توحید مفضل

توحید مفضل0%

توحید مفضل مؤلف:
زمرہ جات: توحید
صفحے: 175

توحید مفضل

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علّامہ ملّا محمّد باقر مجلسی (رح)
زمرہ جات: صفحے: 175
مشاہدے: 108460
ڈاؤنلوڈ: 3863

تبصرے:

توحید مفضل
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 175 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 108460 / ڈاؤنلوڈ: 3863
سائز سائز سائز
توحید مفضل

توحید مفضل

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

دکھائی نہیں دیتی، اور کوئی بھی تدبیر و حیلہ اُسے عبور کرنے کے لئے کارگر ثابت نہیں ہوتا، اور اس پانی کے پیچھے چاندی وغیرہ کے پہاڑ موجود ہیں۔ تو یہ وہ مقام ہے کہ جہاں تدبیر خالق حکیم محل فکر بنی ہوئی ہے ، خداوند عالم چاہتا ہے کہ وہ اپنی قدرت اور اپنے وسیع خزانوں کا پتہ بتائے، تاکہ اسکے بندے جان لیں کہ اگر وہ چاہے تو اپنے بندوں کو سونا اور چاندی کے پہاڑ بھی عطا کرسکتا ہے مگر اس میں خود اس کے بندوں کی بھلائی نہیں ، اس لئے کہ اگر ایسا ہوجائے تو وہی چیز رونما ہوگی کہ جو بیان کی چاچکی ہے، کہ لوگوں کے نزدیک اس کی قدر و قیمت کم ہوجائے گی، اور لوگ اس سے کم استفادہ کرینگے، تم اس مطلب کواس چیز سے سمجھ سکتے ہو کہ کبھی لوگوں کی بنائی ہوئی بہترین اور نفیس چیز مثلاً نایاب برتن اور دوسرا سامان کمی سے پایا جاتا ہے اور یہ سامان قیمتی اور گرانبہا اہمیت کا حامل ہوتا ہے ،لیکن جہاں وہ چیز زیادہ ہوئی ، اور تمام لوگوں کے ہاتھوں تک پہنچی تو اس کے قدر وقیمت گرجاتی ہے تو پس نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چیزوں کی اہمیت ان کی نایابی میں ہے۔

( نباتات )

اے مفضل۔ذرا غور وفکر کرو،نباتات ، گیاہ اور ان کے فائدوں پر کس طرح سے پھل بطور غذا ، کاہ (جو اور گندم کے ڈنٹھل وغیرہ) بطور گھاس، سوکھی لکڑیاں جلانے کیلئے، لکڑیاں ، تختوں اور فرنیچر وغیرہ بنانے کیلئے اور درخت کی چھال ، پتے ، جڑ اور گون مختلف قسم کے کاموں میں استعمال ہوتے ہیں۔

اے مفضل کیا تم اس چیز کے بارے میں فکر کرتے ہو کہ اگر پھلوں کو اس طرح زمین پر پاتے کہ نہ وہ درخت پر ہوتے ، اور نہ ان شاخوں پر کہ جو انہیں اٹھائے ہوئے ہیں، تو کیا تم جانتے ہو کہ کیا ہوتا؟ اور معیشت میں کس قدر خلل ایجاد ہوجاتا کہ غذا تو موجود ہوتی مگر لکڑی، تختہ ، سوکھی لکڑیاں ، کاہ اور ان سے حاصل ہونے والے تمام فوائد جو بیان کئے جا چکے ہیں، سب کے سب ختم ہوجاتے اس کے علاوہ

۱۴۱

درختوں اور سبز پودوں کی وجہ سے خوبصورت مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جسے دیکھ کر انسان ایسا لطف اندوز ہوتا ہے کہ دنیا میں کسی بھی چیز کو دیکھ کر اتنا لطف اندوز نہیں ہوتا۔

( زراعت میں کیا خوبصورت تدبیر )

اے مفضل ذرا اس محصول زراعت پر غور کرو کہ کس طرح تدبیر کی گئی ہے کہ ایک دانے سے سو یا کمتر و بیشتر دانے نکلتے ہیں ذراسوچو کہ اس وقت کیا عالم ہوتا کہ اگر ایک دانے سے فقط ایک ہی دانہ نکلتا، پھر آخر کیوں اس قدر پھل نکلتے ہیں سوائے اس کے کہ غلہ میں وسعت پیدا ہو، اور کسان اس میں سے کچھ کو کاشت کرے اور کچھ کو دوسری فصل ہونے تک اپنی ضرورت کے استعمال میں لائے ، کیاتم نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی بادشاہ یہ چاہتا ہے کہ وہ ایک شہر آباد کرے تو اس کا طور طریقہ بھی یہی ہے کہ وہ اسکے رہنے والوں کو اس قدر دیتا ہے کہ وہ اس میں سے کچھ کو کاشت کریں اور کچھ اس کے محصول ہونے تک اپنی ضرورتوں میں استعمال کریں، کیا تم نے اس امر میں تدبیر کا مشاہدہ کیاجو بیان کیا جاچکا ہے کہ زراعت سے کس طرح وسیع مقدار میں ثمر حاصل ہوتا ہے کہ جو انکی ضرورتوں کو بھی پورا کرتا ہے، اور دوبارہ کاشت کے بھی کام آتا ہے، جس طرح سے درخت وپودے اور کھجور کے درخت نشوونما پاتے ہوئے بہت زیادہ سے ہوجاتے کیا تم نے نہیں دیکھا کہ درخت کی جڑ کے اطراف نئے شاخہ نشوونما پاتے ہیں، آخر ایسا کیوں ہے؟ سوائے اس کے کہ لوگ انہیں کاٹیں، اور اپنی ضرورتیں پوری کریں، اور جو باقی بچ جائے اسے زمین میں دوبارہ کاشت کریں، پس اگر ایک درخت کی ایک جڑ ہوتی اور اس کے گرد دوسرے نئے شاخہ نہ نکلتے تو کبھی یہ بات ممکن نہ ہوتی کہ انہیں اکھاڑ کر اپنی ضرورتوں کو پورا کیا جائے، یا انہیں دوبارہ کاشت کردیا جائے، اور اس کے علاوہ شاخہ اگنے کی علت یہ ہے کہ اگر درخت نابود ہو جائے تو اس شاخہ کے ذریعہ دوبارہ درختکاری کی جاسکے ۔

۱۴۲

( دانوں کی حفاظت )

اے مفضل ، ذرا غوروفکر کرو بعض دانوں ، مثل ، مونگ،ماش، لوبیا، اور اس قسم کے دوسرے دانوں پر کہ تم انہیں دیکھو گے کہ وہ ایک ایسے ظرف سے نکلتے ہیں کہ جو تھیلے کی مانند ہے، تاکہ وہ ظرف انہیں اس وقت تک آفات سے محفوظ رکھے جب تک کہ وہ محکم و سخت نہ ہوجائیں ، بالکل اسی طرح ، جس طرح سے جنین کے لئے بچہ دانی ہے، اور ہاں گندم اور اس قسم کے دوسرے دانوں پر تم دیکھو گے کہ چھلکے موجود ہیں جو طبقہ بہ طبقہ ایک دوسرے کے اوپر تکیہ کئے ہوئے ہیں اور ان کے سر ایک ڈنٹھل نما ہے ، تاکہ وہ پرندوں کے لئے رکاوٹ اور مانع ہو اور زراعت کسان کے لئے زیادہ باقی بچے اب اگر کوئی یہ کہے کہ مگر ایسا نہیں کہ پرندے گندم اور دانوں کو کھائیں؟ تو اسے جواب دیا جائے گا کہ یقینا، خالق حکیم کی تدبیر اسی طرح ہے ، اس لئے کہ پرندے بھی خدا کی مخلوق ہیں اور خداوند متعال نے انکے لئے بھی ان چیزوں میں حصہ رکھا ہے کہ جو زمین سے اگتی ہیں ، لیکن دانوں کو پردے میں اس لئے رکھا گیا ہے تاکہ پرندے تمام دانوں تک دست رسی پیدا نہ کرسکیں کہ ایسا ہونے سے وہ دانوں کے ساتھ کھیلیں گے اور اسے خراب کردیں گے اس لئے اگر پرندہ ایسے دانوں تک پہنچ جائے جہاں اسکے لئے کوئی رکاوٹ نہ ہوتو وہ ان کے کھانے پر اس طرح پڑ جاتا ہے کہ وہ انہیں ختم کرکے ہی دم لیتا ہے اور اس طرح کھانے سے اس کا نظام ہضم خراب ہوجاتا ہے،اور وہ مرجاتا ہے اور کسان خالی ہاتھ رہ جاتا ہے، لہٰذا اس بناء پر دالوں اور دانوں کو پردہ میں قرار دیا، تاکہ وہ انکی حفاظت کرے اور پرندے ان تک کمی سے دسترسی پیدا کرسکیں، اورایک معین مقدار تک ان سے اپنی غذا حاصل کرلیں،ا ور اکثر دالیں، اور دانے انسانوں کے لئے باقی بچ جائیں اس لئے کہ انسان اس غذا پر ترجیح رکھتا ہے ، کیونکہ وہ اس کے آمادہ کرنے پر زحمت و مشقت اور سختی کا سامنا کرتا ہے اور پھر انسان کی احتیاج پرندوں کی احتیاج سے بہت زیادہ ہے۔

۱۴۳

( صنعت ِ خیمہ کو صنعتِ درخت سے نقل کیا گیا ہے )

اے مفضل ،ذرا غور فکر کرو اس حکمت پر جو درختوں اور نباتات کے خلق کرنے میں بروئے کار لائی گئی ہے کہ وہ ہمیشہ حیوانات کی طرح غذا کے محتاج ہیں لیکن ان کا منھ حیوانات کے منھ کی طرح نہیں اور نہ وہ حیوانات کی طرح حرکت رکھتے ہیں ، کہ جو حرکت کرتے ہوئے غذا کی طرف جائیں لہٰذا انکی جڑوں کو زمین میں رکھا گیا تاکہ وہ زمین سے غذا حاصل کریں، اور شاخوں و پتوں تک اس غذا کو پہنچائیںتو گویا زمین ان کے لئے ماں کی مانند ہے کہ جو ان کی پرورش کرتی ہے اور انکی جڑیں انکے منھ کی جگہ پر ہیں کہ جو زمین کو پکڑے ہوئے ہیں تاکہ اس سے غذا حاصل کریں جس طرح سے حیوانات اپنی ماں سے غذا حاصل کرتے ہیں ، اے مفضل ، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خیمہ کے ستونوں کو کس طرح طناب کی مدد سے ہر سمت باندھا جاتا ہے تاکہ خیمہ سیدھاکھڑا رہے اور ادھر اُدھر نہ جھکے اور یہی نظام تمام نباتات میں پاؤگے کہ انکی جڑیں طناب کی مانند زمین میں پھیلی ہوئی ہیں تاکہ وہ اسے کھڑا رکھیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو کس طرح ممکن تھا کہ تیز ہوا میں کھجور اورا س قسم کے دوسرے بلند قوی درخت کھڑے رہتے ، پس ذرا غور کرو اس حکمت و تدبیر پر کہ کس طرح وہ اس تدبیر سے سبقت کئے ہوئے ہے کہ جو لوگ اپنے خیمہ پردے وغیرہ لگانے کے دوران استعمال کرتے ہیں ، بلکہ یہ کہا جائے کہ خیمہ اور اس قسم کی دوسری چیزیں خلقت درخت کو دیکھ کر بنائی گئی ہیں ، اس لئے کہ خلقت درخت صنعت خیمہ سے پہلے ہے ، مگر کیا تم نہیں دیکھتے کہ لکڑیاں اور ستون درخت سے لئے جاتے ہیں پس ان تمام باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صنعت خیمہ کو درخت کی صنعت سے نقل کیا گیا ہے۔

۱۴۴

( درخت کے پتے کی خلقت )

اے مفضل۔ ذرا پتے کی خلقت پر غور کرو، تم مشاہدہ کرو گے کہ اس کے اند رگیں موجود ہیں اور ان سب کے درمیان ایک موٹی رگ ہے کہ جو پتے کی لمبائی تک پھیلی ہوئی ہے اور کچھ باریک اور غلیظ رگیں ہیں جو محکم اور مضبوط طور پر ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں کہ جو کھل نہیں سکتیں، اگر پتہ بھی ان چیزوں میں سے ہوتا کہ جسے انسان خود اپنے ہاتھوں سے دوسری چیزوں کی طرح بناتا تو بشر کبھی بھی پتوں کے بنانے سے فارغ نہ ہوتا اور فقط ایک درخت ایک سال میں بنتا ، اس لئے کہ اس کی بناوٹ کے دوران مختلف آلات و ادوات اور مختلف آراء و مشورہ وغیرہ کی ضرورت پڑتی ، لیکن خداوند عالم نے اس طرح کی عظیم تدبیر رکھی کہ وہ بہار کے چند دنوں میں تمام کے تمام بن جاتے ہیں۔ اس طرح کہ تمام پہاڑ، دشت، صحرائ، و بیابان کو پر کردیتے ہیں کہ اس میں کسی قسم کی رائے و مشورہ کی ضروت نہیں پڑتی، بلکہ وہ اس عمل کو اس غریزہ کے تحت انجام دیتے ہیں کہ جو ان میں نافذ ہے ، اے مفضل ان تمام باریک و نازک رگوں کی علتوں کو جان لو کہ انہیں کیوں پتہ میں پھیلنے کے لئے چھوڑا گیا ہے یہ اس لئے تاکہ یہ رگیں پانی کو پتہ تک پہنچائیں اور اسے سیراب کریں، جیسا کہ بدن کی رگیں بھی اسی طرح منتشر ہیں، تاکہ غذا کو بدن کے ہر حصہ میں پہنچادیا جائے، غلیظ اور موٹی رگوں میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ وہ اپنی سختی کی وجہ سے پتہ کی حفاظت کرتی ہے تاکہ پتہ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر مرجھانے سے محفوظ رہے ، لہٰذا تم ایک پتے میں رگو ں کو اس طرح پاؤ گے جس طرح سے ایک کپڑے کے پردے کو لکڑیوں کے ساتھ اس کے طول و عرض کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا ہو۔تاکہ وہ ایک دوسرے کو مضبوطی سے پکڑے رہیں اور کپڑا ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے محفوظ رہے پس صناعت بشر اگرچہ خلقت حکیم کی حکمت پر دلالت کرتی ہے ، مگر در حقیقت وہ اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔

۱۴۵

( بیج ،چھلکا اور ان کی علت )

( اے مفضل) ذرا غور کرو، بیچ اور پھلوں کے دانوں پر کہ کس طرح ان میں حکمت رکھی گئی ہے انہیں قائم مقام درخت قرار دیا ، تاکہ اگر درخت کے اُگنے پر کوئی رکاوٹ پیش آئے تو اسے کاشت کیا جاسکے، بالکل اُسی طرح جس طرح سے قیمیتی اور بہترین أشیاء کو مختلف مقامات پر رکھا جاتا ہے کہ اگر ایک کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آجائے تو دوسری چیز ا سکی نیابت کرسکے، اور اب چھلکا کہ یہ اپنی سختی کی وجہ سے پھلوں کی نرمی اور لطافت کو حفظ کرتے ہیں کہ اگر چھلکا نہ ہوتا تو پھل خراب ہوجاتے اور درخت سے بکھر جاتے اور جلد ہی فاسد ہوجاتے ، بیجوں میں سے بعض بیچ ایسے ہیں کہ جو غذائیت کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں اور بعض سے تیل بھی نکلالا جاتا ہے کہ جو مختلف کاموں کے استعمال می لایا جاتا ہے ان تمام باتوں سے تمہارے سامنے بیچ اور چھلکے کی اہمیت واضح اور روشن ہوگئی ، اب ذرا غور کرو کہ آخر کھجور کے درخت اور انگور کی بیل پر اس قدر لذیذ پھل کیوں نکلتے ہیں، حالانکہ ان کے اوپر اس قسم کی دوسری چیزیں بھی تو وجود میں آسکتی تھیںکہ جو کھانے کے قابل نہ ہو جیسے چنا وغیرہ ، ایسا اسے لئے ہے تاکہ انسان ان سے مکمل طور پر استفادہ کرسکے۔

( درخت میں تدبیر خداوندی )

اے مفضل۔ ذرا غور وفکر کرو اس تدبیر پر کہ جو درخت میں استعمال ہوئی ہے تم مشاہدہ کروگے کہ وہ ایک سال میں ایک بار مرتا ہے اور وہ بہت ہی زیادہ حرارت کو اپنے تنے کے اندر قید کرلیتا ہے کہ جس سے مواد میوہ پیدا ہوتا ہے اورپھر درخت دوبارہ زندہ ہوجاتا ہے ، اور وہ مواد میوہ شگوفہ کی صورت میں

۱۴۶

باہر آتا ہے اورپھر یکے بعد دیگرے پھل فراہم کرتاہے اُسی طرح جیسا کہ بعض چیزوں کو ہاتھ سے پکایا جاتا ہے اور شاخوں کو دیکھوگے کہ وہ تمہاری طرف اس طرح پھلوں کو بڑھاتی ہیں جس طرح سے کوئی ہاتھ سے بڑھا رہا ہو، اور خوشبو دار پودوں کے دیکھو گے کہ وہ اسی طرح اپنی شاخوں کی مدد سے تمہاری طرف پھولوں کو پیش کرتے ہیں جیسا کہ وہ خود چل کر تمہاری طرف آرہے ہوں ، اب ذرا بتاؤ کہ یہ حکمت و تدبیر کس کی طرف سے ہے اسکی علت سوائے ا سکے کچھ بھی نہیں کہ انسان درختوں کے پھلوں اور ان کی مختلف خوشبو سے لذت حاصل کرے ، تعجب ہے ان لوگوں پر کہ جو بجائے اس کے کہ وہ ان نعمتوں پر خداوندکا شکریہ ادا کریں وہ ان نعمتوں سے کفر اختیار کرتے ہیں۔

( انار کی خلقت )

اے مفضل۔ انار کی خلقت اور اس میں استعمال شدہ تدبیر پر غور کرو کہ تم اس میں چربی کی مانند ٹیلوں کو پھیلا ہو اپاؤگے اور اسکے دانوں کو اس طرح لگایا گیا ہے جیسا کہ ہاتھوں سے ٹاکا گیا ہو،اور وہ مختلف حصوں میں تقسیم ہوئے ہیں اور ہر حصہ ایک لفافے میں بند ہے ، ایسا لفافہ کہ جو تعجب آور، لطیف اور حیرت انگیز طریقہ پر بنایا گیا ہو اور اسی طرح اسکی کھال جو دانوں کو اُٹھائے ہوئے ہے، کیا اب بھی اس صنعت کے اندر کوئی تدبیر باقی رہ جاتی ہے، اب اگر کوئی یہ کہے کہ کیا یہ صحیح نہ ہوتا کہ انار کے اندر فقط دانے ہوتے تو ہم کہیں گے کہ انار میں ایسی تدبیر اس لئے استعمال نہیں ہوئی کہ انار کا ایک دانہ دوسرے دانہ کی حفاظت نہیں کرسکتا تھا، لہٰذا اس چربی کو اسکے اندر رکھا گیا تاکہ وہ دانے کی پرورش کرے اور اسکے لئے غذا کا بندوبست کرے، کیا تم نہیں دیکھتے کہ دانے کی جڑ اس چربی میں داخل ہوتی ہے اور پھر یہ کہ دانہ کو اس کے لفافے میں بند کیا گیا ہے تاکہ بکھرنے سے محفوظ رہ سکے، اور اسکے اوپر محکم، چھلکے کاخول اڑا دیا، تاکہ وہ اسے مختلف آفات سے بچائے ، میری یہ تمام گفتگو انار کی تعریف میں بہت کم ہے جبکہ

۱۴۷

انار کی تعریف و توصیف کے بارے میں ان لوگوں کے لئے بے انتہا مطالب ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ اس کے بارے میں گفتگو یا تقریر کریں لیکن میں نے جس قدر اسکی تعریف بیان کی وہ اس کی حکیمانہ خلقت پر دلیل کے لئے کافی ہے۔

( بیل بوٹے کی خلقت )

اے مفضل۔ فکر کرو، ضعیف بیل بوٹے کہ جسکا پھل بے انتہا سنگین ہے جیسے کدو، کھیرا، خربوزہ، وغیرہ اور اس تدبیر پر کہ جو ان میں استعمال کی گئی ہے، لہٰذا جب یہ بات طے ہوئی کی اس میں اس قسم کے پھل لگیں تو اُسی دن سے اسکے لئے یہ بات مقدر ہوئی کہ وہ زمین پر بچھی ہونی چاہییے کہ اگر یہ بھی سنبل اور دوسرے درختوں کی طرح کھڑی ہوتی تو ہرگز ان پھلوں کے وزن کو برداشت نہیں کرسکتی تھی، غور کرو کہ یہ بیل کس طرح زمین پر پھیلی ہوئی ہے اور کس طرح زمین نے اس کے پھلوں کو اپنے دوش پر اٹھا رکھا ہے، اور کھیرے کی بیل کو دیکھو کہ وہ زمین پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کے پھل اس کے اردگرد بکھرے ہوئے ہیں، اس بلی کی مانند کہ جو زمین پر لیٹی ہوئی ہے، اور اسکے بچے اس کے اردگرد جمع ہیں کہ جو اُس سے دودھ پینا چاہتے ہیں۔ اب ذرا غور کرو کہ یہ پھل کیسے مناسب موقع پر نکلتے ہیں جبکہ گرمی کی شدت اور ہوا گرم ہو، اور لوگ انہیں شوق وولولے کے ساتھ خریدتے ہیں ، اور ان سے استفادہ کرتے ہیں ، اگر یہ سردیوں میں اُگتے تو لوگ مسلم طور پر ان سے دوری اختیار کرتے اور انہیں کھانے کے لئے استعمال نہ کرتے اور اسکے علاوہ و ہ ان کے لئے نقصان دہ بھی ہوتے ، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کھیرا سردیوں میں پکتا ہے، تو لوگ اسکے کھانے کی طرف رغبت نہیں رکھتے، مگر وہ لوگ جو زیادہ ہی حریص ہوں کہ وہ ان چیزوں کے استعمال سے بھی نہیں رکتے کہ جو انکے لئے نقصان دہ اور مضر ہیں اور اُسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اُن پر اُن پھلوں کا کھان ناگوار گذرتا ہے۔

۱۴۸

( کھجور کا درخت )

اے مفضل، ذرا غور کروکھجور کے اس درخت پر جو مادہ ہے اور اُسے ایک نر کی ضرورت ہوتی ہے ، لہٰذا اسکے لئے ایک نر بھی رکھا گیا ہے جو اسکے ساتھ عمل تلقیح کو انجام دیتا ہے تو گویا کھجور کا نر بھی حیوان کے نر کی طرح ہے کہ جو اپنی مادہ کے ساتھ مقاربت کرتا ہے، تاکہ اسکی مادہ حاملہ ہوجائے مگر مادہ کھجور حاملہ نہیں ہوتی ذرا کھجور کی خلقت پر غور کرو تم مشاہدہ کروگے کہ اسکے طول وعرض کے حصہ کو بغیر کسی دھاگے کے اس طرح سیا گیا ہے جس طرح سے کوئی ہاتھ سے سیتا ہے، تاکہ وزنی شاخیں تیز ہوا کی وجہ سے ٹوٹ نہ جائیں، اور اس وقت جبکہ وہ کھجور کا کامل درخت بن جاتاہے تو اُسے چھت، پل اور اس کے علاوہ دوسری چیزوں کے استعمال میں لایا جاتا ہے اور اس طرح تم اس کی لکڑی کے تختوں کو دیکھو گے کہ اس کے اجزاء طول و عرض کے اعتبار سے بعض ، بعض میں پیوست ہیں جیسا کہ وہ کپڑا کہ جو دھاگوں سے بُنا ہو کہ اُس میں دھاگے ایک دوسرے میں پیوست ہوتے ہیں اور اسی طرز پر اسکے لئے استحکام و پائیداری ہے، تاکہ وہ ان آلات و ادوات کے بنانے میں استعمال ہوسکے، کہ جن سے مختلف قسم کا کام لیا جاتا ہے، لیکن اگر کھجور کا درخت پتھر کی مانند خشک ہوتا تو اسے چھت ، دروازے ، تختے ، صندوق اور اس قسم کی دوسری چیزوں میں استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا ، کھجور کے عظیم ترین فائدوں میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ پانی پر ٹھہر جاتا ہے اور نہیں ڈوبتا سب اس بات کو تو جانتے ہیں مگر جو عظیم راز اُس میں پوشیدہ ہے اُسے سب نہیں جانتے اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر کس طرح سے یہ کشتیاں اور جہاز جو پہاڑوں کی مانند وزن کو اُٹھائے ہوئے ہیں پانی پر ٹھہر سکتے تھے اور کس طرح سے لوگ کم خرچ کے ذریعہ تجارت کے مال کو ایک شہر سے دوسرے شہر لے جاتے، اس کے بغیر مسلماً پر ان کا خرچ بہت زیادہ ہوتا اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ لوگ جس چیز کی احتیاج و ضرورت رکھتے وہ چیز یا تو اس شہر میں نایاب ہوتی یا پھر بہت مشکل سے ہاتھ آتی۔

۱۴۹

( ادویات اور ان کے فوائد )

اے مفضل۔أدویات ، انکی جڑوں اور یہ کی ان میں سے ہر ایک مخصوص درد کے لئے ہے، غور وفکرکرو، أدوایات ہذیوں میں داخل ہوکر غلیظ فضلات جیسے بلغم، وغیرہ کو جسم سے باہر نکالتی ہیں۔ افتیمون (گیاہی دوا کا نام) کہ یہ گیس کو ختم کرتی ہے، سبیکبح، کہ یہ ورم کو ختم کرتا ہے، اور یہ اس قسم دوسرے کام بھی انجام دیتی ہیں ، کون ہے وہ کہ جس نے انہیں یہ قوت عطا کی سوائے اسکے کہ جس نے انہیں بشر کے فائدہ کے لئے خلق کیا، اور کس نے لوگوں کو ان سے آگاہ ومطلع کیا سوائے اسکے کہ جس نے انکے نفع اور فائدے کو ان ادویات میں رکھا ورنہ کون اور کہاں ان چیزوں سے واقفیت پیدا کرسکتا تھا، کہ جس طرح سے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ انسان ان تمام چیزوں کو اپنی عقل، لطیف فکر اور مختلف تجربہ کے ذریعہ پہچانتا ہے، اگر انسان کے بارے میں اس بات کو تسلیم کر بھی لیا جائے، تو پھر یہ بتاؤ کہ یہ حیوانات کس طرح سے ان کے خواص سے آگاہ ہوئے ہیں؟ کہ بعض درندے کچھ دواؤں سے اپنا معالجہ خود کرتے ہیں اور اسی طرح بعض پرندے کچھ دواؤں سے اپنا معالجہ خود کرتے ہیں اور اسی طرح بعض پرندے جب انہیں قبض کی شکایت ہوتی ہے تو دریا کے پانی سے حقنہ کرتے ہیں ، اس طرح سے وہ اپنے آپ کو صحیح وسالم رکھتے ہیں، اور اس قسم کی بہت سی مثالیں اور اب شاید تم ان نباتات کے بارے میں کہ جو صحراء و بیابان میں اُگتے ہیں یہ خیال کرو کہ یہ ایک زائد اور بے فائدہ چیز ہیں کہ جسکی کوئی ضرورت نہیں جبکہ در حقیقت ایسا نہیں بلکہ وہ وحشی جانوروں کے لئے غذا اور انکے دانے پرندوں کے لئے غذا اور انکی شاخیں لوگوں کے آگ جلانے کے کام آتی ہیں ، اور ان میں دوسرے بھی خواص پائے جاتے ہیں اور وہ یہ کہ اس ان سے بدن کا معالجہ، کھال کی صفائی اور یہ رنگ آمیزی کے کام آتے ہیں ، اور اسکے علاوہ بھی دوسرے بہت سے فائدے ہیں۔

۱۵۰

اے مفضل۔ کیا تم نہیں جانتے کہ سب سے کم قیمت چیز صحرائی گھاس ہے اور اس قسم کی دوسری ایسی چیزیں کم قیمت ہونے کے باوجودبہت سے فائدے رکھتی ہیں کہ جس سے کاغذ تیار کیا جاتا ہے کہ جسکی ضرورت بادشاہ اور دوسرے تمام لوگوں کو ہوتی ہے، اسکے علاوہ اس سے چٹائیاں بھی بنائی جاتی ہیں کہ جس سے سب ہی لوگ استفادہ کرتے ہیں، اور اس قسم کے غلاف تیار کئے جاتے ہیں کہ جن میں برتن رکھے جاتے ہیں تاکہ وہ ٹوٹنے اور معیوب ہونے سے محفوظ رہیں ،اور اس قسم کے دوسرے بھی فائدے ہیں پس عبرت حاصل کرو ان چھوٹی بڑی چیزوں کے فائدوں سے کہ جن میں بعض قیمتی اور بعض کم قیمت ہیں اور ان سب میں پست ترین انسان اور حیوان کا فضلہ ہے کہ جو اپنی مکمل نجاست کے ساتھ اان میں جمع ہے کہ جو ذراعت اور سبزیوں کی کاشت کے لئے جامع ترین کھاد کے طور پر اپنی قدر وقیمت رکھتا ہے کہ جس کا مقابلہ دوسری کوئی اور چیز نہیں کرسکتی اس سے سبزیاں بہترین طریقے سے رشد ونمو پاتی ہیں اور یہ ان کے لئے فائدہ مند ہوتا ہے مگر سب اُس فضلہ سے نفرت کرتے ہیں اور وہ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتے کہ وہ اس سے قریب ہوں ۔ اے مفضل۔ جان لو کہ ہرچیز کی قیمت اسکی اپنی منزلت کے مطابق نہیں بلکہ یہ اپنے لئے دو مختلف بازاز میں مختلف قیمت رکھتی ہے ایک بازار کسب وتجارت ہے اور دوسرا بازار علم و معرفت ہے۔ افسوس کہ جس چیز کی قیمت بازاز کسب و تجارت میں کم ہے، بازار علم و معرفت میں وہ پُرقیمت ہے۔ تم اس چیز کو ہرگز حقیر مت سمجھو اگر کیمیا دان اس بات کو جان لیں کہ فضلہ کے اندر کیا خصوصیتیں ہیں تو وہ بڑی سے بڑی قیمت پر خریدنے کے لئے تیار ہوجائیں گے اور اس بات پر فخر کریں گے۔

مفضل کہتے ہیں کہ یہاں وقت زوال آپہنچا اور میرے آقا و مولانماز کے لئے کھڑے ہوگئے، آپ نے فرمایا کہ کل صبح سویرے میرے پاس آجاؤ (انشاء اللہ ) میں نے جو کچھ سیکھا اس پر بہت ہی زیادہ مسرور وخوشحال واپس پلٹا ، جو کچھ خدا نے مجھے عطا کیا اُس پر اس کا شکر گزار تھا، میں نے یہ رات بہت ہی خوش و خرم بسر کی۔

۱۵۱

۱۵۲

( روزچہارم )

۱۵۳

۱۵۴

مفضل کہتے ہیں کہ چوتھے روز میں صبح سویرے امام ـ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا ،اور اجازت لینے کے بعد آپ کے سامنے بیٹھ گیا، آپ ـ نے فرمایا: تمام حمدوثناء ، بزرگی و پاکیزگی اُس خداوند متعال کے لئے ہے کہ جس کا اسم مبارک تمام أسماء پر مقدم ہے، وہ نور أعظم ہے اور بہت ہی زیادہ جاننے والا اور صاحب کرامت و جلالت ہے کہ جو مخلوق کا خالق، عالمین و زمانہ کا فنا کرنے والا اور پوشیدہ راز کا جاننے والا ہے کہ جس کے أسماء دوستوں کے لئے خزانے اور اس کا علم غیروں کے لئے پوشیدہ ہے۔

درود وسلام ہو اُن پر کے جو وحی کے مبلغ اور رسالت کا کام انجام دینے والے ہیں کہ خداوند متعال نے انہیں بشیر و نذیر بناکر بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے حکم سے اسکی طر ف دعوت دیں اور انہیں اس کے عذاب سے ڈرائیں اور ان کی ہدایت اور رہنمائی کریں کہ جو بھی اس حجت کے تمام ہونے کے بعد گمراہ ہوا وہ ہلاک ہوگیا۔اور جو بھی ان دلائل و برہان کے ذریعہ ہدایت پاگیا تو اس پر ، اس کی اولاد، اس کے مرحومین اور اسکی آنے والی نسلوں پر خدا کا درود وسلام ہو کہ جس کے وہ مستحق ہیں۔

( آفات وبلیات اتفاق پر دلیل نہیں )

اے مفضل۔ میں أدّلہ و براہین کے ذریعہ خلقت، حسن تدبیر اور اُس قصد و ارادہ پر کہ جو انسان ، حیوان ، نباتات اور أشجار میں مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ اس قدر روشنی ڈال چکا ہوں کہ جس سے عبرت حاصل کرنے والے لوگ عبرت حاصل کریں، اور اب میں تمہارے لئے بعض ایسی آفات وبلیات کے بارے میں شرح بیان کرتا ہوں کہ جنہیں بعض زمانوں میں جاہلوں کے ایک گروہ نے انکار خدا اور خلقت میں تدبیر کے انکار کا وسیلہ قرار دیا، فرقہ معطلہ ، اور فرقہ مانویہ ، عالم میں رونما ہونے والے

۱۵۵

حادثات کو خلافِ حکمت و تدبیر جانتے ہیں اور خالق کائنات کا انکار کرتے ہیں من جملہ وہ موت وفنا کا بھی انکار کرتے ہیں ! اور اسی طرح فرقہ دہریہ کہ جو یہ گمان کرتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز بغیر علت اور بطور اتفاق وجود میں آئی ہے لیکن میری یہ گفتگو اور کلام ان کے تمام خیالات و اقوال کو باطل کردے گا۔

خدا انہیں غرق کرے کہ یہ کس طرف منھ، چرا کر بھاگتے ہیں۔(سورہ توبہ، آیت 30) بہت سے جاہل افراد نے اس قسم کے حادثات ، مثلا وباء یرقان،أولوں کا گرنا، اور ٹڈیوں کا ایسا اجتماع کہ جوزراعت کو تباہ وبرباد کردیتا ہے اور اس قسم کے دوسرے ایسے حادثات کو کہ جو زمانے میں رونما ہوتے ہیں انکار خدا کا وسیلہ قرار دیا، ان کے اس قسم کے خیالات کا جواب یہ دیا جائے گا کہ اگر کوئی خالق ومدبر نہ ہوتا تو پھر کیونکر یہ چیزیں زیادہ شدت سے ظاہر نہیں ہوتیں ، مثلاً یہ کہ آسمان زمین پر گر پڑے، زمین دھنس جائے، سورج اپنی حرکت کے برخلاف عمل کرے یا یہ کہ طلوع نہ ہو، نہریں اور چشمے اس طرح خشک ہوجائیں کہ ہونٹوں کو تر کرنے کے لئے پانی میسر نہ ہو ،ہوائیں اس طرح رک جائیں کہ تمام چیزیں فاسد و ضائع ہوجائیں، یا یہ کہ دریاؤں کا پانی پوری خشکی کو اپنے اندر لے لے، اور ہر چیز کو غرق کرکے رکھ دے اور اس قسم کی دوسری وبائیں آخر دائمی اور ہمیشہ کیوں نہیں رہتیںکہ وہ جس عالم میں بھی ہوں اسے بے کار اور ناکارہ بنادیں؟ بلکہ یہ آفتیں اس طرح ہیں کہ کچھ وقت کے لئے ظاہر ہوتی ہیں اور پھر انہیں ختم کردیا جاتا ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ عالم اس قسم کی بلاؤں (کہ جو اوپر بیان کی گئیں) سے حفظ و امان میں ہے کہ اگر ان میں سے ایک بھی رونما ہوجائے، تو وہ عالم کو نابود کردے۔ کبھی کبھی عالم کو چھوٹی بلاؤں اور آفتوں میں مبتلا کیا جاتا ہے تاکہ لوگ ڈریں، اور راہ مستقیم پر گامزن ہو جائیں اور پھر یہ آفتیں دائمی نہیں ہوتیں بلکہ انہیں لوگوں سے اُس وقت اُٹھالیا جاتا ہے جبکہ ان سے نصیحت و فکر کی امید ظاہر ہونے لگتی ہے تو پس یہ بات واضح ہوگئی کی بلاؤں کا نازل ہونا انکے لئے باعث نصیحت اور انکا دور ہونا انکے لئے باعث رحمت ہے گروہ معطلہ کے افراد بھی وہی بات کہتے ہیں کہ جو بات گروہ مانویہ

۱۵۶

کے افراد کہتے ہیں اور وہ بات یہ ہے کہ انسان پر بلیات و آفات نازل نہیں ہونی چاہیئیں اور یہ کہ اگر عالم کے لئے کوئی مہربان خالق ہوتا تو اس قسم کے ناگوار حادثات کبھی بھی عالم کا رخ نہیں کرتے ، کہنے والوں کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی زندگی کو ہر قسم کے رنج والم سے محفوظ ہونا چاہیے تھا۔ جبکہ اگر ایسا ہوتا تو انسان سرکش ہوجاتا کہ جس میں نہ اسکے دین کی بھلائی ہے اور نہ دنیا کی ، جیسا کہ اس بات کا مشاہدہ تم اُن لوگوں میں کرسکتے ہو کہ جو بہت زیادہ دولت مند ہوں اور اپنی زندگی عیش و آرام سے گزار رہے ہوں کہ دنیا کی تمام نعمتیں انکے لئے حاضر ہوں تو یہ لوگ یہاں تک اپنی حد سے تجاوز کرتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو بشر ہونے سے بھی بھلا بیٹھتے ہیں اور ہرگز یہ نہیں سوچتے کہ انکی پرورش کسی اور نے کی ہے تو پس ایسے موقع پر یہ ضروری تھا کہ کوئی آفت و بلاء موجود ہو کہ جو ان پر نازل کی جائے اس لئے کہ انسان پر واجب ہے کہ وہ ضعیف وکمزور پر رحم کرے، فقیروں کے ساتھ مساوات سے پیش آئے اور انکے ساتھ ہمدردی کرے ، ناتواں لوگوں کے ساتھ مہربانی کرے، غمزدہ اور شکستہ دل افراد کے ساتھ مہر و محبت سے پیش آئے لیکن وہ یہ سب کام نہیں کرتے مگر جہاں وہ مصیبت و بلاء میں مبتلا ہوا، اور اُس نے اسکی تلخی کا مزہ چکھ لیا تب کہیں جاکر اس پر نصیحت مؤثر ہوتی ہے اور وہ بینا ہوجاتا ہے تو اگر اب بھی کوئی ان بلاؤں اور مصیبتوں اور حادثات کا منکر ہوجائے تو وہ لوگ اُن بچوں کی مانند ہیں کہ جو ہمیشہ تلخ اور کڑوی دواء کو برا ہی کہتے ہیں اور ان لذیذ غذاؤں کو منع کرنے پر غیض و غضب میں آجاتے ہیں کہ جو انکے لئے نقصان دہ ہیں ، اور وہ لوگ کسب آداب ، علوم اور صنعتوں کو دشمن رکھتے ہیں،اور چاہتے ہیں کہ ہمیشہ لہو ولعب میں اپنی زندگی کو بسر کریں کے جسے چاہیں کھائیں اور جسے چاہیں پیئیں اور وہ نہیں جانتے کہ اس طرح بیکاری میں وقت گزارنے سے انکے دین اور دنیا کو کس قدر نقصان پہونچے گا،اور یہ لذیذ کھانے ان کے جسم کو کس طرح نقصان پہونچائیں گے، اور وہ نہیں جانتے کہ یہ آفات وبلیات ان کے آداب اور ان کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے ہیں جیسا کہ وہ دواء کے فائدے کو نہیں جانتے

۱۵۷

اگرچہ اس میں ایک مقدار تلخی ہے۔

( انسان گناہوں سے معصوم خلق کیوں نہ ہوا؟ )

اب اگر کوئی یہ کہے کہ انسان گناہوں سے معصوم خلق کیوں نہ ہوا جو یہ آفتیں اور بلائیں رونما ہوکر اسے نقصان پہونچاتی ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر انسان گناہوں سے معصوم خلق ہوتا تو اب جو بھی نیکی کرتا تو یہ نیکی قابل تعریف نہ ہوتی اور نہ ہی وہ اسکے اجر وثواب کا مستحق ہوتا۔

اور اگر کوئی یہ کہے کہ خداوند متعال کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی تمام نعمتیں بندوں کو عطا کردیتا تو اس کے جواب میں کہا جائیگا ، ذرا تم اُس شخص کی حالت پر غور کرو جو صاحب عقل و فہم ہو اور وہ ایک جگہ بیٹھ جائے اور اُسے جس چیز کی ضرورت ہو اُسے بغیر کسی زحمت و مشقت کے اس کے سامنے پیش کردیا جائے کہ جس کا وہ مستحق نہیں تو کیا اُس کا نفس اس بات پر راضی ہوگا ، ہرگز نہیں ، بلکہ تم اُسے دیکھو گے کہ وہ ان چیزوں کو زیادہ چاہتا ہے کہ جو اس نے زحمت و مشقت کے بعد حاصل کی ہیں آخرت کی نعمتیں بھی بالکل اسی طرح ہیں کہ جو اس کے حاصل کرنے والے کے لئے کامل ہوجاتی ہیں اس لئے کہ اس کے حاصل کرنے میں اس نے سعی و کوشش سے کام لیا اور وہ اس کا مستحق بھی تھا کہ اسے اس قسم کی نعمتیں عطا کی جاتیں، پس ان نعمتوں اور ثواب کو حاصل کرنے کے لئے خداوند عالم نے انسان کے لئے اس دنیا میں راہ ہموار کی ہے کہ وہ اس دنیا میں رہ کر ان کے حصول کے لئے کوشاں رہے تاکہ وہ اُن نعمتوں سے پوری طرح لطف اندوز ہوسکے، کہ جو اسے آخرت میں عطا کی جائیں گی۔

اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ کیا ایسا نہیں ہے کہ کبھی لوگوں کو اس قسم کی نعمتیں ملتی ہیں کہ جنہیں پاکر وہ خوشحال ہوجاتے ہیں ، باوجود اس کے کہ وہ اس کے مستحق نہ تھے تو پھر آخر اس قسم کی وضیعت پر کیا چیز مانع ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ آخرت کی نعمتیں بھی اُسے ایسے ہی مل جائیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر

۱۵۸

اس راہ کو لوگوں کے لئے فراہم کردیا جائے کہ انہیں گناہ کے باوجود آخرت میں نعمتیں اور اجر و ثواب ملے، تو وہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے، فسادات ، لوگوں کے قتل وغیرہ میں مبالغہ آرائی سے کام لیں گے پھر کون ہوگا کہ جو اپنے آپ کو زن فاحشہ سے بچائے گا اور کون نیکی کو انجام دینے کے لئے زحمت و مشقت کو برداشت کرے گا ، جب کے کہ وہ یقین رکھتا ہے کہ ہر حال میں نعمتوں سے بہرہ مند ہوگا، اگر لوگوں کا حساب و کتاب نہ ہوتا تو پھر کون اپنے آپ ، اپنے مال اور اپنے گھر والوں کو لوگوں کے ناجائز تجاوز سے حفظ و أمان میں رکھ سکتا تھا ، تو گویا اس قسم کی حالت و کیفیت کا ضرر لوگوں پر بہت ہی جلد اثر انداز ہوتا اور دنیا سے پہلے آخرت وجود میں آجاتی ، اور اس سے حکمت اور عدل الٰہی دوونوں باطل ہوکر رہ جاتے، اور اس حالت کے صحیح نہ ہونے پر اعتراض کیا جاسکتا تھا۔

( آفات کی دلیل اور توجیہ )

( اے مفضل) کبھی یہ لوگ خداوند متعال اور اس کی تدبیر کے انکار کے لئے اپنے ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے ان آفات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جو تمام لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں اب چاہے یہ لوگ نیک ہوں یابد، یا فقط نیک لوگوں کو لپیٹ میں لے لیتی ہیں جبکہ فاسد و فاجر ان سے بالکل محفوظ رہ جاتے ہیں لہٰذا تدبیر حکیم میں ان کی کس طرح توجیہ کی جائے اور انکی دلیل کیا ہے؟ تو اس سوال کے جواب میں کہا جائے گا کہ وہ آفتیں اور مصیبتیں جو دونوں گروہ پر نازل ہوتی ہیں ان میں ان دونوں گروہ کی بھلائی ہے اس لئے کہ وہ لوگ جو نیک اور صالح ہیں جب ان پر یہ مصیبتیں اور آفتیں نازل ہوتی ہیں تو وہ خداوند متعال کی عطا کی ہوئی نعمتوں پر متذکر ہوجاتے ہیں اور یہ تذکر و نصیحت انہیں صبرو نصیحت کی طرف کھینچتا ہے اور فاجر و بدکار لوگوں کو ان بلاؤں اور مصیبتوں کے نازل ہونے سے یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ ان کا حرص و لالچ کم ہوجاتی ہے تو گویا خداوند متعال آفتوں اور بلاؤں کے ذریعہ اپنے

۱۵۹

بندوں کو برائی سے بچانا چاہتا ہے اور اس کے علاوہ یہ کہ اگر نیک اور صالح افراد ان آفات سے صحیح وسالم بچ گئے تو وہ نیک اور اچھے کاموں کی طرف اور زیادہ مائل ہوتے ہیں اور ان کی بصیرت و معرفت میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور فاجر لوگ جب اپنے پروردگار کی مہربانی و عطوفت اور اسکی رؤفیت کو دیکھتے ہیں ، کہ وہ ان آفات سے صحیح وسالم بچ گئے کہ جس کے وہ مستحق نہ تھے، تو یہ أمر انہیں لوگوں سے ہمدردی و مہربانی کرنے پر ابھارتا ہے، حد تو یہ ہے کہ یہ لوگ اُن افراد کے ساتھ بھی ہمدردی و مہربانی سے پیش آتے ہیں کہ جنہوں نے ان کے ساتھ بدی کی، اگر کوئی یہ کہے کہ چلو یہ تو اس کا جواب تھا جب آفاتیں انسان کے مال پر نازل ہوتی ہیں مگر اُن آفتوں کی دلیل کیا ہے کہ جو انسان کے جسم پر وارد ہوتی ہیں مثلاً جل جانا، غرق ہوجانا، سیلاب و زلزلہ کا آنا وغیرہ ؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ خداوند متعال نے اس امر میں بھی ان دونوں گروہ کی بھلائی رکھی ہے ، نیک اور اچھے لوگوں کے لئے یہ کہ جب وہ اس قسم کی چیزوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو دنیا کی تکلیفوں اور پریشانیوں سے نجات پاتے ہیں اور فاجر و فاسق افراد جب ان حوادث سے دوچار ہوتے ہیں تو ان کے گناہ بکھر کر رہ جاتے ہیں،ا ور مزید گناہ کرنے سے رک جاتے ہیں ،مختصر یہ کہ خداوند متعال اپنی حکمت و تدبیر سے ان تمام امور کو خیروخوبی سے بدل دیتا ہے ، جیسا کہ ہوا جب کبھی درخت کو اکھاڑ دیتی ہے ، تو صنعت کار اُسے اٹھا کر اپنی صنعت کے کام میں لے آتا ہے، بالکل اسی طرح خداوند مدبر وحکیم ان آفتوں کو جو لوگوں کی جان و مال پر نازل ہوتی ہیں انہیں لوگوں کے لئے خیر وخوبی اور سود مند بنادیتا ہے اب اگر کوئی یہ کہے کہ آخر لوگ ان خطرات کا شکار ہوتے ہی کیوں ہیں؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ اس لئے تاکہ لوگ اپنی طویل صحت و سلامتی کی خاطر معصیت میں گم نہ ہوجائیں اور فاجر وبدکار لوگ اپنی بدفعلیوں میں مبالغہ آرائی سے کام نہ لیں، اور نیکو کار بھی نیک کام کرتا ہوا سست نہ پڑجائے اور یہ دو أمر لوگوں کی راحت و خوشحالی پر غلبہ نہ کرلیں اس کے علاوہ یہ آفاتیں لوگوں کو نیک کام میں رشد کرنے کی ہدایت و رہنمائی ،ا ور انہیں متنبہ

۱۶۰