توحید مفضل

توحید مفضل33%

توحید مفضل مؤلف:
زمرہ جات: توحید
صفحے: 175

توحید مفضل
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 175 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 131381 / ڈاؤنلوڈ: 6130
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

توحید کی تبلیغ فقط کافروں ہی کو شرک سے نجات نہیں دیتی بلکہ چونکہ توحید آسمانی مذہبوں کی مشترکہ تبلیغ ہے لہٰذا ان تمام مذہبوں کے ماننے والوں کو ایک مضبوط مرکز پر مشترکہ جدوجہد کی طر ف دعوت دیتی ہے۔ کتاب ہٰذا اسی نورانی عقیدہ کی تبیین و تشریح اور اثبات کے سلسلے میں ایک اہم قدم ہے جس کی تعریف و توصیف میں یہی کہہ دینا کافی ہے کہ یہ کتاب سلسلہ امامت و خلافت کے چھٹے تاجدار اور اسلامی شاہراہ ہدایت کے روشن منارے حضرت امام جعفر صادق ـ سے منسوب ہے۔

والسلام

حسین احمدی

مسئول انتشارات مسجد جمکران

قم المقدسہ

۲۱

( عرض ناشر )

تاریخ بشریت میں عقائد خصوصاً ''توحیدِ پروردگار کا مسئلہ انبیاء ٪ کی الٰہی دعوت کی بنیاد اور اساس رہا ہے۔ ان الٰہی اور آسمانی انسانوں کے کلام کا آغاز اور اُن کے پیغام کا انجام انسانیت کو ایک خدائے وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دینا تھا۔ اسلامی نظریہ حیات اسی تصور کو انسان کے رگ و پے میں اتارنے اور اس کے قلب و باطن میں جایگزین کرنے سے متحقق ہوتا ہے۔ تصور توحید کی اساس تمام معبودانِ باطلہ کی نفی اور ایک خدائے لم یزل کے اثبات پر ہے عقیدہ توحید پر ہی ملت اسلامیہ کے قیام و بقاء اور ارتقاء کا انحصار ہے یہی عقیدہ امت اسلامیہ کی قوت تمکنت کا سرچشمہ اور اسلامی معاشرہ کا روحِ رواں ہے۔

تاریخ کے طولانی سفر اور زمانوں کے گذرتے ہوئے لمحات اس بات کے گواہ ہیں کہ انسانی سماج نے ہر دور میں اس بنیادی اصل سے انحراف کیا جس کے نتیجے میں فتنے، بلائیں اور مشکلات اس کے دامن گیر ہوتی ہیں چنانچہ ابتدائے آفرینش ہی سے انسانی قافلہ میں بہت سی ایسی نمایاں شخصیتوں نے جنم لیا جنہوں نے حسب موقع و ضرورت خدمات سر انجام دیں اور بھٹکی ہوئی انسانیت کو جادئہ اعتدال پر لانے کی مسلسل جدوجہد فرمائی۔ ان انسانوں میں کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنی محدود عمروں کے باوجود زمان و مکان کو مسخر کیا، شب و روز ان کے فیض سے نورانی ہوئے، ماہ و سال ان کے در پر جبہ رسائی سے فیضاب ہوئے، صدیوں نے ان کی بارگاہ میں اپنی جبینیں جھکائیں، تہذیبوں کے چمن جن کی زلفوں کی ہوائوں سے لہلہائے اور انسانی قدروں کے پھول جن کے عارض سے تازگی لے کر صدا بہار ہوئے ہیں انھیں کامل انسانوں میں سے ایک نام جو واقعاً انسانیت کی پیشانی پر درخشاں اور نمایاں ہے وہ جعفر ابن محمد حضرت امام صادق ـ کا نام ہے۔ آپ نے حدیثِ توحید میں جسے توحید مفصل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ توحیدِ پروردگار کے سلسلے میں کامل ترین عنوان سے الٰہی تصورات کائنات کو پیش کیا اور نورانی معارف و حقائق کے مختلف پہلوئوں کی اس انداز سے تشریح و تبیین فرمائی کہ محلدین

۲۲

اور خدائے کے بارے میں شک کرنے والوں کے پاس خاموشی، سرجھکائے اور اپنے غافل ہونے کے اقرار ے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔

آج پھر دنیا میں کفر و الحاد اور استعماری طاقتیں انسانوں کو جادئہ توحید سے ہٹانے میں مصروف عمل ہیں۔ خصوصاً نوجوان نسل کی فکری بنیادوں پر شب خون مارتے ہوئے یلغار کر رہے ہیں۔

لہٰذا چارہ کار یہ ہے کہ اس وقت موجودہ امکانات و وسائل سے صحیح استفادہ کرتے ہوئے الٰہی اقدار و معارف کی ترویج و تشہیر کی ذمہ داری پوری کی جائے۔ اس عظیم ذمہ داری کا بارِ سنگین دل سوز علماء کرام، دینی رہبروں اور علمی و دینی مراکز پر ہے ''توحید مفضل'' کی اشاعت اسی مقصد کی تکمیل کے سلسلے میں ایک قدم ہے جس کے مطالعہ کے دوران آپ کو بہت سارے دقیق اور ضروری نکات دیکھنے کو ملیں گے کہ جن میں سے ہر ایک قارئین کے اذہان سے کئی ایک شبہات اور استفسارات کو محو کردینے کے لیے کافی ہے۔

اس ابتدائی مرحلہ میں خداوند متعال کی سپاس گذاری کے ساتھ تمام علمی و تحقیقی کوششوں میں مصروف بزرگوں، دوستوں واسطۂ خیر قرار پانے والوں کا صمیم قلب سے شکر گزار ہوں، بالخصوص محترم مترجم حجة الاسلام و المسلمین مولانا سید نسیم حیدر زیدی صاحب کا تہ دل سے شکر گزار جھنوں نے نہایت عرق ریزی سے اس کتاب کا ترجمہ کیا۔

آخر میں حجت پروردگار، امام روزگار، قطب عوالم ہدایت، خاتم مقیدہ ولایت، خلیفہ رحمان حضرت حجت ابن الحسن العسکری کے موفور السرور تعجیل ظہور کے لیے بارگاہِ ربّ العزت میں دعاگو ہوں۔

والسلام

محمد امین مرچنت

۲۳

( مقدمہ )

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ O

الحمد للّٰه الواحد الاحد الّذی لا شریک له الفرد الصمد الّذی لَا شبیه له الاوّل القدیمه الذی لاغایة َ له الاخر الباقی الذی لا نهایة له الموجود الثابت لا عدمَ لَه فسبحان الذی بیدهِ ملکوت کل شیٔ و الیه المرجع والمصیر وَ أَشهد أَن لا ِله الّا اللّٰه ربّ العالمین وا شهد أَن محمداً عبده وَ رسوله سید النبیّن واشهد أَنَّ علی ابن ابیطالب سید الوصیین وامام المتّقین و ان ائمة من ولده بعده حجج اللّه الٰی یوم الدّین صلوٰت اللّه وسلامه علیهم اجمعین

یوں تو خالق دو جہاں کے وجود اور اس کی وحدانیت کے موضوع پر بہت سی عظیم کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں محکم و مضبوط دلائل کے ذریعہ خالق کائنات کے وجود اور اس کی وحدانیت کو ثابت کیا گیا ۔ لیکن ان عظیم کتابوں میں سے ''توحید مفضّل '' اپنی مثال آپ ہے ، کہ جو اس حدیث کا ترجمہ ہے، کہ جسے حضرت امام جعفر صادق ـ نے اپنے خاص صحابی اور جلیل القدر شاگرد مفضّل بن عمر کو مسلسل چار رو زاملاء کرائی۔ لہٰذا اسی روز سے اس حدیثِ توحید کو توحید مفضّل کے نام سے یاد کیا جانے لگا جس کا اردو ترجمہ موضوعات کی تنظیم کے ساتھ آپ کے سامنے پیش کیا جا رہاہے۔

امام ـ نے اس حدیث میں ہدایت کے غرض سے باغِ خلقت میں موجود نشانیوں کو اسطرح نمایاں کیا کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی طرف اشارہ کررہی ہیں تاکہ محترم قارئین مختلف کلمات و نشانیوں سے خداوند عالم کو دیکھنے لگیں جو آنکھ کے دیکھنے سے کہیں زیادہ روشن تر ہے۔حضرت امام جعفر صادق (ع)اسلام کے وہ عظیم الشان مفکر ہیں جہنوں نے خالق کائنات کی توحید اور اسکے صفات پر

۲۴

فطری اور عقلی نقطہ نظر سے بحث کی ہے اس سلسلے میں آپکے بیانات علم الہیات میں نقش اوّل بھی ہیں اور حرف آخر بھی ۔ان کی بلند نظری و معنیٰ آفرینی کے سامنے حکماء و متکلّمین کی ذہنی رسائیاں ٹھٹھک کر رہ جاتی ہیں اور نکتہ رس طبیعتوںکو عجزو نارسائی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے ۔بلا شبہ جن لوگوں نے الہیاتی مسائل میںعلم و دانش کے دریا بہائے ہیں ان کا سر چشمہ آپ ہی کے حکیمانہ ارشادات ہیں۔یوں تو مخلوقات کی نیرنگیوں سے خالق کی صنعت آفرینیوں پر استدلال کیا ہی جاتا ہے ،لیکن جس طرح امام (ع) کائنات کی چھوٹی سے چھوٹی اور پست سے پست مخلوق میںنقّاش فطرت کی نقش آرائیوں کی تصویر کھینچ کر صانع کمال صنعت اور اس کی قدرت و حکمت پر دلیل قائم کرتے ہیں وہ ندرت بیانی میں اپنا جواب نہیں رکھتی اس موقع پرصرف طاؤس کے پروبال کی رنگینی ورعنائی ہی نظروں کو جذب نہیں کرتی ،بلکہ چمگادڑ،ٹڈی،مکڑی اور چیونٹی جیسی روندی ہوئی اور ٹھکرائی ہوئی مخلوق کا دامن بھی فطرت کی فیاضیوں سے چھلکتا ہوا نظر آتا ہے ۔

قابل ستائش ہیں ، فقیہ اہل بیت عصمت و طہارت حضرت آیت اللہ محسن حرم پناہی جنہوں نے اس ترجمہ شدہ کتاب پر تقریظ لکھ کر میری حوصلہ افزائی فرمائی اور میرے شفیق اور مہربان استاد حضرت علامہ سید رضی جعفر نقوی (دام برکاتہ) جنہوں نے بے انتہا مصروفیت کے باوجود میری اس ناچیز کوشش کوسراہتے ہوئے نظر ثانی کی زحمت کو برداشت کیا نیز اپنے عزیز اور محترم والدین اور معلمہ محترمہ عصمت بتول کا شکرگزار ہوں جنہوں نے میری تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ نا سپاس گزاری ہوگی اگر ان تمام افراد کا شکریہ نہ کیا جائے جنہوں نے اس کتاب کی نشر و اشاعت میں تعاون فرمایا۔آخر میں اس بات کا اعتراف ضروری ہے کہ اصل کلام کی خصوصیات ترجمہ میں منتقل نہیں کی جاسکتیں اورآئینہ کے بالمقابل پھول رکھ کر اس کی پتّیوں کی تہ میں لپٹی ہوئی خوشبو کی عکّاسی ناممکن ہے کہ کوئی پھول کے عکس سے خوشبو سونگھنے کی توقع کرنے لگے مگر پھول کی شکل و صورت بھی نظر نہ آئے تو اس کے سواء کیا

۲۵

کہا جاسکتا ہے کہ آئینہ ہی دھندلا ہے ،مجھے اپنی ناتوانی کے ساتھ قلم کی ناتوانی کا بھی احساس ہے جس کے پیش نظر میرے لیے اس عظیم ذمہ داری کا نبھانا لمحہ فکریہ تھا ان حالات میں میںنے لسا ن ِعصمت و طہارت کی ترجمانی کی جرأت کی ہے تر جمہ جیسا کچھ بھی ہے آپ کے سامنے ہے میری کوشش تو یہی رہی کہ میرے امکانی حدود تک ترجمہ صحیح ہو امام (ع) نے اپنے استدلال میںعلمی اور سائنسی مطالب کے علاوہ کافی ایسے الفاظ وکلمات استعمال کیے جن کے ترجمے کے لیے باربار لغت اور دوسری کتب کی طرف رجوع کیا اور اس سلسلہ میں اساتذہ سے بھی مدد لی گئی بہر حال حتی الامکان صحیح ترجمہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔اور ساتھ ہی مفضّل بن عمر کے مختصر تعارف اور چند اہم مطالب کی طرف اشارہ کیا گیا اب یہ میری کوشش کہاں تک بار آور ہوئی ہے اس کا اندازہ ارباب علم ہی کر سکتے ہیں لہٰذامحترم قارئین سے خواہشمند ہوں کہ اگر ترجمہ یا تنظیم میں کسی بھی قسم کی کوئی کمی و بیشی ہو تو اُس کی نشان دہی ضرور فرمائیں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی تصحیح کردی جائے۔

والسلام مع الاکرام

سےّد نسیم حیدر زیدی

قم المقدسہ

۲۶

( مفضل بن عمر کا مختصرتعارف )

آپ مفضّل بن عمر، ابو محمد یا ابو عبد اللہ ہیں آپ پہلی صدی ہجری کے اواخر یا دوسری صدی ہجری کے اوائل میں شہر کوفہ میں رونق افروز ہوئے(۱) آپ حضرت امام جعفر صادق ـ اور امام موسیٰ کاظم ـ کے وہ عظیم الشان صحابی اور جلیل القدر شاگرد ہیں جن کا نام تاریخ کے صفحات پر روشن و تاباں ہے جس کی روشنی مدہم نہیں پڑتی اور جن کی عظمت و بزرگی کا چراغ زمانے کی ہوائوں سے گل نہیں ہوتا۔ آپ شہر کوفہ میں دونوں اماموں کی طرف سے وکیل تھے۔

مفضل بن عمر روایات کے آئینہ میں

مفضل بن عمرکے اعلیٰ و اشرف مقام کے لیے بس یہی کافی ہے کہ ائمہ طاہرین ٪ سے نقل شدہ بہت سی روایات میں مفضّل کی عظمت و بزرگی کو بیان کیا گیا ہے ان روایات کی تعداد بہت زیادہ ہے لہٰذا ہم اپنی محدودیت اور تنگ دامنی کے پیش نظر اس بحرِ خروشاں میں کودنے سے اجتناب کرتے ہوئے صرف چند روایات کے ذکر پر اکتفا کر رہے ہیں۔

۱۔ شیخ مفید علیہ الرحمہ بروایت صحیح حضرت امام جعفر صادق ـ سے نقل فرماتے ہیں کہ امام ـ نے مفضل سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے مفضّل خدا کی قسم میں تمہیں اور تمہارے دوست کودوست رکھتا ہوں۔ اے مفضل اگر میرے تمام اصحاب اُن تمام چیزوں کا علم رکھتے جنہیں تم جانتے ہو تو کبھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ توحید مفضل۔ (شگفتیھای آفرینش) نجف علی میزایی سے اقتباس۔

۲۷

اُن کے درمیان اختلاف نہ ہوتا۔(۱)

۲۔ محمد بن سنان سے مروی ہے کہ میں امام موسیٰ کاظم ـ کی خدمت میں شرفیاب ہوا تو امام ـ نے مجھ سے فرمایا: اے محمد، مفضل مجھ سے محبت کرنے والے میرے دوست اور میرے لیے باعث سکون و راحت تھے۔(۲)

۳۔ ہشام بن احمد سے روایت ہے کہ ایک روز شدید گرمی تھی کہ میں مفضّل کے بارے میں جاننے کے لیے حضرت امام جعفر صادق ـ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ کام میں مصروف تھے اور آپ کے سینہ مبارک سے آپ کا پسینہ سرازیر تھے تھا۔ ہشام کہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ میں کچھ پوچھتا، لبہائے عصمت و طہارت گشودہ ہوئے اور فرمایا: ''خدایا وحدہ لاشریک کی قسم مفضّل بن عمر ایک نیک انسان تھے''اور میرے اندازہ کے مطابق امام ـ نے اس جملہ کو ۳۰ سے زیادہ بار دہرایا۔(۳)

۴۔ فیض بن مختار کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق ـ سے عرض کی میں آپ پر قربان ہوجائوں۔ میں جب بھی کوفہ کے دانشوروں کے درمیان بیٹھا ہوں تو ان کے باہمی اختلاف کی وجہ سے میرا عقیدہ سست اور کمزور ہوجاتا ہے لیکن جب میں مفضّل بن عمر سے ملتا ہوں تو وہ اپنے علم و آگہی کے چشمہ سے مجھے اس طرح سیراب کرتے ہیں کہ میں مطمئن ہوجاتا ہوں یہ سن کر امام ـ نے فرمایا: اے فیض تم نے سچ کہا۔(۴)

۵۔ محمد بن یعقوب کلینی اپنی کتاب اصول کافی میں حضرت امام جعفر صادق ـ سے روایت کرتے

ہیں کہ آپ نے مفضل بن عمر سے فرمایا: (اے مفضّل) جب بھی ہمارے شیعیوں کے درمیان اختلاف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔الاختصاص، ص ۲۱۶۔

(۲)۔ عیون اخبار الرضا ـ، ج۱، باب ۴، ح ۲۹۔

(۳)۔ رجال کشی، شرح مفضّل بن عمر۔

(۴)۔ معجم الرجال الحدیث، ج۱۸، ص ۳۰۳۔

۲۸

پائو تو تمہیں یہ اختیار ہے کہ ہمارے مال کے ذریعہ ان کے اختلاف کو ختم کرکے ان میں صلح و آشتی برقرار کردو۔(۱)

ان روایات میں سے ہر ایک مفضّل بن عمر کے اعلیٰ و ارفع مقام و منزلت کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔

مفضل بن عمر علماء کی نظر میں

بہت سے علماء رجال ، فقہاء کرام اور محدثین نے مفضل بن عمر کے رفیع الشان مقام کو بیان کیا ہے جن میں سے صرف چند کی طرف ذیل میں اشارہ کر رہے ہیں۔

۱۔ شیخ صدوق: نے اپنی کتب میں بہت سی احادیث مفضل بن عمر کے توسط سے نقل کی ہیں۔ اور جب ہم شیخ صدوق کے اسی مبنیٰ پر نظر کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی کتاب ''من لا یحضرہ الفقیہ'' میں صرف ان احادیث کو ذکر کیا ہے جو آپ کے نزدیک معتبر اور حجت تھیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ مفضل بن عمر آپ کے نزدیک قابلِ اطمینان اور موردِ وثوق تھے۔ جو ''من لا یحضرہ الفقیہ'' میں موجود بہت سی روایات کے ناقل ہیں۔(۲)

۲۔ محمد بن یعقوب کلینی نے بھی اصول کافی میں بہت سی ایسی احادیث نقل کی ہیں جن کے راوی مفضل بن عمرو ہیں۔ بالخصوص ''یونس بن یعقوب''(۳) کی روایت جو صراحتاً مفضل بن عمر کی عظمت و جلالت پر دلالت کرتی ہے۔

۳۔ شیخ مفید علیہ الرحمہ مفضل بن عمر کے بارے میں سخن طراز ہیں کہ آپ حضرت امام جعفر صادق ـ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ اصول کافی، ج۲، ص ۲۰۹۔

(۲)۔ من لا یحضرہ الفقیہ۔ ج۱، ص ۳۔

(۳)۔ اصول کافی، ج۲، باب صبر۔ ح ۱۶۔

۲۹

کے خاص اور جلیل القدر صحابی ہونے کے علاوہ آپ کے موردِ اعتماد اور فقہاء صالحین میں سے تھے۔(۱)

۴۔ شیخ طوسی: مفضل بن عمر کے بارے میں رقمطراز ہین کہ آپ ائمہ ٪ کے مخلص اور قابل اعتماد صحابی تھے اور آپ نے اہل بیت ٪ کے پیام کی نشرو اشاعت کے لیے تاحد توان زحمتیں برداشت کیں۔(۲)

۵۔ علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ مفضل بن عمر کی عظمت و جلالت کو اجاگر کرنے کے لیے ائمہ ٪ سے بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں۔(۳) آپ حضرت امام جعفر صادق ـ کے نیک اور پارسا اصحاب میں ایک خاص مقام رکھتے تھے۔(۴)

ایک اعتراض کا جواب

مفضل بن عمر کی شان و منزلت کے بیان کے بعد ایک اعتراض کا جواب دینا مناسب سمجھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اگر مفضل بن عمر امام ـ کے خاص اور جلیل القدر صحابی ھے تو پھر کیونکر بعض روایتوں میں انھیں موردِ سرزنش قرار دیا گیا ہے؟

اس سلسلہ میں ہم یہ کہیں گے کہ اس اعتراض کا صحیح اور درست جواب جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم حضرت امام جعفر صادق ـ کے زمانے کے حالات اور سیاسی حکومت کی طرف سے امام ـ اور آپ کے شیعوں پر کی جانے والی سختیوں سے اچھی طرح واقف ہوں۔

بنی عباس کی بربریت اور زیادیتوں کی وجہ سے امام اور شیعہ تقیہ کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ الارشاد فی معرفة حجج اللہ علی العباد، ص ۲۰۸۔

(۲)۔ الغیبہ، ص ۲۱۰۔

(۳)۔ بحار الانوار، ج۳، ص ۵۵۔ ۵۶۔

(۴)۔ ترجمہ توحید مفضل، ص ۳۔ ۴۔

۳۰

یہاں تک کہ کبھی ایسا ہوتا تھا کہ امام اپنے قریبی اور خاص اصحاب کی جان بچانے کی خاطر اس کی مذمت فرماتے تھے تاکہ اس طرح انہیں دشمنوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔ مفضل بن عمر کا شمار ان ہی اصحاب میں ہوتا ہے کہ جن کی جان بچانے کی خاطر بعض مقام پر ان کی سرزنش اور مذمت کی گئی ہے۔ لہٰذا اس قسم کی احادیث کو تقیہ پر حمل کرنا چاہیے۔

جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق ـ نے عبد اللہ بن زرارہ بن اعین سے فرمایا: اپنے والد کو میری طرف سے سلام کہنا اور انہیں یہ پیغام دینا کہ اگر ہم نے کبھی تمہاری مذمت کی ہے تو ہمارا یہ اقدام بھی تمہارے دفاع کی خاطر تھا۔ ہمارے دشمن یہ چاہتے ہیں کہ جو لوگ ہم سے قریب ہیں اور ہمارے نزدیک خاص مقام و منزلت رکھتے ہیں انھیں آزار و اذیتیں پہنچائیں۔ یہ لوگ ہماری محبت کی خاطر ان کی سرزنش و ملامت کرتے ہیں اور انہیں قتل کرتے ہیں اور جس کی ہم مذمت کرتے ہیں یہ اس کی مدح و ثناء کرتے ہیں۔ (اپنے والد گرامی سے کہنا) اگر ہم نے ظاہر میں تمہاری مذمت کی ہے تو صرف اس لیے کہ تم ہماری ولایت و محبت سے پہچانے جانے لگے ہو اور سب اس بات کو جانتے ہیں کہ تمہارے لوح دل پر ہماری محبت کے علاوہ کسی غیر کی محبت کا کوئی نقش نہیں ہے لہٰذا وہ تمہیں دوست نہیں رکھتے۔ میں نے ظاہری طور پر اس وجہ سے تمہاری مذمت کی تاکہ وہ تمہیں دوست رکھیں اور اس طرح تمہارا دین بھی محفوظ رہے۔ اور تم خود بھی ان کے شرّ سے امان میں رہو۔ ''(۱)

اس سلسلہ میں شیخ عباس قمی فرماتے ہیں کہ مفضل بن عمر کی قدح میں نقل شدہ روایات ان روایتوں کے سامنے تاب مقاومت نہیں رکھتیں جو ان کی مدح میں وارد ہوتی ہیں۔(۲)

اسی سے ملتا جلتا کلام آیت اللہ خوئی کا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ وسایل الشیعہ، ج۳، ص ۵۸۴۔ رجال کشی، ص ۹۱۔

(۲)۔ منتہی الآمال، ج۲، ص ۴۴۳۔ ۴۴۴۔

۳۱

آپ مفضل بن عمر سے متعلق منقول شدہ روایات کے بارے میں تجزیہ و تحلیل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مفضل بن عمر کی قدح میں نقل شدہ روایات ان روایتوں کے سامنے تاب مقاومت نہیں رکھتیں جو ان کی مدح میں وارد ہوئی ہیں اور ان روایات قدح کا وہی حکم ہے جو ان روایاتِ قدح کا ہے جو زرارہ بن اعین کے بارے میں وارد ہوئی ہیں (یعنی تقیہ پر حمل کیا جائے)۔

توحید مفضل کی قرآن سے شباہت

خدا کی ہستی او اثبات توحید پر قرآن مجید کا طرز و اسلوب استدلال اس ہمہ گیر ربوبیت کے نظام میں تعقل و تفکر اور تدبر کی دعوت دیتا ہے جو اس کائنات بسیط میں ایک خاص نظم و قانون سے منسلک ترتیب و قاعدے کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ چنانچہ قرآن جابجا انسان کو عالم انفس، آفاق میں تدبّر کی دعوت دیتا ہے اور اس سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنی اور اس کائنات کی خلقت پر غور و فکر کرے۔ اور دیکھے کہ یہ کارخانہ حیات کس نظم و انضباط کے ساتھ چل رہا ہے۔ انسان اگر غور کرے تو خود اپنی پیدائش اور عالم گرد و پیش کے مشاہدات اس پر عرفان ذات اور معرفت توحید باری تعالیٰ کے بہت سے سرپستہ راز کھول دیں گے۔

امام جعفر صادق ـ جو قرآن ناطق ہیں۔ خدا کی ذات اور اثبات توحید پر آپ کا طرز و اسلوب استدلال بھی یہی ہے کہ انسانوں کو اُس ذات اقدس کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ انسان کائنات میں کارفرما نظامِ ربوبیت کا بے لاگ مطالعہ کرنے بیٹھے اور اس کے وجدان میں ایک ربّ العالمین ہستی کے ہونے کا یقین انگڑائیاں نہ لینے لگے۔ کائنات ہست و بود کے نظام میں حرکت پذیر تمام اجرام ارضی و سماوی اثبات توحید پر خاموش دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ زمین ، یہ چاند ، سورج، ستارے، شجر و حجر، لہلہاتے کھیت، مترنم آبشاریں، فلک بوس پہاڑ، سمندر کی

۳۲

لہروں کا تموج، سب اگرچہ قوت گویائی نہیں رکھتے لیکن زبانِ حال سے توحید کی دلالت کرتے ہیں اور اس بات کی شہادت فراہم کرتے ہیں کہ اس متوازن اور نظم و ضبط کے تحت چلنے والے کائناتی نظام کے پیچھے ایک ہی ہستی کا دست قدرت کار فرما ہے۔ جو ربوبیت الوہیت کی سزاوار ہے اور ارض و سموٰت کی جملہ مخلوقات کی عبادت کے لائق ہے۔ امام کی دل آویز گفتگو نے تصور کائنات کو حیرت انگیز حد تک آسان بنا دیا۔ یہ کتاب پڑھیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی سبک رفتار کشتی نہایت بے تکلفی سے آب و حباب کو چیرتی ہوئی ساحل مراد سے لگ گئی ہے۔ امام کا کلام کوئی معمولی کلام نہیں بلکہ یہ وہ راستہ ہے جس کے ذریعہ انسان اپنے مقصد تک پہنچ سکتا ہے اس لیے روایات میں ہے کہ ایک گھنٹہ غور و فکر کرنا ۷۰ سال کی عبادت سے افضل ہے کیونکہ اگر ہم گوش اور دیدئہ بینا کو وا کرکے کائنات کی کھلی کتاب کا مطالعہ کریں تو اس کے ورق ورق پر ایک پروردگار کے وجود کا اعلان ہوتا دکھائی دے گا، اس کے اندر سے یہ پکار سنائی دے گی کہ اس کائنات کی تخلیق بالحق ہوئی ہے اور انسان بے ساختہ اس بات کے اقرار پر مجبور ہوگا کہ

(رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا ) (آل عمران،۳:۱۹۱ )

اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔

کلام امام ـ کے معجزات

عام اصطلاح میں معجزہ اُس کہتے ہیں جسے دوسرے عام انسان انجام دینے سے قاصر ہوں معمولاً جب بھی لوگ ائمہ طاہرین ٪ کے معجزوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں ، مردوں کو زندہ کرنا، سورج کو پلٹانا، وحشی درندہ پر قابو پانا، لاعلاج کو شفا دینا وغیرہ ہی آتا ہے۔

جبکہ اگر ہم غور کریںتو نہج البلاغہ بھی معجزہ ہے۔ صحیفہ سجادیہ بھی معجزہ ہے اور توحید مفضل بھی ایک معجزہ ہے۔

۳۳

توحید مفضل کا بین ثبوت ہے کہ امام صادق ـ کائنات کے ذرّہ ذرّہ کے فلسفہ اور اس کے اسرار و رموز سے مکمل آگاہ تے۔ چودہ سال گذر جانے کے بعد بھی آج تک تمام عظیم الشان فلاسفہ قادر الکلام متکلمین، مشہور و معروف دانشور، برجستہ اطبّائ، بہترین ستارہ شناس، ماہرطبیعات و فلکیات اور عظیم تحلیل گر اسرار کائنات کی وہ تبیین و تشریح نہ کرسکے جو امام صادق ـ نے پیش کی ہے اس سے بڑھ کر معجزہ اور کیا ہوسکتا ہے۔

آپ کے کلام کے معجزات کو غور و فکر کے ذریعہ با آسانی درک کیا جاسکتا ہے۔ من جملہ

۱۔ امام ـ نے فرمایا: کہ مچھلی پانی منہ میں لینے کے بعد اُسے اپنے دونوں طرف سے خارج کردیتی ہے تاکہ دوسرے حیوانات کی طرح ہوا کے فوائد سے بہرہ مند ہوسکے۔

امام ـ کے اس کلام میں صراحتاً اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مچھلی ہوا میں موجود آکسیجن سے استفادہ کرتی ہے اور یہ وہ راز ہے جس سے دنیا صدیاں گذرنے کے بعد آگاہ ہوتی ہے۔

۲۔ امام ـ ستاروں کی حرکت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہر ستارہ کی دو حرکتیں ہیں۔ اور پھر ان حرکتوں کو چیونٹی کی چکی پر حرکتوں سے تشبیہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ چیونٹی جب چکی پر حرکت کرتی ہے تو اس کی دو حرکتیں ہوتیں ہیں ایک حرکت چیونٹی کی اپنی ہے جس سے وہ آگے بڑھ رہی ہے اور دوسری حرکت چکی کے تحت انجام دے رہی ہے جو اُسے مخالف سمت لے جا رہی ہے۔

امام ـ کی اس گفتگو سے ستاروں کی وضعی اور انتقالی حرکت کو سمجھا جاسکتا ہے۔ البتہ اس سلسلہ میں امام ـ نے مفصلاً بحث کی ہے۔

۳۔ امام ـ نے ہوا کی بحث میں بیان فرمایا ہے کہ ہوا آواز کی امواج کیلئے متحرک ہے جس تک سائنسدان آج بڑی جدوجہد کے بعد پہنچے ہیں۔

بہرحال یہ پوری کتاب کائنات کے ایسے اسرار و رموز پر مشتمل ہے جنہیں امام صادق

۳۴

ـ نے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے جن میں تفکر و تدبر سے مبدا جہان تک پہنچا جاسکتا ہے۔

ایک شبھہ کا ازالہ

۱۔ ممکن ہے کہ محترم قاری اس میں بعض عبارتوں کا مطالعہ کرے اور اپنے تئیں خود یہ خیال کرے کہ یہ مطلب علم جدید سے سازگار اور ہم آہنگ نہیں ہے۔

تو ایسے فرد کو چاہیے کہ وہ چند باتوں پر توجہ کرے :

۱۔ ایک عادی انسان کا علم نہایت محدود اور تھوڑا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَمَا اوتیتم من العلم الّا قلیلًا) یعنی ہم نے تمہیں صرف تھوڑا علم دیا ہے۔ لہٰذا انسان کو منبع نور اور علم الٰہی یعنی کلام امام ـ پر بے جا اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ معیار امام ـ کا علم ہے ہمارا علم نہیں۔ اگر ہم کسی مطلب کو نہیں سمجھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی ہم امام ـ کے علم کی حکمت تک نہیں پہنچے ہیں۔

۲۔ امام جعفر صادق ـ کے کلام میں بہت سے ایسے مطالب موجود ہیں جو کل کے لوگوں کے لیے عجیب و غریب تھے لیکن آج ان کی حقیقت روش ہو گئی ہے تو اسی طرح ممکن ہے کہ کچھ مطالب آج عجیب و غیرب معلوم ہوں جن کی حقیقت کل روشن ہوجائے گی۔

۳۔ اگر کوئی ایسی عبارت سامنے آئے جس کے سمجھنے سے قاصر ہوں تو ایسے میں ضروری ہے کہ ماہرین لغت اور اسلامی دانشوروں کی مدد سے اس عبارت کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ لیجئے اب کتاب کا مطالعہ فرمائیے۔

۳۵

( مفضّل اور ابن ابی العوجاء کے درمیان آغاز گفتگو )

محمد بن سنان مفضل بن عمر سے روایت کرتے ہیں۔

کہ میں ایک روز رنماز عصر کے بعد پیغمبر اسلام (ص) کی قبر مطہر اور آپ کے منبر اقدس کے درمیان بیٹھا ہوا اس فکر میں گم تھا کہ خداوند عالم نے پیغمبر اسلام (ص) کو کس بلند مقام اور فضیلت کا شرف بخشا کہ جسے امت نے ابھی تک نہیں پہچانا ، اور کچھ تو اس سے بالکل ہی بے خبر ہیں، میں ابھی اس فکر میں گم ہی تھا کہ اتنے میں ابن ابی العوجاء (جو ملحدیں زمان میں سے ایک تھا) وہاں آپہنچا اور مجھ سے اتنی نزدیک بیٹھا کہ میں اس کی گفتگو کو بآسانی سن سکتا تھا،اس کے بیٹھتے ہی اس کا ایک دوست بھی اس کے نزدیک آکر بیٹھ گیا۔ ابن ابی العوجاء نے گفتگو کا آغاز کیا(اور پیغمبر اسلام کی قبر مطہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) یہ صاحب قبر عزت کے کمال پر پہنچا، شرافت کے تمام خصال کو اس نے اپنے اندر جمع کیا، اورایک بلند وبالامقام پر فائز ہوا۔ ابن ابی العوجاء کے دوست نے کہا وہ ایک فلسفی تھا جس نے برتری اور عظیم منزلت کا دعویٰ کیا اور اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کیلئے ایسے محیر العقول معجزے لایا، کہ جن کے سامنے عقلیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں یہاں تک کہ جب عقلاء فصحاء اور خطباء نے اس کی دعوت کو قبول کیا ، تو لوگ جوق در جوق اس کے دین میں داخل ہونا شروع ہوگئے، اس نے اپنے نام کو (اذان و اقامت میں) خدا کے نام کے ساتھ رکھا اور بالآخر ہر شہر و گلی و کوچہ اور زمین کے جس خطے پر بھی اس کی دعوت پہنچی ، وہاں لوگ ہر روز پانچ مرتبہ بلند آواز سے اذان و اقامت کہتے ہیں تاکہ اس کی یاد ہمیشہ تازہ رہے اور اس کی دعوت سست اور کمزور نہ پڑجائے۔

ابن ابی العوجاء نے اپنے دوست سے کہا کہ محمد کے بارے میں گفتگو نہ کرو میری عقل اس کے بارے میں متحیر ہے خصوصاً اس ''اصل'' پر کہ جس کے لیے محمد نے قیام کیا، اور اپنی زندگی کو اس کے

۳۶

مطابق گذاراتم اس اصل(۱) پر گفتگو کرو۔ لہٰذا اس نے دنیا کی پہلی چیز یعنی ''خالق کائنات'' کے بارے میں اپنی گفتگو کا آغاز کیا،اور بات یہاں تک پہونچی کے اس نے یہ خیال کہ تمام انسان محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں،اور ان کے پیدا ہونے میں کسی بھی قسم کی دانائی اور ہنرمندی شامل حال نہیں ، بلکہ دنیا کی تمام چیزیں بغیر کسی خالق ومدبر کے خودبخود وجود میں آئی ہیں اوریہ دنیا ابتداء ہی سے اسی طرح ہے اور ہمیشہ اسی طرح باقی رہے گی۔

مفضل ، کہتے ہیں کہ یہ باتیں سنتے ہی مجھے غصہ آگیا اور میں اس پر قابو نہ پاسکا اور اسی غصہ کی حالت میں اس سے کہا کہ ، اے دشمن خدا کیا تو ملحد ہوگیا ہے،اور اپنے اس پروردگار کا انکار کررہا ہے، جس نے تجھے بہترین طریقے پر خلق کیا اور تجھے بہترین صورت عطا کی، اور مختلف احوال میں تیری مدد کی اور تجھے اس حالت تک پہنچایا اگر تو اپنے اندر غورو فکر کرے تو یقینا تیری قوت فکر اور تیرا زورِ ادراک تیری حقیقت کی طرف نشاندہی کرے گا اور تو دلائل ربوبیت اور آثار تدبیر کو اپنے اندر موجود پائے گا۔

ابن ابی العوجاء نے مفضل سے کہا ، اے شخص اگر تو اہل کلام میں سے ہے تو میں تجھ سے دریچے کلام کے ذریعے کچھ بحث کرنا چاہتا ہوں ، اگر تیری دلیلیں ثابت ہوگئیں تو میں خود کو تیرے حوالے کردوں گا، اور اگر تو اہل کلام میں سے نہیں ہے تو پھر تیرے کلام سے کوئی فائدہ نہیں ۔ اور اگر تو جعفر بن محمد صادق ـ کے اصحاب میں سے ہے تو وہ ہرگز ہم سے اس طرح کی گفتگو نہیں کرتے اور نہ بات کرتے وقت تیری طرح جھگڑتے ہیں ۔ انہوں نے اس سے کہیں زیادہ ہمارے کلام کو سنا ہے لیکن انہوں نے جواب دینے میں کبھی غلط الفاظ کا استعمال نہیں کیا، اور نہ جواب دینے میں کبھی تجاوز سے کام لیا، وہ ایک مرد

حکیم ، عاقل و دانا ہیں غیض وغضب ، خشم و غصہ ان پر مسلط نہیں ہوتا، پہلے وہ اچھی طرح ہمارے کلام کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ خداوند عالم کی توحید پر۔

۳۷

سنتے ہیں اور جب ہم اپنی بات کو مکمل کرلیتے ہیں ، اور یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ہم نے انہیں مغلوب کردیا، تو وہ مختصر سی گفتگو میں ادلّہ و براہین کے ذریعہ ہمارے اس خیال کو اس طرح پاش پاش کردیتے ہیں کہ ہم پر لازم ہوجاتا ہے کہ ہم ان کے دلائل کو قبول کریں،اس طرح وہ اپنا فریضہ ہمارے ساتھ انجام دیتے ہیں تاکہ ہمارا کوئی عذر باقی نہ رہے اور ہم ان کی تردید کیلئے کوئی دلیل نہ لاسکیں، لہٰذا اگر تم ان کے اصحاب میں سے ہو تو تم بھی ویسا ہی کلام کرو، مفضل کہتے ہیں ، میں غمزدہ اور اسی فکر میں کہ کس طرح اسلام اور مسلمان کفر والحاد کے درمیان گرفتار ہیں ، مسجد سے باہر آیا اور فوراً ہی اپنے آقا و مولاء حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا، مجھے محزون اور شکستہ دل دیکھ کر آپ نے فرمایا: (اے مفضل)کیا ہوا؟ میں نے ان دونوں ملحدوں کے کفر آمیز کلام اور جس دلیل کے ذریعہ ان کے کلام کی رد پیش کی تھی حضرت (ع)کے سامنے بیان کی۔

آپـ نے فرمایا ، (اے مفضل) میں تمھیں حکمت باری تعالیٰ میں سے خلقت عالم حیوانات، درندوں ، چوپاؤں ، حشرات الارض، ہر ذی روح عالم نباتات ، پھل دار ،غیر پھل درختوں ، دانوں اور ماکولات وغیر ماکولات سبزیوں کے بارے میں ایسے مطالب بتاؤں گا ، جو بصیرت کو پیدا کریں ،اور جن سے عبرت حاصل کرنے والے لوگ عبرت حاصل کریں ، جن کے جاننے کے بعد مومنوں کے دل آرام پائیں اور ملحدین اس میں حیران ہو کر رہ جائیں ، تم کل صبح سویرے میرے پاس آجاؤ۔ مفضل کہتے ہیں کہ یہ بات سن کر میں اس قدر خوشحال اپنے گھر واپس پلٹا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ، اور وہ رات مجھ پر حضرت ـکے وعدے کے انتظار میں کافی طولانی گذری۔

۳۸

( روز اوّل )

۳۹

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ہو۔ رفتہ رفتہ مکہ کے راستوں ، گھروں اور اجتماع میں رسول(ص) کے اصحاب کم نظر آنے لگے خود رسول(ص)، حکم خدا کے منتظر تھے اور یہ بھی چاہتے تھے کہ مسلمان صحیح و سالم ہجرت کر جائیں۔ ادھر قریش کو بھی رسول(ص) کے عزم کا علم ہو گیا لہذا انہوں نے مسلمانوں کو مکہ چھوڑ کرہجرت کرنے سے روکنے کی سعی کی اور مدینہ میں جاکر مسلمانوں کو لالچ و دھمکی کے ذریعہ مکہ لوٹانے کی کوشش کی۔

قریش مکہ میں امن برقرار رکھنا چاہتے تھے اسی وجہ سے مسلمان مہاجروں کو قتل نہیں کرتے تھے بلکہ قید میں ڈال دیتے تھے سزا دیتے تھے کیونکہ انہیں خوف تھا کہ مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان جنگ ہو جائے گی۔

ہاں قریش یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ رسول(ص) کی مدینہ ہجرت سے مسلمانوں کی بڑی طاقت بن جائے گی اور جب آپ(ص) ان سے ملحق ہو جائیں گے تو چونکہ آپ ثابت قدمی حسن رائے، قوت و شجاعت میں مشہور ہیں، اس لئے اس وقت مشرکین عام طور سے اور قریش خاص طور سے مصیبتوں میں مبتلا ہوجائیں گے ۔

قریش کے سرداروں نے اپنے سامنے عظیم خطرے سے نمٹنے کے لئے دار الندوہ میں جلدی سے ایک جلسہ کیا، اس میں مختلف رائیں سامنے آئیں ایک رائے یہ تھی کہ محمد کو قید کر دیاجائے، ان کے پیروں میں زنجیر ڈال دی جائے یا انہیں مکہ سے دور صحرا ء میں جلا وطن کر دیا جائے لیکن رسول(ص) کو قتل کرنے اور ان کے خون کو قبائل میں اس طرح تقسیم کرنے والی رائے سب کو پسند آئی، کہ بنی ہاشم انتقام نہ لے سکیں( ۱ ) کیونکہ اگر انہوں نے رسول(ص) کو قتل کر دیا ہوتاتوابتداء ہی میں اسلامی رسالت کا خاتمہ ہو جاتا۔

رسول(ص) کو خدا کا حکم ہوا کہ یثرب-مدینہ-ہجرت کر جائیں اس حکم کا رسول(ص) کوبڑی شدت سے انتظار تھاتاکہ اس سر زمین پر پہنچ جائیں جہاں آپ (ص)تقوے اور آسمانی قوانین کے مطابق ایک حکومت قائم کر سکیں اور ایک صالح انسانی معاشرہ کی تشکیل کر سکیں۔

جب مشرکوں نے قتل رسول(ص) کا منصوبہ بنا کر اسے آخری شکل دیدی تو امینِ وحی جبریل رسول(ص) پر نازل ہوئے

____________________

۱۔ السیرة النبویہ ج۱ ص ۴۸۰، الطبقات الکبری ج۱ ص ۲۲۷، تفسیر العیاشی ج۲ ص ۵۴۔

۱۲۱

اور آپ(ص) کو مشرکوں کی اس سازش کی خبر دی جو انہوں نے آپ کے خلاف بنا رکھی تھی اور آپ کے سامنے اس آیت کی تلاوت کی :

( و اذ یمکربک الذی کفروا لیثبتوک او یقتلوک او یخرجوک و یمکرون و یمکر اللّه و اللّه خیر الماکرین ) ( ۱ )

اور اے رسول(ص)! آپ(ص) اس وقت کو یاد کریں جب کفار آپ کو قید کرنے یا قتل کرنے یا شہر بدر کرنے کی تدبیر کر رہے تھے اور اسی کے ساتھ خدا بھی ان کی تدبیروں کے خلاف بند و بست کر رہا تھا اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے ۔

چونکہ رسول(ص) کو مکمل یقین تھا کہ خدا آپ(ص) کی حفاظت کرے گا اور غیبی امداد آپ(ص) کے شاملِ حال ہو گی اس لئے آپ اپنی تحریک میں عجلت سے کام نہیں لے رہے تھے اور نہ ہی جلد بازی میں قدم اٹھا رہے تھے بلکہ آپ بہت سوچ سمجھ کر اور نہایت ہی احتیاط کے ساتھ قدم اٹھاتے تھے۔

ہجرت سے پہلے مہاجرین کے درمیان مواخات

ہجرت سے پہلے مہاجرین کے درمیان اخوت قائم کی گئی تاکہ ایک ایسا اسلامی معاشرہ وجود میں آجائے کہ جس کے ا فراد اسلام کے مفاد اور اعلاء کلمة اللہ کے لئے ایک جسم کے اعضاء کی مانند ایک دوسرے سے تعاون کریں کیونکہ مسلمانوں کے سامنے بڑی مشکلیں آنے والی تھیںجن سے گزرنے کے لئے ایک دوسرے کاتعاون اور ایک دوسرے کی مددضروری تھی ۔

رسول(ص) نے گویا اس طرح اپنی ہجرت کا آغاز کیا کہ مہاجرین کے درمیان ایمانی اور خدائی رشتہ کی بنا پر اخوت قائم کی اور مالی مدد کرنے میں بھی انہیں ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا اس طرح وہ نفسی نفسی کو چھوڑ کرایک مضبوط ومحکم معاشرہ تشکیل دیں چنانچہ رسول(ص) نے ابو بکر کو عمر کا، حمزہ کو زید بن حارثہ کا، زبیر کو ابن مسعود کا اور

____________________

۱۔ مناقب آل ابی طالب ج۱ ص ۱۸۲ تا ۱۸۳، انفال:۸،۳۔

۱۲۲

عبید بن حارث کو بلال کا بھائی بنا دیا۔

اور علی کوخود اپنا بھائی بنایا اور حضرت علی سے فرمایا: کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ میں تمہارا بھائی بن جائوں؟ حضرت علی نے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص) میں اس سے خوش ہوں۔ اس وقت آپ نے فرمایا: اے علی تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو۔( ۱ )

____________________

۱۔ سیرت حلبیہ ج۲ ص ۲۰، مستدرک حاکم ج۳ ص ۱۴۔

۱۲۳

چوتھا باب

پہلی فصل

اوّلین اسلامی حکومت کی تشکیل

دوسری فصل

نئی حکومت کا دفاع

تیسری فصل

مشرک طاقتوں کا اتحاد اور خدائی جواب

۱۲۴

پہلی فصل

اوّلین اسلامی حکومت کی تشکیل

۱۔ مدینہ کی طرف ہجرت

رسالت کی تحریک کی تکمیل اور نبوت کے خدائی اغراض و مقاصد کی تشکیل کے لئے ضروری تھا کہ معاشرہ کے افراد کی مدد کی جائے اور انہیں عقیدہ کے یقین مطلق سے سرشار کر دیا جائے تاکہ عقیدے کے سامنے وہ خودکو بھول جانے اور ہلاکتوں سے بچتے ہوئے ہمیشہ قربانی دینے کے لئے تیار رہیں ۔

ان افراد میں علی بن ابی طالب ایک فولادی انسان تھے کہ جن سے رسول(ص) نے فرمایا تھا: اے علی ! قریش نے میرے خلاف سازش کی ہے وہ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں اورمجھ پر میرے رب کی طرف سے وحی ہوئی ہے کہ میں ایک قوم کی طرف ہجرت کر جائوں، پس تم میرے بسترپر سوجائو اور میری سبز چادر اوڑھ لو تاکہ تمہارے سونے سے انہیں یہ نہ معلوم ہو کہ میں چلا گیا، بتائو تم کیا کہو گے اور کیا کروگے؟

حضرت علی نے فرمایا: اے اللہ کے رسول(ص) کیا میرے سوجانے سے آپ محفوظ رہیں گے؟

رسول(ص) نے فرمایا: ہاں جب اللہ کے رسول(ص) نے علی کو اپنے محفوظ و سلامت رہنے کی خبر دی تو علی خوش ہوئے، مسکرائے ،شکرِ خدا کرنے کے لئے سجدہ میں گئے اور پھر فرمایا: میری بصارت و سماعت اور دل آپ پر قربان جو آپ(ص) کو حکم دیا گیا ہے اسے کر گذریے ۔( ۱ )

____________________

۱۔ ملاحظہ فرمائیں احقاق الحق ج۳ ص ۳۳ تا ۴۵ تعلیقہ مرعشی نجفی، اس سے تاریخی حادثہ اور علما اہل سنت کے نزدیک حضرت علی کا موقف واضح ہو جائے گا نیز ملاحظہ ہو مسند امام احمد ج۱ ص ۳۳۱ طبع اولیٰ مصر، تفسیر طبری ج۹ ص ۱۴۰، طبع میمینہ مصر، مستدرک حاکم ج۳ ص ۴، طبع حیدر آباد دکن۔

۱۲۵

رسول(ص) اپنے بستر پر حضرت علی کو لٹا کر نصف شب میں رحمت و حصارِ ایزدی کے سایہ میں ان مشرکوں کو چیرتے ہوئے نکل گئے جو آپ(ص) کے گھر کا محاصرہ کئے ہوئے تھے۔

جب صبح کے وقت خدا کے دشمن خون آشام شمشیر برہنہ لئے ہوئے رسول(ص) کے گھر میں داخل ہوئے تو ان کی ساری تمنائیں خاک میں مل گئیں۔ ان کے چہروں سے دشمنی کے آثار نمایاں تھے۔ خالد بن ولید ان میں پیش پیش تھا۔ حضرت علی بے نظیر شجاعت کے ساتھ اپنے بستر سے اٹھے تو خانۂ رسول(ص) میں داخل ہونے والے الٹے پائوں لوٹے وہ حیرت و دہشت میں ڈوب گئے ، وہ دیکھ رہے تھے کہ خدا نے ان کی کوششوں کو ناکام کر کے اپنے نبی(ص) کو بچا لیا ہے۔

قریش نے اپنی ضائع شدہ ہیبت کو پلٹانے کے لئے ہر قسم کا حربہ استعمال کیا تاکہ محمد(ص) ہاتھ آجائیں ۔ چنانچہ انہوں نے جاسوس چھوڑے، آپ(ص) کی تلاش میں انہوں نے عام اور غیر معروف راستوں کو چھان ڈالا یہاں تک کہ انہوں نے یہ اعلان کیا کہ جو بھی محمد (ص) کو زندہ یا مردہ لائے گا اسے سو اونٹ انعام دئیے جائیںگے۔ ایک ماہر راہنما نے آپ(ص) کے نقش قدم کو ڈھونڈکر انہیں غار ثور تک پہنچا دیا-رسول(ص) ابوبکر کے ساتھ اسی غار میں چھپے ہوئے تھے- اس کے بعد اسے آپ(ص) کے نقش قدم نظر نہ آئے تو اس نے کہا: محمد اور ان کے ساتھی یہاں سے آگے نہیں بڑھے، یا تو آسمان پر پہنچ گئے یا زمین میں اتر گئے۔

ادھر غار میں ابوبکر پر شدید خوف طاری تھا وہ قریش کی یہ آواز سن رہے تھے: اے محمد! نکلو ابو بکر ان کے بڑھتے ہوئے قدم دیکھ رہے تھے اور رسول(ص) انہیں سمجھا رہے تھے:( لا تحزن ان اللّٰه معنا ) ڈرو نہیں خدا ہمارے ساتھ ہے ۔

قریش واپس لوٹ گئے وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ محمد (ص) غار میں موجود ہیں کیونکہ انہوں نے غار کے دہانے پر مکڑی کا جالا اور کبوتر کا آشیانہ دیکھا تھا کہ جس میں اس نے انڈے دے رکھے تھے۔

شام کے وقت حضرت علی اور ہند بن ابی ہالہ نے آپ(ص) سے ملاقات کی ۔ انہیں معلوم تھا کہ آپ(ص) فلاں غار میں ہیں رسول(ص) نے حضرت علی سے کچھ ایسی چیزوں کی نشاندہی فرمائی جن کی حفاظت آپ(ص) کے ذمہ تھی اور جو امانتیں آپ(ص) کے پاس تھیں ان کو ادا کرنے کا حکم دیا-

۱۲۶

عرب کی امانتیں رسول(ص) ہی کے پاس رکھی جاتی تھیںاوران کو یہ حکم دیا کہ اپنے اور خواتین خاندان کے لئے سواریاں خریدیں اور میرے پاس آجائیںپھراطمینان کے ساتھ فرمایا:''انّهم لن یصلوا من الآن الیک یا علی بامرتکرهه حتی تقدم علی فاد امانتی علیٰ اعین الناس ظاهرا ثم انی مستخلفک علی فاطمة ابنتی و مستخلف رب علیکما و مستحفظه فیکما'' ۔( ۱ )

اے علی وہ اس وقت تک تمہارے ساتھ کوئی ناروا سلوک نہیں کریں گے یہاں تک کہ تم میرے پاس پہنچ جائوگے۔ اے علی ! لوگوں کی امانتوں کو سب کے سامنے واپس کرنا میں تمہیں اپنی بیٹی فاطمہ کا محافظ و نگہبان اور تم دونوں کا محافظ و نگہبان خدا کو قرار دیتا ہوں۔

تین روز کے بعد رسول(ص) کو یہ اطمینان ہو گیا کہ لوگ آپ(ص) کو ڈھونڈنے سے مایوس ہو گئے ہیںتو غار سے باہر نکلے اور مدینہ کی طرف روانہ ہو ئے اور خدا کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے کسی تکان کی پروانہ کی۔

جب آپ قبا کے علاقہ میں پہنچے تو وہاں حضرت علی بن ابی طالب اورخواتین خاندان کی آمد کے انتظار میںچند دن گذارے تاکہ سب ایک ساتھ یثرب میں داخل ہوں جس وقت رسول(ص) کے ساتھی آپ(ص) کو قبا میں چھوڑ کر یثرب پہونچے تو اس وقت یثرب میں نبی (ص) کی آمد کی وجہ سے خوشی و مسرت کی لہر دوڑ گئی۔

حضرت علی راستہ کی مشقت و خطرات سے تھک کر نبی (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول(ص) نے آپ کو گلے سے لگایا اور آپ کی حالت دیکھ کر رونے لگے۔( ۲ ) اصل میں قریش کو یہ معلوم ہو گیا تھا کہ علی خواتین کو لیکر جا رہے ہیں تو انہوں نے ان کا تعاقب کیا تھا جس سے خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔

چند روز رسول(ص) خدا نے قبا ہی میں قیام کیا، سب سے پہلا کام آپ(ص) نے یہ کیا کہ بتوں کو توڑا( ۳ ) پھر مسجد تعمیر

____________________

۱۔ اعیان الشیعہ ج۱ ص ۲۳۷۔

۲۔ تاریخ کامل ج۲ ص ۱۰۶۔

۳۔ البدء والتاریخ ج۴ ص ۱۷۶ تا ص۱۷۷۔

۱۲۷

کی۔ اس کے بعد جمعہ کے روز آپ وہاں سے روانہ ہو ئے وادی رانوناء میں پہنچے تو نماز ظہر کا وقت ہو گیا عالم اسلام میں یہ سب سے پہلی نماز جمعہ تھی۔ یثرب کے مسلمان اپنے اسلحوں اور آرائش کے ساتھ رسول(ص) کے استقبال کے لئے نکلے آپ(ص) کی سوار ی کو اپنے حلقہ میں لے لیا ہر شخص یہی چاہتا تھا کہ رسول(ص) اس کے علاقہ میں داخل ہوں اور اس ذات گرامی کی پہلے وہ زیارت کرے جس پر وہ ایمان لایا ہے اور جس سے وہ محبت کر تا ہے ۔( ۱ )

جس مسلمان کے گھر کی طرف سے رسول(ص) کا گزر ہوتا تھا وہی آپ(ص) کے ناقہ کی مہار پکڑ لیتا تھا اور اپنے یہاں قیام کرنے کی درخواست کرتا تھا لیکن رسول(ص) مسکراتے ہوئے ہر ایک سے یہی فرماتے تھے میرے ناقہ کا راستہ چھوڑ دو یہ خود مامور ہے ۔ آخر میں آپ کا ناقہ ابو ایوب انصاری کے گھر کے سامنے اس سر زمین پر بیٹھا جو بنی نجار کے دو یتیموں کی تھی ابو ایوب انصاری کی زوجہ نے رسول(ص) کے اسباب سفر کو اپنے گھر میں رکھ لیا۔ رسول(ص) انہیں کے گھر میں رہے یہاں تک کہ مسجد نبوی(ص) اور آپ(ص) کے گھرکی تعمیر مکمل ہو گئی۔( ۲ )

یثرب کا نام بدل کر رسول(ص) نے طیبہ رکھا آپ(ص) کی ہجرت کو اسلامی تاریخ کا مبداء آغازسمجھا جاتا ہے۔( ۳ )

۲۔ مسجد کی تعمیر

یقینا رسول(ص) مسلمانوں کے ساتھ اس انفرادیت کے دائرہ سے نکل گئے اور مدینہ پہنچنے پر آپ(ص) نے ایک ایسی حکومت قائم کرنے کا منصوبہ بنایا جوآسمانی قوانین اور شریعت اسلامیہ کے حکم کے مطابق چلے اور جس کے نتیجہ میں اسلامی تہذیب وجود میں آجائے جواس حکومت کے بعد پوری انسانیت کوفیضیاب کرے۔

اسلامی حکومت کی تشکیل میں اس سے پہلے کا نظام بہت بڑی رکاوٹ تھا جزیرہ نما عرب کے معاشرہ پر یہی

____________________

۱۔رسول(ص) ۱۲ ربیع الاول کو مدینہ میں وارد ہوئے۔

۲۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۹۴۔

۳۔مقدمۂ ابن خلدون ص ۲۸۳ تاج العروس ج۲ ص ۸۵۔

۱۲۸

غالب تھا دوسری طرف مسلمانوں کی کمزوری کا صحیح معنوں میں علاج بھی ضروری تھا۔ مسجد کی تعمیر اس لئے بھی ضروری تھی تاکہ مسجد سے متعددا ہم سرگرمیوں کا آغاز کیا جائے اور یہ اس مرکزی خود مختار کمیٹی کا مرکز قرار پائے جس کے ذریعہ حکومت کے امور انجام پذیر ہونا ہیں۔ مسجد کے لئے زمین کا تعین ہو گیا مسجد کے تعمیری کاموں کو مسلمانوں نے بڑے شوق و ہمت سے انجام دیا۔ اور اپنے نمونہ و اسوہ اور کاموں کے ذریعہ مسلمانوں کی طاقت کو حرکت میں لانے والا رسول(ص) خود مسجد کے تعمیری کاموں کو انجام دینے میں شریک تھا وہ خود پتھر اٹھا کر لاتے تھے ایک بار آپ(ص) ایک پتھر اٹھائے ہوئے لا رہے تھے کہ اسید بن حضیر نے دیکھ لیا عرض کی؛ اے اللہ کے رسول(ص) ! یہ پتھر آپ(ص) مجھے دے دیجئے میں لے جائونگا آپ(ص) نے فرمایا: نہیں۔ تم دوسرا اٹھا لائو۔ مسجد کے ساتھ ہی رسول(ص) اور آپ(ص) کے اہل بیت کا گھر بھی بن گیا۔ آپ(ص) کا گھر پُرتکلف نہیں تھا بلکہ ان کی زندگی کی مانند سادہ تھا۔ اس موقع پر رسول(ص) نے ان ناداروں کو فراموش نہیں کیا کہ جن کا کوئی گھر نہیں تھا اور انہوں نے آپ(ص) کے پاس پناہ لے رکھی تھی بلکہ مسجد کے ایک گوشہ میں ان کے لئے بھی ایک مکان بنا دیا۔( ۱ )

اس طرح مسجد مسلمانوں کے انفرادی و اجتماعی اور عبادی حیات بخش امور کی انجام دہی کا مرکز بن گئی۔

۳۔ مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات

نئی حکومت کی تشکیل اور پہلے نظام کو ختم کرنے کے لئے کسی قبیلہ سے تعرض کئے بغیر ایک اور قدم اٹھایا جس سے آپسی محبت اور ایمان کی حرارت وجود میں آئی آپسی محبت اور حرارتِ ایمان مسلمانوں سے وجود میں آئی تھی پس رسول(ص) نے خاندانی اور خونی رشتہ سے آگے بڑھکر عقیدہ اور دین کو لوگوں کے رابطہ کی بنیاد قرار دیا اور فرمایا:'' تاخوا فی الله اخوین اخوین '' تم راہِ خدا میں بھائی بھائی بن جائو۔ پھر آپ(ص) نے حضرت علی بن ابی طالب کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:''هذا اخی'' ( ۲ ) یہ میرے بھائی ہیں، اس طرح انصار میں سے ہر ایک

____________________

۱۔بحا ر الانوار ج۱۹ ص ۱۱۲، سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۹۶۔

۲۔ سیرت نبوی ج۱ ص ۵۰۴۔

۱۲۹

نے مہاجرین میں سے ایک ایک کو اپنا بھائی بنا لیا اور اسے امور زندگی میں اپنا شریک بنا لیا اس طرح مدینہ نے اپنی تاریخ کا صفحہ پلٹ دیا کیونکہ ابھی تک مدینہ میں اوس و خزرج کے درمیان جنگ ہوتی رہتی تھی جسے یہود اپنی خباثت اور منافقت سے ہوا دیتے رہتے تھے، اب دنیا میں ترقی پذیرحیات انسانی کے عہد نوکا آغاز ہوا اور وہ اس طرح کہ رسول(ص) نے امت کی بقا اور اس کی ایمانی سرگرمی کا بیج بو دیا۔

مسلمانوں کے بھائی بھائی بننے کے نتائج

اقتصادی پہلو

۱۔ مہاجرین کی عائلی زندگی کو اقتصادی لحاظ سے بہتر بنایا تاکہ وہ اپنی طبعی زندگی کو جاری رکھ سکیں۔

۲۔ فقر و ناداری کو ختم کرنے کے لئے طبقاتی امتیازات کو ختم کیا۔

۳۔ غیر شرعی و ناجائز دولت سے دور رہتے ہوئے اقتصادی استقلال کے لئے کوشش کی تاکہ سود خور یہودیوں کے ہاتھ کٹ جائیں۔

۴۔آمدنی کے ذرائع پیدا کرنا۔ کھیتی کے ساتھ تجارتی میدان میں سر گرم عمل رہنا اور مہاجرین و انصار کے افکار اور ان کی کوششوں کے سایہ میں مدینہ کے حالات کے مطابق بھر پور فائدہ اٹھانا۔

اجتماعی پہلو

۱۔معاشرہ میں موجود ہلاکت خیز اجتماعی امراض کو ختم کیا اور پہلے سے چلے آ رہے لڑائی جھگڑوں کی جگہ محبت و مودت کی روح پھونکی تاکہ تمام فاصلے اور رخنے ختم ہو جائیں اور اسلام کے خلاف سازش کرنے والے ان سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکیں اور آئندہ کے مراحل میں اسلام کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی جا سکے۔

۲۔پہلے نظام کو لغو کرکے اس کی جگہ روز مرہ کے معاملات میں اسلامی نظام و اقدار کو نافذ کیا ۔

۳۔ مسلمانوں کو باطنی طور پر آمادہ کیا اور اسلامی رسالت کی نشر و اشاعت کے لئے انہیں ایثار وقربانی کی تربیت دی۔

۱۳۰

سیاسی پہلو

۱۔مسلمانوں کا ایک ایسا متحدہ محاذ قائم کیا جو رسول(ص) و رسالت کے احکام پر ایک فرد کی طرح لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھتا رہے وہ بھی ایسے حالات میں کہ جب مختلف سمتوں سے مخالفت اور سازشوں کا سلسلہ جاری تھا ۔

۲۔انصار و مہاجرین کے درمیان تنظیمی علوم و اخبار، استقامت و ثبات کے وسائل، ایمانی تجربہ اور تحرک کے طریقوں کی ترویج کی کیونکہ انصار، مہاجرین کے تجربوں اور ان آزمائشوں سے واقف نہیں تھے جن کا انہیں سامنا نہیں ہوا تھا۔

۳۔ حکومت کی تشکیل اور اس کے ادارتی دھانچے کے لئے پہلے قدم کے طور پر افراد کی تعلیم و تربیت کی۔

۴۔مسلمانوں میں اسلام کے اقدار کے مطابق نسلی و خاندانی حمیت سے الگ رہتے ہوئے اپنے اندر دفاع کی روح پھونکی۔

۴۔معاہدۂ مدینہ

مسلمانوں کو جنگ و جدال کی حالت سے نکال کر تعمیری اور شریعت اسلامیہ کے مطابق ڈھالنے کے لئے ضروری تھا کہ امن و سکون کی فضا قائم ہو -خواہ یہ امن و سکون نسبی ہی ہو-اس لئے خلفشار و نزاع ،عام لوگوں میں انتشار کا سبب تھا۔

یثرب میں بہت سی طاقتیں مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے در پے تھیں، اقتصادی اور سیاسی جوڑ توڑ کے لحاظ سے یہودی بہت مضبوط تھے اگر چہ ان کی تعداد قابل اعتناء نہیں تھی۔ دوسری طاقت مشرکوں کی تھی اگر چہ رسول(ص) اور مہاجرین کے آجانے سے ان کی طاقت کم ہو گئی تھی لیکن ان کا بالکل صفایا نہیں ہوا تھا لہذا نبی(ص) نے ان سے شائستہ طریقہ سے مقابلہ کیا۔

نبی(ص) کے لئے یہ بھی ضروری تھا کہ آپ منافقوں پر نظر رکھیں۔

مدینہ کے باہر قریش اور دوسرے مشرک قبیلے نئے اسلامی نظام کے لئے حقیقی خطرہ بنے ہوئے تھے رسول(ص) کے لئے لازمی تھا کہ آپ(ص) ان سے مقابلہ اور ان کے شر کو دفع کرنے کے لئے تیار رہیں۔

۱۳۱

یہاں رسول(ص) کی عظمت اور متعدد طاقتوں سے مقابلہ کرنے کے لئے آپ کی سیاسی بصیرت آشکار ہوئی۔ اسی کے ساتھ آپ(ص) دوسروں کے ساتھ نیکی سے پیش آئے اور انہیں امن سلامتی، صلح و آشتی کی دعوت دی۔

ایک ایسی حکومت کی تشکیل کے لئے آپ(ص) نے یہودیوںسے صلح و تعاون کا معاہدہ کیا جس کے مدار المہام آپ(ص) ہی تھے اورآپ ہی کے ذریعہ انسانی حقوق ہر ایک کو مساوی طور پر ملتے تھے۔

اس معاہدہ کو اس حکومتِ اسلامی کی تشکیل کا اولین دستور کہا جا سکتا ہے جو پہلے شہر مدینہ میں قائم ہوئی اورپھر عرب معاشرہ میں پھیل گئی اس کے بعدپوری دنیا میں نافذ ہوگئی۔ یہ معاہدہ درج ذیل اہم چیزوں پر مشتمل تھا:

۱۔مسلمان معاشرہ کی تشکیل اور ہر مسلمان کو اس کی قوت ارتقاء کا احساس دلایا۔

۲۔حکومت پر دبائو کو کم کرنے کے لئے پہلے معاشرے میں اصلاح کر کے اور اس کی بعض اجتماعی سرگرمیوں میں شرکت اور کچھ مسائل کے حل کے لئے اس سے مدد لے کر اسے باقی رکھا۔

۳۔ عقیدہ کی آزادی، یہودیوں کو اپنے دین و مذہب پر باقی رہنے اور تہوار منانے کی اجازت ہے وہ نئی اسلامی حکومت میں اقلیت کے عنوان سے رہیں گے۔

۴۔ مدینہ کو جائے امن قرار دیا جائے گا اور وہاں امن و امان بر قرار رکھا جائے گا۔ مدینہ میں قتل و خونریزی جائز نہیں ہوگی۔

۵۔ اسلامی حکومت و نظام کی زمام اور لڑائی جھگڑوںکے فیصلوں کا اختیار صرف رسول (ص) کو ہوگا۔

۶۔ سیاسی سوسائٹی کی توسیع، وہ اس طرح کہ مسلمان اور یہودی ایک سیاسی نظام کے تحت زندگی گذاریں گے اور دونوں اس نظام کا دفاع کریں گے۔

۷۔ مسلمان معاشرہ کے افراد کے درمیان تعاون کے جذبہ کو فروغ دیا جائے گا تاکہ وہ ہر قسم کے بحران سے محفوظ رہے۔

۱۳۲

۵۔مدینہ میں قیام اور نفاق

رسول(ص) نے مسلمان معاشرہ کی تشکیل کو اہمیت دی اور ہر مسلمان پر ہجرت کو واجب قرار دیا سوائے معذورافراد کے۔ یہ اس لئے کیا تھا تاکہ تمام طاقتوں اور صلاحتیوں کو مدینہ میں جمع کر لیا جائے۔

اس عہدِ نو میں مدینہ امن و امان کی زندگی سے مالا مال تھا۔ مسلمانوں کی ساری طاقتوں کے یکجا ہو جانے سے وہ ساری طاقتیں خوف زدہ تھیں جنہوں نے پہلے رسول(ص) کی دعوت کا انکار کر دیا تھا اور اس دعوت کا عقیدہ رکھنے والوں کو دھمکی دی تھی آج ایسا نظام بن گیا جو انسان کوفضائل و کمالات کی طرف بڑھانے والا تھا۔ اب انہیں تبلیغِ رسالت سے کوئی بھی نہیں روک سکتاتھا، چنانچہ بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ، بعض اسلامی رسالت سے دور رہے یا آپ(ص) سے مصالحت کر لی۔

دوسری طرف رسول،(ص) منافقین کی تحریک اور یہود کی کینہ توزی پر مبنی ان ریشہ دوانیوں پر نظر رکھے ہوئے تھے کہ جس کے ذریعے وہ مسلمانوں میں تفرقہ اندازی کرکے اسلام کے نئے نظام کو برباد کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا کہ مدینہ کے ہر گھر میں اسلام داخل ہو گیا( ۱ ) اور اجتماعی نظام اسلام کے حکم اور رسول(ص) کی قیادت کے تحت آگیا۔ اسی زمانہ میں زکات، روزہ، حدود کے احکام فرض ہوئے اسی طرح نماز کے لئے اذان و اقامت کا حکم آیا۔ اس سے پہلے رسول(ص) نے ایک منادی کو مقرر کر رکھا تھا جو نماز کے وقت ندا دیتا تھا۔ رسول(ص) پر وحی نازل ہوئی کہ انہیں اذان کے کلمات تعلیم دیجئے( ۲ ) رسول(ص) نے جناب بلال کو بلایا اور انہیں اذان کی تعلیم دی۔

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۵۰۰۔

۲۔کافی ج۱ ص ۸۳، تہذیب الاحکام ج۱ ص ۲۱۵۔

۱۳۳

۶۔ تحویلِ قبلہ

جب تک رسول(ص) مکہ میں تھے تو بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے ہجرت کے بعد بھی آپ(ص) سترہ ماہ تک بیت المقدس ہی کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے اس کے بعد خدا نے آپ(ص) کو یہ حکم دیا کہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں۔

دین اسلام سے یہودیوں کی دشمنی اور زیادہ بڑھ گئی وہ رسول(ص) اور رسالت کا مذاق اڑانے لگے پہلے تو وہ یہ فخر کرتے تھے کہ مسلمان یہودیوں کے قبلہ کی طرف رخ کرتے ہیں، اس سے رسول(ص) کو تکلیف ہوتی تھی لہذا تحویلِ قبلہ کے سلسلہ میں رسول(ص) کو وحی کا انتظار تھا ایک رات کا واقعہ ہے کہ رسول(ص) گھر سے نکلے اور آسمان کی وسعتوں کا جائزہ لیتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی،ظہر کا وقت آ یا تو آپ(ص) مسجد بنی سالم میں نمازِ ظہرمیں مصروف ہوئے دو رکعت پڑھ چکے تھے کہ جبریل نازل ہوئے اور آپ کے دونوں شانوں کو پکڑ کر کعبہ کی طرف موڑ دیا اور آپ(ص) کو خدا کا یہ قول سنایا:

( قد نریٰ تقلب وجهک فی السّماء فلنولّینّک قبلةً ترضاها فولِّ وجهک شطر المسجد الحرام ) ( ۱ )

ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کی توجہ آسمان کی طرف ہے تو ہم آپ کا رخ اس قبلہ کی طرف موڑ دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں لہذا اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ لیجئے ۔

تحویل قبلہ ایک لحاظ سے مسلمانوں کا بھی امتحان تھا تاکہ معلوم ہو جائے کہ وہ حکم رسول(ص) کی کس حد تک اطاعت کرتے ہیں اوردوسری طرف یہودیوں کے عناد و استہزاء کے لئے چیلنج تھا اور ان کے مکرکا جواب تھا اور ایک مسلمان کے لئے یہ نیا راستہ تھا۔

____________________

۱۔بقرہ:۱۴۴۔

۱۳۴

۷۔ فوجی کاروایوں کی ابتدائ

طاقت ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعہ لوگوں پر حکومت کی جاتی ہے اور اسی کے وسیلہ سے ان کی قیاد ت کی جاتی ہے ۔ انہیں حالات میں -جب رسول(ص) مدینہ میںمقیم ہو گئے تو-آپ(ص) نے اور مسلمانوں نے یہ طے کیا کہ جزیرہ نما عرب بلکہ اس کے باہر کی طاقتوں -جیسے روم و فارس-کو یہ جتا دیا جائے کہ تبلیغِ رسالت اور آسمانی قوانین کے مطابق ایک تہذیب قائم کرنے کے لئے جد و جہد کا سلسلہ جاری رہے گا ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ کوئی دوسرا اس کام کو انجام نہیں دے سکتا تھا کیونکہ ان کا ایک محکم عقیدہ تھا اور ان کی ایک آزاد فکر تھی وہ حق و عدل کے طالب تھے وہ امن و امان قائم کرنے والے اور صاحب شمشیر و مرد میدان تھے۔

رسول(ص) کو یہ اندیشہ تھا کہ قریش اور آپ(ص) سے عداوت رکھنے والے ،مسلمانوں کو تباہ کرنے کی کوشش کریں گے خواہ کچھ مدت کے بعد ہی کریں۔ چنانچہ آپ(ص) نے عقبہ ثانیہ کی بیعت میں انصار سے یہ مطالبہ کیا کہ اگر قریش ظلم و تعدی کریں یا رسول(ص) اور مسلمانوں پر چڑھائی کریں تو تمہیں میری مدد کرنا ہوگی۔ مکہ میںمسلمانوں کی ملکیت ضبط کر لی گئی تھی اور ان کے گھروںکو لوٹ لیا گیا تھا۔رسول(ص) اور مسلمانوں-خصوصاً مہاجرین-کی یہی خواہش تھی کہ قریش اپنی خوشی سے اسلام میں داخل ہو جائیں یا کم از کم انہیں ان کی گمراہی پر نہ چلنے دیا جائے۔

اسی بنا پر رسول(ص) نے چھوٹے چھوٹے دستے بھیجے تاکہ وہ اپنی خود مختاری(مستقل وجود)اور کسی کی تا بعداری نہ کرنے کا اعلان کریں جب ہم ان دستوں کے افراد کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہو تا ہے وہ صرف ساٹھ آدمی تھے اور سب مہاجر تھے ان میں وہ انصار شامل نہیں تھے جنہوں نے رسول(ص) کی مدد اورآپ(ص) کی طرف سے جنگ کرنے کے لئے بیعت کی تھی، یہ لوگ جنگ کے طلبگار بھی نہیں تھے یہ دستے صرف قریش پر اقتصادی دبائو ڈالنے کا وسیلہ تھے( ۱ ) ہو سکتا ہے اس طرح وہ کھلے کان اور دل سے حق کی آواز سن لیں یا مسلمانوں سے صلح کرلیں اور ان سے چھیڑچھاڑ نہ کریں تاکہ دوسرے علاقوں میں بھی اسلام پھیل جائے۔ اسی کے ساتھ یہود

____________________

۱۔ اس لئے کہ(قریش کے پاس) پیسہ تجارت کے ذریعہ آتا تھا اوران قافلوں کے ذریعے جس کی آمدو رفت مکہ ، شام اور یمن سے ہوتی تھی۔

۱۳۵

و منافقین کو طاقت ِ اسلام اور مسلمانوں کی ہیبت سے آگاہ کرنا بھی ضروری تھا۔

ہجرت کے سات ماہ بعد پہلا دستہ روانہ ہوا، اس میں تیس مرد شامل تھے اور اس کی قیادت رسول(ص) کے چچا جناب حمزہ کر رہے تھے۔ اس کے بعد دوسرا دستہ عبیدہ بن حارث کی سر کردگی میں روانہ ہوا، تیسرا دستہ سعد بن ابی وقاص کی قیادت میں روانہ ہوا۔

۲ھ میں رسول(ص) قریش کے قافلہ کو روکنے کے لئے ایک دستہ کے ساتھ روانہ ہوئے لیکن ابواء و بواط کی طرف آپ(ص) کے سفر سے طرفین میں ٹکرائونہیں ہوا۔ اسی لئے آپ(ص) نے ذو العشیرۂ بنی مدلج اور ان کے حلیفوں سے بھی صلح کا معاہدہ کیا۔

رسول(ص) اپنے اوپر اعتماد کو محفوظ رکھنے اور ظلم و تعدی کرنے والوں کو درس عبرت دینے کے لئے چلے کیونکہ کرز بن جابر فہری مدینہ کے اطراف سے (اہل مدینہ کے) اونٹ اور مویشی پکڑکر لے گیا تھا ۔رسول(ص) نے زید بن حارثہ کو مدینہ میں چھوڑا اور خود اس کے تعاقب میں نکلے۔( ۱ )

رسول(ص) نے اپنی فوجی تحریک سے یہ واضح کر دیا کہ دین کے لئے جہاد کیا جاتا ہے عصبیت و خون خواہی کے لئے نہیں۔آپ نے حرمت والے مہینوں کے احترام کو ملحوظ رکھا اور صلح و آشتی کے روایات کو محترم سمجھا۔

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۵۹۸ ، مغازی ج۱ ص ۱۱و ۱۲۔

۱۳۶

دوسری فصل

نئی حکومت کے نظام کا دفاع

۱۔ غزوۂ بدر

جنگ کے بارے میں حکمِ خدا کے نازل ہونے سے امت مسلمہ کفر و ضلالت سے ٹکرائو والے مرحلہ سے نکل کر دوسرے مرحلہ میں داخل ہو گئی اور مسلمانوں کے دلوں میں اپنے ان حقوق کو واپس لینے کا جذبہ پیدا ہوا جو غصب کر لئے گئے تھے، ان حقوق کو قریش نے صرف اس لئے غصب کر لیا تھا کہ یہ لوگ خدائے واحد پر ایمان لے آئے تھے۔

غزوہ ذو العشیرہ میں نبی (ص) قریش کے اس قافلہ کی گھات میں تھے جو شام جا رہا تھا اس وقت آپ (ص) معمولی ، ہلکے پھلکے اسلحے اور مختصر تعداد کے ساتھ نکلے تھے، امید یہی تھی کہ اس قافلہ سے ٹکرائو ہوگا جس میں اکثرتجّار مکّہ تھے۔ رسول(ص) کا یہ اقدام مخفیانہ نہیں تھا لہذا اس کی خبر مکہ پہنچ گئی اور وہاں سے قافلہ کے سربراہ ابو سفیان تک پہنچی چنانچہ اس نے اپنا راستہ بدل دیا تا کہ مسلمانوں کے ہاتھ نہ لگے ادھر قریش اپنے مال کے تحفظ اور مسلمانوں کی عداوت میں مکہ سے نکل پڑے مگر ان کے بزرگوں نے غور و فکر سے کام لیا اور یہ طے کیا کہ وہ مسلمانوں سے جنگ کے لئے نہیں جائیں گے خصوصاً یہ ارادہ اس وقت بالکل ترک کر دیا جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ ابو سفیان اپنے تجارتی قافلہ سمیت بچ نکلا ہے ۔

قریش تقریباً ایک ہزار سپاہیوں اور بھاری اسلحہ کے ساتھ نکلے تھے جس سے ان کا مقصدتکبر اور عربوں کے درمیان اپنی حیثیت کا اظہار واضح تھا، ان کی نصرت کے لئے کچھ دوسرے قبیلے بھی جمع ہو گئے تھے جو مسلمانوں سے اس لئے جنگ کرنا چاہتے تھے تاکہ مسلمان یہ سمجھ لیں کہ وہ تنہا نہیں ہیںکیونکہ قریش عزت پانے کے بعد ابھی تک ذلیل نہیں ہوئے تھے۔

۱۳۷

اس بات سے رسول(ص) کے بعض افراد نے اس وقت پر دہ اٹھایا جب قریش سے پہلی بار ان کا مقابلہ ہوا۔( ۱ )

قریش بدر کے کنوئوں سے کچھ فاصلہ پراترے اور جنگ کے لئے اپنی صفوں کو مرتب کیا ۔مسلمان ان سے پہلے کنو ئوں پر پہنچ چکے تھے۔ مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ تھی خدا نے مسلمانوں کی فتح کے اسباب فراہم کر دئیے تھے۔ ان کے لئے میدان قتال میں پہنچنا آسان ہو گیا تھا۔ ان کے دلوں میں سکون و اطمینان ڈال دیا تھا اور ان سے یہ وعدہ کیاگیا تھا کہ خدا انہیں ان کے دشمنوں پر فتح دے گااور دینِ حق کو غلبہ عطا کرے گا۔

باوجودیکہ مسلمانوںکو یہ توقع نہیں تھی کہ قریش ان سے مقابلہ کے لئے آئیں گے لیکن جب قافلہ ان کے ہاتھ نہ آیا اور جنگ کی نوبت آ گئی تو رسول(ص) نے مہاجرین و انصار کی نیتوںکو آزمانا چاہا اور فرمایا:''اشیروا عل ایّها النّاس'' ۔

اے لوگو!تم مجھے مشور ہ دو!

اس پر بعض مہاجرین کھڑے ہوئے اور انہوں نے کچھ ایسی باتیں کہیں جن سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ دشمن کا مقابلہ کرنے سے ڈر رہے ہیں۔ اس کے بعد مقداد بن عمرو کھڑے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ(ص) حکم خدا پر عمل کیجئے ہم آپ (ص)کے ساتھ ہیں؛ ہم آپ(ص) سے ویسے نہیں کہیں گے جیسے بنی اسرائیل نے اپنے نبی سے کہا تھا:( فاذهب انت و ربک فقاتلا انا ها هنا قاعدون ) ( ۲ ) آپ اور آپ کا رب جائیں اور جنگ کریں ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔

بلکہ ہم تو آپ(ص) سے یہ کہتے ہیں کہ ہم بھی آپ(ص) کے ساتھ ہو کر جنگ کریں گے اس ذات کی قسم کہ جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اگر آپ(ص) ہمیں سمندر کے کنارے بھی لے جائیں گے تب بھی ہم جائیں گے۔

____________________

۱۔ ملاحظہ فرمائیں : مغازی واقدی ج۱ ص ۴۸، سیرت حلبیہ ج۲ ص ۱۶۰، بحار الانوار ج۱۹ ص ۲۱۷۔

۲۔ انفال : ۷ تا ۱۶۔

۱۳۸

اس کے بارے میں رسول(ص) نے نیک جذبات کا اظہار کیا پھر آپ(ص) نے وہی جملہ''اشیروا علی ایها الناس'' دہرایااس جملہ سے آپ انصار کی رائے معلوم کرنا چاہتے تھے کیونکہ عقبۂ اولیٰ میں انہوں نے اس بات پر بیعت کی تھی کہ وہ آپ کا دفاع کریں گے۔

اس پر سعد بن معاذ کھڑے ہوئے اور کہا: تمام انصار کی طرف سے میں جواب دیتا ہوں۔ اے اللہ کے رسول(ص)! گویا آپ کی مراد ہم ہیں؟ رسول(ص) نے فرمایا: ہاں، سعد بن معاذ نے کہا: ہم آپ(ص) پر ایمان لائے ہیں، ہم نے آپ(ص) کی تصدیق کی ہے اور یہ گواہی دی ہے کہ جو آپ(ص) لائے ہیں وہ بر حق ہے ، ہم نے آپ(ص) سے یہ عہد و میثاق کیا ہے کہ ہم آپ(ص) کی بات سنیں گے اورا طاعت کریں گے ۔تو پھر آپ جوارادہ کر چکے ہیں اس پر عمل کیجئے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اگر آپ(ص) ہمیں اس دریا میں کودنے کا حکم دیں گے اورآپ (ص) اس میں داخل ہونگے تو ہم بلاتامل داخل ہو جائیں گے۔ ہم میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا اور ہم دشمن سے مقابلہ کرنے میں کراہت محسوس نہیں کرتے ہیں، ہم جنگ میں صبر و تحمل سے کام لیں گے ۔ ہم اپنی جاں نثاری کے جوہر دکھا کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کر دیں گے۔

اس کے بعد رسول(ص) نے فرمایا: خدا کی برکتوں کے ساتھ چلو کیونکہ خدا نے مجھ سے دو گروہوں میں سے ایک گروہ کا وعدہ کیا ہے خدا کی قسم گویا میں اس قوم کو پسپا ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔( ۱ )

جب مسلمان جنگ کے لئے تیار ہو گئے اور ضروری تیاری میں مشغول ہوئے اور پڑائو کے لئے مناسب جگہ کا انتخاب کیا، پانی فراہم کیا اور دشمنوں سے محاذ لینے کے لئے جگہ کا تعین کیاتورسول(ص) مستقل طور پر ان کے نفوس میں صبر و ثبات کی روح پھونک رہے تھے اور انہیں جنگ و جہاد کا شوق دلارہے تھے اور انہیں خدا کی طرف سے آنے والی مدد کی خبر دے رہے تھے اور خدا سے ان کی فتح کی دعا کر رہے تھے۔( ۲ )

مسلمان، رسول(ص) کو حلقہ میں لئیے ہوئے تھے وہ اپنے عقیدہ کے لئے بہترین طریقہ سے قربانی دینے کا اظہار کر رہے تھے انہیں یہی فکر تھی کہ اگر جنگ ہمارے خیال و تصورکے مطابق نہ ہو ئی تو اس وقت کیا طریقۂ کار

____________________

۱۔مغازی ج۱ ص ۴۸ و ۴۹۔

۲۔مغازی ج۱ ص ۵۰۔

۱۳۹

اختیار کیا جائے گا، انہوں نے رسول(ص) کے لئے ایک مچان بنا یا کہ جس سے معرکہ کا معائنہ کریں۔ اطلاع فراہم کرنے والا گروہ، قریش کے حالات کا سراغ لگانے کے لئے نکلا اور رسول(ص) کے پاس ضروری اطلاعات لے کر آیا ۔اس گروہ نے قریش کے جنگجو افراد کی تعدادکا اندازہ ۹۵۰ سے ۱۰۰۰ تک لگایا۔( ۱ )

رسول(ص) نے مسلمانوں کی صفیں درست کیں اور بڑا علم حضرت علی بن ابی طالب کو عطا کیا اور قریش کی طرف بھیجانیز فرمایا کہ پہلے ان سے واپس پلٹ جانے کے لئے کہنا کہ ہم قتال و خونریزی کو پسند نہیں کرتے ہیں اس سے مشرکوںکے درمیان اختلاف ہو گیا بعض صلح و آشتی کے طرفدار تھے اور بعض سر کشی پر مصر تھے۔( ۲ )

رسول(ص) نے حکم دیا کہ مسلمان جنگ کی ابتداء نہ کریں اور آپ(ص) نے خدا سے اس طرح دعا کی :''اللهم ان تهلک هذه العصابة فلن تعبد بعد الیوم'' اے اللہ اگر آج یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو آج کے بعد تیری عبادت نہیں ہوگی ۔

قدیم جنگوں کی رسموں کے مطابق مشرکین کی صفوں سے عقبہ بن ربیعہ ، اس کا بھائی شیبہ اور اس کا بیٹا ولید نکلا اور کہا: ہمارے مقابلہ کے لئے قریش سے ہمارے ہی جیسا بھیجیں، چنانچہ رسول(ص) نے عبیدہ بن حارث، حمزہ بن عبد المطلب اور علی بن ابی طالب سے فرمایا:''یابنی هاشم قوموا فقاتلوا بحقِّکم الّذی بعث به نبیّکم اذ جاؤوا بباطلهم لیطفئوا نور اللّٰه''

اے بنی ہاشم اٹھو! اور اپنے اس حق کے ساتھ جنگ کرو جس کے ساتھ تمہارے نبی کو بھیجا گیا ہے اور وہ اپنے باطل کے ساتھ آئے ہیں تاکہ نورِ خدا کو خاموش کر دیں۔

قریش میں سے جو بھی مقابلہ میں آیا وہ مارا گیا ، دونوں لشکروں میں خونریزجنگ ہوئی، رسول(ص) مسلمانوں کو جنگ و جہاد پر ابھار رہے تھے۔ اس کے بعد آپ(ص) نے ایک مشت کنکریاں اٹھائیں اور''شاهت الوجوه'' کہتے ہوئے قریش کی طرف پھینک دیں۔

____________________

۱۔انفال: ۶۵۔

۲۔مغازی ج۱ ص ۶۱، بحار الانوار ج۱۹ ص ۲۵۲۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175