توحید مفضل

توحید مفضل0%

توحید مفضل مؤلف:
زمرہ جات: توحید
صفحے: 175

توحید مفضل

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علّامہ ملّا محمّد باقر مجلسی (رح)
زمرہ جات: صفحے: 175
مشاہدے: 109824
ڈاؤنلوڈ: 4006

تبصرے:

توحید مفضل
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 175 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 109824 / ڈاؤنلوڈ: 4006
سائز سائز سائز
توحید مفضل

توحید مفضل

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم

۲

(سَنُرِیهِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی َنْفُسِهِمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَهُمْ َنَّهُ الْحَقُّ)

ہم عنقریب اپنی نشانیوں کو تمام اطراف عالم میں اور خود ان کے نفس کے اندر دکھلائیں گے تاکہ ان پر یہ بات واضح ہوجائے کہ وہ برحق ہے۔ (سورہ مبارکہ فصلت، آیت 53)

۳

اثبات توحید اور اسرار کائنات پر صادق آل محمد علیہ السلام کے حیرت انگیز انکشافات کا مجموعہ

( توحید مفضّل)

تالیف

علّامہ ملّا محمّد باقر مجلسی (رح)

مزین با تقریظ

حضرت آیت اللّٰہ محسن حرم پناہی (رح )

تحقیق و ترجمہ

سیّدنسیم حیدر زیدی

۴

مشخّصات

نام کتاب: توحید مفضل

تالیف: علّامہ ملّا محمّد باقر مجلسی (رح )

تحقیق و ترجمہ: سےّد نسیم حیدر زیدی

نظر ثانی : علاّمہ رضی جعفرنقوی (دام برکاتہ )

کمپوزنگ: مبارک حسنین زیدی

طبع اول: 1429

تعداد: ایک ہزار

قیمت: 501 روپے

۵

فہرست

مشخّصات 5

انتساب : 14

( تقریظ ) از حضرت آیت اللہ محسن حرم پناہی (قدس سرہ الشرف ) 15

( گفتار مقدم ) از حضرت علامہ سید رضی جعفر نقوی (پرنسپل جامعة النجف ) 17

( حرف اول ) 20

( عرض ناشر ) 22

( مقدمہ ) 24

( مفضل بن عمر کا مختصرتعارف ) 27

مفضل بن عمر روایات کے آئینہ میں 27

مفضل بن عمر علماء کی نظر میں 29

ایک اعتراض کا جواب 30

توحید مفضل کی قرآن سے شباہت 32

کلام امام ـ کے معجزات 33

ایک شبھہ کا ازالہ 35

( مفضّل اور ابن ابی العوجاء کے درمیان آغاز گفتگو ) 36

( روز اوّل ) 39

( مفضل حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں ) 41

۶

( جہل و نادانی خلقت میں تدبیر کے انکار کا سبب ) 42

( وجود خدا پر پہلی دلیل ) 44

( انسان کے اندر واضح اور روشن آیات خدا کے وجود پر دلالت کرتی ہیں ) 45

( بچہ اگر ولادت کے وقت عاقل ہوتا تو کیا ہوتا؟ ) 48

( بچہ کے گریہ کے فوائد ) 49

( بچہ کے منہ سے رال ٹپکنے کے فوائد ) 50

( مرد و زن میں آلات جماع ) 51

( اعضاء بدن کے کام ) 51

( کائنات کے اُمور طبیعت کا نتیجہ نہیں ہیں ) 52

( غذا کے جسم میں پہنچنے پر معدہ اور جگر کا حیرت انگیز عمل ) 52

( حیات انسانی کا پہلا مرحلہ ) 53

( انسان کی ایک خاص فضیلت ) 54

( حواس خمسہ کے صحیح مقامات ) 54

( عقل ، آنکھ اور کان کی عدم موجودگی اختلال کا سبب ) 55

( طاق اور جفت اعضائ ) 57

( کلام کس طرح وجود میں آتا ہے ) 58

( دماغ کاسہ سر کے محکم حصار میں ) 59

( آنکھوں پر غلاف چشم کا خوبصورت پردہ ) 60

۷

( وہ کون ہے؟ ) 60

( اعضاء بدن بغیر علت کے نہیں ہیں ) 61

( دل کا نظام ) 62

( مقام مخرج ) 63

( دندان کی وضعیّت ) 64

( بالوں اور ناخنوں میں حسن تدبیر ) 64

( فرقہ مانویہ کے اعتراضات ) 65

( آب دہن خشک ہونے سے انسان کی ہلاکت ) 66

( انسان کا شکم لباس کے مانند کیوں نہ ہوا؟ ) 66

( انسان کے اندر چار حیرت انگیز قوتیں ) 68

( انسان کو قوت نفسانی کی ضرورت ) 70

( حفظ و نسیان نعمت خداوندی ہیں ) 70

( انسان کے لئے حیاء کا تحفہ ) 71

( قوت نطق اور کتابت فقط انسان کیلئے ہے ) 72

( وہ علوم جوانسانوں کو عطا کئے۔ اور وہ علوم جو عطا نہ کئے دونوں میں ان کی بھلائی ہے ) 73

( انسان سے کیوں اس کی عمر حیات کو پوشیدہ رکھا؟ ) 74

( خواب میں حسن تدبیر ) 77

( جہان میں تمام چیزیں انسان کی احتیاج و ضرورت کے مطابق ہیں ) 77

۸

( انسان کا اصلی معاش روٹی اور پانی ) 79

( انسان کا ایک دوسرے سے شبیہ نہ ہونا حکمت سے خالی نہیں ) 80

( حیوان کا جسم ایک حد معین پر رک جاتا ہے ) 81

( روز دوّم ) 83

( حیوانات کی خلقت ) 86

( حیوان کو ذہن کیوں نہ عطا کیا گیا ) 87

( تین قسم کے جاندار کی خلقت ) 88

( چوپائے ) 89

( چوپاؤں کی حرکت ) 90

( حیوانات کس طرح اپنے سر کو انسان کے سامنے جھکائے ہوئے ہیں ) 91

( کتّے میں صفت ِ مہر و محبّت ) 92

( حیوانات کی شکل و صورت ) 93

( جانوروں کو دُم کی ضرورت ) 93

( ہاتھی کی سونڈ کا حیرت انگیز عمل ) 94

( زرافہ،خداوند عالم کی قدرت کا عظیم شاہکار ) 95

( بندر انسان کی شبیہ ) 96

( حیوان کا لباس اور جوتے ) 97

( حشرات الارض اور درندوں کا مرتے وقت حیرت انگیز عمل ) 98

۹

( گوزن(1) کا پیاسے ہونے پر حیرت انگیز عمل ) 99

( لومڑی کس چالاکی سے اپنی غذا حاصل کرتی ہے ) 100

( دریائی سور کے غذا حاصل کرنے کا طریقہ کار ) 100

( بادل اژدھا پر موکّل کی مانند ) 101

( چیونٹی کی خلقت ) 101

( اسد الذّباب اور مکڑی کا شکار کرنا ) 102

(پرندے کی خلقت) 103

( خانگی مرغی ) 105

( انڈے کی بناوٹ ) 105

( پرندوں کا حوصلہ ) 106

( حیوانات میں اختلاف رنگ و شکل اتفاق کا نتیجہ نہیں ہے ) 106

( پرندے کے پر کی بناوٹ ) 107

( بعض پرندوں کے لمبے پاؤں ہونے کی علت ) 107

( چڑیا روزی کی تلاش میں ) 108

( رات میں باہر نکلنے والے جانوروں کی غذا ) 109

( چمگادڑ کی عجیب و غریب خلقت ) 110

( ابن نمرہ(1) کی شجاعت ) 111

( شہد کی مکھی ) 111

۱۰

( ٹڈی کا ضعف اور قوت ) 112

( مچھلی کی ساخت اور اس کی خلقت ) 113

( روز سوم ) 115

( آسمان کا رنگ بھی حکمت سے خالی نہیں ) 117

( سورج کا طلوع و غروب ہونا ) 118

( چارفصلوں کے فوائد ) 119

( گردشِ آفتاب ) 120

( تابش آفتاب ) 121

( چاند میں نمایاں دلیلیں خداوندتعالیٰ پر دلالت کرتی ہیں ) 121

( ستاروں کی حرکت ) 122

( ثریا، جوزہ ، شعریین، اور سہل میں حکمت ) 124

( بنات النعش ستارہ ہمیشہ ظاہر رہتا ہے ) 124

( چاند، سورج اور ستارے ہم سے اس قدر دور کیوں ہیں؟ ) 125

( رات اور دن پندرہ گھنٹے سے تجاوز نہیں کرتے ) 127

( سردی اور گرمی کے فوائد ) 128

( ہوا میں تدبیر ) 129

( ہوا کے فوائد ) 129

( زمین کی وسعت ) 131

۱۱

( زمین ثابت کیوں؟ ) 131

( زلزلہ اور مختلف بلائیں نازل ہونے کا سبب ) 132

( زمین اور پتھر کا فرق ) 132

( شمالی اور جنوبی ہوائیں ) 133

( پانی کی ضرورت ) 133

( آگ کے فوائد ) 135

( صاف اور بارانی ہوا ) 136

( بارش کے فائدے ) 138

( پہاڑ خداوند عالم کی عظیم نشانی ) 139

( معدنیات ) 140

( نباتات ) 141

( زراعت میں کیا خوبصورت تدبیر ) 142

( دانوں کی حفاظت ) 143

( صنعت ِ خیمہ کو صنعتِ درخت سے نقل کیا گیا ہے ) 144

( درخت کے پتے کی خلقت ) 145

( بیج ،چھلکا اور ان کی علت ) 146

( درخت میں تدبیر خداوندی ) 146

( انار کی خلقت ) 147

۱۲

( بیل بوٹے کی خلقت ) 148

( کھجور کا درخت ) 149

( ادویات اور ان کے فوائد ) 150

( روزچہارم ) 153

( آفات وبلیات اتفاق پر دلیل نہیں ) 155

( انسان گناہوں سے معصوم خلق کیوں نہ ہوا؟ ) 158

( آفات کی دلیل اور توجیہ ) 159

( خالق و مبدأ جہاں پر طعنہ زنی کرنے والے لوگ کیا کہتے ہیں ) 162

( عالم کا نام یونانی زبان میں ) 165

( تعجب اس قوم پر جو حکمت پر یقین رکھ کر حکیم کو جھٹلاتی ہے ) 166

( عقل اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتی ) 166

( خدا کے بارے میں اس قدر اختلاف کیوں؟ ) 168

( طبیعت حکم خدا کے تحت ) 171

( انسان کا ناقص الخلقت ہونا اس کے اتفاقاً پیدا ہونے پر دلیل نہیں ) 171

۱۳

انتساب :

میں اپنی اس ناچیز خدمت

کو

حضرت قائم آل محمد الحجة ابن العسکری (عجل اللّٰہ تعالیٰ فرجہ'الشریف )

اور

اپنے جداعلیٰ حکیم مولانا سید خورشید حسن زیدی (قدس سرہ الشریف )

کے نام مُعَنوَن کرتا ہوں۔

نسیم حیدر زیدی

۱۴

( تقریظ ) از حضرت آیت اللہ محسن حرم پناہی (قدس سرہ الشرف )

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم

الحمد للّٰه ربّ العالمین والصٰلوة والسلام علی خیر خلقه محمد وٰاله الطاهرین و لعنة اللّٰه علی اعدائهم اجمعین امابعد :

امام برحق: حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا :

(رحم اللّٰه امرئَ أَحیٰ أَمرَنا) خداوند عالم اس شخص پر اپنی رحمتیں نازل کرے جو ہمارے أَمر (یعنی امامت) کو زندہ کرے۔ آئمہ ٪ کے امر کو زندہ کرنے کے لیے بہترین راہوں میں سے ایک راہ ان کی فرمائشات کی نشر واشاعت ہے، کہ آپ نے خود فرمایا: ہماری گفتگو اور کلام سے لوگوں کو آگاہ کرو کہ لوگ ہماری گفتگو اور کلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں اگر وہ آگاہ ہوجائیں تو یقینا ہماری اطاعت کریںگے، ان لوگوں میں سے کہ جنھیں یہ توفیق حاصل ہوئی، اور حضرت امام جعفر صادق ـ کی مستجاب دعا کے شامل حال ہوئے اور خداوند عالم کے لطف وکرم کا موردقرار پائے، یعنی آئمہ اطہار٪ کے آثار و اخبار کی نشرواشاعت کیلئے اقدام کیا، جناب مستطاب سلالة الاطیاب فا ضل و کامل آقای سید نسیم حیدر زیدی دام توفیقہ ہیں جنھوں نے اس کتاب میں حدیث مفضّل کو اردو کے قالب میں

۱۵

ڈھالنے کا کام انجام دیا۔

میں امید کرتا ہوں کہ خداوند عالم موصوف کے اس شائستہ عمل کو قبول کرے ، اور اسے ان کے لئے آخرت کا ذخیرہ اور قارئیں کیلئے ہدایت کا وسیلہ قرار دے۔

وَالسَّلامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الهُدیٰ

قم ۔ الاحقر محسن حرم پناھی۔

بتاریخ ماہ ذیقعدہ 1416۔ ھ۔ ق

مھر۔

۱۶

( گفتار مقدم ) از حضرت علامہ سید رضی جعفر نقوی (پرنسپل جامعة النجف )

تمام پیغمبروں کی تبلیغ کی ابتداء اور جملہ آسمانی شریعتوں کا مرکز و محور ''عقیدہ توحید'' کو بنی نوع انسان کے ذہنوں میں راسخ کرنا رہا ہے کیونکہ اس عقیدے کو چھوڑنے ہی کی وجہ سے دنیائے انسانیت ایسے اوہام و خرافات کا شکار ہوئی کہ آج تک ان سے چھٹکارا حاصل نہ کرسکی۔

خدائے واحد کو چھوڑ کر کبھی آفتاب و ماہتاب کی پرستش کی کبھی آگ اور پانی کو اپنا خدا مانا کبھی ستاروں کی چمک اور دمک سے مسحور ہوکر انھیں اپنا معبود سمجھنے کی غلطی کی، اور کبھی ہر قبیلے نے اپنا ایک خدا مان لیا، اور خانہ کعبہ میں خدائے واحد کی عبادت کے بجائے قبیلوں کی تعداد کے مطابق ''360'' بتوں کی خدائی کا کلمہ پڑھا جانے لگا۔

جبکہ پروردگار عالم کی جانب سے مبعوث ہونے والے تمام ہادیان برحق نے نہایت واضح الفاظ میں بنی نوع انسان کو ''توحید '' کی طرف دعوت دی مگر اُن امتوں نے ان تعلیمات کو یکسرتبدیل کرکے رکھ دیا۔

چنانچہ بنی نوع انسان کو جادہ توحید پر از سر نو گامزن کرنے کیلئے مالک دو جہاں نے اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفی (ص) کو مبعوث فرمایا جن کا لایا ہوا پیغامِ توحید اور جن کی پیش کی ہوئی شریعت کو صبح قیامت تک باقی رہناہے۔

اور ہم پر اپنے مالک دوجہاں کا یہ بھی عظیم احسان ہے کہ اس نے حضور اکرم (ص)کے بعد ہماری ہدایت کے لیے ایسے ہادیان برحق کا انتخاب کیا جو سب کے سب نور ِ پیغمبر کے ورثہ دار تھے اور تمام

۱۷

صفات جمال و کمال میں حضور اکرم (ص) کے آئینہ دار تھے۔

ان مقدس اور معصوم ہستیوں نے ہر دور میں ''توحید کے پیغام'' کو ایسے روشن دلائل کے ساتھ بنی نوع انسان تک پہونچانے کی جدوجہد فرمائی کہ ان کی تعلیمات کو پیش نظر رکھنے والا انسان کبھی بھی اوہام میں الجھ ہی نہیں سکتا خصوصاً مولاء کائنات امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے وہ خطبے جو نہج البلاغہ اور دیگر اسلامی کتابوں کے صفحات پر جگمگارہے ہیں ، ان میں توحید کی ایسی روشن دلیلیں ہیں جن کا عُشرِ عشیر بھی دنیا کے کسی اور رہنماء کے اقوال میں تلاش نہیں کیا جاسکتا ، کون ہے جو آپ کے اس فرمان مقدس کے ہم پلہ کوئی کلام پیش کرسکے؟ جس میں آپ فرماتے ہیں کہ :

مَا وَحَّدَه' مَن کَیَّفَه' ، وَلَا حَقِیقَتَه' اَصَابَ مَنْ مَثَلَهُ، ولا اِیَّاه عنیٰ شَبَّهَه'، وَلَا صَمَدَه' مَنْ اَشَارَ الیه وَ تَوَ هَّمَه'، کل مَعْرُوفٍ بِنَفْسِهِ مَصْنُوع وَکُلُّ قائم فی سواهُ مَعْلُول ، فَاعِل لَابِا ضْطِرَابِ اٰلٰةٍ، مُقَدِّرلَا بِحَوْلِ فِکْرَةٍ، غَنِیّ لَا بِاِسْتِفَادَةٍ، ولا تَصْحَبْهُ الْاَوْقَاتِ وَلَا تَرفِدُه' الْاَدْوَات سَبَق الْاَوقَاتُ کَونُهُ وَالعَدََمَ وَجُودُهُ وَالِاّبْتِدَآئَ أَزَلُه' بتشعِیرِه المُشَاعِرَ عُرِفَ أنْ لَا مَشْعَرَ لَه

( خطبہ نمبر 184 نہج البلاغہ )

( جس نے اسے مختلف کیفیتوں سے مُتَّصف کیا اس نے اسے یکتا نہیں سمجھا جس نے اس کا مثل ٹھہرایا اس نے اس کی حقیقت کو نہیں پایا جس نے اُسے کسی چیز سے تشبیہ دی اس نے اس کا قصد نہی کیا، جس نے اسے قابل اشارہ سمجھااور اپنے تصور کا پابند بنایا اس نے اس کا رُخ نہیں کیا جو اپنی ذات سے پہچانا جائے وہ مخلوق ہوگا اور جو دوسروں کے سہارے پر قائم ہو وہ علت کا محتاج ہوگا، وہ فاعل ہے بغیر آلات کو حرکت میں لائے، وہ ہر چیز کا اندازہ مقرر کرنے والا ہے ، بغیر فکرکی جولانی کے وہ توانگر اور غنی ہے

۱۸

بغیر دوسروں سے استفادہ کیے ، نہ زمانہ اس کا ہم نشین اور نہ آلات اس کے معاون و معین ہیں، اس کی ہستی زمانے سے بیشتر اس کا وجود عدم سے سابق اور اس کی ہمبستگی نقطہ آغاز سے بھی پہلے ہے اس نے جو احسا س و شعور کی قوتوں کو ایجاد کیا اسی سے معلوم ہوا کہ وہ خود حواس و آلاتِ شعور نہیں رکھتا۔

اس طرح ہمارے تمام ہادیان برحق نے توحید کا جو درس دیا ہے، وہ تاریخ بشریت میں بے مثال ہے ان ہی دروس میں سے ایک عظیم درس وہ ہے جو امام ششم حضرت امام جعفر صادق ـ نے اپنے جلیل القدر شاگرد ''مفضّل'' کو دیا تھا، جس میں اسلام کے اس بنیادی عقیدے کو نہایت مستحکم دلائل سے بیان فرمایاہے۔

برادر عزیز مولانا سید نسیم حیدر زیدی صاحب لائق مبارکباد ہیں جنہوں نے اس عظیم الشان کتاب کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ میری دعا ہے کہ پروردگار عالم بتصدق آئمہ معصومین ٪ ، موصوف کی اس کوشش کو قبول فرمائے اور انھیں زیادہ سے زیادہ خدمتِ دین مبین کی توفیق عطا فرمائے۔ نیز جملہ اہل ایمان کو اس علمی شہ پارہ سے فیض حاصل کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔

آمین۔ بحق طہ وآل یس ۔ والسلام احقر سید رضی جعفر نقوی

۱۹

( حرف اول )

انبیاء (ع) کی تبلیغ میں ''توحید کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ذات واجب الوجود کی آیات میں غور وفکر اور آسمانی کتابوں اور صحیفوں کے مطالعہ سے اس حقیقت تک پہنچا سکتا ہے کہ انبیاء و مرسلین ٪ کا ''توحید'' کی تبلیغ میں اتنے زیادہ اہتمام اور تاکید کی وجہ یہ ہے کہ ''توحید'' کائنات کے نظام ، کی بنیاد ہے اِسی کے پرتو میں انسان تمام فضائل و برکات کے سرچشمہ تک پہنچ سکتا ہے اور بس اسی راہ سے اپنے عقیدے، نفسیات اور رفتار و کردار میں اعتدال باقی رکھ سکتا ہے۔ نیز ہر فرد اور انسانی سماج کی حقیقی سعادت خوش بختی توحید ہی کی مرہون منت ہے اور انسانوں میں ہر طرح کا اختلاف ، انتشار ، گمراہی، زوال اور تباہی و بربادی شرک سے پیدا ہوتی ہے۔

خدائے واحد پر ایمان ، ایک ایسی زنجیر ہے جو تمام لوگوں کے دلوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔ نسلی، علاقائی اور قومی اختلافات کو ختم کردیتی ہے اور مختلف انسانی سماجوں کو اختلاف و تفرقہ سے جو کمزور ، تنزلی و انحطاط کا باعث ہے۔ نجات بخشی ہے۔

زمانہ جاہلیت میں عرب سماج کے پاس عقیدہ توحید سے انحراف اور ہر قبیلہ کا اپنا مخصوص بت ہونے کی وجہ سے، اتحاد و اتفاق کا کوئی محور و مرکز نہیں تھا، اسی وجہ سے وہ لوگ کمزور تھے لڑائی جھگڑے اور جنگ و خونریزی ہوتی رہتی تھی لیکن اسلام کے ظہور اور بت پرستی کے خاتمہ کے بعد توحید کی مرکزیت پر اتحاد و اتفاق کے نتیجہ میں وہ ایک ایسا ناقابل تسخیر اور طاقتور سماج بن کر اُبھرے جس نے بہت تھوڑے سے ہی عرصے میں نہ فقط یہ کہ جزیرة العرب بلکہ ایران و روم جیسی دو پرانی تہذیبوں پر بھی غلبہ پالیا اور بہت سے علاقوں کو پرچم توحید کے زیر سایہ لے آئے۔

۲۰