہ راہ پر گامزن اور مسلمانوں کی بھلائی کے کام کرسکوں.

و آخر دعوانا ان الحمد الله ربّ العالمین

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

میں شامل ہوجاتے ہیں پھر ان کی حد بندی مشکل ہے ہاں یہ ممکن ہے کہ اس لفظ کے معنی کو چند افراد میں جامد کردیا جائے یعنی بس وہی لوگ سابقون اولون ہیں جو اسلام کی طرف پہلی دعوت کے وقت اسلام میں داخل ہوئے اور نبی ؐ کی آواز پر لبیک کہی ظاہر ہے کہ یہ چند افراد ہوں گے جنہیں انگلیوں پر شمار کیا جاسکتا ہے اور ان کی نجات کا یقین ہونا صحیح لگتا ہے وہ بھی اس لئے نہیں کہ آیہ شریفہ میں سابقون اوّلون سے نجات کا وعدہ کیا گیا ہے بلکہ اس لئے کہ ان کے حالات صحیح تھے اور ان کا خاتمہ اسلام پر ہوا ہے اگر ایسا ممکن ہو تو ان کے حالات دیکھ کر ان کی سلامتی کو یقینی قرار دیا جاسکتا ہے لیکن سابقون اوّلون کی لفظ کی عموم پر محمول کرنا اور ان لوگوں کو سابقون اوّلون میں شامل کرنا جن کو عام آدمی سابقون اوّلون سمجھتا ہے تو اس کو ثابت کرنےکے لئے دلیل لانی پڑےگی اگر دلیل مل بھی جائے تب بھی سابقون اوّلون کی دقیق حد بندی کرنا دشوار ہے ۔

سابقون اوّلون نقد و جرح سے بالاتر نہیں ہیں اس پر امت کا اجماع ہے

میرے خیال میں جمہور مسلمین بھی سابقون اولون کو جرح و تنقید سے بالا نہیں سمجھتا اور ان کو صرف اس وجہ سے کہ ان کی سلامتی قطعی اور نجات یقینی ہے کوئی خاص خصوصیت دیتے(چاہے شیعہ مسلمان ہو یا سنّی،یعنی سابقون اوّلون کی مذکورہ بالا خصوصیت کی بنیاد پر انھیں کوئی خاص امتیاز حاصل نہیں ہے)

جہاں تک شیعوں کا سوال ہے تو یہ تو سبھی جانتے ہیں(کہ یہ قوم شخصیت پرست نہیں اور کسی کے رعب میں اس کی سبقت و غیرہ کی وجہ سے نہیں آنےوالی)لیکن اہل سنت اکثریت کے نزدیک صحابی وہ ہے جو پیغمبر ؐ کو دیکھے اور ان سے حدیث سنے اور بعض وہ لوگ ہیں جبھیں صحابہ کی تنقید انھیں مجبور کرتی ہے اور وہ ان کے حالات جاننے کی کوشش کرتے ہیں میں نے آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں اس سلسلے میں بہت کچھ عرض کردیا ہے ۔

۶۱

صحابہ کی لفظ کا صرف سابقون اوّلون پر محمول کرنا ہی قابل تامل ہے

دوسرا امر ۔ آپ نے فرمایا عام مسلمان سابقون اوّلون ان لوگوں کو سمجھتے ہیں جو احادیث نبی ؐ اور قرآنی آیات میں صحابہ یا اسی کے ہم معنی لفظ سے یاد کئے جاتے ہیں،

جواباً عرض ہے کہ پورے قرآن میں اصحاب نبی ؐ کو صحابہ کے نام سے صرف ایک جگہ معنوں کیا گیا ہے،ارشاد ہوتا ہے کہ:(إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا) (۱)

ترجمہ آیت:(اگر تم اس کی مدد نہیں کروگے تو نہ کرو اللہ اس کی مدد کرے گا جب اس کو(نبی ؐ کو)کفار نے مکہ سے نکال دیا تھا تو وہ دو میں کا دوسرا تھا جب وہ دونوں نماز میں تھے جب وہ اپنے صحابی سے کہہ رہا تھا کہ ڈ رو نہیں اور غم نہ کرو بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اپنے نبی ؐ پر سکینہ نازل کیا اور ایسے لشکر سے مدد کی جس کو تم نہیں دیکھ سکتے) ۔

اس آیت میں ظاہر ہے کہ صاحب سے مراد صحبت مکانی ہے اور بس اب رہ گیا دوسری آیتوں میں خطاب تو وہ صحابی کی لفظ سے ہے ہی نہیں بلکہ مخاطب عام مومنین ہیں ۔

ارشاد ہوتا ہے:(مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُعَلَىالْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ...) (۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ توبہ آیت ۴۰

( ۲) سورہ فتح آیت ۲۹

۶۲

ترجمہ آیت:محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں اور وہ لوگ جو آپ پر ایمان لائے کافروں پر سخت اور آپس میں رحم دل ہیں تم انہیں رکوع اور سجدہ کی حالت میں پاؤگے وہ خدا کے فضل کو تلاش کرتے رہتے ہیں ان کی پیشانیاں نشان سجدی سے چمکتی رہتی ہیں،ان کی مثال تو راۃ میں اور انجیل میں...

صدر آیت کے الفاظ تو عموم کا تقاضا کرتے ہیں ہر وہ شخص جو نبی ؐ کے ساتھ ہے وہ عام طور پر صحابی کہا جاتا ہے اس آیت کے تحت تو ہر وہ آدمی جو نبی ؐ کے ساتھ ہے چاہے سابقون اوّلون میں ہو چاہے ان کے بعد والا صحابی کہا جاسکتا ہے مشکل یہ ہے کہ آپ کے قول کے مطابق صحابہ صرف سابقون اوّلون کو کہا جاتا ہے لیکن آیت صحابیت کی حدود کو وسعت عنایت کر رہی ہے اس لئے یہ آیت سورہ فتح کی ہے اور سورہ فتح صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی تھی جب لوگ کثرت سے مسلمان ہوچکے تھے صلح حدیبیہ میں تو بہت سے مسلمان ہلاکت کے قریب پہنچ چکے تھے اس لئے کہ انہوں نے نبی ؐ کی آواز پر لبیک نہیں کہی تھی جیسا کہ حدیثوں میں وارد ہے اور آپ کے سوال ثانی کے جواب میں لکھا جاچکا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ یہ آیت صلح حدیبیہ کے سال میں جو عمرہ قضا ہوا تھا اس کی ادائیگی کے وقت نازل ہوئی ہو اور اس سال تو لوگ کثرت سے مسلمان ہوچکے تھے بلکہ بہت سے لوگ ضعف الایمان بھی تھے جو دائرہ اسلام میں داخل ہوکے کلمہ پڑھ چکے تھے البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ آیت انہیں لوگوں پر محمول ہوتی ہے جن کے اندر آیت کی بیان کردہ صفتیں پائی جاتی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ لوگ صحابہ کی اس خاص قسم سے تعلق رکھتے تھے جنہیں ان کی دینی قوت دین کے لئے فعالیت اور نبی ؐ کی سیرت اور کردار کو اپنانے کی وجہ سے عف عام میں انھیں خاص صحابی سے تعبیر کیا جاتا تھا اکثر انھیں ہی مقام مدح میں صحابی کہا جاتا تھا اس لئے کہ عرف عام میں کسی کو صحابی اس وقت کہتے ہیں جب وہ رئیس کا خاص آدمی ہو جس سے اس کی خاص معاشرت ہو اور وہ ان کے ساتھ مل کے کام کرتا ہو اور صحابی اس رئیس کی سیرت پر چل رہا ہو ۔

ظاہراً سابقون اوّلون اور اس آیت کے ممدوحین کے درمیان کسی طرح کا تطابق لازم نہیں ہے بلکہ ممکن ہے کہ بہت سے سابقون اوّلون میں آیت کی بیان کردہ صفتیں مفقود ہوں جس طرح یہ ممکن

۶۳

ہے کہ غیر سابقون اوّلون میں آیت کی بیان کردہ صفتیں موجود ہوں ظاہر ہے کہ ان صحابہ کو پہچاننے کے لئے اور ان کا یقین کرنے کے لئے ان کے ذاتی کردار ان کی زندگی کے واقعات ان کا چال چلن اور ان کی سریت کا ناقدانہ مطالعہ تو کرنا ہی پڑےگا ۔

ایک بات اور قابل توجہ ہے کہ آیت شریفہ میں بیان کردہ تمام صفات عالیہ کے باوجود خدا نے انہیں سلامتی اور نجات کا یقین نہیں دلایا ہے،نہ ہی ان سے کامیابی کا وعدہ کیا،مگر یہ کہ استقامت اور ایمان و عمل صالح پر ثابت قدم رہنے کی شرط لگادی ہے ملاحظہ ہو اس آیت کا اختتامیہ.ارشاد ہوتا ہے: (وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا) (۱)

ترجمہ آیت:(ان لوگوں میں جو لوگ مومن رہے اور عمل صالح کرتے رہے ان سے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے) ۔

ظاہر ہے کہ جب اللہ ایسے پاک اور پاکیزہ لوگوں کے لئے مغفرت اور اجر عظیم میں استقامت کی شرط لگاتا ہے تو پھر دوسروں کے لئے کیوں نہیں شرط لگائےگا؟

اب رہ گیا سنّت شریفہ کا سوال تو میری یہ سمجھ میں نہیں آتا ہے احادیث نبوی میں جو حدیثیں صحابہ کی مدحت میں وارد ہوئی ہیں انھیں سابقون اوّلون پر اور مذمت والی احادیث کو غیر سابقین پر حمل کیا جاسکتا ہے؟کیا یہ زبردستی اور بےدلیل قرینہ حکم نہیں ہے؟(مذمت والی بعض احادیث حدیث خوض کی بحث میں گذرچکی ہیں جنھیں دوسرے سوال کے جواب کے ضمن میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ )اگر کوئی قرینہ ہے تو وہ زبردستی اور ہٹ دھرمی کے قرینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے،ان حدیثوں کے مضامین میں کچھ تو عموم کا فائدہ دیتے ہیں یعنی قرینہ عموم پایا جاتا ہے،آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں عرض کیا تھا کہ نبی ؐ نے اصحاب کو خطاب کرکے فرمایا((تم ضرور ضرور پیروی کروگے اپنے پہلے والوں کی حتیٰ کہ اگر وہ سوسمار کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی ان میں داخل ہوگے))اس حدیث میں حضرت نے کسی مخصوص مسلمان کے بارے میں نہیں کہا ہے ایسی عام بات فرمائی کہ تم اُمَم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ فتح آیت۲۹

۶۴

سابقہ کی طرح انحراف کروگے اس عموم میں سب شامل ہیں بلکہ وہ بھی جو صحابہ میں صاحب مقام شمار کئے جاتے ہیں اس لئے کہ اُمَم سابقہ میں بہت سے مقام و منزلت والے بھی انحراف اور کجروی کا شکار ہوگئے تھے جیسے امت موسیٰ ؑ کا خالہ زاد بھائی تھا یہ جعفر صادق علیہ السلام کا قول ہے(۱) اور ابن عباس(۲) کا بھی یہی قول ہے ابن اسحٰق(۳) کہتے ہیں چچازاد بھائی تھا اور سامری شان اور مرتبہ والا تھا(عام لوگوں سے اس کی نگاہیں تیز تھیں)قرآن کہتا ہے کہ:(قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَٰلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي) ( ۴ )

ترجمہ آیت:(سامری نے کہا مجھے وہ چیز دکھائی دی جو اوروں کو نہ سوجھی جبرئیل گھوڑے پر سوار جارہے تھے تو میں نے جبرئیل(فرشتے کے گھوڑے)کے نشان کے قدم کی ایک مٹھی خاک اٹھالی اس وقت میرے نفس نے اس کا سوال کیا) ۔

(قرینہ کہتا ہے کہ سامری اور قارون دونوں ہی امت موسیٰ کے سابقون اوّلون میں شامل تھے)یہ سمجھنا بعید از فہم ہے کہ انھوں نے موسیٰ کی دعوت قبول کرنے میں تاخیر کی ہوگی یا ان کی تصدیق کرنے میں کوتاہی کی ہوگی(اس لئے عذاب کا شکار ہوئے نہیں بلکہ وہ لوگ پہلے ہی دعوت موسیٰ پر لبیک کہہ چکے تھے اور شریعت موسیٰ کو گلے لگا چکے تھے کیوں کی دعوت موسوی بنی اسرائیل کی نجات پر مبتنی تھی یہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔

اس کے قبل ایک حدیث موطا ابن مالک سے پیش کی جاچکی ہے،مجھ سے مالک نے اور ان سے عمر بن عبیداللہ کے غلام ابونضر نے بیان کیا کہ ان تک یہ بات پہنچی کہ حضور ؐ نے شہدا احد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مجمع البیان ج:۷ص:۴۵۹

(۲)مجمع البیان ج:۷ص:۴۵۹

(۳)تفسیر القرطبی ج:۱۳ص:۳۱۰،تفسیر الطبری ج:۲۰ص:۱۰۵،تفسیر ابن کثیرج:۳ص:۴۰۰

(۴)سورہ طٰہ آیت:۹۶

۶۵

کے بارے میں فرمایا:پالنےوالے میں ان پر گوہ ہوں،ابوبکر نے کہا یا رسول اللہ ؐ کیا ہم ان کے بھائی نہیں ہیں حضور ؐ نے فرمایا ہاں تم بھائی ہو لیکن مجھے نہیں معلوم کہ تم میرے بعد کیا کروگے؟،پھر نافع کی روایت بھی عرض کی جاچکی ہے وہ عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ سرکار ؐ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور آپ نے عایشہ کے گھر کی طرف اشارہ کر کے تین بار فرمایا،یہاں فتنہ ہے،یہیں سے شیطان کے سینگ نکلےگی))دوسری حدیثیں بھی اس کے قریب المعنی ہیں جیسے سرکار ؐ کے مولائے کائنات ؑ کو ناکثین سے لڑنے کا حکم دینا حالانکہ ناکثین میں تین نام سب سے آگے ہیں طلحہ،زبیر اور عایشہ ۔

ام سلمہ نے عبدالرحمٰن بن عوف کو حکم دیا کہ خدا کی راہ میں خرچ کیا کرو اس لئے کہ سرکار ؐ نے فرمایا تھا کہ میرے کچھ ایسے صحابی ہیں جنہیں مرنے کے بعد میں نہیں دیکھ سکوں گا اور نہ وہ مجھےکبھی دیک سکیں گے،ظاہر ہے کہ ام المومنین کا عبدالرحمٰن بن عوف کو انفاق کا حکم دینے میں یہی مصلحت تھی کہ کہیں وہ مردود اصحاب میں سے نہ ہوجائے حالانکہ عامتہ الناس کے مطابق وہ سابقون اوّلون میں سے تھے ان کے علاوہ ام المومنین کی حدیث میں جہاں صحابہ کی لفظ آئی ہے ان صحابہ میں سابقون اوّلون بھی شامل ہیں ۔

میرے بیان کو مزید تقویت اس وقت پہنچتی ہے جب ہم خود صحابہ کے حالات پر نظر کرتے ہیں اور ایک صحابی کا دوسرے صحابی کے بارے میں کیا نظریہ تھا اس کو دیکھتے ہیں صحابہ کے حالات بہرحال اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ انہیں مذکورہ خصوصیت(قطعی نجات اور سلامتی کا تغمہ)دی جائے میرے گذشتہ بیانات کو پڑھیے ۔

حاطب ابن ابی بلتعہ کے قصہ سے استدلال

تیسرا امر ۔ آپ فرماتے ہیں کہ سابقون اوّلون پر لعن طعن کرنے کی اجازت ہمیں سنت نبوی سے نہیں ملتی اور یہ کہ ہم صحابی اور اس کی منزلت کا فیصلہ اللہ پر چھوڑدیں اس لئے کہ اس وحدہ لاشریک نے

۶۶

انہیں اس منزلت سے سرفراز کیا ہے جیسا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کی حدیث سے ملتا ہے کہ کوئی حاطب بن ابی بلتعہ کی سرزنش کررہا تھا اللہ اہل بدر کے حالات سے خوب واقف ہے اور اس کا ارشاد ہے:تمہاری جو سمجھ میں آئے کرو اس لئے کہ میں تمھیں معاف کرچکا ہوں ۔

حاطب بن ابی بلتعہ کے قصے میں احتیاط

میں عرض کرتا ہوں کہ اس حدیث کو اہل سنت کے علما نے متعدد طریقوں سے نقل کیا ہے میں اس کے طریقوں میں سے کچھ کا بیان کروں گا،بہرحال یہ حدیث اتنی نقل کی گئی کہ اہل سنت کے یہاں تقریباً مسلمات میں شامل کردی گئی،فی الحال ابھی میں اس حدیث سے انکار بھی نہیں کرتا البتہ اس کا معنی سمجھنے میں تھوڑا احتیاط کرتا ہوں،پہلی بات یہ ہے کہ مجھے اس حدیث کے صادق ہونے کا پورا یقین نہیں ہے،دوسری بات یہ ہے کہ میں اس سے وہ معنی نہیں سمجھتا جو اہل سنت سمجھتے ہیں یعنی میں نہین سمجھتا کہ اس حدیث کی بنیاد پر عام اہل بدر کو سلامت قطعی اور نجات اخروی کی سند دیدی جائے ۔

مقام تقدّس میں صحابہ کو اہل بیت ؑ کے مقابلے میں لانے کی کوشش

اس موضوع پر گفتگو کرنے سے پہلے مقدمۃً کچھ باتوں کی طرف متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو اس منزل میں بھی اور دوسری جگہوں پر بھی نفع بخش ہیں ۔ ہر ایک انصاف پسند اور ذوقِ جستجو رکھنےوالے آدمی سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ اہل سنت کے علما فقہ ہوں یا رواۃ حدیث یا ان کے دشمن اہلبیت ؑ بادشاہ ہیں بہرحال جمہور اہل سنت کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ مقام تقدس میں اہل بیت ؑ کے مقابلے میں صحابہ کو لا کر کھڑا کریں اور صحابہ کو اہل بیت ؑ سے زیادہ قابل احترام ثابت کریں یعنی اہل بیت ؑ کا تقدس جیسے قرآن مجید:(لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ) (۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ فصلت آیت۴۲

۶۷

ترجمہ آیت:(جس کے سامنے یا پیچھے سے باطل آ ہی نہیں سکتا وہ خدائے حکیم و حمید کا نازل کردہ ہے) ۔

اسی نے بیان کیا ہے اور سنت شریفہ نے جس کی تاکید کی ہے اس کے مقابلے میں صحابہ کو لائیں(تا کہ قرآن اور حدیث کے بیان کردہ)فضائل صرف اہل بیت ؑ سے مخصوص ہو کے نہ رہ جائیں یہ کوشش صرف اس لئے کی گئی کہ صحابہ کو کھینچ کے اہل بیت ؑ کے مقابلے میں لانے سے مسلمان صحابہ کو مرکز توجہ بنالےگا اور صحابہ کے فضائل میں مشغول ہو کے اہل بیت ؑ کی طرف مڑ کے نہیں دیکھےگا،جیسے جیسے وقت گذرتا گیا اور شیعہ مذہب کی طرف دعوت میں شدت ہوتی گئی اور شیعہ مقام اہل بیت ؑ اور ان حضرات کے مراتب جلیلہ کو قولاً و فعلاً واضح کرتے رہے اسی حساب سے اہل سنت صحابہ کے فضایل میں(جھوٹی باتیں)بیان کر کے ان کو محترم اور مقدس ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے یہاں تک کہ یہ ایک مستقل مذہب بن گیا،ان کوششوں کا مقصد یہ ہے کہ عالم اسلام صرف صحابہ پھر بھروسہ کرے انھیں کی طرف منسوب ہو جس طرح شیعہ اہل بیت اطہار ؑ پر اعتماد کرتے ہیں اور ان حضرات ہی کی طرف خود منسوب کرتے ہیں تا کہ مسلمان اہل بیت ؑ سے اعراج کا جواز پاجائے یا کم سے کم مقام تظیم و تقدس میں اہل بیت ؑ اور صحابہ میں افتراق نہ کرے ۔

نبی پر درود پڑھتے وقت اہل بیتؑ کو شامل کرنے کے بارے میں اہل سنّت کا نظریہ

اس بات کے علمی مشاہدہ کے لئے وہ حدیثیں کافی ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ اہل سنت اہل بیت کو داخل صلوات کرنے پر کس طرح تیار ہوئے

کعب بن عجرہ کہتے ہیں کہ پیغمبر ؐ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ ؐ آپ پر سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہے درود کیسے بھیجیں آپ نے فرمایا کہو:اللهم صل علیٰ محمد و علیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ آل ابراهیم انک حمید مجید پالنےوالے درود بھیج محمد ؐ اور ان کی آل پاک ؑ پر جیسا کہ تو نے آل ابراہیم ؑ پر درود بھیجا ہے بیشک تو قابل حمد اور بزرگ ہے پالنےوالے برکت

۶۸

دے محمدؐ کو جیسا کہ تو نے ابراہیمؑ کو برکت دی بیشک تو حمید و مجید ہے(۱)

بلکہ ناقص صلوات بھیجنے کی نہی(۲) وارد ہوئی ہے ناقص صلوات کا مطلب ہے آل کو چھوڑ کے صرف سرکار دو عالمؐ پر درود بھیجنا حالانکہ ہم اہل سنت کی صلوات کو دیکھتے ہیں تو تعجب ہوتا ہے یا تو یہ حضرات صرف نبیؐ پر صلوات بھیجتے ہیں یا اگر آل پر صلوات بھیجی تو اصحاب کو ضرور شامل کر لیتے ہیں ایسا صرف اس لئے ہے کہ یہ لوگ مقام تکریم و تقدیس میں صحابہ اور اہل بیتؑ میں تمیز نہیں کرتے۔

اہل سنت کے نظریہ کی توجیہ میں طحاوی کا بیان

طحاوی نے اہل سنت کے اس نظریہ کی عجیب و غریب توجیہ کی ہے وہ کہتا ہے:ظاہر ہے کہ آل و اصحاب کا ذکر صلوات میں مندوب ہے اصحاب تو اس لئے کہ وہ ہمارے اسلاف ہیں اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ان کے لئے حصول رضایت الٰہی کی دعا کریں رضی اللہ عنہ کہیں ان پر لعنت نہ کریں اب رہ گئی آل تو ان کو بھی صلوات میں شامل کرنا ہی پڑےگا اس لئے کہ حضور ؐ نے فرمایا مجھ پر دم کٹی صلوات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) صحیح بخاری ج: ۴ ص: ۱۸۰۲ کتاب التفسیر:باب(ان الله و ملائکة یصلون علی النبی یا ایها الذین آمنوا) ج: ۳ ص: ۱۲۳۳ کتاب الانبیاء:باب یزفون النسلان فی المشی ،ج: ۵ ص: ۲۳۳۸ کتاب الدعوات:نبیؐ پر صلواۃ بھیجنے کے باب میں مسلم ج: ۱ ص: ۳۰۵ کتاب الصلاۃ:نبیؐ پر تشہد کے بعد درود بھیجنے کے باب میں،السنن الکبریٰ للنسائی ج: ۱ ص: ۳۸۱،۳۸۲ کتابصفة الصلاة:الأمر بالصلاة علی النبی،ج:۶،کتاب عمل الیوم و اللیلة،ص:۱۷،کیف المسألة و ثواب من سأل له ذلک ،ص: ۹۷ کیف الرد،صحیح بن حبان ج: ۳ ص: ۹۳ اباب الادعیۃ:ذکر الاخبار المفسرۃ لقولہ جل و علا:(یا ایها الذین آمنوا صلوا علیه و سلموا تسلیما) ج: ۵ باب صفۃ الصلاۃ،ص: ۲۸۶ ،ذکرو صف الصلاۃ علی المصطفیؐ الذی یتعقب السلام الذی وصفنا،ص: ۲۸۹ ،ذکر البیان بان النبیؐ انّما سئل عن الصلاۃ علیہ فی الصلاۃ عند ذکرھم ایاہ فی التشھد،ص: ۲۹۵ ،ذکر الأمر با الصلاة علی المصطفیٰ و ذکر کیفیتها و غیرها من المصادر الکثیرة،

( ۲) جواھر العقدین القسم الثانی ج: ۱ ص: ۴۹ ،فی الثانی ذکر أمره بالصلاة علیهم فی امتثال ما شرعه الله من الصلاة علیهم و وجه الدلالة علی ایجاب ذلک فی الصلاة حاشیۃ الطحاوی علی مراقی الفلاح ج: ۱ ص: ۸ ،الصواعق المحرقۃ ج: ۲ ص: ۴۳۰ الباب الحادی عشر:اہل بیت نبوکےفضائل میں:پہلی فصل الآیات الواردۃ فیھم،ینابیع المودۃ ج: ۱ س: ۳۷ ،ج: ۲ ص: ۴۳۴ ،

۶۹

نہ بھیجنا لوگوں نے پوچھا کہ دم کٹی صلوات کیا ہے؟آپ نے فرمایا تم کہتے ہو:اللہم صل علی محمد اور بس بلکہ(مکمل صلوات یہ ہے)کہا کرواللهم صل علیٰ محمد و آل محمد اس حدیث کو فاسی و غیرہ نے بھی نقل کیا ہے ۔(۱)

آپ خود دیکھیں کہ درود میں صحابہ کو نبی ؐ سے زبردستی کس طرح ملحق کیا گیا ہے؟تا کہ وہ اہل بیت ؑ کے شریک ہوجائیں دلیل یہ ہے کہ وہ ہمارے اسلاف ہیں اور اللہ نے ہمیں ان کو راضی رکھنے کا حکم دیا ہے اور ہمیں ان پر لعنت کرنے سے روکا ہے و غیرہ....میں کہتا ہوں اگر مذکورہ بالا توجیہ مان بھی لی جائے تو اس سے صرف صحابہ کو راضی رکھنے کا استحباب ثابت ہوتا ہے نہ کہ ان کو درود میں شامل کرنا ۔ اس توجیہ سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان پر ترضی مستحب اور لعنت کرنا حرام ہے نبی ؐ کے ساتھ ان کو درود میں شامل کرنے کے استحباب پر تو پھر کوئی دلیل چاہئے جیسا کہ آل کے بارے میں دلیل اسی حدیث میں موجود ہے خصوصاً جب کہ طحاوی نے سرکار دو عالم پر درود کی شرح کرنے کے لئے ایسی حدیث نقل کی ہے جس میں حضرت نے دم کٹی صلوت سے منع کیا ہے اور فرمایا کہ کامل صلوات کی شرط آل محمد کا درود ہے الحاق ہے لیکن اصحاب کا کوئی ذکر نہیں آیا ۔

اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ طحاوی نے صلوات بترا(دم کٹی صلوات)والی حدیث نقل کر کے یہ محسوس کیا کہ اس حدیث سے اہل بیت ؑ کو کوئی ایسی خصوصیت حاصل ہوگئی جس میں ان کا کوئی شریک نہیں ہے بس فوراً ہی حدیث کے رخ کو موڑدیا اور یہ کہہ دیا کہ آل سے مراد امت محمدی ہے یہاں تک کہ فساق بھی شامل ہیں لہذا کلام سابق کے بعد بلافصل کہتا ہے(یہاں پر آل سے سرکار کی ساری امت مراد ہے یعنی مطلق ساری امت کے لئے دعا کی جائے)اور حضور ؐ کا یہ قول کہ ((آل محمد متقی ہیں)اس سے مراد یہ ہے کہ امت محمد ؐ شرک سے پاک ہے یعنی شرک سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے مقام دعا میں یہی درست ہے ۔ (یعنی ہر غیر مشرک کے لئے دعا کرسکتے ہیں ۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح:ج:۱ص:۸

(۲)حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ج:۱ص:۸

۷۰

جی چاہتا ہے کہ طحاوی سے پوچھوں کہ جب آل سے ساری امت مراد ہے تو صحابہ کا درود الحاق کرنا ضروری کیوں ہے؟(کیا صحابہ امت میں شامل نہیں ہیں)؟پھر آپ نے صحابہ کے الحاق کے لئے سابق میں بےمغز اور بھون ڈ ی دلیل کیوں دی؟کیا صحابہ اجابہ میں سے نہیں تھے؟آپ نے طحاوی کا بیان پڑھ لیا،اب اہل سنت کا طرز عمل ملاحظہ ہو،سمجھ میں بات نہیں آتی کہ اس حدیث کی موجودگی میں اہل سنت دم کٹی صلوات بھیجنے پر اصرار کیوں کرتے ہیں اور آل پر اقتصار کرتے ہوئے صرف انھیں کو نبی ؐ سے ملحق کیوں نہیں کرتے جیسا کہ مضمون حدیث(آل پر انحصار)یہی ہے جسے خود طحاوی نے ذکر کیا ہے،کنایہ اس لئے نہیں ہے اہل بیت ؑ کی مایۂ امتیاز شرافت و بزرگی کے ذکر سے جو انھیں بڑی گراں گذرتی ہے پرہیز کیا جائے یہ سارا زور اس لئے ہے کہ اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ آل سے مراد صرف اہل بیتِ رسول ؐ ہیں نہ کہ سارے امتی حتیٰ کے فاسقین بھی ۔

پھر ہم اپنی بات کی تکرار کررہے ہیں کہ جمہور صحابہ نے متعلق چارہ جوئی اور نفوس قدسیہ میں اضافہ کوشش کررہے تھے نیز ان اسباب و علل کی جو اس کا باعث ہوتے ہیں لیکن یہ ایک طولانی اور وسیع موضوع ہے لہذا اس مختصر میں اس کی گنجائش نہیں ہے جب کہ شیعہ علماء اور اُن کی کتابوں نے اس اضطراب کی طرف راہنمائی کی ہے لہذا حقیقت جو افراد اس کی طرف رجوع کریں ۔

حدیث نبوی میں اختلاف اور امیرالمومنینؑ کا مشورہ

حدیث پیغمبر کے بارے میں کچھ اور بھی عرض کرنا بہتر سمجھتا ہوں،ایک سائل نے مولائے کائنات ؑ سے حدیث بدع اور لوگوں کے پاس جو حدیثیں ہیں ان کے اختلاف کے بارے میں پوچھا آپ نے فرمایا:لوگوں کے پاس تو حق و باطل بھی،صدق و کذب بھی،ناسخ و منسوخ،عام خاص،محکم مُتشابہ اور حفظ و وہم سب کچھ ہے اور پیغمبر ؐ پر تو آپ کی زندگی میں ہی بہتان لگایا گیا نتیجہ میں حضور ؐ خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور فرمایا جو مجھ پر جان بوجھ کے بہتان لگائے اس نشست کو آگ سے بھردیا جائےگا،

۷۱

تمہارے پاس ایسے طار طرح کے لوگ حدیث لائیں گے جن کا پانچواں نہیں ہوگا ایک تو منافق مرد(حدیث لائےگا)جو ایمان کو ظاہر کرتا ہے اور اسلام میں تصنع برتتا ہے،خود کو نہ گناہ گار محسوس کرتا ہے اور(نہ ہی جھوٹ بولنے میں)کوئی حرج محسوس کرتا ہے پیغمبر ؐ پر جان بوجھ کے جھوٹ باندھتا ہے اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ وہ منافق ہے تو اس سے حدیث قبول ہی نہ کریں گے اور نہ اس کی تصدیق کریں گے لیکن وہ لوگ تو کہتے ہیں کہ یہ نبی ؐ کا صحابی ہے اس نے نبی کو دیکھا ہے ان سے حدیث سنی ہے اور ان سے حاصل کیا ہے اس لئے لوگ اس سے حدیثیں لیتے ہیں حالانکہ اللہ نے تمہیں منافقین کے بارے میں خبردار کردیا ہے اور ان کی صفتیں بتادی ہیں یہ منافقین نبی ؐ کے بعد بھی باقی رہے اور گمراہی کے اماموں،جھوٹ اور بہتان کے ذریعہ جہنم کی طرف دعوت دینےوالوں کے یہاں تقرب حاصل کرلیا نتیجہ میں انھیں اعمال کا ولی بنادیا اور لوگوں کی گردنوں پر انھیں مسلط کردیا پھر ان کے توسط سے خوب مال دنیا سمیٹا اس لئے کہ لوگ تو بادشاہ اور(مال)دنیا کے ساتھ رہتے ہی ہیں مگر یہ کہ جس کی خدا حفاظت کرے(۱)

نبیؐ کے بعد منافقین کی حرکتیں اور تیزدستیوں کے بارے میں ابن الحدید کی گفتگو

ابن ابی الحدید مولائے کائنات ؑ کی مذکورہ بالا حدیث کی تشریح کے بعد لکھتے ہیں کہ حضرت نے محدثین کی بالکل صحیح تقسیم کی ہے منافقین دور پیغمبر میں بھی تھے آپ کے بعد بھی باقی رہے پھر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حضور کی وفات کے ساتھ ہی نفاق بھی مرگیا البتہ پیغمبر کے بعد منافقین کے حالات پوشیدہ رہنے کی وجہ یہ ہے کہ سرکار دو عالم ؐ کے دور میں وحی کا سلسلہ جاری تھا قرآن میں منافقین کے بارے میں جو کچھ نازل ہوتا تھا سرکار مسلمانوں کو اس سے باخبر کردیا کرتے تھے لیکن جب سرکار ؐ کی وفات کی وجہ سے وحی کا سلسلہ بند ہوگیا تو اب کوئی ایسا آدمی نہیں رہا جو منافقین کی غلطیوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) نہج البلاغہ ج: ۲ ص: ۱۸۹،۱۸۸ ،اسی طرح ینابیع المودۃ ج: ۳ ص: ۴۱۰،۴۰۹

۷۲

اور لغزشون کی نشان دہی کرے ان کے اعمال پر ان کی توبیخ کرے اور مسلمانوں کو ان سے پرہیز کرنے کی تلقین کرے نیز کبھی کھل کے اور کبھی اشاروں،کنایوں میں بات کو سمجھائے سرکار دو عالم ؐ کے بعد جو لوگ حکومت میں تھے وہ منافقین کے ظاہر کو دیکھتے ہوئے ان سےحسن سلوک پر مجبور تھے اس لئے کہ دین اور دنیاوی سیاست انھیں ظاہر پر عمل کرنے کا حکم دیتی ہے چونکہ خلفا ان کے بارےمیں کچھ نہیں بولتے تھے اس لئے ان کا ذکر قریب معدوم ہوگیا نتیجہ میں منافقین نے اس بات پر اقتصار کیا کہ ان کے دل میں جو کچھ ہے اسے چھپائے رہیں اور ظاہری طور پر مسلمانوں سے ملتے رہیں( ۱) اور مسلمانوں سے معاملات کرتے رہیں اس کے بعد تو مسلمان فتوحات میں مصروف ہوگئے اور مال غنیمت آنےلگا منافقین مال غنیمت میں مشغول ہوگئے اور پیغمبر ؐ کے زمانے میں جو حرکتیں کرتے تھے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) ابن ابی الحدید یا تو غافل ہیں یا تجاہل عارفانہ کررہے ہیں اور شاید انھوں نے حذیفہ کا جملہ نہیں دیکھا ہے جس میں انھوں نے فرمایا ہے کہ:آج کے منافقین کل کے منافقین سے زیادہ خطرناک ہیں عہد رسول میں وہ اپنے نفاق کو مخفی رکھتے تھے جب کہ آج کل اس کے اظہار سے وہ کوئی خوف و ہراسی نہیں رکھتے،حذیفہ کا ہی یہ قول بھی ہے کہ:عہد رسول میں نفاق نفاق تھا لیکن آج نفاق نہیں بلکہ ایمان کے بعد کفر میں بدل گیا ہے جیسا کہ ابن ابی الحدید نے مولیٰ کے سابقہ کلام سے غفلت کی ہے یا جان بوجھ کر تغافل کیا ہے اس لئے کہ اہل بدعت اور روایات کے اختلاف کے متعلق سوال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس قوم کی جعلی روایتیں مولیٰ علیؑ کے دور میں دہن بہ دہن نقل ہورہی تھیں حق اور باطل کا تمیز دینا مشکل ہوگیا تھا اس لئے سائل نے اپنی حیرانی و سرگردانی دور کرنے کے لئے یہ سوال کیا اور مولیٰ علیؑ کا جواب قرینہ ہے کہ منافقین سابق حکام سے تعاون کرتے تھے اور سابقہ حکام کو ان کے کرتوت کا علم تھا بلکہ ان کی شبہ جعل سازی کا سلسلہ قائم تھا اور منافقین اپنے حالات کو چھپانے کی ضرورت نہیں محسوس کرتے تھے،بلکہ معاویہ کے زمانے میں جو جعلی احادیث نشر ہوئی ہیں تو اس میں کسی کا کوئی کلام نہیں ہے کہ اس میں خود معاویہ کا تعاون تھا اور یہ عہد امیرالمومنین کے بعد کا مسئلہ ہے لہذا سوال کا تعلق مولیٰ کے دور سے کیا بھی نہیں جاسکتا،اس مقام پر امام علیؑ کا یہ قول بہت مناسب ہے جس میں آپ فرماتے ہیں:(کہاں ہے وہ لوگ جو ظلم و سرکشی اور ہمارے اوپر زیادتی کی خاطر تصور کرتے ہیں کہ وہ راسخون فی العلم ہیں،ہم راسخون فی العلم ہیں،اللہ نے ہمیں مرتبہ بنایا اور انھیں ذلیل و رسوا کردیا ہے،ہمیں علم و فضل سے نوازا ہے اور انھیں محروم رکھا ہے ہمیں اپنی رحمت و مغفرت کے زمرہ میں شامل کرلیا ہے جب کہ انھیں اس سے نکال کر باہر کردیا ہے،ہماری بدولت ہدایت و سعادت کو حاصل کیا جاسکتا ہے اور....

۷۳

اب مال دنیا دیکھ کے وہ حرکتیں روک دیں خلفاء نے بھی انہیں مسلمان اسراء کے ساتھ بلاد فارس و روم میں بھیج دیا وہاں دنیا نے انہیں ایسا الجھایا کہ وہ دور پیغمبر ؐ کی تمام حرکتیں جن پر انہیں سزا ملتی رہتی تھی بھول گئے اور ان میں سے کچھ تو راہ راست پر آگئے اور ان کی نیت میں خلوص آگیا کیونکہ فتوحات کا سلسلہ چل پڑا تھا ۔

جب انہیں چھوڑدیا گیا تو انہوں نے بھی اپنی حرکتیں چھوڑدیں اور جب ان کے بارے میں خاموشی برتی گئی تو وہ اسلام کے بارے میں جو واہی بکتے تھے اس کو بند کردیا مگر یہ کہ زیرزمین سازشوں میں مصروف ہوگئے ۔

اسی کی طرف سرکار مولائے کائنات ؑ نے اشارہ فرمایا ہے کہ منافقین کی سازش کی وجہ سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

......ہمارے ہی ذریعہ گناہوں کا اندھا پن دور کیا جاسکتا ہے

تعجب تو یہ ہے کہ خود ابن ابی الحدید نے اسی جملہ پر حاشیہ آرائی فرماتے ہوئے لکھا ہے:(امام کا یہ فرمانا کہ:کہاں ہیں وہ لوگ اپنے کو راسخون فی العلم گمان کرتے ہیں)یہ کلام صحابہ کی ایک جماعت کی طرف اشارہ و کنایہ ہے جو مولیٰ سے فضل و فضیلت میں نزاع کرتے رہتے تھے،صحابہ میں سے کچھ ایسے تھے جو اپنے کو فرائض کا ماہر،سب سے بڑا قاری قرآن،ذہین و فہیم اور حلال و حرام کے متعلق سب سے زیادہ علم رکھنےوالا سمجھتے تھے جب کہ سب کو یہ معلوم تھا کہ حضرت علیؑ ہیں،امت مسلمہ کے سب سے بڑے قاضی اور قضاوت بےپناہ علم و فضل کی طالب ہے جب کہ دوسرے فضائل ایک دوسرے کے محتاج ہیں لہذا ثابت ہو کہ مولیٰ سب سے بڑے فقیہ اور صحابہ میں سب سے زیادہ صحاب علم تھے،اس کے بووجود آپ اس بات سے راضی نہ تھے اور سابقہ روایت بھی سچی نہیں ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فلاں صاحب سب سے زیادہ فرائض و واجبات سے آگاہ تھے بلکہ مذکورہ روایت کذب و افتراء ہے اور اسے کچھ حاسد قسم کے صحابیوں نے از راہ سرکشی و بر بناء ظلم و ستم،نیز بنی ہاشم کے گھرانے سے دشمنی و عناد نے گڑھنے پر مجبور کردیا ہے کیوں کہ اللہ نے انھیں بلندی عطا کی ہے جب کہ بنی ہاشم کے علاوہ لوگوں کو محروم رکھا ہے)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید،ج:۹ص:۸۶

مسند احمدج:۵ص:۳۹۱۔حدیث:حذیفہ بن یمان نے نبی سے حدیث نقل کی،مجمع الزوائد،ج:۱۰،ص:۶۳،کتاب مناقب،باب،کوفہ میں آنا،مسند احمد،ج:۵ص:۳۹۰،حدیث:حذیفہ بن یمان نے نبی سے حدیث نقل کی،مصنف لابن ابی شیبۃ،ج:۷ص:۴۶۰،کتاب الفتن،تفسیر ابن کثیرج:۲ص:۳۰۰،احمد ابن حنبل،ص:۴۳،حلیۃ الاولیاء،ج:۱ص:۲۷۹،حذیفہ بن یمان کے حالات میں

۷۴

حدیثوں میں کثرت سے جھوٹ شامل ہوگیا یہ جھوٹ(منافقین)غلط عقیدہ رکھنےوالوں نے صادر کیا،مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو گمراہ کردیا جائے،دل اور دل کے عقیدوں کو خبط کردیا جائے،اس سلسلہ میں انہوں نے کچھ لوگوں کے بارے میں بڑھا چڑھا کے حدیثیں بنانی شروع کیں حالانکہ ان کی مدح میں دنیاوی مقاصد پوشیدہ تھے کہا جاتا ہے کہ معاویہ کے دور میں اس طرح کی حدیثیں بہت بنائی گئیں ۔

جن لوگوں کو علم حدیث میں رسوخ حاصل تھا وہ اس حادثے پر خاموش نہیں رہے بلکہ انہوں نے بہت سی موضوعی حدیثوں کا ذکر کیا اور صاف کہہ دیا کہ یہ حدیثیں موضعی ہیں اور ان کے رواۃ قابل اعتبار نہیں ہیں مگر یہ محدیثین صرف ان پر ہی طعن کرتے تھے،جو صحابیت کے مرتبے سے نیچے تھے اور ان پر طعن کرنے کی جسارت نہیں کرتے تھے،جن کے لئے صحابہ کا لفظ استعمال ہوتا تھا( ۱) لیکن کبھی وہ بُسر بن ارطاۃ جیسے صحابی پر طعن کرنے سے نہیں چوکتے تھے ۔

حضرت امام محمد باقرؑ کے وضعی حدیثوں کے بارے میں ارشادات

پھر ابن حدید لکھتے ہیں ابوجعفر محمد باقر ؑ نے اپنے بعض اصحاب سے فرمایا:تم دیکھتے ہو کہ قریش نے ہم پر کیسے کیسے ظلم کئے اور ہمارے خلاف کیسے مظاہرے کئے ہمارے شیعہ اور چاہنےوالوں کو لوگوں نے کس طرح ستایا حضور ؐ سرور کائنات کی وفات ہوگئی،حضور ؐ نے بتادیا تھا کہ ہم اہلبیت ؑ عام لوگوں سے زیادہ مستحق ہیں لیکن قریش نے چشم پوشی کی اور حکومت اس کے معدن(مستحقین)کے ہاتھ سے نکل گئی(لطف یہ ہے کہ قریش نے انصار پر ہمارے حق سے احتجاج کیا اور جب حکومت حاصل ہو گئی تو وہ حکومت کو ایک کے بعد دوسرے کے ہاتھ میں گھماتے رہے یہاں تک کہ عثمان کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) کلام امیرالمومنینؑ میں احادیث وضعی و جعلی سے مراد وہ احادیث ہیں جو منافق صحابہ نے وہ بھی رسول خدا کے دور میں گڑھی تھیں۔

( ۲) شرح نہج البلاغہ ج: ۱۱ ص: ۴۲،۴۱

۷۵

بعد)حکومت ہماری طرف واپس ہوئی،انھوں نے ہماری بیعت توڑ دی اور ہم سے جنگ کرنے کو اُٹھ کھڑے ہوئے صاحب امر مسلسل ان کے ہاتھ سے تنگی اور سختیاں جھیلتا رہا یہاں تک کہ شہید کردیا گیا پھر(امیرالمومنین ؑ کے صاحبزادے)امام حسن ؑ کی بیعت کی گئی اور معاہدے کئے گئے پھر ان معاہدوں کو توڑے کے غداری کی گئی اور اہل عراق ان پر ٹوٹ پڑے یہاں تک کہ آپ کے پہلو کو خنجر سے زخمی کردیا اور آپ کی لشکرگاہ کو لوٹ لیا گیا آپ کی عورتوں کے زیور لوٹ لئے گئے اور آپ کو حکومت کی باگ ڈ ور معاویہ کے سپرد کردینا پڑی اور اس نے آپ کا اورآپ کے اہل بیت ؑ کا خون بہانا شروع کیا حالانکہ وہ تو پہلے ہی سے کم تھے ۔

پھر لوگوں نے امام حسین ؑ کی بیعت کی تقریباً بیس ہزار لوگوں نے آپ کی بیعت کی اور پھر لوگوں نے دھوکا دیا اور آپ کو شہید کر ڈ الا جب کہ ان کی گردنوں میں آپ کا قلادہ بیعت موجود تھا ۔

پھر ہم اہل بیت ؑ مسلسل ذلت و رسوائی اور قتل و غارت گری صحرا اور بیابانوں کی آوارگی جلاوطنی کو جھیلتے رہے ہمیں شہید کیا جاتا رہا ہمیں طرح طرح سے ڈ رایا جاتا رہا، نہ ہم اپنی جان کو محفوظ سمجھتے ہیں نہ اپنےچاہئے والوں کی جان کو محفوظ سمجھتے ہیں،آج صورت حال یہ ہے کہ کاذبین و جاحدین اپنے کذب و جحود کو اپنے ظالم بادشاہوں اور بدکردار گورنروں کے پاس تقرب کا ذریعہ بنا کے استعمال کرتے ہیں تا کہ ہر شہر میں ان بادشاہوں اور گورنروں کے قریب رہ سکیں،پس انھوں نے جھوٹی اور مصنوعی حدیثیں بیان کرنا شروع کردیں اور ہم سے ایسی حدیثوں کو منسوب کرتے ہیں جو نہ ہم نے کہی ہے نہ نقل کیا ہے،مقصد یہ ہے کہ اس جھوٹ کے ذریعہ وہ لوگوں کے دلوں میں ہمارا بغض پیدا کرسکیں،امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد معاویہ کے دور میں یہ کام بڑے پیمانے پر ہوا،صورت حال یہ تھی کہ ایک آدمی جس کا لوگ خیر کے ساتھ ذکر کرتے تھے اور اس کو نہایت متقی اور سچا بھی سمجھتے رہے،وہی خلفا کی فضیلت میں بڑی عجیب حدیثیں بیان کرتا تھا،ایسی باتیں جنھیں

۷۶

اللہ نے پیدا ہی نہیں کیا اورجن کا عالم واقع میں کوئی وجود نہیں انہیں بیان کرتا تھا اورسمجھتا تھا کہ یہ باتیں حق ہیں اس لئے کہ یہ باتیں ان کثیر افراد کے ذریعہ پھیلائی گئی ہیں جنہیں لوگ جھوٹا نہیں مانتے اور ورع وتقدس میں کم نہیں سمجھتے-(۱)

جعلی حدیثوں کے بارے میں مدائنی اور نفطو یہ کی روایت

پھر ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ:"ابو الحسن علی بن محمد بن ابوسیف مدائنی ، اپنی کتاب " الاحداث "میں لکھتے ہیں: معاویہ نے عام الجماعت کے بعد اپنے گورنروں کو ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں لکھا تھا کہ جو بھی ابوتراب اور ان کےاہل بیت ع کے فضائل میں کوئی حدیث بیان کرے گا اس سے میں بری الذمہ ہوں پس خطیبوں نے قریہ قریہ ، شہر شہر پابندی کے ساتھ ہر منبر سے علی پر لعنت بھیجنی اور ان کے اہل بیت ع سے تبراء کرنا شروع کردیا ،وہ علی اور اہل بیت علی کو برابھلاء کہتے تھے پھر معاویہ نے حکومت کے تمام گورنروں کو لکھا کہ شیعیان علی اور اہل بیت علی کی گواہی نہ قبول کی جائے اس نے لکھ بھیجا کہ عثمان کے شیعہ اس کے چاہنے والے اور اس سے محبت کرنے والوں کو نیز وہ لوگ جو اس کے فضائل ومناقب بیان کرتے ہیں انہیں اپنی مجلسوں میں منزلت دی جائے اور ان کی عزت کی جائے ایسے لوگوں کی روایتیں اور ان کا اور انکے باپ کا نام اور ان کے قبیلوں کا نام لکھ کر کے میرے پاس بھیج دیا جائے، گورنروں نے ایسا ہی کیا نتیجہ میں عثمان کے فضائل ومناقب کی کثرت ہوگئی ، تب معاویہ نے اپنے گورنروں کو لکھا کہ عثمان کے فضائل بہت ہوگئے ہیں اور تمام جگہوں پر کثرت سے پھیل گئے ہیں جب میرا خط تم تک پہنچے تو تم لوگوں کو ایسی روایتوں کی طرف ترغیب دو جس میں صحابہ اور خلفاء اولین کے فضائل بیان کئے گئے ہیں اور ابو تراب فضیلت میں اگرکوئی مسلمان کوئی حدیث بیان کرتا ہو تو تم فورا صحابہ کی فضیلت میں اس کے متناقض حدیث بنالو یہ کام میرے لئے محبوب تر ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک کا سبب ہے اور اس طرح علی اور ان کے شیعوں

-----------------

(۱)شرح نہج البلاغہ ج :۱۱ ص ۴۳،۴۴

۷۷

کی حجت باطل کرنا آسان ہوگا اور عثمان کا بیان ان پر بڑا گرا ہوگا،یہ خط جب لوگوں کے سامنے پڑھا گیا تو لوگوں نے صحابہ کے فضائل میں ڈ ھیر ساری حدیثیں گڑھ ڈ الیں جن کی کوئی حقیقت نہیں تھی اور پھر لوگ اسی راستے پر نئی نئی حدیثیں بناتے چلے گئے یہاں تک کہ منبروں سے یہ مفتریات بیان ہونے لگے اور انھیں جعلی حدیثوں کو مدرسوں کے معلمین کے سپرد کردیا گیا اور انھوں نے بچوں اور لڑکوں کو یہ حدیثیں بڑے پیمانے پر پڑھانی شروع کردیں اور بچے ان جعلیات کو اس طرح سیکھنے لگے جیسے قرآن سیکھتے تھے حد تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں عورتوں،خادموں اور چوکیداروں کو ان مفتریات کی تعلیم دی اور جب تک خدا نے چاہا یہ صورت حال برقرار ہی نتیجہ میں بہت سے موضوع کی حدیثیں ظاہر ہوگئیں،بہتانوں کی اشاعت ہوئی اور فقہا،قضاۃ اور وُلاۃ سبھی اسی راستے پر چل نکلے اس بلا میں سب سے زیادہ ریاکار قاریوں کا ٹولہ اور کمزور عقلوں والے گرفتار ہوئے جو صرف اپنے حلوے مان ڈ ے کے لئے اور اپنے امیروں کی خدمت میں تقرب حاصل کرنے کے لئے ان جعلی حدیثوں سے کھیلتے تھے نتیجہ میں انھوں نے ان حدیثوں سے خوب مال بنایا اور انعام اور مرتبے حاصل کئے،اب تو صورت حال یہ ہوگئی کہ یہ جھوٹی اور جعلی حدیثیں ان کے ہاتھوں میں بھی پہنچ گئیں جو دیانتدار تھے ۔ اور کذب و بہتان کو قبول نہیں کرتے تھے انھوں نے ان حدیثوں کو حق سمجھ کر قبول کرلیا اور اگر انھیں معلوم ہوتا کہ یہ حدیثیں باطل ہیں تو ان کی روایت کبھی نہیں کرتے ۔

یہی سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ امام حسن بن علی علیہ السلام کی شہادت ہوجاتی اور فتنہ اور مصیبت میں اضافہ ہوجاتا ہے،پھر ایسا کوئی باقی نہیں بچا جز یہ کہ وہ اپنی جان کا خطرہ محسوس کرتایا جلاوطنی اور دربدری کا خوف رکھتا ہو،پھر امام حسین علیہ السلام کے قتل کے بعد یہ گھٹن اور اضطراب کا دور آجاتا ہے اور عبدالملک بن مروان حاکم ہوجاتا ہے تو شیعوں کے لئے سختیوں کا سامنا ہوتا ہے اور ان پر حجاج بن یوسف کو حاکم قرار دیا جاتا ہے پھر تو اہل تقویٰ اور دیندار صاحب ورع اور پرہیزگار افراد علی کے بغض کو بہانا بنا کر اس سے قریب ہوجاتے ہیں بلکہ اُن کے تمام چاہنےوالوں کی دشمنی کو تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے اور اُن کے فضل اور گذشتہ کارناموں اور فضائل و مناقب میں روایات کی

۷۸

بھرمار ہوجاتی ہے اور علی سے دشمنی میں اُن کے فضائل سے چشم پوشی کی جاتی ہے اور ان پر عیوب لگا کر اُن پر لعن طعن شروع ہوجاتی ہے

ابن عرفہ جو نَفطویہ کے نام سے مشہور ہیں اور بڑے محدثین بلکہ ان کے اعلام میں شمار کئے جاتے ہیں اپنی تاریخ میں اسی مناسبت سے فرماتے ہیں:صحابہ کے فضائل میں موضوعی حدیثیں زیادہ تر بنوامیہ کے دور میں گڑھی گئیں،تا کہ ان سے تقرب حاصل ہوسکے،بنوامیہ یہ سمجھتے تھے کہ ان وضعی حدیثوں کے ذریعہ ہم بنوہاشم کی ناک رگڑدیتے ہیں ۔(۱)

جعلی حدیثوں میں صحاحِ ستّہ کا حصّہ

ممکن ہے کوئی کہے کہ ان جعلی حدیثوں کو صحاح میں جگہ ملی ہوگی،لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہے،ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ صحیح مسلم اور صحیح بخاری نے عمروعاص جیسے آدمی سے حدیث لی ہے،اسناد کو عمروعاص سے ملا کے یہ حدیث لکھی ہے کہ عمروعاص نے کہا میں نے ہادی برحق کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ،بنوہاشم میرے اولیا نہیں ہیں،ہمارا ولی تو صرف اللہ اور صالح المومنین ہیں(۲)

ہاں حدیثوں میں بگاڑ پیدا ہونے سے جہاں یہ فائدہ حاصل ہوا کہ متاخرین کے دماغ میں صحابہ کی عدالت مستحکم ہوگئی یہاں تک کہ عمروعاص جیسے مکار آدمی کی عدالت اور صحیحین(بخاری اور مسلم)میں اس کا نام آجانے سے اس کی عظمت بھی ثابت ہوگئی،وہاں یہ نقصان ہوا کہ اہل حدیث((طالب))کا کلمہ حذف کرنے پر مجبور ہوگئے یا تو اس کی جگہ چھوڑ دیا کرتے تھے یا پھر وہاں پر اس کے نام کی جگہ((فلان))لکھ دیا کرتے تھے،ابن حجر عسقلانی نے اس موضوع پر طویل بحث کی ہے،آپ کو چاہئے کہ ان کی اس بحث کو دیکھیں ۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) شرح نہج البلاغہ ج: ۱۱ ص: ۴۴ ۔ ۴۶

( ۲) شرح نہج البلاغہ ج: ۴ ص: ۶۴ ،کلام امیرالمومنینؑ کے ذیل میں،ج: ۱۱ ص: ۴۲

( ۳) فتح الباری ج: ۱ ص: ۳۳۱ مقدمہ میں

۷۹

انشااللہ آپ کے آٹھویں سوال کے جواب میں صحاح کے بارے میں باقی گفتگو کی جائےگی،اہل سنت حدیثوں پر یوں بھی زیادہ نظر رکھتے ہیں کہ انھوں نے جرح و تعدیل کے جو قواعد بنائے ہیں ان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اہل بیت اطہار صلوات اللہ علیھم کے بارے میں ان کے کیا نظریات ہیں اور ان کے دشمنوں کے بارے میں اہل سنت کا کیا نظریہ ہے،آٹھویں سوال کے جواب میں انشااللہ کچھ باتیں بھی آئیں جو نفع بخش ہوں گی،ہمارے علما نے بھی اس موضوع پر طویل گفتگو کی ہے،ذوق جستجو رکھنےوالوں کو ان کی کتابیں بھی پڑھنی چاہئے،ہم نے تو اتنی باتیں صرف اس لئے کردیں تا کہ معلوم ہوجائے اہل بدر کی حدیث ہماری نظر میں ہے مگر صرف ہم اس کا تحفظ کیا ہے،تردید یا انکار نہیں کیا ہے،اس لئے کہ انکار کے لئے دلیل چاہئے،جس طرح اثبات محتاج دلیل ہے،لیکن تحفظ کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں ہے،اس حدیث کے ظروف و سلبیات کا تذکرہ کردینا کافی ہے تا کہ یہ حدیث کس ماحول میں وارد ہوئی ہے پتہ چل سکے اور میں نے گذشتہ سطروں میں یہ ضرورت پوری کردی ہے ۔

اہل بدر کے بارے میں وارد حدیثوں کا متن

بہرحال مذکورہ حدیث کے بارے میں گفتگو کرنا بہتر نہیں ہے جب تک متن حدیث کو نہ پیش کردیا جائے،یہ حدیث(مختلف اللفظ)لیکن متقارب المعنی صورتوں میں وارد ہوئی ہے،ہم صحیح مسلم کی عبارت آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں،مسلم نے اپنی سند کے ساتھ عبیداللہ بن ابی رافع سے روایت کی ہے،انہوں نے کہا میں نے علی ؑ سے سنا ہے کہ ایک دن پیغمبر اعظم ؐ نے مجھے،زبیر اور مقداد کو بلایا اور فرمایا کہ((روضہ خاخ،تک جاؤ وہاں ایک عماری ہے(جس میں ایک عورت بیٹھی ہے)اس کے پاس ایک خط ہے اس کو لےلو پس ہم چلے اور وہ خط لاکے حضور ؐ کی خدمت میں پیش کردیا،وہ خط

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367