توحید مفضل

توحید مفضل33%

توحید مفضل مؤلف:
زمرہ جات: توحید
صفحے: 175

توحید مفضل
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 175 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130878 / ڈاؤنلوڈ: 6118
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

توحید کی تبلیغ فقط کافروں ہی کو شرک سے نجات نہیں دیتی بلکہ چونکہ توحید آسمانی مذہبوں کی مشترکہ تبلیغ ہے لہٰذا ان تمام مذہبوں کے ماننے والوں کو ایک مضبوط مرکز پر مشترکہ جدوجہد کی طر ف دعوت دیتی ہے۔ کتاب ہٰذا اسی نورانی عقیدہ کی تبیین و تشریح اور اثبات کے سلسلے میں ایک اہم قدم ہے جس کی تعریف و توصیف میں یہی کہہ دینا کافی ہے کہ یہ کتاب سلسلہ امامت و خلافت کے چھٹے تاجدار اور اسلامی شاہراہ ہدایت کے روشن منارے حضرت امام جعفر صادق ـ سے منسوب ہے۔

والسلام

حسین احمدی

مسئول انتشارات مسجد جمکران

قم المقدسہ

۲۱

( عرض ناشر )

تاریخ بشریت میں عقائد خصوصاً ''توحیدِ پروردگار کا مسئلہ انبیاء ٪ کی الٰہی دعوت کی بنیاد اور اساس رہا ہے۔ ان الٰہی اور آسمانی انسانوں کے کلام کا آغاز اور اُن کے پیغام کا انجام انسانیت کو ایک خدائے وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دینا تھا۔ اسلامی نظریہ حیات اسی تصور کو انسان کے رگ و پے میں اتارنے اور اس کے قلب و باطن میں جایگزین کرنے سے متحقق ہوتا ہے۔ تصور توحید کی اساس تمام معبودانِ باطلہ کی نفی اور ایک خدائے لم یزل کے اثبات پر ہے عقیدہ توحید پر ہی ملت اسلامیہ کے قیام و بقاء اور ارتقاء کا انحصار ہے یہی عقیدہ امت اسلامیہ کی قوت تمکنت کا سرچشمہ اور اسلامی معاشرہ کا روحِ رواں ہے۔

تاریخ کے طولانی سفر اور زمانوں کے گذرتے ہوئے لمحات اس بات کے گواہ ہیں کہ انسانی سماج نے ہر دور میں اس بنیادی اصل سے انحراف کیا جس کے نتیجے میں فتنے، بلائیں اور مشکلات اس کے دامن گیر ہوتی ہیں چنانچہ ابتدائے آفرینش ہی سے انسانی قافلہ میں بہت سی ایسی نمایاں شخصیتوں نے جنم لیا جنہوں نے حسب موقع و ضرورت خدمات سر انجام دیں اور بھٹکی ہوئی انسانیت کو جادئہ اعتدال پر لانے کی مسلسل جدوجہد فرمائی۔ ان انسانوں میں کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنی محدود عمروں کے باوجود زمان و مکان کو مسخر کیا، شب و روز ان کے فیض سے نورانی ہوئے، ماہ و سال ان کے در پر جبہ رسائی سے فیضاب ہوئے، صدیوں نے ان کی بارگاہ میں اپنی جبینیں جھکائیں، تہذیبوں کے چمن جن کی زلفوں کی ہوائوں سے لہلہائے اور انسانی قدروں کے پھول جن کے عارض سے تازگی لے کر صدا بہار ہوئے ہیں انھیں کامل انسانوں میں سے ایک نام جو واقعاً انسانیت کی پیشانی پر درخشاں اور نمایاں ہے وہ جعفر ابن محمد حضرت امام صادق ـ کا نام ہے۔ آپ نے حدیثِ توحید میں جسے توحید مفصل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ توحیدِ پروردگار کے سلسلے میں کامل ترین عنوان سے الٰہی تصورات کائنات کو پیش کیا اور نورانی معارف و حقائق کے مختلف پہلوئوں کی اس انداز سے تشریح و تبیین فرمائی کہ محلدین

۲۲

اور خدائے کے بارے میں شک کرنے والوں کے پاس خاموشی، سرجھکائے اور اپنے غافل ہونے کے اقرار ے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔

آج پھر دنیا میں کفر و الحاد اور استعماری طاقتیں انسانوں کو جادئہ توحید سے ہٹانے میں مصروف عمل ہیں۔ خصوصاً نوجوان نسل کی فکری بنیادوں پر شب خون مارتے ہوئے یلغار کر رہے ہیں۔

لہٰذا چارہ کار یہ ہے کہ اس وقت موجودہ امکانات و وسائل سے صحیح استفادہ کرتے ہوئے الٰہی اقدار و معارف کی ترویج و تشہیر کی ذمہ داری پوری کی جائے۔ اس عظیم ذمہ داری کا بارِ سنگین دل سوز علماء کرام، دینی رہبروں اور علمی و دینی مراکز پر ہے ''توحید مفضل'' کی اشاعت اسی مقصد کی تکمیل کے سلسلے میں ایک قدم ہے جس کے مطالعہ کے دوران آپ کو بہت سارے دقیق اور ضروری نکات دیکھنے کو ملیں گے کہ جن میں سے ہر ایک قارئین کے اذہان سے کئی ایک شبہات اور استفسارات کو محو کردینے کے لیے کافی ہے۔

اس ابتدائی مرحلہ میں خداوند متعال کی سپاس گذاری کے ساتھ تمام علمی و تحقیقی کوششوں میں مصروف بزرگوں، دوستوں واسطۂ خیر قرار پانے والوں کا صمیم قلب سے شکر گزار ہوں، بالخصوص محترم مترجم حجة الاسلام و المسلمین مولانا سید نسیم حیدر زیدی صاحب کا تہ دل سے شکر گزار جھنوں نے نہایت عرق ریزی سے اس کتاب کا ترجمہ کیا۔

آخر میں حجت پروردگار، امام روزگار، قطب عوالم ہدایت، خاتم مقیدہ ولایت، خلیفہ رحمان حضرت حجت ابن الحسن العسکری کے موفور السرور تعجیل ظہور کے لیے بارگاہِ ربّ العزت میں دعاگو ہوں۔

والسلام

محمد امین مرچنت

۲۳

( مقدمہ )

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ O

الحمد للّٰه الواحد الاحد الّذی لا شریک له الفرد الصمد الّذی لَا شبیه له الاوّل القدیمه الذی لاغایة َ له الاخر الباقی الذی لا نهایة له الموجود الثابت لا عدمَ لَه فسبحان الذی بیدهِ ملکوت کل شیٔ و الیه المرجع والمصیر وَ أَشهد أَن لا ِله الّا اللّٰه ربّ العالمین وا شهد أَن محمداً عبده وَ رسوله سید النبیّن واشهد أَنَّ علی ابن ابیطالب سید الوصیین وامام المتّقین و ان ائمة من ولده بعده حجج اللّه الٰی یوم الدّین صلوٰت اللّه وسلامه علیهم اجمعین

یوں تو خالق دو جہاں کے وجود اور اس کی وحدانیت کے موضوع پر بہت سی عظیم کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں محکم و مضبوط دلائل کے ذریعہ خالق کائنات کے وجود اور اس کی وحدانیت کو ثابت کیا گیا ۔ لیکن ان عظیم کتابوں میں سے ''توحید مفضّل '' اپنی مثال آپ ہے ، کہ جو اس حدیث کا ترجمہ ہے، کہ جسے حضرت امام جعفر صادق ـ نے اپنے خاص صحابی اور جلیل القدر شاگرد مفضّل بن عمر کو مسلسل چار رو زاملاء کرائی۔ لہٰذا اسی روز سے اس حدیثِ توحید کو توحید مفضّل کے نام سے یاد کیا جانے لگا جس کا اردو ترجمہ موضوعات کی تنظیم کے ساتھ آپ کے سامنے پیش کیا جا رہاہے۔

امام ـ نے اس حدیث میں ہدایت کے غرض سے باغِ خلقت میں موجود نشانیوں کو اسطرح نمایاں کیا کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی طرف اشارہ کررہی ہیں تاکہ محترم قارئین مختلف کلمات و نشانیوں سے خداوند عالم کو دیکھنے لگیں جو آنکھ کے دیکھنے سے کہیں زیادہ روشن تر ہے۔حضرت امام جعفر صادق (ع)اسلام کے وہ عظیم الشان مفکر ہیں جہنوں نے خالق کائنات کی توحید اور اسکے صفات پر

۲۴

فطری اور عقلی نقطہ نظر سے بحث کی ہے اس سلسلے میں آپکے بیانات علم الہیات میں نقش اوّل بھی ہیں اور حرف آخر بھی ۔ان کی بلند نظری و معنیٰ آفرینی کے سامنے حکماء و متکلّمین کی ذہنی رسائیاں ٹھٹھک کر رہ جاتی ہیں اور نکتہ رس طبیعتوںکو عجزو نارسائی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے ۔بلا شبہ جن لوگوں نے الہیاتی مسائل میںعلم و دانش کے دریا بہائے ہیں ان کا سر چشمہ آپ ہی کے حکیمانہ ارشادات ہیں۔یوں تو مخلوقات کی نیرنگیوں سے خالق کی صنعت آفرینیوں پر استدلال کیا ہی جاتا ہے ،لیکن جس طرح امام (ع) کائنات کی چھوٹی سے چھوٹی اور پست سے پست مخلوق میںنقّاش فطرت کی نقش آرائیوں کی تصویر کھینچ کر صانع کمال صنعت اور اس کی قدرت و حکمت پر دلیل قائم کرتے ہیں وہ ندرت بیانی میں اپنا جواب نہیں رکھتی اس موقع پرصرف طاؤس کے پروبال کی رنگینی ورعنائی ہی نظروں کو جذب نہیں کرتی ،بلکہ چمگادڑ،ٹڈی،مکڑی اور چیونٹی جیسی روندی ہوئی اور ٹھکرائی ہوئی مخلوق کا دامن بھی فطرت کی فیاضیوں سے چھلکتا ہوا نظر آتا ہے ۔

قابل ستائش ہیں ، فقیہ اہل بیت عصمت و طہارت حضرت آیت اللہ محسن حرم پناہی جنہوں نے اس ترجمہ شدہ کتاب پر تقریظ لکھ کر میری حوصلہ افزائی فرمائی اور میرے شفیق اور مہربان استاد حضرت علامہ سید رضی جعفر نقوی (دام برکاتہ) جنہوں نے بے انتہا مصروفیت کے باوجود میری اس ناچیز کوشش کوسراہتے ہوئے نظر ثانی کی زحمت کو برداشت کیا نیز اپنے عزیز اور محترم والدین اور معلمہ محترمہ عصمت بتول کا شکرگزار ہوں جنہوں نے میری تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ نا سپاس گزاری ہوگی اگر ان تمام افراد کا شکریہ نہ کیا جائے جنہوں نے اس کتاب کی نشر و اشاعت میں تعاون فرمایا۔آخر میں اس بات کا اعتراف ضروری ہے کہ اصل کلام کی خصوصیات ترجمہ میں منتقل نہیں کی جاسکتیں اورآئینہ کے بالمقابل پھول رکھ کر اس کی پتّیوں کی تہ میں لپٹی ہوئی خوشبو کی عکّاسی ناممکن ہے کہ کوئی پھول کے عکس سے خوشبو سونگھنے کی توقع کرنے لگے مگر پھول کی شکل و صورت بھی نظر نہ آئے تو اس کے سواء کیا

۲۵

کہا جاسکتا ہے کہ آئینہ ہی دھندلا ہے ،مجھے اپنی ناتوانی کے ساتھ قلم کی ناتوانی کا بھی احساس ہے جس کے پیش نظر میرے لیے اس عظیم ذمہ داری کا نبھانا لمحہ فکریہ تھا ان حالات میں میںنے لسا ن ِعصمت و طہارت کی ترجمانی کی جرأت کی ہے تر جمہ جیسا کچھ بھی ہے آپ کے سامنے ہے میری کوشش تو یہی رہی کہ میرے امکانی حدود تک ترجمہ صحیح ہو امام (ع) نے اپنے استدلال میںعلمی اور سائنسی مطالب کے علاوہ کافی ایسے الفاظ وکلمات استعمال کیے جن کے ترجمے کے لیے باربار لغت اور دوسری کتب کی طرف رجوع کیا اور اس سلسلہ میں اساتذہ سے بھی مدد لی گئی بہر حال حتی الامکان صحیح ترجمہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔اور ساتھ ہی مفضّل بن عمر کے مختصر تعارف اور چند اہم مطالب کی طرف اشارہ کیا گیا اب یہ میری کوشش کہاں تک بار آور ہوئی ہے اس کا اندازہ ارباب علم ہی کر سکتے ہیں لہٰذامحترم قارئین سے خواہشمند ہوں کہ اگر ترجمہ یا تنظیم میں کسی بھی قسم کی کوئی کمی و بیشی ہو تو اُس کی نشان دہی ضرور فرمائیں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی تصحیح کردی جائے۔

والسلام مع الاکرام

سےّد نسیم حیدر زیدی

قم المقدسہ

۲۶

( مفضل بن عمر کا مختصرتعارف )

آپ مفضّل بن عمر، ابو محمد یا ابو عبد اللہ ہیں آپ پہلی صدی ہجری کے اواخر یا دوسری صدی ہجری کے اوائل میں شہر کوفہ میں رونق افروز ہوئے(۱) آپ حضرت امام جعفر صادق ـ اور امام موسیٰ کاظم ـ کے وہ عظیم الشان صحابی اور جلیل القدر شاگرد ہیں جن کا نام تاریخ کے صفحات پر روشن و تاباں ہے جس کی روشنی مدہم نہیں پڑتی اور جن کی عظمت و بزرگی کا چراغ زمانے کی ہوائوں سے گل نہیں ہوتا۔ آپ شہر کوفہ میں دونوں اماموں کی طرف سے وکیل تھے۔

مفضل بن عمر روایات کے آئینہ میں

مفضل بن عمرکے اعلیٰ و اشرف مقام کے لیے بس یہی کافی ہے کہ ائمہ طاہرین ٪ سے نقل شدہ بہت سی روایات میں مفضّل کی عظمت و بزرگی کو بیان کیا گیا ہے ان روایات کی تعداد بہت زیادہ ہے لہٰذا ہم اپنی محدودیت اور تنگ دامنی کے پیش نظر اس بحرِ خروشاں میں کودنے سے اجتناب کرتے ہوئے صرف چند روایات کے ذکر پر اکتفا کر رہے ہیں۔

۱۔ شیخ مفید علیہ الرحمہ بروایت صحیح حضرت امام جعفر صادق ـ سے نقل فرماتے ہیں کہ امام ـ نے مفضل سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے مفضّل خدا کی قسم میں تمہیں اور تمہارے دوست کودوست رکھتا ہوں۔ اے مفضل اگر میرے تمام اصحاب اُن تمام چیزوں کا علم رکھتے جنہیں تم جانتے ہو تو کبھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ توحید مفضل۔ (شگفتیھای آفرینش) نجف علی میزایی سے اقتباس۔

۲۷

اُن کے درمیان اختلاف نہ ہوتا۔(۱)

۲۔ محمد بن سنان سے مروی ہے کہ میں امام موسیٰ کاظم ـ کی خدمت میں شرفیاب ہوا تو امام ـ نے مجھ سے فرمایا: اے محمد، مفضل مجھ سے محبت کرنے والے میرے دوست اور میرے لیے باعث سکون و راحت تھے۔(۲)

۳۔ ہشام بن احمد سے روایت ہے کہ ایک روز شدید گرمی تھی کہ میں مفضّل کے بارے میں جاننے کے لیے حضرت امام جعفر صادق ـ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ کام میں مصروف تھے اور آپ کے سینہ مبارک سے آپ کا پسینہ سرازیر تھے تھا۔ ہشام کہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ میں کچھ پوچھتا، لبہائے عصمت و طہارت گشودہ ہوئے اور فرمایا: ''خدایا وحدہ لاشریک کی قسم مفضّل بن عمر ایک نیک انسان تھے''اور میرے اندازہ کے مطابق امام ـ نے اس جملہ کو ۳۰ سے زیادہ بار دہرایا۔(۳)

۴۔ فیض بن مختار کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق ـ سے عرض کی میں آپ پر قربان ہوجائوں۔ میں جب بھی کوفہ کے دانشوروں کے درمیان بیٹھا ہوں تو ان کے باہمی اختلاف کی وجہ سے میرا عقیدہ سست اور کمزور ہوجاتا ہے لیکن جب میں مفضّل بن عمر سے ملتا ہوں تو وہ اپنے علم و آگہی کے چشمہ سے مجھے اس طرح سیراب کرتے ہیں کہ میں مطمئن ہوجاتا ہوں یہ سن کر امام ـ نے فرمایا: اے فیض تم نے سچ کہا۔(۴)

۵۔ محمد بن یعقوب کلینی اپنی کتاب اصول کافی میں حضرت امام جعفر صادق ـ سے روایت کرتے

ہیں کہ آپ نے مفضل بن عمر سے فرمایا: (اے مفضّل) جب بھی ہمارے شیعیوں کے درمیان اختلاف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔الاختصاص، ص ۲۱۶۔

(۲)۔ عیون اخبار الرضا ـ، ج۱، باب ۴، ح ۲۹۔

(۳)۔ رجال کشی، شرح مفضّل بن عمر۔

(۴)۔ معجم الرجال الحدیث، ج۱۸، ص ۳۰۳۔

۲۸

پائو تو تمہیں یہ اختیار ہے کہ ہمارے مال کے ذریعہ ان کے اختلاف کو ختم کرکے ان میں صلح و آشتی برقرار کردو۔(۱)

ان روایات میں سے ہر ایک مفضّل بن عمر کے اعلیٰ و ارفع مقام و منزلت کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔

مفضل بن عمر علماء کی نظر میں

بہت سے علماء رجال ، فقہاء کرام اور محدثین نے مفضل بن عمر کے رفیع الشان مقام کو بیان کیا ہے جن میں سے صرف چند کی طرف ذیل میں اشارہ کر رہے ہیں۔

۱۔ شیخ صدوق: نے اپنی کتب میں بہت سی احادیث مفضل بن عمر کے توسط سے نقل کی ہیں۔ اور جب ہم شیخ صدوق کے اسی مبنیٰ پر نظر کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی کتاب ''من لا یحضرہ الفقیہ'' میں صرف ان احادیث کو ذکر کیا ہے جو آپ کے نزدیک معتبر اور حجت تھیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ مفضل بن عمر آپ کے نزدیک قابلِ اطمینان اور موردِ وثوق تھے۔ جو ''من لا یحضرہ الفقیہ'' میں موجود بہت سی روایات کے ناقل ہیں۔(۲)

۲۔ محمد بن یعقوب کلینی نے بھی اصول کافی میں بہت سی ایسی احادیث نقل کی ہیں جن کے راوی مفضل بن عمرو ہیں۔ بالخصوص ''یونس بن یعقوب''(۳) کی روایت جو صراحتاً مفضل بن عمر کی عظمت و جلالت پر دلالت کرتی ہے۔

۳۔ شیخ مفید علیہ الرحمہ مفضل بن عمر کے بارے میں سخن طراز ہیں کہ آپ حضرت امام جعفر صادق ـ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ اصول کافی، ج۲، ص ۲۰۹۔

(۲)۔ من لا یحضرہ الفقیہ۔ ج۱، ص ۳۔

(۳)۔ اصول کافی، ج۲، باب صبر۔ ح ۱۶۔

۲۹

کے خاص اور جلیل القدر صحابی ہونے کے علاوہ آپ کے موردِ اعتماد اور فقہاء صالحین میں سے تھے۔(۱)

۴۔ شیخ طوسی: مفضل بن عمر کے بارے میں رقمطراز ہین کہ آپ ائمہ ٪ کے مخلص اور قابل اعتماد صحابی تھے اور آپ نے اہل بیت ٪ کے پیام کی نشرو اشاعت کے لیے تاحد توان زحمتیں برداشت کیں۔(۲)

۵۔ علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ مفضل بن عمر کی عظمت و جلالت کو اجاگر کرنے کے لیے ائمہ ٪ سے بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں۔(۳) آپ حضرت امام جعفر صادق ـ کے نیک اور پارسا اصحاب میں ایک خاص مقام رکھتے تھے۔(۴)

ایک اعتراض کا جواب

مفضل بن عمر کی شان و منزلت کے بیان کے بعد ایک اعتراض کا جواب دینا مناسب سمجھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اگر مفضل بن عمر امام ـ کے خاص اور جلیل القدر صحابی ھے تو پھر کیونکر بعض روایتوں میں انھیں موردِ سرزنش قرار دیا گیا ہے؟

اس سلسلہ میں ہم یہ کہیں گے کہ اس اعتراض کا صحیح اور درست جواب جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم حضرت امام جعفر صادق ـ کے زمانے کے حالات اور سیاسی حکومت کی طرف سے امام ـ اور آپ کے شیعوں پر کی جانے والی سختیوں سے اچھی طرح واقف ہوں۔

بنی عباس کی بربریت اور زیادیتوں کی وجہ سے امام اور شیعہ تقیہ کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ الارشاد فی معرفة حجج اللہ علی العباد، ص ۲۰۸۔

(۲)۔ الغیبہ، ص ۲۱۰۔

(۳)۔ بحار الانوار، ج۳، ص ۵۵۔ ۵۶۔

(۴)۔ ترجمہ توحید مفضل، ص ۳۔ ۴۔

۳۰

یہاں تک کہ کبھی ایسا ہوتا تھا کہ امام اپنے قریبی اور خاص اصحاب کی جان بچانے کی خاطر اس کی مذمت فرماتے تھے تاکہ اس طرح انہیں دشمنوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔ مفضل بن عمر کا شمار ان ہی اصحاب میں ہوتا ہے کہ جن کی جان بچانے کی خاطر بعض مقام پر ان کی سرزنش اور مذمت کی گئی ہے۔ لہٰذا اس قسم کی احادیث کو تقیہ پر حمل کرنا چاہیے۔

جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق ـ نے عبد اللہ بن زرارہ بن اعین سے فرمایا: اپنے والد کو میری طرف سے سلام کہنا اور انہیں یہ پیغام دینا کہ اگر ہم نے کبھی تمہاری مذمت کی ہے تو ہمارا یہ اقدام بھی تمہارے دفاع کی خاطر تھا۔ ہمارے دشمن یہ چاہتے ہیں کہ جو لوگ ہم سے قریب ہیں اور ہمارے نزدیک خاص مقام و منزلت رکھتے ہیں انھیں آزار و اذیتیں پہنچائیں۔ یہ لوگ ہماری محبت کی خاطر ان کی سرزنش و ملامت کرتے ہیں اور انہیں قتل کرتے ہیں اور جس کی ہم مذمت کرتے ہیں یہ اس کی مدح و ثناء کرتے ہیں۔ (اپنے والد گرامی سے کہنا) اگر ہم نے ظاہر میں تمہاری مذمت کی ہے تو صرف اس لیے کہ تم ہماری ولایت و محبت سے پہچانے جانے لگے ہو اور سب اس بات کو جانتے ہیں کہ تمہارے لوح دل پر ہماری محبت کے علاوہ کسی غیر کی محبت کا کوئی نقش نہیں ہے لہٰذا وہ تمہیں دوست نہیں رکھتے۔ میں نے ظاہری طور پر اس وجہ سے تمہاری مذمت کی تاکہ وہ تمہیں دوست رکھیں اور اس طرح تمہارا دین بھی محفوظ رہے۔ اور تم خود بھی ان کے شرّ سے امان میں رہو۔ ''(۱)

اس سلسلہ میں شیخ عباس قمی فرماتے ہیں کہ مفضل بن عمر کی قدح میں نقل شدہ روایات ان روایتوں کے سامنے تاب مقاومت نہیں رکھتیں جو ان کی مدح میں وارد ہوتی ہیں۔(۲)

اسی سے ملتا جلتا کلام آیت اللہ خوئی کا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ وسایل الشیعہ، ج۳، ص ۵۸۴۔ رجال کشی، ص ۹۱۔

(۲)۔ منتہی الآمال، ج۲، ص ۴۴۳۔ ۴۴۴۔

۳۱

آپ مفضل بن عمر سے متعلق منقول شدہ روایات کے بارے میں تجزیہ و تحلیل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مفضل بن عمر کی قدح میں نقل شدہ روایات ان روایتوں کے سامنے تاب مقاومت نہیں رکھتیں جو ان کی مدح میں وارد ہوئی ہیں اور ان روایات قدح کا وہی حکم ہے جو ان روایاتِ قدح کا ہے جو زرارہ بن اعین کے بارے میں وارد ہوئی ہیں (یعنی تقیہ پر حمل کیا جائے)۔

توحید مفضل کی قرآن سے شباہت

خدا کی ہستی او اثبات توحید پر قرآن مجید کا طرز و اسلوب استدلال اس ہمہ گیر ربوبیت کے نظام میں تعقل و تفکر اور تدبر کی دعوت دیتا ہے جو اس کائنات بسیط میں ایک خاص نظم و قانون سے منسلک ترتیب و قاعدے کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ چنانچہ قرآن جابجا انسان کو عالم انفس، آفاق میں تدبّر کی دعوت دیتا ہے اور اس سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنی اور اس کائنات کی خلقت پر غور و فکر کرے۔ اور دیکھے کہ یہ کارخانہ حیات کس نظم و انضباط کے ساتھ چل رہا ہے۔ انسان اگر غور کرے تو خود اپنی پیدائش اور عالم گرد و پیش کے مشاہدات اس پر عرفان ذات اور معرفت توحید باری تعالیٰ کے بہت سے سرپستہ راز کھول دیں گے۔

امام جعفر صادق ـ جو قرآن ناطق ہیں۔ خدا کی ذات اور اثبات توحید پر آپ کا طرز و اسلوب استدلال بھی یہی ہے کہ انسانوں کو اُس ذات اقدس کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ انسان کائنات میں کارفرما نظامِ ربوبیت کا بے لاگ مطالعہ کرنے بیٹھے اور اس کے وجدان میں ایک ربّ العالمین ہستی کے ہونے کا یقین انگڑائیاں نہ لینے لگے۔ کائنات ہست و بود کے نظام میں حرکت پذیر تمام اجرام ارضی و سماوی اثبات توحید پر خاموش دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ زمین ، یہ چاند ، سورج، ستارے، شجر و حجر، لہلہاتے کھیت، مترنم آبشاریں، فلک بوس پہاڑ، سمندر کی

۳۲

لہروں کا تموج، سب اگرچہ قوت گویائی نہیں رکھتے لیکن زبانِ حال سے توحید کی دلالت کرتے ہیں اور اس بات کی شہادت فراہم کرتے ہیں کہ اس متوازن اور نظم و ضبط کے تحت چلنے والے کائناتی نظام کے پیچھے ایک ہی ہستی کا دست قدرت کار فرما ہے۔ جو ربوبیت الوہیت کی سزاوار ہے اور ارض و سموٰت کی جملہ مخلوقات کی عبادت کے لائق ہے۔ امام کی دل آویز گفتگو نے تصور کائنات کو حیرت انگیز حد تک آسان بنا دیا۔ یہ کتاب پڑھیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی سبک رفتار کشتی نہایت بے تکلفی سے آب و حباب کو چیرتی ہوئی ساحل مراد سے لگ گئی ہے۔ امام کا کلام کوئی معمولی کلام نہیں بلکہ یہ وہ راستہ ہے جس کے ذریعہ انسان اپنے مقصد تک پہنچ سکتا ہے اس لیے روایات میں ہے کہ ایک گھنٹہ غور و فکر کرنا ۷۰ سال کی عبادت سے افضل ہے کیونکہ اگر ہم گوش اور دیدئہ بینا کو وا کرکے کائنات کی کھلی کتاب کا مطالعہ کریں تو اس کے ورق ورق پر ایک پروردگار کے وجود کا اعلان ہوتا دکھائی دے گا، اس کے اندر سے یہ پکار سنائی دے گی کہ اس کائنات کی تخلیق بالحق ہوئی ہے اور انسان بے ساختہ اس بات کے اقرار پر مجبور ہوگا کہ

(رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا ) (آل عمران،۳:۱۹۱ )

اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔

کلام امام ـ کے معجزات

عام اصطلاح میں معجزہ اُس کہتے ہیں جسے دوسرے عام انسان انجام دینے سے قاصر ہوں معمولاً جب بھی لوگ ائمہ طاہرین ٪ کے معجزوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں ، مردوں کو زندہ کرنا، سورج کو پلٹانا، وحشی درندہ پر قابو پانا، لاعلاج کو شفا دینا وغیرہ ہی آتا ہے۔

جبکہ اگر ہم غور کریںتو نہج البلاغہ بھی معجزہ ہے۔ صحیفہ سجادیہ بھی معجزہ ہے اور توحید مفضل بھی ایک معجزہ ہے۔

۳۳

توحید مفضل کا بین ثبوت ہے کہ امام صادق ـ کائنات کے ذرّہ ذرّہ کے فلسفہ اور اس کے اسرار و رموز سے مکمل آگاہ تے۔ چودہ سال گذر جانے کے بعد بھی آج تک تمام عظیم الشان فلاسفہ قادر الکلام متکلمین، مشہور و معروف دانشور، برجستہ اطبّائ، بہترین ستارہ شناس، ماہرطبیعات و فلکیات اور عظیم تحلیل گر اسرار کائنات کی وہ تبیین و تشریح نہ کرسکے جو امام صادق ـ نے پیش کی ہے اس سے بڑھ کر معجزہ اور کیا ہوسکتا ہے۔

آپ کے کلام کے معجزات کو غور و فکر کے ذریعہ با آسانی درک کیا جاسکتا ہے۔ من جملہ

۱۔ امام ـ نے فرمایا: کہ مچھلی پانی منہ میں لینے کے بعد اُسے اپنے دونوں طرف سے خارج کردیتی ہے تاکہ دوسرے حیوانات کی طرح ہوا کے فوائد سے بہرہ مند ہوسکے۔

امام ـ کے اس کلام میں صراحتاً اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مچھلی ہوا میں موجود آکسیجن سے استفادہ کرتی ہے اور یہ وہ راز ہے جس سے دنیا صدیاں گذرنے کے بعد آگاہ ہوتی ہے۔

۲۔ امام ـ ستاروں کی حرکت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہر ستارہ کی دو حرکتیں ہیں۔ اور پھر ان حرکتوں کو چیونٹی کی چکی پر حرکتوں سے تشبیہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ چیونٹی جب چکی پر حرکت کرتی ہے تو اس کی دو حرکتیں ہوتیں ہیں ایک حرکت چیونٹی کی اپنی ہے جس سے وہ آگے بڑھ رہی ہے اور دوسری حرکت چکی کے تحت انجام دے رہی ہے جو اُسے مخالف سمت لے جا رہی ہے۔

امام ـ کی اس گفتگو سے ستاروں کی وضعی اور انتقالی حرکت کو سمجھا جاسکتا ہے۔ البتہ اس سلسلہ میں امام ـ نے مفصلاً بحث کی ہے۔

۳۔ امام ـ نے ہوا کی بحث میں بیان فرمایا ہے کہ ہوا آواز کی امواج کیلئے متحرک ہے جس تک سائنسدان آج بڑی جدوجہد کے بعد پہنچے ہیں۔

بہرحال یہ پوری کتاب کائنات کے ایسے اسرار و رموز پر مشتمل ہے جنہیں امام صادق

۳۴

ـ نے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے جن میں تفکر و تدبر سے مبدا جہان تک پہنچا جاسکتا ہے۔

ایک شبھہ کا ازالہ

۱۔ ممکن ہے کہ محترم قاری اس میں بعض عبارتوں کا مطالعہ کرے اور اپنے تئیں خود یہ خیال کرے کہ یہ مطلب علم جدید سے سازگار اور ہم آہنگ نہیں ہے۔

تو ایسے فرد کو چاہیے کہ وہ چند باتوں پر توجہ کرے :

۱۔ ایک عادی انسان کا علم نہایت محدود اور تھوڑا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَمَا اوتیتم من العلم الّا قلیلًا) یعنی ہم نے تمہیں صرف تھوڑا علم دیا ہے۔ لہٰذا انسان کو منبع نور اور علم الٰہی یعنی کلام امام ـ پر بے جا اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ معیار امام ـ کا علم ہے ہمارا علم نہیں۔ اگر ہم کسی مطلب کو نہیں سمجھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی ہم امام ـ کے علم کی حکمت تک نہیں پہنچے ہیں۔

۲۔ امام جعفر صادق ـ کے کلام میں بہت سے ایسے مطالب موجود ہیں جو کل کے لوگوں کے لیے عجیب و غریب تھے لیکن آج ان کی حقیقت روش ہو گئی ہے تو اسی طرح ممکن ہے کہ کچھ مطالب آج عجیب و غیرب معلوم ہوں جن کی حقیقت کل روشن ہوجائے گی۔

۳۔ اگر کوئی ایسی عبارت سامنے آئے جس کے سمجھنے سے قاصر ہوں تو ایسے میں ضروری ہے کہ ماہرین لغت اور اسلامی دانشوروں کی مدد سے اس عبارت کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ لیجئے اب کتاب کا مطالعہ فرمائیے۔

۳۵

( مفضّل اور ابن ابی العوجاء کے درمیان آغاز گفتگو )

محمد بن سنان مفضل بن عمر سے روایت کرتے ہیں۔

کہ میں ایک روز رنماز عصر کے بعد پیغمبر اسلام (ص) کی قبر مطہر اور آپ کے منبر اقدس کے درمیان بیٹھا ہوا اس فکر میں گم تھا کہ خداوند عالم نے پیغمبر اسلام (ص) کو کس بلند مقام اور فضیلت کا شرف بخشا کہ جسے امت نے ابھی تک نہیں پہچانا ، اور کچھ تو اس سے بالکل ہی بے خبر ہیں، میں ابھی اس فکر میں گم ہی تھا کہ اتنے میں ابن ابی العوجاء (جو ملحدیں زمان میں سے ایک تھا) وہاں آپہنچا اور مجھ سے اتنی نزدیک بیٹھا کہ میں اس کی گفتگو کو بآسانی سن سکتا تھا،اس کے بیٹھتے ہی اس کا ایک دوست بھی اس کے نزدیک آکر بیٹھ گیا۔ ابن ابی العوجاء نے گفتگو کا آغاز کیا(اور پیغمبر اسلام کی قبر مطہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) یہ صاحب قبر عزت کے کمال پر پہنچا، شرافت کے تمام خصال کو اس نے اپنے اندر جمع کیا، اورایک بلند وبالامقام پر فائز ہوا۔ ابن ابی العوجاء کے دوست نے کہا وہ ایک فلسفی تھا جس نے برتری اور عظیم منزلت کا دعویٰ کیا اور اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کیلئے ایسے محیر العقول معجزے لایا، کہ جن کے سامنے عقلیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں یہاں تک کہ جب عقلاء فصحاء اور خطباء نے اس کی دعوت کو قبول کیا ، تو لوگ جوق در جوق اس کے دین میں داخل ہونا شروع ہوگئے، اس نے اپنے نام کو (اذان و اقامت میں) خدا کے نام کے ساتھ رکھا اور بالآخر ہر شہر و گلی و کوچہ اور زمین کے جس خطے پر بھی اس کی دعوت پہنچی ، وہاں لوگ ہر روز پانچ مرتبہ بلند آواز سے اذان و اقامت کہتے ہیں تاکہ اس کی یاد ہمیشہ تازہ رہے اور اس کی دعوت سست اور کمزور نہ پڑجائے۔

ابن ابی العوجاء نے اپنے دوست سے کہا کہ محمد کے بارے میں گفتگو نہ کرو میری عقل اس کے بارے میں متحیر ہے خصوصاً اس ''اصل'' پر کہ جس کے لیے محمد نے قیام کیا، اور اپنی زندگی کو اس کے

۳۶

مطابق گذاراتم اس اصل(۱) پر گفتگو کرو۔ لہٰذا اس نے دنیا کی پہلی چیز یعنی ''خالق کائنات'' کے بارے میں اپنی گفتگو کا آغاز کیا،اور بات یہاں تک پہونچی کے اس نے یہ خیال کہ تمام انسان محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں،اور ان کے پیدا ہونے میں کسی بھی قسم کی دانائی اور ہنرمندی شامل حال نہیں ، بلکہ دنیا کی تمام چیزیں بغیر کسی خالق ومدبر کے خودبخود وجود میں آئی ہیں اوریہ دنیا ابتداء ہی سے اسی طرح ہے اور ہمیشہ اسی طرح باقی رہے گی۔

مفضل ، کہتے ہیں کہ یہ باتیں سنتے ہی مجھے غصہ آگیا اور میں اس پر قابو نہ پاسکا اور اسی غصہ کی حالت میں اس سے کہا کہ ، اے دشمن خدا کیا تو ملحد ہوگیا ہے،اور اپنے اس پروردگار کا انکار کررہا ہے، جس نے تجھے بہترین طریقے پر خلق کیا اور تجھے بہترین صورت عطا کی، اور مختلف احوال میں تیری مدد کی اور تجھے اس حالت تک پہنچایا اگر تو اپنے اندر غورو فکر کرے تو یقینا تیری قوت فکر اور تیرا زورِ ادراک تیری حقیقت کی طرف نشاندہی کرے گا اور تو دلائل ربوبیت اور آثار تدبیر کو اپنے اندر موجود پائے گا۔

ابن ابی العوجاء نے مفضل سے کہا ، اے شخص اگر تو اہل کلام میں سے ہے تو میں تجھ سے دریچے کلام کے ذریعے کچھ بحث کرنا چاہتا ہوں ، اگر تیری دلیلیں ثابت ہوگئیں تو میں خود کو تیرے حوالے کردوں گا، اور اگر تو اہل کلام میں سے نہیں ہے تو پھر تیرے کلام سے کوئی فائدہ نہیں ۔ اور اگر تو جعفر بن محمد صادق ـ کے اصحاب میں سے ہے تو وہ ہرگز ہم سے اس طرح کی گفتگو نہیں کرتے اور نہ بات کرتے وقت تیری طرح جھگڑتے ہیں ۔ انہوں نے اس سے کہیں زیادہ ہمارے کلام کو سنا ہے لیکن انہوں نے جواب دینے میں کبھی غلط الفاظ کا استعمال نہیں کیا، اور نہ جواب دینے میں کبھی تجاوز سے کام لیا، وہ ایک مرد

حکیم ، عاقل و دانا ہیں غیض وغضب ، خشم و غصہ ان پر مسلط نہیں ہوتا، پہلے وہ اچھی طرح ہمارے کلام کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ خداوند عالم کی توحید پر۔

۳۷

سنتے ہیں اور جب ہم اپنی بات کو مکمل کرلیتے ہیں ، اور یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ہم نے انہیں مغلوب کردیا، تو وہ مختصر سی گفتگو میں ادلّہ و براہین کے ذریعہ ہمارے اس خیال کو اس طرح پاش پاش کردیتے ہیں کہ ہم پر لازم ہوجاتا ہے کہ ہم ان کے دلائل کو قبول کریں،اس طرح وہ اپنا فریضہ ہمارے ساتھ انجام دیتے ہیں تاکہ ہمارا کوئی عذر باقی نہ رہے اور ہم ان کی تردید کیلئے کوئی دلیل نہ لاسکیں، لہٰذا اگر تم ان کے اصحاب میں سے ہو تو تم بھی ویسا ہی کلام کرو، مفضل کہتے ہیں ، میں غمزدہ اور اسی فکر میں کہ کس طرح اسلام اور مسلمان کفر والحاد کے درمیان گرفتار ہیں ، مسجد سے باہر آیا اور فوراً ہی اپنے آقا و مولاء حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا، مجھے محزون اور شکستہ دل دیکھ کر آپ نے فرمایا: (اے مفضل)کیا ہوا؟ میں نے ان دونوں ملحدوں کے کفر آمیز کلام اور جس دلیل کے ذریعہ ان کے کلام کی رد پیش کی تھی حضرت (ع)کے سامنے بیان کی۔

آپـ نے فرمایا ، (اے مفضل) میں تمھیں حکمت باری تعالیٰ میں سے خلقت عالم حیوانات، درندوں ، چوپاؤں ، حشرات الارض، ہر ذی روح عالم نباتات ، پھل دار ،غیر پھل درختوں ، دانوں اور ماکولات وغیر ماکولات سبزیوں کے بارے میں ایسے مطالب بتاؤں گا ، جو بصیرت کو پیدا کریں ،اور جن سے عبرت حاصل کرنے والے لوگ عبرت حاصل کریں ، جن کے جاننے کے بعد مومنوں کے دل آرام پائیں اور ملحدین اس میں حیران ہو کر رہ جائیں ، تم کل صبح سویرے میرے پاس آجاؤ۔ مفضل کہتے ہیں کہ یہ بات سن کر میں اس قدر خوشحال اپنے گھر واپس پلٹا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ، اور وہ رات مجھ پر حضرت ـکے وعدے کے انتظار میں کافی طولانی گذری۔

۳۸

( روز اوّل )

۳۹

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

چھٹا جعلی صحابی عفیف بن منذر تمیمی

عفیف اور قبائل تمیم کے ارتداد کا موضوع

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ'' میں سیف کی کتاب ''فتوح '' سے نقل کرتے ہوئے عفیف بن منذر تمیمی کے حالات میں یوں لکھا ہے :

سیف نے اپنی کتاب '' فتوح '' میں لکھا ہے کہ عفیف بن منذر ،قبیلہ '' بنی عمر و بن تمیم'' کا ایک فرد ہے ۔

طبری نے بھی عفیف کی داستان کو سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے .من جملہ ''تمیم '' و ''سباح''سے مربوط خبر جسے سیف نے صعب بن بلال سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کو یوں بیان کیا ہے:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد قبائل تمیم کے افراد میں اختلاف و افتراق پیدا ہوا۔ ان میں سے کچھ لوگ اسلام پر باقی اور ثابت قدم رہے اور بعض نے مرتد ہوکر اسلام سے منہ موڑلیا۔ یہ امر قبائل تمیم کے آپسی جھگڑے کا سبب بنا۔ عفیف بن منذر تمیمی نے اس واقعہ کے بارے میں یوں کہا ہے:

خبر پھیلنے کے باوجود تمھیں خبر نہ ہوئی کہ خاندان تمیم کے بزرگوں پر کیا گزری؟

تمیم کے بعض سردار جو عظیم افراد اور شہرت کے مالک تھے ، ایک دوسرے کے ساتھ جنگ پر اتر آئے.

۱۰۱

بے پناہوں کو پناہ دینے والے ہی بیچارے ہوکر بیابانوں میں دربدر ہوگئے۔

زمین سے پانی کا ابلنا

طبری ، بحرین کے باشندوں کے مرتد ہونے کی خبر کو مذکورہ طریقے یعنی ''صعب بن عطیہ'' سے نقل کرکے لکھتا ہے:

ابوبکر نے ''علاء بن حضرمی'' کو سرزمین تمیم سے گزر کر بحرین کے لوگوں سے نبرد آزمائی کے لئے بھیجا۔ علاء اپنے سپاہیوں کے ہمراہ تمیم کی زمینوں کے ''دھنا '' نامی ریگستان جہاں پر ریت سات ٹیلے ہیں سے گزرا۔

جب علاء اپنے سپاہیوں کے ہمراہ اس تپتے اور خشک ریگستان کے بیچ میں پہنچا تو اس نے رات کو وہاں پر ٹھہرنے کا حکم دیا اور اپنے دوستوں کے ساتھ پڑاؤڈالا لیکن اسی حالت میں اچانک ان کے اونٹ رم کر گئے اور تمام بار اور سازو سامان لے کر بھاگ گئے ۔ اس طرح علاء اور اس کے سپاہیوں کو اس تپتے اور خشک ریگستان میں توشہ اور پانی سے محروم ہونا پڑا۔

اس حادثہ کی وجہ سے کہرام مچا ور ان پر ایسا غم و اندوہ چھا گیا کہ خدا کے علاوہ کوئی ان کے حال سے آگاہ نہ تھا ۔ وہ سب مرنے کے لئے آمادہ ہوکر ایک دوسرے کو وصیت کرنے لگے !

علاء کو جب اپنے ساتھیوں کی حالت معلوم ہوئی تو اس نے ان کو اپنے پاس بلاکر کہا: یہ کیسا غم و اندوہ تم لوگوں پر طاری ہوگیا ہے؟

انہوں نے جواب میں کہا؛ یہ ملامت کا موقع نہیں ، تم خود آگاہ ہوکہ ، ابھی صبح ہے اور آفتاب کی تمازت شروع نہیں ہوئی ہے ۔ ہمارے بارے میں اب یہاں پر ایک داستان کے سوا کچھ باقی بچنے والا نہیں ہے!!

علاء نے جواب میں کہا: نہ ڈرو! کیا تم لوگ مسلمان نہیں ہو، کیا تم لوگوں نے خدا کی راہ میں قدم نہیں رکھا ہے، کیاتم لوگ دین خدا کی نصرت کرنے کے لئے نہیں اٹھے ہو؟

۱۰۲

انہوں نے جواب میں کہا: جی ہاں ! ایسا ہی ہے۔

علاء نے کہا: اب جب کہ ایسا ہے تو میں تمھیں نوید دیتا ہوں کہ ہمت کرو، خدا کی قسم ! پروردگار تم جیسوں کو ہرگز اس حالت میں نہیں رکھے گا.

صبح ہوئی ، علاء کے منادی نے صبح کی اذان دی۔

راوی کہتا ہے :

علاء نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی ، جب کہ ہم میں بعض لوگوں نے پانی نہ ہونے کی وجہ سے مجبور ہو کر تیمم کیا تھا اور بعض دیگر رات کے ہی وضو پر باقی تھے۔

علاء نماز پڑھنے کے بعد دو زانو بیٹھا ، لوگوں نے بھی اس کی پیروی کی، علاء نے دعا کے لئے اپنے ہاتھ اٹھائے ، سپاہیوں نے بھی ایسا ہی کرتے ہوئے دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے۔

یہ حالت جاری تھی کہ سورج کی کرنوں کے سبب دور سے ایک سراب نظر آیا۔ علاء نے کہا: ایک آدمی جائے اور ہمارے لئے خبر لائے۔

سپاہیوں میں سے ایک آدمی اٹھ کے سراب کی طرف گیااور تھوڑی دیر کے بعد واپس آکر بولا: سراب ہے اور پانی کی کوئی خبر نہیں ہے۔

علاء نے پھر سے دعا کی۔ پھر ایک سراب نمایاں ہوا۔ پہلے کی طرح پھر سے ایک آدمی جا کرنا اُمیدی کے ساتھ واپس لوٹا۔

علاء نے دعاجاری رکھی ۔ تیسری بار پانی کی لہر یں دکھائی دینے لگیں اس دفعہ جانے والا آدمی پانی کی خوشخبری لے کر آیا!!

سب پانی کی طر ف دوڑ پڑے ، ہم نے پانی پیا نہائے دھوئے۔

ابھی پوری طرح سورج نہیں چڑھا تھا کہ صحرا میں ہمارے اونٹ نظر آئے اور دوڑتے ہوئے آکر ہمارے سامنے کھڑے ہو گئے ہم سے ہر ایک نے اپنے اونٹ کو صحیح و سالم بار کے سمیت حاصل کیا!!

۱۰۳

اس حیر ت انگیز واقعہ کے بعد ہم نے اپنے اونٹوں کو بھی پانی پلا یاا ور مشکیں پانی سے بھر کے وہاں سے روانہ ہوگئے۔

راوی آگے ،کہتا ہے:

''ابو ہریرہ '' سفر میں میرے ساتھ تھا، جب ہم تھوڑا آگے چلے اور پانی کا تالاب ہماری نظروں سے اوجھل ہوگیا تو ابوہریرہ نے مجھ سے مخاطب ہو کر پوچھا : کیا تم اس سرزمین اور تالاب کو پہنچانتے ہو؟

میں نے کہا: اس جگہ سے میرے برابر کوئی اور آشنا نہیں ہے ۔

ابو ہریرہ نے کہا : جب ایسا ہے تو آؤمیرے ساتھ ہم تالاب کے پاس جاتے ہیں

میں ابو ہریرہ کے ساتھ تالاب کی طرف لوٹا ، لیکن انتہائی حیرت کے عالم میں نہ ہم نے وہاں پر پانی دیکھا اور نہ تالاب کا کوئی نام و نشان تھا۔

میں نے ابو ہریرہ سے کہا: خدا کی قسم یہاں پر پانی کا نام و نشان موجود نہ ہونے کے باوجود یہ اسی تالاب کی جگہ ہے ۔ اگر چہ اس سے پہلے بھی یہاں پر کوئی تالاب نہ تھا۔

اُس وقت ہماری نظر پانی سے بھر ے ایک لوٹے پر پڑی جو زمین کے ایک کونے میں پڑا تھا۔

ابو ہریرہ نے کہا: صحیح ہے ، اور خدا کی قسم یہ وہی تالاب والی جگہ ہے۔میں نے خاص طور پر اپنے لوٹے کو پانی سے بھر کے تالاب کے کنار ے پر رکھ دیا تھا تا کہ تالاب کی جگہ کو تلاش کرنے میں مشکل پیش نہ آئے!!

راوی کہتا ہے:

ہم نے خدا کا شکر ادا کیا اور اپنے ساتھیوں کی طرف واپس پلٹ گئے۔

۱۰۴

سیف اس داستان کے ضمن میں کہتا ہے:

علاء اپنے سپاہیوں کے ساتھ چلتے ہوئے ''ہجر'' نام کی جگہ پر پہنچا۔ دونوں لشکروں نے ایکدوسرے کے مقابل مورچے سنھبالے۔ مشرکین کی فوج کی کمانڈ ''شریح بن ضیعہ'' نے سنھبالی تھی، وہ قبیلہ ''قیس'' کا سردا ر تھا اور اس کا اصلی نام ''حطم'' تھا۔ دشمن کے سپاہی آزادی کے ساتھ نقل و حرکت کرتے تھے۔ لیکن رات کو اسلام کے سپاہیوں کو اطلاع ملی کہ مشرکین شراب پی کر مست ہوگئے ہیں اوراپنے آپ سے بے خبر پڑے ہیں ۔ انھوں نے اس فرصت کو غنیمت سمجھ کر ان پر اچانک تلواروں سے حملہ کردیا ۔اسی حالت میں خاندان بنی عمرو تمیم کے ایک دلاور ''عفیف بن منذر'' نے تلوار کی ایک ضرب سے ''حطم'' کی ایک ٹانک کاٹ کر اسے چھوڑ دیا تا کہ وہ اسی درد کے مارے جان دیدے۔

اس برق رفتار حملے میں ''عفیف'' کے چند بھائی اور رشتہ داروں نے بھی اس کے ساتھ جنگ میں شرکت کی اور اس شب کی گیرودار میں مارے گئے۔اس جنگ میں اسلام کے ایک نامور دلاور ''قیس بن عاصم ''نے ''ابجر'' کی ٹانک پر تلوار سے وار کرکے اسے کاٹ دیا ۔ ''عفیف'' نے اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اشار کہے ہیں :

اگر ٹوٹی ہوئی ٹانک ٹھیک بھی ہوجائے گی، عر ق النساء تو ہرگز ٹھیک نہیں ہوگا۔ تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ہم قبیلہ بنی عمرو اور رباب کے بہادروں نے دشمن کے حامیوں کو کیسے تہس نہس کرکے رکھدیا؟!

اسی داستان کو جاری رکھتے ہوئے سیف کہتا ہے:

عفیف بن منذر ''حیرہ'' کے بادشاہ نعمان بن منذر کے بھائی ''غرور بن سواد'' کو اسیر بنا لیا۔ خاندان رباب کا خاندان تمیم کے ساتھ دوستی کا معاہدہ تھا اس طرح سے کہ '' غرور'' کا باپ ان کا بھانجہ محسوب ہوتا تھا ،لہٰذا انھوں نے عفیف کے پاس شفاعت کی تاکہ اسے قتل کرنے سے صرف نظر کرے ۔ ''عفیف''نے دوستوں کی شفاعت قبول کی اور اس طرح '' غرور'' قبیلہ رباب کی پناہ میں آگیا ۔لیکن '' غرور'' کے '' منذربن سوید'' نامی سوتیلے بھائی کا سر تن سے جدا کردیا گیا!

دوسرے دن صبح سویرے علاء نے مال غنیمت تقسیم کرتے ہوئے میدان کار زار کے دلاوروں کو بھی انعامات بانٹے اس طرح عفیف کے حصہ میں بھی انعام کے طور پر ایک لباس آیا،

۱۰۵

اسلام کے سپاہیوں کا پانی پر چلنا!

طبری نے اس افسانہ کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:

مشرکوں نے اپنے منتشر شدہ سپاہیوں کو ''دارین'' کے مقام پر جمع کیا ۔ان کے اور سپاہ اسلام کے درمیان ایک عظیم دریا تھا تیز رفتار کشتیوں کے ذریعہ اسے عبور کرنے میں ایک دن اور ایک رات کا وقت لگتا تھا ،علاء نے جب یہ حالت دیکھی تو اس نے اپنے سپاہیوں کو اپنے پاس بلاکر ان سے خطاب کیا:

خدائے تعالیٰ نے شیاطین کے گروہوں کو تم لوگوں کے لئے ایک جگہ جمع کیاہے اور تم لوگوں کے لئے ان کے ساتھ اس دریا میں جنگ کرنا مقرر فرمایا ہے ۔ریگستان کے تعجب آور معجزہ اور ''دھنا'' کی ریت کی کرامت کے ذریعہ خدا نے تم لوگوں کو اس دریا سے عبور کرنے کی ہمت دی ہے ،اب دشمنوں کی طرف آگے بڑھو اور سب لوگ دریا میں کود پڑو اور کسی خوف کے بغیر ان پر ٹوٹ پڑو ،خدا ئے تعالیٰ ان سب کو ایک جگہ پر تم لوگوں سے چنگل میں پھنسا دے گا! سپاہیوں نے علاء کے جواب میں ایک آواز ہوکر کہا: خدا کی قسم ،ہم قبول کرتے ہیں کہ ''دھنا'' کے معجزہ کے بعد ہم ہر گز خوف اور ڈر سے دو چار نہیں ہوئے ۔

علاء حضرمی نے اپنے سرداروں اور سپاہیوں کا جواب سننے کے بعد دریا کی طرف قدم بڑھا یا اور سپاہی بھی اس کے پیچھے پیچھے چلے اور دریا کے کنارے پر پہنچے ،یہاں پر سوار ،پیادہ ، گھوڑے ، خچر ، اونٹ اورگدھے سب دریا میں اتر گئے ۔

علاء اور اس کے ساتھی پانی پر قدم رکھتے ہوئے یہ دعا پڑھتے جاتے تھے :

اے بخشنے والے مہربان ،اے برد بار سخی ،اے بے مثال بے نیاز ،اے ہمیشہ زندہ ،اے مردوں کو زندہ کرنے والے ،اے حیّ وقیوم ،اے خدا کہ تیرے سوا کوئی پروردگار نہیں ہے اور اے ہمارے پروردگار !!

سیف کہتا ہے :

اسلام کے سپاہی اس دعا کو پڑھنے کے بعد خدا کی مدد سے صحیح و سالم اس وسیع و عریض دریا کو عبور کرگئے ۔اس وسیع اور عمیق دریا کا پانی اسلام کے سپاہیوں اور ان کے مرکبوں کے پیروں کے تلے ایسا تھا گویا وہ مرطوب ریت پر چل رہے تھے اور ان کے پیر تھوڑے سے تر ہوتے تھے کیوں کہ دریا کا پانی ان کے اونٹوں کے سموں تک پہنچتا تھا !

۱۰۶

علاء اور اس کے سپاہیوں نے ایک ایسے دریا کو عبور کیا جس کی مسافت کو ساحل سے ''دارین'' تک طے کرنے کے لئے کشتی کے ذریعہ ایک دن ایک رات سے زائد وقت لگتا تھا ۔وہ اس مسافت کو پانی کے اوپر چل کر طے کر گئے اور اپنے دشمنوں کے پاس پہنچ کر ان پر تلوار سے حملہ آور ہوئے اور ان کے ایسے کشتوں کے پشتے لگادئے کہ ان میں سے ایک مرد بھی زندہ نہ بچ سکا !

اس حملہ اور قتل عام کے بعد ان کے بچوں اور عورتوں کو اسیر بنایا گیا اور بہت سا مال و متاع غنیمت کے طور پر حاصل کیا گیا ۔اس کے بعد مال غنیمت لے کر وہ لوگ اسی راہ سے واپس ہوگئے ،جہاں سے آئے تھے ۔

عفیف بن منذر نے اس موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ اشعار کہے ہیں :

کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ خدائے تعالیٰ نے ہمارے لئے دریا کو کیسے مطیع اور آرام کر دیا اور کفار پر بڑی مصیبت نازل کی ۔

ہم نے بھی اسی خدا سے دعا مانگی جس نے موسیٰ کے لئے دریا میں شگاف ڈال دیا تھا اور اس نے بھی ہمارے لئے حیرت انگیز راہ مقرر فرمادی ۔

سیف اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :

''ہجر '' نامی جگہ کا رہنے والا ایک راہب جو مسلمانوں کا ہمسفر تھا،یہ سب معجزہ اور کرامتیں دیکھ کر مسلمان ہو گیا ،جب اس سے اسلام لانے کا سبب پوچھا گیا تو اس نے جواب میں کہا:

تین چیزوں نے مجھے اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی اور مجھے ڈر لگا کہ اگر کفر پر باقی رہوں تو خدائے تعالیٰ مجھے مسخ کر ڈالے گا!

اول صحرا کے قلب اور '' دھنا'' کے ریگستان میں آب زلال کا پیدا ہونا ۔دوسرا اسلام کے سپاہیوں کے پیروں کے نیچے دریا کے پانی کا سخت ہو جانا اور تیسرا سبب ملائکہ کی وہ دعا ہے جسے میں نے صبح کے وقت فضا میں سنا ہے ۔

راہب سے پوچھا گیا کہ فرشتے اپنی دعا میں کیا کہتے تھے ؟

۱۰۷

راہب نے جواب دیا : فرشتے یہ دعا مانگ رہے تھے :

اے خدا !تو رحمان و رحیم ہے ،تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے ،تو ایسا پروردگار ہے کہ تجھ سے قبل کوئی خدا نہ تھا ،وہ ایسا پائیدار خدا ہے کہ کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے ،زندہ ہے کہ اس کے لئے ہرگز موت و نابودی نہیں ہے ،آشکار اور مخفیوں کا خدا ،وہ خدا جو ہر روز نئے نئے جلوے دکھاکر دنیا والوں کے سامنے جلوہ افروز ہوتا ہے ،اے خدا تو ہر چیز سے آگاہ ہے !یہی امر تھا کہ میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ لوگ حق پر ہیں اور فرشتے ان کی مدد کے لئے مأمور کئے گئے ہیں

سیف اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :

اس واقعہ کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب اس تازہ مسلمان راہب کے سامنے بیٹھ کر یہ حیرت انگیز داستان اس سے سنتے تھے ۔

علاء نے مشرکین کے ساتھ اپنی جنگ کی فتحیابی کی اطلاع خلیفہ کو دیتے ہوئے ایک خط میں یوں لکھا :

اما بعد ،خدائے تبارک و تعالیٰ نے '' دھنا '' کے ریگستان میں ہمارے لئے آب زلال کے چشمے جاری کئے اور اپنی قدرت نمائی سے ہماری بصیرت کی آنکھوں کو کھول دیا ۔ہم اس کی حمد و ثنا بجا لاتے ہیں اور اس کی عظمت والی بارگاہ میں سر تسلیم خم کرتے ہیں ،آپ بھی خداسے اس کے سپاہیوں اور اس کے دین کی نصرت کرنے والوں کے لئے مدد کی دعا کیجئے ۔

ابوبکر نے خدا کا شکر ادا کیا اور علاء کے لئے دعا کرتے ہوئے کہا:

جہاں تک معلوم ہوا ہے ،عرب ،سرزمین ''دھنا'' کے بارے میں قصہ سناتے ہوئے کہتے ہیں ،جب لقمان سے اس سر زمین پر پانی کے لئے ایک کنواں کھودنے کی اجازت چاہی گئی تو لقمان نے جواب دیا کہ وہاں پر بالٹی اور رسی ہر گز پانی تک نہیں پہنچیں گے اور پانی پیدا نہیں ہوگا۔

۱۰۸

اب جب کہ ایسی سر زمین سے آب زلال ابل گیا ہے تو یہ بذات خود اس معجزہ اور آیات آسمانی کی عظمت کی علامت ہے جس کی مثال گزشتہ امتوں میں کہیں نہیں ملتی پس خدا وند ا !محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حرمت و عظمت کو محفوظ فرما!

یہ وہ مطالب ہیں جنھیں طبری نے سیف سے نقل کرکے جعلی صحابی عفیف تمیمی کے حالات میں اپنی تاریخ کے اندر درج کیا ہے ،اور ابو الفرج اصفہانی نے بھی اس داستان کو اس سے نقل کرکے اپنی کتاب '' اغانی'' (٤٥٤۔٤٧) میں درج کیا ہے ۔

ابن اثیر ،ابن کثیر اور ابن خلدون نے اسی داستان کو '' حطم و بحرین'' کے ارتداد کی خبر میں طبری سے نقل کرتے ہوئے اپنی تاریخ کی کتابوں میں ثبت کیا ہے ۔

لیکن ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں جہاں وہ عفیف بن منذر تمیمی کی بات کرتا ہے ان مطالب کو سیف کی کتاب '' فتوح '' سے نقل کرکے اس کی صراحت کی ہے ۔

حموی نے بھی لفظ ''دارین '' کے سلسلے میں اپنی کتاب '' معجم البلدان'' میں سیف کی اسی روایت سے استناد کرکے لکھا ہے :

سیف کی کتاب میں آیا ہے کہ مسلمانوں نے پانی کی سطح پر قدم رکھ کر دارین کی طرف قدم بڑھائے

یہاں تک کہ وہ کہتا ہے کہ :

'' عفیف بن منذر'' نے اس واقعہ میں یہ اشعار کہے ہیں :

کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ خدائے تعالیٰ نے ہمارے لئے دریا کو کیسا مطیع بنایا...تاآخر

''عبد المؤمن نے'' بھی لفظ ''دارین'' کے بارے میں اپنے مطالب کو حموی سے نقل کرکے اپنی کتاب '' مرا صد الاطلاع '' میں درج کیا ہے ۔

حمیری نے بھی اپنی کتاب '' الروض المطار'' میں انہی مطالب کو ذکر کیا ہے اور ان کے آخر میں عفیف کے نام کے بجائے یوں لکھا ہے :

اسلامی فوج کے ایک سپاہی نے اس سلسلے میں یہ اشعار کہے ہیں :

یہاں پر اس نے وہی گزشتہ دو شعر ذکر کئے ہیں جو اس سے پہلے بیان ہوئے ،نہ روایت کے ماخذ کی طرف اشارہ کیا ہے اور نہ شاعر کا نام لیا ہے ۔

۱۰۹

بحث کا خلاصہ

جو کچھ اب تک بیان ہو ا ، اس سے صحابی اور تمیمی شاعر''عفیف بن منذر '' کے بارے میں سیف کی روایت کی مندرجہ ذیل تین بنیادی باتوں کی وضاحت ہوتی ہے :

١۔قبیلہ تمیم کے بعض افراد کا مرتد ہونا اور بعض دیگر کا دوسروں کو دخل اندازی کی اجازت دئے بغیر اسلام پر ثابت قدم رہنا،مذکورہ قبیلہ کے افراد کا ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہونا اور اس سلسلے میں ''عفیف بن منذر '' کا اشعار کہنا۔

٢۔''ہجر '' کے مقام پر خاندان'' قیس'' کے سردار ''حطم'' کا مرتد ہونا اور سپاہ اسلام کی اس کے ساتھ جنگ ،عفیف کا تلوار کی ایک کاری ضرب سے '' حطم'' کی ایک ٹانگ کاٹ دینا اور ''حیرہ'' کے بادشاہ '' نعمان منذر'' کے بھائی ''غرور بن سوید'' کو اسیر بنانا اور اس کے سوتیلے بھائی کا سر تن سے جدا کرنا ،اسلامی فوج کے سپہ سالار '' علاء حضرمی ''کا ''عفیف'' کو دیگر سپاہیوں کے ساتھ انعام و اکرام سے نوازنا۔

٣۔'' دھنا '' کے ریگستان میں اسلام کے سپاہیوں کے لئے آب زلال کا چشمہ ابلنا ، جنگ دارین کی طرف جاتے ہوئے دریا کے پانی کی کیفیت بدل کر علاء اور اسلام کے سپاہیوں کے پائوں تلے پانی کا سخت ہو جانا اور اس سلسلے میں عفیف کا اشعار کہنا۔

۱۱۰

سیف کی روایتوں کا دوسروں سے موازنہ

بہتر ہے کہ یہاں پر ہم قبائل تمیم، قیس اور بحرین کے ارتداد کے موضوع کے بارے میں دوسرے مورخین کی زبان سے بھی کچھ سنیں ۔

''بلاذری '' نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان'' میں قبیلۂ تمیم کے ارتداد کی خبر دوصفحوں میں بیان کی ہے۔ اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

''خالدبن ولید '' نے ''طلیحہ'' کی جنگ سے فارغ ہونے کے بعد قبائل تمیم کی سرزمینوں میں '' بعوضہ'' کے مقام پر پڑاؤڈالا۔ یہاں پر اس نے اپنے بعض فوجی دستوں کو مخالفین کی سر کوبی اورا نھیں پکڑلانے کے لئے علاقے کے اطراف میں بھیج دیا۔

ایک گشتی گروہ نے ''مالک نویرہ'' کو سرزمین ''بطاح'' میں پکڑ اور اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر خالد بن ولید کے پاس لایا۔ خالد نے اس کے قتل کا حکم دیا، جس کی داستان مشہور ہے۔

اس کے علاوہ سیف کی دیگر روایتوں اور افسانوں کے بارے میں بلاذری کی کتاب میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔

لیکن سرزمین ''ہجر'' میں ''حطم '' کے ارتداد اور ''بحرین'' و ''دارین'' میں ابن منذر کی داستان کے بارے میں بلاذری نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان'' میں یوں ذکر کیا ہے:

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کارگزار ''منذر بن ساوی عبدی'' رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد بحرین میں فوت ہوا، تو ایک طرف قبیلہ قیس کے ایک گروہ نے ''حطم'' کی قیادت میں اور دوسری جانب قبیلۂ ''ربیعہ'' کے چند افراد نے ''نعمان بن منذر'' کی اولاد میں سے ''منذر'' نام اور ''غرور'' کے عنوان سے معروف اس کے بیٹے کی قیادت میں بحرین میں بغاوت کی اور مرتد ہوگئے۔ ''حطم'' اپنے قبیلہ کے افراد سمیت ''ربیعہ'' کے ساتھ جاملا۔ علاء حضر می بھی ان سے مقابلہ کرنے کے لئے روانہ ہوا۔

۱۱۱

علاء اور بحرینی مرتدوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی۔ سرانجام باغیوں نے مقابلے کی تاب نہ لاکر قلعہ'' جواثا''میں پناہ لی اور وہاں اپنے آپ کو چھپالیا۔علاء نے رات گئے تک قلعہ کو تہس نہس کرکے رکھدیا ایک شدید جنگ کے بعد قلعہ فتح ہوا اور علاء نے اس پر قبضہ کرلیا۔

یہ جنگ ١٢ھ میں ابوبکر کی خلافت کے دوران واقع ہوئی۔ اسی جنگ کی گیرودار کے دوران، مجوسیوں کی ایک جماعت کے افراد جزیہ دینے سے انکار کرکے بحرین کے ایک قصبہ ''زارہ'' میں قبیلہ تمیم کے بعض افراد سے جاملے تھے۔ علاء نے اپنے سپاہیوں کے ہمرا ہ ان کو بھی اپنے محاصرہ میں لے لیا اوران کا قافیہ تنگ کردیا۔ خلیفہ عمر کی خلافت کے اوائل میں ''زارہ'' کے باشندوں نے اس سے صلح کی اور قصبہ ''زارہ'' کے مال و متاع اور اثاثہ کا ایک تہائی حصہ اسے دیدیا۔علاء نے بھی ان سے محاصرہ اٹھا لیا اور اس سلسلے میں ایک معاہدہ لکھا گیا۔(اس معاہدہ میں ''دارین'' کا کہیں ذکر نہیں آیا ہے۔)

''دارین'' کوفتح کرنے کے لئے علاء حضرمی نے خلافتِ عمر کے زمانے میں اپنے سپاہیوں کے ساتھ ''کرازنکری''نام کے ایک شخص کی راہنمائی میں کم عمق والے حصہ سے خلیج کو عبور کیا اور مشرکین پر تین جانب سے تکبیر بلند کرتے ہوئے حملہ کیا۔ مشرکین نے علاء اور اس کے سپاہیوں کے ساتھ سخت جنگ کی ، لیکن سرانجام شکست کھا کرہتیار ڈالنے پر مجبور ہوئے۔

کلاعی نے بحرین کے باشندوں کے ارتداد اور علاء کی جنگی کاروائیوں کے بارے میں لکھا ہے:

۱۱۲

جب بحرین میں واقع قصبہ ''ہجر'' کے باشندے مرتد ہوگئے تو قبیلۂ عبد القیس کے سردار ''جارود'' نے اپنے خاندان کے افراد کو جمع کرکے ایک دلچسپ اور موثر تقریر کی اور پند و نصائح کے ذریعہ حتی الامکان کوشش کی کہ وہ اسلام سے منہ موڑ کر مرتد نہ ہو ں .اس قبیلہ ''عبد القیس '' کا کوئی بھی فرد مرتدنہیں ہوا۔

لیکن قبیلہ ''بکر بن وائل'' کے لوگ''منذر بن نعمان'' جو ''غرور'' کے نام سے مشہور تھا کو اپنا پادشاہ انتخاب کرنا چاہتے تھے۔ غرور فرار کرکے ایران کے بادشاہ کے ہاں پناہ لے چکاتھا۔ ایران کے بادشاہ کسریٰ نے جب یہ خبر سنی تو ان کے قبیلہ کے سردار اور بزرگوں کو جمع کرکے اسی ''منذر'' جسے ''مخارق'' بھی کہا جاتا تھا کو ان کے اوپر بادشاہ مقرر کیا اور بحرین کی طرف روانہ کیا تا کہ اس جگہ پر قبضہ کرلیں ور بجر بن جابر عجلی(۱) کو حکم دیا کہ فوج کے ایک تجربہ کار سوار دستہ کے ہمراہ فوراً ابن نعمان کی مدد کے لئے جائے۔

''منذر'' اپنی ماتحت فوج کے ساتھ روانہ ہوا اور بحرین میں ''شقر '' کے مقام پر پڑاؤڈالا۔ جو بحرین میں ایک مضبوط قلعہ تھا۔

جب یہ خبر خلیفہ ابوبکر کو پہنچی تو اس نے '' علاء حضرمی '' کو سولہ سواروں کے ہمراہ منذر کی سرکوبی کے لئے مامور کیا اور اسے حکم دیا کہ قبیلہ ٔ ''عبد القیس '' کے افراد سے ''منذر '' کو کچلنے میں مدد حاصل کرے ۔

____________________

۱)۔'' بجر بن وائل '' قبیلہ بکر بن وائل سے ہے ۔ملاحظہ ہو : جمہرة النساب عرب ( ٣١٠۔ ٣١٤)

۱۱۳

علاء اپنی ماموریت انجام دینے کے لئے روانہ ہوا یمامہ کی با اثر شخصیت اور فرماں روا ''ثمامہ اثال حنفی ''(۱) نے قبیلہ '' بنی سحیم '' کے چند افراد اس کی مدد کے لئے مقرر کر دئے ۔

علاء اپنے لئے فراہم کی گئی فوج کے ساتھ ''مخارق '' (نعمان بن منذر) کی طرف بڑھا ۔ اس کے ساتھ سخت جنگ کی اور اس کے بہت سے افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔اس دوران قبیلہ ''عبدالقیس '' کے سردار'' جارود'' نے بھی ''خط'' کے علاوہ ۔ سیف بحرین۔ سے علاء کی مدد کے لئے چند منظم فوجی دستے محاذ جنگ کی طرف روانہ کئے ۔

'' منذر '' نے جب یہ حالت دیکھی تو ''حطم بن شریح'' نے ''خط'' کے ذریعہ مرزبان کے پاس پیغام بھیجا اور اس سے علاء کے خلاف لڑنے میں مدد طلب کی ،مرزبان نے بھی ایرانی نسل افراد پر

مشتمل ایک فوج کو منذر کی مدد کے لئے روانہ کیا اور '' جارود '' کو قیدی بنا لیا۔

''حطم ''اور''ابجر بن جابر عجلی''اپنے تحت افرادکے ہمراہ منذر کی مدد کے لئے پہنچ گئے اور ایک شدید جنگ کے نتیجہ میں علاء کا''جواثا'' کے قلعہ میں محاصرہ کرکے اس کا قافیہ تنگ کردیا۔

اس پیش آنے والی مصیبت اور سختی کے بارے میں قبیلہ بنی عامر صعصعہ کے ایک شخص عبداللہ حذف(۲) نے حسب ذیل اشعار کہے ہیں :

لوگو!ابوبکر اور تمام اہل مدینہ کو پیغام پہنچائو اور ان سے کہو : کیا تم لوگ ''جواثا '' کے محاصرہ میں پھنسے اس چھوٹے گروہ کی فکر میں ہو؟ یہ ان کا بے گناہ خون ہے جو ہرگڑھے میں جا ری ہے اور آفتاب کی کرنوں کی طرح آنکھوں کو

____________________

۱)۔'' ثمامہ'' و '' ھوذہ'' یمامہ کے د دباد شاہ تھے ہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں خط لکھا تھا اور انھیں اسلام کی دعوت دی تھی ،ثمامہ اسلام قبول کرکے اس پر ثابت قدم رہا ۔جب بنی حنیفہ کے افراد نے بغاوت کی اور '' مسیلمہ'' کذاب سے جاملے تو ثمامہ نے ان سے منہ موڑ لیا اور بحرین چلا گیا ۔ ملاحظہ ہو کتاب ''اصابہ'' و ''تاریخ زرہ''

۲)۔'' عبداللہ '' حذف کے حالات کے بارے میں جمہرہ انساب عرب (٢٧٣۔ ٢٧٥) ملاحظہ ہو

۱۱۴

چکاچوند ھکررہا ہے ۔

ان حالات کے باوجود ہم نے خدا پر توکل کیا ہے کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ خدا پر توکل کرنے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں ،

علاء اور اس کے ساتھی بدستور محاصرہ میں پھنسے تھے ایک رات اچانک دشمن کے کیمپ سے شور وغل کی آواز بلند ہوئی عبداللہ حذف کو مامور کیا گیا کہ دشمن کے کیمپ میں جا کر معلوم کرے کہ اس شور و غل کا سبب کیا ہے ۔

عبداللہ نے ایک رسی کے ذریعہ اپنے آپ کو قلعہ کی بلندی سے نیچے پہنچا یا اور ہر طرف دشمن کی ٹوہ لینا شروع کی اس شور و ہنگامہ کا سبب جاننے کے بعد اس نے '' ابجرعجلی '' کے خیمہ میں قدم رکھا ۔ عبداللہ کی والدہ قبیلہ '' بنی عجل'' سے تعلق رکھتی تھی ،اس لئے '' ابجر '' کا رشتہ دار ہوتا تھا ۔جوں ہی ''ابجر''نے عبداللہ کو دیکھا تو چیخ کر اس سے پوچھا:

کس لئے آیا ہے ؟ خدا تجھے اندھا بنا دے !

عبد اللہ نے جواب دیا:

ماموں جان !بھوک ، مصیبت ، محاصرے کی سختی اور ہزاروں دوسری بدبختیوں نے مجھے یہاں تک پہنچایا ہے۔ میں اپنے قبیلہ کے پاس جانا چاہتا ہوں اور تمہاری مدد کا محتاج ہوں

ابجر نے کہا:

میں قسم کھاتا ہوں کہ تم جھوٹ بول رہے ہو!پھر بھی میں تمہاری مدد کروں گا۔

اس کے بعد عبد اللہ کو کچھ توشۂ راہ اور ایک جوڑا جوتے دیکر کیمپ سے باہرلے گیا تاکہ اسے روانہ کر دے ۔جب یہ لوگ کیمپ سے ذرا دور پہنچے تو '' ابجر'' نے عبداللہ سے کہا:

جائو خدا کی قسم تم آج رات میرے لئے بہت برے بھانجے تھے !

عبداللہ نے منذر کی سپاہ سے دور ہونے کے لئے قلعہ کا رخ نہیں کیا بلکہ مخالف سمت میں روانہ ہوا ۔لیکن جوں ہی اسے اطمینان ہو گیا کہ وہ '' ابجر '' کی نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے تو فورا مڑ کر اپنے قلعہ کے پاس آپہنچا اور اسی رسی کے ذریعہ قلعہ کی دیوار پرچڑھ کر قلعہ کے اندر چلا گیا اور پوری تفصیل یوں بیان کی :

۱۱۵

ایک شراب فروش تاجر دشمن کی سپاہ کے کیمپ میں آیا تھا ۔تمام سپاہیوں نے اس سے شراب خرید کر پی ہے اور مست و مدہوش ہوکر عقل و ہوش کھو بیٹھے ہیں اور بے عقلی کے عالم میں یہ شور وغل مچارہے ہیں ۔

عبداللہ کی رپورٹ سننے کے بعد مسلمان ننگی تلوار لے کر قلعہ سے باہر آئے اور بجلی کی طرح دشمن پر ٹوٹ پڑے ۔

''حطم '' مستی کے عالم میں اپنی جگہ سے اٹھا اور رکاب میں پائوں رکھ کر بلند آواز سے بولا:

ہے کوئی جو مجھے سوار کرے ؟!

عبداللہ نے جب ''حطم '' کی فریاد سنی تو اس کے جواب میں کہا:

میں ہوں !

اس کے بعد اس کے سر پر تلوار مار کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا اس شبخون میں ''ابجر'' کی ٹانگ بھی کٹ گئی جس کے سبب وہ مرگیا۔

صبح سویرے غنیمت میں حاصل کیاہوا تمام مال و متاع مسلمانوں نے قلعہ ''جواثا'' کے اندر لے جاکر علاء کے سامنے رکھ دیا۔

علاء یوں ہی مشرکین کا پیجھا کرتا رہا اور وہ بھی بھاگتے ہوئے شہر کے دروازے تک پہنچ گئے مسلمانوں کے دبائو نے مشرکین کا قافیہ تنگ کر دیا تھا سرانجام ابن منذر نے علاء سے جنگ ترک کرکے صلح کی درخواست کی ۔علاء نے یہ درخواست اس شرط پر منظور کی کہ اس شہر کے اندر موجود اثاثے کی ایک تہائی اس کے حوالے کی جائے اور شہر کے باہر جو بھی ہے وہ بدستور مسلمانوں کے پاس رہے ۔علاء نے اس فتح کے بعد بہت سا مال و متاع مدینہ بھیج دیا ۔'' منذر نعمان'' جسے '' مخارق'' کہتے تھے ،جان بچا کر شام بھاگ گیا۔ وہاں پر خدا نے اس کے دل کو نورایمان سے منور کیا اور اس نے اسلام قبول کیا ۔اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے آپ کو سرزنش کرتے ہوئے کہتا تھا : میں ''غرور'' نہیں بلکہ مغرور ہوں ۔

۱۱۶

فتح پانے کے بعد علاء علاقہ ''خط'' کی طرف واپس ہوا اور اس نے ساحل پر پڑائو ڈالا ۔ وہ دارین تک پہنچنے کی فکر میں تھا کہ اسی دوران ایک عیسائی شخص اس کی خدمت میں حاضر ہو ااور اس سے مخاطب ہو کر بولا:

اگر میں تمھارے سپاہیوں کو پانی کی کم گہری جگہ کی طرف راہنمائی کر دوں تو مجھے کیا دوگے ؟

چوں کہ علاء کے لئے یہ تجویز خلاف توقع تھی ،اس لئے فورا جواب میں کہا:

جو چاہو گے !

عیسائی نے کہا :

تم سے اور تمھارے سپاہیوں سے '' دارین '' میں ایک خاندان کے لئے امان چاہتا ہوں ۔

علاء نے جواب میں کہا:

میں قبول کرتا ہوں ،وہ تیرے اور تیری خدمات کے پیش نظر امان میں ہوں گے ۔

اس توافق کے نتیجہ میں علاء اور اس کے سوار اس عیسائی کی راہنمائی سے دریا عبور کرکے ''دارین'' پہنچ گئے ۔

علاء نے قہر و غلبہ سے '' دارین '' پر قبضہ کیا اور وہاں کے باشندوں کو قیدی بنا لیا اور غنیمت کے طور پر بہت سا مال و متاع اپنے ساتھ لے کر اپنے کیمپ کی طرف لوٹا۔

بحرین کے باشندے جب '' دارین '' کی سر نوشت سے آگاہ ہوئے اور علاء کی فتحیابی کا مشاہدہ کیا ،تو انھوں نے بھی تجویز پیش کی کہ '' ہجر '' کے باشندوں کی طرح صلح کا معاہدہ کرنے کے لئے آمادہ ہیں ۔

ہم نے سیف کی روایتوں کا دیگر مورخین کی روایتوں سے موازنہ کیا اور اس سلسلے میں ''کلاعی'' کی تمام روایتوں کو اور ''بلاذری'' کی روایتوں کا خلاصہ بیان کیا لیکن ان میں عفیف اور اس کے اشعار ،شجاعتوں اور رجز خوانیوں اور قبیلہ تمیم کی دلاوریوں کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا۔

۱۱۷

سیف بن عمر کے یہاں '' غرور'' کا نام رکھنے اور اس کے شجرہ نسب کے بارے میں بھی دوسرے مولفین کے ساتھ اختلاف ملتا ہے ۔کیوں کہ سیف نے غرور کو منذر کے سوتیلے بھائی کے طور پر ذکر کیا ہے جب کہ دوسرے لکھتے ہیں کہ اس کا اصلی نام منذر بن نعمان تھا اور اس کا کوئی بھائی نہیں تھا

سیف تنہا فرد ہے جو لکھتا ہے کہ عفیف نے تلوار کی ایک ضرب سے ''حطم'' کی ٹانگ کاٹ دی اور''غروربن سوید'' کو قیدی بنا لیا اور خاندان رباب نے اس کی شفاعت کی جس کے نتیجہ میں عفیف نے '' غرور '' کو ان کے احترام میں بخش دیالیکن '''غرور'' کے بھائی ''منذر'' کا سر تن سے جدا کردیا۔

سیف تنہا شخص ہے جس نے ''دارین''کی فتح کو خلافت ابوبکر کے زمانے میں واقع ہونا لکھا ہے اور اس کی بڑے آب وتاب سے تشریح کی ہے ،اس میں کرامتوں اور غیر معمولی واقعات کی ملاوٹ کی ہے جب کہ دوسروں کا اعتقاد یہ ہے کہ ''دارین '' کو''کرازنکری'' نامی ایک عیسائی کی مدد اور راہنمائی سے خلیج کے کم عمق والی جگہ سے عبور کرکے فتح کیاگیا ہے اور یہ فتحیابی خلیفہ عمر کے زمانے میں واقع ہوئی ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہم نے ''علاء حضرمی '' کے کرامات کے افسانہ کا سرچشمہ ''ابوہریرہ'' کی روایات میں پایا ،جہاں پر وہ کہتاہے :

علاء نے بحرین جاتے ہوئے ''دھنا'' کے صحرا میں دعا کی اور خدا ئے تعالیٰ نے اس تپتی سرزمین پر ان کے لئے پانی کے چشمے جاری کئے!جب وہ وہاں سے اٹھ کر چلے گئے اور کچھ فاصلہ چلنے کے بعد ان میں سے ایک آدمی کو یاد آیا کہ وہ اپنی چیز وہاں چھوڑ آیا ہے تو وہ دوبارہ اس جگہ کی طرف لوٹا اور وہاں پر اپنی چیز تو پائی لیکن پانی کا کہیں نام و نشان نہ دیکھا ۔

ابو ہریرہ نے مزید کہا ہے :

میں نے دارین کی جنگ میں دیکھا کہ علاء اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر دریا سے عبور کرگیا۔

ایک اور روایت میں کہتا ہے:

۱۱۸

علاء اور اس کے سپاہی دریا کو عبور کر گئے جب کہ کسی کے اونٹ کا پائوں یا کسی چار پا حیوان کا سم تک تر نہیں ہوا تھا!!

یہ تھے صدر اسلام کے ایک راوی ابو ہریرہ کے بیانات جب کہ بلاذری تاکید کرتا ہے کہ ''کرازنکری'' نے اہنمائی کرکے علاء اور اس کے سپاہیوں کو ایک کم عمق والی جگہ سے دریا عبور کرایا اور دارین کی طرف راہنمائی کی ۔

یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ ابو ہریرہ اور دیگر لوگوں کے بیانات میں بھی عفیف کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا ہے ۔

سیف کی روایتوں کا دوسروں سے موازنہ

ہم دیکھتے ہیں کہ سیف بن عمر کی نظر میں اس کے خاندان کے افراد کے مرتد ہو جانے اور اسلام سے منھ موڑ لینے کی ،ان کے مفاخر اور میدان جنگ میں ان کی شجاعتوں اور دلاوریوں کو ثابت کرنے کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔

چوں کہ تمیم کے بعض قبائل کے ارتداد کا مسئلہ نا قابل انکار حد تک واضح تھا، اس لئے سیف اپنے تعصب کی بناء پر یہ کوشش کرتا ہے کہ اسی موضوع سے اپنے قبیلہ کے حق میں استفادہ کرے، اس لئے اپنے خاندان کے افراد کے مرتد ہوجانے کا اعتراف کرتے ہوئے مسئلہ کو ایسے پیش کرتا ہے کہ اسی خاندان کے مسلمان اور ثابت قدم افراد تھے جو اپنے خاندان میں اسلام کے قوانین سے سرکشی کرنے والوں اور مرتد ہونے والوں کی خود تنبیہ اور گوش مالی کرتے تھے اور دوسرے قبائل اپنے معاملات میں دخل دینے اور ارتداد کے مسئلہ کو حل کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔

سیف''ہجر''میں ''حطم'' اور قبیلۂ قیس کے ارتداد کے بار ے میں بھی قبیلہ تمیم کے افتخارات میں ایک اور فخر کا اضافہ کرنے میں نہیں چوکتا، جیسا کہ ہم نے دیکھا وہ اپنے خیالی کردار ''عفیف'' کو مأمور کرتا ہے کہ قبیلہ قیس کے سردار ''حطم'' کی ٹانگ کو تلوار کی ایک ضرب سے کاٹ ڈالے ، شاہزادہ ربیعہ کو قیدی بنالے ، ''غرور'' کے بھائی''منذر'' کا سرتن سے جدا کرے اور ''غرور ''کو آزاد کرکے قبائل رباب پر احسان کرے۔

اس نے ''عفیف'' کو ایک ایسا بے باک بہادر اور دلاور بناکر پیش کیا کہ سپہ سالار نے اس پر مہربان ہوکر اسے انعام واکرام سے نوازا۔

۱۱۹

سیف،تاریخ کے حزانے سے چند افسانوی افراد کے لئے شجاعت پر مبنی بے بنیاد سخاوت کا اظہار کرتے وقت اپنے ہم معاہدہ قبیلۂ ''رباب'' کو فراموش نہیں کرتا ہے اور کہتا ہے کہ قبیلہ رباب کی شفاعت اور مداخلت سے غرور کو قتل نہیں کیا گیا اور اسے بخش دیا گیا کیونکہ غرور قبیلہ رباب کا بھانجا تھا، بہر صورت اپنے ہم معاہد کا احترام واجب ہے!توجہ فرمائیے کہ وہ عفیف کی زبانی درج ذیل اشعار میں کس طرح خاندان رباب کا نام لیتا ہے:

کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ہم تمیم کے سرداروں اور رباب کے بزرگوں نے کس طرح دشمن کے ہم پیمانوں کو تہس نہس کیا ذلیل و خوار کرکے رکھدیا۔

یعنی سیف نے اس مسئلہ کو ایسے پیش کیا ہے کہ قبیلہ رباب کو یہ حق تھا کہ وہ عفیف سے ''غرور'' کی آزادی کی اُمید رکھیں ۔

ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ علاء اور اس کے سپاہیوں کے لئے ''دھنا '' کے صحراء میں بیٹھے اورشفاف پانی کے چشمے جاری ہونے کا افسانہ ابوہریرہ کی روایت کی وجہ سے دست بدست پھیلاہے۔ سیف نے خاص موقع شناسی کے پیش نظر فرصت سے فائدہ اٹھاکر اس روایت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے، روایت میں ابوہریرہ کی خالی چھوڑی گئی جگہوں کو پر کرکے اور داستان میں دست اندازی کرکے اسے زیبا اور پرکشش بنادیا ہے اور اسے ایک قطعی سند کے طور پر اپنی کتاب ''فتوح'' میں درج کیا ہے۔

لیکن ابوہریرہ کی روایت میں اپنے دیرینہ دشمن علاء جیسے ایک قحطانی یمانی شخص کے لئے کرامت اور غیر معمولی کارنامے دیکھ کر تاریخ میں مداخلت اور ہیر پھیر کرکے ابوہریرہ کے اس جھوٹے با افتخار میڈل کو بھی علاء کے سینہ سے نوچ کر پھینک دیتا ہے۔ملاحظہ فرمایئے سیف اپنے افسانہ کے ضمن میں فتوحات اور لشکر کشی میں علاء کی ''سعد وقاص مضر می '' اسے حاسدانہ دیکھا دیکھی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175