توحید مفضل

توحید مفضل33%

توحید مفضل مؤلف:
زمرہ جات: توحید
صفحے: 175

توحید مفضل
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 175 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 131249 / ڈاؤنلوڈ: 6124
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

اس کی لاش روم کے مرغزار میں پڑی تھی نہ کہ اس کے باپ کی ملکیت میں جہاں وہ چاہتا تھا۔

رومیوں کے ساتھ ہماری جنگ کا آغاز یہ تھا کہ عامر نے اس کے سر پر اپنی تلوار کی ایک ضرب سے کمر تک اسے دو ٹکڑے کرکے رکھ دیا !

ابن عساکر یہ چند شعر ذکر کرنے کے بعد نافع کے حالات کو دار قطنی اور ابن ماکولا سے سیف کے ذریعہ نقل کرکے اپنی بات تمام کرتا ہے ۔

لیکن طبری سیف سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے نافع کے اشعار سے صرف درج ذیل دو شعر نقل کرتا ہے :

ہمارے سوار فوجیوں نے سمندر جیسی زیبا اور وسیع سرزمین ''مدائن'' پر قدم رکھا....

اس کے بعد ١٦ھکے حوادث کے ضمن میں جلولا کی جنگ کے بارے میں سیف سے نقل کرتا ہے ۔سیف سے ایک روایت میں جلولا کی جنگ کے بارے میں نافع سے منسوب چار شعر کو حسب ذیل نقل کرتاہے :

'' جلولا '' کی جنگ میں ہمارے پہلوانوں نے قوی شیروں کی طرح میدان کا رزار میں حملے کئے ۔

میں ایرانیوں کو چیر پھاڑ کے قتل کرتے ہوئے آگے بڑھتا تھا ،اور کہتا تھا ،مجوسیوں کے ناپاک بدن نابود ہو جائیں ۔

اس دن جب سر تن سے جدا ہو رہے تھے ،'' فیروزان '' ہمارے چنگل سے بچ نکلا اور بھاگ گیا لیکن '' مہران '' مارا گیا۔

جب ہمارے دشمن موت کے گھاٹ اتاردئے گئے تو رات کو بیابانوں کے درندے ان کی لاشوں کے استقبال کے لئے آئے ۔

ابن کثیر نے بھی انہی مطالب کو تاریخ طبری سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

ہم نے طبری کی کتاب میں مذکورہ اشعار کے چھ قطعات کے علاوہ نافع سے مربوط کوئی اور شعر نہیں پایا ،جب کہ ابن ماکولا''نافع '' کی تشریح میں کہتا ہے :

۸۱

سیف نے کہا ہے کہ اس نے ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں کافی شہرت حاصل کی ہے اور بہت سے شعر کہے ہیں

ابن حجر کہتا ہے:

سیف نے اس سے بہت سے اشعار نقل کئے ہیں جن میں نافع نے اپنے خاندان پر ناز کیا ہے

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے اپنے افسانوی سورما کے نام پر بہت سے اشعار کہے ہیں اور طبری نے اپنی عادت کے مطابق ان اشعار کو درج کرنے سے اجتناب کیا ہے ۔

ہم نے '' نافع'' کے کافی تعداد میں کہے گئے اشعار کی جستجو کی لیکن ان میں سے تھوڑے ہی اشعار حموی اور حمیری کے ہاں دستیاب ہوئے کہ ان دو عالموں نے اپنی بات کے اقتضا کے مطابق مقامات کی تشریح کرتے ہوے شاہد کے طور پر ان سے استناد کیا ہے ۔ہم ہر ایک فتح کے بارے میں سیف سے نقل کرکے خلاصہ بیان کرنے کے بعد ان اشعار کی طرف بھی اشارہ کریں گے ۔

شاعر نافع ،ایران میں

طبری نے صراحت کے ساتھ سیف کا نام لے کر فتح '' ہمدان'' ''رے'' اور ''گرگان '' کے بارے میں اپنی تاریخ میں مفصل طور پر درج کیا ہے ہم یہاں پر اس کا خلاصہ ذکر کرتے ہیں :

خلیفہ عمر نے ہمدان اور اس کے مشرق میں واقع دیگر سر زمینوں کو خراسان تک فتح کرنے کا حکم '' نعیم بن مقرن '' کے نام جاری کیا اور اسے حکم دیا کہ ان علاقوں کو فتح کرے ۔

نعیم نے اطاعت کرتے ہوئے ''رے'' کی طرف لشکر کشی کی ،اس جنگ میں گرگان کے لوگ بادشاہ کی مدد کے لئے آئے دونوں لشکر کوہ رے کے دامن میں ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے نعیم اپنے فوجیوں کے ایک حصے کو چوری چھپے محاذ جنگ کے پیچھے بھیج چکا تھا ۔اس نے پوری طاقت کے ساتھ دشمن پر حملہ کیا ۔ایرانی چوں کہ آگے پیچھے دونوں طرف سے اسلامی فوج کی زد میں آچکے تھے اس لئے مقابلے کی تاب نہ لاتے ہوئے سخت شکست و حزیمت سے دو چار ہوئے اور بھاگ کھڑے ہوئے۔اس گیرودار میں بے شمار ایرانی کام آئے ۔

۸۲

نعیم نے فتح پانے کے بعد غنائم جنگی کا پانچویں حصہ ''اسود بن قطبہ'' کی سرپرستی میں چند دیگر معروف کوفیوں کے ہمراہ خلیفہ کی خدمت میں مدینہ روانہ کیا ۔

جب عمر کو فتح کا پیغام پہنچا خلیفہ نے حکم دیا کہ '' نعیم '' اپنے بھائی '' سوید بن مقرن '' کو ''قومس'' کی فتح پر مامور کرے۔

سوید خلیفہ کے حکم سے ایک لشکر لے کر '' قومس '' کی طرف روانہ ہوا اور اس جگہ کو کسی قسم کی مزاحمت اور خوں ریز ی کے بغیر فتح کر لیا۔

اس کے بعد طبرستان کے علاقہ پر بھی ایک فوجی معاہدے کے تحت قبضہ کیا ۔ وہا ں سے گرگان کا رخ کیا اور '' بسطام'' کے مقام پر پڑائو ڈالا اور وہیں سے بادشاہ '' رزبان صول'' کے نام خط لکھا اور اسے تسلیم و اطاعت کرنے کو کہا ''رزبان '' نے مثبت جواب دیا اور مسلمانوں کے گرگان پر حملہ نہ کرنے کی صورت میں جزیہ دے کر جنگ سے دوری اختیار کی ۔ یہ عہد نامہ ١٨ ھ کو لکھا گیا اور طرفین میں رد و بدل ہوا۔

مذکورا بالا باتیں طبری کے بیانات کا خلاصہ تھیں :

حمیری لفظ '' رے '' کی طرف اشارہ کرکے اسی داستان کو لکھتا ہے :

.....اور ابو بجید نافع بن اسود نے ''رے'' کی جنگ میں یہ اشعار کہے تھے : کیا ہماری محبوبہ کو یہ خبر ملی کہ جو گروہ ''رے '' میں ہمارے مقابلے میں جنگ کے لئے اٹھا تھا، وہ موت کا زہر کھا کر ہلاک ہوگیا؟!

وہ دو محاذوں پر پوری قدرت کے ساتھ تیز رفتار گھوڑوں پر سوار ہو کر ہمارے مقابلے میں آئے

ان کے گھوڑے یک رنگ ، یا سیاہ تھے یا سرخ ۔ ایسے گھوڑ ے تھے کہ بعض اوقات ہمارے حملوں کے مقابلے میں تاب نہ لاتے ہوئے فرار کو قرار پر ترجیح دیتے تھے ہم نے ان کو پہاڑ کے دامن میں ایک ایک کرکے یا دو دو کرکے پکڑ کر موت کے گھاٹ اتار دیا اور ان کو قتل کرکے اپنی تمنا پوری کی۔

خدا جزائے خیر دے اس گروہ کو جس نے دشمن کے سر پر انتقام کی تلوار ماری اور اجر دے انھیں جنہوں نے ایسا کام انجام دیا۔

۸۳

حموی نے بھی ''بسطام'' اور ''گرگان'' کی فتح کے بارے میں سیف کی باتوں پر استناد کرکے ''نافع بن اسود '' کا نام لیا ہے۔ مثلاً ''بسطام اور اس کی فتح کے بارے میں لکھتا ہے:

خلیفہ عمر نے حکم جاری کیا تھا کہ ''نعیم بن مقرن'' ''رے'' اور ''قومس'' کی طرف لشکر کشی کرے اور یہ لشکر کشی ١٨و١٩ھ میں واقع ہوئی ہے۔

نعیم کا ہراول دستہ اس کے بھائی ''سوید بن مقرن '' کی سرپرستی میں ''رے '' اور ''قومس'' کی طرف روانہ ہوا ۔ چونکہ ان دونوں علاقوں کے باشندوں میں لڑنے کی طاقت نہ تھی ۔ اس لئے انہوں نے صلح کی تجویز پیش کی اور سرانجام ان کے درمیان صلح نامہ لکھا گیا۔ ابو بجید نافع بن اسود نے اس سلسلے میں یہ شعر کہے ہیں :

اپنی جان کی قسم! اس میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں ہے کہ ہم میدانِ جنگ میں حاضر ہونے اور اس کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے میں دوسروں سے زیادہ سزاوار ہیں !

جب صبح سویرے جنگ کا بگل بجتا ہے تو یہ ہم خاندان تمیمی ہیں جو خوشی خوشی اس کا مثبت جواب دیتے ہیں ۔

ہم نے ''بسطام '' کی سخت اور وسیع جنگ میں دشمن کو نابود کرنے کے لئے کمر ہمت باندھی۔

اس کام میں ہم نے اپنے نیزے گھمائے اور انھیں دشمن کے خون سے رنگین کیا۔

لفظ ''گرگان'' اور ''رے'' کے سلسلہ میں حموی کی دلیل

حموی اپنی کتاب ''معجم البلدان '' میں لکھتا ہے :

جب سوید بن مقرن نے ١٨ھمیں ''بسطام '' کی فتح سے فراغت پائی تو اس نے گرگان کے بادشاہ ''زربان صول'' کے نام ایک خط لکھا اور اسے اطاعت کرنے کا حکم دیا اور خود سپاہ لے کر گرگان کی طرف روانہ ہوا۔ زربان نے صلح کی درخواست کی اور مسلمانوں کے گرگان پر حملہ نہ کرنے کی صورت میں جزیہ دینے پر آمادہ ہوا۔ سوید صلح کو قبول کرتے ہوئے گرگان میں داخل ہوا اور صلح نامہ لکھا گیا۔ ابو بجید نافع بن اسود نے اس سلسلے مین یہ شعر کہے ہیں :

۸۴

سواد نے ہمیں گرگان کی طرف بلایا، جس سے پہلے رے ہے ۔ اس کے بعد صحرا نشین گرگان کی طرف روانہ ہوئے۔

حموی شہر ''رے''کی تشریح میں لکھتا ہے کہ ابوبجید، جو لشکر میں شامل تھا''رے'' کا یوں ذکر کرتا ہے:

سواد نے ہمیں گرگان کی طرف بلایا جس کے پہلے رے ہے۔ اس کے بعد صحرا نشین اس کی طرف بڑھے ۔ ہمیں ''رے '' کی چراگاہ اور سبزہ زار جو زینت و نعمت کے سبب ہیں بہت پسند آئے۔

پوپھٹتے ان سبزوں میں عجیب رونق ہوتی ہے جو بڑے بادشاہوں کی شادیوں کی یاد

تازہ کرتی ہے.

حموی مذکورہ اشعار کو بیان کرنے کے بعد ''گرگان'' کے بارے میں تشریح کرکے اپنی بات ختم کرتا ہے.

مذکورہ مطالب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ حموی نے ''رے '' اور ''گرگان ''کی تشریح میں سیف کی باتوں اور اس کی داستانوں پر اعتماد کیا ہے ۔ اس نے ان داستانوں کی سیف سے نقل کرکے اپنی عادت کے مطابق رزمیہ اشعار کو حذف کیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ حموی نے سیف کی روایتوں سے ان ہی دلاور یوں کو ذکرکیا ہے جو فرضی ابو بجید اور جعلی کمانڈر سوید سے مربوط ہیں ، اور سوید کو ''صیغۂ تکبیر ''سے ''سواد '' نقل کیاہے ۔ اس کے بعد اسے بلاذری اور دیگر دانشوروں کی روایتوں سے ربط دیتا ہے جنہوں نے سپاہ کی قیادت کا عہدہ دار ''عروۂ طائی '' کو بتایا ہے۔

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ

بلا ذری نے ''رے ''اور ''قومس''کی فتح کے بارے میں لکھا ہے کہ خلیفہ عمر نے اپنے کارگزار عمار یاسر کو حکم دیا کہ ''عروة بن خیل طائی'' کو ''رے '' کو فتح کرنے پر مامور کرے ۔ عروہ نے ''رے'' کی طرف لشکر کشی کی اور اسے فتح کیا۔ اس کے بعد خود مدینہ چلاگیا اور اس فتح کی نوید خلیفہ کی خدمت میں پہنچائی۔

۸۵

''رے '' کی فتح کے بعد خلیفہ کے حکم سے ''سلمة الضبی'' نے سپاہ کی کمانڈ سنبھالی اور فوج کے ساتھ ''قومس'' اور اس کے اطراف کے دیگر علاقوں کی طرف لشکر کشی کی ''قومس '' کے باشندوں نے صلح کی تجویز پیش کی اور سلمہ کے ساتھ معاہدہ کیا اور پانچ لاکھ درہم جزیہ کے طور پر ادا کئے۔

بلاذری نے گرگان کی فتح کے بارے میں لکھا ہے:

خلیفہ ٔعثمان نے ٢٩ھ میں کوفہ کی حکومت پر ''سعید بن عاص اموی'' کو مقرر کیا .سعید نے گرگان کو فتح کرنے کی غرض سے اس علاقہ کی طرف فوج کشی کی اور گرگان کے بادشاہ کے ساتھ دولاکھ درہم پر صلح کی اور اس علاقے کو اپنے علاقوں میں شامل کیا .اس کے بعد سرزمین طبرستان کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا.

ہم نے یہاں پر بلاذری کے مطالب کو خلاصہ کے طور پر بیان کیا ہے۔

موازنہ کا نتیجہ

سیف نے اپنی روایت میں سرزمین رے کے فاتح کے طور پر ''نعیم بن مقرن'' کا ذکر کیا ہے اور ''قومس'' ''طبرستان'' ''بسطام'' اور ''گرگان'' کے فاتح کے طور پر اس کے بھائی ''سوید '' کا نام لیا ہے اور ان تمام فتوحات کو ١٨و١٩ھ میں انجام پانا بتاتاہے، جبکہ دوسرے معروف اور نامور مورخین نے سرزمین ''رے'' کا فاتح ''عروة بن زید خیل طائی '' کو بتایا ہے اور ''قومس '' اور اس کے اطراف کے دیگر علاقوں کو فتح کرنے والے اس کے جانشین کا نام ''سلمةالضبی'' بیان کیا ہے اور گرگان اور طبرستان کا فاتح ''سعید اموی '' کو بنایاہے خاص کر اس موخر الذکر فتح کی تاریخ خلافت ِعثمان کا زمانہ ٢٩ھ ثبت کیا ہے !!یہ سیف اور دیگر مورخین کی روایتوں میں نمایاں اختلافات کے نکات ہیں ۔

ان روایتوں کا مذکورہ سرسری جائزہ اور مختصر موازنہ انجام دینے سے یہ آسانی کے ساتھ واضح ہوجاتا ہے کہ حموی نے سیف کی روایتوں پر کس قدر اعتماد کیا ہے اور ان روایتوں اور علاقوں کی فتح کو صحیح اور معتبر جانا ہے کہ اس طرح نظم و نثر کی صورت میں سیف کی روایتوں کو قطعی سند کے طور پر اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔ یہاں پر ہم ایک بار پھر حموی کی تحریر پر غور کرتے ہیں

۸۶

برجان برگان!

حموی کی ''معجم البلدان''میں لفظ ''برجان'' کے بارے میں یوں لکھا گیا ہے:

مسلمانوں نے ''برجان '' کو عثمان کی خلافت کے دوران فتح کیا .ابوبجید تمیمی نے اس فتح کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

پہلے ہم نے گرگان پر حملہ کیا، ہمارے سوار دستوں کو میدان کا ر زار میں دیکھ کر اس کی حکومت متزلزل ہوکر سرنگوں ہوگئی۔

شام کے وقت جب ہم نے حملہ روکا، تو وہاں کے لوگ سرزمین روم اور برجان کے درمیان سراسیمہ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔

اسی کتاب میں لفظ ''رزیق '' کے بارے میں آیا ہے:

ایران کے بادشاہ کسریٰ کے بیٹے ، یزدگرد شہریار کے قتل کا واقعہ ایک پن چکی میں پیش آیا ابوبجید نافع بن اسود تمیمی نے اس سلسلے میں یوں کہا ہے:

ہم تمیمیوں نے سراسیمہ بھاگتے ہوئے یزدگرد کے شکم کو خنجر سے چاک کرکے ہلاک کردیا ۔ ''مرو'' کی جنگ میں ہم ان کے مقابلے پر آئے ۔کیا تم گمان کرتے ہو کہ وہ تیز پنجوں والے پہاڑی چیتے ہیں !

ہم نے ''رزیق'' کی جنگ میں ان کو تہس نہس کرکے ان کی ہڈیوں کو چکلنا چور کرڈالا.

سورج ڈوبنے تک ہم ان کے میمنہ اور میسرہ پر مسلسل حملے کرتے رہے

خدا کی قسم !اگر خدا کا ارادہ نہ ہوتا، تو ''رزیق'' کی جنگ میں دشمنوں میں سے ایک فرد بھی زندہ نہ بچتا۔

رزیق

طبری نے ''برجان '' کی فتح کے بارے میں جس کا حموی نے نام لیا ہے اور اسی طرح ''رزیق'' میں یزدگرد شہریار کے تمیمیوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے بارے میں سیف سے کچھ نقل نہیں کیا ہے کہ ہم اس کا مقابلہ و موازنہ کرتے ۔ مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ ساسانیوں کا آخری بادشاہ یزدگردخود ایرانیوں کے ہاتھوں ماراگیا ہے۔

۸۷

اگر طبری نے یزد گرد کے مارے جانے کے بارے میں سیف کی روایتوں کو اپنی کتاب میں در ج کیا ہوتا ، تو ہمیں پتہ چلتا کہ سیف نے آوارہ اور دربدر ہوئے ساسانی بادشاہ کے تمیمی دلاوروں کے خنجر کی ضربات سے مارے جانے کی کیسی منظر کشی کی ہے تا کہ اپنے افسانوی شاعر ابوبجید کے ذریعہ یزدگرد کے مارے جانے کے بارے میں شعر کہلوا کر قبیلہ تمیم کے افتخارات میں ایک اور افتخار کا اضافہ کرتا.

ابوبجید ، کتاب ''صفین''میں

یہاں تک بیان شدہ مطالب نافع کے بارے میں تھے، جو ہم نے ان علماء کے ہاں پائے ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ نصر بن مزاحم نے بھی جنگ صفین میں ابوبجید کا نام لیا ہے اپنی کتاب ''صفین'' کے صفحہ ٥٦٤ میں لکھتا ہے:

ابوبجید نافع بن اسود تمیمی نے جنگ صفین میں درج ذیل اشعار کہے ہیں :

میری طرف سے ''علی کو درود پہنچاؤاور ان سے کہنا : جس نے آپ کا فرمان قبول کیا ، اس نے سختیوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھالیا ہے

علی نے اسلام کے گنبد کو ویرانی کے بعد پھر سے تعمیر کیا ۔ یہ عمارت پھر سے کھڑی ہوکر پائیدار ہوگئی ہے۔

گویا اسلام کی ویر انی کے بعد ایک نیا پیغمبر آیا اور اس نے نابود شدہ طریقوں کو پھر سے زندہ کیا ۔

نصر اس داستان میں اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے:

اور جب علی جنگ صفین سے واپس آرہے تھے تو نافع نے یہ اشعار کہے:

ہم نے دمشق اور اس کے اطراف کی سرزمینوں کے کتنے بوڑھے مردوں ، عورتوں اور سفید بال والوں کو ان کی اولاد کے سوگ میں بٹھادیا!

کتنی جوان عورتیں اس جنگ صفین میں اپنے شوہروں کے قتل ہونے کے بعد ان کے نیزوں کی وارث بن کر بیوہ ہوچکی ہیں ؟!

وہ اپنے شوہروں کے سوگ میں بیٹھی ہیں ، جو انھیں قیامت تک نہیں ملیں گے ۔

ہم تمیمی ایسے جنگجوہیں کہ ہمارے نیزے دشمن کو اس طرح لگتے ہیں کہ ان کا بچنا

۸۸

مشکل ہوتا ہے۔

ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ نصر ابوبجید کے رزمیہ اشعار کہاں سے لایا ہے ؟کیا نافع کانام اور اس کے اشعار سیف کے علاوہ کسی اور کی زبان پر بھی آئے ہیں ؟

اس سلسلے میں ہم نصر بن مزاحم کی کتا ب ''صفین'' کی طرف دوبارہ رجوع کرتے ہیں اور اس کے صفحہ ٦١٢ پرا س طرح پڑھتے ہیں :

...''عمر وبن شمر'' سے متعلق گفتگو کے ضمن میں اس طرح آیا ہے:

جب علی صفین کی جنگ سے واپس ہوئے ، (تو عمرو بن شمرنے) اس طرح شعر کہے :

وکم قدر ترکنا فی دمشق و ارضھا...

کتنے بوڑھے مردوں ، عورتوں اور سفید بال والوں کو ہم نے ان کی اولاد کے سوگ میں بٹھادیا ؟!...تا آخر۔

یہاں تک کہ وہ صفحہ ٦١٣ پر لکھتا ہے:

اور سیف کی روایت میں آیا ہے کہ: ابو بجید نافع بن اسود نے اس طرح نغمہ سرائی کی ہے:

الا ابلغا عنی علیا تحیة ، فقد قبل

میرا سلام علی کو پہنچاؤ اور ان سے کہو کہ جس نے آپ کی اطاعت کی اس نے مشکلات کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھالیا ہے... تاآخر۔

یہاں پر نصر بھی اپنے مآخذ ،یعنی سیف کا کھلم کھلا نام لیتا ہے.

۸۹

لہٰذا معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے اسلام کی مشہور اور فیصلہ کن جنگوں کو بھی نہیں چھوڑا ہے اور ان جنگوں کو بھی اپنے خاندان تمیم کے افسانوی دلاوروں کے وجود سے محروم نہیں کیا ہے تا کہ اس طرح وہ ہر جنگ میں اپنے خاندان یعنی قبیلۂ تمیم کے کسی طرح افتخارات کا اضافہ کرنے کی کوشش کرے ۔ حقیقت میں سیف کے بارے میں یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ''کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں پر اس مکار لومڑی کے نقش قدم نہ پائے جائیں ''!!

اس طرح علماء اور دانشوروں نے سیف کے افسانوں اور اس کی ذہنی مخلوقات کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ بعض اوقات ان مطالب کو سیف سے نسبت دیکر مآخذ کو کھلم کھلا بیان کرتے ہیں اور بعض اوقات اپنی روایت کے راوی کانام نہیں لیتے ۔ یہی امر سبب ہوتا ہے کہ محقق ایسی روایتوں سے دوچار ہوکر پریشان ہوجاتا ہے۔ اور یہ امور تاریخی حقائق کی تلاش و تحقیق کرنے والوں کے لئے حیرت و تعجب کا سبب بنتے ہیں ، ان ہی میں ابن حجر کے وہ مطالب بھی ہیں جو اس نے اپنی کتاب ''اصابہ'' میں نافع کے حالات کے بارے میں درج کئے ہیں ۔ ملاحظہ ہو:

دار ''قطنی '' نے اپنی کتاب ''مؤلف'' میں لکھا ہے کہ ابوبجید نافع بن اسود نے عراق کی سرزمینوں کی فتح میں شرکت کی ہے اور اس سلسلے میں اس نے چند اشعار بھی کہے ہیں ، من جملہ

وہ کہتا ہے:

اگر پوچھو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ میرا خاندان ''اسید ''ہے اور میری اصل ، افتخارات کا منبع و سرچشمہ ہے

اس کے بعد ابن حجر اضافہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:

...اور سیف نے اپنی کتاب ''فتوح'' میں نافع سے بہت سے اشعار نقل کئے ہیں

۹۰

ہم اس بات کونہیں بھولے ہیں کہ سیف کی نظر میں قبیلۂ ''اسید'' جو افتخارات کا منبع اور شرافت کا معدن ہے ، حقیقیت میں وہی سیف کا خاندان یعنی قبیلۂ تمیم ہے۔

جو کچھ بیان ہوا ، اس کے پیش نظر ہم ، ادیب اور نامور عالم ''مرزبانی'' کویہ حق دیتے ہیں کہ وہ سیف کے افسانوی شاعر اور صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، نافع بن اسود کے لئے اپنی کتاب ''معجم الشعراء '' میں جگہ معین کرے اور اس کے وجود کو ایک مسلم حقیقت تصور کرے اور اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالے اور سیف نے اس سے نسبت دیکر جو اشعار لکھے ہیں ان کو اپنی کتاب میں درج کرے۔

کتاب ''معجم الشعرائ'' تالیف مرزبانی (وفات ٣٨٤ھ ) میں مؤلف کی حیات تک پانچ ہزار سے زائد عرب شعراء کی زندگی کے حالات درج ہیں ۔لیکن اس کتاب کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہمیں دستیاب ہواہے اور اس کابڑا حصہ ،مؤلف کی وفات کو ایک ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کی وجہ سے نیست ونابود ہوگیاہے۔اسی لئے اس میں نافع اور اس کے باپ ،اسود کے حالات نہیں پائے جاتے۔

لیکن ابن حجر نے ''مرزبانی ''کی کتاب سے سیف کے ان دو جعلی اصحاب کے اشعار نقل کرکے ان دو افسانوی شاعروں کے بارے میں ہمارے لئے مذکورہ کتاب میں موجود کمی کی کسی حد تک تلافی کی ہے ۔اگر چہ مذکورہ کتاب کسی کمی کے بغیر بھی ہم تک پہنچ جاتی تو وہ ہمیں اس بارے میں کسی صورت سے مدد نہ کرتی ،کیونکہ ''مرزبانی'' نے اکثرو بیشتر شعراء کے حالات کی تشریح اور ان کے اشعار مآخذ اور سند کا ذکرکئے بغیر اپنی کتاب میں درج کئے ہیں ۔یہ کہاں سے معلوم ہو کہ سیف کے تمام یا اکثر افسانوی شعراء اور ان کے اشعار حقیقی شعراء کے عنوان سے مرزبانی کی کتاب میں درج نہ ہوئے ہوں ؟!

ہم دوبارہ اصل مطلب کی طرف پلٹتے ہیں اور نافع کے بارے میں ابن حجر کی باتوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔ابن حجر نے مرزبانی کی کتاب ''معجم الشعرائ'' کا حوالہ دے کر نافع کے حالات کی تشریح میں لکھا ہے:

۹۱

مرزبانی کہتاہے :ابو بجید نے جس نے دوران جاہلیت اور اسلام دونوں زمانوں کو درک کیا ہے عبد اللہ بن منذر حلاحل تمیمی کے سوگ میں چند دردناک اشعار کہے ہیں ۔

اس عبد اللہ نے ،خالد بن ولید کے ہمراہ یمامہ کی جنگ میں شرکت کی ہے اور وہاں پر مارا گیاہے ۔اس (مرزبانی) نے عبد اللہ منذر کے سوگ میں نافع کے مرثیہ ''ماکان یعدل...'' کے مطلع سے درج کیاہے کہ میں (ابن حجر ) نے مذکورہ اشعار اسی عبداللہ منذر کی تشریح کے ذیل میں نقل کئے ہیں ۔

اس کے بعد ابن حجر اپنی کتاب ''اصابہ'' میں عبد اللہ منذر کی تشریح میں لکھتاہے :

''مرزبانی '' نے اپنی کتاب ''معجم الشعراء ''میں ذکر کیاہے کہ عبد اللہ منذر نے خالد بن ولید کے ہمراہ یمامہ کی جنگ میں شرکت کی اور اسی جگہ پر ماراگیا۔نافع بن اسود تمیمی ،جو خود اس جنگ میں موجود تھا ،نے عبد اللہ کے سوگ میں یہ اشعار کہے ہیں :

جاؤ ،خدا تمھیں ایسے جواں مرد سے دور نہ رکھے جو جنگ کی آگ بھڑکانے والا ،بذل وبخشش کرنے والا اور انجمنوں اور محفلوں والا انسان تھا !

تمام لوگوں میں اس جیسا مردنہ تھا اور جدوجہد اور بذل وبخشش میں اس کا کوئی مانند نہ تھا۔

تم (عبد اللہ )چلے گئے اور خاندان عمرو اور قبیلہ تمیم کے دوسرے خاندانوں کو تنہا چھوڑ گئے تا کہ وہ نیازمندی اور بیچارگی کے وقت فخر کے ساتھ تمھارا نام زبان پر لائیں ۔

اس شعر میں سیف کے قبیلہ تمیم کے بارے میں خاص کر اس کے اپنے خاندان بنی عمرو کے بارے میں افتخارات کا اظہار واضح طور سے مشہود ہے ۔

اسی طرح ابن حجر نے ''مرزبانی ''کی کتاب سے نقل کرکے نافع بن اسود کے حالات کی تشریح میں مندرجہ ذیل دوشعر اور درج کئے ہیں :

جنگی غنائم کی کتنی بڑی مقدار ہمارے ہاتھ آئی جب کہ ہم بلند قامت گھوڑوں پر سوار تھے۔

۹۲

کتنے بہادروں کو ہم نے تلوار کی ضرب سے موت کے گھاٹ اتاردیا اور لاش خور ، ان کی لاشوں پر اچھل کود کررہے تھے۔

''ابن حجر''،''مرزبانی'' کی تحریر اور اس کی کتاب میں درج کئے گئے اشعار پر اعتماد کرتے ہوئے عبد اللہ منذر حلاحل کو اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فہرست میں قرار دیتاہے اور اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتاہے ،جبکہ کسی بھی دوسرے تاریخی مآخذ اور عربوں کے شجرہ نسب میں اس کا نام کہیں ذکر نہیں ہواہے ۔یہ کہاں سے معلوم ہو کہ یہ عبد اللہ بھی سیف کے دوسرے افسانوی سورماؤں کی طرح اس کاجعل کردہ اور خیالی کردار نہ ہو؟

ہم نافع کے بارے میں گفتگو کا خاتمہ ابن عساکر کی اس بات سے کرتے ہیں جہاں وہ اپنی بات کے آغاز پر نافع کے بارے میں لکھتاہے :

اس شاعر نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کازمانہ درک کیا ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور

۹۳

پہنچاہے :

ہمیں ابن عساکر کی اس بات کی کوئی دلیل نہیں ملی ،صرف نافع کے اشعار کے پانچویں بند میں آیاہے :

صدر اسلام میں ایسے پیشرو تھے،جو اپنی مہاجرت میں عظمت وافتخار سے سربلند ہوکر مھاجرین کے مقام تک پہنچاہے۔

ابن عساکر کا دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ نافع نے خلیفہ عمر سے حدیث نقل کی ہے ۔

ہمیں اس سلسلے میں سیف کے جعلیات میں نافع کی زبانی عمر کی حدیث نام کی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔

روایت کی تحقیق

نصر بن مزاحم ،ابن ماکولا ،ابن عساکر اور ابن حجر جیسے علماء ودانشور ،نافع کے بارے میں اپنی بات کو بلاواسطہ سیف سے نقل کرتے ہیں اور اس سلسلے میں سیف کے کسی راوی یا راویوں کا نام نہیں لیتے اور صرف اس پر اکتفا کرتے ہیں کہ :

''سیف کہتاہے ....'' اور ان علماء نے دار قطنی سے نقل کرتے ہوئے بھی اس روش کی رعایت کی ہے۔

لیکن ابن عساکر جہاں پر فتح دمشق کے بارے میں نافع کے اشعار کو اپنی کتاب میں سیف سے نقل کرتاہے وہاں سیف کے راویوں کانام اس صورت میں لیتاہے ۔

سیف نے ''ابو عثمان '' سے اور اس نے ''خالد'' و''عبادہ'' سے یوں نقل کیاہے

اور اس طرح حدیث کے راویوں کاذکر کرتاہے ۔

ان راویوں کی تحقیق کے سلسلے میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس ابو عثمان کا سیف نے ذکر کیا ہے ، در حقیقت یہ '' یزید بن غسان '' کے لئے سیف کی جعل کردہ کنیت ہے ۔ہم نے سیف کے اسناد کی تحقیق کے دوران اسی کتاب کی پہلی جلد میں اس نام کے سلسلہ میں یہ ثابت کیا ہے کہ اس قسم کے کسی شخص کا حقیقت میں ہر گز کوئی وجود نہیں ہے اور یہ سیف کا جعلی راوی ہے ۔اس کے علاوہ '' خالد '' اور ''عبادہ'' دونوں مجہول الھویہ ہیں ۔

۹۴

تاریخ طبری میں نافع کے بارے میں سیف سے دو روایتیں نقل ہوئی ہیں جن میں چند راویوں کا نام لیا گیا ہے کہ یہ نام حدیث اور رجال کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں حقیقت میں سیف ان کا نام لے کر دوسرے موارد کی طرح یہاں پر بھی اپنے جھوٹ پر پردہ ڈالنے کے لئے ان حدیثوں کو حقیقی راویوں سے منسوب کرتا ہے ۔اور ہم بھی اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ سیف کی دروغ بافی کے گناہ کو ان راویوں کی گردن پر نہ ڈالیں ،خاص کر جب کہ سیف وہ تنہا شخص ہے جو ان راویوں پر اس قسم کی تہمتیں لگاتاہے۔

بحث کا خلاصہ

قطبہ بن مالک تمیمی عمر ی کا پوتا ابو بجید نافع بن اسود ایک افسانوی صحابی ہے جسے سیف نے ایک قوی اور مشہور شاعر کی حیثیت سے پیش کیا ہے ۔

اسے یمامہ کی جنگ میں خالد بن ولید کے ساتھ دکھایا ہے '' عبد اللہ حلاحلی تمیمی '' کے سوگوار کی حیثیت سے پیش کیا ہے دمشق اور بصری کی فتوحات میں اس کی شرکت دکھائی ہے اور ان تمام واقعات کے بارے میں اس کی زبان سے اشعار ذکر کئے ہیں ۔

اس نے قادسیہ اور مدائن کی جنگیں دیکھی ہیں اور ان سے ہر ایک کے لئے دلفریب رزمیہ اشعار لکھے ہیں ۔

رومیوں کے ساتھ جنگ کے بارے میں ایک شعلہ بار قصیدہ اور '' جلولا'' و ''رے '' کی جنگوں کے بارے میں رزمیہ اشعار بھی اس کے نام درج ہیں ۔

سیف کی روایتوں کے مطابق گرگان ،گیلان اور برجان کی جنگوں کے بارے میں بھی اس نے زیبا اشعار کہے ہیں اور اپنے قبیلہ تمیم کے بارے میں دلاوریوں اور افتخارات کے قصیدہ لکھے ہیں ؛

۹۵

نافع کے افسانہ کا سر چشمہ

ان تمام افسانوں کا سر چشمہ سیف کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے لیکن ان افسانوں کی اشاعت اور پھیلائو میں درج ذیل دانشوروں اور علماء نے اپنی اپنی نوبت کے مطابق ابو بجید نافع بن اسود کی داستان کو بلا واسطہ یا با واسطہ سیف سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

١)۔ نصر بن مزاحم ( وفات ٢١٢ھ )

٢)۔ دار قطنی ( وفات ٣٨٥ھ )

٣)۔ ابن ماکولا ( وفات ٤٧٥ھ )

ان تینوں علماء نے صراحت سے کہا ہے کہ نافع کی داستان انھوں نے سیف سے نقل کی ہے

٤)۔ ابن عساکر (وفات ٥٧١ھ) اس نے اپنے مطالب کو سیف اور ابن ماکولا سے نقل کیا ہے

٥)۔ طبری ( وفات ٣١٠ھ ) اس نے سیف سے مطالب نقل کرکے ان کے اسناد کا بھی ذکر کیا ہے.

٦)۔ ابن اثیر (وفات ٦٣٠ھ )

٧)۔ ابن کثیر (وفات ٧٧٤ھ)

٨)۔ ابن خلدون (وفات ٨٠٨ھ)

ان تین دانشوروں نے بھی نافع کی داستان کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

٩)۔ مرزبانی (وفات ٣٨٤ھ)

١٠)۔ یاقوت حموی ( وفات ٦٢٦ھ)

١١)۔ حمیری (وفات ٩٢٠ھ)

نافع کے بارے میں جن مطالب کو با واسطہ یا بلا واسطہ مذکورہ بالا دانشوروں نے نقل کیا ہے مؤخرالذکر تین علماء نے بھی اپنی روایت کے مآخذ کی طرف اشارہ کئے بغیر ان ہی مطالب کو اپنی کتابوں میں نقل اور درج کیا ہے ۔

۹۶

نافع کے بارے میں سیف کے افسانوں کے نتائج

سیف نے مالک تمیمی کے پوتے بو بجید نافع بن اسود کو اپنے خیال میں خاندان بنی عمرو تمیم سے خلق کیا ہے ،اسے ایک شریف ،شاعر اور ایک صحابی کی حیثیت سے ذکر کرکے خاندان تمیم کے لئے فخر و مباہا ت اور سربلندی کا سبب قرار دیا ہے ۔

اسے بالکل اسی طرح امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے وفادار اور ثابت قدم صحابیوں میں شمار کیا ہے ۔ جیسے اس سے پہلے اس کے قبیلے کے بھائی قعقاع بن عمرو کو وقت کے نامور سورما اور دلاور کے طور پر خلق کرکے حضرت علی علیہ السلام کے دوستدارکی حیثیت سے ذکر کیا تھا ۔چوں کہ ہم نے حدیث اور رجال کی کتابوں کے علاوہ دیگر مأخذ میں کافی جستجو اور تحقیق کے باوجود ان افسانوی باپ بیٹے کا سیف کی احادیث کے علاوہ کہیں نام و نشاں نہیں پایا ۔ اس لئے ان کو سیف کے جعلی اور افسانوی اشخاص میں شمار کرتے ہیں ۔

سیف جو اپنے قبیلے اور خاندان کے افتخارات کے علاوہ کسی اور چیز کی فکر نہیں کرتا ،اپنے افسانوی شاعر کے ذریعہ اپنے قبیلہ تمیم بالاخص خاندان ''اسید'' وبنی عمرو کے بارے میں ستائشوں کے دلخواہ قصیدے لکھواکر ان کو سر بلندی اور شہرت بخشتاہے اور نافع کے باپ ''اسود بن قطبہ'' کی زبان پر جاری کرائے گئے اشعار میں بھی انہی مقاصد کی پیروی کرتاہے ۔

غور کیجئے کہ ،وہ کس طرح اپنے خاندان کے حق میں داد سخن دیتے ہوئے خود ستائی کرتاہے ، ملاحظہ ہو:

حجاز کے تمام منصفوں نے اس کی گواہی دی اور اعتراف کیا ہے کہ خاندان تمیم دنیا کے عظیم بادشاہوں کے برابر ہے!

یہ تلاش کوششیں ،خاندان تمیم کی سخاوت وبخشش کا نتیجہ ہے نہ کہ سست اور کمزور اشخاص کا۔

خدائے تعالیٰ نے ایسا ارادہ کیاہے کہ صرف قبیلہ تمیم کے خاندان بنی عمرو کے افراد دشمنوں کے حملوں کا مقابلہ کرکے انھیں دور کریں ۔

۹۷

قبائل تمیم کے تمام افراد بخوبی جانتے ہیں کہ میدان جنگ میں حاضری اور غنائم کو حاصل کرنے میں قیادت وسرپرستی کی باگ ڈور قدیم زمانے سے قبیلہ اسید کے خاندان بنی عمرو ہی کے ہاتھوں میں تھی۔

یہ اور ان سے کہیں زیادہ اشعار کو سیف نے ان دو شاعر باپ بیٹوں کی زبان پر جاری کیاہے ۔اور ان کے ذریعہ قبیلہ تمیم اور اسید کے خاندان بنی عمرو کی اسی طرح ستائش کی ہے جیسے اس سے پہلے اس نے خاندان تمیم کے اپنے دو بے مثال افسانوی سورما،''قعقاع''و''عاصم'' کی جنگوں میں ان کی تعجب خیز شجاعتوں اور دلاوریوں کو دکھاکر مالک تمیمی کے خاندان کو قبیلہ تمیم کے تمام افتخارات کا سرچشمہ ثابت کیاتھا اسے اپنے قبیلے کا چمکتا ستارہ بناکر پیش کیاتھا۔

اس قابل فخر خاندان تمیم کے افراد کا جس طرح سیف نے تصورکیا ہے ،اس کا اندازہ اس کے مندرجہ ذیل شجرہ نسب کے خاکہ سے کیا جاسکتاہے :

مالک تمیمی

عمرو

قطبہ

قعقاع

عاصم

اسود

اعور

عمرو

نافع

۹۸

سیف نے اپنے اسی خیالی خاندان میں چار اصحاب وجنگی سردار ،دو تابعین،چھ رزمیہ شعراء اور احادیث کے راوی جعل کئے ہیں ۔

اس قبیلہ کے لئے سیف کے جعل کئے گئے مذکورہ فخرومباہات کے علاوہ اس نے خاندان تمیم سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے چند منہ بولے بیٹے بھی خلق کرکے اس خاندان کے افتخارات میں چارچاند لگائے ہیں کہ انشاء اللہ ہم اس موضوع پر الگ سے بحث وتحقیق کریں گے۔

قارئین محترم سے گذارش ہے کہ تاریخ ،حدیث ،انساب ،ادبیات،طبقات صحابی،شعرائ، رجال اوراخبار واحادیث کی کتابوں کا خود بھی مطالعہ کرکے دیکھیں کہ کیا سیف کی احادیث اور اس کے افسانوں کے علاوہ بھی کہیں اس افسانوی خاندان کا نام ونشان ملتاہے ؟!

۹۹

چوتھا حصہ : قبیلہ تمیم کے چند اصحاب

* ٦۔عفیف بن منذر تمیمی

* ٧۔زیاد بن حنظلہ تمیمی

* ٨۔حرملہ بن مریطہ تمیمی

* ٩۔حرملہ بن سلمی تمیمی

* ١٠۔ربیع بن مطر بن ثلج تمیمی

* ١١۔ربعی بن افکل تمیمی

* ١٢۔اط بن ابی اط تمیمی

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

( تابش آفتاب )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو سورج کی تابانی پر کہ کیسی تدبیر اس میں کار فرما ہے کہ اگر وہ آسمان کے ایک نقطہ پر ظاہر ہوتا اور وہیں رک جاتا، اور ذرہ برابر اپنی جگہ سے حرکت نہ کرتا تو ہرگز اس کی شعاعیں اور اس کے دوسرے فوائد تمام نقاط پر ظاہر نہ ہوتے، اس لئے کہ پہاڑ اور دیواریں اس کے درمیان حائل ہوجاتی۔

( چاند میں نمایاں دلیلیں خداوندتعالیٰ پر دلالت کرتی ہیں )

اے مفضل۔ ذرا چاند پر غور کرو اُس میں ایسی نمایاں دلیلیں موجود ہیں جو خداوند متعال پر دلالت کرتی ہیں ، چاند میں لوگوں کے لئے ایک بہت عظیم رہنمائی پوشیدہ ہے جس کے وسیلے سے لوگ سال کے قمری مہینوں کو پہچانتے ہیں ، چاند کے وسیلے سے سال شمسی کو نہیں پہچانا جاسکتا اس لئے کہ اس کی گردش چار گانہ فصلوں سے مطابقت نہیں رکھتی، اور نہ ہی پھلوںں کی نشوونما، انہیں کاٹنے یا اتارنے کی مدت تکمیل ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ سال قمری ، سال شمسی سے مختلف ہوتا ہے، اور سال قمری کے مہینے آگے پیچھے ہوجاتے ہیں کہ ایک دفعہ گرمیوں میں دوسری دفعہ سردیوں میں ، اب ذرا رات کے وقت اس کی روشنی اور اس کے فوائد پر غور کرو کہ انسان و حیوان کے آرام اور ہوا کے سرد ہوجانے کے باوجود ان کے لئے ہرگز یہ بات سود مند نہ ہوتی کہ رات بالکل تاریک اور اندھیری ہو، اور روشنی کا کہیں نام و نشان نہ ہو، کیونکہ ایسے میں وہ کوئی کام انجام نہیں دے سکتے تھے جب کہ بہت سے لوگ رات کو کام کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ، کیونکہ وہ ان کاموں کو دن کی تنگی یا شدت گرمی کی وجہ سے انجام نہیں دے سکتے، لہٰذا وہ رات میں چاند کی روشنی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض کاموں ،مثلاً،

۱۲۱

ذراعت، اینٹوں کا قالب میں رکھنا، درخت کاٹنا، وغیرہ کو انجام دیتے ہیں گویا چاند کی روشنی لوگوں کے لئے اُس وقت مددگار ثابت ہوتی ہے کہ جب وہ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ، اور چاند کی روشنی سے رات کے مسافر بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور چاند میں اس طرح کی تدبیر رکھی کہ وہ بعض راتوں میں ظاہر اور بعض میں غائب ہو، اس کی روشنی کو سورج کی روشنی سے کم رکھا گیا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو تمام لوگ اس کی روشنی سے استفادہ کرنے کے لئے کام کاج میں مشغول ہوجاتے اور بالکل آرام و سکون نہ کرتے کہ یہ عمل ان کی ہلاکت کا سبب بنتا، چاند کے اندر مختلف قسم کی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں کہ کبھی وہ کمان کی شکل اور کبھی لکیر نما دکھائی دیتا ہے ، کبھی اس میں زیادتی اور کبھی اس میں کمی واقع ہوتی ہے اور اسی طرح چاندگہن بھی ہوتا ہے کہ جو خالق دوجہاں کی قدرت پر دلالت کرتا ہے ، چاند کا گہن ہونا اور اس قسم کی دوسری تبدیلیاں بھی عالم کی بھلائی کے لئے ہیں جو خالق عالم کی قدرت کا منھ بولتا ثبوت ہیں جس سے عبرت حاصل کرنے والے لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں۔

( ستاروں کی حرکت )

اے مفضل۔ ستاروں اور ان کی حرکت پر غور کرو،اُن میں سے بعض اپنے مرکز سے انفرادی حرکت نہیں کرتے ، بلکہ وہ اجتماعی حرکت کرتے ہیں ، جبکہ ان میں بعض آزادانہ طور پر ایک بُرج سے دوسرے بُرج کی طرف حرکت کرتے ہیں ، یہ اپنی حرکت میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ،ان ستاروں کی حرکت دو طرح کی ہے ایک حرکت عمومی ہے جو فلک سے مغرب کی طرف ہے اور ایک حرکت خود ان سے متعلق ہے کہ جو وہ مشرق سے مغرب کی طرف کرتے ہیں ، ان کی مثال اس چیونٹی کی سی ہے، جو چکّی کے پتھر پر چکر لگارہی ہے کہ آسیاب کا پتھر اُسے سیدھی طرف حرکت دیتا ہے اور چیونٹی خود اُلٹی طرف حرکت کرتی ہے ، تو ایسی حالت میں دراصل چیونٹی دو طرح کی حرکت میں مصروف ہے ایک خصوصی

۱۲۲

جس کے تحت آگے کی طرف بڑھ رہی ہے اور دوسری حرکت آسیاب کے پتھر کے تحت انجام پا رہی ہے جو اسے پیچھے کی طرف کھینچتا ہے پس اب سوال کیا جائے اُن لوگوں سے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ستارے اور ان کی یہ گردش حالت میں اتفاق اور بغیر قصد و ارادہ کے ہے اور ان کا کوئی بنانے والا نہیں۔ پس اگر ایسا ہے تو یہ سب ساکن کیوں نہیں یا یہ کہ سب کیوں برج سے برج کی طرف منتقل نہیں ہوتے اس لئے کہ اتفاق کا نتیجہ یہی ہی ہوتا ہے پھر کس طرح ان میں دو حرکتوں کا مشاہدہ کیا جاتا ہے، اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ستاروں کی حرکت حکمت، تدبیر اور قصد و ارادہ کا نتیجہ ہے اور ہرگز اتفاق کا نتیجہ نہیں کہ جس طرح فرقہ معطّلہ کے لوگ یہ گمان کرتے ہیں اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ آخر کیوں بعض ستارے ساکن اور بعض متحرک ہیں؟ تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ اگر تمام ستارے ایک ہی طرح ہوتے اور ان میں اختلاف نام کی کوئی چیز نہ ہوتی تو کس چیز کے ذریعہ انہیں پہچانا جاتا، اور دوسری بات یہ کہ ان کی حرکت ہی کی وجہ سے عالم میں پیش آنے والے حادثات کی پیشن گوئی کی جاتی ہے اور اگر وہ سب کے سب متحرک ہوتے تو ایسی صورت میں ان کی طرف سیر کرنا مشکل ہوجاتا، اس لئے کہ ان کی کوئی خاص جگہ نہ ہوتی کہ جس کے ذریعہ انہیں پہچانا جاتا ہے، اور نہ ہی کوئی اثر باقی رہتا کہ جس کے وسیلے سے ان تک رسائی ممکن ہوتی بلکہ ستاروں کے ساکن اور اور ثابت ہونے ہی کی وجہ سے ان کے مکان اور ان تک رسائی ممکن ہوتی ہے اس طرح جس طرح سے کوئی مسافر ایک منزل تک مختلف راستوں اور منزلوں کو طے کرتا ہوا پہنچتا ہے تو بس اگر تمام ستارے ایک ہی قسم کی حرکت رکھتے تو تمام نظام خراب ہوجاتا اور پھر کہنے والے کے لئے یہ بات کہنا صحیح ہوتی کہ ان سب کا ایک اندازہ پر ہونا اس چیز پر دلالت ہے کہ یہ سب محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں، لہٰذا جو کچھ ہم نے ستاروں کی اختلاف سیر ان کے عمل اور جو کچھ ان کے فوائد و نتیجہ کے بارے میں بیان کیا، یہ سب چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ قصد وا رادہ کے تحت وجود میں آئے ہیں اور ان کے وجود میں تدبیر استعمال کی گئی ہے۔

۱۲۳

( ثریا، جوزہ ، شعریین، اور سہل میں حکمت )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو ان ستاروں پر کہ جو سال میں کچھ وقت ظاہر اور کچھ وقت پوشیدہ رہتے ہیں، مثلاً ثریا، جوزہ، شعریین ،اور سہل اگر یہ سب ستارے ایک ہی ساتھ اورایک ہی وقت میں ظاہر و نمودار ہوتے تو ان کی پہچان مشکل ہوجاتی اور بہت سے کام انجام نہ دیئے جاتے ، مثلاً ثریا کے طلوع و غروب ہونے کا علم، جس سے لوگ مختلف فائدے حاصل کرتے ہیں ان ستاروں کا طلوع و غروب ہونا ایک دوسرے سے مختلف ہے تاکہ لوگ انہیں پہچان کر ان سے بہرہ مند ہوسکیں، یہی وجہ ہے کہ ثریا، جوزا وغیرہ کبھی غائب ہوتے ہیں اور کبھی ظاہر ہوتے ہیں۔

( بنات النعش ستارہ ہمیشہ ظاہر رہتا ہے )

بنات النعش ستارہ کو خداوند متعال نے اس طرح بنایا ہے کہ وہ ہمیشہ ظاہر رہتا ہے اور غائب نہیں ہوتا، کیونکہ بنات النعش ایک ایسی علامت ہے کہ جس کے ذریعہ لوگ صحراء و بیابان اور دریا میں اپنی کھوئی ہوئی راہ کو پاتے ہیں اسی لئے یہ ہمیشہ ظاہر ہے اور غائب نہیں ہوتا، تاکہ لوگ جب چاہیں اُسے دیکھیں اور اپنی سمت کو معین کریں، درحقیقت یہ امور جو آپس میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں لوگوں کی احتیاج و ضرورت کو پورا کرنے اور ان کے فائدے کے لئے ہے،اس قسم کے ستاروں میں اور بہت سے فوائد ہیں وہ یہ کہ بہت سے کاموں کے اوقات ان کے ذریعہ معلوم ہوتے ہیں مثلاً زراعت، درختکاری، سفر دریا، وصحراء اور مختلف حوادث مثلاً ہوا، بارش ، گرمی ، سردی کا ظاہر ہونا بھی انہی کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے اور ان کی روشنی سے رات میں سفر کرنے والے افراد فائدہ اُٹھاتے ہیں، اوراس

۱۲۴

کے ذریعہ سے رہنمائی پاتے ہوئے خوفناک قسم کے بیابان اور دریاؤں میں سفر کو جاری رکھتے ہیں، ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ ان ستاروں کا آسمان کے درمیان پستی و بلندی اور طلوع و غروب کی حالت میں حرکت کرنا عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے عبرت ہے کہ تیزی سے یہ ستارے اپنے مدار میں حرکت میں مصروف ہیں ۔

( چاند، سورج اور ستارے ہم سے اس قدر دور کیوں ہیں؟ )

اے مفضل۔ ہم کس طرح سے چاند ، سورج اور ستاروں کو ان کی تیز ترین حرکت کے باوجود قریب سے دیکھ سکتے تھے ؟ کیا ہماری آنکھیں ان کی تیز روشنی سے اپنی بصیرت و بینائی نہ کھو بیٹھیں، جس طرح سے کبھی اگر آنکھوں پر تیز روشنی پڑجائے تو آنکھیں اپنی بینائی کھو بیٹھتی ہیں اس کی مثال اس طرح ہے کہ اگر کچھ لوگ ایک ایسے قُبّہ کے درمیان ہوں جو چراغوں سے پر ہو اور وہ قبہ تیزی سے ان کے ارد گرد چکر لگانے لگے تو مسلماً وہ ان کی آنکھوں کو اس طرح حیراں کردے گا کہ وہ اپنا کام کرنا چھوڑ دیں گی۔ پس ذرا غور کرو اُس تدبیر پر کہ ان کی سیر و حرکت کو انسانوں سے دور رکھا گیا، تاکہ ان کی آنکھیں ان کے ضرر سے محفوظ رہیں، اور ان میں کسی قسم کا خلل ایجاد نہ ہونے پائے۔

ستاروں کو تھوڑی سی روشنی عطا کی گئی تاکہ ان کی روشنی چاند کی غیر موجودگی میں اس کی نیابت کرے، اور لوگوں کے لئے رات کا سفر کرنا ممکن ہوسکے ، اس لئے کہ انسان کی زندگی میں کبھی کوئی ایسا حادثہ پیش آتا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ رات ہی کے وقت اپنی جگہ چھوڑنے پر مجبور ہوتا ہے، پس اب اگر اس آدھی رات میں کوئی چیز ایسی نہ ہو کہ جس کی روشنی میں وہ راہ دیکھ سکیں تو کبھی بھی وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتے تھے۔

اب ذرا غور کرو ، اس لطیف تدبیر و حکمت پر کہ خداوند متعال نے رات کے لئے ضرورت کے مطابق

۱۲۵

وقت مقرر کیا اور اس کی تاریکی میں اتنی روشنی رکھی جس سے لوگ اپنی وہ تمام ضرورتیں پوری کرسکیں کہ جس کے بارے میں وضاحت کی جاچکی ہے۔ اے مفضل۔ فکر کرو اس نظام پر جو سورج، چاند، ستاروں اور برجوں کے ساتھ مل کر عالم کے گرد محو گردش ہے اور اس گردش میں ایک صحیح اندازاہ و میزان ہے جس کے نتیجے میں شب ور وز منظم اور چار فصلیں وجود میں آتی ہیں اور جو حیوانات و نباتات پر بھی اثر انداز رہے ہیں اور یہ اس پورے نظام میں ان کی مصلحت ہے، جیسا کہ تمہارے لئے بیان کرچکا ہوں ، تو کیا اب بھی کسی صاحب عقل سے یہ بات پوشیدہ و مخفی رہ جاتی ہے کہ یہ سب کام ایک ذات کی حکمت اور اس کی تدبیر کے سبب ہیں اور یہ کہ اس نظام کا صحیح اور ایک معین اندازہ پر ہونا ایک ہی ذات حکیم کی طرف سے ہے، اب اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ یہ وہ چیزیں ہیں جو اتفاق سے اسی طرح وجود میں آئی ہیں، تو پھر وہ کیوں یہی کلام اس چرخے کے بارے میں نہیں کہتے جو گھومتا ہے اور پانی کو کنویں سے باہر لانے کا کام انجام دیتا ہے جس سے باغ وغیرہ سیراب ہوتے ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ تمام آلات کو ایک خاص اندازہ کے تحت بنایا جاتا ہے کہ جن میں بعض ، بعض سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ سب باغ اور اس میں موجود اشیاء کے لئے بے انتہاء مفید ہیں، تو پھر کس طرح یہ کلام حقیقت پر مبنی ہوسکتا ہے کہ یہ دنیا خود بخود وجود میں آئی ہے؟ اور لوگوں کی اس وقت کیا رائے ہوتی ہے جب یہ کلام ان کے سامنے کہا جاتا ہے ، وہ اُس کا انکار کرتے ہیں یا نہیں؟ اے مفضل۔ تعجب تو اس بات پر ہے کہ جب اگر کوئی یہ کلام ایک ایسے تختے کے بارے میں کہتا ہے کہ جسے عام انسان نے ایک خاص کام کے لئے بنایا ہے، کہ یہ تختہ خودبخود وجود میں آیا ہے تو سب مل کر اس کے مخالف ہوجاتے ہیں اور اس سے اس کلام کو ہرگز قبول نہیں کرتے ، مگر صد افسوس کہ جب یہ کلام اس عجیب و غریب دنیا کے بارے میں کہا جاتا ہے جو ایک حیرت انگیز حکمت کے تحت وجود میں آئی ہے، کہ جس تک ذہنِ بشری کی رسائی ممکن نہیں اور جسے زمین اور اس میں موجود اشیاء کی بھلائی کے لئے بنایا ہے، تو اسے سب قبول کرلیتے ہیں کہ یہ دنیا

۱۲۶

اتفاق اور بغیر کسی صانع کی صنعت کے وجود میں آئی ہے۔

اے مفضل۔ ذرا سوچو کہ اگر ان افلاک (نظام) میں کوئی خلل پیدا ہوجائے کہ جس طرح ان آلات میں پیدا ہوجاتا ہے کہ جنہیں صنعت کے کام میں استعمال کیا جاتا ہے تو کس صانع کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے بارے میں چارہ اندیشی کرے۔

( رات اور دن پندرہ گھنٹے سے تجاوز نہیں کرتے )

اے مفضل۔غور کرو شب و روز کے اندازہ پر،ان کے واقع ہونے،اور ُس تدبیر پر جس میں اس کے بندوں کی بھلائی ہے جب دن اور رات بڑے ہونا شروع ہوتے ہیں تو '' ۵ا پندرہ'' گھنٹے سے کسی بھی صورت میں تجاوز نہیں کرتے ، کیا تم اس بات کو محسوس نہیں کرتے کہ اگردن ''۱۰۰ '' گھنٹے یا ''۲۰۰ '' گھنٹے کا ہوتا تو زمین پر زندگی پسر کرنے والے تمام حیوانات و نباتات ہلاک ہوجاتے ، حیوان اس لئے ہلاک ہوتے کہ انہیں آرام وسکون نہ ملتا، چوپائے چرنے سے فارغ نہ ہوتے، اور انسان اپنے کام کاج سے فارغ نہ ہوتا ،اور نباتات اِس لئے ہلاک ہو جاتے کہ سورج کی روشنی اور حرارت ان پر طویل مدت تک پڑتی ، جس کی وجہ سے وہ خشک ہوجاتے اور جل کر خاک بن جاتے اور اسی طرح رات معین شدہ مدت سے زیادہ طولانی ہوتی تو حیوانات اپنی حرکت نہ کر پاتے اور بھوک کے مارے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ، اور اس طولانی مدت میں نباتات سے حرارت طبیعی ختم ہوجاتی ، اور وہ فاسد ہوجاتے بالکل اس پودے کی طرح کہ جسے اس جگہ یا مکان پر رکھ دیا جائے کہ جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچتی۔

۱۲۷

( سردی اور گرمی کے فوائد )

سردی اور گرمی سے جو چار فصلوں کی تکمیل کا باعث ہیں عبرت حاصل کرو۔ کہ یہ خاص نظم و ضبط اور اعتدال کے ساتھ جہان کو اپنے فائدوں سے بہرہ مند کرتی ہے۔ سردی اور گرمی دو ایسے وسیلے ہیں کہ جن کے ذریعے مال اور بدن کی اصلاح ہوتی ہے اور یہ عمل بدن کی بقاء اور اس کی بھلائی کے لئے ہے، اس لئے کہ اگر سردی وگرمی نہ ہوتیں اور اُن کا بدن پر کوئی اثر نہ ہوتا تو بدن فاسد ، سست اور کمزور پڑجاتا۔ اے مفضل ان میں سے ہر ایک کے دوسرے میں داخلے کی تدریجی حالت پر غور کرو ایک ہلکے ہلکے کم ہوتی ہے اور دوسری پہلی کی طرح ہلکے ہلکے بڑھتی جاتی ہے، یہاں تک کہ پہلی اپنی انتہاء تک پہنچ جاتی ہے اور اگر ان میں سے ایک کا دوسرے کے اندر داخل ہونا غیر تدریجی ہوتا تو مسلماً یہ عمل جسم کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ، بیمار ہونے کا سبب بن جاتا جس طرح سے اگر تم میں سے کوئی ایک گرم حمام سے نکل کر سرد جگہ پر چلا جائے تو قطعاً وہ مریض ہوجائے گا، پس پھر کیوں خداوند متعال نے سردی اور گرمی کے اندر اس تدریج کو رکھا، سوائے اس کے کہ انسان ان کے ضرر سے محفوظ رہ سکے، اگر یہ عمل تدبیر سے ہٹ کر ہوتا تو کیوں کر انسان سردی اور گرمی کے ناگہاں ضرر سے محفوظ رہتا اب اگر کوئی یہ گمان کرے کہ سردی اور گرمی کا تدریجی طور پر ہونا سورج کی سست رفتار اس کی پستی اور بلندی کی وجہ سے ہے تو اس سے سوال کیا جائے گا کہ سورج کے سست رفتار ہونے کی علت کیا ہے؟اور اگر وہ کہے کہ سورج کی سست رفتار ہونے کی علت مشرق ومغرب کا طویل فاصلہ ہے تو پھر اس سے اس دوری اور اس فاصلہ کی علت کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اور اسی طرح یہ مسئلہ اوپر تک چلا جائے گا،یہاں تک کہ بات یہاں ختم ہوگی کہ یہ تمام کام مقصد و ارادہ کے تحت وجود میں آئے ہیں کہ اگر گرمی نہ ہوتی تو پھل کسی بھی صورت میں سخت ونرم، پکے اور میٹھے نہ ہوتے، کہ لوگ ان کے تر اور خشک ہونے سے فائدہ

۱۲۸

اُٹھا سکیں اگر سردی نہ ہوتی تو ذراعت کسی بھی صورت میں اس مقدار میں نہیں ہوسکتی تھی جو تمام حیوانات کی غذا کے لئے کافی ہو اور نہ اس قدر کہ اس کے بیج سے دوبارہ ذراعت کی جاسکے، تو کیا تم نہیں دیکھتے کہ سردی اور گرمی اس قدر فوائد کے باوجود انسان پر اثر انداز ہوتی ہے اور یہ سب چیزیں عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے عبرت ہیں کہ جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تمام چیزیں خداوند حکیم و مدبر کی تدبیر کے سبب ہیں۔

( ہوا میں تدبیر )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو ہوا اور اس میں استعمال شدہ عظیم تدبیر پر ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب ہوا رک جاتی ہے تو فضا میں اس طرح حبس ہوجاتا ہے کہ سانس اکھڑنے لگتے ہیں، ہوا کا رکنا صحیح و سالم کو مریض اور مریض کو مریض تر ، پھلوں کو فاسد، اور سبزیوں کو خراب کر دیتا ہے، ایسی حالت میں بدن کے اندر مختلف قسم کے امراض جنم لیتے ہیں اور غلّہ برباد ہوجاتا ہے ۔ ان تمام چیزوں کا رونما ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ہوا کے چلنے ہی میں مخلوق کی بھلائی ہے کہ جو خالق حکیم کی تدبیر کے سبب ہے۔

( ہوا کے فوائد )

اے مفضل۔ میں تمہیں ہوا میں پائے جانے والے فوائد کے بارے میں بتاتا ہوں۔آواز ، وہ اثر ہے کہ جو ہوا میں اجسام کے ملنے سے پیدا ہوتی ہے یہ ہوا ہے کہ جو اس آواز کو کان تک پہنچاتی ہے ، اگر وہ تمام گفتگو وکلام جو لوگ دن رات اپنے معاملات اور دوسرے امور کے بارے میں کرتے ہیں ہوا میں باقی رہ جاتا کہ جس طرح کاغذ کا لکھا اُس پر باقی رہ جاتا ہے ، تو عالم کلام سے پُر ہوجاتا اور یہ عمل

۱۲۹

لوگوں کو تنگی اور سختی سے دوچار کرتا، اور ان کے لئے مشکلات ایجاد کردیتا اور وہ جو ضرورت ہوا کی تبدیلی اور اُسے تازہ کرنے کے لئے محسوس کرتے ، وہ کاغذ کی تبدیلی اور اس کی تجدید کی احتیاج و ضرورت سے کہیں زیادہ ہوتی۔ اس لئے کہ جو کچھ کلام کیا جاتا ہے وہ لکھنے سے کئی گناہ زیادہ ہے، لہٰذا خلاق عالم نے ہوا کو ایسا مخفی کاغذ قرار دیا کہ کلام چاہے جتناہو اُسے بغیر کسی وقفہ کے اپنے کاندھوں پر اُٹھا کر محو کرتا ہے اور پھر دوبارہ صاف ہوجاتا ہے۔

اے مفضل۔ اس نسیم سے کہ جسے ہوا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اس کے فوائد سے عبرت حاصل کرو، اس لئے کہ ہوا بدن کے اندر داخل ہوکر اسے زندگی بخشتی ہے اور اس کا خارج ہونا روح کے لئے باعث آرام و سکون ہے ، ہوا کے اندر ایک بہاؤ ہے کہ جو آواز کو دور ،دور تک پہنچاتا ہے اور یہ ہوا ہے کہ جس کے ذریعہ بوئیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی ہیں۔ کیا تم اس بات کو محسوس نہیں کرتے کہ کس طرح سے اس جگہ سے بو آتی ہے ، جہاں سے ہوا آرہی ہو، اور بالکل اسی طرح آواز بھی اور یہ ہوا ہے کہ جو سردی اور گرمی کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے جن میں عالم کی بھلائی کا راز پوشیدہ ہے اور یہ ہوا جب اجسام پر چلتی ہے تو ان کے لئے باعث پاکیزگی و رونق ہوتی ہے ، ہوا ہی بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت دیتی ہے ، تاکہ تمام لوگ ان کے فوائد سے بہرہ مند ہوسکیں اور جب بادل غلیظ ہوکر برستے ہیں تو انہیں جدا کرنے کا کام بھی ہوا ہی انجام دیتی ہے، تاکہ یہ باریک ہو کر بکھر جائیں ، ہوا ہی سے درخت پھل دار ہوتے ہیں ،ہوا ہی کشتی کو پانی میں حرکت دیتی ہے، کھانے کو لطیف ، پانی کو ٹھنڈا ، آگ کو شعلہ آور، تر چیزوں کو خشک کرنے کا کام بھی ہوا ہی انجام دیتی ہے مختصر یہ کہ زمین پر تمام موجود اشیاء کو ہوا زندگی بخشتی ہے، کہ اگر ہوا نہ ہوتی تو نباتات خشک ہوجاتے ، حیوانات ہلاک ہوجاتے اور تمام چیزیں فاسد اور ضائع ہوکر رہ جائیں۔

۱۳۰

( زمین کی وسعت )

اے مفضّل ۔ذرا غور کرو کہ چار فصلوں کی ایک وسیع مدت معےّن کی گئی ہے تاکہ لوگ اپنی ضرورت کے مطابق ان سے فائدہ اٹھاسکیںان کی یہ وسعت زمین کے پھیلاؤ کی وجہ سے ہے ، اگر زمین کا پھیلاؤ اور اس کی وسعت زیادہ نہ ہوتی تو کس طرح لوگوں کے رہنے، ان کے ذراعت کرنے اور جانوروں کے چرانے کے لئے جگہ ہوتی اور اسی طرح لکڑی ، تختہ ، سوکھی لکڑیاں ، ضروری دوائیں اور قیمتی معدنیات کے لئے کہاں سے جگہ فراہم ہوتی؟ شاید کوئی ان خالی و وحشت زدہ بیابان اور خشک زمینوں کا منکر ہو اورکہے کہ ان میں کیا فائدے ہیں؟ تو ان کے جواب میں کہا جائے گا کہ وہ وحشی جانوروں کے رہنے کی جگہ، اور ان کی چراگائیں ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ان لوگوں کے لئے پناہ گاہیں ہیں کہ جو پریشانی کے باعث اپنے وطن کو چھوڑنے پر مجبور ہیں اسی وجہ سے تم دیکھتے ہو کہ بیابان و صحراء شہر اور محل سکونت میں تبدیل ہوگئے، اگر زمین کی وسعت اتنی نہ ہوتی تو لوگ ایسا محسوس کرتے کہ جیسے وہ کسی حصار میں گھرگئے ہیں اور وہ درپیش مصیبت و پریشانی سے بچنے کے لئے اپنے وطن کو چھوڑنے کی مجبوری کے باوجود کسی دوسری جگہ نہیں جا سکتے۔

( زمین ثابت کیوں؟ )

اے مفضل۔ اب ذرا زمین پر غور کرو کہ وہ جس دن سے بنی ہے اُسی روز سے ثابت و ساکن ہے تاکہ اسے اشیاء کے لئے وطن قرار دیا جاسکے، اور لوگ اپنے کام کاج کے سلسلے میں کوشش اورجدوجہد کرسکیں اور آرام و سکون کے لئے اس پر بیٹھ سکیں، جسم کی تھکاوٹ و آرام کے لئے اس پر سو سکیں اور

۱۳۱

اپنے امور میں استحکام پیدا کرسکیں، اگر زمین چیزوں کو حرکت دیتی تو اُس پر کبھی بھی محکم عمارتیں نہیں بنائی جاسکتی تھیں، اور تجارت و صنعت جیسے کاروبار کو اس پر انجام نہیں دیا سکتا تھا ، گویا لوگوں کے لئے زندگی گزارنا مشکل ہوجاتا کیونکہ ان کے پاؤں کے نیچے وہ زمین ہوتی کہ جو لرزتی رہتی، اس حالت کو تم ان لوگوں میں دیکھ سکتے ہو جو زلزلہ کی کیفیت کو محسوس کرچکے ہوں۔

( زلزلہ اور مختلف بلائیں نازل ہونے کا سبب )

اے مفضل۔ تم دیکھتے ہو کہ ذرا سی دیر کا زلزلہ لوگوں کو گھر چھوڑنے اور وہاں سے فرار کرنے پر مجبور کردیتا ہے اب اگر یہ سوال کیا جائے کہ آخر یہ زلزلہ کیوں آتا ہے؟ تو ا س کے جواب میں کہا جائے گا کہ زلزلہ اور ایسے دوسرے واقعات لوگوں کے لئے نصیحت ہیں، جن کے ذریعہ لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے، تاکہ برائیوں سے بچیں اور اُن سے منھ موڑ لیں اوروہ بلائیں جو انسان کے بدن میں بیماریوں کی صورت اور ان کے اموال پر نازل ہوتی ہیں وہ بھی ایک عظیم تدبیر کے تحت انسانوں کی اصلاح ، بھلائی اور ان کی استقامت کے لئے ہیں اور اگر بندے ان پر استقامت و صبر کا مظاہرہ کریں تو ان کے اس عمل کا اجر وثواب آخرت کے لئے اس قدر لکھا جاتا ہے کہ دنیا کہ کوئی بھی چیز اُس کا مقابلہ نہیں کرسکتی، اور جس اجر وثواب کے عطا کرنے میں ان کی دنیاوی بھلائی ہو تو وہ انہیں دنیا ہی میں عطا کردیا جاتا ہے۔

( زمین اور پتھر کا فرق )

اے مفضل ، خداوند متعال نے طبیعی طور پر زمین اور پتھر کو سخت اور خشک پیدا کیا ہے۔ فقط زمین اور پتھر کے درمیان جو فرق ہے ، وہ پتھر کا زیادہ خشک ہونا ہے ، کیا تم اس بات کا مشاہدہ نہیں کرتے کہ اگر

۱۳۲

زمین بھی پتھر کی طرح خشک اور سخت ہوتی تو کیا نباتات و حیوانات اس پر اپنی زندگی گزار سکتے تھے اور کیا اس پر ذراعت کی جاسکتی تھی کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس کی خشکی کو پتھر کی خشکی سے کم رکھا گیا ہے اور اُسے اس لئے نرم خلق کیا گیا ہے تاکہ مختلف کاموں کو بآسانی اس پر انجام دیا جاسکے۔ اور زمین اپنے ساکنین کے لئے تکیہ گاہ ثابت ہوسکے۔

( شمالی اور جنوبی ہوائیں )

اے مفضل۔ خالق دوجہاں کی تدابیر میں سے ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ اس نے شمالی ہواؤں کے مکان کو جنوبی ہواؤں کے مکان سے کافی بلند رکھا ہے، جانتے ہو خداوند متعال نے ایسا کیوں کیا؟ سوائے اس کے کہ ہوائیں زمین پر چلتی رہیں اور زمین کی تمام ضروریات پوری ہوسکیں بالکل اسی طرح سے جس طرح پانی کے مسلسل جریان کے لئے اس نے زمین کو ایک طرف سے بلند اور دوسری طرف سے نیچے رکھا تاکہ پانی کا بہائو رکنے نہ پائے (جیساکہ تم شمالی ہواؤںاور جنوبی ہواؤں کے بارے میں سن چکے ہو) اگر ایسا نہ ہوتا تو پانی زمین پر پھیل جاتا اور لوگ کام کاج سے مجبور ہوجاتے، اور پھر یہ پانی گلیوں اور سڑکوں کے خراب کردیتا۔

( پانی کی ضرورت )

اے مفضل۔ اگر پانی فراوانی سے نہ ہوتا تو لوگوں کی ضروریات کے باوجود چشموں، بیابانوں اور نہروں میں پانی کی کمی ہوجاتی ، یہ پانی پینے، گلے کے سیراب کرنے، انکی ذراعت، درختوں ، مختلف قسم کے دانوں ، وحشی درندوں ، پرندوں اور مچھلیوں اور ان حیوانات کے پینے کے لئے ہے جو بہت بڑی

۱۳۳

تعداد میں زندگی بسر کرتے ہیں، پانی کے اندر اور بھی دوسرے بہت سے فائدے ہیں کہ جنہیں تم اچھی طرح جانتے ہو، مگر تم اس کے بڑے اور عظیم فائدوں سے بے خبر ہو، اس لئے کہ وہ فائدے ان فائدوں کے علاوہ ہیں کہ جو روئے زمین پر حیوانات و نباتات کو پانی کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں جنہیں ہر ایک جانتا ہے ، اس کے علاوہ پانی کے دوسرے فائدے یہ ہیں کہ اسے بہت سی چیزوں میں مخلوط کیا جاتا ہے جو پینے والے کے لئے خوشمزہ اور زود ہضم ثابت ہوتا ہے ، پانی ہی کے ذریعہ بدن اور لباس کی کثافت کو دور کیا جاتا ہے، پانی ہی سے مٹی کو گیلا کیا جاتا ہے ، تاکہ وہ تعمیراتی کام کے قابل ہوجائے، پانی ہی کے وسیلے سے آگ کے اُن دھکتے ہوئے شعلوں کو ختم کیا جاتا ہے۔ جبکہ وہ جو لوگوں کے لئے باعث زحمت و مشقت بن چکے ہوں ، پانی خود بھی خوشمزہ اور خوش ذائقہ ہے، اور دوسری چیزوں کو بھی خوش ذائقہ بناتا ہے۔ اس کے وسیلے سے لوگ حمام میں جاکر اپنی تھکاوٹ کو دور کرتے ہیں اور اس کے علاوہ بھی پانی کے بہت سے فائدے ہیں کہ جو ضرورت پڑنے پر ظاہر ہوتے ہیں اور اگر تم یہ خیال کرو کہ پانی کی اتنی کثرت و زیادتی کا کیا فائدہ ہے جو دریاؤں میں تہہ بہ تہہ ایک دوسرے پر تکیہ کئے ہوئے ہے، تو اس بات کو جان لو کہ دریاؤں میں پانی جمع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر وہ چیزیں موجود ہیں کہ جنہیں گنا نہیں جاسکتا ، جیسے مختلف مچھلیاں ، آبی حیوانات، معادن، لؤلؤ، یاقوت، عنبر اور اس قسم کی دوسری چیزیں ، دریاؤں ہی کے کنارے پر عور (درخت کا نام) معطر پودے مختلف قسم کے عطریات اور دوائیں اُگتی ہیں، اور اسکے دوسرے فائدے یہ ہیں کہ دریا لوگوں کے سفر اور تجارت کے سازو سامان کے حمل کی جگہ ہے کہ جس کے وسیلے سے چیزیں ایک شہر سے دوسرے شہر لے جائی جاتی ہیں،جیسا کہ مختلف چیزیں ، چین سے عراق اور عراق سے چین لے جائی جاتی ہیں اس لئے کہ اگر حیوانات کے علاوہ کوئی اور دوسری چیزنہ ہوتی جو انہیں حمل کرتی تو یہ سب چیزیں اپنے ہی شہر میں باقی رہ جاتیں اور فاسد و ضائع ہوجاتیں اس لئے کہ انہیں حمل کرنے کی مزدوری ان کی اپنی قیمت سے کہیں

۱۳۴

زیادہ بڑھ جاتی اور ان چیزوں کو کوئی حمل کرنے کی فکر میں نہ ہوتا، اور انہیں حمل کرنے کی صورت میں دو حالتیں سامنے آتیں ۔

اول: یہ کہ ان چیزوں کی ضرورت کے باوجود ان کی بہت زیادہ کمی ہوتی۔

دوم: یہ کہ معیشت اور تجارت کے سامان کو اس ہی وسیلے سے ایک جگہ سے دوسری جگہ حمل کیا جاتا ہے کہ جس کے نفع سے زندگی آرام و سکون سے گزاری جاتی ہے، وہ سب منقطع ہوکر رہ جاتا اور یہی حال ہوا کا ہے کہ اگر ہوا بھی اس وسعت و فراوانی کے ساتھ نہ ہوتی تو اُس فضا میں منتشر دھووؤںاور بخارات کی وجہ سے لوگوں کے دم گھٹ کر رہ جاتے ، اور ہوا کو اس أمر پر مجبور کیا گیا ہے کہ وہ انہیں بادلوں کی صورت میں تبدیل کرے اور ہوا کے مختلف قسم کے فوائد میں پہلے ہی بیان کرچکا ہوں۔

( آگ کے فوائد )

اے مفضل۔اب ذرا آگ پر غور کرو کہ اگر وہ بھی پانی اور ہوا کی مانند ہر جگہ پھیلی ہوئی ہوتی تو دنیا اور اس کی تمام اشیاء کو جلا کر خاک کردیتی اور کیوں کہ لوگوں کو اس کی ضرورت ہے اور اس میں ان کے لئے بہت سے فائدے ہیں لہٰذا اسے خزانہ کی مانند کام درخت میں جگہ عطا کی تاکہ اُس کی ضرورت کے وقت اُس سے استفادہ کیا جاسکے، اور تیل اورلکڑی کے وسیلہ سے اُسے اُس وقت تک باقی رکھا جاسکے جب تک اِسکی ضرورت ہے یہ بات بجا اور صحیح ہے کہ تیل اور لکڑی کی مدد سے آگ کو بجھنے نہ دیا جائے، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ دھکتی رہے، اور جو چیز بھی ہو اُسے جلا کر خاک کردے، بلکہ وہ ایک ایسی چیز کی طرح ہے کہ جو ہر وقت آمادہ ہے ، مگر پوشیدہ کہ اسی عمل میں اس کے منافع اور مصالح سے استفادہ اور اس کے ضرر سے محفوظ رکھا گیا ہے، اور آگ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسانوں کے لئے بنائی گئی ہے ، اس لئے کہ انسانوںکے لئے آگ میں بے انتہا فائدے ہیں انسان کی زندگی میں

۱۳۵

اگر آگ جیسی نعمت نہ ہوتی تو اُس کی معیشت کو بڑا نقصان پہنچتا ، لیکن چوپائے آگ کو استعمال نہیں کرتے اور اس کے فائدے سے محروم ہیں ایسا اس لئے ہے کہ خداوند عالم نے انسان کو ایسے ہاتھ سے نوازا ہے جو ہتھیلی اور انگلیوں کر مرکب ہے جس کے وسیلے سے وہ آگ کو روشن اور دوسرے کام انجام دے سکتا ہے، جبکہ حیوانات اس نعمت عظمیٰ سے محروم ہیں ، لیکن اس کے بدلے انہیں صبر وتحمل جیسی قوت عطا کی گئی تاکہ آگ کا نہ ہونا ان کے لئے نقصان دہ ثابت نہ ہو جیسا کہ انسان کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔ اے مفضل، میں تمہیں آگ کے بڑے فائدوں میں سے چھوٹا سا فائدہ بتاتا ہوں ، جس کی قدر و قیمت بہت زیادہ ہے ، اور وہ یہ چراغ ہے کہ جسے لوگ جلاتے ہیں ، اور اس کی روشنی میں وہ اپنے تمام کام انجام دیتے ہیں کہ اگر یہ نہ ہوتا تو لوگوں کی زندگی اُن مردوں کی طرح گذرتی جو قبر میں ہیں ایسی صورت میں کون لکھنے ، حفظ کرنے یا بننے کے کام کو انجام دے سکتا تھا، یا پھر کوئی کس طرح سے پیش آنے والے حادثہ یا کسی درد والم کے دور کرنے کے لئے مرہم یا دوا فراہم کرسکتا تھا، اور آگ کے دوسرے فائدے یہ ہیں کہ وہ کھانا پکانے، بدن گرم کرنے، چیزوں کو خشک کرنے، اجناس کو حل کرنے کے استعمال میں لائی جاتی ہے ، اور آگ کے دوسرے بہت سے فائدے ہیں کہ جنہیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں جو ظاہر و آشکار ہیں۔

( صاف اور بارانی ہوا )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو صاف اور بارانی ہوا پر کہ کس طرح وہ عالم پر سے یکے بعد دیگرے اپنا سفر طے کرتی ہیں کہ جس میں اس دنیا کی بھلائی ہے ، کہ اگر اُن میں سے ایک بھی دائمی ہوتی تو عالم میں فساد ہوجاتا، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جب مسلسل بارش ہوتی ہے تو سبزیاں سڑ جاتی ہیں پودے فاسد ہوجاتے ہیں ، حیوانات کے بدن سست اور ہوا سرد ہوجاتی ہے کہ جس سے مختلف قسم کے مرض ایجاد

۱۳۶

ہوتے ہیں ، گلی اور سڑک وغیرہ بھی خراب ہوجاتے ہیں اور اسی طرح اگر ہوا صاف رہے تو زمین خشک ہوجائے، تمام اُگنے والی چیزیں جل جائیں، تمام چشموں، ندیوں ، اور نہروں کا پانی خشک ہوجائے، یہ صورت بھی لوگوں کے لئے بے انتہا نقصان دہ ثابت ہوتی ، اور خشکی ہوا پر مسلط ہوجاتی کہ جس سے مختلف امراض وجود میں آتے ، لیکن ان کے معتدل ہونے کی وجہ سے عالم ان کے ضرر سے محفوظ رہتا ہے ، اور تمام چیزیں فاسد اور ضائع ہونے سے بچ جاتی ہیں اب اگر کوئی سوال کرے کہ ایسا کیوں نہیں ہوا کہ ان دونوں میں سے ایک مضر نہ ہوتی تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ دونوں کا مضر ہونا اس لئے ہے تاکہ انسان کو کچھ درد والم و پریشانی کا سامنا کرنا پڑے ، اور وہ گناہ سے دوری اختیار کرے، جیسا کہ جب انسان کا بدن مریض ہوجاتا ہے تو وہ تلخ اور کڑوی دواؤں کا محتاج ہوتا ہے ، تاکہ اُسکا جسم صحیح و سالم ہوجائے بالکل ایسے ہی کہ جب انسان طغیان و شرارت میں مبتلاء ہوجائے تو کوئی چیز تو ہونی چاہیے کہ جو ایسے وقت میں اُسے درد والم اور پریشانی میں مبتلا کرے ، تاکہ وہ طغیان اور شرارت کرنے سے رکا رہے، اور ہرگز برے کام انجام نہ دے کہ جس میں اسکی دنیا او ر آخرت دونوں کی بھلائی ہے۔

اے مفضل۔ بادشاہوں میں سے اگرکوئی ایک بادشاہ اپنی رعایا کو ہزاروں سونے و چاندی کے درہم و دینار عطا کردے ، تو کیا یہ بادشاہ کا عطا کرنا اُس رعایا کو عظیم نہیں معلوم ہوتا؟ اور کیا وہ اُس کے کرم و سخاوت کے گن نہیں گاتے؟ جبکہ وہ بادشاہ کہاں اور ایک بارش کا نازل کرنے والا کہاں جس بارش کے وسیلے سے شہر آباد اور نباتات نشوونما پاتے ہیں جسکے فوائد تمام ملکوں اور قوموں کے نزدیک سونے، چاندی کے سکّوں کے وزن سے کہیں زیادہ ہیں، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس بارش ہی کے اندر کتنے فائدے اور اسکی قدروقیمت کس قدر عظیم ہے، اسکے باوجود لوگ اس سے غافل ہیں۔ صد افسوس ایسے لوگوں پر جو کم قدر و قیمت کی چیزوں کی حاجت پورا نہ ہونے پر اپنی تندوتیز زبان کو خداوند متعال کے بارے میں دراز کرتے ہیں ، جبکہ اس چیز کا نہ ہونا ہی انکے لئے سودمندہے اور یہ لوگ کم قیمت چیز کو اس

۱۳۷

چیز پر ترجیح دیتے ہیں کہ جس کی قدر وقیمت بہت زیادہ ہے اور یہ ان کے بارش اور اس کے فوائد سے جاہل ہونے کی وجہ سے ہے۔

( بارش کے فائدے )

اے مفضل۔ فکر کرو بارش کے برسنے اور اس میں استعمال شدہ تدبیر پر کہ کس طرح بارش اوپر سے نیچے کی طرف برستی ہے، تاکہ وہ ہرچیز تک پہنچ کر اُسے سیراب کردے کہ اگر بارش اطراف سے برستی تو کبھی بھی تمام چیزوں تک نہیں پہنچ سکتی تھی جس کے نتیجے میں ذراعت کم ہوتی کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ ذراعت جو رواں دواں پانی اور چشموں کے ذریعہ ہوتی ہے، اُس ذراعت سے کہیں کمتر ہے جو بارش سے ہوتی ہے اور کیوں کہ بارش تمام زمین ، بیابان، پہاڑ، ٹیلے اور دوسری تمام چیزوں پر برستی ہے اس لئے کہ غلہ زیادہ ہوتاہے، بارش ہی کے وسیلے سے آب پاشی اور آب رسانی کا سلسلہ کم ہوجاتا ہے،اور بارش لوگوں کے درمیان ظلم و ستم اور فساد کا خاتمہ کردیتی ہے کہ قدرت مند لوگ پانی لے جاتے ہیں اور ضعیف و کمزور محروم رہ جاتے ہیں، اور کیوں کہ بارش کے مقدر میں اس بات کو رکھا کہ وہ اوپر سے نیچے کی طرف برسے، لہٰذا اس طرح تدبیر ہوئی کہ وہ قطرہ قطرہ کی صورت میں زمین پر آئے، اور اس میں داخل ہوکر اُسے سیراب کرے، اس لئے کہ اگر وہ ایک ہی مرتبہ میں تمام کی تمام برستی تو فقط زمین پر جاری ہوتی اور ہرگز اس کے اندر داخل نہ ہوتی ، اور اس کے علاوہ اگر وہ ذراعت پر پڑتی تو اُسے تباہ کر دیتی ، ان تمام وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس طرح کی تدبیر رکھی گئی کہ وہ آرام اور نرمی کے ساتھ برسے تاکہ وہ دانے کہ جو کاشت کئے جاچکے ہیں ، اُگیں اور زمین ذراعت کے لئے زندہ ہوجائے بارش میں دوسرے بھی بہت سے فائدے ہیں ، وہ یہ کہ بارش بدن کو نرم ، ہوا کو کدورت سے پاک اور اُن بلاؤں کو جو درختوں اور ذراعت پر نازل ہوتی ہیں کہ جن میں سے ایک یرقان ہے دور کرتی ہے،

۱۳۸

اور اس قسم کے دوسرے بے انتہاء فوائد۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ کیا ایسا نہیں ہوتا کہ بعض دفعہ اس بارش میں بہت بڑا نقصان دیکھنے میں آتا ہے، چاہے وہ تیز بارش یا اولوں کی صورت میں ہو کہ جو ذراعت کو تباہ کر دیتی ہے ، یا پھر ان بخارات کی وجہ سے جو ہوا میں پیدا ہوتے ہیں کہ جن میں سے بہت سے بیماریاں وجود میں آتی ہیں اور وہ آفات کی صورت میں غلات پر نازل ہوتی ہیں، تو اسکا جواب یہ ہے کہ یقینا بعض دفعہ ایسے حادثات رونما ہوتے ہیںجسکی وجہ لوگوں کی اصلاح ہے، انہیں معصیت سے دور اور اسے مسلسل انجام دینے سے روکتا ہے، لہٰذا ان کے مال کے نقصان کے ذریعہ ان کے دین کے نقصان کو دور کیا جاتا ہے جو مال کے ضرر و نقصان سے کئی گناہ ہے۔

( پہاڑ خداوند عالم کی عظیم نشانی )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو ان بلند پہاڑوں پر کہ کس طرح مٹی و پتھر ایک ساتھ ملے ہوئے ہیں، غافل لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ پہاڑ ایک زائد چیز ہے کہ جسکی ضرورت نہیں جبکہ ان میں بہت سے فائدے ہیں ، یہ ان لوگوں کے لئے کہ جو اسکی ضرورت رکھتے ہیں برف پہاڑوں کی چوٹیوں پر پڑی رہتی ہے تاکہ جو لوگ اس کے ضرورت مند ہوں وہ اُس سے فائدہ اٹھائیں۔ اور پھر یہ برف پانی کی صورت اختیار کرلیتی ہے کہ جس سے بڑی بڑی نہریں وجود میں آتی ہیں ، اور ان نہروں میں اس قسم کے نباتات اور دوائیں اُگتی ہیں کہ جو بیابان اور صحراء میں نہیں اُگتیں اور پہاڑوں ہی کے اندر وحشی درندوں کے رہنے کے لئے غار ہوتے ہیں اور پہاڑ ہی دشمن سے حفاظت کے لئے محکم قلعہ کے حصار کا کام انجام دیتا ہے۔ پہاڑوں ہی سے قیمتی پتھر حاصل کئے جاتے ہیں کہ جو عمارتوں اور چکی وغیرہ کے لئے استعمال میں لائے جاتے ہیں ، اور اسی سے ہمیں مختلف معدنیات حاصل ہوتی ہیں اور پہاڑ میں دوسرے ایسے بھی بہت سے فائدے ہیں کہ جنہیں فقط خداوند متعال ہی جانتا ہے کہ جس نے انہیں اپنی عظیم تدبیر کے تحت خلق کیا ہے۔

۱۳۹

( معدنیات )

اے مفضل۔ معدنیات مثلاً مختلف اقسام کے جواہرات ، چونا کا پتھر، سیمنٹ، قلعی، چوہے مار پوڈر، معدنی دوائ، توتیا، سرمہ، پیتل ، سیسہ، چاندی، سونا، زبرجد، یاقوت، زمرد اور مختلف اقسام کے قیمتی پتھروں پر غور فکر کرو اور ذرا سوچو کہ کس طرح ان سے تارکول، مومیا، ماچس کا مصالحہ، مٹی کا تیل اور دوسری ایسی چیزیں برآمد ہوتی ہیں کہ جن سے لوگ اپنی مختلف ضرورتیں پوری کرتے ہیں تو کیا اب بھی کسی صاحب عقل سے یہ بات پوشیدہ رہ جاتی ہے کہ پہاڑ کیوں بنائے گئے ہیں؟پہاڑ وںمیںخداوند متعال نے بے انتہاء خزانوں کو رکھا، تاکہ لوگ اپنی ضرورت کے وقت انہیں نکالیں اور ان سے استفادہ کریں، اب ذرا دیکھو کہ خداوندمتعال نے انسان کو ہر چیز کے بنانے کا علم عطا نہ کیا کہ اگر ایسا ہوتا تو انسان ان تمام چیزوں کو بناڈالتا، اور وہ دنیا میں بکھر کر رہ جاتیں، سونا اور چاندی وغیرہ عام ہوجاتے جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ لوگوں کے درمیان ان کی قدر وقیمت کم ہوجاتی ، اور کیونکہ وہ خرید وفروخت میں اپنی کوئی قدروقیمت نہ رکھتے، لہٰذا لوگوں کے درمیان معاملات انکے ذریعہ طے نہ پاتے ، اور کبھی بھی بادشاہ أموال کی طرف نہ کھنچتا، اور کوئی بھی انہیں اپنی اولاد کے لئے ذخیرہ نہ کرتا لہٰذا خداوند متعال نے انسان کو اُس صنعت کا علم عطا کیا، جس میں اس کے لئے ضرر نہیں۔مثلاً پیتل سے مجسمے اور برتن وغیرہ، ریت سے جست،جست سے چاندی اور چاندی سے سونا ، (اے مفضل) ذرا غور کرو کہ کس طرح سے خداوند متعال نے انسان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا بندوبست کیا کہ جس میں اس کے لئے ذرا بھی نقصان نہیں ، اور ان تمام چیزوں کو انسان سے دور رکھا کہ جس میں اس کے لئے نقصان و ضرر ہے، اب اگر کوئی یہ کوشش کرے کہ وہ اس معدن تک پہنچ جائے کہ جو ایک ایسی بڑی وادی کی انتہا میں ہے کہ جو ایک ایسے پانی سے متصل ہے کہ جو اپنی شدت کے ساتھ جاری ہے، اور اس پانی میں ذرہ برابر چیز بھی

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175