فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ15%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 207022 / ڈاؤنلوڈ: 6015
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

میں شامل ہوجاتے ہیں پھر ان کی حد بندی مشکل ہے ہاں یہ ممکن ہے کہ اس لفظ کے معنی کو چند افراد میں جامد کردیا جائے یعنی بس وہی لوگ سابقون اولون ہیں جو اسلام کی طرف پہلی دعوت کے وقت اسلام میں داخل ہوئے اور نبی ؐ کی آواز پر لبیک کہی ظاہر ہے کہ یہ چند افراد ہوں گے جنہیں انگلیوں پر شمار کیا جاسکتا ہے اور ان کی نجات کا یقین ہونا صحیح لگتا ہے وہ بھی اس لئے نہیں کہ آیہ شریفہ میں سابقون اوّلون سے نجات کا وعدہ کیا گیا ہے بلکہ اس لئے کہ ان کے حالات صحیح تھے اور ان کا خاتمہ اسلام پر ہوا ہے اگر ایسا ممکن ہو تو ان کے حالات دیکھ کر ان کی سلامتی کو یقینی قرار دیا جاسکتا ہے لیکن سابقون اوّلون کی لفظ کی عموم پر محمول کرنا اور ان لوگوں کو سابقون اوّلون میں شامل کرنا جن کو عام آدمی سابقون اوّلون سمجھتا ہے تو اس کو ثابت کرنےکے لئے دلیل لانی پڑےگی اگر دلیل مل بھی جائے تب بھی سابقون اوّلون کی دقیق حد بندی کرنا دشوار ہے ۔

سابقون اوّلون نقد و جرح سے بالاتر نہیں ہیں اس پر امت کا اجماع ہے

میرے خیال میں جمہور مسلمین بھی سابقون اولون کو جرح و تنقید سے بالا نہیں سمجھتا اور ان کو صرف اس وجہ سے کہ ان کی سلامتی قطعی اور نجات یقینی ہے کوئی خاص خصوصیت دیتے(چاہے شیعہ مسلمان ہو یا سنّی،یعنی سابقون اوّلون کی مذکورہ بالا خصوصیت کی بنیاد پر انھیں کوئی خاص امتیاز حاصل نہیں ہے)

جہاں تک شیعوں کا سوال ہے تو یہ تو سبھی جانتے ہیں(کہ یہ قوم شخصیت پرست نہیں اور کسی کے رعب میں اس کی سبقت و غیرہ کی وجہ سے نہیں آنےوالی)لیکن اہل سنت اکثریت کے نزدیک صحابی وہ ہے جو پیغمبر ؐ کو دیکھے اور ان سے حدیث سنے اور بعض وہ لوگ ہیں جبھیں صحابہ کی تنقید انھیں مجبور کرتی ہے اور وہ ان کے حالات جاننے کی کوشش کرتے ہیں میں نے آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں اس سلسلے میں بہت کچھ عرض کردیا ہے ۔

۶۱

صحابہ کی لفظ کا صرف سابقون اوّلون پر محمول کرنا ہی قابل تامل ہے

دوسرا امر ۔ آپ نے فرمایا عام مسلمان سابقون اوّلون ان لوگوں کو سمجھتے ہیں جو احادیث نبی ؐ اور قرآنی آیات میں صحابہ یا اسی کے ہم معنی لفظ سے یاد کئے جاتے ہیں،

جواباً عرض ہے کہ پورے قرآن میں اصحاب نبی ؐ کو صحابہ کے نام سے صرف ایک جگہ معنوں کیا گیا ہے،ارشاد ہوتا ہے کہ:(إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا) (۱)

ترجمہ آیت:(اگر تم اس کی مدد نہیں کروگے تو نہ کرو اللہ اس کی مدد کرے گا جب اس کو(نبی ؐ کو)کفار نے مکہ سے نکال دیا تھا تو وہ دو میں کا دوسرا تھا جب وہ دونوں نماز میں تھے جب وہ اپنے صحابی سے کہہ رہا تھا کہ ڈ رو نہیں اور غم نہ کرو بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اپنے نبی ؐ پر سکینہ نازل کیا اور ایسے لشکر سے مدد کی جس کو تم نہیں دیکھ سکتے) ۔

اس آیت میں ظاہر ہے کہ صاحب سے مراد صحبت مکانی ہے اور بس اب رہ گیا دوسری آیتوں میں خطاب تو وہ صحابی کی لفظ سے ہے ہی نہیں بلکہ مخاطب عام مومنین ہیں ۔

ارشاد ہوتا ہے:(مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُعَلَىالْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ...) (۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ توبہ آیت ۴۰

( ۲) سورہ فتح آیت ۲۹

۶۲

ترجمہ آیت:محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں اور وہ لوگ جو آپ پر ایمان لائے کافروں پر سخت اور آپس میں رحم دل ہیں تم انہیں رکوع اور سجدہ کی حالت میں پاؤگے وہ خدا کے فضل کو تلاش کرتے رہتے ہیں ان کی پیشانیاں نشان سجدی سے چمکتی رہتی ہیں،ان کی مثال تو راۃ میں اور انجیل میں...

صدر آیت کے الفاظ تو عموم کا تقاضا کرتے ہیں ہر وہ شخص جو نبی ؐ کے ساتھ ہے وہ عام طور پر صحابی کہا جاتا ہے اس آیت کے تحت تو ہر وہ آدمی جو نبی ؐ کے ساتھ ہے چاہے سابقون اوّلون میں ہو چاہے ان کے بعد والا صحابی کہا جاسکتا ہے مشکل یہ ہے کہ آپ کے قول کے مطابق صحابہ صرف سابقون اوّلون کو کہا جاتا ہے لیکن آیت صحابیت کی حدود کو وسعت عنایت کر رہی ہے اس لئے یہ آیت سورہ فتح کی ہے اور سورہ فتح صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی تھی جب لوگ کثرت سے مسلمان ہوچکے تھے صلح حدیبیہ میں تو بہت سے مسلمان ہلاکت کے قریب پہنچ چکے تھے اس لئے کہ انہوں نے نبی ؐ کی آواز پر لبیک نہیں کہی تھی جیسا کہ حدیثوں میں وارد ہے اور آپ کے سوال ثانی کے جواب میں لکھا جاچکا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ یہ آیت صلح حدیبیہ کے سال میں جو عمرہ قضا ہوا تھا اس کی ادائیگی کے وقت نازل ہوئی ہو اور اس سال تو لوگ کثرت سے مسلمان ہوچکے تھے بلکہ بہت سے لوگ ضعف الایمان بھی تھے جو دائرہ اسلام میں داخل ہوکے کلمہ پڑھ چکے تھے البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ آیت انہیں لوگوں پر محمول ہوتی ہے جن کے اندر آیت کی بیان کردہ صفتیں پائی جاتی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ لوگ صحابہ کی اس خاص قسم سے تعلق رکھتے تھے جنہیں ان کی دینی قوت دین کے لئے فعالیت اور نبی ؐ کی سیرت اور کردار کو اپنانے کی وجہ سے عف عام میں انھیں خاص صحابی سے تعبیر کیا جاتا تھا اکثر انھیں ہی مقام مدح میں صحابی کہا جاتا تھا اس لئے کہ عرف عام میں کسی کو صحابی اس وقت کہتے ہیں جب وہ رئیس کا خاص آدمی ہو جس سے اس کی خاص معاشرت ہو اور وہ ان کے ساتھ مل کے کام کرتا ہو اور صحابی اس رئیس کی سیرت پر چل رہا ہو ۔

ظاہراً سابقون اوّلون اور اس آیت کے ممدوحین کے درمیان کسی طرح کا تطابق لازم نہیں ہے بلکہ ممکن ہے کہ بہت سے سابقون اوّلون میں آیت کی بیان کردہ صفتیں مفقود ہوں جس طرح یہ ممکن

۶۳

ہے کہ غیر سابقون اوّلون میں آیت کی بیان کردہ صفتیں موجود ہوں ظاہر ہے کہ ان صحابہ کو پہچاننے کے لئے اور ان کا یقین کرنے کے لئے ان کے ذاتی کردار ان کی زندگی کے واقعات ان کا چال چلن اور ان کی سریت کا ناقدانہ مطالعہ تو کرنا ہی پڑےگا ۔

ایک بات اور قابل توجہ ہے کہ آیت شریفہ میں بیان کردہ تمام صفات عالیہ کے باوجود خدا نے انہیں سلامتی اور نجات کا یقین نہیں دلایا ہے،نہ ہی ان سے کامیابی کا وعدہ کیا،مگر یہ کہ استقامت اور ایمان و عمل صالح پر ثابت قدم رہنے کی شرط لگادی ہے ملاحظہ ہو اس آیت کا اختتامیہ.ارشاد ہوتا ہے: (وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا) (۱)

ترجمہ آیت:(ان لوگوں میں جو لوگ مومن رہے اور عمل صالح کرتے رہے ان سے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے) ۔

ظاہر ہے کہ جب اللہ ایسے پاک اور پاکیزہ لوگوں کے لئے مغفرت اور اجر عظیم میں استقامت کی شرط لگاتا ہے تو پھر دوسروں کے لئے کیوں نہیں شرط لگائےگا؟

اب رہ گیا سنّت شریفہ کا سوال تو میری یہ سمجھ میں نہیں آتا ہے احادیث نبوی میں جو حدیثیں صحابہ کی مدحت میں وارد ہوئی ہیں انھیں سابقون اوّلون پر اور مذمت والی احادیث کو غیر سابقین پر حمل کیا جاسکتا ہے؟کیا یہ زبردستی اور بےدلیل قرینہ حکم نہیں ہے؟(مذمت والی بعض احادیث حدیث خوض کی بحث میں گذرچکی ہیں جنھیں دوسرے سوال کے جواب کے ضمن میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ )اگر کوئی قرینہ ہے تو وہ زبردستی اور ہٹ دھرمی کے قرینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے،ان حدیثوں کے مضامین میں کچھ تو عموم کا فائدہ دیتے ہیں یعنی قرینہ عموم پایا جاتا ہے،آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں عرض کیا تھا کہ نبی ؐ نے اصحاب کو خطاب کرکے فرمایا((تم ضرور ضرور پیروی کروگے اپنے پہلے والوں کی حتیٰ کہ اگر وہ سوسمار کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی ان میں داخل ہوگے))اس حدیث میں حضرت نے کسی مخصوص مسلمان کے بارے میں نہیں کہا ہے ایسی عام بات فرمائی کہ تم اُمَم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ فتح آیت۲۹

۶۴

سابقہ کی طرح انحراف کروگے اس عموم میں سب شامل ہیں بلکہ وہ بھی جو صحابہ میں صاحب مقام شمار کئے جاتے ہیں اس لئے کہ اُمَم سابقہ میں بہت سے مقام و منزلت والے بھی انحراف اور کجروی کا شکار ہوگئے تھے جیسے امت موسیٰ ؑ کا خالہ زاد بھائی تھا یہ جعفر صادق علیہ السلام کا قول ہے(۱) اور ابن عباس(۲) کا بھی یہی قول ہے ابن اسحٰق(۳) کہتے ہیں چچازاد بھائی تھا اور سامری شان اور مرتبہ والا تھا(عام لوگوں سے اس کی نگاہیں تیز تھیں)قرآن کہتا ہے کہ:(قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَٰلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي) ( ۴ )

ترجمہ آیت:(سامری نے کہا مجھے وہ چیز دکھائی دی جو اوروں کو نہ سوجھی جبرئیل گھوڑے پر سوار جارہے تھے تو میں نے جبرئیل(فرشتے کے گھوڑے)کے نشان کے قدم کی ایک مٹھی خاک اٹھالی اس وقت میرے نفس نے اس کا سوال کیا) ۔

(قرینہ کہتا ہے کہ سامری اور قارون دونوں ہی امت موسیٰ کے سابقون اوّلون میں شامل تھے)یہ سمجھنا بعید از فہم ہے کہ انھوں نے موسیٰ کی دعوت قبول کرنے میں تاخیر کی ہوگی یا ان کی تصدیق کرنے میں کوتاہی کی ہوگی(اس لئے عذاب کا شکار ہوئے نہیں بلکہ وہ لوگ پہلے ہی دعوت موسیٰ پر لبیک کہہ چکے تھے اور شریعت موسیٰ کو گلے لگا چکے تھے کیوں کی دعوت موسوی بنی اسرائیل کی نجات پر مبتنی تھی یہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔

اس کے قبل ایک حدیث موطا ابن مالک سے پیش کی جاچکی ہے،مجھ سے مالک نے اور ان سے عمر بن عبیداللہ کے غلام ابونضر نے بیان کیا کہ ان تک یہ بات پہنچی کہ حضور ؐ نے شہدا احد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مجمع البیان ج:۷ص:۴۵۹

(۲)مجمع البیان ج:۷ص:۴۵۹

(۳)تفسیر القرطبی ج:۱۳ص:۳۱۰،تفسیر الطبری ج:۲۰ص:۱۰۵،تفسیر ابن کثیرج:۳ص:۴۰۰

(۴)سورہ طٰہ آیت:۹۶

۶۵

کے بارے میں فرمایا:پالنےوالے میں ان پر گوہ ہوں،ابوبکر نے کہا یا رسول اللہ ؐ کیا ہم ان کے بھائی نہیں ہیں حضور ؐ نے فرمایا ہاں تم بھائی ہو لیکن مجھے نہیں معلوم کہ تم میرے بعد کیا کروگے؟،پھر نافع کی روایت بھی عرض کی جاچکی ہے وہ عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ سرکار ؐ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور آپ نے عایشہ کے گھر کی طرف اشارہ کر کے تین بار فرمایا،یہاں فتنہ ہے،یہیں سے شیطان کے سینگ نکلےگی))دوسری حدیثیں بھی اس کے قریب المعنی ہیں جیسے سرکار ؐ کے مولائے کائنات ؑ کو ناکثین سے لڑنے کا حکم دینا حالانکہ ناکثین میں تین نام سب سے آگے ہیں طلحہ،زبیر اور عایشہ ۔

ام سلمہ نے عبدالرحمٰن بن عوف کو حکم دیا کہ خدا کی راہ میں خرچ کیا کرو اس لئے کہ سرکار ؐ نے فرمایا تھا کہ میرے کچھ ایسے صحابی ہیں جنہیں مرنے کے بعد میں نہیں دیکھ سکوں گا اور نہ وہ مجھےکبھی دیک سکیں گے،ظاہر ہے کہ ام المومنین کا عبدالرحمٰن بن عوف کو انفاق کا حکم دینے میں یہی مصلحت تھی کہ کہیں وہ مردود اصحاب میں سے نہ ہوجائے حالانکہ عامتہ الناس کے مطابق وہ سابقون اوّلون میں سے تھے ان کے علاوہ ام المومنین کی حدیث میں جہاں صحابہ کی لفظ آئی ہے ان صحابہ میں سابقون اوّلون بھی شامل ہیں ۔

میرے بیان کو مزید تقویت اس وقت پہنچتی ہے جب ہم خود صحابہ کے حالات پر نظر کرتے ہیں اور ایک صحابی کا دوسرے صحابی کے بارے میں کیا نظریہ تھا اس کو دیکھتے ہیں صحابہ کے حالات بہرحال اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ انہیں مذکورہ خصوصیت(قطعی نجات اور سلامتی کا تغمہ)دی جائے میرے گذشتہ بیانات کو پڑھیے ۔

حاطب ابن ابی بلتعہ کے قصہ سے استدلال

تیسرا امر ۔ آپ فرماتے ہیں کہ سابقون اوّلون پر لعن طعن کرنے کی اجازت ہمیں سنت نبوی سے نہیں ملتی اور یہ کہ ہم صحابی اور اس کی منزلت کا فیصلہ اللہ پر چھوڑدیں اس لئے کہ اس وحدہ لاشریک نے

۶۶

انہیں اس منزلت سے سرفراز کیا ہے جیسا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کی حدیث سے ملتا ہے کہ کوئی حاطب بن ابی بلتعہ کی سرزنش کررہا تھا اللہ اہل بدر کے حالات سے خوب واقف ہے اور اس کا ارشاد ہے:تمہاری جو سمجھ میں آئے کرو اس لئے کہ میں تمھیں معاف کرچکا ہوں ۔

حاطب بن ابی بلتعہ کے قصے میں احتیاط

میں عرض کرتا ہوں کہ اس حدیث کو اہل سنت کے علما نے متعدد طریقوں سے نقل کیا ہے میں اس کے طریقوں میں سے کچھ کا بیان کروں گا،بہرحال یہ حدیث اتنی نقل کی گئی کہ اہل سنت کے یہاں تقریباً مسلمات میں شامل کردی گئی،فی الحال ابھی میں اس حدیث سے انکار بھی نہیں کرتا البتہ اس کا معنی سمجھنے میں تھوڑا احتیاط کرتا ہوں،پہلی بات یہ ہے کہ مجھے اس حدیث کے صادق ہونے کا پورا یقین نہیں ہے،دوسری بات یہ ہے کہ میں اس سے وہ معنی نہیں سمجھتا جو اہل سنت سمجھتے ہیں یعنی میں نہین سمجھتا کہ اس حدیث کی بنیاد پر عام اہل بدر کو سلامت قطعی اور نجات اخروی کی سند دیدی جائے ۔

مقام تقدّس میں صحابہ کو اہل بیت ؑ کے مقابلے میں لانے کی کوشش

اس موضوع پر گفتگو کرنے سے پہلے مقدمۃً کچھ باتوں کی طرف متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو اس منزل میں بھی اور دوسری جگہوں پر بھی نفع بخش ہیں ۔ ہر ایک انصاف پسند اور ذوقِ جستجو رکھنےوالے آدمی سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ اہل سنت کے علما فقہ ہوں یا رواۃ حدیث یا ان کے دشمن اہلبیت ؑ بادشاہ ہیں بہرحال جمہور اہل سنت کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ مقام تقدس میں اہل بیت ؑ کے مقابلے میں صحابہ کو لا کر کھڑا کریں اور صحابہ کو اہل بیت ؑ سے زیادہ قابل احترام ثابت کریں یعنی اہل بیت ؑ کا تقدس جیسے قرآن مجید:(لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ) (۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ فصلت آیت۴۲

۶۷

ترجمہ آیت:(جس کے سامنے یا پیچھے سے باطل آ ہی نہیں سکتا وہ خدائے حکیم و حمید کا نازل کردہ ہے) ۔

اسی نے بیان کیا ہے اور سنت شریفہ نے جس کی تاکید کی ہے اس کے مقابلے میں صحابہ کو لائیں(تا کہ قرآن اور حدیث کے بیان کردہ)فضائل صرف اہل بیت ؑ سے مخصوص ہو کے نہ رہ جائیں یہ کوشش صرف اس لئے کی گئی کہ صحابہ کو کھینچ کے اہل بیت ؑ کے مقابلے میں لانے سے مسلمان صحابہ کو مرکز توجہ بنالےگا اور صحابہ کے فضائل میں مشغول ہو کے اہل بیت ؑ کی طرف مڑ کے نہیں دیکھےگا،جیسے جیسے وقت گذرتا گیا اور شیعہ مذہب کی طرف دعوت میں شدت ہوتی گئی اور شیعہ مقام اہل بیت ؑ اور ان حضرات کے مراتب جلیلہ کو قولاً و فعلاً واضح کرتے رہے اسی حساب سے اہل سنت صحابہ کے فضایل میں(جھوٹی باتیں)بیان کر کے ان کو محترم اور مقدس ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے یہاں تک کہ یہ ایک مستقل مذہب بن گیا،ان کوششوں کا مقصد یہ ہے کہ عالم اسلام صرف صحابہ پھر بھروسہ کرے انھیں کی طرف منسوب ہو جس طرح شیعہ اہل بیت اطہار ؑ پر اعتماد کرتے ہیں اور ان حضرات ہی کی طرف خود منسوب کرتے ہیں تا کہ مسلمان اہل بیت ؑ سے اعراج کا جواز پاجائے یا کم سے کم مقام تظیم و تقدس میں اہل بیت ؑ اور صحابہ میں افتراق نہ کرے ۔

نبی پر درود پڑھتے وقت اہل بیتؑ کو شامل کرنے کے بارے میں اہل سنّت کا نظریہ

اس بات کے علمی مشاہدہ کے لئے وہ حدیثیں کافی ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ اہل سنت اہل بیت کو داخل صلوات کرنے پر کس طرح تیار ہوئے

کعب بن عجرہ کہتے ہیں کہ پیغمبر ؐ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ ؐ آپ پر سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہے درود کیسے بھیجیں آپ نے فرمایا کہو:اللهم صل علیٰ محمد و علیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ آل ابراهیم انک حمید مجید پالنےوالے درود بھیج محمد ؐ اور ان کی آل پاک ؑ پر جیسا کہ تو نے آل ابراہیم ؑ پر درود بھیجا ہے بیشک تو قابل حمد اور بزرگ ہے پالنےوالے برکت

۶۸

دے محمدؐ کو جیسا کہ تو نے ابراہیمؑ کو برکت دی بیشک تو حمید و مجید ہے(۱)

بلکہ ناقص صلوات بھیجنے کی نہی(۲) وارد ہوئی ہے ناقص صلوات کا مطلب ہے آل کو چھوڑ کے صرف سرکار دو عالمؐ پر درود بھیجنا حالانکہ ہم اہل سنت کی صلوات کو دیکھتے ہیں تو تعجب ہوتا ہے یا تو یہ حضرات صرف نبیؐ پر صلوات بھیجتے ہیں یا اگر آل پر صلوات بھیجی تو اصحاب کو ضرور شامل کر لیتے ہیں ایسا صرف اس لئے ہے کہ یہ لوگ مقام تکریم و تقدیس میں صحابہ اور اہل بیتؑ میں تمیز نہیں کرتے۔

اہل سنت کے نظریہ کی توجیہ میں طحاوی کا بیان

طحاوی نے اہل سنت کے اس نظریہ کی عجیب و غریب توجیہ کی ہے وہ کہتا ہے:ظاہر ہے کہ آل و اصحاب کا ذکر صلوات میں مندوب ہے اصحاب تو اس لئے کہ وہ ہمارے اسلاف ہیں اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ان کے لئے حصول رضایت الٰہی کی دعا کریں رضی اللہ عنہ کہیں ان پر لعنت نہ کریں اب رہ گئی آل تو ان کو بھی صلوات میں شامل کرنا ہی پڑےگا اس لئے کہ حضور ؐ نے فرمایا مجھ پر دم کٹی صلوات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) صحیح بخاری ج: ۴ ص: ۱۸۰۲ کتاب التفسیر:باب(ان الله و ملائکة یصلون علی النبی یا ایها الذین آمنوا) ج: ۳ ص: ۱۲۳۳ کتاب الانبیاء:باب یزفون النسلان فی المشی ،ج: ۵ ص: ۲۳۳۸ کتاب الدعوات:نبیؐ پر صلواۃ بھیجنے کے باب میں مسلم ج: ۱ ص: ۳۰۵ کتاب الصلاۃ:نبیؐ پر تشہد کے بعد درود بھیجنے کے باب میں،السنن الکبریٰ للنسائی ج: ۱ ص: ۳۸۱،۳۸۲ کتابصفة الصلاة:الأمر بالصلاة علی النبی،ج:۶،کتاب عمل الیوم و اللیلة،ص:۱۷،کیف المسألة و ثواب من سأل له ذلک ،ص: ۹۷ کیف الرد،صحیح بن حبان ج: ۳ ص: ۹۳ اباب الادعیۃ:ذکر الاخبار المفسرۃ لقولہ جل و علا:(یا ایها الذین آمنوا صلوا علیه و سلموا تسلیما) ج: ۵ باب صفۃ الصلاۃ،ص: ۲۸۶ ،ذکرو صف الصلاۃ علی المصطفیؐ الذی یتعقب السلام الذی وصفنا،ص: ۲۸۹ ،ذکر البیان بان النبیؐ انّما سئل عن الصلاۃ علیہ فی الصلاۃ عند ذکرھم ایاہ فی التشھد،ص: ۲۹۵ ،ذکر الأمر با الصلاة علی المصطفیٰ و ذکر کیفیتها و غیرها من المصادر الکثیرة،

( ۲) جواھر العقدین القسم الثانی ج: ۱ ص: ۴۹ ،فی الثانی ذکر أمره بالصلاة علیهم فی امتثال ما شرعه الله من الصلاة علیهم و وجه الدلالة علی ایجاب ذلک فی الصلاة حاشیۃ الطحاوی علی مراقی الفلاح ج: ۱ ص: ۸ ،الصواعق المحرقۃ ج: ۲ ص: ۴۳۰ الباب الحادی عشر:اہل بیت نبوکےفضائل میں:پہلی فصل الآیات الواردۃ فیھم،ینابیع المودۃ ج: ۱ س: ۳۷ ،ج: ۲ ص: ۴۳۴ ،

۶۹

نہ بھیجنا لوگوں نے پوچھا کہ دم کٹی صلوات کیا ہے؟آپ نے فرمایا تم کہتے ہو:اللہم صل علی محمد اور بس بلکہ(مکمل صلوات یہ ہے)کہا کرواللهم صل علیٰ محمد و آل محمد اس حدیث کو فاسی و غیرہ نے بھی نقل کیا ہے ۔(۱)

آپ خود دیکھیں کہ درود میں صحابہ کو نبی ؐ سے زبردستی کس طرح ملحق کیا گیا ہے؟تا کہ وہ اہل بیت ؑ کے شریک ہوجائیں دلیل یہ ہے کہ وہ ہمارے اسلاف ہیں اور اللہ نے ہمیں ان کو راضی رکھنے کا حکم دیا ہے اور ہمیں ان پر لعنت کرنے سے روکا ہے و غیرہ....میں کہتا ہوں اگر مذکورہ بالا توجیہ مان بھی لی جائے تو اس سے صرف صحابہ کو راضی رکھنے کا استحباب ثابت ہوتا ہے نہ کہ ان کو درود میں شامل کرنا ۔ اس توجیہ سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان پر ترضی مستحب اور لعنت کرنا حرام ہے نبی ؐ کے ساتھ ان کو درود میں شامل کرنے کے استحباب پر تو پھر کوئی دلیل چاہئے جیسا کہ آل کے بارے میں دلیل اسی حدیث میں موجود ہے خصوصاً جب کہ طحاوی نے سرکار دو عالم پر درود کی شرح کرنے کے لئے ایسی حدیث نقل کی ہے جس میں حضرت نے دم کٹی صلوت سے منع کیا ہے اور فرمایا کہ کامل صلوات کی شرط آل محمد کا درود ہے الحاق ہے لیکن اصحاب کا کوئی ذکر نہیں آیا ۔

اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ طحاوی نے صلوات بترا(دم کٹی صلوات)والی حدیث نقل کر کے یہ محسوس کیا کہ اس حدیث سے اہل بیت ؑ کو کوئی ایسی خصوصیت حاصل ہوگئی جس میں ان کا کوئی شریک نہیں ہے بس فوراً ہی حدیث کے رخ کو موڑدیا اور یہ کہہ دیا کہ آل سے مراد امت محمدی ہے یہاں تک کہ فساق بھی شامل ہیں لہذا کلام سابق کے بعد بلافصل کہتا ہے(یہاں پر آل سے سرکار کی ساری امت مراد ہے یعنی مطلق ساری امت کے لئے دعا کی جائے)اور حضور ؐ کا یہ قول کہ ((آل محمد متقی ہیں)اس سے مراد یہ ہے کہ امت محمد ؐ شرک سے پاک ہے یعنی شرک سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے مقام دعا میں یہی درست ہے ۔ (یعنی ہر غیر مشرک کے لئے دعا کرسکتے ہیں ۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح:ج:۱ص:۸

(۲)حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ج:۱ص:۸

۷۰

جی چاہتا ہے کہ طحاوی سے پوچھوں کہ جب آل سے ساری امت مراد ہے تو صحابہ کا درود الحاق کرنا ضروری کیوں ہے؟(کیا صحابہ امت میں شامل نہیں ہیں)؟پھر آپ نے صحابہ کے الحاق کے لئے سابق میں بےمغز اور بھون ڈ ی دلیل کیوں دی؟کیا صحابہ اجابہ میں سے نہیں تھے؟آپ نے طحاوی کا بیان پڑھ لیا،اب اہل سنت کا طرز عمل ملاحظہ ہو،سمجھ میں بات نہیں آتی کہ اس حدیث کی موجودگی میں اہل سنت دم کٹی صلوات بھیجنے پر اصرار کیوں کرتے ہیں اور آل پر اقتصار کرتے ہوئے صرف انھیں کو نبی ؐ سے ملحق کیوں نہیں کرتے جیسا کہ مضمون حدیث(آل پر انحصار)یہی ہے جسے خود طحاوی نے ذکر کیا ہے،کنایہ اس لئے نہیں ہے اہل بیت ؑ کی مایۂ امتیاز شرافت و بزرگی کے ذکر سے جو انھیں بڑی گراں گذرتی ہے پرہیز کیا جائے یہ سارا زور اس لئے ہے کہ اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ آل سے مراد صرف اہل بیتِ رسول ؐ ہیں نہ کہ سارے امتی حتیٰ کے فاسقین بھی ۔

پھر ہم اپنی بات کی تکرار کررہے ہیں کہ جمہور صحابہ نے متعلق چارہ جوئی اور نفوس قدسیہ میں اضافہ کوشش کررہے تھے نیز ان اسباب و علل کی جو اس کا باعث ہوتے ہیں لیکن یہ ایک طولانی اور وسیع موضوع ہے لہذا اس مختصر میں اس کی گنجائش نہیں ہے جب کہ شیعہ علماء اور اُن کی کتابوں نے اس اضطراب کی طرف راہنمائی کی ہے لہذا حقیقت جو افراد اس کی طرف رجوع کریں ۔

حدیث نبوی میں اختلاف اور امیرالمومنینؑ کا مشورہ

حدیث پیغمبر کے بارے میں کچھ اور بھی عرض کرنا بہتر سمجھتا ہوں،ایک سائل نے مولائے کائنات ؑ سے حدیث بدع اور لوگوں کے پاس جو حدیثیں ہیں ان کے اختلاف کے بارے میں پوچھا آپ نے فرمایا:لوگوں کے پاس تو حق و باطل بھی،صدق و کذب بھی،ناسخ و منسوخ،عام خاص،محکم مُتشابہ اور حفظ و وہم سب کچھ ہے اور پیغمبر ؐ پر تو آپ کی زندگی میں ہی بہتان لگایا گیا نتیجہ میں حضور ؐ خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور فرمایا جو مجھ پر جان بوجھ کے بہتان لگائے اس نشست کو آگ سے بھردیا جائےگا،

۷۱

تمہارے پاس ایسے طار طرح کے لوگ حدیث لائیں گے جن کا پانچواں نہیں ہوگا ایک تو منافق مرد(حدیث لائےگا)جو ایمان کو ظاہر کرتا ہے اور اسلام میں تصنع برتتا ہے،خود کو نہ گناہ گار محسوس کرتا ہے اور(نہ ہی جھوٹ بولنے میں)کوئی حرج محسوس کرتا ہے پیغمبر ؐ پر جان بوجھ کے جھوٹ باندھتا ہے اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ وہ منافق ہے تو اس سے حدیث قبول ہی نہ کریں گے اور نہ اس کی تصدیق کریں گے لیکن وہ لوگ تو کہتے ہیں کہ یہ نبی ؐ کا صحابی ہے اس نے نبی کو دیکھا ہے ان سے حدیث سنی ہے اور ان سے حاصل کیا ہے اس لئے لوگ اس سے حدیثیں لیتے ہیں حالانکہ اللہ نے تمہیں منافقین کے بارے میں خبردار کردیا ہے اور ان کی صفتیں بتادی ہیں یہ منافقین نبی ؐ کے بعد بھی باقی رہے اور گمراہی کے اماموں،جھوٹ اور بہتان کے ذریعہ جہنم کی طرف دعوت دینےوالوں کے یہاں تقرب حاصل کرلیا نتیجہ میں انھیں اعمال کا ولی بنادیا اور لوگوں کی گردنوں پر انھیں مسلط کردیا پھر ان کے توسط سے خوب مال دنیا سمیٹا اس لئے کہ لوگ تو بادشاہ اور(مال)دنیا کے ساتھ رہتے ہی ہیں مگر یہ کہ جس کی خدا حفاظت کرے(۱)

نبیؐ کے بعد منافقین کی حرکتیں اور تیزدستیوں کے بارے میں ابن الحدید کی گفتگو

ابن ابی الحدید مولائے کائنات ؑ کی مذکورہ بالا حدیث کی تشریح کے بعد لکھتے ہیں کہ حضرت نے محدثین کی بالکل صحیح تقسیم کی ہے منافقین دور پیغمبر میں بھی تھے آپ کے بعد بھی باقی رہے پھر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حضور کی وفات کے ساتھ ہی نفاق بھی مرگیا البتہ پیغمبر کے بعد منافقین کے حالات پوشیدہ رہنے کی وجہ یہ ہے کہ سرکار دو عالم ؐ کے دور میں وحی کا سلسلہ جاری تھا قرآن میں منافقین کے بارے میں جو کچھ نازل ہوتا تھا سرکار مسلمانوں کو اس سے باخبر کردیا کرتے تھے لیکن جب سرکار ؐ کی وفات کی وجہ سے وحی کا سلسلہ بند ہوگیا تو اب کوئی ایسا آدمی نہیں رہا جو منافقین کی غلطیوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) نہج البلاغہ ج: ۲ ص: ۱۸۹،۱۸۸ ،اسی طرح ینابیع المودۃ ج: ۳ ص: ۴۱۰،۴۰۹

۷۲

اور لغزشون کی نشان دہی کرے ان کے اعمال پر ان کی توبیخ کرے اور مسلمانوں کو ان سے پرہیز کرنے کی تلقین کرے نیز کبھی کھل کے اور کبھی اشاروں،کنایوں میں بات کو سمجھائے سرکار دو عالم ؐ کے بعد جو لوگ حکومت میں تھے وہ منافقین کے ظاہر کو دیکھتے ہوئے ان سےحسن سلوک پر مجبور تھے اس لئے کہ دین اور دنیاوی سیاست انھیں ظاہر پر عمل کرنے کا حکم دیتی ہے چونکہ خلفا ان کے بارےمیں کچھ نہیں بولتے تھے اس لئے ان کا ذکر قریب معدوم ہوگیا نتیجہ میں منافقین نے اس بات پر اقتصار کیا کہ ان کے دل میں جو کچھ ہے اسے چھپائے رہیں اور ظاہری طور پر مسلمانوں سے ملتے رہیں( ۱) اور مسلمانوں سے معاملات کرتے رہیں اس کے بعد تو مسلمان فتوحات میں مصروف ہوگئے اور مال غنیمت آنےلگا منافقین مال غنیمت میں مشغول ہوگئے اور پیغمبر ؐ کے زمانے میں جو حرکتیں کرتے تھے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) ابن ابی الحدید یا تو غافل ہیں یا تجاہل عارفانہ کررہے ہیں اور شاید انھوں نے حذیفہ کا جملہ نہیں دیکھا ہے جس میں انھوں نے فرمایا ہے کہ:آج کے منافقین کل کے منافقین سے زیادہ خطرناک ہیں عہد رسول میں وہ اپنے نفاق کو مخفی رکھتے تھے جب کہ آج کل اس کے اظہار سے وہ کوئی خوف و ہراسی نہیں رکھتے،حذیفہ کا ہی یہ قول بھی ہے کہ:عہد رسول میں نفاق نفاق تھا لیکن آج نفاق نہیں بلکہ ایمان کے بعد کفر میں بدل گیا ہے جیسا کہ ابن ابی الحدید نے مولیٰ کے سابقہ کلام سے غفلت کی ہے یا جان بوجھ کر تغافل کیا ہے اس لئے کہ اہل بدعت اور روایات کے اختلاف کے متعلق سوال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس قوم کی جعلی روایتیں مولیٰ علیؑ کے دور میں دہن بہ دہن نقل ہورہی تھیں حق اور باطل کا تمیز دینا مشکل ہوگیا تھا اس لئے سائل نے اپنی حیرانی و سرگردانی دور کرنے کے لئے یہ سوال کیا اور مولیٰ علیؑ کا جواب قرینہ ہے کہ منافقین سابق حکام سے تعاون کرتے تھے اور سابقہ حکام کو ان کے کرتوت کا علم تھا بلکہ ان کی شبہ جعل سازی کا سلسلہ قائم تھا اور منافقین اپنے حالات کو چھپانے کی ضرورت نہیں محسوس کرتے تھے،بلکہ معاویہ کے زمانے میں جو جعلی احادیث نشر ہوئی ہیں تو اس میں کسی کا کوئی کلام نہیں ہے کہ اس میں خود معاویہ کا تعاون تھا اور یہ عہد امیرالمومنین کے بعد کا مسئلہ ہے لہذا سوال کا تعلق مولیٰ کے دور سے کیا بھی نہیں جاسکتا،اس مقام پر امام علیؑ کا یہ قول بہت مناسب ہے جس میں آپ فرماتے ہیں:(کہاں ہے وہ لوگ جو ظلم و سرکشی اور ہمارے اوپر زیادتی کی خاطر تصور کرتے ہیں کہ وہ راسخون فی العلم ہیں،ہم راسخون فی العلم ہیں،اللہ نے ہمیں مرتبہ بنایا اور انھیں ذلیل و رسوا کردیا ہے،ہمیں علم و فضل سے نوازا ہے اور انھیں محروم رکھا ہے ہمیں اپنی رحمت و مغفرت کے زمرہ میں شامل کرلیا ہے جب کہ انھیں اس سے نکال کر باہر کردیا ہے،ہماری بدولت ہدایت و سعادت کو حاصل کیا جاسکتا ہے اور....

۷۳

اب مال دنیا دیکھ کے وہ حرکتیں روک دیں خلفاء نے بھی انہیں مسلمان اسراء کے ساتھ بلاد فارس و روم میں بھیج دیا وہاں دنیا نے انہیں ایسا الجھایا کہ وہ دور پیغمبر ؐ کی تمام حرکتیں جن پر انہیں سزا ملتی رہتی تھی بھول گئے اور ان میں سے کچھ تو راہ راست پر آگئے اور ان کی نیت میں خلوص آگیا کیونکہ فتوحات کا سلسلہ چل پڑا تھا ۔

جب انہیں چھوڑدیا گیا تو انہوں نے بھی اپنی حرکتیں چھوڑدیں اور جب ان کے بارے میں خاموشی برتی گئی تو وہ اسلام کے بارے میں جو واہی بکتے تھے اس کو بند کردیا مگر یہ کہ زیرزمین سازشوں میں مصروف ہوگئے ۔

اسی کی طرف سرکار مولائے کائنات ؑ نے اشارہ فرمایا ہے کہ منافقین کی سازش کی وجہ سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

......ہمارے ہی ذریعہ گناہوں کا اندھا پن دور کیا جاسکتا ہے

تعجب تو یہ ہے کہ خود ابن ابی الحدید نے اسی جملہ پر حاشیہ آرائی فرماتے ہوئے لکھا ہے:(امام کا یہ فرمانا کہ:کہاں ہیں وہ لوگ اپنے کو راسخون فی العلم گمان کرتے ہیں)یہ کلام صحابہ کی ایک جماعت کی طرف اشارہ و کنایہ ہے جو مولیٰ سے فضل و فضیلت میں نزاع کرتے رہتے تھے،صحابہ میں سے کچھ ایسے تھے جو اپنے کو فرائض کا ماہر،سب سے بڑا قاری قرآن،ذہین و فہیم اور حلال و حرام کے متعلق سب سے زیادہ علم رکھنےوالا سمجھتے تھے جب کہ سب کو یہ معلوم تھا کہ حضرت علیؑ ہیں،امت مسلمہ کے سب سے بڑے قاضی اور قضاوت بےپناہ علم و فضل کی طالب ہے جب کہ دوسرے فضائل ایک دوسرے کے محتاج ہیں لہذا ثابت ہو کہ مولیٰ سب سے بڑے فقیہ اور صحابہ میں سب سے زیادہ صحاب علم تھے،اس کے بووجود آپ اس بات سے راضی نہ تھے اور سابقہ روایت بھی سچی نہیں ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فلاں صاحب سب سے زیادہ فرائض و واجبات سے آگاہ تھے بلکہ مذکورہ روایت کذب و افتراء ہے اور اسے کچھ حاسد قسم کے صحابیوں نے از راہ سرکشی و بر بناء ظلم و ستم،نیز بنی ہاشم کے گھرانے سے دشمنی و عناد نے گڑھنے پر مجبور کردیا ہے کیوں کہ اللہ نے انھیں بلندی عطا کی ہے جب کہ بنی ہاشم کے علاوہ لوگوں کو محروم رکھا ہے)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید،ج:۹ص:۸۶

مسند احمدج:۵ص:۳۹۱۔حدیث:حذیفہ بن یمان نے نبی سے حدیث نقل کی،مجمع الزوائد،ج:۱۰،ص:۶۳،کتاب مناقب،باب،کوفہ میں آنا،مسند احمد،ج:۵ص:۳۹۰،حدیث:حذیفہ بن یمان نے نبی سے حدیث نقل کی،مصنف لابن ابی شیبۃ،ج:۷ص:۴۶۰،کتاب الفتن،تفسیر ابن کثیرج:۲ص:۳۰۰،احمد ابن حنبل،ص:۴۳،حلیۃ الاولیاء،ج:۱ص:۲۷۹،حذیفہ بن یمان کے حالات میں

۷۴

حدیثوں میں کثرت سے جھوٹ شامل ہوگیا یہ جھوٹ(منافقین)غلط عقیدہ رکھنےوالوں نے صادر کیا،مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو گمراہ کردیا جائے،دل اور دل کے عقیدوں کو خبط کردیا جائے،اس سلسلہ میں انہوں نے کچھ لوگوں کے بارے میں بڑھا چڑھا کے حدیثیں بنانی شروع کیں حالانکہ ان کی مدح میں دنیاوی مقاصد پوشیدہ تھے کہا جاتا ہے کہ معاویہ کے دور میں اس طرح کی حدیثیں بہت بنائی گئیں ۔

جن لوگوں کو علم حدیث میں رسوخ حاصل تھا وہ اس حادثے پر خاموش نہیں رہے بلکہ انہوں نے بہت سی موضوعی حدیثوں کا ذکر کیا اور صاف کہہ دیا کہ یہ حدیثیں موضعی ہیں اور ان کے رواۃ قابل اعتبار نہیں ہیں مگر یہ محدیثین صرف ان پر ہی طعن کرتے تھے،جو صحابیت کے مرتبے سے نیچے تھے اور ان پر طعن کرنے کی جسارت نہیں کرتے تھے،جن کے لئے صحابہ کا لفظ استعمال ہوتا تھا( ۱) لیکن کبھی وہ بُسر بن ارطاۃ جیسے صحابی پر طعن کرنے سے نہیں چوکتے تھے ۔

حضرت امام محمد باقرؑ کے وضعی حدیثوں کے بارے میں ارشادات

پھر ابن حدید لکھتے ہیں ابوجعفر محمد باقر ؑ نے اپنے بعض اصحاب سے فرمایا:تم دیکھتے ہو کہ قریش نے ہم پر کیسے کیسے ظلم کئے اور ہمارے خلاف کیسے مظاہرے کئے ہمارے شیعہ اور چاہنےوالوں کو لوگوں نے کس طرح ستایا حضور ؐ سرور کائنات کی وفات ہوگئی،حضور ؐ نے بتادیا تھا کہ ہم اہلبیت ؑ عام لوگوں سے زیادہ مستحق ہیں لیکن قریش نے چشم پوشی کی اور حکومت اس کے معدن(مستحقین)کے ہاتھ سے نکل گئی(لطف یہ ہے کہ قریش نے انصار پر ہمارے حق سے احتجاج کیا اور جب حکومت حاصل ہو گئی تو وہ حکومت کو ایک کے بعد دوسرے کے ہاتھ میں گھماتے رہے یہاں تک کہ عثمان کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) کلام امیرالمومنینؑ میں احادیث وضعی و جعلی سے مراد وہ احادیث ہیں جو منافق صحابہ نے وہ بھی رسول خدا کے دور میں گڑھی تھیں۔

( ۲) شرح نہج البلاغہ ج: ۱۱ ص: ۴۲،۴۱

۷۵

بعد)حکومت ہماری طرف واپس ہوئی،انھوں نے ہماری بیعت توڑ دی اور ہم سے جنگ کرنے کو اُٹھ کھڑے ہوئے صاحب امر مسلسل ان کے ہاتھ سے تنگی اور سختیاں جھیلتا رہا یہاں تک کہ شہید کردیا گیا پھر(امیرالمومنین ؑ کے صاحبزادے)امام حسن ؑ کی بیعت کی گئی اور معاہدے کئے گئے پھر ان معاہدوں کو توڑے کے غداری کی گئی اور اہل عراق ان پر ٹوٹ پڑے یہاں تک کہ آپ کے پہلو کو خنجر سے زخمی کردیا اور آپ کی لشکرگاہ کو لوٹ لیا گیا آپ کی عورتوں کے زیور لوٹ لئے گئے اور آپ کو حکومت کی باگ ڈ ور معاویہ کے سپرد کردینا پڑی اور اس نے آپ کا اورآپ کے اہل بیت ؑ کا خون بہانا شروع کیا حالانکہ وہ تو پہلے ہی سے کم تھے ۔

پھر لوگوں نے امام حسین ؑ کی بیعت کی تقریباً بیس ہزار لوگوں نے آپ کی بیعت کی اور پھر لوگوں نے دھوکا دیا اور آپ کو شہید کر ڈ الا جب کہ ان کی گردنوں میں آپ کا قلادہ بیعت موجود تھا ۔

پھر ہم اہل بیت ؑ مسلسل ذلت و رسوائی اور قتل و غارت گری صحرا اور بیابانوں کی آوارگی جلاوطنی کو جھیلتے رہے ہمیں شہید کیا جاتا رہا ہمیں طرح طرح سے ڈ رایا جاتا رہا، نہ ہم اپنی جان کو محفوظ سمجھتے ہیں نہ اپنےچاہئے والوں کی جان کو محفوظ سمجھتے ہیں،آج صورت حال یہ ہے کہ کاذبین و جاحدین اپنے کذب و جحود کو اپنے ظالم بادشاہوں اور بدکردار گورنروں کے پاس تقرب کا ذریعہ بنا کے استعمال کرتے ہیں تا کہ ہر شہر میں ان بادشاہوں اور گورنروں کے قریب رہ سکیں،پس انھوں نے جھوٹی اور مصنوعی حدیثیں بیان کرنا شروع کردیں اور ہم سے ایسی حدیثوں کو منسوب کرتے ہیں جو نہ ہم نے کہی ہے نہ نقل کیا ہے،مقصد یہ ہے کہ اس جھوٹ کے ذریعہ وہ لوگوں کے دلوں میں ہمارا بغض پیدا کرسکیں،امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد معاویہ کے دور میں یہ کام بڑے پیمانے پر ہوا،صورت حال یہ تھی کہ ایک آدمی جس کا لوگ خیر کے ساتھ ذکر کرتے تھے اور اس کو نہایت متقی اور سچا بھی سمجھتے رہے،وہی خلفا کی فضیلت میں بڑی عجیب حدیثیں بیان کرتا تھا،ایسی باتیں جنھیں

۷۶

اللہ نے پیدا ہی نہیں کیا اورجن کا عالم واقع میں کوئی وجود نہیں انہیں بیان کرتا تھا اورسمجھتا تھا کہ یہ باتیں حق ہیں اس لئے کہ یہ باتیں ان کثیر افراد کے ذریعہ پھیلائی گئی ہیں جنہیں لوگ جھوٹا نہیں مانتے اور ورع وتقدس میں کم نہیں سمجھتے-(۱)

جعلی حدیثوں کے بارے میں مدائنی اور نفطو یہ کی روایت

پھر ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ:"ابو الحسن علی بن محمد بن ابوسیف مدائنی ، اپنی کتاب " الاحداث "میں لکھتے ہیں: معاویہ نے عام الجماعت کے بعد اپنے گورنروں کو ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں لکھا تھا کہ جو بھی ابوتراب اور ان کےاہل بیت ع کے فضائل میں کوئی حدیث بیان کرے گا اس سے میں بری الذمہ ہوں پس خطیبوں نے قریہ قریہ ، شہر شہر پابندی کے ساتھ ہر منبر سے علی پر لعنت بھیجنی اور ان کے اہل بیت ع سے تبراء کرنا شروع کردیا ،وہ علی اور اہل بیت علی کو برابھلاء کہتے تھے پھر معاویہ نے حکومت کے تمام گورنروں کو لکھا کہ شیعیان علی اور اہل بیت علی کی گواہی نہ قبول کی جائے اس نے لکھ بھیجا کہ عثمان کے شیعہ اس کے چاہنے والے اور اس سے محبت کرنے والوں کو نیز وہ لوگ جو اس کے فضائل ومناقب بیان کرتے ہیں انہیں اپنی مجلسوں میں منزلت دی جائے اور ان کی عزت کی جائے ایسے لوگوں کی روایتیں اور ان کا اور انکے باپ کا نام اور ان کے قبیلوں کا نام لکھ کر کے میرے پاس بھیج دیا جائے، گورنروں نے ایسا ہی کیا نتیجہ میں عثمان کے فضائل ومناقب کی کثرت ہوگئی ، تب معاویہ نے اپنے گورنروں کو لکھا کہ عثمان کے فضائل بہت ہوگئے ہیں اور تمام جگہوں پر کثرت سے پھیل گئے ہیں جب میرا خط تم تک پہنچے تو تم لوگوں کو ایسی روایتوں کی طرف ترغیب دو جس میں صحابہ اور خلفاء اولین کے فضائل بیان کئے گئے ہیں اور ابو تراب فضیلت میں اگرکوئی مسلمان کوئی حدیث بیان کرتا ہو تو تم فورا صحابہ کی فضیلت میں اس کے متناقض حدیث بنالو یہ کام میرے لئے محبوب تر ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک کا سبب ہے اور اس طرح علی اور ان کے شیعوں

-----------------

(۱)شرح نہج البلاغہ ج :۱۱ ص ۴۳،۴۴

۷۷

کی حجت باطل کرنا آسان ہوگا اور عثمان کا بیان ان پر بڑا گرا ہوگا،یہ خط جب لوگوں کے سامنے پڑھا گیا تو لوگوں نے صحابہ کے فضائل میں ڈ ھیر ساری حدیثیں گڑھ ڈ الیں جن کی کوئی حقیقت نہیں تھی اور پھر لوگ اسی راستے پر نئی نئی حدیثیں بناتے چلے گئے یہاں تک کہ منبروں سے یہ مفتریات بیان ہونے لگے اور انھیں جعلی حدیثوں کو مدرسوں کے معلمین کے سپرد کردیا گیا اور انھوں نے بچوں اور لڑکوں کو یہ حدیثیں بڑے پیمانے پر پڑھانی شروع کردیں اور بچے ان جعلیات کو اس طرح سیکھنے لگے جیسے قرآن سیکھتے تھے حد تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں عورتوں،خادموں اور چوکیداروں کو ان مفتریات کی تعلیم دی اور جب تک خدا نے چاہا یہ صورت حال برقرار ہی نتیجہ میں بہت سے موضوع کی حدیثیں ظاہر ہوگئیں،بہتانوں کی اشاعت ہوئی اور فقہا،قضاۃ اور وُلاۃ سبھی اسی راستے پر چل نکلے اس بلا میں سب سے زیادہ ریاکار قاریوں کا ٹولہ اور کمزور عقلوں والے گرفتار ہوئے جو صرف اپنے حلوے مان ڈ ے کے لئے اور اپنے امیروں کی خدمت میں تقرب حاصل کرنے کے لئے ان جعلی حدیثوں سے کھیلتے تھے نتیجہ میں انھوں نے ان حدیثوں سے خوب مال بنایا اور انعام اور مرتبے حاصل کئے،اب تو صورت حال یہ ہوگئی کہ یہ جھوٹی اور جعلی حدیثیں ان کے ہاتھوں میں بھی پہنچ گئیں جو دیانتدار تھے ۔ اور کذب و بہتان کو قبول نہیں کرتے تھے انھوں نے ان حدیثوں کو حق سمجھ کر قبول کرلیا اور اگر انھیں معلوم ہوتا کہ یہ حدیثیں باطل ہیں تو ان کی روایت کبھی نہیں کرتے ۔

یہی سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ امام حسن بن علی علیہ السلام کی شہادت ہوجاتی اور فتنہ اور مصیبت میں اضافہ ہوجاتا ہے،پھر ایسا کوئی باقی نہیں بچا جز یہ کہ وہ اپنی جان کا خطرہ محسوس کرتایا جلاوطنی اور دربدری کا خوف رکھتا ہو،پھر امام حسین علیہ السلام کے قتل کے بعد یہ گھٹن اور اضطراب کا دور آجاتا ہے اور عبدالملک بن مروان حاکم ہوجاتا ہے تو شیعوں کے لئے سختیوں کا سامنا ہوتا ہے اور ان پر حجاج بن یوسف کو حاکم قرار دیا جاتا ہے پھر تو اہل تقویٰ اور دیندار صاحب ورع اور پرہیزگار افراد علی کے بغض کو بہانا بنا کر اس سے قریب ہوجاتے ہیں بلکہ اُن کے تمام چاہنےوالوں کی دشمنی کو تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے اور اُن کے فضل اور گذشتہ کارناموں اور فضائل و مناقب میں روایات کی

۷۸

بھرمار ہوجاتی ہے اور علی سے دشمنی میں اُن کے فضائل سے چشم پوشی کی جاتی ہے اور ان پر عیوب لگا کر اُن پر لعن طعن شروع ہوجاتی ہے

ابن عرفہ جو نَفطویہ کے نام سے مشہور ہیں اور بڑے محدثین بلکہ ان کے اعلام میں شمار کئے جاتے ہیں اپنی تاریخ میں اسی مناسبت سے فرماتے ہیں:صحابہ کے فضائل میں موضوعی حدیثیں زیادہ تر بنوامیہ کے دور میں گڑھی گئیں،تا کہ ان سے تقرب حاصل ہوسکے،بنوامیہ یہ سمجھتے تھے کہ ان وضعی حدیثوں کے ذریعہ ہم بنوہاشم کی ناک رگڑدیتے ہیں ۔(۱)

جعلی حدیثوں میں صحاحِ ستّہ کا حصّہ

ممکن ہے کوئی کہے کہ ان جعلی حدیثوں کو صحاح میں جگہ ملی ہوگی،لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہے،ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ صحیح مسلم اور صحیح بخاری نے عمروعاص جیسے آدمی سے حدیث لی ہے،اسناد کو عمروعاص سے ملا کے یہ حدیث لکھی ہے کہ عمروعاص نے کہا میں نے ہادی برحق کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ،بنوہاشم میرے اولیا نہیں ہیں،ہمارا ولی تو صرف اللہ اور صالح المومنین ہیں(۲)

ہاں حدیثوں میں بگاڑ پیدا ہونے سے جہاں یہ فائدہ حاصل ہوا کہ متاخرین کے دماغ میں صحابہ کی عدالت مستحکم ہوگئی یہاں تک کہ عمروعاص جیسے مکار آدمی کی عدالت اور صحیحین(بخاری اور مسلم)میں اس کا نام آجانے سے اس کی عظمت بھی ثابت ہوگئی،وہاں یہ نقصان ہوا کہ اہل حدیث((طالب))کا کلمہ حذف کرنے پر مجبور ہوگئے یا تو اس کی جگہ چھوڑ دیا کرتے تھے یا پھر وہاں پر اس کے نام کی جگہ((فلان))لکھ دیا کرتے تھے،ابن حجر عسقلانی نے اس موضوع پر طویل بحث کی ہے،آپ کو چاہئے کہ ان کی اس بحث کو دیکھیں ۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) شرح نہج البلاغہ ج: ۱۱ ص: ۴۴ ۔ ۴۶

( ۲) شرح نہج البلاغہ ج: ۴ ص: ۶۴ ،کلام امیرالمومنینؑ کے ذیل میں،ج: ۱۱ ص: ۴۲

( ۳) فتح الباری ج: ۱ ص: ۳۳۱ مقدمہ میں

۷۹

انشااللہ آپ کے آٹھویں سوال کے جواب میں صحاح کے بارے میں باقی گفتگو کی جائےگی،اہل سنت حدیثوں پر یوں بھی زیادہ نظر رکھتے ہیں کہ انھوں نے جرح و تعدیل کے جو قواعد بنائے ہیں ان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اہل بیت اطہار صلوات اللہ علیھم کے بارے میں ان کے کیا نظریات ہیں اور ان کے دشمنوں کے بارے میں اہل سنت کا کیا نظریہ ہے،آٹھویں سوال کے جواب میں انشااللہ کچھ باتیں بھی آئیں جو نفع بخش ہوں گی،ہمارے علما نے بھی اس موضوع پر طویل گفتگو کی ہے،ذوق جستجو رکھنےوالوں کو ان کی کتابیں بھی پڑھنی چاہئے،ہم نے تو اتنی باتیں صرف اس لئے کردیں تا کہ معلوم ہوجائے اہل بدر کی حدیث ہماری نظر میں ہے مگر صرف ہم اس کا تحفظ کیا ہے،تردید یا انکار نہیں کیا ہے،اس لئے کہ انکار کے لئے دلیل چاہئے،جس طرح اثبات محتاج دلیل ہے،لیکن تحفظ کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں ہے،اس حدیث کے ظروف و سلبیات کا تذکرہ کردینا کافی ہے تا کہ یہ حدیث کس ماحول میں وارد ہوئی ہے پتہ چل سکے اور میں نے گذشتہ سطروں میں یہ ضرورت پوری کردی ہے ۔

اہل بدر کے بارے میں وارد حدیثوں کا متن

بہرحال مذکورہ حدیث کے بارے میں گفتگو کرنا بہتر نہیں ہے جب تک متن حدیث کو نہ پیش کردیا جائے،یہ حدیث(مختلف اللفظ)لیکن متقارب المعنی صورتوں میں وارد ہوئی ہے،ہم صحیح مسلم کی عبارت آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں،مسلم نے اپنی سند کے ساتھ عبیداللہ بن ابی رافع سے روایت کی ہے،انہوں نے کہا میں نے علی ؑ سے سنا ہے کہ ایک دن پیغمبر اعظم ؐ نے مجھے،زبیر اور مقداد کو بلایا اور فرمایا کہ((روضہ خاخ،تک جاؤ وہاں ایک عماری ہے(جس میں ایک عورت بیٹھی ہے)اس کے پاس ایک خط ہے اس کو لےلو پس ہم چلے اور وہ خط لاکے حضور ؐ کی خدمت میں پیش کردیا،وہ خط

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

بعثت کے چودہ سوسال گذرنے کے بعد بھی اسلا م کے اربوں جانی دشمن اور لیچڑ قسم کے لوگ نت نئی سازشیں مسلمانوں کے خلا ف کیاکرتے ہیں ۔

اگر ان میں طاقت ہو تی توقرآن کے جیسا سورہ لے آتے اور یقینا اس کے ذریعہ اسلام سے نبر د آزما ہوتے ۔علم بلا غت کے ماہر افراد نے اعتراف کیاہے کہ قرآن کاجواب لا ناناممکن ہے اس کی فصاحت وبلا غت حیرت انگیز ہے اس کے احکام وقوانین مضبوط ،اس کی پیشین گوئیاں اور خبریں یقینی او رصحیح ہیں، بلکہ زمان ومکان وعلم سے پرے ہیں ۔

یہ خو د اس بات کی بین دلیل ہے کہ یہ انسان کا گڑھا ہو ا کلا م نہیں ہے بلکہ ہمیشہ باقی رہنے والا معجزہ ہے۔

اعجاز قرآن پر تاریخی ثبو ت

جب قرآن نے ان آیتوں کے ذریعہ لوگو ں کو چیلنج کیا تو اس کے بعد اسلام کے دشمنوں نے تمام عرب کے فصیح وبلیغ افراد سے مددمانگی لیکن پھر بھی مقابلہ میں شکست کاسامنا کرنا پڑا اورتیزی سے عقب نشینی کی۔ ان لوگو ں میں سے جومقابلہ کے لئے بلا ئے گئے تھے ولید بن مغیرہ بھی تھا، اس سے کہا گیا کہ غور وخوض کرکے اپنی رائے پیش کرو ولید نے پیغمبر اسلا م سے درخو است کی کہ کچھ قرآنی آیا ت کی تلاوت کریں رسول نے حم سجدہ کی چند آیتوں کی تلا وت کی ۔ ان آیا ت نے ولید کے اندرکچھ ایسا تغییر وتحول پیدا کیاکہ وہ بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھا اوردشمنو ں کے بیچ جا کر کہنے لگا خداکی قسم محمد سے ایسی بات سنی جونہ انسانوں کے کلام جیسا ہے او رنہ پریوں کے کلام کی مانند ۔

واِنَّ له لحلاوة وأَنَّ علیه لطلاوة واِنَّ أعلاه لمُثمر وأنَّ أسفله لمغدق أَنّه یعلو ولا یُعلیٰ علیه''اس کی باتوں میں عجیب شیرنی ہے اس کا عجیب سحر ابیان لب ولہجہ ہے اس کی بلندی ایک پھل دار درخت کی مانند ہے اس کی جڑیں مضبوط اور مفید ہیں، اس کا کلام سب پر غالب ہے کسی سے مغلو ب نہیں ''یہ باتیں اس بات کا سبب بنی کہ قریش میں یہ چہ میگو ئیاں شروع ہو گئیں کہ ولید محمد کا شیدائی اورمسلمان ہوگیا ہے ۔

۱۴۱

یہ نظریہ مشرکین کے عزائم پر ایک کا ری ضرب تھی لہٰذا اس مسئلہ پرغور و خو ض کرنے کے لئے ابو جہل کا انتخاب کیا گیا وہ بھی ولید کے پاس آیا اور مشرکین مکہ کے درمیان جو خبر گشت کر رہی تھی اس سے ولید کو باخبر کیا اور اس کو ان کی ایک میٹینگ میں بلا یا وہ آیا اورکہنے لگا تم لوگ سوچ رہے ہو کہ محمد مجنون ہیں کیا تم لوگوں نے ان کے اندر کو ئی جنون کے آثار دیکھے ہیں ؟۔

سب نے ایک زبان ہو کر کہا نہیں ، اس نے کہا تم سوچتے ہو وہ جھو ٹے ہیں (معاذاللہ) لیکن یہ بتائو کہ کیا تم لوگوں میں سچے امین کے نام سے مشہور نہیں تھے۔ ؟

بعض قریش کے سرداروں نے کہا کہ محمد کو پھر کس نام سے یاد کریں ؟ ولید کچھ دیر چپ رہا پھر یکا یک بولا اسے جادوگر کہو کیو ں کہ جو بھی اس پر ایمان لے آتا ہے وہ سب چیز سے بے نیاز ہو جا تا ہے مشرکین نے اس ناروا تہمت کو خوب ہوادی تاکہ وہ افراد جوقرآن سے مانوس ہو گئے تھے انھیں پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے الگ کر دیا جائے لیکن ان کی تمام سازشیں نقش بر آب ہو گئیں اور حق وحقیقت کے پیاسے جوق در جوق پیغمبر کی خدمت میں آکر اس آسمانی پیغام اور اس کی دلکش بیان سے سیراب ہونے لگے ۔

جادوگر کا الزام در حقیقت قرآن کے جذّاب اور ہر دل عزیز ہو نے کا ایک اعتراف تھا، انھوں نے اس کشش کو جادو کانام دے دیا جبکہ اس کا جادو سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں تھا ۔

قرآن علوم کا خزانہ ہے ۔ فقہ کی کتا ب نہیں ہے مگر بندوںکے قانون عبادت ،او رسیاسی و معاشرتی جزاوسزا اور اجرای احکام سب اس میں پائے جا تے ہیں فلسفہ کانصاب نہیں مگر فلسفہ کی بہت ساری دلیلیں اس میں ہیں ،علم نجوم کی کتاب نہیں پھر بھی ستارہ شناسی کے بہت ظریف اور باریک نکا ت اس میں پائے جا تے ہیں جس نے دنیا کے تمام مفکروں کو اپنی جانب کھینچ لیاہے۔

علم حیاتیات کا مجموعہ نہیں پھر بھی بہتیری آیات اس حوالے سے موجود ہیں لہٰذ اقرآن معجزہ ہے او ران علوم سے ارفع واعلی ہے ۔

۱۴۲

اگر نزول قرآن کی فضاپر غور کی جائے تو پیغمبر اسلا م اور قرآن کی عظمت میں مزید اضافہ ہوگا ۔

اس ماحول میں جہا ں بہت کم لوگ پڑھے لکھے تھے وہاںایک ایسا شخص اٹھا جس نے نہ دنیا وی مدرسہ میں علم حاصل کیا نہ کسی استاد کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا اور ایسی کتاب لیکر آیا کہ چودہ سوسال بعد بھی علماء او رمفکرین اس کے معنی ومطلب کی تفسیر میں جوجھ رہے ہیں اور ہر زمانے میں اس سے نئے مطالب کا انکشاف ہو تا ہے۔

قرآن نے اس دنیاکو اس طرح تقسیم کیاکہ جوبہت ہی دقیق او رمنظم ہے توحید کو بہ نحو احسن بیان کیازمین وآسمان کی تخلیق کے اسرار ورموز اور انسان کی خلقت اوردن ورات کی خلقت کے راز کو خد اکے وجود کی نشانیاں قرار دیتے ہو ئے مختلف طریقہ سے ذکر کیا ہے کبھی فطری توحید توکبھی استدلال توحید پر بحث کی ہے یہ پوری کائنات خدا کے ہاتھ میں ہے اسے بہت طریقہ سے بیا ن کیاہے جب معاد اور قیامت کی بات آتی ہے تو مشرکین کے تعجب پر فرمایا ہے : کیا جس نے اس زمین وآسمان کو ان عظمتوں کے ساتھ پیدا کیا اس کے لئے یہ ممکن نہیںکہ تم جیسا خلق کردے جی ہاں پیداکرنے والا قادر اور صاحب حکمت ہے اور اس کی طاقت اس حد تک ہے کہ جس چیز کا ارادہ کرے اور اسے حکم دے دے ہوجابس وہ فوراً وجود میں آجاتی ہے ۔

۱۴۳

خلاصہ یہ کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے کہ جسے لانے والے (پیغمبر ) اور تفسیر کرنے والے (ائمہ معصومین ) کے علا وہ اس کا مکمل علم کسی کے پاس نہیں اس کے باوجود قرآن ہمیشہ ہم لوگوں کے لئے بھی ایک خاص چاشنی رکھتا ہے چونکہ دلوںکی بہار ہے لہٰذا جتناہی پڑھیں گے اتنا ہی زیادہ لطف اندوز ہوںگے جی ہاں قرآن ہمیشہ نیا ہے اور ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے چونکہ یہ پیغمبر اسلام کا دائمی معجزہ ہے ۔

حضرت امیر نے قرآن کے بارے میں فرمایا :واِنَّ القرآنَ ظاهره أنیق وباطنه عمیق لا تُفنیٰ عجائبه ولاتنقضیِ غرائبه ( ۱ )

''بیشک قرآن ظاہر میں حسین اورباطن میں عمیق ہے اس کے عجائبات انمٹ ہیں''۔

اس کے غرائب اور اس کی تازگی میں ہمیشگی ہے وہ کبھی کہنہ او رفرسودہ نہ ہوگی ۔

نہج البلاغہ کے خطبہ ۱۷۵میں آیا ہے (فیه ربیع القلب وینابیع العلم وماللقلب جلا ء غیره )دلوں کی بہار قرآن میں ہے اس میں دل کے لئے علم کے چشمے ہیں اس کے علا وہ کوئی نور موزون نہیں ہے ۔

امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیوں قرآن کی ترویج اور اس میں تفحص کے ساتھ ساتھ اس کی تازگی اور بالیدگی میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے ؟

امام نے فرمایا:''لان الله تبارک و تعالیٰ لم یجعله لزمان دون زمان و لالناس دون ناس فهو فی کل زمان جدید و عند کل قوم

____________________

(۱) نہج البلا غہ خطبہ ۱۸

۱۴۴

غض الی یوم القیٰمة ''

''اس لئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کو کسی خاص زمانہ اور کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں کیا (بلکہ یہ کتابِ الٰہی تمام زمانے اور تمام انسانوں کے لئے ہے)پس قرآن ہر زمانہ کے لئے جدید اور تمام انسانوں کے لئے قیامت تک زندہ ہے۔''

سوالات

۱۔ خصوصیات قرآن بیان کریں ؟

۲۔ اعجاز قرآن کے سلسلہ میں ولید کا قصہ بیا ن کریں ؟

۳۔ امیر المومنین نے قرآن کے سلسلہ میں کیا فرمایا ؟

۱۴۵

بائیسواں سبق

نبوت خاصہ (دوسراباب )

خاتمیت پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سلسلہ رسالت کی آخری کڑی ہیں، نبوت کاسلسلہ ان پر خدا نے ختم کردیااور اسی لئے ان کا لقب بھی خاتم الانبیاء ہے (خاتمِ چاہے زیر ہو یا زبر خاتَم، کسی طرح بھی پڑھا جائے اس کے معنی کسی کام کا اتمام یاختم ہونا ہے، اسی بناپر عربی میں انگوٹھی کوخاتم کہا جاتا ہے چونکہ انگوٹھی اس زمانے میں لوگوں کے دستخط اور مہر کا مقام رکھتی تھی او رجب کہیں خط لکھتے تو اس کے آخر میں اپنی انگوٹھی سے مہر لگا دیتے تھے ۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم کی نبوت کا اختتام بھی ایک اسلامی ضرورت ہے اور اسے ہر مسلمان مانتا ہے کہ اب حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا، اس اصل پر تین دلیل ہے ۔

۱۔ خاتمیت کا لا زم او رضروری ہونا۲۔ قرآن کی آیتیں ۳۔ بہت ساری حدیثیں

۱۔خاتمیت کا ضروری ہو نا:اگر کسی نے اسلا م کو دلیل ومنطق کے ذریعہ مان لیا تو اس نے خاتمیت پیغمبر اسلا م کو بھی قبول کر لیا، اسی لئے مسلمانو ں کا کو ئی فرقہ کسی نئے پیغمبر کے انتظار میں نہیں ہے یعنی خاتمیت مسلمانو ں کی نظر میں ایک حقیقی اورضرور ی چیز ہے ۔

۱۴۶

۲۔قرآن کی آیتیں:( مَاکَانَ مُحمَّدُ أَبَا أحدٍ مِنْ رِجالِکُم وَلکنْ رَسُولَ اللّهِ وخَاتَم النَبِیینَ ) محمد تم مردو ں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں۔( ۱ ) ( وَمَا أَرسَلنَا ک اِلَّا کَافَةً للنَّاسِ ) (اور پیغمبر ہم نے آپ کو تمام لوگو ں کے لئے بھیجا ہے۔( ۲ )

۳۔ احادیث : حدیث منزلت جسے شیعہ وسنی دونو ں نے پیغمبر اسلا م سے نقل کیاہے کہ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مولا ئے کا ئنات سے مخاطب ہو کر فرمایا :أنَتَ مِنی بِمنزلة هارون من موسیٰ اِلَّا أَنَّه لا نَبیّ بَعدی : ، تم میرے نزدیک ویسے ہو جیسے ہارون موسیٰ کے لئے تھے فرق یہ ہے کہ میرے بعد کو ئی نبی نہیں آئیگا ۔

معتبر حدیث میں جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ رسو ل خدانے فرمایا میری مثال پیغمبروں کے بیچ بالکل ایسی جیسے کو ئی گھربنایا جائے اور اسے خوب اچھی طرح سجا یا جائے مگر اس میں ایک اینٹ کی جگہ خالی ہو اب جو بھی دیکھے گا کہے گا بہت خوبصورت ہے مگر یہ ایک جگہ خالی ہے میں وہی آخری اینٹ ہو ں اور نبو ت مجھ پر ختم ہے۔( ۳ )

اما م صادق نے فرمایا :حلال مُحمَّد حلال أبداً اِلیٰ یوم

____________________

(۱) سورہ احزاب آیة: ۴۰

(۲) سو رہ سبا آیة: ۲۸۔

(۳) نقل از تفسیر مجمع البیا ن مرحو م طبرسی

۱۴۷

القیامة وحرامه حرام أبداً اِلی یوم القیامة ( ۱ ) ''اِنَّ اللّهَ ختم بنبیّکم النبییَّن فلا نَبیَّ بعده أبداً''

امام صادق نے فرمایا : بیشک اللہ نے تمہا رے پیغمبر کے بعد نبو ت کا سلسلہ ختم کردیا ہے اور اب اس کے بعد کو ئی نبی نہیں آئے گا ۔( ۲ )

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطبہ کے درمیان فرمایا :أناخاتمُ النبییّن والمُرسلینَ والحُجّة علیٰ جمیع المخلوقین أهل السَّمٰوات والأَرضین'' میں آخری نبی اور آخری الٰہی نمایندہ ہو ں اور تمام اہل زمین وآسمان کے لئے آخری حجت ہو ں''۔( ۳ )

مولائے کا ئنا ت نے نہج البلا غہ کے خطبہ ۹۱ میں فرمایا :''حتیٰ تمت نبیّنا مُحمّد حجتّہ وبلغ المقطع عذرہ ونذرہ''ہاں تک کہ خدا نے ہمارے نبی کے ذریعہ حجت کو تمام کردیااور تمام ضروری احکامات کو ان کے لئے بیا ن کر دیا خطبہ ۱۷۳میں پیغمبر اسلام کے صفات کے سلسلہ میں اس طرح فرمایا :''امین وحیہ وخاتم رسلہ وبشیر رحمتہ'' محمد خداکی وحی کے امین اور خاتم الرسل اور رحمت کی بشارت دینے والے ہیں

____________________

(۱) اصو ل کا فی ج۱، ص ۵۸

(۲) اصول کا فی ج۱،ص ۲۶۹

(۳)مستدرک الوسائل ج۳، ص ۲۴۷

۱۴۸

فلسفہ خاتمیت

ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ انسانیت ہمیشہ تغییر وتحول سے دوچار ہو تی ہے یہ کیسے ممکن ہے ،ایک ثابت اورناقابل تبدیل قانون پوری انسانیت کے لئے جواب دہ ثابت ہو اور یہ کیسے ممکن ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خاتم النبیین بن جا ئیں

اور دوسرے پیغمبر کی ضرورت نہ پیش آئے !

اس کاجو اب ہم دو طرح سے دیں گے :

۱۔ دین اسلام فطرت سے مکمل ہماہنگی رکھتا ہے اور فطرت کبھی تبدیل نہیں ہوتی :

( فَأَقِم وَجهَکَ للدّینِ حَنیفًا فِطرَتَ اللَّهِ التِی فَطَرالنَّاسَ علیها لا تَبدِیلَ لِخَلقِ اللَّهِ ذَلِکَ الدِّین القَیّمُ وَلَکنَّ أَکثَر النّا سِ لایَعلَمُونَ ) آپ اپنے رخ کو دین کی طرف قائم رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رہیں کہ یہ دین فطرت الٰہی ہے جس پر اس نے انسانو ں کو پیدا کیاہے اور خلقت الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے ۔( ۱ )

جیسے انصاف ، سچائی، ایثار ، درگذر، لطف و کرم ، نیک خصلت ہمیشہ محبوب ہے اور اسی کے مقابل ظلم ، جھوٹ،بے جا اونچ نیچ، بد اخلاقی یہ سب چیزیں ہمیشہ لائق نفرت تھیں اور رہیں گی۔

لہٰذا قوانین اسلام جو کہ انسانوں کی ہدایت کے لئے ہے ہمیشہ اسرار خلقت کی طرح زندہ ہے۔

۲۔ دین اسلام قرآن و اہلبیت کے سہارے ہے ۔ قرآن لامتناہی مرکز علم سے صادر ہوا ہے اور اہل بیت وحی الٰہی پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ قرآن و اہل بیت ایک

____________________

(۱)سورہ روم آیت۳۰۔

۱۴۹

دوسرے کے مفسر ہیں ۔ اور رسول اکرم کی حدیث کے مطابق یہ رہبران اسلام ایک دوسرے سے تا قیامت جدا نہیں ہوں گے ۔ لہٰذا اسلام ہمیشہ زندہ ہے ،اور بغیر کسی ردّ و بدل کے ترقی کی راہ پر گامزن اور بشریت کی مشکلات کا حل کرنے والا ہے ۔'' قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی ما ان تمسکتم بهما لن تضلوا ابدا انهما لن یفترقا حتیٰ یردا علی الحوض'' میں تمہارے لئے دو گرانقدر چیزیں قرآن و میری عترت چھوڑ کر جارہا ہوں جب تک ان سے متمسک رہو گے گمراہ نہ ہوگے یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہو نگے یہاں تک حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریںگے۔( ۱ )

____________________

(۱)المراجعات؛سید شرف الدین عاملی۔

۱۵۰

سوالات

۱۔قرآن نے اس دنیا کی تقسیم کس طرح کی ہے مختصر بیان کریں ؟

۲ ۔پیغمبر اسلام کے خاتم النبیین ہونے پر دلیل پیش کریں؟

۳۔ چونکہ دنیا میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں لہٰذا محمد آخری رسول او ر اسلام آخری دین کیسے ہو سکتاہے ؟

۱۵۱

تیئسواں سبق

امامت

دین اسلام کی چوتھی اصل اور اعتقاد کی چوتھی بنیاد امامت ہے لغت میں امام کے معنی رہبر ا ور پیشوا کے ہیں اور اصطلاح میں پیغمبر اکرم کی وصایت وخلافت اور ائمہ معصومین کی رہبری مراد ہے، امامت شیعوں کی نظرمیں اصول دین میں سے ایک ہے اور امام کا فریضہ شیعوں کی نظر میں پیغمبر اسلام کے فرائض کی انجام دہی ہے۔

یعنی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعثت کااور ائمہ کے منصوب ہونے کا مقصد ایک ہے اور جو چیز اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اللہ رسول کو مبعوث کرے وہی چیز اس بات کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ خد اامام کو بھی معین کرے تاکہ رسول کی ذمہ داریوںکو انجام دے سکے، امام کے بنیادی شرائط میں سے ہے کہ وہ بے پناہ علم رکھتا ہو اور صاحب عصمت ہو نیز خطا ونسیا ن سے دور ہو اور ان شرائط کے ساتھ کسی شخصیت کا پہچاننا وحی کے بغیر ناممکن ہے اسی لئے شیعہ معتقد ہیںکہ منصب امامت بھی ایک الٰہی منصب ہے اور امام کو خدا کی طرف سے معین ہو نا چاہئے لہٰذا امامت او رخلافت کی بحث ایک تاریخی گفتگو نہیں ہے بلکہ حکومت اسلامی کی حقیقت او رپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد اختتام دنیا تک حکو مت کرنا ہے اور ہماری آئندہ کی زندگی سے مکمل طور پر مربوط ہے، اسی طرح یہ دیکھنا ضروری ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعداعتقادی اور فکری مسائل میں لوگ کس کی طرف رجوع کریں ۔

شیعوںکاکہنا ہے کہ پیغمبر اسلام کے بعد حضرت علی علیہ السلا م اور ان کے بعد ان کے گیارہ فرزند ایک کے بعد ایک پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی جانشین ہیں، شیعہ او رسنی کے درمیان یہی بنیادی اختلاف ہے ۔

ہمارا اصل مقصد اس بحث میں یہ ہے کہ امامت پر عقلی، تاریخی ،قرآنی اور سنت نبوی سے دلیلیں پیش کریںکیونکہ ہم ا س بات کے معتقد ہیںکہ اسلام حقیقی کانورانی چہرہ مذہب شیعہ میں پایا جاتا ہے اورصرف شیعہ ہیں جو حقیقی اسلا م کو اپنے تمام ترکمالات کے ساتھ پوری دنیا میں پہچنوا سکتے ہیں لہٰذا ہمیں اس کی حقانیت کو دلیل ومنطق کے ذریعہ حاصل کرنا چاہئے ۔

۱۵۲

امامت کا ہو نا ضروری ہے

امامت عامہ

دلیل لطف : شیعہ معتقد ہیں کہ بندو ں پرخداکا لطف اور اس کی بے پناہ محبت اور حکمت کا تقاضا ہے کہ پیغمبر اکرم کے بعد بھی لوگ بغیر رہبر کے نہ رہیں یعنی جو دلیلیں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مبعوث ہونے کے لزوم پر دلا لت کر تی ہیں وہی دلیلیںاس بات کی متقاضی ہیں کہ امام کا ہو نابھی ضروری ہے تاکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح دنیا اورآخرت کی سعادت کی طرف لوگوں کی رہبری کر سکیں اوریہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ مہربان خدا بنی نوع انسان کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد بغیر کسی ہادی اوررہبر کے چھو ڑدے ۔

مناظرہ ہشام بن حکم

ہشام کا شمار امام جعفر صادق کے شاگردو ںمیں ہے : کہتے ہیں میں جمعہ کوبصرہ گیااور وہاں کی مسجد میں داخل ہوا عمروبن عبید معتزلی (عالم اہل سنت) وہاں بیٹھے تھے اور ان کو لوگ گھیرے میں لئے ہوئے سوال وجواب کر رہے تھے میں بھی ایک گوشہ میں بیٹھ گیا اورکہا :میں اس شہر کانہیں ہوں کیا اجازت ہے کہ میں بھی سوال کروں ؟کہا جو کچھ پوچھنا ہو پوچھو: میں نے کہا آپ کے پاس آنکھ ہے ؟ اس نے کہا دیکھ نہیں رہے ہو یہ بھی کوئی سوال ہے۔ ؟

میں نے کہا میرے سوالات کچھ ایسے ہی ہیں کہا اچھا پوچھو ہر چند کہ یہ بیکارہے انہو ں نے کہا جی ہاں آنکھ ہے ،میں نے کہا ان آنکھو ں سے کیا کام لیتے ہیں؟ کہا دیکھنے والی چیزیں دیکھتا ہو ں ا قسام او ررنگ کو مشخص کرتا ہو ں ، میں نے کہا زبان ہے ؟کہا جی ہا ں ، میں نے کہااس سے کیا کرتے ہیں؟ جواب دیا کہ اس سے کھانے کی لذت معلو م کرتاہوں میں نے کہا ناک ہے ؟کہنے لگے جی ہا ں میں نے کہا اس سے کیا کرتے ہیں؟ کہا خوشبو سونگھتا ہو ں او راس سے خوشبو اور بدبو میں فرق کرتا ہوں میں نے کہا کان بھی ہے ؟جواب دیا جی ہا ں ،میں نے کہا اس سے کیا کرتے ہیں؟ جو اب دیا اس سے مختلف آوازوں کو سنتا ہو ں او ر ایک دوسرے کی تشخیص دیتا ہو ں، میں نے کہا اس کے علا وہ قلب (عقل ) بھی ہے ؟کہا جی ہا ں۔ میں نے پوچھا اس سے کیا کرتے ہیں؟جواب دیا اگر ہما رے اعضاء وجوارح مشکوک ہو جاتے ہیں تواس سے شک کو دور کرتا ہو ں ۔

۱۵۳

قلب اور عقل کاکام اعضا ء وجوارح کو ہدایت کرنا ہے ،ہشام نے کہا:میں نے ان کی بات کی تائید کی کہا بالکل صحیح۔ خدانے عقل کو اعضاء وجوارح کی ہدایت کے لئے خلق کیااے عالم! کیایہ کہنا صحیح ہے کہ خدانے آنکھ کان کو اور دوسرے اعضاء کو بغیر رہبر کے نہیں چھوڑااور مسلمانو ں کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد بغیر ہادی ورہبر کے چھوڑ دیا تاکہ لوگ شک و شبہ اور اختلا ف کی باعث فنا ہو جائیں کیاکوئی صاحب عقل اس بات کو تسلیم کرے گا ؟!۔

ہدف خلقت

قرآن میں بہت سی آیتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں( هَوَ الَّذِی خَلَق لَکُم مَافِی الأَرضِ جَمِیعاً ) وہ خدا وہ ہے جس نے زمین کے تمام ذخیرہ کو تم ہی لوگو ں کے لئے پیدا کیا۔( ۱ ) ( سَخَّرَ لَکُمُ اللَّیلَ وَالنَّهارَ والشَّمسَ وَالقَمَر ) ''اور اسی نے تمہارے لئے رات و دن اورآفتاب وماہتاب سب کو مسخر کردیا ''۔( ۲ )

چونکہ انسان کی خاطر یہ دنیا خلق ہوئی ہے اور انسان عبادت اور خدا تک پہونچنے کے لئے خلق ہو اہے تاکہ اپنے حسب لیاقت کمال تک پہونچ سکے، اس

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیة :۲۹

(۲) سورہ نحل آیة :۱۲

۱۵۴

مقصد کی رسائی کے لئے رہبر کی ضرورت ہے اور نبی اکرم کے بعدامام اس تکامل کا رہبر وہادی ہے ۔

مہربا ن ودرد مند پیغمبر او رمسئلہ امامت :

( لَقَد جَا ئَ کُم رَسُولُ مِن أَنفُسِکُم عَزیزُ عَلَیه مَا عَنِتُم حَرِیصُ عَلَیکُم بِالمُؤمنینَ رَؤُفُ رَحِیمُ ) یقینا تمہا رے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تمہیں میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہو تی ہے وہ تمہاری ہدا یت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پر شفیق اور مہربان ۔( ۱ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب کبھی کسی کا م کے لئے کچھ دن کے واسطے مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تھے چاہے مقصد جنگ ہو یا حج، لوگو ں کی سرپرستی کے لئے کسی نہ کسی کو معین کر جاتے تھے تاکہ ان کی راہنمائی کر سکے آپ شہروں کے لئے حاکم بھیجتے تھے لہٰذا وہ پیغمبر جولوگوں پر اس قدر مہربان ہوکہ بقول قرآن ،اپنی زندگی میں کبھی بھی حتی کہ تھوڑی مدت کے لئے بھی لوگوں کو بغیر رہبر کے نہیں چھوڑا ،تو یہ بات بالکل قابل قبول نہیں کہ وہ اپنے بعد لوگو ں کی رہبری کے لئے امامت و جانشینی کے مسئلہ میں تساہلی وسہل انگا ری سے کام لیں گے اور لوگوں کو سرگردان اور بغیر کسی ذمہ داری کے بے مہار چھوڑ دیںگے ۔عقل وفطرت کہتی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ پیغمبر جس نے لوگوں کے چھوٹے سے چھو ٹے مسائل چاہے مادی ہو ں یا معنوی سبھی کو بیان کر

____________________

(۱) سورہ توبہ آیة ۱۲۸

۱۵۵

دیا ہو اور اس نے سب سے اہم مسئلہ یعنی رہبری اور اپنی جانشینی کے تعین میں غفلت سے کام لیا ہو اورواضح طور پر لوگوں سے بیان نہ کیاہو!۔

سوالات

۱۔ امام کا ہو نا ضروری ہے دلیل لطف سے ثابت کریں ؟

۲۔ ہشام بن حکم اور عمروبن عبید کے درمیان مناظرہ کا خلا صہ بیا ن کریں ؟

۳۔ امام کا ہونا لازم ہے خلقت کے ذریعہ کس طرح استدلال کریں گے ؟

۴۔ سورہ توبہ کی آیة ۱۲۸ کے ذریعہ کس طرح امامت کااستدلا ل کریں گے ؟

۱۵۶

چوبیسواں سبق

عصمت اورعلم امامت نیزامام کی تعیین کاطریقہ

عقل وسنت نیزقرآن کی نظر میں عصمت امامت کے لئے بنیادی شرط ہے اورغیر معصوم کبھی اس عہدہ کا مستحق قرار نہیں پاسکتا، نبوت کی بحث میں جن دلیلوں کا ذکر انبیاء کی عصمت کے لئے لازم ہونے کے طور پر پیش کیا گیاہے ان کو ملاحظہ فرمائیں۔

قرآن اور عصمت اما م

( وَاِذابتلیٰ اِبراهیمَ رَبُّهُ بِکلماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قالَ اِنِّی جَاعِلُکَ للنَّاسِ اِمَاماً قَالَ وَمِن ذُرِّیَّتِی قَالَ لَا یَنالُ عَهدیِ الظَّالَمِینَ ) اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعہ ابراہیم کاامتحان لیا اور انھو ںنے پوراکردیا تو اس نے کہا کہ ہم تم کو لوگوں کاامام اورقائد بنا رہے ہیں انھوںنے عرض کیا کہ کیا یہ عہدہ میری ذریت کو بھی ملے گا؟ارشاد ہو اکہ یہ عہدئہ امامت ظالمین تک نہیں پہونچے گا ۔( ۱ )

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیة: ۱۲۴

۱۵۷

ظالم اور ستمگر کون ہے ؟

اس بات کو واضح کرنے کے لئے کہ اس بلند مقام کاحقدار کو ن ہے او ر کون نہیں ہے یہ دیکھنا پڑے گا کہ قرآن نے کسے ظالم کہا ہے ۔؟

کیونکہ خدانے فرمایاہے :کہ میرا یہ عہدہ ظالمین کو نہیں مل سکتا ۔قرآن نے تین طرح کے لوگو ں کو ظالم شمار کیاہے ۔

۱۔ جولوگ خد ا کا شریک مانیں( یَا بُنََّ لَاتُشرِک باللَّهِ اِنَّ الشِّرکَ لَظُلمُ عَظِیمُ ) لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا:بیٹا خبردار کسی کو خد ا کاشریک نہ بنانا کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔( ۱ )

۲۔ ایک انسان کادوسرے انسان پر ظلم کرنا:( اِنَّما السَّبیلُ عَلیٰ الَّذینَ یَظلِمُونَ النَّاسَ وَیَبغُونَ فِی الأَرضِ بِغَیرِ الحَقِّ أُولئِک لَهُم عَذَابُ ألِیمُ ) الزام ان لوگوں پر ہے جولوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں پھیلا تے ہیں انہیں لوگوں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔( ۲ )

۳۔ اپنے نفس پر ظلم کرنا:( فَمِنهُم ظَالمُ لِنَفسِهِ وَمِنهُم مُقتَصِدُ وَمِنهُم سَابِقُ بِالخَیراتِ ) ان میں سے بعض اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض اعتدال پسند ہیں اور بعض خداکی اجازت سے نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں ۔( ۳ )

____________________

(۱)سو رہ لقمان آیة: ۱۳

(۲) سورہ شوری آیة: ۴۲

(۳) سورہ فاطر آیة: ۳۲

۱۵۸

انسان کو کمال تک پہنچنے اور سعادت مند ہو نے کے لئے پیدا کیا گیاہے، اب جس نے بھی اس راستہ سے روگردانی کی او رخدا ئی حد کو پار کیا وہ ظالم ہے( وَمَنْ یَتعَدَّ حُدُودَاللَّهِ فَقَد ظَلَمَ نَفسَهُ ) جس نے بھی خدا کے حکم سے روگردانی کی، اس نے اپنے اوپر ظلم کیا۔( ۱ )

قرآن میں ان تینوں پر ظلم کااطلاق ہوتاہے لیکن حقیقت میں پہلی اوردوسری قسم کے ظلم کااطلاق بھی اپنے نفس ہی پر ہوتاہے ۔

نتیجہ :چار طرح کے لوگ ہیں

۱۔ جوابتداء زندگی سے لے کر آخر عمر تک گناہ اور معصیت کے مرتکب ہوتے رہے ۔

۲۔ جنہو ںنے ابتداء میں گناہ کیا،لیکن آخری وقت میں توبہ کر لیا اورپھر گناہ نہیں کرتے ۔

۳ کچھ ایسے ہیں جو ابتدا میں گناہ نہیں کرتے لیکن آخری عمر میں گناہ کرتے ہیں۔

۴۔ وہ لوگ جنہوں نے ابتداء سے آخر عمر تک کوئی گناہ نہیں کیا۔

قرآ ن کی رو سے پہلے تین قسم کے لوگ مقام امامت کے ہرگز حقدار نہیں ہوسکتے ،کیو نکہ ظالمین میں سے ہیں اور خدا نے حضرت ابراہیم سے فرمایاکہ ظالم اس

____________________

(۱) سورہ طلا ق آیة: ۱

۱۵۹

عہدہ کا حقدار نہیں بن سکتا، لہٰذا مذکورہ آیة سے یہ نتیجہ نکلاکہ امام او ررہبر کو معصوم ہونا چاہئے اور ہر قسم کے گناہ او رخطا سے پاک ہو اگر ان تمام واضح حدیثوں کو جو رسول اسلام سے امام علی اور گیارہ اماموں کی امامت کے سلسلہ میں ہیں، یکسر نظر اندا ز کر دیا جائے، تب بھی قرآن کی رو سے مسند خلا فت کے دعویدار افراد خلا فت کے مستحق او رپیغمبر کی جانشینی کے قابل بالکل نہیں تھے کیو نکہ تاریخ گواہ ہے کہ یہ ظالم کے حقیقی مصداق تھے اور خدا نے فرمایا ہے کہ ظالموں کو یہ عہدہ نہیں مل سکتا اب فیصلہ آپ خو د کریں!

۱۔ وہ لوگ جو ابتداء عمر سے ہی کافر تھے ۔

۲۔ وہ لوگ جنہو ں نے بشریت پر بالخصوص حضرت علی وفاطمہ زہراصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ظلم کیا ۔

۳۔وہ لوگ جنہو ںنے خو د اعتراف کیا کہ میں نے احکام الٰہی کی مخالفت کی اور اپنے نفس پر ظلم کیا ، کیا ایسے لوگ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلیفہ اور جانشین بن سکتے ہیں۔ ؟

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367