توحید مفضل

توحید مفضل22%

توحید مفضل مؤلف:
زمرہ جات: توحید
صفحے: 175

توحید مفضل
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 175 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130958 / ڈاؤنلوڈ: 6123
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

مسلمان تاریخ نویسوں کی نظر میں عبدالله بن سبا کی داستان

۱ سید رشید رضا(۱)

متاخرین میں سے سید رشید رضا نے یوں کہاہے :

” چوتھے خلیفہ علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے نام پر شیعیت ، امت محمدی میں دینی اور سیاسی اختلاف کا آغاز تھا ، پہلا شخص جس نے تشیع کے اصول گڑھے ہیں ، وہ عبد الله بن سبا نامی ایک یہودی تھا جس نے مکر و فریب کی بنا پر اسلام کا اظہار کیا تھا ۔ وہ لوگوں کو علی علیہ السلام کے بارے میں غلو کرنے کی دعوت دیتا تھا تا کہ اس طرح امت میں اختلاف اور تفرقہ پھیلا کر اسے تباہ و برباد کرے(۲)

سید رشید رضا اس داستان کو اپنی کتاب کے چھٹے صفحہ تک جاری رکھتے ہوئے اس پر اپنا خاطر خواہ حاشیہ لگایا ہے ، جب ہم اس سے اس خیالی داستان کے ثبوت اور مصادر کے بارے میں پوچھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ داستان کو نقل کرنے کے بعد یوں لکھاہے :

” اگر کوئی تاریخ ابن اثیر کی تیسری جلد کے صفحہ ۹۵ ۔ ۱۰۳ پر جنگ جمل کے واقعہ کی

____________________

۱۔ متولد ۱۳۶۵ھ

۲۔ سید رشید رضا کی الشیعہ و السنة ،ص ۶۔۴۔

۴۱

خبر کا مطالعہ کرے تو اسے بخوبی معلوم ہوگا کہ ” سبائیوں “ نے کس حد تک اختلاف اندازی کی ہے اور نہایت ذہانت اور چالاکی سے اپنی مہارت کا اظہار کیا ہے اور صلح کی راہ میں کتنی روکاوٹیں ڈالی ہیں ، اس بنا پر معلوم ہوتا ہے کہ سید رشید رضا نے اس داستان کو ” تاریخ ابن اثیر “ پر بھروسہ کرکے نقل کیا ہے ۔

۲ ابو الفدء

ابو الفداء جس نے ۷۳۲ ھ میں وفات پائی ہے ، ” المختصر “ نامی اپنی تاریخ میں چند دوسری غیر صحیح داستانوں کے ساتھ ضمیمہ کرکے اپنی کتاب کے دیباچہ میں اس داستان کے ایک حصہ کو یوں لکھا ہے :

” میں نے اس کتاب کو شیخ عز الدین علی معروف بہ ابن اثیر جزری کی تالیف ’ ’ تاریخ کامل “ سے لیا ہے اور ابن اثیر کے مطالب کو خلاصہ کے طورپرمیں نے اپنی اِس کتاب میں درج کیا ہے “

۳ ابن اثیر

ابن اثیر وفات ۶۳۰ ھ ئنے اس داستان کو ۳۰ ۔ ۳۶ ء کے حوادث کے ضمن میں مکمل طور پر نقل کیا ہے، لیکن اس بات کی طرف کسی قسم کا اشارہ نہیں کیا ہے کہ اس نے اس داستان کو کس مآخذ سے نقل کیا ہے ، صرف کتاب کے دیباجہ میں(۱)

____________________

۱۔ صفحہ ۵ ،طبع مصر ۱۳۴۸ھ ۔

۴۲

جس کا پورا نام ” الکامل فی التاریخ “ ذکر کیا ہے لکھا ہے :

” میں نے اس کتاب کے مطالب کو ابتداء میں امام ابو جعفر محمد طبری کی تالیف ” تاریخ الامم و الملوک “ سے نقل کیا ہے ، کیونکہ وہ تنہا کتاب ہے جو عام لوگوں کی نظروں میں قابل اعتماد ہے اور اگر کبھی کوئی اختلاف پیدا ہوجائے تو اس اختلاف کو دور کرنے کیلئے اس کتاب کی طرف رجوع کیا جاتا ہے ، لہذا میں نے بھی اس کتاب کی روایتوں کو کسی دخل و تصرف کے بغیر من و عن نقل کیا ہے ، فرق صرف اتنا ہے کہ اس نے اکثر واقعات کے بارے میں متعد روایتیں ذکر کی ہیں لیکن میں نے ان تمام روایتوں کے مطالب کو جمع کرکے ایک جگہ بیان کیا ہے ، نتیجہ کے طور پر جو کچھ اس نے ایک واقعہ کے بارے میں نقل کیا ہے اور اسے مختلف مآخذ کے حوالہ سے بیان کیا ہے ، میں نے اُسے ایک روایت کی شکلمیں ذکر کیا ہے “

یہاں تک کہ کہتا ہے :

” لیکن اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اختلافات کے بارے میں جو کچھ تھا اسے میں نے مذکورہ تاریخ سے من و عن نقل کرکے درج کیا ہے اور اس میں کسی قسم کا تصرف نہیں کیا ہے ، صرف مطالب کی وضاحت کی ہے یا اشخاص کے نام ذکر کئے ہیں اور یا خلاصہ کے طور پر ان کی تشریح اس طرح کی ہے کہ کسی صحابی کی بے احترامی نہ ہو“

اس لحاظ سے ابن اثیر، (جس سے ابو الفداء اور سید رشید رضا نے نقل کیا ہے)نے اس داستان کو تاریخ طبری سے نقل کیا ہے چونکہ یہ داستانیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے درمیان رونما ہوئے حوادث کی تفصیلات سے مربوط جعل کی گئی ہیں ، لہذ اابن اثیر کے کہنے کے مطابق اس نے طبری کے نقل کردہ مطالب پر کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے ۔

۴ ابن کثیر

ابن کثیر ---(وفات ۷۷۴ ھ)نے بھی اس داستان کو اپنی تاریخ ” البدایة و النہایة “ کی ساتویں جلد میں طبری سے نقل کیا ہے اور اس کتاب کے صفحہ ۱۶۷ میں لکھاہے :

سیف بن عمر نے کہا ہے کہ عثمان کے خلافمختلف پارٹیوں کی بغاوت کا سبب یہ تھا کہ ” عبدا للہ بن سبا “ نامی ایک شخص نے ظاہری طور پر اسلام لانے کے بعد مصر میں جاکر خود کچھ عقائد اور تعلیمات گڑھ کر وہاں کے لوگوں میں ان عقائد کو پھیلای“

۴۳

اس کے بعد عبداللہ بن سبا نے مربوط داستانوں کو تمام خصوصیات کے ساتھ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۲۴۶ تک نقل کرتا ہے اور اس کے بعد لکھتا ہے :

” یہ اس کا ایک خلاصہ ہے جو کچھ ابو جعفر بن جریر طبری نے نقل کیا ہے “۔

اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بھی مذکورہ داستان کو ” تاریخ طبری “ سے نقل کیا ہے ۔

۵ ابن خلدون

عبد الرحمان بن محمد بن خلدون نے بھی ” المبتداء و الخبر “ نامی اپنی تاریخ میں ابن اثیر اور ابن کثیر کے ہی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے عبداللہ بن سبا کی داستان کو قتل عثمان اور جنگ جمل کے واقعہ میں ذکر کیا ہے پھر اسی کتاب کی جلد(۲) صفحہ ۴۲۵ میں جنگ جمل کا واقعہ درج کرنے کے بعد لکھا ہے :

یہ ہے جنگ جمل کا واقعہ جسے میں نے خلاصہ کے طور پر ابو جعفر طبری کی کتاب سے نقل کیا ہے، طبری اس لحاظ سے قابل اعتماد ہے کہ وہ باوثوق ہے اور اس کی کتاب ، ابن قتیبہ اور دوسرے مؤرخین کے یہاں موجود مطالب کی نسبت صحیح و سالم ہے “

اور صفحہ نمبر ۴۵۷ پر لکھاہے :

میں نے جو کچھ اس کتاب میں اسلامی خلافت کے موضوع، مرتدوں کے بارے میں فتوحات ، جنگوں اور اس کے بعد مسلمانوں کے اتحاد و اجتماع (امام حسن اور معاویہ کے درمیان صلح) کے بارے میں درج کیا ہے ، وہ سب امام ابو جعفر طبری کی عظیم تاریخ سے خلاصہ کے طور پر نقل کیا ہے ، چونکہ یہ تاریخ دیگر تواریخ کی نسبت قابل اعتمادہے اور ا سمیں ا یسے مطالب درج کرنے سے پرہیز کیا گیا ہے جو اس امت کے بزرگوں ، اصحاب اور تابعین کی بے احترامی کا سبب بنیں “

۴۴

۶ فرید وجدی

فرید وجدی نے بھی اپنے” دائرة المعارف “ میں لغت ” عثم “ ، جنگ جمل اور حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے حالات بیان کرنے کے ضمن میں ان داستانوں میں سے بعض کا ذکر کیا ہے اور اسی کتاب کے صفحہ ۱۶۰ ، ۱۶۸ ، اور ۱۶۹ میں اشارہ کیا ہے کہ اس کا مآخذ ” تاریخ طبری “ ہے ۔

۷ بستانی

بستانی(وفات ۱۳۰۰ ھ)نے عبدا لله ابن سبا کی داستان کو ”تاریخ ابن کثیر “ سے نقل کرکے اپنے دائرة المعارف میں مادہ ” عبد اللہ “ کے تحت ذکر کیا ہے اور ” خطط مقریزی “(۱) کے بیان کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے اپنی بات تمام کی ہے ۔

۸ احمد امین

عصر حاضر کے مصنفین ، جوتاریخی حوادث کو تجزیہ و تحلیل کے طریقے سے لکھنا چاہتے ہیں اور ہر حادثہ کے سرچشمہ پر نظر رکھتے ہیں ، ان میں سے ایک احمد امین مصری ہیں ۔جنھوں نے ” فجر الاسلام “ نامی اپنی کتاب میں ایرانیوں اور اسلام پر ان کے اثر انداز ہونے کے بارے میں بحث کرتے ہوئے اس کے صفحہ نمبر ۱۰۹ سے ۱۱۱ تک ” مسلمانون پر زرتشت عقائد و افکار کے اثرات “ کے باب میں ” مزدک “ کے

____________________

۱۔ یہ احمد بن علی مقریزی وفات ۸۴۸ ھ ہے

۴۵

بارے میں بیان کیا ہے ۔ اس سلسلے میں ان کی بات کا خلاصہ حسب ذیل ہے(۱) ” مزدک کی اہم دعوت اس کا اشتراکی نظام مقصد تھا ، مزدک کہتا تھا

” لوگ مساوی طور پر دنیا میں آئے ہیں اور انھیں مساوی زندگی بسر کرنی چاہئے ، اہم ترین چیز جس میں لوگوں کو مساوات کا لحاظ رکھنا چاہئے ، دولت اور عورت ہے ، کیونکہ یہی دو چیزیں لوگوں کے درمیان دشمنی اور جنگ کا سبب بنتی ہیں ، لہذا لوگوں کو ان دو چیزوں میں ایک دوسرے کا شریک ہونا چاہئے تا کہ دشمنی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے “

وہ دولتمندوں کی دولت کو محتاجوں اور فقیروں میں تقسیم کرنا واجب جانتا تھا ، لہذا حاجتمندوں نے فرصت کو غنیمت سمجھتے ہوئے اس کے اس اعتقاد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی حمایت کی اور اس طرح وہ اس قدر قوی ہوگیا کہ کوئی اس کی مخالفت کی جرات نہیں کرسکتا تھا ، لوگوں کے گھروں پر حملہ کرکے ان کے مال و ناموس کو لوٹ لیتا تھا ، اس طرح ایسے حالات رونما ہوئے کہ نہ کوئی باپ اپنے بیٹے کو پہچان سکتا تھا اور نہ بیٹا باپ کو جانتا تھا اور نہ کسی کی دولت باقی رہی تھی “

اس کے بعد احمد امین لکھتے ہیں کہ یہ دین اسلام کے پھیلنے کے زمانے اور بنی امیہ کی خلافت کے آخری ایام تک ایران کے بعض دیہاتی باشندوں میں موجود تھا ۔

اس مطلب کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

____________________

۱۔ احمد امین سے پہلے رشید رضا نے اپنی کتاب ” الشیعہ و السنة “ میں یہی بات کہی ہے ۔

۴۶

” ہم مالی امور کے سلسلے میں ا بوذر کے نظریہ اور مزدک کے نظریہ میں شباہت پاتے ہیں ، کیونکہ طبری کہتا ہے ابوذر نے شام میں انقلاب کرکے یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ ” اے دولتمندو حاجتمندوں کی مدد و یاری کرو“ اور یہ کہتا تھا : <اَلَّذِینَ یکنزون الذهب و الفضة و لا ینفقونها فی سبیل الله فبشّرهم بعذابٍ الیم >(۱)

اس نعرہ کو اس قدر دہرایا کہ تنگدستوں نے اسے اپنا منشور قرارد یا اور مساوات کو ثروتمندوں پر واجب سمجھنے لگے ، یہاں تک کہ دولتمندوں نے تنگ آکر شکایت کی اور معاویہ نے اس ڈر سے کہ کہیں ابوذر شام کے لوگوں کو اس کے خلاف بغاوت پر نہ اکسائےں ، اسے عثمان کے پاس مدینہ بھیج دیا۔

عثمان نے ابو ذر سے پوچھا : کیوں لوگ تیری زبان درازی پر تجھ سے شکایت کرتے ہیں ؟ ابوذر نے جواب میں کہا : دولتمند سزاوار نہیں ہیں کہ وہ اپنے مال کو جمع کریں !

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مال اور دولت کے بارے میں ابوذر کا طرز تفکر مزدک کے نظریہ سے بہت نزدیک تھا یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابوذر نے نظریہ کہاں سے سیکھا تھا؟

ہم اس سوال کے جواب کو طبری کی تحریر میں پاتے ہیں جب وہ یہ کہتا ہے : ابن سوداء عبداللہ بن سبا نے ابوذر سے ملاقات کرکے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا ہے ، البتہ عبداللہ بن سبا ابود رداء اور عبادہ بن صامت(۲) کے پاس بھی گیا تھا لیکن وہ اس کے فریب میں نہیں آئے تھے ، حتی عبادة بن

____________________

۱۔ مال و دولت کو جمع کرکے راہ خدا میں خرچ نہ کرنے والو ں کو خبردار کرو کہ ان کی پیشانی اور پہلو کو داغ کرنے کیلئے اوزار آمادہ ہے ۔

۲۔یہ دونو ں پیغمبر خدا کے اصحاب ہیں ، اس کتاب کے آخر میں ان کے حالات پر روشنی ڈالی جائے گی۔

۴۷

صامت نے ابن سوداء کے گریبان پکڑ کر اسے معاویہ کے پاس لے گیا اور معاویہ سے کہا: خدا کی قسم یہ وہ شخص ہے جس نے ابوذر کو تیرے خلاف اکسایا ہے(۱)

اس کے بعد احمد امین بیان کو اس طرح جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں :

ہم جانتے ہیں کہ عبداللہ بن سبا صنعاء کا رہنے و الا ایک یہودی شخص تھا ، اس نے عثمان کے زمانے میں ظاہری طور پر اسلام قبول کیا تھا تا کہ اسلام کو نابود کردے ، اس لئے اس نے مختلف شہروں میں اپنے گمراہ کن اور مضر افکار کو پھیلادیا جن کے بارے میں بعد میں ہم اشارہ کریں گے۔

چونکہ ابن سبا نے حجاز ، بصرہ ، کوفہ ، شام اور مصر جیسے بہت سے شہروں کا سفر کیا تھا ا س لئے اس کا قوی امکان ہے کہ اس نے اس طرز تفکر کو عراق یا یمن کے مزدکیوں سے حاصل کیا ہوگا اور ابوذر نے اس سے حسن نیت رکھنے کی بنا پر اس نظریہ کو قبول کیا ہوگا“

اور حاشیہ میں لکھا ہے :

____________________

۱” تاریخ طبری کا حصہ پنجم ملاحظہ ہو “

وہ اس بحث کو جاری رکھتے ہوئے اپنی کتاب کے صفحہ ۱۱۲ میں اس طرح نتیجہ اخذ کرتے ہیں :

” مزدک و مانی وہ سرچشمہ تھے جن سے رافضیوں -(شیعوں) نے اپنے عقائد اخذ کئے ہیں ، انہوں نے علی علیہ السلام اور آل علی علیہ السلام کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ اپنے ایرانی اسلام کے اس عقیدہ سے لیا ہے جو وہ ساسانی بادشاہوں کے بارے میں رکھتے تھے ، کیونکہ وہ پادشاہوں کی پادشاہی کو ایک قسم کا خدائی حق جانتے تھے ۔

۴۸

احمد امین نے وعدہ کیا تھا کہ ” مختلف شہروں میں ان گمراہ کن اور مضر عقیدوں و و افکار کو پھیلنے کے بارے میں بعد میں اشارہ کریں گے “ وہ اس وعدہ کو پورار کرتے ہوئے اپنی کتاب کے صفحہ ۲۵۴ پر اسلامی فرقوں کے بارے میں بحث کرتے ہوئے اس طرح لکھتے ہیں :

عثمان کی خلافت کے آخری ایام میں بعض گروہ مخفی طور پر جگہ جگہ پھیل گئے اور لوگوں کو عثمان کا تختہ الٹنے، اس کی جگہ پر دوسروں کو بٹھانے کی ترغیب دلانے لگے ۔

ان فرقوں میں سے بعض فرقے علی علیہ السلام کے حق میں پروپگنڈہ کرتے تھے ، ان کے سرغنوں میں سب سے مشہور شخص عبداللہ بن سبا تھا ، جو یمن کا ایک یہودی تھا اور اس نے ظاہری طور پر اسلام قبول کیا تھا اور بصرہ ، شام و مصر کے شہروں کا دورہ کرتا تھا اور لوگوں سے کہتا تھا : ہر پیغمبر کا ایک وصی تھا اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصی، علی علیہ السلام ہیں اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وصیت پر عمل نہ کرے اور ا س کے وصی کے خلاف بغاوت کرے ؟ ابن سبا ان معروف افراد میں سے تھا جس نے لوگوں کو عثمان کے خلاف بغاوت پر اکسایا “

اس کے بعد صفحہ ۲۵۵ پر لکھتے ہیں :

” یہ اس تاریخ کا خلاصہ ہے جس کو نقل کرنے پر میں مجبور تھا ، کیونکہ مسلمانوں کے سب سے بڑے تین فرقے اسی کی بناء پر وجود میں آئے ہیں جو عبارت ہیں ، شیعہ اور “

اپنی کتاب کے ۲۶۶ ۔ ۲۷۸ پر شیعوں سے مربوط فصل میں ایسے مطالب کو واضح تر صورت میں بیان کیا ہے ۔ وہ صفحہ ۲۷۰ پر رقم طراز ہیں :

رجعت کے عقیدہ کو ابن سبا نے مذہب یہود سے لیا ہے کیونکہ وہ لوگ اس امر کے معقتد ہیں کہ الیاس پیغمبر نے آسمان کی طرف عروج کیا ہے اور وہ واپس آئیں گے اس عقیدہ نے شیعوں کو ائمہ کے غائب ہونے او رمھدی منتظر کے اعتقاد رکھنے پر مجبور کیا ہے(۱) اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۲۷۶ پر مذکورہ مقدمات کا حسب ذیل نتیجہ اخذ کرتے ہیں :’ ’ حقیقت میں تشیع ایسے لوگوں کی پناہ گاہ تھی جو اسلام کے ساتھ دشمنی اور کینہ رکھنے کی بناء پر اسے نابود کرنا چاہتے تھے ۔ جو بھی گروہ اپنے اسلام یعنی یہودی ، عیسائی اور زردشتی دین کو اسلام میں داخل کرنا چاہتا تھا ، اس نے اہل بیت پیغمبر کی دوستی

____________________

۱۔ مؤلف نے مصری عالم شیخ محمود ابوریہ کے نام لکھے گئے اپنے خط میں مھدی موعود (عج) کے بارے میں شیعو ں کے عقیدہ کے سلسلہ میں کچھ دلائل لکھے ہیں ، اس خط کا ایک حصہ مذکورہ عالم کی کتاب ” اضواء علی السنة المحمدیہ “ میں درج ہوا ہے ، طبع صور لبنا ں ۱۳۸۳ ھ ء ملاحظہ ہو۔

۴۹

کو وسیلہ قرار دیا اور اس آڑ میں جو بھی چاہا انجام دیا ، شیعوں نے رجعت کے عقیدہ کو یہودیوں سے سیکھا ہے(۱)

اور صفحہ ۲۷۷ پریوں تحریک کرتے ہیں :

ولھاوزن کا عقیدہ یہ ہے کہ تشیع ایرانیوں کے دین کی بہ نسبت ،دین یہود سے زیادہ متاثر ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ تشیع کا بانی عبداللہ بن سبا نامی ایک یہودی شخص تھا ۔“

احمد امین کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ شیعوں نے رجعت اور امامت کے عقیدہ کو عبدا للہ بن سبا سے لیاہے اور ائمہ کی عصمت اور غیبت مھدی (عج) کے عقیدہ کا سرچشمہ بھی یہی ہے اور ابوذر نے جو اشتراک کی تبلیغ کی ہے یہ تبلیغات اور تعلیمات بھی عبداللہ بن سبا سے سیکھی ہے اور ابن سبا نے بھی رجعت کے عقیدہ کو دین یہود سے لیا ہے اور اشتراکی نظریہ کو مزدک کے دین سے اخذ کیا ہے اور عبدا لله بن سبا نے یہ کام علی علیہ السلام کے حق کے مطالبہ کی آڑ میں انجام دیا ہے اور اس طرح اسلام میں شیعہ عقیدہ کو ایجاد کیا ہے ، اس طرح یہاں سے نتیجہ نکلتا ہے کہ حب اہل بیت دشمنان اسلام کے لئے وسیلہ قرار پایا ہے اور شیعیت کے روپ میں یہود وغیرہ کی تعلیمات اسلام میں داخل ہوئی ہیں !!!

احمد امین کے ان تمام مفروضوں کا منبع اور دلیل ابن سبا کے افسانے ہیں اور مآخذ تاریخ طبری ہے اس نے صرف ایک جگہ پر ولھاوزن سے نقل کیا ہے ، ہم ثابت کریں گے کہ ولھاوزن نے بھی طبری

____________________

۱۔ کتاب ” فجر اسلام “ اور ” تاریخ الاسلام السیاسی “ دنیا کی یونیورسٹیوں میں تاریخی مآخذمیں جانی جاتی ہیں یہ شیعہ تاریخ یونیورسٹیوں میں یوں پڑھا ئی جاتی ہے تو کیاصحیح تاریخ سمجھانے کا کوئی وسیلہ موجود ہے ؟

۵۰

سے نقل کیا ہے ۔

اگر چہ احمد امین نے اس افسانہ کو علمی تجزیہ و تحلیل کے طریقے پر پیش کیا ہے ، لیکن اس میں ذرہ برابر شک و شبہہ نہیں کہ شیعوں کے بارے میں ان کے بغض و کینہ نے انھیں ان مفروضوں کے سلسلہ میں کوسوں دور پھینک دیا ہے نہ کہ علمی ا ور تحقیقی روش نے

۹ حسن ابراہیم

معاصر کے مصنفین میں سے ایک اور شخص جس نے ان داستانوں کو تجزیہ و تحلیل کے ساتھ پیش کیا ہے وہ مصر کی یونیورسٹی کے شعبہ تار یخ اسلام کے استادپروفیسر ڈاکٹر حسن ابراہیم ہیں ، انھوں نے ” تاریخ الاسلام السیاسی “ نامی اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۳۴۷ پر خلافت عثمان کے آخری ایام میں مسلمانوں کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے یوں لکھا ہے :

” یہ ماحول مکمل طور پر عبد اللہ بن سبا اور اس کے پیرکاروں ،اور اس کے اثر ات قبول کر نے والوں کا تھا، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک دیرینہ صحابی ، ابوذر غفاری (جو تقوی اورپرہیزگاری میں مشہور تھے اور خود ائمہ حدیث کی عظیم شخصیتوں میں شمار ہوتے تھے)نے فتنہ کی آگ کو بھڑکادیا ، اس نے صنعا کے رہنے والے ایک شخص عبد اللہ بن سبا کے کئے گئے زبردست پروپگنڈے کے اثر میں آکر عثمان اور اس کے شام میں مقرر کردہ گورنر معاویہ کی سیاست کی مخالفت کی ، عبد اللہ بن سبا ایک یہودی تھا جس نے اسلام قبول کرکے مختلف شہروں کا دورہ کیا اس نے اپنے دورے کو حجاز سے شروعکیا اور کوفہ ، شام اور مصر تک چھان ڈالا “

۵۱

اس نے اس صفحہ کے حاشیہ پر تاریخ طبری(۱) کو اپنا مآخذ قرار دیا ہے اور کتاب کے صفحہ نمبر ۳۴۹ پر یوں لکھا ہے :

” عبداللہ بن سبا سب سے پہلا شخص ہے جس نے عثمان کے خلاف عوام میں نفرت پھیلائی اور عثمان کا تختہ الٹنے کی راہ ہموار کی “

کتاب کے حاشیہ پر تاریخ طبری کے صفحات کی طرف چار بار اشارہ کرتا ہے کہ اس خبر کو میں نے اس سے نقل کیا ہے اور اسی طرح داستان کو ص ۳۵۲ تک جاری رکھتا ہے اور بارہ دفعہ اس داستان کے تنہا مآخذ تاریخ طبری کے صفحات کی طرف اشارہ کرتا ہے اس کے باوجود کہ جنگِ جمل کے بارے میں طبری کی نقل کردہ بات کو بیان کرنے سے گریز کرتا ہے ، جبکہ ابن سبا دونوں داستانوں میں موجود ہے، اور دونوں قصے ایک ہی داستان پر مشتمل ہیں اور داستان گڑھنے والا بھی ایک ہی شخص ہے!!!

۱۰ ابن بدران

ابن بدران (وفات ۳۴۶ ھ ء) نے تاریخ ابن عساکر کا خلاصہ لکھا ہے اور اس کا نام ” تہذیب ابن عساکر “ رکھاہے اس نے اپنی اس کتاب میں اکثر روایتوں کو راوی کا نام لئے بغیر نقل کیا ہے ۔ اس

____________________

۱۔ طبری طبع یورپ حصہ اول صف ۲۸۵۹

۵۲

نے ابن سبا کے افسانے کے بعض حصوں کو نقل کیا ہے اس نے بعض جگہوں پر اس کے راوی سیف بن عرم کا نام لیا ہے اور بعض جگہوں پر راوی کا ذکر کئے بغیر افسانہ نقل کیا ہے اور بعض مواقع پر سیف کی روایتوں کو تاریخ طبری سے نقل کیا ہے چنانچہ اس سے زیادہ ا بن ابیہ کے حالات بیان کرتے ہوئے سیف کی روایتوں کو اس کی کتاب سے نقل کیا ہے(۱)

لہذا معلوم ہوتا ہے کہ سبائیوں کی داستان نقل کرنے میں اسلام کے مؤرخین کا مآخذ و مدرک ” تاریخ طبری “ تھا۔

۱۱ سعید افغانی

سعید افغانی نے ” عائشہ و السیاسة “ نامی اپنی کتاب میں ابن سبا کے افسانہ سے کچھ حصے، ” عثمان کااحتجاج “ ابن سبا مرموز اور خطرناک ہیرو ، سازش و دسیسہ کاری پر نظر “‘ کے عنوا ن کے تحت بیان کیا ہے ، اس نے اپنی کتاب کے دوسرے حصوں میں ان افسانوں کے چند اقتباسات درج کئے ہیں ۔

اس کا مآخذ ، پہلے درجہ پر تاریخ طبری ، دوسرے درجہ پر تاریخ ابن عساکر اور اس کی تہذیب اور تیسرے درجہ پر تمہید ابن ابی بکر(۱) ہے ، وہ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۵ پر طبری کے او پر اکثر اعتماد کرنے کا سبب یوں بیان کرتا ہے :۔

میں نے بیشتر اعتماد تاریخ طبری پر کیا ہے ، کیونکہ یہ کتاب دوسرے تمام مصادر سے حقیقت کے نزدیک تر اور اس کا مصنف دوسروں سے امین تر اور اس کے بعد آنے والے ہر با اعتبارر مؤرخ نے اس پر اعتماد کیا ہے ۔

میں نے اس کے الفاط میں کسی قسم کے رد و بدل کے بغیر اپنی کتاب میں درج کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے ۔

____________________

۱۔ ص ۴۳ اور ۴۵ پر تاریخ ابن عساکر ، صفحہ ۴۲ ، ۴۹، ۵۲ اور ۱۸۷ پر تہذیب ابن عساکر سے اور صفحہ ۳۴ اور ۳۵ میں تمہید سے استفادہ کیا ہے ۔

۵۳

غیر مسلم مؤرخین کی نظر میں عبدللہ بن سبا کی داستانیں

۱ فان فلوٹن

وہ ایک مستشرق ہے وہ اپنی کتاب ”السیاسة العربیة و الشیعة و الاسرائیلیات فی عهد بنی امیة “ ترجمہ ڈاکٹر حسن ابراہیم و محمد زکی ابراہیم طبع اول ، مصر ۱۹۳۴ ءء کے صفحہ ۷۹ پر شیعہ فرقہ کے بارے میں نقل کرتے ہوئے، یوں لکھتا ہے :

” امام ،سبائی ، عبداللہ بن سبا کے پیرو ، ہیں نیز ان افراد میں ہیں جو عثمان کے پورے دو ر خلافت میں علی علیہ السلام کو خلافت کےلئے سزاوار جانتے تھے “

اس نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۸۰ کے حاشیہ پر تاریخ طبری کو اپنے مآخذ و مدرک کے طور پر پیش کیا ہے ۔

۲ نکلسن

نکلسن اپنی کتا ب” تاریخ الادب العربیّ“ طبع کمبریج کے صفحہ نمبر ۲۱۵ پر لکھتا ہے :

” عبدا للہ بن سبا ،سبائیوں کے گروہ کا بانی ہے ، وہ یمن کے شہر صنعا کا باشندہ تھا ،کہا جاتا ہے کہ وہ یہودی تھا اور عثمان کے زمانے میں اسلام لایا تھا اور ایک سیاح مبلغ تھا ، مؤرخین اس کے بارے میں یوں کہتے ہیں : وہ ہمیشہ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر میں رہا کرتا تھا تا کہ مسلمانوں کو گمراہ کرکے ان میں اختلاف پیدا کرے ، سب سے پہلے وہ حجاز میں نمودار ہوا اس کے بعد بصرہ اور کوفہ اس کے بعد شام اور آخر کار مصر پہنچا ، وہ لوگوں کو رجعت کے اعتقاد کی دعوت دیتا تھا ، ابن سبا کہتا تھا : بے شک تعجب کا مقام ہے کہ کوئی شخص حضرت عیسیٰ کے پھر سے اس دنیا میں آنے کا معتقد ہو لیکن حضرت محمد کی رجعت کے بارے میں اعتقاد نہ رکھتا ہو جبکہ قرآن مجید نے اس کا واضح طور پر ذکر کیا ہے اس کے علاوہ ہزاروں پیغمبر آئے اور ان میں سے ہر ایک کا ایک وصی و جانشین تھا ، محمد کا بھی ایک وصی ہے جو علی علیہ السلام ہے ، چونکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آخری پیغمبر اور خاتم الانبیاء ہیں اس لئے علی علیہ السلام بھی آخری وصی اور ان کے جانشین ہیں “

اس نے بھی اپنا مآخذ کو تاریخ طبری کو قرار دیکر مذکورہ بیانات کے حاشیہ میں اس کی وضاحت کی ہے ۔

۵۴

۳ اسلامی دائرة المعارف لکھنے والے مستشرقین

ہو تسمن ، ولاینسنگ ، اورنلڈ ، برونسال ، ھیونک ، شادہ ، پاسیہ ، ہارٹمان اور کیب جیسے مشرق شناس استادوں کے ایک گروہ کے تصنیف کردہ اسلامی دائرة المعارف میں یہ داستان حسب ذیل درج ہوئی ہے :(۱)

____________________

۱۔ اسلامی دائرة المعارف ج۱/ ۲۹ طبع لندن

۵۵

” اگر ہم صرف طبری اورمقریزی کی بات پر اکتفا کریں تو ہمیں کہنا چاہئے کہ جن چیزوں کی طرف عبد اللہ بن سبا دعوت دیتا تھا ، ان میں رجعت محمد بھی تھی وہ کہتا تھا : ہر پیغمبر کا ایک جانشین ہے اور علی علیہ السلام محمد کے جانشین ہیں ۔ لہذا ہر مؤمن کا فرض ہے کہ اپنے کردار و گفتار سے علی علیہ السلام کے حق کی حمایت کرے “ کہا جاتا ہے کہ عبد اللہ نے اس طرز تفکر کی تبلیغ کےلئے بعض افراد کو معین کیا تھا اور خود بھی ان میں شامل تھا، وہ شوال ۱۵ ھ مطابق اپریل ۶۵۶ ءء میں مصر سے مدینہ کی طرف روانہ ہو “

ہم نے یہاں پر وہ مطلب درج کیا جسے مذکورہ دائرة المعارف نے طبری سے نقل کیا ہے چونکہ یہ حوادث مقریزی سے ۸۰۰ سال قبل رونما ہوئے ہیں ، اس لئے اس طولانی فاصلہ زمان کے پیش نظر اور اس کے علاوہ مقریزی نے مآخذکا ذکر بھی نہیں کیا ہے یا جس کتاب سے نقل کیاہے اس کا نام بھی نہیں لیا ہے اسلئے مقریزی کے نقل پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہے جبکہ طبری اس داستان کی سند کو اس کے راوی تک پہنچاتا ہے اور وہ خود بھی مقریزی سے تقریباً پانچ سو سال پہلے گذراہے، اس حالت میں یہ صحیح نہیں ہے کہ ہم مقریزی کی تحریر کو تاریخ طبری کے برابر قرار دیں اس کے باوجود ہم کتاب کے آخر میں مقریزی کی روایت پر بحث کریں گے ۔

۴ڈوایت ، ایم، ڈونالڈسن

ڈوایت ، ایم ، ڈونالڈسن ، ‘” عقیدہ الشیعہ “ نامی اپنی کتاب کے صفحہ ۵۸ پر یوں رقمطراز ہے:

” قدیم روایتین ہمیں اس امر کی طرف رہنمائی کرتی ہیں کہ علی علیہ السلام جس خلافت کا دعویٰ کرتے تھے اس کی ان کے حامیوں اور شیعوں کی نظر میں صرف سیاسی اہمیت نہیں تھی بلکہ وہ اسے ایک الہی حق سمجھتے تھے اور ان عقائد و افکار کے پھیلانے میں تاریخ اسلام کے ایک مرموز شخص کی ریشہ دوانیوں کا اہم رول تھا ۔ کیونکہ عثمان کی خلافت کے دوران عبداللہ بن سبا نامی ایک شخص پیدا ہوا جس نے وسیع تعلیمات کو پھیلانے کا اقدام کیا ، اس نے ان عقائد کو پھیلانے کیلئے اسلامی ممالک کے شہروں کا ایک طولا نی دورہ کیا ، طبری کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد اسلام کو نابود کرنا تھ“

۵۶

جیسا کہ کتاب کے صفحہ نمبر ۵۹ کے حاشیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ” عقیدہ الشیعہ “ نامی کتاب کے مصنف نے اس داستان کو براہ راست طبری سے نقل نہیں کیا ہے بلکہ اس نقل میں اس نے دو کتابوں سے بھی استفادہ کیا ہے :

۱ ۔ گذشتہ اشارہ کئے گئے مستشرقین کے دائرة المعارف کا مادہ ” عبداللہ “

۲ ۔ نیکلسن کی تالیف کردہ کتاب ” تاریخ الادب العربی “ ص ۳۱۵ ۔

جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے بھی کہا ہے کہ مذکورہ دونوں کتابوں میں جو کچھ عبداللہ بن سبا کے بارے میں لکھا گیا ہے وہ تاریخ طبری سے نقل کیا گیا ہے ۔

۵ ولھاوزن

ولھاوزں اپنی کتاب ”الدولة العربیة و سقوطها “ کے صفحہ نمبر ۵۶ اور ۵۷ پر لکھتا ہے :

” سبائیوں نے اسلام میں تبدیلی ایجاد کی ، قرآن مجید کے بر عکس اعتقاد رکھتے تھے کہ روح خدا نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسم میں حلول کیا ہے اور ان کی وفات کے بعد اس روح نے علی علیہ السلام اور آل علی علیہ السلام میں حلول کیا ہے ان کی نظر میں علی علیہ السلام ، ابو بکر اور عمر کے ہم پلہ خلیفہ نہیں تھے بلکہ وہ ان دونوں کو علی علیہ السلام کا حق غصب کرنے والے جانتے تھے اور ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اس مقدس روح نے علی علیہ السلام کے اندر حلول کیاہے “

۵۷

اس کے بعد لکھتا ہے :

” کہا جاتا ہے کہ سبائی عبداللہ بن سبا سے منسوب تھے وہ یمن کا رہنے والا ایک یہودی تھا “

ولھاوزن نے یہاں پر اپنے مآخذ کا ذکر نہیں کیا ہے ، لیکن اپنی کتاب کے ۳۹۶ سے ۳۹۹ تک مطلب کو تفصیل کے ساتھ بیان کرکے اپنے مآخذ کا بھی ذکر کیا ہے اور لکھتا ہے :

” سیف کہتا ہے : سبائی پہلے ہی دن سے شر پسند اور بد نّیت تھے ، انہوں نے عثمان کوقتل کرکے مسلمانوں کے اندر افراتفری اور جنگ کے شعلے بھڑکادیئے ان میں اکثر لوگ موالی اور غیر عرب تھے ۔

سبائی عبد اللہ بن سبا کی پیروی کرتے ہوئے اعتقاد رکھتے تھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رجعت کریں گے اور آپ اپنے اہل بیت کے بدن میں حلول کرتے ہیں چونکہ علی علیہ السلام کی اولاد جو پیغمبر کی بیٹی فاطمہ سے تھی ، نے اسلام اورعربی نسل سے منہ نہیں موڑا اور سبائیوں کو مسترد کردیا اسلئے وہ علی علیہ السلام کے دوسرے بیٹے محمد بن حنفیہ سے منسلک ہوگئے ۔

محمد کی وفات کے بعد ان کا بیٹا ابو ہاشم ---جو اپنے باپ کی طرح بے قدر تھا ---ان کا امام بنا ، ابو ہاشم نے اپنے بعد محمد بن علی عباسی کو اپنا وصی اور جانشین مقرر کیا اور یہاں سے خلافت بنی عباس میں منتقل ہوگئی ۔ سیف کی روایت کے مطابق بنی عباس کا خروج سبائیوں کے خروج کے مانند تھا ، دونوں گروہوں کی دعوت کا مرکز شہر کوفہ تھا ور ان کے پیرو ایرانی تھے اور دونوں گروہوں نے عرب مسلمانوں کے خلاف خروج کیا تھا “

یہ ان مطالب کا خلاصہ تھا جنہیں ولھاوزن نے سیف سے نقل کرتے ہوئے وضاحت کے ساتھ دوبار اس کے نام کی تکرار کی ہے ، کتاب کے مقدمہ میں جہاں پر وہ سیف کی ستائش کرتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے سیف کی روایتوں کو طبری سے نقل کیا ہے ۔

اس بناء پر ولھاوزن کا مآخذ بھی تاریخ طبری ہے اور طبری کے ہی واسطہ سے اس نے اس افسانہ کو نقل کیا ہے ۔

جیسا کہ معلوم ہوا ، ا بن سبا کا افسانہ عجیب شہرت کاحامل ہوا جیسا کہ مشاہدہ ہورہا ہے، کہ جنہوں نے بھی اس افسانہ کو نقل کیا ہے ان سب کی روایتیں بلاواسطہ یا ایک یا اس سے زیادہ واسطوں سے طبری پر ختم ہوتی ہیں ۔

۵۸

وہ لوگ جنہوں نے عبد اللہ بن سباکی داستان کو ،مآخذ کا اشارہ کئے بغیر نقل کیا ہے ۔

مؤرخین اور مصنفین کا ایک ایسا گروہ بھی ہے جنہوں نے نہ اپنی روایت کے مآخذ کو لکھا ہے اور نہ اس کتاب کا ذکر کیا ہے جس سے انہوں نے روایت نقل کی ہے ، لیکن اس کے باوجود جہاں بھی اجمالی طور پر ان کی کتابوں کے مصادر کا ذکر آتا ہے ، طبری ایسی کتابیں نظر آتی ہیں جن میں طبری سے روایت نقل کی گئی ہے ، جیسے :

۱ میر خواند:

اس نے عبداللہ بن سبا کی داستان کو اپنی کتاب ” روضة الصفا“ میں درج کیا ہے ، لیکن اس کی سند اور مآخذ کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ لیکن تحقیق و مطابقت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بھی اس داستان کو طبری سے نقل کیا ہے ۔

۲ غیاث الدین

غیاث الدین فرزند میرخواند (وفات ۹۴۰ ھ) نے اپنی کتاب ” حبیب السیر “ میں عبداللہ بن سبا کی داستان اپنے باپ کی کتاب ” روضة الصفا“ سے نقل کیا ہے لیکن اس کی سند و مآخذ کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے ۔

عبداللہ بن سبا کی داستان کے اسناد

جیسا کہ ذکر ہوا ، تاریخ طبری قدیمی ترین کتاب ہے جس میں عبداللہ بن سبا کی داستانیں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں اور ساتھ ہی اس داستان کے راوی کو بھی معین و مشخص کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد لکھی جانے والی تمام کتابوں میں ، ابن سبا کی داستان اور سبائیوں کے افسانہ کو طبری سے نقل کیا گیا ہے ۔

۵۹

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

چالاکی پر غور کرو کہ کس طرح خداوند متعال نے حیوان کو سکھائی جس میں اس کی بھلائی ہے۔

( بادل اژدھا پر موکّل کی مانند )

مفضل کا بیان ہے کہ میں نے عرض کی، اے میرے آقا و مولا اب آپ مجھے اژدھا اور بادل کے بارے میں بتائیے ، آپ ـ نے فرمایا: بادل اژدھا پر موکل کی مانند ہے کہ جہاں بھی اُسے پاتا ہے اپنی طرف کھینچتا ہے جس طرح سے مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے، لہٰذا اژدھا بادل کے ڈر سے سر زمین سے باہر نہیں نکالتا مگر یہ کہ جب سخت گرمی ہو یا پھر آسمان بادل سے خالی ہو۔

میں نے عرض کی کہ آخر بادل کو اژدھا پر کیوں کر موکل بنایاگیا ہے؟ کہ اژدھا بادل کے ہٹنے کے انتظار میں رہتا ہے اور بادل جب بھی اژدھا کو پاتا ہے اُسے اپنی طرف کھینچتا ہے؟

امام ـ نے فرمایا: ایسا اس لئے ہے تاکہ لوگ اژدھا کے ضرر سے محفوظ رہیں ، مفضل کا بیان ہے کہ میں نے عرض کی اے میرے آقا ومولا آپ نے میرے لئے وہ کچھ بیان فرمایا کہ جس سے عبرت حاصل کرنے والے لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں اب آپ میرے لئے شہد کی مکھی ، چیونٹی اور پرندوں کے بارے میں کچھ بیان فرمائیں۔

( چیونٹی کی خلقت )

آپ نے فرمایا: اے مفضل ذرا غور کرو چیونٹی کے حقیت اور اس کے اس قدر چھوٹے ہونے پر۔ کیا تم اُس کی خلقت میں کوئی نقص پاسکتے ہو کہ اسے اُس چیز کی ضرورت ہو جس میں اُس کی بھلائی ہے؟ اب ذرا بتاؤ کہ آخر یہ صحیح تقدیر و تدبیر کس کی طرف سے ہے؟ کیا یہ تدبیر کے علاوہ کوئی دوسری چیز ہوسکتی

۱۰۱

ہے کہ جو چھوٹی اور بڑی چیزوں میں یکساں طور سے مشاہدہ کی جاتی ہے۔ اے مفضل۔ غور کرو چیونٹی اور اس کے گروہ پر کہ ہ کس طرح غذا کو فراہم کرتی ہیں تم دانے اٹھانے میں ان کی جماعت کو انسان کی جماعت کی طرح پاؤگے بلکہ چیونٹی اس عمل میں انسانوں سے بھی زیادہ چست و چالاک ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ دانے کو اٹھانے اور حمل کرنے میں انسانوں کی طرح ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں ، پھر وہ دانے کو حمل کرنے کے بعد دو حصوں میں تقسیم کردیتی ہیں تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دان زمین میں اگ جائے، اور فاسد ہوجائے اور اگر کوئی رطوبت یا پانی وغیرہ اس کے سوراخ تک پہنچ جائے تو وہ دانے کو سوارخ سے باہر لے آتی ہیں اور اُس وقت تک اُسے سورج کی روشنی میں رکھتی ہیں جب تک وہ خشک ہو جائے اس کے علاہ یہ کہ چیونٹی اپنے گھر کو زمین کی سطح سے بلند بناتی ہے تاکہ کہیں ایسانہ ہو کہ وہ گرفتارِ سیلاب ہوکر غرق ہوجائے۔ یہ تمام چیزیں وہ جانور انجام دیتا ہے کہ جس کے پاس عقل و فکر کا خزانہ موجود نہیں لیکن یہ خداوند عالم کا لطف ہے کہ اس نے یہ تمام چیزیں اس کی طبیعت میں رکھیںہیں۔

( اسد الذّباب اور مکڑی کا شکار کرنا )

اے مفضل ۔ ذرا غور کرو اس چھوٹے سے جانور پر کہ جسے أسد الذباب کہتے ہیں۔ اور غور کرو اس کے اس حیلہ و چالاکی پر کہ جس کے ذریعہ یہ اپنی زندگی بسر کرتا ہے اس لئے کہ تم اسے دیکھو گے کہ جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ مکھی اُس کے پاس بیٹھی ہے تو وہ اپنے آپ کو اس طرح چھوڑدیتا ہے کہ جیسے وہ مردہ ہے کہ جو حرکت نہیں کرسکتا، یہاں تک کہ وہ جان لیتا ہے کہ مکھی مکمل طور پر اس سے غافل ہوگئی ہے تو وہ آہستہ آہستہ مکھی کی طرف حرکت شروع کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو مکھی کے اتنا نزدیک کرلیتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) مکڑی کی طرح کا ایک چھوٹا سا جانور جواکثر گھروں میں بھی دکھائی دیتا ہے۔

۱۰۲

ہے کہ اگر وہ مکھی پر جھپٹے تو وہ بآسانی اُس تک پہنچ جائے اور اسی لمحہ وہ بلا فاصلہ اُس پر جھپٹتا ہے اور اُسے پکڑ لیتا ہے، اور اُسے پکڑتے ہی اپنے آپ کو اُس میں اُلجھا دیتا ہے، اس لئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مکھی

اس کی گرفت سے فرار ہوجائے اور پھر مکھی کو اس وقت تک اس حالت میں رکھتا جب تک کہ وہ محسوس کرے کہ وہ سست و ضعیف پڑگئی ہے، پھر اُسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے کھالیتا ہے، اور اس طریقہ سے وہ اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔

اور اب ذرا مکڑی کو دیکھو کہ وہ جالے کو اس لئے بناتی ہے تاکہ مکھی کو اُس میں پھنسا کر اس کاشکار کرسکے، وہ خود ا س جالے کے اندر بیٹھ کر مکھی کے آنے کا انتظار کرتی ہے اور جیسے ہی مکھی اُس پر بیٹھتی ہے وہ فوراً اُس پر حملہ آور ہوتی ہے اور اس کا حملہ اس قدر صحیح ہوتا ہے کہ وہ سیدھی مکھی پر گرجاتی ہے اور اس طرح وہ اپنی زندگی کی مشین کو چلاتی ہے۔ اسد الذباب کا شکار کرنا، شکاری کتے کے شکار کی مانند ہے اور مکڑی کا شکار کرنا ایسا ہے جیسا کہ شکاری رسی پھینک کر شکار کرتا ہے، ذرا غور کرو اس چھوٹے اور ضعیف جانور پر کہ کس طرح اس کی طبعیت میں اس چیز کو رکھا کہ جس تک کوئی انسان بھی بغیر فن و حیلہ اور رسی کے استعمال کے بغیر نہیں پہنچ سکتا، پس کسی بھی چیز کو حقارت کے نگاہ سے مت دیکھو جبکہ تم اس سے عبرت حاصل کررہے ہو، جیسے چیونٹی اور اس قسم کے دوسرے جانور اس لئے کہ کبھی چھوٹی چیزوں کے ذریعہ بڑی نشانیوں کو ظاہر و آشکار کیا جاتا ہے، اور وہ اس لحاظ سے بڑی چیزوں سے کم نہیں جیسا کہ دینار جو سونے کا سکہ ہے جب اس کا مثقال کے ذریعہ وزن کیا جائے تو ا س کی قدر و قیمت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

(پرندے کی خلقت)

اے مفضل۔ ذرا پرندوں کے جسم اور ان کی خلقت پر غور کرو،کیونکہ ابتداء ہی سے انکی طبعیت میں پرواز کو رکھا ہے ۔ لہٰذا ان کے جسم کو ہلکا بنایا، تمام جانوروں کو چار پاؤں عطا کئے مگر انہیں دو پاؤں عطا

۱۰۳

کئے اور چار سے لے کر پانچ تک انگلیاں اور پیشاب و فضلہ کے خارج ہونے کے لئے ایک سوراخ رکھا اور پھر اس کے سینے کو اُبھرا ہوا پیدا کیا تاکہ ان کے لئے ہوا کا کاٹنا آسان ہوجائے۔ جیسا کہ کشتی بھی اسی طرز پر بنائی جاتی ہے، تاکہ پانی کو کاٹ کر آگے بڑھ سکے اور اس کے لئے دو بازو اور دم عطا کی کہ جو پروں سے ڈھکی ہوئی ہے جو اُسے بلند پرواز کرنے میں مدد دیتی ہے اور پھر اس کے جسم کو بھی پروں سے ڈھانکا تاکہ ہوا پروں میں داخل ہوکر جسم کو ہلکا بنادے، اور کیونکہ ان کے کھانے کا طریقہ یہ رکھا گیا کہ دانے اور گوشت کو بغیر چبائے نگلیں، لہٰذا انہیں دانت عطا نہ کئے گئے انہیں تیز و سخت چونچ عطا کی جس کی مدد سے وہ غذا کو اُٹھاکر جلدی سے نگل لیتے ہیں لہٰذا ان کے بدن میں اس قدر حرارت رکھی گئی جو غذا کو ان کے بدن میں پکا کر ہضم کردیتی ہے اس طرح وہ غذا کو چبا کر کھانے سے بے نیاز ہو جاتے ہیں اس مطلب کو اس بات سے سمجھا جاسکتا ہے کہ انگور کا دانہ انسان کے جسم سے ثابت باہر آجاتا ہے، لیکن پرندوں کے جسم میں ہضم جاتا ہے۔اور اس کے اثرات دیکھنے میں نہیں آتے اور پھر یہ طے پایا کہ پرندے انڈے دیں بچے نہ دیں تاکہ انہیں اڑنے میں سنگینی کا سامنا کرنا نہ پڑے اس لئے کہ اگر بچہ اس وقت تک ان کے جسم میں رہتا جب تک کہ وہ محکم ہوجائے تو مسلم طور پر اُن کا جسم وزنی ہوجاتا ، جو اُڑان میں رکاوٹ کا سبب بنتا، پس اُس نے اپنی ہر مخلوق میں وہ ہی تدبیر استعمال کی جو اس کے لئے مناسب تھی، اور کیونکہ پرندوں کے لئے یہ بات طے ہوچکی تھی کہ وہ ہوا میں پرواز کریں، لہٰذا انہیں انڈوں پر بیٹھنا سکھایا۔ ان میں سے بعض ایک ہفتہ بعض دو ہفتہ اور بعض تین ہفتے بیٹھتے ہیں، یہاں تک کہ بچہ انڈے سے باہر آجاتا ہے اور جب بچہ انڈے سے باہر آجائے تو اُس کی ماں اس وقت تک اس کے منہ میں ہوا بھرتی ہے جب تک وہ خود غذا حاصل کرنے کے قابل ہوجائے او ر پھر مسلسل اس کی تربیت میں لگی رہتی ہے اور اس کے لئے غذا فراہم کرتی ہے کہ جس سے اس کی زندگی بسر ہوتی ہے۔ آیا وہ کون ہے؟ جس نے پرندوں کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہرایا کو وہ دانوں کو چگیں اور انہیں جمع کرنے کے

۱۰۴

بعد اپنے بچوں کے لئے غذا فراہم کریں؟ کس لئے وہ مشقتوں اور مشکلوں کو برداشت کرتے ہیں ، جبکہ وہ صاحب عقل و فکر نہیں اور نہ ہی وہ اپنے بچوں سے کسی قسم کی آرزو رکھتے ہیں کہ وہ ان کی مستقبل میں عزت ،ان کے نام اور ان کی رسم و رواج کو باقی رکھنے والا ہے، یہ بات اس چیز پر دلیل ہے کہ حیوانات کو اپنے بچوں کے لئے مہربان ایک ایسے سبب کے خاطر بنایا گیا ہے کہ جسے خود حیوانات نہیں جانتے اور نہ اس بارے میں سوچتے ہیں اور وہ سبب ان کی بقاء اور دوام نسل ہے اور یہ فقط خداوند متعال کا لطف ہے کہ جس کا ذکر بلند و بالا ہے۔

( خانگی مرغی )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو مرغی کے انڈے دینے اور اپنے بچوں کی پرورش کرنے پر اگر انڈے دینے کے بعد ان کے پاس کوئی آشیانہ نہ ہو تو وہ شور وغل کرتی ہے اور غذا کھانا بھی چھوڑ دیتی ہے یہاں تک کہ اُس کا مالک یا صاحب خانہ اس کے لئے انڈوں کو جمع کرتا ہے اور وہ انڈوں کو اپنے پروں میں لے لیتی ہے تاکہ انڈوں سے چوزے باہر آجائیں ۔ آخر کیوں اس میں یہ حالت و کیفیت پیدا ہوجاتی ہے سوائے اس کے کہ اس کی نسل باقی رہے ، آخر وہ کون ہے جو اس سے دوام نسل چاہتا ہے جبکہ وہ نہ صاحب عقل ہے اور نہ صاحب فکر ، اس عمل کو غریزہ کے طور پر اس میں رکھا گیا ہے۔

( انڈے کی بناوٹ )

اے مفضل۔ ذرا غور کروانڈے کی بناوٹ اور اُس کی زردی پر کہ جو قدرے سخت ہے اور سفیدی پر جو باریک ہے اس میں سے کچھ بچے کے وجود کے لئے اور کچھ اس کی غذا کے لئے ہے ، یہاں تک کہ بچہ

۱۰۵

انڈے سے باہر آجائے ، اب ذرا غور کرو اس تدبیر پر کہ جب بچہ ایک محکم خول کے اندر ہے کہ جہاں کوئی راہ نہیں، ایسے میں اس کے لئے ضروری ہے کہ کوئی غذا ہو جو اُس کے خول سے باہر آنے تک اُس کی کفالت کرے، بالکل اس شخص کی طرح جسے کسی قید خانہ میں قید کردیا گیاہو، کہ ایسی صورت میں کوئی چیز اُس تک نہیں پہنچ سکتی ، تو اسے صرف اتنا کھانا دیا جاتا ہے کہ جب تک وہ قید خانہ سے باہر آئے، وہ کھانا اس کے لئے کافی ہو۔

( پرندوں کا حوصلہ )

اے مفضل۔ ذرا پرندے کے حوصلہ اور جو کچھ اُس کے مقدر ہوا اُس پر غور کرو، کیونکہ پرندے کی معدہ تک غذا پہنچنے کی جگہ بہت باریک ہے لہٰذا اُس میں غذا آہستہ آہستہ نفوذ کرتی ہے پس اگر وہ پرندہ دوسرا دانہ اُس وقت تک نہ چگتا جب تک کہ پہلا دانہ معدہ تک نہ پہنچ جائے، تو ایسے میں پرندہ ہرگز سیر نہ ہوتا اور بھوکا رہ جاتا لہٰذا اس طرح تدبیر کو رکھا گیا ہے کہ پرندہ شدت حرس سے جلدی جلدی دانہ چگتا ہے ، اور جو تھیلا ( پوٹا) اس کے آگے لٹکا ہوا ہے اس میں جمع کرتا رہتا ہے ، پھر وہ تھیلا(پوٹا) اُس جمع شدہ غذا کو آہستہ آہستہ معدہ کی طرف بھیجتا ہے، پرندہ کے لئے اس تھیلے میں ایک اور فائدہ بھی ہے اور وہ یہ کہ بعض پرندے اپنے بچوں کو غذا دیتے ہیں لہٰذا ایسے میں غذا کو پلٹانا آسان ہوجاتا ہے۔

( حیوانات میں اختلاف رنگ و شکل اتفاق کا نتیجہ نہیں ہے )

مفضل کا بیان ہے کہ میں نے عرض کی اے میرے آقا و مولا بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں حیوانات میں رنگ و شکل کا اختلاف ان کے مختلف حیوانات سے ملاپ کا نتیجہ ہے اور یہ سب محض

۱۰۶

اتفاق کا نتیجہ ہے امام ـ نے ارشاد فرمایا: اے مفضل، یہ تم مور ، اورمرغ کے پروں پر جو مساوی درجہ بدرجہ نقش دیکھتے ہو یہ نقش ایسے ہیں جیسا کہ قلم سے نقاشی کی گئی ہو یہ کس طرح سے مختلف جانوروں کے ملاپ اور اتفاق کا نتیجہ ہوسکتے ہیں،جب کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کی شبیہ ہیں ، اور کسی بھی قسم کا اختلاف نہیں رکھتے یہی بات اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ اگر یہ اتفاق کا نتیجہ ہوتے تو ان میں برابری نہ پائی جاتی اور وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے۔

( پرندے کے پر کی بناوٹ )

اے مفضل۔ پرندے کے پر ، پر غور کرو کہ تم اُسے اس طرح بنا ہوا پاؤ گے، جس طرح سے لباس بُنا جاتا ہے کہ بعض پروں کو بعض میں پیوست کیا ہوا ہے، جیسا کہ دھاگے کے اندر دھاگہ اور بال کے اندر بال پیوست ہوتا ہے اور پھر تم ذرا اُس کی ساخت پر تو غور کرو کہ ذرا سا کھینچنے سے کھل جاتا ہے لیکن ایسے نہیں کہ بالکل ہی اُس سے جدا ہوجائے، یہ نظام اس لئے رکھا گیا ہے تاکہ پرندوں کے پر میں ہوا داخل ہوسکے اور جب وہ اڑنا چاہتا ہو تو اسے بلند پرواز کرنے میں آسانی ہو اور تم پروں کے اندر ایک محکم و مضبوط نلی پاؤگے جس پر پروں کو بنایا گیا ہے ، تاکہ اس کی سختی محفوظ رہے، اور یہ نلی سخت ہونے کے باوجود درمیان سے خالی ہے، تاکہ وہ ہلکی رہے اور پرندے کو اُڑنے میں دشواری کا سامنا کرنا نہ پڑے۔

( بعض پرندوں کے لمبے پاؤں ہونے کی علت )

اے مفضل۔ کیا تم نے لمبے پاؤں والے پرندہ کو دیکھا ہے؟ اور کیا تم جانتے ہو کہ اس کے لمبے پاؤں میں اس پرندہ کے لئے کیا منفعت و فائدہ ہے؟ ایسا اس لئے ہے کہ یہ پرندہ ایسی جگہ زندگی بسر

۱۰۷

کرتا ہے جہاں پانی فراوانی سے پایا جا تا ہے اور وہ اُس دیدبان کی طرح ہے جو بلند مقام سے مسلسل پانی میں دیکھ رہا ہے اور جب وہ کسی ایسی چیز کو دیکھتا ہے کہ جو اس کی غذ اہے تو بہت ہی آرام سے اُس تک پہنچ جاتا ہے ۔ اگر اس کے پاؤں چھوٹے ہوتے، اور وہ اپنے شکار کی طرف حرکت کرتا تو ا س کا شکم پانی سے لگتا جس سے پانی ہلتا، اور شکار کو فرار کرنے کا موقع مل جاتا اور شکار فرار ہوجاتا ،لہٰذا اس پرندے کے لئے لمبے پاؤں خلق کئے گئے تاکہ وہ اپنی ضرورت کو پورا کرسکے اور اسے اپنی ضرورت کو پورا کرنے میں کسی بھی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے ذرا غور کرو، پرندوں کی مختلف تدابیر پر تم جس پرندے کے لمبے پاؤں اور لمبی گردن دیکھتے ہو یہ اس لئے تاکہ وہ اپنی غذا کو زمین سے اُٹھا سکیں اور اگر ان پرندوں کے پاؤں لمبے اور گردن چھوٹی ہوتی تو یہ ہرگز اپنی غذا کو زمین سے نہیں اُٹھا سکتے تھے،اور اس کی لمبی چونچ اور لمبی گردن کی وجہ سے یہ کام اُس کے لئے بالکل آسان اور ممکن ہوجاتا ہے۔

( چڑیا روزی کی تلاش میں )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو، چڑیا کس طرح سارا دن روزی کی تلاش میں رہتی ہے اور اس کے لئے اس کی روزی نہ نایاب ہوتی ہے اور نہ ہر جگہ موجود بلکہ جدوجہد کے بعد وہ اسے تلاش کرتی ہے اور بالکل اسی طرح دوسری تمام مخلوق ، بے شک پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات کہ جس نے روزی میں اس اندازہ تدبیر کو رکھا اور اُسے ہرگز چڑیا کی دسترس سے باہر قرارنہ دیا اس لئے کہ اس نے اپنی مخلق کو حاجتمند بنایا ہے اور نہ اس طرح رکھا کہ وہ ہر جگہ فراوانی سے موجود ہو اور وہ بآسانی اُس تک پہنچ جائے اگر اس طرح کی تدبیر نہ کی جاتی تو خود اس میں چڑیا کے لئے بھلائی نہ تھی، کیونکہ اگر پرندے اپنی غذا کو ایک جگہ پاتے تو وہ سب وہاں جمع ہوجاتے اور اس قدر غذا کھاتے کہ انہیں بدہضمی ہوجاتی، اور اس طرح وہ ہلاک ہوجاتے اور اسی طرح اگر انسان بھی اپنی روزی کو حاصل کرنے میں مشغول نہ رہتا تو سرکش

۱۰۸

ہوجاتا، فساد زیادہ ہوتے اور خواہشات ظاہری طور پر پھیل جاتیں۔

( رات میں باہر نکلنے والے جانوروں کی غذا )

اے مفضل۔ کیا تم جانتے ہو ان پرندوں کی غذا جو رات کو باہر نکلتے ہیں۔ مثلاً ، أُلُّو، چمگادڑ اور زہریلے جانور مثلاً، سانپ ، بچھو وغیرہ ۔ کیا ہے؟ مفضل کا بیان ہے کہ میں نے عرض کی جی نہیں۔ آپ نے فرمایا: ان جانوروں کی غذا وہ چیزیں ہیں جو رات کو فضا میں منتشر دکھائی دیتی ہیں مثلاً مچھر، تتلی ، ٹڈی، شہد کی مکھی اور اس قسم کے دوسرے حشرات ۔ اس لئے کہ یہ حشرات فضا میں ہمیشہ اور ہر وقت موجود ہیں اور کوئی جگہ ان سے خالی نہیں، اس بات کا امتحان تم اس طرح کرسکتے ہو کہ جب تم تاق میں یا گھر کے کسی بھی کونے میں چراغ جلاتے ہو تو ان میں سے اکثر چراغ کے گرد جمع ہوجاتے ہیں ۔ اب ذرا یہ بتاؤ یہ سب کہاں تھے، نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب نزدیک سے آئے ہیں ، اور اگر کوئی یہ کہے کہ یہ سب بیابان اور صحراء سے آئے ہیں تو ان کے جواب میں کہا جائے گا کہ کس طرح انہوں نے اس وقت اتنی بڑی راہ کو طے کیا اور کس طرح اتنی دور سے اُس چراغ کو دیکھا کہ جو گھر میں روشن ہے جبکہ دیوار یں گھر کا احاطہ کئے ہوئے ہیں ، پس ایسی صورت میں ان سب کا چراغ کے گرد جمع ہونا اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ حشرات ہر وقت اور ہر جگہ فضا میں منتشر ہیں اور جب اُلُّو ، چمگادڑ اوران جیسے دوسرے پرندے رات کو باہر نکلتے ہیں تو انہیں غذا کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ذرا غور کرو اُن پرندوں کی غذا جو رات کے علاوہ باہر نہیں نکلتے ، ان حشرات کے ذریعہ فراہم کی ہے تو پس اس قسم کے حیوانات کی خلقت کے راز کو جان لو کہ جن کے بارے میں بہت سے لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ان کی پیدا ئش زائد اور فضول ہے۔

۱۰۹

( چمگادڑ کی عجیب و غریب خلقت )

اے مفضل۔ چمگادڑ کی خلقت بھی عجیب و غریب ہے اس کی یہ خلقت چوپاؤں اور پرندوں سے شباہت رکھتی ہے، اس لئے کہ چمگادڑ کے دو کان (جو باہر نکلے ہوئے ہیں) دانت اور بال ہوتے ہیں اور دوسرے تمام ممالیہ جانوروں کی طرح یہ بھی ممالیہ ہے اور پیشاب کرتا ہے اور جب راہ چلتا ہے تو دو ہاتھ اور دو پاؤں کی مدد سے راہ چلتا ہے اور یہ تمام اوصاف پرندہ کے اوصاف کے برخلاف ہیں چمگادڑ ان پرندوں میں سے ہے کہ جو رات کے وقت باہر آتے ہیں، اور اپنی غذا کو ان چیزوں سے حاصل کرتے ہیں جو فضا میں منتشر ہوتی ہیں مثلاً پروانہ وغیرہ ۔

اے مفضل۔ اس کے بارے میں بعض لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ وہ غذا نہیں کھاتا بلکہ اس کی غذا ہوا ہے، حالانکہ یہ کہنا دو طرح سے غلط ہے اول یہ کہ وہ پیشاب و فضلہ کرتا ہے اور یہ عمل بغیر غذا کھائے ناممکن ہے اور دوم یہ کہ وہ دانت رکھتا ہے اگر وہ اُن دانتوں سے کوئی چیز نہیں کھاتا تو اس کے دانتوں کا ہونا بے معنی ہے، جبکہ خلقت میں کوئی چیز بھی بے معنی نہیں،یقینا اس جانور کے فائدے بہت معروف ہیں یہاں تک کہ اس کا فضلہ بہت سے کاموں اور دواؤں میں استعمال ہوتا ہے اور سب سے زیادہ نفع اس کی عجیب و غریب خلقت کا ہونا ہے کہ جو خالق دو جہاں کی قدرت پر دلالت کرتی ہے کہ وہ جس کو جس چیز میں جس طرح چاہے استعمال کرتا ہے جس میں خود اُس چیز کی مصلحت ہے۔

۱۱۰

( ابن نمرہ(۱) کی شجاعت )

اے مفضل۔ اور اب اس چھوٹے سے پرندہ کو دیکھو کہ جسے ابن نمرہ کہتے ہیں کہ جو درخت میں آشیانہ بنا کر اُس سانپ کو دیکھ رہا ہے کہ جو منہ کھولے اس کے آشیانہ کی طرف بڑھ رہا ہے تاکہ وہ ابن نمرہ اور ا س کے بچوں کو نگل لے کہ اس حالت میں یہ پرندہ بے چین وپریشان ہوتا ہے اور اپنے دفاع کے لئے کوئی راہ تلاش کرتا ہے کہ اچانک اس پرندہ کی نگاہ اُن زہر آلود کانٹوں پر پڑتی ہے کہ جنہیں حسکہ کہا جاتا ہے یہ پرندہ فوراً ان کانٹوں کو اٹھاتا ہے اور سانپ کے منھ میں دالنا شروع کردیتا ہے اور سانپ ان کانٹوں میں الجھ جاتا ہے اور دائیں اور بائیں لوٹ لگاتا ہے اور اسی حالت میں مرجاتا ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر یہ بات میں تمہیں نہ بتاتا تو کیا یہ بات تمہارے یا کسی اور کے خیال میں آسکتی تھی کہ ایک حسکہ سے اتنا بڑا فائدہ اور ایک چھوٹے سے پرندہ سے اتنے بڑے عمل کی توقع کی جاسکتی ہے اے مفضل ۔ اس واقعہ اور قسم کی دوسری چیزوں سے عبرت حاصل کرو کہ جن میں اتنے عظیم فائدے ہیں جو لوگ نہیں جاتے ، مگر یہ کہ کوئی حادثہ رونما ہوا یا انہیں کوئی بات بتائی جائے۔

( شہد کی مکھی )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو شہد کی مکھی پر کہ وہ کس طرح سے شہد کو فراہم کرنے کے لئے چھے کونے کا گھر بنانے کے لئے جمع ہوتی ہیں، اور جو کچھ تم اِس میں دیکھتے ہو یہ سب کام بہت زیادہ باریک بینی سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) مینا کی طرح کا چھوٹا سا پرندہ

۱۱۱

انجام پاتے ہیں اور اگر تم اُس کا بہت غور سے مشاہدہ کرو تو تم اس عمل کو حیرت انگیز اور نرم اور نازک پاؤ گے۔اور اگر تم اس کی بناوٹ پر نگاہ کرو تو یہ ایک بڑا کام ہے کہ جس کی قدر وقیمت لوگوں کے درمیان بہت زیادہ ہے لیکن اگر تم اس کے بنانے والے کی طرف نگاہ کرو تو اُسے جاہل اور فکر سے خالی پاؤ گے کہ وہ اپنے ہی متعلق فکر نہیں رکھتی، چہ جائیکہ وہ دو سری چیزوں کے بارے میں فکر کرے پس یہ چیز اس بات پر دلالت ہے کہ اس صنعت میں حکمت اور حسن عمل کا وجود شہد کی مکھی کا کمال نہیں بلکہ یہ کمال اس ذات کا ہے جس نے اس حیوان کو اس حالت پر پیدا کیا اور یہ کام شہد کی مکھی کو سکھایا۔

( ٹڈی کا ضعف اور قوت )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو ٹڈی کے ضعف اور قوت پر اگر تم اس کی خلقت پر غور کرو تو اسے ضعیف ترین پاؤگے لیکن اگر یہ لشکر کی صورت میں شہر کا رُخ کریں تو کوئی بھی چیز انسانوں کو ان سے نہیں بچا سکتی یہاں تک کہ اگر کوئی بادشاہ اپنی سوار و پیادہ فوج کو اس بات پر معمور کرے کہ وہ شہر کو ٹڈیوں سے محفوظ رکھے،تو وہ فوج کس بھی صورت میں اس أمر پر قابو نہیں پاسکتی تو کیا یہ بات خالق دو جہاں کی قدرت پر دلالت نہیں کہ اگر وہ ضعیف ترین مخلوق کو قوی ترین مخلوق کی طرف بھیجے تو وہ اس سے دفاع نہیں کرسکتی ، ذرا غور کرو کہ وہ کس تیزی کے ساتھ مسافرت کرتی ہیں ایسے ہی جیسے کہ سیلاب تمام بیابان، پہاڑوں اور شہر کو لپیٹ میں لے لیتا ہے اور یہ ٹڈیاں اس قدر زیادہ ہوتی ہیں کہ اپنی کثرت کی وجہ سے فضا کو تاریک اور سورج کی روشنی کو روک لیتی ہیں اگر یہ سب ہاتھ سے بنائی جاتیں تو متواتر اور ایک طویل زمانہ کے بعد بھی تمام مخلوق ان کی بناوٹ سے فارغ نہیں ہو پاتی پس اس چیز سے اس خداوند متعال کی قدرت پر استدلال کرو جسے کوئی چیز عاجز نہیں کرسکتی، اور کوئی قدرت و طاقت اس کی قدرت و طاقت سے بالاتر نہیں۔

۱۱۲

( مچھلی کی ساخت اور اس کی خلقت )

اے مفضل ، ذرا غور کرومچھلی کی خلقت ، اس کی ساخت اور اس کے ماحول سے اس کی مطابقت پر ، مچھلی بغیر ہاتھ و پاؤں کے خلق ہوئی ہے اس لئے کہ وہ راہ چلنے کی محتاج نہیں کیونکہ اُس کا مسکن پانی ہے ، مچھلی بغیر پھیپھڑوں کے خلق ہوئی ہے اس لئے کہ سانس لینے کی قدرت نہیں رکھتی اگرچہ وہ پانی کی گہرائیوں میں جاتی ہے، مچھلی کو ہاتھ اور پاؤں کے بدلے دو محکم پر عطا کئے ہیں کہ جنہیں پانی میں مارتی ہے بالکل اُسی طرح جس طرح سے ملاح چپوؤں کو کشتی کے دونوں طرف مارتا ہے ، مچھلی کے بدن کو محکم چھلکوں سے ڈھکا گیا ہے کہ جو آپس میں اس طرح پیوست ہیں جس طرح سے زرہ کے حلقے آپس میں ایک دوسرے میں پیوست ہوتے ہیں ، تاکہ مچھلی کو آفتوں اور مختلف ضرر سے بچا سکیں اور اس کے سونگھنے کی قوت کو بہت زیادہ قوی بنایا، اس لئے کہ اس کی آنکھیں ضعیف ہیں اور پانی بھی دیکھنے میں مانع ہے پس مچھلی اپنی غذا کی بو کو دور سے محسوس کرلیتی ہے اور اس کی طرف کھنچی چلی جاتی ہے اور اگر ایسا نہیں تو پھر کس طرح مچھلی اپنی غذا کو پہچانتی ہے اور اس تک پہنچ جاتی ہے ، جان لو کہ مچھلی کے منھ میں کان کے طرف ایک سوراخ ہے کہ جس کے ذریعہ مچھلی مسلسل پانی کو منھ میں بھرتی ہے اور دوسرے سوراخ کو جو اس کے کان کے دوسری طرف ہے ، پانی کو باہر پھینک دیتی ہے۔ اسی طرح مچھلی اس عمل سے وہ راحت و سکون محسوس کرتی ہے جو دوسرے جانور عمل تنفس کے ذریعہ محسوس کرتے ہیں ، اب ذرا مچھلی کی کثرت نسل پر غور کرو کہ جو اس کے لئے مخصوص ہے ، تم دیکھو گے کہ ایک مچھلی کے شکم میں اس قدر انڈے ہیں کہ جن کی تعدا بے شمار ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر حیوانات کی غذا مچھلی ہے حتیٰ درندے بھی مچھلی کے شکار کے ارادہ سے پانی کے کنارے آتے ہیں اور اس کے انتظار میں پانی میں بیٹھے رہتے ہیں کہ جیسے ہی وہاں سے مچھلی کا گذر ہوتا ہے بلافاصلہ اُس پر جھپٹ پڑتے ہیں تو بس جب

۱۱۳

درندے ، پرندے ، انسان اور مچھلی ، مچھلی کو کھاتی ہے تو اس طرح کی تدبیر کو بروئے کار لایا گیا ہے کہ مچھلی کثرت سے پائی جائے ۔اے مفضل ، اگر تم یہ چاہتے ہو کہ خالق حکیم کی وسعت حکمت اور اس کی مخلوق کے بارے میں کچھ جانو تو ان چیزوں اور حیوانات پر غور کرو کہ جو دریا میں اپنی زندگی بسر کرتے ہیں مثلاً مختلف اقسام کی مچھلیوں ۔ آبی حیوانات۔ صدف اور اس قسم کی دوسری بے شمار چیزیں اور مزید اس کے بے شمار فائدوں پر غور کرو کہ جنہیں وقتاً فوقتاً ہی جانا جاسکتا ہے جیسا کہ لال رنگ کو اس وقت دریافت کیا کہ جب ایک کتا دریا کے کنارے گھوم رہا تھا کہ اچانک اس نے ایک گھونگے کو پکڑ کر کھالیا کہ جس سے اس کا منہ لال ہوگیا اور یہ رنگ لوگوں کو دیکھنے میں اچھا لگا اور انہوں نے اسے رنگ کے لئے منتخب کرلیا اور اس قسم کے دوسرے کئی حیوانات کہ جن کی مددسے انسان مختلف چیزوں کو دریافت کرتا ہے۔

مفضل کا بیان ہے کہ یہاں وقت زوال آپہنچا ، امام ـ نماز کے لئے کھڑے ہوگئے اور آپ نے مجھ سے فرمایا کہ تم کل صبح سویرے میرے پاس آجاؤ (انشاء اللہ) جو کچھ حضرت نے مجھے عطا کیا اس پر میں بہت ہی خوشحال واپس پلٹا اور حضرت کی بے انتہا محبت پر نہایت مسرور تھا۔ اور خداوند متعال کی عطا پر اس کی حمد کر رہا تھا ، میں اس رات شاد و مسرور سوگیا۔

۱۱۴

( روز سوم )

۱۱۵

۱۱۶

مفضل کا بیان ہے کہ جب تیسرا دن ہوا میں صبح سویرے ہی اجازت لینے کے بعد امام ـ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، آپ نے مجھے بیٹھنے کو کہا تو میں بیٹھ گیا، پھر امام ـ نے ارشاد فرمایا: بے شک تمام تعریفیں خداوند متعال کے لئے ہیں کہ جس نے ہمیں اپنے تمام بندوں پر منتخب فرمایا، اور ہم سے زیادہ کسی کو عزت و شرف نہ بخشا اُس نے ہمیں اپنے علم کے لئے منتخب کیا اور اپنے حلم سے ہمیں قوت عطا کی، جو بھی ہم سے جدا ہوا جہنم اس کا گھر ہے اور جو ہم سے متمسک رہا جنت اس کا مسکن ہے۔

اے مفضل۔ تمہارے لئے انسان کی خلقت ، اس کی تدبیر ، مختلف اعتبار سے اس کے احوال ، نیز حیوان کی خلقت کے بارے میں وضاحت کر چکا ہوں اور اب میں تمہارے لئے آسمان ، سورج، چاند، ستارے ، فلک، شب وروز، سردی و گرمی، ہواؤں ، موسم، زمین ، آب وہوا،آگ، بارش پتھر، پہاڑ ، پھول ، معدن، نباتات، نخل و درخت اور جو کچھ ان میں دلائل عبرت ہیں، بیان کرتا ہوں۔

( آسمان کا رنگ بھی حکمت سے خالی نہیں )

اے مفضل۔ آسمان کے رنگ اور اس میں استعمال شدہ حسن تدبیر پر غور کرو، یہ رنگ آنکھوں کی تقویت کے لئے سب سے بہتر رنگ ہے یہاں تک کہ أطّباء بھی اُس شخص کو جس کی آنکھوں کی روشنی کم ہوجائے ۔ نصیحت کرتے ہیں کہ وہ آبی ،آسمانی مائل سیاہی کو زیادہ تر دیکھے، اور کبھی ماہرین ضعیف البصر افراد کو ایسے آبی طشت دیکھنے کی ہدایت کرتے ہیں کہ جو پانی سے پرہو، ذرا غور کرو اس بات پر کہ کس طرح خداوندمتعال نے آسمان کے رنگ کو آبی مائل سیاہ بنایا تاکہ آنکھیں آسمان کو زیادہ دیکھنے کے نقصان سے محفوظ رہیں، ہاں ، وہی چیز جس تک لوگ بہت زیادہ تحقیق و تجربہ کے بعد پہنچتے ہیں ، وہ خلقت میں پہلے ہی سے دکھائی دیتی ہے اور یہ اس حکیم کی حکمت کا کمال ہے تاکہ عبرت حاصل کرنے

۱۱۷

والے لوگ عبرت حاصل کریں ، اور ملحدین اُس میں حیران ہوکر رہ جائیں۔

خدا ،انہیں ہلاک کرے، کہ یہ لوگ کس طرف منحرف ہوتے ہیں۔

( سورج کا طلوع و غروب ہونا )

اے مفضل فکر کرو، سورج کے طلوع و غروب ہونے اور مسلسل شب وروزکے وقوع پذیر ہونے پر کہ اگر سورج نہ ہوتا ، تو دنیا کے تمام کام بگڑ کر رہ جاتے، اور انسان کی زندگی کبھی بھی خوشگوار نہ گذرتی اس لئے کہ وہ روشنی جیسی نعمت سے محروم ہوتا، روشنی کی قدر وقیمت اور اس کے فائدے اس قدر ہیں کہ جن کے بارے میں زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں، اور اب ذرا سورج کے غروب ہونے پر فکر کرو کہ اگر سورج غروب نہ ہوتا تو لوگوں کو چین وآرام اور قرار نہ ہوتا، اس لئے کہ وہ ایک ایسی چیز کی ضرورت محسوس کرتے کہ جو ان کے چین و سکون کا باعث ہو ، جس کے وسیلے سے ان کے بدن کو آرام ، حواس کو قوت، اور قوت ہاضمہ غذا کو تمام بدن میں منتشر کرسکے ، اس کے علاوہ یہ کہ اگر ہمیشہ دن ہوتا تو لوگوں کی حرص و چاہت انہیں اس بات پر مجبور کرتی کہ وہ اپنے کام کو جاری رکھیں، یہاں تک کہ ان کے بدن تھک کر چور چور ہوجاتے، اس لئے کہ بہت سے لوگ مال کے اس قدر حریص ہیں کہ اگر رات کی تاریکی ان کے کاموں میں مانع نہ ہوتی تو انہیں کبھی قرار و آرام نہ آتا، اس کے علاوہ سورج کی مسلسل گرمی کی وجہ سے زمین اس قدر گرم ہوجاتی کہ زمین پر زندگی بسر کرنے والے تمام حیوانات و نباتات ختم ہوکر رہ جاتے ، پس اس لئے خداوند متعال نے سورج میں اس طرح کی تدبیر رکھی کہ کبھی طلوع ہوتا ہے اور کبھی غروب بالکل اُس چراغ کی مانند کہ جو اہل خانہ اپنے کام وغیرہ کے لئے جلاتے ہیں اور جب وہ اپنی ضرورت کو پورا کرلیتے ہیں تو اسے بجھا دیتے ہیں، تاکہ یہ عمل اہل خانہ کے لئے آرام وسکون کا باعث ہو، خلاصہ یہ ہے کہ نور وظلمت جو ایک دوسرے کی ضد ہیں ، خداوند متعال نے انہیں کائنات کی مخلوق کے لئے فلاح و بہبود کا وسیلہ قرار دیا ہے۔

۱۱۸

( چارفصلوں کے فوائد )

اے مفضل۔ اس کے بعد سورج کی حرکت پر غور وفکر کرو کہ جس کے نتیجے میں چار فصلیں وجود میں آتی ہیں کہ جو حکمت خالق دوجہاں کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔

سردی: سردی میں درختوں کی باطنی حرارت محفوظ رہتی ہے جس سے پھلوں میں مواد پیدا ہوتا ، ہوا غلیظ ہوجاتی ہے ، بارش اور بادل وجود میں آتے ہیں ، حیوانات کے بدن قوی و محکم ہوجاتے ہیں۔

بہار: بہار میں وہ مواد جو سردی میں پھلوں کے اندر محفوظ رہ جاتا ہے اور درختوں میں پیدا ہوچکا ہوتا ہے ، اپنے اندر حرکت پیدا کرتے ہوئے ، پھول ، پھل اور پودے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، درختوں پر سبزہ چھا جاتا ہے، اور حیوانات مقاربت کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔

گرمی: اور گرمیوں میں ہوا کی شدت کی وجہ سے پھل پک جاتے ہیں، حیوانات کے بدن سے رطوبت و فضلہ دور ہوجاتا ہے ، زمین کی رطوبت خشک ہوجاتی ہے ، جس کی وجہ سے زمین عمارت، اور گھر بنانے کے لئے ہرطرح سے مناسب ہوتی ہے۔

خزاں: خزاں میں ہوا صاف، بیماریاں دور اور بدن صحیح و سالم ہوجاتے ہیں، اور خزاں میں راتیں اس قدر لمبی ہوتی ہیں کہ جن میں بہت سے کام انجام دیئے جاسکتے ہیں اور اس میں ہوا صاف ، خشک اور بے ضرر ہوتی ہے، اور اس موسم میں دوسرے اس قدر فائدے موجود ہیں کہ اگر وہ سب تمہارے لئے بیان کروں تو گفتگو کافی طولانی ہوجائے گی۔

۱۱۹

( گردشِ آفتاب )

اب ذرا فکر کرو، آفتاب کے بارہ بُرجوں میں منتقل ہونے پر جس کے سبب سال وجود میں آتے ہیں، اور اُس تدبیر پر غور کرو جو خداوند متعال نے ان کی سالانہ گرد ش میں رکھی ہے ،جس سے چار فصلیں ، سردی، بہار، گرمی، خزاں وجود میں آتی ہیں کہ جو پورے سال پر محیط ہیں ، اس کی اس طرح تدبیر کی گئی ہے کہ وہ روز اول ہی سے مشرق سے طلوع کرے اور مغرب کی سمت تابانی کرتا ہوا واپس پلٹے، اور مختلف مقامات کو اپنے نور سے بہرہ مند کرتا ہوا مغرب کی جانب سیر کو جاری رکھ کر ان مقامات پر تابانی کرے کہ جہاں اس نے روز اول تابانی نہیں کی تھی ، پس اس عمل کے نتیجے میں دنیا کا کوئی نقطہ ایسا نہیں بچتا کہ جو سورج کی روشنی اور اس کے فائدوں سے بہرہ مند نہ ہوتا ہو، اگر سورج سا ل میں کچھ مدت یا چند سال کے لئے اپنے معین شدہ نظام کے خلاف عمل کرے، تو لوگوں کا عجیب و غریب حال ہوجائے بلکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ سورج کے نہ ہونے پر لوگ زندہ رہیں کیا دنیا والے نہیں دیکھتے کہ یہ تمام کام بہت اہمیت کے حامل ہیں کہ جن میں بنی نوع انسان کا کوئی دخل نہیں ، سورج اپنے ایک معین شدہ مدار پر حرکت کرتا ہے اور کسی بھی صورت اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا، اور نہ ہی کسی بھی قسم کی مشکل اور موانع سے دوچار ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ عالم کی بھلائی اور جو کچھ اس میں ہے ، اس کی بقاء کے لئے ہے۔اس گردش میں دانے اور میوہ جات پک جاتے ہیں اور پھر دوبارہ رشد ونما شروع کرتے ہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ ایک سال آفتاب کی سیر حمل سے حمل تک کے انداز ہ کے برابر ہے، سال اور چار فصلوں کے وسیلے ہی سے زمانہ کا اندازہ لگایا جاتا ہے اور یہ وہ نظام ہے کہ جسے خدا نے ابتداء ہی میں منظم و مرتب کیا کہ اب جو بھی زمانہ آئندہ وجود میں آئے وہ اس نظام کے تحت ہو اور اسی وسیلہ سے لوگ اپنے امور طے کرتے ہیں۔ مثلاً معین شدہ زمانہ کے وسیلہ سے لوگ اپنے معاملات طے کرتے ہیں، سورج ہی کی سیر کی وجہ سے زمانہ مکمل ہوتا ہے اور وقت کا صحیح حساب و اندازہ لگایا جاتا ہے۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175