توحید مفضل

توحید مفضل33%

توحید مفضل مؤلف:
زمرہ جات: توحید
صفحے: 175

توحید مفضل
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 175 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130843 / ڈاؤنلوڈ: 6112
سائز سائز سائز

۱

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم

۲

(سَنُرِیهِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی َنْفُسِهِمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَهُمْ َنَّهُ الْحَقُّ)

ہم عنقریب اپنی نشانیوں کو تمام اطراف عالم میں اور خود ان کے نفس کے اندر دکھلائیں گے تاکہ ان پر یہ بات واضح ہوجائے کہ وہ برحق ہے۔ (سورہ مبارکہ فصلت، آیت ۵۳)

۳

اثبات توحید اور اسرار کائنات پر صادق آل محمد علیہ السلام کے حیرت انگیز انکشافات کا مجموعہ

( توحید مفضّل)

تالیف

علّامہ ملّا محمّد باقر مجلسی (رح)

مزین با تقریظ

حضرت آیت اللّٰہ محسن حرم پناہی (رح )

تحقیق و ترجمہ

سیّدنسیم حیدر زیدی

۴

مشخّصات

نام کتاب: توحید مفضل

تالیف: علّامہ ملّا محمّد باقر مجلسی (رح )

تحقیق و ترجمہ: سےّد نسیم حیدر زیدی

نظر ثانی : علاّمہ رضی جعفرنقوی (دام برکاتہ )

کمپوزنگ: مبارک حسنین زیدی

طبع اول: ۱۴۲۹

تعداد: ایک ہزار

قیمت: ۵۰۱ روپے

۵

فہرست

مشخّصات ۵

انتساب : ۱۴

( تقریظ ) از حضرت آیت اللہ محسن حرم پناہی (قدس سرہ الشرف ) ۱۵

( گفتار مقدم ) از حضرت علامہ سید رضی جعفر نقوی (پرنسپل جامعة النجف ) ۱۷

( حرف اول ) ۲۰

( عرض ناشر ) ۲۲

( مقدمہ ) ۲۴

( مفضل بن عمر کا مختصرتعارف ) ۲۷

مفضل بن عمر روایات کے آئینہ میں ۲۷

مفضل بن عمر علماء کی نظر میں ۲۹

ایک اعتراض کا جواب ۳۰

توحید مفضل کی قرآن سے شباہت ۳۲

کلام امام ـ کے معجزات ۳۳

ایک شبھہ کا ازالہ ۳۵

( مفضّل اور ابن ابی العوجاء کے درمیان آغاز گفتگو ) ۳۶

( روز اوّل ) ۳۹

( مفضل حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں ) ۴۱

۶

( جہل و نادانی خلقت میں تدبیر کے انکار کا سبب ) ۴۲

( وجود خدا پر پہلی دلیل ) ۴۴

( انسان کے اندر واضح اور روشن آیات خدا کے وجود پر دلالت کرتی ہیں ) ۴۵

( بچہ اگر ولادت کے وقت عاقل ہوتا تو کیا ہوتا؟ ) ۴۸

( بچہ کے گریہ کے فوائد ) ۴۹

( بچہ کے منہ سے رال ٹپکنے کے فوائد ) ۵۰

( مرد و زن میں آلات جماع ) ۵۱

( اعضاء بدن کے کام ) ۵۱

( کائنات کے اُمور طبیعت کا نتیجہ نہیں ہیں ) ۵۲

( غذا کے جسم میں پہنچنے پر معدہ اور جگر کا حیرت انگیز عمل ) ۵۲

( حیات انسانی کا پہلا مرحلہ ) ۵۳

( انسان کی ایک خاص فضیلت ) ۵۴

( حواس خمسہ کے صحیح مقامات ) ۵۴

( عقل ، آنکھ اور کان کی عدم موجودگی اختلال کا سبب ) ۵۵

( طاق اور جفت اعضائ ) ۵۷

( کلام کس طرح وجود میں آتا ہے ) ۵۸

( دماغ کاسہ سر کے محکم حصار میں ) ۵۹

( آنکھوں پر غلاف چشم کا خوبصورت پردہ ) ۶۰

۷

( وہ کون ہے؟ ) ۶۰

( اعضاء بدن بغیر علت کے نہیں ہیں ) ۶۱

( دل کا نظام ) ۶۲

( مقام مخرج ) ۶۳

( دندان کی وضعیّت ) ۶۴

( بالوں اور ناخنوں میں حسن تدبیر ) ۶۴

( فرقہ مانویہ کے اعتراضات ) ۶۵

( آب دہن خشک ہونے سے انسان کی ہلاکت ) ۶۶

( انسان کا شکم لباس کے مانند کیوں نہ ہوا؟ ) ۶۶

( انسان کے اندر چار حیرت انگیز قوتیں ) ۶۸

( انسان کو قوت نفسانی کی ضرورت ) ۷۰

( حفظ و نسیان نعمت خداوندی ہیں ) ۷۰

( انسان کے لئے حیاء کا تحفہ ) ۷۱

( قوت نطق اور کتابت فقط انسان کیلئے ہے ) ۷۲

( وہ علوم جوانسانوں کو عطا کئے۔ اور وہ علوم جو عطا نہ کئے دونوں میں ان کی بھلائی ہے ) ۷۳

( انسان سے کیوں اس کی عمر حیات کو پوشیدہ رکھا؟ ) ۷۴

( خواب میں حسن تدبیر ) ۷۷

( جہان میں تمام چیزیں انسان کی احتیاج و ضرورت کے مطابق ہیں ) ۷۷

۸

( انسان کا اصلی معاش روٹی اور پانی ) ۷۹

( انسان کا ایک دوسرے سے شبیہ نہ ہونا حکمت سے خالی نہیں ) ۸۰

( حیوان کا جسم ایک حد معین پر رک جاتا ہے ) ۸۱

( روز دوّم ) ۸۳

( حیوانات کی خلقت ) ۸۶

( حیوان کو ذہن کیوں نہ عطا کیا گیا ) ۸۷

( تین قسم کے جاندار کی خلقت ) ۸۸

( چوپائے ) ۸۹

( چوپاؤں کی حرکت ) ۹۰

( حیوانات کس طرح اپنے سر کو انسان کے سامنے جھکائے ہوئے ہیں ) ۹۱

( کتّے میں صفت ِ مہر و محبّت ) ۹۲

( حیوانات کی شکل و صورت ) ۹۳

( جانوروں کو دُم کی ضرورت ) ۹۳

( ہاتھی کی سونڈ کا حیرت انگیز عمل ) ۹۴

( زرافہ،خداوند عالم کی قدرت کا عظیم شاہکار ) ۹۵

( بندر انسان کی شبیہ ) ۹۶

( حیوان کا لباس اور جوتے ) ۹۷

( حشرات الارض اور درندوں کا مرتے وقت حیرت انگیز عمل ) ۹۸

۹

( گوزن(۱) کا پیاسے ہونے پر حیرت انگیز عمل ) ۹۹

( لومڑی کس چالاکی سے اپنی غذا حاصل کرتی ہے ) ۱۰۰

( دریائی سور کے غذا حاصل کرنے کا طریقہ کار ) ۱۰۰

( بادل اژدھا پر موکّل کی مانند ) ۱۰۱

( چیونٹی کی خلقت ) ۱۰۱

( اسد الذّباب اور مکڑی کا شکار کرنا ) ۱۰۲

(پرندے کی خلقت) ۱۰۳

( خانگی مرغی ) ۱۰۵

( انڈے کی بناوٹ ) ۱۰۵

( پرندوں کا حوصلہ ) ۱۰۶

( حیوانات میں اختلاف رنگ و شکل اتفاق کا نتیجہ نہیں ہے ) ۱۰۶

( پرندے کے پر کی بناوٹ ) ۱۰۷

( بعض پرندوں کے لمبے پاؤں ہونے کی علت ) ۱۰۷

( چڑیا روزی کی تلاش میں ) ۱۰۸

( رات میں باہر نکلنے والے جانوروں کی غذا ) ۱۰۹

( چمگادڑ کی عجیب و غریب خلقت ) ۱۱۰

( ابن نمرہ(۱) کی شجاعت ) ۱۱۱

( شہد کی مکھی ) ۱۱۱

۱۰

( ٹڈی کا ضعف اور قوت ) ۱۱۲

( مچھلی کی ساخت اور اس کی خلقت ) ۱۱۳

( روز سوم ) ۱۱۵

( آسمان کا رنگ بھی حکمت سے خالی نہیں ) ۱۱۷

( سورج کا طلوع و غروب ہونا ) ۱۱۸

( چارفصلوں کے فوائد ) ۱۱۹

( گردشِ آفتاب ) ۱۲۰

( تابش آفتاب ) ۱۲۱

( چاند میں نمایاں دلیلیں خداوندتعالیٰ پر دلالت کرتی ہیں ) ۱۲۱

( ستاروں کی حرکت ) ۱۲۲

( ثریا، جوزہ ، شعریین، اور سہل میں حکمت ) ۱۲۴

( بنات النعش ستارہ ہمیشہ ظاہر رہتا ہے ) ۱۲۴

( چاند، سورج اور ستارے ہم سے اس قدر دور کیوں ہیں؟ ) ۱۲۵

( رات اور دن پندرہ گھنٹے سے تجاوز نہیں کرتے ) ۱۲۷

( سردی اور گرمی کے فوائد ) ۱۲۸

( ہوا میں تدبیر ) ۱۲۹

( ہوا کے فوائد ) ۱۲۹

( زمین کی وسعت ) ۱۳۱

۱۱

( زمین ثابت کیوں؟ ) ۱۳۱

( زلزلہ اور مختلف بلائیں نازل ہونے کا سبب ) ۱۳۲

( زمین اور پتھر کا فرق ) ۱۳۲

( شمالی اور جنوبی ہوائیں ) ۱۳۳

( پانی کی ضرورت ) ۱۳۳

( آگ کے فوائد ) ۱۳۵

( صاف اور بارانی ہوا ) ۱۳۶

( بارش کے فائدے ) ۱۳۸

( پہاڑ خداوند عالم کی عظیم نشانی ) ۱۳۹

( معدنیات ) ۱۴۰

( نباتات ) ۱۴۱

( زراعت میں کیا خوبصورت تدبیر ) ۱۴۲

( دانوں کی حفاظت ) ۱۴۳

( صنعت ِ خیمہ کو صنعتِ درخت سے نقل کیا گیا ہے ) ۱۴۴

( درخت کے پتے کی خلقت ) ۱۴۵

( بیج ،چھلکا اور ان کی علت ) ۱۴۶

( درخت میں تدبیر خداوندی ) ۱۴۶

( انار کی خلقت ) ۱۴۷

۱۲

( بیل بوٹے کی خلقت ) ۱۴۸

( کھجور کا درخت ) ۱۴۹

( ادویات اور ان کے فوائد ) ۱۵۰

( روزچہارم ) ۱۵۳

( آفات وبلیات اتفاق پر دلیل نہیں ) ۱۵۵

( انسان گناہوں سے معصوم خلق کیوں نہ ہوا؟ ) ۱۵۸

( آفات کی دلیل اور توجیہ ) ۱۵۹

( خالق و مبدأ جہاں پر طعنہ زنی کرنے والے لوگ کیا کہتے ہیں ) ۱۶۲

( عالم کا نام یونانی زبان میں ) ۱۶۵

( تعجب اس قوم پر جو حکمت پر یقین رکھ کر حکیم کو جھٹلاتی ہے ) ۱۶۶

( عقل اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتی ) ۱۶۶

( خدا کے بارے میں اس قدر اختلاف کیوں؟ ) ۱۶۸

( طبیعت حکم خدا کے تحت ) ۱۷۱

( انسان کا ناقص الخلقت ہونا اس کے اتفاقاً پیدا ہونے پر دلیل نہیں ) ۱۷۱

۱۳

انتساب :

میں اپنی اس ناچیز خدمت

کو

حضرت قائم آل محمد الحجة ابن العسکری (عجل اللّٰہ تعالیٰ فرجہ'الشریف )

اور

اپنے جداعلیٰ حکیم مولانا سید خورشید حسن زیدی (قدس سرہ الشریف )

کے نام مُعَنوَن کرتا ہوں۔

نسیم حیدر زیدی

۱۴

( تقریظ ) از حضرت آیت اللہ محسن حرم پناہی (قدس سرہ الشرف )

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم

الحمد للّٰه ربّ العالمین والصٰلوة والسلام علی خیر خلقه محمد وٰاله الطاهرین و لعنة اللّٰه علی اعدائهم اجمعین امابعد :

امام برحق: حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا :

(رحم اللّٰه امرئَ أَحیٰ أَمرَنا) خداوند عالم اس شخص پر اپنی رحمتیں نازل کرے جو ہمارے أَمر (یعنی امامت) کو زندہ کرے۔ آئمہ ٪ کے امر کو زندہ کرنے کے لیے بہترین راہوں میں سے ایک راہ ان کی فرمائشات کی نشر واشاعت ہے، کہ آپ نے خود فرمایا: ہماری گفتگو اور کلام سے لوگوں کو آگاہ کرو کہ لوگ ہماری گفتگو اور کلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں اگر وہ آگاہ ہوجائیں تو یقینا ہماری اطاعت کریںگے، ان لوگوں میں سے کہ جنھیں یہ توفیق حاصل ہوئی، اور حضرت امام جعفر صادق ـ کی مستجاب دعا کے شامل حال ہوئے اور خداوند عالم کے لطف وکرم کا موردقرار پائے، یعنی آئمہ اطہار٪ کے آثار و اخبار کی نشرواشاعت کیلئے اقدام کیا، جناب مستطاب سلالة الاطیاب فا ضل و کامل آقای سید نسیم حیدر زیدی دام توفیقہ ہیں جنھوں نے اس کتاب میں حدیث مفضّل کو اردو کے قالب میں

۱۵

ڈھالنے کا کام انجام دیا۔

میں امید کرتا ہوں کہ خداوند عالم موصوف کے اس شائستہ عمل کو قبول کرے ، اور اسے ان کے لئے آخرت کا ذخیرہ اور قارئیں کیلئے ہدایت کا وسیلہ قرار دے۔

وَالسَّلامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الهُدیٰ

قم ۔ الاحقر محسن حرم پناھی۔

بتاریخ ماہ ذیقعدہ ۱۴۱۶۔ ھ۔ ق

مھر۔

۱۶

( گفتار مقدم ) از حضرت علامہ سید رضی جعفر نقوی (پرنسپل جامعة النجف )

تمام پیغمبروں کی تبلیغ کی ابتداء اور جملہ آسمانی شریعتوں کا مرکز و محور ''عقیدہ توحید'' کو بنی نوع انسان کے ذہنوں میں راسخ کرنا رہا ہے کیونکہ اس عقیدے کو چھوڑنے ہی کی وجہ سے دنیائے انسانیت ایسے اوہام و خرافات کا شکار ہوئی کہ آج تک ان سے چھٹکارا حاصل نہ کرسکی۔

خدائے واحد کو چھوڑ کر کبھی آفتاب و ماہتاب کی پرستش کی کبھی آگ اور پانی کو اپنا خدا مانا کبھی ستاروں کی چمک اور دمک سے مسحور ہوکر انھیں اپنا معبود سمجھنے کی غلطی کی، اور کبھی ہر قبیلے نے اپنا ایک خدا مان لیا، اور خانہ کعبہ میں خدائے واحد کی عبادت کے بجائے قبیلوں کی تعداد کے مطابق ''۳۶۰'' بتوں کی خدائی کا کلمہ پڑھا جانے لگا۔

جبکہ پروردگار عالم کی جانب سے مبعوث ہونے والے تمام ہادیان برحق نے نہایت واضح الفاظ میں بنی نوع انسان کو ''توحید '' کی طرف دعوت دی مگر اُن امتوں نے ان تعلیمات کو یکسرتبدیل کرکے رکھ دیا۔

چنانچہ بنی نوع انسان کو جادہ توحید پر از سر نو گامزن کرنے کیلئے مالک دو جہاں نے اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفی (ص) کو مبعوث فرمایا جن کا لایا ہوا پیغامِ توحید اور جن کی پیش کی ہوئی شریعت کو صبح قیامت تک باقی رہناہے۔

اور ہم پر اپنے مالک دوجہاں کا یہ بھی عظیم احسان ہے کہ اس نے حضور اکرم (ص)کے بعد ہماری ہدایت کے لیے ایسے ہادیان برحق کا انتخاب کیا جو سب کے سب نور ِ پیغمبر کے ورثہ دار تھے اور تمام

۱۷

صفات جمال و کمال میں حضور اکرم (ص) کے آئینہ دار تھے۔

ان مقدس اور معصوم ہستیوں نے ہر دور میں ''توحید کے پیغام'' کو ایسے روشن دلائل کے ساتھ بنی نوع انسان تک پہونچانے کی جدوجہد فرمائی کہ ان کی تعلیمات کو پیش نظر رکھنے والا انسان کبھی بھی اوہام میں الجھ ہی نہیں سکتا خصوصاً مولاء کائنات امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے وہ خطبے جو نہج البلاغہ اور دیگر اسلامی کتابوں کے صفحات پر جگمگارہے ہیں ، ان میں توحید کی ایسی روشن دلیلیں ہیں جن کا عُشرِ عشیر بھی دنیا کے کسی اور رہنماء کے اقوال میں تلاش نہیں کیا جاسکتا ، کون ہے جو آپ کے اس فرمان مقدس کے ہم پلہ کوئی کلام پیش کرسکے؟ جس میں آپ فرماتے ہیں کہ :

مَا وَحَّدَه' مَن کَیَّفَه' ، وَلَا حَقِیقَتَه' اَصَابَ مَنْ مَثَلَهُ، ولا اِیَّاه عنیٰ شَبَّهَه'، وَلَا صَمَدَه' مَنْ اَشَارَ الیه وَ تَوَ هَّمَه'، کل مَعْرُوفٍ بِنَفْسِهِ مَصْنُوع وَکُلُّ قائم فی سواهُ مَعْلُول ، فَاعِل لَابِا ضْطِرَابِ اٰلٰةٍ، مُقَدِّرلَا بِحَوْلِ فِکْرَةٍ، غَنِیّ لَا بِاِسْتِفَادَةٍ، ولا تَصْحَبْهُ الْاَوْقَاتِ وَلَا تَرفِدُه' الْاَدْوَات سَبَق الْاَوقَاتُ کَونُهُ وَالعَدََمَ وَجُودُهُ وَالِاّبْتِدَآئَ أَزَلُه' بتشعِیرِه المُشَاعِرَ عُرِفَ أنْ لَا مَشْعَرَ لَه

( خطبہ نمبر ۱۸۴ نہج البلاغہ )

( جس نے اسے مختلف کیفیتوں سے مُتَّصف کیا اس نے اسے یکتا نہیں سمجھا جس نے اس کا مثل ٹھہرایا اس نے اس کی حقیقت کو نہیں پایا جس نے اُسے کسی چیز سے تشبیہ دی اس نے اس کا قصد نہی کیا، جس نے اسے قابل اشارہ سمجھااور اپنے تصور کا پابند بنایا اس نے اس کا رُخ نہیں کیا جو اپنی ذات سے پہچانا جائے وہ مخلوق ہوگا اور جو دوسروں کے سہارے پر قائم ہو وہ علت کا محتاج ہوگا، وہ فاعل ہے بغیر آلات کو حرکت میں لائے، وہ ہر چیز کا اندازہ مقرر کرنے والا ہے ، بغیر فکرکی جولانی کے وہ توانگر اور غنی ہے

۱۸

بغیر دوسروں سے استفادہ کیے ، نہ زمانہ اس کا ہم نشین اور نہ آلات اس کے معاون و معین ہیں، اس کی ہستی زمانے سے بیشتر اس کا وجود عدم سے سابق اور اس کی ہمبستگی نقطہ آغاز سے بھی پہلے ہے اس نے جو احسا س و شعور کی قوتوں کو ایجاد کیا اسی سے معلوم ہوا کہ وہ خود حواس و آلاتِ شعور نہیں رکھتا۔

اس طرح ہمارے تمام ہادیان برحق نے توحید کا جو درس دیا ہے، وہ تاریخ بشریت میں بے مثال ہے ان ہی دروس میں سے ایک عظیم درس وہ ہے جو امام ششم حضرت امام جعفر صادق ـ نے اپنے جلیل القدر شاگرد ''مفضّل'' کو دیا تھا، جس میں اسلام کے اس بنیادی عقیدے کو نہایت مستحکم دلائل سے بیان فرمایاہے۔

برادر عزیز مولانا سید نسیم حیدر زیدی صاحب لائق مبارکباد ہیں جنہوں نے اس عظیم الشان کتاب کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ میری دعا ہے کہ پروردگار عالم بتصدق آئمہ معصومین ٪ ، موصوف کی اس کوشش کو قبول فرمائے اور انھیں زیادہ سے زیادہ خدمتِ دین مبین کی توفیق عطا فرمائے۔ نیز جملہ اہل ایمان کو اس علمی شہ پارہ سے فیض حاصل کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔

آمین۔ بحق طہ وآل یس ۔ والسلام احقر سید رضی جعفر نقوی

۱۹

( حرف اول )

انبیاء (ع) کی تبلیغ میں ''توحید کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ذات واجب الوجود کی آیات میں غور وفکر اور آسمانی کتابوں اور صحیفوں کے مطالعہ سے اس حقیقت تک پہنچا سکتا ہے کہ انبیاء و مرسلین ٪ کا ''توحید'' کی تبلیغ میں اتنے زیادہ اہتمام اور تاکید کی وجہ یہ ہے کہ ''توحید'' کائنات کے نظام ، کی بنیاد ہے اِسی کے پرتو میں انسان تمام فضائل و برکات کے سرچشمہ تک پہنچ سکتا ہے اور بس اسی راہ سے اپنے عقیدے، نفسیات اور رفتار و کردار میں اعتدال باقی رکھ سکتا ہے۔ نیز ہر فرد اور انسانی سماج کی حقیقی سعادت خوش بختی توحید ہی کی مرہون منت ہے اور انسانوں میں ہر طرح کا اختلاف ، انتشار ، گمراہی، زوال اور تباہی و بربادی شرک سے پیدا ہوتی ہے۔

خدائے واحد پر ایمان ، ایک ایسی زنجیر ہے جو تمام لوگوں کے دلوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔ نسلی، علاقائی اور قومی اختلافات کو ختم کردیتی ہے اور مختلف انسانی سماجوں کو اختلاف و تفرقہ سے جو کمزور ، تنزلی و انحطاط کا باعث ہے۔ نجات بخشی ہے۔

زمانہ جاہلیت میں عرب سماج کے پاس عقیدہ توحید سے انحراف اور ہر قبیلہ کا اپنا مخصوص بت ہونے کی وجہ سے، اتحاد و اتفاق کا کوئی محور و مرکز نہیں تھا، اسی وجہ سے وہ لوگ کمزور تھے لڑائی جھگڑے اور جنگ و خونریزی ہوتی رہتی تھی لیکن اسلام کے ظہور اور بت پرستی کے خاتمہ کے بعد توحید کی مرکزیت پر اتحاد و اتفاق کے نتیجہ میں وہ ایک ایسا ناقابل تسخیر اور طاقتور سماج بن کر اُبھرے جس نے بہت تھوڑے سے ہی عرصے میں نہ فقط یہ کہ جزیرة العرب بلکہ ایران و روم جیسی دو پرانی تہذیبوں پر بھی غلبہ پالیا اور بہت سے علاقوں کو پرچم توحید کے زیر سایہ لے آئے۔

۲۰

امام جعفر صادق علیہ السلام ہی نے سلیمان بن ہارون بجلی سے فرمایا:

ما اَظُنُّ احداً یُحَنِّکُ بماء الفراتِ الاَّ احبَّنٰا اهلَ البیت

میں نہیں سمجھتا کہ کسی نے آبِ فرات سے اپنے نومولود کا دَہَن تر کیا ہو اور وہ (بچہ) ہم اہلِ بیت کا محب نہ ہو  (بحارالانوارج ۹۷ص ۲۲۸، ۲۳۰)

امام جعفر صادقؑ نہرِ فرات کو جنت کی ایک نہر قرار دیتے تھے، جو خدا پر ایمان لائی ہے اور ایک روز اس میں جنت سے ایک قطرہ آ کر گرا تھانیز آپ ؑ نے فرمایاہے:

مَن شَرِبَ مِن ماء الفراتِ وَحنَّکَ به فهومحبّنااَهلَ البیت

جو کوئی آبِ فرات نوش کرے یا اس سے بچے کے دَہَن کو تر کرے، تو یقیناًوہ ہمارے خاندان کا محب ہو گا(بحارالانوارج ۹۷ص ۲۲۸، ۲۳۰)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:

اِنَّ اهلَ الکوفةِ لَوْحَنَّکوااولادَ هم بماء الفراتِ لکانواشیعةً لنا

اگر اہلِ کوفہ نے اپنے بچوں کے دَہَن کو آبِ فرات سے تر کیا ہوتا، تو وہ ہمارے شیعہ ہو جاتے(ایضاًج ۶۳ص ۴۴۸)

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

مااحدٌ یَشربُ من ماء الفراتِ وَ یُحنِّکُ به اذااولَدَ الّااَحبَّنٰا، لِأنَّ الفراتَ نهرٌمؤمِنٌ

کوئی ایسا نہیں جس نے آبِ فرات پیا ہو، یا اپنے بچے کے دَہَن کو آبِ فرات سے تر کیا ہو اور وہ ہمارا محب نہ ہوا ہوکیونکہ فرات مومن نہر ہے  (ایضاًج ۱۰۱ص ۱۱۴)

۲۱

امام ؑ نے بچوں کی ولادت کے موقع پر ان کو خاکِ شفا چٹانے کی بابت حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے:

حَنِّکوااولادَ کم بِتُربةِ الحسینِ، فانّهااَمانٌ

اپنے بچوں کو خاکِ شفا چٹاؤ کیونکہ یہ ان کے حفظ و امان کا باعث ہے

(وسائل الشیعہج ۱۰ص ۴۱۰بحارالانوارج ۹۸ص ۱۲۴ اور ۱۳۶)

البتہ روایات میں زور دے کر یہ بات کہی گئی ہے کہ خاکِ شفا سے علاج کی غرض سے یہ استفادہ اس وقت سود مند ثابت ہو گا جب انسان اس بات پر یقین رکھتا ہو کہ خداوند عالم نے خاکِ شفا میں یہ منفعت اور خیر کا پہلورکھا ہے(بحارالانوارج ۹۸ص۱۲۳)

پانی یا شربت میں خاکِ شفا کو حل کر کے علاج کی غرض سے اسے پینے یا دوسروں کو پلانے کی یہ رسم، ائمہؑ کے زمانے میں بھی رائج تھی (ایضاًص ۱۲۱) اور آج بھی مکتبِ اہل بیتؑ کے ماننے والوں میں اس پر عمل کیا جاتا ہے۔

۳:-محبوبیت چاہنے سے استفادہ

ہر انسان چاہتا ہے کہ دوسرے اس سے محبت کریں اور اس پر توجہ دیںلوگوں کو جذب اور مائل کرنے کے لئے ان سے محبت و عقیدت کا اظہارانتہائی موثرواقع ہوتا ہےہر انسان کی دلی آرزو ہوتی ہے کہ کوئی اہم، معروف اور معتبر ہستی اس سے محبت اورچاہت کا اظہارکرےاور اگر یہ اظہارِ محبت و پسندیدگی خدا، رسول ؐاور ائمہ اطہار ؑ کی طرف سے کیا جارہا ہو، توکیا کہنے!!

اس بنیاد پر ہمیں لوگوں کے ذہن میں یہ بات بٹھانا چاہئے کہ اہلِ بیت ؑ سے محبت اور ان سے ولایت رکھنے کی وجہ سے انسان خدا اور اس کے رسول کی محبت کا مستحق ہو جاتا ہےکیا کوئی نعمت اس سے بھی بڑھ کر ہو سکتی ہے؟

اس بات کا اظہار کہ ائمہ ؑ اپنے محبوں سے محبت کرتے ہیں، لوگوں کے دلوں میں ائمہ ؑ کی محبت پیدا کرنے کا باعث بنتا ہےاس بارے میں بکثرت روایات ہیں، ان ہی میں سے ایک حدیث یہ ہے کہ :

۲۲

ایک شخص امام علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:

السلام علیکَ یا امیرالمؤمنین ورحمة اﷲوبرکاته، کیفَ اصبَحْتَ؟

اے امیر المومنین! آپ پر سلام (اور خدا کی رحمت و برکت) ہوآپ نے کس حال میں صبح کی؟

امام ؑ نے سر اٹھا کے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا:

اصبحتُ مُحِبّاً لِمُحِبِّنا ومُبغِضاً لِمَن یُبغِضُنا

میں نے اس حال میں صبح کی کہ اپنے محب سے محبت کرتا ہوں اور اس کا دشمن ہوں جو ہم سے دشمنی رکھتا ہے(سفینۃالبحارج ۲ص ۱۷)

باہمی محبت اور خدااور بندے یا پیغمبر اور امت کے ایک دوسرے سے خوش ہونے کا ذکرایک سود مند عمل ہےاس بارے میں قرآنِ مجید میں بھی مثالیں پائی جاتی ہیں، جیسے :

رَّضِیَ اﷲُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْه

خدا اُن سے راضی ہوگا اور وہ خدا سے راضی ہوں گے

(سورہ مائدہ ۵آیت ۱۱۹، سورہ توبہ ۹آیت ۱۰۰، سورہ مجادلہ ۵۸آیت ۲۲، سورہ بینہ ۹۸آیت ۸)

فَسَوْفاَا یَاْتِی اﷲُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَیُحِبُّوْنَه

تو عنقریب خدا ایک قوم کو لے آئے گا جو اسکی محبوب اور اس سے محبت کرنے والی ہے(سورہ مائدہ ۵آیت ۵۴)

یہ آیات صاحبانِ ایمان، صاحبانِ عملِ صالح، دینداراور راہِ خدا میں ثابت قدم رہنے والے افراد کے بارے میں ہیں

۲۳

اسی طرح یہ سوال کرنا کہ خدا کن لوگوں سے محبت کرتا ہے؟ اوراس کا یہ جواب دینا کہ محبانِ اہلِ بیت ؑ سےاور پھر یہ نتیجہ دینا کہ اہلِ بیت ؑ سے مودت کے نتیجے میں انسان خدا کا محبوب بن جاتا ہے خاندانِ پیغمبر ؑ سے محبت میں اضافے کا باعث ہے

خدا کے منتخب بندوں سے محبت کرنا بھی باعثِ افتخار ہے، اور ان کا محبوب ہونا بھی فضیلت کی بات ہےہم ائمہ ؑ کے حرم میں پڑھی جانے والی زیارتِ امین اﷲ میں خدا کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ :

مُحِبَّةً لِصَفْوَةِ اولیاء ک، مَحبوبةً فی أَرضِک و سماء ک

بارِالٰہا ! ہمیں اپنے برگزیدہ اولیا سے محبت کرنے والا بنا دے اور اپنی زمین اور اپنے آسمان پر محبوب قرار دے

(مفاتیح الجنان، زیارتِ امیر المومنین، زیارتِ امین اﷲ)

اہلِ بیت ؑ سے محبت، انسان کو اس گھرانے کا ہم دل و ہم ساز بنا دیتی ہے اور وہ اس خاندان کا ایک رکن بن جاتا ہےجیساکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلمانِ فارسیؓ کو اپنے خاندان کا ایک فرد قرار دیا اور فرمایا کہ: سلمانُ مِنّااھلَ البیت (سلمان ہم اہلِ بیت میں سے ہےمناقب ابن شہر آشوبج ۱ص ۸۵)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی جملہ حضرت ابوذر غفاریؓ کے بارے میں بھی فرمایا ہے اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی فضیل بن یسار (رجال کشیج ۲ص ۴۷۳ اور ۳۸۱) اور یونس بن یعقوب (ایضاًص ۶۸۵) کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ ہم اہلِ بیت ؑ میں سے ہیں

کسی انسان کا خاندانِ پیغمبر میں شمار کیا جانا اسکے لئے ایک عظیم نعمت ہےمحبتِ اہلِ بیت ؑ وہ اعزا زہے جس کے ذریعے ان کا محب یہ امتیاز حاصل کرتا ہےاس سلسلے میں درجِ ذیل دو احادیث پر توجہ فرمایئے، جن میں سے ایک محبت کو اور دوسری تقویٰ اور عملِ صالح کو گروہِ اہلِ بیت کی رکنیت کاذریعہ قرار دیتی ہے

۲۴

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایاہے:

مَنْ اَحَبَّنا فهومِنّااَهل البیتِ

جو کوئی ہم سے محبت کرتا ہے وہ ہم اہلِ بیت میں سے ہے

(تفسیر عیاشیج ۲ص ۲۳۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

مَنِ اتّقیٰ مِنکم وَاَصْلَحَ فهومنّا اهلَ البیت

تم میں سے جو کوئی تقویٰ اختیار کرے، اور صلاح و اصلاح کے لئے کوشاں ہو، وہ ہم اہلِ بیت میں سے ہے(ایضاً)

اِس نکتے کی جانب توجہ اہمیت کی حامل ہے کہ تقویٰ اور نیکوکاری کے بغیرصرف محبتِ ہلِ بیت ؑ کام نہیں آئے گی اور حقیقی محبت انسان کواپنے محبوب کا ہمدم وہم ساز اور ہمرنگ بنا دیتی ہے

۴:- شیعہ پر اہلِ بیت ؑ کی عنایات کی جانب متوجہ کرنا

اہلِ بیت ؑ کے پیروکار اوراُن کے محبین خاندانِ پیغمبر کی توجہ، عنایات اور قدردانی کا مرکز ہوتے ہیںخاندانِ نبوت کی اس محبت، تکریم اور عنایت کی جانب متوجہ رہنا اوراس کی طرف دوسروں کی توجہ مبذول کرانا، دلوں میں ان کی محبت ایجاد کرتا ہے اور پہلے سے موجود محبت میں اضافہ کرتا ہے۔

اہلِ بیت ؑ اپنے محبوں کو پسند کرتے ہیں، انہیں پہچانتے ہیں اور انہیں اپنے آپ سے تعلق رکھنے والے درخت کی شاخیں قرار دیتے ہیںدنیا میں ان کی مشکلات حل کرتے ہیں، آخرت میں ان کی شفاعت کرتے ہیں اور اپنے محبوں کو کبھی نہیں بھولتے۔

۲۵

اس بارے میں بھی بہت ساری احادیث موجود ہیں، ہم یہاں چند احادیث بطورِ مثال پیش کرتے ہیں:

حُذیفہ بن اُسَید غفاری کہتے ہیں: جب امام حسن علیہ السلام معاویہ سے صلح کے بعد مدینہ واپس تشریف لا رہے تھے، تو میں اُن کے ہمراہ تھااُن کے پاس مال و اسباب سے لدا ہوا ایک اونٹ تھا، جو ہمیشہ اُن کے ساتھ ساتھ رہتا تھا، کبھی جدا نہیں ہوتا تھاایک روز میں نے عرض کیا: اس اونٹ پر کیا لدا ہے جو آپ سے جدا نہیں ہوتا؟

امام نے فرمایا:تمہیں نہیں معلوم کیا ہے؟ میں نے کہا: نہیںامام نے فرمایا: دیوان ہےمیں نے عرض کیاکس چیزکا دیوان (رجسٹر) ہے؟ فرمایا:

دیوانُ شیعتِنافیه اَسماؤ هُم

ہمارے شیعوں کا دیوان ہے، اس میں ان کے نام درج ہیں

(بحار الانوارج ۲۶ص ۱۲۴)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابوبصیر سے فرمایا:

  وَعَرفْنا شیعتناکَعِرفانِ الرّجُلِ اهلَ بیته

ہم اپنے شیعوں کواُسی طرح پہچانتے ہیں جیسے ایک انسان اپنے اہلِ خانہ کو پہچانتا ہے(بحار الانوارج ۲۶ص ۱۴۶)

۲۶

امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہم جس کسی کو دیکھتے ہیں پہچان لیتے ہیں کہ وہ مومنِ حقیقی ہے یا منافقہمارے شیعہ لکھ دیئے گئے ہیں ان کے نام اور ان کے اجداد کے نام جانے پہچانے ہیںخدا نے ہم سے اور ان سے عہد لیا ہے کہ جہاں ہم جائیں گے وہاں وہ بھی داخل ہوں گے۔

اِنَّ شیعتَنا لمکتوبُونَ مَعْرُوفون بِأسماءِهِم واسماء آباءهم، اَخَذَاﷲ المیثاقَ علیناوعَلَیهم، یَرِدونَ مَوارِدَناوَیَدخُلون مَداخِلَنا(بحار الانوارج۲۳ص۳۱۳)

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے آیتِ قرآن:وَمِمَّنْ هَدَیْنَاوَاجْتَبَیْنَا (جنہیں ہم نے ہدایت دی اور منتخب کیاسورہ مریم ۱۹آیت ۵۸) کے بارے میں فرمایا:

فَهُم وَاﷲِ شیعَتُناالّذین هَدٰاهُمُ اﷲُ لِمَوَدَّتِنٰاوَاجْتَباهُمْ لِدینِنا

خدا کی قسم، یہ ہمارے شیعہ ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کی خدا نے ہماری مودت اور محبت کی جانب رہنمائی کی ہے اور انہیں ہمارے دین کے لئے منتخب کیا ہے(بحار الانوارج ۲۶ص ۲۲۴)

خاندانِ رسول ؑ سے محبت اور اُن کی پیروی ایک ایسی گرانقدر توفیق ہے جو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی اور ہمیں چاہئے کہ اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کریں۔

ائمہ ؑ کی اپنے شیعہ پر دوسری عنایت روزِ قیامت شفاعت کی صورت میں ظاہر ہو گی، جس کی جانب وہ احادیث اشارہ کر رہی ہیں جو ہم بعد میں بیان کریں گے۔

۲۷

امام جعفر صادق علیہ السلام نے قرآن کی آیت:اِنَّ اِلَیْنَآاِیَابَهُمْ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَهُمْ (یقیناً انہیں ہماری طرف پلٹ کر آنا ہےپھر یقیناً ان کا حساب لینا ہمارے ذمے ہےسورہ غاشیہ ۸۸آیت ۲۵، ۲۶) کے ذیل میں فرمایا ہے:

اِذٰا کٰانَ یَومَ القِیٰامَةِ جَعَلَ اﷲُ حسابَ شیعَتِناعَلَینا

جب روزِ قیامت آئے گا، تو خداوند عالم ہمارے شیعوں کا حساب ہمارے ذمے کر دے گا(بحار الانوارج ۷ص ۲۰۳)

آپ ؑ ہی کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ:

نَشْفَعُ لِشیعَتِنٰافَلاٰ یَرُدُّنٰارَبُّنٰا

ہم اپنے شیعوں کی شفاعت کرتے ہیں اور خداوند عالم بھی ہماری شفاعت کو مسترد نہیں کرتا(بحارالانوارج ۸ص ۴۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

اَیْنَمانَکُونُ فَشیعتُنٰامَعَنا

جہاں کہیں ہم ہوں گے، ہمارے پیروکار بھی ہمارے ساتھ ہوں گے

(بحارالانوارج ۸ص ۴۱)

حتیٰ یہ ساتھ جنت میں داخلے کے وقت بھی پایا جائے ہو گاحضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

 وخمسةُ ابوابٍ یَدخُل مِنها شیعتُنٰاوَمُحبّونا

جنت کے آٹھ دروازوں میں سے پانچ دروازوں سے ہمارے شیعہ اور محب داخل ہوں گے(بحارالانوارج ۲ص ۲۰۶)

۲۸

امام جعفر صادق علیہ السلام نے مسجد میں شیعوں کے ایک گروہ کو دیکھا، آپ ؑ اُن کے نزدیک گئے، انہیں سلام کیا اور فرمایا:

وَاﷲِ اِنی لَاُحبُّ ریحَکُم وَارواحَکم  اَنتمُ السّابِقونَ الی الجنّة، قدضَمِنّا لکم الجنانَ بِضَمانِ اﷲِ وَرَسُولِه  اَلاوَاِنّ لِکُلِّ شَیءٍ شَرَفَاًوَشرفُ الدینِ الشیعةُ، اَلاٰ اِنّ لِکُلِّ شی ءٍ عِماداً وَعِمادُ الدّینِ الشیعةُ، اَلاوانّ لکُل شیءٍ سَیّداً وَ سیّدُ المجالسِ مجالسُ شیعَتِنٰا

خدا کی قسم! میں تمہاری بو اور تمہاری روح کو پسندکرتا ہوںتقویٰ اور جد و جہد کے ذریعے ہماری مدد کروتم خدا کے دین کے مددگار ہوتم وہ لوگ ہو جو سب سے پہلے جنت کی طرف جاؤ گےہم نے تمہارے لئے جنت کی ضمانت لی ہےہر چیز کی بزرگی ہوتی ہے اور دین کی بزرگی شیعہ ہیںہر چیز کا ستون ہوتا ہے اور دین کا ستون شیعہ ہیںہر چیز کا سردار و رئیس ہوتا ہے اور بہترین مجالس اور ان کی سرورو سردار ہمارے شیعوں کی مجالس ہیں

(بحارالانوارج ۶۵ص ۴۳)

امام محمد باقر علیہ السلام نے قرآنِ کریم میں ذکر ہونے والے شجرہ طیبہ کے بارے میں فرمایا: یہ درخت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم ہیں اسکا تَنا علی ہیں اس کی شاخ فاطمہ ہیں اس کے پھل اولادِفاطمہ ہیں اور اس درخت کے پتّے ہمارے شیعہ ہیںجب بھی ہمارے شیعوں میں سے کوئی اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے، تو اس درخت کا ایک پتّا گر جاتا ہے اور جب بھی شیعوں کے یہاں کسی کی ولادت ہوتی ہے، تو اس پتّے کی جگہ ایک دوسرا پتّا اُگ آتاہے(بحارالانوارج ۹ص ۱۱۲)

۲۹

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:

اِنَّ اﷲ تعالی اِطّلَعَ اِلَی الأرضِ فاختارَنٰاوَاختارلناشیعةً یَنصرونَناو یَفْرَحُونَ بِفَرَحِناوَیَحزَنُون لِحُزْنِناوَیَبْذِلُونَ اَنْفُسَهم وَاموالَهُم فینا، فاولئک مِنّاوَاِلَیناوَهُم مَعَنافِی الجِنَان

خداوندِ عالم نے زمین کی طرف نگاہ ڈالی اور ہمیں چن لیا، اور ہمارے لئے پیروکار منتخب کئے، جو ہماری مدد کرتے ہیں، ہماری خوشی میں خوش ہوتے ہیں، ہمارے غم میں غمگین ہوتے ہیں اور ہماری راہ میں اپنی جانوں اور اموال کو خرچ کرتے ہیںپس وہ ہم سے اور ہماری طرف سے ہیں اور وہ جنت میں ہمارے ساتھ ہوں گے(میزان الحکمۃج ۵ص ۲۳۳)

مذکورہ روایات اس گھرانے کے پیروکاروں پر خدا اور اہلِ بیت ؑ کی عنایات اور اس محبت اور ولایت کے حامل لوگوں کے ممتاز مقام کو ظاہر کرتی ہیںیہ خاص عنایات جو دو کرم کے حامل اس گھرانے سے انسان کی محبت میں اضافہ کرتی ہیں اور ان سے الفت و عقیدت پیدا کرتی ہیں۔

ائمہ اطہار ؑ کی نگاہ میں اپنے شیعہ کی قدر ومنزلت، اُن کی اپنے محبوں پر خاص توجہ اور محبتِ اہلِ بیت ؑ کے چشمے سے سیراب ہونے والوں اور آل اللہ سے ولا رکھنے والوں کے لئے خدا کے مقرر کردہ مقام کے بارے میں اس قدر احادیث موجود ہیں جن کا شمار ممکن نہیں اور جنہیں نقل کرنے کے لئے ایک انتہائی ضخیم کتاب درکار ہو گیلیکن ان احادیث کے ایک حصے کے مضامین سے آگہی کے لئے، ہم ذیل میں ان فضیلتوں اور خصوصیات میں سے بعض کے عناوین پیش کرتے ہیں(۱)

--------------

1:- ان کثیر احادیث کے متن کے مطالعے کے لئے بحارالانوار کے معجم المفہرس میں لفظ شیعہ کے ذیل میں آنے والی احادیث کو ملاحظہ کیجئے۔

۳۰

شیعیانِ علی روزِ قیامت سیراب، رستگار اور کامیاب ہیں شیطان شیعیانِ علی پر مسلط نہیں ہوسکتاشیعیانِ علی شیعیانِ خدا ہیںشیعیانِ علی مغفرت شدہ ہیںشیعہ روزِ قیامت حضرت علی ؑ کے ہاتھوں جامِ کوثرسے سیراب ہوں گےان کے پیروکار دنیا اور آخرت میں فتحیاب ہیں اگر شیعہ نہ ہوتے تو خدا کا دین مضبوط نہ ہو پاتایہ بہترین بندگانِ خدا اور صراطِ حق پر ہیں انہوں نے دین اہلِ بیت ؑ اپنایا ہےہمارے شیعہ دوسروں کی نسبت خدا کے عرش اور ہم سے نزدیک تر ہیںہمارے شیعہ دوسروں پر گواہ ہیںہم اور ہمارے شیعہ اصحاب الیمین ہیںہمارے شیعہ ہدایت یافتہ، گرانقدر، صادق اور شیطان کے تسلط سے نجات یافتہ ہیںقیامت کے دن ہمارے شیعہ اپنی قبروں سے نورانی چہروں کے ساتھ اٹھائے جائیں گے اور میدانِ حشر میں سوار پر آئیں گےشیعہ نورِ خدا کے ذریعے دیکھتے ہیںہماری طینت سے پیدا کئے گئے ہیںہم بھی منتخب شدہ ہیں اور ہمارے شیعہ بھییہ ہمارے نور کی شعاع سے پیدا کئے گئے ہیںخداوند عالم ہمارے شیعہ کو دنیاہی میں اسکے گناہوں سے پاک کردیتا ہےخدا نے ہمارے شیعوں سے میثاقِ ولایت لیا ہوا ہےہم اپنے شیعوں پر گواہ ہیں اور ہمارے شیعہ دوسروں پر گواہہمارے شیعہ اپنے گھرانے کی شفاعت بھی کرسکتے ہیںشیعہ شہید دوسرے شہدا سے برتر ہےہمارے با ایمان پیروکار پیغمبر کے اقربا ہیں۔ ۔ احادیث میں شیعوں کے اور اسی طرح کے سینکڑوں بلند مراتب اور فضیلتیں بیان ہوئی ہیں۔

البتہ یہ اوصاف و فضائل اور اعلیٰ مقامات و مرتبے جس قدر گراں قیمت اور پسندیدہ ہیں اسی قدروہ زیادہ ذمے داری، فرض شناسی اور دینداری کا تقاضا کرتے ہیںتاکہ انسان اس مقام ومرتبے کااہل بن سکے(اس کتاب کے اختتامی نکات پر غور فرمایئے گا)

۳۱

5:- حبِ آلِ محمد ؑ کی فضیلت بیان کرنا

وہ افراد اور ادارے جومحبتِ اہلِ بیت ؑ کی تبلیغ کرتے ہیں اُن کی سرگرمیاں دوسروں کو اس محبت کی جانب مائل کرنے میں موثرہوتی ہیں ایک منصوبہ بندی کے ساتھ محبتِ اہلِ بیت ؑ کی فضیلت، اس کی برکات اور اس کے آثار کو مسلسل بیان کرنا چاہئےیہ چیزیں بہر صورت کچھ لوگوں پر اثر انداز ہوتی ہیں اور ان تبلیغات کے نتیجے میں لوگ اس جانب مائل ہوتے ہیں اس بارے میں بہت سی احادیث ہیںمثال کے طور پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَلاٰ وَمَنْ ماتَ عَلیٰ حُبّ آلِ محمّدٍ ماتَ شهیداً

اَلاٰ وَمَنْ ماتَ عَلیٰ حُبّ آلِ محمّدٍ ماتَ مغفوراًله

اَلاٰ وَمَنْ ماتَ عَلیٰ حُبّ آلِ محمّدٍ ماتَ مؤمناًمُستکمِلَ الأیمان

اَلاٰ وَمَنْ ماتَ عَلیٰ حُبّ آلِ محمّدٍ بَشَّرهُ ملکُ الموتِ بالجَنَّة

اَلاٰ وَمَنْ ماتَ عَلیٰ حُبّ آلِ محمّدٍ فُتِخَ له فی قبره بابان اِلَی الجنَّة

اَلاٰ وَمَنْ ماتَ عَلیٰ حُبّ آلِ محمّدٍجَعلَ اﷲُ قَبَرهُ مَزارَ ملائکةِ الرّحمة

جو کوئی حبِ آلِ محمد کے ساتھ مرے وہ شہادت کی موت مرا ہےوہ بخش دیا گیا ہےوہ تائب مرا ہےوہ ایمانِ کامل کے ساتھ مرا ہےملک الموت اسے جنت کی بشارت دیتا ہےاس کی قبر میں دو کھڑکیاں بہشت کی جانب کھلتی ہیں اس کی قبر خدا کی رحمت کے فرشتوں کی زیارت گاہ بن جاتی ہے۔

۳۲

اس قسم کی بکثرت روایات موجود ہیں جن کا ذکر دلوں کو ہلا کے رکھ دیتا ہے اور لوگوں کو اہلِ بیت ؑ کا شیفتہ بنا دیتا ہےروایات میں اس محبت کی فضیلت کے بارے میں کثرت کے ساتھ درجِ ذیل نکات کا ذکر ہوا ہے:

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :

اساس الاسلام حبّی وحبّ اهل بیتی

میری اور میرے اہلِ بیت کی محبت اسلام کی اساس ہے

(کنز العمالج ۱۲ص ۱۰۵)

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

حبّنااهل البیت نظامُ الدّین

ہم اہلِ بیت کی محبت نظامِ دین ہے(امالئ طوسیص ۲۹۶)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

مَنْ احبّنا فقد احبّ اﷲ ومن ابغضنا فقدابغض اﷲ

جس کسی نے ہم سے محبت کی، اُس نے خدا سے محبت کی اور جس نے ہم سے بغض رکھا، اُس نے خدا سے بغض رکھا(امالئ صدوقص ۳۸۶)

زیارتِ جامعہ کبیرہ میں بھی ہم پڑھتے ہیں کہ:

مَنْ اَحَبَّکُمْ فَقَدْاَحَبَّ اﷲَ

جس نے آپ سے محبت کی، اُس نے خدا سے محبت کی۔

۳۳

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

من احبّ هولاء فقداحبّنی ومن ابغضهم فقد ابغضنی

جس نے اہلِ بیت سے محبت کی، اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے اُن سے بغض رکھا اُس نے مجھ سے بغض رکھا

(تاریخِ دمشقترجمۃ الامام الحسینص ۹۱)

امام محمد باقر علیہ السلا م فرماتے ہیں:

انّی ئا عَلَم انّ هذاالحبَّ الّذی تحبّونا لیسَ بشی ء صَنعْتُموه ولکنّ اﷲ صنعه

میں جانتا ہوں کہ یہ محبت جو تم ہم سے کرتے ہوایسی شئے نہیں ہے جسے خود تم نے وجوددیا ہو، بلکہ اس سے اللہ نے تمہیں نوازا ہے

(المحاسنج ۱ص ۲۴۶)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے :

حبّنا اهل البیت افضلُ عبادة

حبِ اہلِ بیت بہترین عبادت ہے(المحاسنج ۱ص ۲۴۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام ہی کا ارشاد ہے:

لا تستصغروامودَتنا، فانّها من الباقیات الصّالحات

ہماری محبت کو معمولی نہ سمجھنا، یہ باقیاتِ صالحات میں سے ہے

(مناقبِ ابن شہر آشوبج۴ص ۲۱۵)

۳۴

پس جب محبتِ اہلِ بیت ؑ کو اس قدر فضیلت حاصل ہے، تو ہمیں چاہئے کہ اپنے دل کو ان کی محبت سے بھر لیں اور ان سے عشق اور عقیدت کا اظہار کریںکیونکہ یہ محبت اور عشق کرنے کے لئے لائق ترین افراد ہیں اگرہم دل کو ایک ظرف سمجھیں تو اس ظرف کی قدر و قیمت اس محبت سے وابستہ ہے جو اس کے اندر موجود ہےانسان کی قیمت اس عشق سے ہے جو اس کے دل میں بسا ہوجس قدر و ہ معشوق اور محبوب گراں قیمت اوربیش بہا ہو گا اتنا ہی انسان بھی قیمتی اور گراں قدر ہو گا۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے: اے لوگو! ہمیشہ میرے گھرانے سے محبت رکھو اور اس سے جدا نہ ہوجو کوئی خدا سے اس حال میں ملاقات کرے کہ اس (کے دل) میں ہماری محبت ہو، تو ایسا شخص ہماری شفاعت کے ذریعے جنت میں داخل ہو گا(بحارالانوارج ۲۷ص ۱۹۳)

6:- اس محبت کی ضرورت اور فوائد بیان کرنا

انسان عموماً اس شخص یا ہستی کو پسند کرتا ہے اوراس سے محبت رکھتا ہے جو اس کی مشکلات حل کرے اور اسے فائدہ پہنچائےلوگوں کے باہمی تعلقات میں یہ مسئلہ انتہائی واضح طور پردیکھا جا سکتا ہے۔

ہماری مسلسل زندگی جو آخرت تک جاری رہے گی اس میں ہم کہاں پھنستے ہیں اور کہاں کہاں ہمیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے؟

موت کے وقت، برزخ میں، قیامت کے دن اورپلِ صراط عبور کرتے ہوئے ہمیں شدت کے ساتھ کسی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، اس وقت ہم مشکل کا شکار ہوتے ہیں، ہمیں ایسے مواقع پر محبتِ اہلِ بیت ؑ کے کارآمد ہونے سے واقف ہونا چاہئےاس بارے میں بھی بہت زیادہ احادیث موجود ہیں، ان ہی میں سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چند مشہور احادیث درجِ ذیل ہیں:

۳۵

حُبّی وحُبُّ اهلِ بیتی نافعٌ فی سَبعةِ مَواطِنَ اَهوالُهُنَّ عظیمةٌ:

عندَ الوفاةِوفی القبر وعندَ النُّشورِ، وعندَ الکتابِ وعندَ الحسابِ وعندَ المیزانِ و عندالصِّراط

میری اور میرے اہلِ بیت کی محبت سات مقامات پر فائدہ پہنچاتی ہے، وہ سات مقامات جن کی ہولناکی اور ہراس عظیم ہےموت کے وقت، قبر میں، قبر سے اٹھائے جانے کے موقع پر، نامہ اعمال سپرد کرتے وقت، اعمال کے حساب اور جائزے کے وقت، اعمال کا وزن کرتے وقت اور صراط عبور کرتے ہوئے(میزان الحکمۃج ۲ص ۲۳۷)

سَأل رَجُلٌ رسولَ اﷲِ عَنِ السّاعة، فقال: مااَعْدَدْتَ لها؟ قال: مااعدَدْتُ لها کبیراً، اِلّا انّی اُحِبُّ اﷲَ ورسولَهقال: فَاَنْتَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ (المرءُ مَعَ مَن اَحَبّ) قال انسٌ: فمارأیتُ المسلمینَ فَرِحُوابعدَ الأسلام بِشی ءٍ اَشَدَّ مِن فَرَحِهِم بِهذا

ایک شخص نے رسول اﷲ سے سوال کیا کہ قیامت کیا ہے اور کس طرح واقع ہو گی؟ آنحضرت نے اس سے پوچھا: تم نے قیامت کے لئے کیا تیار کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: کوئی خاص اہم چیز تیار نہیں کی ہے، سوائے یہ کہ خدا اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں آنحضرت نے فرمایا: تم اس کے ساتھ ہو گے جس سے محبت کرتے ہو (انسان اس ہستی کے ساتھ محشور ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے)

انس کہتے ہیں :میں نے نہیں دیکھا کہ مسلمان اسلام کے بعد اس کلام سے زیادہ کسی اور کلام سے خوش ہوئے ہوں

(بحارالانوارج ۱۷ص ۱۳، میزان الحکمۃج ۲ص ۲۴۲)

۳۶

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

مَن اَحَبَّنا کانَ مَعَنا یومَ القیامة، ولواَنَّ رَجُلا اَحَبَّ حَجَراً لَحَشَرَهُ اﷲُ مَعَهُ

جو کوئی ہم سے محبت کرتا ہے، وہ روزِ قیامت ہمارے ساتھ ہو گااگر کوئی ایک پتھر سے (بھی) محبت کرتا ہو گا، تو خداوند عالم اسے اس پتھر کے ساتھ محشور کرے گا(بحارالانوارج ۳۷ص ۳۳۵)

اہلِ بیت ؑ سے محبت و عقیدت رکھنے والے لوگوں کے لئے یہ ایک عظیم خوشخبری ہے کہ وہ آخرت میں بھی اہلِ بیت ؑ کے ساتھ محشور ہوں گے۔

جب محبت اس حد تک مفید اور کارآمد ہے تو آخر کیوں ہم اس دولت سے محروم رہیں؟

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

موت کے وقت جب تمہاری جان گلے میں پہنچتی ہے، اس وقت تمہیں ہماری محبت کی زیادہ ضرورت ہو گیاگر تمہارے دل میں ہماری محبت ہوئی توخوشخبری دینے والا فرشتہ آئے گا اور کہے گا کہ بالکل خوف نہ کھاؤ، تم امان میں ہو۔

(بحارالانوارج ۶ص ۱۸۷)

روایات میں محبتِ اہلِ بیت ؑ کے بہت سارے آثار کا ذکر ہوا ہےخاص کر آخرت کے مرحلے میں یہ آثار و منافع درج ذیل عنوانات کے تحت جمع کئے جا سکتے ہیں:(۱)

--------------

1:- یہ آثار وعناوین محمد محمدی ری شہری کی کتاب ”اھل البیت فی الکتاب والسنۃ“ سے ماخوذ ہیں۔

۳۷

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

حبّنا اهل البیت یکفرالذنوب ویُضاعف الحسنات

محبتِ اہلِ بیت گناہوں کے جھڑ جانے اور نیکیوں میں اضافے کا باعث ہے۔

(ارشاد القلوبص ۲۵۳)

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

لا یحبّناعبدًحتی یطهَر اﷲُ قلبَه

جس کسی نے ہم سے محبت کی خدا نے اس کے دل کو پاک و پاکیزہ کیا ہے(دعائم الاسلامج۱ص ۷۳)

آپ ؑ ہی نے فرمایا ہے:

من احبّنااهل البیت وحقّق حبَنا فی قلبه جَرَتْ ینابیع الحکمة علی لسانه

جس کسی نے ہم اہلِ بیت سے محبت کی اور اس محبت کو اپنے دل میں رچا بسالیا، اسکی زبان سے حکمت و دانائی کے چشمے جاری ہو کے رہیں گے(المحاسنج ۱ص ۱۳۴)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

حبّ اهل بیتی وذرّیتی استکمالُ الدّین

میرے اہلِ بیت اور عترت سے محبت کمالِ دین (کی باعث) ہے۔

(امالئ صدوقص ۱۶۱)

۳۸

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

شفاعتی لأ متی مَن احبّ اهلَ بیتی وهم شیعتی

میری شفاعت میری اُمت کے اُن افراد کے لئے ہے جو میرے اہلِ بیت سے محبت کرتے ہیں، اور یہی میرے شیعہ ہیں(تاریخ بغدادج ۲ص ۱۴۶)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا فرمان ہے:

اکثرکم نوراً یومَ القیامة اکثرکم حُبّأ لاَل محمّد

روزِ قیامت ان ہی لوگوں کا نور زیادہ ہوگا جو آلِ محمد سے زیادہ محبت کرتے ہوں گے(بشارۃ المصطفیٰ ص ۱۰۰)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نے فرمایا ہے:

من احبّنا اهل البیت حشره اﷲ تعالیٰ اَمنأیومَ القیٰمة

جو ہم اہلِ بیت سے محبت کرتا ہے، روزِ قیامت خداوند عالم اسے (اس دن کے خوف سے) امان کے ساتھ محشور کرے گا(عیون اخبار الرضاج ۲ص ۲۲۰)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا ارشاد ہے:

اَثْبَتُکم قَدَمَاً عَلی الصّراط اشدّ کم حُبّاًلأ هل بیتی

پلِ صراط پر تم میں زیادہ ثابت قدم وہی ہوگا جو میرے اہلِ بیت سے زیادہ محبت کرتا ہے(فضائل الشیعہص ۴۸)

۳۹

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

واﷲ لا یموتُ عبدیحبّ اﷲ ورسولَه و یتولّی الأئمة (ع) فَتمسَّهُ النار

خدا کی قسم! جو بھی خدا اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے اور ائمہ کی پیروی کرتا ہے اُسے آتش جہنم نہیں چھو سکتی(رجالِ نجاشیج۱ص ۱۳۸)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

مَن احبّنا اهل البیت فی اﷲ حُشرمعناواَدْخَلْنٰاهُ مَعَناالجَنّة

جو خدا کی خاطر ہم اہلِ بیت سے محبت کرتا ہے وہ ہمارے ساتھ محشور کیا جائے گا اور ہم اسے اپنے ساتھ جنت میں لے جائیں گے(کفایۃ الاثرص ۲۹۶)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

اعلیٰ درجات الجنَة لِمَنْ اَحَبّنابِقلبه ونَصرنابلسانه ویَده

جنت کے اعلیٰ درجات اُسکے لئے ہیں جو ہم سے دلی محبت کرتا ہے اور اپنی زبان اور عمل سے ہماری مدد کرتا ہے(المحاسنج ۱ص ۲۵۱)

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175