فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ10%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206484 / ڈاؤنلوڈ: 6000
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

حاطب بن ابی بلتعہ کا تھا،اس میں اس نے سرکار دو عالم ؐ کے کچھ امور کے بارے میں مشرکین مکہ کو جاسوسی کی تھی،سرکار ؐ نے حاطب سے پوچھا کہ اے حاطب یہ کیا ہے؟حاطب بولا،سرکار ؐ میرے خلاف فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کریں،میں قریش کے قریب رہتا تھا اور آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں ان کے کچھ اعزا ہیں جو مکہ میں ہیں جن کی قرابت کی وجہ سے ان کے اہل و عیال کی حمایت ہوتی ہے،چونکہ میرا کوئی نسبی لگاؤ ان سے نہیں ہے،اس لئے میں نے ان کے لئے جاسوسی کی کہ وہ اسی کا خیال کرکے میرے عزیزوں کی حمایت کریں گے ۔

میں نے کفر کی وجہ سے یہ حرکت نہیں کی اور نہ میں دیں سے مرتد ہوا ہوں،اور نہ اسلام کے بعد کفر کو پسند کیا ہے حضرت نے فرمایا یہ سچ کہہ رہا ہے،عمر نے کہا یا رسول اللہ ؐ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس گردن اڑادوں،آپ نے فرمایا نہیں یہ غازیان بدر میں سے ہے،اور خداوند عالم اہل بدر کے حال سے واقف ہے،اس نے فرما دیا ہے:جو چاہو کرو میں نے تمھیں معاف کردیا ہے،پس اس وقت یہ آیت نازل ہوئی:(اے ایمان لانےوالو!میرے اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ)(۱)

مذکورہ حدیث کا پس منظر

میں عرض کرتا ہوں کہ:

۱ ۔ آپ نے دیکھا کہ اس حدیث میں عمر کو اس لئے نہیں ڈ انٹا گیا کہ وہ حاطب پر لعن کررہے تھے،یا ان کے عمل کو برا کہہ رہے تھے،حالانکہ موضوع بحث یہی بات ہے(یعنی سابقون اوّلون پر طعن کا جواز یا عدم جواز)عمر صرف اس لئے ڈ انٹے گئے کہ وہ حاطب پر نفاق کا الزام لگا رہے تھے اور ان کو قتل کرنے کی کوشش کررہے تھے،جب کہ نبی ؐ نے حاطب کا عذر قبول کرلیا تھا اور حاطب نے خود کے بارے میں جو نفاق کی نفی کی تھی اس کی تصدیق کردی تھی،حدیث مذکورہ اسی بات کی تصریح کرتی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) صحیح مسلم ج: ۴ ص: ۱۹۴۱ کتاب فضائل،اہل بدر اور حاطب بن ابی بلتعہ کی داستان

۸۱

قرآن مجید حاطب کے فعل کو غلط ثابت کرتا ہے

اس موقعہ پر خداوند عالم نے حاطب کے اس فعل کو غلط قرار دیا،قرآن مجید میں اس موقعہ پر ارشاد ہوتا ہے:(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْأَن تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِيتُسِرُّونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْوَمَن يَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ..قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ.. لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَوَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ) (۱)

ترجمہ آیت:(اے ایمان دارو!اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے اور میری خوشنودی کی تمنا میں(گھر سے)نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ،تم ان کے پاس دوستی کا پیغام بھیجتے ہو اور جو دین حق تمہارے پاس آیا ہے اس سے وہ لوگ انکار کرتے ہیں،وہ لوگ رسول کو اور تم کو اس بات پر(گھر سے)نکالتے ہیں کہ تم اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے ہو(اور)تم ہو کہ ان کے پاس چھپ چھپ کے دوستی کا پیغام بھیجتے ہو،حالانکہ تم کچھ بھی چھپا کر یا بالاعلان کرتے ہو میں اس سے خوب واقف ہوں،اور تم میں سے ایسا جو شخص کرے تو وہ سیدھی راہ سے یقیناً بھٹک گیا ہے مسلمانو!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ ممتحنہ آیت ۶،۴،۱

۸۲

(تمہارے واسطے)تو ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کے(قول و فعل کا اچھا نمونہ موجود ہے)کہ انھوں نے جب اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور ان(بتوں)سے جنہیں تم خدا کے سوا پوجتے ہو بیزار ہیں ہم تو تمہارے(دین کے)منکر ہیں اور جب تک تم مکمل یکتا خدا پر ایمان نہ لاؤ ہمارے تمہارے درمیان کھلم کھلا عداوت اور دشمنی قائم رہےگی ۔ (مسلمانو)ان لوگوں کے(افعال)کا تمہارے واسطے جو خدا اور روز آخرت کی امید رکھتا ہے اچھا نمونہ ہے اور جو(اس)سے منھ موڑے تو خدا بھی یقیناً بےپرواہ(اور)سزاوار حمد ہے)

آپ دیکھ رہے ہیں کہ خداوند عالم اس قرآن میں جس کی تلاوت صبح و شام کی جاتی ہے علانیہ اس صحابی کو ڈ انٹ رہا ہے اور اس کو برا کہہ رہا ہے!کہ وہ خدا جو کھلے ہوئے قرآن میں کسی کو خود ڈ انٹ رہا ہے اور اس کو برا کہہ رہا ہے تو مسلمانوں کا ڈ انٹنا اور انکار کیوں پسند نہیں کرےگا اور کیوں اس کو برا کہنےوالے سے ناراض ہوگا مگر یہ کہ وہ خود توبہ کرلے تو یہ دوسری بات ہے جو ہماری بحث سے خارج ہے ۔

۲ ۔ نبی ؐ جو عمر کو روکا تو برا کہنے سے نہیں روکا تھا،بلکہ عمر اس کو جان سے مارنے کی کوشش کر رہے تھے اور سرکار ؐ کی رائے میں حاطب قتل کا مستحق بہرحال نہیں تھا یا یہ کہ حضور ؐ نے اس کو معاف کردیا تھا نہ یہ کہ اہل بدر کو غلطی کرنے پر انہیں دنیا میں سزا نہیں دی جائےگی،اس بات کا تو کسی نے التزام نہیں کیا ہے ۔

اس کے علاوہ حضور ؐ نے خود ہی مسطح بن اثاثہ پر اِفک کے معاملے میں حد جاری کی ہے(۱)

روایتوں میں یہ بات ملتی ہے(مسطح بن اثاثہ حالانکہ اہل بدر میں تھا)دوسرا ثبوت ابھی آپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) مسند ابی یعلی،ج: ۸ ص: ۳۳۸ ،السنن الکبریٰ،للبیھقی،ج: ۸ ص: ۲۵۰ ،کتاب المرتد،باب شوہردار عورتوں کو زنا سے متہم کرنے کی حد سے متعلق،سبل الاسلام،ج: ۴ ص: ۱۵ ،کتاب الحدود حد القذف کے باب میں،تفسیر القرطبی،ج: ۱۲ ص: ۲۰۱ ۔ ۲۰۲ ،تفسیر ابن کثیر،ج: ۳ ص: ۲۷۲ ،فتح الباری،ج: ۳ ص: ۲۷۲ ،فتح الباری،ج: ۱۳ ص: ۳۴۲ ،تحفۃ المحتاج،ج: ۲ ص: ۴۸۰ ،تاریخ الطبری،ج: ۲ ص: ۱۱۴ ،حدیث الافک۔

۸۳

کے دوسرے سوال کے جواب میں گذرچکا ہے کہ عمربن خطاب نے قدامہ بن مظعون پر حد قائم کی حالانکہ یہ دونوں حضرات اصحاب بدر میں تھے ۔ ( ۱)

حدیث،اہل بدر کی قطعی سلامتی اور نجات کی ضمانت نہیں لیتی

۳ ۔ حضور کا یہ کہنا ہے:((اللہ اہل بدر کے حالات سے مطلع ہے اس نے کہہ دیا کہ تم جو چاہو کرو میں نے تمہیں معاف کردیا ہے،اس سے قطعی سلامتی کے بجائے صرف سلامتی اور نجات کی امید پیدا ہوتی ہے اور صرف امید اس بات کی مانع نہیں کہ ان کے اعمال کے نتیجے میں ان پر طعن نہ کی جائے،جبکہ ان کے اعمال قابل طعن ہوں،اس لئے کہ اگر کوئی آدمی علانیہ فاسق ہو تو اس پر طعن کے جائز ہونے میں کوئی اشکال نہیں جب کہ اس کی ہلاکت قطعی نہیں ہے،اس لئے کہ خدا کی رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے اور وہ بخشنےوالا اور رحم کرنے والا ہے ۔

۴ ۔ حدیث کا قطعی نجات پر محمول کرنا ایک تکلف ہے،جو بے بنیاد اور بے دلیل بات ہے،اس کا کوئی دعویٰ بھی نہیں کرتا ہے،اہل سنت کی بات دوسری ہے وہ تو تسلیم کرچکے ہیں کہ سارے صحابہ کو استقامت حاصل تھی اور سارے صحابہ جہنم سے محفوظ ہیں اور ہمارا موضوع بحث بھی یہی ہے اس لئے کہ دعویٰ کبھی دلیل نہیں بن سکتا یہاں پر مقام احتجاج میں اس نظریہ کو پیش کیا جاسکتا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) تفسیر القرطبی،ج: ۶ ص: ۲۹۷ ،المستدرک علی صحیحن،ج: ۳ ص: ۴۶۶ ،کتاب معرفۃ الصحابۃ قدامہ بن مظعون بن حبیب وہب جمحی سے متعلق بحث میں،المعجم الکبیر،ج: ۱۹ ص: ۳۷ ،جس کا نام قدامہ تھا یعنی قدامہ بن مظعون جمحی بدری،فتح الباری،ج: ۷ ص: ۳۰۶ ،سیر اعلام النبلاءج: ۱ ص: ۱۶۱ ،قدامہ بن مظعون کی سوانح میں،الطبقات الکبریٰ،ج: ۳ ص: ۴۰۱ ،قدامۃ بن مظعون کے سوانح حیات میں،الاصابۃ،ج: ۵ ص: ۴۲۳ ،قدامہ بن مظعون کی سوانح میں،تہذیب الاسماء،ج: ۲ ص: ۳۷۱ ،قدامہ بن مظعون کے سوانح حیات میں،الاستیعاب،ج: ۴ ص: ۱۴۷۲ ،مسطح بن اثاثہ کے سوانح حیات میں،المتقنیٰ فی سردالکنی،ج: ۱ ص: ۳۴۰ ،ابی عباد مسطح بن اثاثہ کی سوانح حیات میں،سیر اعلام النبلاء،ج: ۱ ص: ۱۸۷ ،مسطح بن اثاثہ کے سوانح حیات میں،مشاہیر علماء الامصار،ص: ۱۲ ،مسطح بن اثاثہ کے سوانح حیات میں الثقات،ج: ۳ ص: ۳۸۳ ،مسطح بن اثاثہ کے سوانح حیات میں نیز اس کے علاوہ منابع،

۸۴

اہل بدر کی قطعی سلامتی کا اعلان انھیں گناہ پر ابھارےگا

اولاً ۔ اس نظریہ سے برائی کی چھوٹ ملتی ہے جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ سابقون اوّلون والی آیت کی تفسیر میں جو حدیث لائی گئی اس میں اہل بدر کو کس طرح برائی کے لئے آزادی دی جارہی ہے ۔

مزید وضاحت کے لئے بخاری شریف کی مندرجہ ذیل حدیث ملاحظہ ہو ۔ ((بخاری فلاں سے روایت کرتے ہیں کہ ابوعبدالرحمن اور حبان بن عطیہ میں جھگڑا ہوا ابوعبدالرحمٰن نے حبان بن عطبہ سے کہا تمہیں معلوم ہے تمہارے صاحب یعنی علی ؑ کی ہمت خون بہانے میں کیوں بڑھی ہوئی ہے،حبان نے کہا تیرا باپ نہ ہو کیوں؟کہا اس کی وجہ ایک بات ہے جو میں نےن کو کہتے ہوئے سنا ہے،پوچھا گیا بات ہے؟کہا ہو کہہ رہے تھے کہ ہمیں زبیر کو اور ابومرثد کو سرکار نے کسی کام سے بھیجا ہم سب گھوڑوں پر سوار تھے....عمر نے کہا یا رسول اللہ ؐ اس نے خدا اور خدا کے رسول اور مومنین سے خیانت کی ہے،مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی گردن ماردوں،سرکار ؑ نے کہا سچ کہہ رہے ہو لیکن اس کے بارے میں سوائے خیر کے کچھ مت بولا کرو،پھر عمر نے اعادہ کیا اور کہا اے رسول ؐ اس نے خدا سے خدا کے رسول اور مومنین سے خیانت کی ہے آپ اجازت دیں کہ میں اس کی گردن ماردوں،آپ نے فرمایا کیا وہ بدر والوں میں نہیں ہے؟اور کیا تمہیں معلوم نہیں،اللہ اہل بدر کے حال سے اچھی طرح واقف ہے،تم جو چاہو کرو،میں نے تم پر جنت واجب کردی ہے،یہ سن کے عمر رونے لگے اور ان کی آنکھیں دب ڈ با گئیں،پھر کہا اللہ اور اللہ کے رسول ؐ بہتر جانتے ہیں(۱)

ملاحظہ ہو اگر چہ ہم شیعہ اس بات کے قائل ہیں بلکہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امیرالمومنین ؑ کبھی خون ناحق نہیں بہاسکتے اور صفین و نہروان کی جنگ میں شریک ہونا آپ کے اوپر واجب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)صحیح بخاری ج:۶ص:۲۵۴۲،کتاب استتابۃ المرتدین...باب ما جاء فی المتادلین حدیث:۶۵۴۰

۸۵

تھا،جیسا کہ بہت سے علماء نے تصریح کی ہے(۱)

اس کے علاوہ آپ نے نبی کے ہمرکاب ہو کر جنگ کا ایک عہد کیا تھا ۔ اور نبی نے آپ کو ناکثین قاسطین اور مارقین(۲) سے لڑنے کا حکم دیا تھا لیکن حدیث مذکور عام ذہنوں کا بہرحال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)بہت مناسب ہے کہ ہم یہاں پر وہ عبارت تحریر کریں جسے نصر بن مزاحم نے وقعۃ الصفین میں جنگ کے شعلوں کے بھڑک جانے کے بعد طرفین کی یلغار کے سلسلہ میں روایت کی ہے:وہ کہتے ہیں کہ:شامیوں میں سے ایک شخص باہر آیا جو پکار پکار کے کہہ رہا تھا کہ اے ابوالحسن اے علی کہاں ہو آؤ مجھ سے جنگ کرو حضرت علیؑ وارد میدان ہوئے دونوں صفوں کے درمیان ان کے گھوڑوں کی گردنیں ایک دوسرے سے ٹکرئیں،اس شامی نے آپ سے کہاں کہ:اے علی!آپ نے ہجرت کی کیا یہ ہوسکتا ہے کہ میں ؤپ کے سامنے ایک تجویز رکھوں جس میں ان سارے خون خرابے سے بچاؤ اور اس طرح کی جگ و خونریزی سے بچنے کی سبیل مضہر ہے،پھر اس کے بعد آپ کو اختیار ہے،امام نے فرمایا:وہ تجویز کیا ہے؟اس نے کہا آپ عراق واپس چلے جائیں ہم آپ کے لئے عراق کا علاقہ چھوڑ دیتے ہیں اور ہم شام چلے جاتے ہیں اور شام ہمارے قبضہ میں رہے آپ اس سے تعرض نہ کریں،امام نے فرمایا:تم نے شفقت بھری نصیحت کی ہے میں اس کی قدر کرتا ہوں مجھے بھی جنگ و جدال کا شوق نہیں ہے بلکہ اس فکر نے میری راتوں کی نیند چھین لی ہے میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھایا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ((لم اجد الا القتال او الکفر بما انزل اللہ علی محمد))یا میں ان سے جنگ کروں یا پھر دین محمدی کا منکر ہوجاؤں،اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء سے راضی نہیں ہے کہ روئے زمین پر اس کی معصیت ہو اور چپ بیٹھے رہیں امربالمعروف نہ کریں اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا نہ کریں،بھائی!میں ان سے جگ کو اپنے حق میں کہیں بہتر سمجھتا ہوں اس سے کہ جہنم میں آگ کی زنجیروں میں جکڑدیا جاؤں،وقعۃ الصفین،ص:۴۷۴،شرح نہج البلاغہ،ج:۲ص:۲۰۸،۲۰۷،اخبار الطّوال،ص:۱۸۷۔۱۸۸،ینابیع المودہ ج:۲ص:۸۔۹،اسد الغابۃ ج:۲ص:۶۳،

(۲)المستدرک علی صحیحین،ج:۳ص:۱۵۰،کتاب صحابہ کی معرفت اور حضرت امیرالمومنینؑ کے اسلام کا ذکر،مجمع الزوائدج:۵ص:۱۸۶،کتاب الخلافۃ خلفاء اربعہ کے باب میں،ج:۷ص:۲۳۸،کتاب الفتن،جو دو گروہ کے درمیان صفین میں رونما ہوا ہے اس کے باب میں،مسند ابی یعلی،ج:۱ص:۳۷۹،مسند علی ابن ابی طالبؑ کے بیان میں،مسند البراز،ج:۲ص:۲۱۵،جو علقمہ بن قیس نے علی سے متعلق روایت کی ہے کہ بیان میں،ج:۳ص:۲۷،جو علی بن ربیعہ اسدی نے علی بن ابی طالب سے متعلق روایت کی ہے،مسندالشاشی،ج:۲ص:۳۴۲،اس روایت کے ذیل میں جو علقمہ بن قیس نے عبداللہ بن مسعود کے بارے میں کی ہے،المعجم الکبیر،ج:۱۰ص:۹۱،اس روایت کے ذیل میں جو علقمہ بن قیس نے عبداللہ بن مسعود کے بارے میں کی ہے۔

۸۶

انکشاف کرتی ہے،آپ دیکھیں کہ اس حدیث میں صرف یہ امید کی گئی ہے کہ اہل بدر نجات یافتہ ہیں مگر محض اس امید کی بنیاد پر حضرت علی ؑ نے(امام بخاری کے نظریہ کے مطابق یا ابوعبدالرحمٰن کے نظریہ کے مطابق)امت میں کتنا خون بہایا،امیر المومنین ؑ تو ہمارے عقیدہ کے مطابق معصوم ہیں اور آپ اس طرح کی غلطیوں سے اپنی عصمت کی بنا پر بالکل پاک ہیں لیکن آپ دیکھیں کہ اس حدیث کی بنیاد پر عام ذہن کیا سونچ رہا ہے اور اس حدیث کا عام آدمی پر کیا اثر پڑےگا اس لئے کہ عام آدمی بشری کمزوریوں اور انسانی جذبات سے محفوظ تو نہیں ہے خصوصاً جب ان کا نفس یہ کہہ کے انھیں گناہ پر ابھارے کہ تم گناہ و ثواب کی فکر کیوں کرتے ہو؟حضور ؐ نے تو تمہاری سلامتی کی نص وارد کردی ہے ۔

ثانیاً ۔ بعض واقعات کو دیکھیں تو خود اہل بدر کا نظریہ آپ کے نظریہ سےمیل نہیں کھاتا نہ قرآن مجید اس ی تائید کرتا ہے قرآن نے بعض سابقون کے بارے میں دوسرے سابقون کے نظریہ پر اعتراض کیا ہے یہ سب باتیں آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں عرض کی جاچکی ہیں جہاں میں نے بتایا تھا کہ قرآن مجید کا صحابہ کے بارےمیں کیا موقف ہے ۔

ثالثاً ۔ مزید بر آں آپ کے اہل بدر والے اس نظریہ سے خود دوسرے صحابہ سے متفق نہیں ہیں آپ تاریخ تو پڑھیں،میں دوسرے سوال کے جواب میں یہ باتیں بھی پیش کرچکا ہوں ۔

اس طرح کی حدیثوں میں گناہ کبیرہ سے بچنے کی قید لگانا ضروری ہے

۵ ۔ اگر یہ مان لیا بھی جائے کہ مذکورہ حدیث سے اصحاب بدر کی نجات یقینی ہے تب بھی اس میں گناہان کبیرہ سے بچنے کی قید لگانا ضروری ہے یعنی اسیے گناہ جو مہلک ہیں مثلاً ارتداد،نفاق،حکم خدا کی تردید اور دین میں بدعت و غیرہ،اس لئے کہ کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ مندرجہ بالا گناہ کرنے کے باوجود اہل بدر بخش دئے جائیں گے میرا خیال ہے کہ سابقون اوّلون کی بخشش کا یقین اہل سنت کو یا تو اس لئے ہے کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سابقون سے مذکورہ گناہ صادر ہی نہیں ہوئے یا اس لئے کہ اگر انہوں نے ایسے گناہ کئے بھی تو توبہ کرلی لیکن حدیث میں ان دونوں ہی باتوں پر کوئی دلالت موجود نہیں

۸۷

ہے کہ جب انہوں نے گناہ کیا تھا اس وقت بخش دئے گئے تھے یا اس سے قبل کے گناہ بخش دئے گئے ہیں اور جب حدیث کو مہلک گناہوں سے مقید کردیں گے یعنی ذنوب مہلکہ کا غفران اس مغفرت میں شامل نہیں ہے تو پھر یہ دعویٰ کہ ان سے اس طرح کے گناہ ہوئے ہی نہیں یا یہ کہ گناہاں کبیرہ کئے لیکن توبہ کرلی،ان دونوں باتوں کے لئے الگ سے دلیل لانی پڑےگی ۔

قرآن مجید حاطب کی جس طرح تہدید کرتا ہے اس سے سلامت قطعی نہیں سمجھی جاسکتی

۶ ۔ خداوند عالم کا یہ کہنا ہے کہ:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (۱)

ترجمہ آیت:(جو خدا اور آخرت سے امیدوار ہے اس کی سیرت میں تمہارے لئے قابل پیروی باتیں ہیں اور جو منھ موڑ لیتا ہے تو اللہ بےنیاز اور سزاوار احمد ہے ۔ )

یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حاطب اس وقت تک معرض ہلاکت میں ہے جب تک توبہ نہ کرلے،یہ ثابت کرنےکے لئے کہ وہ اللہ اور آخرت کا امیدوار ہے،اسے اسوہ ابراہیمی اور اصحاب ابراہیم ؑ کی پیروی کرنا ضروری ہے اور اس پیروی کا اظہار اس طرح ہوگا کہ وہ کافروں سے اظہار برائت کرے اور ان سے دور رہے،اگر وہ اس سیرت ابراہیمی کی پیروی نہیں کرتا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کو خدا سے کوئی امید ہے نہ آخرت سے،اس منزل پاس میں جو بھی پہنچ جائے اس کی ہلاکت میں کسی کو اشکال نہٰں ہے بلکہ ارشاد ہوتا ہے(جو منھ موڑےتو اللہ بےنیاز ہے اور سزاوار حمد ہے)اور اس ٹکڑے میں اتنی سخت دھمکی ہے کہ جو کسی پر مخفی نہیں ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ ممتحنہ آیت:۶

۸۸

جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

لَن تَنفَعَكُمْ أَرْحَامُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ(۱)

ترجمہ آیت:(تمہاری رشتہ داریاں اور تمہاری اولاد تم کو قیامت کے دن کوئی فائدہ نہیں پہنچائےگی،اس دن تو وہی تمہارے درمیان فیصلہ کرےگا اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے ۔ )

اس آیت میں حاطب کی تردید اور اس کے قبول عذر سے رفض ظاہر ہورہا ہے،حاطب کا شدت سے انکار کیا جارہا ہے اور تہدید کی جارہی ہے پھر کیسے ممکن ہے کہ اس تہدید و انکار کے بعد بھی اللہ اس کو معاف کرکے اس کی سلامتی کو قطعی قرار دےگا،اس آیت سے امید بھی ظاہر نہیں ہورہی ہے جو معنائے حدیث میں شامل ہے کہ:اگر گناہاں کبیرہ اس سے صادر ہوئے ہیں تو حدیث سے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے بخشے جانے کی امید ہے،جب کہ آیت کا اس کا انکار کرتی ہے ۔

۷ ۔ چونکہ مذکورہ آیتیں نبی ؐ کی حدیث مذکور کے بعد نازل ہوئیں ہیں لہذا دو میں سے کوئی ایک بات ماننی پڑےگی یا تو نبی کریم ؐ اس گناہ کی اہمیت سے ہی ناواقف تھے جو حاطب کرچکا تھا،جب کہ ایسا ناممکن ہے بہرحال مان لیں کہ نبی ؐ اس گناہ کی اہمیت سے ناواقف تھے اور اللہ نے نبی کریم ؐ کے وہم کو دور کردیا اس آیت کو نازل کرکے یا یہ کہ نبی ؐ عمر کی منھ زوری کو لگام دینا چاہتے تھے اور ان کو روکنا چاہتے تھے،آپ اس کو معاملات نبوت میں مداخلت سے باز رکھنا چاہتے تھے اس لئے کہ اس سے آگے چل کے بہت سے نقصانات دین کو پہنچ سکتے ہیں اس لئے حضور ؐ نے ان کو ڈ انٹا،یعنی حضور ؐ حاطب کے گناہ کی اہمیت سے واقف تھے اور اس کو معرض خطر میں سمجھ رہے تھے اب دو میں سے جو بات آپ کے دل کو لگتی ہو مان لیں ۔

رہا شیعوں کا سوال تو ہم لوگ تو آیات مذکورہ کی صراحت کے بعد ابھی اس حدیث ہی کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ ممتحنہ آیت: ۳

۸۹

مشکوک سمجھ رہے ہیں ہمیں متن حدیث ہی میں شک ہے دلالت اور سند حدیث میں تو شک و شبہ ہے ہی،کیونکہ اس میں جان بوجھ کے تحریف ہوئی یا غیرارادی طور پر تحریف ہوئی ۔

تھوڑی سی گفتگو حدیث حاطب جیسی حدیثوں کے بارے میں

۸ ۔ اس طرح کی دوسری حدیث حاضر کررہا ہوں اس سے بھی اسی حالت کا اظہار ہوتا ہے،ابوہریرہ کہتے ہیں(پھر انصار میں سے ایک آدمی اندھا ہوگیا تو اس نے حضور ؐ کو بلا بھیجا کہ اس کے گھر میں ایک مسجد بنادیں تا کہ وہ وہیں نماز پڑھا کرے،سرکار ؐ اس کے گھر آئے اور اس کی قوم اس کے پاس جمع ہوئی لیکن ان کا ایک آدمی نہیں آیا،جب حضور ؐ نے پوچھا وہ کہاں ہے لوگوں نے اس سوال کے جواب سے چشم پوشی کی لیکن ایک آدمی بولا وہ تو(ایسا ویسا ہوگیا)آپ نے فرمایا کیا وہ اہل بدر میں سے نہیں ہے؟کہاں ہاں اے خدا کے رسول ؐ لیکن وہ اسی ویسی حرکتیں کرتا ہے فرمایا،اللہ بدروالوں کے حال سے بہتر واقف ہے تم کو جو سمجھ میں آئے کرو بیشک میں نے تم کو بخش دیا ہے)(۱) مندرجہ بالا حدیث کی سند میں اگر چہ ہلکاپن ہے،لیکن یہ بھی اہل بدر کی قطعی سلامتی پر دلالت نہیں کرتی ۔ جس طرح آیہ کریمہ کے معنی سے اس کو کوئی مناسبت نہیں ہے ممکن ہے کہ یہ حدیث اس آیت کے قبل صادر ہوئی ہو تو بھی اس پر سابقہ اصول جاری ہوں گے ۔

۹ ۔ اسی طرح کی ایک حدیث جابر سے ہے،کہتے ہیں کہ حاطب کا ایک غلام تھا وہ حضور ؐ کی خدمت میں حاطب کی شکایت لے کے آیا،کہنے لگا خدا کے رسول ؐ حاطب ضرور جہنم میں جائےگا،آپ نے فرمایا ہرگز نہیں جھوٹا ہے،وہ جہنم میں نہیں جاسکتا،وہ بدری مجاہدوں میں ہے اور حدیبیہ میں شریک تھا ۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) صحیح حبّان،ج: ۱۱ ص: ۱۲۳ ،حدیث شمارہ ۴۷۹۸ ،غزوہ بدر میں جہاد کے وجوب کے باب سے متعلق ایسی خبر کا ذکر کرنا جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو اہل بدر نے بدر کے دن کرتوت کئے ہیں خداوند عالم نے اسے بخش دیا اور طلحہ اور زبیر بھی انہیں میں سے ہیں۔

( ۲) صحیح ابن حبان ج: ۱۱ ص: ۱۲۲ حدیث: ۴۷۹۹ باب فرض جہاد:جنگ بدر:جنگ بدر اور صلح حدیبیہ میں شریک افراد کے داخل جہنم ہونے کے بارے میں انکار کا تذکرہ

۹۰

چونکہ بدر اور حدیبیہ کی فضیلت تمام گناہوں سے بخشش کی سند نہیں دےسکتی،گناہان کبیرہ کی تو بات ہی الگ ہے اور یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ نبی ؐ برحق اس غفران کو قطعی قرار دیں،اس لئے کہ اس سے اعمال قبیحہ کی طرف ترغیب لازم آئےگی پس ضروری ہے کہ اس حدیث کو اس معنی پر محمول کیا جائے کہ آپ نے حاطب کے غلام کے اس نظریہ کی تردید کی تھی کہ حاطب کا جہنم میں جانا یقینی ہے جب کہ وہ بدر اور حدیبیہ کا شاہد ہے،یہ بھی ممکن ہے کہ غلام نے جن گناہوں کی شکایت کی تھی وہ قابل بخشش ہوں اور ان کی وجہ سے اس کا جہنمی ہونا یقینی نہ ہو ۔

حکمت اور عقل کا تقاضا یہ ہے کہ حدیث حاطب کی تاویل کی جائے

ممکن ہے کہ اس طرح کی حدیثون کی اگر سند و متن محکم ہوں تو ایسی تاویل کی جائے جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہو،ساتھ ہی کتاب اور سنت میں اسی معنی کا ظہور ہو جیسے یاد دہانی پر تاکید،عذرتراشی سے پرہیز اور خواہ مخواہ دوسروں کو سرزنش کرنے سے روکنا تا کہ نفس کے بہکنے اور نجات کی امید و غیرہ پر ایسا اعتماد نہ ہوجائے کہ جس کی وجہ سے انسان محارم کا مرتکب ہو،حدود الہی کو توڑ دےاور آخرت میں منکر الہی سے بالکل محفوظ دل میں ڈ الی دے یا اسی طرح کے دوسرے گناہوں پہ ابھارے جس سے بچنے کی اللہ نے تاکید کی ہے ۔ ان تاویلوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضور ؐ بدر میں جہاد کی اہمیت اور اس کی عظیم فضیلت بیان کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ بدر میں جہاد کی وجہ سےہل بدر کے سابقہ گناہ بخشے جاسکتے ہیں،اس لئے کہ:

إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ(۱)

(ترجمہ آیت:(اچھائیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں) ۔

یا یہ کہ حضور ؐ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عمل جاری رکھو چاہے وہ خیر ہو یا شر،تمہارا گذشتہ کردار یعنی جنگ بدر میں شرکت تمہاری سابقہ خطاؤں کی بخشش کے لئے کافی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ ہود آیت ۱۱۴ ،

۹۱

اب اس کے بعد(گناہ چاہے ثواب)جو عمل بھی اختیار کرو تمہارے اختیار میں ہے جیسے حاجیوں کے بارے میں حدیث وارد ہوئی ہے(کہ عمل کرتے رہو تمہیں بخش دیا گیا ہے)(۱) ابوہریرہ حضور ؐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو خدا کے لئے حج کرے پس وہ فحش نہ بکے اور فاسق نہ ہو تو وہ گناہوں سے یونہی پاک ہوجاتا ہے جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے نکلا ہو ۔(۲)

اس بیان سے مقصد یہ ہے کہ ایسی فضیلتوں والا اس بات کا مستحق ہے کہ نبی ؐ اس کی اس طرح کی غلطیوں کو معاف کردیں جس سے مقصد اس کی اصلاح ہے یا یہ بتانا کہ اللہ نے اس کے گناہوں کو بخش دیا ہے نہ کہ اس کی قطعی سلامتی کا اعلان کیا ہے ۔

عمداً یا سہواً حدیثوں سے مغالطے ہوتے ہیں

اصل میں یا تو انسان ان مرتبوں سے لاعلم ہوتا ہے جن کے ماحول میں حدیث صادر ہوئی یا جان بوجھ کے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے،بہرحال جو ہو حدیثوں سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے مثال کے طور پر محمد بن مارد کی حدیث ملاحظہ فرمائیں،اس نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ جب تمہیں معرفت امام حاصل ہوجائے تو پھر جو چاہے کرو،آپ نے فرمایا ہاں میں نے یہ کہا ہے میں نے عرض کیا اس کا مطلب ہے کہ امام کو پہچان لینے کے بعد اس کو اجازت ہے چاہے وہ زنا کرے چاہے چوری کرے یا شراب پیئے،آپ نے فرمایا:(انّا لله و انّا الیه راجعون) خدا کی قسم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)وسائل الشیعہ ج:۸باب:۳۸شرائط واجبات حج)

(۲)صحیح بخاری ج:۲ص:۵۵۳،کتاب الحج،حج مبرور(مقبول)کی فضیلت کے باب میں انھیں الفاظ میں صحیح مسلم،ج:۲ص:۹۸۴،کتاب حج،حج عمرہ اور روز عرفہ کی فضیلت کے باب میں،صحیح بن خزیمۃ،ج:۴ص:۱۳۱،کتاب المناسک حج کی فضیلت کے بیان میں جس میں جنگ و جدال،فسق و فجور اور گناہوں اور خطاؤں کے کفارہ کے باب میں،صحیح بن حبان،ج:۹ص:۷،کتاب حج،حج و عمرہ کی فضیلت کے باب میں،اللہ کی بخشش گذشتہ گناہوں سے متعلق جو کوئی ایسا حج کرے جس میں جنگ و جدال اور فسق و فجور نہ ہو،مسند ابی الجعد،ص:۱۴۱شعبہ بن منصور کی باقی حدیث کے ضمن میں نیز اس کے علاوہ بہت سارے مصادر میں۔

۹۲

لوگوں نے ہمارے ساتھ انصاف نہٰں کیا یہ ممکن ہے کہ ہم تو عمل کی وجہ سے پکڑے جائیں اور ہمارے شیعوں پر سے اعمال ساقط ہوجائیں میرے کہنے کا مطلب تو یہ تھا کہ جب تم امام کو پہچان لیتے ہو تو اچھا کام چاہے زیادہ کرو چاہے کم،اللہ اسے قبول کرےگا ۔(۱)

واقعہ بدر کے علاوہ بھی ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں سلامت قطعی وارد ہوئی ہے

۱۰ ۔ بہت سے اعمال خیر اور عقائد حقہ ہیں جن کے بارے میں سلمات قطعی وارد ہوئی ہے،ملاحظہ ہو ابوذر غفاری کی حدیث آپ کہتے ہیں حضور ؐ نے فرمایا:کوئی بندہ ایسا نہیں ہے کہ لا الہ الا اللہ کہے اور اسی کلمہ پر مرجائے مگر یہ کہ وہ جنت میں داخل ہوگا میں نے کہا چاہے وہ زنا کرے چاہے چوری فرمایا چاہے زنا کرے یا چوری،میں نے کہا چاہے زنا کرے یا چوری فرمایا چاہے زنا کرے یا چوری میں نے پھر پوچھا چاہے زنا کرے یا چوری فرمایا چاہے وہ زنا کرے یا چوری ابوذر کی چاہت کے خلاف(۲) اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں ۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)وسائل الشیعہ ج:۱ص:۸۷باب:۲۸باب مقدمہ عبادت حدیث:۲

(۲)صحیح بخاری ج:۵ص:۲۱۹۳کتاب اللباس:باب ثیاب البیض

(۳)صحیح بخاری ج:۱ص:۴۱۷،باب اور کتاب دونوں ہی جنازوں سے متعلق ہے،ج:۵ص:۲۳۱۲،کتاب الاستیذان،جس نے لبیک اور سعدیک جیسے کلموں کے ذریعہ جواب دیا،ص:۲۳۶۶،کتاب الرقاق(بندگی)سے متعلق،جو اسے پیش کیا گیا وہ اس کا مال ہے کے باب میں،صحیح مسلم،ج:۱ص:۹۵۔۹۴،کتاب الایمان اس امت کے افتراق سے متعلق باب الزکاۃ،صدقہ کی ترغیب کے باب میں،سنن الترمذی،ج:۵ص:۲۷،کتاب الایمان اس امت کے افتراق سے متعلق باب میں،السنن الکبریٰ،نسائی،ج:۶ص:۱۴۴،ابوذر غفاری کی حدیث میں،مسند ابی عوانہ،ج:۱ص:۲۸،کتاب الایمان،ان اعمال اور فرائض کے بیان میں جن میں قول و فعل کے ذریعہ انجام دیا ہے اور اس کی وجہ سے جنت میں داخل ہوا،نیز اس دلیل کے سلسلے میں صرف اقرار کافی نہیں ہے جب تک دل سے یقین نہ کرے اور خدا کی رضا کا طالب نہ ہو جو چیز حرام کردیتی ہے اور اس کے علاوہ مصادر۔

۹۳

عمر کہتے ہیں کہ سرکار ؑ نے فرمایا،تم میں سے جو بھی وضو کرے اوراشهد ان لا اله الله و اشهد ان محمد عبده و رسوله کہے اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جائیں گے جنت میں چاہے جس دروازے سے داخل ہو ۔(۱)

عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے پیغمبر کو یہ کہتے سنا اللہ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں جو بہترین وضو کرکے ان کو ان کے وقت پر ادا کرے اور کامل رکوع و سجود اور خشوع کے ساتھ ادا کرے،اللہ پر عہد ہے کہ وہ اس بندہ کو بخشےگا اور جو ایسا نہیں کرے اس کا اللہ پر کوئی عہد نہیں چاہے بخشے چاہے سزادے.(۲) اسی طرح کی دوسری حدیثیں ملاحظہ ہوں ۔(۳)

ابوہریرہ کہتے ہیں ایک عرب حضور ؐ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا مجھے ایسا عمل بتائیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) السنن الکبریٰ،بیھقی،ج: ۱ ص: ۷۸ ،کتاب الطہارۃ،وضو کے مستحبات اور واجبات کے بیان میں،باب وضو سے فارغ ہونے کے بعد کیا کہےگا انھیں الفاظ میں صحیح بخاری،ج: ۳ ص: ۱۲۶۷ ،کتاب الانبیاء باب قول خداوند(یا اهل الکتاب لا تفعلو فی دینکم و لاتقولوا علی الله الا الحق انّما المسیح بن مریم رسول الله و کلمة القاها الی مریم و روح منه فٰامنوا بالله و رسوله و لاتقولوا ثلاثة...) صحیح مسلم ج: ۱ ص: ۲۰۹ کتاب الطہارۃ وضو کے بعد مستحب ذکر کے باب میں،صحیح ابن خزیمہ،ج ۱ ص: ۱۱۰ ،کتاب الوضو،بغیر ایجاب کے تطہیر اور استحباب کے ابواب میں،باب تحلیل اور نبی کی رسالت کی گواہی کی فضیلت اور عبودیت کے بیان میں نیز وہ چیزیں نہ کہی جاتیں جو نصاریٰ عیسٰ بن مریم کے بارے میں کہتے ہیں،نیز اس کے علاوہ دیگر منابع و ماخذ

( ۲) السنن الکبریٰ،بیھقی،ج: ۳ ص: ۳۶۶ ،تارک الصلواۃ کے باب میں،جس کے ذریعہ اس بات پر استدلال کیا جاتا ہے کہ اس کفر سے مراد وہ کفر ہے جس سے اس کا خون مباح ہوتا ہے نہ یہ کہ اللہ،رسول پر ایمان سے خارج ہوجاتا ہے اگر وجوؓ صلاۃ کا منکر نہیں ہے

( ۳) سنن ابی داؤدج: ۱ ص: ۱۱۵ ،باب اوقات نماز کی پابندی،مسند احمدج: ۵ ص: ۳۱۷ ،عبادۃ بن صامت کی حدیث،الاحادیث المختارۃ،ج: ۸ ص: ۳۲۰ ،جس کا نام عبدالرحمٰن بن عسیلۃ الصنابحی،المعجم الاوسط ج: ۹ ص: ۱۲۶ ،باب الھاء،ہاشم کے اسم کے بارے میں،الترغیب و الترھیب،ج: ۱ ص: ۱۴۸ ۔ ۱۵۷ ۔ ۱۵۵ ،تعظیم قدر الصلاۃ ج: ۲ ص: ۹۵۳ ،وغیرہ مصادر

۹۴

جس کو کر کے میں جنت میں داخل ہوجاؤں،آپ نے فرمایا اللہ کی عبادت کرو اور اس کی ذات میں کسی کو شریک نہ بنا،واجب نمازیں پڑھتا رہ،فرض زکٰوۃ ادا کرتا رہ،رمضان میں روزے رکھتا رہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس سے زیادہ میں کچھ نہ کہوں گا ۔(۱)

دوسری حدیث ابوہریرہ ہی سے ہے کہ ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے اور مستحب حج کی جزا سوائے جنت کے کچھ نہیں ۔(۲)

حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا جو حج یا عمرہ کے لئے سفر میں ہو اور مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کے درمیان چاند دیکھے اس کے گذشتہ اور آئندہ گناہ بخش دئے جاتے ہیں اور اس پر جنت واجب ہوجاتی ہے ۔(۳)

ظاہر ہے کہ ان حدیثوں کو ہم ظاہر پر حمل نہیں کرسکتے ورنہ اعمال کی دنیا میں اندھیرا ہوجائےگا اس لئے کہ باقی محرمات و واجبات پر جو دلیلیں اور کتاب و سنت میں جو وعید وارد ہوئی ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) صحیح بخاری ج: ۲ ص: ۵۰۶ ،کتاب الزکاۃ،باب زکوۃ کا وجوب اسی لفظ میں صحیح مسلم ج: ۱ ص: ۴۴ ،کتاب الایمان،اس ایمان کے باب میں جس کی وجہ سے جنت میں داخل ہوتا ہے نیز مامور بہ سے جو متمسک ہوجائے وہ جنت کا حقدار ہے مسند احمد،ج: ۲ ص: ۳۴۲ ،مسند ابی ہریرہ،جامع العلوم و الحکم،ص: ۲۰۷ ،الایمان لابن مندۃ،ج: ۱ ص: ۲۶۹ ،اس بات کے ذکر میں نبی کی اصحاب نے بیعت کی اس طرح سے کہ اشہد ان لا الہ الّا اللہ و ان محمداً رسول اللہ کی گواہی دے،الترغیب و الترھیب،ج: ۱ ص: ۳۰۲

( ۲) صحیح بخاری ج: ۲ ص: ۶۲۹ ،باب عمرہ،وجوب عمرہ اور اس کی فضیلت کے باب میں اور اسی لفظ میں صحیح مسلم ج: ۲ ص: ۹۸۳ ،کتاب حج،حج و عمرہ اور روز عرفہ کی فضیلت کے باب میں،صحیح ابن خزیمۃ ج: ۴ ص: ۱۳۱ ،کتاب المناسک،حج و عمرہ کے درمیان فرق کے باب میں،السنن الکبری،بیھقی ج: ۵ ص: ۲۶۱ ،کتاب حج،حج و عمرہ کی فضیلت کے باب میں،سنن ابن ماجۃ ج: ۲ ص: ۹۶۴ ،باب فضیلت حج و عمرہ،موطا مالک،ج: ۱ ص: ۳۶۴ ،کتاب حج،جو عمرہ کے لئے آئے اس کے باب میں،مسند احمدج: ۳ ص: ۴۴۷ ،حدیث عامر بن ربیعۃ،

( ۳) سنن الدار قطنی،ج: ۲ ص: ۲۸۳ ،کتاب الحج،انھیں الفاظ میں السنن الکبری،بیھقی ج: ۵ ص: ۳۰ ،کتاب الحج،جو مسجد اقصی اور مسجدالحرام کے جوار میں اس کی فضیلت کے باب میں،سنن ابی داؤد،ج: ۲ ص: ۱۴۳ ،کتاب مناسک کی ابتداء میں اوقات کے باب میں،المعجم الاوسط ج: ۶ ص: ۳۱۹ ،الترغیب و الترھیب،ج: ۲ ص: ۱۲۱ ،وغیرہ

۹۵

ان حدیثوں سے مطابقت نہٰں کرتیں،ظاہر ہے کہ ان حدیثوں کی تاویل،کرنی پڑےگی اور استقامت اور حسن خاتمہ کی قید لگانی پڑےگی،اس لئے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نجات اور ابدی نعمتوں کے لئے یہ دونوں چیزیں شرط ہیں،تو آپ جیسی بھی ان حدیثوں کی تاویل کریں حدیث بدر کی بھی وہی تاویل کرلیں،(یعنی استقامت اور حسن خاتمہ کو حدیث میں قطعی نجات کے لئے شرط قرار دیں)

حدیث مذکورہ اہل بدر سے مخصوص ہے نہ کی باقی سابقون اوّلون سے

اختتام کلام میں عرض ہے کہ(اگر ہم حدیث مذکورہ کی بنار پر اہل بدر کو مغفور و مامون مان بھی لیں تو)یہ حدیث تو صرف اہل بدر سے مخصوص ہے ان کے لئے جو واقعہ بدر میں نبی ؐ برحق کے ساتھ تھے تو پھر سابقون اوّلون جن کو اہل سنت سابقون اوّلون کہتے ہیں ان کی قطعی نجات اور یقینی سلامت پر یہ دلیل کیسے بن سکتی ہے؟جبکہ سابقون اوّلون کی ایسی حد بندی بھی نہیں کی گئی ہے جو زیادتی اورک می کو قبول نہ کرے،میرا خیال ہے کہ ہماری گفتگو آپ کے سوال کا کافی جواب ہوگی،ہم اللہ سے استمداد،توفیق و تسدید مانگتے ہیں اور وہی سیدھے راستے کا رہبر ہے ۔

۹۶

سوال نمبر ۔ ۲

ہم اس بات کے منکر نہیں ہیں کہ صحابہ کبھی ذاتی بغض کی وجہ سے مجبور ہوجاتے تھے،کبھی کسی مصلحت سے مجبور ہوجاتے تھے اور کبھی ایک دوسرے پر غبطہ کرنے لگتے تھےہ معاملات اس قول کو محال قرار دیتے ہیں کہ صحابہ بشری کمزوریوں سے منزہ تھے اس کہ باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام غلطیوں کے ہوتے ہوئے بھی اللہ ان سے راضی ہے اور یہ رضا صرف زمانہ نبوت تک محدود نہیں ہے بلکہ رضا مطلقاً وارد ہوئی ہے اور اس سے کوئی صحابی مستثنیٰ نہیں ہے مگر یہ کہ شریعت اس کے لئے کوئی خاص نص پیش کرے ۔

پھر شیعہ حضرات خلافت عمر و ابوبکر و عثمان کے حق میں وہ بھی حضرت علی ؑ ہی کی زندگی میں خلافت پر قبضہ جمانے کے لئے یہ تاویل کیوں نہیں کرتے کہ حضرت علی ؑ کے پہلےوالے خلفا کی حرکتیں بشری تقاضوں اور ان کی ذاتی کمزوریوں کا نتیجہ تھیں جن کا شرعی مواخذہ نہیں کیا جاتا یا یہ کہ مولائے کائنات ؑ اور دوسرے خیلفہ آپس میں مل بیٹھ کے راضی ہوگئے تھے کہ خلافت کس کس کو دی جائےگی،حالانکہ شیعوں کے خیال کے مطابق مستحق ترین فرد مولا علی ؑ تھے ۔

جواب ۔ اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل باتیں حاضر ہیں

امر اول ۔ خداوند عالم نے خاص صحابہ کے لئے دو جگہ اپنی رضا کا اظہار کیا ہے،یہ دو آیتوں سے رضا ظاہر ہوتی ہے ۔

۹۷

پہلی آیت تو سابقون اوّلین والی آیت ہے اور وہ لوگ جو ان کے احسان کے ساتھ پیروی کرتے ہیں،اس پر کافی گفتگو ہوچکی ہے اور ہم اعادہ نہیں کریں گے ۔

بیعت رضوان کے بارے میں گفتگو

رضوان الہی کے بارےمیں دوسری آیت حاضر ہے،ارشاد ہوتا ہے:((بیشک اللہ راضی ہوگیا مومنین سے جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کررہے تھے،ان کے دل کے حالات سے اللہ واقف ہوا اور ان پر سکینہ نازل کیا اور فتح قریب سے سرفراز کیا بہت سا مال غنیمت بھی دے دیا اور اللہ عزیز اور حکمت والا ہے))(۱) پہلی آیت کے ذیل میں یہ عرض کیا جاچکا ہے کہ اپنی رضا کی خبر اللہ دے تو رہا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ رضا ہمیشہ باقی رہےگی،یہاں اللہ نے درخت کے نیچے بیعت کرنےوالوں کو اپنے رضا کی خبر دی ہے،لیکن اس کے بعد وہ جو اعمال بھی انجام دیں گےاسی کے حساب سےجزا اور سزا کے مستحق ہوں گے،اس بات کو دو امر کچھ اور مضبوط کرتے ہیں۔

آیہ کریمہ رضا کو مطلق نہیں کرتے بلکہ رضا کا سبب بیان کرتی ہے

پہلی بات تو یہ ہے کہ رضا ان کے لئے مطلقاً وارد نہیں ہوئی ہے بلکہ رضا کا سبب اور اس کا منشا بیان کیا جارہا ہے،سبب رضا ہے درخت کے نیچے بیعت کرنا اور وہ اس لئے کہ انہوں نے نبیؐ کے طلب بیعت پر لبیک کہی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر وہ نبیؐ کی نافرمانی کریں گےتو ان پر غضب نازل نہیں ہوگا،پھر اس آیت سے رضا کی تائید کیسے سمجھی جائے؟

بعض آیتیں بتاتی ہیں کہ اس بیعت کے عہد کو پورا کرنا سلامتی کی شرط ہے

خداوند عالم نےاسی سورہ میں یہ صراحت کردی ہے کہ وہ بیعت جو رضائے الہی کا سبب ہے،نجات کے لئے کافی نہیں ہے جب تک وفا بعہد کی بیعت نہ کی جائے ملاحظہ ہو:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ فتح آیت: ۱۹،۱۸

۹۸

(إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا)(۱)

ترجمہ آیت:((بیشک وہ لوگ جو آپ سے بیعت کررہے تھے اصل میں اللہ سے بیعت کررہے تھے،اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ پر تھا،اس کے بعد بھی اگر کوئی بیعت توڑتا ہے تو خود گھاٹا اٹھائےگاور جو اس عہد بیعت کو وفا کرےگا تو عنقریب اللہ اسے اجر عظیم عنایت فرمائےگا)) ۔

یہ بات صریحی ہے کہ رضا و غضب کی چکی ان کے اعمال کے مدار پر گھوم رہی ہے،اللہ راضی بھی ہوگا،ثواب بھی دےگا،غضب ناک بھی ہوگا اور سزا بھی دےگا معیار اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت ہے اور ان کی نافرمانی ہے اگر وہ وفا کریں گے کامیاب ہوں گے اور اگر کجروی اختیار کریں گےاور بیعت توڑدیں گے تو گھاٹا اٹھائیں گے اور خود کو نقصان پہنچائیں گےٹھیک یہی بات شیعہ بھی صحابہ کے بارے میں کہتے ہیں ۔

لظف یہ ہے کہ اہل حدیث اور مورخین کا کہنا ہے کہ اس دن حضور نے ان سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ وہ مشرکین سے قتال کریں گے اور جہاد سےبھاگیں گے نہیں(۲) ظاہر ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ فتح آیت:۱۰)

(۲)صحیح مسلم،ج:۳ص:۱۴۸۴۔۱۴۸۵،کتاب الامارۃ(علامت)قتال کے موقع پر لشکر امام کی بیعت کے استحباب کے باب میں نیز بیعت الرضوان درخت کے نیچے،صحیح ابن حبّان ج:۱۰ص:۴۱۵،حدیث:۴۵۵۱،بیعت ائمہ کے باب میں اور جوان کے لئے مستحب ہے،نیز اس بیعت کے بیان میں جو امام کی آزاد لوگوں کی طرف سے ہو نہ غلاموں کی طرف سے،ج:۱۱ص:۲۳۱،حدیث۴۸۷۵،باب المواعدۃ(وعدہ کرنا)والمھادنۃ(سکون و وقار کے باب میں نیز اس تعداد کے وصف کے بیان میں جو رسول خداؐ کے ساتھ حدیبیہ کے دن تھے،مسند ابی عوانی،ج:۴ص:۴۲۷۔۴۳۰،ایسی اخبار کے باب میں اس امیر کی اطاعت کے بیان میں جس کی طاعت کا امام حکم دیتا ہے اور جس نے اس کی اطاعت کی اس نے امام کی اطاعت کی امام کی صفت کے بیان میں،سنن ترمذی،ج:۳ص:۳۵۵،جابر کی مسند میں تفسیر طبری،ج:۲۶ص:۸۶،تفسیر ابن کثیرج:۴ص:۱۷۸،ابن عبدالبراج کی التمھید،ج:۱۲ص:۱۴۹،السیرۃ النبویۃ،ابن ہشام،ج:۴ص:۳۸۳،(بیعۃ الرضوان)کے بارے میں نیز اس کے علاوہ مصادر۔

۹۹

کہ اس(لایفروا)سے مراد ہے کہ تمام جنگوں میں نہیں بھاگیں گے نہ کہ صرف صلح حدیبیہ میں،اس لئے خداوند عالم نےآیہ کریمہ میں وفا کی شرط رکھدی ہے،صلح حدیبیہ میں تو جنگ بھی نہیں ہوئی تھی پھر ٹھہرنے اور بھاگنے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے،یہ آیتیں اورہ فتح کی ہیں اور سورہ فتح صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوا ہے اور اسی وجہ سے غزوہ حنین میں سرکار دو عالم ؐ نے انھیں ان کے فرار پر بیعت رضواں یاد دلائی نبی ؐ لوگوں کو پکار رہے تھے اےسورہ بقرہ والو!اے بیعت شجرہ والو!(۱) ظاہر ہے کہ فرار واقع ہوا اور رضا ختم ہوئی،غزوہ خیبر میں ایک جماعت کا فرار ہونا اور غزوہ حنین میں اکثر صحابہ کا فرار بتا رہا ہے کہ انھوں نے بیعت توڑدی اور جب بیعت توڑدی تو رضا بقی نہیں رہی ۔

خدا کی رضا صرف بیعت رضوان والوں سے مخصوص نہیں ہے

اب ایک بات رہ جاتی ہے وہ یہ کہ یہ مان لیا جائے کہ رضا استمرار کے لئے وارد ہوئی ہے اور ہمیشہ باقی رہےگی،جیسا کہ آپ فرماتے ہیں اور میں نے جو عرض کیا اس سے چشم پوشی کی جائے تو پھر میں عرض کروں گا کہ رضا کے لئے خاص اصحاب ہی مخصوص نہیں ہیں بلکہ قرآن مجید میں تو عمومی رضا واقع ہوئی ہے خدا ان تمام لوگوں سے اپنی رضا کا اعلان کرتا ہے جو ایمان کی دولت سے مالامال اور اعمال صالحہ سے مزین ہیں ۔

ملاحظہ ہوا ارشاد ہوتا ہے: (لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَٰئِكَ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مصنف ابی شیبہ ج:۷ص:۴۱۷جنگ حنین

۱۰۰

حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ)(1)

ترجمہ آیت:وہ قوم جس کے پاس اللہ اور روز آخرت پر ایمان کی دولت ہے اس کو تم ان لوگوں سےمحبت کرتا ہوا نہیں پاؤگے جو اللہ اور اللہ کے رسولؐ سے دشمنی کرتے ہیں چاہے وہ لوگ ان صاحبان ایمان کے باپ ہوں،بیٹے ہوں،بھائی ہوں یا قبیلہ والے ہوں،یہی وہ لوگ ہیں جن کے دل میں ایمان بیٹھ چکا ہے اور روح ایمان ان کی مدد کررہی ہے(یا خدا اپنی طرف سے ایک روح بھیج کے ان کی مدد کرتا ہے)اللہ انھیں ان باغوں میں داخل کرےگا جن میں نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے،اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں،وہی لوگ اللہ کے لشکر ہیں اور سن لو کہ اللہ کا لشکر ہی فلاح پانےوالا ہے.

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:( إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُوْلَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ٭ جَزَاؤُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ (2)

ترجمہ آیت:(بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے کام کرتے ہیں دنیا میں سب سے بہتر ہیں،ان کی جزا خدا کے نزدیک عدن کے باغات ہیں جس کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں،یہ شرف اس کو ملتا ہے جو اپنے پروردگار سے ڈرتا ہے))۔

بلکہ دونوں مذکورہ آیروں سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب مومنین آخرت میں خدا کی خدمت میں جائیں گے اور اس سے ملاقات کریں گے تو اللہ کی رضا انہیں حاصل ہوچکی ہوگی،پھر علما اہل سنت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ مجادلہ آیت22

(2)سورہ بینہ آیت:8،7

۱۰۱

رضا کے لئے استقامت کی قید کیوں نہیں لگاتے اور اگر ان کے لئے خدا کی رضا استقامت سے مقید ہے تو پھر انہوں نے دلیل دینے کے وقت استقامت کی قید کیوں نہیں لگائی؟

رضا بشرط استقامت ہے اور اس کی تائید باقی رہےگی

میری بات کو مندرجہ ذیل امور سے تقویت ملتی ہے۔

1۔پہلے سوال کے جواب میں میں نے عرض کیا تھا کہ صحابہ کے حالات و مقامات اور ان کے آپسی اختلافات کو دیکھتے ہوئے بیعت رضواں والوں کی یقینی نجات کے بارے میں فیصلہ غلط ہوگا۔

2۔اگر ان کی نجات قطعی اور یقینی مان لی جائے تو انہیں افعال قبیحہ کی چھوٹ مل جائےگی۔

3۔مذکورہ آیت سابقون اوّلوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ آیت تب نازل ہوئی ہے جب مسلمانوں کی کثرت ہوچکی تھی اور ان کے لئے نازل ہوئی جو بیعت رضواں میں شریک تھے۔

ان کثیر مسلمانوں میں مغیرہ بن شعبہ(زانی)ابوالعادیہ حضرت عمار یاسر کا قاتل(1) اور منافقون کاسردار عبداللہ ابن ابی تھا،یہ سب لوگ بیعت رضواں والےتھے۔(2)

امر ثانی۔آپ اپنے سوال میں فرماتے یں کہ ہم اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ صحابہ(سابقون اوّلون)کو شخصی نزعات پر مجبور کردیا کرتے تھے،کسی پر کوئی مصلحت سوار ہوجاتی اور کبھی ایک دوسرے پر غبطہ کرنے لگتے،پھر شیعہ ابوبکر،عمر،اور عثمان کے قول کی تاویل کیوں نہیں کرلیتے اور حضرت علیؑ کی موجودگی میں ان لوگوں کی خلافت پر قبضہ جمالینے کی تاویل کیوں نہیں کرلیتے کہ خلفائے ثلاثہ کا یہ فعل انھیں ذاتی اور شخصی نزعات کا نتیجہ ہے،شرعاً ان غلطیوں پر کوئی شرعی مواخذہ نہیں کیا جاتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الفصل فی الملل و النحل ج:4ص:منھاج السنۃ نبویہ ج:6ص:205)

(2)امتاع الاسماع ص:605مغازی للواقدی ج:2ص:610)

۱۰۲

غطبہ اور حسد میں فرق ہے

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ(پہلے غبطہ کی تعریف کردی جائے)غبطہ انسان کے اس جذبے کا نام ہےکہ دوسروں کے اس کسی چیز کو دیکھ کے اپنے پاس بھی اس کے ہونے کی تمنا کرے،نہ کہ دوسرے کے پاس کسی نعمت کو دیکھ کے،اس کے دل میں یہ جذبہ(یا تمنا)پیدا ہو کہ اس آدمی کے پاس سے وہ نعمت زائل ہوجائے دوسرے کے لئے زوال نعمت کی تمنا کا نام حسد ہے۔

لسان العرب کے مصنف نے غبطہ کے مادہ کی تشریح میں غبطہ کے معنی پر ایک طویل گفتگو کے بعد لکھا ہے،کہ ازھری کہتے ہیں(خداوند عالم نے اپنی کتاب میں صاحبان تدبر اور نگاہ اعتبار کے لئے غبطہ اور حسد میں واضح فرق بتادیا ہے)ارشاد ہوتا ہے:

وَلاَ تَتَمَنَّوْاْ مَا فَضَّلَ اللّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاء نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ وَاسْأَلُواْ اللّهَ مِن فَضْلِهِ(1)

ترجمہ آیت:اس کی ہوس نہ کرو کیوں کہ فضیلت تو اعمال سے ہے مردوں کو اپنے کئے کا حصہ ہے اور عورتوں کو ان کے کئے کا حصہ ہے۔یہ اور بات ہے کہ تم خدا سے اس کے فضل و کرم کی خواہش کرو)۔

اس آیت میں واضح ہدایت دی گئی ہے کہ کسی مسلمان بھائی کے پاس کوئی نعمت دیکھ کے اس نعمت کے زوال کی تمنا کرنا جائز ہے،لیکن یہ تمنا کرنا کہ وہ نعمت میرے پاس بھی ہوجائے جائز ہے،تو یہ غبطہ میں مغبوط کو اچھی حالت میں دیکھنے کی خواہش کے ساتھ خود کو بھی انسان اسی حالت میں پہنچانا چاہتا ہے اس میں مغبوط کے زوال،نعمت کی خواہش نہیں ہوتی خدا سے مانگتا بھی ہے تو بس یہ کہ جس کا اس کو حکم دیا گیا ہے اور اللہ اپنی رضا سے اس کو جو کچھ دیتا ہے۔

لیکن حسد کا معاملہ دوسرا ہے حسد میں انسان دوسرے کی نعمت کا زوال اور اسی نعمت کا اپنے پاس ہونے کی خواہش کرتا ہے،مقصد یہ ہے کہ کسی کے زوال نعمت کے ساتھ اپنے پاس اسی نعمت کے ہونے کی تمنا غبطہ نہیں حسد ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ نساءآیت:32

۱۰۳

حسد اعظم محرمات میں سے ہے

ظاہر ہے کہ حسد جملہ صحیح نہیں ہے،نبیؐ اور اہل بیتؑ نبی کی حدیثیں اس کی حرمت کے تذکرے سے بھری پڑی ہیں،حضورؐ نے اکثر اپنے اصحاب سے فرمایا کہ ان کے اندر حسد رینگ رہا ہے،علی بن جعفرؑ اپنے بھائی موسیٰ بن جعفرؑ وہ اپنے والدہ وہ اپنے جد سے روایت کرتے ہیں ایک دن حضورؐ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ خبردار ہوجاؤ!گذشتہ امتوں کی بیماریاں اندر رینگ رہی ہیں،وہ بیماری حسد ہے،یہ بالوں کی تحلیق نہیں کرتی بلکہ دین کی تحلیق کرتی ہے،اس کا علاج یہ ہے کہ انسان اپنے ہاتھ اور زبان کو روکے رہے اور اپنے مومن بھائی پر طعنے نہیں مارے۔(1)

زبیر بن عوام سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا(تمہارے اندر گذشتہ امتوں کی بیماری رینگ رہی ہے وہ بیماری حسد اور بغض ہے،یہ بیماری مونڈنےوالی ہے،لیکن بالوں کو نہین دین کو مونڈتی ہے،اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمدؐ کی جان ہے تم اس وقت تک مومن ہو ہی نہیں سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو اور میں بتاؤں یہ محبت کیسے پیدا ہوگی،کھل کے(با آواز بلند سلام کیا کرو،(2)

ابوہریرہ کی حدیث میں فرمایا(دیکھو حسد سے بچو حسد نیکیوں کو یوں کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو یا جھاڑی کو کھا جاتی ہے(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)وسائل الشیعہ ج:11ص:294باب:55باب جہاد النفس،حدیث:15

(2)مسند احمدج:1ص:164،مسند زبیر ابن عوام،سنن ترمذی،ج:4ص:663۔664،مجمع الزوائدج:8ص:30،السنن الکبری،بیھقی،ج:10ص:232،کتاب الشہادت،مسند البزار،ج:6ص:192،مسند الشاشی ج:1ص:114،مسند الطیالسی ج:1ص:27،زبیر ابن عوام کی احادیث میں اس کے علاوہ دیگر منابع اور ماخذ۔

(3)سنن ابی داودج:5ص:330،کتاب ادب و حسد کے باب میں سنن ابن ماجہ ج:2ص:1408،کتاب زہد،باب حسد،مصنف ابن ابی شیبۃ،ج:5ص:330،کتاب ادب وہ جو حسد کے باب میں آیا ہے مسند ابی یعلی،ج:6ص:330،اس چیز کے مورد میں جو روایت ابوزناد نے انس سے کی تھی،مسند عبد بن حمیدص:418،مسند الشھاب ج:2ص:136،ساتواں باب،حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے،جامع العلوم و الحکم،ص:327،شعب الایمان ج:5ص:266،تفسیر القرطبی ج:5ص:251،مصباح الزجاجۃ ج:4ص:238،کتاب زہد باب حسد اس کے علاوہ بہت سے مصادر ہیں،

۱۰۴

ابوبصیر ابوعبداللہ جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں،کفر کی تین جڑیں ہیں حرص،استکبار(خود کو بڑا سمجھنا)اور حسد۔(1)

اس مضمون کی دوسری حدیثیں بھی ہیں۔

اب حسد کے ساتھ دوسرے سے نعمت کا چھین لینا اور اس کا حق غصب کرنا صرف گفتگو پر اقتصار نہ کرنا(بلکہ ہاتھ اور تلوار کا بھی استعمال کرنا)حسد تو ناقابل معانی جرم ہے ہی،اس کے ساتھ مندرجہ بالا جرائم کا اضافہ کرنے سے دو گناہ ہوتے ہیں،ایک گناہ حسد اور دوسرا گناہ ظلم،تعدی اور غصب کی ہوئی چیز کی اہمیت کےساتھ ہی عمل غصب کی اہمیت بھی بڑھ جائےگی،پھر آپ کیسے کہتے ہیں کہ آپ کے(سابقون اوّلون)صحابہ کا غصب(خلافت و فدک)ایسا گناہ ہے جن کا شرعی طور پر کوئی مواخذہ نہیں ہے،جب آپ نے خود ہی یہ فرمایا ہے کہ غبطہ کی وجہ سے انہوں نے خدا کے اس بلند منصب کو ان سے چھین لیا جو شیعوں کے نزدیک اس منصب کے شرعی مالک تھے،اب ایک بات رہ جاتی ہے وہ یہ کہ شیعہ اس فعل غصب کی یہ تاویل کیوں نہیں کرلیتے کہ ان لوگوں نے آپس کی رضامندی کی وجہ سے خلافت دوسروں کے حوالے کردی،دوسرے لفظوں میں آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب حقدار ہی اس بات پر راضی ہوگیا کہ دوسرا اس کا حق لے لے تو پھر دوسروں کے لئے اس کا حق لینا جائز ہوگیا اور اس کا فعل نافذ ہوگیا،سوال کے اس ٹکڑے کا جواب ہم آپ کے تیسرے سوال کے ذیل میں دیں گے۔انشااللہ۔

اپنے اماموں کے بارے میں شیعوں کا نظریہ سنیوں کے اماموں کے بارے میں سنیوں کا نظریہ ان دونوں میں بہت فرق ہے

امر ثالث:آپ کے سابقہ بیان سے ظاہر ہے کہ شیعوں کا اپنے ائمہ اہل بیتؑ کے بارے میں جو نظریہ ہے وہ اہل سنت کے اپنے اماموں کے متعلق نظریہ سے بالکل الگ ہے،آپ دیکھ رہے ہیں کہ آپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)وسائل الشیعہ ج:11ص:294باب94باب جہاد النفس:حدیث:1

۱۰۵

ہی کے بیان کے مطابق اپنے نفس کی محبت اور ہوس کاری کے جذبات نے اہل سنت کے اماموں کا اتنا گرادیا کہ وہ حصول سلطنت کے لئے ٹوٹ پڑے ایک دوسرے پر سبقت کرنے لگے اور حق دار پر زیادتی کر کے آخرت سلطنت پر قبضہ جمالیا یہ عمل شیعوں کے مطابق نص شرع کے خلاف تھا اور اگر سنیوں کے مطابق مانا جائے جب بھی یہ عمل ہوس اور حسد کا نتیجہ ہے

لیکن شیعہ اپنے ائمہ اہل بیتؑ کا ایسا حقدار سمجھتے ہیں جن کی امامت پر نص ہے،مگر ان(ائمہ اہل بیتؑ)نے یہ کبھی نہ چاہا کہ وہ اپنے اس حق کو اقتدار کی محبت اور حکومت کی ہوس کے لئے استعمال کریں،بلکہ وہ امام اس لئے ہونا چاہتے تھے کہ حق کو قائم کردیں دین کو مضبوط کریں اور عدل کا بول بالا ہوجائے خود ان حضرات کے خطبہ اور حدیثیں اس بات کی شاہد ہیں۔

حضرت امیرالمومنینؑ کی گفتگو کا ایک حصہ ملاحظہ ہو(پالنےوالے تو جانتا ہے کہ ہم اہل بیتؑ نہ حکومت کی ہوس رکھتے ہیں اور نہ اس کچرے(دنیا)کے طلب گار ہیں لیکن ہم تو تیرے دین کا علم چاہتے ہیں،تیرے شہروں میں عدل اور اصلاح کا ظہور چاہتے ہیں کہ تیرے مظلوم بندوں کو امن ملے اور تیرے معطل حدود قائم ہوجائیں۔(1)

دوسری جگہ خطبہ شقشقیہ میں ارشاد فرماتے ہیں(لیکن اس کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور کائنات کو پیدا کیا اگر حاضر کا حضور نہ ہوتا اور ناصر کی موجودگی میں حجت کا قیام واجب نہ ہوتا اور خدا اس خلافت کی اونٹنی کی مہار اس کی پیٹھ پر ڈال دیتا(یعنی آزاد چھوڑ دیتا)اور اس کے آکر کو اس کے اول ہی کے پیالے سے پلاتا تم دیکھتےکہ میرے لئے یہ دنیا بکری کی ناک سے نکلتی ہوئی گندگی سے بھی زیادہ قابل پرہیز ہوں(2) جب عمر نے شوریٰ کے افراد معین کردئے تو آپ نے ایک گفتگو میں اپنے چچا عباس سے فرمایا(خدا کی قسم مجھے سلطنت کی ہوس نہیں ہےنہ دنیا کی محبت ہے ہاں اگر عدل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:8ص:263

(2)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:202،کتاب نہایۃ اور کتاب لسان العرب مادہ عفظ میں آخری عبارت ذکر ہوئی ہے

۱۰۶

کو ظاہر کرنے کا موقعہ ملے اور کتاب و سنت پر عمل کرنے کرانے کا موقعہ ملے تو اس کے بارے میں سوچنا چاہتا ہوں)(1)

مقام ذیقار میں ابن عباس سے آپ انی جوتی کی قیمت پوچھتے ہیں(اس وقت آپ اپنی جوتیوں کو اپنے دست مبارک سے ہی رہے تھے)ابن عباس نے کہا اس جوتی کی کوئی قیمت نہیں آپ نے فرمایا خدا کی قسم مجھے یہ میری جوتی!تمہاری اس حکومت سے زیادہ محبوب ہے مگر یہ کہ حق کو قائم کرسکوں اور باطل کو دفع کرسکوں۔(2)

امام حسینؑ کربال کے لئے نکلے ہیں آپ کے بھائی محمد حنفیہ ملنے آتے ہیں آپ ان سے وصیت کرتے ہیں وصیت میں اپنے ہدف کی وضاحت بھی کرتے ہیں(میں سرکشی ار اتاہٹ میں نہیں نکلا ہوں ظالم اور مفسدین بن کے نہیں نکلا ہوں،میں نےتو اپنے جد کی امت میں اصلاح کے لئے خروج کیا ہے،میرا مقصد ہے،امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا اپنے جد محمد مصطفیٰؐ اور اپنے والد علی مرتضیٰؑ کی سیرت پر عمل کرنا اور کرانا ہے تو جو مجھے حق سمجھ کے قبول کرے تو اللہ حق ہونے کا زیادہ مستحق ہے اور جو میری باتوں کو نہیں مانےگا تو میں صبر کروں گا یہاں تک کہ اللہ میرا اور اس قوم کا حق کے ذریعہ فیصلہ کردے اور اللہ سب سے بہترین فیصلہ کرنےوالا ہے)(3)

ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے اپنی حکومت کی غرض اور اقتدار کا ہدف اس طرح کی دوسری حدیثوں میں بھی بتادیا ہے،انشااللہ میں ایسی حدیثوں کے بعض حصے آئندہ بھی پیش کروں گا خدا را فیصلہ کیجئے مسلمانوں کی امانت کا حقدار کون ہے؟جب کہ ہم جانتے ہیں کہ منصب امامت ایک بلند اور مقدس مرتبہ ہے امام دین اسلام کی عظمت کا امانت دار ہوتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:9ص:51

(2)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:80

(3)بحار الانوارج:44ص:329

۱۰۷

اسلامی تشریعات اس کی عزت اور اس کے دینی ماحول کا امین ہوتا ہے،مسلمانوں کے جان و مال اور ناموس کا پاسدار ہوتا ہے،اس لئے مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ امام کی خیرخواہی میں اخلاص برتیں اس کی اطاعت کریں اور اس کی نصرت کرتے رہیں۔

اس تفصیل کے بعد میں آپ کے دینی شعور اور ضمیر کو آواز دیتا ہوں اور بس(آپ کو امامت کے بارے میں)جو نظریہ اچھا لگے اسے اختیار کرلیں(مگر یہ یاد رکھیں)کہ خدا کی شہادت اس کی سرپرستی اور اس کا فیصلہ کافی ہے۔

۱۰۸

سوال نمبر۔3

ہم اہل سنت اور آپ شیعہ حضرات کیوں نہیں ایسا کرتے کہ صدر اسلام میں جو بھی(تلخ و شیرین)واقعات ہوئے ہیں ان میں ہم علیؑ کی سیرت اور خاص کر امام حسنؑ کی سیرت پر عمل کریں یعنی ان حضرات نےجن باتوں کا اقرار کیا ہم بھی اقرار کریں اور ان حضرات نے جن باتوں کا انکار کیا ہم بھی انکار کریں لہٰذا ذیل کے امور پر پابندی سے عمل کریں۔

1۔علی علیہ السلام نے ابوبکر کی خلافت کا اقرار کیا۔

2۔آپ نے عمر کے لئے ابوبکر کی تنصیب خلافت کا اقرار کیا۔

3۔آپ نے شوریٰ کی ایک فرد ہونے کا اقرار کیا۔

4۔معاویہ کی شام پر حکومت کا انکار کیا،اس لئے کہ آپ اس کو حکومت کے لئے نااہل سمجھتے تھے،اس کے علاوہ اس کی حکومت کی وجہ سے اسلامی سماج میں فتنہ و فساد پھیل رہا تھا۔

جواب:مجھے اس بات کا حق حاصل کہ آپ سے پوچھوں اقرار کا کیا مطلب ہے؟آپ اقرار سے کیا مراد لیتے ہیں؟

۱۰۹

جو ہورہا ہے اس کو ہونے دینا

1 ۔ اگر اقرار سے آپ کی مراد یہ ہے کہ جیسی چل رہی ہے چلنے دینا اس میں مدد دینا اس کے بازو کو مضبوط کرنا اور مقصد یہ ہو کہ اسلام کی مصالح کا تحفظ ہوتا رہے اسلام میں اختلاف کی خلیج نہ پیدا ہو،کلمہ اسلام میں پھوٹ نہ پڑے،ان تمام باتوں کے علاوہ حالات ابھی انقلاب کی اجازت نہٰں دیتے یا انقلاب کی ذرا سی کوشش کی جائے تو ڈ ر ہو کہ اسلام کی اس انقلاب سے جو حاصل ہوگا اس سے زیادہ نقصان پہنچ جائےگا،تو یقیناً اس طرح کا اقرار تو ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے کیا ہے لیکن اس اقرار سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ زبردستی خلیفہ بن بیٹھنےوالوں کی خلافت شرعی تھی یہ بات تو واضح ہے کہ حقدار اگر اس امید میں خاموش ہوجائے کہ اس کا حق کبھی نہ کبھی اس کو ملےگا تو یہ خاموشی اس کے استحقاق کو باطل نہیں کرتی،یہ خاموشی(اگر آپ کے بیان کے مطابق اقرار ہے)تو اس طرح کا سکوت تو امام حسن ؑ نے بہرحال کیا،جب آپ نے اپنے والد ماجد کی پیروی کرتے ہوئے معاویہ سے دوسری بار جنگ کی کوشش کی اور پھر(ماحول سازگار نہیں پایا تو)خاموش ہوگئے،اسی طرح امام زین العابدین علیہ السلام اور آپ کی اولاد طاہرہ نے بھی خلفائے جور کے دور میں خاموشی اختیار کی اور یزید کے دور میں اور یزید کے بعد دوسرے غاصبوں کے دور میں ائمہ اہل بیت ؑ نے عملی احتجاج نہیں کیا اور آپ حضرات کے شیعہ بھی اپنے اماموں کی پیروی میں اسی خاموشی اور سکوت کی سیرت پر عمل کرتے رہے،ائمہ اہل بیت ؑ کی یہ خاموشی آپ کے خلفائے ثلاثہ سے ہی مخصوص نہیں ہے جیسا کہ آپ کے سوال سے ظاہر ہوتا ہے اور اگر کہیں عملی احتجاج ہوا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ اماموں کی سیرت میں اختلاف تھا ہمارا ہر امام اپنے ماحول کے اعتبار سے عمل کرنے کا مکلّف ہے جیسا کہ ظاہر ہے ۔

حالات حاضرہ کو جاری رکھنا اور شرعی شکل دینا

2 ۔ اور اگر آپ اقرار سے یہ مراد لیتے ہیں کہ دونوں خلیفہ نے جو حالات پیدا کئے تھے اس سے مولائے کائنات ؑ راضی تھے اور آپ ان کے افعال کو شرعی جواز دینا چاہتے ہیں اس حیثیت سے کہ شریعت کی

۱۱۰

نظر میں وہ غصب اور زیادتی کی حدوں میں نہیں آتے،یعنی آپ یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ حقدار اپنی ملکیت اور حق سے دوسرے کے حق میں دست بردار ہوگیا اور جس کے حق میں دست بردار ہوا ہے حق ملکیت اور اس سے فائدہ اٹھانے کا حق اب اس کی طرف منتقل ہوگیا تو یہ بات غلط ہے اس کے دو اسباب ہیں ۔

خلافت کا تعین خدا کرتا ہے خلیفہ کو حق(نہیں کہ وہ دوسرے کے حق میں دست بردار ہوجائے)

1 ۔ شیعہ مذہب کی دلیلوں کی بیناد پر خلیفہ یا امام کو صرف اللہ ہی معّین کرتا ہے اور اسی کی طرف سے نص ہوتی ہے،کسی امام کو یہ حق نہیں ہے وہ اپنے بجائے کسی اور کو خلیفہ بنادے یہ حق تو نبی کو بھی حاصل نہیں(کہ وہ خدا کے معین کردہ امام سے امامت و خلافت لیکے)کسی اور کو خلیفہ اور امام بنادے اگر نبی ؐ نے بھی ایسا کیا تو یہ امر الہٰی کی تردید اور اس کے فرائض سے کھلواڑ ہوگا ۔

(مندرجہ بالا بات کی شہادت تاریخ سے ملتی ہے)جب حضور سرور عالم ؐ نے عربوں کے سامنے اپنی نبوت پیش کی کہ وہ نبی کو نبی سمجھ کے آپ کی مدد کریں،یہ بات ہجرت کے پہلے کی ہے تو حضور ؐ نے جب اپنی نبوت پیش کی تو جن لوگوں کے سامنے نبوت پیش کی گئی تھی ان میں بنوعامر بھی تھے تو ان میں سے ایک شخص نے سرکار ؐ سے یہ سوال کیا کہ ہم آپ کی اطاعت کریں اور خدا آپ کو اپنے مخالفوں پر غالب کردے تو کیا آپ کے بعد ہمیں حکومت ملےگی،آپ نے صاف فرمایا،یہ حق تو اللہ کو ہے جس کو چاہےگا دےگا ۔(1) عبادہ کی حدیث ہے کہ ہم نے پیغمبر ؐ کی اس بات پر بیعت کی کہ آپ کی بات سنیں گے اور آپ کا حکم مانیں گے صاحبان امر سے(ان کی خلافت کے معاملے میں)جگھڑا نہیں کریں گے حق جہاں بھی ہوگا ہم حق ہی کا ساتھ دیں گے اور خدا کے بارے میں کسی ملامت کرنےوالے کی پرواہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الثقات ج:1ص:90،89خود کو رسول خداؐ نے قبائل کے سامنے پیش کیا،تاریخ طبری،ج:1ص:556،السیرۃ النبویۃ،ابن ہشام ج:2ص:272،البدایۃ و النہایۃ،ج:3ص:139،السیرۃ الحلبیۃج:2ص:3،الکامل فی التاریخ،ج:1ص:609،ابوطالب اور خدیجہ کے ذکر وفات کے بیان میں نیز رسول اللہؐ کا عرب کے سامنے خود کو پیش کرنا،کتاب الاکتفا،بما تضمنہ من مغازی رسول اللہ الثلاثۃ الخلفاءص:304،

۱۱۱

نہیں کریں گے(1) اس حدیث سے ظاہر ہے کہ امامت و خلافت کے کچھ حق دار ہیں جن سے لڑنا حرام ہے،عمرو بن اشعث کی حدیث ہے کہ میں نے سرکار صادق آل محمد علیھم السلام کو فرماتے سنا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم اہل بیت ؑ میں سے کوئی امام آزاد ہے کہ جس کے حق میں چاہے امامت کی وصیت کردے،نہیں خدا کی قسم ایسا نہیں ہے حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے اپنے نبی ؐ سے آپ کے ہر جانشین کے لئے عہد لیا ہے،یہاں تک اسی معاہدے کے تحت ہر امام اپنے بعد والے امام پر نص کرتا اور امر صاحبت امر تک پہنچتا ہے ۔(2)

محمد بن فضیل ابوالحسن رضا علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اس آیت کی تفسیر میں ارشاد فرمایا بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو صاحب امانت کے حوالے کردو امام نے فرمایا باری تعالیٰ کا یہ خطاب ائمہ اہل بیت ؑ سے ہے کہ امامت اپنے بعد والے کے حوالے کردو اور دوسروں کو اس سے مخصوص نہ کرو اور حق دار کو امامت سے الگ نہ کرو ۔(3)

یزید بن سُلیط ابوابراہیم موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں،اسی حدیث میں ساتویں امام کے صاحبزادے علی بن موسیٰ کی امامت پر نص بھی ہے،فرماتے ہیں کہ اے ابوعمارہ میں تمہیں خبر دیتا ہوں کہ میں اپنے گھر سے نکلنے والا ہوں(نکلتا ہوں)تو میں اپنے فلاں بیٹے کو اپنا وصی بنا رہا ہوں اور دوسرے بیٹوں کو بظاہر اس کا شریک بنا رہا ہوں لیکن باطنی طور پر وہی میرا وصی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مسند احمدج:3ص:441مسند احمدج:3ص:441،عبادۃ بن ولید کے حدیث میں،یہی عبارت السنن الکبریٰ،بیھقی،ج:8ص:145،السنن الکبریٰ،ج:4،کتاب البیعۃ،ص:421،سمعاً و طاعۃ بیعت کے بیان میں،ص:422،مسند ابن جعد،ص:261،سیر اعلام النبلاء،ج:2ص:7عبادۃ بن صامت کے حالات میں،تذکرۃ الحفاظ،ج:3ص:1131،ابن عبدالبر کے باب میں،تاریخ دمشق،ج:26،ص:196،عبادۃ بن صامت کی سوانح حیات میں،صحیح ابن حبان،ج:10،ص:413،مسند ابی عوانۃ،ج:4ص:407،

(2)الکافی ج:1ص:278باب:اللہ سے امامت کا عہد،حدیث2،

(3)الکافی ج:1ص:277،276،اس باب میں کہ امام اپنے بعدوالے کا تعارف کراتا ہے اور خداوند عالم کا قول(کہ امانتیں ان کے اہل تک پہنچادو)ان ائمہؑ کے بارے میں آیت کا نزول ہوا ہے،حدیث3،

۱۱۲

پس میری وصیت تنہا اسی لئے ہے،اگر مجھے(وصی بنانے کا)اختیار ہوتا تو میں اپنے بیٹے قاسم کو وصی بناتا اس لئے کہ میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں اور اس پر بہت مہربان ہوں،لیکن وصی اور امام کا معاملہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے جو کو چاہتا ہے بناتا ہے ۔(1) ائمہ اہل بیت ؑ سے اس سلسلے میں کثیر تعداد میں حدیثیں وارد ہوئی ہیں ۔(2)

منصب(امامت)کی اہلیت صرف اسی میں ہوتی ہے جس کو اللہ منصب کے لئے معین کرتا ہے

حسن تو یہ ہے کہ اللہ نے بھی صرف اسی کو صاحب منصب قرار دیا ہے جس کے اندر اس منصب کی اہلیت دیکھی ہے اور اس کے علاوہ ہر کسی کے اندر صلاحیتِ منصوب کو معدوم پایا ہے،ثبوت کے لئے مشاہدہ کافی ہے ہم ان فوائد و آثار پر غور کریں،جو امیرالمومنین ؑ کے خلیفہ ہونے سے امت کو حاصل ہوئے،امیرالمومنین ؑ کی خلافت پر شیعوں کے دعوے کے مطانق نص وارد ہوئی ہے،اگر مولا علی ؑ کو پیغمبر ؐ کے بعد خلافت حاصل ہوجاتی اور صاحب اقتدار ہوجاتےتو اس سے کیا فائدے حاصل ہوتے خود حدیث نبی ؐ سے معلوم کیجئے ۔

1 ۔ حدیث ثقلین ملاحظہ فرمایئے،حضور سرور ؐ کائنات کا ارادہ ہے کہ اس دنیا کو چھوڑنے سے پہلے ایک ایسی تحریر لکھ دیں کہ امت گمراہی سے محفوظ رہے آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں اس حدیث کے بارے میں کافی گفتگو ہوچکی ہے شواہد کا فیصلہ ہے کہ حضور کائنات ؐ اس تحریر کے ذریعہ مولائے کائنات علی بن ابی طالب ؑ کی خلافت کا اعلان کرنا چاہتے تھے اور آپ کی خلافت کو اس انداز میں پیش کرنا چاہتے تھے کہ آپ کے مخالفوں کے لئے راستے بند ہوجائیں،اس بات کا اعتراف عمر نے بھی کیا ہے،یہ واقعہ آئندہ کے صفحات میں آئےگا،سرکار دو عالم ؐ امت کو گمراہی سے بچانا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الکافی ج:1ص:314باب اشارہ و نص علی ابی الحسن الرضؑا حدیث14،

(2)الکافی ج:1ص:281،276،وغیرہ کی طرف رجوع فرمائیں

۱۱۳

چاہتے تھے اور امت کے لئے اس سے بڑی بات کیا ہوگی کہ وہ گمراہی سے محفوظ رہے ۔

2 ۔ معصومہ کونین صدیقہ طاہرہ ؑ کا ایک خطبہ شاہد ہے کہ علی ؑ کی خلافت سے کیا فائدے حاصل ہوئے،معصومہ نے یہ خطبہ دیکے کہ مسلمانوں نے علی علیہ السلام کی خلافت سے عدول کرکے دوسرے کو خلیفہ بنا کے کیا کیا نقصانات نہیں اٹھائے!معصومہ اپنے چھوٹےوالے خطبے میں فرماتی ہیں:خدا کی قسم ابوالحسن سے انھیں کوئی دشمنی نہیں تھی،مگر دشمنی تھی آپ کی تلوار کی دھار سے اور آپ کی صراط مستقیم پر تیز روی آپ ؑ کی وقعت سے جو لوگوں کے لئے قابل پیروی ہے اور ذات خدا میں آپ ؑ کے خلوص سے پیغمبر ؐ نے زمام حکومت جن ہاتھوں میں دی تھی اگر یہ اسی ہاتھ میں رہنے دیتے تو خدا کی قسم وہ انھیں باندھ کے رکھتا اور ان کے ساتھ نرم روی سے چلتا کہ چلنے میں پسلیاں نہ بجتیں اور راکب کو جرکنگ( Jarking )نہیں ہوتی وہ انہیں ایسے گھاٹ پر پہنچاتا(اپنے حوض پر پہنچاتا)جو کنارے تک لبالب بھرا ہوا ہے اور ان لوگوں کو سیراب کردیتا وہ لوگ حیرت میں پڑجاتے بغیر کسی بیکار کوشش کے پیاسا سیراب ہوجاتا اور بھوک مٹ جاتی ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں نازل ہوتیں اور اللہ ان کے اعمال کو قبول کرتا،سنو خبردار ہوجاؤ جب تک زندہ رہوگے دنیا اپنے عجائب تمہیں دکھاتی رہےگی اور اگر تم تعجب ہی کرنا چاہتے ہو تو سب سے زیادہ تعجب خیز یہ حادثہ ہے دیکھ لو انہوں نے کس کا سہارا لیا ہے اور کس سہارے کو پکڑا ہے جسے ولی بنایا گیا ہے وہ بھی برا ہے اور وہ معاشرہ بھی جس نے ولی بنایا اور ظالموں کو برا بدلا ملےگا ۔

خدا کی قسم انہوں نے اگلے حصّے کو چھوڑ کے دم پکڑی(افضل کو چھوڑ کے ادنیٰ کے پیچھے بھاگے)چاق و چوبند اور تجربہ کار آدمی کو چھوڑ کے ب ڈ ھے کی بیعت کرلی،اس قوم کی جلد ہی ناک کٹےگی،جس کو یہ غلط فہمی ہے کہ ہم بہت اچھا کام کررہے ہیں،حالانکہ خبردار رہنا یہی لوگ فسادی ہیں لیکن نہیں سمجھ رہے ہیں،ان پروائے ہو جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے وہ پیروی کا زیادہ حقدار ہے یا وہ جو رہنمائی نہیں کرتا مگر جن کی رہنمائی کی جاتی ہے انھیں کیا ہوا ہے یہ کیسے فیصلے کرتے ہیں اونٹنی حاملہ ہوئی

۱۱۴

اور ابھی وضع حمل کا انتظار ہی کر رہی تھی کہ ان لوگوں نے دوہنا شروع کردیا نتیجہ میں انہیں خون اور بدبودار پانی ملا جس میں تلخی ہے یہیں پر باطل گروہ کو نقصان اٹھانا پڑا اور بعدوالوں کو معلوم ہوگیا کہ ان کے پہلےوالوں نے جو بنیاد رکھی تھی وہ تہہ نشین ہوچکی ہے،پھر تم اپنے نفس کی تعریف کرو اور اطمینان سے بیٹھ کے ایک جو شلیے فتنے کا انتظار کرو تمہیں چمکتی ہوئی تلواروں کی بشارت ہوا ورتمہارے حالات کے اضطراب کی بشارت ہو،ظالموں کے ظلم و استبداد کی خوشخبری ہو،جو تمہارے مال غنیمت پر قبضہ جمالیں گے اور تمہارے بوئے ہوئے کو کاٹ لے جائیں گے(1) معصومہ ؐ کا ایک دوسرا خطبہ بھی ہے انشااللہ مناسب مقام پر اسے بھی پیش کیا جائےگا ۔

3 ۔ ابوعمر جونی کہتے ہیں جب ابوبکر کی بیعت ہوئی تو سلمان فارسی نے کہا کرداذونا کرداذ تمہاری سمجھ میں جو آیا وہ تم نے کیا لیکن اگر یہ لوگ حضرت علی ؑ کی بیعت کئے ہوتے تو آسمانوں سے بھی کھاتے اور زمین سے بھی پاتے ۔(2)

4 ۔ حبیب بن ثابت کہتے ہیں سلمان فارسی نے بیعت والےدن فرمایا تم ب ڈ ھے کو خلیفہ بنا کے سمجھے کہ تم نے صحیح کیا اور اپنے نبی ؐ کے اہل بیت ؑ کو ولایت نہ دے کے تم نے غلطی کی اگر تم خلافت اہل بیت نبی ؐ میں قرار دیتے تو دو آدمی بھی اختلاف نہیں کرتے اور تم پیٹ بھر کھاتے(3) سلمان کے یہ جملے حروف ردہ والی حدیث کے موقعہ پر آنا چاہیں جو میں نے آپ کے چوتھے سوال کے جواب میں پیش کیا ہے ۔

5 ۔ اسی طرح کی حدیث ابوالھیعہ سے بھی ہے،کہتے ہیں جب سرکار ؐ کی وفات ہوئی تو ابوذر نہیں تھے،ابوذر آئےتو(سقیفہ کا ڈ رامہ ختم ہوچکا تھا)ابوبکر خلیفہ بن چکے تھے،ابوذر نے تبصرہ کیا فرمایا:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) شرح نہج البلاغہ ج: 16 ص: 333 ۔ 334 ،بلاغات النسا ابن طیفور ص: 20 ،اقوال فاطمہ بنت رسول اللہؐ،جواہر المطالب فضائل امام علیؑ،ابن دمشقی ج: 1 ص: 165 ۔ 169 ،

( 2) انساب الاشراف ج: 2 ص: 274 ،امر سقیفہ)

( 3) شرح نہج البلاغہ ج: 2 ص: 49 ،اور اسی طرح ج: 6 ص: 43

۱۱۵

تم نے قناعت(تھوڑے)کو صحیح سمجھا اور قرابت پیغمبر کو چھوڑ دیا،اگر اس امر خلافت کو تم اپنے نبی کے اہل بیت ؑ میں قرار دیتے تو تمہارے یہاں دو آدمی آپس میں اختلاف نہیں کرتے(1)

دوسری جگہ آپ نے عثمان کے دور میں ایک معرکۃ الآرا خطبہ دیا ہے ملاحظہ ہو:کہتے ہیں جو مجھے پہچانتا ہے پہچانتا ہے جو نہیں پہچانتا وہ پہچان لے کہ میں رَبذہ کا رہنےوالا ابوذر غفاری ہوں میں جندب بن جاندہ ربذی ہوں بیشک اللہ نے منتخب کیا آدم کو،نوح کو،آل ابراہیم کو اور آل عمران کو،ساری کائنات میں ایک ذریت سے دوسرے سے افضل ہے اور اللہ سننےوالا اور جاننےوالا ہے،محمد ؐ اولاد نوح ؑ میں منخب کئے گئے،جو ابراہیم ؑ کے وارث اور اسماعیل ؑ کے خاندان سے ہیں اور محمد ؐ کی وہ عترت جو رہنما ہے،ان کے شرف بلند کئے گئے اور انہیں پوری قوم پر حق فضیلت دیا گیا،وہ ہمارے درمیان ایسے ہیں جیسے بلند آسمان یا پردہ وار کعبہ یا منصوب قبلہ یا بلند ہوتا ہوا سورج یا سفر کرتا ہوا چاند یا رہبری کرتے ہوئے ستارے،یا زیتون کا درخت جس کا تیل روشنی دیتا ہے اور جس کی زیادتی میں برکت دی گئی ہے محمد ؐ آدم کے وارث ہیں اور تمام انبیا ماسلف کو جو فضیلت دی گئی محمد ؐ ان تمام فضائل کے وارث ہیں اور علی بن ابی طالب ؑ محمد ؐ کے وصی اور ان کے علم کے وارث ہیں اے وہ امت جو اپنے نبی کے بعد حیرت میں پڑگئی اگر تم نے اسے آگے بڑھایا ہوتا جس کو اللہ نے بڑھا رکھا ہے اور اسے پیچھے ہوتا تو تم آسمانوں سے بھی پاتے اور زمین سے بھی کھاتے اور خدا کے دوست کمزور نہ ہوتے اور فرائض خدا کو معطل نہیں کیا جاتا اور تمہارے درمیان اگر دو آدمی بھی اختلاف کرتے تو ان کے مسائل کا حل تم کتاب خدا ور سنت نبی ؐ میں پالیتے لیکن اب تو تم جو کیا وہ کردیا اب اپنے اعمال کا نتیجہ بھگتو!عنقریب ظالم جان جائیں گے کہ کس ٹھکانے پر پہنچنےوالے ہیں ۔(2)

6 ۔ عمر اصحاب شوریٰ کو معین کررہے ہیں کہتے ہیں اگر تم نے حضرت علی ؑ کو اپنا ولی بنایا تو خدا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:6ص:13

(2)تاریخ یعقوبی ج:2ص:171،زمانہ عثمان میں

۱۱۶

کی قسم وہ تمہیں واضح حق کے راستے پر ڈ ال دیں گے اور روشن حجت تمہارے سامنے پیش کردیں گے ۔(1)

میں پوچھتا ہوں مسلمان اور عالم اسلام کے لئے اس سے بہتر بات کیا ہوگی؟(کہ انہیں حق کے راستے پر چلایا جائے)بہرحال گذشتہ مضمون کی کثیر حدیثیں ہیں جو نبی ؐ اور اہل بیت نبی ؐ کی طاہر زبانوں پر ہمہ وقت جاری رہتی تھیں ۔ ان حدیثوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ منصب امامت و خلافت کے لئے منصوص افراد پر کفایت کرنا ضروری ہے اور ان منصوص کا قائم مقام دوسرا ہو ہی نہیں سکتا کہ شریعت اس کی جانب داری کرے اور منصوص علیہ کو معزول کردے(اگر چہ منصوص علیہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ غاصبوں کو معزول کردے)کاش یہ حق اسے دیا گیا ہوتا ۔

عثمان کی خلافت پر کوئی نص نہیں تھی مگر وہ معزول ہونے پر تیار نہیں تھے

لطیفہ یہ ہے کہ جب عوام نے عثمان سے(ان کی بدکرداریوں کی بنا پر)مطالبہ کیا کہ وہ خلافت سے معزول ہوجائیں تو عثمان نے احتجاجاً ایک جملہ کہا کہنے لگے اللہ نے جو قمیص مجھے پہنائی ہے اس کو نہیں اتاروں گا ۔(2) حالانکہ وہ عوام کی بیعت کی بنیاد پر خلیفہ بنے تھے ۔ اللہ نے کوئی نص نہیں فرمائی تھی،اس کے باوجود لوگ اہل بیت ؑ کے بارے میں یہ جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ منصوص من اللہ تو تھے ان کے علاوہ کوئی منصوص علیہ نہیں تھا مگر انہوں نے خود کو معزول کرلیا تھا اور اپنا حق دوسروں کو دیدیا تھا اور ان کی حکومت پر راضی تھے،باب کو مزید واضح کرنے کے لئے ملاحظہ ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ،ج:1ص:186،انھیں الفاظ اور مختلف تعبیر میں نہج البلاغہ کی ج:6ص:326،پر بھی ہے المستدرک علی صحیحین،ج:3ص:101،والامامۃ و السیاسۃ،ج:1ص:26،والطبقاب الکبریٰ،ج:3ص:342،تاریخ یعقوبی،ج:2ص:158،عمر بن خطاب کے زمانے میں،المصنف،عبدالرزاق،ج:5ص:447،446،ابوبکر کی بیعت کے بارے میں،الادب المفرد،بخاری،ص:204،انساب الاشراف،ج:3ص:14،حضرت علی بن ابی طالبؑ کی بیعت کے بارے میں،اورج:6ص:120،امر شوریٰ اور عثمان کی بیعت سے متعلق،والعقد الفرید،ج:4ص:255،الفتوح،ابن اعثم،ج:1ص:324،عمر بن خطاب کے قتل کے بارے میں،تاریخ مدینۃ،ابن شیبۃ،ج:3ص:882،

(2)تاریخ طبری،ج:2ص:35،675سنہ کے واقعات میں،الکامل فی التاریخ،ج:3ص:35،67سنہ کے واقعات میں،المنتظم،ج:5ص:35،55سنہ کے واقعات میں،اہل مصر اور ان کے موافقین کا عثمان کے خلاف خروج،تاریخ دمشق،ج:39،ص:438،عثمان بن عفان کے سوانح عمری میں۔

۱۱۷

دورخلافت کے جاری رکھنے سے معالم حق کی بربادی لازم آتی ہے

اوّلا۔عمر اور ابوبکر زبردستی خلیفہ بنے تھے لیکن یہ غلط فہمی نہ ہو کہ دونوں حقدار کی حقیقت کا اعتراف بھی کر رہے تھے بلکہ وہ سرے سے(اہل بیتؑ کو)خلافت کا حقدار ہی نہیں سمجھتے تھے اس لئے کہ وہ نص سے تجاہل عارفانہ کر رہے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ خلافت عام قریش کا حق ہے یا یہ کہ بنوہاشم کا حق بہرحال نہیں ہے باقی چاہے جس کا حق ہو،دلیل یہ تھی کہ خلافت اور نبوت ایک ہی گھر میں جمع نہیں ہوسکتی(دوسری دلیلیں بھی ہیں)اس صورت مین اہل بیت کا ان دونوں کی خلافتوں پر جہاد کرنا اور خود ساختہ خلیفہ کی خلافت کا اقرار کرنا حکم الٰہی میں تحریف اور معالم کو ضائع کرنا ہے وہ معالم حق جس کو لوگوں تک پہنچانا لازمہے یہ کیسے کہا جائے کہ اس اقرار سے صرف اس دور کے لوگوں کے لئے خدا کی نشانیاں ضائع ہوں گی،میں کہتا ہوں کہ جمہور عالم اسلام کے لئے تو وہ نشانیاں ضائع ہو ہی گئیں اس لئے کہ جمہور اہل سنت منصب خلافت کے لئے نص کے قائل نہیں ہیں سب یہ ہے کہ خودساختہ خلفا نے خود بنا کے پیش کیا اور ان حضرات کو نص سے تغافل رکھایا یہ کہ خود غافل کیا حالانکہ نص موجود تھی اور ایک بڑا گروہ نص کا قائل تھا نص کا اعلان اور اس کی تاکید کر رہا تھا اس نص کے ذریعہ لوگوں کے سامنے حجت پیش کر رہا تھا پھر آپ خود سونچیں کیا ہوتا ہے اگر آپ کی طرح اہل بیت ؑ اور ان کے شیعہ بھی غاصبوں کی خلافت کا اقرار کر لیتے اس کی شرعی حیثیت کا اعلان کردیتے اور اہل بیت اطہار ؑ اور ان کے شیعہ ان کا انکار کرنے کے بجائے خاموش رہتے؟مجلسی علیہ الرحمہ نے کتاب استدارک کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے لکھتے ہیں کہ عیسیٰ بن مہران نے اپنی کتاب((الوفاۃ))(1) میں اپنی اسناد سے حسن بن حسین عرنی سے انہوں نے کہا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شیخ ابوجعفر محمد بن حسن طوسی نے کتاب فہرست میں کہا:عیسی بن مہران جو مستعطف کے نام سے مشہور تھا جس کی ابوموسیٰ کنیت تھی اس کی تصنیف میں کتاب الوفاۃ میں تلعکبری نے ایک جماعت سے اور انھوں نے ابن ہمام سے اور انھوں نے احمد بن محمد بن موسیٰ نوفلی سے ہمیں خبر دی اور ابن ندیم نے اسے کتابوں میں ذکر کیا،مقتل عثمان سے متعلق کتاب میں،الفہرست باب عیسیٰ،ص:142،نجاشی نے کہا(عیسیٰ بن مہران مستعطف جس کی نیت ابوموسیٰ تھی اس کی چند کتابیں ہیں انھیں میں سے ایک کتاب مقتل عثمان نامی بھی ہے،کتاب الوفاۃ)کتاب الکشف الرجال باب عیسیٰ ص:297،

۱۱۸

مجھ سے مصبح العجلی نے ان سے ابوعوانہ نے ان سے اعمش نے ان سے مجاہد نے ان سے عمر کے صاحبزادے نے وہ کہتے ہیں کہ جب میرے باپ عمر پر سخت وقت آیا یعنی موت کا وقت تو انہوں نے مجھے حکم دیا کہ ذرا علی ؑ کو بلا لو میں علی ؑ کو بلا کے لایا تو میرے باپ کہنے لگے ابوالحسن میں ان لوگوں میں شامل ہوں جنھوں نے آپ سے منھ پھیر لیا تھا اور میں نے ہی سب سے پہلے آپ سے جھگڑا کیا لیکن میں آپ کا ساتھی ہوں آپ مجھے معاف کردیں،مولا نے کہا معاف تو کردوں گا لیکن تم بھی اعتراف جرم دو آدمیوں کے سامنے کرو!یہ سن کے میرے باپ نے دیوار کی طرف منھ موڑ لیا اور کچھ دیر تک خاموش رہے پھر فرمایا ابوالحسن آپ کیا کہہ رہے ہیں مولا علی ؑ نے کہا مجھے جو کچھ کہنا تھا کہدیا،شرط وہی کہ دو آدمیوں کی موجودگی میں یہ بات کہو،عمر نے پھر دیوار کی طرف منھ پھیر لیا اور بہت دیر تک خاموش رہے یہاں تک کہ مولائے کائنات ؑ اٹھے اور باہر نکل گئے،ابن عمر کہتے ہیں میں نے اپنے باپ سے کہا،علی ؑ نے تو آپ کے ساتھ انصاف کیا تھا،کاش آپ صرف دو آدمیوں کو گواہ بناکے یہ بات کہہ دیتے عمر نے کہا بیٹا تم کو نہیں معلوم ہے علی ؑ چاہتے ہیں کہ دو آدمی بھی میرے لئے استغفار نہ کریں ۔(1) اگر چہ میں اس روایت کی صحت پر مکمل یقین نہیں رکھتا لیکن قصہ شوریٰ کے حوالے سے مورخین کا بیان اس روایت سے بہت کچھ ملتا جلتا ہے،عمر اصحاب شوریٰ کو نامزد کررہے ہیں اور ہر ایک کی کمزوری بھی بیان کرتے جارہے ہیں تا کہ ارکان شوریٰ کو خلافت سے دور رکھنے کی وجہ لوگوں کی سمجھ میں آجائے(2) انہوں نے سب پر بڑے بڑے عیب لگائے لیکن جب مولا علی ؑ کا نام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)بحارالانوارج:30،ص:142،ابوبکر اور عمر نے غضب خلافت سے متعلق جو موت کے وقت ندامت و شرمندگی کا اظہار کیا ہے کے باب میں،حدیث10،اسی الفاظ میں،ج:8ص:206،

(2)الاستیعاب ج:3ص:1119،علی بن ابی طالب علیہ السلام کی سوانح حیات میں،الامامۃ و السیاسۃ،ج:1ص:26،کتاب الآثار،ص:217،الانساب الاشراف ج:6ص:221،تاریخ المدینۃ،ابن شیبۃج:3،شوریٰ اور قتل عثمان سے متعلق بیان میں،ص:880۔881۔882۔883،شرح نہج البلاغہ ج:6ص:226،کنزالعمال،ج:5ص:740،حدیث:14266،ص:742،حدیث1426،الفائق فی غریب الحدیث،ج:3ص:168،غریب الحدیث،ابن سلام،ج:3ص:331،مادہ قنب میں،الفتوح،ابن اعثم،ج:1ص:324،عمر ابن خطاب کے قتل کے بیان کے آغاز میں۔

۱۱۹

لیا تو صرف یہ کہا کہ علی ؑ بہت خوش مزاج اور پر مذاق ہیں ۔(1)

پھر فوراً یہ بھی صراحت سے کہہ دیا کہ اگر تم ان کو حاکم بناؤگے تو وہ تمہیں حق پر چلاکے چھوڑیں گے اور روشن حجت قائم کریں گے،یہ بات پہلے بھی گذرچکے ہے،یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عمر مولا علی ؑ کو خلافت سے قریب کرنا چاہتے تھے اور انھیں کی طرف اشارہ کررہے تھے،

بلکہ طبری کہتے ہیں کہ لوگ نکلے اور عمر کے پاس آئے اور کہنے لگے اے امیرالمومنین آپ کسی کو خلیفہ تو بنادیں پر عمر نے کہا میں نے اپنے قول کے بعد تمہارے بارے میں اپنی رائے کو جمع کیا تو میں اس حکومت کا دلی ایک ایسے آدمی کو بنا رہا ہوں جو اس کا زیادہ مستحق ہے کہ تم کو حق کے راستے پر ڈ ال دے اس کے بعد انہوں نے حضرت علی ؑ کی طرف اشارہ کیا پھر مجھے غش آگیا اور میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص باغ میں داخل ہوا جو اس نے خود لگایا تھا اور ہر ڈ الی سے تازہ پھل توڑے اور انہیں نچوڑ نچوڑ کر اپنے سر پر ڈ النےلگا،میں سمجھ گیا کہ خدا کا امر غالب ہے اور عمر مرنےوالا ہے تو میں مروں یا زندہ رہوں خلافت کا بار اب نہیں اٹھاؤں گا تم پر واجب ہے کہ اس گروہ(شوریٰ)کی بات مانو!پھر طبری نے عمر کی طرف سے شوریٰ کے تانے بانے پیش کئے ہیں،جو مشہور ہے اور جانا پہچانا ہے ۔(2)

عمری کی گفتگو کے الٹ پھیر سے تو یہ صاف ظاہر ہورہا ہے کہ انہوں نے بہت چالاکی سے گوٹی بٹھا کے شوریٰ کو امت پر اس انداز میں لاددیا کہ سوائے عثمان کے کوئی خلیفہ بن ہی نہیں سکتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الاستیعاب ج:3ص:1119،علی بن ابی طالب علیہ السلام کی سوانح حیات میں،الانساب والاشراف ج:6ص:221،تاریخ المدینۃ،ابن شیبۃج:3ص:880،شرح نہج البلاغہ ج:3ص:326۔327،کنزالعمال ج:5ص:740،حدیث:14266،ص:742،حدیث:1426،الفائق فی غریب الحدیث،ج:3ص:168،غریب الحدیث،ابن سلام،ج:3ص:331،مادہ قنب میں،الفتوح،ابن اعثم،ج:1ص:324،عمر ابن خطاب کے قتل کے بیان کے آغاز میں۔

(2)تاریخ طبری،ج:2ص:580،اس کے بعد شوریٰ کا قصہ ہے،کلمہ(رہقتنی)تاریخ طبری سے الفیہ کے پروگراموں میں حذف ہوگیا ہے لہذا ہم نے موجودہ نسخہ پر اعتماد کرتے ہوئے جو معجم فقہی کے پروگرام میں درج ہے ملحق کردیا ہے۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367