توحید مفضل

توحید مفضل44%

توحید مفضل مؤلف:
زمرہ جات: توحید
صفحے: 175

توحید مفضل
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 175 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130947 / ڈاؤنلوڈ: 6123
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

( مفضل حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں )

مفضل کہتے ہیں جیسے ہی صبح ہوئی میں روانہ ہوا اور اجازت لینے کے بعد آنحضرت کی خدمت میں پہونچا۔ آپ نے مجھے بیٹھنے کو کہا، میں بیٹھ گیا، پھر آپ کھڑے ہوئے اور ایک خالی کمرے کی طرف چلنے لگے، اور مجھے اپنے پیچھے آنے کو کہا میں آپ کے پیچھے چلنے لگا جیسے ہی آپ کمرے میں داخل ہوئے میں بھی آپ کی اتباع کرتا ہوا کمرے میں داخل ہوگیا، حضرت بیٹھ گئے تومیں بھی آپ کے سامنے بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا: اے مفضل آج کی رات میرے وعدہ کے انتظار میں تم پر کافی طولانی گذری میں نے کہا جی ہاں اے میرے آقا و مولاء اس کے بعد آپ نے کلام شروع کیا، اے مفضل سب سے پہلے بھی خدا تھا اس سے پہلے کوئی چیز نہ تھی وہ باقی ہے، اس کی کوئی انتہا نہیں ہے اس کا شکر اس پر کہ جو کچھ اس نے ہم پر الہام کیا، اور جو کچھ ہمیں عطا کیا،اور خداوند عالم نے اپنے علم کے لئے ہمیں منتخب کیا اور بلند مقام عطا کیا اور اس نے اپنے علم سے ہمیں تمام مخلوقات پر فضیلت عطا کی، اور اپنی حکمت سے ہمیں اپنی تمام مخلوق پر شاہد و امین قرار دیا (مفضل کہتے ہیں) میں نے عرض کیا اے میرے آقا و مولا کیا آپ اس بات کی اجازت مرحمت فرمائیں گے کہ میں ان مطالب مشروع کو لکھ لوں۔ اور یہ کہہ کر میں نے قلم و کاغذ آمادہ کیا۔ آپ نے فرمایا مفضل لکھ لو۔

۴۱

( جہل و نادانی خلقت میں تدبیر کے انکار کا سبب )

اے مفضل: خلقت کی حقیقت اور اس کے علل و اسباب میں شک کرنے والے لوگ دراصل جاہل ہیں اور ان کی فکر ہر اس چیز کی حقیقت و حکمت کہ جسے خالق نے پید کیا مثلاً برّی ، بحری، زمینی ، پہاڑی مخلوق میں کوتاہ ہے اور یہ اپنی کم علمی اور ضعیف بصیرت کی وجہ سے اس کا انکار کرتے ہیں اور اسے جھٹلاتے ہوئے اس سے روگردانی کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اشیاء کی خلقت کا بھی انکار کرتے ہیں اور اس بات کے دعویدار ہیں کہ تمام چیزیں محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں جن میں نہ کوئی ہنر مندی نہ اندازہ گیری ہے اور نہ کسی خالق ومدبر کی حکمت شامل حال ہے خداوند عالم ان صفات سے بھی بالاتر ہے جن کے ذریعہ اس کی تعریف بیان کی جاتی ہے خدا انہیں نیست ونابود کرے کہ یہ لوگ اُسے چھوڑ کر کون سے پناہ گاہ کی طرف رخ کرتے ہیں یہ لوگ گمراہی کے اندھیرے اور پریشانی کے عالم میں ان نابیناؤں کی طرح ہیں جو ایک ایسی عمارت میں داخل ہوں کہ جس کی بناوٹ محکم و زیبا ، خوبصورت فرش سے آراستہ مختلف قسم کی غذائیں، لباس اور تمام اشیاء مکمل معیار کے ساتھ انسان کی ضرورت کے مطابق ہوں۔ اور یہ لوگ اس کے اندر دائیں اور بائیں آمدورفت کرتے ہیں اس کے کمروں میں داخل و خارج ہوتے ہیںلیکن اس طرح کہ جیسے ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے کہ وہ اس عمارت کی بناوٹ و سجاوٹ اور جو کچھ اس میں مہیا و آمادہ کیا گیا اسے نہیں دیکھ پاتے افسوس ایسے لوگوں پر جو یہ جانتے ہیں کہ اس میں ہر چیز مناسب جگہ پر نصب ہے اور وہ ان تمام چیزوں کی احتیاج رکھتے ہیں اس کے باوجود وہ ان کے اغراض و مقاصد سے جاہل اور نا آگاہ ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ کس کے لئے بنی ہیں اور فوراً غصہ کی حالت میں اپنی تند وتیز زبان کو اس عمارت اور اس کے بانی کی شان میں دراز کرتے ہیں یہ حال اس طبقے کے لوگوں کا ہے جو أمر خلقت میں استعمال شدہ تدبیر کا فقط اس لئے انکار کرتے ہیں کہ ان کا ذہن اشیاء کی علت اور ان کے اسباب کے ادراک سے قاصر ہے پس وہ اس عالم میں حیرت زدہ

۴۲

ہیں اور ادہر اُدہر دیکھ رہے ہیں اور جو کچھ استحکام اور تدیر اس میں موجود ہے اسے سمجھنے سے قاصر ہیں صد حیف ایسے لوگوں پر جو اشیاء کی علت اور ان کے فوائد کو نہ جاننے کی وجہ سے اپنی تند و تیز زبان کو اس کی شان میں دراز کرتے ہیں اور یہ کہہ اٹھتے ہیں کہ جہاں محض اتفاقات کا نتیجہ ہے جیسا کہ فرقہ مانویہ(۱) اور فرقہ ملحدہ(۲) اور انہی کی طرح دوسرے گمراہ فرقے کہ جنہوں نے اطاعت پروردگار کو چھوڑ کر اپنے آپ کو بے بنیاد باتوں میں مشغول کر رکھا ہے۔ ایسی حالت میں ان لوگوں پر کہ جنہیں خداوند عالم نے اپنی نعمتوں کی معرفت ''اپنے دین کی ہدایت '' اور صنعت مخلوق میں فکر و تأمل کی توفیق عطا کی اور ان لوگوں نے خلقت کے رموز اور اسرار و لطائف و تدابیر اور ان نشانیوں کو جان لیا کہ جو اس کائنات میں کارفرما ہیں اور اپنے خلق کرنے والے کی طرف اشارہ کررہی ہیں۔ لازم ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے اور اپنے آقا و مولاء کا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کریں اور اس امر میں استقامت کو ملحوظ نظر رکھیں اور اس میں اضافہ کے لئے اپنے اندر بصیرت پیدا کریں اس لئے کہ وہی تو خدا ہے کہ جس کا نام بزرگ و برتر ہے جو فرماتا ہے۔

(لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَاِن کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِی لَشَدِیْد) (۳)

اگر تم نے میری نعمتوں پر شکر کیا، تو میں اس میں اضافہ کروں گا،اور اگر تم نے کفر کیا تو میرا عذاب شدید و سخت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ ایسا دین کہ جو یہودیت ، عیسائیت، اور مجوسیت سے مل کر بنا۔

(۲)۔ بے دین

(۳)۔ سورہ ابراہیم آیت ۷

۴۳

( وجود خدا پر پہلی دلیل )

اے مفضل: خداوند عالم کے وجود اور اس کی طہارت اور پاکیزگی پر پہلی دلیل اس جہان کا وجود اس کی آمادگی اس کے اجزاء کی بناوٹ اور اس کا نظام ہے اس لئے کہ اگر تم جہان کا جس انداز سے وہ بنا ہوا ہے مشاہدہ کرو تو قوت فکر سے اس نتیجے پر پہنچو گے کہ یہ جہان ایک مکان کی طرح ہے، جس میں وہ تمام اشیاء موجود و مہیا ہیں کہ جن کی اس کے اندر رہنے والوں کو ضرورت و احتیاج ہے جیسے آسمان کا شامیانہ مثل چھت، زمین کا بچھونا مثل فرش، ایک دوسرے سے نزدیک ستارے مثل چراغ، جواہرات و خزانے مثل ذخیرے کے ہیں خلاصہ یہ کہ ہر چیز اپنے اپنے کام کی مناسبت سے آمادہ و مہیا دکھائی دیتی ہے اور انسان اس مکان میں رہنے والا ہے مکان کی تمام مہیا و آمادہ چیزوں کو اس کے اختیار میں دے دیا گیا ہے جیسے اقسام نباتات کہ جن سے وہ اپنی بہت سی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے، اصناف حیوانات کہ جن کے وسیلہ سے وہ بہت سے فائدوں سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ پس ان تمام باتوں سے یہ ثابت ہوتا کہ جہان ، تدبیر ، حکمت اور مضبوط نظام کے تحت وجود میں آیا ہے اور اس کا پیدا کرنے والا ایک ہے جس نے اس جہان کے اجزاء کی بناوٹ کو ایک دوسرے کے ساتھ مرتب و منظم کیا ہے اور وہ خدا صاحب عزت وجلالت اور پاک و پاکیزہ اور بلند ہے کہ جس کا چہرہ صاحب جلالت او ر کرامت ہے جس کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں ، خداوند عالم ان تمام اقوال و افکار سے بالاتر ہے جو مشرکین اور گمراہ لوگ اس کے بارے میں رکھتے ہیں ۔

۴۴

( انسان کے اندر واضح اور روشن آیات خدا کے وجود پر دلالت کرتی ہیں )

اے مفضل اب میں تمہیں انسان کی پیدائش کے بارے میں بتاتا ہوں کہ تم اس سے عبرت حاصل کرو، اے مفضل انسان کے اندر تدبیرپرپہلی دلیل وہ حکمت ہے جو اس وقت استعمال ہوتی ہے جب وہ رحم مادر میں تین تاریکیوں (۱۔ تاریکی شکم ،۲۔ تاریکی رحم ، ۳۔ تاریکی مشیمہ(۱) ) میں لپٹا ہوا تھا،کہ جب اس کے پاس غذا کو طلب کرنے اور اذیت کو دور کرنے کے لئے کوئی چارہ وعلاج نہ تھا،نہ فائدے کو حاصل کرسکتا تھا اور نہ نقصان کو دور ، ایسی صورت میں خون حیض کے ذریعہ اُسی طرح اس کی غذا فراہم کی جاتی ہے جس طرح پانی پودوں کے لئے غذا فراہم کرتا ہے، یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک اس کا جسم اور اس کی کھال اس قدر محکم اور قوی ہوجائے کہ وہ تیز اور تند ہوا کا مقابلہ کرسکے، اور اس کی آنکھیں روشنی سے مقابلہ کے لئے آمادہ ہوجائیں اسی اثناء میں درد زہ اس کی ماں کو بے چین کرتا ہے، یہ درد اس قدر بے چینی اور دباؤ کا سبب بنتا ہے کہ بچے کی ولادت ہوجاتی ہے جب بچے کی ولادت ہوچکی ہو، تو وہ خون جو رحم میں اس کی غذا فراہم کرتا تھا، اب وہی اس کے ماں کے پستانوں کی طرف جاری ہوجاتا ہے اور اس کا رنگ و ذائقہ تبدیل ہوکر دودھ کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور یہ دودھ پہلی بہتر غذا اور بچہ کے مزاج کے عین مطابق ہے بچہ پیدائش کے وقت اپنی زبان کو اپنے منھ میں پھرا کر اور ہونٹوں کو حرکت دے کر غذا کی ضرورت کا اظہار کرتا ہے، ایسے میں اس کی ماںاپنے پستانوں کو جو دو ظروف کے مانند آویزاں ہیں اس کی طرف بڑھاتی ہے اور بچہ ایسی حالت میں جب کہ اس کا بدن نرم اور اس کی غذائی نالیاں بالکل باریک ہیں دودھ کو غذا کے طور پر ان سے حاصل کرتا

ہے، اور اس طرح نشوونما پاتا ہوا حرکت کو اپنے بدن میں میں ایجاد کرتا ہے، جس کے بعد اب اسے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بچہ دانی

۴۵

ایسی غذا کی ضرورت ہوتی ہے جو ذرا سخت ہو تاکہ اس کا جسم محکم اور قوی ہوجائے، لہٰذا غذا کو کاٹنے اور چبانے کے لئے دانت نمودار ہوتے ہیں تاکہ وہ غذا کو نرم بنائیں اور اسے نگلنے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے، یہ بچہ اس طرح منزلیں طے کرتا ہوا حد بلوغ تک پہونچ جاتا ہے اگر وہ بچہ لڑکا ہو تو اس کے چہرے پر بال نکل آتے ہیں، یہی علامت زکوریت اور عزت مرد ہے کہ جس کے ذریعہ سے وہ طفولیت اور خواتین کی شباہت سے باہر آجاتا ہے، اور اگر یہ بچہ لڑکی ہو تو اس کا چہرہ ویسا ہی بالوں سے صاف رہتا ہے تاکہ اس کی زیبائی و درخشندگی باقی رہے کہ جو مردوں کے میلان کا سبب ہے اس لئے کہ عورت ہی کے وسیلہ سے نسل جاری و باقی رہتی ہے۔

اے مفضل۔ اس حسن تدبیرسے عبرت حاصل کرو، جوانسان کے مختلف احوال میں استعمال ہوئی ہے کیا یہ ممکن ہے کہ انسان بغیر کسی خالق و مدبر کے وجود میں آیا ہو؟ اگر جنین کو خون نہ ملتا تو وہ اس پودے کے مانند خشک سالی کا شکار ہوجاتا جس کی آبیاری نہ کی گئی ہو اور اگر جنین کو کامل ہونے کے بعد ولادت کے ذریعہ رحم کی تنگی سے نہ نکالا جاتا تو ہمیشہ رحم میں زندہ درگور ہوکر رہ جاتا، اور اسی طرح اگر ولادت کے بعد اس کے لئے دودھ کو جاری نہ کیا جاتا تو بھوک سے مرجاتا یا پھر ایسی غذاؤں کے استعمال کرنے پر مجبور ہوتا جو اس کے بدن اورصحت کے لئے مناسب نہ ہوتیں اور اگر اس وقت جبکہ وہ غلیظ اور سخت غذا کے استعمال کے قابل ہوجاتا دانت نہ نکلتے تو غذا کا چبانا اس کے لئے ناممکن ہوتا جس کے سبب اس کا نگلنا بچہ کیلئے دشواری کا باعث بنتا اور اگر وہ دودھ جو اس کی غذا تھا، ہمیشہ اس کی غذا رہتا تو اس کا جسم کبھی محکم نہ ہوتا جس کی وجہ سے وہ دشوار اور مشکل کام انجام دینے سے پرہیز کرتا، اور اس کی ماں ساری زندگی اس کی پرورش میں لگی رہتی اور یہ بات دوسرے بچوں کی پرورش میں رکاوٹ کا سبب بنتی اور اگر حد بلوغ پر پہنچنے کے بعد اس کے چہرے پر داڑھی نہ نکلتی تو ہمیشہ عورت کی شبیہ رہتا، اور وہ وقار اور جلال جو مردوں کے لئے ہے ہرگز نہ ہوتا۔

۴۶

مفضل کہتے ہیں: میں نے کہا اے میرے آقا و مولا۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض مردوں کے داڑھی نہیں نکلتی اور وہ اپنی سابقہ حالت پر باقی رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ بوڑھے ہوجاتے ہیں اس میں کیا حکمت ہے؟ امام نے فرمایا: یہ ان کے اپنے کئے کا نتیجہ ہے، ورنہ خدا اپنے بندوں پر ہرگز ظلم نہیں کرتا اب ذرا بتاؤوہ کون ہے جو بچہ کی اس مرحلہ میں دیکھ بھال کرتا ہے جبکہ وہ رحم مادر میں ہے اس کے لئے ہر اس چیز کو فراہم کرتا ہے ، جس کی اس بچے کو ضرورت و احتیاج ہے ، سوائے اس کے اور کوئی نہیں ہے کہ جس نے اسے پیدا کیا ہے، پس وہ چیز کہ جس کا وجود نہ تھا بہترین طریقہ پر وجود میں آتی ہے، اور اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ اس قسم کے مدبرانہ کام محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں تو اس وقت یہ لازم آتا ہے کہ قصد و ارادہ کے ذریعہ غیر منظم کام وجود میں آئیں اس لئے کہ یہ دونوں اتفاق کی ضد ہیں اور یہ گفتار بدترین گفتار ہے اور اگر کوئی ایسا کہے بھی تو یہ کہنا اس کے جاہل ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ اتفاق صحیح اور درست کام انجام نہیں دیتا اور نہ ہی تضاد نظم کو ایجاد کرتا ہے، خداوند عالم بلند و برتر ہے ان تمام افکار سے جو کم ذہنیت کے لوگ اس کے بارے میں رکھتے ہیں۔

۴۷

( بچہ اگر ولادت کے وقت عاقل ہوتا تو کیا ہوتا؟ )

اے مفضل ! بچہ اگر وقت ولادت عاقل ہوتا تو منکر عالم ہوجاتا اور متحیر ہو کر رہ جاتا اور اپنی عقل کھو بیٹھتا ایسا اس لئے ہوتا کہ وہ لمحہ بہ لمحہ، روز بروز ایسی چیزوں کا مشاہدہ کرتا جن کے بارے میں وہ اطلاعات اور معلومات نہ رکھتا مثلاً مختلف حیوانات ، پرندے اور اس قسم کی دوسری عجیب و غریب مخلوق جسے اس نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا اس بات کو اس چیز سے سمجھ سکتے ہو کہ اگر کوئی عاقل شخص ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرے تو تم اسے حیران و پریشان پاؤگے، وہ شخص جلد اہل شہر کی زبان نہیں سیکھ سکتا اورنہ جلد ہی ان کے آداب و رسومات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال سکتا ہے ، بالکل اس کی وہی کیفیت ہے کہ جو اس کے بچپنے میں تھی جبکہ وہ غیر عاقل تھا۔اس کے علاوہ اگر بچہ عاقل پیدا ہوتا ،تو احساس حقارت کو اپنے اندر محسوس کرتا ، ایسا اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں کی گود میں یا کپڑوں میں لپٹا ہوا پاتا اور وہ اپنے جسم کی نرمی اور تری اور نزاکت حفاظت کے لئے ایسی حالت میں رہنے پر مجبور ہوتا، اس کے علاوہ بچہ اگر عاقل پیدا ہوتا تو اس کے اندر وہ لذت و لطافت جو اس وقت بچے میں پائی جاتی ہے نہ ہوتی ان تمام اسباب کی وجہ سے بچہ دنیا میں غیر عاقل پیدا ہوتا ہے تاکہ وہ اشیاء کو اپنی ناقص معرفت اور ناقص ذہن کے سہارے پہچانے ، پھر تم دیکھتے ہو کہ آہستہ آہستہ اس کی معرفت پڑھتی ہے یہاں تک کہ تمام چیزوں سے مانوس ہونے لگتا ہے اور تدریجاً تمام اشیاء سے آگاہی پیدا کرتا ہوا حالت حیرانی و پریشانی سے باہر آجاتا ہے، اشیاء کو اپنی عقل کی مدد سے زندگی کے استعمال میں لاتا ہے، اور اس طرح وہ یا شکر گزاروں میں سے ہوجاتا ہے یا غافلوں میں سے اس کے علاوہ عاقل پیدا ہونے کی صورت میں دوسرے نتائج بھی برآمد ہوسکتے تھے، وہ یہ کہ اگر بچہ عاقل پیدا ہوتا تو خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتا اور تربیت اولاد کی اُس لذت کو ختم کردیتا کہ جو خداوند عالم نے اس کے اندر رکھی ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں کی صحیح تربیت کریں اور انہیں ایک صحیح نتیجے تک پہنچادیں ، یہی وہ چیز ہے جو

۴۸

فرزند پر واجب کرتی ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ جب وہ اس کی نوازش کہ محتاج ہوں ،نیکی کرے، ورنہ کوئی اولاد اپنے والدین سے الفت و محبت نہ رکھتی اور والدین بھی اپنی اولاد کے سلسلے میں لاپروائی سے کام لیتے اس لئے کہ اولاد اپنی تریبت میں والدین کی توجہ کی محتاج نہ رہتی اور ولادت کے وقت ہی ان سے جدا ہو جاتی، ایسی صورت میںکوئی شخص اپنے والدین کو نہ پہچانتا ،اور اس صورت میں اپنی ماں بہنوں اور دوسرے محارم سے خواستگاری کرتا، کمترین قباحت عاقل پیدا ہونے کی صورت میں یہ ہوتی یا یوں کہوں کہ بدترین اور اسے شدید رنجیدہ کرنے والی بات یہ ہوتی کہ وہ اپنی ماں کی شرم گاہ کو دیکھتا کہ جو اس کے لئے حلال نہیں، اور یہ ہرگز صحیح نہیں کہ وہ اسے دیکھے تو کیا تم نہیں دیکھتے کہ خلقت میں کس طرح ہر چیز اپنی مناسب جگہ پر موجود ہے، خلاصہ یہ کہ تمام امور چاہے وہ جزئی ہوں یا کلی خطا و لغزش سے دور ہیں۔

( بچہ کے گریہ کے فوائد )

اے مفضل بچہ کے گریہ کے فوائد کو جان لو ، کہ بچہ کے دماغ میں ایک ایسی رطوبت ہے جو اگر اس کے دماغ میں باقی رہ جائے، تو اس کے لئے بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے جیسے بچہ کا اندھا ہونا اور اس قسم کے دوسرے امراض، اس کا رونا ہی اس رطوبت کو دماغ سے نیچے لانے کا سبب ہے، جس کے نتیجے میں اس کا بدن صحیح و سالم رہتا ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بچہ اپنے رونے کے فائدے سے ہم کنار ہورہا ہو، اور اس کے والدین اس سے بے خبر ہوں، اور صد در صد ان کی یہی کوشش ہو کہ بچہ خاموش ہوجائے اس لئے کہ وہ نہیں جانتے کہ بچہ کا رونا ہی اس کے حال و مستقبل کے لئے بہتر ہے ، اسی طرح کی بہت سی چیزیں ہیں کہ جن میں بے شمار فوائد پوشیدہ ہیں ، لیکن لوگ ان سے جاہل اور ملحدین ان سے بے خبر ہیں، اور اگر جان بھی لیں تو ان کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت انصاف سے کام نہیں لیتے اور

۴۹

کہہ اٹھتے ہیں کہ ان چیزوں میں کوئی فائدہ نہیں، ہاں یہ لوگ جاہل اور ان چیزوں کے اسباب و علل سے بے خبر ہیں ، اس قسم کی بہت سی چیزیں ہیں جنہیں منکرین نہیں جاتے مگر عارفین ان سے واقفیت رکھتے ہیں، اور مخلوقات میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں کہ جن تک منکرین نہیں پہنچ پاتے ، مگر خداوند عالم کے علم نے ان کا احاطہ کیا ہوا ہے۔

( بچہ کے منہ سے رال ٹپکنے کے فوائد )

اے مفضل وہ رال جو بچے کے منہ سے ٹپکتی ہے اس میں بھی ایک راز ہے وہ یہ کہ رال بچہ کے بدن سے اس رطوبت کو خارج کرتی ہے جس کے باقی رہ جانے سے ایک بڑے ضرر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جس بچے پر اس رطوبت کا غلبہ ہو جاتا ہے تو وہ رطوبت اسے دیوانگی اور اختلال عقل سے دوچار کردیتی ہے، اور اس کے علاوہ بہت سی بیماریوں جیسے فالج اور لقوہ کا سبب بنتی ہے۔ لہٰذا خداوند عالم نے اس رال کو اس طرح قرار دیا کہ وہ بچہ کے منہ سے ٹپکے تاکہ جوانی میں اس کا بدن صحیح و سالم رہے، خداوند عالم اپنے تمام بندوں پر اپنا فضل و کرم کرتا ہے، چاہے اس کے بندے اس سے بے خبر ہی کیوں نہ ہوں، اگر بندے خداوند عالم کی دی ہوئی نعمتوں کی معرفت حاصل کرلیں ، تو وہ گناہوں سے پرہیز کریں ، پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جس کی نعمتیں اس کے بندوں پر فراوان ہیں چاہے وہ اس کے مستحق ہوں یا نہ ہوں، خداوند عالم بلند و برتر ہے ، اُن تمام افکار سے جو کم ذہنیت کے لوگ اس کے بارے میں رکھتے ہیں۔

۵۰

( مرد و زن میں آلات جماع )

اے مفضل ، اب ذرا غور کرو کہ کس طرح سے خالق دوجہاں نے مرد و زن کیلئے ان کی مناسبت سے آلات جماع کو بنایا مرد کیلئے ایک ایسا آلہ بنایا کہ جو دراز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، تاکہ نطفہ رحم تک پہنچ سکے، اس لئے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو نطفہ کسی دوسری جگہ گر جاتا اور عورت کیلئے آلہ جماع کو ایک عمیق ظرف کی مانند خلق کیا ، کہ جہاں آب مرد و زن ملتے ہیں ، اسی عمیق ظرف میں بچہ رہتا ہے اور نشوونما پاتا ہے، اور یہ ظرف ولادت کے دن تک اس بچہ کی حفاظت کرتا ہے کیا یہ نازک و لطیف کام خداوند حکیم کی حکمت کے تحت نہیں؟

( اعضاء بدن کے کام )

اے مفضل غور کرو بدن کے اعضاء اور ان کے حسن انتخاب پر کہ دو ہاتھ کام کاج کرنے، دو پاؤں راہ چلنے ، آنکھیں راہ کو تشخیض دینے، منہ غذا کو کھانے، معدہ غذا کے ہضم کرنے، جگر خون کا تصفیہ کرنے مختلف سوراخ فضلات کے خارخ ہونے، فرج نسل کو باقی رکھنے گویا جسم کو ہر عضو کسی نہ کسی کا کے لئے خلق کیا گیا ہے، اگر تم غور وفکر اور دقت سے کام لو تو تم دیکھو گے کہ ہر چیز صحیح اور حکمت کے تحت بنائی گئی ہے۔

۵۱

( کائنات کے اُمور طبیعت کا نتیجہ نہیں ہیں )

مفضل کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی مولا بہت سے لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ تمام کام طبیعت انجام دیتی ہے تو آپ نے فرمایا:کہ ان لوگوں سے یہ سوال کیا جائے کہ یہ طبیعت کیا ہے؟ کیا وہ ان کاموں کو بغیر علم و قدرت کے انجام دیتی ہے یا نہیں، پس اگر وہ اس کے علم و قدرت کو ثابت کرتے ہیں تو پھر کیونکر خدا کے اثبات سے انکار کرتے ہیں باجود اس کے کہ یہ تمام کام خداوند عالم کی تدبیر کے تحت انجام پاتے ہیں اور اگر وہ کہیں کہ طبیعت ان کاموں کو بغیر علم و قدرت کے انجام دیتی ہے، تو یہ کہنا بھی ان کا غلط ہوگا اس لئے کہ تم اس کائنات میں علم و قدرت کے آثار کا مشاہدہ کرتے ہو، اور خدائے بزرگ اپنے تمام امور کو اس طبیعت کے تحت انجام دیتا ہے کہ جس سے کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ طبیعت خود مستقل طور سے ان کاموں کو انجام دیتی ہے، اور اس طرح وہ لوگ خدائے حکیم سے غافل ہوجاتے ہیں لیکن ذرا سے غور فکر کہ بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ تمام کام خدا ہی کی طرف سے ہیں۔

( غذا کے جسم میں پہنچنے پر معدہ اور جگر کا حیرت انگیز عمل )

اے مفضل! غذا کے بدن میں پہنچنے اور اس کی تجویز پر غور کرو، جب غذا معدہ میں داخل ہوتی ہے ، تو معدہ اس غذا کو پکا کر بہت ہی باریک پردہ دار سوراخوں کے ذریعہ صاف غذا کو جگر تک پہنچاتا ہے اس لئے کہ اگر گندھی غذا جگر تک پہنچ جاتی ہے تو انسان مریض ہوجاتا ہے،کیونکہ جگر بہت ہی زیادہ نازک اور لطیف ہے،جو فضولات کو اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اب جگر کا کام یہ ہے کہ اس صاف غذا کو قبول کرنے کے بعد اس کو ایک خاص انداز سے خون میں تبدیل کردے جو باریک نالیوں کے ذریعہ جسم کے تمام حصوں میں پھیل جاتاہے، بالکل اسی طرح جس طرح پانی زمین پر پھیل جاتا ہے اور باقی

۵۲

کثافتیں ایک خاص تھیلی میں جمع ہو جاتی ہیں ، جو جنس صفراء میں سے ہے وہ پتے ّکی طرف اور جو جنس سودا میں سے ہے وہ تلی کی طرف روانہ ہو جاتی ہے، اور جو رطوبت باقی بچتی ہے ، وہ مثانہ کی طرف حرکت کرتی ہے ، بدن کی تدبیر و حکمت اور اس کے اعضاء کی مناسبت پر فکر کرو، جو اس کے عین مطابق ہے، اب ذرا دیکھو ان تھیلیوں کی طرف کہ انہیں کس طرح تیار کیا گیا ہے،جو اس بات کی بالکل اجازت نہیں دیتی ہیں کہ کثافتیں بدن میں منتشر ہو کر بدن کو مریض اور اسے ہلاکت تک پہنچادیں۔کس قدر مبارک ہے وہ ذات کہ جو محکم اور قوی ارادہ رکھتی ہے، تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیںجن کا وہ لائق ہے۔

( حیات انسانی کا پہلا مرحلہ )

مفضل کہتے ہیں میں نے عرض کی! اے میرے آقا و مولا اب آپ میرے لئے بدن کی نشوونما اور یہ کہ وہ کس طرح حد کمال تک پہنچتا ہے، بیان فرمائیں ،آپ نے فرمایا اے مفضل ، حیات انسانی کا پہلا مرحلہ تصویر جنین ہے جہاں نہ اسے کوئی آنکھ دیکھ پاتی ہے اور نہ ہی کوئی ہاتھ اس تک پہنچ سکتا ہے، ایسی حالت میں اس کی تربیت خالق حکیم کرتا ہے یہاں تک کہ وہ تمام اعضاء جیسے عضلات ، ہڈیاں، گوشت ، چربی، پٹھے ، رگیں اور نرم ہڈیوں سے مرکب و مجہّز ہو کر باہر آتا ہے، اور جیسے ہی وہ باہر آتا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ کس طرح اس کے اعضاء اپنی شکل و صورت پر باقی رہ کر بغیر کسی کمی و بیشی کے رشد کرتے ہیں ، اور پھر ایک خاص حد پر پہنچ کر رک جاتے ہیں، اور رشد نہیں کرتے چاہے اس شخص کی زندگی کوتاہ ہو یا طویل کیا یہ سب کام تدبیر و حکمت کے تحت نہیں ہیں؟

۵۳

( انسان کی ایک خاص فضیلت )

اے مفضل، اس صفت و فضیلت پر غور کرو، جو خداوند عالم نے اپنی تمام مخلوق میں فقط انسان کو عطا کی وہ یہ ہے کہ وہ سیدھا کھڑا ہوسکتا ہے، صحیح طریقے سے بیٹھ سکتا ہے، اور اسے ہاتھوں جیسی نعمت سے نوازا ہے، جن کے ذریعے وہ اپنے امور انجام دیتا ہے، لیکن اگر اس کے ہاتھ بھی چوپاؤں کی طرح ہوتے تو وہ ان کاموں کو انجام نہیں دے سکتا تھا۔

( حواس خمسہ کے صحیح مقامات )

اے مفضل! اب ذرا غور و فکر کرو ان حواس پر جو خداوند عالم نے انسان کو عطا کئے اور اسے اپنی تمام مخلوق میں فضیلت عطا کی، ذرا دیکھو، خداوند عالم نے آنکھوں کو سر پر کس طرح قرار دیا جیسے کوئی چراغ مینارہ پر ہو، تاکہ اشیاء کی اطلاع ممکن ہو سکے، اور انہیں نچلے اعضاء مثلاً ہاتھ پاؤں وغیرہ میں نہ رکھا تاکہ معرض آفات قرار نہ پائیں جب ہاتھ پاؤں کام میں مشغول ہوں تو یہ ہر قسم کی ضرر اور خطرہ سے محفوظ ہوں، اور نہ ہی آنکھوں کو درمیانی اعضاء جیسے شکم یا کمر پر قرار دیا کہ یہاں آنکھ کے لئے گردش کرنا دشوار ہوجاتا اور کیوں کہ اعضاء میں سر سے بہتر کوئی دوسرا عضو نہیں، لہٰذا خداوند عالم نے اسے حواس کا مرکز بنایا ہے، اور وہ ان حواس پر صومعہ(۱) کے مانند ہے۔ خدا وند عالم نے انسان کیلئے پانچ مختلف حواس کو بنایا، تاکہ پانچ مختلف چیزوں کا ادراک کرسکے، آنکھیں دیکھنے کیلئے بنائی گئیں ہیں تاکہ رنگوں کو درک کرسکیں، اس لئے کہ اگر رنگ ہوتے لیکن انہیں دیکھنے کیلئے آنکھیں نہ ہوتیں تو رنگوں کا ہونا

بے فائدہ ہوتا، کان آواز سننے کیلئے بنائے گئے ہیں، اگر آواز ہوتی مگر انہیں سننے کیلئے کان نہ ہوتے تو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ خانقاہ، یا پہاڑ کی چوٹی پر راہب کی عبادت گاہ۔

۵۴

آواز کا ہونا بے جا ہوتا، اور اسی طرح تمام حواس اور اس کے برعکس اگر دیکھنے کے لئے آنکھیں تو ہوتیں، لیکن رنگ نہ ہوتے تو ایسی صورت میں آنکھوں کا ہونا کوئی اہمیت نہ رکھتا، اسی طرح اگر کان ہوتے لیکن آواز نہ ہوتی تو کانوں کا ہونا بے محل ہوتا ، ذرا دیکھو تو کس طرح سے بعض چیزیں بعض دوسری چیزوں کو درک کرتی ہیں، اور ہر قوت ِ حس کے لئے ایک محسوس مختص ہے، کہ وہ فقط اسے درک کرے، اور ان محسوسات کیلئے دو چیزیں اور بھی ہیں جو قوت حس اور محسوس کے درمیان رابطہ ہیں، کہ اگر یہ دو چیزیں نہ ہوں تو قوت حس ہرگز محسوس کو درک نہیں کرسکتی، اور وہ دو چیزیں ، روشنی اور ہواہے۔ اس لئے کہ اگر روشنی رنگ کوآشکار نہ کرے تو آنکھ انہیں ہرگز درک نہیں کرسکتی، اسی طرح ہوا اگر آواز کو کان تک نہ پہنچاتی تو کان کبھی بھی آواز کو نہیں سن سکتے تھے کیا اب بھی صاحبان فکر کے لیے قوتِ حس ، محسوس اور ان کے روابط کے بارے میں کوئی بات پوشیدہ رہ جاتی ہے، کہ جن کے بغیر ادراک ممکن نہیں ہوتا اور یہ کہ وہ کس طرح بعض بعض کو درک کرتے ہیں ، یہ وہ تمام چیزیں ہیں کہ جو خداوند لطیف و خبیر کے قصد و ارادہ اور اس کی اندازہ گیری کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔

( عقل ، آنکھ اور کان کی عدم موجودگی اختلال کا سبب )

اے مفضل غور و فکر کرو، اس شخص کے بارے میں کہ جو اپنی آنکھ سے محتاج ہے، کہ اس کے کاموں میں کسی قدر خلل ایجاد ہوتا ہے، کہ اپنے پاؤں کی جگہ اور اپنے آگے کی اشیاء کو نہیں دیکھ پاتا نہ وہ رنگوں کے درمیان فرق کرسکتا ہے اور نہ اچھے برے کی پہچان کرسکتا ہے اور نہ ہی وہ اس گڑھے کو دیکھ سکتا ہے کہ جس میں غفلت سے گرجاتا ہے ، اور نہ اس دشمن کو دیکھ سکتا ہے کہ جو اس پر تلوار کھینچے ہوئے ہے، اور وہ خط و کتابت لکڑی کا کام، سونے وغیرہ کا کام اور اس قسم کے دوسرے کام سے بھی محتاج ہے، ایسا شخص اگر چست نہ ہو تو اپنی جگہ پر پڑے ہوئے پتھر کی مانند ہے۔ اور اسی طرح وہ شخص جو بہرا ہو توا س کے

۵۵

کاموں میں بھی بہت زیادہ خلل ایجاد ہوتا ہے، ایسا شخص گفتگو کی لذت سے محروم رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ مختلف مجالس میں جانے سے اجتناب کرتا ہے ، اس لئے کہ ان میں شرکت اس کے لئے رنجش کاباعث ہوتی ہے ، کیونکہ وہ کسی بھی بات کو نہیں سن پاتا، اس طرح کہ جیسے وہ موجود ہی نہیں، جبکہ باوجود اس کے کہ وہ موجود ہے ، یاپھر ایسے کہ جیسے وہ مردہ ہے جب کہ وہ زندہ ہے اور اگر کوئی اپنی عقل کھو بیٹھے تو وہ چوپاؤں کی مثل ہے یا ان سے بھی بدتر، اس لے کہ چوپائے اشیاء کی تشخیص کرتے ہیں جبکہ وہ بالکل نہیں کرپاتا ، اے مفضل کیا تم نہیں دیکھتے جو اعضاء و جوارح انسان کیلئے بنائے گئے ہیں ان میں اس کے لیے کس طرح بھلائی ہے کہ اگر ان سے میں ایک بھی نہ ہوتا تو انسان کیلئے کتنی زیادہ پریشانی ہوتی ، لہٰذا اسے کامل پیدا کیا گیا اور اس کی پیدائش میں کسی بھی قسم کی کمی و زیادتی نہیں ہے، ایسا ہونا اس بات پر دلیل ہے کہ ان کی خلقت میں علم وحکمت اور قدرت سے کام لیا گیا ہے، مفضل کہتے ہیں میں نے عرض کی اے میرے مولا ، پھر کیوں بہت سے لوگ بعض اعضاء و جوارح سے محتاج ہیں، اور انہیں مختلف قسم کی تکالیف اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، آپ نے فرمایا: اے مفضل ، جو شخص اس قسم کی حالت سے دوچار ہے ، یہ حالت خود اس کے لئے اور اس کے علاوہ دوسروں کے لئے اسی طرح نصیحت ہے جس طرح کوئی بادشاہ کسی کو اس کے غیر مودّب ہونے پر سزا دے تاکہ وہ سزا خود اس کے اور دوسروں کیلئے عبرت ہو ، ایسی صورت میں کوئی بادشاہ کو برا نہیں کہتا بلکہ اسے اس کام کے سلسلے میں داد و تحسین سے نوازتے ہیں ، اور اس کے اس کام کو صحیح قرار دیتے ہیں، خداوند عالم اس گروہ کو جو ان مصیبتوں میں گرفتار ہو اور ان مصیبتوں پر صبر کرے اور خدا کی اطاعت کرتا رہے تو اس قدر ثواب عطا کرے گا جس کی نتیجے میں وہ گروہ دنیا کی تمام مصیبتوں اور آفتوں کو حقیر سمجھے گا، کہ اگر اسے اس بات کا اختیار دے دیا جائے ، کہ اسے دوبارہ دنیا میں واپس پلٹایا جائے کہ یہ صحیح و سالم حالت کو قبول کرے یا اپنی سابقہ حالت کو ، تو وہ یقینا اپنی سابقہ حالت قبول کرے گا، تاکہ اس کے اجرو ثواب میں مزید اضافہ ہو۔

۵۶

( طاق اور جفت اعضائ )

اے مفضل، طاق اور جفت اعضاء کی بناوٹ پر غور وفکر کرو۔

سر : ان اعضاء میں سے ہے کہ جنہیں طاق پیدا کیا گیا ہے ، کہ اگر ایک سے زیادہ پیدا کیا جاتا تو اس میں انسان کیلئے کسی بھی صورت بھلائی نہ تھی، اس لئے کہ اگر انسان کے لئے ایک اور سر کا اضافہ کردیا جائے، توا س کے لئے یہ سنگینی بے فائدہ ہوگی، کیونکہ حواس کو جمع ہونے کے لئے جس مکان کی ضرورت تھی وہ ایک سر میں موجود ہے اس کے علاوہ اگر انسان دو سر رکھتا تو وہ دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہ جاتا کہ اگر ایک سے کلام کرتا تو دوسرا یقیناخاموش رہتا ، اور اگر دونوں سے ایک ہی کلام کرتا تو دوسرا زائد اور بے فائدہ ہوتا، اور اگر ہر ایک سے جدا جدا کلام کرتا توایسی صورت میں سننے والے کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ کس کے کلام کی طرف توجہ دے، خلاصہ یہ کہ دو سر ہونے کی صورت میں انسان کے لئے مختلف قسم کے شبہات پیش آتے۔

ہاتھ: ان اعضاء میں سے ہے کہ جنہیںجفت پیدا کیا گیا، اگر ایک ہاتھ ہوتا تو یہ انسان کیلئے کسی بھی صورت میں بہتر نہ ہوتا جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ انسان کے لئے فقط ایک ہاتھ کا ہونا اس کے کاموں میں کس طرح خلل کا باعث بنتا ہے، مگر کیا تم نے نہیں دیکھا کہ، اگر بڑھئی ، مستری یا مزدورکا ایک ہاتھ شل ہوجائے تو وہ اپنے کام کو جاری نہیں رکھ سکتے ، اور اگر وہ اپنے آپ کو زحمت و مشقت میں ڈال کر اپنے کام کو جاری رکھیں تو پھر بھی وہ اپنے کام میں اس حد تک استحکام پیدا نہیں کر پاتے جیسا کہ دونوں ہاتھوں کی موجودگی میں تھا۔

۵۷

( کلام کس طرح وجود میں آتا ہے )

اے مفضل، آواز، کلام اور اس کی بناوٹ پر غور کرو، یہ حنجرہ جو نلی کے مانند ہے اس کے وسیلہ سے آواز منہ سے باہر آتی ہے اور زبان، ہونٹوں اور دانتوں کی مدد سے حروف و کلام کی صورت اختیار کرتی ہے ، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جس شخص کے دانت نہ ہوں وہ سین کو ادا نہیں کرسکتا اور اگر کسی کے ہونٹ کٹ جائیں تو وہ فاء کا تلفظ نہیں کر پاتا، اور اگر کسی کی زبان میں سنگینی ہوتو وہ راء کو خوب ادا نہیں کرسکتا، اے مفضل، یہ پورا نظام بانسری سے شباہت رکھتا ہے، کہ حنجرہ بانسری کی نلی، پھیپھڑے مثل زق(۱) کے ہیں جو ہوا کو حنجرہ تک پہنچانے کا عمل انجام دیتے ہیں، اور وہ عضلات جو پھیپھڑوں کو ہوا پیدا کرنے پر مجبور کرتے ہیں وہ ان انگلیوں کے مانند ہیں کہ جو بانسری کے سوراخوں پر رکھی ہوئی ہیں، تاکہ ہوا بانسری میں جاری رہے، اور ہونٹ اور دانت اسی طرح حروف بنانے کے عمل کو انجام دیتے ہیں جس طرح سے بانسری کے اوپر رکھی ہوئی انگلیوں کو حرکت دینے سے قصد و ارادہ کے مطابق آواز کلام میں تبدیل ہوجاتی ہے ، یہ جو میں نے صداء مخرج کو بانسری سے شباہت دی یہ محض ا س کی تعریف بیان کرنے کے لئے ورنہ یہ بانسری ہے کہ جو صداء مخرج سے شباہت رکھتی ہے یہ اعضاء کہ جن کا ذکر کیا گیا کلام کی تخلیق کے علاوہ دوسرے کام بھی انجام دیتے ہیں ، جیسے حنجرہ اس کے وسیلہ سے صاف ہوا پھیپھڑوں تک پہنچتی ہے، اورعمل تنفس کے ذریعہ جگر کو مسلسل راحت و نشاط حاصل ہوتا ہے، کہ اگر ذرا سا بھی سانس گھٹ جائے تو انسان کی ہلاکت یقینی ہے۔

زبان: جس کے ذریعے مختلف ذائقوں کو چکھا جاتا ہے ، اور ان میں سے ہر ایک کو تلخ و شیرین، کھٹے

اور پھیکے ہونے کے لحاظ سے پہچانا جاتا ہے اس کے علاوہ زبان لقمہ اور پانی کے نگلنے میں مدد دیتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ چمڑے کا تھیلا۔ مشک وغیرہ

۵۸

دانت : یہ غذا کو چباتے ہیں ، تاکہ وہ نرم ہوجائے اور اس کا نگلنا آسان ہو، اس کے علاوہ دانت ہونٹوں کے لئے تکیہ گاہ ہیں،جو ہونٹوں کو لٹکنے اور حالت اضطراب سے محفوظ رکھتے ہیں ان لوگوں سے عبرت حاصل کرو جن کے دانت گر جاتے ہیں اورہونٹ لٹک جاتے ہیں۔

ہونٹ : جن کی مدد سے پانی کو منھ میں لیا جاتا ہے تاکہ اندازہ کے مطابق پانی گلے تک پہنچے اور گھٹلی کی صورت میں نیچے اترنے کی وجہ سے انسان کیلئے درد کا باعث نہ بنے، اس کے علاوہ منھ پر دو ہونٹ مثل بند دروازے کے ہیں کہ انسان جب چاہتا ہے کھول لیتا ہے ، اور جب چاہتا ہے انہیں بند کرلیتا ہے ، ان تمام باتوں سے یہ چیز روشن ہوجاتی ہے کہ ہر عضو چند کاموں کے لئے استعمال ہوتا ہے، جس طرح سے کلہاڑی ان آلات میں سے ہے کہ جو بڑھئی کے بھی کام آتا ہے اور کھدائی کرنے والے کے بھی اور اس کے علاوہ بھی بہت سے کاموں میں استعمال ہوتا ہے۔

( دماغ کاسہ سر کے محکم حصار میں )

اے مفضل، اگر دماغ کو تمہارے سامنے کھولا جائے تو تم مشاہدہ کرو گے کہ وہ کئی تہہ بہ تہہ پردوں میں لپٹا ہو اہے، تاکہ یہ پردے دماغ کو ان آفات اور صدمات سے محفوظ رکھیںکہ جو اس میں خلل کا باعث بنتے ہیں اور کھوپڑی دماغ پر خول کی مانند ہے ، تاکہ اگر سر پر کوئی ضرب یا تکلیف پہنچے تو وہ دماغ تک رسائی نہ کرسکے اور پھر خدا نے کھوپڑی کو بالوں کے لباس سے آراستہ کیا، تاکہ وہ اسے سردی اور گرمی کے اثرات سے محفوظ رکھیں، آیا وہ کون ہے کہ جس نے دماغ کو اس قسم کے حصار میں رکھا ؟ سوائے اس کے اور کوئی نہیں جس نے اس کو پیدا کیا اور اسے منبع احساسات اور لائق حفاظت قرار دیا اس لئے کہ اس کا مرتبہ دوسرے اعضاء کی نسبت بلند ہے۔

۵۹

( آنکھوں پر غلاف چشم کا خوبصورت پردہ )

اے مفضل ، غورو فکر کرو، کہ کس طرح سے پپوٹوں کو آنکھوں پر پردہ کے مانند قرار دیا، اور یہ کہ کس طرح سے آنکھوں کو گہرائی میں رکھا، اور خوبصورت پلکوں کا اس پر سایہ کیا۔

( وہ کون ہے؟ )

اے مفضل وہ کون ہے؟ جس نے دل کو قفسہ سینہ میں محفوظ کیا ، اور پھراسے لباس محکم یعنی پردہ دل سے آراستہ کیا، اور مضبوط ،ہڈیوں ، گوشت اور اعصاب کے ذریعے سے اس کی حفاظت کی، تاکہ کوئی ضرر اس تک نہ پہنچ پائے، وہ کون ہے جس نے گلوئے انسان میں دو راستے بنائے، ایک راستہ وہ جس سے آواز باہر آتی ہے کہ جسے حلقوم کہتے ہیں جو پھیپھڑوں سے ملا ہواہے، اور دوسرا راستہ غذا کے جاری ہونے کیلئے ہے ، یہ ایک گول نلی ہے جو معدہ سے ملی ہوئی ہے، یہی نلی غذا کو معدہ تک پہنچاتی ہے پھر اُس نے حلقوم کو طبقوں کی صورت میں ترتیب دیا تاکہ غذا پھیپھڑوں تک نہ پہنچے کہ اگر غذا انسان کے پھیپھڑوں تک پہنچ جائے تو انسان ہلاک ہوجائے، وہ کون ہے؟ جس نے پھیپھڑوں کو دل کے لئے نشاط و راحت کا سبب قرار دیا جو ہمیشہ حرکت میں ہیں اور اس بات کی بالکل اجازت نہیں دیتے کہ حرارت دل میں جمع ہوکر انسان کو ہلاک کردے، وہ کون ہے؟ جس نے مجری غائط و بول میں بند قرار دیئے تاکہ یہ بند انہیں ہر وقت کے جاری ہونے سے محفوظ رکھیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان کی زندگی آلودہ ہو کررہ جاتی، اور اس قسم کے دوسرے اس قدر فائدہ ہیں کہ جنہیں اگر کوئی شمار کرنے والا شمار کرنا چاہیے تو وہ انہیں ہرگز شمار نہیں کرسکتا، اور اے مفضل ، ان فائدوں میں سے بہت سے فائدے تو ایسے ہیں کہ

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

اس کی لاش روم کے مرغزار میں پڑی تھی نہ کہ اس کے باپ کی ملکیت میں جہاں وہ چاہتا تھا۔

رومیوں کے ساتھ ہماری جنگ کا آغاز یہ تھا کہ عامر نے اس کے سر پر اپنی تلوار کی ایک ضرب سے کمر تک اسے دو ٹکڑے کرکے رکھ دیا !

ابن عساکر یہ چند شعر ذکر کرنے کے بعد نافع کے حالات کو دار قطنی اور ابن ماکولا سے سیف کے ذریعہ نقل کرکے اپنی بات تمام کرتا ہے ۔

لیکن طبری سیف سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے نافع کے اشعار سے صرف درج ذیل دو شعر نقل کرتا ہے :

ہمارے سوار فوجیوں نے سمندر جیسی زیبا اور وسیع سرزمین ''مدائن'' پر قدم رکھا....

اس کے بعد ١٦ھکے حوادث کے ضمن میں جلولا کی جنگ کے بارے میں سیف سے نقل کرتا ہے ۔سیف سے ایک روایت میں جلولا کی جنگ کے بارے میں نافع سے منسوب چار شعر کو حسب ذیل نقل کرتاہے :

'' جلولا '' کی جنگ میں ہمارے پہلوانوں نے قوی شیروں کی طرح میدان کا رزار میں حملے کئے ۔

میں ایرانیوں کو چیر پھاڑ کے قتل کرتے ہوئے آگے بڑھتا تھا ،اور کہتا تھا ،مجوسیوں کے ناپاک بدن نابود ہو جائیں ۔

اس دن جب سر تن سے جدا ہو رہے تھے ،'' فیروزان '' ہمارے چنگل سے بچ نکلا اور بھاگ گیا لیکن '' مہران '' مارا گیا۔

جب ہمارے دشمن موت کے گھاٹ اتاردئے گئے تو رات کو بیابانوں کے درندے ان کی لاشوں کے استقبال کے لئے آئے ۔

ابن کثیر نے بھی انہی مطالب کو تاریخ طبری سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

ہم نے طبری کی کتاب میں مذکورہ اشعار کے چھ قطعات کے علاوہ نافع سے مربوط کوئی اور شعر نہیں پایا ،جب کہ ابن ماکولا''نافع '' کی تشریح میں کہتا ہے :

۸۱

سیف نے کہا ہے کہ اس نے ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں کافی شہرت حاصل کی ہے اور بہت سے شعر کہے ہیں

ابن حجر کہتا ہے:

سیف نے اس سے بہت سے اشعار نقل کئے ہیں جن میں نافع نے اپنے خاندان پر ناز کیا ہے

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے اپنے افسانوی سورما کے نام پر بہت سے اشعار کہے ہیں اور طبری نے اپنی عادت کے مطابق ان اشعار کو درج کرنے سے اجتناب کیا ہے ۔

ہم نے '' نافع'' کے کافی تعداد میں کہے گئے اشعار کی جستجو کی لیکن ان میں سے تھوڑے ہی اشعار حموی اور حمیری کے ہاں دستیاب ہوئے کہ ان دو عالموں نے اپنی بات کے اقتضا کے مطابق مقامات کی تشریح کرتے ہوے شاہد کے طور پر ان سے استناد کیا ہے ۔ہم ہر ایک فتح کے بارے میں سیف سے نقل کرکے خلاصہ بیان کرنے کے بعد ان اشعار کی طرف بھی اشارہ کریں گے ۔

شاعر نافع ،ایران میں

طبری نے صراحت کے ساتھ سیف کا نام لے کر فتح '' ہمدان'' ''رے'' اور ''گرگان '' کے بارے میں اپنی تاریخ میں مفصل طور پر درج کیا ہے ہم یہاں پر اس کا خلاصہ ذکر کرتے ہیں :

خلیفہ عمر نے ہمدان اور اس کے مشرق میں واقع دیگر سر زمینوں کو خراسان تک فتح کرنے کا حکم '' نعیم بن مقرن '' کے نام جاری کیا اور اسے حکم دیا کہ ان علاقوں کو فتح کرے ۔

نعیم نے اطاعت کرتے ہوئے ''رے'' کی طرف لشکر کشی کی ،اس جنگ میں گرگان کے لوگ بادشاہ کی مدد کے لئے آئے دونوں لشکر کوہ رے کے دامن میں ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے نعیم اپنے فوجیوں کے ایک حصے کو چوری چھپے محاذ جنگ کے پیچھے بھیج چکا تھا ۔اس نے پوری طاقت کے ساتھ دشمن پر حملہ کیا ۔ایرانی چوں کہ آگے پیچھے دونوں طرف سے اسلامی فوج کی زد میں آچکے تھے اس لئے مقابلے کی تاب نہ لاتے ہوئے سخت شکست و حزیمت سے دو چار ہوئے اور بھاگ کھڑے ہوئے۔اس گیرودار میں بے شمار ایرانی کام آئے ۔

۸۲

نعیم نے فتح پانے کے بعد غنائم جنگی کا پانچویں حصہ ''اسود بن قطبہ'' کی سرپرستی میں چند دیگر معروف کوفیوں کے ہمراہ خلیفہ کی خدمت میں مدینہ روانہ کیا ۔

جب عمر کو فتح کا پیغام پہنچا خلیفہ نے حکم دیا کہ '' نعیم '' اپنے بھائی '' سوید بن مقرن '' کو ''قومس'' کی فتح پر مامور کرے۔

سوید خلیفہ کے حکم سے ایک لشکر لے کر '' قومس '' کی طرف روانہ ہوا اور اس جگہ کو کسی قسم کی مزاحمت اور خوں ریز ی کے بغیر فتح کر لیا۔

اس کے بعد طبرستان کے علاقہ پر بھی ایک فوجی معاہدے کے تحت قبضہ کیا ۔ وہا ں سے گرگان کا رخ کیا اور '' بسطام'' کے مقام پر پڑائو ڈالا اور وہیں سے بادشاہ '' رزبان صول'' کے نام خط لکھا اور اسے تسلیم و اطاعت کرنے کو کہا ''رزبان '' نے مثبت جواب دیا اور مسلمانوں کے گرگان پر حملہ نہ کرنے کی صورت میں جزیہ دے کر جنگ سے دوری اختیار کی ۔ یہ عہد نامہ ١٨ ھ کو لکھا گیا اور طرفین میں رد و بدل ہوا۔

مذکورا بالا باتیں طبری کے بیانات کا خلاصہ تھیں :

حمیری لفظ '' رے '' کی طرف اشارہ کرکے اسی داستان کو لکھتا ہے :

.....اور ابو بجید نافع بن اسود نے ''رے'' کی جنگ میں یہ اشعار کہے تھے : کیا ہماری محبوبہ کو یہ خبر ملی کہ جو گروہ ''رے '' میں ہمارے مقابلے میں جنگ کے لئے اٹھا تھا، وہ موت کا زہر کھا کر ہلاک ہوگیا؟!

وہ دو محاذوں پر پوری قدرت کے ساتھ تیز رفتار گھوڑوں پر سوار ہو کر ہمارے مقابلے میں آئے

ان کے گھوڑے یک رنگ ، یا سیاہ تھے یا سرخ ۔ ایسے گھوڑ ے تھے کہ بعض اوقات ہمارے حملوں کے مقابلے میں تاب نہ لاتے ہوئے فرار کو قرار پر ترجیح دیتے تھے ہم نے ان کو پہاڑ کے دامن میں ایک ایک کرکے یا دو دو کرکے پکڑ کر موت کے گھاٹ اتار دیا اور ان کو قتل کرکے اپنی تمنا پوری کی۔

خدا جزائے خیر دے اس گروہ کو جس نے دشمن کے سر پر انتقام کی تلوار ماری اور اجر دے انھیں جنہوں نے ایسا کام انجام دیا۔

۸۳

حموی نے بھی ''بسطام'' اور ''گرگان'' کی فتح کے بارے میں سیف کی باتوں پر استناد کرکے ''نافع بن اسود '' کا نام لیا ہے۔ مثلاً ''بسطام اور اس کی فتح کے بارے میں لکھتا ہے:

خلیفہ عمر نے حکم جاری کیا تھا کہ ''نعیم بن مقرن'' ''رے'' اور ''قومس'' کی طرف لشکر کشی کرے اور یہ لشکر کشی ١٨و١٩ھ میں واقع ہوئی ہے۔

نعیم کا ہراول دستہ اس کے بھائی ''سوید بن مقرن '' کی سرپرستی میں ''رے '' اور ''قومس'' کی طرف روانہ ہوا ۔ چونکہ ان دونوں علاقوں کے باشندوں میں لڑنے کی طاقت نہ تھی ۔ اس لئے انہوں نے صلح کی تجویز پیش کی اور سرانجام ان کے درمیان صلح نامہ لکھا گیا۔ ابو بجید نافع بن اسود نے اس سلسلے میں یہ شعر کہے ہیں :

اپنی جان کی قسم! اس میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں ہے کہ ہم میدانِ جنگ میں حاضر ہونے اور اس کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے میں دوسروں سے زیادہ سزاوار ہیں !

جب صبح سویرے جنگ کا بگل بجتا ہے تو یہ ہم خاندان تمیمی ہیں جو خوشی خوشی اس کا مثبت جواب دیتے ہیں ۔

ہم نے ''بسطام '' کی سخت اور وسیع جنگ میں دشمن کو نابود کرنے کے لئے کمر ہمت باندھی۔

اس کام میں ہم نے اپنے نیزے گھمائے اور انھیں دشمن کے خون سے رنگین کیا۔

لفظ ''گرگان'' اور ''رے'' کے سلسلہ میں حموی کی دلیل

حموی اپنی کتاب ''معجم البلدان '' میں لکھتا ہے :

جب سوید بن مقرن نے ١٨ھمیں ''بسطام '' کی فتح سے فراغت پائی تو اس نے گرگان کے بادشاہ ''زربان صول'' کے نام ایک خط لکھا اور اسے اطاعت کرنے کا حکم دیا اور خود سپاہ لے کر گرگان کی طرف روانہ ہوا۔ زربان نے صلح کی درخواست کی اور مسلمانوں کے گرگان پر حملہ نہ کرنے کی صورت میں جزیہ دینے پر آمادہ ہوا۔ سوید صلح کو قبول کرتے ہوئے گرگان میں داخل ہوا اور صلح نامہ لکھا گیا۔ ابو بجید نافع بن اسود نے اس سلسلے مین یہ شعر کہے ہیں :

۸۴

سواد نے ہمیں گرگان کی طرف بلایا، جس سے پہلے رے ہے ۔ اس کے بعد صحرا نشین گرگان کی طرف روانہ ہوئے۔

حموی شہر ''رے''کی تشریح میں لکھتا ہے کہ ابوبجید، جو لشکر میں شامل تھا''رے'' کا یوں ذکر کرتا ہے:

سواد نے ہمیں گرگان کی طرف بلایا جس کے پہلے رے ہے۔ اس کے بعد صحرا نشین اس کی طرف بڑھے ۔ ہمیں ''رے '' کی چراگاہ اور سبزہ زار جو زینت و نعمت کے سبب ہیں بہت پسند آئے۔

پوپھٹتے ان سبزوں میں عجیب رونق ہوتی ہے جو بڑے بادشاہوں کی شادیوں کی یاد

تازہ کرتی ہے.

حموی مذکورہ اشعار کو بیان کرنے کے بعد ''گرگان'' کے بارے میں تشریح کرکے اپنی بات ختم کرتا ہے.

مذکورہ مطالب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ حموی نے ''رے '' اور ''گرگان ''کی تشریح میں سیف کی باتوں اور اس کی داستانوں پر اعتماد کیا ہے ۔ اس نے ان داستانوں کی سیف سے نقل کرکے اپنی عادت کے مطابق رزمیہ اشعار کو حذف کیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ حموی نے سیف کی روایتوں سے ان ہی دلاور یوں کو ذکرکیا ہے جو فرضی ابو بجید اور جعلی کمانڈر سوید سے مربوط ہیں ، اور سوید کو ''صیغۂ تکبیر ''سے ''سواد '' نقل کیاہے ۔ اس کے بعد اسے بلاذری اور دیگر دانشوروں کی روایتوں سے ربط دیتا ہے جنہوں نے سپاہ کی قیادت کا عہدہ دار ''عروۂ طائی '' کو بتایا ہے۔

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ

بلا ذری نے ''رے ''اور ''قومس''کی فتح کے بارے میں لکھا ہے کہ خلیفہ عمر نے اپنے کارگزار عمار یاسر کو حکم دیا کہ ''عروة بن خیل طائی'' کو ''رے '' کو فتح کرنے پر مامور کرے ۔ عروہ نے ''رے'' کی طرف لشکر کشی کی اور اسے فتح کیا۔ اس کے بعد خود مدینہ چلاگیا اور اس فتح کی نوید خلیفہ کی خدمت میں پہنچائی۔

۸۵

''رے '' کی فتح کے بعد خلیفہ کے حکم سے ''سلمة الضبی'' نے سپاہ کی کمانڈ سنبھالی اور فوج کے ساتھ ''قومس'' اور اس کے اطراف کے دیگر علاقوں کی طرف لشکر کشی کی ''قومس '' کے باشندوں نے صلح کی تجویز پیش کی اور سلمہ کے ساتھ معاہدہ کیا اور پانچ لاکھ درہم جزیہ کے طور پر ادا کئے۔

بلاذری نے گرگان کی فتح کے بارے میں لکھا ہے:

خلیفہ ٔعثمان نے ٢٩ھ میں کوفہ کی حکومت پر ''سعید بن عاص اموی'' کو مقرر کیا .سعید نے گرگان کو فتح کرنے کی غرض سے اس علاقہ کی طرف فوج کشی کی اور گرگان کے بادشاہ کے ساتھ دولاکھ درہم پر صلح کی اور اس علاقے کو اپنے علاقوں میں شامل کیا .اس کے بعد سرزمین طبرستان کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا.

ہم نے یہاں پر بلاذری کے مطالب کو خلاصہ کے طور پر بیان کیا ہے۔

موازنہ کا نتیجہ

سیف نے اپنی روایت میں سرزمین رے کے فاتح کے طور پر ''نعیم بن مقرن'' کا ذکر کیا ہے اور ''قومس'' ''طبرستان'' ''بسطام'' اور ''گرگان'' کے فاتح کے طور پر اس کے بھائی ''سوید '' کا نام لیا ہے اور ان تمام فتوحات کو ١٨و١٩ھ میں انجام پانا بتاتاہے، جبکہ دوسرے معروف اور نامور مورخین نے سرزمین ''رے'' کا فاتح ''عروة بن زید خیل طائی '' کو بتایا ہے اور ''قومس '' اور اس کے اطراف کے دیگر علاقوں کو فتح کرنے والے اس کے جانشین کا نام ''سلمةالضبی'' بیان کیا ہے اور گرگان اور طبرستان کا فاتح ''سعید اموی '' کو بنایاہے خاص کر اس موخر الذکر فتح کی تاریخ خلافت ِعثمان کا زمانہ ٢٩ھ ثبت کیا ہے !!یہ سیف اور دیگر مورخین کی روایتوں میں نمایاں اختلافات کے نکات ہیں ۔

ان روایتوں کا مذکورہ سرسری جائزہ اور مختصر موازنہ انجام دینے سے یہ آسانی کے ساتھ واضح ہوجاتا ہے کہ حموی نے سیف کی روایتوں پر کس قدر اعتماد کیا ہے اور ان روایتوں اور علاقوں کی فتح کو صحیح اور معتبر جانا ہے کہ اس طرح نظم و نثر کی صورت میں سیف کی روایتوں کو قطعی سند کے طور پر اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔ یہاں پر ہم ایک بار پھر حموی کی تحریر پر غور کرتے ہیں

۸۶

برجان برگان!

حموی کی ''معجم البلدان''میں لفظ ''برجان'' کے بارے میں یوں لکھا گیا ہے:

مسلمانوں نے ''برجان '' کو عثمان کی خلافت کے دوران فتح کیا .ابوبجید تمیمی نے اس فتح کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

پہلے ہم نے گرگان پر حملہ کیا، ہمارے سوار دستوں کو میدان کا ر زار میں دیکھ کر اس کی حکومت متزلزل ہوکر سرنگوں ہوگئی۔

شام کے وقت جب ہم نے حملہ روکا، تو وہاں کے لوگ سرزمین روم اور برجان کے درمیان سراسیمہ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔

اسی کتاب میں لفظ ''رزیق '' کے بارے میں آیا ہے:

ایران کے بادشاہ کسریٰ کے بیٹے ، یزدگرد شہریار کے قتل کا واقعہ ایک پن چکی میں پیش آیا ابوبجید نافع بن اسود تمیمی نے اس سلسلے میں یوں کہا ہے:

ہم تمیمیوں نے سراسیمہ بھاگتے ہوئے یزدگرد کے شکم کو خنجر سے چاک کرکے ہلاک کردیا ۔ ''مرو'' کی جنگ میں ہم ان کے مقابلے پر آئے ۔کیا تم گمان کرتے ہو کہ وہ تیز پنجوں والے پہاڑی چیتے ہیں !

ہم نے ''رزیق'' کی جنگ میں ان کو تہس نہس کرکے ان کی ہڈیوں کو چکلنا چور کرڈالا.

سورج ڈوبنے تک ہم ان کے میمنہ اور میسرہ پر مسلسل حملے کرتے رہے

خدا کی قسم !اگر خدا کا ارادہ نہ ہوتا، تو ''رزیق'' کی جنگ میں دشمنوں میں سے ایک فرد بھی زندہ نہ بچتا۔

رزیق

طبری نے ''برجان '' کی فتح کے بارے میں جس کا حموی نے نام لیا ہے اور اسی طرح ''رزیق'' میں یزدگرد شہریار کے تمیمیوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے بارے میں سیف سے کچھ نقل نہیں کیا ہے کہ ہم اس کا مقابلہ و موازنہ کرتے ۔ مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ ساسانیوں کا آخری بادشاہ یزدگردخود ایرانیوں کے ہاتھوں ماراگیا ہے۔

۸۷

اگر طبری نے یزد گرد کے مارے جانے کے بارے میں سیف کی روایتوں کو اپنی کتاب میں در ج کیا ہوتا ، تو ہمیں پتہ چلتا کہ سیف نے آوارہ اور دربدر ہوئے ساسانی بادشاہ کے تمیمی دلاوروں کے خنجر کی ضربات سے مارے جانے کی کیسی منظر کشی کی ہے تا کہ اپنے افسانوی شاعر ابوبجید کے ذریعہ یزدگرد کے مارے جانے کے بارے میں شعر کہلوا کر قبیلہ تمیم کے افتخارات میں ایک اور افتخار کا اضافہ کرتا.

ابوبجید ، کتاب ''صفین''میں

یہاں تک بیان شدہ مطالب نافع کے بارے میں تھے، جو ہم نے ان علماء کے ہاں پائے ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ نصر بن مزاحم نے بھی جنگ صفین میں ابوبجید کا نام لیا ہے اپنی کتاب ''صفین'' کے صفحہ ٥٦٤ میں لکھتا ہے:

ابوبجید نافع بن اسود تمیمی نے جنگ صفین میں درج ذیل اشعار کہے ہیں :

میری طرف سے ''علی کو درود پہنچاؤاور ان سے کہنا : جس نے آپ کا فرمان قبول کیا ، اس نے سختیوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھالیا ہے

علی نے اسلام کے گنبد کو ویرانی کے بعد پھر سے تعمیر کیا ۔ یہ عمارت پھر سے کھڑی ہوکر پائیدار ہوگئی ہے۔

گویا اسلام کی ویر انی کے بعد ایک نیا پیغمبر آیا اور اس نے نابود شدہ طریقوں کو پھر سے زندہ کیا ۔

نصر اس داستان میں اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے:

اور جب علی جنگ صفین سے واپس آرہے تھے تو نافع نے یہ اشعار کہے:

ہم نے دمشق اور اس کے اطراف کی سرزمینوں کے کتنے بوڑھے مردوں ، عورتوں اور سفید بال والوں کو ان کی اولاد کے سوگ میں بٹھادیا!

کتنی جوان عورتیں اس جنگ صفین میں اپنے شوہروں کے قتل ہونے کے بعد ان کے نیزوں کی وارث بن کر بیوہ ہوچکی ہیں ؟!

وہ اپنے شوہروں کے سوگ میں بیٹھی ہیں ، جو انھیں قیامت تک نہیں ملیں گے ۔

ہم تمیمی ایسے جنگجوہیں کہ ہمارے نیزے دشمن کو اس طرح لگتے ہیں کہ ان کا بچنا

۸۸

مشکل ہوتا ہے۔

ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ نصر ابوبجید کے رزمیہ اشعار کہاں سے لایا ہے ؟کیا نافع کانام اور اس کے اشعار سیف کے علاوہ کسی اور کی زبان پر بھی آئے ہیں ؟

اس سلسلے میں ہم نصر بن مزاحم کی کتا ب ''صفین'' کی طرف دوبارہ رجوع کرتے ہیں اور اس کے صفحہ ٦١٢ پرا س طرح پڑھتے ہیں :

...''عمر وبن شمر'' سے متعلق گفتگو کے ضمن میں اس طرح آیا ہے:

جب علی صفین کی جنگ سے واپس ہوئے ، (تو عمرو بن شمرنے) اس طرح شعر کہے :

وکم قدر ترکنا فی دمشق و ارضھا...

کتنے بوڑھے مردوں ، عورتوں اور سفید بال والوں کو ہم نے ان کی اولاد کے سوگ میں بٹھادیا ؟!...تا آخر۔

یہاں تک کہ وہ صفحہ ٦١٣ پر لکھتا ہے:

اور سیف کی روایت میں آیا ہے کہ: ابو بجید نافع بن اسود نے اس طرح نغمہ سرائی کی ہے:

الا ابلغا عنی علیا تحیة ، فقد قبل

میرا سلام علی کو پہنچاؤ اور ان سے کہو کہ جس نے آپ کی اطاعت کی اس نے مشکلات کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھالیا ہے... تاآخر۔

یہاں پر نصر بھی اپنے مآخذ ،یعنی سیف کا کھلم کھلا نام لیتا ہے.

۸۹

لہٰذا معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے اسلام کی مشہور اور فیصلہ کن جنگوں کو بھی نہیں چھوڑا ہے اور ان جنگوں کو بھی اپنے خاندان تمیم کے افسانوی دلاوروں کے وجود سے محروم نہیں کیا ہے تا کہ اس طرح وہ ہر جنگ میں اپنے خاندان یعنی قبیلۂ تمیم کے کسی طرح افتخارات کا اضافہ کرنے کی کوشش کرے ۔ حقیقت میں سیف کے بارے میں یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ''کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں پر اس مکار لومڑی کے نقش قدم نہ پائے جائیں ''!!

اس طرح علماء اور دانشوروں نے سیف کے افسانوں اور اس کی ذہنی مخلوقات کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ بعض اوقات ان مطالب کو سیف سے نسبت دیکر مآخذ کو کھلم کھلا بیان کرتے ہیں اور بعض اوقات اپنی روایت کے راوی کانام نہیں لیتے ۔ یہی امر سبب ہوتا ہے کہ محقق ایسی روایتوں سے دوچار ہوکر پریشان ہوجاتا ہے۔ اور یہ امور تاریخی حقائق کی تلاش و تحقیق کرنے والوں کے لئے حیرت و تعجب کا سبب بنتے ہیں ، ان ہی میں ابن حجر کے وہ مطالب بھی ہیں جو اس نے اپنی کتاب ''اصابہ'' میں نافع کے حالات کے بارے میں درج کئے ہیں ۔ ملاحظہ ہو:

دار ''قطنی '' نے اپنی کتاب ''مؤلف'' میں لکھا ہے کہ ابوبجید نافع بن اسود نے عراق کی سرزمینوں کی فتح میں شرکت کی ہے اور اس سلسلے میں اس نے چند اشعار بھی کہے ہیں ، من جملہ

وہ کہتا ہے:

اگر پوچھو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ میرا خاندان ''اسید ''ہے اور میری اصل ، افتخارات کا منبع و سرچشمہ ہے

اس کے بعد ابن حجر اضافہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:

...اور سیف نے اپنی کتاب ''فتوح'' میں نافع سے بہت سے اشعار نقل کئے ہیں

۹۰

ہم اس بات کونہیں بھولے ہیں کہ سیف کی نظر میں قبیلۂ ''اسید'' جو افتخارات کا منبع اور شرافت کا معدن ہے ، حقیقیت میں وہی سیف کا خاندان یعنی قبیلۂ تمیم ہے۔

جو کچھ بیان ہوا ، اس کے پیش نظر ہم ، ادیب اور نامور عالم ''مرزبانی'' کویہ حق دیتے ہیں کہ وہ سیف کے افسانوی شاعر اور صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، نافع بن اسود کے لئے اپنی کتاب ''معجم الشعراء '' میں جگہ معین کرے اور اس کے وجود کو ایک مسلم حقیقت تصور کرے اور اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالے اور سیف نے اس سے نسبت دیکر جو اشعار لکھے ہیں ان کو اپنی کتاب میں درج کرے۔

کتاب ''معجم الشعرائ'' تالیف مرزبانی (وفات ٣٨٤ھ ) میں مؤلف کی حیات تک پانچ ہزار سے زائد عرب شعراء کی زندگی کے حالات درج ہیں ۔لیکن اس کتاب کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہمیں دستیاب ہواہے اور اس کابڑا حصہ ،مؤلف کی وفات کو ایک ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کی وجہ سے نیست ونابود ہوگیاہے۔اسی لئے اس میں نافع اور اس کے باپ ،اسود کے حالات نہیں پائے جاتے۔

لیکن ابن حجر نے ''مرزبانی ''کی کتاب سے سیف کے ان دو جعلی اصحاب کے اشعار نقل کرکے ان دو افسانوی شاعروں کے بارے میں ہمارے لئے مذکورہ کتاب میں موجود کمی کی کسی حد تک تلافی کی ہے ۔اگر چہ مذکورہ کتاب کسی کمی کے بغیر بھی ہم تک پہنچ جاتی تو وہ ہمیں اس بارے میں کسی صورت سے مدد نہ کرتی ،کیونکہ ''مرزبانی'' نے اکثرو بیشتر شعراء کے حالات کی تشریح اور ان کے اشعار مآخذ اور سند کا ذکرکئے بغیر اپنی کتاب میں درج کئے ہیں ۔یہ کہاں سے معلوم ہو کہ سیف کے تمام یا اکثر افسانوی شعراء اور ان کے اشعار حقیقی شعراء کے عنوان سے مرزبانی کی کتاب میں درج نہ ہوئے ہوں ؟!

ہم دوبارہ اصل مطلب کی طرف پلٹتے ہیں اور نافع کے بارے میں ابن حجر کی باتوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔ابن حجر نے مرزبانی کی کتاب ''معجم الشعرائ'' کا حوالہ دے کر نافع کے حالات کی تشریح میں لکھا ہے:

۹۱

مرزبانی کہتاہے :ابو بجید نے جس نے دوران جاہلیت اور اسلام دونوں زمانوں کو درک کیا ہے عبد اللہ بن منذر حلاحل تمیمی کے سوگ میں چند دردناک اشعار کہے ہیں ۔

اس عبد اللہ نے ،خالد بن ولید کے ہمراہ یمامہ کی جنگ میں شرکت کی ہے اور وہاں پر مارا گیاہے ۔اس (مرزبانی) نے عبد اللہ منذر کے سوگ میں نافع کے مرثیہ ''ماکان یعدل...'' کے مطلع سے درج کیاہے کہ میں (ابن حجر ) نے مذکورہ اشعار اسی عبداللہ منذر کی تشریح کے ذیل میں نقل کئے ہیں ۔

اس کے بعد ابن حجر اپنی کتاب ''اصابہ'' میں عبد اللہ منذر کی تشریح میں لکھتاہے :

''مرزبانی '' نے اپنی کتاب ''معجم الشعراء ''میں ذکر کیاہے کہ عبد اللہ منذر نے خالد بن ولید کے ہمراہ یمامہ کی جنگ میں شرکت کی اور اسی جگہ پر ماراگیا۔نافع بن اسود تمیمی ،جو خود اس جنگ میں موجود تھا ،نے عبد اللہ کے سوگ میں یہ اشعار کہے ہیں :

جاؤ ،خدا تمھیں ایسے جواں مرد سے دور نہ رکھے جو جنگ کی آگ بھڑکانے والا ،بذل وبخشش کرنے والا اور انجمنوں اور محفلوں والا انسان تھا !

تمام لوگوں میں اس جیسا مردنہ تھا اور جدوجہد اور بذل وبخشش میں اس کا کوئی مانند نہ تھا۔

تم (عبد اللہ )چلے گئے اور خاندان عمرو اور قبیلہ تمیم کے دوسرے خاندانوں کو تنہا چھوڑ گئے تا کہ وہ نیازمندی اور بیچارگی کے وقت فخر کے ساتھ تمھارا نام زبان پر لائیں ۔

اس شعر میں سیف کے قبیلہ تمیم کے بارے میں خاص کر اس کے اپنے خاندان بنی عمرو کے بارے میں افتخارات کا اظہار واضح طور سے مشہود ہے ۔

اسی طرح ابن حجر نے ''مرزبانی ''کی کتاب سے نقل کرکے نافع بن اسود کے حالات کی تشریح میں مندرجہ ذیل دوشعر اور درج کئے ہیں :

جنگی غنائم کی کتنی بڑی مقدار ہمارے ہاتھ آئی جب کہ ہم بلند قامت گھوڑوں پر سوار تھے۔

۹۲

کتنے بہادروں کو ہم نے تلوار کی ضرب سے موت کے گھاٹ اتاردیا اور لاش خور ، ان کی لاشوں پر اچھل کود کررہے تھے۔

''ابن حجر''،''مرزبانی'' کی تحریر اور اس کی کتاب میں درج کئے گئے اشعار پر اعتماد کرتے ہوئے عبد اللہ منذر حلاحل کو اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فہرست میں قرار دیتاہے اور اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتاہے ،جبکہ کسی بھی دوسرے تاریخی مآخذ اور عربوں کے شجرہ نسب میں اس کا نام کہیں ذکر نہیں ہواہے ۔یہ کہاں سے معلوم ہو کہ یہ عبد اللہ بھی سیف کے دوسرے افسانوی سورماؤں کی طرح اس کاجعل کردہ اور خیالی کردار نہ ہو؟

ہم نافع کے بارے میں گفتگو کا خاتمہ ابن عساکر کی اس بات سے کرتے ہیں جہاں وہ اپنی بات کے آغاز پر نافع کے بارے میں لکھتاہے :

اس شاعر نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کازمانہ درک کیا ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور

۹۳

پہنچاہے :

ہمیں ابن عساکر کی اس بات کی کوئی دلیل نہیں ملی ،صرف نافع کے اشعار کے پانچویں بند میں آیاہے :

صدر اسلام میں ایسے پیشرو تھے،جو اپنی مہاجرت میں عظمت وافتخار سے سربلند ہوکر مھاجرین کے مقام تک پہنچاہے۔

ابن عساکر کا دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ نافع نے خلیفہ عمر سے حدیث نقل کی ہے ۔

ہمیں اس سلسلے میں سیف کے جعلیات میں نافع کی زبانی عمر کی حدیث نام کی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔

روایت کی تحقیق

نصر بن مزاحم ،ابن ماکولا ،ابن عساکر اور ابن حجر جیسے علماء ودانشور ،نافع کے بارے میں اپنی بات کو بلاواسطہ سیف سے نقل کرتے ہیں اور اس سلسلے میں سیف کے کسی راوی یا راویوں کا نام نہیں لیتے اور صرف اس پر اکتفا کرتے ہیں کہ :

''سیف کہتاہے ....'' اور ان علماء نے دار قطنی سے نقل کرتے ہوئے بھی اس روش کی رعایت کی ہے۔

لیکن ابن عساکر جہاں پر فتح دمشق کے بارے میں نافع کے اشعار کو اپنی کتاب میں سیف سے نقل کرتاہے وہاں سیف کے راویوں کانام اس صورت میں لیتاہے ۔

سیف نے ''ابو عثمان '' سے اور اس نے ''خالد'' و''عبادہ'' سے یوں نقل کیاہے

اور اس طرح حدیث کے راویوں کاذکر کرتاہے ۔

ان راویوں کی تحقیق کے سلسلے میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس ابو عثمان کا سیف نے ذکر کیا ہے ، در حقیقت یہ '' یزید بن غسان '' کے لئے سیف کی جعل کردہ کنیت ہے ۔ہم نے سیف کے اسناد کی تحقیق کے دوران اسی کتاب کی پہلی جلد میں اس نام کے سلسلہ میں یہ ثابت کیا ہے کہ اس قسم کے کسی شخص کا حقیقت میں ہر گز کوئی وجود نہیں ہے اور یہ سیف کا جعلی راوی ہے ۔اس کے علاوہ '' خالد '' اور ''عبادہ'' دونوں مجہول الھویہ ہیں ۔

۹۴

تاریخ طبری میں نافع کے بارے میں سیف سے دو روایتیں نقل ہوئی ہیں جن میں چند راویوں کا نام لیا گیا ہے کہ یہ نام حدیث اور رجال کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں حقیقت میں سیف ان کا نام لے کر دوسرے موارد کی طرح یہاں پر بھی اپنے جھوٹ پر پردہ ڈالنے کے لئے ان حدیثوں کو حقیقی راویوں سے منسوب کرتا ہے ۔اور ہم بھی اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ سیف کی دروغ بافی کے گناہ کو ان راویوں کی گردن پر نہ ڈالیں ،خاص کر جب کہ سیف وہ تنہا شخص ہے جو ان راویوں پر اس قسم کی تہمتیں لگاتاہے۔

بحث کا خلاصہ

قطبہ بن مالک تمیمی عمر ی کا پوتا ابو بجید نافع بن اسود ایک افسانوی صحابی ہے جسے سیف نے ایک قوی اور مشہور شاعر کی حیثیت سے پیش کیا ہے ۔

اسے یمامہ کی جنگ میں خالد بن ولید کے ساتھ دکھایا ہے '' عبد اللہ حلاحلی تمیمی '' کے سوگوار کی حیثیت سے پیش کیا ہے دمشق اور بصری کی فتوحات میں اس کی شرکت دکھائی ہے اور ان تمام واقعات کے بارے میں اس کی زبان سے اشعار ذکر کئے ہیں ۔

اس نے قادسیہ اور مدائن کی جنگیں دیکھی ہیں اور ان سے ہر ایک کے لئے دلفریب رزمیہ اشعار لکھے ہیں ۔

رومیوں کے ساتھ جنگ کے بارے میں ایک شعلہ بار قصیدہ اور '' جلولا'' و ''رے '' کی جنگوں کے بارے میں رزمیہ اشعار بھی اس کے نام درج ہیں ۔

سیف کی روایتوں کے مطابق گرگان ،گیلان اور برجان کی جنگوں کے بارے میں بھی اس نے زیبا اشعار کہے ہیں اور اپنے قبیلہ تمیم کے بارے میں دلاوریوں اور افتخارات کے قصیدہ لکھے ہیں ؛

۹۵

نافع کے افسانہ کا سر چشمہ

ان تمام افسانوں کا سر چشمہ سیف کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے لیکن ان افسانوں کی اشاعت اور پھیلائو میں درج ذیل دانشوروں اور علماء نے اپنی اپنی نوبت کے مطابق ابو بجید نافع بن اسود کی داستان کو بلا واسطہ یا با واسطہ سیف سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

١)۔ نصر بن مزاحم ( وفات ٢١٢ھ )

٢)۔ دار قطنی ( وفات ٣٨٥ھ )

٣)۔ ابن ماکولا ( وفات ٤٧٥ھ )

ان تینوں علماء نے صراحت سے کہا ہے کہ نافع کی داستان انھوں نے سیف سے نقل کی ہے

٤)۔ ابن عساکر (وفات ٥٧١ھ) اس نے اپنے مطالب کو سیف اور ابن ماکولا سے نقل کیا ہے

٥)۔ طبری ( وفات ٣١٠ھ ) اس نے سیف سے مطالب نقل کرکے ان کے اسناد کا بھی ذکر کیا ہے.

٦)۔ ابن اثیر (وفات ٦٣٠ھ )

٧)۔ ابن کثیر (وفات ٧٧٤ھ)

٨)۔ ابن خلدون (وفات ٨٠٨ھ)

ان تین دانشوروں نے بھی نافع کی داستان کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

٩)۔ مرزبانی (وفات ٣٨٤ھ)

١٠)۔ یاقوت حموی ( وفات ٦٢٦ھ)

١١)۔ حمیری (وفات ٩٢٠ھ)

نافع کے بارے میں جن مطالب کو با واسطہ یا بلا واسطہ مذکورہ بالا دانشوروں نے نقل کیا ہے مؤخرالذکر تین علماء نے بھی اپنی روایت کے مآخذ کی طرف اشارہ کئے بغیر ان ہی مطالب کو اپنی کتابوں میں نقل اور درج کیا ہے ۔

۹۶

نافع کے بارے میں سیف کے افسانوں کے نتائج

سیف نے مالک تمیمی کے پوتے بو بجید نافع بن اسود کو اپنے خیال میں خاندان بنی عمرو تمیم سے خلق کیا ہے ،اسے ایک شریف ،شاعر اور ایک صحابی کی حیثیت سے ذکر کرکے خاندان تمیم کے لئے فخر و مباہا ت اور سربلندی کا سبب قرار دیا ہے ۔

اسے بالکل اسی طرح امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے وفادار اور ثابت قدم صحابیوں میں شمار کیا ہے ۔ جیسے اس سے پہلے اس کے قبیلے کے بھائی قعقاع بن عمرو کو وقت کے نامور سورما اور دلاور کے طور پر خلق کرکے حضرت علی علیہ السلام کے دوستدارکی حیثیت سے ذکر کیا تھا ۔چوں کہ ہم نے حدیث اور رجال کی کتابوں کے علاوہ دیگر مأخذ میں کافی جستجو اور تحقیق کے باوجود ان افسانوی باپ بیٹے کا سیف کی احادیث کے علاوہ کہیں نام و نشاں نہیں پایا ۔ اس لئے ان کو سیف کے جعلی اور افسانوی اشخاص میں شمار کرتے ہیں ۔

سیف جو اپنے قبیلے اور خاندان کے افتخارات کے علاوہ کسی اور چیز کی فکر نہیں کرتا ،اپنے افسانوی شاعر کے ذریعہ اپنے قبیلہ تمیم بالاخص خاندان ''اسید'' وبنی عمرو کے بارے میں ستائشوں کے دلخواہ قصیدے لکھواکر ان کو سر بلندی اور شہرت بخشتاہے اور نافع کے باپ ''اسود بن قطبہ'' کی زبان پر جاری کرائے گئے اشعار میں بھی انہی مقاصد کی پیروی کرتاہے ۔

غور کیجئے کہ ،وہ کس طرح اپنے خاندان کے حق میں داد سخن دیتے ہوئے خود ستائی کرتاہے ، ملاحظہ ہو:

حجاز کے تمام منصفوں نے اس کی گواہی دی اور اعتراف کیا ہے کہ خاندان تمیم دنیا کے عظیم بادشاہوں کے برابر ہے!

یہ تلاش کوششیں ،خاندان تمیم کی سخاوت وبخشش کا نتیجہ ہے نہ کہ سست اور کمزور اشخاص کا۔

خدائے تعالیٰ نے ایسا ارادہ کیاہے کہ صرف قبیلہ تمیم کے خاندان بنی عمرو کے افراد دشمنوں کے حملوں کا مقابلہ کرکے انھیں دور کریں ۔

۹۷

قبائل تمیم کے تمام افراد بخوبی جانتے ہیں کہ میدان جنگ میں حاضری اور غنائم کو حاصل کرنے میں قیادت وسرپرستی کی باگ ڈور قدیم زمانے سے قبیلہ اسید کے خاندان بنی عمرو ہی کے ہاتھوں میں تھی۔

یہ اور ان سے کہیں زیادہ اشعار کو سیف نے ان دو شاعر باپ بیٹوں کی زبان پر جاری کیاہے ۔اور ان کے ذریعہ قبیلہ تمیم اور اسید کے خاندان بنی عمرو کی اسی طرح ستائش کی ہے جیسے اس سے پہلے اس نے خاندان تمیم کے اپنے دو بے مثال افسانوی سورما،''قعقاع''و''عاصم'' کی جنگوں میں ان کی تعجب خیز شجاعتوں اور دلاوریوں کو دکھاکر مالک تمیمی کے خاندان کو قبیلہ تمیم کے تمام افتخارات کا سرچشمہ ثابت کیاتھا اسے اپنے قبیلے کا چمکتا ستارہ بناکر پیش کیاتھا۔

اس قابل فخر خاندان تمیم کے افراد کا جس طرح سیف نے تصورکیا ہے ،اس کا اندازہ اس کے مندرجہ ذیل شجرہ نسب کے خاکہ سے کیا جاسکتاہے :

مالک تمیمی

عمرو

قطبہ

قعقاع

عاصم

اسود

اعور

عمرو

نافع

۹۸

سیف نے اپنے اسی خیالی خاندان میں چار اصحاب وجنگی سردار ،دو تابعین،چھ رزمیہ شعراء اور احادیث کے راوی جعل کئے ہیں ۔

اس قبیلہ کے لئے سیف کے جعل کئے گئے مذکورہ فخرومباہات کے علاوہ اس نے خاندان تمیم سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے چند منہ بولے بیٹے بھی خلق کرکے اس خاندان کے افتخارات میں چارچاند لگائے ہیں کہ انشاء اللہ ہم اس موضوع پر الگ سے بحث وتحقیق کریں گے۔

قارئین محترم سے گذارش ہے کہ تاریخ ،حدیث ،انساب ،ادبیات،طبقات صحابی،شعرائ، رجال اوراخبار واحادیث کی کتابوں کا خود بھی مطالعہ کرکے دیکھیں کہ کیا سیف کی احادیث اور اس کے افسانوں کے علاوہ بھی کہیں اس افسانوی خاندان کا نام ونشان ملتاہے ؟!

۹۹

چوتھا حصہ : قبیلہ تمیم کے چند اصحاب

* ٦۔عفیف بن منذر تمیمی

* ٧۔زیاد بن حنظلہ تمیمی

* ٨۔حرملہ بن مریطہ تمیمی

* ٩۔حرملہ بن سلمی تمیمی

* ١٠۔ربیع بن مطر بن ثلج تمیمی

* ١١۔ربعی بن افکل تمیمی

* ١٢۔اط بن ابی اط تمیمی

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175