توحید مفضل

توحید مفضل33%

توحید مفضل مؤلف:
زمرہ جات: توحید
صفحے: 175

توحید مفضل
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 175 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130886 / ڈاؤنلوڈ: 6118
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

( مفضل حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں )

مفضل کہتے ہیں جیسے ہی صبح ہوئی میں روانہ ہوا اور اجازت لینے کے بعد آنحضرت کی خدمت میں پہونچا۔ آپ نے مجھے بیٹھنے کو کہا، میں بیٹھ گیا، پھر آپ کھڑے ہوئے اور ایک خالی کمرے کی طرف چلنے لگے، اور مجھے اپنے پیچھے آنے کو کہا میں آپ کے پیچھے چلنے لگا جیسے ہی آپ کمرے میں داخل ہوئے میں بھی آپ کی اتباع کرتا ہوا کمرے میں داخل ہوگیا، حضرت بیٹھ گئے تومیں بھی آپ کے سامنے بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا: اے مفضل آج کی رات میرے وعدہ کے انتظار میں تم پر کافی طولانی گذری میں نے کہا جی ہاں اے میرے آقا و مولاء اس کے بعد آپ نے کلام شروع کیا، اے مفضل سب سے پہلے بھی خدا تھا اس سے پہلے کوئی چیز نہ تھی وہ باقی ہے، اس کی کوئی انتہا نہیں ہے اس کا شکر اس پر کہ جو کچھ اس نے ہم پر الہام کیا، اور جو کچھ ہمیں عطا کیا،اور خداوند عالم نے اپنے علم کے لئے ہمیں منتخب کیا اور بلند مقام عطا کیا اور اس نے اپنے علم سے ہمیں تمام مخلوقات پر فضیلت عطا کی، اور اپنی حکمت سے ہمیں اپنی تمام مخلوق پر شاہد و امین قرار دیا (مفضل کہتے ہیں) میں نے عرض کیا اے میرے آقا و مولا کیا آپ اس بات کی اجازت مرحمت فرمائیں گے کہ میں ان مطالب مشروع کو لکھ لوں۔ اور یہ کہہ کر میں نے قلم و کاغذ آمادہ کیا۔ آپ نے فرمایا مفضل لکھ لو۔

۴۱

( جہل و نادانی خلقت میں تدبیر کے انکار کا سبب )

اے مفضل: خلقت کی حقیقت اور اس کے علل و اسباب میں شک کرنے والے لوگ دراصل جاہل ہیں اور ان کی فکر ہر اس چیز کی حقیقت و حکمت کہ جسے خالق نے پید کیا مثلاً برّی ، بحری، زمینی ، پہاڑی مخلوق میں کوتاہ ہے اور یہ اپنی کم علمی اور ضعیف بصیرت کی وجہ سے اس کا انکار کرتے ہیں اور اسے جھٹلاتے ہوئے اس سے روگردانی کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اشیاء کی خلقت کا بھی انکار کرتے ہیں اور اس بات کے دعویدار ہیں کہ تمام چیزیں محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں جن میں نہ کوئی ہنر مندی نہ اندازہ گیری ہے اور نہ کسی خالق ومدبر کی حکمت شامل حال ہے خداوند عالم ان صفات سے بھی بالاتر ہے جن کے ذریعہ اس کی تعریف بیان کی جاتی ہے خدا انہیں نیست ونابود کرے کہ یہ لوگ اُسے چھوڑ کر کون سے پناہ گاہ کی طرف رخ کرتے ہیں یہ لوگ گمراہی کے اندھیرے اور پریشانی کے عالم میں ان نابیناؤں کی طرح ہیں جو ایک ایسی عمارت میں داخل ہوں کہ جس کی بناوٹ محکم و زیبا ، خوبصورت فرش سے آراستہ مختلف قسم کی غذائیں، لباس اور تمام اشیاء مکمل معیار کے ساتھ انسان کی ضرورت کے مطابق ہوں۔ اور یہ لوگ اس کے اندر دائیں اور بائیں آمدورفت کرتے ہیں اس کے کمروں میں داخل و خارج ہوتے ہیںلیکن اس طرح کہ جیسے ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے کہ وہ اس عمارت کی بناوٹ و سجاوٹ اور جو کچھ اس میں مہیا و آمادہ کیا گیا اسے نہیں دیکھ پاتے افسوس ایسے لوگوں پر جو یہ جانتے ہیں کہ اس میں ہر چیز مناسب جگہ پر نصب ہے اور وہ ان تمام چیزوں کی احتیاج رکھتے ہیں اس کے باوجود وہ ان کے اغراض و مقاصد سے جاہل اور نا آگاہ ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ کس کے لئے بنی ہیں اور فوراً غصہ کی حالت میں اپنی تند وتیز زبان کو اس عمارت اور اس کے بانی کی شان میں دراز کرتے ہیں یہ حال اس طبقے کے لوگوں کا ہے جو أمر خلقت میں استعمال شدہ تدبیر کا فقط اس لئے انکار کرتے ہیں کہ ان کا ذہن اشیاء کی علت اور ان کے اسباب کے ادراک سے قاصر ہے پس وہ اس عالم میں حیرت زدہ

۴۲

ہیں اور ادہر اُدہر دیکھ رہے ہیں اور جو کچھ استحکام اور تدیر اس میں موجود ہے اسے سمجھنے سے قاصر ہیں صد حیف ایسے لوگوں پر جو اشیاء کی علت اور ان کے فوائد کو نہ جاننے کی وجہ سے اپنی تند و تیز زبان کو اس کی شان میں دراز کرتے ہیں اور یہ کہہ اٹھتے ہیں کہ جہاں محض اتفاقات کا نتیجہ ہے جیسا کہ فرقہ مانویہ(۱) اور فرقہ ملحدہ(۲) اور انہی کی طرح دوسرے گمراہ فرقے کہ جنہوں نے اطاعت پروردگار کو چھوڑ کر اپنے آپ کو بے بنیاد باتوں میں مشغول کر رکھا ہے۔ ایسی حالت میں ان لوگوں پر کہ جنہیں خداوند عالم نے اپنی نعمتوں کی معرفت ''اپنے دین کی ہدایت '' اور صنعت مخلوق میں فکر و تأمل کی توفیق عطا کی اور ان لوگوں نے خلقت کے رموز اور اسرار و لطائف و تدابیر اور ان نشانیوں کو جان لیا کہ جو اس کائنات میں کارفرما ہیں اور اپنے خلق کرنے والے کی طرف اشارہ کررہی ہیں۔ لازم ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے اور اپنے آقا و مولاء کا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کریں اور اس امر میں استقامت کو ملحوظ نظر رکھیں اور اس میں اضافہ کے لئے اپنے اندر بصیرت پیدا کریں اس لئے کہ وہی تو خدا ہے کہ جس کا نام بزرگ و برتر ہے جو فرماتا ہے۔

(لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَاِن کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِی لَشَدِیْد) (۳)

اگر تم نے میری نعمتوں پر شکر کیا، تو میں اس میں اضافہ کروں گا،اور اگر تم نے کفر کیا تو میرا عذاب شدید و سخت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ ایسا دین کہ جو یہودیت ، عیسائیت، اور مجوسیت سے مل کر بنا۔

(۲)۔ بے دین

(۳)۔ سورہ ابراہیم آیت ۷

۴۳

( وجود خدا پر پہلی دلیل )

اے مفضل: خداوند عالم کے وجود اور اس کی طہارت اور پاکیزگی پر پہلی دلیل اس جہان کا وجود اس کی آمادگی اس کے اجزاء کی بناوٹ اور اس کا نظام ہے اس لئے کہ اگر تم جہان کا جس انداز سے وہ بنا ہوا ہے مشاہدہ کرو تو قوت فکر سے اس نتیجے پر پہنچو گے کہ یہ جہان ایک مکان کی طرح ہے، جس میں وہ تمام اشیاء موجود و مہیا ہیں کہ جن کی اس کے اندر رہنے والوں کو ضرورت و احتیاج ہے جیسے آسمان کا شامیانہ مثل چھت، زمین کا بچھونا مثل فرش، ایک دوسرے سے نزدیک ستارے مثل چراغ، جواہرات و خزانے مثل ذخیرے کے ہیں خلاصہ یہ کہ ہر چیز اپنے اپنے کام کی مناسبت سے آمادہ و مہیا دکھائی دیتی ہے اور انسان اس مکان میں رہنے والا ہے مکان کی تمام مہیا و آمادہ چیزوں کو اس کے اختیار میں دے دیا گیا ہے جیسے اقسام نباتات کہ جن سے وہ اپنی بہت سی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے، اصناف حیوانات کہ جن کے وسیلہ سے وہ بہت سے فائدوں سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ پس ان تمام باتوں سے یہ ثابت ہوتا کہ جہان ، تدبیر ، حکمت اور مضبوط نظام کے تحت وجود میں آیا ہے اور اس کا پیدا کرنے والا ایک ہے جس نے اس جہان کے اجزاء کی بناوٹ کو ایک دوسرے کے ساتھ مرتب و منظم کیا ہے اور وہ خدا صاحب عزت وجلالت اور پاک و پاکیزہ اور بلند ہے کہ جس کا چہرہ صاحب جلالت او ر کرامت ہے جس کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں ، خداوند عالم ان تمام اقوال و افکار سے بالاتر ہے جو مشرکین اور گمراہ لوگ اس کے بارے میں رکھتے ہیں ۔

۴۴

( انسان کے اندر واضح اور روشن آیات خدا کے وجود پر دلالت کرتی ہیں )

اے مفضل اب میں تمہیں انسان کی پیدائش کے بارے میں بتاتا ہوں کہ تم اس سے عبرت حاصل کرو، اے مفضل انسان کے اندر تدبیرپرپہلی دلیل وہ حکمت ہے جو اس وقت استعمال ہوتی ہے جب وہ رحم مادر میں تین تاریکیوں (۱۔ تاریکی شکم ،۲۔ تاریکی رحم ، ۳۔ تاریکی مشیمہ(۱) ) میں لپٹا ہوا تھا،کہ جب اس کے پاس غذا کو طلب کرنے اور اذیت کو دور کرنے کے لئے کوئی چارہ وعلاج نہ تھا،نہ فائدے کو حاصل کرسکتا تھا اور نہ نقصان کو دور ، ایسی صورت میں خون حیض کے ذریعہ اُسی طرح اس کی غذا فراہم کی جاتی ہے جس طرح پانی پودوں کے لئے غذا فراہم کرتا ہے، یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک اس کا جسم اور اس کی کھال اس قدر محکم اور قوی ہوجائے کہ وہ تیز اور تند ہوا کا مقابلہ کرسکے، اور اس کی آنکھیں روشنی سے مقابلہ کے لئے آمادہ ہوجائیں اسی اثناء میں درد زہ اس کی ماں کو بے چین کرتا ہے، یہ درد اس قدر بے چینی اور دباؤ کا سبب بنتا ہے کہ بچے کی ولادت ہوجاتی ہے جب بچے کی ولادت ہوچکی ہو، تو وہ خون جو رحم میں اس کی غذا فراہم کرتا تھا، اب وہی اس کے ماں کے پستانوں کی طرف جاری ہوجاتا ہے اور اس کا رنگ و ذائقہ تبدیل ہوکر دودھ کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور یہ دودھ پہلی بہتر غذا اور بچہ کے مزاج کے عین مطابق ہے بچہ پیدائش کے وقت اپنی زبان کو اپنے منھ میں پھرا کر اور ہونٹوں کو حرکت دے کر غذا کی ضرورت کا اظہار کرتا ہے، ایسے میں اس کی ماںاپنے پستانوں کو جو دو ظروف کے مانند آویزاں ہیں اس کی طرف بڑھاتی ہے اور بچہ ایسی حالت میں جب کہ اس کا بدن نرم اور اس کی غذائی نالیاں بالکل باریک ہیں دودھ کو غذا کے طور پر ان سے حاصل کرتا

ہے، اور اس طرح نشوونما پاتا ہوا حرکت کو اپنے بدن میں میں ایجاد کرتا ہے، جس کے بعد اب اسے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بچہ دانی

۴۵

ایسی غذا کی ضرورت ہوتی ہے جو ذرا سخت ہو تاکہ اس کا جسم محکم اور قوی ہوجائے، لہٰذا غذا کو کاٹنے اور چبانے کے لئے دانت نمودار ہوتے ہیں تاکہ وہ غذا کو نرم بنائیں اور اسے نگلنے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے، یہ بچہ اس طرح منزلیں طے کرتا ہوا حد بلوغ تک پہونچ جاتا ہے اگر وہ بچہ لڑکا ہو تو اس کے چہرے پر بال نکل آتے ہیں، یہی علامت زکوریت اور عزت مرد ہے کہ جس کے ذریعہ سے وہ طفولیت اور خواتین کی شباہت سے باہر آجاتا ہے، اور اگر یہ بچہ لڑکی ہو تو اس کا چہرہ ویسا ہی بالوں سے صاف رہتا ہے تاکہ اس کی زیبائی و درخشندگی باقی رہے کہ جو مردوں کے میلان کا سبب ہے اس لئے کہ عورت ہی کے وسیلہ سے نسل جاری و باقی رہتی ہے۔

اے مفضل۔ اس حسن تدبیرسے عبرت حاصل کرو، جوانسان کے مختلف احوال میں استعمال ہوئی ہے کیا یہ ممکن ہے کہ انسان بغیر کسی خالق و مدبر کے وجود میں آیا ہو؟ اگر جنین کو خون نہ ملتا تو وہ اس پودے کے مانند خشک سالی کا شکار ہوجاتا جس کی آبیاری نہ کی گئی ہو اور اگر جنین کو کامل ہونے کے بعد ولادت کے ذریعہ رحم کی تنگی سے نہ نکالا جاتا تو ہمیشہ رحم میں زندہ درگور ہوکر رہ جاتا، اور اسی طرح اگر ولادت کے بعد اس کے لئے دودھ کو جاری نہ کیا جاتا تو بھوک سے مرجاتا یا پھر ایسی غذاؤں کے استعمال کرنے پر مجبور ہوتا جو اس کے بدن اورصحت کے لئے مناسب نہ ہوتیں اور اگر اس وقت جبکہ وہ غلیظ اور سخت غذا کے استعمال کے قابل ہوجاتا دانت نہ نکلتے تو غذا کا چبانا اس کے لئے ناممکن ہوتا جس کے سبب اس کا نگلنا بچہ کیلئے دشواری کا باعث بنتا اور اگر وہ دودھ جو اس کی غذا تھا، ہمیشہ اس کی غذا رہتا تو اس کا جسم کبھی محکم نہ ہوتا جس کی وجہ سے وہ دشوار اور مشکل کام انجام دینے سے پرہیز کرتا، اور اس کی ماں ساری زندگی اس کی پرورش میں لگی رہتی اور یہ بات دوسرے بچوں کی پرورش میں رکاوٹ کا سبب بنتی اور اگر حد بلوغ پر پہنچنے کے بعد اس کے چہرے پر داڑھی نہ نکلتی تو ہمیشہ عورت کی شبیہ رہتا، اور وہ وقار اور جلال جو مردوں کے لئے ہے ہرگز نہ ہوتا۔

۴۶

مفضل کہتے ہیں: میں نے کہا اے میرے آقا و مولا۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض مردوں کے داڑھی نہیں نکلتی اور وہ اپنی سابقہ حالت پر باقی رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ بوڑھے ہوجاتے ہیں اس میں کیا حکمت ہے؟ امام نے فرمایا: یہ ان کے اپنے کئے کا نتیجہ ہے، ورنہ خدا اپنے بندوں پر ہرگز ظلم نہیں کرتا اب ذرا بتاؤوہ کون ہے جو بچہ کی اس مرحلہ میں دیکھ بھال کرتا ہے جبکہ وہ رحم مادر میں ہے اس کے لئے ہر اس چیز کو فراہم کرتا ہے ، جس کی اس بچے کو ضرورت و احتیاج ہے ، سوائے اس کے اور کوئی نہیں ہے کہ جس نے اسے پیدا کیا ہے، پس وہ چیز کہ جس کا وجود نہ تھا بہترین طریقہ پر وجود میں آتی ہے، اور اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ اس قسم کے مدبرانہ کام محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں تو اس وقت یہ لازم آتا ہے کہ قصد و ارادہ کے ذریعہ غیر منظم کام وجود میں آئیں اس لئے کہ یہ دونوں اتفاق کی ضد ہیں اور یہ گفتار بدترین گفتار ہے اور اگر کوئی ایسا کہے بھی تو یہ کہنا اس کے جاہل ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ اتفاق صحیح اور درست کام انجام نہیں دیتا اور نہ ہی تضاد نظم کو ایجاد کرتا ہے، خداوند عالم بلند و برتر ہے ان تمام افکار سے جو کم ذہنیت کے لوگ اس کے بارے میں رکھتے ہیں۔

۴۷

( بچہ اگر ولادت کے وقت عاقل ہوتا تو کیا ہوتا؟ )

اے مفضل ! بچہ اگر وقت ولادت عاقل ہوتا تو منکر عالم ہوجاتا اور متحیر ہو کر رہ جاتا اور اپنی عقل کھو بیٹھتا ایسا اس لئے ہوتا کہ وہ لمحہ بہ لمحہ، روز بروز ایسی چیزوں کا مشاہدہ کرتا جن کے بارے میں وہ اطلاعات اور معلومات نہ رکھتا مثلاً مختلف حیوانات ، پرندے اور اس قسم کی دوسری عجیب و غریب مخلوق جسے اس نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا اس بات کو اس چیز سے سمجھ سکتے ہو کہ اگر کوئی عاقل شخص ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرے تو تم اسے حیران و پریشان پاؤگے، وہ شخص جلد اہل شہر کی زبان نہیں سیکھ سکتا اورنہ جلد ہی ان کے آداب و رسومات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال سکتا ہے ، بالکل اس کی وہی کیفیت ہے کہ جو اس کے بچپنے میں تھی جبکہ وہ غیر عاقل تھا۔اس کے علاوہ اگر بچہ عاقل پیدا ہوتا ،تو احساس حقارت کو اپنے اندر محسوس کرتا ، ایسا اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں کی گود میں یا کپڑوں میں لپٹا ہوا پاتا اور وہ اپنے جسم کی نرمی اور تری اور نزاکت حفاظت کے لئے ایسی حالت میں رہنے پر مجبور ہوتا، اس کے علاوہ بچہ اگر عاقل پیدا ہوتا تو اس کے اندر وہ لذت و لطافت جو اس وقت بچے میں پائی جاتی ہے نہ ہوتی ان تمام اسباب کی وجہ سے بچہ دنیا میں غیر عاقل پیدا ہوتا ہے تاکہ وہ اشیاء کو اپنی ناقص معرفت اور ناقص ذہن کے سہارے پہچانے ، پھر تم دیکھتے ہو کہ آہستہ آہستہ اس کی معرفت پڑھتی ہے یہاں تک کہ تمام چیزوں سے مانوس ہونے لگتا ہے اور تدریجاً تمام اشیاء سے آگاہی پیدا کرتا ہوا حالت حیرانی و پریشانی سے باہر آجاتا ہے، اشیاء کو اپنی عقل کی مدد سے زندگی کے استعمال میں لاتا ہے، اور اس طرح وہ یا شکر گزاروں میں سے ہوجاتا ہے یا غافلوں میں سے اس کے علاوہ عاقل پیدا ہونے کی صورت میں دوسرے نتائج بھی برآمد ہوسکتے تھے، وہ یہ کہ اگر بچہ عاقل پیدا ہوتا تو خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتا اور تربیت اولاد کی اُس لذت کو ختم کردیتا کہ جو خداوند عالم نے اس کے اندر رکھی ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں کی صحیح تربیت کریں اور انہیں ایک صحیح نتیجے تک پہنچادیں ، یہی وہ چیز ہے جو

۴۸

فرزند پر واجب کرتی ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ جب وہ اس کی نوازش کہ محتاج ہوں ،نیکی کرے، ورنہ کوئی اولاد اپنے والدین سے الفت و محبت نہ رکھتی اور والدین بھی اپنی اولاد کے سلسلے میں لاپروائی سے کام لیتے اس لئے کہ اولاد اپنی تریبت میں والدین کی توجہ کی محتاج نہ رہتی اور ولادت کے وقت ہی ان سے جدا ہو جاتی، ایسی صورت میںکوئی شخص اپنے والدین کو نہ پہچانتا ،اور اس صورت میں اپنی ماں بہنوں اور دوسرے محارم سے خواستگاری کرتا، کمترین قباحت عاقل پیدا ہونے کی صورت میں یہ ہوتی یا یوں کہوں کہ بدترین اور اسے شدید رنجیدہ کرنے والی بات یہ ہوتی کہ وہ اپنی ماں کی شرم گاہ کو دیکھتا کہ جو اس کے لئے حلال نہیں، اور یہ ہرگز صحیح نہیں کہ وہ اسے دیکھے تو کیا تم نہیں دیکھتے کہ خلقت میں کس طرح ہر چیز اپنی مناسب جگہ پر موجود ہے، خلاصہ یہ کہ تمام امور چاہے وہ جزئی ہوں یا کلی خطا و لغزش سے دور ہیں۔

( بچہ کے گریہ کے فوائد )

اے مفضل بچہ کے گریہ کے فوائد کو جان لو ، کہ بچہ کے دماغ میں ایک ایسی رطوبت ہے جو اگر اس کے دماغ میں باقی رہ جائے، تو اس کے لئے بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے جیسے بچہ کا اندھا ہونا اور اس قسم کے دوسرے امراض، اس کا رونا ہی اس رطوبت کو دماغ سے نیچے لانے کا سبب ہے، جس کے نتیجے میں اس کا بدن صحیح و سالم رہتا ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بچہ اپنے رونے کے فائدے سے ہم کنار ہورہا ہو، اور اس کے والدین اس سے بے خبر ہوں، اور صد در صد ان کی یہی کوشش ہو کہ بچہ خاموش ہوجائے اس لئے کہ وہ نہیں جانتے کہ بچہ کا رونا ہی اس کے حال و مستقبل کے لئے بہتر ہے ، اسی طرح کی بہت سی چیزیں ہیں کہ جن میں بے شمار فوائد پوشیدہ ہیں ، لیکن لوگ ان سے جاہل اور ملحدین ان سے بے خبر ہیں، اور اگر جان بھی لیں تو ان کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت انصاف سے کام نہیں لیتے اور

۴۹

کہہ اٹھتے ہیں کہ ان چیزوں میں کوئی فائدہ نہیں، ہاں یہ لوگ جاہل اور ان چیزوں کے اسباب و علل سے بے خبر ہیں ، اس قسم کی بہت سی چیزیں ہیں جنہیں منکرین نہیں جاتے مگر عارفین ان سے واقفیت رکھتے ہیں، اور مخلوقات میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں کہ جن تک منکرین نہیں پہنچ پاتے ، مگر خداوند عالم کے علم نے ان کا احاطہ کیا ہوا ہے۔

( بچہ کے منہ سے رال ٹپکنے کے فوائد )

اے مفضل وہ رال جو بچے کے منہ سے ٹپکتی ہے اس میں بھی ایک راز ہے وہ یہ کہ رال بچہ کے بدن سے اس رطوبت کو خارج کرتی ہے جس کے باقی رہ جانے سے ایک بڑے ضرر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جس بچے پر اس رطوبت کا غلبہ ہو جاتا ہے تو وہ رطوبت اسے دیوانگی اور اختلال عقل سے دوچار کردیتی ہے، اور اس کے علاوہ بہت سی بیماریوں جیسے فالج اور لقوہ کا سبب بنتی ہے۔ لہٰذا خداوند عالم نے اس رال کو اس طرح قرار دیا کہ وہ بچہ کے منہ سے ٹپکے تاکہ جوانی میں اس کا بدن صحیح و سالم رہے، خداوند عالم اپنے تمام بندوں پر اپنا فضل و کرم کرتا ہے، چاہے اس کے بندے اس سے بے خبر ہی کیوں نہ ہوں، اگر بندے خداوند عالم کی دی ہوئی نعمتوں کی معرفت حاصل کرلیں ، تو وہ گناہوں سے پرہیز کریں ، پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جس کی نعمتیں اس کے بندوں پر فراوان ہیں چاہے وہ اس کے مستحق ہوں یا نہ ہوں، خداوند عالم بلند و برتر ہے ، اُن تمام افکار سے جو کم ذہنیت کے لوگ اس کے بارے میں رکھتے ہیں۔

۵۰

( مرد و زن میں آلات جماع )

اے مفضل ، اب ذرا غور کرو کہ کس طرح سے خالق دوجہاں نے مرد و زن کیلئے ان کی مناسبت سے آلات جماع کو بنایا مرد کیلئے ایک ایسا آلہ بنایا کہ جو دراز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، تاکہ نطفہ رحم تک پہنچ سکے، اس لئے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو نطفہ کسی دوسری جگہ گر جاتا اور عورت کیلئے آلہ جماع کو ایک عمیق ظرف کی مانند خلق کیا ، کہ جہاں آب مرد و زن ملتے ہیں ، اسی عمیق ظرف میں بچہ رہتا ہے اور نشوونما پاتا ہے، اور یہ ظرف ولادت کے دن تک اس بچہ کی حفاظت کرتا ہے کیا یہ نازک و لطیف کام خداوند حکیم کی حکمت کے تحت نہیں؟

( اعضاء بدن کے کام )

اے مفضل غور کرو بدن کے اعضاء اور ان کے حسن انتخاب پر کہ دو ہاتھ کام کاج کرنے، دو پاؤں راہ چلنے ، آنکھیں راہ کو تشخیض دینے، منہ غذا کو کھانے، معدہ غذا کے ہضم کرنے، جگر خون کا تصفیہ کرنے مختلف سوراخ فضلات کے خارخ ہونے، فرج نسل کو باقی رکھنے گویا جسم کو ہر عضو کسی نہ کسی کا کے لئے خلق کیا گیا ہے، اگر تم غور وفکر اور دقت سے کام لو تو تم دیکھو گے کہ ہر چیز صحیح اور حکمت کے تحت بنائی گئی ہے۔

۵۱

( کائنات کے اُمور طبیعت کا نتیجہ نہیں ہیں )

مفضل کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی مولا بہت سے لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ تمام کام طبیعت انجام دیتی ہے تو آپ نے فرمایا:کہ ان لوگوں سے یہ سوال کیا جائے کہ یہ طبیعت کیا ہے؟ کیا وہ ان کاموں کو بغیر علم و قدرت کے انجام دیتی ہے یا نہیں، پس اگر وہ اس کے علم و قدرت کو ثابت کرتے ہیں تو پھر کیونکر خدا کے اثبات سے انکار کرتے ہیں باجود اس کے کہ یہ تمام کام خداوند عالم کی تدبیر کے تحت انجام پاتے ہیں اور اگر وہ کہیں کہ طبیعت ان کاموں کو بغیر علم و قدرت کے انجام دیتی ہے، تو یہ کہنا بھی ان کا غلط ہوگا اس لئے کہ تم اس کائنات میں علم و قدرت کے آثار کا مشاہدہ کرتے ہو، اور خدائے بزرگ اپنے تمام امور کو اس طبیعت کے تحت انجام دیتا ہے کہ جس سے کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ طبیعت خود مستقل طور سے ان کاموں کو انجام دیتی ہے، اور اس طرح وہ لوگ خدائے حکیم سے غافل ہوجاتے ہیں لیکن ذرا سے غور فکر کہ بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ تمام کام خدا ہی کی طرف سے ہیں۔

( غذا کے جسم میں پہنچنے پر معدہ اور جگر کا حیرت انگیز عمل )

اے مفضل! غذا کے بدن میں پہنچنے اور اس کی تجویز پر غور کرو، جب غذا معدہ میں داخل ہوتی ہے ، تو معدہ اس غذا کو پکا کر بہت ہی باریک پردہ دار سوراخوں کے ذریعہ صاف غذا کو جگر تک پہنچاتا ہے اس لئے کہ اگر گندھی غذا جگر تک پہنچ جاتی ہے تو انسان مریض ہوجاتا ہے،کیونکہ جگر بہت ہی زیادہ نازک اور لطیف ہے،جو فضولات کو اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اب جگر کا کام یہ ہے کہ اس صاف غذا کو قبول کرنے کے بعد اس کو ایک خاص انداز سے خون میں تبدیل کردے جو باریک نالیوں کے ذریعہ جسم کے تمام حصوں میں پھیل جاتاہے، بالکل اسی طرح جس طرح پانی زمین پر پھیل جاتا ہے اور باقی

۵۲

کثافتیں ایک خاص تھیلی میں جمع ہو جاتی ہیں ، جو جنس صفراء میں سے ہے وہ پتے ّکی طرف اور جو جنس سودا میں سے ہے وہ تلی کی طرف روانہ ہو جاتی ہے، اور جو رطوبت باقی بچتی ہے ، وہ مثانہ کی طرف حرکت کرتی ہے ، بدن کی تدبیر و حکمت اور اس کے اعضاء کی مناسبت پر فکر کرو، جو اس کے عین مطابق ہے، اب ذرا دیکھو ان تھیلیوں کی طرف کہ انہیں کس طرح تیار کیا گیا ہے،جو اس بات کی بالکل اجازت نہیں دیتی ہیں کہ کثافتیں بدن میں منتشر ہو کر بدن کو مریض اور اسے ہلاکت تک پہنچادیں۔کس قدر مبارک ہے وہ ذات کہ جو محکم اور قوی ارادہ رکھتی ہے، تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیںجن کا وہ لائق ہے۔

( حیات انسانی کا پہلا مرحلہ )

مفضل کہتے ہیں میں نے عرض کی! اے میرے آقا و مولا اب آپ میرے لئے بدن کی نشوونما اور یہ کہ وہ کس طرح حد کمال تک پہنچتا ہے، بیان فرمائیں ،آپ نے فرمایا اے مفضل ، حیات انسانی کا پہلا مرحلہ تصویر جنین ہے جہاں نہ اسے کوئی آنکھ دیکھ پاتی ہے اور نہ ہی کوئی ہاتھ اس تک پہنچ سکتا ہے، ایسی حالت میں اس کی تربیت خالق حکیم کرتا ہے یہاں تک کہ وہ تمام اعضاء جیسے عضلات ، ہڈیاں، گوشت ، چربی، پٹھے ، رگیں اور نرم ہڈیوں سے مرکب و مجہّز ہو کر باہر آتا ہے، اور جیسے ہی وہ باہر آتا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ کس طرح اس کے اعضاء اپنی شکل و صورت پر باقی رہ کر بغیر کسی کمی و بیشی کے رشد کرتے ہیں ، اور پھر ایک خاص حد پر پہنچ کر رک جاتے ہیں، اور رشد نہیں کرتے چاہے اس شخص کی زندگی کوتاہ ہو یا طویل کیا یہ سب کام تدبیر و حکمت کے تحت نہیں ہیں؟

۵۳

( انسان کی ایک خاص فضیلت )

اے مفضل، اس صفت و فضیلت پر غور کرو، جو خداوند عالم نے اپنی تمام مخلوق میں فقط انسان کو عطا کی وہ یہ ہے کہ وہ سیدھا کھڑا ہوسکتا ہے، صحیح طریقے سے بیٹھ سکتا ہے، اور اسے ہاتھوں جیسی نعمت سے نوازا ہے، جن کے ذریعے وہ اپنے امور انجام دیتا ہے، لیکن اگر اس کے ہاتھ بھی چوپاؤں کی طرح ہوتے تو وہ ان کاموں کو انجام نہیں دے سکتا تھا۔

( حواس خمسہ کے صحیح مقامات )

اے مفضل! اب ذرا غور و فکر کرو ان حواس پر جو خداوند عالم نے انسان کو عطا کئے اور اسے اپنی تمام مخلوق میں فضیلت عطا کی، ذرا دیکھو، خداوند عالم نے آنکھوں کو سر پر کس طرح قرار دیا جیسے کوئی چراغ مینارہ پر ہو، تاکہ اشیاء کی اطلاع ممکن ہو سکے، اور انہیں نچلے اعضاء مثلاً ہاتھ پاؤں وغیرہ میں نہ رکھا تاکہ معرض آفات قرار نہ پائیں جب ہاتھ پاؤں کام میں مشغول ہوں تو یہ ہر قسم کی ضرر اور خطرہ سے محفوظ ہوں، اور نہ ہی آنکھوں کو درمیانی اعضاء جیسے شکم یا کمر پر قرار دیا کہ یہاں آنکھ کے لئے گردش کرنا دشوار ہوجاتا اور کیوں کہ اعضاء میں سر سے بہتر کوئی دوسرا عضو نہیں، لہٰذا خداوند عالم نے اسے حواس کا مرکز بنایا ہے، اور وہ ان حواس پر صومعہ(۱) کے مانند ہے۔ خدا وند عالم نے انسان کیلئے پانچ مختلف حواس کو بنایا، تاکہ پانچ مختلف چیزوں کا ادراک کرسکے، آنکھیں دیکھنے کیلئے بنائی گئیں ہیں تاکہ رنگوں کو درک کرسکیں، اس لئے کہ اگر رنگ ہوتے لیکن انہیں دیکھنے کیلئے آنکھیں نہ ہوتیں تو رنگوں کا ہونا

بے فائدہ ہوتا، کان آواز سننے کیلئے بنائے گئے ہیں، اگر آواز ہوتی مگر انہیں سننے کیلئے کان نہ ہوتے تو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ خانقاہ، یا پہاڑ کی چوٹی پر راہب کی عبادت گاہ۔

۵۴

آواز کا ہونا بے جا ہوتا، اور اسی طرح تمام حواس اور اس کے برعکس اگر دیکھنے کے لئے آنکھیں تو ہوتیں، لیکن رنگ نہ ہوتے تو ایسی صورت میں آنکھوں کا ہونا کوئی اہمیت نہ رکھتا، اسی طرح اگر کان ہوتے لیکن آواز نہ ہوتی تو کانوں کا ہونا بے محل ہوتا ، ذرا دیکھو تو کس طرح سے بعض چیزیں بعض دوسری چیزوں کو درک کرتی ہیں، اور ہر قوت ِ حس کے لئے ایک محسوس مختص ہے، کہ وہ فقط اسے درک کرے، اور ان محسوسات کیلئے دو چیزیں اور بھی ہیں جو قوت حس اور محسوس کے درمیان رابطہ ہیں، کہ اگر یہ دو چیزیں نہ ہوں تو قوت حس ہرگز محسوس کو درک نہیں کرسکتی، اور وہ دو چیزیں ، روشنی اور ہواہے۔ اس لئے کہ اگر روشنی رنگ کوآشکار نہ کرے تو آنکھ انہیں ہرگز درک نہیں کرسکتی، اسی طرح ہوا اگر آواز کو کان تک نہ پہنچاتی تو کان کبھی بھی آواز کو نہیں سن سکتے تھے کیا اب بھی صاحبان فکر کے لیے قوتِ حس ، محسوس اور ان کے روابط کے بارے میں کوئی بات پوشیدہ رہ جاتی ہے، کہ جن کے بغیر ادراک ممکن نہیں ہوتا اور یہ کہ وہ کس طرح بعض بعض کو درک کرتے ہیں ، یہ وہ تمام چیزیں ہیں کہ جو خداوند لطیف و خبیر کے قصد و ارادہ اور اس کی اندازہ گیری کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔

( عقل ، آنکھ اور کان کی عدم موجودگی اختلال کا سبب )

اے مفضل غور و فکر کرو، اس شخص کے بارے میں کہ جو اپنی آنکھ سے محتاج ہے، کہ اس کے کاموں میں کسی قدر خلل ایجاد ہوتا ہے، کہ اپنے پاؤں کی جگہ اور اپنے آگے کی اشیاء کو نہیں دیکھ پاتا نہ وہ رنگوں کے درمیان فرق کرسکتا ہے اور نہ اچھے برے کی پہچان کرسکتا ہے اور نہ ہی وہ اس گڑھے کو دیکھ سکتا ہے کہ جس میں غفلت سے گرجاتا ہے ، اور نہ اس دشمن کو دیکھ سکتا ہے کہ جو اس پر تلوار کھینچے ہوئے ہے، اور وہ خط و کتابت لکڑی کا کام، سونے وغیرہ کا کام اور اس قسم کے دوسرے کام سے بھی محتاج ہے، ایسا شخص اگر چست نہ ہو تو اپنی جگہ پر پڑے ہوئے پتھر کی مانند ہے۔ اور اسی طرح وہ شخص جو بہرا ہو توا س کے

۵۵

کاموں میں بھی بہت زیادہ خلل ایجاد ہوتا ہے، ایسا شخص گفتگو کی لذت سے محروم رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ مختلف مجالس میں جانے سے اجتناب کرتا ہے ، اس لئے کہ ان میں شرکت اس کے لئے رنجش کاباعث ہوتی ہے ، کیونکہ وہ کسی بھی بات کو نہیں سن پاتا، اس طرح کہ جیسے وہ موجود ہی نہیں، جبکہ باوجود اس کے کہ وہ موجود ہے ، یاپھر ایسے کہ جیسے وہ مردہ ہے جب کہ وہ زندہ ہے اور اگر کوئی اپنی عقل کھو بیٹھے تو وہ چوپاؤں کی مثل ہے یا ان سے بھی بدتر، اس لے کہ چوپائے اشیاء کی تشخیص کرتے ہیں جبکہ وہ بالکل نہیں کرپاتا ، اے مفضل کیا تم نہیں دیکھتے جو اعضاء و جوارح انسان کیلئے بنائے گئے ہیں ان میں اس کے لیے کس طرح بھلائی ہے کہ اگر ان سے میں ایک بھی نہ ہوتا تو انسان کیلئے کتنی زیادہ پریشانی ہوتی ، لہٰذا اسے کامل پیدا کیا گیا اور اس کی پیدائش میں کسی بھی قسم کی کمی و زیادتی نہیں ہے، ایسا ہونا اس بات پر دلیل ہے کہ ان کی خلقت میں علم وحکمت اور قدرت سے کام لیا گیا ہے، مفضل کہتے ہیں میں نے عرض کی اے میرے مولا ، پھر کیوں بہت سے لوگ بعض اعضاء و جوارح سے محتاج ہیں، اور انہیں مختلف قسم کی تکالیف اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، آپ نے فرمایا: اے مفضل ، جو شخص اس قسم کی حالت سے دوچار ہے ، یہ حالت خود اس کے لئے اور اس کے علاوہ دوسروں کے لئے اسی طرح نصیحت ہے جس طرح کوئی بادشاہ کسی کو اس کے غیر مودّب ہونے پر سزا دے تاکہ وہ سزا خود اس کے اور دوسروں کیلئے عبرت ہو ، ایسی صورت میں کوئی بادشاہ کو برا نہیں کہتا بلکہ اسے اس کام کے سلسلے میں داد و تحسین سے نوازتے ہیں ، اور اس کے اس کام کو صحیح قرار دیتے ہیں، خداوند عالم اس گروہ کو جو ان مصیبتوں میں گرفتار ہو اور ان مصیبتوں پر صبر کرے اور خدا کی اطاعت کرتا رہے تو اس قدر ثواب عطا کرے گا جس کی نتیجے میں وہ گروہ دنیا کی تمام مصیبتوں اور آفتوں کو حقیر سمجھے گا، کہ اگر اسے اس بات کا اختیار دے دیا جائے ، کہ اسے دوبارہ دنیا میں واپس پلٹایا جائے کہ یہ صحیح و سالم حالت کو قبول کرے یا اپنی سابقہ حالت کو ، تو وہ یقینا اپنی سابقہ حالت قبول کرے گا، تاکہ اس کے اجرو ثواب میں مزید اضافہ ہو۔

۵۶

( طاق اور جفت اعضائ )

اے مفضل، طاق اور جفت اعضاء کی بناوٹ پر غور وفکر کرو۔

سر : ان اعضاء میں سے ہے کہ جنہیں طاق پیدا کیا گیا ہے ، کہ اگر ایک سے زیادہ پیدا کیا جاتا تو اس میں انسان کیلئے کسی بھی صورت بھلائی نہ تھی، اس لئے کہ اگر انسان کے لئے ایک اور سر کا اضافہ کردیا جائے، توا س کے لئے یہ سنگینی بے فائدہ ہوگی، کیونکہ حواس کو جمع ہونے کے لئے جس مکان کی ضرورت تھی وہ ایک سر میں موجود ہے اس کے علاوہ اگر انسان دو سر رکھتا تو وہ دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہ جاتا کہ اگر ایک سے کلام کرتا تو دوسرا یقیناخاموش رہتا ، اور اگر دونوں سے ایک ہی کلام کرتا تو دوسرا زائد اور بے فائدہ ہوتا، اور اگر ہر ایک سے جدا جدا کلام کرتا توایسی صورت میں سننے والے کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ کس کے کلام کی طرف توجہ دے، خلاصہ یہ کہ دو سر ہونے کی صورت میں انسان کے لئے مختلف قسم کے شبہات پیش آتے۔

ہاتھ: ان اعضاء میں سے ہے کہ جنہیںجفت پیدا کیا گیا، اگر ایک ہاتھ ہوتا تو یہ انسان کیلئے کسی بھی صورت میں بہتر نہ ہوتا جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ انسان کے لئے فقط ایک ہاتھ کا ہونا اس کے کاموں میں کس طرح خلل کا باعث بنتا ہے، مگر کیا تم نے نہیں دیکھا کہ، اگر بڑھئی ، مستری یا مزدورکا ایک ہاتھ شل ہوجائے تو وہ اپنے کام کو جاری نہیں رکھ سکتے ، اور اگر وہ اپنے آپ کو زحمت و مشقت میں ڈال کر اپنے کام کو جاری رکھیں تو پھر بھی وہ اپنے کام میں اس حد تک استحکام پیدا نہیں کر پاتے جیسا کہ دونوں ہاتھوں کی موجودگی میں تھا۔

۵۷

( کلام کس طرح وجود میں آتا ہے )

اے مفضل، آواز، کلام اور اس کی بناوٹ پر غور کرو، یہ حنجرہ جو نلی کے مانند ہے اس کے وسیلہ سے آواز منہ سے باہر آتی ہے اور زبان، ہونٹوں اور دانتوں کی مدد سے حروف و کلام کی صورت اختیار کرتی ہے ، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جس شخص کے دانت نہ ہوں وہ سین کو ادا نہیں کرسکتا اور اگر کسی کے ہونٹ کٹ جائیں تو وہ فاء کا تلفظ نہیں کر پاتا، اور اگر کسی کی زبان میں سنگینی ہوتو وہ راء کو خوب ادا نہیں کرسکتا، اے مفضل، یہ پورا نظام بانسری سے شباہت رکھتا ہے، کہ حنجرہ بانسری کی نلی، پھیپھڑے مثل زق(۱) کے ہیں جو ہوا کو حنجرہ تک پہنچانے کا عمل انجام دیتے ہیں، اور وہ عضلات جو پھیپھڑوں کو ہوا پیدا کرنے پر مجبور کرتے ہیں وہ ان انگلیوں کے مانند ہیں کہ جو بانسری کے سوراخوں پر رکھی ہوئی ہیں، تاکہ ہوا بانسری میں جاری رہے، اور ہونٹ اور دانت اسی طرح حروف بنانے کے عمل کو انجام دیتے ہیں جس طرح سے بانسری کے اوپر رکھی ہوئی انگلیوں کو حرکت دینے سے قصد و ارادہ کے مطابق آواز کلام میں تبدیل ہوجاتی ہے ، یہ جو میں نے صداء مخرج کو بانسری سے شباہت دی یہ محض ا س کی تعریف بیان کرنے کے لئے ورنہ یہ بانسری ہے کہ جو صداء مخرج سے شباہت رکھتی ہے یہ اعضاء کہ جن کا ذکر کیا گیا کلام کی تخلیق کے علاوہ دوسرے کام بھی انجام دیتے ہیں ، جیسے حنجرہ اس کے وسیلہ سے صاف ہوا پھیپھڑوں تک پہنچتی ہے، اورعمل تنفس کے ذریعہ جگر کو مسلسل راحت و نشاط حاصل ہوتا ہے، کہ اگر ذرا سا بھی سانس گھٹ جائے تو انسان کی ہلاکت یقینی ہے۔

زبان: جس کے ذریعے مختلف ذائقوں کو چکھا جاتا ہے ، اور ان میں سے ہر ایک کو تلخ و شیرین، کھٹے

اور پھیکے ہونے کے لحاظ سے پہچانا جاتا ہے اس کے علاوہ زبان لقمہ اور پانی کے نگلنے میں مدد دیتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ چمڑے کا تھیلا۔ مشک وغیرہ

۵۸

دانت : یہ غذا کو چباتے ہیں ، تاکہ وہ نرم ہوجائے اور اس کا نگلنا آسان ہو، اس کے علاوہ دانت ہونٹوں کے لئے تکیہ گاہ ہیں،جو ہونٹوں کو لٹکنے اور حالت اضطراب سے محفوظ رکھتے ہیں ان لوگوں سے عبرت حاصل کرو جن کے دانت گر جاتے ہیں اورہونٹ لٹک جاتے ہیں۔

ہونٹ : جن کی مدد سے پانی کو منھ میں لیا جاتا ہے تاکہ اندازہ کے مطابق پانی گلے تک پہنچے اور گھٹلی کی صورت میں نیچے اترنے کی وجہ سے انسان کیلئے درد کا باعث نہ بنے، اس کے علاوہ منھ پر دو ہونٹ مثل بند دروازے کے ہیں کہ انسان جب چاہتا ہے کھول لیتا ہے ، اور جب چاہتا ہے انہیں بند کرلیتا ہے ، ان تمام باتوں سے یہ چیز روشن ہوجاتی ہے کہ ہر عضو چند کاموں کے لئے استعمال ہوتا ہے، جس طرح سے کلہاڑی ان آلات میں سے ہے کہ جو بڑھئی کے بھی کام آتا ہے اور کھدائی کرنے والے کے بھی اور اس کے علاوہ بھی بہت سے کاموں میں استعمال ہوتا ہے۔

( دماغ کاسہ سر کے محکم حصار میں )

اے مفضل، اگر دماغ کو تمہارے سامنے کھولا جائے تو تم مشاہدہ کرو گے کہ وہ کئی تہہ بہ تہہ پردوں میں لپٹا ہو اہے، تاکہ یہ پردے دماغ کو ان آفات اور صدمات سے محفوظ رکھیںکہ جو اس میں خلل کا باعث بنتے ہیں اور کھوپڑی دماغ پر خول کی مانند ہے ، تاکہ اگر سر پر کوئی ضرب یا تکلیف پہنچے تو وہ دماغ تک رسائی نہ کرسکے اور پھر خدا نے کھوپڑی کو بالوں کے لباس سے آراستہ کیا، تاکہ وہ اسے سردی اور گرمی کے اثرات سے محفوظ رکھیں، آیا وہ کون ہے کہ جس نے دماغ کو اس قسم کے حصار میں رکھا ؟ سوائے اس کے اور کوئی نہیں جس نے اس کو پیدا کیا اور اسے منبع احساسات اور لائق حفاظت قرار دیا اس لئے کہ اس کا مرتبہ دوسرے اعضاء کی نسبت بلند ہے۔

۵۹

( آنکھوں پر غلاف چشم کا خوبصورت پردہ )

اے مفضل ، غورو فکر کرو، کہ کس طرح سے پپوٹوں کو آنکھوں پر پردہ کے مانند قرار دیا، اور یہ کہ کس طرح سے آنکھوں کو گہرائی میں رکھا، اور خوبصورت پلکوں کا اس پر سایہ کیا۔

( وہ کون ہے؟ )

اے مفضل وہ کون ہے؟ جس نے دل کو قفسہ سینہ میں محفوظ کیا ، اور پھراسے لباس محکم یعنی پردہ دل سے آراستہ کیا، اور مضبوط ،ہڈیوں ، گوشت اور اعصاب کے ذریعے سے اس کی حفاظت کی، تاکہ کوئی ضرر اس تک نہ پہنچ پائے، وہ کون ہے جس نے گلوئے انسان میں دو راستے بنائے، ایک راستہ وہ جس سے آواز باہر آتی ہے کہ جسے حلقوم کہتے ہیں جو پھیپھڑوں سے ملا ہواہے، اور دوسرا راستہ غذا کے جاری ہونے کیلئے ہے ، یہ ایک گول نلی ہے جو معدہ سے ملی ہوئی ہے، یہی نلی غذا کو معدہ تک پہنچاتی ہے پھر اُس نے حلقوم کو طبقوں کی صورت میں ترتیب دیا تاکہ غذا پھیپھڑوں تک نہ پہنچے کہ اگر غذا انسان کے پھیپھڑوں تک پہنچ جائے تو انسان ہلاک ہوجائے، وہ کون ہے؟ جس نے پھیپھڑوں کو دل کے لئے نشاط و راحت کا سبب قرار دیا جو ہمیشہ حرکت میں ہیں اور اس بات کی بالکل اجازت نہیں دیتے کہ حرارت دل میں جمع ہوکر انسان کو ہلاک کردے، وہ کون ہے؟ جس نے مجری غائط و بول میں بند قرار دیئے تاکہ یہ بند انہیں ہر وقت کے جاری ہونے سے محفوظ رکھیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان کی زندگی آلودہ ہو کررہ جاتی، اور اس قسم کے دوسرے اس قدر فائدہ ہیں کہ جنہیں اگر کوئی شمار کرنے والا شمار کرنا چاہیے تو وہ انہیں ہرگز شمار نہیں کرسکتا، اور اے مفضل ، ان فائدوں میں سے بہت سے فائدے تو ایسے ہیں کہ

۶۰

اس کے علاوہ کتاب بخاری ، شرح فتح الباری '' کتاب الاعتصام بالکتاب و السنة ' پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی فرمائش :

لتتبعن سنن من کان قبلکم '' (١٧ ٦٣ ۔ ٦٤)

٥۔ کنز ل العمال '' ( ١٢٣١١)

حدیث ابو ہریرہ :

١۔ '' فتح الباری '' در شرح صحیح بخاری ( ٦٣١٧)

٢۔ '' سنن '' ابن ماجہ ، حدیث نمبر : ٣٩٩٤۔

٣۔ '' مسند '' احمد بن حنبل (٢ ٣٢٧ ، ٣٦٧، ٤٥٠، ٥١١، ٥٢٧)

٤۔ کنز العمال (١١ ١٢٣)

ابو واقد لیثی کی حدیث:

١۔'' سنن'' ترمذی ( ٩ ٢٧ ۔٢٨)

٢۔ '' مسند '' طیالسی ، حدیث نمبر ١٣٤٦۔

٣۔ '' مسند '' احمد ( ٥ ٢١٨)

٤۔ '' کنز ل العمال '' ( ١٢٣١١) باب ( الاقوال من کتاب الفتن)

عبدا للہ بن عمرو کی حدیث :

١۔ '' سنن'' ترمذی ( ١٠ ١٠٩) ابواب الایمان۔

٢۔ '' در المنثور '' سیوطی ( ٤ ٦٢) تفسیر آیۂ ' ' وَلَا تَکُونوا کَالَّذِین تَفَرَّقُوا '' آل عمران مستدرک حاکم کے مطابق ۔

۶۱

ابن عباس کی حدیث :

١۔ '' مجمع الزوائد'' ( ٧ ٢٦١) بزاز اور حاکم سے روایت کی ہے۔

٢۔ '' کنزل العمال '' ( ١١ ١٢٣) مستدرک حاکم سے نقل کیا ہے۔

سہل بن سعد کی حدیث :

١۔ '' مسند'' احمد بن حنبل ( ٥ ٢٤٠)

٢۔ '' مجمع الزوائد'' (٧ ٢٦١) طبرانی سے نقل کرکے۔

عبد اللہ مسعود کی حدیث :

١۔ '' مجمع الزوائد'' ( ٢٦١٧) طبرانی سے نقل کرکے۔

مستورد کی حدیث :

١۔ '' مجمع الزوائد'' ( ٧ ٢٦١)

٢۔ کنز ل العمال ( ١١ ١٢٣) طبرانی کی '' اوسط '' سے نقل کرکے ۔

شداد بن اوس کی حدیث:

١۔ '' مسند '' احمد ( ٤ ١٢٥)

٢۔ '' مجمع الزوائد '' ( ٧ ٢٦١)

٣۔ قاموس الکتاب المقدس '' تالیف: مسٹر ماکس ، امریکی ، طبع امریکی مطبع، بیروت١٩٢٨ ئ

٤۔ '' توریت'' ، طبع ، امریکی مطبع، بیروت ، ١٩٠٧ ء

۶۲

آیۂ رجم کے بارے میں عمر کی روایت :

١۔ '' صحیح '' بخاری ( ٤ ١٢٠) کتاب حدود۔

٢۔ '' صحیح'' مسلم ( ٥ ١١٦)

٣۔ '' سنن '' ابی داؤد ( ٢ ٢٢٩) باب رجم ، کتاب حدود۔

٤۔ '' صحیح '' ترمذی ( ٢٠٤٦)باب '' ما جاء فی تحقیق الرجم '' کتاب حدود

٥۔'' سنن '' ابن ماجہ ، باب رجم ، کتاب حدود، نمبر: ٢٥٥٣

٦۔ '' سنن'' دارمی( ٢ ١٧٩) باب حد زنائے محصنہ ، کتاب حدود۔

٧۔ ''موطاء مالک'' ( ٣ ٤٢) کتاب حدود۔

٨۔ '' مسند'' احمد ( ١ ٤٠) : ٢٧٦،نمبر ( ١ ٤٧) ٣٣١ ، نمبر : (٥٥١)٣٩١' نمبر

بناوٹی آیت لا تَرغبُو عَنْ آبَائِکُمْ کی روایت:

١۔ '' مسند'' احمد ( ١ ٤٧) نمبر: ٣٣١

٢۔ ''مسند '' احمد (٥٥١) نمبر ٣٩١

'' دس مرتبہ دودھ پلانے '' کے بارے میں عائشہ کی روایت :

١۔'' صحیح'' مسلم (٤ ١٦٧) باب '' التحریم بخمس رضعات '' کتاب رضاع

٢۔ '' سنن'' ابی داؤد ١ ٢٧٩ ) باب '' ھل یحرم ما دون خمس رضعات؟'' کتاب نکاح

٣۔ '' سنن '' نسائی ( ٢ ٨٢) باب '' القدر الذی یحرم من الرضاعة '' کتاب نکاح سے ۔

٤۔ سنن ابن ماجہ ( ١ ٦٢٦ ) باب '' رضاع الکبیر '' کتاب نکاح ، نمبر ١٩٤٤۔

٥۔ سنن دارمی ( ١ ١٥٧) باب '' کم رضعة ترحم '' کتاب نکاح

٦۔ '' موطأ '' مالک ( ٢ ١١٨) باب '' جامع ما جاء فی الرضاعة '' کتاب نکاح

دو خیالی سورتوں کے بارے میں ابو موسیٰ کی روایت

١۔'' صحیح '' مسلم ( ٣ ١٠٠) باب '' لو ان لابن آدم '' کتاب زکات۔

٣۔ '' حلیہ'' ابو نعیم ، '' ابو موسی'' کے حالات کی تشریح میں ۔

۶۳

دوسرا حصہ

سیف بن عمر تمیمی کا تحفہ

*سیف کے جعلی اصحاب کا ایک اور گروہ۔

*رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے نمائندے

*رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے گماشتے اور کارندے

*پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند ایلچی

*ہم نام اصحاب

*گروہ انصار سے چند اصحاب

۶۴

سیف کے جعلی اصحاب کا ایک اور گروہ

ہم نے اس کتاب کی پہلی اور دوسری جلد کو سیف کے قبیلۂ تمیم سے جعل کئے گئے اصحاب اور ان کے بارے میں خیالی عظمت و افتخارات کیلئے مخصوص کیا ، اور اس کے افسانوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیف کی نظر میں پوری دنیا قبیلۂ تمیم میں خلاصہ ہوتی ہے ۔ کیونکہ سیف کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ صرف اسی خاندان کے افراد تھے جنہوں نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گرد جمع ہو کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت اور اطاعت کا شرف حاصل کیا ہے۔ حد یہ ہے کہ سیف کے خیال میں رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پروردہ ، گماشتے اور کارندے ، نمائندے اور ایلچی بھی قبیلۂ تمیم سے تعلق رکھتے تھے !

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد بھی اسی قبیلہ کی معروف شخصیتیں تھیں جنہوں نے سقیفۂ بنی ساعدہ کی میٹینگ میں شریک ہوکر ، ابو بکر کی بیعت کی اور اس سلسلے میں اپنے نظریات پیش کئے !!

ارتداد کی جنگوں میں بھی ، تمیمیوں کی ایک جماعت دین سے منحرف ہوکر مرتد ہو گئی تھی۔ اورانہوں نے اپنے عقائدکے دفاع میں سخت جنگ کرکے اپنی پائیداری کا ثبوت دیا ہے ۔

اور اس خاندان کے ان لوگوں نے بھی اپنے ایمان و عقیدہ کے دفاع میں مجاہدانہ طور پر تلوار کھینچ کر شجاعت کے جوہر دکھائے ہیں ، جو اسلام پر باقی اور پائندہ رہے تھے۔

اسی قبیلۂ تمیم کے افراد تھے ، جنہوں نے جنگوں اور لشکر کشیوں میں سپہ سالاری کے عہدے سنبھال کر میدان کارزار میں شجاعت ، بہادری اور دلاوریوں کے جوہر دکھائے ہیں اور کافی رجز خوانیاں کی ہیں ۔

خلاصہ کے طور پر یہ تمیمی ہی تھے جنہوں نے رزم و بزم کے تمام میدانوں میں دوسروں پر سبقت حاصل کرکے پہلا مقام حاصل کیا ہے :

٭پہلا شخص جس نے راہ خدا میں مکہ میں شہادت پائی تمیمی تھا۔

٭پہلا شہسوار جس نے جنگ اور کشور گشائی کیلئے ایران کی سرزمین پر قدم رکھا اسی قبیلہ سے تھا ۔

٭پہلا شخص اور دلاور جس نے دمشق کے قلعہ کی سر بفلک دیوار پر کمند ڈالکر اوپر چڑھنے کے بعد اسے فتح کیا ، ایک تمیمی سردار تھا۔

٭پہلا شخص جس نے سرزمیں '' رہا '' پر قدم رکھا انہی میں سے تھا۔

٭پہلا بہادر جس نے گھوڑے پر سوار ہوکر دریائے دجلہ کو عبور کرکے اسلامی فوج کے حوصلے بلند کئے تا کہ اس کی اطاعت کریں ، تمیمی تھا ۔

۶۵

٭پہلا سورما جو فاتح کی حیثیت سے مدائن میں داخل ہوا انہی میں سے تھا ۔

٭پہلا بہادر جو کسی خوف و وحشت کے بغیر جلولا کی جنگ میں دشمن کے مورچوں پر حملہ کرکے انھیں شکست دینے میں کامیاب ہوا، تمیمی تھا۔

''ارماث ، اغواث و عماس '' کے خونین دنوں کو خلق کرنے والے یہی ہیں ۔ یہی ہیں جنہوں نے اس وقت کے دنیا کے پادشاہوں ، جیسے کسریٰ ، ہرمز ، قباد ، فیروز، ہراکلیوس ، چین کے خاقان ، ہندوستان کے پادشاہ داہر ، بہرام ، سیاوش ،نعمان اور دیگر عرب پادشاہوں کے جنگی ساز و سامان کو غنیمت کے طور پر حاصل کیا ہے ۔

انہوں نے ہی علاقوں اور شہروں پر حکومت اور فوجی کیمپوں اور چھاؤنیوں کی کمانڈ سنبھالی ہے

عمر کے قاتل کو موت کی سزا دینے والے بھی یہی ہیں ۔

خلافتِ عثمان کے دوران کوفیوں کی بغاوت کو کچلنے والے بھی یہی ہیں ۔

یہی تھے جو عثمان کی مدد کیلئے دوڑپڑے۔

انہوں نے ہی جنگِ جمل میں امیر المؤمنین علی اور عائشہ ، طلحہ و زیبر کے درمیان صلح کرنے کی کوشش کی ۔

جنگِ جمل میں عام معافی کا اعلان کرکے جنگ کے شعلوں کو خاموش کرنے والا بھی انہی میں سے تھا ۔

جنگلی جانوروں نے جس سے فصیح زبان میں گفتگو کی ہے وہ ان ہی میں سے تھا ۔

جس کی زبان پر فرشتوں نے فارسی کے کلمات جاری کئے اور وہ ایک بڑی فتح کا سبب بنا ، ان ہی میں سے تھا۔

جی ہاں ! یہی خیالی خصوصیات سبب بنی ہیں کہ فرشتے اور جنات یک زبان ہوکر قبیلۂ تمیم کے فضائل اور افتخارات کے نغموں کو سیف کے خیالی راویوں کے کانوں تک پہنچائیں تا کہ وہ بھی اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے ان افسانوں کو سیف کے کان میں گنگنائیں ۔

جو کچھ ہم نے یہاں تک بیان کیاہے اسے بلکہ اور بھی بہت سی چیزیں ہم نے سیف کے تئیس (٢٣) جعلی اصحاب کی زندگی کے حالات کا مطالعہ کرنے کے دوران حاصل کی ہیں ۔

اب ہم اس جلد میں بھی خاندان تمیم سے متعلق سیف کے چھ جعلی اصحاب کے علاوہ دیگر عرب قبائل سے خلق کئے گئے سیف کے انیس جعلی اصحاب کے سلسلہ میں حسب ذیل مطالعہ اور بحث وتحقیق کریں گے :

۶۶

تیسرا حصہ: رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے نمائندے :

٢٤ ۔ عبدة بن قرط تمیمی عنبری ۔

٢٥۔ عبدا ﷲ بن حکیم ضبی

٢٦۔ حارث بن حکیم ضبی

٢٧۔ حلیس بن زید ضبی

٢٨۔ حر ، یا حارث بن حکیم خضرامہ ضبی

٢٩۔ کبیس بن ہوذہ ، سدوسی ۔

چوتھا حصہ : رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے گماشتے اور کارندے

٣٠۔ عبید بن صخر بن لوذان ، انصاری۔

٣١۔ صخر بن لوذان انصاری۔

٣٢ عکاشہ بن ثور ، الغوثی۔

٣٣۔ عبدا ﷲ بن ثور، الغوثی۔

٣٤۔ عبید اللہ بن ثور الغوثی

پانچواں حصہ : رسول خدا کے ایلچی اور کارندے

٣٥۔ وبرة بن یحنس خزاعی

٣٦۔ اقرع بن عبد اللہ ، حمیری۔

٣٧۔ جریر بن عبدا للہ حمیری ۔

٣٨۔ صلصل بن شرحبیل

٣٩۔ عمرو بن محجوب عامری

٤٠۔ عمرو بن خفاجی عامری

۶۷

٤١۔ عمر بن خفاجی عامری

٤٢۔ عوف ورکانی

٤٣۔ عویف ، زرقانی۔

٤٤۔ قحیف بن سلیک ،ہالکی۔

٤٥۔ عمر وبن حکیم ، قضاعی ، قینی۔

٤٦۔ امرؤ القیس ، از بنی عبدا للہ۔

چھٹا حصہ : ہم نام اصحاب

٤٧۔ خزیمة بن ثابت انصاری ( غیو از ذی شہادتین )

٤٨۔ سماک بن خرشہ ، انصاری ( غیر از ابی دجانہ )

ساتواں حصہ : گروہ انصار سے چند اصحاب

٤٩۔ ابو بصیرہ

٥٠۔ حاجب بن زید۔

٥١۔ سہل بن مالک

٥٢۔ سہل بن یربوع

٥٣۔ ام زُمل ، سلمیٰ بنت حضیفہ

۶۸

تیسرا حصہ :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے مختلف قبائل کے منتخب نمائندے

*٢٤ ۔ عبدة بن قرط تمیمی عنبری

*٢٥۔ عبدا ﷲ بن حکیم ضبی

*٢٦۔ حارث بن حکیم ضبی

*٢٧۔ حلیس بن زید ضبی

*٢٨۔حر، یا حارث بن خضرامہ ضبی

*٢٩۔کبیس بن ہوذہ ، سدوسی۔

۶۹

چوبیسواں جعلی صحابی عبدة بن قرط تمیمی

اس نام کا ابن حجر کی '' الاصابہ'' میں یوں تعارف ہوا ہے :

عبدة بن قرط، خباب بن حرث تمیمی عنبری کا پوتا ہے ۔ ابن شاہین نے سیف بن عمر سے نقل کرکے ، قیس بن سلیمان بن عبدہ عنبری سے اس نے اپنے باپ اور جد سے ، انہوں نے عبدة بن قرط سے ۔۔ جو بنی عنبر کے نمائندوں کے ساتھ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے ۔۔ روایت کی ہے :

'' وردان '' اور '' حیدہ '' ، محزم بن مخرمہ بن قرط کے بیٹے نمائندہ کی حیثیت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے حق میں دعائے خیر فرمائی ہے ۔

میں ۔۔ ابن حجر ۔۔ نے '' حیدہ '' کے حالات کی تشریح میں اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

ابن حجر نے اس سے قبل '' حیدہ '' کے حالات کی تشریح میں یوں لکھا ہے :

انشاء اللہ اس کے حالات کی تشریح حرف '' ع'' میں '' عبدہ '' کی تشریح کے دوران آئے گی ۔ یہ بھی کہدوں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے حق میں دعا کی ہے ۔

عبدہ کا خاندان اور اس کی داستان کا آغاز

سیف نے عبدہ کو ' عمرو بن تمیم '' کے خاندان ِبنی عنبر سے خلق کیا ہے ۔ اس کی داستان کے آغاز کو یوں جعل کیاہے کہ بنی عنبر کے نمائندوں کا ایک گروہ ، جس میں ' ' حیدہ'' اور '' وردان '' کے علاوہ عبدة بن قرط بھی تھا ، پیغمبر خدا کی خدمت میں پہنچے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' حیدہ '' اور '' وردان '' کے لئے مخصوص دعائے خیر کی ۔

۷۰

داستان کے مآخذ کی تحقیق

سیف کہتا ہے کہ مذکورہ داستان عبدة بن قرط نے اپنے بیٹے عبدہ سے اور اس نے اپنے بیٹے سلیمان سے اور سلیمان نے بھی اپنے بیٹے قیس سے بیان کی ہے ۔ جبکہ جس عبدة بن قرط کو ۔۔ سیف نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی خدمت میں قبیلے کے سفیر کے عنوان سے پہنچوایا ہے اس کا حقیقت میں کوئی وجود تھا اور نہ اس کے ان بیٹوں کا جن کی فہرست سیف نے مرتب کی ہے۔

بلکہ عبدة بن قرط نامی سیف کا صحابی۔ جسے اس نے نمایندہ کی حیثیت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچایاہے ۔ اور اس کے بیٹے '' عبدہ ، سلیمان ، اور قیس'' سب کے سب سیف کی تخلیق ہیں ۔

روایت کی تحقیق

ہم نے اس کتاب کی دوسری جلد میں ،جہاں '' اسود بن ربیعہ '' کے بارے میں گفتگو کی ہے ، تمیم کے نمائندوں کے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے تاریخی حقائق بیان کئے ہیں اور واضح کیا ہے کہ سیف نے مذکورہ روایت میں کیوں اور کس طرح تحریف کی ہے !! یہاں پر اس کی تکرار ضروری نہیں سمجھتے ۔

یہ بھی ہم بتادیں کہ تمیم کے نمائندوں کے بارے میں سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتوں میں نہ تو عبدة بن قرط کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا ہے اور نہ ہی اس کی روایت کے راویوں کے سلسلہ کا سراغ ملتا ہے ، کیونکہ یہ صرف سیف بن عمر ہے جس نے یہ داستان خلق کی ہے اور ابن حجرنے بھی اس پر اعتماد کرکے عبدة بن قرط کے نام کو حرف '' ع'' میں اپنی کتاب '' الاصابة '' میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پہلے درجے کے اصحاب میں درج کیا ہے ۔

مصادر و مآخذ

'' عبدة بن قرط '' کے حالات :

١۔الاصابتہ' ابن حجر' (٤٢٧٢) نمبر ٥٢٨٦ کے نیچے

۷۱

حیدہ کے حالات

١۔ الاصابة '' ابن حجر ، ( ٢ ٣٦٤)

بنی عنبر کا شجرۂ نسب :

١۔ '' جمہرۂ انساب '' ابن حزم ( ٢٠٨ ۔ ٢٠٩)

اقرع بن حابس اور قعقاع بن معبدکے حالات :

١۔ '' الاصابة'' ابن حجر اور اس کے علاوہ دیگر منابع میں بھی آئے ہیں ۔

۷۲

پچیسواں جعلی صحابی عبد اللہ بن حکیم ضبی

ابن اثیر نے اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایا ہے :

سیف بن عمر نے صعب بن عطیہ بن بلال بن ہلال سے ، اس نے اپنے باپ سے اس نے '' عبد الحارث بن حکیم '' سے روایت کی ہے کہ وہ ۔۔ عبد الحارث بن حکیم ۔۔ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے پوچھا :

تمہارا نام کیا ہے ؟

اس نے جواب دیا: عبدا لحارث بن حکیم

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: آج کے بعد تمہارا نام عبد اللہ ہوگا۔

اس کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اپنے قبیلہ '' بنی ضبہ''کے صدقات جمع کرنے کے لئے ممور فرمایا:

ابو موسیٰ نے اس صحابی کو ابن مندہ سمجھ لیا ہے

ابن حجر نے بھی اپنی کتاب '' الاصابة'' میں یوں بیان کیا ہے :

دار قطنی نے سیف کی کتاب '' فتوح '' سے نقل کرکے صعب ابن عطیہ سے روایت کی ہے ...اور اسی مذکورہ داستان کونقل کیا ہے

اس صحابی کی زندگی کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے کتاب '' التجرید'' میں اس طرح درج کئے گئے ہیں :

سیف بن عمر کے ذریعہ نقل ہوا ہے کہ وہ ۔۔ عبد الحارث بن حکیم ۔۔ نمائندہ کی حیثیت سے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے۔

چھبیسواں جعلی صحابی حارث بن حکیم ضبی

ابن اثیر نے کتاب '' اسد الغابہ '' میں اس صحابی کا تعارف یوں کرایا ہے :

ابو موسیٰ کی کتاب میں آیا ہے ( اس کے بعد عبد الحارث کی وہی داستان اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں نمائندہ کے طور پر پہنچنے کا موضوع بیان کیا ہے !)

۷۳

کتاب ' ' الاصابة'' میں یوں آیا ہے :

ابن شاہین اور ابو موسیٰ دونوں نے سیف سے نقل کیا ہے ( یہاں پر عبدا لحارث کی وہی مذکورہ داستان بیان ہوئی ہے )

ذہبی بھی اپنی '' التجرید'' میں لکھتا ہے :

ناقابل اطمینان طریقے سے روایت کی گئی ہے کہ اس کا نام عبد الحارث تھا اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا نام بدل کر عبد اللہ رکھا ۔

ہم نے سیف کی گزشتہ روایت میں دیکھا کہ اس نے ایک نمائندہ کے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے کی خبر دی ہے اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا نام عبد الحارث بن حکیم سے بدل کر '' عبداللہ بن حکیم '' رکھا ہے۔

لیکن دانشوروں نے سیف کے تخلیق کردہ اسی ایک آدمی کو دو آدمیوں میں تبدیل کرکے صحابی رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عنوان سے زندگی کے حالات پر الگ الگ روشنی ڈالی ہے۔

لیکن '' اسد الغابہ '' کے مطابق سیف نے دوسری روایت میں ان کی اس داستان کو '' عبدا للہ بن زید بن صفوان '' سے ٍمنسوب کیا ہے ۔ ابن اثیر لکھتا ہے :

دارقطنی نے سیف بن عمر سے اس نے صعب بن عطیہ سے ، اس نے بلال بن ابی بلال ضبی سے اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ عبد الحارث بن زید ضبی نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں اس نے اپنا تعارف کرایا، اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے حق میں دعا کی ۔

یہ صحابی نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے کے بعد اسلام لایا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے فرمایا:کہ

اس کے بعد تمہارا نام '' عبدا للہ '' ہوگا نہ عبد الحارث۔ اس نے جواب میں کہا :

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حق پر ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا اچھا فرمایا ہے ۔ کیونکہ کسی بھی قسم کی پرہیز گاری اور تقویٰ تائید الٰہی کے بغیر میسر نہیں ہوتی اور کوئی بھی کام توفیق الٰہی کے بغیر ممکن نہیں ہے ، شائستہ ترین کام وہ ہے جس کی انجام دہی میں ثواب ہو اور جس چیز سے دوری اختیار کرنا چاہئے وہ ایسا کام ہے جس کے پیچھے عذاب الٰہی ہوتا ہے۔

اللہ جیسے خدا کو رکھتے ہوئے ہم خوش ہیں ، ہم اس کے حکم کی اطاعت کرتے ہیں تاکہ اس کے اچھے اور خیر خواہانہ وعدوں سے استفادہ کرسکیں اور اس کے غضب اور عذاب سے امان میں رہیں !

عبد الحارث جو '' عبدا للہ '' بن چکا تھا اپنے قبیلے کی طرف لوٹا اور اس نے ہجرت نہیں کی۔

۷۴

اس مطلب کو ابو موسیٰ نے بھی ذکر کیا ہے

ابن حجر کی '' الاصابة'' میں بھی آیا ہے :

دار قطنی نے سیف بن عمر سے اس نے بلال بن ابی بلال سے اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ ( یہاں پر مذکورہ داستان کو نقل کرتا ہے )

مذکورہ روایت ابن کلبی کی '' جمہرہ '' میں یوں آئی ہے :

عبد الحارث بن زید... ( اس کا نسب بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے :)

وہ نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے نام کو بدل کر '' عبداللہ '' رکھا۔

ابن حزم نے بھی اپنی کتاب '' جمہرہ''' میں ان ہی مطالب کو بیان کیا ہے ۔

مذکورہ داستان کو ابن عبدا لبر نے '' استیعاب '' میں ، ابن اثیر نے '' اسدا لغابہ'' میں اور ابن حجر نے ''الاصابہ'' میں ابن کلبی ، محمد بن حبیب اور ابن ماکولا جیسے دانشوروں سے نقل کیا ہے۔

اس بناء پر اس روایت کی سند ابن کلبی پر ختم ہوتی ہے ۔ کیونکہ ابن حبیب ابن حزم اور ابن ماکولا سب کے سب ابن کلبی سے روایت کرنے والے تھے۔ اور چونکہ اس دانشور نے ٢٠٤ ھ میں وفات پائی ہے اور سیف کی کتاب '' فتوح'' بھی اس تاریخ سے آدھی صدی سے زیادہ پہلے لکھی جا چکی ہے ۔ لہذا یہ اطلاعات ہمیں یہ حق دیتے ہیں کہ ہم یہ کہیں کہ : ابن کلبی نے مذکورہ خبر کو سیف سے نقل کرکے اسے خلاصہ کیا ہے ۔

بہر حال ہم زید بن صفوان کو سیف کی تخلیق شمار نہیں کرتے ہیں ، کیونکہ ہمیں ابن کلبی کی کتاب '' جمہرہ'' نہیں ملی جس کے ذریعہ ہم اس کی خبر کی یقینی طور پر تائید کرتے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہی ایک شخص ۔۔۔ زید بن صفوان ۔۔ رجال کی تشریح میں لکھی گئی کتابوں میں حسب ذیل تین روپوں میں درج ہوا ہے :

۷۵

١۔ عبدا للہ بن حارث بن زید بن صفوان '' جو '' اسد الغابہ'' ، '' تجرید'' ، '' الاصابہ'' اور ابو موسی کے ذیل میں اسی نام سے آیا ہے۔

٢۔ '' عبد اللہ بن حارث بن زید بن صفوان '' جو '' استیعاب '' ، '' اسد الغابہ'' ، '' تجرید'' اور ابو موسیٰ ذیل میں اسی نام سے ذکر ہوا ہے۔

٣۔ ابن حجر کی '' الاصابہ'' میں عبدا للہ بن حارث کا دو شخصیتوں کے عنوان سے دوجگہ پر تعارف کیا گیا ہے ۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے ہوئے نمائندہ '' عبدا للہ بن حارث'' کے نام میں تعدّد کا سر چشمہ شاید پہلی بار '' استیعاب '' میں واقع ہونے والی تحریف جس کے نتیجہ میں ابو موسیٰ ہے نے بھی غلطی کی ہے اور اپنی کتاب ذیل میں ایک بار '' عبد اللہ بن حارث بن زید '' دوسری بار '' عبد اللہ بن زید '' کی زندگی کے حالات لکھے ہیں اور اس کے بعد دانشوروں نے اس کی پیروی کی ہے۔

ابن حجر اس غلطی کے علاوہ ایک دوسری غلطی کا بھی مرتکب ہوا ہے اور '' عبد اللہ بن حارث بن زید''کی زندگی کے حالات پر دوبار' دو جگہوں پر اپنی کتاب میں روشنی ڈالی ہے۔ اس طرح ایک جعلی شخص تین روپوں میں نمودار ہوا ہے۔

ستائیسواں جعلی صحابی حلیس بن زید بن صفوان

اس صحابی کا ' ' اسد الغابہ '' میں یوں تعارف کیا گیا ہے :

ابو موسیٰ نے ابن شاہین سے نقل کرکے ذکر کیا ہے کہ سیف بن عمر نے روایت کی ہے کہ وہ حلیس بن زید بن صفوان اپنے بھائی ' ' حارث'' کی وفات کے بعد نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے سر پر دست شفقت پھیرنے کے بعدا س کے حق میں د عا فرمائی ہے ۔

حلیس نے اس ملاقات میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا :

اگر مجھ پر کسی قسم کا ظلم ہوتو اس کی تلافی کیلئے اٹھتا ہوں تا کہ اپنا حق حاصل کرسکوں ۔

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب میں فرمایا:

۷۶

شائستہ ترین کا م جسے انجام دیا جا سکتا ہے ، عفو و بخشش ہے ۔

حلیس نے کہا:

اگر کوئی حسد کرے گا تو اس سے زبردست مقابلہ کرکے تلافی کروں گا۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

کون ہے جو کرم کرنے والوں کے لطف و کرم کا برا جواب دے ؟! جو بھی لوگوں سے حسدکرتا ہے اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا اور اس کا دل آرام نہیں پاتا۔یہ مطالب ابو موسی نے بیان کئے ہیں ( ابن اثیر کی بات کا خاتمہ )

کتاب '' اصابہ'' میں ہم یوں پڑھتے ہیں :

ابن شاہین نے اس کا نام لیا ہے اور سیف بن عمر سے نقل کرکے روایت کی ہے کہ ( یہاں پر مندرجہ بالا داستان نقل کی گئی ہے )

لیکن کتاب '' تجرید'' میں اس صحابی '' حلیس بن زید '' ۔۔ کے تعارف اور زندگی کے حالات کے بارے میں حسب ذیل مطالب پر اکتفا کی گئی ہے :

غیر مطمئن طریقہ سے روایت ہوئی ہے کہ وہ ۔۔ حلیس ۔۔ نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے۔

اٹھائیسواں جعلی صحابی حر، یا حارث بن خضرامہ ، ضبی

'' اسدا لغابہ'' میں یوں ذکر ہوا ہے:

حارث بن خصرامہ ضبی ہلالی کے بارے میں '' حارث بن حکیم '' کے سلسلے میں بیان کئے گئے مآخذ کے مطابق آیا ہے کہ سیف بن عمر نے صعب بن ہلال ضبی اور اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:

حر، پیغمبر خدا کی خدمت میں پہنچا ( تا آخر )

۷۷

حر بن خضرامہ ضبی یا ہلالی :

ابن حجر کی کتاب '' اصابہ'' میں حر کی داستان یوں درج ہوئی ہے :

ابن شاہین نے سیف سے نقل کرکے صعب بن ہلال ضبی سے اور اس نے اپنے باپ سے یوں روات کی ہے :

حر بن خضرامہ بنی عباس کا ہم پیمان تھا ۔ گوسفندوں کے ایک ریوڈ اور چند غلاموں کے ہمراہ مدینہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے ایک کفن اور قدرے حنوط عنایت فرمایا ! اس کے بعد زیادہ وقت نہ گزرا کہ حر مدینہ میں فوت ہوگیا ۔ اس کے پسماندگان مدینہ آگئے ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے گوسفندوں کو انھیں لوٹا دیا اور حکم دیا کہ غلاموں کو مدینہ میں بیچ کر انکی قیمت انہیں دی جائے۔ابو موسی مدائنی نے دار قطنی سے ابن شاہین کے راوی سے روایت کی ہے کہ اس نے اس صحابی کے بارے میں کہا ہے : حارث بن خضرامہ ، ! اور خدا زیادہ جاننے والا ہے !

ضبّہ کا شجرۂ نسب

ضبی ، یہ ایک نسبتی لفظ ہے اور یہ نسبت تمیم کے چچا ''صنبتہ بن ادبن طابختہ بن الیاس بن مضر '' تک پہنچتیہے ۔

داستان کے مآخذ کی تحقیق:

علماء نے سیف کے اسنادحلیس کی داستان میں ذکر نہیں کئے ہیں ۔ لیکن باقی حدیث کو سیف کے ذریعہ ، صعب سے، بلال بن ابی بلال اور اس کے باپ سے نقل کیا ہے۔

یعنی حقیقت میں ایک بناوٹی راوی نے دوسرے جعلی اور خیالی راوی سے اور اس نے بھی ایک جعلی شخص سے نقلِ قول اور روایت کی ہے۔

ساتھ ہی سیف نے اپنے افسانوں میں سے ایک افسانہ کو اسی ماخذ کے ذریعہ اپنے جعلی صحابی تک ربط دیکر نقل کیا ہے ۔ ہم نے اس موضوع کے بارے میں ا پنی کتاب '' رواة مخلتقون'' میں اشارہ کیا ہے ۔

۷۸

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ

سیف تنہا شخص ہے جس نے مذکورہ داستانوں کی روایت کی ہے ۔ جبکہ جن افراد نے انتہائی دقت اور احتیاط کے ساتھ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی خدمت میں پہنچے وفود اورنمائندوں کے بارے میں تفصیلات لکھے ہیں ،ان میں سیف کے مذکورہ مطالب کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابن سعد جیسے عالم نے اپنی کتاب ''طبقات'' میں سیف کی روایتوں پر کوئی توجہ نہیں کی ہے اور ان پر اعتماد بھی نہیں کیا ہے۔

بلاذری نے بھی ۔۔ اپنی کتاب ' ' انساب '' کے پہلے حصہ میں ، جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت سے مخصوص ہے ۔۔ سیف کی روایتوں پر کوئی اعتماد نہیں کیا ہے اور اسی طرح یعقوبی نے بھی اپنی تاریخ میں سیف کی روایتوں پر بھروسہ نہیں کیا ہے۔

جیسا کہ ہم نے کہا کہ '' عبدا للہ بن زید صفوان '' کے بارے میں نمائندگی کی روایت کو ہم نے ابن کلبی کے ہاں پایا ۔ مگر خود ابن کلبی نے اس روایت کو کہاں سے حاصل کیا ہے ، ہمیں اب تک اس کے مآخذ کا پتہ نہ مل سکا۔

خلاصہ :

سیف نے قبیلہ بنی ضبّہ کے چند افراد کے نمائندہ کے طور پر پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے کی داستان کو چار روایتوں میں بیان کیا ہے ۔علماء نے بھی دیگر صحابیوں کے ضمن میں ان کی زندگی کے حالات پر حسب ذیل روشنی ڈالی ہے :

١۔ سیف کی روایت کے پیش نظر '' عبد الحارث بن حکیم ضبی'' کی نمایندگی ، رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اس کا نام بدل کر '' عبدا للہ '' رکھنے اور اسے اپنے قبیلہ کے صدقات جمع کرنے کی ماموریت دینے کے مسئلہ کو علماء نے دو صحابیوں کے حق میں الگ الگ بیان کیا ہے :

الف : حارث بن حکیم ضبی

ب: عبد اللہ بن حکیم ضبی

اور اسی ترتیب سے مذکورہ دو صحابی پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی فہرست میں ثبت ہوئے ہیں ۔

۷۹

٢۔ سیف' عبد الحارث بن زید بن صفوان کے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بعنوان نمایندہ پہنچنے کی روایت نقل کرکے مدعی ہوا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا نام بدل کر '' عبد اللہ بن زید '' رکھا ہے ، اور نام بدلنے کے بعد یہ نیا عبد اللہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تعلیم و نصیحت کرنے پر اتر کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہتا ہے:

کوئی پرہیز گاری و تقویٰ خدا کی توفیق حفاظت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور کوئی بھی کام توفیق الٰہی کے بغیر انجام نہیں پاسکتا ۔ بہترین اور شائشتہ ترین کام جسے انجام دیا جاسکتا ہے وہ ہے جس میں ثواب ہو اور جس کام سے پرہیز کرنا چاہئے وہ ایسا کام ہے جس پر پروردگار غصہ اور غضب کرے

اس طرح یہ عبدا للہ بن زید صفوان ہے جو خود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تعلیم اور درس دیتا ہیچہ جائے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے درس دیں !!!

اس کے علاوہ اس صحابی کی نمائندگی کی خبر ' اس کی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نصیحت اور تعلیم کے ذکر کے بغیر ہمیں ابن کلبی اور اس کی حدیث کے راویوں کے ہاں ملی ہے۔ چونکہ سیف زمانہ ابن کلبی سے پہلے ہے لہذا ہمیں یہ کہنے کا حق ہے کہ ابن کلبی نے بھی اس خبر کو سیف سے نقل کیا ہوگا!

ہم نے مشاہدہ کیا کہ یہی ایک شخص، اصحابِ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حالات لکھنے والوں کے ہاں تین روپوں میں ظاہر ہوا ہے !!!

٣۔ سیف بن عمر نے حلیس بن زید کی نمائندگی کا ذکر اس کے بھائی '' حارث بن زید '' کی وفات کے بعد کیا ہے اور اس امر کی تاکید کی ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے سر پر دستِ شفقت پھیر کہ اس کیلئے دعا کی پھر نصیحت کی ہے۔

علماء نے اسی روایت کے پیش نظر اور اسی پر اعتماد کرکے حلیس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے اور حقیقی صحابیوں کی فہرست میں قرار دیا ہے ۔

٤۔ سیف نے حر یا حارث بن خضرامہ کی گوسفندوں کے ریوڑ اور چند غلاموں کے ہمراہ پیغمبر خدا کی خدمت میں نمائندگی کو بیان کیا ہے لیکن اتنی طاقت نہیں رکھتا تھا کہ اپنے اس نئے خلق کئے ہوئے صحابی کو صحیح و سالم اپنے وطن اور اہل و عیال کے پاس لوٹا دے ، بلکہ اس کے بر عکس رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس کیلئے کفن اور قدرے حنوط لے لیتا ہے اور اس مفلس کو وہیں پر مسافرت میں مار ڈالتا ہے اور وہیں پر اسے دفن کرتا ہے ! پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ایسی شخصیت کے مرنے کے بعد حکم دیتے ہیں کہ اس کے غلاموں کے بیچنے کے بعد ان کی قیمت اور گوسفندوں کے ریوڑ کو مرحوم کے پسماندگان کے حوالے کردیں ۔ اس طرح اسے اصحاب کی فہرست میں قرار دیکر اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175