توحید مفضل

توحید مفضل11%

توحید مفضل مؤلف:
زمرہ جات: توحید
صفحے: 175

توحید مفضل
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 175 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130409 / ڈاؤنلوڈ: 6087
سائز سائز سائز

۱

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم

۲

(سَنُرِیهِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی َنْفُسِهِمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَهُمْ َنَّهُ الْحَقُّ)

ہم عنقریب اپنی نشانیوں کو تمام اطراف عالم میں اور خود ان کے نفس کے اندر دکھلائیں گے تاکہ ان پر یہ بات واضح ہوجائے کہ وہ برحق ہے۔ (سورہ مبارکہ فصلت، آیت ۵۳)

۳

اثبات توحید اور اسرار کائنات پر صادق آل محمد علیہ السلام کے حیرت انگیز انکشافات کا مجموعہ

( توحید مفضّل)

تالیف

علّامہ ملّا محمّد باقر مجلسی (رح)

مزین با تقریظ

حضرت آیت اللّٰہ محسن حرم پناہی (رح )

تحقیق و ترجمہ

سیّدنسیم حیدر زیدی

۴

مشخّصات

نام کتاب: توحید مفضل

تالیف: علّامہ ملّا محمّد باقر مجلسی (رح )

تحقیق و ترجمہ: سےّد نسیم حیدر زیدی

نظر ثانی : علاّمہ رضی جعفرنقوی (دام برکاتہ )

کمپوزنگ: مبارک حسنین زیدی

طبع اول: ۱۴۲۹

تعداد: ایک ہزار

قیمت: ۵۰۱ روپے

۵

فہرست

مشخّصات ۵

انتساب : ۱۴

( تقریظ ) از حضرت آیت اللہ محسن حرم پناہی (قدس سرہ الشرف ) ۱۵

( گفتار مقدم ) از حضرت علامہ سید رضی جعفر نقوی (پرنسپل جامعة النجف ) ۱۷

( حرف اول ) ۲۰

( عرض ناشر ) ۲۲

( مقدمہ ) ۲۴

( مفضل بن عمر کا مختصرتعارف ) ۲۷

مفضل بن عمر روایات کے آئینہ میں ۲۷

مفضل بن عمر علماء کی نظر میں ۲۹

ایک اعتراض کا جواب ۳۰

توحید مفضل کی قرآن سے شباہت ۳۲

کلام امام ـ کے معجزات ۳۳

ایک شبھہ کا ازالہ ۳۵

( مفضّل اور ابن ابی العوجاء کے درمیان آغاز گفتگو ) ۳۶

( روز اوّل ) ۳۹

( مفضل حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں ) ۴۱

۶

( جہل و نادانی خلقت میں تدبیر کے انکار کا سبب ) ۴۲

( وجود خدا پر پہلی دلیل ) ۴۴

( انسان کے اندر واضح اور روشن آیات خدا کے وجود پر دلالت کرتی ہیں ) ۴۵

( بچہ اگر ولادت کے وقت عاقل ہوتا تو کیا ہوتا؟ ) ۴۸

( بچہ کے گریہ کے فوائد ) ۴۹

( بچہ کے منہ سے رال ٹپکنے کے فوائد ) ۵۰

( مرد و زن میں آلات جماع ) ۵۱

( اعضاء بدن کے کام ) ۵۱

( کائنات کے اُمور طبیعت کا نتیجہ نہیں ہیں ) ۵۲

( غذا کے جسم میں پہنچنے پر معدہ اور جگر کا حیرت انگیز عمل ) ۵۲

( حیات انسانی کا پہلا مرحلہ ) ۵۳

( انسان کی ایک خاص فضیلت ) ۵۴

( حواس خمسہ کے صحیح مقامات ) ۵۴

( عقل ، آنکھ اور کان کی عدم موجودگی اختلال کا سبب ) ۵۵

( طاق اور جفت اعضائ ) ۵۷

( کلام کس طرح وجود میں آتا ہے ) ۵۸

( دماغ کاسہ سر کے محکم حصار میں ) ۵۹

( آنکھوں پر غلاف چشم کا خوبصورت پردہ ) ۶۰

۷

( وہ کون ہے؟ ) ۶۰

( اعضاء بدن بغیر علت کے نہیں ہیں ) ۶۱

( دل کا نظام ) ۶۲

( مقام مخرج ) ۶۳

( دندان کی وضعیّت ) ۶۴

( بالوں اور ناخنوں میں حسن تدبیر ) ۶۴

( فرقہ مانویہ کے اعتراضات ) ۶۵

( آب دہن خشک ہونے سے انسان کی ہلاکت ) ۶۶

( انسان کا شکم لباس کے مانند کیوں نہ ہوا؟ ) ۶۶

( انسان کے اندر چار حیرت انگیز قوتیں ) ۶۸

( انسان کو قوت نفسانی کی ضرورت ) ۷۰

( حفظ و نسیان نعمت خداوندی ہیں ) ۷۰

( انسان کے لئے حیاء کا تحفہ ) ۷۱

( قوت نطق اور کتابت فقط انسان کیلئے ہے ) ۷۲

( وہ علوم جوانسانوں کو عطا کئے۔ اور وہ علوم جو عطا نہ کئے دونوں میں ان کی بھلائی ہے ) ۷۳

( انسان سے کیوں اس کی عمر حیات کو پوشیدہ رکھا؟ ) ۷۴

( خواب میں حسن تدبیر ) ۷۷

( جہان میں تمام چیزیں انسان کی احتیاج و ضرورت کے مطابق ہیں ) ۷۷

۸

( انسان کا اصلی معاش روٹی اور پانی ) ۷۹

( انسان کا ایک دوسرے سے شبیہ نہ ہونا حکمت سے خالی نہیں ) ۸۰

( حیوان کا جسم ایک حد معین پر رک جاتا ہے ) ۸۱

( روز دوّم ) ۸۳

( حیوانات کی خلقت ) ۸۶

( حیوان کو ذہن کیوں نہ عطا کیا گیا ) ۸۷

( تین قسم کے جاندار کی خلقت ) ۸۸

( چوپائے ) ۸۹

( چوپاؤں کی حرکت ) ۹۰

( حیوانات کس طرح اپنے سر کو انسان کے سامنے جھکائے ہوئے ہیں ) ۹۱

( کتّے میں صفت ِ مہر و محبّت ) ۹۲

( حیوانات کی شکل و صورت ) ۹۳

( جانوروں کو دُم کی ضرورت ) ۹۳

( ہاتھی کی سونڈ کا حیرت انگیز عمل ) ۹۴

( زرافہ،خداوند عالم کی قدرت کا عظیم شاہکار ) ۹۵

( بندر انسان کی شبیہ ) ۹۶

( حیوان کا لباس اور جوتے ) ۹۷

( حشرات الارض اور درندوں کا مرتے وقت حیرت انگیز عمل ) ۹۸

۹

( گوزن(۱) کا پیاسے ہونے پر حیرت انگیز عمل ) ۹۹

( لومڑی کس چالاکی سے اپنی غذا حاصل کرتی ہے ) ۱۰۰

( دریائی سور کے غذا حاصل کرنے کا طریقہ کار ) ۱۰۰

( بادل اژدھا پر موکّل کی مانند ) ۱۰۱

( چیونٹی کی خلقت ) ۱۰۱

( اسد الذّباب اور مکڑی کا شکار کرنا ) ۱۰۲

(پرندے کی خلقت) ۱۰۳

( خانگی مرغی ) ۱۰۵

( انڈے کی بناوٹ ) ۱۰۵

( پرندوں کا حوصلہ ) ۱۰۶

( حیوانات میں اختلاف رنگ و شکل اتفاق کا نتیجہ نہیں ہے ) ۱۰۶

( پرندے کے پر کی بناوٹ ) ۱۰۷

( بعض پرندوں کے لمبے پاؤں ہونے کی علت ) ۱۰۷

( چڑیا روزی کی تلاش میں ) ۱۰۸

( رات میں باہر نکلنے والے جانوروں کی غذا ) ۱۰۹

( چمگادڑ کی عجیب و غریب خلقت ) ۱۱۰

( ابن نمرہ(۱) کی شجاعت ) ۱۱۱

( شہد کی مکھی ) ۱۱۱

۱۰

( ٹڈی کا ضعف اور قوت ) ۱۱۲

( مچھلی کی ساخت اور اس کی خلقت ) ۱۱۳

( روز سوم ) ۱۱۵

( آسمان کا رنگ بھی حکمت سے خالی نہیں ) ۱۱۷

( سورج کا طلوع و غروب ہونا ) ۱۱۸

( چارفصلوں کے فوائد ) ۱۱۹

( گردشِ آفتاب ) ۱۲۰

( تابش آفتاب ) ۱۲۱

( چاند میں نمایاں دلیلیں خداوندتعالیٰ پر دلالت کرتی ہیں ) ۱۲۱

( ستاروں کی حرکت ) ۱۲۲

( ثریا، جوزہ ، شعریین، اور سہل میں حکمت ) ۱۲۴

( بنات النعش ستارہ ہمیشہ ظاہر رہتا ہے ) ۱۲۴

( چاند، سورج اور ستارے ہم سے اس قدر دور کیوں ہیں؟ ) ۱۲۵

( رات اور دن پندرہ گھنٹے سے تجاوز نہیں کرتے ) ۱۲۷

( سردی اور گرمی کے فوائد ) ۱۲۸

( ہوا میں تدبیر ) ۱۲۹

( ہوا کے فوائد ) ۱۲۹

( زمین کی وسعت ) ۱۳۱

۱۱

( زمین ثابت کیوں؟ ) ۱۳۱

( زلزلہ اور مختلف بلائیں نازل ہونے کا سبب ) ۱۳۲

( زمین اور پتھر کا فرق ) ۱۳۲

( شمالی اور جنوبی ہوائیں ) ۱۳۳

( پانی کی ضرورت ) ۱۳۳

( آگ کے فوائد ) ۱۳۵

( صاف اور بارانی ہوا ) ۱۳۶

( بارش کے فائدے ) ۱۳۸

( پہاڑ خداوند عالم کی عظیم نشانی ) ۱۳۹

( معدنیات ) ۱۴۰

( نباتات ) ۱۴۱

( زراعت میں کیا خوبصورت تدبیر ) ۱۴۲

( دانوں کی حفاظت ) ۱۴۳

( صنعت ِ خیمہ کو صنعتِ درخت سے نقل کیا گیا ہے ) ۱۴۴

( درخت کے پتے کی خلقت ) ۱۴۵

( بیج ،چھلکا اور ان کی علت ) ۱۴۶

( درخت میں تدبیر خداوندی ) ۱۴۶

( انار کی خلقت ) ۱۴۷

۱۲

( بیل بوٹے کی خلقت ) ۱۴۸

( کھجور کا درخت ) ۱۴۹

( ادویات اور ان کے فوائد ) ۱۵۰

( روزچہارم ) ۱۵۳

( آفات وبلیات اتفاق پر دلیل نہیں ) ۱۵۵

( انسان گناہوں سے معصوم خلق کیوں نہ ہوا؟ ) ۱۵۸

( آفات کی دلیل اور توجیہ ) ۱۵۹

( خالق و مبدأ جہاں پر طعنہ زنی کرنے والے لوگ کیا کہتے ہیں ) ۱۶۲

( عالم کا نام یونانی زبان میں ) ۱۶۵

( تعجب اس قوم پر جو حکمت پر یقین رکھ کر حکیم کو جھٹلاتی ہے ) ۱۶۶

( عقل اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتی ) ۱۶۶

( خدا کے بارے میں اس قدر اختلاف کیوں؟ ) ۱۶۸

( طبیعت حکم خدا کے تحت ) ۱۷۱

( انسان کا ناقص الخلقت ہونا اس کے اتفاقاً پیدا ہونے پر دلیل نہیں ) ۱۷۱

۱۳

انتساب :

میں اپنی اس ناچیز خدمت

کو

حضرت قائم آل محمد الحجة ابن العسکری (عجل اللّٰہ تعالیٰ فرجہ'الشریف )

اور

اپنے جداعلیٰ حکیم مولانا سید خورشید حسن زیدی (قدس سرہ الشریف )

کے نام مُعَنوَن کرتا ہوں۔

نسیم حیدر زیدی

۱۴

( تقریظ ) از حضرت آیت اللہ محسن حرم پناہی (قدس سرہ الشرف )

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم

الحمد للّٰه ربّ العالمین والصٰلوة والسلام علی خیر خلقه محمد وٰاله الطاهرین و لعنة اللّٰه علی اعدائهم اجمعین امابعد :

امام برحق: حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا :

(رحم اللّٰه امرئَ أَحیٰ أَمرَنا) خداوند عالم اس شخص پر اپنی رحمتیں نازل کرے جو ہمارے أَمر (یعنی امامت) کو زندہ کرے۔ آئمہ ٪ کے امر کو زندہ کرنے کے لیے بہترین راہوں میں سے ایک راہ ان کی فرمائشات کی نشر واشاعت ہے، کہ آپ نے خود فرمایا: ہماری گفتگو اور کلام سے لوگوں کو آگاہ کرو کہ لوگ ہماری گفتگو اور کلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں اگر وہ آگاہ ہوجائیں تو یقینا ہماری اطاعت کریںگے، ان لوگوں میں سے کہ جنھیں یہ توفیق حاصل ہوئی، اور حضرت امام جعفر صادق ـ کی مستجاب دعا کے شامل حال ہوئے اور خداوند عالم کے لطف وکرم کا موردقرار پائے، یعنی آئمہ اطہار٪ کے آثار و اخبار کی نشرواشاعت کیلئے اقدام کیا، جناب مستطاب سلالة الاطیاب فا ضل و کامل آقای سید نسیم حیدر زیدی دام توفیقہ ہیں جنھوں نے اس کتاب میں حدیث مفضّل کو اردو کے قالب میں

۱۵

ڈھالنے کا کام انجام دیا۔

میں امید کرتا ہوں کہ خداوند عالم موصوف کے اس شائستہ عمل کو قبول کرے ، اور اسے ان کے لئے آخرت کا ذخیرہ اور قارئیں کیلئے ہدایت کا وسیلہ قرار دے۔

وَالسَّلامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الهُدیٰ

قم ۔ الاحقر محسن حرم پناھی۔

بتاریخ ماہ ذیقعدہ ۱۴۱۶۔ ھ۔ ق

مھر۔

۱۶

( گفتار مقدم ) از حضرت علامہ سید رضی جعفر نقوی (پرنسپل جامعة النجف )

تمام پیغمبروں کی تبلیغ کی ابتداء اور جملہ آسمانی شریعتوں کا مرکز و محور ''عقیدہ توحید'' کو بنی نوع انسان کے ذہنوں میں راسخ کرنا رہا ہے کیونکہ اس عقیدے کو چھوڑنے ہی کی وجہ سے دنیائے انسانیت ایسے اوہام و خرافات کا شکار ہوئی کہ آج تک ان سے چھٹکارا حاصل نہ کرسکی۔

خدائے واحد کو چھوڑ کر کبھی آفتاب و ماہتاب کی پرستش کی کبھی آگ اور پانی کو اپنا خدا مانا کبھی ستاروں کی چمک اور دمک سے مسحور ہوکر انھیں اپنا معبود سمجھنے کی غلطی کی، اور کبھی ہر قبیلے نے اپنا ایک خدا مان لیا، اور خانہ کعبہ میں خدائے واحد کی عبادت کے بجائے قبیلوں کی تعداد کے مطابق ''۳۶۰'' بتوں کی خدائی کا کلمہ پڑھا جانے لگا۔

جبکہ پروردگار عالم کی جانب سے مبعوث ہونے والے تمام ہادیان برحق نے نہایت واضح الفاظ میں بنی نوع انسان کو ''توحید '' کی طرف دعوت دی مگر اُن امتوں نے ان تعلیمات کو یکسرتبدیل کرکے رکھ دیا۔

چنانچہ بنی نوع انسان کو جادہ توحید پر از سر نو گامزن کرنے کیلئے مالک دو جہاں نے اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفی (ص) کو مبعوث فرمایا جن کا لایا ہوا پیغامِ توحید اور جن کی پیش کی ہوئی شریعت کو صبح قیامت تک باقی رہناہے۔

اور ہم پر اپنے مالک دوجہاں کا یہ بھی عظیم احسان ہے کہ اس نے حضور اکرم (ص)کے بعد ہماری ہدایت کے لیے ایسے ہادیان برحق کا انتخاب کیا جو سب کے سب نور ِ پیغمبر کے ورثہ دار تھے اور تمام

۱۷

صفات جمال و کمال میں حضور اکرم (ص) کے آئینہ دار تھے۔

ان مقدس اور معصوم ہستیوں نے ہر دور میں ''توحید کے پیغام'' کو ایسے روشن دلائل کے ساتھ بنی نوع انسان تک پہونچانے کی جدوجہد فرمائی کہ ان کی تعلیمات کو پیش نظر رکھنے والا انسان کبھی بھی اوہام میں الجھ ہی نہیں سکتا خصوصاً مولاء کائنات امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے وہ خطبے جو نہج البلاغہ اور دیگر اسلامی کتابوں کے صفحات پر جگمگارہے ہیں ، ان میں توحید کی ایسی روشن دلیلیں ہیں جن کا عُشرِ عشیر بھی دنیا کے کسی اور رہنماء کے اقوال میں تلاش نہیں کیا جاسکتا ، کون ہے جو آپ کے اس فرمان مقدس کے ہم پلہ کوئی کلام پیش کرسکے؟ جس میں آپ فرماتے ہیں کہ :

مَا وَحَّدَه' مَن کَیَّفَه' ، وَلَا حَقِیقَتَه' اَصَابَ مَنْ مَثَلَهُ، ولا اِیَّاه عنیٰ شَبَّهَه'، وَلَا صَمَدَه' مَنْ اَشَارَ الیه وَ تَوَ هَّمَه'، کل مَعْرُوفٍ بِنَفْسِهِ مَصْنُوع وَکُلُّ قائم فی سواهُ مَعْلُول ، فَاعِل لَابِا ضْطِرَابِ اٰلٰةٍ، مُقَدِّرلَا بِحَوْلِ فِکْرَةٍ، غَنِیّ لَا بِاِسْتِفَادَةٍ، ولا تَصْحَبْهُ الْاَوْقَاتِ وَلَا تَرفِدُه' الْاَدْوَات سَبَق الْاَوقَاتُ کَونُهُ وَالعَدََمَ وَجُودُهُ وَالِاّبْتِدَآئَ أَزَلُه' بتشعِیرِه المُشَاعِرَ عُرِفَ أنْ لَا مَشْعَرَ لَه

( خطبہ نمبر ۱۸۴ نہج البلاغہ )

( جس نے اسے مختلف کیفیتوں سے مُتَّصف کیا اس نے اسے یکتا نہیں سمجھا جس نے اس کا مثل ٹھہرایا اس نے اس کی حقیقت کو نہیں پایا جس نے اُسے کسی چیز سے تشبیہ دی اس نے اس کا قصد نہی کیا، جس نے اسے قابل اشارہ سمجھااور اپنے تصور کا پابند بنایا اس نے اس کا رُخ نہیں کیا جو اپنی ذات سے پہچانا جائے وہ مخلوق ہوگا اور جو دوسروں کے سہارے پر قائم ہو وہ علت کا محتاج ہوگا، وہ فاعل ہے بغیر آلات کو حرکت میں لائے، وہ ہر چیز کا اندازہ مقرر کرنے والا ہے ، بغیر فکرکی جولانی کے وہ توانگر اور غنی ہے

۱۸

بغیر دوسروں سے استفادہ کیے ، نہ زمانہ اس کا ہم نشین اور نہ آلات اس کے معاون و معین ہیں، اس کی ہستی زمانے سے بیشتر اس کا وجود عدم سے سابق اور اس کی ہمبستگی نقطہ آغاز سے بھی پہلے ہے اس نے جو احسا س و شعور کی قوتوں کو ایجاد کیا اسی سے معلوم ہوا کہ وہ خود حواس و آلاتِ شعور نہیں رکھتا۔

اس طرح ہمارے تمام ہادیان برحق نے توحید کا جو درس دیا ہے، وہ تاریخ بشریت میں بے مثال ہے ان ہی دروس میں سے ایک عظیم درس وہ ہے جو امام ششم حضرت امام جعفر صادق ـ نے اپنے جلیل القدر شاگرد ''مفضّل'' کو دیا تھا، جس میں اسلام کے اس بنیادی عقیدے کو نہایت مستحکم دلائل سے بیان فرمایاہے۔

برادر عزیز مولانا سید نسیم حیدر زیدی صاحب لائق مبارکباد ہیں جنہوں نے اس عظیم الشان کتاب کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ میری دعا ہے کہ پروردگار عالم بتصدق آئمہ معصومین ٪ ، موصوف کی اس کوشش کو قبول فرمائے اور انھیں زیادہ سے زیادہ خدمتِ دین مبین کی توفیق عطا فرمائے۔ نیز جملہ اہل ایمان کو اس علمی شہ پارہ سے فیض حاصل کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔

آمین۔ بحق طہ وآل یس ۔ والسلام احقر سید رضی جعفر نقوی

۱۹

( حرف اول )

انبیاء (ع) کی تبلیغ میں ''توحید کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ذات واجب الوجود کی آیات میں غور وفکر اور آسمانی کتابوں اور صحیفوں کے مطالعہ سے اس حقیقت تک پہنچا سکتا ہے کہ انبیاء و مرسلین ٪ کا ''توحید'' کی تبلیغ میں اتنے زیادہ اہتمام اور تاکید کی وجہ یہ ہے کہ ''توحید'' کائنات کے نظام ، کی بنیاد ہے اِسی کے پرتو میں انسان تمام فضائل و برکات کے سرچشمہ تک پہنچ سکتا ہے اور بس اسی راہ سے اپنے عقیدے، نفسیات اور رفتار و کردار میں اعتدال باقی رکھ سکتا ہے۔ نیز ہر فرد اور انسانی سماج کی حقیقی سعادت خوش بختی توحید ہی کی مرہون منت ہے اور انسانوں میں ہر طرح کا اختلاف ، انتشار ، گمراہی، زوال اور تباہی و بربادی شرک سے پیدا ہوتی ہے۔

خدائے واحد پر ایمان ، ایک ایسی زنجیر ہے جو تمام لوگوں کے دلوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔ نسلی، علاقائی اور قومی اختلافات کو ختم کردیتی ہے اور مختلف انسانی سماجوں کو اختلاف و تفرقہ سے جو کمزور ، تنزلی و انحطاط کا باعث ہے۔ نجات بخشی ہے۔

زمانہ جاہلیت میں عرب سماج کے پاس عقیدہ توحید سے انحراف اور ہر قبیلہ کا اپنا مخصوص بت ہونے کی وجہ سے، اتحاد و اتفاق کا کوئی محور و مرکز نہیں تھا، اسی وجہ سے وہ لوگ کمزور تھے لڑائی جھگڑے اور جنگ و خونریزی ہوتی رہتی تھی لیکن اسلام کے ظہور اور بت پرستی کے خاتمہ کے بعد توحید کی مرکزیت پر اتحاد و اتفاق کے نتیجہ میں وہ ایک ایسا ناقابل تسخیر اور طاقتور سماج بن کر اُبھرے جس نے بہت تھوڑے سے ہی عرصے میں نہ فقط یہ کہ جزیرة العرب بلکہ ایران و روم جیسی دو پرانی تہذیبوں پر بھی غلبہ پالیا اور بہت سے علاقوں کو پرچم توحید کے زیر سایہ لے آئے۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175