توحید مفضل

توحید مفضل33%

توحید مفضل مؤلف:
زمرہ جات: توحید
صفحے: 175

توحید مفضل
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 175 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130817 / ڈاؤنلوڈ: 6111
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

جن کے بارے میں لوگ اطلاع نہیں رکھتے، وہ کون ہے؟ جس نے معدہ کو محکم اعصاب سے مجہز کیا، اور اسے سخت غذا کے ہضم کرنے کے قابل بنایا ، وہ کون ہے؟ جس نے جگر کی بناوٹ ، نازک اور باریک نالیوں سے انجام دی تاکہ صاف اور لطیف غذا کو ایک خاص انداز سے خون میں تبدیل کرے، اور معدہ سے زیادہ نازک و لطیف کام انجام دے ، سوائے اُس خداوند متعال کے اور کوئی نہیں کہ جو قادر اور قوی ہے، کیا تم اس بات کو کہہ سکتے ہو کہ محض اتفاقات نے ان میں سے کسی ایک کام کو بھی انجام دیا ہے ؟ ہرگز نہیں، بلکہ یہ تمام کام اُس مدبر کی حکمت و تدبیر کے تحت ہیں، جس نے اپنی تدبیر سے انہیں پیدا کیا ،اور کوئی بھی چیز اُسے عاجز نہیں کرتی ، وہ لطیف و آگاہ ہے۔

( اعضاء بدن بغیر علت کے نہیں ہیں )

اے مفضل ذرا غور کرو، آخر کیوں خداوند عالم نے نازک مغز کو محکم و مضبوط ہڈیوں کے درمیان رکھا؟ سوائے اس کے کہ وہ محکم ہڈیاں اُسے محفوظ رکھیں، آخر کیوں خون کو رگوں کے حصار میں قرار دیا، جیسے کہ پانی برتن میں ہو، کیا رگوں کے علاوہ کوئی اور چیز ہے کہ جواُسے جسم میں منتشر ہونے سے بچائے، آخر کیوں؟ ناخنوں کو سر انگشت پر جگہ عطا کی؟ سوائے اس کے کہ وہ انگلیوں کو محفوظ رکھیں اور انگلیوں کے کام کرنے میں ان کی مدد کریں ، آخر کیوں؟ کان کا اندرونی حصہ پیچیدگی صورت اختیار کئے ہوئے ہے؟ سوائے اس کے کہ آواز اس کے ذریعہ وارد ہوکر کان کے اندر ختم ہوجائے (اور کان کے پردے کو کسی بھی قسم کے ضرر کا سامنا کرنا نہ پڑے) کیونکہ اس پیچیدگی ہی کہ وجہ سے ہوا کا زور ٹوٹ جاتا ہے ، اور کان کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، آخر کس مقصد کے تحت ران اور کولھوں کو گوشت کا لباس پہنایا؟ سوائے اس کے کہ زمین پر بیٹھتے وقت انہیں تکلیف کا سامنا کرنا نہ پڑے،اور زمین کی سختی ان پر اثر انداز نہ ہو، جیسا کہ اگر کوئی لاغر و کمزور آدمی زمین پر بیٹھتے وقت اپنے نیچے کوئی چیز نہ رکھے، تو اُسے درد محسوس ہوتا

۶۱

ہے، وہ کون ہے؟ جس نے انسان کو نر و مادہ کی صورت میں پیدا کیا؟ کیا اس کے علاوہ کوئی اور ہے ، جو یہ چاہتا ہے کہ نسل انسانی باقی رہے، کون ہے جس نے انسان کو صاحب نسل قرار دیا ہے، سوائے اس کے کہ جس نے اسے صاحب آرزو خلق کیا، کون ہے جس نے اُسے اپنی حاجت کو پورا کرنے والا بنایا، کون ہے جس نے اُسے حاجت بنایا؟ سوائے اس کے کہ جس نے اس بات کہ ذمہ داری اپنے سر لی، کہ اِسے پورا کریگا، کون ہے، جس نے اُسے کام کاج کے لئے أعضاء و جوارح عطا کئے، کون ہے، جس نے اسے کام کے لئے قدرت و طاقت عطاکی، کون ہے ، جس نے درک و فہم کو فقط اس کے ساتھ مخصوص کیا، کون ہے، جس نے انسان پر شکر کو واجب قرار دیا، کون ہے جس نے اُسے فکر و اندیشہ گری سیکھائی؟ سوائے اس کے کہ جس نے اُسے اُس کی قوت عطاکی، کون ہے جس نے انسان کو قدرت ، طاقت وتوانائی جیسی نعمت سے نوازا؟ کون ہے جس نے انسانوں پر اپنی حجت تمام کی، کہ جو ناچارگی و بے کسی کے عالم میں کفایت أمر کرتاہے، کون ہے، کہ جس کا جتنا شکر ادا کیا جائے ، ادا نہیں ہوتا،اے مفضل ذارا غور کرو، کہ کیا تم اس بیان شدہ نظام میں اتفاقات کا مشاہدہ کرتے ہو؟ خداوند متعال بلند و برتر ہے، ان تمام افکار سے جو کم ذہنیت کے لوگ اس کے بارے میں رکھتے ہیں۔

( دل کا نظام )

اے مفضل ، اب میں تمہارے لئے دل کی تعریف بیان کرتا ہوں ، جان لو کہ دل میں ایک سوراخ ہے جو اُس سوراخ کے سامنے ہے جو پھیپھڑوں میں مشاہدہ کیا جاتا ے، جس کے وسیلہ سے دل کو ہوا اور سکون ملتا ہے، اگر یہ سوراخ ایک دوسرے سے دو ر یا جابجا ہوجائیں اور دل تک ہوا نے پہنچے تو انسان ہلاک ہوجائے، کیا کسی صاحب عقل کے لئے یہ کہنا زیب دیتا ہے کہ یہ عمل محض اتفاق کا نتیجہ ہے ، اس کے باوجود کہ وہ ایسے شواہد کا مشاہدہ کرتا ہے ، کہ جو اسے اس گفتار سے روکتے ہیں، اگر تم دو

۶۲

دروازوں میں سے ایک کو دیکھو کہ اُس میں کُنڈی لٹکی ہوئی ہے ، تو کیا تم یہ کہو گے کہ اس کے بنانے والے نے اسے بے فائدہ اور بے مقصد بنایا ہے، ہرگز نہیں ، بلکہ تم سوچوگے کہ یہ دروازے آپس میں ملنے کے لئے ہیں ، اور یہ کنڈی ہے کہ جو انہیں ملانے کا کام انجام دیتی ہے ، اور ان کے ملنے ہی میں مصلحت ہے، تو بس تم حیوانات میں نر کو بھی اسی طرح پاؤگے کہ اسے ایک ایسا ہی آلہ عطا کیا گیا ہے ، تاکہ وہ اپنی مادہ کے ساتھ نزدیکی کرے کہ جس میں اس کی نسل کی بقاء ہے، اب ان فلسفیوں پر نفرین کی جائے کہ جن کے دل سیاہ ہوچکے ہیں ، کہ وہ اس عجیب و غریب خلقت میں تدبیر و ارادہ کا انکار کرتے ہیں، اگر مرد کا آلہ تناسل ہمیشہ آویزاں ہوتا، تو کس طرح نطفہ رحم تک پہنچتا، اور اگر ہر وقت کھڑا ہوتا ، تو کس طرح سے بستر پر کروٹ لے سکتا تھا، اور اس حالت میں وہ کس طرح سے لوگوں کے درمیا ن راہ چلتا، اس کے علاوہ اگر ایسا ہوتا تو یہ منظر قباحت پر مشتمل ہوتا، اور مرد وزن کی شہوت کو ہر وقت متحرک کرتا، لہٰذا خداوند متعال نے اُسے اس طرح قرار دیا کہ وہ اکثر اوقات مردوں کی نگاہ سے پوشیدہ رہے، اور ان کے لئے زحمت ومشقت کا باعث نہ ہو، لیکن اس میں ایک ایسی قوت عطا کی کہ ضرورت کے وقت کھڑا ہوجائے، اس لئے کہ اس میں بقاء نسل پوشیدہ ہے۔

( مقام مخرج )

اے مفضل، اب ذرا غور کرو،بڑی نعمتوں میں سے کھانے، پینے اور فضلات کے بدن سے بآسانی خارج ہونے پر، مگر کیا مقام مخرج کی بناوٹ وساخت کے لئے اس سے بہتر کوئی طریقہ تھا کہ اُسے پوشیدہ ترین اور مخفی جگہ پر قرار دیا جائے، کہ جو نہ انسان کی پشت پر ہو اور نہ آگے لٹکی ہوئی، بلکہ اُسے ایسی پوشیدہ اور مناسب جگہ قرار دیا ، جسے رانوں اور کولھوں کاگوشت چھپائے ہوئے ہے، اور جب انسان خلاء کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور ایک خاص انداز میں بیٹھتا ہے تو اس کی جائے مخرج مہیا ہے ، اور ہمیشہ فضولات کا رخ نیچے کی طرف ہے، کس قدر مبارک ہے وہ ذات جس کی نعمتیں مسلسل اور بے شمار ہیں۔

۶۳

( دندان کی وضعیّت )

اے مفضل، فکر کرو، اُن دانتوں پر جو غذا کو پیستے اور ٹکڑے ٹکڑے کردیتے ہیں، کہ جنہیں خدا وند متعال نے انسانوں کی سہولت کے لئے پیدا کیاہے، اُن میں سے بعض تیز اور نوکیلے ہیں، جو غذا کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ اور بعض پھیلے ہوئے ہیں کہ جو غذا کو چبانے اور نرم بنانے کا کام انجام دیتے ہیں، یہ صفت اُن میں تاحد ضرورت موجود ہے۔

( بالوں اور ناخنوں میں حسن تدبیر )

اے مفضل ، بالوں اور ناخنوں کے حسن صناعت پر غور کرو، یہ مسلسل بڑھتے ہیں، اور انسان انہیں تراشنے پر مجبور ہوتا ہے، لہٰذا انہیں بے حس قرار دیا گیا ہے ، تاکہ ان کے تراشنے سے انسان کو درد کا سامنا کرنا نہ پڑے، اگر ان کے تراشنے سے انسان درد کا احساس کرتا تو اس کی زندگی مشکلات سے دوچار ہوجاتی اور اگر درد کی وجہ سے انہیں نہ تراشتا اور بڑھتا ہوا چھوڑ دیتا تو ایسی صورت میں یہ اس کے لئے باعث زحمت و مشقت بنتے، یا پھر یہ کہ انسان درد کو برداشت کرے۔

مفضل کا بیان ہے میں نے عرض کی اے میرے آقا و مولا، ان کی خلقت اس طرح کیوں نہیں ہوئی کہ یہ بڑے ہی نہ ہوں، اور انسان ان کے تراشنے پر مجبور نہ ہو؟ امام ـنے ارشاد فرمایا: اے مفضل ، خداوند عالم کی اس عظیم نعمت پر شکر کرو کہ جس کی حکمت اس کے بندے نہیں جانتے ، جان لو کہ بدن کے جراثیم و فضلات انہی کے ذریعے جسم سے خارج ہوتے ہیں، لہٰذا انسان کو ہر ہفتے نورہ لگانے، بال کٹوانے، اور ناخن تراشنے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ بال اور ناخن تیزی سے بڑھیں اور ان کے ذریعے

۶۴

انسان کے بدن سے جراثیم اور مختلف فضلات دور ہوں، اگر انہیں تراشا نہ جائے تو ان کے بڑھنے کی رفتار بھی سست پڑ جاتی ہے، جس سے بدن میں جراثیم اور فضلات باقی رہ جاتے ہیں اور انسان مریض ہوجاتا ہے اور اس کے علاوہ دوسرے بھی فائدے ہیں اور بعض ان مقامات پر کہ جہاں بالوں کا اُگنا خلل اور نقصان کا باعث بنتا، وہاں انہیں اُگنے سے روکا گیا ہے (اب ذرا دیکھو کہ ) اگر بال آنکھوں کے اندر اُگتے تو کیا آنکھوں کو اندھا نہیں کردیتے؟ اور اگر منھ میں اُگتے تو کیا کھانے ، پینے وغیرہ کے لئے ناگوار معلوم نہ ہوتے اور اگر ہتھیلی پر اُگتے تو کیا لمس کے لئے مانع نہ ہوتے؟ اور اسی طرح اگر عورت کی شرمگاہ یا مرد کے آلہ تناسل پر بال اگتے تو کیا لذت جماع کو ختم نہ کردیتے، غور کرو کہ کس طرح بال بعض مقامات پر نہیں اُگتے اس لئے کہ اسی میں انسان کی بھلائی ہے، اور یہ أمر فقط انسانوں کے اندر ہی نہیں، بلکہ چوپاؤں اور درندوں میں بھی پایا جاتا ہے جیسا کہ تم اس بات کا مشاہدہ کرتے ہو کہ ان کی تمام جلد تو بالوں سے ڈھکی ہوتی ہے، مگر وہ مقامات کہ جن کا ذکر پہلے بیان کیا جا چکا ہے بالوں سے خالی ہوتے ہیں ، حاصل مطلب یہ کہ ذرا غور کرو کس طرح سے فائدہ اور نقصان کو مدنظر رکھا گیا ہے اور جن چیزوں میں انسان کے لئے فائدہ اور اس کی بھلائی ہے، انہیں فراہم کیا گیا ہے۔

( فرقہ مانویہ کے اعتراضات )

اے مفضل ، وہ تمام کلمات و شبہات جو فرقہ مانویہ خلقت کے بارے میں رکھتا ہے، کہ اس کائنات کے اندر قصد و ارادہ نام کی کوئی چیز نہیں ، مثلاً وہ بغل اور زیرناف بال اُگنے کو بیہودہ اور عبث تصور کرتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ وہ مقامات رطوبت کے جاری ہونے کے لئے ہیں ، لہٰذا اُن مقامات پر بالوں کا اُگنا بالکل اُسی طرح ہے جس طرح نہر اور ندی وغیرہ کے کنارے گھاس وغیرہ اُگتی ہے ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہ مقامات رطوبت کے جاری اور بہنے کے لئے دوسرے تمام مقامات

۶۵

سے زیادہ پوشیدہ اور پنہاں ہیں اور پھر یہ کہ ان کے اُگنے اور کٹوانے کے بعد انسان مرض وغیرہ کی تکلیف میں مبتلا ہونے سے بچ جاتا ہے اور ان ہی کے بدن سے صاف ہونے کہ وجہ سے حرص و کثافت طبیعی طور پر انسان سے دور ہوجاتی ہے اور ان سب کا دور ہونا انسان کو سرکشی ، تجاوز اور فراغت سے بچاتا ہے اور انسان خوش و خرم رہتا ہے۔

( آب دہن خشک ہونے سے انسان کی ہلاکت )

اے مفضل ، آب دہن اور اس کے فوائد پر غور کرو، یہ ہمیشہ منہ میں جاری ہے تاکہ گلے اور خنجرہ کو تر رکھے ، کہ اگر یہ خشک ہوجائے تو انسان کی ہلاک ہوجائے ، اس کے علاوہ کھانا بھی بآسانی نہیں کھا سکتا کیونکہ یہی رطوبت لقمہ کو حرکت دیتی ہے لہٰذا تم مشاہدہ کروگے کہ یہ رطوبت مرکب غذا ہے اور یہی رطوبت ہے جو نلی کی طرف جاری رہتی ہے ، جس میں انسان کی بھلائی ہے کہ اگر یہ رطوبت خشک ہوجائے تو انسان کی ہلاکت یقینی ہے۔

( انسان کا شکم لباس کے مانند کیوں نہ ہوا؟ )

( اے مفضل) بعض جاہل افراد جو اپنے آپ کو اہل کلام کہلواتے ہیںاور کچھ ضعیف فلسفی جو اپنی کم علمی اور اپنی کم دسترسی کی وجہ سے یہ کہتے ہیں کہ شکم انسان، لبا س کی مانند ہونا چاہیے تھا کہ جسے جب بھی طبیب چاہتا کھول کر معائنہ کرتا، اور اپنے ہاتھ کو اندر ڈال کر جس طرح کا معالجہ ممکن ہوتا، انجام دیتا۔ تو کیا یہ اس سے اچھا نہ ہوتا کہ اُسے ایک مستحکم بند کے ذریعہ بند کیا ہوا ہے ؟ کہ وہ ہاتھ و آنکھ کی دسترسی سے بھی دور ہے کہ یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ اس کے اندر کیا ہے، مگر یہ کہ مختلف راہوں ، طریقوں اور

۶۶

تجربوں سے اس کا معائنہ کیا جائے کہ اس کے اندر پیشاب اور اس قسم کی دوسری بیہودہ ، فالتو چیزیں ہیں کہ جو انسان کی ہلاکت کا باعث ہیں؟ اگر یہ جاہل افراد جان لیں کہ وہی ہوتا جو یہ کہتے ہیں ، تو اس کا پہلا نقصان یہ ہوتا کہ انسان سے موت و مرض کا ڈر ساقط و ختم ہوجاتا، اس لئے کہ جب وہ اپنے آپ کو صحیح وسالم دیکھتا ، تو اس عالم میں مغرور ہوجاتا،اور یہ چیز اس کے طغیان اور تجاوز کا سبب بن جاتی، اس کے علاوہ وہ رطوبت جو اس کے شکم میں ہے ، اس کے شکم سے چھلکتی اور یہ مسلسل اُسے پلٹاتا ، اور اس کا لباس اور آلات زینت خراب ہوجاتے، بلکہ یوں کہوں کی کلی طور پر اس کی زندگی آلودہ ہوکر رہ جاتی ، اس کے علاوہ معدہ، جگر ، اور دل اپنے عمل کو اس حرارت کی موجودگی میں انجام دیتے ہیں جو خداوند متعال نے شکم میں رکھی ہے ، اگر شکم انسان میں سوراخ ہوتا کہ آنکھ، اور ہاتھ کے وسیلہ سے اس کا معالجہ کیا جاسکتا، تو ایسی صورت میں سرد ہوا اس کے جسم میں داخل ہوکر حرارت کو ختم کردیتی اور یہ تمام اعضاء دل ، معدہ ، جگر اپنا عمل کرنا چھوڑدیتے اور اس صورت میں انسان کی ہلاکت یقینی ہوجاتی ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ جو چیزیں اوہام سے وجود میں آتی ہیں وہ سب ان کے علاوہ ہیں جو خداوندعالم نے پیدا کی ہیں، اور اوہام سے وجود میں آنے والی چیزیں باطل و خطاہیں۔

اے مفضل، انسانوں کے وجود میں قرار دیئے گئے کاموں کی تدبیر پر غوروفکر کرو ، جیسے کھانا، پینااور جماع کہ یہ تمام انسان کے اندر تحرک پیدا کرتے ہیں جب انسان انہیں انجام دینا چاہتا ہے تو ان کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے، جیسے انسان کا بھوکا ہونا اسے غذا کے طلب کرنے پر مجبور کرتا ہے، جس کے حاصل ہونے سے انسان کے بدن کی نشوونما ہوتی ہے سستی اور اُونگھنا علامت ہے کہ اُسے سونے کی ضرورت ہے۔ جس میں اس کیلئے راحت و آرام پوشیدہ ہے شہوت کا اُبھرنا اُسے جماع کی طرف مائل کرتا ہے ،جو انسان کی بقاء اور دوام نسل کا واضح ثبوت ہے۔اگر انسان فقط ضرورت بدن کے لئے غذا کھاتا، اور کوئی چیز اس کے وجود میں ایسی نہ ہوتی کہ جو اسے غذا کے کھانے پر مجبور کرتی ، تو مسلم طور پر

۶۷

انسان کبھی اپنی سستی و کاہلی کی وجہ سے اس پر توجہ نہ دیتا ، ایسا ہونے سے اس کا بدن تحلیل ہونے لگتا اور آہستہ آہستہ وہ ہلاک ہوجاتا۔ جس طرح سے کبھی دوا کا محتا ج ہوتا ہے جسے کھا کر وہ اپنے بدن کی اصلاح کرے، مگر وہ سستی و کاہلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے لاپروائی کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کا بدن فاسد وضعیف و لاغر ہوجاتا اور یہ بات اس کی ہلاکت کا باعث بنتی ہے ، اسی طرح اگر سونا فقط اس لئے ہوتا کہ اس کے بدن کو راحت و آرام ملے اور اس کی قوت باقی رہے تو وہ اس میں بھی سستی سے کام لیتا، اور سونے سے پرہیز کرتا اور ہلاک ہوجاتا، اسی طرح اگر طلب اولاد کے لئے جماع کرتا ، تو یہ بعید نہ تھا کہ وہ اس میں بھی سستی کرتا، یہاں تک کہ نسل انسان کم ہوجاتی یا یہ کہ بالکل ہی منقطع ہوکر رہ جاتی، اس لئے کہ بعض افراد اولاد کی طرف رغبت نہیں رکھتے اور اولاد کو اہمیت نہیں دیتے ، اب ذرا غور کرو ، ان کاموں پر کہ جن میں انسان کی بھلائی ہے کس طرح ان کے وجود میں تحرک رکھا گیا ہے کہ وہ انسان کے اندر حرکت ایجاد کرتے ہوئے اسے ایسے کاموں کے انجام دینے پر مائل کریں۔

( انسان کے اندر چار حیرت انگیز قوتیں )

اے مفضل ، جان لو کہ بدن انسان میں چار قوتیں ہیں۔

۱۔ قوت جاذبہ : جوکھانے کو قبول کرکے معدہ تک پہنچاتی ہے۔

۲۔ قوت ماسکہ: جو کھانے کو اُس وقت تک محفوظ رکھتی ہے جب تک اس میں طبیعی طور پر عمل شروع نہ ہوجائے۔

۳۔ قوت ہاضمہ : جو غذا کو معدہ کے اندر حل کرتی ہے اور خالص و صاف غذا کو نکال کر بدن کے اندر پھیلاتی ہے۔

۴۔ قوت رافعہ: جب قوت ہاضمہ اپنے عمل کو انجام دے لیتی ہے ، تو یہی قوت رافعہ باقی غذا کو بدن سے باہر نکال دیتی ہے۔

۶۸

پس ان قوتوں کے میزان ، اندازہ ، اور ان کے عمل ،فوائد اور ان کی تدبیر و حکمت پر غور کرو، جوان میں جاری ہے اگر قوت جاذبہ نہ ہوتی، تو کس طرح انسان اُس غذا کی طرف کھینچا چلا جاتا کہ جس میں اس کے بدن کی قوت محفوظ ہے اور اگر قوت ماسکہ نہ ہوتی تو کس طرح غذا بدن انسان میں معدہ کے عمل کے انتظار میں ٹھہری رہتی اگر قوت ہاضمہ نہ ہوتی تو کس طرح غذا حل ہو کر معدہ سے باہر آتی کہ بدن اس سے تغذیہ کرکے اپنی حاجت کو پورا کرے اسی طرح اگر قوت دافعہ نہ ہوتی تو کس طرح بچی ہو ئی غذا تدریجی طور پر جسم سے باہر آتی، کیا تم اس بات کا مشاہدہ نہیں کرتے کہ خداوند عالم نے اپنے لطف و صنعت و حسن تدبیر کے سبب کس طرح ان قوتوں کو محافظ بدن قرار دیا، اور تمام وہ چیزیں جو بدن انسان کے لئے ضروری تھیں انہیں فراہم کیا گیاہے۔ اور اب میں تمہارے لئے مثال بیان کرتا ہوں وہ یہ کہ انسان کا بدن بادشاہ کے محل کی مانند ہے اور اس کے اعضاء اس کے محل کے ملازمین اور کام کرنے والوں کی طرح ہیں ، ان میں کچھ اس محل کی ضروریات پورا کرنے کے لئے اور کچھ محل میں داخل ہونے والی چیزوں کو قبول کرنے کے بعد استعمال میں لانے کے لئے، کچھ اس محل کو منظم و مرتب ، صاف ستھرا اور آلودگیوں سے پاک کرنے کے لئے اور کچھ فضول چیزوں کو محل سے باہر نکالنے کے لئے ہیں۔ اس مثال میں بادشاہ وہی خدائے حکیم ہے جو عالمین کا بادشاہ ہے اور وہ محل بدن انسان ہے اور اس کے افراد اس کے اعضاء ہیں اور جو امور خانہ داری کا کام انجام دیتی ہیں وہ چار قوتیں ہیں ، شاید کہ تم خیال کرو کہ ان چار قوتوں کی دوبارہ یادآوری اور ان کے کام کے بارے میں جو کچھ بیان کیا جا چکاہے ، وہ زائد اور بے مورد ہے حالانکہ ان کے ذکر سے مراد وہ نہیں جو تم اطباء کی کتابوں میں پڑھتے ہو، بلکہ یہاں ہماری گفتگو ان کی گفتگو سے جدا ہے ، اس لئے کے وہ فقط چار قوتوں کے بارے میں بحث طب کے ارتباط اور طبابت کی ضرورت کے لحاظ سے کرتے ہیں ، لیکن ہماری بحث اصلاح دین اور نفوس کو

۶۹

گمراہی اور غلطی سے بچانے کیلئے ہے ، جس طرح سے مثال کے ذریعہ ان کے شافی ہونے پر تفصیلی بحث کرچکا ہوں کہ جس میں ان کی تدبیر و حکمت پر اشارہ کیا گیا ہے۔

( انسان کو قوت نفسانی کی ضرورت )

اے مفضل، انسان کے اندر قوت نفسانی ( فکر، وہم، عقل، حفظ) اور اس کی قدر وقیمت پر غور کرو، کہ اگر قوت حفظ انسان سے سلب ہوجائے، تو اس کی کیا حالت ہوجائے،بہت سے نقصانات اس کے أمر معاش اور اس کے تجربات میں مشاہدہ کئے جائیں گے، کہ وہ اُن چیزوں کو بھلا دیتا جس میں اس کا فائدہ یا نقصان ہے یا پھر وہ نہ جانتا کہ اس نے کیا دیکھا کیا سنا اُس نے کیا کہا اس کے بارے میں کیا کہا گیا کس نے اُس کے ساتھ نیکی کی اور کس نے بدی کی اور وہ اچھی بری چیز کو بھی نہ جانتا ایک مدت تک راستہ پر آمدو رفت کے باوجود اُسے نہ پہچانتا۔ عرصہ دراز تک تحصیل علم کے باوجود کسی بھی چیز کو حفظ نہیں کرسکتا تھا۔ ایسی صورت میں نہ اُسے کوئی قرض دیتا۔ اور نہ وہ لوگوں کے تجربوں سے فائدہ اٹھا سکتا تھا گویا گذشتہ کسی بھی حقیقت سے عبرت حاصل نہیں کرسکتا تھا۔ درحقیقت وہ دائرہ انسانیت ہی سے خارج ہوجاتا۔

( حفظ و نسیان نعمت خداوندی ہیں )

اے مفضل ، غور کرو کہ انسان کو کتنی عظیم نعمتیں عطا کی گئی ہیں کہ اُن میں سے ہر ایک کی قدر و قیمت دوسرے کے مقابلے میں عظیم ہے ، اب ذرا دیکھو کہ اگر انسان کے لئے قوت نسیان نہ ہوتی تو کوئی شخص بھی اپنی مصیبت سے کبھی فارغ نہ ہوتا اور اس کی حسرت کبھی ختم نہ ہوتی اور نہ ہی کبھی کینہ و عداوت دور ہوتی ، گویا دنیا کی کسی بھی نعمت سے بہرہ مند نہ ہوتا اس لئے اس کی مصیبتیں اور آفتیں مسلسل اس کے

۷۰

سامنے رہتیں ، اور نہ وہ کبھی بادشاہ سے بھولنے کی امید رکھتا اور نہ کسی حاسد سے حسد کے ختم ہوجانے کی کیا تم نہیں دیکھتے کہ کس طرح خداوند عالم نے انسان کے اندر حفظ و نسیان کو رکھا ہے، اگرچہ یہ دو متضاد چیزیں ہیں لیکن ہر ایک کے اندر انسان کیلئے بھلائی ہے اور وہ لوگ جو ان متضاد چیزوں کی تقسیم بندی کرتے ہیں ، کس طرح وہ انہیں دو خالق کی طرف نسبت دیتے ہیں ، حالانکہ ان دو متضاد چیزوں کے جمع ہونے ہی میں انسان کی بھلائی ہے۔

( انسان کے لئے حیاء کا تحفہ )

اے مفضل ، ذرا غور کرو، اس چیز پر کے جسے خداوند عالم نے اپنی تمام مخلوق میں فقط انسان کے لئے مخصوص کیا ہے، کہ جس کی وجہ سے انسان کی فضیلت تمام مخلوق پر عظیم و اعلیٰ ہے اور وہ چیز حیاء ہے، اس لئے کہ اگر حیاء نہ ہوتی تو نہ مہمان نوازی ہوتی، نہ کوئی وعدہ وفا ہوتا، اور نہ کوئی حاجت پوری ہوتی، گویا کام بہتر طور پر انجام نہ دیئے جاتے، اور نہ ہی کوئی برے کاموں سے بچتا بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ یوں کہوں کہ بعض واجب کام بھی حیاء ہی کی بدولت انجام پاتے ہیں۔ جن کے پاس حیاء نہیں ہوتی نہ تو وہ اپنے والدین کے حق کا خیال رکھتے ہیں اور نہ صلہ رحمی سے کام لیتے ہیں، نہ وہ امانت کو ادا کرتے ہیں، اور نہ ہی برے کاموں سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ کس طرح اُن تمام صفتوں کو انسان کے اندر جمع کیا گیا ہے کہ جس میں اس کی اور اس کے تمام کاموں کی بھلائی ہے۔

۷۱

( قوت نطق اور کتابت فقط انسان کیلئے ہے )

اے مفضل۔ اس نعمت نطق پر بھی غور کرو، جو خداوند عزوجل نے انسان کو عطا کی، جس کے وسیلے سے انسان اپنے مافی الضمیراور جو کچھ دل میں ہے گزرتا ہے اُس کا اظہار کرتا ہے اور اپنی فکر کو دوسروں تک پہنچاتا ہے اگر قوت نطق نہ ہوتی تو انسان بھی چوپاؤں کی طرح مہمل ہو کر رہ جاتا، نہ اپنی بات کسی کو سمجھا سکتا تھا، اور نہ کسی دوسرے کی سمجھ سکتا تھا، اور اسی طرح ایک نعمت خداوندی کتابت ہے جس کے وسیلہ سے گذشتہ لوگوں کی خبریں حاضرین اور حاضرین کی خبریں آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علم و أدب کی کتابیں ابھی تک باقی ہیں اسی کے وسیلہ سے انسان ایک دوسرے کے درمیان معاملات و حساب کو محفوظ کرتے ہیں اگر کتابت نہ ہوتی تو ایک زمانے کی باتیں یا خبریں دوسرے زمانے کے لئے اور اسی طرح وطن سے دور لوگوں کی خبریں اہل وطن سے پوشیدہ ہوکر رہ جاتیں۔ علوم وآداب وغیرہ بھی سب ضائع ہوجاتے، خلاصہ یہ کہ لوگوں کے امور و معاملات میں ایک بہت بڑا خلل واقع ہوتا اور وہ ان چیزوں سے خالی ہوتے کہ جن کی انہیں دینی امور میں انہیں ضرورت پڑتی ، اور جو کچھ ان کے لئے روایت کی جاتی یہ اُس سے بے خبر ہوتے۔ شاید تم گمان کرو کہ نطق وکتابت وہ چیزیں ہیں جو حیلہ و ہوشیاری سے حاصل کی گئی ہیں اور انہیں خلقت اور طبیعت انسان میں عطا نہیں کیا گیا اور اسی طرح کلام کہ جسے لوگوں نے خود ایک دوسرے کے درمیان ایجاد کیا ہے ، اسی لئے بات چیت کرتے وقت قوموں اور ملتوں کے درمیان فرق پایا جاتا ہے، اور اسی طرح کتابت میں بھی جیسے عربی، سریانی ، عبرانی، رومی اور دوسری مختلف کتابت کہ جن میں ملتوں کے درمیان کلام کی طرح اختلاف پایا جاتا ہے ، جنہیں خود ان ملتوں نے ایجاد کیا ہے ، اب ایسے شخص کے بارے میں کیا کہا جائے، جو اس بات کا مدعی ہو، یہ صحیح ہے کہ انسان کے ان کاموں میں اس کی فعالیت وحیلہ کا دخل

۷۲

ہے، لیکن وہ چیز کہ جس کے تحت یہ فعالیت و حیلہ کارگر ہیں، وہ خود خدا کا ایک عطیہ و تحفہ ہے کہ جو خدا نے انسان کو اس کی خلقت میں عطا کیا ہے، اس لئے کہ اگر کلام کرنے کے لئے زبان اور امور کی ہدایت کے لئے ذہن نہ ہوتا تو انسان کبھی بھی کلام نہیں کرسکتا تھا ، اور اسی طرح اگر لکھنے کے لئے ہتھیلی و انگلیاں نہ ہوتیں تو وہ کبھی بھی کتابت میں کامیاب نہ ہوتا، پس ان حیوانات سے عبرت حاصل کرو کہ جنہیں اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ نہ وہ بولنا جانتے ہیں اور نہ لکھنا خداوند عالم کا یہ اپنے بندوں پر خاص احسان ہے، اب جو اس کا شکر ادا کریگا اُسے اس کا اجر و ثواب عطا کریگا ، اور جو کفر اختیار کریگا تو خدا غنی اور بے نیاز ہے۔

( وہ علوم جوانسانوں کو عطا کئے۔ اور وہ علوم جو عطا نہ کئے دونوں میں ان کی بھلائی ہے )

اے مفضل فکر کرو، اس علم پر جو خداوند عالم نے انسان کو عطا کیا اور وہ علم جو اُسے عطا نہ کیا ، خداوند عالم نے وہ تمام علوم اپنے بندوں کو عطا کئے جن میں اس کے دین و دنیا دونوں کی بھلائی ہے اور وہ علم جس میں اس کے دین کی بھلائی ہے ، وہ خدا وند عالم کی معرفت اُن شواہد و دلائل کے ساتھ ہے جو خلقت میں مشاہدہ کئے جاتے ہیں، اور وہ علم کہ جن کا جاننا اس کے لئے واجب ہے۔جیسے لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کو قائم کرنا، والدین کے ساتھ نیکی کرنا، امانتوں کو ادا کرنا، نیاز مندوں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنا اور اس قسم کے دوسرے کام جن کی معرفت ہر اُمت کو فطری اور طبیعی طور پر عطا کی گئی ہے ، چاہے وہ اس کے مطابق عمل کرے یا نہ کرے اور اسی طرح تمام وہ علوم کہ جس میں اس کی دنیا کی بھلائی ہے ، جیسے زراعت ، درخت کاری، کنویں کھودنا، جانور کا پالنا، پانی تلاش کرنا، دواؤں کا جاننا ( جن کے ذریعہ بہت سے مرض دور ہوتے ہیں) معادن کا تلاش کرنا ،کہ جس کے ذریعہ مختلف جواہر حاصل ہوتے ہیں، کشتی پر سواری کرنا، دریاؤں میں غوطہ لگانا (اس کے علاوہ) وحشی جانوروں،

۷۳

پرندوں اور مچھلیوں کے شکار کے لئے مختلف حیلوں اور چالاکیوں کا علم ، مختلف قسم کی صنعت و تجارت کا علم اور اس کے علاوہ دوسری ایسی چیزوں کا علم کہ جن کی تشریح اور وضاحت کی فہرست طویل اور تعداد بہت زیادہ ہے، جس میں اس کے لئے بھلائی اور نفع ہے۔ اور ان کے علاوہ دوسرے علوم کے جاننے کو انہیں منع کیا وہ انہیں نہ جانیں اس لئے کہ وہ ان کی طاقت نہیں رکھتے۔ مثلاً ، علم غیب، اور جو کچھ مستقبل میں ہوگا اور جو کچھ آسمان کے اوپر اور زمین کے نیچے ہے جو کچھ دریا کہ تہہ میں ہے اور جو کچھ عالم کے چاروں گوشوں میں ہے اور جو کچھ لوگوں کے دل میں گزرتا ہے اور کچھ رحم مادر میں ہے، اور اس قسم کی بہت سی چیزیں کہ جو انسان سے پوشیدہ ہیں کبھی بہت سے لوگ ان چیزوں کے جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کا دعویٰ جلد ہی ان تمام چیزوں کے بارے میں باطل ہوکر رہ جاتا ہے، اور ان کی خطا آشکار ہوجاتی ہے ، ذرا غور کرو کہ کس طرح سے انسان کو ان چیزوں کا علم عطا کیا گیا، کہ جن میں اس کے دین اور دنیا دونوں کی بقاء ہے اور اس کے علاوہ باقی علوم کو اس پوشیدہ رکھا گیا، تاکہ وہ ان کی قدر و قیمت جان لے اورسمجھ لے کہ جو کچھ خدا نے اُسے علم عطا کیا اور جو علم عطا نہیں کیا ہر دو میں اس کی بھلائی ہے۔

( انسان سے کیوں اس کی عمر حیات کو پوشیدہ رکھا؟ )

اے مفضل۔ اب ان چیزوں میں غور کرو کہ جن کا علم خدا نے اپنے بندوں سے پوشیدہ رکھا ۔ جیسے اس کی زندگی کا علم اگر وہ اپنی زندگی کے مدت کو جان لیتا اور اس کی عمر حیات تھوڑی ہوتی ، تو ایسے میں اس کے لئے زندگی گزارنا ناخوش گوار ثابت ہوتا، بلکہ یہ آدمی اُس شخص کی مانند ہوتا کہ جس کا مال اس کے ہاتھ سے چلا گیا ہو، یا نزدیک ہو کہ چلا جائے کہ وہ مال کے چلے جانے سے فقر کی تنگی سے خوفزدہ ہے، اور عمر کے ختم ہو جانے کا خوف تو اُس خوف سے بھی کہیں زیادہ ہے اس لئے کہ مال کے چلے جانے پر وہ یہ سوچتا ہے کہ وہ دوبارہ مل ہوجائے گا، اور خود کو اس کے لئے تیار کرتا ہے لیکن اگر کسی کو اپنی

۷۴

موت کا یقین ہوجائے تو نا اُمیدی اُس پر پوری طرح غالب ہوجاتی ہے اور اگر اس کی عمر حیات طویل ہوتی اور وہ اس بات کو جان لیتا تو پھر وہ کمر بستہ طور پر لذتوں اور معصیتوںمیں غوطہ ور ہوجاتا، اور وہ برے کاموں کو تمام عمر اس امر کے ساتھ انجام دیتا کہ جب وہ اپنی خواہشات کو پورا کر لے گا، تو توبہ کرلے گایہ وہ طریقہ ہے کہ جو خداوند عالم اپنے بندوں سے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرتا اور نہ وہ اس پر راضی ہوتا ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر تمہارا کوئی غلام ہو اور وہ سال بھر تمہاری نافرمانی کرے ، اور تمہارا کوئی کام اور کسی بھی قسم کی خدمت انجام نہ دے، اور پھر ایک دن یا ایک ماہ وہ تمہیں راضی کرنے میں لگادے تو تم اُسے ہرگز قبول نہ کروگے، اور وہ تمہارے لئے ایک بہترین غلام ثابت نہ ہوگا، سوائے اس کے کہ یہ غلام تمہارے ہر أمر پر سرتسلیم خم کرے اور ہمیشہ تمہارا خیرخواہ ہو، اور اگر تم کہو کہ کیا ایسا نہیں ہوتا کہ کبھی انسان ایک مدت تک معصیت میں مبتلا رہتا ہے، اور پھر توبہ کرتا ہے اور اس کی توبہ قبول ہوجاتی ہے ، تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ ایسا اُس صورت میں ہوتا ہے جبکہ انسان پر شہوت کا غلبہ ہو اور وہ اپنی خواہشات پر قابو نہ پاسکے اور وہ اس کام کو پہلے سے بجالانے کا قصد و ارادہ بھی نہیں رکھتا ہو، تو ایسی صورت میں خداوند، اس سے درگذر کرتاہے اور ا س کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور اس پر اپنا فضل و کرم کرتا ہے، لیکن اگر کوئی اس بات کا ارادہ کرے کہ معصیت کو انجام دیتا رہے، اور بعد میں توبہ کرلے گا تو وہ ایسی ذات کو دھوکہ و فریب دینا چاہتا ہے ، جو کسی کے دھوکے اور فریب میں آنے والی نہیں ، کہ وہ پہلے معصیتوں سے لذت حاصل کرتارہے اور بعد میں توبہ کرنے کے وعدے کرتا رہے کہ ایسے میں وہ کبھی بھی اپنے اس وعدے کو وفا نہیں کر سکتا، اس لئے کہ لذتوں اور خوشگوار زندگی سے ہاتھ اٹھانا اور توبہ کرنا وہ بھی اس ضعیفی اور کمزوری کے عالم میں خاصہ مشکل ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ وہ توبہ کے لئے آج و کل کرتا ہوا موت کے منہ تک پہنچ جائے اور بغیر توبہ کئے ہوئے اس دنیا سے کوچ کرجائے جس طرح سے کوئی مقروض جو ایک وقت میں قرض ادا کرنے پر قادر ہوجاتا ہے ، لیکن قرض

۷۵

واپس دینے سے گریز کرتا ہے ، یہاں تک کہ اس کا تمام مال خرچ ہوجاتا ہے اور قرض اس کی گردن پر اُسی طرح باقی رہ جاتا ہے، پس اس لئے انسان کے لئے یہ بہتر ہے کہ اس کی عمر حیات اس ے پوشیدہ رہے ، تاکہ ساری زندگی موت کی فکر میں رہ کر معصیتوں کو چھوڑ دے اور نیک کام انجام دے ، اب اگر تم یہ کہو کہ جبکہ خداوند عالم نے انسان کی عمر حیات کو اس سے پوشیدہ رکھا اور انسان ہمیشہ اس کے انتظار میں ہے اس کے باوجود وہ برے کاموں کو انجام دیتا ہے، اور خدا کی حدود کا خیال نہیں کرتا تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ اس میں تدبیر وہی ہے جو بیان کی گئی ہے بالآخر اگر انسان اس کے باوجود بھی گناہوں سے دوری اختیار نہیں کرتا تو یہ اس کے دل کی قساوت کا نتیجہ ہے تو ایسی صورت میں برائی طبیب کے لئے نہیں بلکہ مریض کے لئے ہے ، اس لئے کہ اس نے طبیب کی نافرمانی کی ہے اور جب انسان موت کے انتظار میں رہ کر گناہوں سے دوری نہیں کرتا ، تواگر اُسے اپنی طول زندگی کا پتہ چل جاتا اور مطمئن ہو جاتا تو پھر وہ اس سے بھی کہیں زیادہ گناہوں کا مرتکب ہوتا ، پس اس بات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انتظار موت ہر حال میں بہتر ہے اور اگر کچھ لوگ موت سے غافل ہیں اور اُس سے نصیحت حاصل نہیں کرتے تو مسلم طور پر دوسرے لوگ اس سے ضرور نصیحت حاصل کرتے ہیں اور گناہوں سے دوری اختیار کرتے ہیں ، اور اعمال صالح انجام دیتے ہیں ، فقراء و مساکین کی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لئے بہترین چیزیں اور مختلف حیوانات کو ان کے لئے صدقہ کرتے ہیں ، لہٰذا یہ بات خلاف عدل ہے کہ اُن لوگوں کی خاطر جو انتظار موت سے فائدہ نہیں اٹھاتے اُن لوگوں کو بھی اس أمر سے محروم کردیا جائے جو اسی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

۷۶

( خواب میں حسن تدبیر )

اے مفضل۔ فکر کرو خواب پر کہ اس میں کیا تدبیر کار فرما ہے سچ ، جھوٹ میں ملا ہوا ہے اگر سب خواب سچے ہوتے تو تمام لوگ انبیاء ہوجاتے ، اور اگر سب کے سب خواب جھوٹے ہوتے تو خواب کے وجود سے کوئی فائدہ نہ ہوتا، اور وہ ایک زائد و بے معنی چیز ہو کر رہ جاتی، کبھی وہ سچے ہوتے ہیں کہ لوگ ان سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اور اس کے وسیلے سے ہدایت پاتے ہیں، یا بعض خواب ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے وسیلے سے انہیں خبر دار کیا جاتا ہے زیادہ تر خواب جھوٹے ہوتے ہیں تاکہ لوگ اس پر اعتقاد ِ کامل نہ رکھیں۔

( جہان میں تمام چیزیں انسان کی احتیاج و ضرورت کے مطابق ہیں )

اے مفضل۔ فکر کرو ان تمام چیزوں پر جو عالم میں موجود و مہیا ہیں، مٹی تعمیرات کے لئے ، لوہا صنعت کے لئے، لکڑ ی کشتی وغیرہ کے لئے، پتھر چکی وغیرہ کے لئے، پیتل برتن کے لئے، سونا و چاندی معاملات و ذخیرہ کے لئے ، دالیں غذا کے لئے، پھل لذت حاصل کرنے کے لئے،گوشت کھانے کے لئے، عطر خوشبو کے لئے، دوائیں مریض کی شفا کے لئے، چوپائے باربرداری کے لئے، سوکھی لکڑیاں جلانے کے لئے، خاکستر کلس(۱) کے لئے، شن زمین کے لئے ، اور اس قسم کی بے انتہا چیزیں کہ جنہیں شمار کرنے والا اگر شمار کرنا چاہے تو ہرگز شمار نہیں کرسکتا، کیا تم نے دیکھا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک گھر میں داخل ہو جس میں وہ تمام چیزیں جو انسان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہیں، آمادہ و ذخیرہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سنہری کلخی کہ جو گنبد کے نوک پر لگائی جاتی ہے۔

۷۷

ہوں، تو کیا وہ اس بات کو تسلیم کرسکتا ہے، کہ یہ سب چیزیں محض اتفاق کا نتیجہ ہیں، اور بغیر قصد و ارادہ کے وجود میں آئی ہیں۔ لہٰذا کس طرح اُس شخص کو اس عالم اور بیان شدہ أشیاء کے بارے میں یہ اجازت دی جائے کہ وہ انہیں محض اتفاق کا نتیجہ کہے۔

اے مفضل ۔ عبرت حاصل کرو کس طرح چیزوں کو انسان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بنایا گیا ہے، اور کس قسم کی تدبیر اُس میں رواں دواں ہے کہ اس نے دانے کو پیدا کیا کہ وہ انسان کے لئے غذا ہو۔ اور اس نے انسان کو اس بات کا ذمہ دار بنایا کہ وہ اس کا آٹا بنائے، آٹے کا خمیر بنائے اور پھر اسے پکا کر روٹی بنائے، اُون کو لباس کے لئے خلق کیا اور انسان کو اس بات کا ذمہ دار بنایا کہ وہ اس سے دھاگہ حاصل کرکے اسے سلائی اور کڑھائی کے استعمال میں لائے۔ درختوں کو انسان کے لئے پیدا کیا گیا ان کے اُگانے اور ان کی آبیاری و دیکھ بھال کے لئے انسان کو ذمہ دار ٹھہرایا ۔ دواؤں کو مریض کی شفا کے لئے خلق کیا گیا کہ مریض انہیں استعمال میں لاکر تندرستی حاصل کرے اور ان کے ملانے، اور بنانے پر انسان کو ذمہ دار بنایا، اور اس طرح کی دوسری وہ تمام چیزیں جنہیں تم دیکھتے ہو۔

ذرا غور کرو کس طرح بعض چیزوں کو مہیا کیا گیا ہے ، کہ جن کے اندر انسان کی فعالیت کا دخل نہیں ہے جبکہ بعض چیزوں میں انسان کے لئے فعالیت اور عمل کو رکھا ہے اس لئے کہ اسی میں انسان کی بھلائی ہے اگر تمام کام انسان کے لئے آمادہ ہوتے اور کوئی شغل باقی نہ رہتا تو انسان باغی ہوجاتا اور زمین اسے برداشت نہ کرتی، اس لئے کہ وہ زمین پر اس طرح کے کام انجام دیتا کہ خود اس کی زندگی خطرہ میں پڑ جاتی ، اس کے علاوہ یہ کہ انسان کی زندگی خوشگوار اور لذت بخش نہ ہوتی۔ مگر کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص کسی کے گھر مہمان کے طور پر جائے اور ایک مد ت تک وہ اس کے گھر قیام کرے اور جس چیز کی اُسے ضرورت ہو، مثلاً کھانے، پینے ، نوکر وغیرہ کی وہ سب اس کے لئے حاضر ہوں تو وہ اپنی فراغت کی

۷۸

وجہ سے تنگ آجاتا ہے اور اس کا نفس اسے اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کسی نہ کسی کام میں مشغول رکھے تو پھر کس طرح اس کی زندگی گزرتی جبکہ ساری زندگی اُسکی فراغت پر مشتمل ہوتی کہ تمام کام اس کے لئے آمادہ ہوتے، اور وہ کسی بھی چیز کا محتاج نہ ہوتا ، یہ حسن تدبیر ہے کہ جن چیزوں کو انسان کے لئے پیدا کیا گیا ہے اُن میں اُس کے لئے فعالیت و عمل کو رکھا گیا ہے ، تاکہ اس کی فراغت اس کی سستی و کاہلی کا باعث نہ بنے اور ان کاموں میں مشغول رہنا اسے اُن کاموں کے انجام دینے سے بچاتا ہے کہ جن کے انجام دینے پر نہ وہ قادر ہے اور نہ ان میں اس کا کوئی فائدہ ہے ۔

( انسان کا اصلی معاش روٹی اور پانی )

اے مفضل۔ جان لو کہ انسان کا اصلی معاش روٹی اور پانی ہے ، ذرا غور کرو کہ ان میں کس طرح تدبیر استعمال ہوئی ہے۔ یہ بات تو مسلم ہے کہ انسان روٹی سے زیادہ پانی کا محتاج ہوتا ہے اور بھوک پر صبر پیاس پر صبر سے زیادہ کرسکتا ہے، اور جن چیزوں میں انسان پانی کا محتاج ہوتا ہے وہ روٹی کی احتیاج سے کہیں زیادہ ہیں اس لئے کہ پانی پینے، وضو کرنے، غسل کرنے ، لباس دھونے ، چوپاؤں اور کھیتی کو سیراب کرنے اور اس قسم کی بہت سی ضروریات کے استعمال میں آتا ہے اسی وجہ سے پانی فراوان ہے اور خریدا نہیں جاتا ، تاکہ طلب آب کی زحمتیں انسان سے ساقط ہوجائیں، لیکن روٹی کو مشقت میں رکھا کہ وہ اسے اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتا جب تک کہ چارہ اندیشی اور فعالیت سے کام نہ لے، اس لئے کہ انسان کے لئے کوئی شغل ہو کہ جو اسے فراغت ، بیکاری ، فالتو اور بے ہودہ کاموں سے بچائے رکھے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ بچہ ادب سیکھنے سے پہلے ہی معلم کے سپرد کردیا جاتا ہے، باوجود اس کے کہ وہ ابھی بچہ ہے اور ابھی اس کی قوت فہم اور ادراک تعلیم کے لئے کامل نہیں ، ایسا اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ وہ بیہودہ اور فضول کاموں سے محفوظ رہے، اور زیادہ کھیل کود اور بیکار کاموں

۷۹

سے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو زحمت میں نہ ڈالے ، اسی طرح اگر انسان کے پاس کوئی شغل نہ ہوتا تو وہ شرارت اور بیہودہ کاموں کی طرف کھینچا چلا جاتا اور تم اس مطلب کو اس شخص کی زندگی سے درک کرسکتے ہو جو امیرانہ اور خوشگوار زندگی بسر کرتا ہوکہ کس قسم کے کام اُس سے صادر ہوتے ہیں۔

( انسان کا ایک دوسرے سے شبیہ نہ ہونا حکمت سے خالی نہیں )

اے مفضل۔ عبرت حاصل کرو اس سے کہ انسان ایک دوسرے کے مشابہ نہیں جس طرح سے پرندے اور جانور آپس میں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں کہ ہرنوں اور پرندوں کو ایک دوسرے سے پہچانا نہیں جا سکتا، لیکن اگر تم انسانوں کو دیکھو تو وہ شکل و صورت اور خلقت میں مختلف ہیں۔ یہاں تک کہ تم دو آدمیوں کو بھی ایک جیسا نہیں پاؤگے، اس لئے کہ انسان اپنی زندگی میں جسمانی اور صفات کے اعتبار سے پہچانے جانے کا محتاج ہے۔ اس لئے کہ ان کے درمیان معاملات طے ہوتے ہیں لیکن حیوانات کے درمیان کسی بھی قسم کے معاملات طے نہیں ہوتے کہ جس کی وجہ سے وہ پہچانے جانے کے محتاج ہوں، اور کیا تم نہیں دیکھتے کہ پرندوں کا ایک دوسرے سے شبیہ ہونا ان کے لئے کسی قسم کے ضرر کا باعث نہیں بنتا ، لیکن انسان ہرگز اس طرح نہیں ہے۔اس لئے کہ اگر دو آدمی ایک دوسرے کی شبیہ ہوں تو لوگوں کے لئے زحمت کا باعث بن جاتے ہیں، لہٰذا معاملات میں ایک کو دوسرے کے بدلے لے لیا جاتا ہے، اور ایک کو دوسرے کے بدلے میں بے گناہ گرفتار کرلیتے ہیں اور کبھی یہ شباہت دوسرے کاموں میں بھی مداخلت کا باعث بنتی ہے وہ کون ہے؟ جس نے صحیح راہ کی تشخیص کے لیے اپنے بندوں پر لطف کیا اور ایسے لطیف کام انجام دیئے جہاں تک انسان کی رسائی ممکن نہیں ہے سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ جس کی رحمت تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے، اگر تم ایک تصویر کو دیوار پر نقش دیکھو اور کوئی تم سے کہے کہ اس تصویر کا کوئی بنانے والا نہیں ہے بلکہ خود بخود وجود میں آئی ہے تو کیا تم

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

آنے والوں كے ساتھ اس لئے كيا كوئي ان كے يہاں ٹھہرے نہ ،آہستہ آہستہ ان كى عادت بن گئي لہذا جب حضرت لوط عليہ السلام كو شہر ميں كسى مسافر كے آنے كى خبر ہوتى تو اسے اپنے گھر ميں دعوت ديتے تاكہ وہ كہيں ان كے چنگل ميں نہ پھنس جائے ان لوگوں كو جب اس كا پتہ چلاتو بہت سيخ پاہوئے اور حضرت لوط عليہ السلام سے كھل كر كہنے لگے كہ تمھيں كوئي حق نہيں پہنچتا كہ اب تم كسى مہمان كو اپنے گھرلے جائو _

اے كاش ميں تم سے مقابلہ كرسكتا

بہر حال جب حضرت لوط عليہ السلام نے ان كى يہ جسارت اور كمينہ پن ديكھى تو انھوں نے ايك طريقہ اختيار كيا تاكہ انھيں خواب غفلت اور انحراف وبے حيائي كى مستى سے بيدار كرسكيں _ آپ نے كہا : تم كيوں انحراف كے راستے پر چلتے ہو اگر تمہارا مقصد جنسى تقاضوں كو پورا كرنا ہے تو جائز اور صحيح طريقے سے شادى كركے انھيں پورا كيوں نہيں كرتے ، ،يہ ميرى بيٹياں ہيں (تيار ہوں كہ انھيں تمہارى زوجيت ميں دے دوں ) اگر تم صحيح كام انجام دينا چاہتے ہو تو اس كا راستہ يہ ہے _''(۱)

اس ميں شك نہيں كہ حضرت لوط عليہ السلام كى تو چند بيٹياں تھيں اور ان افراد كى تعداد زيادہ تھى ليكن مقصديہ تھا كہ ان پر اتمام حجت كيا جائے اور كہا جائے كہ ميں اپنے مہمانوں كے احترام اور حفاظت اور تمہيں برائي كى دلدل سے نكالنے كے لئے اس حد تك ايثار كے لئے تيار ہوں _يہ بات واضح ہے كہ جناب لوط يونہى اپنى لڑكيوں كا عقد ان مشركوں اور گمراہوں سے نہيں كرنا چاہتے تھے بلكہ مقصد يہ تھا كہ پہلے ايمان لے او تاكہ بعد ميں اپنے لڑكيوں كى شادى تم سے كردوں _

ليكن افسوس شہوت، انحراف اور ہٹ دھرمى كے اس عالم ميں ان ميں ذرہ بھر بھى انسانى اخلاق اور جذبہ باقى ہوتا تو كم از كم اس امر كے لئے كافى تھا كہ وہ شرمندہ ہوتے اور پلٹ جاتے، مگرنہ صرف يہ كہ وہ شرمندہ نہ ہوئے بلكہ اپنى جسارت ميں اور بڑھ گئے اور چاہا كہ حضرت لوط كے مہمانوں كى طر ف ہاتھ بڑھائيں _

____________________

(۱)سورہ حجر آيت ۷۱

۱۶۱

وہ قوم حرص اور شوق كے عالم ميں اپنے مقصد تك پہنچنے كے لئے بڑى تيزى سے لوط كى طرف آئي_

مگر اس تباہ كار قوم نے نبى خدا حضرت لوط(ع) كو بڑى بے شرمى سے جواب ديا :

''تو خود اچھى طرح سے جانتا ہے كہ ہماراتيرى بيٹيوں ميں كوئي حق نہيں ، اور يقينا تو جانتا ہے كہ ہم كيا چاہتے ہيں _''(۱)

يہ وہ مقام تھا كہ اس بزر گوار پيغمبر نے اپنے آپ كو ايك محاصرے ميں گھراہوا پايا اور انہوں نے ناراحتى وپريشانى كے عالم ميں فرياد كى :اے كاش : مجھ ميں اتنى طاقت ہوتى كہ ميں اپنے مہمانوں كا دفاع كر سكتا اورتم جيسے سر پھروں كى سركوبى كرسكتا ''_(۲)

يا كوئي مستحكم سہارا ہوتا ، كوئي قوم و قبيلہ ميرے پيروكارں ميں سے ہوتا اور ميرے كوئي طاقتور ہم پيمان ہوتے كہ جن كى مدد سے تم منحرف لوگوں كا مقابلہ كرتا_(۳)

اے لوط(ع) آپ پريشان نہ ہويئے

آخر كار پروردگار كے رسولوں نے حضرت لوط كى شديد پريشانى ديكھى اور ديكھا كہ وہ روحانى طور پر كس اضطراب كا شكار ہيں تو انہوں نے اپنے اسرار كار سے پردہ اٹھايا اور ان سے كہا :'' اے لوط(ع) : ہم تيرے پروردگار كے بھيجے ہوئے ہيں ، پريشان نہ ہومطم ن رہو كہ وہ ہرگز تجھ پر دسترس حاصل نہيں كرسكيں گے''_(۴)

قران ميں دوسرى جگہ پر ہے :(۵)

يہ آيت نشاندہى كرتى ہے كہ اس وقت حملہ آورقوم پروردگار كے ارادے سے اپنى بينائي كھوبيٹھى تھي

____________________

(۱)سورہ ہودآيت ۷۹

(۲)سورہ ہود آيت ۸۰

(۳)سورہ ہود آيت۸۰

(۴)سورہ ہود آيت ۸۱

(۵)وہ لوط عليہ السلام كے مہمانوں كے بارے ميں تجاوز كا ارادہ ركھتے تھے ليكن ہم نے ان كى آنكھيں اندھى كرديں _

۱۶۲

اور حملے كى طاقت نہيں ركھتى تھى بعض روايات ميں بھى ہے كہ ايك فرشتے نے مٹھى بھر خاك ان كے چہروں پر پھينكى جس سے وہ نابينا ہوگئے _

بہرحال جب لوط اپنے مہمانوں كے بارے ميں ان كى ماموريت كے بارے ميں آگاہ ہوئے تو يہ بات اس عظيم پيغمبر كے جلتے ہوئے دل كے لئے ٹھنڈك كى مانند تھي، ايك دم انہوں نے محسوس كيا كہ ان كے دل سے غم كا بار گراں ختم ہوگيا ہے اور ان كى آنكھيں خوشى سے چمك اٹھيں ، ايسا ہوا جيسے ايك شديد بيمارى كى نظر مسيحاپر جاپڑے، انہوں نے سكھ كا سانس ليا اور سمجھ گئے كہ غم واندوہ كا زمانہ ختم ہورہاہے اور اس بے شرم حيوان صفت قوم كے چنگل سے نجات پانے كا اور خوشى كا وقت آپہنچا ہے _

مہمانوں نے فوراً لوط عليہ السلام كو حكم ديا : تم تاريكى شب ميں اپنے خاندان كو اپنے ساتھ لے لو اور اس سرزمين سے نكل جائو ليكن يہ پابندى ہے كہ '' تم ميں سے كوئي شخص پس پشت نہ ديكھے_ ''(۱)

اس حكم كى خلاف ورزى فقط تمہارى معصيت كار بيوى كرے گى كہ جو تمہارى گنہگار قوم كو پہنچنے والى مصيبت ميں گرفتار ہوگى _''(۲)

____________________

(۱)''ولا يلتفت منكم احد''_ كى تفسير ميں مفسيرين نے چند احتمال ذكر كيے ہيں :

پہلا يہ كوئي شخص اپنى پس پشت نہ ديكھے _

دوسرا يہ كہ شہر ميں سے مال اور وسائل لے جانے كى فكر نہ كرے بلكہ صرف اپنے آپ كو اس ہلاكت سے نكال لے جائے _

تيسرايہ كہ اس خاندان كے اس چھوٹے سے قافلہ ميں سے كوئي شخص پيچھے نہ رہ جائے_

چوتھا يہ كہ تمہارے نكلنے كے وقت زمين ہلنے لگے كى اور عذاب كے آثار نماياں ہوجائيں گے لہذا اپنے پس پشت نگاہ نہ كرنا اور جلدى سے دور نكل جانا_

البتہ كوئي مانع نہيں ہے كہ يہ سب احتمالات اس آيت كے مفہوم ميں جمع ہوں

(۲)سورہ ہود آيت ۸۱

۱۶۳

كيا صبح قريب نہيں ہے؟

بالآخر انھوں نے لوط سے آخرى بات كہي: ''نزول عذا ب كا لمحہ اور وعدہ كى تكميل كا موقع صبح ہے اور صبح كى پہلى شعاع كے ساتھ ہى اس قوم كى زندگى غروب ہوجائے گى _''(۱)

ابھى اٹھ كھڑے ہو اور جتنا جلدى ممكن ہو شہر سے نكل جائو''كيا صبح نزديك نہيں ہے _''(۲)

بعض روايات ميں ہے كہ جب ملائكہ نے كہا كہ عذاب كے وعدہ پر عمل درآمدصبح كے وقت ہوگا توحضرت لوط عليہ السلام كو جو اس آلودہ قوم سے سخت ناراحت اور پريشان تھے، وہى قوم كہ جس نے اپنے شرمناك اعمال سے ان كا دل مجروح كرركھا تھا اور ان كى روح كو غم واندوہ سے بھرديا تھا، فرشتوں سے خواہش كى كہ اب جب كہ ان كو نابودہى ہونا ہے تو كيا ہى اچھا ہو كہ جلدى ايسا ہو ليكن انہوں نے حضرت لوط كى دلجوئي اور تسلى كے لئے كہا : كياصبح نزديك نہيں ہے ؟

آخركار عذاب كا لمحہ آن پہنچا اور لوط پيغمبر عليہ السلام كے انتظاركے لمحے ختم ہوئے ، جيسا كہ قرآن كہتا ہے :

''جس وقت ہمارا فرمان آن پہنچا تو ہم نے اس زمين كو زيروزبر كرديا اور ان كے سروں پر مٹيلے پتھروں كى پيہم بارش برسائي _''(۳)

پتھروں كى يہ بارش اس قدر تيز اور پے درپے تھى كہ گويا پتھرايك دوسرے پر سوار تھے _ليكن يہ معمولى پتھرنہ تھے بلكہ تيرے پروردگار كے يہاں معين اور مخصوص تھے ''مسومة عند ربك ''_ البتہ يہ تصور نہ كريں كہ يہ پتھر قوم لوط كے ساتھ ہى مخصوص تھے بلكہ'' يہ كسى ظالم قوم اور جمعيت سے دور نہيں ہيں _ ''(۴)

اس بے راہ روااور منحرف قوم نے اپنے اوپر بھى ظلم كيا اور اپنے معاشرے پر بھى وہ اپنى قوم كى تقدير

____________________

(۱)سورہ ہود آيت ۸۱

(۲)سورہ ہود آيت ۸۱

(۳)سورہ ہود آيت ۸۲

(۴)سورہ ہود آيت ۸۳

۱۶۴

سے بھى كھيلے اور انسانى ايمان واخلاق كا بھى مذاق اڑايا ،جب ان كے ہمدرد رہبر نے داد وفرياد كى تو انہوں نے كان نہ دھرے اور تمسخركيا اعلى ڈھٹائي ، بے شرمى اور بے حيائي يہاں تك آپہنچى كہ وہ اپنے رہبر كے مہمانوں كى حرمت وعزت پر تجاوز كے لئے بھى اٹھ كھڑے ہوئے _

يہ وہ لوگ تھے كہ جنہوں نے ہر چيز كو الٹ كر ركھ ديا ان كے شہروں كو بھى الٹ جانا چاہئے تھا فقط يہى نہيں كہ ان كے شہرتباہ وبرباد ہوجاتے بلكہ ان پر پتھروں كى بارش بھى ہونا چاہئے تھى تاكہ ان كے آخرى آثار حيات بھى درہم وبرہم ہوجائيں اور وہ ان پتھروں ميں دفن ہوجائيں اس سے كہ ان كا نام ونشان اس سرزمين ميں نظر نہ آئے، صرف وحشت ناك ، تباہ وبرباد بيابان ، خاموش قبرستان اور پتھروں ميں دبے ہو ئے مردوں كے علاوہ ان ميں كچھ باقى نہ رہے _

كيا صرف قوم لوط(ع) كو يہ سزا ملنى چاہئے نہيں ، يقينا ہر گز نہيں بلكہ ہر منحرف گروہ اور ستم پيشہ قوم كے لئے ايسا ہى انجام انتظار ميں ہے كبھى سنگريزوں كى بارش كے نيچے ، كبھى آگ اگلتے بموں كے نيچے اور كبھى معاشرے كے لئے تباہ كن اختلافات كے تحت خلاصہ يہ كہ ہر ستمگر كو كسى نہ كسى صورت ميں ايسے عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا _

صبح كے وقت نزول عذاب كيوں ؟

يہاں پر ذہن ميں يہ سوال پيدا ہوتاہے كہ نزول عذاب كےلئے صبح كا وقت كيوں منتخب كيا گيا رات كے وقت ہى عذاب كيوں نازل نہيں ہوا ؟

ايسا اس لئے تھا كہ جب حضرت لوط(ع) كے گھر پر چڑھ آنے والے افراد اندھے ہوگئے اور قوم كے پاس لوٹ كر گئے اور واقعہ بيان كيا تو وہ كچھ غور وفكر كرنے لگے، معاملہ كيا ہے خدانے صبح تك انہيں مہلت دى كہ شايد بيدار ہوجائيں اور اس كى بارگاہ كى طرف رجوع كريں اور توبہ كريں يا يہ كہ خدا نہيں چاہتا تھا كہ رات كى تاريكى ميں ان پر شب خون مارا جائے اسى بناء پر حكم ديا كہ صبح تك مامور عذاب سے ہاتھ روكے ركھيں _تفاسير ميں اس كے بارے ميں تقريباً كچھ نہيں لكھا گيا ليكن جو كچھ ہم نے اوپر ذكر كيا ہے وہ اس سلسلے

۱۶۵

ميں پند قابل مطالعہ احتمالات ہيں _

زيرو زبركيوں كيا گيا

ہم كہہ چكے ہيں كہ چكے ہيں كہ عذاب كى گناہ سے كچھ نہ كچھ مناسبت ہونا چاہئے، اس قوم نے انحراف جنسى كے ذريعہ چونكہ ہر چيز كوالٹ پلٹ كرديا تھا لہذا خدا نے بھى ان شہروں كو زيرو زبر كرديا اور چونكہ روايات كے مطابق ان كے منہ سے ہميشہ ركيك اور گندى گندگى كى بارش ہوتى تھى لہذا خدانے بھى ان پر پتھروں كى بارش برسائي _

جس نكتے كا ہم آخر ميں ذكر ضرورى سمجھتے ہيں وہ يہ ہے كہ جنسى انحراف كى طرف افراد كے ميلان كے بہت سے علل واسباب ہيں يہاں تك كہ بعض اوقات ماں باپ كا اپنى اولاد سے سلوك يا ہم جنس اولاد كى نگرانى نہ كرنا ، ان كے طرز معاشرت اور ايك ہى جگہ پر سونا وغيرہ بھى ہوسكتا ہے اس آلودگى كا ايك عامل بن جائے _

بعض اوقات ممكن ہے كہ اس انحراف سے ايك اور اخلاقى انحراف جنم لے لے، يہ امر قابل توجہ ہے كہ قوم لوط كے حالات ميں ہے كہ ان كے اس گناہ ميں آلودہ ہونے كا ايك سبب يہ تھا كہ وہ بخيل اور كنجوس لوگ تھے اور چونكہ ان كے شہر شام جانے والے قافلوں كے راستے ميں پڑتے تھے اور وہ نہيں چاہتے تھے كہ مہمانوں اور مسافروں كى پذيرائي كريں لہذا ابتداء ميں وہ اس طرح ظاہر كرتے تھے كہ وہ چاہتے تھے كہ مہمانوں اور مسافروں كو اپنے سے دور بھگائيں ليكن تدريجاًيہ عمل ان كى عادت بن گيا اور انحراف جنسى كے ميلانات آہستہ آہستہ ان كے وجود ميں بيدار ہوگئے اور معاملہ يہاں تك جاپہنچا كہ وہ سرسے لے كر پائوں تك اس ميں آلودہ ہوگئے _(۱)

____________________

(۱) يہاں تك كے فضول قسم كا مذاق جو كبھى كبھى لڑكوں كے درميان اپنے ہم جنسوں كے بارے ميں ہوتا ہے بعض اوقات ان انحرافات كى طرف كھينچ لے جانے كا سبب بن جاتاہے _

۱۶۶

قوم لوط(ع) كا اخلاق

اسلامى روايات وتواريخ ميں جنسى انحراف كے ساتھ ساتھ قوم لوط(ع) كے برے اور شرمناك اعمال اور گھٹيا كردار بھى بيان ہواہے _

كہا گيا ہے كہ ان كى مجالس اور بيٹھكيں طرح طرح كے منكرات اور برے اعمال سے آلودہ تھيں وہ آپس ميں ركيك جملوں ، فحش كلامى اور پھبتيوں كا تبادلہ كرتے تھے ايك دوسرے كى پشت پر مكے مارتے تھے قمار بازى كرتے تھے بچوں والے كھيل كھيلتے تھے گزرنے والوں كو كنكرياں مارتے تھے طرح طرح كے آلات موسيقى استعمال كرتے تھے او رلوگوں كے سامنے برہنہ ہو جاتے تھے اور اپنى شرمگاہوں كو ننگاكرديتے تھے _

واضح ہے كہ اس قسم كے گندے ماحول ميں ہر روز انحراف اور بدى نئي شكل ميں رونما ہوتى ہے اور وسيع سے وسيع تر ہوتى چلى جاتى ہے ايسے ماحول ميں اصولى طور پر برائي كا تصور ختم ہوجاتاہے اور لوگ اس طرح سے اس راہ پر چلتے ہيں كہ كوئي كام ان كى نظر ميں برا اور قبيح نہيں رہتا ان سے زيادہ بد بخت وہ قوميں ہيں جو علم كى پيش رفت كے زمانے ميں انہى راہوں پر گا مزن ہيں ،بعض اوقات تو ان كے اعمال اس قدر شرمناك اور رسوا كن ہوتے ہيں كہ قوم لوط كے اعمال بھول جاتے ہيں _

حضرت لوط (ع) كى بيوى كافروں كے لئے مثال

قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتا ہے ''خدا نے كافروں كے لئے ايك مثال بيان كى ہے'' نوح عليہ السلام كى بيوى كى مثال اور لوط عليہ السلام كى بيوى كى مثال ''وہ دونوں ہمارے دوصالح بندوں كے ما تحت تھيں ليكن انہوں نے ان سے خيانت كي، ليكن ان دو عظيم پيغمبر وں سے ان كے ارتباط نے عذاب الہى كے مقابلہ ميں انھيں كوئي نفع نہيں ديا اور ان سے كہا گيا كہ تم بھى آگ ميں داخل ہونے والے لوگوں كے ساتھ آگ ميں داخل ہوجائو_ ''(۱)

____________________

(۱) سورہ تحريم آيت ۱۰

۱۶۷

حضرت نوح كى بيوى كا نام ''والھہ'' اور حضرت لوط كى بيوى كا نام ''والعة''تھا ۱ اور بعض نے اس كے برعكس لكھا ہے يعنى نوح كى بيوى كانام''والعة'' اورلوط كى بيوى كا نام ''والھہ'' يا ''واہلہ'' كہا ہے_

بہرحال ان دونوں عورتوں نے ان دونوں عظيم پيغمبروں كے ساتھ خيانت كى ،البتہ ان كى خيانت جائدہ عفت سے انحراف ہرگزنہيں تھا كيونكہ كسى پيغمبر كى بيوى ہرگز بے عفتى سے آلودہ نہيں ہوتى جيسا كہ پيغمبر اسلام سے ايك حديث ميں صراحت كے ساتھ بيان ہواہے :

''كسى بھى پيغمبر كى بيوى ہرگز منافى عفت عمل سے آلودہ نہيں ہوئي''_

حضرت لوط كى بيوى كى خيانت يہ تھى كہ وہ اس پيغمبر كے دشمنوں كے ساتھ تعاون كرتى تھى اور ان كے گھر كے راز انھيں بتاتى تھى اور حضرت نوح (ع) كى بيوى بھى ايسى ہى تھى _

۱۶۸

حضرت يوسف اور يعقوب (عليہماالسلام)

داستان عشق يا پاكيزگى كا بہترين سبق

حضرت يوسف (ع) كے واقعہ كو بيان كرنے سے پہلے چند چيزوں كا بيان كرنا ضرورى ہے:

۱_ بے ہدف داستان پردازوں يا پست اور غليظ مقاصد ركھنے والوں نے اس اصلاح كنندہ واقعہ كو ہوس بازوں كے لئے ايك عاشقانہ داستان بنانے اور حضرت يوسف عليہ السلام او ران كے واقعات كے حقيقى چہرے كو مسخ كرنے كى كوشش كى ہے،يہاں تك كہ انھوں نے اسے ايك رومانى فلم بناكر پردہ سيميں پر پيش كرنا چاہا ہے ،ليكن قرآن مجيد نے كہ جس كى ہر چيز نمونہ اور اسوہ ہے اس واقعے كے مختلف مناظرسے پيش كرتے ہوئے اعلى ترين عفت وپاكدامني، خوداري، تقوى ،ايمان اور ضبط نفس كے درس دئے ہيں اس طرح سے كہ ايك شخص اسے جتنى مرتبہ بھى پڑھے ان قوى جذبوں سے متاثر ہوئے بغير نہيں رہ سكتا_

اسى بنا پر قرآن نے اسے ''احسن القصص'' (بہترين داستان) جيسا خوبصورت نام ديا ہے اور اس ميں صاحبان فكرونظر كے لئے متعدد عبرتيں بيان كى ہيں _

قہرمان پاكيزگي

۲_اس واقعہ ميں غوروفكر سے يہ حقيقت واضح ہو تى ہے كہ قرآن تمام پہلو ئوں سے معجزہ ہے اور اپنے واقعات ميں جو ہيرو پيش كرتا ہے وہ حقيقى ہيرو ہو تے ہيں نہ كہ خيا لى _كہ جن ميں سے ہر ايك اپنى نو عيت كے

۱۶۹

اعتبار سے بے نظير ہو تا ہے _

حضرت ابراہيم ،وہ بت شكن ہيرو ،جن كى روح بلند تھى اور جو طاغوتيوں كى كسى سازش ميں نہ آئے _

حضرت نو ح،طويل اور پر بر كت عمرميں _صبر واستقا مت،پا مردى اور دلسوزى كے ہيرو بنے_

حضرت مو سى وہ ہير و كہ جنہوں نے ايك سركش اور عصيان گر طاغوت كے مقابلے كے لئے ايك ہٹ دھرم قوم كو تيار كرليا _

حضرت يوسف ;ايك خوبصورت ،ہو س باز اور حيلہ گر عورت كے مقابلے ميں پاكيز گى ، پارسائي اور تقوى كے ہيرو بنے_

علاوہ ازيں اس واقعے ميں قرآنى وحى كى قدرت بيان اس طرح جھلكتى ہے كہ انسان حيرت زدہ ہو جاتا ہے كيونكہ جيسا كہ ہم جانتے ہيں كئي مواقع پر يہ واقعہ عشق كے بہت ہى باريك مسائل تك جا پہنچتاہے اور قرآن انہيں چھوڑ كر ايك طرف سے گزر ے بغير ان تمام مناظر كو ان كى بار يكيوں كے سا تھ اس طرح سے بيان كرتا ہے كہ سا مع ميں ذرہ بھر منفى اور غير مطلوب احساس پيدا نہيں ہوتا _قرآن تمام واقعات كے تن سے گزر تا ہے ليكن تمام مقامات پر تقوى وپاكيزگى كى قوى شعاعوں نے مباحث كا احا طہ كيا ہوا ہے _

حضرت يوسف(ع) كا واقعہ اسلام سے پہلے اور اسلام كے بعد

۳_ اس ميں شك نہيں كہ قبل از اسلام بھى داستان يوسف لوگوں ميں مشہور تھى كيو نكہ تو ريت ميں سفر پيد ائش كى چو دہ فصلوں (فصل ۳۷تا ۵۰) ميں يہ واقعہ تفصيل سے مذكورہے _البتہ ان چودہ فصلوں كا غور سے مطا لعہ كيا جا ئے تو يہ بات ظاہر ہو تى ہے كہ توريت ميں جو كچھ ہے وہ قرآن سے بہت ہى مختلف ہے _ان اختلافات كے موازنے سے معلوم ہو تا ہے كہ جو كچھ قرآن ميں آيا ہے وہ كس حد تك پيراستہ اور ہر قسم كے خرافات سے پاك ہے_ يہ جو قرآن پيغمبر سے كہتا ہے :''اس سے پہلے آپ كو علم نہيں تھا ،،اس عبرت انگيز داستا ن كى خالص واقعيت سے ان كى عدم آگہى كى طرف اشارہ ہے_ (اگر احسن القصص سے مراد واقعہ يوسف ہو ) _

۱۷۰

موجود ہ توريت سے ايسا معلوم ہوتا ہے كہ حضرت يعقوب نے جب حضرت يوسف كى خون آلود قميص ديكھى تو كہا :''يہ ميرے بيٹے كى قبا ہے جسے جانور نے كھا ليا ہے يقينا يوسف چير پھاڑڈالا گيا ہے _''

پھر يعقوب نے اپنا گريبان چا ك كيا ٹاٹ اپنى كمر سے باند ھا اور مدت دراز تك اپنے بيٹے كے لئے گريہ كرتے رہے، تمام بيٹوں اور بيٹيوں نے انہيں تسلى دينے ميں كسراٹھا نہ ركھى ليكن انہيں قرار نہ آيا اور كہا كہ ميں اپنے بيٹے كے ساتھ اسى طرح غمزدہ قبر ميں جائوں گا _

جبكہ قرآن كہتا ہے كہ حضرت يعقوب عليہ السلام اپنى فراست سے بيٹوں كے جھوٹ كو بھانپ گئے اور انہوں نے اس مصيبت ميں داد وفرياد نہيں كى اور نہ اضطراب دكھا يا بلكہ جيسا كہ انبياء عليہم السلام كى سنت ہے اس مصيبت كا بڑے صبر سے سا منا كيا اگر چہ ان كا دل جل رہا تھا، آنكھيں اشكبار تھيں ، فطر ى طور پر كثرت گريہ سے ان كى بينا ئي جاتى رہى _ليكن قرآن كى تعبير كے مطابق انہوں نے صبر جميل كا مظاہرہ كيا اور اپنے اوپر قابو ركھا (كظيمہ) انہوں نے گريبان چاك كر نے ، دادو فرياد كرنے اور پھٹے پرا نے كپڑے پہنے سے گريز كيا جو كہ عزادارى كى مخصوص علامات تھيں _

بہر حال اسلام كے بعد بھى يہ واقعہ مشرق مغرب كے مو رخين كى تحريروں ميں بعض اوقات حاشيہ آرائي كے ساتھ آيا ہے فارسى اشعار ميں سب سے پہلے ''يوسف زليخا ،،كے قصے كى نسبت فردوسى كى طرف دى جاتى ہے اس كے بعد شہاب الدين عمق اور مسعودى قمى كى ''يوسف زليخا''ہے اور ان كے بعد نويں صدى كے مشہور شاعر عبدالرحمن جامى كي'' يوسف زليخا ''ہے _

احسن القصص

۴_قران ميں داستان يوسف كو شروع كرتے ہوئے خدافرماتا ہے:''ہم اس قران كے ذريعہ (جو اپ پر وحى ہوتى ہے )،كے ذريعہ ''احسن القصص ''بيان كرتے ہيں ''_(۱)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت۳

۱۷۱

يہ واقعہ كيسے بہترين نہ ہو جب كہ اس كے ہيجان انگيز پيچ وخم ميں زندگى كے اعلى تر ين دروس كى تصوير كشى كى گئي ہے _اس واقعے ميں ہر چيز پر خدا كے اراد ے كى حاكميت كا ہم اچھى طرح مشاہدہ كرتے ہيں _

حسد كرنے والوں كا منحوس انجام ہم اپنى آنكھوں سے ديكھتے ہيں اوران كى سازشوں كونقش بر آب ہو تے ہو ئے ديكھتے ہيں _

بے عفتى كى عارو ننگ اور پارسا ئي وتقوى كى عظمت وشكوہ اس كى سطور ميں ہم مجسم پاتے ہيں كنويں كى گہرائي ميں ايك ننھے بچے كى تنہائي، زندان كى تاريك كو ٹھرى ميں ايك بے گناہ قيدى كے شب وروز ، ياس ونا اميدى كے سياہ پردوں كے پيچھے نو ر اميد كى تجلى اور آخر كار ايك وسيع حكو مت كى عظمت وشكوہ كہ جو آگاہ ہى وامانت كا نتيجہ ہے يہ تمام چيز يں اس داستان ميں انسان كى آنكھوں كے سامنے سا تھ سا تھ گزر تى ہيں _

وہ لمحے كہ جب ايك معنى خيز خواب سے ايك قوم كى سر نوشت بدل جاتى ہے _

وہ وقت كہ جب ايك قوم كى زندگى ايك بيدا ر خدا ئي زمام دار كے علم وآگہى كے زير سا يہ نابودى سے نجات پاليتى ہے _

اور ايسے ہى دسيوں درس ، جس داستا ن ميں مو جود ہوں وہ كيوں نہ ''احسن القصص''ہو _

البتہ يہى كافى نہيں كہ حضرت يوسف عليہ السلام كى داستان ''احسن القصص'' ہے اہم بات يہ ہے كہ ہم ميں يہ لياقت ہو كہ يہ عظيم درس ہمارى روح ميں اتر جائے_

بہت سے ايسے لوگ ہيں جو حضرت يوسف (ع) كے واقعہ كو ايك اچھے رومانوى واقعہ كے عنوان سے ديكھتے ہيں ، ان جا نو روں كى طرح جنھيں ايك سر سبز وشاداب اور پھل پھو ل سے لدے ہوئے باغ ميں صرف كچھ گھا س نظر پڑتى ہے كہ جو ان كى بھو ك كو زائل كردے _

ابھى تك بہت سے ايسے لوگ ہيں كہ جو اس داستا ن كو جھو ٹے پر وبال دے كر كوشش كرتے ہيں كہ اس سے ايك سيكسى ( sexsi )داستان بنا ليں جب كہ اس واقعہ كے لئے يہ بات نا شائستہ ہے اور اصل داستان ميں تمام اعلى انسا نى قدر يں جمع ہيں آئند ہ صفحات ميں ہم ديكھيں گے كہ اس واقعہ كے جامع خو

۱۷۲

بصورت پيچ وخم كو نظر انداز كر كے نہيں گزرا جاسكتا ايك شاعر شيريں سخن كے بقول :

''كبھى كبھى اس داستان كے پر كشش پہلوئوں كى مہك انسا ن كو اس طرح سر مست كر ديتى ہے كہ وہ بے خود ہو جاتا ہے_''

اميد كى كرن او ر مشكلات كى ابتدا ء

حضرت يوسف عليہ السلام كے واقعے كا آغاز قرآن ان كے عجيب اور معنى خيز خواب سے كرتا ہے كيونكہ يہ خواب دراصل حضرت يوسف كى تلا طم خيز زندگى كا پہلاموڑ شمار ہو تا ہے _

ايك دن صبح سوير ے آپ بڑے شوق اور وار فتگى سے باپ كے پاس آئے اور انہيں ايك نيا واقعہ سنا يا جو ظا ہر اً كو ئي زيادہ اہم نہ تھا ليكن درحقيقت ان كى زندگى ميں ايك تازہ با ب كھلنے كا پتہ دے رہا تھا _

''يو سف نے كہا :ابا جان :

''ميں نے كل رات گيا رہ ستاروں كو ديكھا كہ وہ آسمان سے نيچے اتر ئے سورج اور چاندان كے ہمراہ تھے ' سب كے سب ميرے پاس آئے اور مير ے سامنے سجدہ كيا _''(۱)

حضرت يوسف (ع) نے يہ خواب شب جمعہ ديكھا تھا كہ جو شب قدر بھى تھى (وہ رات جو مقدرات كے تعين كى رات ہے ) _

يہاں پر سوال يہ پيد ا ہوتا ہے كہ حضرت يوسف نے جب يہ خواب ديكھا اس وقت آپ كى عمر كتنے سال تھى 'اس سلسلے ميں بعض نے نو سال' بعض نے بارہ سال اور بعض نے سات سال عمر لكھى ہے جو بات مسلم ہے وہ يہ ہے كہ اس وقت آپ بہت كم سن تھے _

اس ہيجان انگيز اور معنى خيز خواب پر خدا كے پيغمبر يعقوب فكر ميں ڈوب گئے كہ سورج ،چاند اور آسمان كے گيارہ ستارے ،وہ گيا رہ ستارہ نيچے اترے اور ميرے بيٹے يوسف كے سامنے سجدہ ريز ہو گئے _

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۴

۱۷۳

يہ كس قدر معنى آفر يں ہے يقينا سورج اور چاند ميں اور اس كى ماں (يامَيں اور اس كى خالہ ) ہيں اور گيارہ ستارے اس كے بھائي ہيں ميرے بيٹے كى قدر ومنزلت اور مقام اس قدر بلند ہو گا كہ آسمان كے ستارے ، سورج اور چاند اس كے آستا نہ پر جبيں سائي كريں گے يہ بار گاہ الہى ميں اس قدر عزيز اور باوقار ہو گا كہ آسمان والے بھى اس كے سامنے خضوع كريں گے كتنا پر شكوہ اور پر كشش خواب ہے _ لہذا پريشانى اور اضطراب كے انداز ميں كہ جس ميں ايك مسرت بھى تھى ،اپنے بيٹے سے كہنے لگے ''ميرے بيٹے :اپنا يہ خواب بھائيوں كو نہ بتانا،كيو نكہ وہ تيرے خلا ف خطر ناك سازش كريں گے ،ميں جانتا ہوں كہ شيطان انسا ن كا كھلا دشمن ہے _( ۲) وہ مو قع كى تاڑميں ہے تا كہ اپنے وسوسو ں كا آغاز كرے ، كينہ وحسد كى آگ بھڑ كا ئے يہا ں تك كہ بھا ئيوں كو ايك دوسرے كا دشمن بنادے_ ليكن يہ خواب صرف مستقبل ميں يو سف كے مقام كى ظاہرى ومادى عظمت بيان نہيں كرتا تھا بلكہ نشا ندہى كرتا تھا كہ وہ مقام نبوت تك بھى پہچنيں گے كيونكہ آسمان والو ں كا سجدہ كرنا آسمانى مقام كے بلند ى پر پہنچنے كى دليل ہے اسى لئے تو ان كے پدر بزر گوار حضرت يعقوب نے مزيد كہا : اور اس طر ح تير ا پرور دگار تجھے منتخب كرے گا _'' اور تجھے تعبير خواب كا علم دے گا اور اپنى نعمت تجھ پر اور آل يعقوب(ع) پر تمام كرے گا ،جيسے اس نے قبل از يان تيرے باپ ابراہيم عليہ السلام اور اسحاق(ع) پر تمام كى ہاں تيرا پروردگار عالم ہے اور حكمت كےمطابق كام كرتاہے_''(۳)

بھائيوں كى سازش

يہاں سے يوسف(ع) كے بھائيوں كى يوسف(ع) كے خلاف سازش شروع ہو تى ہے ،قران ميں ان بہت سے اصلا حى دروس كى طرح اشارہ كيا گيا ہے جو اس داستا ن ميں موجود ہيں ،ارشاد ہوتا ہے :''يقينا يوسف اور اس كے بھائيوں كى داستا ن ميں سوال كرنے والوں كے لئے نشانياں تھيں _''(۴)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۵

(۲)سورہ يوسف آيت ۵

(۳)سورہ يوسف آيت ۶

(۴)سورہ يوسف آيت ۷

۱۷۴

اس سے بڑھ كر اوركيا درس ہوگا كہ چند طاقتور افراد ايك سو چے سمجھے منصوبے كے تحت كہ جس كا سر چشمہ حسد تھا'ظاہراً ايك كمزور اور تنہا شخص كو نابود كرنے كے لئے اپنى تمام تر كو شش صرف كرتے ہيں مگر اس كام سے انہيں خبر نہيں ہو تى كہ وہ اسے ايك حكومت كے تخت پر بٹھا رہے ہيں اور ايك وسيع مملكت كا فرماں روا بنا رہے ہيں اور آخر كا وہ سب اس كے سامنے سر تعظيم وتسليم خم كرتے ہيں يہ امر نشاند ہى كرتا ہے كہ جب خدا كسى كام كا ارادہ كرتا ہے تو وہ اتنى طاقت ركھتا ہے كہ اس كا م كو اس كے مخالفين كے ہا تھوں پايہ تكميل تك پہنچا دے تا كہ يہ واضح ہوجائے گا كہ ايك پاك اور صاحب ايمان انسان اكيلا نہيں ہے اور اگر سارا جہان اس كى نا بودى پر كمر باند ھ لے ليكن خدا نہ چاہے تو كوئي اس كا بال بھى بيكا نہيں كرسكتا _

حضرت يعقوب(ع) كے بارہ بيٹے تھے ان ميں يو سف اور بنيا مين ايك ماں سے تھے ان كى والدہ كا نام ''راحيل'' تھا يعقوب (ع) ان دونوں بيٹوں سے خصوصاًيو سف سے زيا دہ محبت كرتے تھے كيونكہ ايك تو يہ ان كے چھوٹے بيٹے تھے لہذا فطرتاً زيادہ تو جہ اور محبت كے محتاج تھے اور دوسرا ان كى والدہ ''راحيل''فوت ہو چكى تھيں اس بنا ء پر بھى انہيں زيادہ تو جہ اور محبت كى ضرورت تھى علاوہ ازيں خصوصيت كے سا تھ حضرت يوسف ميں نا بغہ اور غير معمولى شخصيت ہونے كے آثار نمايا ں تھے؟ مجمو عى طور پر ان سب باتو ں كى بنا ء پر حضرت يعقوب واضح طور پر ان سے زيادہ پيار محبت كا برتائو كرتے تھے _

حاسد بھا ئيوں كى تو جہ ان پہلوئوں كى طرف نہيں تھى اور وہ اس پر بہت نا راحت اور ناراض تھے_ خصوصاًشايد مائوں كے الگ الگ ہونے كى وجہ سے بھى فطر تاً ان ميں رقابت مو جود تھى لہذا وہ اكٹھے ہو ئے اور كہنے لگے : يو سف اور اس كے بھا ئي كو باپ ہم سے زيادہ پيار كرتا ہے حالانكہ ہم طاقتور اور مفيد لوگ ہيں _''(۱)

اور باپ كے امور كو بہتر طور پر چلا سكتے ہيں اس لئے اسے ان چھوٹے بچوں كى نسبت ہم سے زيادہ محبت كرنا چاہئے جب كہ ان سے تو كچھ بھى نہيں ہو سكتا ،اس طرح يك طرفہ فيصلہ كرتے ہو ئے انہوں نے اپنے باپ كے خلاف كہا كہ'' ہمارا باپ واضح گمراہى ميں ہے_''( ۲)

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۸

(۲)سورہ يوسف آيت ۸

۱۷۵