توحید مفضل

توحید مفضل33%

توحید مفضل مؤلف:
زمرہ جات: توحید
صفحے: 175

توحید مفضل
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 175 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130889 / ڈاؤنلوڈ: 6118
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

فضائل آیت دوم

شکر نعمت

خدا وند متعال کی بے پناہ نعمتوں پر شکر واجب ہے اور شکر الہی ادا کرنا بھی انسان کے بس کی بات نہیں چونکہ کائنات کی وسعتوں میں موجود بے شمار نعمتوں کا وہ احصاء کرنے سے قاصر ہے تو پھر کیسے شکر ادا کرے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

ماانعم اللہ علی عبد بنعمة صغرت و کبرت فقال الحمد للہ الا ادی شکرھا۔( البیان ص ۴۵۵ اصول باب الشکر ص ۳۵۶)

خدا وند متعال نے کوئی ایسی چھوٹی یا بڑی نعمت اپنے بندے کو عطا نہیں فرمائی

( الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ)

وہ سب کو فیض پہنچانے والا بڑامہربان ہے۔

اس آیت کی تفسیر پہلے بیان ہوچکی ہے لیکن ایک نکتہ کا یہاں ذکر کرنا مناسب ہے کہ رحمن سے مراد دنیا میں اسکی رحمت ہے اور رحیم سے اسکی اخروی رحمت مراد ہے۔

اسکا واضح برہان یہ ہے کہ لفظرحمانالحمدالله رب العالمین کیساتھ متصل ہے اور یہ دنیا میں اسکے رحمن ہونے کو بتاتا ہے اور لفظرحیم مالک یوم الدین کیساتھ متصل ہے اور یہ اسکی اخروی رحمت پر دلالت کرتا ہے، یہ دونوں صفات منشاء الہی کے فیضوض و برکات پر مشتمل ہے۔

۲۱

خصوصیات۔

سب سے پہلا تکرار

یہ قرآن مجید کی سب سے پہلی آیت ہے جس کے تمام الفاظبسم الله میں ذکر ہو چکے ہیں۔ قرآن مجید میں کہیں بھی بے فائدہ تکرار نہیں ہوا بلکہ خاص معنی اور مفہوم کو بیان کرنے کیلئے تکراری الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور یہاں تکرار کی مندرجہ وجوہات ہیں۔

الف:استحقاق حمد

بسم اللہ میں رحمن اور رحیم کا تذکرہ امداد طلب کرنے کے ذیل میں تھا اور یہاں استحقاق حمد کے لیئے ہے کیونکہ وہ ذات سر چشمہ رحمت ہے اور اس نے ہمیں اپنی رحمت سے بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں، لہذا وہ ذات حق رکھتی ہے کہ اس کی حمد کی جائے گرچہ رحمت کے علاوہ اس کی عالمی تربیت اور دیگر تمام اوصاف کمال بھی اسی ذات کو مستحق حق گردانتی ہیں۔

ب:۔ تربیت کی دلیل۔

یہاں رحمن اور رحیم میں خدائی تربیت کی دلیل موجود ہے کیونکہ وہی کائنات کا خالق اور رب ہے لیکن یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اس کی یہ تخلیق اور تربیت کس بنیاد پر ہے؟ یہ واضع حقیقت ہے کہ وہ ذات ہر چیز سے بے نیاز ہے اور عالمین کی تربیت اپنی ضرورت کے لیئے نہیں کرتا۔

اس کی وسیع اور دائمی رحمت کا تقاضہ ہے کہ سب کو فیض پہنچائے اور اپنے لطف وکرم اور رحم سے ان کی تربیت کرے اور انہیں رشد وکمال کے راستے پر چلائے اور آخرت میں بھی اپنے دامن عفو ورحمت میں جگہ عطاء فرمائے ہماری تربیت اور بخشش سے اس ذات کو ذاتا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ وہ اپنی رحمت سے ہمیں نعمتیں عطاء فرماتا ہے اوررحمت کی وجہ سے ہماری تربیت کرتا ہے۔

۲۲

(ج)حقیقی مالک اور مجازی مالک میں فرق

دینوی مالک کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں بلکہ حقیقی اور اصلی مالک ان کو وجود اور زندگی عطاکرنے والا پروردگار ہے لیکن یہ دنیاوی مالک اپنی اس جھوٹی مالکیت کو جتلانے کے لئے اور اپنی انا اور خواہشات نفسانی کے تحت پر قسم کے ظلم و ستم،قتل و غارت اور بے راہ روی کو اپناتے ہیں۔

لہذا رب العالمین کے بعد الرحمن الرحیم کو لانا اس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ حقیقی مالک ہونے کے باوجود اپنے بندوں پر مہربانی ولطف و کرم کرتا ہے،اور اپنی رحمت کے سائے میں تو بہ کرنے والے تمام خطاکاروں کو بخشش دیتا ہے۔اسی لئے ارشاد الہی ہے۔

قل یا عبادی الذین اسر فو ا علی انفسہم لا تقنطوا من رحمتہ اللہ ان اللہ تغفرالذنوب جمیعا ھو والغفورالرحیم پیغمبر (ص) آپ پیغام پہنچا سیجیے کہ اے میر ے بندو جنہوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی، رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا اللہ تمام گناہوں کو معاف کرنے والا ہے اور وہ یقینا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔

( مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ )

وہ خدا روز جزا کا ما لک ہے۔

حاکمیت اعلی۔

الف :۔

دنیا میں اقتدار اعلی خداوند عالم زمان ومکان کی تمام حالتوں پر حاکم ہے۔اور اس کی حاکمیت تمام جہانوں پر محیط ہے۔ہر چیز پر اس کا تسلط اور احاطہ ہے اور جہاں ہستی کے لیئے وہی ذات ہی حقیقی حاکم ہے اور وہ اپنی حکومت میں کسی چیز کا محتاج نہیں ہے اور علی الاطلاق وہی حاکم اعلی ہے خداوندمتعال کی تربیت اور پرورش فقط اس دنیا تک محدود نہیں ہے۔

۲۳

ب :۔

آخرت میں اقتدار اعلی، یہاں خداوندمتعال مالک یوم الدین کہ کر روز جزا کی حاکمیت فقط اپنی ذات کے ساتھ ہی مخصوص کر رہا ہے اور آج تک کسی نے اس دن کی حاکمیت کا دعوی نہیں کیا۔ جیسا کہ اس دنیا میں بھی لوگوں کی تربیت اور تدبیر کرنا خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اسی طرح آخرت کی تدبیر اور حساب کتاب بھی اسی ذات کے ہاتھ میں ہوگا جیسا کہ خداوندمتعال ارشاد فرماتا ہے۔

لمن الملک الیوم لله واحد القهار ۔

آج کس کی حکومت ہے (جواب دیا جائے ) صرف خدا یگانہ اور قہار کی حکمرانی ہے۔

معاد

الف:۔ آخرت پر ایمان

خلاق متعال کی ربوبیت اور رحمانیت کا تقاضہ یہ ہے کہ جزا اور سزا کا ایک مکمل نظام ہو،خدا نے انسان کو ترقی اور کمال کے مراحل طے کرنے کے لیئے راہ دکھلائے اس کی تربیت کا انتظام کیا اسے شعور اور اختیا رعطا فرمایا اب اگر انسان صحیح راہ کا انتخاب کرے جو کہ اطاعت اور ایمان ہے،تو وہ جزا پائے گا۔

لیکن اگر بری راہ یعنی کفر ومعصیت کو اختیار کرے تو وہ سزا کا مستحق ہے۔ اس آیت کے ذریعے خداوندمتعال انسان کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کر رہا ہے کہ تمام لوگوں کا پلٹنا اسی کیطرف ہے اور یہی معاد ہے۔

ان کے تمام اعمال وامور،قیامت کے دن خدا وند متعال کی حکومت اور سلطنت میں پیش کیے جائیں گے اور وہیں سزا وجزا کا تعین ہو گا،تو اسی بنا پر فقط اسی سے امید رکھنی چاہیے اور اسی سے ڈرنا چاہیے اور اس ذات کی مخالفت اور نافرمانی سے بچنا چاہیے۔معاد پر ایمان انسان کو غلط راستے سے بچاتا ہے اور اس کے کردار اور اخلاق کی اصلاح ہوتی ہے۔اس بنا پر دین کی ایک بنیادی اصل معاد اور قیامت ہے۔

۲۴

(ب)روز حساب

قرآن مجید میں عالم آخرت کو مختلف الفاظ کے ساتھ تعبیر کیا گیاہے،یوم الدین،یوم حساب اور دوسری تعبیریں استعمال ہوئی ہیں اور یوم دین سے مراد روز حساب ہے جیسا کہ حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ مالک یوم الدین سے کیا مراد ہے۔آپ نے ارشاد فرمایا اس سے مرادیوم الحساب ہے۔

یہ وہ دن ہے جس دن تمام پوشیدہ حقائق واضع ہو جائیں گے اور تمام الہی وعدے پورے ہو جائیں گے اور ہر چھوٹے بڑے عمل کو عدالت الہی کے ترازو میں پرکھا جائے گا ہر شخص کی نیکیوں اور اچھائیوں،اسی طرح گناہوں اور برائیوں کاحساب وکتاب ہو گا۔

حاکم مطلق کی بارگاہ میں ہر ظلم وذیادتی کے خلاف شکایت کی جائے اور حقدار کو اس کا حق ملے گا اور کسی کو مایوسی نہ ہو گی اور ہر عمل کا عدل وانصاف کے ساتھ حساب ہو گا جب نیک اور برے افراد علیحدہ علیحدہ ہو جائیں گے تو ان کا اجر وسزا معین ہو گا اور جو اجر پانے والے ہو نگے انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا اور جو لوگ سزا اورعذاب کے مستحق ہونگے انہیں جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔

( إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ )

ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں

( ۱) عبادت

الف:۔حق کی ادائیگی، گزشتہ آیات میں اوصاف خداوندی کا تذکرہ ہو ہے اس ذات(خدا وندی) کی شناخت اور معرفت کے مراحل سے گزرتے ہوئے یہ علم ہوا کہ وہ ذات ہماری خلقت کے بعد،ہماری تربیت اور ہدایت کے تمام اسباب مہیا کرتی ہے،اس دنیا میں اس کی رحمت اور لطف وکرم ہم پر سایہ فگن ہے اور آخرت میں اس کی حاکمیت مطلقہ کے باوجود اس کی رحمت مومنین کے شامل حال ہے۔

۲۵

اس وجہ سے برتروبالا ذات کے بہت سے حقوق ہماری گردن پر ہیں اور جن کی صحیح معنوں میں ادائیگی ہمارے بس میں نہیں ہے،ان میں سے ایک منعم کا شکر ادا کرنا ہے،شکر کو حمد خداوندی کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے اسی طرح ایک حق یہ کہ ہم اپنے رحیم وکریم مالک کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں اس کا واضع مظہر عبادت خداوندی ہے۔

مزید یہ کہ جب کسی سے کوئی حاجت طلب کی جائے تو اس کا لاذمہ یہ ہے کہ اس کے حقوق ادا کیے جائیں اور جو انسان اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتا وہ اس کی عنایت کا حق دار نہیں ہوتا۔اس مقام پر بیان ہونے والی آیات بتاتی ہیں کہ ہم نے کس طرح بارگاہ خداوندی سے حاجات طلب کرنی ہیں ان آیات میں اس کے حق کی ادائیگی کا اقرار کیا گیا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے حاجات طلب کرتے ہیں۔

(ب)وہی ذات لائق عبادت ہے

خداوندمتعال بے پناہ کمالات کا مالک ہے اور اس کی ذات کمال مطلق ہے اور اس کی ہر صفت بھی کمال ہی کمال ہے،وہی رب بھی ہے اور مالک بھی اسی لیئے وہ ذات بندگی اور پرستش کی حق دار ہے یعنی اس کی عبادت کا موجب صرف اور صرف اس کی ذات ہے کوئی اور شیء نہیں ہے۔

اسی لیئے مولا علی علیہ السلام کا فرمان ہے۔

،الهی وجدتک اهلا للعباده فعبدتک

بارالہا میں نے تجھے بندگی اور عبادت کے لائق پایا،اسی لیئے تیری عبادت کرتا ہوں۔

جب وہ ذات ہی بندگی کی لیاقت رکھتی ہے تو پھر عبادت بھی فقط اسی کی قربت کی نیت سے ہونی چاہیے۔

۲۶

(ج)انحصار بندگی

ان آیات سے جب اس ذات کا عبادت کے لائق ہونا واضع ہو گیا تو اب ایک اور موضع کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے کہ عبادت فقط اسی ذات میں منحصر ہے اور اس کے علاوہ کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں ہے۔

عقل وفطرت کا بھی یہی تقاضا ہے جب وہی ذات خالق کل اور مالک حقیقی ہے تو پھر صرف اسی کی اطاعت کی جائے اور جب ہم اس کے بندے ہیں تو معبود بھی اسی کو ہونا چاہیے۔لہذا خداوندمتعال کے علاوہ کسی کی عبادت سلب آزادی اور غلامی کے مترادف ہے لیکن اگر انسان دوسروں کی عبودیت اور نفس امارہ سے آزاد ہونا چاہے اور فقط اور فقط خدا کی عبادت پر انحصار کرے تو اس کا مستحق ہوگا کہ خود کو خدا کا بندہ کہے کیونکہ اس کی بندگی میں عزت ہے۔

دنیاوی طاقتوں اور طاغوتوں کے سامنے جھکنے میں ذلت ہے۔ بہرحال قرآن مجید کی یہ آیت صاحبان ایمان کے لیئے روحی لحاظ سے علو کو پیش کرتی ہے۔اس ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرے اور اپنی احتیاج اسی کے سامنے پیش کرے اور اس کے علاوہ کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرے۔ اسی کے علاوہ کسی پر اعتماد اور توکل نہ کرے کسی کو خدا کا شریک قرار نہ دے اور خدا کی سلطنت کے مقابلہ میں کسی کی حاکمیت کو محبوب نہ جانے کیونکہ خداوندمتعال کا حتمی فیصلہ یہ ہے کہ

( وَ قَضي رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاهُ )

اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا۔

دین کا حکم بھی یہی ہے کہ ہمیں شرک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ شرک در عبادت واطاعت بھی انسان کو دائرہ توحید سے خارج کر دیتا ہے۔ نیز اس مطلب کی طرف بھی متوجہ رہنا چاہیے کہ کائنات کی ہر چیز خداوندمتعال کی مطیع ہے اور اس کی عبادت کرتی ہے اس مقام پر خداارشاد فرماتا ہے۔

( إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آَتِي الرَّحْمَنِ عَبْدًا )

زمین و آسمان میں ہر چیز خدا کا بندا اور (اسکی) فرمانبردار ہے۔

۲۷

خداوندمتعال کی تمام مخلوقات میں صرف انسان اور جن ہی اس کی نافرمانی اور سرکشی کرتے ہیں حالانکہ انہیں عبادت کے لیئے خلق کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد خدا و ندی ہے۔

( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ )

جن و انس کو صرف عبادت کے لیئے پیدا کیا گیا ہے۔

المختصر یہاں پر جب یہ واضع ہو گیا کہ عبادت و پرستش صرف ذات الہی کے ساتھ مختص ہے اور غیر اللہ کی عبادت جس صورت اور جس طرز فکر سے ہو،شرک ہے کیونکہ جو شخص غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے تو وہ اسے معبود سمجھ بیٹھتا ہے اور جو معبود حقیقی کے علاوہ کسی اور کو معبود سمجھے وہ کافر اور مشرک ہے۔خدا پرست اوراھل توحید اسی عقیدہ کی وجہ سے مشرک اور غیر موحد لوگوں سے ممتاز ہیں۔

خضوع و خشوع

اس بات میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ مخلوق کو خدا کی اطاعت کے ساتھ ساتھ خضوع و خشوع بھی کرنا چاہیے کیونکہ وہ ذات اس قدر عظیم ہے کہ اس کے مقابلے میں ہر چیز صحیح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اللہ اکبر کہہ کر اپنی ناچیزی کا اقرار کرتے ہیں اور اس کے سامنے اپنی ذات اور بندگی کا اظہار ہمارے لئے ضروری ہے۔

یہ ایک ایسی مسلمہ حقیقت ہے جس پر عقل اور شریعت دونوں شاہد ہیں اس کے علاوہ کسی استدلال اور برہان کی ضرورت نہیں ہے۔عبادات میں خضوع وخشوع انسان کے مقام کی بلندی کاموجب بنتا ہے بندہ کی اسی میں عزت ہے کہ بندگی میں کمال پیدا کرے اور یہ کمال صرف خشوع وخضوع میں مضمر ہے۔

۲۸

اس سے بڑا فخر اور بڑی عزت کوئی نہیں ہے کہ انسان غنی مطلق کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجیسا کہ حضرت امیر علیہ ا لسلام ارشاد فرماتے ہیں۔

الهی کفانی فخراان تکون لی ربا وکفانی عزا ان کون لک عبدا

پروردگار امیرے لئے صرف یہ بہت بڑا فخر ہے کہ تو میرا رب ہے اور میرے لئے یہ بہت بڑی عزت ہے کہ میں تیرا عبد ہوں۔

ھ۔ خدا کی مر ضی کے مطابق عبادت

عبادت خدا وند متعال کی مرضی کے مطابق ہونی چاہیے،اور عبادت تقرب خدا وندی کے لئے،ہو تی ہے تو اسے اس کے حکم کے مطابق ہونا چاہیے خواہ خاص حکم ہو یا عام،اسے اپنے وہم وگمان اور مرضی کے مطابق بجا لانا چاہیے، کیونکہ خدا وند متعال تمام مصالح اور نقصانات سے آگاہ ہے اور انسانی عقل اس کا مکمل احاطہ نہیں کر سکتی ہے۔

لہذا عبادت اور اطاعت کا صحیح طریقہ وہی ذات معین کر سکتی ہے اور اس کے حکم اور اجازت کے بغیر کوئی عبادت خدا کی عبادت نہیں ہو سکتی بلکہ وہ ھو وھوس اور تخیل کی عبادت ہوگی۔

اس سلسلے میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے۔

قال ابلیس :رباعفنی من السجودلآدم وانا اعبدک عبادة لا یعبدکها ملک مقرب ولابنیمرس فقال جل جلاله لا حاجة لی فی عبادتک انه اعبادتی من حیث ارید لامن حیث ترید

جب شیطان نے کہا بارالہا اگر مجھے آدم کو سجدہ کرنے سے معا ف کر دو تو میں تمہاری ایسی عبادت کروں گا جو کسی مقرب فرشتے اور مرسل نبی نے نہ کی ہوگی۔ اس وقت اللہ جل جلالہ نے فرمایا مجھے تمہاری عبادت کی کوئی حاجت نہیں ہے بلکہ میری عبادت وہ ہے جو میری مرضی کے مطابق ہو نہ کہ تیری مر ضی کے مطابق ہو۔

۲۹

عبادات کی شرائط اور اقسام

خدا کی عبادت تبھی خالص ہو سکتی جب انسان اس کی ذات پر یقین کامل رکھتا ہو اور دوسرے تمام اسلامی اصولوں کا بھی معترف ہو کیونکہ عبادت ان اصولوں کی فرع ہے خدا وند متعال کی حمد وثنا،اس کی ذات کی عظمت اور یوم قیامت کے حساب کتاب جیسے مفاہیم جب انسان کی روح میں سرائیت کر جائیں تو یہ انسان کے عقیدے کے استحکام کا موجب ہیں۔

عبادت کی تکمیل بھی اس مشروط ہے کہ انسان معرفت پروردگار،عقیدہ کی دوستی۔اخلاص و ایمان سے عبادت کو بجالائے اور مقام بندگی میں خود کو اس کے حضورمیں سمجھے اور خدا کا خالص بندہ

کر اس کی بار گاہ میں جائے اور دنیا،لذات، خواہشات وشہوات اور دنیا داروں سے بریدہ ہو کر فقط اس کی عبادت کرے۔

عبادت مختلف طرح سے کی جاتی ہے

( ۱) کبھی انسا ن اس لئے عبادت کرتا ہے تاکہ اسے اجر اور ثوا ب ملے یعنی خداکے احسان اور وعدہ کے لالچ میں عبادت کرتا ہے۔

جیسا کہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے۔

( وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ )

جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا اللہ اسے ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی

اور فرمایا۔

( وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۙ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ )

اللہ نے صاحبان ایمان، نیک عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ ان کے لئے مغفرت اور اجرعظیم ہے۔

( ۲) کبھی انسان جہنم کے عقاب و عذاب کے خوف کی وجہ سے اللہ کی عبادت کرتا ہے جیسا کہ خدا وند عالم نے فرمایا۔

( إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ )

اگر میں اپنے پروردگار کی نا فرمانی کروں،تو مجھے ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے۔

۳۰

( ۳) کبھی انسان اللہ کی عبا ت اور پرستش اس لئے کرتا ہے کیونکہ وہی لائق عبادت اور یہ عبادت اولیاء خدا کے ساتھ مخصوص ہے جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علیہ ا لسلا م ارشاد فرماتے ہیں

الهی ما عبداک خوفا من عقابک ولا طمعا فی ثوابک ولکن وحدئک اهلا لعبادة معبدئک

خدایا میری عبادت تیرے عذاب کے خوف،اور ثواب کے طمع و لالچ میں نہیں ہے بلکہ میں تیری عبادت اس لئے کرتا ہوں کہ تو اس کے لائق ہے۔

ہر شخص اپنی معرفت اور ظرف کے مطابق عبادت کرتا ہے جتنی معرفت ہو اتنی ہی عبادت کی تین قسمیں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔

قوم عبدوالله عزوجل خوفا فتلک عبادة العبید،وقوم عبده الله تبارک و تعالی طلب الثواب فتلک عبادة الاجراء و قوم عبد و الله عز وجل حتی له فتلک عبادة الاجراره هی افضل العبادة ۔

ایک قوم اللہ تبارک وتعالی کی عبادت جہنم کے خوف کی وجہ کرتی ہے یہ غلاموں کی سی عبادت ہے اور ایک گروہ اللہ کی عبادت ثواب حاصل کرنے کے لئے کرتا ہے اور یہ اجیر کی عبادت کار وباری عبادت ہے۔ ایک قوم خدا کی محبت میں اس کی عبادت کرتے ہیں یہی احرار لوگوں کی عبادت ہے اور یہی افضل ترین عبادت بھی ہے۔

اور جو لوگ اللہ کی محبت میں عبادت بجا لاتے ہیں ان کے لئے خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے۔

( قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبکُمُ اللهُ )

اے رسول کہہ دیجیے اگر تم اللہ کے ساتھ محبت کرتے ہوتو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔

۳۱

احتیاج عبد

انسان ایک محتاج موجود ہے اور بذات خود کسی طرح کی کوئی احتیاج نہیں رکھتا ہے۔انسان نے اپنا وجود بھی اسی ذات سے حاصل کیاہے اور اس ذات کے علاوہ کوئی بھی وجود دینے کی قدرت نہیں رکھتا ہے انسان اپنی تمام زندگی میں خدا کی مرضی کے بغیر کسی چیز کو حاصل نہیں کر سکتا۔

لہذا تمام عمر ہر امر میں اس ذات کا محتاج ہے مادیات میں بھی محتاج ہے اور معنویات میں بھی خدا کی مدد اور توفیق کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہو سکتا اور عبادت بھی انسان کی ایک ضرورت ہے

چونکہ دین انسان کی فلاح و سعادت کے لئے ہے اور اس کے احکام پر عمل کرنے سے ہی یہ مقصد حاصل ہو گا

لہذا عبادت کو انسان اپنی ہی بہتری کے لئے انجام دیتا ہے اور خدا کی ذات کو عبد کی عبادت کا کوئی فائدہ اور ضرورت نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرمایاہے۔

( يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ )

اے لوگوتم سب خدا کے محتاج ہو اور اللہ بے نیاز ہے اور قابل حمد و ثنا ء ہے۔

اب اس مقام پر انسان محتاج اپنی ذات اور تشخص کو ختم کرتے ہوئے کہتا ہے ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں جمع کی ضمیر اس لیے استعمال کی ہے کہ مفرد ضمیر یعنی ”میں“ کہنے میں انائیت کا شائبہ ہوتا ہے اور مقام بندگی میں جب ”ہم“ کہا جاتا ہے تو اس کا یہ مقصد ہوتا ہے میں ناچیز اور محتاج ہوں اور اس قابل ہی نہیں کہ اپنی ذات کا اظہار کرسکوں اور مقام عبادت اور طلب میں ناداری اور نیاز مندی کا اظہار ضروری ہے۔

اللہ تعالی بے نیاز مطلق ہے اور کائنات کی کوئی چیز اس کی ضرورت نہیں بن سکتی ہے اور ضرورت اور احتیاج کمال کے منافی ہو تی ہے اور عبادت جن وانس کی خدا کو ذرہ بھر ضرورت نہیں ہے۔

۳۲

بلکہ اگر کائنات میں ایک فرد بھی خدا کو مانتا ہے اور اس کی عبادت کرنے والا کوئی نہ ہو تو پھر بھی خداکی خدائی میں فرق نہیں پڑتا اور اس کے کمال میں کوئی کمی پیدانہیں ہو سکتی۔

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد الہی ہے۔

انسان عبادت بھی خدا کی مددکے بغیر انجام نہیں دے سکتا بندگی اور اطاعت کے تمام مراحل میں اس کا محتاج ہے۔

اسی لئے عبادت اور بندگی میں توفیق الہی اور استعانت طلب کی جاتی ہے عبادت کے شروع کرنے میں بھی خدا وند متعال کی استعانت ضروری ہے چونکہ شیطان انسان کو بندگی اور اطاعت کرنے سے روکتا ہے اور مختلف حیلوں سے موانع ایجاد کرتا ہے۔

اس وقت انسان مصمم ارادہ کے ساتھ خدا کی مدد طلب کرتا ہے اور جب الہی توفیق شامل حال ہو جاتی ہے تو وہ عبادت کا آغاز کرتا ہے اس وقت شیطان ناکام ہونے کے بعد عبادت میں خلل ڈالنے اور بٹھکانے کی کوشش کرتا ہے۔

اس کے لیئے عبادت کو بجا لانے اور اس میں اخلاص اور حضور قلب رکھنے میں خدا کی طرف محتاج ہے اوراس کی مدد کی ضرورت ہے لہذا عبادت کے آغاز،اس کے مال اور اس کی تکمیل فقط خدا کے لطف و کرم سے ہو سکتی ہے۔

نتیجہ یہ کہ انسان ہر سانس میں اس غنی مطلق کا محتاج ہے اور دنیاوآخرت کے تمام امورخداوندمتعال کی مدد کے بغیر انجام نہیں پا سکتے۔اور خداوندمتعال کسی بھی امر میں کسی بھی چیز کا محتاج نہیں ہے۔

فاطرآیت ۱۵ نیز سورہ محمد کی آخری آیت میں بھی یہ مفہوم موجود ہے

۳۳

(ج) عبادت اختیاری

یہ آیت اس بات کی طرف متوجہ کررہی ہے کہ عبادت بندہ کا اختیاری فعل ہے اور خداوند متعال نے انسانوں کو اختیارعطافرمایاہے کہ اگر بندگی اور فرمانبرداری سے خدا وند متعال کی اطاعت اور عبادت میں زندگی گزارے تو اس کی آخرت سنور جائے گی اور اگر وہ نافرمانی کرتے ہوے کفر کی زندگی اختیار کرے تو عذاب شدید کا مستحق ہو گا۔

لہذا مسلمان اپنی عبادت اختیار سے انجام دیتا ہے لیکن اس عبادت کے کمال اور تکمیل پر اس کا اختیار نہیں ہے کیونکہ ثواب اور اجر اخروی،صحیح اور کامل عبادت پر ہی عطا ہوتا ہے اسی لیئے استعانت طلب کی جاتی ہے۔

اس آیت کریمہ میں عبادت کو عبد کا فعل کہا ہے اور استعانت اور مدد کرنا خدا کا فعل ہے لہذا خدا کے فعل پر انسان کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ہاں اگر انسان اطاعت اور بندگی میں ایسے عالی اور بلند مرتبہ پر فائز ہو جائے کہ قرب الہی کے عظیم درجہ کا حامل ہو جائے تو پھر وہ خود خدا کی مرضی بن جاتا ہے یہ مقام نہایت ہی خاص ہستیوں کا نصیب ہے۔

اگر انسان خدا کی اطاعت اور بندگی کو اختیار نہیں کرتاتو وہ اپنہ ہوی اور ہوس کا بندہ ہے اور ہوس اور ہوی نفس کی غلامی اختیار کرتا ہے وہ غیر خدا کی پرستش کرتا ہے اور جیسا کہ فرمان رب العزت ہے۔

( أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ )

کیا آپ نے دیکھا اس شخص کو جو اپنی ہوا وہوس کو اپنا خدا بناتا ہے۔ اور اگر انسان خدا کی اطاعت اور بندگی کو اختیار کرے اور ” نعبد“ میں مخلص اور سچا ہو تو اس تکبر اور غرور کی نفی کرتا ہے۔ عبادت انسان کو اچھائی کی راہ دکھلاتی ہے اور تمام برائیوں سے دور کر دیتی ہے چونکہ جب انسان بندگی کو تسلیم کر لیتا ہے تو پھر سر اٹھانے اور نافرمانی کرنے کی نفی کرتا ہے اور راہ نجات پر گامزن ہوتے ہوئے سعادت اخروی کو پا لیتا ہے۔

۳۴

اصل خدا ہے

ذات خداوند چونکہ اصل ہے اس لیئے ایاک کو مقدم کیا ہے اور نعبد و نستعین کو بعد میں ذکر کیا ہے چونکہ عبادت و استعانت ذات خدا پر فرع ہے اور اللہ ہر چیز سے پہلے اور مقدم ہے جیسا کہ مولا کائنات فرماتے ہیں۔

ما رأیت شیئا الا و رأیت الله قبله

میں نے ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی کہ مگر یہ کہ خدا کو اس سے پہلے پایا۔

یعنی خدامتعال کی ذات ہر چیز پر مقدم ہے، لہذا عبادت پر بھی مقدم ہے اسی طرح استعانت پر بھی مقدم ہے نیز ایاک کو مقدم کرنے میں حصر عبادت اور حصر استعانت کا مفہوم بھی بیان ہو رہا ہے صڑف تیری ذات کی عبادت کرتے ہیں اور صرف تیری ذات سے مدد مانگتے ہیں۔

عبادت کیوں مقدم ہے

عبادت کو استعانت پر اس لیئے مقدم کیا ہے کہ عبادت مطلوب خداوندی ہے اور استعانت عبد کی طلب ہے اور عبد کی طلب کا ذریعہ بھی عبادت ہے اور عبادت اور اطاعت واجب ہے اور اس کی تکمیل گرچہ استعانت ہی سے ہو گی لیکن اسے انجام دینا عبد کا اختیاری فعل ہے۔ لہذا عبد کہتا ہے کہ ” ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تم سے مدد چاہتے ہیں “ تاکہ ہماری عبادت تکمیل پائے اور عبادت کے ذریعہ تم سے مدد چاہتے ہیں اور دعا کرتے ہیں اور اس طرح سے تیرے قرب کے طلب گار ہیں اور تعلق اور تقرب عبادت ہی سے متحقق ہو سکتا ہے۔ نیز کلام کی ھماھنگی اور خوبصورتی بھی اسی میں ہے کہ ایاک نستعین بعد میں آئے تاکہ آیات کے اختتام میں یکسانیت پیدا ہو۔

۳۵

لطف حضور

ادب کا تقاضا ہے کہاس بلند وبالا ذات سے تدریجا قرب پیدا کیاجائے اس سورہ میں نام سے آغاز کیا پھر ذات کا ذکر کیا اس کے بعد مختلف اوصاف کا تذکرہ کیا اور معرف خداوندی کے مراحل طے کیے اسطرح درجہ بدرجہ تعلق پیدا کیا جا رہا ہے اللہ، رب،رحمن،الرحیم اور مالک کہنے کے بعد اب عبد اپنا انداز گفتگو تبدیل کر رہا ہے اور اپنے آپ کو خدا کے حضور اور اسکی بارگاہ میں محوس کر رہا ہے۔ اسی لیئے پہلے غیبت کے الفاظ استعمال کرتا رہا ہے اور اب مخاطب اور حاضر کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہتا ہے کہ صرف آپ کی عبادت کرتے ہیں اور پھر جب بارگاہ میں گفتگو کا شرف پالیا تو اب عبد مزید قرب حاصل کرنے کے لیئے اپنی گزارشات کو پیش کرتے ہوئے استعانت کا طلب گار ہوتا ہے اور بعد والی آیات میں اپنی بنیادی دعا کو طلب کرتا ہے چونکہ حضور میں پہنچ کر درخواست جلدی قبول ہوتی ہے۔

نماز میں جب انسان اس سورہ کو پڑھا جاتا ہے تو انسان روحانی پروازاور معراج کے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچتا ہے تو اس وقت اس کے لئے یہ نقطہ عروج ہے۔

اور یہاں تعلق اور قرب الہی کا مقام ہے لہذا اس کے بعد دعا کرتا ہے،یعنی پرواز روحانی حمد،تعلق وقرب،اور درخواست کے مراحل پر مشتمل ہے۔

( ۲) وحدت کلمہ

اس آیت مبارکہ میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کو وحدت اور یگانگی سے اپنے امور بجا لانا چاہیں اور اتحاد کے ساتھ خدا کی اطاعت اور بندگی میں زندگی گزاریں،اپنی عبادات میں بھی وحدت کو ملحوظ رکھیں جیسے اجتماعی عبادات مانند حج،نماز جماعت،نماز جمعہ جہاد وغیرہ میں ضروری ہے۔

۳۶

سورہ حمد چونکہ نماز کا لازمی جز ہے اور جب بندہ نماز میں یہ جملہ کہتا ہے تو اپنے آپ کو جماعت اور اجتماع میں شمار کرتے ہوئے نعبد و نستعین کہتا ہے ہر قسم کی انفرادیت، علیحدگی،گوشہ نشینی اور ہر قسم کی دوسری چیزیں قرآن اور روح اسلام کے منافی ہیں اور عبادت تو خاص طور پر اجتماعی پہلو رکھتی ہے اور مخصوصا نماز کی بہترین حالت جماعت کی صورت میں ہے۔

اذان اور اقامت سے لے کر اختتام نماز یعنی السلام علیکم و رحمة و بر کاتہ تک جماعت اور اجتماع کی ضرورت کو بیان کیا جاتا ہے گرچہ انفرادی نماز بھی صحیح ہے لیکن یہ دوسرے درجے کی عبادت ہے اور اجتماعی عبادت اور دعا جلد قبول ہوتی ہے اور اس کا ثواب بھی زیادہ ہوتا ہے۔

استعانت

الف ضرورت استعانت

انسان دنیا میں بہت سی قوتوں سے نبرد آزما ہے کچھ بیرونی قوتیں ہیں اور کچھ انسان کی اندرونی قوتیں ہیں جو اسے تباہ و برباد کرنا چاہتی ہیں اور بندگی اور اطاعت میں بھی بہت سی قوتیں انسان کو انحراف،خود پسندی،ریاکاری،سستی اور ایسے دیگر امور میں مبتلا کرسکتی ہیں جیسا کہ شیطان نے بھی انسانوں کو گمراہ کرنے کی کی قسم اٹھا رکھی ہے۔

نفس امارہ بھی برائیوں کی طرف رغبت دلاتا ہے تو اس مقام پر عبد کو ایک طاقتور اور قادر مدد گار کی ضرورت کا ہوتا ہے تو وہ خدا سے مدد مانگتا ہے اور خود کو پروردگار کے سایہ حمایت کے سپرد کرتا ہے اور جو انسان نماز میں بار بار اس کا تذکرہ کرتا ہو۔

اس کا ایمان بندگی کا اعتراف اور اسی سے مدد مانگتا ہو تو وہ پھر کسی طاقت سے نہیں گھبراتا، ثابت قدمی کے ساتھ اطاعت اور بندگی کے راستے پر گامزن رہتا ہے اور کسی دوسری قوت کے سامنے سر نہیں جھکاتا اور مادیات کی کشش سے دھوکا نہیں کھاتا ہے اور اپنی حیات و ممات کو خدا کے لئے قرار دیتا ہے۔

۳۷

انحصار استعانت

خدا وند متعال چونکہ قادر مطلق ہے اور کائنات کی ہر طاقت اور قوت پر حاوی ہے لہذا صرف وہی ذات ہے جو ہر معاملہ میں مددگار ہو سکتی ہے لہذ ا صرف اسی ذات سے مانگنی چاہیے اور اس ذات کے علاوہ کسی دیگر قوت کی مدد ناقص ہوگی مگر یہ کہ خداوند متعال خود کسی کو خصوصی طور مدد گار کامل بنادے۔

اب اگر انسان اس سے مدد لے تو یہ بھی خدا کی عطا کردہ قوت کی مدد ہو گی خدا کی ذات” کن فیکون“ بلکہ اس سے بالا تر طاقت لہذا جب وہ کسی چیز کا اردہ فرمائے تو دنیا وی کسی طاقت کو ہر مارنے کی مجال نہ ہوگی اور ہر طاقت کی قوت دم توڑ دے گی اسی لئے انسان اپنے تمام امور میں اسی ذات سے مدد مانگتا ہے تکمیل ایمان وعبادت میں بھی اس کی مدد کا محتا ج ہے۔

اگر کوئی انسان غفلت میں زندگی گذار رہا ہو اور خدا کی طرف سے اس کی توجہ ہٹ جائے گرچہ یہ بہت بڑی بد بختی ہے لیکن یہ انسان جب کسی بڑی مشکل اور مصیبت میں مبتلا ہو تا ہے اور دنیا کی ہر طاقت سے ما یوس ہو جا تا ہے تو پھر فقط اور فقط ایک ہی طاقت ہے کہ جس سے مدد مانگی جا سکتی ہے اور وہ خدا وند متعال کی ذات ہے۔

خصوصیات آیت پنجم

اولین تکرار لفظ

اس آیت میں ایک لفظ ”ایال“ دو مرتبہ آیا ہے اس طرح یہ قرآن مجید کا ایک ہی آیت میں ہونے والا پہلا تکرار ہے یہ معنوی مفاہیم کے علاوہ لفظی خوبصورتی کا باعث ہے اس مقام پر یہ تکرار کلام میں لطافت بھی پیدا کرتا ہے اور محبوب سے گفتگو چونکہ شیرین ہو تی ہے تو الفاظ کے تکرار سے طویل کیا جاتا ہے۔

۳۸

پہلا بلا واسطہ فعل

اس آیت مبارکہ کی یہ خصوصیت ہے کہ آسمانی کتاب میں عبد پہلی دفعہ اپنے مالک کو بلا واسطہ پکارا ہے اور اس کو خطاب کرنے کا شرف حاصل کرتا ہے گرچہ انسان گذشتہ آیات میں مختلف مرا حل میں یہ اعزاز حاصل کر رہا ہے کہ اپنے مالک اور خالق سے صرف ”تم“ کہہ کر گفتگو کا آغاز کرے جس میں اپنا ئیت پائی جا تی ہے۔

پہلی ضمیر

قرآن مجید میں استعمال ہو نے والی پہلی ضمیر ”ایاک “ ہے یہ اس آیت مبارکہ کی خصوصیت ہے کہ سب سے پہلی ضمیر اس آیت میںآ ئی ہے اور وہ بھی خدا کے لئے استعمال ہوئی ہے اور ضمیر بھی ضمیر مخاطب ہے اور یہ ضمیر ایک آیت میں دو مرتبہ آئی ہے۔

ضمیر کا استعمال عظمت مقام معبود کی وجہ سے ہے اور اس میں یہ مفہوم ہے معرفت اور شناخت کے مراحل طے ہو چکے ہیں لہذا اب اس ذات برتر کے لیئے ضمیر استعمال ہو رہی ہے اور ضمیر خطاب اس لیئے ہے کہ تعلق کا اظہار کیا جائے ہم تیرے ہیں اور تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔

( ۴) پہلا مطلوب الہی

مطلوب الہی اور عبد کا پہلا تذکرہ اس آیت میں ہے۔ مقصد تخلیق بھی عبادت ہے اور خدا بھی چاہتا ہے کہ انسان عبادت کریاور اطاعت کی زندگی گزارے لہذا قرآن مجید میں پہلا مقام ہے کہ جہاں الہی طلب جو کہ عبادت ہے اس کا تذکرہ ہو رہا ہے کہ ہم تیرے حکم کے مطابق صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔

پس مرضی الہی کے مطابق عمل کرتے ہیں۔اور پھر عبد اپنی طلب کا اظہار بھی کرتا ہے کہ بار الہی ہم تمام معاملات میں تم سے ہی مدد طلب کرتے ہیں لہذا یہ عبد کی پہلی طلب اور دعا قرار پائی کہ جو قران مجید کی اس آیت کا خاصہ ہے۔

۳۹

( ۵) پہلا اظہار وجود

اس آیت مبارک میں عبد” نعبد “اور ” نستعین“ کے الفاظ سے اظار وجود کرتے ہوئے خدا کی بارگاہ میں حاضری دے رہا ہے اور کہ رہا ہے کہ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور بندہ اپنے مالک سے اپنی ہی بھلائی کے دو کاموں کا تذکرہ کر رہا ہے کہ ہم اپنے کام اور ذمہ داری پوری کرتے ہیں اسی لیئے فعل مضارع کا صیغہ استعمال ہوا ہے اور (یہ قرآن مجید میں آنے والا پہلا فعل بھی ہے)۔

البتہ یہاں جمع متکلم کا صیغہ استعمال ہوا ہے اس میں اس امر کا اظہار ہے کہ ہماری عبادت مجموعی طور پر ( یعنی اولیاء انبیاء اور آئمہ کی عبادت سے ملکر )ہی عبادت کہلا سکتی ہے وگرنہ ایک بندہ عبادت خدا انجام دینے کو اپنی طرف نسبت دینے میں کاذب بھی ہو سکتا ہے۔

فضائل

( ۱) نماز حضرت امام زمانہ میں تکرار

اس آیت مبارکہ کی ایک فضیلت یہ ہے کہ ہمارے موجودہ زمانہ کے امام آخرالزمان علیہ السلام کی مخصوصہ نماز کی ہر رکعت میں یہ آیت ۱۰۰ مرتبہ تکرار ہوتی ہے۔

( اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ )

ہمیں سیدھے راستے کی ھدایت فرما تا رہ

ھدایت، پروردگار عالم کے سامنے اپنی بندگی کا اظہار،اسکی وحدانیت کی گواہی،اسے اس کائنات اور عالم آخر ت کامربی اور مالک ماننے اور اس سے طلب و استعانت کے مرحلہ تک پہنچ جانے کے بعد ہم بارگاہ خداوندی میں درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں دنیاکے اس بیابان میں راہ مستقیم پر گامزن رکھ اور یہی راستہ جنت کے لیئے ہمارا ہادی ہو،اس ہدایت کی دوصو رتیں ہیں۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

چالاکی پر غور کرو کہ کس طرح خداوند متعال نے حیوان کو سکھائی جس میں اس کی بھلائی ہے۔

( بادل اژدھا پر موکّل کی مانند )

مفضل کا بیان ہے کہ میں نے عرض کی، اے میرے آقا و مولا اب آپ مجھے اژدھا اور بادل کے بارے میں بتائیے ، آپ ـ نے فرمایا: بادل اژدھا پر موکل کی مانند ہے کہ جہاں بھی اُسے پاتا ہے اپنی طرف کھینچتا ہے جس طرح سے مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے، لہٰذا اژدھا بادل کے ڈر سے سر زمین سے باہر نہیں نکالتا مگر یہ کہ جب سخت گرمی ہو یا پھر آسمان بادل سے خالی ہو۔

میں نے عرض کی کہ آخر بادل کو اژدھا پر کیوں کر موکل بنایاگیا ہے؟ کہ اژدھا بادل کے ہٹنے کے انتظار میں رہتا ہے اور بادل جب بھی اژدھا کو پاتا ہے اُسے اپنی طرف کھینچتا ہے؟

امام ـ نے فرمایا: ایسا اس لئے ہے تاکہ لوگ اژدھا کے ضرر سے محفوظ رہیں ، مفضل کا بیان ہے کہ میں نے عرض کی اے میرے آقا ومولا آپ نے میرے لئے وہ کچھ بیان فرمایا کہ جس سے عبرت حاصل کرنے والے لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں اب آپ میرے لئے شہد کی مکھی ، چیونٹی اور پرندوں کے بارے میں کچھ بیان فرمائیں۔

( چیونٹی کی خلقت )

آپ نے فرمایا: اے مفضل ذرا غور کرو چیونٹی کے حقیت اور اس کے اس قدر چھوٹے ہونے پر۔ کیا تم اُس کی خلقت میں کوئی نقص پاسکتے ہو کہ اسے اُس چیز کی ضرورت ہو جس میں اُس کی بھلائی ہے؟ اب ذرا بتاؤ کہ آخر یہ صحیح تقدیر و تدبیر کس کی طرف سے ہے؟ کیا یہ تدبیر کے علاوہ کوئی دوسری چیز ہوسکتی

۱۰۱

ہے کہ جو چھوٹی اور بڑی چیزوں میں یکساں طور سے مشاہدہ کی جاتی ہے۔ اے مفضل۔ غور کرو چیونٹی اور اس کے گروہ پر کہ ہ کس طرح غذا کو فراہم کرتی ہیں تم دانے اٹھانے میں ان کی جماعت کو انسان کی جماعت کی طرح پاؤگے بلکہ چیونٹی اس عمل میں انسانوں سے بھی زیادہ چست و چالاک ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ دانے کو اٹھانے اور حمل کرنے میں انسانوں کی طرح ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں ، پھر وہ دانے کو حمل کرنے کے بعد دو حصوں میں تقسیم کردیتی ہیں تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دان زمین میں اگ جائے، اور فاسد ہوجائے اور اگر کوئی رطوبت یا پانی وغیرہ اس کے سوراخ تک پہنچ جائے تو وہ دانے کو سوارخ سے باہر لے آتی ہیں اور اُس وقت تک اُسے سورج کی روشنی میں رکھتی ہیں جب تک وہ خشک ہو جائے اس کے علاہ یہ کہ چیونٹی اپنے گھر کو زمین کی سطح سے بلند بناتی ہے تاکہ کہیں ایسانہ ہو کہ وہ گرفتارِ سیلاب ہوکر غرق ہوجائے۔ یہ تمام چیزیں وہ جانور انجام دیتا ہے کہ جس کے پاس عقل و فکر کا خزانہ موجود نہیں لیکن یہ خداوند عالم کا لطف ہے کہ اس نے یہ تمام چیزیں اس کی طبیعت میں رکھیںہیں۔

( اسد الذّباب اور مکڑی کا شکار کرنا )

اے مفضل ۔ ذرا غور کرو اس چھوٹے سے جانور پر کہ جسے أسد الذباب کہتے ہیں۔ اور غور کرو اس کے اس حیلہ و چالاکی پر کہ جس کے ذریعہ یہ اپنی زندگی بسر کرتا ہے اس لئے کہ تم اسے دیکھو گے کہ جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ مکھی اُس کے پاس بیٹھی ہے تو وہ اپنے آپ کو اس طرح چھوڑدیتا ہے کہ جیسے وہ مردہ ہے کہ جو حرکت نہیں کرسکتا، یہاں تک کہ وہ جان لیتا ہے کہ مکھی مکمل طور پر اس سے غافل ہوگئی ہے تو وہ آہستہ آہستہ مکھی کی طرف حرکت شروع کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو مکھی کے اتنا نزدیک کرلیتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) مکڑی کی طرح کا ایک چھوٹا سا جانور جواکثر گھروں میں بھی دکھائی دیتا ہے۔

۱۰۲

ہے کہ اگر وہ مکھی پر جھپٹے تو وہ بآسانی اُس تک پہنچ جائے اور اسی لمحہ وہ بلا فاصلہ اُس پر جھپٹتا ہے اور اُسے پکڑ لیتا ہے، اور اُسے پکڑتے ہی اپنے آپ کو اُس میں اُلجھا دیتا ہے، اس لئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مکھی

اس کی گرفت سے فرار ہوجائے اور پھر مکھی کو اس وقت تک اس حالت میں رکھتا جب تک کہ وہ محسوس کرے کہ وہ سست و ضعیف پڑگئی ہے، پھر اُسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے کھالیتا ہے، اور اس طریقہ سے وہ اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔

اور اب ذرا مکڑی کو دیکھو کہ وہ جالے کو اس لئے بناتی ہے تاکہ مکھی کو اُس میں پھنسا کر اس کاشکار کرسکے، وہ خود ا س جالے کے اندر بیٹھ کر مکھی کے آنے کا انتظار کرتی ہے اور جیسے ہی مکھی اُس پر بیٹھتی ہے وہ فوراً اُس پر حملہ آور ہوتی ہے اور اس کا حملہ اس قدر صحیح ہوتا ہے کہ وہ سیدھی مکھی پر گرجاتی ہے اور اس طرح وہ اپنی زندگی کی مشین کو چلاتی ہے۔ اسد الذباب کا شکار کرنا، شکاری کتے کے شکار کی مانند ہے اور مکڑی کا شکار کرنا ایسا ہے جیسا کہ شکاری رسی پھینک کر شکار کرتا ہے، ذرا غور کرو اس چھوٹے اور ضعیف جانور پر کہ کس طرح اس کی طبعیت میں اس چیز کو رکھا کہ جس تک کوئی انسان بھی بغیر فن و حیلہ اور رسی کے استعمال کے بغیر نہیں پہنچ سکتا، پس کسی بھی چیز کو حقارت کے نگاہ سے مت دیکھو جبکہ تم اس سے عبرت حاصل کررہے ہو، جیسے چیونٹی اور اس قسم کے دوسرے جانور اس لئے کہ کبھی چھوٹی چیزوں کے ذریعہ بڑی نشانیوں کو ظاہر و آشکار کیا جاتا ہے، اور وہ اس لحاظ سے بڑی چیزوں سے کم نہیں جیسا کہ دینار جو سونے کا سکہ ہے جب اس کا مثقال کے ذریعہ وزن کیا جائے تو ا س کی قدر و قیمت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

(پرندے کی خلقت)

اے مفضل۔ ذرا پرندوں کے جسم اور ان کی خلقت پر غور کرو،کیونکہ ابتداء ہی سے انکی طبعیت میں پرواز کو رکھا ہے ۔ لہٰذا ان کے جسم کو ہلکا بنایا، تمام جانوروں کو چار پاؤں عطا کئے مگر انہیں دو پاؤں عطا

۱۰۳

کئے اور چار سے لے کر پانچ تک انگلیاں اور پیشاب و فضلہ کے خارج ہونے کے لئے ایک سوراخ رکھا اور پھر اس کے سینے کو اُبھرا ہوا پیدا کیا تاکہ ان کے لئے ہوا کا کاٹنا آسان ہوجائے۔ جیسا کہ کشتی بھی اسی طرز پر بنائی جاتی ہے، تاکہ پانی کو کاٹ کر آگے بڑھ سکے اور اس کے لئے دو بازو اور دم عطا کی کہ جو پروں سے ڈھکی ہوئی ہے جو اُسے بلند پرواز کرنے میں مدد دیتی ہے اور پھر اس کے جسم کو بھی پروں سے ڈھانکا تاکہ ہوا پروں میں داخل ہوکر جسم کو ہلکا بنادے، اور کیونکہ ان کے کھانے کا طریقہ یہ رکھا گیا کہ دانے اور گوشت کو بغیر چبائے نگلیں، لہٰذا انہیں دانت عطا نہ کئے گئے انہیں تیز و سخت چونچ عطا کی جس کی مدد سے وہ غذا کو اُٹھاکر جلدی سے نگل لیتے ہیں لہٰذا ان کے بدن میں اس قدر حرارت رکھی گئی جو غذا کو ان کے بدن میں پکا کر ہضم کردیتی ہے اس طرح وہ غذا کو چبا کر کھانے سے بے نیاز ہو جاتے ہیں اس مطلب کو اس بات سے سمجھا جاسکتا ہے کہ انگور کا دانہ انسان کے جسم سے ثابت باہر آجاتا ہے، لیکن پرندوں کے جسم میں ہضم جاتا ہے۔اور اس کے اثرات دیکھنے میں نہیں آتے اور پھر یہ طے پایا کہ پرندے انڈے دیں بچے نہ دیں تاکہ انہیں اڑنے میں سنگینی کا سامنا کرنا نہ پڑے اس لئے کہ اگر بچہ اس وقت تک ان کے جسم میں رہتا جب تک کہ وہ محکم ہوجائے تو مسلم طور پر اُن کا جسم وزنی ہوجاتا ، جو اُڑان میں رکاوٹ کا سبب بنتا، پس اُس نے اپنی ہر مخلوق میں وہ ہی تدبیر استعمال کی جو اس کے لئے مناسب تھی، اور کیونکہ پرندوں کے لئے یہ بات طے ہوچکی تھی کہ وہ ہوا میں پرواز کریں، لہٰذا انہیں انڈوں پر بیٹھنا سکھایا۔ ان میں سے بعض ایک ہفتہ بعض دو ہفتہ اور بعض تین ہفتے بیٹھتے ہیں، یہاں تک کہ بچہ انڈے سے باہر آجاتا ہے اور جب بچہ انڈے سے باہر آجائے تو اُس کی ماں اس وقت تک اس کے منہ میں ہوا بھرتی ہے جب تک وہ خود غذا حاصل کرنے کے قابل ہوجائے او ر پھر مسلسل اس کی تربیت میں لگی رہتی ہے اور اس کے لئے غذا فراہم کرتی ہے کہ جس سے اس کی زندگی بسر ہوتی ہے۔ آیا وہ کون ہے؟ جس نے پرندوں کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہرایا کو وہ دانوں کو چگیں اور انہیں جمع کرنے کے

۱۰۴

بعد اپنے بچوں کے لئے غذا فراہم کریں؟ کس لئے وہ مشقتوں اور مشکلوں کو برداشت کرتے ہیں ، جبکہ وہ صاحب عقل و فکر نہیں اور نہ ہی وہ اپنے بچوں سے کسی قسم کی آرزو رکھتے ہیں کہ وہ ان کی مستقبل میں عزت ،ان کے نام اور ان کی رسم و رواج کو باقی رکھنے والا ہے، یہ بات اس چیز پر دلیل ہے کہ حیوانات کو اپنے بچوں کے لئے مہربان ایک ایسے سبب کے خاطر بنایا گیا ہے کہ جسے خود حیوانات نہیں جانتے اور نہ اس بارے میں سوچتے ہیں اور وہ سبب ان کی بقاء اور دوام نسل ہے اور یہ فقط خداوند متعال کا لطف ہے کہ جس کا ذکر بلند و بالا ہے۔

( خانگی مرغی )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو مرغی کے انڈے دینے اور اپنے بچوں کی پرورش کرنے پر اگر انڈے دینے کے بعد ان کے پاس کوئی آشیانہ نہ ہو تو وہ شور وغل کرتی ہے اور غذا کھانا بھی چھوڑ دیتی ہے یہاں تک کہ اُس کا مالک یا صاحب خانہ اس کے لئے انڈوں کو جمع کرتا ہے اور وہ انڈوں کو اپنے پروں میں لے لیتی ہے تاکہ انڈوں سے چوزے باہر آجائیں ۔ آخر کیوں اس میں یہ حالت و کیفیت پیدا ہوجاتی ہے سوائے اس کے کہ اس کی نسل باقی رہے ، آخر وہ کون ہے جو اس سے دوام نسل چاہتا ہے جبکہ وہ نہ صاحب عقل ہے اور نہ صاحب فکر ، اس عمل کو غریزہ کے طور پر اس میں رکھا گیا ہے۔

( انڈے کی بناوٹ )

اے مفضل۔ ذرا غور کروانڈے کی بناوٹ اور اُس کی زردی پر کہ جو قدرے سخت ہے اور سفیدی پر جو باریک ہے اس میں سے کچھ بچے کے وجود کے لئے اور کچھ اس کی غذا کے لئے ہے ، یہاں تک کہ بچہ

۱۰۵

انڈے سے باہر آجائے ، اب ذرا غور کرو اس تدبیر پر کہ جب بچہ ایک محکم خول کے اندر ہے کہ جہاں کوئی راہ نہیں، ایسے میں اس کے لئے ضروری ہے کہ کوئی غذا ہو جو اُس کے خول سے باہر آنے تک اُس کی کفالت کرے، بالکل اس شخص کی طرح جسے کسی قید خانہ میں قید کردیا گیاہو، کہ ایسی صورت میں کوئی چیز اُس تک نہیں پہنچ سکتی ، تو اسے صرف اتنا کھانا دیا جاتا ہے کہ جب تک وہ قید خانہ سے باہر آئے، وہ کھانا اس کے لئے کافی ہو۔

( پرندوں کا حوصلہ )

اے مفضل۔ ذرا پرندے کے حوصلہ اور جو کچھ اُس کے مقدر ہوا اُس پر غور کرو، کیونکہ پرندے کی معدہ تک غذا پہنچنے کی جگہ بہت باریک ہے لہٰذا اُس میں غذا آہستہ آہستہ نفوذ کرتی ہے پس اگر وہ پرندہ دوسرا دانہ اُس وقت تک نہ چگتا جب تک کہ پہلا دانہ معدہ تک نہ پہنچ جائے، تو ایسے میں پرندہ ہرگز سیر نہ ہوتا اور بھوکا رہ جاتا لہٰذا اس طرح تدبیر کو رکھا گیا ہے کہ پرندہ شدت حرس سے جلدی جلدی دانہ چگتا ہے ، اور جو تھیلا ( پوٹا) اس کے آگے لٹکا ہوا ہے اس میں جمع کرتا رہتا ہے ، پھر وہ تھیلا(پوٹا) اُس جمع شدہ غذا کو آہستہ آہستہ معدہ کی طرف بھیجتا ہے، پرندہ کے لئے اس تھیلے میں ایک اور فائدہ بھی ہے اور وہ یہ کہ بعض پرندے اپنے بچوں کو غذا دیتے ہیں لہٰذا ایسے میں غذا کو پلٹانا آسان ہوجاتا ہے۔

( حیوانات میں اختلاف رنگ و شکل اتفاق کا نتیجہ نہیں ہے )

مفضل کا بیان ہے کہ میں نے عرض کی اے میرے آقا و مولا بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں حیوانات میں رنگ و شکل کا اختلاف ان کے مختلف حیوانات سے ملاپ کا نتیجہ ہے اور یہ سب محض

۱۰۶

اتفاق کا نتیجہ ہے امام ـ نے ارشاد فرمایا: اے مفضل، یہ تم مور ، اورمرغ کے پروں پر جو مساوی درجہ بدرجہ نقش دیکھتے ہو یہ نقش ایسے ہیں جیسا کہ قلم سے نقاشی کی گئی ہو یہ کس طرح سے مختلف جانوروں کے ملاپ اور اتفاق کا نتیجہ ہوسکتے ہیں،جب کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کی شبیہ ہیں ، اور کسی بھی قسم کا اختلاف نہیں رکھتے یہی بات اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ اگر یہ اتفاق کا نتیجہ ہوتے تو ان میں برابری نہ پائی جاتی اور وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے۔

( پرندے کے پر کی بناوٹ )

اے مفضل۔ پرندے کے پر ، پر غور کرو کہ تم اُسے اس طرح بنا ہوا پاؤ گے، جس طرح سے لباس بُنا جاتا ہے کہ بعض پروں کو بعض میں پیوست کیا ہوا ہے، جیسا کہ دھاگے کے اندر دھاگہ اور بال کے اندر بال پیوست ہوتا ہے اور پھر تم ذرا اُس کی ساخت پر تو غور کرو کہ ذرا سا کھینچنے سے کھل جاتا ہے لیکن ایسے نہیں کہ بالکل ہی اُس سے جدا ہوجائے، یہ نظام اس لئے رکھا گیا ہے تاکہ پرندوں کے پر میں ہوا داخل ہوسکے اور جب وہ اڑنا چاہتا ہو تو اسے بلند پرواز کرنے میں آسانی ہو اور تم پروں کے اندر ایک محکم و مضبوط نلی پاؤگے جس پر پروں کو بنایا گیا ہے ، تاکہ اس کی سختی محفوظ رہے، اور یہ نلی سخت ہونے کے باوجود درمیان سے خالی ہے، تاکہ وہ ہلکی رہے اور پرندے کو اُڑنے میں دشواری کا سامنا کرنا نہ پڑے۔

( بعض پرندوں کے لمبے پاؤں ہونے کی علت )

اے مفضل۔ کیا تم نے لمبے پاؤں والے پرندہ کو دیکھا ہے؟ اور کیا تم جانتے ہو کہ اس کے لمبے پاؤں میں اس پرندہ کے لئے کیا منفعت و فائدہ ہے؟ ایسا اس لئے ہے کہ یہ پرندہ ایسی جگہ زندگی بسر

۱۰۷

کرتا ہے جہاں پانی فراوانی سے پایا جا تا ہے اور وہ اُس دیدبان کی طرح ہے جو بلند مقام سے مسلسل پانی میں دیکھ رہا ہے اور جب وہ کسی ایسی چیز کو دیکھتا ہے کہ جو اس کی غذ اہے تو بہت ہی آرام سے اُس تک پہنچ جاتا ہے ۔ اگر اس کے پاؤں چھوٹے ہوتے، اور وہ اپنے شکار کی طرف حرکت کرتا تو ا س کا شکم پانی سے لگتا جس سے پانی ہلتا، اور شکار کو فرار کرنے کا موقع مل جاتا اور شکار فرار ہوجاتا ،لہٰذا اس پرندے کے لئے لمبے پاؤں خلق کئے گئے تاکہ وہ اپنی ضرورت کو پورا کرسکے اور اسے اپنی ضرورت کو پورا کرنے میں کسی بھی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے ذرا غور کرو، پرندوں کی مختلف تدابیر پر تم جس پرندے کے لمبے پاؤں اور لمبی گردن دیکھتے ہو یہ اس لئے تاکہ وہ اپنی غذا کو زمین سے اُٹھا سکیں اور اگر ان پرندوں کے پاؤں لمبے اور گردن چھوٹی ہوتی تو یہ ہرگز اپنی غذا کو زمین سے نہیں اُٹھا سکتے تھے،اور اس کی لمبی چونچ اور لمبی گردن کی وجہ سے یہ کام اُس کے لئے بالکل آسان اور ممکن ہوجاتا ہے۔

( چڑیا روزی کی تلاش میں )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو، چڑیا کس طرح سارا دن روزی کی تلاش میں رہتی ہے اور اس کے لئے اس کی روزی نہ نایاب ہوتی ہے اور نہ ہر جگہ موجود بلکہ جدوجہد کے بعد وہ اسے تلاش کرتی ہے اور بالکل اسی طرح دوسری تمام مخلوق ، بے شک پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات کہ جس نے روزی میں اس اندازہ تدبیر کو رکھا اور اُسے ہرگز چڑیا کی دسترس سے باہر قرارنہ دیا اس لئے کہ اس نے اپنی مخلق کو حاجتمند بنایا ہے اور نہ اس طرح رکھا کہ وہ ہر جگہ فراوانی سے موجود ہو اور وہ بآسانی اُس تک پہنچ جائے اگر اس طرح کی تدبیر نہ کی جاتی تو خود اس میں چڑیا کے لئے بھلائی نہ تھی، کیونکہ اگر پرندے اپنی غذا کو ایک جگہ پاتے تو وہ سب وہاں جمع ہوجاتے اور اس قدر غذا کھاتے کہ انہیں بدہضمی ہوجاتی، اور اس طرح وہ ہلاک ہوجاتے اور اسی طرح اگر انسان بھی اپنی روزی کو حاصل کرنے میں مشغول نہ رہتا تو سرکش

۱۰۸

ہوجاتا، فساد زیادہ ہوتے اور خواہشات ظاہری طور پر پھیل جاتیں۔

( رات میں باہر نکلنے والے جانوروں کی غذا )

اے مفضل۔ کیا تم جانتے ہو ان پرندوں کی غذا جو رات کو باہر نکلتے ہیں۔ مثلاً ، أُلُّو، چمگادڑ اور زہریلے جانور مثلاً، سانپ ، بچھو وغیرہ ۔ کیا ہے؟ مفضل کا بیان ہے کہ میں نے عرض کی جی نہیں۔ آپ نے فرمایا: ان جانوروں کی غذا وہ چیزیں ہیں جو رات کو فضا میں منتشر دکھائی دیتی ہیں مثلاً مچھر، تتلی ، ٹڈی، شہد کی مکھی اور اس قسم کے دوسرے حشرات ۔ اس لئے کہ یہ حشرات فضا میں ہمیشہ اور ہر وقت موجود ہیں اور کوئی جگہ ان سے خالی نہیں، اس بات کا امتحان تم اس طرح کرسکتے ہو کہ جب تم تاق میں یا گھر کے کسی بھی کونے میں چراغ جلاتے ہو تو ان میں سے اکثر چراغ کے گرد جمع ہوجاتے ہیں ۔ اب ذرا یہ بتاؤ یہ سب کہاں تھے، نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب نزدیک سے آئے ہیں ، اور اگر کوئی یہ کہے کہ یہ سب بیابان اور صحراء سے آئے ہیں تو ان کے جواب میں کہا جائے گا کہ کس طرح انہوں نے اس وقت اتنی بڑی راہ کو طے کیا اور کس طرح اتنی دور سے اُس چراغ کو دیکھا کہ جو گھر میں روشن ہے جبکہ دیوار یں گھر کا احاطہ کئے ہوئے ہیں ، پس ایسی صورت میں ان سب کا چراغ کے گرد جمع ہونا اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ حشرات ہر وقت اور ہر جگہ فضا میں منتشر ہیں اور جب اُلُّو ، چمگادڑ اوران جیسے دوسرے پرندے رات کو باہر نکلتے ہیں تو انہیں غذا کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ذرا غور کرو اُن پرندوں کی غذا جو رات کے علاوہ باہر نہیں نکلتے ، ان حشرات کے ذریعہ فراہم کی ہے تو پس اس قسم کے حیوانات کی خلقت کے راز کو جان لو کہ جن کے بارے میں بہت سے لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ان کی پیدا ئش زائد اور فضول ہے۔

۱۰۹

( چمگادڑ کی عجیب و غریب خلقت )

اے مفضل۔ چمگادڑ کی خلقت بھی عجیب و غریب ہے اس کی یہ خلقت چوپاؤں اور پرندوں سے شباہت رکھتی ہے، اس لئے کہ چمگادڑ کے دو کان (جو باہر نکلے ہوئے ہیں) دانت اور بال ہوتے ہیں اور دوسرے تمام ممالیہ جانوروں کی طرح یہ بھی ممالیہ ہے اور پیشاب کرتا ہے اور جب راہ چلتا ہے تو دو ہاتھ اور دو پاؤں کی مدد سے راہ چلتا ہے اور یہ تمام اوصاف پرندہ کے اوصاف کے برخلاف ہیں چمگادڑ ان پرندوں میں سے ہے کہ جو رات کے وقت باہر آتے ہیں، اور اپنی غذا کو ان چیزوں سے حاصل کرتے ہیں جو فضا میں منتشر ہوتی ہیں مثلاً پروانہ وغیرہ ۔

اے مفضل۔ اس کے بارے میں بعض لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ وہ غذا نہیں کھاتا بلکہ اس کی غذا ہوا ہے، حالانکہ یہ کہنا دو طرح سے غلط ہے اول یہ کہ وہ پیشاب و فضلہ کرتا ہے اور یہ عمل بغیر غذا کھائے ناممکن ہے اور دوم یہ کہ وہ دانت رکھتا ہے اگر وہ اُن دانتوں سے کوئی چیز نہیں کھاتا تو اس کے دانتوں کا ہونا بے معنی ہے، جبکہ خلقت میں کوئی چیز بھی بے معنی نہیں،یقینا اس جانور کے فائدے بہت معروف ہیں یہاں تک کہ اس کا فضلہ بہت سے کاموں اور دواؤں میں استعمال ہوتا ہے اور سب سے زیادہ نفع اس کی عجیب و غریب خلقت کا ہونا ہے کہ جو خالق دو جہاں کی قدرت پر دلالت کرتی ہے کہ وہ جس کو جس چیز میں جس طرح چاہے استعمال کرتا ہے جس میں خود اُس چیز کی مصلحت ہے۔

۱۱۰

( ابن نمرہ(۱) کی شجاعت )

اے مفضل۔ اور اب اس چھوٹے سے پرندہ کو دیکھو کہ جسے ابن نمرہ کہتے ہیں کہ جو درخت میں آشیانہ بنا کر اُس سانپ کو دیکھ رہا ہے کہ جو منہ کھولے اس کے آشیانہ کی طرف بڑھ رہا ہے تاکہ وہ ابن نمرہ اور ا س کے بچوں کو نگل لے کہ اس حالت میں یہ پرندہ بے چین وپریشان ہوتا ہے اور اپنے دفاع کے لئے کوئی راہ تلاش کرتا ہے کہ اچانک اس پرندہ کی نگاہ اُن زہر آلود کانٹوں پر پڑتی ہے کہ جنہیں حسکہ کہا جاتا ہے یہ پرندہ فوراً ان کانٹوں کو اٹھاتا ہے اور سانپ کے منھ میں دالنا شروع کردیتا ہے اور سانپ ان کانٹوں میں الجھ جاتا ہے اور دائیں اور بائیں لوٹ لگاتا ہے اور اسی حالت میں مرجاتا ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر یہ بات میں تمہیں نہ بتاتا تو کیا یہ بات تمہارے یا کسی اور کے خیال میں آسکتی تھی کہ ایک حسکہ سے اتنا بڑا فائدہ اور ایک چھوٹے سے پرندہ سے اتنے بڑے عمل کی توقع کی جاسکتی ہے اے مفضل ۔ اس واقعہ اور قسم کی دوسری چیزوں سے عبرت حاصل کرو کہ جن میں اتنے عظیم فائدے ہیں جو لوگ نہیں جاتے ، مگر یہ کہ کوئی حادثہ رونما ہوا یا انہیں کوئی بات بتائی جائے۔

( شہد کی مکھی )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو شہد کی مکھی پر کہ وہ کس طرح سے شہد کو فراہم کرنے کے لئے چھے کونے کا گھر بنانے کے لئے جمع ہوتی ہیں، اور جو کچھ تم اِس میں دیکھتے ہو یہ سب کام بہت زیادہ باریک بینی سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) مینا کی طرح کا چھوٹا سا پرندہ

۱۱۱

انجام پاتے ہیں اور اگر تم اُس کا بہت غور سے مشاہدہ کرو تو تم اس عمل کو حیرت انگیز اور نرم اور نازک پاؤ گے۔اور اگر تم اس کی بناوٹ پر نگاہ کرو تو یہ ایک بڑا کام ہے کہ جس کی قدر وقیمت لوگوں کے درمیان بہت زیادہ ہے لیکن اگر تم اس کے بنانے والے کی طرف نگاہ کرو تو اُسے جاہل اور فکر سے خالی پاؤ گے کہ وہ اپنے ہی متعلق فکر نہیں رکھتی، چہ جائیکہ وہ دو سری چیزوں کے بارے میں فکر کرے پس یہ چیز اس بات پر دلالت ہے کہ اس صنعت میں حکمت اور حسن عمل کا وجود شہد کی مکھی کا کمال نہیں بلکہ یہ کمال اس ذات کا ہے جس نے اس حیوان کو اس حالت پر پیدا کیا اور یہ کام شہد کی مکھی کو سکھایا۔

( ٹڈی کا ضعف اور قوت )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو ٹڈی کے ضعف اور قوت پر اگر تم اس کی خلقت پر غور کرو تو اسے ضعیف ترین پاؤگے لیکن اگر یہ لشکر کی صورت میں شہر کا رُخ کریں تو کوئی بھی چیز انسانوں کو ان سے نہیں بچا سکتی یہاں تک کہ اگر کوئی بادشاہ اپنی سوار و پیادہ فوج کو اس بات پر معمور کرے کہ وہ شہر کو ٹڈیوں سے محفوظ رکھے،تو وہ فوج کس بھی صورت میں اس أمر پر قابو نہیں پاسکتی تو کیا یہ بات خالق دو جہاں کی قدرت پر دلالت نہیں کہ اگر وہ ضعیف ترین مخلوق کو قوی ترین مخلوق کی طرف بھیجے تو وہ اس سے دفاع نہیں کرسکتی ، ذرا غور کرو کہ وہ کس تیزی کے ساتھ مسافرت کرتی ہیں ایسے ہی جیسے کہ سیلاب تمام بیابان، پہاڑوں اور شہر کو لپیٹ میں لے لیتا ہے اور یہ ٹڈیاں اس قدر زیادہ ہوتی ہیں کہ اپنی کثرت کی وجہ سے فضا کو تاریک اور سورج کی روشنی کو روک لیتی ہیں اگر یہ سب ہاتھ سے بنائی جاتیں تو متواتر اور ایک طویل زمانہ کے بعد بھی تمام مخلوق ان کی بناوٹ سے فارغ نہیں ہو پاتی پس اس چیز سے اس خداوند متعال کی قدرت پر استدلال کرو جسے کوئی چیز عاجز نہیں کرسکتی، اور کوئی قدرت و طاقت اس کی قدرت و طاقت سے بالاتر نہیں۔

۱۱۲

( مچھلی کی ساخت اور اس کی خلقت )

اے مفضل ، ذرا غور کرومچھلی کی خلقت ، اس کی ساخت اور اس کے ماحول سے اس کی مطابقت پر ، مچھلی بغیر ہاتھ و پاؤں کے خلق ہوئی ہے اس لئے کہ وہ راہ چلنے کی محتاج نہیں کیونکہ اُس کا مسکن پانی ہے ، مچھلی بغیر پھیپھڑوں کے خلق ہوئی ہے اس لئے کہ سانس لینے کی قدرت نہیں رکھتی اگرچہ وہ پانی کی گہرائیوں میں جاتی ہے، مچھلی کو ہاتھ اور پاؤں کے بدلے دو محکم پر عطا کئے ہیں کہ جنہیں پانی میں مارتی ہے بالکل اُسی طرح جس طرح سے ملاح چپوؤں کو کشتی کے دونوں طرف مارتا ہے ، مچھلی کے بدن کو محکم چھلکوں سے ڈھکا گیا ہے کہ جو آپس میں اس طرح پیوست ہیں جس طرح سے زرہ کے حلقے آپس میں ایک دوسرے میں پیوست ہوتے ہیں ، تاکہ مچھلی کو آفتوں اور مختلف ضرر سے بچا سکیں اور اس کے سونگھنے کی قوت کو بہت زیادہ قوی بنایا، اس لئے کہ اس کی آنکھیں ضعیف ہیں اور پانی بھی دیکھنے میں مانع ہے پس مچھلی اپنی غذا کی بو کو دور سے محسوس کرلیتی ہے اور اس کی طرف کھنچی چلی جاتی ہے اور اگر ایسا نہیں تو پھر کس طرح مچھلی اپنی غذا کو پہچانتی ہے اور اس تک پہنچ جاتی ہے ، جان لو کہ مچھلی کے منھ میں کان کے طرف ایک سوراخ ہے کہ جس کے ذریعہ مچھلی مسلسل پانی کو منھ میں بھرتی ہے اور دوسرے سوراخ کو جو اس کے کان کے دوسری طرف ہے ، پانی کو باہر پھینک دیتی ہے۔ اسی طرح مچھلی اس عمل سے وہ راحت و سکون محسوس کرتی ہے جو دوسرے جانور عمل تنفس کے ذریعہ محسوس کرتے ہیں ، اب ذرا مچھلی کی کثرت نسل پر غور کرو کہ جو اس کے لئے مخصوص ہے ، تم دیکھو گے کہ ایک مچھلی کے شکم میں اس قدر انڈے ہیں کہ جن کی تعدا بے شمار ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر حیوانات کی غذا مچھلی ہے حتیٰ درندے بھی مچھلی کے شکار کے ارادہ سے پانی کے کنارے آتے ہیں اور اس کے انتظار میں پانی میں بیٹھے رہتے ہیں کہ جیسے ہی وہاں سے مچھلی کا گذر ہوتا ہے بلافاصلہ اُس پر جھپٹ پڑتے ہیں تو بس جب

۱۱۳

درندے ، پرندے ، انسان اور مچھلی ، مچھلی کو کھاتی ہے تو اس طرح کی تدبیر کو بروئے کار لایا گیا ہے کہ مچھلی کثرت سے پائی جائے ۔اے مفضل ، اگر تم یہ چاہتے ہو کہ خالق حکیم کی وسعت حکمت اور اس کی مخلوق کے بارے میں کچھ جانو تو ان چیزوں اور حیوانات پر غور کرو کہ جو دریا میں اپنی زندگی بسر کرتے ہیں مثلاً مختلف اقسام کی مچھلیوں ۔ آبی حیوانات۔ صدف اور اس قسم کی دوسری بے شمار چیزیں اور مزید اس کے بے شمار فائدوں پر غور کرو کہ جنہیں وقتاً فوقتاً ہی جانا جاسکتا ہے جیسا کہ لال رنگ کو اس وقت دریافت کیا کہ جب ایک کتا دریا کے کنارے گھوم رہا تھا کہ اچانک اس نے ایک گھونگے کو پکڑ کر کھالیا کہ جس سے اس کا منہ لال ہوگیا اور یہ رنگ لوگوں کو دیکھنے میں اچھا لگا اور انہوں نے اسے رنگ کے لئے منتخب کرلیا اور اس قسم کے دوسرے کئی حیوانات کہ جن کی مددسے انسان مختلف چیزوں کو دریافت کرتا ہے۔

مفضل کا بیان ہے کہ یہاں وقت زوال آپہنچا ، امام ـ نماز کے لئے کھڑے ہوگئے اور آپ نے مجھ سے فرمایا کہ تم کل صبح سویرے میرے پاس آجاؤ (انشاء اللہ) جو کچھ حضرت نے مجھے عطا کیا اس پر میں بہت ہی خوشحال واپس پلٹا اور حضرت کی بے انتہا محبت پر نہایت مسرور تھا۔ اور خداوند متعال کی عطا پر اس کی حمد کر رہا تھا ، میں اس رات شاد و مسرور سوگیا۔

۱۱۴

( روز سوم )

۱۱۵

۱۱۶

مفضل کا بیان ہے کہ جب تیسرا دن ہوا میں صبح سویرے ہی اجازت لینے کے بعد امام ـ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، آپ نے مجھے بیٹھنے کو کہا تو میں بیٹھ گیا، پھر امام ـ نے ارشاد فرمایا: بے شک تمام تعریفیں خداوند متعال کے لئے ہیں کہ جس نے ہمیں اپنے تمام بندوں پر منتخب فرمایا، اور ہم سے زیادہ کسی کو عزت و شرف نہ بخشا اُس نے ہمیں اپنے علم کے لئے منتخب کیا اور اپنے حلم سے ہمیں قوت عطا کی، جو بھی ہم سے جدا ہوا جہنم اس کا گھر ہے اور جو ہم سے متمسک رہا جنت اس کا مسکن ہے۔

اے مفضل۔ تمہارے لئے انسان کی خلقت ، اس کی تدبیر ، مختلف اعتبار سے اس کے احوال ، نیز حیوان کی خلقت کے بارے میں وضاحت کر چکا ہوں اور اب میں تمہارے لئے آسمان ، سورج، چاند، ستارے ، فلک، شب وروز، سردی و گرمی، ہواؤں ، موسم، زمین ، آب وہوا،آگ، بارش پتھر، پہاڑ ، پھول ، معدن، نباتات، نخل و درخت اور جو کچھ ان میں دلائل عبرت ہیں، بیان کرتا ہوں۔

( آسمان کا رنگ بھی حکمت سے خالی نہیں )

اے مفضل۔ آسمان کے رنگ اور اس میں استعمال شدہ حسن تدبیر پر غور کرو، یہ رنگ آنکھوں کی تقویت کے لئے سب سے بہتر رنگ ہے یہاں تک کہ أطّباء بھی اُس شخص کو جس کی آنکھوں کی روشنی کم ہوجائے ۔ نصیحت کرتے ہیں کہ وہ آبی ،آسمانی مائل سیاہی کو زیادہ تر دیکھے، اور کبھی ماہرین ضعیف البصر افراد کو ایسے آبی طشت دیکھنے کی ہدایت کرتے ہیں کہ جو پانی سے پرہو، ذرا غور کرو اس بات پر کہ کس طرح خداوندمتعال نے آسمان کے رنگ کو آبی مائل سیاہ بنایا تاکہ آنکھیں آسمان کو زیادہ دیکھنے کے نقصان سے محفوظ رہیں، ہاں ، وہی چیز جس تک لوگ بہت زیادہ تحقیق و تجربہ کے بعد پہنچتے ہیں ، وہ خلقت میں پہلے ہی سے دکھائی دیتی ہے اور یہ اس حکیم کی حکمت کا کمال ہے تاکہ عبرت حاصل کرنے

۱۱۷

والے لوگ عبرت حاصل کریں ، اور ملحدین اُس میں حیران ہوکر رہ جائیں۔

خدا ،انہیں ہلاک کرے، کہ یہ لوگ کس طرف منحرف ہوتے ہیں۔

( سورج کا طلوع و غروب ہونا )

اے مفضل فکر کرو، سورج کے طلوع و غروب ہونے اور مسلسل شب وروزکے وقوع پذیر ہونے پر کہ اگر سورج نہ ہوتا ، تو دنیا کے تمام کام بگڑ کر رہ جاتے، اور انسان کی زندگی کبھی بھی خوشگوار نہ گذرتی اس لئے کہ وہ روشنی جیسی نعمت سے محروم ہوتا، روشنی کی قدر وقیمت اور اس کے فائدے اس قدر ہیں کہ جن کے بارے میں زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں، اور اب ذرا سورج کے غروب ہونے پر فکر کرو کہ اگر سورج غروب نہ ہوتا تو لوگوں کو چین وآرام اور قرار نہ ہوتا، اس لئے کہ وہ ایک ایسی چیز کی ضرورت محسوس کرتے کہ جو ان کے چین و سکون کا باعث ہو ، جس کے وسیلے سے ان کے بدن کو آرام ، حواس کو قوت، اور قوت ہاضمہ غذا کو تمام بدن میں منتشر کرسکے ، اس کے علاوہ یہ کہ اگر ہمیشہ دن ہوتا تو لوگوں کی حرص و چاہت انہیں اس بات پر مجبور کرتی کہ وہ اپنے کام کو جاری رکھیں، یہاں تک کہ ان کے بدن تھک کر چور چور ہوجاتے، اس لئے کہ بہت سے لوگ مال کے اس قدر حریص ہیں کہ اگر رات کی تاریکی ان کے کاموں میں مانع نہ ہوتی تو انہیں کبھی قرار و آرام نہ آتا، اس کے علاوہ سورج کی مسلسل گرمی کی وجہ سے زمین اس قدر گرم ہوجاتی کہ زمین پر زندگی بسر کرنے والے تمام حیوانات و نباتات ختم ہوکر رہ جاتے ، پس اس لئے خداوند متعال نے سورج میں اس طرح کی تدبیر رکھی کہ کبھی طلوع ہوتا ہے اور کبھی غروب بالکل اُس چراغ کی مانند کہ جو اہل خانہ اپنے کام وغیرہ کے لئے جلاتے ہیں اور جب وہ اپنی ضرورت کو پورا کرلیتے ہیں تو اسے بجھا دیتے ہیں، تاکہ یہ عمل اہل خانہ کے لئے آرام وسکون کا باعث ہو، خلاصہ یہ ہے کہ نور وظلمت جو ایک دوسرے کی ضد ہیں ، خداوند متعال نے انہیں کائنات کی مخلوق کے لئے فلاح و بہبود کا وسیلہ قرار دیا ہے۔

۱۱۸

( چارفصلوں کے فوائد )

اے مفضل۔ اس کے بعد سورج کی حرکت پر غور وفکر کرو کہ جس کے نتیجے میں چار فصلیں وجود میں آتی ہیں کہ جو حکمت خالق دوجہاں کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔

سردی: سردی میں درختوں کی باطنی حرارت محفوظ رہتی ہے جس سے پھلوں میں مواد پیدا ہوتا ، ہوا غلیظ ہوجاتی ہے ، بارش اور بادل وجود میں آتے ہیں ، حیوانات کے بدن قوی و محکم ہوجاتے ہیں۔

بہار: بہار میں وہ مواد جو سردی میں پھلوں کے اندر محفوظ رہ جاتا ہے اور درختوں میں پیدا ہوچکا ہوتا ہے ، اپنے اندر حرکت پیدا کرتے ہوئے ، پھول ، پھل اور پودے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، درختوں پر سبزہ چھا جاتا ہے، اور حیوانات مقاربت کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔

گرمی: اور گرمیوں میں ہوا کی شدت کی وجہ سے پھل پک جاتے ہیں، حیوانات کے بدن سے رطوبت و فضلہ دور ہوجاتا ہے ، زمین کی رطوبت خشک ہوجاتی ہے ، جس کی وجہ سے زمین عمارت، اور گھر بنانے کے لئے ہرطرح سے مناسب ہوتی ہے۔

خزاں: خزاں میں ہوا صاف، بیماریاں دور اور بدن صحیح و سالم ہوجاتے ہیں، اور خزاں میں راتیں اس قدر لمبی ہوتی ہیں کہ جن میں بہت سے کام انجام دیئے جاسکتے ہیں اور اس میں ہوا صاف ، خشک اور بے ضرر ہوتی ہے، اور اس موسم میں دوسرے اس قدر فائدے موجود ہیں کہ اگر وہ سب تمہارے لئے بیان کروں تو گفتگو کافی طولانی ہوجائے گی۔

۱۱۹

( گردشِ آفتاب )

اب ذرا فکر کرو، آفتاب کے بارہ بُرجوں میں منتقل ہونے پر جس کے سبب سال وجود میں آتے ہیں، اور اُس تدبیر پر غور کرو جو خداوند متعال نے ان کی سالانہ گرد ش میں رکھی ہے ،جس سے چار فصلیں ، سردی، بہار، گرمی، خزاں وجود میں آتی ہیں کہ جو پورے سال پر محیط ہیں ، اس کی اس طرح تدبیر کی گئی ہے کہ وہ روز اول ہی سے مشرق سے طلوع کرے اور مغرب کی سمت تابانی کرتا ہوا واپس پلٹے، اور مختلف مقامات کو اپنے نور سے بہرہ مند کرتا ہوا مغرب کی جانب سیر کو جاری رکھ کر ان مقامات پر تابانی کرے کہ جہاں اس نے روز اول تابانی نہیں کی تھی ، پس اس عمل کے نتیجے میں دنیا کا کوئی نقطہ ایسا نہیں بچتا کہ جو سورج کی روشنی اور اس کے فائدوں سے بہرہ مند نہ ہوتا ہو، اگر سورج سا ل میں کچھ مدت یا چند سال کے لئے اپنے معین شدہ نظام کے خلاف عمل کرے، تو لوگوں کا عجیب و غریب حال ہوجائے بلکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ سورج کے نہ ہونے پر لوگ زندہ رہیں کیا دنیا والے نہیں دیکھتے کہ یہ تمام کام بہت اہمیت کے حامل ہیں کہ جن میں بنی نوع انسان کا کوئی دخل نہیں ، سورج اپنے ایک معین شدہ مدار پر حرکت کرتا ہے اور کسی بھی صورت اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا، اور نہ ہی کسی بھی قسم کی مشکل اور موانع سے دوچار ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ عالم کی بھلائی اور جو کچھ اس میں ہے ، اس کی بقاء کے لئے ہے۔اس گردش میں دانے اور میوہ جات پک جاتے ہیں اور پھر دوبارہ رشد ونما شروع کرتے ہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ ایک سال آفتاب کی سیر حمل سے حمل تک کے انداز ہ کے برابر ہے، سال اور چار فصلوں کے وسیلے ہی سے زمانہ کا اندازہ لگایا جاتا ہے اور یہ وہ نظام ہے کہ جسے خدا نے ابتداء ہی میں منظم و مرتب کیا کہ اب جو بھی زمانہ آئندہ وجود میں آئے وہ اس نظام کے تحت ہو اور اسی وسیلہ سے لوگ اپنے امور طے کرتے ہیں۔ مثلاً معین شدہ زمانہ کے وسیلہ سے لوگ اپنے معاملات طے کرتے ہیں، سورج ہی کی سیر کی وجہ سے زمانہ مکمل ہوتا ہے اور وقت کا صحیح حساب و اندازہ لگایا جاتا ہے۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175