توحید مفضل

توحید مفضل33%

توحید مفضل مؤلف:
زمرہ جات: توحید
صفحے: 175

توحید مفضل
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 175 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 131172 / ڈاؤنلوڈ: 6123
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

توحید کی تبلیغ فقط کافروں ہی کو شرک سے نجات نہیں دیتی بلکہ چونکہ توحید آسمانی مذہبوں کی مشترکہ تبلیغ ہے لہٰذا ان تمام مذہبوں کے ماننے والوں کو ایک مضبوط مرکز پر مشترکہ جدوجہد کی طر ف دعوت دیتی ہے۔ کتاب ہٰذا اسی نورانی عقیدہ کی تبیین و تشریح اور اثبات کے سلسلے میں ایک اہم قدم ہے جس کی تعریف و توصیف میں یہی کہہ دینا کافی ہے کہ یہ کتاب سلسلہ امامت و خلافت کے چھٹے تاجدار اور اسلامی شاہراہ ہدایت کے روشن منارے حضرت امام جعفر صادق ـ سے منسوب ہے۔

والسلام

حسین احمدی

مسئول انتشارات مسجد جمکران

قم المقدسہ

۲۱

( عرض ناشر )

تاریخ بشریت میں عقائد خصوصاً ''توحیدِ پروردگار کا مسئلہ انبیاء ٪ کی الٰہی دعوت کی بنیاد اور اساس رہا ہے۔ ان الٰہی اور آسمانی انسانوں کے کلام کا آغاز اور اُن کے پیغام کا انجام انسانیت کو ایک خدائے وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دینا تھا۔ اسلامی نظریہ حیات اسی تصور کو انسان کے رگ و پے میں اتارنے اور اس کے قلب و باطن میں جایگزین کرنے سے متحقق ہوتا ہے۔ تصور توحید کی اساس تمام معبودانِ باطلہ کی نفی اور ایک خدائے لم یزل کے اثبات پر ہے عقیدہ توحید پر ہی ملت اسلامیہ کے قیام و بقاء اور ارتقاء کا انحصار ہے یہی عقیدہ امت اسلامیہ کی قوت تمکنت کا سرچشمہ اور اسلامی معاشرہ کا روحِ رواں ہے۔

تاریخ کے طولانی سفر اور زمانوں کے گذرتے ہوئے لمحات اس بات کے گواہ ہیں کہ انسانی سماج نے ہر دور میں اس بنیادی اصل سے انحراف کیا جس کے نتیجے میں فتنے، بلائیں اور مشکلات اس کے دامن گیر ہوتی ہیں چنانچہ ابتدائے آفرینش ہی سے انسانی قافلہ میں بہت سی ایسی نمایاں شخصیتوں نے جنم لیا جنہوں نے حسب موقع و ضرورت خدمات سر انجام دیں اور بھٹکی ہوئی انسانیت کو جادئہ اعتدال پر لانے کی مسلسل جدوجہد فرمائی۔ ان انسانوں میں کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنی محدود عمروں کے باوجود زمان و مکان کو مسخر کیا، شب و روز ان کے فیض سے نورانی ہوئے، ماہ و سال ان کے در پر جبہ رسائی سے فیضاب ہوئے، صدیوں نے ان کی بارگاہ میں اپنی جبینیں جھکائیں، تہذیبوں کے چمن جن کی زلفوں کی ہوائوں سے لہلہائے اور انسانی قدروں کے پھول جن کے عارض سے تازگی لے کر صدا بہار ہوئے ہیں انھیں کامل انسانوں میں سے ایک نام جو واقعاً انسانیت کی پیشانی پر درخشاں اور نمایاں ہے وہ جعفر ابن محمد حضرت امام صادق ـ کا نام ہے۔ آپ نے حدیثِ توحید میں جسے توحید مفصل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ توحیدِ پروردگار کے سلسلے میں کامل ترین عنوان سے الٰہی تصورات کائنات کو پیش کیا اور نورانی معارف و حقائق کے مختلف پہلوئوں کی اس انداز سے تشریح و تبیین فرمائی کہ محلدین

۲۲

اور خدائے کے بارے میں شک کرنے والوں کے پاس خاموشی، سرجھکائے اور اپنے غافل ہونے کے اقرار ے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔

آج پھر دنیا میں کفر و الحاد اور استعماری طاقتیں انسانوں کو جادئہ توحید سے ہٹانے میں مصروف عمل ہیں۔ خصوصاً نوجوان نسل کی فکری بنیادوں پر شب خون مارتے ہوئے یلغار کر رہے ہیں۔

لہٰذا چارہ کار یہ ہے کہ اس وقت موجودہ امکانات و وسائل سے صحیح استفادہ کرتے ہوئے الٰہی اقدار و معارف کی ترویج و تشہیر کی ذمہ داری پوری کی جائے۔ اس عظیم ذمہ داری کا بارِ سنگین دل سوز علماء کرام، دینی رہبروں اور علمی و دینی مراکز پر ہے ''توحید مفضل'' کی اشاعت اسی مقصد کی تکمیل کے سلسلے میں ایک قدم ہے جس کے مطالعہ کے دوران آپ کو بہت سارے دقیق اور ضروری نکات دیکھنے کو ملیں گے کہ جن میں سے ہر ایک قارئین کے اذہان سے کئی ایک شبہات اور استفسارات کو محو کردینے کے لیے کافی ہے۔

اس ابتدائی مرحلہ میں خداوند متعال کی سپاس گذاری کے ساتھ تمام علمی و تحقیقی کوششوں میں مصروف بزرگوں، دوستوں واسطۂ خیر قرار پانے والوں کا صمیم قلب سے شکر گزار ہوں، بالخصوص محترم مترجم حجة الاسلام و المسلمین مولانا سید نسیم حیدر زیدی صاحب کا تہ دل سے شکر گزار جھنوں نے نہایت عرق ریزی سے اس کتاب کا ترجمہ کیا۔

آخر میں حجت پروردگار، امام روزگار، قطب عوالم ہدایت، خاتم مقیدہ ولایت، خلیفہ رحمان حضرت حجت ابن الحسن العسکری کے موفور السرور تعجیل ظہور کے لیے بارگاہِ ربّ العزت میں دعاگو ہوں۔

والسلام

محمد امین مرچنت

۲۳

( مقدمہ )

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ O

الحمد للّٰه الواحد الاحد الّذی لا شریک له الفرد الصمد الّذی لَا شبیه له الاوّل القدیمه الذی لاغایة َ له الاخر الباقی الذی لا نهایة له الموجود الثابت لا عدمَ لَه فسبحان الذی بیدهِ ملکوت کل شیٔ و الیه المرجع والمصیر وَ أَشهد أَن لا ِله الّا اللّٰه ربّ العالمین وا شهد أَن محمداً عبده وَ رسوله سید النبیّن واشهد أَنَّ علی ابن ابیطالب سید الوصیین وامام المتّقین و ان ائمة من ولده بعده حجج اللّه الٰی یوم الدّین صلوٰت اللّه وسلامه علیهم اجمعین

یوں تو خالق دو جہاں کے وجود اور اس کی وحدانیت کے موضوع پر بہت سی عظیم کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں محکم و مضبوط دلائل کے ذریعہ خالق کائنات کے وجود اور اس کی وحدانیت کو ثابت کیا گیا ۔ لیکن ان عظیم کتابوں میں سے ''توحید مفضّل '' اپنی مثال آپ ہے ، کہ جو اس حدیث کا ترجمہ ہے، کہ جسے حضرت امام جعفر صادق ـ نے اپنے خاص صحابی اور جلیل القدر شاگرد مفضّل بن عمر کو مسلسل چار رو زاملاء کرائی۔ لہٰذا اسی روز سے اس حدیثِ توحید کو توحید مفضّل کے نام سے یاد کیا جانے لگا جس کا اردو ترجمہ موضوعات کی تنظیم کے ساتھ آپ کے سامنے پیش کیا جا رہاہے۔

امام ـ نے اس حدیث میں ہدایت کے غرض سے باغِ خلقت میں موجود نشانیوں کو اسطرح نمایاں کیا کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی طرف اشارہ کررہی ہیں تاکہ محترم قارئین مختلف کلمات و نشانیوں سے خداوند عالم کو دیکھنے لگیں جو آنکھ کے دیکھنے سے کہیں زیادہ روشن تر ہے۔حضرت امام جعفر صادق (ع)اسلام کے وہ عظیم الشان مفکر ہیں جہنوں نے خالق کائنات کی توحید اور اسکے صفات پر

۲۴

فطری اور عقلی نقطہ نظر سے بحث کی ہے اس سلسلے میں آپکے بیانات علم الہیات میں نقش اوّل بھی ہیں اور حرف آخر بھی ۔ان کی بلند نظری و معنیٰ آفرینی کے سامنے حکماء و متکلّمین کی ذہنی رسائیاں ٹھٹھک کر رہ جاتی ہیں اور نکتہ رس طبیعتوںکو عجزو نارسائی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے ۔بلا شبہ جن لوگوں نے الہیاتی مسائل میںعلم و دانش کے دریا بہائے ہیں ان کا سر چشمہ آپ ہی کے حکیمانہ ارشادات ہیں۔یوں تو مخلوقات کی نیرنگیوں سے خالق کی صنعت آفرینیوں پر استدلال کیا ہی جاتا ہے ،لیکن جس طرح امام (ع) کائنات کی چھوٹی سے چھوٹی اور پست سے پست مخلوق میںنقّاش فطرت کی نقش آرائیوں کی تصویر کھینچ کر صانع کمال صنعت اور اس کی قدرت و حکمت پر دلیل قائم کرتے ہیں وہ ندرت بیانی میں اپنا جواب نہیں رکھتی اس موقع پرصرف طاؤس کے پروبال کی رنگینی ورعنائی ہی نظروں کو جذب نہیں کرتی ،بلکہ چمگادڑ،ٹڈی،مکڑی اور چیونٹی جیسی روندی ہوئی اور ٹھکرائی ہوئی مخلوق کا دامن بھی فطرت کی فیاضیوں سے چھلکتا ہوا نظر آتا ہے ۔

قابل ستائش ہیں ، فقیہ اہل بیت عصمت و طہارت حضرت آیت اللہ محسن حرم پناہی جنہوں نے اس ترجمہ شدہ کتاب پر تقریظ لکھ کر میری حوصلہ افزائی فرمائی اور میرے شفیق اور مہربان استاد حضرت علامہ سید رضی جعفر نقوی (دام برکاتہ) جنہوں نے بے انتہا مصروفیت کے باوجود میری اس ناچیز کوشش کوسراہتے ہوئے نظر ثانی کی زحمت کو برداشت کیا نیز اپنے عزیز اور محترم والدین اور معلمہ محترمہ عصمت بتول کا شکرگزار ہوں جنہوں نے میری تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ نا سپاس گزاری ہوگی اگر ان تمام افراد کا شکریہ نہ کیا جائے جنہوں نے اس کتاب کی نشر و اشاعت میں تعاون فرمایا۔آخر میں اس بات کا اعتراف ضروری ہے کہ اصل کلام کی خصوصیات ترجمہ میں منتقل نہیں کی جاسکتیں اورآئینہ کے بالمقابل پھول رکھ کر اس کی پتّیوں کی تہ میں لپٹی ہوئی خوشبو کی عکّاسی ناممکن ہے کہ کوئی پھول کے عکس سے خوشبو سونگھنے کی توقع کرنے لگے مگر پھول کی شکل و صورت بھی نظر نہ آئے تو اس کے سواء کیا

۲۵

کہا جاسکتا ہے کہ آئینہ ہی دھندلا ہے ،مجھے اپنی ناتوانی کے ساتھ قلم کی ناتوانی کا بھی احساس ہے جس کے پیش نظر میرے لیے اس عظیم ذمہ داری کا نبھانا لمحہ فکریہ تھا ان حالات میں میںنے لسا ن ِعصمت و طہارت کی ترجمانی کی جرأت کی ہے تر جمہ جیسا کچھ بھی ہے آپ کے سامنے ہے میری کوشش تو یہی رہی کہ میرے امکانی حدود تک ترجمہ صحیح ہو امام (ع) نے اپنے استدلال میںعلمی اور سائنسی مطالب کے علاوہ کافی ایسے الفاظ وکلمات استعمال کیے جن کے ترجمے کے لیے باربار لغت اور دوسری کتب کی طرف رجوع کیا اور اس سلسلہ میں اساتذہ سے بھی مدد لی گئی بہر حال حتی الامکان صحیح ترجمہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔اور ساتھ ہی مفضّل بن عمر کے مختصر تعارف اور چند اہم مطالب کی طرف اشارہ کیا گیا اب یہ میری کوشش کہاں تک بار آور ہوئی ہے اس کا اندازہ ارباب علم ہی کر سکتے ہیں لہٰذامحترم قارئین سے خواہشمند ہوں کہ اگر ترجمہ یا تنظیم میں کسی بھی قسم کی کوئی کمی و بیشی ہو تو اُس کی نشان دہی ضرور فرمائیں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی تصحیح کردی جائے۔

والسلام مع الاکرام

سےّد نسیم حیدر زیدی

قم المقدسہ

۲۶

( مفضل بن عمر کا مختصرتعارف )

آپ مفضّل بن عمر، ابو محمد یا ابو عبد اللہ ہیں آپ پہلی صدی ہجری کے اواخر یا دوسری صدی ہجری کے اوائل میں شہر کوفہ میں رونق افروز ہوئے(۱) آپ حضرت امام جعفر صادق ـ اور امام موسیٰ کاظم ـ کے وہ عظیم الشان صحابی اور جلیل القدر شاگرد ہیں جن کا نام تاریخ کے صفحات پر روشن و تاباں ہے جس کی روشنی مدہم نہیں پڑتی اور جن کی عظمت و بزرگی کا چراغ زمانے کی ہوائوں سے گل نہیں ہوتا۔ آپ شہر کوفہ میں دونوں اماموں کی طرف سے وکیل تھے۔

مفضل بن عمر روایات کے آئینہ میں

مفضل بن عمرکے اعلیٰ و اشرف مقام کے لیے بس یہی کافی ہے کہ ائمہ طاہرین ٪ سے نقل شدہ بہت سی روایات میں مفضّل کی عظمت و بزرگی کو بیان کیا گیا ہے ان روایات کی تعداد بہت زیادہ ہے لہٰذا ہم اپنی محدودیت اور تنگ دامنی کے پیش نظر اس بحرِ خروشاں میں کودنے سے اجتناب کرتے ہوئے صرف چند روایات کے ذکر پر اکتفا کر رہے ہیں۔

۱۔ شیخ مفید علیہ الرحمہ بروایت صحیح حضرت امام جعفر صادق ـ سے نقل فرماتے ہیں کہ امام ـ نے مفضل سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے مفضّل خدا کی قسم میں تمہیں اور تمہارے دوست کودوست رکھتا ہوں۔ اے مفضل اگر میرے تمام اصحاب اُن تمام چیزوں کا علم رکھتے جنہیں تم جانتے ہو تو کبھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ توحید مفضل۔ (شگفتیھای آفرینش) نجف علی میزایی سے اقتباس۔

۲۷

اُن کے درمیان اختلاف نہ ہوتا۔(۱)

۲۔ محمد بن سنان سے مروی ہے کہ میں امام موسیٰ کاظم ـ کی خدمت میں شرفیاب ہوا تو امام ـ نے مجھ سے فرمایا: اے محمد، مفضل مجھ سے محبت کرنے والے میرے دوست اور میرے لیے باعث سکون و راحت تھے۔(۲)

۳۔ ہشام بن احمد سے روایت ہے کہ ایک روز شدید گرمی تھی کہ میں مفضّل کے بارے میں جاننے کے لیے حضرت امام جعفر صادق ـ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ کام میں مصروف تھے اور آپ کے سینہ مبارک سے آپ کا پسینہ سرازیر تھے تھا۔ ہشام کہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ میں کچھ پوچھتا، لبہائے عصمت و طہارت گشودہ ہوئے اور فرمایا: ''خدایا وحدہ لاشریک کی قسم مفضّل بن عمر ایک نیک انسان تھے''اور میرے اندازہ کے مطابق امام ـ نے اس جملہ کو ۳۰ سے زیادہ بار دہرایا۔(۳)

۴۔ فیض بن مختار کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق ـ سے عرض کی میں آپ پر قربان ہوجائوں۔ میں جب بھی کوفہ کے دانشوروں کے درمیان بیٹھا ہوں تو ان کے باہمی اختلاف کی وجہ سے میرا عقیدہ سست اور کمزور ہوجاتا ہے لیکن جب میں مفضّل بن عمر سے ملتا ہوں تو وہ اپنے علم و آگہی کے چشمہ سے مجھے اس طرح سیراب کرتے ہیں کہ میں مطمئن ہوجاتا ہوں یہ سن کر امام ـ نے فرمایا: اے فیض تم نے سچ کہا۔(۴)

۵۔ محمد بن یعقوب کلینی اپنی کتاب اصول کافی میں حضرت امام جعفر صادق ـ سے روایت کرتے

ہیں کہ آپ نے مفضل بن عمر سے فرمایا: (اے مفضّل) جب بھی ہمارے شیعیوں کے درمیان اختلاف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔الاختصاص، ص ۲۱۶۔

(۲)۔ عیون اخبار الرضا ـ، ج۱، باب ۴، ح ۲۹۔

(۳)۔ رجال کشی، شرح مفضّل بن عمر۔

(۴)۔ معجم الرجال الحدیث، ج۱۸، ص ۳۰۳۔

۲۸

پائو تو تمہیں یہ اختیار ہے کہ ہمارے مال کے ذریعہ ان کے اختلاف کو ختم کرکے ان میں صلح و آشتی برقرار کردو۔(۱)

ان روایات میں سے ہر ایک مفضّل بن عمر کے اعلیٰ و ارفع مقام و منزلت کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔

مفضل بن عمر علماء کی نظر میں

بہت سے علماء رجال ، فقہاء کرام اور محدثین نے مفضل بن عمر کے رفیع الشان مقام کو بیان کیا ہے جن میں سے صرف چند کی طرف ذیل میں اشارہ کر رہے ہیں۔

۱۔ شیخ صدوق: نے اپنی کتب میں بہت سی احادیث مفضل بن عمر کے توسط سے نقل کی ہیں۔ اور جب ہم شیخ صدوق کے اسی مبنیٰ پر نظر کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی کتاب ''من لا یحضرہ الفقیہ'' میں صرف ان احادیث کو ذکر کیا ہے جو آپ کے نزدیک معتبر اور حجت تھیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ مفضل بن عمر آپ کے نزدیک قابلِ اطمینان اور موردِ وثوق تھے۔ جو ''من لا یحضرہ الفقیہ'' میں موجود بہت سی روایات کے ناقل ہیں۔(۲)

۲۔ محمد بن یعقوب کلینی نے بھی اصول کافی میں بہت سی ایسی احادیث نقل کی ہیں جن کے راوی مفضل بن عمرو ہیں۔ بالخصوص ''یونس بن یعقوب''(۳) کی روایت جو صراحتاً مفضل بن عمر کی عظمت و جلالت پر دلالت کرتی ہے۔

۳۔ شیخ مفید علیہ الرحمہ مفضل بن عمر کے بارے میں سخن طراز ہیں کہ آپ حضرت امام جعفر صادق ـ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ اصول کافی، ج۲، ص ۲۰۹۔

(۲)۔ من لا یحضرہ الفقیہ۔ ج۱، ص ۳۔

(۳)۔ اصول کافی، ج۲، باب صبر۔ ح ۱۶۔

۲۹

کے خاص اور جلیل القدر صحابی ہونے کے علاوہ آپ کے موردِ اعتماد اور فقہاء صالحین میں سے تھے۔(۱)

۴۔ شیخ طوسی: مفضل بن عمر کے بارے میں رقمطراز ہین کہ آپ ائمہ ٪ کے مخلص اور قابل اعتماد صحابی تھے اور آپ نے اہل بیت ٪ کے پیام کی نشرو اشاعت کے لیے تاحد توان زحمتیں برداشت کیں۔(۲)

۵۔ علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ مفضل بن عمر کی عظمت و جلالت کو اجاگر کرنے کے لیے ائمہ ٪ سے بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں۔(۳) آپ حضرت امام جعفر صادق ـ کے نیک اور پارسا اصحاب میں ایک خاص مقام رکھتے تھے۔(۴)

ایک اعتراض کا جواب

مفضل بن عمر کی شان و منزلت کے بیان کے بعد ایک اعتراض کا جواب دینا مناسب سمجھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اگر مفضل بن عمر امام ـ کے خاص اور جلیل القدر صحابی ھے تو پھر کیونکر بعض روایتوں میں انھیں موردِ سرزنش قرار دیا گیا ہے؟

اس سلسلہ میں ہم یہ کہیں گے کہ اس اعتراض کا صحیح اور درست جواب جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم حضرت امام جعفر صادق ـ کے زمانے کے حالات اور سیاسی حکومت کی طرف سے امام ـ اور آپ کے شیعوں پر کی جانے والی سختیوں سے اچھی طرح واقف ہوں۔

بنی عباس کی بربریت اور زیادیتوں کی وجہ سے امام اور شیعہ تقیہ کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ الارشاد فی معرفة حجج اللہ علی العباد، ص ۲۰۸۔

(۲)۔ الغیبہ، ص ۲۱۰۔

(۳)۔ بحار الانوار، ج۳، ص ۵۵۔ ۵۶۔

(۴)۔ ترجمہ توحید مفضل، ص ۳۔ ۴۔

۳۰

یہاں تک کہ کبھی ایسا ہوتا تھا کہ امام اپنے قریبی اور خاص اصحاب کی جان بچانے کی خاطر اس کی مذمت فرماتے تھے تاکہ اس طرح انہیں دشمنوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔ مفضل بن عمر کا شمار ان ہی اصحاب میں ہوتا ہے کہ جن کی جان بچانے کی خاطر بعض مقام پر ان کی سرزنش اور مذمت کی گئی ہے۔ لہٰذا اس قسم کی احادیث کو تقیہ پر حمل کرنا چاہیے۔

جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق ـ نے عبد اللہ بن زرارہ بن اعین سے فرمایا: اپنے والد کو میری طرف سے سلام کہنا اور انہیں یہ پیغام دینا کہ اگر ہم نے کبھی تمہاری مذمت کی ہے تو ہمارا یہ اقدام بھی تمہارے دفاع کی خاطر تھا۔ ہمارے دشمن یہ چاہتے ہیں کہ جو لوگ ہم سے قریب ہیں اور ہمارے نزدیک خاص مقام و منزلت رکھتے ہیں انھیں آزار و اذیتیں پہنچائیں۔ یہ لوگ ہماری محبت کی خاطر ان کی سرزنش و ملامت کرتے ہیں اور انہیں قتل کرتے ہیں اور جس کی ہم مذمت کرتے ہیں یہ اس کی مدح و ثناء کرتے ہیں۔ (اپنے والد گرامی سے کہنا) اگر ہم نے ظاہر میں تمہاری مذمت کی ہے تو صرف اس لیے کہ تم ہماری ولایت و محبت سے پہچانے جانے لگے ہو اور سب اس بات کو جانتے ہیں کہ تمہارے لوح دل پر ہماری محبت کے علاوہ کسی غیر کی محبت کا کوئی نقش نہیں ہے لہٰذا وہ تمہیں دوست نہیں رکھتے۔ میں نے ظاہری طور پر اس وجہ سے تمہاری مذمت کی تاکہ وہ تمہیں دوست رکھیں اور اس طرح تمہارا دین بھی محفوظ رہے۔ اور تم خود بھی ان کے شرّ سے امان میں رہو۔ ''(۱)

اس سلسلہ میں شیخ عباس قمی فرماتے ہیں کہ مفضل بن عمر کی قدح میں نقل شدہ روایات ان روایتوں کے سامنے تاب مقاومت نہیں رکھتیں جو ان کی مدح میں وارد ہوتی ہیں۔(۲)

اسی سے ملتا جلتا کلام آیت اللہ خوئی کا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ وسایل الشیعہ، ج۳، ص ۵۸۴۔ رجال کشی، ص ۹۱۔

(۲)۔ منتہی الآمال، ج۲، ص ۴۴۳۔ ۴۴۴۔

۳۱

آپ مفضل بن عمر سے متعلق منقول شدہ روایات کے بارے میں تجزیہ و تحلیل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مفضل بن عمر کی قدح میں نقل شدہ روایات ان روایتوں کے سامنے تاب مقاومت نہیں رکھتیں جو ان کی مدح میں وارد ہوئی ہیں اور ان روایات قدح کا وہی حکم ہے جو ان روایاتِ قدح کا ہے جو زرارہ بن اعین کے بارے میں وارد ہوئی ہیں (یعنی تقیہ پر حمل کیا جائے)۔

توحید مفضل کی قرآن سے شباہت

خدا کی ہستی او اثبات توحید پر قرآن مجید کا طرز و اسلوب استدلال اس ہمہ گیر ربوبیت کے نظام میں تعقل و تفکر اور تدبر کی دعوت دیتا ہے جو اس کائنات بسیط میں ایک خاص نظم و قانون سے منسلک ترتیب و قاعدے کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ چنانچہ قرآن جابجا انسان کو عالم انفس، آفاق میں تدبّر کی دعوت دیتا ہے اور اس سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنی اور اس کائنات کی خلقت پر غور و فکر کرے۔ اور دیکھے کہ یہ کارخانہ حیات کس نظم و انضباط کے ساتھ چل رہا ہے۔ انسان اگر غور کرے تو خود اپنی پیدائش اور عالم گرد و پیش کے مشاہدات اس پر عرفان ذات اور معرفت توحید باری تعالیٰ کے بہت سے سرپستہ راز کھول دیں گے۔

امام جعفر صادق ـ جو قرآن ناطق ہیں۔ خدا کی ذات اور اثبات توحید پر آپ کا طرز و اسلوب استدلال بھی یہی ہے کہ انسانوں کو اُس ذات اقدس کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ انسان کائنات میں کارفرما نظامِ ربوبیت کا بے لاگ مطالعہ کرنے بیٹھے اور اس کے وجدان میں ایک ربّ العالمین ہستی کے ہونے کا یقین انگڑائیاں نہ لینے لگے۔ کائنات ہست و بود کے نظام میں حرکت پذیر تمام اجرام ارضی و سماوی اثبات توحید پر خاموش دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ زمین ، یہ چاند ، سورج، ستارے، شجر و حجر، لہلہاتے کھیت، مترنم آبشاریں، فلک بوس پہاڑ، سمندر کی

۳۲

لہروں کا تموج، سب اگرچہ قوت گویائی نہیں رکھتے لیکن زبانِ حال سے توحید کی دلالت کرتے ہیں اور اس بات کی شہادت فراہم کرتے ہیں کہ اس متوازن اور نظم و ضبط کے تحت چلنے والے کائناتی نظام کے پیچھے ایک ہی ہستی کا دست قدرت کار فرما ہے۔ جو ربوبیت الوہیت کی سزاوار ہے اور ارض و سموٰت کی جملہ مخلوقات کی عبادت کے لائق ہے۔ امام کی دل آویز گفتگو نے تصور کائنات کو حیرت انگیز حد تک آسان بنا دیا۔ یہ کتاب پڑھیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی سبک رفتار کشتی نہایت بے تکلفی سے آب و حباب کو چیرتی ہوئی ساحل مراد سے لگ گئی ہے۔ امام کا کلام کوئی معمولی کلام نہیں بلکہ یہ وہ راستہ ہے جس کے ذریعہ انسان اپنے مقصد تک پہنچ سکتا ہے اس لیے روایات میں ہے کہ ایک گھنٹہ غور و فکر کرنا ۷۰ سال کی عبادت سے افضل ہے کیونکہ اگر ہم گوش اور دیدئہ بینا کو وا کرکے کائنات کی کھلی کتاب کا مطالعہ کریں تو اس کے ورق ورق پر ایک پروردگار کے وجود کا اعلان ہوتا دکھائی دے گا، اس کے اندر سے یہ پکار سنائی دے گی کہ اس کائنات کی تخلیق بالحق ہوئی ہے اور انسان بے ساختہ اس بات کے اقرار پر مجبور ہوگا کہ

(رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا ) (آل عمران،۳:۱۹۱ )

اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔

کلام امام ـ کے معجزات

عام اصطلاح میں معجزہ اُس کہتے ہیں جسے دوسرے عام انسان انجام دینے سے قاصر ہوں معمولاً جب بھی لوگ ائمہ طاہرین ٪ کے معجزوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں ، مردوں کو زندہ کرنا، سورج کو پلٹانا، وحشی درندہ پر قابو پانا، لاعلاج کو شفا دینا وغیرہ ہی آتا ہے۔

جبکہ اگر ہم غور کریںتو نہج البلاغہ بھی معجزہ ہے۔ صحیفہ سجادیہ بھی معجزہ ہے اور توحید مفضل بھی ایک معجزہ ہے۔

۳۳

توحید مفضل کا بین ثبوت ہے کہ امام صادق ـ کائنات کے ذرّہ ذرّہ کے فلسفہ اور اس کے اسرار و رموز سے مکمل آگاہ تے۔ چودہ سال گذر جانے کے بعد بھی آج تک تمام عظیم الشان فلاسفہ قادر الکلام متکلمین، مشہور و معروف دانشور، برجستہ اطبّائ، بہترین ستارہ شناس، ماہرطبیعات و فلکیات اور عظیم تحلیل گر اسرار کائنات کی وہ تبیین و تشریح نہ کرسکے جو امام صادق ـ نے پیش کی ہے اس سے بڑھ کر معجزہ اور کیا ہوسکتا ہے۔

آپ کے کلام کے معجزات کو غور و فکر کے ذریعہ با آسانی درک کیا جاسکتا ہے۔ من جملہ

۱۔ امام ـ نے فرمایا: کہ مچھلی پانی منہ میں لینے کے بعد اُسے اپنے دونوں طرف سے خارج کردیتی ہے تاکہ دوسرے حیوانات کی طرح ہوا کے فوائد سے بہرہ مند ہوسکے۔

امام ـ کے اس کلام میں صراحتاً اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مچھلی ہوا میں موجود آکسیجن سے استفادہ کرتی ہے اور یہ وہ راز ہے جس سے دنیا صدیاں گذرنے کے بعد آگاہ ہوتی ہے۔

۲۔ امام ـ ستاروں کی حرکت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہر ستارہ کی دو حرکتیں ہیں۔ اور پھر ان حرکتوں کو چیونٹی کی چکی پر حرکتوں سے تشبیہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ چیونٹی جب چکی پر حرکت کرتی ہے تو اس کی دو حرکتیں ہوتیں ہیں ایک حرکت چیونٹی کی اپنی ہے جس سے وہ آگے بڑھ رہی ہے اور دوسری حرکت چکی کے تحت انجام دے رہی ہے جو اُسے مخالف سمت لے جا رہی ہے۔

امام ـ کی اس گفتگو سے ستاروں کی وضعی اور انتقالی حرکت کو سمجھا جاسکتا ہے۔ البتہ اس سلسلہ میں امام ـ نے مفصلاً بحث کی ہے۔

۳۔ امام ـ نے ہوا کی بحث میں بیان فرمایا ہے کہ ہوا آواز کی امواج کیلئے متحرک ہے جس تک سائنسدان آج بڑی جدوجہد کے بعد پہنچے ہیں۔

بہرحال یہ پوری کتاب کائنات کے ایسے اسرار و رموز پر مشتمل ہے جنہیں امام صادق

۳۴

ـ نے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے جن میں تفکر و تدبر سے مبدا جہان تک پہنچا جاسکتا ہے۔

ایک شبھہ کا ازالہ

۱۔ ممکن ہے کہ محترم قاری اس میں بعض عبارتوں کا مطالعہ کرے اور اپنے تئیں خود یہ خیال کرے کہ یہ مطلب علم جدید سے سازگار اور ہم آہنگ نہیں ہے۔

تو ایسے فرد کو چاہیے کہ وہ چند باتوں پر توجہ کرے :

۱۔ ایک عادی انسان کا علم نہایت محدود اور تھوڑا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَمَا اوتیتم من العلم الّا قلیلًا) یعنی ہم نے تمہیں صرف تھوڑا علم دیا ہے۔ لہٰذا انسان کو منبع نور اور علم الٰہی یعنی کلام امام ـ پر بے جا اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ معیار امام ـ کا علم ہے ہمارا علم نہیں۔ اگر ہم کسی مطلب کو نہیں سمجھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی ہم امام ـ کے علم کی حکمت تک نہیں پہنچے ہیں۔

۲۔ امام جعفر صادق ـ کے کلام میں بہت سے ایسے مطالب موجود ہیں جو کل کے لوگوں کے لیے عجیب و غریب تھے لیکن آج ان کی حقیقت روش ہو گئی ہے تو اسی طرح ممکن ہے کہ کچھ مطالب آج عجیب و غیرب معلوم ہوں جن کی حقیقت کل روشن ہوجائے گی۔

۳۔ اگر کوئی ایسی عبارت سامنے آئے جس کے سمجھنے سے قاصر ہوں تو ایسے میں ضروری ہے کہ ماہرین لغت اور اسلامی دانشوروں کی مدد سے اس عبارت کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ لیجئے اب کتاب کا مطالعہ فرمائیے۔

۳۵

( مفضّل اور ابن ابی العوجاء کے درمیان آغاز گفتگو )

محمد بن سنان مفضل بن عمر سے روایت کرتے ہیں۔

کہ میں ایک روز رنماز عصر کے بعد پیغمبر اسلام (ص) کی قبر مطہر اور آپ کے منبر اقدس کے درمیان بیٹھا ہوا اس فکر میں گم تھا کہ خداوند عالم نے پیغمبر اسلام (ص) کو کس بلند مقام اور فضیلت کا شرف بخشا کہ جسے امت نے ابھی تک نہیں پہچانا ، اور کچھ تو اس سے بالکل ہی بے خبر ہیں، میں ابھی اس فکر میں گم ہی تھا کہ اتنے میں ابن ابی العوجاء (جو ملحدیں زمان میں سے ایک تھا) وہاں آپہنچا اور مجھ سے اتنی نزدیک بیٹھا کہ میں اس کی گفتگو کو بآسانی سن سکتا تھا،اس کے بیٹھتے ہی اس کا ایک دوست بھی اس کے نزدیک آکر بیٹھ گیا۔ ابن ابی العوجاء نے گفتگو کا آغاز کیا(اور پیغمبر اسلام کی قبر مطہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) یہ صاحب قبر عزت کے کمال پر پہنچا، شرافت کے تمام خصال کو اس نے اپنے اندر جمع کیا، اورایک بلند وبالامقام پر فائز ہوا۔ ابن ابی العوجاء کے دوست نے کہا وہ ایک فلسفی تھا جس نے برتری اور عظیم منزلت کا دعویٰ کیا اور اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کیلئے ایسے محیر العقول معجزے لایا، کہ جن کے سامنے عقلیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں یہاں تک کہ جب عقلاء فصحاء اور خطباء نے اس کی دعوت کو قبول کیا ، تو لوگ جوق در جوق اس کے دین میں داخل ہونا شروع ہوگئے، اس نے اپنے نام کو (اذان و اقامت میں) خدا کے نام کے ساتھ رکھا اور بالآخر ہر شہر و گلی و کوچہ اور زمین کے جس خطے پر بھی اس کی دعوت پہنچی ، وہاں لوگ ہر روز پانچ مرتبہ بلند آواز سے اذان و اقامت کہتے ہیں تاکہ اس کی یاد ہمیشہ تازہ رہے اور اس کی دعوت سست اور کمزور نہ پڑجائے۔

ابن ابی العوجاء نے اپنے دوست سے کہا کہ محمد کے بارے میں گفتگو نہ کرو میری عقل اس کے بارے میں متحیر ہے خصوصاً اس ''اصل'' پر کہ جس کے لیے محمد نے قیام کیا، اور اپنی زندگی کو اس کے

۳۶

مطابق گذاراتم اس اصل(۱) پر گفتگو کرو۔ لہٰذا اس نے دنیا کی پہلی چیز یعنی ''خالق کائنات'' کے بارے میں اپنی گفتگو کا آغاز کیا،اور بات یہاں تک پہونچی کے اس نے یہ خیال کہ تمام انسان محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں،اور ان کے پیدا ہونے میں کسی بھی قسم کی دانائی اور ہنرمندی شامل حال نہیں ، بلکہ دنیا کی تمام چیزیں بغیر کسی خالق ومدبر کے خودبخود وجود میں آئی ہیں اوریہ دنیا ابتداء ہی سے اسی طرح ہے اور ہمیشہ اسی طرح باقی رہے گی۔

مفضل ، کہتے ہیں کہ یہ باتیں سنتے ہی مجھے غصہ آگیا اور میں اس پر قابو نہ پاسکا اور اسی غصہ کی حالت میں اس سے کہا کہ ، اے دشمن خدا کیا تو ملحد ہوگیا ہے،اور اپنے اس پروردگار کا انکار کررہا ہے، جس نے تجھے بہترین طریقے پر خلق کیا اور تجھے بہترین صورت عطا کی، اور مختلف احوال میں تیری مدد کی اور تجھے اس حالت تک پہنچایا اگر تو اپنے اندر غورو فکر کرے تو یقینا تیری قوت فکر اور تیرا زورِ ادراک تیری حقیقت کی طرف نشاندہی کرے گا اور تو دلائل ربوبیت اور آثار تدبیر کو اپنے اندر موجود پائے گا۔

ابن ابی العوجاء نے مفضل سے کہا ، اے شخص اگر تو اہل کلام میں سے ہے تو میں تجھ سے دریچے کلام کے ذریعے کچھ بحث کرنا چاہتا ہوں ، اگر تیری دلیلیں ثابت ہوگئیں تو میں خود کو تیرے حوالے کردوں گا، اور اگر تو اہل کلام میں سے نہیں ہے تو پھر تیرے کلام سے کوئی فائدہ نہیں ۔ اور اگر تو جعفر بن محمد صادق ـ کے اصحاب میں سے ہے تو وہ ہرگز ہم سے اس طرح کی گفتگو نہیں کرتے اور نہ بات کرتے وقت تیری طرح جھگڑتے ہیں ۔ انہوں نے اس سے کہیں زیادہ ہمارے کلام کو سنا ہے لیکن انہوں نے جواب دینے میں کبھی غلط الفاظ کا استعمال نہیں کیا، اور نہ جواب دینے میں کبھی تجاوز سے کام لیا، وہ ایک مرد

حکیم ، عاقل و دانا ہیں غیض وغضب ، خشم و غصہ ان پر مسلط نہیں ہوتا، پہلے وہ اچھی طرح ہمارے کلام کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ خداوند عالم کی توحید پر۔

۳۷

سنتے ہیں اور جب ہم اپنی بات کو مکمل کرلیتے ہیں ، اور یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ہم نے انہیں مغلوب کردیا، تو وہ مختصر سی گفتگو میں ادلّہ و براہین کے ذریعہ ہمارے اس خیال کو اس طرح پاش پاش کردیتے ہیں کہ ہم پر لازم ہوجاتا ہے کہ ہم ان کے دلائل کو قبول کریں،اس طرح وہ اپنا فریضہ ہمارے ساتھ انجام دیتے ہیں تاکہ ہمارا کوئی عذر باقی نہ رہے اور ہم ان کی تردید کیلئے کوئی دلیل نہ لاسکیں، لہٰذا اگر تم ان کے اصحاب میں سے ہو تو تم بھی ویسا ہی کلام کرو، مفضل کہتے ہیں ، میں غمزدہ اور اسی فکر میں کہ کس طرح اسلام اور مسلمان کفر والحاد کے درمیان گرفتار ہیں ، مسجد سے باہر آیا اور فوراً ہی اپنے آقا و مولاء حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا، مجھے محزون اور شکستہ دل دیکھ کر آپ نے فرمایا: (اے مفضل)کیا ہوا؟ میں نے ان دونوں ملحدوں کے کفر آمیز کلام اور جس دلیل کے ذریعہ ان کے کلام کی رد پیش کی تھی حضرت (ع)کے سامنے بیان کی۔

آپـ نے فرمایا ، (اے مفضل) میں تمھیں حکمت باری تعالیٰ میں سے خلقت عالم حیوانات، درندوں ، چوپاؤں ، حشرات الارض، ہر ذی روح عالم نباتات ، پھل دار ،غیر پھل درختوں ، دانوں اور ماکولات وغیر ماکولات سبزیوں کے بارے میں ایسے مطالب بتاؤں گا ، جو بصیرت کو پیدا کریں ،اور جن سے عبرت حاصل کرنے والے لوگ عبرت حاصل کریں ، جن کے جاننے کے بعد مومنوں کے دل آرام پائیں اور ملحدین اس میں حیران ہو کر رہ جائیں ، تم کل صبح سویرے میرے پاس آجاؤ۔ مفضل کہتے ہیں کہ یہ بات سن کر میں اس قدر خوشحال اپنے گھر واپس پلٹا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ، اور وہ رات مجھ پر حضرت ـکے وعدے کے انتظار میں کافی طولانی گذری۔

۳۸

( روز اوّل )

۳۹

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

اس لحاظ سے امامت سے مربوط آیات کی بحث و تحقیق میں یہ آیہ کریمہ بھی نمایاں اور قابل توجہ ہے۔ اس آیہ شریفہ کے سلسلہ میں بحث و تحقیق چند محوروں پرمشتمل ہے:

۱ ۔آیت کے مفردات اور مفاہیم کی تحقیق۔

۲ ۔مذکورہ آیت کااس سے پہلے والی آیات سے ربط

۳ ۔اس آیت کامسئلہ رہبری سے ربطہ اور اس کے قرائن کی چھان بین پڑتال۔

۴ ۔علما ء ومفسرین کے بیانات

۵ ۔شیعہ،سنی احادیث وروایات

آیت کے بارے مفردات میں بحث

اس حصہ میں جن الفاظ کی تحقیق ضروری ہے وہ لفظ”صدق“اور”صادقین“ہیں۔اس سلسلہ میں پہلے ہم ان کے لغوی معنی پر ایک نظرڈالیں گے اور ان کے بعد اس کے قرآنی استعمالات پر بحث کریں گے۔

استعمالا ت لغوی

اس سلسلہ میں ہم دو اہل لغت کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱ ۔ ابن منظور نے ”لسان العرب(۱) “ میں لفظ”صدق“کے مختلف استعمالات کویوں بیان کیاہے:

الصدق:نقیض الکذب،سچ،جھوٹ کی ضدہے۔

رجل صدق:نقیض رجل سوء ۔اچھاانسان برے انسان کی ضدہے۔یعنی اچھائی اور برائی کی صفتیں ایک دوسرے کی ضدہیں۔

وکذالک ثواب صدق وخمارصدق،اسی طرح کہا جاتا ہے اچھا لباس اوراچھابرقعہ۔

ویقال: رجل صدق،مضاف بکسرالصادومعناه نعم الرجل هو نیزاسی

____________________

۱۔لسان العرب ،ج۱۰،ص۳۰۹۔۳۰۷

۱۶۱

طرح حالت اضا فت میں صاد کے کسرے کے ساتھ استعمال ہو تا ہے”رجل صدق“یعنی وہ ایک اچھا مردہے۔

رجل صدق اللقاء وصدق النظر، خوش اخلاق مرداور خوش بین انسان۔

والصّدق:بالفتح الصلب من الرماح وغیرها، ورمح صدق:مستو،وکذالک سیف صدق :

صاف اورسیدھا نیزہ ،اوراسی طرح سیدھی تلوارکو بھی صدق کہتے ہیں۔

عن ابن درستویہ:قال إنّما لصدق الجامع للاوصاف المحمودة۔ابن درستویہ کا کہنا ہے کہ”صدق“اس شخص کوکہاجاتاہے جس میں تمام پسندیدہ اوصاف موجودہوں۔

قال الخلیل:الصدق:الکامل کلّ شیءٍ ۔خلیل نے کہاہے کہ ہرمکمل چیزکو”صدق“کہتے ہیں۔

۲ ۔”مفردات قرآن(۱) “ میں راغب کاکہناہے:ویعبّرعن کل فعل فاضل ظاهراًوباطناًًبا لصدق،فیضاف إلیه ذٰلک الفعل الّذی یوصف به نحو قوله ۔۔۔“ہروہ کام جوظاہروباطن کے اعتبارسے اچھا اور پسندیدہ ہو اسے”صدق“ سے تعبیر کیا جاتا ہے اوراس کے موصوف کی”صدق“کی نسبت )اضافت) دی جاتی ہے۔استعما لات قرآ نی کے وقت ہم اس کے شاہدپیش کریں گے۔

استعمالات قرآنی

قرآن مجید میں ہمیں بہت سی ایسی آیات نظر آتی ہیں جن میں لفظ”صدق“کوایسی چیزوں کی صفت قرار دیا گیاہے جوگفتگووکلام کے مقولہ نہیں ہےں۔نمونہ کے طور پر درج ذیل آیات ملاحظ ہوں:

____________________

۱۔مفردات فی القرآن،ص۲۷۷،دارالمعرفة،بیروت

۱۶۲

( وبشّرالّذین آمنوا اٴنّ لهم قدم صدق عندربّهم )

(سورہ یونس/ ۲)

اس آیہء شریفہ میں ’ صدق“،”قدم“کی صفت واقع ہے۔

ولقدبوّاٴنا بنی اسرائیل مبوّاٴصدق )سورئہ یونس/ ۹۳)

اس آیہء شریفہ میں ”صدق“کو”جگہ“کی صفت قرار دیا گیاہے۔

وقل ربّ اٴدخلنی مدخل صدق واٴخرجنی مخرج صدق سورئہ اسراء/ ۸۰)

اس آیہء شریفہ میں ”مدخل“ و ”مخرج“ یااسم مکان)داخل اورخارج کرنے کی جگہ) ہیں یا مصدر) خودکوداخل کرنایاخارج کرنا)ہیں۔بہرحال کسی طرح بھی مقولہ کلام سے نہیں ہے۔

فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر (سورئہ قمر/ ۵۰)

اس آیہ شریفہ میں ”صدق“،”مقعد“)جگہ اوربیٹھنے)کی صفت ہے۔

( لیس البرّاٴن ُتوَلّوُاوجوهکم قبل المشرق والمغرب ولکنّ البرّمن آمن باللّٰه والیوم الآخروالملائکة والکتاب والنبیّین وآتی المال علی حبّه ذوی القربی والیتامیٰ والمساکین وابن السبیل والسائلین وفی الرقاب واقام الصلوة وآتی الزکوةوالموفون بعهدهم إذاعاهدواوالصابرین فی الباٴسائ والضرّاء وحین الباٴس اولئک الّذین صدقواواٴُولئک هم المتّقون ) )سورئہ بقرہ/ ۱۷۷)

اس آیہء شریفہ میں خداوندمتعال نے پہلے نیکیوں کوعقائد کے شعبہ میں یعنی خدا،قیامت،فرشتوں،آسمانی کتابوں اورانبیاء پرایمان کے سلسلہ میں اس کے بعدعمل کے شعبہ میں یعنی اپنے رشتہ داروں،محتاجوں،ابن سبیل اورسائلوں کوانفاق کرنا،خداکی راہ میں بندوں کو آزادکرنانیزایفائے عہدکرنا وغیرہ وغیرہ کی طرف اشارہ کیاہے۔اس کے بعداخلاقی شعبہ میں یعنی مشکلات و پریشاں نیوں میں صبروتحمل استقامت و پائیداری کا مظا ہرہ کر نے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔اورمذکورہ تینوں شعبوں میں نیکیاں کرنے والوںصد ق وتقویٰ کے ذریعہ تعریف کرتاہے۔

۱۶۳

لغت اورآیات کریمہ میں مذکورہ استعمالات کے پیش نظرواضح ہوجاتاہے کہ”صدق“کاایک ایساوسیع مفہوم ہے کہ جس کا دائرہ صرف مقولہء،کلام،وعدہ وخبرتک محدود نہیں ہے،بلکہ یہ فکرواندیشہ عقا ئد و اخلا قیات نیزانسانی رفتارجیسے دیگر مواردپربھی اطلاق کرتا ہے اوراس کااستعمال ان موا رد میں حقیقی ہے۔

اس آیت کا گزشتہ آیات سے ربط

اس آیت سے پہلی والی آیت )جیساکہ تفسیر وحدیث کی کتابوں میں آیا ہے )ان مومنین کے بارے میں ہے کہ جنہوں نے پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ جنگ تبوک میں جانے سے انکار کیا تھا اوراس کے بعدنادم اورپشیمان ہوکرانھوں نے توبہ کرلی تھی،مسلمانوں نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم سے ان کے ساتھ اپنے رشتہ نا طے توڑ دئے تھے،یہاں تک کہ ان کی بیویوں نے بھی ان سے بات کرنا چھوڑدی تھی۔

انہوں نے جب شہر سے باہرنکل کربارگاہ الٰہی میں التماس والتجا کی اور خدا کی بار گاہ میں توبہ کی تو خدا وند متعال نے ان کی توبہ قبول کی اوروہ پھرسے اپنے لوگوں اوراپنے خانوادوں میں واپس لوٹے۔

بعد والی آیت میں بھی خدا وند متعال فرماتا ہے”اہل مدینہ اوراس کے اطراف کے لوگوں کو نہیں چا ہئیے کہ پیغمبر خدا (ص)کی مخالفت اوران سے رو گردانی کریں۔ اس کے بعد خدا کی راہ میں مشکلات و پریشا نیاں،بھوک وپیاس کی سختیاں برداشت کرنے کی قدرواہمیت کی طرف بھی اشارہ کرتاہے۔

اس آیہء شریفہ)زیر بحث آیت)میں مؤمنین کومخاطب کرکے انھیں تقویٰ و پر ہیز گاری کا حکم دیا گیا ہے،اورانھیں اس بات کا پیغام دیا گیا ہے کہ وہ”صادقین“کے ساتھ ہوجائیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آیہء شریفہ میں ”صادقین“سے مراد کون لوگ ہیں؟

۱۶۴

اس آیت کا ائمہ معصومین(ع)کی امامت سے ربط

ابتدائی نظر میں )جیسا کہ”صدق“ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے اشارہ کیا گیا ) ایسالگتاہے کہ جملہ کونوامع الصادقین سے مرادسچوں کے ساتھ ہونے کاحکم ہے۔

قابل غور بات اورجو چیز ضروری ہے وہ سچ بولنااورجھوٹ بولنے سے پر ہیز کر نا ہے۔ لیکن سچ بولنے والوں کے ساتھ ہونا یہ شر عی واجبات میں سے نہیں ہے،جبکہ سچوں کے ساتھ ہونے کا یہ آیہ شریفہ میں حکم ہواہے اور یہ امروجوبی ہے اور جملہ( کونوامع الصادقین ) کا وقوع”إ تقوااللّٰہ“کے سیاق میں ہے کہ جس میں تقوائے الٰہی کا حکم تھالہذایہ بیشک وجوب کے لئے ہے اوراس سے وجوب کی مزیدتاکیدہوتی ہے۔

مفہوم صدق کی وسعت کے پیش نظرمقولہ کلا م و گفتگو تک محدودیت نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ فکرو عقائد،اخلاق وکردار نیزرفتار و عمل تک پھیلا ہواہے کہ جس میں صادقین سے ہونے کو آیہء کریمہ میں واجب قرار دیا گیاہے،ہم اس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ صادقین کے ساتھ ہونے سے مرادجسمانی معیت اورہمراہی نہیں ہے بلکہ ہمراہی ہراس چیز میں ہے جس میں صحت وسچائی پا ئی جاتی ہو اورآیہء کریمہ میں صادقین سے مرادوہ لوگ ہیں جوصدق مطلق کے مالک ہیں نہ مطلق صدق کے۔او رصدق مطلق وہ ہے جوہر جہت سے سچااورصحیح ہواورفکروعقائد،گفتاروکرداراور اخلاقیات کے لحاظ سے کسی طرح کا انحراف نہ رکھتاہو۔اس طرح کا شخص معصوم کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتاہے۔اس طرح کے انسان کے ساتھ ہونے کامطلب اس کے افکار و عقائد، کردارواخلاق کی پیروی کر نا ہے۔

۱۶۵

چونکہ مسلمانوں کااس بات پراجماع ہے کہ چودہ معصومین علیہم السلام کے علاوہ کوئی صاحب عصمت اور صدق مطلق کا مالک نہیں ہے،اس لئے”صادقین“ سے مرادپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام ہوں گے۔

علماء ومفسرین کے بیانات کی تحقیق

اس سلسلہ میں ہم صرف دوبزرگ علماء کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

علامہ بہبہانی کا قول:

پہلا قول شیعہ امامیہ کی ایک عظیم شخصیت وبزرگ عالم دین،گراں قدرمفکرمرحوم علامہ محقق سید علی بہبہانی کاہے۔وہ اپنی عظیم کتاب”مصباح الھدایہ“)کہ جوواقعاًامامت کے بارے میں ایک بے نظیرکتاب ہے )میں آیہء شریفہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”وقداستفاضت الروایات من طریقناوطریق العامةاٴنّ الصادقین هم اٴهل بیت النبیّی المطهّرون“وقد ذکرفی غایة المرام عشرةخبارمن طریقنا وسبعة اٴخبار من طریق العامة(۱)

اٴقول:ویدّل علی اختصاص الصادقین فی الآیةالکریمه فی الاٴئمّة المعصومین الطبّین من آل محمد( ص) وعدم إرادة مطلق الصادقین منهکمادلّت علیه الروایات المستفیضة من الطر فین:اٴنّه لوکان المراد بالصدق مطلق الصدقالشامل لکلّ مرتبة منه المطلوب من کلّ مؤ من،وبالصادقین المعنی العام الشامل

____________________

۱۔نمایة المرام ،ص۲۴۸

۱۶۶

لکلّ من اتّصف بالصدق فی اٴیّ مرتبة کان،،لوجب اٴن یعبّرمکان”مع“ بکلمة”من“ضرورةاٴنّه یجب علی کلّ مؤمن اٴن یتحرزعن الکذب و یکون مع الصادقینفالعدول عن کلمة ”من“إلی”مع“ یکشف عن اٴن المراد ”باالصدق“مرتبةمخص صةو”باالصادقین“ طائفة معینةومن المعلوم اٴنّ هذه المرتبة مرتبة کاملة،بحیث یستحقالمتصفون بها اٴن یتبعهم سائر المؤمنین جمیعاً،وهذاالمرتبة الکاملة التی تکون بهذه المثا بة لیست إلاّ العصمة والطهارة التی لم یتطرّق معها کذب فی القول والفعل،إذفی الاٴمّة من طهّره اللّٰه تعالی واٴذهب عنه الرجس!وهم اٴهل بیت النبیّی بنصّایة التطهیرواتّفاق جمیع المسلمین

فلواٴُرید من الصّادقین غیر المعصومین لزم اٴن یکون المعصومون ماٴمورین بمتا بعة غیر المعصومین المتطرّق فیهم الکذب و لو جهلاً اٴو سهواً و هو قبیح عقلاً ، و تعیّن اٴن یکون المراد الصادقین المطهّرین الحائزین جمیع مراتب الصدق قولاً و فعلاً،ولا یصدق ذلک إلاّ علی اٴهل بیت النبیّیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الّذین اٴذهب اللّٰٰه عنهم الرجس و طهرَّهم تطهیراً، و إلیه یشیر قول مولانا الرضا( علیه السلام) ”هم الاٴئمّة الصدیقون بطا عتهم“(۱)

و یدلّ علی کونهم اٴئمّة کمانبّه علیه مولانا الرضا( علیه السلام) فی هذه الروایة اٴمره سبحانه وتعالی جمیع المؤ منین بعد اٴمرهم بالاٴتّقاء عن محارمه باٴن یکونوا مع الصادقین، و لا یصدق الکون

___________________

۱۔فی المصدر:”والصدیقون بطا عتہم “فراجع

۱۶۷

معهم إلا باٴن یکونوا تحت طاعتهم ،متحرّزین عن مخا لفتهم ولیس للإمامة معنی إلاّافتراض طاعة الإمام علی الماٴموم من قبله تعالی،بل لا تعبیراٴقرب إلی معنی الإمامة من اٴمر المؤمنین باٴن یکونوامعه،إذ حقیقة الإئتمام عبارة عن متابعة الماٴموم إمامه وعدم مفارقته عنه ۔(۱)

شیعہ اور اہل سنّت سے مستفیض(۲) روایتیں نقل ہوئی ہیں کہ آیہء شریفہ میں صادقین سے مراد)پیغمبراسلام (ص))کے اہل بیت علیہم السلام ہیں۔مرحوم بحرانی نے اپنی کتاب ”غایة المرام“ میں شیعہ طریقہ سے دس احادیث اورسنی طریقہ سے سات احادیث نقل کی ہیں۔

آیہء کریمہ میں ”صادقین“سے مراد)جیساکہ فریقین کی احادیثوں میں ایاہے )ائمہء معصومین علیہم السلام ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر ”صدق“)سچائی)کہ جو”صادقین“کے عنوان میں ماخوذہے،اس سے مرادمطلق سچائی ہے کہ جوہرمرتبہ کو شامل ہے اور”صادقین“کے زمرے میں ہروہ شخص شامل ہوکہ جو صفت صدق کے کسی بھی مرتبہ سے متصف ہے تو آیہء کریمہ کی تعبیر ”کو نوا من الصا دقین“ہونی چا ہئے تھی اوراسصورت میں اس آیت کے معنی یہ ہو تے کہ ہرمسلمان پر ضروری ہے کہ وہ سچ بو لنے والوں سے ہو اورجھوٹ سے پرہیزکرے۔

یہ جو”مع الصادقین“تعبیرہے،یہ خوداس بات کی دلیل ہے کہ”صدق“سے مراد ایک خاص مرتبہ و مقام ہے اور”صادقین“سے مرادایک مخصوص اور ممتازگروہ)اورصادقین کے ساتھ ہونے کا معنی ان کی پیروی کرنا)ہے۔

صفت صد ق کا کا مل اور نہائی مرتبہ وہی عصمت وطہارت ہے جس کی وجہ سے گفتار وکردار میں سچائی مکمل طورپرمحقق ہوتی ہے۔

____________________

۱-”مصباح الہدایة“ص۹۳۔۹۲،مطبع سلمان فارسی قم

۲۔سے دس تک کی احادیث پر”حدیث مستفیض“اطلاق ہوتا ہے

۱۶۸

(اس مطلب کاقطعی ثبوت یہ ہے کہ)اگر”صادقین“سے مرادائمہ معصومین(ع)کے علاوہ کوئی اورہوں تواس فرض کی بنیادپرکہ آیہء تطہیرکی نص مو جود ہے اورتمام مسلمانوں کا اہل بیت کے معصوم ہو نے پر اتفاق ہے ،اس کالازمہ یہ ہوتا کہ تمام انسان حتی کہ ائمہ معصو مین بھی غیرمعصوم کی اطاعت وپیروی کریں اوریہ عقلاًقبیح ہے۔لہذایہ مرتبہ)عصمت وطہارت)پیغمبر (ص)کے خاندان کے علاوہ کہیں اورنہیں پایا جاسکتاہے۔

دوسراثبوت یہ ہے کہ خدا وند متعال نے آیت کی ابتداء میں تمام مؤمنین کو تقویٰ اورگناہوں سے اجتبا ب کر نے کاحکم دیاہے اوراس کے بعد انہیں”صادقین“ کے ساتھ ہونے کا فرمان جاری کیا ہے،اوران کے ساتھ ہونے کا مطلب ان کی اطاعت کرنے اوران کی نافرمانی نہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور امامت کے معنی بھی اس کے علاوہ کچھ نہیں ہےں کہ ماموم پر امام کی اطاعت واجب ہے۔

اگرہم امامت واطاعت کی صحیح تعبیر کرناچاہیں توبہترین تعبیریہ ہے کہ امام کے ساتھ ہونا اوراس کی پیروی و اطا عت سے جدانہ ہو ناہے۔

فخررازی کا قول

دوسراقول اہل سنت کے مشہورومعرو ف علا مہ فخررازی کاہے۔وہ آیہء شریفہ کی تفسیر میں کہتے ہیں:

”و فی الآیة مسائل: المساٴلة الاٴولی: اٴنّه تعالی اٴمرالمؤمنین بالکون مع الصادقین! و متی وجب الکون مع الصادقین فلا بدّمن وجود الصادقین فی کلّ وقت، و ذلک یمنع من إطباق الکلّ علی الباطل، و متی إمتنع إطباق الکلّ علی الباطل وجب إذا اٴطبقوا علی شیء اٴن یکونوا محقّین فهذا یدل علی اٴنّ إجماع الاٴمّة حجّة

فإن قیل: لمَ لا یجوز اٴن یقال: المراد بقوله:( کونوا مع الصادقین ) اٴی کونوا علی طریقة الصادقین، کما اٴنّ الرجل إذا قال لولده: ”کن مع الصالحین“ لا یفید إلاّ ذلک؟

سلّمنا ذلک، لکن نقول: إن ّ هذا الاٴمر کان موجوداً فی زمان الرسول فقط، فکان هذا اٴمراً بالکون مع الرسول، فلا یدّل علی وجود صادق فی سائر الاٴز منة

۱۶۹

سلّمنا ذلک لکن لم لا یجوز اٴن یکون الصادق هو المعصوم الذی یمتنع خلوّ زمان التکلیف عنه کما تقو له الشیعة؟

و الجواب عن الاول: اٴنّ قوله:( کونوا مع الصادقین ) اٴمر بموافقة الصادقین، و نهی عن مفارقتهم، و ذلک مشروط بوجود الصادقین وما لا یتمّ الواجب إلاّ به فهو واجب فدّلت هذه الآیة علی وجود الصادقین و قوله: ” إنّه عدول عن الظاهر من غیر دلیل

قوله: ” هذا الاٴمر مختصّ بزمان الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اٴنّ التکالیف المذکورة فی القرآن متوجهة إلی المکلّفین إلی قیام القیامة، فکان الاٴمر فی هذا التکلیف کذلک

الثانی : اٴنّ الصیغة تتناولال اٴوقات کلّها بدلیل صحة الاستثناء الثالث: لمّا لم یکن الوقت المعین مذکوراً فی لفظ الآیة لم یکن حمل الآیة علی البعض اٴولی من حمله علی الباقی فإماّ اٴن لا یحمل علی شیء من الاٴوقات فیفضی إلی التعطیل و هو باطل ! اٴو علی الکلّ فهو المطلوبو الرابع: و هو اٴنّ قوله:( یا اٴیّها الّذین آمنوا اتّقوا اللّٰه ) اٴمر لهم بالتقوی و هذا الاٴمر إنّما یتناول من یصحّ منه اٴن لا یکون متّقیاً، و إنّما یکون کذلک لو کان جائز الخطاٴ فکانت الآیة دالّة علی اٴنّ من کان جائز الخطاٴ وجب کونه مقتدیاً بمن کان واجب المعصمة، و هم الّذین حکم اللّٰه تعالی بکونهم صادقین فهذ ایدّل علی اٴنّه واجب علی جائز الخطاٴ کونه مع المعصوم عن الخطاٴ حتی یکون المعصوم عن الخطاٴ مانعا لجائز الخطاٴ عن الخطاٴ! و هذا المعنی قائم فی جمیع الاٴزمان، فوجب حصوله فی کل الازمان

قوله:”لم لا یجوزاٴن یکون المراد هو کون المؤمن مع المعصوم الموجود فی کلّ زمان“

قلنا:نحن نعترف باٴنّه لابدّ من معصوم فی کلّ زمان،إلا اٴناّ نقول: ذلک المعصوم هو مجموع الاٴمّة و اٴنتم تقولون ذلک المعصوم واحد منهم فنقول: هذا الثانی باطل، لاٴنّه تعالی اٴوجب علی کلّ واحدمن المؤمنین اٴن یکون مع الصادقین،وإنّما یمکنه ذلک لو کان عالماً بان ذلک الصادق من هو ،لاالجاهلباٴنّه من هو

فلو کان ماٴموراً بالکون معه کان ذلک تکلیف مالا یطاق، واٴنّه لا یجوز، لکنّا لا نعلم إنساناً معیّناً موصوفاً بوصف العصمة، و العلم

۱۷۰

باٴنّا لانعلم هذا الانسان حاصل بالضرورة، فثبت اٴنّ قوله: وکونوا مع الصادقین لیس اٴمراً بالکون مع شخص معیّن

و لمّا بطل هذا بقی اٴنّ المراد منه الکون مع مجموع الاُمّة، وذلک یدل علی اٴنّ قول مجموع الاُمّة حقّ و صواب ، و لا معنی لقولنا،”الإجماع حجة“إلاّ ذلک“(۱)

ترجمہ:

”خداوند متعال نے مو منین کو صادقین کے ساتھ ہو نے کا حکم دیا ہے۔اس مطلب کا لازمہ یہ ہے کہ ہرزمانہ میں صادقین کاوجودہو اور یہ اس بات کے لئے ما نع ہے کہ پوری امت کسی باطل امر پر ا تفاق کر ے ۔اس لئے اگر پوری امت کسی چیز پر اتفاق کرتی ہے تو ان کا یہ اتفاق صحیح و بر حق ہو گا اوریہ،اجماع امت کے حجت ہونے کی دلیل ہے۔

اگر کہا جائے:صادقین کے ساتھ ہو نے کا مقصد یہ کیوں نہیں ہے کہ صادقین کے طریقہ کار کی پیروی کرے ،چنانچہ اگر ایک باپ اپنے بیٹے سے کہے:”صالحین کے ساتھ ہو جاؤ“یعنی صالحین کی روش پر چلو )اور یہ امر اس بات پر دلالت نہیں کرتا ہے کہ ہرزمانہ میں صادقین کا وجود ہو)

جواب یہ ہے کہ:یہ خلاف ظاہر ہے،کیونکہ وکون امع الصادقین یہ ہے کہ پہلے ان صادقین کا و جود ہو جن کے ساتھ ہو نے کا حکم دیا گیا ہے۔

مزید اگریہ کہا جائے کہ:یہ جملہ صرف رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں موضوعیت رکھتا تھا،کیونکہ اس زمانہ میں صرف آنحضرت (ص)کی ذات صادق کے عنوان سے مو جود تھی اور یہ اس بات پردلالت نہیں کرتاہے کہ ہرزمانہ میں صادقین موجود ہوں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ:یہ خطاب قرآن مجید کے دوسرے خطابوں کے مانندقیامت تک

____________________

۱۔التفسیر الکبیر ،فخررازی ،ص۲۲۱۔۲۲۰،دار احیاء التراث العربی ،بیروت

۱۷۱

کے لئے تمام مکلفین سے متعلق و مر بوط ہے اوراس میں ہر زمانہ کے مکلفین سے مخطاب ہے اور یہ خطاب رسول اللہ (ص)کے زمانہ سے مخصوص نہیں ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ استثناء صحیح ہے)اوراستثناء کے صحیح ہو نے کی دلیل ہمیشہ مستثنی منہ میں عمومیت کا پا یا جا تا ہے ) ۔

اس کے علاوہ خدا وند متعال نے پہلے مرحلہ میں مؤ منین کو تقویٰ کا حکم دیا ہے،اور یہ انھیں تمام افراد کے لئے تقویٰ کا حکم ہے کہ جن کے لئے امکان ہے کہ متقی نہ ہوں اوراس خطاب کے مخاطبین وہ لوگ ہیں جو جائزالخطاء ہیں۔لہذاآیہء شریفہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جائز الخطاء افراد کو ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہونا چاہئے کہ جو خطا سے معصوم ہوں تاکہ وہ معصوم لوگ انھیں خطا سے بچا سکیں۔اور اس طرح کاامکان ہرزمانہ میں ہے۔اس لئے آیہء شریفہ تمام زمانوں سے متعلق ہے اورصرف پیغمبر (ص)کے زمانہ سے مخصوص نہیں ہے۔

یہاں تک فخررازی کے بیان سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ صادقین سے مراد خطا سے معصوم افراد ہیں اور یہ افراد ہر زمانہ میں موجود ہیں اوریہ مطلب صحیح اور نا قابل اشکال ہے۔ لیکن فخررازی کاکہنا ہے:

”معصوم”صادقین“ امت کے مجموعی افراد ہیں اور یہ امت کے خاص اورمشخص افراد نہیں ہو سکتے ہیں کیونکہ اس صورت میں ہر ایک پر لازم ہے کہ ان معین مشخص افراد کو پہچانے ان کی معرفت حاصل کرے تا کہ ان کے ساتھ ہو جائے جبکہ یہ معرفت اورآگا ہی ممکن نہیں ہے اورہم ایسے خاص افراد کو نہیں پہچانتے ہیں کہ جو خطا و غلطی سے پاک اورمعصوم ہوں۔ لہذااس بات کے پیش نظر معصوم صادقین سے مراد مجموعہ امت ہے کہ جس کا نتیجہ اجماع کی حجیّت ہے۔“

۱۷۲

فخررازی کے قول کا جواب

فخررازی کے بیان میں دونمایاں نکتے ہیں:

پہلانکتہ:یہ ہے کہ معصوم صادقین سے مراد مشخص و معیّن افراد نہیں ہو سکتے ہیں کیونکہ ہمیں ان کے بارے میں علم وآگاہی نہیں ہے۔

اس قول کا صحیح نہ ہو نا واضح و روشن ہے،کیونکہ شیعہ اما موں کی عصمت کی دلیلوں کی طرف رجوع کرنا ہرایک کے لئے ممکن ہے،جن احادیث میں ان معصوم اما موں کاصراحتاًنام لیا گیا ہے،وہ تواتر کی مقدار سے زیادہ ہیں نیزیہ حدیثیں بعض سنی منابع اور بے شما ر شیعہ منابع میں ذکر ہوئی ہیں۔

دوسرا نکتہ:یہ کہ” معصوم صادقین سے مراد تمام امت ہے“اس پر بہت سا رے اعتراضات ہیں ذیل کے عبا رت میں ملا حظہ ہو:

۱ ۔چودہ معصومین(ع)کی عصمت کے علاوہ کسی اور کی عصمت کا قول تمام مسلمانوں کے قطعی اجماع کے خلاف ہے

۲ ۔آیہ شریفہ میں صادقین کے عنوان )جو ایک عام عنوان ہے )سے جو چیز ظاہر ہے وہ اس کااستغراقی اورشمولی ہو نا ہے نہ کہ مجموعی ہونا اور فخررازی کے کلام سے جو بات ظاہر اور واضح ہے کہ عصمت مجموعہ امت کی صورت میں ہے نہ جمیع امت کی صورت میں اور”مجموعہ“ایک اعتباری عنوان ہے جووحدت افراد کو ایک دوسرے سے منسلک کر دیتا ہے۔عنوان عام میں اصل”استغراقی ہو نا“ہے،کیونکہ عام مجموعی مجازہے اور اسے قرینہ کی ضرورت ہے جبکہ اصالةالحقیقة کا تقاضا یہ ہے کہ عام،جس کا حقیقی عنوان استغراقی ہو نا ہے اس پر حمل ہو۔

۳ ۔عصمت ایک حقیقی عنوان ہے اوراسے ایک حقیقی موضوع کی ضرورت ہے،اور عام مجموعی ایک اعتباری موضوع ہے اورحقیقی موجود کا اعتباری موضوع پر قائم ہو نا محال ہے۔

۱۷۳

۴ ۔فخررازی کا قول”( یاایهاالذین آمنوا ) “اور صا دقینکے درمیان ایک دوسرے مقابل ہو نے کا جو قرینہ پا یا جا تا ہے اس کے خلاف ہے اور ان دو عناوین کے درمیان مقا بلہ کا تقاضا ہے کہ وہ مومنین کہ جن کو خطاب کیا جا رہا ہے وہ دوسرے ہوں اور وہ صادقین جوان کے مقا بل میں قرار دیئے گئے ہیں اور جن کے ساتھ ہو نے کا حکم دیا گیا ہے وہ دوسرے ہوں۔

۵ ۔صادقین سے مراد مجموعہ امت )عام مجموعی) ہونا خود فخررازی کے بیان سے متناقص ہے،کیونکہ اس نے اس مطلب کی توجیہ میں کہ صادقین کا اطلاق فقط پیغمبر (ص)کی ذات میں منحصر نہیں ہے ،کہاہے:

”آیہء شریفہ اس پہلو کو بیان کر نے والی ہے کہ ہرزمانے میں ایسے مؤ منین کا وجود رہا ہے کہ جو جائزالخطا ہوں اور ایسے صادقین بھی پائے جاتے رہے ہیں کہ جوخطا سے محفوظ اورمعصوم ہوں اور ان مؤمنین کو چاہئیے کہ ہمیشہ ان صادقین کے ساتھ ہوں۔“

لہذا فخر رازی نے ان مؤمنین کو کہ جن کوخطاب کیا گیا ہے جائز الخطا اور صادقین کو خطا سے معصوم فرض کیا ہے۔

اس آیت کے بارے میں شیعہ اورسنّی احادیث

حاکم حسکانی(۱) نے تفسیر”شواہد التنزیل(۲) “ میں چند ایسی حدیثیں ذکرکی ہیں،جن سے ثابت ہو تا ہے کہ آیہ شریفہ میں ”صادقین“ سے مراد (ص)اورحضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام یاپیغمبراکرم (ص)کے اھل بیت(ع)ہیں۔یہاں پرہم ان احادیث میں سے صرف

____________________

۱۔اہل سنت کے بڑے مشہور معروف عالم دین، ذہبی نے حسکانی کے بارے میں کہاہے:”شیخ متقن ذوعنایة تامة بعلم الحدیث،وکان معمّراً عالی الاسناد۔تذکرة الحفاظ،ج۳،ص۱۲۰۰،دارالکتب العلمیة بیروت۔یعنی:متقن اورمحکم اسناد میں علم حدیث کے بارے میں خاص اہمیت و توجہ کے کامل رکھتے ہیں۔انہوں نے ایک طولانی عمر گذاری ہے اور)حدیث میں )عالی اسنادکے مالک تھے ۔

۲۔شواہد التنزیل،ج۱،ص۳۴۱

۱۷۴

ایک کی جا نب اشارہ کرتے ہیں:

”حدثنایعقوب بن سفیان البسوی قال:حدثناابن قعنب،عن مالک بن اٴنس،عن نافع،عن عبداللّٰه بن عمرفی قوله تعالی:

( اتقوااللّٰه ) قال:اٴمراللّٰه اصحاب محمد( ص) باٴجمعهم اٴن یخافوا للّٰه،ثمّ قال لهم :( کونوامع الصادقین ) یعنی محمداً واهل بیته“(۱)

”یعقوب بن سفیان بسوی نے ابن قنعب سے،اس نے مالک بن انس سے،اس نے نافع سے اس نے عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ خداوندمتعال کے اس قول:”اتقوااللّٰہ“کے بارے میں کہا:خداوندمتعال نے پیغمبراکرم (ص)کے تمام اصحاب کوحکم دیاکہ خداسے ڈریں۔اس کے بعدان سے کہا’:’صادقین“یعنی پیغمبر (ص)اور ان کے اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ ہوجائیں۔“

اسی حدیث کوشیعوں کے عظیم محدث اوربزرگ عالم دین ابن شہر آشوب(۲) نے تفسیر یعقوب بن سفیان سے،مالک بن انس سے،نافع بن عمرسے روایت کی ہے۔

شیعوں کے ایک بہت بڑے محدث کلینی نے اس سلسلہ میں اصول کافی میں یوں روایت کی ہے:

”عن ابن اُذینه،عن برید بن معاویةالعجلی قال: اٴباجعفر-علیه السلام-عن قول اللّٰه عزّوجلّ: ( اتقوااللّٰه وکونوامع الصادقین ) قال: إیاّ نا عنی“ ۔(۳)

___________________

۱۔شواہد التنزیل،ج۱،ص۳۴۵،ح۳۵۷

۲۔ذہبی نے تاریخ اسلام میں ۵۸۱ئھ سے ۵۹۰ئھ کے حوادث کے بارے میں بعض بزرگ علماء )ابن ابی طی)کی زبانی اس کی تمجیدکی ہے اور اسے اپنے زمانہ کے امام اورمختلف علوم میں بے مثال شمار کیا ہے اورعلم حدیث میں اسے خطیب بغدادی کے ہم پلہ اورعلم رجال میں یحیی بن معین کے مانند قراردیاہے اور اس کی سچائی وسیع معلو مات نیز،کثرت خشوع وعبادت اورتہجدکا پابند ہو نے سے متصف کیاہے۔مناقب،ابن شہرآشوب،ج۳،ص۱۱۱،ذوی القربیٰ

۳۔اصول کافی ،ج۱،ص۲۰۸،مکتبةالصدق

۱۷۵