توحید مفضل

توحید مفضل22%

توحید مفضل مؤلف:
زمرہ جات: توحید
صفحے: 175

توحید مفضل
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 175 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130842 / ڈاؤنلوڈ: 6112
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

( مفضل حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں )

مفضل کہتے ہیں جیسے ہی صبح ہوئی میں روانہ ہوا اور اجازت لینے کے بعد آنحضرت کی خدمت میں پہونچا۔ آپ نے مجھے بیٹھنے کو کہا، میں بیٹھ گیا، پھر آپ کھڑے ہوئے اور ایک خالی کمرے کی طرف چلنے لگے، اور مجھے اپنے پیچھے آنے کو کہا میں آپ کے پیچھے چلنے لگا جیسے ہی آپ کمرے میں داخل ہوئے میں بھی آپ کی اتباع کرتا ہوا کمرے میں داخل ہوگیا، حضرت بیٹھ گئے تومیں بھی آپ کے سامنے بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا: اے مفضل آج کی رات میرے وعدہ کے انتظار میں تم پر کافی طولانی گذری میں نے کہا جی ہاں اے میرے آقا و مولاء اس کے بعد آپ نے کلام شروع کیا، اے مفضل سب سے پہلے بھی خدا تھا اس سے پہلے کوئی چیز نہ تھی وہ باقی ہے، اس کی کوئی انتہا نہیں ہے اس کا شکر اس پر کہ جو کچھ اس نے ہم پر الہام کیا، اور جو کچھ ہمیں عطا کیا،اور خداوند عالم نے اپنے علم کے لئے ہمیں منتخب کیا اور بلند مقام عطا کیا اور اس نے اپنے علم سے ہمیں تمام مخلوقات پر فضیلت عطا کی، اور اپنی حکمت سے ہمیں اپنی تمام مخلوق پر شاہد و امین قرار دیا (مفضل کہتے ہیں) میں نے عرض کیا اے میرے آقا و مولا کیا آپ اس بات کی اجازت مرحمت فرمائیں گے کہ میں ان مطالب مشروع کو لکھ لوں۔ اور یہ کہہ کر میں نے قلم و کاغذ آمادہ کیا۔ آپ نے فرمایا مفضل لکھ لو۔

۴۱

( جہل و نادانی خلقت میں تدبیر کے انکار کا سبب )

اے مفضل: خلقت کی حقیقت اور اس کے علل و اسباب میں شک کرنے والے لوگ دراصل جاہل ہیں اور ان کی فکر ہر اس چیز کی حقیقت و حکمت کہ جسے خالق نے پید کیا مثلاً برّی ، بحری، زمینی ، پہاڑی مخلوق میں کوتاہ ہے اور یہ اپنی کم علمی اور ضعیف بصیرت کی وجہ سے اس کا انکار کرتے ہیں اور اسے جھٹلاتے ہوئے اس سے روگردانی کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اشیاء کی خلقت کا بھی انکار کرتے ہیں اور اس بات کے دعویدار ہیں کہ تمام چیزیں محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں جن میں نہ کوئی ہنر مندی نہ اندازہ گیری ہے اور نہ کسی خالق ومدبر کی حکمت شامل حال ہے خداوند عالم ان صفات سے بھی بالاتر ہے جن کے ذریعہ اس کی تعریف بیان کی جاتی ہے خدا انہیں نیست ونابود کرے کہ یہ لوگ اُسے چھوڑ کر کون سے پناہ گاہ کی طرف رخ کرتے ہیں یہ لوگ گمراہی کے اندھیرے اور پریشانی کے عالم میں ان نابیناؤں کی طرح ہیں جو ایک ایسی عمارت میں داخل ہوں کہ جس کی بناوٹ محکم و زیبا ، خوبصورت فرش سے آراستہ مختلف قسم کی غذائیں، لباس اور تمام اشیاء مکمل معیار کے ساتھ انسان کی ضرورت کے مطابق ہوں۔ اور یہ لوگ اس کے اندر دائیں اور بائیں آمدورفت کرتے ہیں اس کے کمروں میں داخل و خارج ہوتے ہیںلیکن اس طرح کہ جیسے ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے کہ وہ اس عمارت کی بناوٹ و سجاوٹ اور جو کچھ اس میں مہیا و آمادہ کیا گیا اسے نہیں دیکھ پاتے افسوس ایسے لوگوں پر جو یہ جانتے ہیں کہ اس میں ہر چیز مناسب جگہ پر نصب ہے اور وہ ان تمام چیزوں کی احتیاج رکھتے ہیں اس کے باوجود وہ ان کے اغراض و مقاصد سے جاہل اور نا آگاہ ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ کس کے لئے بنی ہیں اور فوراً غصہ کی حالت میں اپنی تند وتیز زبان کو اس عمارت اور اس کے بانی کی شان میں دراز کرتے ہیں یہ حال اس طبقے کے لوگوں کا ہے جو أمر خلقت میں استعمال شدہ تدبیر کا فقط اس لئے انکار کرتے ہیں کہ ان کا ذہن اشیاء کی علت اور ان کے اسباب کے ادراک سے قاصر ہے پس وہ اس عالم میں حیرت زدہ

۴۲

ہیں اور ادہر اُدہر دیکھ رہے ہیں اور جو کچھ استحکام اور تدیر اس میں موجود ہے اسے سمجھنے سے قاصر ہیں صد حیف ایسے لوگوں پر جو اشیاء کی علت اور ان کے فوائد کو نہ جاننے کی وجہ سے اپنی تند و تیز زبان کو اس کی شان میں دراز کرتے ہیں اور یہ کہہ اٹھتے ہیں کہ جہاں محض اتفاقات کا نتیجہ ہے جیسا کہ فرقہ مانویہ(۱) اور فرقہ ملحدہ(۲) اور انہی کی طرح دوسرے گمراہ فرقے کہ جنہوں نے اطاعت پروردگار کو چھوڑ کر اپنے آپ کو بے بنیاد باتوں میں مشغول کر رکھا ہے۔ ایسی حالت میں ان لوگوں پر کہ جنہیں خداوند عالم نے اپنی نعمتوں کی معرفت ''اپنے دین کی ہدایت '' اور صنعت مخلوق میں فکر و تأمل کی توفیق عطا کی اور ان لوگوں نے خلقت کے رموز اور اسرار و لطائف و تدابیر اور ان نشانیوں کو جان لیا کہ جو اس کائنات میں کارفرما ہیں اور اپنے خلق کرنے والے کی طرف اشارہ کررہی ہیں۔ لازم ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے اور اپنے آقا و مولاء کا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کریں اور اس امر میں استقامت کو ملحوظ نظر رکھیں اور اس میں اضافہ کے لئے اپنے اندر بصیرت پیدا کریں اس لئے کہ وہی تو خدا ہے کہ جس کا نام بزرگ و برتر ہے جو فرماتا ہے۔

(لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَاِن کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِی لَشَدِیْد) (۳)

اگر تم نے میری نعمتوں پر شکر کیا، تو میں اس میں اضافہ کروں گا،اور اگر تم نے کفر کیا تو میرا عذاب شدید و سخت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ ایسا دین کہ جو یہودیت ، عیسائیت، اور مجوسیت سے مل کر بنا۔

(۲)۔ بے دین

(۳)۔ سورہ ابراہیم آیت ۷

۴۳

( وجود خدا پر پہلی دلیل )

اے مفضل: خداوند عالم کے وجود اور اس کی طہارت اور پاکیزگی پر پہلی دلیل اس جہان کا وجود اس کی آمادگی اس کے اجزاء کی بناوٹ اور اس کا نظام ہے اس لئے کہ اگر تم جہان کا جس انداز سے وہ بنا ہوا ہے مشاہدہ کرو تو قوت فکر سے اس نتیجے پر پہنچو گے کہ یہ جہان ایک مکان کی طرح ہے، جس میں وہ تمام اشیاء موجود و مہیا ہیں کہ جن کی اس کے اندر رہنے والوں کو ضرورت و احتیاج ہے جیسے آسمان کا شامیانہ مثل چھت، زمین کا بچھونا مثل فرش، ایک دوسرے سے نزدیک ستارے مثل چراغ، جواہرات و خزانے مثل ذخیرے کے ہیں خلاصہ یہ کہ ہر چیز اپنے اپنے کام کی مناسبت سے آمادہ و مہیا دکھائی دیتی ہے اور انسان اس مکان میں رہنے والا ہے مکان کی تمام مہیا و آمادہ چیزوں کو اس کے اختیار میں دے دیا گیا ہے جیسے اقسام نباتات کہ جن سے وہ اپنی بہت سی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے، اصناف حیوانات کہ جن کے وسیلہ سے وہ بہت سے فائدوں سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ پس ان تمام باتوں سے یہ ثابت ہوتا کہ جہان ، تدبیر ، حکمت اور مضبوط نظام کے تحت وجود میں آیا ہے اور اس کا پیدا کرنے والا ایک ہے جس نے اس جہان کے اجزاء کی بناوٹ کو ایک دوسرے کے ساتھ مرتب و منظم کیا ہے اور وہ خدا صاحب عزت وجلالت اور پاک و پاکیزہ اور بلند ہے کہ جس کا چہرہ صاحب جلالت او ر کرامت ہے جس کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں ، خداوند عالم ان تمام اقوال و افکار سے بالاتر ہے جو مشرکین اور گمراہ لوگ اس کے بارے میں رکھتے ہیں ۔

۴۴

( انسان کے اندر واضح اور روشن آیات خدا کے وجود پر دلالت کرتی ہیں )

اے مفضل اب میں تمہیں انسان کی پیدائش کے بارے میں بتاتا ہوں کہ تم اس سے عبرت حاصل کرو، اے مفضل انسان کے اندر تدبیرپرپہلی دلیل وہ حکمت ہے جو اس وقت استعمال ہوتی ہے جب وہ رحم مادر میں تین تاریکیوں (۱۔ تاریکی شکم ،۲۔ تاریکی رحم ، ۳۔ تاریکی مشیمہ(۱) ) میں لپٹا ہوا تھا،کہ جب اس کے پاس غذا کو طلب کرنے اور اذیت کو دور کرنے کے لئے کوئی چارہ وعلاج نہ تھا،نہ فائدے کو حاصل کرسکتا تھا اور نہ نقصان کو دور ، ایسی صورت میں خون حیض کے ذریعہ اُسی طرح اس کی غذا فراہم کی جاتی ہے جس طرح پانی پودوں کے لئے غذا فراہم کرتا ہے، یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک اس کا جسم اور اس کی کھال اس قدر محکم اور قوی ہوجائے کہ وہ تیز اور تند ہوا کا مقابلہ کرسکے، اور اس کی آنکھیں روشنی سے مقابلہ کے لئے آمادہ ہوجائیں اسی اثناء میں درد زہ اس کی ماں کو بے چین کرتا ہے، یہ درد اس قدر بے چینی اور دباؤ کا سبب بنتا ہے کہ بچے کی ولادت ہوجاتی ہے جب بچے کی ولادت ہوچکی ہو، تو وہ خون جو رحم میں اس کی غذا فراہم کرتا تھا، اب وہی اس کے ماں کے پستانوں کی طرف جاری ہوجاتا ہے اور اس کا رنگ و ذائقہ تبدیل ہوکر دودھ کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور یہ دودھ پہلی بہتر غذا اور بچہ کے مزاج کے عین مطابق ہے بچہ پیدائش کے وقت اپنی زبان کو اپنے منھ میں پھرا کر اور ہونٹوں کو حرکت دے کر غذا کی ضرورت کا اظہار کرتا ہے، ایسے میں اس کی ماںاپنے پستانوں کو جو دو ظروف کے مانند آویزاں ہیں اس کی طرف بڑھاتی ہے اور بچہ ایسی حالت میں جب کہ اس کا بدن نرم اور اس کی غذائی نالیاں بالکل باریک ہیں دودھ کو غذا کے طور پر ان سے حاصل کرتا

ہے، اور اس طرح نشوونما پاتا ہوا حرکت کو اپنے بدن میں میں ایجاد کرتا ہے، جس کے بعد اب اسے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بچہ دانی

۴۵

ایسی غذا کی ضرورت ہوتی ہے جو ذرا سخت ہو تاکہ اس کا جسم محکم اور قوی ہوجائے، لہٰذا غذا کو کاٹنے اور چبانے کے لئے دانت نمودار ہوتے ہیں تاکہ وہ غذا کو نرم بنائیں اور اسے نگلنے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے، یہ بچہ اس طرح منزلیں طے کرتا ہوا حد بلوغ تک پہونچ جاتا ہے اگر وہ بچہ لڑکا ہو تو اس کے چہرے پر بال نکل آتے ہیں، یہی علامت زکوریت اور عزت مرد ہے کہ جس کے ذریعہ سے وہ طفولیت اور خواتین کی شباہت سے باہر آجاتا ہے، اور اگر یہ بچہ لڑکی ہو تو اس کا چہرہ ویسا ہی بالوں سے صاف رہتا ہے تاکہ اس کی زیبائی و درخشندگی باقی رہے کہ جو مردوں کے میلان کا سبب ہے اس لئے کہ عورت ہی کے وسیلہ سے نسل جاری و باقی رہتی ہے۔

اے مفضل۔ اس حسن تدبیرسے عبرت حاصل کرو، جوانسان کے مختلف احوال میں استعمال ہوئی ہے کیا یہ ممکن ہے کہ انسان بغیر کسی خالق و مدبر کے وجود میں آیا ہو؟ اگر جنین کو خون نہ ملتا تو وہ اس پودے کے مانند خشک سالی کا شکار ہوجاتا جس کی آبیاری نہ کی گئی ہو اور اگر جنین کو کامل ہونے کے بعد ولادت کے ذریعہ رحم کی تنگی سے نہ نکالا جاتا تو ہمیشہ رحم میں زندہ درگور ہوکر رہ جاتا، اور اسی طرح اگر ولادت کے بعد اس کے لئے دودھ کو جاری نہ کیا جاتا تو بھوک سے مرجاتا یا پھر ایسی غذاؤں کے استعمال کرنے پر مجبور ہوتا جو اس کے بدن اورصحت کے لئے مناسب نہ ہوتیں اور اگر اس وقت جبکہ وہ غلیظ اور سخت غذا کے استعمال کے قابل ہوجاتا دانت نہ نکلتے تو غذا کا چبانا اس کے لئے ناممکن ہوتا جس کے سبب اس کا نگلنا بچہ کیلئے دشواری کا باعث بنتا اور اگر وہ دودھ جو اس کی غذا تھا، ہمیشہ اس کی غذا رہتا تو اس کا جسم کبھی محکم نہ ہوتا جس کی وجہ سے وہ دشوار اور مشکل کام انجام دینے سے پرہیز کرتا، اور اس کی ماں ساری زندگی اس کی پرورش میں لگی رہتی اور یہ بات دوسرے بچوں کی پرورش میں رکاوٹ کا سبب بنتی اور اگر حد بلوغ پر پہنچنے کے بعد اس کے چہرے پر داڑھی نہ نکلتی تو ہمیشہ عورت کی شبیہ رہتا، اور وہ وقار اور جلال جو مردوں کے لئے ہے ہرگز نہ ہوتا۔

۴۶

مفضل کہتے ہیں: میں نے کہا اے میرے آقا و مولا۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض مردوں کے داڑھی نہیں نکلتی اور وہ اپنی سابقہ حالت پر باقی رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ بوڑھے ہوجاتے ہیں اس میں کیا حکمت ہے؟ امام نے فرمایا: یہ ان کے اپنے کئے کا نتیجہ ہے، ورنہ خدا اپنے بندوں پر ہرگز ظلم نہیں کرتا اب ذرا بتاؤوہ کون ہے جو بچہ کی اس مرحلہ میں دیکھ بھال کرتا ہے جبکہ وہ رحم مادر میں ہے اس کے لئے ہر اس چیز کو فراہم کرتا ہے ، جس کی اس بچے کو ضرورت و احتیاج ہے ، سوائے اس کے اور کوئی نہیں ہے کہ جس نے اسے پیدا کیا ہے، پس وہ چیز کہ جس کا وجود نہ تھا بہترین طریقہ پر وجود میں آتی ہے، اور اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ اس قسم کے مدبرانہ کام محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں تو اس وقت یہ لازم آتا ہے کہ قصد و ارادہ کے ذریعہ غیر منظم کام وجود میں آئیں اس لئے کہ یہ دونوں اتفاق کی ضد ہیں اور یہ گفتار بدترین گفتار ہے اور اگر کوئی ایسا کہے بھی تو یہ کہنا اس کے جاہل ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ اتفاق صحیح اور درست کام انجام نہیں دیتا اور نہ ہی تضاد نظم کو ایجاد کرتا ہے، خداوند عالم بلند و برتر ہے ان تمام افکار سے جو کم ذہنیت کے لوگ اس کے بارے میں رکھتے ہیں۔

۴۷

( بچہ اگر ولادت کے وقت عاقل ہوتا تو کیا ہوتا؟ )

اے مفضل ! بچہ اگر وقت ولادت عاقل ہوتا تو منکر عالم ہوجاتا اور متحیر ہو کر رہ جاتا اور اپنی عقل کھو بیٹھتا ایسا اس لئے ہوتا کہ وہ لمحہ بہ لمحہ، روز بروز ایسی چیزوں کا مشاہدہ کرتا جن کے بارے میں وہ اطلاعات اور معلومات نہ رکھتا مثلاً مختلف حیوانات ، پرندے اور اس قسم کی دوسری عجیب و غریب مخلوق جسے اس نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا اس بات کو اس چیز سے سمجھ سکتے ہو کہ اگر کوئی عاقل شخص ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرے تو تم اسے حیران و پریشان پاؤگے، وہ شخص جلد اہل شہر کی زبان نہیں سیکھ سکتا اورنہ جلد ہی ان کے آداب و رسومات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال سکتا ہے ، بالکل اس کی وہی کیفیت ہے کہ جو اس کے بچپنے میں تھی جبکہ وہ غیر عاقل تھا۔اس کے علاوہ اگر بچہ عاقل پیدا ہوتا ،تو احساس حقارت کو اپنے اندر محسوس کرتا ، ایسا اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں کی گود میں یا کپڑوں میں لپٹا ہوا پاتا اور وہ اپنے جسم کی نرمی اور تری اور نزاکت حفاظت کے لئے ایسی حالت میں رہنے پر مجبور ہوتا، اس کے علاوہ بچہ اگر عاقل پیدا ہوتا تو اس کے اندر وہ لذت و لطافت جو اس وقت بچے میں پائی جاتی ہے نہ ہوتی ان تمام اسباب کی وجہ سے بچہ دنیا میں غیر عاقل پیدا ہوتا ہے تاکہ وہ اشیاء کو اپنی ناقص معرفت اور ناقص ذہن کے سہارے پہچانے ، پھر تم دیکھتے ہو کہ آہستہ آہستہ اس کی معرفت پڑھتی ہے یہاں تک کہ تمام چیزوں سے مانوس ہونے لگتا ہے اور تدریجاً تمام اشیاء سے آگاہی پیدا کرتا ہوا حالت حیرانی و پریشانی سے باہر آجاتا ہے، اشیاء کو اپنی عقل کی مدد سے زندگی کے استعمال میں لاتا ہے، اور اس طرح وہ یا شکر گزاروں میں سے ہوجاتا ہے یا غافلوں میں سے اس کے علاوہ عاقل پیدا ہونے کی صورت میں دوسرے نتائج بھی برآمد ہوسکتے تھے، وہ یہ کہ اگر بچہ عاقل پیدا ہوتا تو خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتا اور تربیت اولاد کی اُس لذت کو ختم کردیتا کہ جو خداوند عالم نے اس کے اندر رکھی ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں کی صحیح تربیت کریں اور انہیں ایک صحیح نتیجے تک پہنچادیں ، یہی وہ چیز ہے جو

۴۸

فرزند پر واجب کرتی ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ جب وہ اس کی نوازش کہ محتاج ہوں ،نیکی کرے، ورنہ کوئی اولاد اپنے والدین سے الفت و محبت نہ رکھتی اور والدین بھی اپنی اولاد کے سلسلے میں لاپروائی سے کام لیتے اس لئے کہ اولاد اپنی تریبت میں والدین کی توجہ کی محتاج نہ رہتی اور ولادت کے وقت ہی ان سے جدا ہو جاتی، ایسی صورت میںکوئی شخص اپنے والدین کو نہ پہچانتا ،اور اس صورت میں اپنی ماں بہنوں اور دوسرے محارم سے خواستگاری کرتا، کمترین قباحت عاقل پیدا ہونے کی صورت میں یہ ہوتی یا یوں کہوں کہ بدترین اور اسے شدید رنجیدہ کرنے والی بات یہ ہوتی کہ وہ اپنی ماں کی شرم گاہ کو دیکھتا کہ جو اس کے لئے حلال نہیں، اور یہ ہرگز صحیح نہیں کہ وہ اسے دیکھے تو کیا تم نہیں دیکھتے کہ خلقت میں کس طرح ہر چیز اپنی مناسب جگہ پر موجود ہے، خلاصہ یہ کہ تمام امور چاہے وہ جزئی ہوں یا کلی خطا و لغزش سے دور ہیں۔

( بچہ کے گریہ کے فوائد )

اے مفضل بچہ کے گریہ کے فوائد کو جان لو ، کہ بچہ کے دماغ میں ایک ایسی رطوبت ہے جو اگر اس کے دماغ میں باقی رہ جائے، تو اس کے لئے بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے جیسے بچہ کا اندھا ہونا اور اس قسم کے دوسرے امراض، اس کا رونا ہی اس رطوبت کو دماغ سے نیچے لانے کا سبب ہے، جس کے نتیجے میں اس کا بدن صحیح و سالم رہتا ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بچہ اپنے رونے کے فائدے سے ہم کنار ہورہا ہو، اور اس کے والدین اس سے بے خبر ہوں، اور صد در صد ان کی یہی کوشش ہو کہ بچہ خاموش ہوجائے اس لئے کہ وہ نہیں جانتے کہ بچہ کا رونا ہی اس کے حال و مستقبل کے لئے بہتر ہے ، اسی طرح کی بہت سی چیزیں ہیں کہ جن میں بے شمار فوائد پوشیدہ ہیں ، لیکن لوگ ان سے جاہل اور ملحدین ان سے بے خبر ہیں، اور اگر جان بھی لیں تو ان کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت انصاف سے کام نہیں لیتے اور

۴۹

کہہ اٹھتے ہیں کہ ان چیزوں میں کوئی فائدہ نہیں، ہاں یہ لوگ جاہل اور ان چیزوں کے اسباب و علل سے بے خبر ہیں ، اس قسم کی بہت سی چیزیں ہیں جنہیں منکرین نہیں جاتے مگر عارفین ان سے واقفیت رکھتے ہیں، اور مخلوقات میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں کہ جن تک منکرین نہیں پہنچ پاتے ، مگر خداوند عالم کے علم نے ان کا احاطہ کیا ہوا ہے۔

( بچہ کے منہ سے رال ٹپکنے کے فوائد )

اے مفضل وہ رال جو بچے کے منہ سے ٹپکتی ہے اس میں بھی ایک راز ہے وہ یہ کہ رال بچہ کے بدن سے اس رطوبت کو خارج کرتی ہے جس کے باقی رہ جانے سے ایک بڑے ضرر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جس بچے پر اس رطوبت کا غلبہ ہو جاتا ہے تو وہ رطوبت اسے دیوانگی اور اختلال عقل سے دوچار کردیتی ہے، اور اس کے علاوہ بہت سی بیماریوں جیسے فالج اور لقوہ کا سبب بنتی ہے۔ لہٰذا خداوند عالم نے اس رال کو اس طرح قرار دیا کہ وہ بچہ کے منہ سے ٹپکے تاکہ جوانی میں اس کا بدن صحیح و سالم رہے، خداوند عالم اپنے تمام بندوں پر اپنا فضل و کرم کرتا ہے، چاہے اس کے بندے اس سے بے خبر ہی کیوں نہ ہوں، اگر بندے خداوند عالم کی دی ہوئی نعمتوں کی معرفت حاصل کرلیں ، تو وہ گناہوں سے پرہیز کریں ، پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جس کی نعمتیں اس کے بندوں پر فراوان ہیں چاہے وہ اس کے مستحق ہوں یا نہ ہوں، خداوند عالم بلند و برتر ہے ، اُن تمام افکار سے جو کم ذہنیت کے لوگ اس کے بارے میں رکھتے ہیں۔

۵۰

( مرد و زن میں آلات جماع )

اے مفضل ، اب ذرا غور کرو کہ کس طرح سے خالق دوجہاں نے مرد و زن کیلئے ان کی مناسبت سے آلات جماع کو بنایا مرد کیلئے ایک ایسا آلہ بنایا کہ جو دراز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، تاکہ نطفہ رحم تک پہنچ سکے، اس لئے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو نطفہ کسی دوسری جگہ گر جاتا اور عورت کیلئے آلہ جماع کو ایک عمیق ظرف کی مانند خلق کیا ، کہ جہاں آب مرد و زن ملتے ہیں ، اسی عمیق ظرف میں بچہ رہتا ہے اور نشوونما پاتا ہے، اور یہ ظرف ولادت کے دن تک اس بچہ کی حفاظت کرتا ہے کیا یہ نازک و لطیف کام خداوند حکیم کی حکمت کے تحت نہیں؟

( اعضاء بدن کے کام )

اے مفضل غور کرو بدن کے اعضاء اور ان کے حسن انتخاب پر کہ دو ہاتھ کام کاج کرنے، دو پاؤں راہ چلنے ، آنکھیں راہ کو تشخیض دینے، منہ غذا کو کھانے، معدہ غذا کے ہضم کرنے، جگر خون کا تصفیہ کرنے مختلف سوراخ فضلات کے خارخ ہونے، فرج نسل کو باقی رکھنے گویا جسم کو ہر عضو کسی نہ کسی کا کے لئے خلق کیا گیا ہے، اگر تم غور وفکر اور دقت سے کام لو تو تم دیکھو گے کہ ہر چیز صحیح اور حکمت کے تحت بنائی گئی ہے۔

۵۱

( کائنات کے اُمور طبیعت کا نتیجہ نہیں ہیں )

مفضل کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی مولا بہت سے لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ تمام کام طبیعت انجام دیتی ہے تو آپ نے فرمایا:کہ ان لوگوں سے یہ سوال کیا جائے کہ یہ طبیعت کیا ہے؟ کیا وہ ان کاموں کو بغیر علم و قدرت کے انجام دیتی ہے یا نہیں، پس اگر وہ اس کے علم و قدرت کو ثابت کرتے ہیں تو پھر کیونکر خدا کے اثبات سے انکار کرتے ہیں باجود اس کے کہ یہ تمام کام خداوند عالم کی تدبیر کے تحت انجام پاتے ہیں اور اگر وہ کہیں کہ طبیعت ان کاموں کو بغیر علم و قدرت کے انجام دیتی ہے، تو یہ کہنا بھی ان کا غلط ہوگا اس لئے کہ تم اس کائنات میں علم و قدرت کے آثار کا مشاہدہ کرتے ہو، اور خدائے بزرگ اپنے تمام امور کو اس طبیعت کے تحت انجام دیتا ہے کہ جس سے کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ طبیعت خود مستقل طور سے ان کاموں کو انجام دیتی ہے، اور اس طرح وہ لوگ خدائے حکیم سے غافل ہوجاتے ہیں لیکن ذرا سے غور فکر کہ بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ تمام کام خدا ہی کی طرف سے ہیں۔

( غذا کے جسم میں پہنچنے پر معدہ اور جگر کا حیرت انگیز عمل )

اے مفضل! غذا کے بدن میں پہنچنے اور اس کی تجویز پر غور کرو، جب غذا معدہ میں داخل ہوتی ہے ، تو معدہ اس غذا کو پکا کر بہت ہی باریک پردہ دار سوراخوں کے ذریعہ صاف غذا کو جگر تک پہنچاتا ہے اس لئے کہ اگر گندھی غذا جگر تک پہنچ جاتی ہے تو انسان مریض ہوجاتا ہے،کیونکہ جگر بہت ہی زیادہ نازک اور لطیف ہے،جو فضولات کو اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اب جگر کا کام یہ ہے کہ اس صاف غذا کو قبول کرنے کے بعد اس کو ایک خاص انداز سے خون میں تبدیل کردے جو باریک نالیوں کے ذریعہ جسم کے تمام حصوں میں پھیل جاتاہے، بالکل اسی طرح جس طرح پانی زمین پر پھیل جاتا ہے اور باقی

۵۲

کثافتیں ایک خاص تھیلی میں جمع ہو جاتی ہیں ، جو جنس صفراء میں سے ہے وہ پتے ّکی طرف اور جو جنس سودا میں سے ہے وہ تلی کی طرف روانہ ہو جاتی ہے، اور جو رطوبت باقی بچتی ہے ، وہ مثانہ کی طرف حرکت کرتی ہے ، بدن کی تدبیر و حکمت اور اس کے اعضاء کی مناسبت پر فکر کرو، جو اس کے عین مطابق ہے، اب ذرا دیکھو ان تھیلیوں کی طرف کہ انہیں کس طرح تیار کیا گیا ہے،جو اس بات کی بالکل اجازت نہیں دیتی ہیں کہ کثافتیں بدن میں منتشر ہو کر بدن کو مریض اور اسے ہلاکت تک پہنچادیں۔کس قدر مبارک ہے وہ ذات کہ جو محکم اور قوی ارادہ رکھتی ہے، تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیںجن کا وہ لائق ہے۔

( حیات انسانی کا پہلا مرحلہ )

مفضل کہتے ہیں میں نے عرض کی! اے میرے آقا و مولا اب آپ میرے لئے بدن کی نشوونما اور یہ کہ وہ کس طرح حد کمال تک پہنچتا ہے، بیان فرمائیں ،آپ نے فرمایا اے مفضل ، حیات انسانی کا پہلا مرحلہ تصویر جنین ہے جہاں نہ اسے کوئی آنکھ دیکھ پاتی ہے اور نہ ہی کوئی ہاتھ اس تک پہنچ سکتا ہے، ایسی حالت میں اس کی تربیت خالق حکیم کرتا ہے یہاں تک کہ وہ تمام اعضاء جیسے عضلات ، ہڈیاں، گوشت ، چربی، پٹھے ، رگیں اور نرم ہڈیوں سے مرکب و مجہّز ہو کر باہر آتا ہے، اور جیسے ہی وہ باہر آتا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ کس طرح اس کے اعضاء اپنی شکل و صورت پر باقی رہ کر بغیر کسی کمی و بیشی کے رشد کرتے ہیں ، اور پھر ایک خاص حد پر پہنچ کر رک جاتے ہیں، اور رشد نہیں کرتے چاہے اس شخص کی زندگی کوتاہ ہو یا طویل کیا یہ سب کام تدبیر و حکمت کے تحت نہیں ہیں؟

۵۳

( انسان کی ایک خاص فضیلت )

اے مفضل، اس صفت و فضیلت پر غور کرو، جو خداوند عالم نے اپنی تمام مخلوق میں فقط انسان کو عطا کی وہ یہ ہے کہ وہ سیدھا کھڑا ہوسکتا ہے، صحیح طریقے سے بیٹھ سکتا ہے، اور اسے ہاتھوں جیسی نعمت سے نوازا ہے، جن کے ذریعے وہ اپنے امور انجام دیتا ہے، لیکن اگر اس کے ہاتھ بھی چوپاؤں کی طرح ہوتے تو وہ ان کاموں کو انجام نہیں دے سکتا تھا۔

( حواس خمسہ کے صحیح مقامات )

اے مفضل! اب ذرا غور و فکر کرو ان حواس پر جو خداوند عالم نے انسان کو عطا کئے اور اسے اپنی تمام مخلوق میں فضیلت عطا کی، ذرا دیکھو، خداوند عالم نے آنکھوں کو سر پر کس طرح قرار دیا جیسے کوئی چراغ مینارہ پر ہو، تاکہ اشیاء کی اطلاع ممکن ہو سکے، اور انہیں نچلے اعضاء مثلاً ہاتھ پاؤں وغیرہ میں نہ رکھا تاکہ معرض آفات قرار نہ پائیں جب ہاتھ پاؤں کام میں مشغول ہوں تو یہ ہر قسم کی ضرر اور خطرہ سے محفوظ ہوں، اور نہ ہی آنکھوں کو درمیانی اعضاء جیسے شکم یا کمر پر قرار دیا کہ یہاں آنکھ کے لئے گردش کرنا دشوار ہوجاتا اور کیوں کہ اعضاء میں سر سے بہتر کوئی دوسرا عضو نہیں، لہٰذا خداوند عالم نے اسے حواس کا مرکز بنایا ہے، اور وہ ان حواس پر صومعہ(۱) کے مانند ہے۔ خدا وند عالم نے انسان کیلئے پانچ مختلف حواس کو بنایا، تاکہ پانچ مختلف چیزوں کا ادراک کرسکے، آنکھیں دیکھنے کیلئے بنائی گئیں ہیں تاکہ رنگوں کو درک کرسکیں، اس لئے کہ اگر رنگ ہوتے لیکن انہیں دیکھنے کیلئے آنکھیں نہ ہوتیں تو رنگوں کا ہونا

بے فائدہ ہوتا، کان آواز سننے کیلئے بنائے گئے ہیں، اگر آواز ہوتی مگر انہیں سننے کیلئے کان نہ ہوتے تو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ خانقاہ، یا پہاڑ کی چوٹی پر راہب کی عبادت گاہ۔

۵۴

آواز کا ہونا بے جا ہوتا، اور اسی طرح تمام حواس اور اس کے برعکس اگر دیکھنے کے لئے آنکھیں تو ہوتیں، لیکن رنگ نہ ہوتے تو ایسی صورت میں آنکھوں کا ہونا کوئی اہمیت نہ رکھتا، اسی طرح اگر کان ہوتے لیکن آواز نہ ہوتی تو کانوں کا ہونا بے محل ہوتا ، ذرا دیکھو تو کس طرح سے بعض چیزیں بعض دوسری چیزوں کو درک کرتی ہیں، اور ہر قوت ِ حس کے لئے ایک محسوس مختص ہے، کہ وہ فقط اسے درک کرے، اور ان محسوسات کیلئے دو چیزیں اور بھی ہیں جو قوت حس اور محسوس کے درمیان رابطہ ہیں، کہ اگر یہ دو چیزیں نہ ہوں تو قوت حس ہرگز محسوس کو درک نہیں کرسکتی، اور وہ دو چیزیں ، روشنی اور ہواہے۔ اس لئے کہ اگر روشنی رنگ کوآشکار نہ کرے تو آنکھ انہیں ہرگز درک نہیں کرسکتی، اسی طرح ہوا اگر آواز کو کان تک نہ پہنچاتی تو کان کبھی بھی آواز کو نہیں سن سکتے تھے کیا اب بھی صاحبان فکر کے لیے قوتِ حس ، محسوس اور ان کے روابط کے بارے میں کوئی بات پوشیدہ رہ جاتی ہے، کہ جن کے بغیر ادراک ممکن نہیں ہوتا اور یہ کہ وہ کس طرح بعض بعض کو درک کرتے ہیں ، یہ وہ تمام چیزیں ہیں کہ جو خداوند لطیف و خبیر کے قصد و ارادہ اور اس کی اندازہ گیری کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔

( عقل ، آنکھ اور کان کی عدم موجودگی اختلال کا سبب )

اے مفضل غور و فکر کرو، اس شخص کے بارے میں کہ جو اپنی آنکھ سے محتاج ہے، کہ اس کے کاموں میں کسی قدر خلل ایجاد ہوتا ہے، کہ اپنے پاؤں کی جگہ اور اپنے آگے کی اشیاء کو نہیں دیکھ پاتا نہ وہ رنگوں کے درمیان فرق کرسکتا ہے اور نہ اچھے برے کی پہچان کرسکتا ہے اور نہ ہی وہ اس گڑھے کو دیکھ سکتا ہے کہ جس میں غفلت سے گرجاتا ہے ، اور نہ اس دشمن کو دیکھ سکتا ہے کہ جو اس پر تلوار کھینچے ہوئے ہے، اور وہ خط و کتابت لکڑی کا کام، سونے وغیرہ کا کام اور اس قسم کے دوسرے کام سے بھی محتاج ہے، ایسا شخص اگر چست نہ ہو تو اپنی جگہ پر پڑے ہوئے پتھر کی مانند ہے۔ اور اسی طرح وہ شخص جو بہرا ہو توا س کے

۵۵

کاموں میں بھی بہت زیادہ خلل ایجاد ہوتا ہے، ایسا شخص گفتگو کی لذت سے محروم رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ مختلف مجالس میں جانے سے اجتناب کرتا ہے ، اس لئے کہ ان میں شرکت اس کے لئے رنجش کاباعث ہوتی ہے ، کیونکہ وہ کسی بھی بات کو نہیں سن پاتا، اس طرح کہ جیسے وہ موجود ہی نہیں، جبکہ باوجود اس کے کہ وہ موجود ہے ، یاپھر ایسے کہ جیسے وہ مردہ ہے جب کہ وہ زندہ ہے اور اگر کوئی اپنی عقل کھو بیٹھے تو وہ چوپاؤں کی مثل ہے یا ان سے بھی بدتر، اس لے کہ چوپائے اشیاء کی تشخیص کرتے ہیں جبکہ وہ بالکل نہیں کرپاتا ، اے مفضل کیا تم نہیں دیکھتے جو اعضاء و جوارح انسان کیلئے بنائے گئے ہیں ان میں اس کے لیے کس طرح بھلائی ہے کہ اگر ان سے میں ایک بھی نہ ہوتا تو انسان کیلئے کتنی زیادہ پریشانی ہوتی ، لہٰذا اسے کامل پیدا کیا گیا اور اس کی پیدائش میں کسی بھی قسم کی کمی و زیادتی نہیں ہے، ایسا ہونا اس بات پر دلیل ہے کہ ان کی خلقت میں علم وحکمت اور قدرت سے کام لیا گیا ہے، مفضل کہتے ہیں میں نے عرض کی اے میرے مولا ، پھر کیوں بہت سے لوگ بعض اعضاء و جوارح سے محتاج ہیں، اور انہیں مختلف قسم کی تکالیف اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، آپ نے فرمایا: اے مفضل ، جو شخص اس قسم کی حالت سے دوچار ہے ، یہ حالت خود اس کے لئے اور اس کے علاوہ دوسروں کے لئے اسی طرح نصیحت ہے جس طرح کوئی بادشاہ کسی کو اس کے غیر مودّب ہونے پر سزا دے تاکہ وہ سزا خود اس کے اور دوسروں کیلئے عبرت ہو ، ایسی صورت میں کوئی بادشاہ کو برا نہیں کہتا بلکہ اسے اس کام کے سلسلے میں داد و تحسین سے نوازتے ہیں ، اور اس کے اس کام کو صحیح قرار دیتے ہیں، خداوند عالم اس گروہ کو جو ان مصیبتوں میں گرفتار ہو اور ان مصیبتوں پر صبر کرے اور خدا کی اطاعت کرتا رہے تو اس قدر ثواب عطا کرے گا جس کی نتیجے میں وہ گروہ دنیا کی تمام مصیبتوں اور آفتوں کو حقیر سمجھے گا، کہ اگر اسے اس بات کا اختیار دے دیا جائے ، کہ اسے دوبارہ دنیا میں واپس پلٹایا جائے کہ یہ صحیح و سالم حالت کو قبول کرے یا اپنی سابقہ حالت کو ، تو وہ یقینا اپنی سابقہ حالت قبول کرے گا، تاکہ اس کے اجرو ثواب میں مزید اضافہ ہو۔

۵۶

( طاق اور جفت اعضائ )

اے مفضل، طاق اور جفت اعضاء کی بناوٹ پر غور وفکر کرو۔

سر : ان اعضاء میں سے ہے کہ جنہیں طاق پیدا کیا گیا ہے ، کہ اگر ایک سے زیادہ پیدا کیا جاتا تو اس میں انسان کیلئے کسی بھی صورت بھلائی نہ تھی، اس لئے کہ اگر انسان کے لئے ایک اور سر کا اضافہ کردیا جائے، توا س کے لئے یہ سنگینی بے فائدہ ہوگی، کیونکہ حواس کو جمع ہونے کے لئے جس مکان کی ضرورت تھی وہ ایک سر میں موجود ہے اس کے علاوہ اگر انسان دو سر رکھتا تو وہ دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہ جاتا کہ اگر ایک سے کلام کرتا تو دوسرا یقیناخاموش رہتا ، اور اگر دونوں سے ایک ہی کلام کرتا تو دوسرا زائد اور بے فائدہ ہوتا، اور اگر ہر ایک سے جدا جدا کلام کرتا توایسی صورت میں سننے والے کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ کس کے کلام کی طرف توجہ دے، خلاصہ یہ کہ دو سر ہونے کی صورت میں انسان کے لئے مختلف قسم کے شبہات پیش آتے۔

ہاتھ: ان اعضاء میں سے ہے کہ جنہیںجفت پیدا کیا گیا، اگر ایک ہاتھ ہوتا تو یہ انسان کیلئے کسی بھی صورت میں بہتر نہ ہوتا جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ انسان کے لئے فقط ایک ہاتھ کا ہونا اس کے کاموں میں کس طرح خلل کا باعث بنتا ہے، مگر کیا تم نے نہیں دیکھا کہ، اگر بڑھئی ، مستری یا مزدورکا ایک ہاتھ شل ہوجائے تو وہ اپنے کام کو جاری نہیں رکھ سکتے ، اور اگر وہ اپنے آپ کو زحمت و مشقت میں ڈال کر اپنے کام کو جاری رکھیں تو پھر بھی وہ اپنے کام میں اس حد تک استحکام پیدا نہیں کر پاتے جیسا کہ دونوں ہاتھوں کی موجودگی میں تھا۔

۵۷

( کلام کس طرح وجود میں آتا ہے )

اے مفضل، آواز، کلام اور اس کی بناوٹ پر غور کرو، یہ حنجرہ جو نلی کے مانند ہے اس کے وسیلہ سے آواز منہ سے باہر آتی ہے اور زبان، ہونٹوں اور دانتوں کی مدد سے حروف و کلام کی صورت اختیار کرتی ہے ، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جس شخص کے دانت نہ ہوں وہ سین کو ادا نہیں کرسکتا اور اگر کسی کے ہونٹ کٹ جائیں تو وہ فاء کا تلفظ نہیں کر پاتا، اور اگر کسی کی زبان میں سنگینی ہوتو وہ راء کو خوب ادا نہیں کرسکتا، اے مفضل، یہ پورا نظام بانسری سے شباہت رکھتا ہے، کہ حنجرہ بانسری کی نلی، پھیپھڑے مثل زق(۱) کے ہیں جو ہوا کو حنجرہ تک پہنچانے کا عمل انجام دیتے ہیں، اور وہ عضلات جو پھیپھڑوں کو ہوا پیدا کرنے پر مجبور کرتے ہیں وہ ان انگلیوں کے مانند ہیں کہ جو بانسری کے سوراخوں پر رکھی ہوئی ہیں، تاکہ ہوا بانسری میں جاری رہے، اور ہونٹ اور دانت اسی طرح حروف بنانے کے عمل کو انجام دیتے ہیں جس طرح سے بانسری کے اوپر رکھی ہوئی انگلیوں کو حرکت دینے سے قصد و ارادہ کے مطابق آواز کلام میں تبدیل ہوجاتی ہے ، یہ جو میں نے صداء مخرج کو بانسری سے شباہت دی یہ محض ا س کی تعریف بیان کرنے کے لئے ورنہ یہ بانسری ہے کہ جو صداء مخرج سے شباہت رکھتی ہے یہ اعضاء کہ جن کا ذکر کیا گیا کلام کی تخلیق کے علاوہ دوسرے کام بھی انجام دیتے ہیں ، جیسے حنجرہ اس کے وسیلہ سے صاف ہوا پھیپھڑوں تک پہنچتی ہے، اورعمل تنفس کے ذریعہ جگر کو مسلسل راحت و نشاط حاصل ہوتا ہے، کہ اگر ذرا سا بھی سانس گھٹ جائے تو انسان کی ہلاکت یقینی ہے۔

زبان: جس کے ذریعے مختلف ذائقوں کو چکھا جاتا ہے ، اور ان میں سے ہر ایک کو تلخ و شیرین، کھٹے

اور پھیکے ہونے کے لحاظ سے پہچانا جاتا ہے اس کے علاوہ زبان لقمہ اور پانی کے نگلنے میں مدد دیتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ چمڑے کا تھیلا۔ مشک وغیرہ

۵۸

دانت : یہ غذا کو چباتے ہیں ، تاکہ وہ نرم ہوجائے اور اس کا نگلنا آسان ہو، اس کے علاوہ دانت ہونٹوں کے لئے تکیہ گاہ ہیں،جو ہونٹوں کو لٹکنے اور حالت اضطراب سے محفوظ رکھتے ہیں ان لوگوں سے عبرت حاصل کرو جن کے دانت گر جاتے ہیں اورہونٹ لٹک جاتے ہیں۔

ہونٹ : جن کی مدد سے پانی کو منھ میں لیا جاتا ہے تاکہ اندازہ کے مطابق پانی گلے تک پہنچے اور گھٹلی کی صورت میں نیچے اترنے کی وجہ سے انسان کیلئے درد کا باعث نہ بنے، اس کے علاوہ منھ پر دو ہونٹ مثل بند دروازے کے ہیں کہ انسان جب چاہتا ہے کھول لیتا ہے ، اور جب چاہتا ہے انہیں بند کرلیتا ہے ، ان تمام باتوں سے یہ چیز روشن ہوجاتی ہے کہ ہر عضو چند کاموں کے لئے استعمال ہوتا ہے، جس طرح سے کلہاڑی ان آلات میں سے ہے کہ جو بڑھئی کے بھی کام آتا ہے اور کھدائی کرنے والے کے بھی اور اس کے علاوہ بھی بہت سے کاموں میں استعمال ہوتا ہے۔

( دماغ کاسہ سر کے محکم حصار میں )

اے مفضل، اگر دماغ کو تمہارے سامنے کھولا جائے تو تم مشاہدہ کرو گے کہ وہ کئی تہہ بہ تہہ پردوں میں لپٹا ہو اہے، تاکہ یہ پردے دماغ کو ان آفات اور صدمات سے محفوظ رکھیںکہ جو اس میں خلل کا باعث بنتے ہیں اور کھوپڑی دماغ پر خول کی مانند ہے ، تاکہ اگر سر پر کوئی ضرب یا تکلیف پہنچے تو وہ دماغ تک رسائی نہ کرسکے اور پھر خدا نے کھوپڑی کو بالوں کے لباس سے آراستہ کیا، تاکہ وہ اسے سردی اور گرمی کے اثرات سے محفوظ رکھیں، آیا وہ کون ہے کہ جس نے دماغ کو اس قسم کے حصار میں رکھا ؟ سوائے اس کے اور کوئی نہیں جس نے اس کو پیدا کیا اور اسے منبع احساسات اور لائق حفاظت قرار دیا اس لئے کہ اس کا مرتبہ دوسرے اعضاء کی نسبت بلند ہے۔

۵۹

( آنکھوں پر غلاف چشم کا خوبصورت پردہ )

اے مفضل ، غورو فکر کرو، کہ کس طرح سے پپوٹوں کو آنکھوں پر پردہ کے مانند قرار دیا، اور یہ کہ کس طرح سے آنکھوں کو گہرائی میں رکھا، اور خوبصورت پلکوں کا اس پر سایہ کیا۔

( وہ کون ہے؟ )

اے مفضل وہ کون ہے؟ جس نے دل کو قفسہ سینہ میں محفوظ کیا ، اور پھراسے لباس محکم یعنی پردہ دل سے آراستہ کیا، اور مضبوط ،ہڈیوں ، گوشت اور اعصاب کے ذریعے سے اس کی حفاظت کی، تاکہ کوئی ضرر اس تک نہ پہنچ پائے، وہ کون ہے جس نے گلوئے انسان میں دو راستے بنائے، ایک راستہ وہ جس سے آواز باہر آتی ہے کہ جسے حلقوم کہتے ہیں جو پھیپھڑوں سے ملا ہواہے، اور دوسرا راستہ غذا کے جاری ہونے کیلئے ہے ، یہ ایک گول نلی ہے جو معدہ سے ملی ہوئی ہے، یہی نلی غذا کو معدہ تک پہنچاتی ہے پھر اُس نے حلقوم کو طبقوں کی صورت میں ترتیب دیا تاکہ غذا پھیپھڑوں تک نہ پہنچے کہ اگر غذا انسان کے پھیپھڑوں تک پہنچ جائے تو انسان ہلاک ہوجائے، وہ کون ہے؟ جس نے پھیپھڑوں کو دل کے لئے نشاط و راحت کا سبب قرار دیا جو ہمیشہ حرکت میں ہیں اور اس بات کی بالکل اجازت نہیں دیتے کہ حرارت دل میں جمع ہوکر انسان کو ہلاک کردے، وہ کون ہے؟ جس نے مجری غائط و بول میں بند قرار دیئے تاکہ یہ بند انہیں ہر وقت کے جاری ہونے سے محفوظ رکھیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان کی زندگی آلودہ ہو کررہ جاتی، اور اس قسم کے دوسرے اس قدر فائدہ ہیں کہ جنہیں اگر کوئی شمار کرنے والا شمار کرنا چاہیے تو وہ انہیں ہرگز شمار نہیں کرسکتا، اور اے مفضل ، ان فائدوں میں سے بہت سے فائدے تو ایسے ہیں کہ

۶۰

جن کے بارے میں لوگ اطلاع نہیں رکھتے، وہ کون ہے؟ جس نے معدہ کو محکم اعصاب سے مجہز کیا، اور اسے سخت غذا کے ہضم کرنے کے قابل بنایا ، وہ کون ہے؟ جس نے جگر کی بناوٹ ، نازک اور باریک نالیوں سے انجام دی تاکہ صاف اور لطیف غذا کو ایک خاص انداز سے خون میں تبدیل کرے، اور معدہ سے زیادہ نازک و لطیف کام انجام دے ، سوائے اُس خداوند متعال کے اور کوئی نہیں کہ جو قادر اور قوی ہے، کیا تم اس بات کو کہہ سکتے ہو کہ محض اتفاقات نے ان میں سے کسی ایک کام کو بھی انجام دیا ہے ؟ ہرگز نہیں، بلکہ یہ تمام کام اُس مدبر کی حکمت و تدبیر کے تحت ہیں، جس نے اپنی تدبیر سے انہیں پیدا کیا ،اور کوئی بھی چیز اُسے عاجز نہیں کرتی ، وہ لطیف و آگاہ ہے۔

( اعضاء بدن بغیر علت کے نہیں ہیں )

اے مفضل ذرا غور کرو، آخر کیوں خداوند عالم نے نازک مغز کو محکم و مضبوط ہڈیوں کے درمیان رکھا؟ سوائے اس کے کہ وہ محکم ہڈیاں اُسے محفوظ رکھیں، آخر کیوں خون کو رگوں کے حصار میں قرار دیا، جیسے کہ پانی برتن میں ہو، کیا رگوں کے علاوہ کوئی اور چیز ہے کہ جواُسے جسم میں منتشر ہونے سے بچائے، آخر کیوں؟ ناخنوں کو سر انگشت پر جگہ عطا کی؟ سوائے اس کے کہ وہ انگلیوں کو محفوظ رکھیں اور انگلیوں کے کام کرنے میں ان کی مدد کریں ، آخر کیوں؟ کان کا اندرونی حصہ پیچیدگی صورت اختیار کئے ہوئے ہے؟ سوائے اس کے کہ آواز اس کے ذریعہ وارد ہوکر کان کے اندر ختم ہوجائے (اور کان کے پردے کو کسی بھی قسم کے ضرر کا سامنا کرنا نہ پڑے) کیونکہ اس پیچیدگی ہی کہ وجہ سے ہوا کا زور ٹوٹ جاتا ہے ، اور کان کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، آخر کس مقصد کے تحت ران اور کولھوں کو گوشت کا لباس پہنایا؟ سوائے اس کے کہ زمین پر بیٹھتے وقت انہیں تکلیف کا سامنا کرنا نہ پڑے،اور زمین کی سختی ان پر اثر انداز نہ ہو، جیسا کہ اگر کوئی لاغر و کمزور آدمی زمین پر بیٹھتے وقت اپنے نیچے کوئی چیز نہ رکھے، تو اُسے درد محسوس ہوتا

۶۱

ہے، وہ کون ہے؟ جس نے انسان کو نر و مادہ کی صورت میں پیدا کیا؟ کیا اس کے علاوہ کوئی اور ہے ، جو یہ چاہتا ہے کہ نسل انسانی باقی رہے، کون ہے جس نے انسان کو صاحب نسل قرار دیا ہے، سوائے اس کے کہ جس نے اسے صاحب آرزو خلق کیا، کون ہے جس نے اُسے اپنی حاجت کو پورا کرنے والا بنایا، کون ہے جس نے اُسے حاجت بنایا؟ سوائے اس کے کہ جس نے اس بات کہ ذمہ داری اپنے سر لی، کہ اِسے پورا کریگا، کون ہے، جس نے اُسے کام کاج کے لئے أعضاء و جوارح عطا کئے، کون ہے، جس نے اسے کام کے لئے قدرت و طاقت عطاکی، کون ہے ، جس نے درک و فہم کو فقط اس کے ساتھ مخصوص کیا، کون ہے، جس نے انسان پر شکر کو واجب قرار دیا، کون ہے جس نے اُسے فکر و اندیشہ گری سیکھائی؟ سوائے اس کے کہ جس نے اُسے اُس کی قوت عطاکی، کون ہے جس نے انسان کو قدرت ، طاقت وتوانائی جیسی نعمت سے نوازا؟ کون ہے جس نے انسانوں پر اپنی حجت تمام کی، کہ جو ناچارگی و بے کسی کے عالم میں کفایت أمر کرتاہے، کون ہے، کہ جس کا جتنا شکر ادا کیا جائے ، ادا نہیں ہوتا،اے مفضل ذارا غور کرو، کہ کیا تم اس بیان شدہ نظام میں اتفاقات کا مشاہدہ کرتے ہو؟ خداوند متعال بلند و برتر ہے، ان تمام افکار سے جو کم ذہنیت کے لوگ اس کے بارے میں رکھتے ہیں۔

( دل کا نظام )

اے مفضل ، اب میں تمہارے لئے دل کی تعریف بیان کرتا ہوں ، جان لو کہ دل میں ایک سوراخ ہے جو اُس سوراخ کے سامنے ہے جو پھیپھڑوں میں مشاہدہ کیا جاتا ے، جس کے وسیلہ سے دل کو ہوا اور سکون ملتا ہے، اگر یہ سوراخ ایک دوسرے سے دو ر یا جابجا ہوجائیں اور دل تک ہوا نے پہنچے تو انسان ہلاک ہوجائے، کیا کسی صاحب عقل کے لئے یہ کہنا زیب دیتا ہے کہ یہ عمل محض اتفاق کا نتیجہ ہے ، اس کے باوجود کہ وہ ایسے شواہد کا مشاہدہ کرتا ہے ، کہ جو اسے اس گفتار سے روکتے ہیں، اگر تم دو

۶۲

دروازوں میں سے ایک کو دیکھو کہ اُس میں کُنڈی لٹکی ہوئی ہے ، تو کیا تم یہ کہو گے کہ اس کے بنانے والے نے اسے بے فائدہ اور بے مقصد بنایا ہے، ہرگز نہیں ، بلکہ تم سوچوگے کہ یہ دروازے آپس میں ملنے کے لئے ہیں ، اور یہ کنڈی ہے کہ جو انہیں ملانے کا کام انجام دیتی ہے ، اور ان کے ملنے ہی میں مصلحت ہے، تو بس تم حیوانات میں نر کو بھی اسی طرح پاؤگے کہ اسے ایک ایسا ہی آلہ عطا کیا گیا ہے ، تاکہ وہ اپنی مادہ کے ساتھ نزدیکی کرے کہ جس میں اس کی نسل کی بقاء ہے، اب ان فلسفیوں پر نفرین کی جائے کہ جن کے دل سیاہ ہوچکے ہیں ، کہ وہ اس عجیب و غریب خلقت میں تدبیر و ارادہ کا انکار کرتے ہیں، اگر مرد کا آلہ تناسل ہمیشہ آویزاں ہوتا، تو کس طرح نطفہ رحم تک پہنچتا، اور اگر ہر وقت کھڑا ہوتا ، تو کس طرح سے بستر پر کروٹ لے سکتا تھا، اور اس حالت میں وہ کس طرح سے لوگوں کے درمیا ن راہ چلتا، اس کے علاوہ اگر ایسا ہوتا تو یہ منظر قباحت پر مشتمل ہوتا، اور مرد وزن کی شہوت کو ہر وقت متحرک کرتا، لہٰذا خداوند متعال نے اُسے اس طرح قرار دیا کہ وہ اکثر اوقات مردوں کی نگاہ سے پوشیدہ رہے، اور ان کے لئے زحمت ومشقت کا باعث نہ ہو، لیکن اس میں ایک ایسی قوت عطا کی کہ ضرورت کے وقت کھڑا ہوجائے، اس لئے کہ اس میں بقاء نسل پوشیدہ ہے۔

( مقام مخرج )

اے مفضل، اب ذرا غور کرو،بڑی نعمتوں میں سے کھانے، پینے اور فضلات کے بدن سے بآسانی خارج ہونے پر، مگر کیا مقام مخرج کی بناوٹ وساخت کے لئے اس سے بہتر کوئی طریقہ تھا کہ اُسے پوشیدہ ترین اور مخفی جگہ پر قرار دیا جائے، کہ جو نہ انسان کی پشت پر ہو اور نہ آگے لٹکی ہوئی، بلکہ اُسے ایسی پوشیدہ اور مناسب جگہ قرار دیا ، جسے رانوں اور کولھوں کاگوشت چھپائے ہوئے ہے، اور جب انسان خلاء کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور ایک خاص انداز میں بیٹھتا ہے تو اس کی جائے مخرج مہیا ہے ، اور ہمیشہ فضولات کا رخ نیچے کی طرف ہے، کس قدر مبارک ہے وہ ذات جس کی نعمتیں مسلسل اور بے شمار ہیں۔

۶۳

( دندان کی وضعیّت )

اے مفضل، فکر کرو، اُن دانتوں پر جو غذا کو پیستے اور ٹکڑے ٹکڑے کردیتے ہیں، کہ جنہیں خدا وند متعال نے انسانوں کی سہولت کے لئے پیدا کیاہے، اُن میں سے بعض تیز اور نوکیلے ہیں، جو غذا کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ اور بعض پھیلے ہوئے ہیں کہ جو غذا کو چبانے اور نرم بنانے کا کام انجام دیتے ہیں، یہ صفت اُن میں تاحد ضرورت موجود ہے۔

( بالوں اور ناخنوں میں حسن تدبیر )

اے مفضل ، بالوں اور ناخنوں کے حسن صناعت پر غور کرو، یہ مسلسل بڑھتے ہیں، اور انسان انہیں تراشنے پر مجبور ہوتا ہے، لہٰذا انہیں بے حس قرار دیا گیا ہے ، تاکہ ان کے تراشنے سے انسان کو درد کا سامنا کرنا نہ پڑے، اگر ان کے تراشنے سے انسان درد کا احساس کرتا تو اس کی زندگی مشکلات سے دوچار ہوجاتی اور اگر درد کی وجہ سے انہیں نہ تراشتا اور بڑھتا ہوا چھوڑ دیتا تو ایسی صورت میں یہ اس کے لئے باعث زحمت و مشقت بنتے، یا پھر یہ کہ انسان درد کو برداشت کرے۔

مفضل کا بیان ہے میں نے عرض کی اے میرے آقا و مولا، ان کی خلقت اس طرح کیوں نہیں ہوئی کہ یہ بڑے ہی نہ ہوں، اور انسان ان کے تراشنے پر مجبور نہ ہو؟ امام ـنے ارشاد فرمایا: اے مفضل ، خداوند عالم کی اس عظیم نعمت پر شکر کرو کہ جس کی حکمت اس کے بندے نہیں جانتے ، جان لو کہ بدن کے جراثیم و فضلات انہی کے ذریعے جسم سے خارج ہوتے ہیں، لہٰذا انسان کو ہر ہفتے نورہ لگانے، بال کٹوانے، اور ناخن تراشنے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ بال اور ناخن تیزی سے بڑھیں اور ان کے ذریعے

۶۴

انسان کے بدن سے جراثیم اور مختلف فضلات دور ہوں، اگر انہیں تراشا نہ جائے تو ان کے بڑھنے کی رفتار بھی سست پڑ جاتی ہے، جس سے بدن میں جراثیم اور فضلات باقی رہ جاتے ہیں اور انسان مریض ہوجاتا ہے اور اس کے علاوہ دوسرے بھی فائدے ہیں اور بعض ان مقامات پر کہ جہاں بالوں کا اُگنا خلل اور نقصان کا باعث بنتا، وہاں انہیں اُگنے سے روکا گیا ہے (اب ذرا دیکھو کہ ) اگر بال آنکھوں کے اندر اُگتے تو کیا آنکھوں کو اندھا نہیں کردیتے؟ اور اگر منھ میں اُگتے تو کیا کھانے ، پینے وغیرہ کے لئے ناگوار معلوم نہ ہوتے اور اگر ہتھیلی پر اُگتے تو کیا لمس کے لئے مانع نہ ہوتے؟ اور اسی طرح اگر عورت کی شرمگاہ یا مرد کے آلہ تناسل پر بال اگتے تو کیا لذت جماع کو ختم نہ کردیتے، غور کرو کہ کس طرح بال بعض مقامات پر نہیں اُگتے اس لئے کہ اسی میں انسان کی بھلائی ہے، اور یہ أمر فقط انسانوں کے اندر ہی نہیں، بلکہ چوپاؤں اور درندوں میں بھی پایا جاتا ہے جیسا کہ تم اس بات کا مشاہدہ کرتے ہو کہ ان کی تمام جلد تو بالوں سے ڈھکی ہوتی ہے، مگر وہ مقامات کہ جن کا ذکر پہلے بیان کیا جا چکا ہے بالوں سے خالی ہوتے ہیں ، حاصل مطلب یہ کہ ذرا غور کرو کس طرح سے فائدہ اور نقصان کو مدنظر رکھا گیا ہے اور جن چیزوں میں انسان کے لئے فائدہ اور اس کی بھلائی ہے، انہیں فراہم کیا گیا ہے۔

( فرقہ مانویہ کے اعتراضات )

اے مفضل ، وہ تمام کلمات و شبہات جو فرقہ مانویہ خلقت کے بارے میں رکھتا ہے، کہ اس کائنات کے اندر قصد و ارادہ نام کی کوئی چیز نہیں ، مثلاً وہ بغل اور زیرناف بال اُگنے کو بیہودہ اور عبث تصور کرتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ وہ مقامات رطوبت کے جاری ہونے کے لئے ہیں ، لہٰذا اُن مقامات پر بالوں کا اُگنا بالکل اُسی طرح ہے جس طرح نہر اور ندی وغیرہ کے کنارے گھاس وغیرہ اُگتی ہے ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہ مقامات رطوبت کے جاری اور بہنے کے لئے دوسرے تمام مقامات

۶۵

سے زیادہ پوشیدہ اور پنہاں ہیں اور پھر یہ کہ ان کے اُگنے اور کٹوانے کے بعد انسان مرض وغیرہ کی تکلیف میں مبتلا ہونے سے بچ جاتا ہے اور ان ہی کے بدن سے صاف ہونے کہ وجہ سے حرص و کثافت طبیعی طور پر انسان سے دور ہوجاتی ہے اور ان سب کا دور ہونا انسان کو سرکشی ، تجاوز اور فراغت سے بچاتا ہے اور انسان خوش و خرم رہتا ہے۔

( آب دہن خشک ہونے سے انسان کی ہلاکت )

اے مفضل ، آب دہن اور اس کے فوائد پر غور کرو، یہ ہمیشہ منہ میں جاری ہے تاکہ گلے اور خنجرہ کو تر رکھے ، کہ اگر یہ خشک ہوجائے تو انسان کی ہلاک ہوجائے ، اس کے علاوہ کھانا بھی بآسانی نہیں کھا سکتا کیونکہ یہی رطوبت لقمہ کو حرکت دیتی ہے لہٰذا تم مشاہدہ کروگے کہ یہ رطوبت مرکب غذا ہے اور یہی رطوبت ہے جو نلی کی طرف جاری رہتی ہے ، جس میں انسان کی بھلائی ہے کہ اگر یہ رطوبت خشک ہوجائے تو انسان کی ہلاکت یقینی ہے۔

( انسان کا شکم لباس کے مانند کیوں نہ ہوا؟ )

( اے مفضل) بعض جاہل افراد جو اپنے آپ کو اہل کلام کہلواتے ہیںاور کچھ ضعیف فلسفی جو اپنی کم علمی اور اپنی کم دسترسی کی وجہ سے یہ کہتے ہیں کہ شکم انسان، لبا س کی مانند ہونا چاہیے تھا کہ جسے جب بھی طبیب چاہتا کھول کر معائنہ کرتا، اور اپنے ہاتھ کو اندر ڈال کر جس طرح کا معالجہ ممکن ہوتا، انجام دیتا۔ تو کیا یہ اس سے اچھا نہ ہوتا کہ اُسے ایک مستحکم بند کے ذریعہ بند کیا ہوا ہے ؟ کہ وہ ہاتھ و آنکھ کی دسترسی سے بھی دور ہے کہ یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ اس کے اندر کیا ہے، مگر یہ کہ مختلف راہوں ، طریقوں اور

۶۶

تجربوں سے اس کا معائنہ کیا جائے کہ اس کے اندر پیشاب اور اس قسم کی دوسری بیہودہ ، فالتو چیزیں ہیں کہ جو انسان کی ہلاکت کا باعث ہیں؟ اگر یہ جاہل افراد جان لیں کہ وہی ہوتا جو یہ کہتے ہیں ، تو اس کا پہلا نقصان یہ ہوتا کہ انسان سے موت و مرض کا ڈر ساقط و ختم ہوجاتا، اس لئے کہ جب وہ اپنے آپ کو صحیح وسالم دیکھتا ، تو اس عالم میں مغرور ہوجاتا،اور یہ چیز اس کے طغیان اور تجاوز کا سبب بن جاتی، اس کے علاوہ وہ رطوبت جو اس کے شکم میں ہے ، اس کے شکم سے چھلکتی اور یہ مسلسل اُسے پلٹاتا ، اور اس کا لباس اور آلات زینت خراب ہوجاتے، بلکہ یوں کہوں کی کلی طور پر اس کی زندگی آلودہ ہوکر رہ جاتی ، اس کے علاوہ معدہ، جگر ، اور دل اپنے عمل کو اس حرارت کی موجودگی میں انجام دیتے ہیں جو خداوند متعال نے شکم میں رکھی ہے ، اگر شکم انسان میں سوراخ ہوتا کہ آنکھ، اور ہاتھ کے وسیلہ سے اس کا معالجہ کیا جاسکتا، تو ایسی صورت میں سرد ہوا اس کے جسم میں داخل ہوکر حرارت کو ختم کردیتی اور یہ تمام اعضاء دل ، معدہ ، جگر اپنا عمل کرنا چھوڑدیتے اور اس صورت میں انسان کی ہلاکت یقینی ہوجاتی ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ جو چیزیں اوہام سے وجود میں آتی ہیں وہ سب ان کے علاوہ ہیں جو خداوندعالم نے پیدا کی ہیں، اور اوہام سے وجود میں آنے والی چیزیں باطل و خطاہیں۔

اے مفضل، انسانوں کے وجود میں قرار دیئے گئے کاموں کی تدبیر پر غوروفکر کرو ، جیسے کھانا، پینااور جماع کہ یہ تمام انسان کے اندر تحرک پیدا کرتے ہیں جب انسان انہیں انجام دینا چاہتا ہے تو ان کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے، جیسے انسان کا بھوکا ہونا اسے غذا کے طلب کرنے پر مجبور کرتا ہے، جس کے حاصل ہونے سے انسان کے بدن کی نشوونما ہوتی ہے سستی اور اُونگھنا علامت ہے کہ اُسے سونے کی ضرورت ہے۔ جس میں اس کیلئے راحت و آرام پوشیدہ ہے شہوت کا اُبھرنا اُسے جماع کی طرف مائل کرتا ہے ،جو انسان کی بقاء اور دوام نسل کا واضح ثبوت ہے۔اگر انسان فقط ضرورت بدن کے لئے غذا کھاتا، اور کوئی چیز اس کے وجود میں ایسی نہ ہوتی کہ جو اسے غذا کے کھانے پر مجبور کرتی ، تو مسلم طور پر

۶۷

انسان کبھی اپنی سستی و کاہلی کی وجہ سے اس پر توجہ نہ دیتا ، ایسا ہونے سے اس کا بدن تحلیل ہونے لگتا اور آہستہ آہستہ وہ ہلاک ہوجاتا۔ جس طرح سے کبھی دوا کا محتا ج ہوتا ہے جسے کھا کر وہ اپنے بدن کی اصلاح کرے، مگر وہ سستی و کاہلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے لاپروائی کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کا بدن فاسد وضعیف و لاغر ہوجاتا اور یہ بات اس کی ہلاکت کا باعث بنتی ہے ، اسی طرح اگر سونا فقط اس لئے ہوتا کہ اس کے بدن کو راحت و آرام ملے اور اس کی قوت باقی رہے تو وہ اس میں بھی سستی سے کام لیتا، اور سونے سے پرہیز کرتا اور ہلاک ہوجاتا، اسی طرح اگر طلب اولاد کے لئے جماع کرتا ، تو یہ بعید نہ تھا کہ وہ اس میں بھی سستی کرتا، یہاں تک کہ نسل انسان کم ہوجاتی یا یہ کہ بالکل ہی منقطع ہوکر رہ جاتی، اس لئے کہ بعض افراد اولاد کی طرف رغبت نہیں رکھتے اور اولاد کو اہمیت نہیں دیتے ، اب ذرا غور کرو ، ان کاموں پر کہ جن میں انسان کی بھلائی ہے کس طرح ان کے وجود میں تحرک رکھا گیا ہے کہ وہ انسان کے اندر حرکت ایجاد کرتے ہوئے اسے ایسے کاموں کے انجام دینے پر مائل کریں۔

( انسان کے اندر چار حیرت انگیز قوتیں )

اے مفضل ، جان لو کہ بدن انسان میں چار قوتیں ہیں۔

1۔ قوت جاذبہ : جوکھانے کو قبول کرکے معدہ تک پہنچاتی ہے۔

2۔ قوت ماسکہ: جو کھانے کو اُس وقت تک محفوظ رکھتی ہے جب تک اس میں طبیعی طور پر عمل شروع نہ ہوجائے۔

3۔ قوت ہاضمہ : جو غذا کو معدہ کے اندر حل کرتی ہے اور خالص و صاف غذا کو نکال کر بدن کے اندر پھیلاتی ہے۔

4۔ قوت رافعہ: جب قوت ہاضمہ اپنے عمل کو انجام دے لیتی ہے ، تو یہی قوت رافعہ باقی غذا کو بدن سے باہر نکال دیتی ہے۔

۶۸

پس ان قوتوں کے میزان ، اندازہ ، اور ان کے عمل ،فوائد اور ان کی تدبیر و حکمت پر غور کرو، جوان میں جاری ہے اگر قوت جاذبہ نہ ہوتی، تو کس طرح انسان اُس غذا کی طرف کھینچا چلا جاتا کہ جس میں اس کے بدن کی قوت محفوظ ہے اور اگر قوت ماسکہ نہ ہوتی تو کس طرح غذا بدن انسان میں معدہ کے عمل کے انتظار میں ٹھہری رہتی اگر قوت ہاضمہ نہ ہوتی تو کس طرح غذا حل ہو کر معدہ سے باہر آتی کہ بدن اس سے تغذیہ کرکے اپنی حاجت کو پورا کرے اسی طرح اگر قوت دافعہ نہ ہوتی تو کس طرح بچی ہو ئی غذا تدریجی طور پر جسم سے باہر آتی، کیا تم اس بات کا مشاہدہ نہیں کرتے کہ خداوند عالم نے اپنے لطف و صنعت و حسن تدبیر کے سبب کس طرح ان قوتوں کو محافظ بدن قرار دیا، اور تمام وہ چیزیں جو بدن انسان کے لئے ضروری تھیں انہیں فراہم کیا گیاہے۔ اور اب میں تمہارے لئے مثال بیان کرتا ہوں وہ یہ کہ انسان کا بدن بادشاہ کے محل کی مانند ہے اور اس کے اعضاء اس کے محل کے ملازمین اور کام کرنے والوں کی طرح ہیں ، ان میں کچھ اس محل کی ضروریات پورا کرنے کے لئے اور کچھ محل میں داخل ہونے والی چیزوں کو قبول کرنے کے بعد استعمال میں لانے کے لئے، کچھ اس محل کو منظم و مرتب ، صاف ستھرا اور آلودگیوں سے پاک کرنے کے لئے اور کچھ فضول چیزوں کو محل سے باہر نکالنے کے لئے ہیں۔ اس مثال میں بادشاہ وہی خدائے حکیم ہے جو عالمین کا بادشاہ ہے اور وہ محل بدن انسان ہے اور اس کے افراد اس کے اعضاء ہیں اور جو امور خانہ داری کا کام انجام دیتی ہیں وہ چار قوتیں ہیں ، شاید کہ تم خیال کرو کہ ان چار قوتوں کی دوبارہ یادآوری اور ان کے کام کے بارے میں جو کچھ بیان کیا جا چکاہے ، وہ زائد اور بے مورد ہے حالانکہ ان کے ذکر سے مراد وہ نہیں جو تم اطباء کی کتابوں میں پڑھتے ہو، بلکہ یہاں ہماری گفتگو ان کی گفتگو سے جدا ہے ، اس لئے کے وہ فقط چار قوتوں کے بارے میں بحث طب کے ارتباط اور طبابت کی ضرورت کے لحاظ سے کرتے ہیں ، لیکن ہماری بحث اصلاح دین اور نفوس کو

۶۹

گمراہی اور غلطی سے بچانے کیلئے ہے ، جس طرح سے مثال کے ذریعہ ان کے شافی ہونے پر تفصیلی بحث کرچکا ہوں کہ جس میں ان کی تدبیر و حکمت پر اشارہ کیا گیا ہے۔

( انسان کو قوت نفسانی کی ضرورت )

اے مفضل، انسان کے اندر قوت نفسانی ( فکر، وہم، عقل، حفظ) اور اس کی قدر وقیمت پر غور کرو، کہ اگر قوت حفظ انسان سے سلب ہوجائے، تو اس کی کیا حالت ہوجائے،بہت سے نقصانات اس کے أمر معاش اور اس کے تجربات میں مشاہدہ کئے جائیں گے، کہ وہ اُن چیزوں کو بھلا دیتا جس میں اس کا فائدہ یا نقصان ہے یا پھر وہ نہ جانتا کہ اس نے کیا دیکھا کیا سنا اُس نے کیا کہا اس کے بارے میں کیا کہا گیا کس نے اُس کے ساتھ نیکی کی اور کس نے بدی کی اور وہ اچھی بری چیز کو بھی نہ جانتا ایک مدت تک راستہ پر آمدو رفت کے باوجود اُسے نہ پہچانتا۔ عرصہ دراز تک تحصیل علم کے باوجود کسی بھی چیز کو حفظ نہیں کرسکتا تھا۔ ایسی صورت میں نہ اُسے کوئی قرض دیتا۔ اور نہ وہ لوگوں کے تجربوں سے فائدہ اٹھا سکتا تھا گویا گذشتہ کسی بھی حقیقت سے عبرت حاصل نہیں کرسکتا تھا۔ درحقیقت وہ دائرہ انسانیت ہی سے خارج ہوجاتا۔

( حفظ و نسیان نعمت خداوندی ہیں )

اے مفضل ، غور کرو کہ انسان کو کتنی عظیم نعمتیں عطا کی گئی ہیں کہ اُن میں سے ہر ایک کی قدر و قیمت دوسرے کے مقابلے میں عظیم ہے ، اب ذرا دیکھو کہ اگر انسان کے لئے قوت نسیان نہ ہوتی تو کوئی شخص بھی اپنی مصیبت سے کبھی فارغ نہ ہوتا اور اس کی حسرت کبھی ختم نہ ہوتی اور نہ ہی کبھی کینہ و عداوت دور ہوتی ، گویا دنیا کی کسی بھی نعمت سے بہرہ مند نہ ہوتا اس لئے اس کی مصیبتیں اور آفتیں مسلسل اس کے

۷۰

سامنے رہتیں ، اور نہ وہ کبھی بادشاہ سے بھولنے کی امید رکھتا اور نہ کسی حاسد سے حسد کے ختم ہوجانے کی کیا تم نہیں دیکھتے کہ کس طرح خداوند عالم نے انسان کے اندر حفظ و نسیان کو رکھا ہے، اگرچہ یہ دو متضاد چیزیں ہیں لیکن ہر ایک کے اندر انسان کیلئے بھلائی ہے اور وہ لوگ جو ان متضاد چیزوں کی تقسیم بندی کرتے ہیں ، کس طرح وہ انہیں دو خالق کی طرف نسبت دیتے ہیں ، حالانکہ ان دو متضاد چیزوں کے جمع ہونے ہی میں انسان کی بھلائی ہے۔

( انسان کے لئے حیاء کا تحفہ )

اے مفضل ، ذرا غور کرو، اس چیز پر کے جسے خداوند عالم نے اپنی تمام مخلوق میں فقط انسان کے لئے مخصوص کیا ہے، کہ جس کی وجہ سے انسان کی فضیلت تمام مخلوق پر عظیم و اعلیٰ ہے اور وہ چیز حیاء ہے، اس لئے کہ اگر حیاء نہ ہوتی تو نہ مہمان نوازی ہوتی، نہ کوئی وعدہ وفا ہوتا، اور نہ کوئی حاجت پوری ہوتی، گویا کام بہتر طور پر انجام نہ دیئے جاتے، اور نہ ہی کوئی برے کاموں سے بچتا بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ یوں کہوں کہ بعض واجب کام بھی حیاء ہی کی بدولت انجام پاتے ہیں۔ جن کے پاس حیاء نہیں ہوتی نہ تو وہ اپنے والدین کے حق کا خیال رکھتے ہیں اور نہ صلہ رحمی سے کام لیتے ہیں، نہ وہ امانت کو ادا کرتے ہیں، اور نہ ہی برے کاموں سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ کس طرح اُن تمام صفتوں کو انسان کے اندر جمع کیا گیا ہے کہ جس میں اس کی اور اس کے تمام کاموں کی بھلائی ہے۔

۷۱

( قوت نطق اور کتابت فقط انسان کیلئے ہے )

اے مفضل۔ اس نعمت نطق پر بھی غور کرو، جو خداوند عزوجل نے انسان کو عطا کی، جس کے وسیلے سے انسان اپنے مافی الضمیراور جو کچھ دل میں ہے گزرتا ہے اُس کا اظہار کرتا ہے اور اپنی فکر کو دوسروں تک پہنچاتا ہے اگر قوت نطق نہ ہوتی تو انسان بھی چوپاؤں کی طرح مہمل ہو کر رہ جاتا، نہ اپنی بات کسی کو سمجھا سکتا تھا، اور نہ کسی دوسرے کی سمجھ سکتا تھا، اور اسی طرح ایک نعمت خداوندی کتابت ہے جس کے وسیلہ سے گذشتہ لوگوں کی خبریں حاضرین اور حاضرین کی خبریں آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علم و أدب کی کتابیں ابھی تک باقی ہیں اسی کے وسیلہ سے انسان ایک دوسرے کے درمیان معاملات و حساب کو محفوظ کرتے ہیں اگر کتابت نہ ہوتی تو ایک زمانے کی باتیں یا خبریں دوسرے زمانے کے لئے اور اسی طرح وطن سے دور لوگوں کی خبریں اہل وطن سے پوشیدہ ہوکر رہ جاتیں۔ علوم وآداب وغیرہ بھی سب ضائع ہوجاتے، خلاصہ یہ کہ لوگوں کے امور و معاملات میں ایک بہت بڑا خلل واقع ہوتا اور وہ ان چیزوں سے خالی ہوتے کہ جن کی انہیں دینی امور میں انہیں ضرورت پڑتی ، اور جو کچھ ان کے لئے روایت کی جاتی یہ اُس سے بے خبر ہوتے۔ شاید تم گمان کرو کہ نطق وکتابت وہ چیزیں ہیں جو حیلہ و ہوشیاری سے حاصل کی گئی ہیں اور انہیں خلقت اور طبیعت انسان میں عطا نہیں کیا گیا اور اسی طرح کلام کہ جسے لوگوں نے خود ایک دوسرے کے درمیان ایجاد کیا ہے ، اسی لئے بات چیت کرتے وقت قوموں اور ملتوں کے درمیان فرق پایا جاتا ہے، اور اسی طرح کتابت میں بھی جیسے عربی، سریانی ، عبرانی، رومی اور دوسری مختلف کتابت کہ جن میں ملتوں کے درمیان کلام کی طرح اختلاف پایا جاتا ہے ، جنہیں خود ان ملتوں نے ایجاد کیا ہے ، اب ایسے شخص کے بارے میں کیا کہا جائے، جو اس بات کا مدعی ہو، یہ صحیح ہے کہ انسان کے ان کاموں میں اس کی فعالیت وحیلہ کا دخل

۷۲

ہے، لیکن وہ چیز کہ جس کے تحت یہ فعالیت و حیلہ کارگر ہیں، وہ خود خدا کا ایک عطیہ و تحفہ ہے کہ جو خدا نے انسان کو اس کی خلقت میں عطا کیا ہے، اس لئے کہ اگر کلام کرنے کے لئے زبان اور امور کی ہدایت کے لئے ذہن نہ ہوتا تو انسان کبھی بھی کلام نہیں کرسکتا تھا ، اور اسی طرح اگر لکھنے کے لئے ہتھیلی و انگلیاں نہ ہوتیں تو وہ کبھی بھی کتابت میں کامیاب نہ ہوتا، پس ان حیوانات سے عبرت حاصل کرو کہ جنہیں اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ نہ وہ بولنا جانتے ہیں اور نہ لکھنا خداوند عالم کا یہ اپنے بندوں پر خاص احسان ہے، اب جو اس کا شکر ادا کریگا اُسے اس کا اجر و ثواب عطا کریگا ، اور جو کفر اختیار کریگا تو خدا غنی اور بے نیاز ہے۔

( وہ علوم جوانسانوں کو عطا کئے۔ اور وہ علوم جو عطا نہ کئے دونوں میں ان کی بھلائی ہے )

اے مفضل فکر کرو، اس علم پر جو خداوند عالم نے انسان کو عطا کیا اور وہ علم جو اُسے عطا نہ کیا ، خداوند عالم نے وہ تمام علوم اپنے بندوں کو عطا کئے جن میں اس کے دین و دنیا دونوں کی بھلائی ہے اور وہ علم جس میں اس کے دین کی بھلائی ہے ، وہ خدا وند عالم کی معرفت اُن شواہد و دلائل کے ساتھ ہے جو خلقت میں مشاہدہ کئے جاتے ہیں، اور وہ علم کہ جن کا جاننا اس کے لئے واجب ہے۔جیسے لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کو قائم کرنا، والدین کے ساتھ نیکی کرنا، امانتوں کو ادا کرنا، نیاز مندوں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنا اور اس قسم کے دوسرے کام جن کی معرفت ہر اُمت کو فطری اور طبیعی طور پر عطا کی گئی ہے ، چاہے وہ اس کے مطابق عمل کرے یا نہ کرے اور اسی طرح تمام وہ علوم کہ جس میں اس کی دنیا کی بھلائی ہے ، جیسے زراعت ، درخت کاری، کنویں کھودنا، جانور کا پالنا، پانی تلاش کرنا، دواؤں کا جاننا ( جن کے ذریعہ بہت سے مرض دور ہوتے ہیں) معادن کا تلاش کرنا ،کہ جس کے ذریعہ مختلف جواہر حاصل ہوتے ہیں، کشتی پر سواری کرنا، دریاؤں میں غوطہ لگانا (اس کے علاوہ) وحشی جانوروں،

۷۳

پرندوں اور مچھلیوں کے شکار کے لئے مختلف حیلوں اور چالاکیوں کا علم ، مختلف قسم کی صنعت و تجارت کا علم اور اس کے علاوہ دوسری ایسی چیزوں کا علم کہ جن کی تشریح اور وضاحت کی فہرست طویل اور تعداد بہت زیادہ ہے، جس میں اس کے لئے بھلائی اور نفع ہے۔ اور ان کے علاوہ دوسرے علوم کے جاننے کو انہیں منع کیا وہ انہیں نہ جانیں اس لئے کہ وہ ان کی طاقت نہیں رکھتے۔ مثلاً ، علم غیب، اور جو کچھ مستقبل میں ہوگا اور جو کچھ آسمان کے اوپر اور زمین کے نیچے ہے جو کچھ دریا کہ تہہ میں ہے اور جو کچھ عالم کے چاروں گوشوں میں ہے اور جو کچھ لوگوں کے دل میں گزرتا ہے اور کچھ رحم مادر میں ہے، اور اس قسم کی بہت سی چیزیں کہ جو انسان سے پوشیدہ ہیں کبھی بہت سے لوگ ان چیزوں کے جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کا دعویٰ جلد ہی ان تمام چیزوں کے بارے میں باطل ہوکر رہ جاتا ہے، اور ان کی خطا آشکار ہوجاتی ہے ، ذرا غور کرو کہ کس طرح سے انسان کو ان چیزوں کا علم عطا کیا گیا، کہ جن میں اس کے دین اور دنیا دونوں کی بقاء ہے اور اس کے علاوہ باقی علوم کو اس پوشیدہ رکھا گیا، تاکہ وہ ان کی قدر و قیمت جان لے اورسمجھ لے کہ جو کچھ خدا نے اُسے علم عطا کیا اور جو علم عطا نہیں کیا ہر دو میں اس کی بھلائی ہے۔

( انسان سے کیوں اس کی عمر حیات کو پوشیدہ رکھا؟ )

اے مفضل۔ اب ان چیزوں میں غور کرو کہ جن کا علم خدا نے اپنے بندوں سے پوشیدہ رکھا ۔ جیسے اس کی زندگی کا علم اگر وہ اپنی زندگی کے مدت کو جان لیتا اور اس کی عمر حیات تھوڑی ہوتی ، تو ایسے میں اس کے لئے زندگی گزارنا ناخوش گوار ثابت ہوتا، بلکہ یہ آدمی اُس شخص کی مانند ہوتا کہ جس کا مال اس کے ہاتھ سے چلا گیا ہو، یا نزدیک ہو کہ چلا جائے کہ وہ مال کے چلے جانے سے فقر کی تنگی سے خوفزدہ ہے، اور عمر کے ختم ہو جانے کا خوف تو اُس خوف سے بھی کہیں زیادہ ہے اس لئے کہ مال کے چلے جانے پر وہ یہ سوچتا ہے کہ وہ دوبارہ مل ہوجائے گا، اور خود کو اس کے لئے تیار کرتا ہے لیکن اگر کسی کو اپنی

۷۴

موت کا یقین ہوجائے تو نا اُمیدی اُس پر پوری طرح غالب ہوجاتی ہے اور اگر اس کی عمر حیات طویل ہوتی اور وہ اس بات کو جان لیتا تو پھر وہ کمر بستہ طور پر لذتوں اور معصیتوںمیں غوطہ ور ہوجاتا، اور وہ برے کاموں کو تمام عمر اس امر کے ساتھ انجام دیتا کہ جب وہ اپنی خواہشات کو پورا کر لے گا، تو توبہ کرلے گایہ وہ طریقہ ہے کہ جو خداوند عالم اپنے بندوں سے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرتا اور نہ وہ اس پر راضی ہوتا ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر تمہارا کوئی غلام ہو اور وہ سال بھر تمہاری نافرمانی کرے ، اور تمہارا کوئی کام اور کسی بھی قسم کی خدمت انجام نہ دے، اور پھر ایک دن یا ایک ماہ وہ تمہیں راضی کرنے میں لگادے تو تم اُسے ہرگز قبول نہ کروگے، اور وہ تمہارے لئے ایک بہترین غلام ثابت نہ ہوگا، سوائے اس کے کہ یہ غلام تمہارے ہر أمر پر سرتسلیم خم کرے اور ہمیشہ تمہارا خیرخواہ ہو، اور اگر تم کہو کہ کیا ایسا نہیں ہوتا کہ کبھی انسان ایک مدت تک معصیت میں مبتلا رہتا ہے، اور پھر توبہ کرتا ہے اور اس کی توبہ قبول ہوجاتی ہے ، تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ ایسا اُس صورت میں ہوتا ہے جبکہ انسان پر شہوت کا غلبہ ہو اور وہ اپنی خواہشات پر قابو نہ پاسکے اور وہ اس کام کو پہلے سے بجالانے کا قصد و ارادہ بھی نہیں رکھتا ہو، تو ایسی صورت میں خداوند، اس سے درگذر کرتاہے اور ا س کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور اس پر اپنا فضل و کرم کرتا ہے، لیکن اگر کوئی اس بات کا ارادہ کرے کہ معصیت کو انجام دیتا رہے، اور بعد میں توبہ کرلے گا تو وہ ایسی ذات کو دھوکہ و فریب دینا چاہتا ہے ، جو کسی کے دھوکے اور فریب میں آنے والی نہیں ، کہ وہ پہلے معصیتوں سے لذت حاصل کرتارہے اور بعد میں توبہ کرنے کے وعدے کرتا رہے کہ ایسے میں وہ کبھی بھی اپنے اس وعدے کو وفا نہیں کر سکتا، اس لئے کہ لذتوں اور خوشگوار زندگی سے ہاتھ اٹھانا اور توبہ کرنا وہ بھی اس ضعیفی اور کمزوری کے عالم میں خاصہ مشکل ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ وہ توبہ کے لئے آج و کل کرتا ہوا موت کے منہ تک پہنچ جائے اور بغیر توبہ کئے ہوئے اس دنیا سے کوچ کرجائے جس طرح سے کوئی مقروض جو ایک وقت میں قرض ادا کرنے پر قادر ہوجاتا ہے ، لیکن قرض

۷۵

واپس دینے سے گریز کرتا ہے ، یہاں تک کہ اس کا تمام مال خرچ ہوجاتا ہے اور قرض اس کی گردن پر اُسی طرح باقی رہ جاتا ہے، پس اس لئے انسان کے لئے یہ بہتر ہے کہ اس کی عمر حیات اس ے پوشیدہ رہے ، تاکہ ساری زندگی موت کی فکر میں رہ کر معصیتوں کو چھوڑ دے اور نیک کام انجام دے ، اب اگر تم یہ کہو کہ جبکہ خداوند عالم نے انسان کی عمر حیات کو اس سے پوشیدہ رکھا اور انسان ہمیشہ اس کے انتظار میں ہے اس کے باوجود وہ برے کاموں کو انجام دیتا ہے، اور خدا کی حدود کا خیال نہیں کرتا تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ اس میں تدبیر وہی ہے جو بیان کی گئی ہے بالآخر اگر انسان اس کے باوجود بھی گناہوں سے دوری اختیار نہیں کرتا تو یہ اس کے دل کی قساوت کا نتیجہ ہے تو ایسی صورت میں برائی طبیب کے لئے نہیں بلکہ مریض کے لئے ہے ، اس لئے کہ اس نے طبیب کی نافرمانی کی ہے اور جب انسان موت کے انتظار میں رہ کر گناہوں سے دوری نہیں کرتا ، تواگر اُسے اپنی طول زندگی کا پتہ چل جاتا اور مطمئن ہو جاتا تو پھر وہ اس سے بھی کہیں زیادہ گناہوں کا مرتکب ہوتا ، پس اس بات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انتظار موت ہر حال میں بہتر ہے اور اگر کچھ لوگ موت سے غافل ہیں اور اُس سے نصیحت حاصل نہیں کرتے تو مسلم طور پر دوسرے لوگ اس سے ضرور نصیحت حاصل کرتے ہیں اور گناہوں سے دوری اختیار کرتے ہیں ، اور اعمال صالح انجام دیتے ہیں ، فقراء و مساکین کی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لئے بہترین چیزیں اور مختلف حیوانات کو ان کے لئے صدقہ کرتے ہیں ، لہٰذا یہ بات خلاف عدل ہے کہ اُن لوگوں کی خاطر جو انتظار موت سے فائدہ نہیں اٹھاتے اُن لوگوں کو بھی اس أمر سے محروم کردیا جائے جو اسی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

۷۶

( خواب میں حسن تدبیر )

اے مفضل۔ فکر کرو خواب پر کہ اس میں کیا تدبیر کار فرما ہے سچ ، جھوٹ میں ملا ہوا ہے اگر سب خواب سچے ہوتے تو تمام لوگ انبیاء ہوجاتے ، اور اگر سب کے سب خواب جھوٹے ہوتے تو خواب کے وجود سے کوئی فائدہ نہ ہوتا، اور وہ ایک زائد و بے معنی چیز ہو کر رہ جاتی، کبھی وہ سچے ہوتے ہیں کہ لوگ ان سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اور اس کے وسیلے سے ہدایت پاتے ہیں، یا بعض خواب ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے وسیلے سے انہیں خبر دار کیا جاتا ہے زیادہ تر خواب جھوٹے ہوتے ہیں تاکہ لوگ اس پر اعتقاد ِ کامل نہ رکھیں۔

( جہان میں تمام چیزیں انسان کی احتیاج و ضرورت کے مطابق ہیں )

اے مفضل۔ فکر کرو ان تمام چیزوں پر جو عالم میں موجود و مہیا ہیں، مٹی تعمیرات کے لئے ، لوہا صنعت کے لئے، لکڑ ی کشتی وغیرہ کے لئے، پتھر چکی وغیرہ کے لئے، پیتل برتن کے لئے، سونا و چاندی معاملات و ذخیرہ کے لئے ، دالیں غذا کے لئے، پھل لذت حاصل کرنے کے لئے،گوشت کھانے کے لئے، عطر خوشبو کے لئے، دوائیں مریض کی شفا کے لئے، چوپائے باربرداری کے لئے، سوکھی لکڑیاں جلانے کے لئے، خاکستر کلس(1) کے لئے، شن زمین کے لئے ، اور اس قسم کی بے انتہا چیزیں کہ جنہیں شمار کرنے والا اگر شمار کرنا چاہے تو ہرگز شمار نہیں کرسکتا، کیا تم نے دیکھا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک گھر میں داخل ہو جس میں وہ تمام چیزیں جو انسان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہیں، آمادہ و ذخیرہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سنہری کلخی کہ جو گنبد کے نوک پر لگائی جاتی ہے۔

۷۷

ہوں، تو کیا وہ اس بات کو تسلیم کرسکتا ہے، کہ یہ سب چیزیں محض اتفاق کا نتیجہ ہیں، اور بغیر قصد و ارادہ کے وجود میں آئی ہیں۔ لہٰذا کس طرح اُس شخص کو اس عالم اور بیان شدہ أشیاء کے بارے میں یہ اجازت دی جائے کہ وہ انہیں محض اتفاق کا نتیجہ کہے۔

اے مفضل ۔ عبرت حاصل کرو کس طرح چیزوں کو انسان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بنایا گیا ہے، اور کس قسم کی تدبیر اُس میں رواں دواں ہے کہ اس نے دانے کو پیدا کیا کہ وہ انسان کے لئے غذا ہو۔ اور اس نے انسان کو اس بات کا ذمہ دار بنایا کہ وہ اس کا آٹا بنائے، آٹے کا خمیر بنائے اور پھر اسے پکا کر روٹی بنائے، اُون کو لباس کے لئے خلق کیا اور انسان کو اس بات کا ذمہ دار بنایا کہ وہ اس سے دھاگہ حاصل کرکے اسے سلائی اور کڑھائی کے استعمال میں لائے۔ درختوں کو انسان کے لئے پیدا کیا گیا ان کے اُگانے اور ان کی آبیاری و دیکھ بھال کے لئے انسان کو ذمہ دار ٹھہرایا ۔ دواؤں کو مریض کی شفا کے لئے خلق کیا گیا کہ مریض انہیں استعمال میں لاکر تندرستی حاصل کرے اور ان کے ملانے، اور بنانے پر انسان کو ذمہ دار بنایا، اور اس طرح کی دوسری وہ تمام چیزیں جنہیں تم دیکھتے ہو۔

ذرا غور کرو کس طرح بعض چیزوں کو مہیا کیا گیا ہے ، کہ جن کے اندر انسان کی فعالیت کا دخل نہیں ہے جبکہ بعض چیزوں میں انسان کے لئے فعالیت اور عمل کو رکھا ہے اس لئے کہ اسی میں انسان کی بھلائی ہے اگر تمام کام انسان کے لئے آمادہ ہوتے اور کوئی شغل باقی نہ رہتا تو انسان باغی ہوجاتا اور زمین اسے برداشت نہ کرتی، اس لئے کہ وہ زمین پر اس طرح کے کام انجام دیتا کہ خود اس کی زندگی خطرہ میں پڑ جاتی ، اس کے علاوہ یہ کہ انسان کی زندگی خوشگوار اور لذت بخش نہ ہوتی۔ مگر کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص کسی کے گھر مہمان کے طور پر جائے اور ایک مد ت تک وہ اس کے گھر قیام کرے اور جس چیز کی اُسے ضرورت ہو، مثلاً کھانے، پینے ، نوکر وغیرہ کی وہ سب اس کے لئے حاضر ہوں تو وہ اپنی فراغت کی

۷۸

وجہ سے تنگ آجاتا ہے اور اس کا نفس اسے اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کسی نہ کسی کام میں مشغول رکھے تو پھر کس طرح اس کی زندگی گزرتی جبکہ ساری زندگی اُسکی فراغت پر مشتمل ہوتی کہ تمام کام اس کے لئے آمادہ ہوتے، اور وہ کسی بھی چیز کا محتاج نہ ہوتا ، یہ حسن تدبیر ہے کہ جن چیزوں کو انسان کے لئے پیدا کیا گیا ہے اُن میں اُس کے لئے فعالیت و عمل کو رکھا گیا ہے ، تاکہ اس کی فراغت اس کی سستی و کاہلی کا باعث نہ بنے اور ان کاموں میں مشغول رہنا اسے اُن کاموں کے انجام دینے سے بچاتا ہے کہ جن کے انجام دینے پر نہ وہ قادر ہے اور نہ ان میں اس کا کوئی فائدہ ہے ۔

( انسان کا اصلی معاش روٹی اور پانی )

اے مفضل۔ جان لو کہ انسان کا اصلی معاش روٹی اور پانی ہے ، ذرا غور کرو کہ ان میں کس طرح تدبیر استعمال ہوئی ہے۔ یہ بات تو مسلم ہے کہ انسان روٹی سے زیادہ پانی کا محتاج ہوتا ہے اور بھوک پر صبر پیاس پر صبر سے زیادہ کرسکتا ہے، اور جن چیزوں میں انسان پانی کا محتاج ہوتا ہے وہ روٹی کی احتیاج سے کہیں زیادہ ہیں اس لئے کہ پانی پینے، وضو کرنے، غسل کرنے ، لباس دھونے ، چوپاؤں اور کھیتی کو سیراب کرنے اور اس قسم کی بہت سی ضروریات کے استعمال میں آتا ہے اسی وجہ سے پانی فراوان ہے اور خریدا نہیں جاتا ، تاکہ طلب آب کی زحمتیں انسان سے ساقط ہوجائیں، لیکن روٹی کو مشقت میں رکھا کہ وہ اسے اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتا جب تک کہ چارہ اندیشی اور فعالیت سے کام نہ لے، اس لئے کہ انسان کے لئے کوئی شغل ہو کہ جو اسے فراغت ، بیکاری ، فالتو اور بے ہودہ کاموں سے بچائے رکھے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ بچہ ادب سیکھنے سے پہلے ہی معلم کے سپرد کردیا جاتا ہے، باوجود اس کے کہ وہ ابھی بچہ ہے اور ابھی اس کی قوت فہم اور ادراک تعلیم کے لئے کامل نہیں ، ایسا اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ وہ بیہودہ اور فضول کاموں سے محفوظ رہے، اور زیادہ کھیل کود اور بیکار کاموں

۷۹

سے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو زحمت میں نہ ڈالے ، اسی طرح اگر انسان کے پاس کوئی شغل نہ ہوتا تو وہ شرارت اور بیہودہ کاموں کی طرف کھینچا چلا جاتا اور تم اس مطلب کو اس شخص کی زندگی سے درک کرسکتے ہو جو امیرانہ اور خوشگوار زندگی بسر کرتا ہوکہ کس قسم کے کام اُس سے صادر ہوتے ہیں۔

( انسان کا ایک دوسرے سے شبیہ نہ ہونا حکمت سے خالی نہیں )

اے مفضل۔ عبرت حاصل کرو اس سے کہ انسان ایک دوسرے کے مشابہ نہیں جس طرح سے پرندے اور جانور آپس میں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں کہ ہرنوں اور پرندوں کو ایک دوسرے سے پہچانا نہیں جا سکتا، لیکن اگر تم انسانوں کو دیکھو تو وہ شکل و صورت اور خلقت میں مختلف ہیں۔ یہاں تک کہ تم دو آدمیوں کو بھی ایک جیسا نہیں پاؤگے، اس لئے کہ انسان اپنی زندگی میں جسمانی اور صفات کے اعتبار سے پہچانے جانے کا محتاج ہے۔ اس لئے کہ ان کے درمیان معاملات طے ہوتے ہیں لیکن حیوانات کے درمیان کسی بھی قسم کے معاملات طے نہیں ہوتے کہ جس کی وجہ سے وہ پہچانے جانے کے محتاج ہوں، اور کیا تم نہیں دیکھتے کہ پرندوں کا ایک دوسرے سے شبیہ ہونا ان کے لئے کسی قسم کے ضرر کا باعث نہیں بنتا ، لیکن انسان ہرگز اس طرح نہیں ہے۔اس لئے کہ اگر دو آدمی ایک دوسرے کی شبیہ ہوں تو لوگوں کے لئے زحمت کا باعث بن جاتے ہیں، لہٰذا معاملات میں ایک کو دوسرے کے بدلے لے لیا جاتا ہے، اور ایک کو دوسرے کے بدلے میں بے گناہ گرفتار کرلیتے ہیں اور کبھی یہ شباہت دوسرے کاموں میں بھی مداخلت کا باعث بنتی ہے وہ کون ہے؟ جس نے صحیح راہ کی تشخیص کے لیے اپنے بندوں پر لطف کیا اور ایسے لطیف کام انجام دیئے جہاں تک انسان کی رسائی ممکن نہیں ہے سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ جس کی رحمت تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے، اگر تم ایک تصویر کو دیوار پر نقش دیکھو اور کوئی تم سے کہے کہ اس تصویر کا کوئی بنانے والا نہیں ہے بلکہ خود بخود وجود میں آئی ہے تو کیا تم

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175