توحید مفضل

توحید مفضل33%

توحید مفضل مؤلف:
زمرہ جات: توحید
صفحے: 175

توحید مفضل
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 175 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130919 / ڈاؤنلوڈ: 6123
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

جن کے بارے میں لوگ اطلاع نہیں رکھتے، وہ کون ہے؟ جس نے معدہ کو محکم اعصاب سے مجہز کیا، اور اسے سخت غذا کے ہضم کرنے کے قابل بنایا ، وہ کون ہے؟ جس نے جگر کی بناوٹ ، نازک اور باریک نالیوں سے انجام دی تاکہ صاف اور لطیف غذا کو ایک خاص انداز سے خون میں تبدیل کرے، اور معدہ سے زیادہ نازک و لطیف کام انجام دے ، سوائے اُس خداوند متعال کے اور کوئی نہیں کہ جو قادر اور قوی ہے، کیا تم اس بات کو کہہ سکتے ہو کہ محض اتفاقات نے ان میں سے کسی ایک کام کو بھی انجام دیا ہے ؟ ہرگز نہیں، بلکہ یہ تمام کام اُس مدبر کی حکمت و تدبیر کے تحت ہیں، جس نے اپنی تدبیر سے انہیں پیدا کیا ،اور کوئی بھی چیز اُسے عاجز نہیں کرتی ، وہ لطیف و آگاہ ہے۔

( اعضاء بدن بغیر علت کے نہیں ہیں )

اے مفضل ذرا غور کرو، آخر کیوں خداوند عالم نے نازک مغز کو محکم و مضبوط ہڈیوں کے درمیان رکھا؟ سوائے اس کے کہ وہ محکم ہڈیاں اُسے محفوظ رکھیں، آخر کیوں خون کو رگوں کے حصار میں قرار دیا، جیسے کہ پانی برتن میں ہو، کیا رگوں کے علاوہ کوئی اور چیز ہے کہ جواُسے جسم میں منتشر ہونے سے بچائے، آخر کیوں؟ ناخنوں کو سر انگشت پر جگہ عطا کی؟ سوائے اس کے کہ وہ انگلیوں کو محفوظ رکھیں اور انگلیوں کے کام کرنے میں ان کی مدد کریں ، آخر کیوں؟ کان کا اندرونی حصہ پیچیدگی صورت اختیار کئے ہوئے ہے؟ سوائے اس کے کہ آواز اس کے ذریعہ وارد ہوکر کان کے اندر ختم ہوجائے (اور کان کے پردے کو کسی بھی قسم کے ضرر کا سامنا کرنا نہ پڑے) کیونکہ اس پیچیدگی ہی کہ وجہ سے ہوا کا زور ٹوٹ جاتا ہے ، اور کان کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، آخر کس مقصد کے تحت ران اور کولھوں کو گوشت کا لباس پہنایا؟ سوائے اس کے کہ زمین پر بیٹھتے وقت انہیں تکلیف کا سامنا کرنا نہ پڑے،اور زمین کی سختی ان پر اثر انداز نہ ہو، جیسا کہ اگر کوئی لاغر و کمزور آدمی زمین پر بیٹھتے وقت اپنے نیچے کوئی چیز نہ رکھے، تو اُسے درد محسوس ہوتا

۶۱

ہے، وہ کون ہے؟ جس نے انسان کو نر و مادہ کی صورت میں پیدا کیا؟ کیا اس کے علاوہ کوئی اور ہے ، جو یہ چاہتا ہے کہ نسل انسانی باقی رہے، کون ہے جس نے انسان کو صاحب نسل قرار دیا ہے، سوائے اس کے کہ جس نے اسے صاحب آرزو خلق کیا، کون ہے جس نے اُسے اپنی حاجت کو پورا کرنے والا بنایا، کون ہے جس نے اُسے حاجت بنایا؟ سوائے اس کے کہ جس نے اس بات کہ ذمہ داری اپنے سر لی، کہ اِسے پورا کریگا، کون ہے، جس نے اُسے کام کاج کے لئے أعضاء و جوارح عطا کئے، کون ہے، جس نے اسے کام کے لئے قدرت و طاقت عطاکی، کون ہے ، جس نے درک و فہم کو فقط اس کے ساتھ مخصوص کیا، کون ہے، جس نے انسان پر شکر کو واجب قرار دیا، کون ہے جس نے اُسے فکر و اندیشہ گری سیکھائی؟ سوائے اس کے کہ جس نے اُسے اُس کی قوت عطاکی، کون ہے جس نے انسان کو قدرت ، طاقت وتوانائی جیسی نعمت سے نوازا؟ کون ہے جس نے انسانوں پر اپنی حجت تمام کی، کہ جو ناچارگی و بے کسی کے عالم میں کفایت أمر کرتاہے، کون ہے، کہ جس کا جتنا شکر ادا کیا جائے ، ادا نہیں ہوتا،اے مفضل ذارا غور کرو، کہ کیا تم اس بیان شدہ نظام میں اتفاقات کا مشاہدہ کرتے ہو؟ خداوند متعال بلند و برتر ہے، ان تمام افکار سے جو کم ذہنیت کے لوگ اس کے بارے میں رکھتے ہیں۔

( دل کا نظام )

اے مفضل ، اب میں تمہارے لئے دل کی تعریف بیان کرتا ہوں ، جان لو کہ دل میں ایک سوراخ ہے جو اُس سوراخ کے سامنے ہے جو پھیپھڑوں میں مشاہدہ کیا جاتا ے، جس کے وسیلہ سے دل کو ہوا اور سکون ملتا ہے، اگر یہ سوراخ ایک دوسرے سے دو ر یا جابجا ہوجائیں اور دل تک ہوا نے پہنچے تو انسان ہلاک ہوجائے، کیا کسی صاحب عقل کے لئے یہ کہنا زیب دیتا ہے کہ یہ عمل محض اتفاق کا نتیجہ ہے ، اس کے باوجود کہ وہ ایسے شواہد کا مشاہدہ کرتا ہے ، کہ جو اسے اس گفتار سے روکتے ہیں، اگر تم دو

۶۲

دروازوں میں سے ایک کو دیکھو کہ اُس میں کُنڈی لٹکی ہوئی ہے ، تو کیا تم یہ کہو گے کہ اس کے بنانے والے نے اسے بے فائدہ اور بے مقصد بنایا ہے، ہرگز نہیں ، بلکہ تم سوچوگے کہ یہ دروازے آپس میں ملنے کے لئے ہیں ، اور یہ کنڈی ہے کہ جو انہیں ملانے کا کام انجام دیتی ہے ، اور ان کے ملنے ہی میں مصلحت ہے، تو بس تم حیوانات میں نر کو بھی اسی طرح پاؤگے کہ اسے ایک ایسا ہی آلہ عطا کیا گیا ہے ، تاکہ وہ اپنی مادہ کے ساتھ نزدیکی کرے کہ جس میں اس کی نسل کی بقاء ہے، اب ان فلسفیوں پر نفرین کی جائے کہ جن کے دل سیاہ ہوچکے ہیں ، کہ وہ اس عجیب و غریب خلقت میں تدبیر و ارادہ کا انکار کرتے ہیں، اگر مرد کا آلہ تناسل ہمیشہ آویزاں ہوتا، تو کس طرح نطفہ رحم تک پہنچتا، اور اگر ہر وقت کھڑا ہوتا ، تو کس طرح سے بستر پر کروٹ لے سکتا تھا، اور اس حالت میں وہ کس طرح سے لوگوں کے درمیا ن راہ چلتا، اس کے علاوہ اگر ایسا ہوتا تو یہ منظر قباحت پر مشتمل ہوتا، اور مرد وزن کی شہوت کو ہر وقت متحرک کرتا، لہٰذا خداوند متعال نے اُسے اس طرح قرار دیا کہ وہ اکثر اوقات مردوں کی نگاہ سے پوشیدہ رہے، اور ان کے لئے زحمت ومشقت کا باعث نہ ہو، لیکن اس میں ایک ایسی قوت عطا کی کہ ضرورت کے وقت کھڑا ہوجائے، اس لئے کہ اس میں بقاء نسل پوشیدہ ہے۔

( مقام مخرج )

اے مفضل، اب ذرا غور کرو،بڑی نعمتوں میں سے کھانے، پینے اور فضلات کے بدن سے بآسانی خارج ہونے پر، مگر کیا مقام مخرج کی بناوٹ وساخت کے لئے اس سے بہتر کوئی طریقہ تھا کہ اُسے پوشیدہ ترین اور مخفی جگہ پر قرار دیا جائے، کہ جو نہ انسان کی پشت پر ہو اور نہ آگے لٹکی ہوئی، بلکہ اُسے ایسی پوشیدہ اور مناسب جگہ قرار دیا ، جسے رانوں اور کولھوں کاگوشت چھپائے ہوئے ہے، اور جب انسان خلاء کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور ایک خاص انداز میں بیٹھتا ہے تو اس کی جائے مخرج مہیا ہے ، اور ہمیشہ فضولات کا رخ نیچے کی طرف ہے، کس قدر مبارک ہے وہ ذات جس کی نعمتیں مسلسل اور بے شمار ہیں۔

۶۳

( دندان کی وضعیّت )

اے مفضل، فکر کرو، اُن دانتوں پر جو غذا کو پیستے اور ٹکڑے ٹکڑے کردیتے ہیں، کہ جنہیں خدا وند متعال نے انسانوں کی سہولت کے لئے پیدا کیاہے، اُن میں سے بعض تیز اور نوکیلے ہیں، جو غذا کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ اور بعض پھیلے ہوئے ہیں کہ جو غذا کو چبانے اور نرم بنانے کا کام انجام دیتے ہیں، یہ صفت اُن میں تاحد ضرورت موجود ہے۔

( بالوں اور ناخنوں میں حسن تدبیر )

اے مفضل ، بالوں اور ناخنوں کے حسن صناعت پر غور کرو، یہ مسلسل بڑھتے ہیں، اور انسان انہیں تراشنے پر مجبور ہوتا ہے، لہٰذا انہیں بے حس قرار دیا گیا ہے ، تاکہ ان کے تراشنے سے انسان کو درد کا سامنا کرنا نہ پڑے، اگر ان کے تراشنے سے انسان درد کا احساس کرتا تو اس کی زندگی مشکلات سے دوچار ہوجاتی اور اگر درد کی وجہ سے انہیں نہ تراشتا اور بڑھتا ہوا چھوڑ دیتا تو ایسی صورت میں یہ اس کے لئے باعث زحمت و مشقت بنتے، یا پھر یہ کہ انسان درد کو برداشت کرے۔

مفضل کا بیان ہے میں نے عرض کی اے میرے آقا و مولا، ان کی خلقت اس طرح کیوں نہیں ہوئی کہ یہ بڑے ہی نہ ہوں، اور انسان ان کے تراشنے پر مجبور نہ ہو؟ امام ـنے ارشاد فرمایا: اے مفضل ، خداوند عالم کی اس عظیم نعمت پر شکر کرو کہ جس کی حکمت اس کے بندے نہیں جانتے ، جان لو کہ بدن کے جراثیم و فضلات انہی کے ذریعے جسم سے خارج ہوتے ہیں، لہٰذا انسان کو ہر ہفتے نورہ لگانے، بال کٹوانے، اور ناخن تراشنے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ بال اور ناخن تیزی سے بڑھیں اور ان کے ذریعے

۶۴

انسان کے بدن سے جراثیم اور مختلف فضلات دور ہوں، اگر انہیں تراشا نہ جائے تو ان کے بڑھنے کی رفتار بھی سست پڑ جاتی ہے، جس سے بدن میں جراثیم اور فضلات باقی رہ جاتے ہیں اور انسان مریض ہوجاتا ہے اور اس کے علاوہ دوسرے بھی فائدے ہیں اور بعض ان مقامات پر کہ جہاں بالوں کا اُگنا خلل اور نقصان کا باعث بنتا، وہاں انہیں اُگنے سے روکا گیا ہے (اب ذرا دیکھو کہ ) اگر بال آنکھوں کے اندر اُگتے تو کیا آنکھوں کو اندھا نہیں کردیتے؟ اور اگر منھ میں اُگتے تو کیا کھانے ، پینے وغیرہ کے لئے ناگوار معلوم نہ ہوتے اور اگر ہتھیلی پر اُگتے تو کیا لمس کے لئے مانع نہ ہوتے؟ اور اسی طرح اگر عورت کی شرمگاہ یا مرد کے آلہ تناسل پر بال اگتے تو کیا لذت جماع کو ختم نہ کردیتے، غور کرو کہ کس طرح بال بعض مقامات پر نہیں اُگتے اس لئے کہ اسی میں انسان کی بھلائی ہے، اور یہ أمر فقط انسانوں کے اندر ہی نہیں، بلکہ چوپاؤں اور درندوں میں بھی پایا جاتا ہے جیسا کہ تم اس بات کا مشاہدہ کرتے ہو کہ ان کی تمام جلد تو بالوں سے ڈھکی ہوتی ہے، مگر وہ مقامات کہ جن کا ذکر پہلے بیان کیا جا چکا ہے بالوں سے خالی ہوتے ہیں ، حاصل مطلب یہ کہ ذرا غور کرو کس طرح سے فائدہ اور نقصان کو مدنظر رکھا گیا ہے اور جن چیزوں میں انسان کے لئے فائدہ اور اس کی بھلائی ہے، انہیں فراہم کیا گیا ہے۔

( فرقہ مانویہ کے اعتراضات )

اے مفضل ، وہ تمام کلمات و شبہات جو فرقہ مانویہ خلقت کے بارے میں رکھتا ہے، کہ اس کائنات کے اندر قصد و ارادہ نام کی کوئی چیز نہیں ، مثلاً وہ بغل اور زیرناف بال اُگنے کو بیہودہ اور عبث تصور کرتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ وہ مقامات رطوبت کے جاری ہونے کے لئے ہیں ، لہٰذا اُن مقامات پر بالوں کا اُگنا بالکل اُسی طرح ہے جس طرح نہر اور ندی وغیرہ کے کنارے گھاس وغیرہ اُگتی ہے ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہ مقامات رطوبت کے جاری اور بہنے کے لئے دوسرے تمام مقامات

۶۵

سے زیادہ پوشیدہ اور پنہاں ہیں اور پھر یہ کہ ان کے اُگنے اور کٹوانے کے بعد انسان مرض وغیرہ کی تکلیف میں مبتلا ہونے سے بچ جاتا ہے اور ان ہی کے بدن سے صاف ہونے کہ وجہ سے حرص و کثافت طبیعی طور پر انسان سے دور ہوجاتی ہے اور ان سب کا دور ہونا انسان کو سرکشی ، تجاوز اور فراغت سے بچاتا ہے اور انسان خوش و خرم رہتا ہے۔

( آب دہن خشک ہونے سے انسان کی ہلاکت )

اے مفضل ، آب دہن اور اس کے فوائد پر غور کرو، یہ ہمیشہ منہ میں جاری ہے تاکہ گلے اور خنجرہ کو تر رکھے ، کہ اگر یہ خشک ہوجائے تو انسان کی ہلاک ہوجائے ، اس کے علاوہ کھانا بھی بآسانی نہیں کھا سکتا کیونکہ یہی رطوبت لقمہ کو حرکت دیتی ہے لہٰذا تم مشاہدہ کروگے کہ یہ رطوبت مرکب غذا ہے اور یہی رطوبت ہے جو نلی کی طرف جاری رہتی ہے ، جس میں انسان کی بھلائی ہے کہ اگر یہ رطوبت خشک ہوجائے تو انسان کی ہلاکت یقینی ہے۔

( انسان کا شکم لباس کے مانند کیوں نہ ہوا؟ )

( اے مفضل) بعض جاہل افراد جو اپنے آپ کو اہل کلام کہلواتے ہیںاور کچھ ضعیف فلسفی جو اپنی کم علمی اور اپنی کم دسترسی کی وجہ سے یہ کہتے ہیں کہ شکم انسان، لبا س کی مانند ہونا چاہیے تھا کہ جسے جب بھی طبیب چاہتا کھول کر معائنہ کرتا، اور اپنے ہاتھ کو اندر ڈال کر جس طرح کا معالجہ ممکن ہوتا، انجام دیتا۔ تو کیا یہ اس سے اچھا نہ ہوتا کہ اُسے ایک مستحکم بند کے ذریعہ بند کیا ہوا ہے ؟ کہ وہ ہاتھ و آنکھ کی دسترسی سے بھی دور ہے کہ یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ اس کے اندر کیا ہے، مگر یہ کہ مختلف راہوں ، طریقوں اور

۶۶

تجربوں سے اس کا معائنہ کیا جائے کہ اس کے اندر پیشاب اور اس قسم کی دوسری بیہودہ ، فالتو چیزیں ہیں کہ جو انسان کی ہلاکت کا باعث ہیں؟ اگر یہ جاہل افراد جان لیں کہ وہی ہوتا جو یہ کہتے ہیں ، تو اس کا پہلا نقصان یہ ہوتا کہ انسان سے موت و مرض کا ڈر ساقط و ختم ہوجاتا، اس لئے کہ جب وہ اپنے آپ کو صحیح وسالم دیکھتا ، تو اس عالم میں مغرور ہوجاتا،اور یہ چیز اس کے طغیان اور تجاوز کا سبب بن جاتی، اس کے علاوہ وہ رطوبت جو اس کے شکم میں ہے ، اس کے شکم سے چھلکتی اور یہ مسلسل اُسے پلٹاتا ، اور اس کا لباس اور آلات زینت خراب ہوجاتے، بلکہ یوں کہوں کی کلی طور پر اس کی زندگی آلودہ ہوکر رہ جاتی ، اس کے علاوہ معدہ، جگر ، اور دل اپنے عمل کو اس حرارت کی موجودگی میں انجام دیتے ہیں جو خداوند متعال نے شکم میں رکھی ہے ، اگر شکم انسان میں سوراخ ہوتا کہ آنکھ، اور ہاتھ کے وسیلہ سے اس کا معالجہ کیا جاسکتا، تو ایسی صورت میں سرد ہوا اس کے جسم میں داخل ہوکر حرارت کو ختم کردیتی اور یہ تمام اعضاء دل ، معدہ ، جگر اپنا عمل کرنا چھوڑدیتے اور اس صورت میں انسان کی ہلاکت یقینی ہوجاتی ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ جو چیزیں اوہام سے وجود میں آتی ہیں وہ سب ان کے علاوہ ہیں جو خداوندعالم نے پیدا کی ہیں، اور اوہام سے وجود میں آنے والی چیزیں باطل و خطاہیں۔

اے مفضل، انسانوں کے وجود میں قرار دیئے گئے کاموں کی تدبیر پر غوروفکر کرو ، جیسے کھانا، پینااور جماع کہ یہ تمام انسان کے اندر تحرک پیدا کرتے ہیں جب انسان انہیں انجام دینا چاہتا ہے تو ان کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے، جیسے انسان کا بھوکا ہونا اسے غذا کے طلب کرنے پر مجبور کرتا ہے، جس کے حاصل ہونے سے انسان کے بدن کی نشوونما ہوتی ہے سستی اور اُونگھنا علامت ہے کہ اُسے سونے کی ضرورت ہے۔ جس میں اس کیلئے راحت و آرام پوشیدہ ہے شہوت کا اُبھرنا اُسے جماع کی طرف مائل کرتا ہے ،جو انسان کی بقاء اور دوام نسل کا واضح ثبوت ہے۔اگر انسان فقط ضرورت بدن کے لئے غذا کھاتا، اور کوئی چیز اس کے وجود میں ایسی نہ ہوتی کہ جو اسے غذا کے کھانے پر مجبور کرتی ، تو مسلم طور پر

۶۷

انسان کبھی اپنی سستی و کاہلی کی وجہ سے اس پر توجہ نہ دیتا ، ایسا ہونے سے اس کا بدن تحلیل ہونے لگتا اور آہستہ آہستہ وہ ہلاک ہوجاتا۔ جس طرح سے کبھی دوا کا محتا ج ہوتا ہے جسے کھا کر وہ اپنے بدن کی اصلاح کرے، مگر وہ سستی و کاہلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے لاپروائی کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کا بدن فاسد وضعیف و لاغر ہوجاتا اور یہ بات اس کی ہلاکت کا باعث بنتی ہے ، اسی طرح اگر سونا فقط اس لئے ہوتا کہ اس کے بدن کو راحت و آرام ملے اور اس کی قوت باقی رہے تو وہ اس میں بھی سستی سے کام لیتا، اور سونے سے پرہیز کرتا اور ہلاک ہوجاتا، اسی طرح اگر طلب اولاد کے لئے جماع کرتا ، تو یہ بعید نہ تھا کہ وہ اس میں بھی سستی کرتا، یہاں تک کہ نسل انسان کم ہوجاتی یا یہ کہ بالکل ہی منقطع ہوکر رہ جاتی، اس لئے کہ بعض افراد اولاد کی طرف رغبت نہیں رکھتے اور اولاد کو اہمیت نہیں دیتے ، اب ذرا غور کرو ، ان کاموں پر کہ جن میں انسان کی بھلائی ہے کس طرح ان کے وجود میں تحرک رکھا گیا ہے کہ وہ انسان کے اندر حرکت ایجاد کرتے ہوئے اسے ایسے کاموں کے انجام دینے پر مائل کریں۔

( انسان کے اندر چار حیرت انگیز قوتیں )

اے مفضل ، جان لو کہ بدن انسان میں چار قوتیں ہیں۔

۱۔ قوت جاذبہ : جوکھانے کو قبول کرکے معدہ تک پہنچاتی ہے۔

۲۔ قوت ماسکہ: جو کھانے کو اُس وقت تک محفوظ رکھتی ہے جب تک اس میں طبیعی طور پر عمل شروع نہ ہوجائے۔

۳۔ قوت ہاضمہ : جو غذا کو معدہ کے اندر حل کرتی ہے اور خالص و صاف غذا کو نکال کر بدن کے اندر پھیلاتی ہے۔

۴۔ قوت رافعہ: جب قوت ہاضمہ اپنے عمل کو انجام دے لیتی ہے ، تو یہی قوت رافعہ باقی غذا کو بدن سے باہر نکال دیتی ہے۔

۶۸

پس ان قوتوں کے میزان ، اندازہ ، اور ان کے عمل ،فوائد اور ان کی تدبیر و حکمت پر غور کرو، جوان میں جاری ہے اگر قوت جاذبہ نہ ہوتی، تو کس طرح انسان اُس غذا کی طرف کھینچا چلا جاتا کہ جس میں اس کے بدن کی قوت محفوظ ہے اور اگر قوت ماسکہ نہ ہوتی تو کس طرح غذا بدن انسان میں معدہ کے عمل کے انتظار میں ٹھہری رہتی اگر قوت ہاضمہ نہ ہوتی تو کس طرح غذا حل ہو کر معدہ سے باہر آتی کہ بدن اس سے تغذیہ کرکے اپنی حاجت کو پورا کرے اسی طرح اگر قوت دافعہ نہ ہوتی تو کس طرح بچی ہو ئی غذا تدریجی طور پر جسم سے باہر آتی، کیا تم اس بات کا مشاہدہ نہیں کرتے کہ خداوند عالم نے اپنے لطف و صنعت و حسن تدبیر کے سبب کس طرح ان قوتوں کو محافظ بدن قرار دیا، اور تمام وہ چیزیں جو بدن انسان کے لئے ضروری تھیں انہیں فراہم کیا گیاہے۔ اور اب میں تمہارے لئے مثال بیان کرتا ہوں وہ یہ کہ انسان کا بدن بادشاہ کے محل کی مانند ہے اور اس کے اعضاء اس کے محل کے ملازمین اور کام کرنے والوں کی طرح ہیں ، ان میں کچھ اس محل کی ضروریات پورا کرنے کے لئے اور کچھ محل میں داخل ہونے والی چیزوں کو قبول کرنے کے بعد استعمال میں لانے کے لئے، کچھ اس محل کو منظم و مرتب ، صاف ستھرا اور آلودگیوں سے پاک کرنے کے لئے اور کچھ فضول چیزوں کو محل سے باہر نکالنے کے لئے ہیں۔ اس مثال میں بادشاہ وہی خدائے حکیم ہے جو عالمین کا بادشاہ ہے اور وہ محل بدن انسان ہے اور اس کے افراد اس کے اعضاء ہیں اور جو امور خانہ داری کا کام انجام دیتی ہیں وہ چار قوتیں ہیں ، شاید کہ تم خیال کرو کہ ان چار قوتوں کی دوبارہ یادآوری اور ان کے کام کے بارے میں جو کچھ بیان کیا جا چکاہے ، وہ زائد اور بے مورد ہے حالانکہ ان کے ذکر سے مراد وہ نہیں جو تم اطباء کی کتابوں میں پڑھتے ہو، بلکہ یہاں ہماری گفتگو ان کی گفتگو سے جدا ہے ، اس لئے کے وہ فقط چار قوتوں کے بارے میں بحث طب کے ارتباط اور طبابت کی ضرورت کے لحاظ سے کرتے ہیں ، لیکن ہماری بحث اصلاح دین اور نفوس کو

۶۹

گمراہی اور غلطی سے بچانے کیلئے ہے ، جس طرح سے مثال کے ذریعہ ان کے شافی ہونے پر تفصیلی بحث کرچکا ہوں کہ جس میں ان کی تدبیر و حکمت پر اشارہ کیا گیا ہے۔

( انسان کو قوت نفسانی کی ضرورت )

اے مفضل، انسان کے اندر قوت نفسانی ( فکر، وہم، عقل، حفظ) اور اس کی قدر وقیمت پر غور کرو، کہ اگر قوت حفظ انسان سے سلب ہوجائے، تو اس کی کیا حالت ہوجائے،بہت سے نقصانات اس کے أمر معاش اور اس کے تجربات میں مشاہدہ کئے جائیں گے، کہ وہ اُن چیزوں کو بھلا دیتا جس میں اس کا فائدہ یا نقصان ہے یا پھر وہ نہ جانتا کہ اس نے کیا دیکھا کیا سنا اُس نے کیا کہا اس کے بارے میں کیا کہا گیا کس نے اُس کے ساتھ نیکی کی اور کس نے بدی کی اور وہ اچھی بری چیز کو بھی نہ جانتا ایک مدت تک راستہ پر آمدو رفت کے باوجود اُسے نہ پہچانتا۔ عرصہ دراز تک تحصیل علم کے باوجود کسی بھی چیز کو حفظ نہیں کرسکتا تھا۔ ایسی صورت میں نہ اُسے کوئی قرض دیتا۔ اور نہ وہ لوگوں کے تجربوں سے فائدہ اٹھا سکتا تھا گویا گذشتہ کسی بھی حقیقت سے عبرت حاصل نہیں کرسکتا تھا۔ درحقیقت وہ دائرہ انسانیت ہی سے خارج ہوجاتا۔

( حفظ و نسیان نعمت خداوندی ہیں )

اے مفضل ، غور کرو کہ انسان کو کتنی عظیم نعمتیں عطا کی گئی ہیں کہ اُن میں سے ہر ایک کی قدر و قیمت دوسرے کے مقابلے میں عظیم ہے ، اب ذرا دیکھو کہ اگر انسان کے لئے قوت نسیان نہ ہوتی تو کوئی شخص بھی اپنی مصیبت سے کبھی فارغ نہ ہوتا اور اس کی حسرت کبھی ختم نہ ہوتی اور نہ ہی کبھی کینہ و عداوت دور ہوتی ، گویا دنیا کی کسی بھی نعمت سے بہرہ مند نہ ہوتا اس لئے اس کی مصیبتیں اور آفتیں مسلسل اس کے

۷۰

سامنے رہتیں ، اور نہ وہ کبھی بادشاہ سے بھولنے کی امید رکھتا اور نہ کسی حاسد سے حسد کے ختم ہوجانے کی کیا تم نہیں دیکھتے کہ کس طرح خداوند عالم نے انسان کے اندر حفظ و نسیان کو رکھا ہے، اگرچہ یہ دو متضاد چیزیں ہیں لیکن ہر ایک کے اندر انسان کیلئے بھلائی ہے اور وہ لوگ جو ان متضاد چیزوں کی تقسیم بندی کرتے ہیں ، کس طرح وہ انہیں دو خالق کی طرف نسبت دیتے ہیں ، حالانکہ ان دو متضاد چیزوں کے جمع ہونے ہی میں انسان کی بھلائی ہے۔

( انسان کے لئے حیاء کا تحفہ )

اے مفضل ، ذرا غور کرو، اس چیز پر کے جسے خداوند عالم نے اپنی تمام مخلوق میں فقط انسان کے لئے مخصوص کیا ہے، کہ جس کی وجہ سے انسان کی فضیلت تمام مخلوق پر عظیم و اعلیٰ ہے اور وہ چیز حیاء ہے، اس لئے کہ اگر حیاء نہ ہوتی تو نہ مہمان نوازی ہوتی، نہ کوئی وعدہ وفا ہوتا، اور نہ کوئی حاجت پوری ہوتی، گویا کام بہتر طور پر انجام نہ دیئے جاتے، اور نہ ہی کوئی برے کاموں سے بچتا بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ یوں کہوں کہ بعض واجب کام بھی حیاء ہی کی بدولت انجام پاتے ہیں۔ جن کے پاس حیاء نہیں ہوتی نہ تو وہ اپنے والدین کے حق کا خیال رکھتے ہیں اور نہ صلہ رحمی سے کام لیتے ہیں، نہ وہ امانت کو ادا کرتے ہیں، اور نہ ہی برے کاموں سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ کس طرح اُن تمام صفتوں کو انسان کے اندر جمع کیا گیا ہے کہ جس میں اس کی اور اس کے تمام کاموں کی بھلائی ہے۔

۷۱

( قوت نطق اور کتابت فقط انسان کیلئے ہے )

اے مفضل۔ اس نعمت نطق پر بھی غور کرو، جو خداوند عزوجل نے انسان کو عطا کی، جس کے وسیلے سے انسان اپنے مافی الضمیراور جو کچھ دل میں ہے گزرتا ہے اُس کا اظہار کرتا ہے اور اپنی فکر کو دوسروں تک پہنچاتا ہے اگر قوت نطق نہ ہوتی تو انسان بھی چوپاؤں کی طرح مہمل ہو کر رہ جاتا، نہ اپنی بات کسی کو سمجھا سکتا تھا، اور نہ کسی دوسرے کی سمجھ سکتا تھا، اور اسی طرح ایک نعمت خداوندی کتابت ہے جس کے وسیلہ سے گذشتہ لوگوں کی خبریں حاضرین اور حاضرین کی خبریں آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علم و أدب کی کتابیں ابھی تک باقی ہیں اسی کے وسیلہ سے انسان ایک دوسرے کے درمیان معاملات و حساب کو محفوظ کرتے ہیں اگر کتابت نہ ہوتی تو ایک زمانے کی باتیں یا خبریں دوسرے زمانے کے لئے اور اسی طرح وطن سے دور لوگوں کی خبریں اہل وطن سے پوشیدہ ہوکر رہ جاتیں۔ علوم وآداب وغیرہ بھی سب ضائع ہوجاتے، خلاصہ یہ کہ لوگوں کے امور و معاملات میں ایک بہت بڑا خلل واقع ہوتا اور وہ ان چیزوں سے خالی ہوتے کہ جن کی انہیں دینی امور میں انہیں ضرورت پڑتی ، اور جو کچھ ان کے لئے روایت کی جاتی یہ اُس سے بے خبر ہوتے۔ شاید تم گمان کرو کہ نطق وکتابت وہ چیزیں ہیں جو حیلہ و ہوشیاری سے حاصل کی گئی ہیں اور انہیں خلقت اور طبیعت انسان میں عطا نہیں کیا گیا اور اسی طرح کلام کہ جسے لوگوں نے خود ایک دوسرے کے درمیان ایجاد کیا ہے ، اسی لئے بات چیت کرتے وقت قوموں اور ملتوں کے درمیان فرق پایا جاتا ہے، اور اسی طرح کتابت میں بھی جیسے عربی، سریانی ، عبرانی، رومی اور دوسری مختلف کتابت کہ جن میں ملتوں کے درمیان کلام کی طرح اختلاف پایا جاتا ہے ، جنہیں خود ان ملتوں نے ایجاد کیا ہے ، اب ایسے شخص کے بارے میں کیا کہا جائے، جو اس بات کا مدعی ہو، یہ صحیح ہے کہ انسان کے ان کاموں میں اس کی فعالیت وحیلہ کا دخل

۷۲

ہے، لیکن وہ چیز کہ جس کے تحت یہ فعالیت و حیلہ کارگر ہیں، وہ خود خدا کا ایک عطیہ و تحفہ ہے کہ جو خدا نے انسان کو اس کی خلقت میں عطا کیا ہے، اس لئے کہ اگر کلام کرنے کے لئے زبان اور امور کی ہدایت کے لئے ذہن نہ ہوتا تو انسان کبھی بھی کلام نہیں کرسکتا تھا ، اور اسی طرح اگر لکھنے کے لئے ہتھیلی و انگلیاں نہ ہوتیں تو وہ کبھی بھی کتابت میں کامیاب نہ ہوتا، پس ان حیوانات سے عبرت حاصل کرو کہ جنہیں اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ نہ وہ بولنا جانتے ہیں اور نہ لکھنا خداوند عالم کا یہ اپنے بندوں پر خاص احسان ہے، اب جو اس کا شکر ادا کریگا اُسے اس کا اجر و ثواب عطا کریگا ، اور جو کفر اختیار کریگا تو خدا غنی اور بے نیاز ہے۔

( وہ علوم جوانسانوں کو عطا کئے۔ اور وہ علوم جو عطا نہ کئے دونوں میں ان کی بھلائی ہے )

اے مفضل فکر کرو، اس علم پر جو خداوند عالم نے انسان کو عطا کیا اور وہ علم جو اُسے عطا نہ کیا ، خداوند عالم نے وہ تمام علوم اپنے بندوں کو عطا کئے جن میں اس کے دین و دنیا دونوں کی بھلائی ہے اور وہ علم جس میں اس کے دین کی بھلائی ہے ، وہ خدا وند عالم کی معرفت اُن شواہد و دلائل کے ساتھ ہے جو خلقت میں مشاہدہ کئے جاتے ہیں، اور وہ علم کہ جن کا جاننا اس کے لئے واجب ہے۔جیسے لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کو قائم کرنا، والدین کے ساتھ نیکی کرنا، امانتوں کو ادا کرنا، نیاز مندوں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنا اور اس قسم کے دوسرے کام جن کی معرفت ہر اُمت کو فطری اور طبیعی طور پر عطا کی گئی ہے ، چاہے وہ اس کے مطابق عمل کرے یا نہ کرے اور اسی طرح تمام وہ علوم کہ جس میں اس کی دنیا کی بھلائی ہے ، جیسے زراعت ، درخت کاری، کنویں کھودنا، جانور کا پالنا، پانی تلاش کرنا، دواؤں کا جاننا ( جن کے ذریعہ بہت سے مرض دور ہوتے ہیں) معادن کا تلاش کرنا ،کہ جس کے ذریعہ مختلف جواہر حاصل ہوتے ہیں، کشتی پر سواری کرنا، دریاؤں میں غوطہ لگانا (اس کے علاوہ) وحشی جانوروں،

۷۳

پرندوں اور مچھلیوں کے شکار کے لئے مختلف حیلوں اور چالاکیوں کا علم ، مختلف قسم کی صنعت و تجارت کا علم اور اس کے علاوہ دوسری ایسی چیزوں کا علم کہ جن کی تشریح اور وضاحت کی فہرست طویل اور تعداد بہت زیادہ ہے، جس میں اس کے لئے بھلائی اور نفع ہے۔ اور ان کے علاوہ دوسرے علوم کے جاننے کو انہیں منع کیا وہ انہیں نہ جانیں اس لئے کہ وہ ان کی طاقت نہیں رکھتے۔ مثلاً ، علم غیب، اور جو کچھ مستقبل میں ہوگا اور جو کچھ آسمان کے اوپر اور زمین کے نیچے ہے جو کچھ دریا کہ تہہ میں ہے اور جو کچھ عالم کے چاروں گوشوں میں ہے اور جو کچھ لوگوں کے دل میں گزرتا ہے اور کچھ رحم مادر میں ہے، اور اس قسم کی بہت سی چیزیں کہ جو انسان سے پوشیدہ ہیں کبھی بہت سے لوگ ان چیزوں کے جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کا دعویٰ جلد ہی ان تمام چیزوں کے بارے میں باطل ہوکر رہ جاتا ہے، اور ان کی خطا آشکار ہوجاتی ہے ، ذرا غور کرو کہ کس طرح سے انسان کو ان چیزوں کا علم عطا کیا گیا، کہ جن میں اس کے دین اور دنیا دونوں کی بقاء ہے اور اس کے علاوہ باقی علوم کو اس پوشیدہ رکھا گیا، تاکہ وہ ان کی قدر و قیمت جان لے اورسمجھ لے کہ جو کچھ خدا نے اُسے علم عطا کیا اور جو علم عطا نہیں کیا ہر دو میں اس کی بھلائی ہے۔

( انسان سے کیوں اس کی عمر حیات کو پوشیدہ رکھا؟ )

اے مفضل۔ اب ان چیزوں میں غور کرو کہ جن کا علم خدا نے اپنے بندوں سے پوشیدہ رکھا ۔ جیسے اس کی زندگی کا علم اگر وہ اپنی زندگی کے مدت کو جان لیتا اور اس کی عمر حیات تھوڑی ہوتی ، تو ایسے میں اس کے لئے زندگی گزارنا ناخوش گوار ثابت ہوتا، بلکہ یہ آدمی اُس شخص کی مانند ہوتا کہ جس کا مال اس کے ہاتھ سے چلا گیا ہو، یا نزدیک ہو کہ چلا جائے کہ وہ مال کے چلے جانے سے فقر کی تنگی سے خوفزدہ ہے، اور عمر کے ختم ہو جانے کا خوف تو اُس خوف سے بھی کہیں زیادہ ہے اس لئے کہ مال کے چلے جانے پر وہ یہ سوچتا ہے کہ وہ دوبارہ مل ہوجائے گا، اور خود کو اس کے لئے تیار کرتا ہے لیکن اگر کسی کو اپنی

۷۴

موت کا یقین ہوجائے تو نا اُمیدی اُس پر پوری طرح غالب ہوجاتی ہے اور اگر اس کی عمر حیات طویل ہوتی اور وہ اس بات کو جان لیتا تو پھر وہ کمر بستہ طور پر لذتوں اور معصیتوںمیں غوطہ ور ہوجاتا، اور وہ برے کاموں کو تمام عمر اس امر کے ساتھ انجام دیتا کہ جب وہ اپنی خواہشات کو پورا کر لے گا، تو توبہ کرلے گایہ وہ طریقہ ہے کہ جو خداوند عالم اپنے بندوں سے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرتا اور نہ وہ اس پر راضی ہوتا ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر تمہارا کوئی غلام ہو اور وہ سال بھر تمہاری نافرمانی کرے ، اور تمہارا کوئی کام اور کسی بھی قسم کی خدمت انجام نہ دے، اور پھر ایک دن یا ایک ماہ وہ تمہیں راضی کرنے میں لگادے تو تم اُسے ہرگز قبول نہ کروگے، اور وہ تمہارے لئے ایک بہترین غلام ثابت نہ ہوگا، سوائے اس کے کہ یہ غلام تمہارے ہر أمر پر سرتسلیم خم کرے اور ہمیشہ تمہارا خیرخواہ ہو، اور اگر تم کہو کہ کیا ایسا نہیں ہوتا کہ کبھی انسان ایک مدت تک معصیت میں مبتلا رہتا ہے، اور پھر توبہ کرتا ہے اور اس کی توبہ قبول ہوجاتی ہے ، تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ ایسا اُس صورت میں ہوتا ہے جبکہ انسان پر شہوت کا غلبہ ہو اور وہ اپنی خواہشات پر قابو نہ پاسکے اور وہ اس کام کو پہلے سے بجالانے کا قصد و ارادہ بھی نہیں رکھتا ہو، تو ایسی صورت میں خداوند، اس سے درگذر کرتاہے اور ا س کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور اس پر اپنا فضل و کرم کرتا ہے، لیکن اگر کوئی اس بات کا ارادہ کرے کہ معصیت کو انجام دیتا رہے، اور بعد میں توبہ کرلے گا تو وہ ایسی ذات کو دھوکہ و فریب دینا چاہتا ہے ، جو کسی کے دھوکے اور فریب میں آنے والی نہیں ، کہ وہ پہلے معصیتوں سے لذت حاصل کرتارہے اور بعد میں توبہ کرنے کے وعدے کرتا رہے کہ ایسے میں وہ کبھی بھی اپنے اس وعدے کو وفا نہیں کر سکتا، اس لئے کہ لذتوں اور خوشگوار زندگی سے ہاتھ اٹھانا اور توبہ کرنا وہ بھی اس ضعیفی اور کمزوری کے عالم میں خاصہ مشکل ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ وہ توبہ کے لئے آج و کل کرتا ہوا موت کے منہ تک پہنچ جائے اور بغیر توبہ کئے ہوئے اس دنیا سے کوچ کرجائے جس طرح سے کوئی مقروض جو ایک وقت میں قرض ادا کرنے پر قادر ہوجاتا ہے ، لیکن قرض

۷۵

واپس دینے سے گریز کرتا ہے ، یہاں تک کہ اس کا تمام مال خرچ ہوجاتا ہے اور قرض اس کی گردن پر اُسی طرح باقی رہ جاتا ہے، پس اس لئے انسان کے لئے یہ بہتر ہے کہ اس کی عمر حیات اس ے پوشیدہ رہے ، تاکہ ساری زندگی موت کی فکر میں رہ کر معصیتوں کو چھوڑ دے اور نیک کام انجام دے ، اب اگر تم یہ کہو کہ جبکہ خداوند عالم نے انسان کی عمر حیات کو اس سے پوشیدہ رکھا اور انسان ہمیشہ اس کے انتظار میں ہے اس کے باوجود وہ برے کاموں کو انجام دیتا ہے، اور خدا کی حدود کا خیال نہیں کرتا تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ اس میں تدبیر وہی ہے جو بیان کی گئی ہے بالآخر اگر انسان اس کے باوجود بھی گناہوں سے دوری اختیار نہیں کرتا تو یہ اس کے دل کی قساوت کا نتیجہ ہے تو ایسی صورت میں برائی طبیب کے لئے نہیں بلکہ مریض کے لئے ہے ، اس لئے کہ اس نے طبیب کی نافرمانی کی ہے اور جب انسان موت کے انتظار میں رہ کر گناہوں سے دوری نہیں کرتا ، تواگر اُسے اپنی طول زندگی کا پتہ چل جاتا اور مطمئن ہو جاتا تو پھر وہ اس سے بھی کہیں زیادہ گناہوں کا مرتکب ہوتا ، پس اس بات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انتظار موت ہر حال میں بہتر ہے اور اگر کچھ لوگ موت سے غافل ہیں اور اُس سے نصیحت حاصل نہیں کرتے تو مسلم طور پر دوسرے لوگ اس سے ضرور نصیحت حاصل کرتے ہیں اور گناہوں سے دوری اختیار کرتے ہیں ، اور اعمال صالح انجام دیتے ہیں ، فقراء و مساکین کی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لئے بہترین چیزیں اور مختلف حیوانات کو ان کے لئے صدقہ کرتے ہیں ، لہٰذا یہ بات خلاف عدل ہے کہ اُن لوگوں کی خاطر جو انتظار موت سے فائدہ نہیں اٹھاتے اُن لوگوں کو بھی اس أمر سے محروم کردیا جائے جو اسی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

۷۶

( خواب میں حسن تدبیر )

اے مفضل۔ فکر کرو خواب پر کہ اس میں کیا تدبیر کار فرما ہے سچ ، جھوٹ میں ملا ہوا ہے اگر سب خواب سچے ہوتے تو تمام لوگ انبیاء ہوجاتے ، اور اگر سب کے سب خواب جھوٹے ہوتے تو خواب کے وجود سے کوئی فائدہ نہ ہوتا، اور وہ ایک زائد و بے معنی چیز ہو کر رہ جاتی، کبھی وہ سچے ہوتے ہیں کہ لوگ ان سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اور اس کے وسیلے سے ہدایت پاتے ہیں، یا بعض خواب ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے وسیلے سے انہیں خبر دار کیا جاتا ہے زیادہ تر خواب جھوٹے ہوتے ہیں تاکہ لوگ اس پر اعتقاد ِ کامل نہ رکھیں۔

( جہان میں تمام چیزیں انسان کی احتیاج و ضرورت کے مطابق ہیں )

اے مفضل۔ فکر کرو ان تمام چیزوں پر جو عالم میں موجود و مہیا ہیں، مٹی تعمیرات کے لئے ، لوہا صنعت کے لئے، لکڑ ی کشتی وغیرہ کے لئے، پتھر چکی وغیرہ کے لئے، پیتل برتن کے لئے، سونا و چاندی معاملات و ذخیرہ کے لئے ، دالیں غذا کے لئے، پھل لذت حاصل کرنے کے لئے،گوشت کھانے کے لئے، عطر خوشبو کے لئے، دوائیں مریض کی شفا کے لئے، چوپائے باربرداری کے لئے، سوکھی لکڑیاں جلانے کے لئے، خاکستر کلس(۱) کے لئے، شن زمین کے لئے ، اور اس قسم کی بے انتہا چیزیں کہ جنہیں شمار کرنے والا اگر شمار کرنا چاہے تو ہرگز شمار نہیں کرسکتا، کیا تم نے دیکھا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک گھر میں داخل ہو جس میں وہ تمام چیزیں جو انسان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہیں، آمادہ و ذخیرہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سنہری کلخی کہ جو گنبد کے نوک پر لگائی جاتی ہے۔

۷۷

ہوں، تو کیا وہ اس بات کو تسلیم کرسکتا ہے، کہ یہ سب چیزیں محض اتفاق کا نتیجہ ہیں، اور بغیر قصد و ارادہ کے وجود میں آئی ہیں۔ لہٰذا کس طرح اُس شخص کو اس عالم اور بیان شدہ أشیاء کے بارے میں یہ اجازت دی جائے کہ وہ انہیں محض اتفاق کا نتیجہ کہے۔

اے مفضل ۔ عبرت حاصل کرو کس طرح چیزوں کو انسان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بنایا گیا ہے، اور کس قسم کی تدبیر اُس میں رواں دواں ہے کہ اس نے دانے کو پیدا کیا کہ وہ انسان کے لئے غذا ہو۔ اور اس نے انسان کو اس بات کا ذمہ دار بنایا کہ وہ اس کا آٹا بنائے، آٹے کا خمیر بنائے اور پھر اسے پکا کر روٹی بنائے، اُون کو لباس کے لئے خلق کیا اور انسان کو اس بات کا ذمہ دار بنایا کہ وہ اس سے دھاگہ حاصل کرکے اسے سلائی اور کڑھائی کے استعمال میں لائے۔ درختوں کو انسان کے لئے پیدا کیا گیا ان کے اُگانے اور ان کی آبیاری و دیکھ بھال کے لئے انسان کو ذمہ دار ٹھہرایا ۔ دواؤں کو مریض کی شفا کے لئے خلق کیا گیا کہ مریض انہیں استعمال میں لاکر تندرستی حاصل کرے اور ان کے ملانے، اور بنانے پر انسان کو ذمہ دار بنایا، اور اس طرح کی دوسری وہ تمام چیزیں جنہیں تم دیکھتے ہو۔

ذرا غور کرو کس طرح بعض چیزوں کو مہیا کیا گیا ہے ، کہ جن کے اندر انسان کی فعالیت کا دخل نہیں ہے جبکہ بعض چیزوں میں انسان کے لئے فعالیت اور عمل کو رکھا ہے اس لئے کہ اسی میں انسان کی بھلائی ہے اگر تمام کام انسان کے لئے آمادہ ہوتے اور کوئی شغل باقی نہ رہتا تو انسان باغی ہوجاتا اور زمین اسے برداشت نہ کرتی، اس لئے کہ وہ زمین پر اس طرح کے کام انجام دیتا کہ خود اس کی زندگی خطرہ میں پڑ جاتی ، اس کے علاوہ یہ کہ انسان کی زندگی خوشگوار اور لذت بخش نہ ہوتی۔ مگر کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص کسی کے گھر مہمان کے طور پر جائے اور ایک مد ت تک وہ اس کے گھر قیام کرے اور جس چیز کی اُسے ضرورت ہو، مثلاً کھانے، پینے ، نوکر وغیرہ کی وہ سب اس کے لئے حاضر ہوں تو وہ اپنی فراغت کی

۷۸

وجہ سے تنگ آجاتا ہے اور اس کا نفس اسے اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کسی نہ کسی کام میں مشغول رکھے تو پھر کس طرح اس کی زندگی گزرتی جبکہ ساری زندگی اُسکی فراغت پر مشتمل ہوتی کہ تمام کام اس کے لئے آمادہ ہوتے، اور وہ کسی بھی چیز کا محتاج نہ ہوتا ، یہ حسن تدبیر ہے کہ جن چیزوں کو انسان کے لئے پیدا کیا گیا ہے اُن میں اُس کے لئے فعالیت و عمل کو رکھا گیا ہے ، تاکہ اس کی فراغت اس کی سستی و کاہلی کا باعث نہ بنے اور ان کاموں میں مشغول رہنا اسے اُن کاموں کے انجام دینے سے بچاتا ہے کہ جن کے انجام دینے پر نہ وہ قادر ہے اور نہ ان میں اس کا کوئی فائدہ ہے ۔

( انسان کا اصلی معاش روٹی اور پانی )

اے مفضل۔ جان لو کہ انسان کا اصلی معاش روٹی اور پانی ہے ، ذرا غور کرو کہ ان میں کس طرح تدبیر استعمال ہوئی ہے۔ یہ بات تو مسلم ہے کہ انسان روٹی سے زیادہ پانی کا محتاج ہوتا ہے اور بھوک پر صبر پیاس پر صبر سے زیادہ کرسکتا ہے، اور جن چیزوں میں انسان پانی کا محتاج ہوتا ہے وہ روٹی کی احتیاج سے کہیں زیادہ ہیں اس لئے کہ پانی پینے، وضو کرنے، غسل کرنے ، لباس دھونے ، چوپاؤں اور کھیتی کو سیراب کرنے اور اس قسم کی بہت سی ضروریات کے استعمال میں آتا ہے اسی وجہ سے پانی فراوان ہے اور خریدا نہیں جاتا ، تاکہ طلب آب کی زحمتیں انسان سے ساقط ہوجائیں، لیکن روٹی کو مشقت میں رکھا کہ وہ اسے اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتا جب تک کہ چارہ اندیشی اور فعالیت سے کام نہ لے، اس لئے کہ انسان کے لئے کوئی شغل ہو کہ جو اسے فراغت ، بیکاری ، فالتو اور بے ہودہ کاموں سے بچائے رکھے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ بچہ ادب سیکھنے سے پہلے ہی معلم کے سپرد کردیا جاتا ہے، باوجود اس کے کہ وہ ابھی بچہ ہے اور ابھی اس کی قوت فہم اور ادراک تعلیم کے لئے کامل نہیں ، ایسا اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ وہ بیہودہ اور فضول کاموں سے محفوظ رہے، اور زیادہ کھیل کود اور بیکار کاموں

۷۹

سے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو زحمت میں نہ ڈالے ، اسی طرح اگر انسان کے پاس کوئی شغل نہ ہوتا تو وہ شرارت اور بیہودہ کاموں کی طرف کھینچا چلا جاتا اور تم اس مطلب کو اس شخص کی زندگی سے درک کرسکتے ہو جو امیرانہ اور خوشگوار زندگی بسر کرتا ہوکہ کس قسم کے کام اُس سے صادر ہوتے ہیں۔

( انسان کا ایک دوسرے سے شبیہ نہ ہونا حکمت سے خالی نہیں )

اے مفضل۔ عبرت حاصل کرو اس سے کہ انسان ایک دوسرے کے مشابہ نہیں جس طرح سے پرندے اور جانور آپس میں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں کہ ہرنوں اور پرندوں کو ایک دوسرے سے پہچانا نہیں جا سکتا، لیکن اگر تم انسانوں کو دیکھو تو وہ شکل و صورت اور خلقت میں مختلف ہیں۔ یہاں تک کہ تم دو آدمیوں کو بھی ایک جیسا نہیں پاؤگے، اس لئے کہ انسان اپنی زندگی میں جسمانی اور صفات کے اعتبار سے پہچانے جانے کا محتاج ہے۔ اس لئے کہ ان کے درمیان معاملات طے ہوتے ہیں لیکن حیوانات کے درمیان کسی بھی قسم کے معاملات طے نہیں ہوتے کہ جس کی وجہ سے وہ پہچانے جانے کے محتاج ہوں، اور کیا تم نہیں دیکھتے کہ پرندوں کا ایک دوسرے سے شبیہ ہونا ان کے لئے کسی قسم کے ضرر کا باعث نہیں بنتا ، لیکن انسان ہرگز اس طرح نہیں ہے۔اس لئے کہ اگر دو آدمی ایک دوسرے کی شبیہ ہوں تو لوگوں کے لئے زحمت کا باعث بن جاتے ہیں، لہٰذا معاملات میں ایک کو دوسرے کے بدلے لے لیا جاتا ہے، اور ایک کو دوسرے کے بدلے میں بے گناہ گرفتار کرلیتے ہیں اور کبھی یہ شباہت دوسرے کاموں میں بھی مداخلت کا باعث بنتی ہے وہ کون ہے؟ جس نے صحیح راہ کی تشخیص کے لیے اپنے بندوں پر لطف کیا اور ایسے لطیف کام انجام دیئے جہاں تک انسان کی رسائی ممکن نہیں ہے سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ جس کی رحمت تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے، اگر تم ایک تصویر کو دیوار پر نقش دیکھو اور کوئی تم سے کہے کہ اس تصویر کا کوئی بنانے والا نہیں ہے بلکہ خود بخود وجود میں آئی ہے تو کیا تم

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

بلكہ يہ امر اجتہاد امت كے سپرد كيا گيا ہے _ سياست ، معاشرہ كے انتظامى امور ، حاكم اور خليفہ كے انتخاب كا طريقہ اور اس كے اختيارات كے متعلق آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعدجو كچھ بھى ہوا ہے وہى حجت ہے كيونكہ يہ سب كچھ رسولخد ا (ص) كے صحابہ كے اجتہاد اور راے كى بناپر ہوا ہے اور ان كا ا جتہاد حجت اور معتبر ہے _

اہلسنت كے سياسى نظام كے دينى نصوص كى بجائے رحلت رسول (ص) كے بعد پيش آنے والے واقعات سے وابستہ ہونے كى وجہ سے سياسى تفكر كے سلسلہ ميں علماء اہلسنت مشكل ميں پڑگئے ہيں كيونكہ يہ سياسى واقعات ايك طرح كے نہيں تھے لہذا ان كے مختلف ہونے كى وجہ سے انكى آراء بھى مختلف ہيں_ بطور مثال خليفہ كے انتخاب كى كيفيت اوراس كى سياسى ولايت كى مشروعيت كے سرچشمے كى طرف اشارہ كيا جاسكتا ہے_

خليفہ اول كا انتخاب سقيفہ ميں موجود بعض مہاجرين و انصار كى بيعت سے عمل ميں آيا _ جبكہ امير المومنين حضرت على ، حضرت ابوذر ،حضرت سلمان، حضرت مقداد اور حضرت زبير جيسے جليل القدر صحابہ اس بيعت كے مخالفت تھے_ خليفہ دوم حضرت ابوبكركى تعيين كے ذريعے منتخب ہوئے خليفہ سوم كا انتخاب اس چھ ركنى شورى كى اكثريت رائے سے عمل ميں آيا جسے حضرت عمر نے بنايا تھا _ جبكہ حضرت على كا انتخاب مہاجرين و انصار كے اتفاق رائے اور عامة الناس كى بيعت سے ہوا _ جيسا كہ آپ نے ملاحظہ فرمايا: خلفاء كے بر سر اقتدار آنے كا طريقہ ايك نہيں تھا _ ان چار خلفاء كے بعد سياسى ولايت كاسرچشمہ مزيد مشكلات اور ابہامات كا شكار ہوگيا كيونكہ معاويہ سميت بہت سے اموى اور عباسى خلفاء نے طاقت اور غلبہ كے زور پر حكومت حاصل كى _ ان كا انتخاب مسلمانوں كى رائے ، بيعت يا اہل حل و عقد كے ذريعہ عمل ميں نہيں آيا_

خلافت اور اس كے انتخاب كے متعلق اہلسنت كے صاحبان نظر كا نظريہ كلى طور پر آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعد پيش آنے والے واقعات سے متاثر ہے _ ان كى ہميشہ يہ كوشش رہى ہے كہ اپنے سياسى نظام كو

۱۰۱

اس طرح پيش كيا جائے كہ وہ ان تمام واقعات كے ساتھ ہم آہنگ ہوسكے_ مثلاً آپ خليفہ كے انتخاب كى كيفيت اور مشروعيت كے متعلق ''ماوردي'' كے كلام كو ديكھيں كہ وہ كس طرح انتخاب خليفہ كے ان مختلف طريقوں كو جمع كرتے ہيںوہ كہتے ہيں :امامت كا اثبات دو طريقوں سے ممكن ہے _ ايك اہل حل و عقد كے اختيار اورانتخاب سے اور دوسرا سابق امام كى وصيت و تعيين سے _ اس دوسرے طريقہ ميں يہ اختلاف پايا جاتا ہے كہ كيا اہل حل و عقد كے اجماع كے بغير خلافت ثابت ہوسكتى ہے؟

حق يہ ہے كہ كسى امام كى امامت و خلافت سابقہ امام كى تعيين سے ثابت ہوجاتى ہے اور اس كيلئے اہل حل و عقد كى رضايت ضرورى نہيں ہے كيونكہ حضرت عمر كى امامت صحابہ كى رضايت پر موقوف نہيں تھى _ دوسرا يہ كہ سابقہ خليفہ بعد والے خليفہ كے تعيّن كا دوسروں كى نسبت زيادہ حق ركھتا ہے_ اور وہ دوسروں يعنى اہل حل و عقد سے زيادہ با اختيار ہے_(۱)

اہل سنت كے نظريہ خلافت كے متعلق دوسرا اہم نكتہ يہ ہے كہ كيا خليفة المسلمين ہونا ،صاحب خلافت كيلئے كسى خاص اخلاقى اور معنوى مقام و منزلت پر دلالت نہيں كرتا؟

صدر اسلام ميں لفظ ''خليفہ ''كو اس كے لغوى معنى ميں استعمال كيا جاتا تھا اور اس پر كوئي خاص معنوى شان و منزلت مترتب نہيں كرتے تھے_ ''خلافت ''لغوى لحاظ سے مصدر ہے_ جس كے معني'' غير كى جانشينى '' اور ''نيابت'' كے ہيں _ خليفہ وہ ہے جو كسى دوسرے كى جگہ پر آئے _بنابريں خليفہ رسول وہ شخص ہے جو آنحضرت(ص) كے بعد مسلمانوں كى قيادت اپنے ہاتھ ميں لے_ خليفہ اول كے بعد خليفہ وہ ہے جو رسولخدا (ص) كے جانشين كے بعد مسلمانوں كا قائد بنے_ يعنى وہ رسولخدا (ص) كے خليفہ كا خليفہ ہے_ خود خلفاء كے كلام

____________________

۱) الاحكام السلطانيہ، ابوالحسن ماوردى ص ،۶و ۱۰ _

۱۰۲

سے بھى ظاہر ہوتا ہے كہ ابتدائے استعمال ميں عنوان ''خليفہ ''كسى خاص معنوى معانى كا حامل نہيں تھا اور آنحضرت (ص) كى ذاتى صفات و كمالات كا حامل ہونے سے حكايت نہيں كرتا تھا_ ليكن امتداد زمانہ كے ساتھ ساتھ حكومتوں كے استحكام كيلئے اس منصب كو معنوى تقدس اور احترام كا لبادہ پہنايا جانے لگا اور خليفہ رسول كو آنحضرت (ص) كے معنوى كمالات كا حامل بھى سمجھا جانے لگا_

آخرى نكتہ جس كى طرف اشارہ ضرورى ہے يہ ہے كہ خلافت اسلاميہ كى تاريخ گواہ ہے ، كہ ايسے افراد بھى بر سر اقتدار آئے جو اگر چہ خليفہ رسول كے نام پر حكومت كر رہے تھے_ ليكن سيرت و كردار ، اور اخلاقى صفات و كمالات كے لحاظ سے نہ صرف رسولخدا (ص) بلكہ ايك عام مسلمان سے بھى كو سوں دور تھے_ يہ مسئلہ خود اس سوال كيلئے كافى ہے كہ اہلسنت جس نظام خلافت پر بہت زور ديتے ہيں اس نظام اور نظام سلطنت و ملوكيت ميں كيا فرق ہے؟ اس ابہام ميں مزيد اضافہ اس بات سے ہوتا ہے كہ نظام خلافت كے حاميوں ميں سے بعض نے تو امام يا خليفہ كى مخصوص شرائط بھى بيان نہيں كيں_ بلكہ بعض كے كلام سے تو يہ ظاہر ہوتا ہے كہ مسلمانوں كے حكمران كى اطاعت كے واجب ہونے ميں اس كا متقى اور عادل ہونا سرے سے شرط ہى نہيں ہے_ ابوبكر باقلانى (م۴۰۳ھ ) جمہور اہل حديث سے نقل كرتے ہيں : ''حاكم يا امام كے فسق و فجور كا ظاہر ہونا، اس كے ہاتھوں نفوس محترمہ كى ہتك حرمت ، حدود الہى كى پائمالى اور لوگوں كے مال كا غصب ہونا اس كى قدرت كے فقدان اور اطاعت سے خارج ہونے كا باعث نہيں بنتا'' _ اس نظريہ كى تائيد كيلئے اہل حديث آنحضرت (ص) اور صحابہ سے منقول روايات كا سہارا ليتے ہيں _ مثلا:

''اسمعوا وأطيعوا و لو لعبد اجدع و لو لعبد حبَشى و صَلُّوا وَرائَ كلّ برّ و فاجر''

۱۰۳

'' حاكم كى اطاعت كرو اگر چہ وہ ناك كٹا غلام ہى كيوں نہ ہو اور اگر چہ وہ حبشى غلام ہى كيوں نہ ہو اور ہر نيك يا بد كے پيچھے نماز پڑھو''_

يا يہ روايت كہ:

''أطعهم و ان أكَلُوا مالَك و ضَرَبُوا ظهرَك'' (۱)

'' حكمرانوں كى اطاعت كرو چاہے انہوں نے تمہارے اموال غصب كئے ہوں اور تمھيں مارا پيٹا ہو''_

مخفى نہ رہےكہ احمد بن حنبل جيسے بعض گذشتہ علماء اہلسنت معتقد ہيں كہ حسن ابن على كے بعد والے حكمرانوں پر خليفہ كا اطلاق مكروہ ہے_ يہ علماء خلافت اور ملوكيت و سلطنت ميں فرق كے قائل ہيں_ ان كى دليل وہ روايت ہے جسے ابوداود اور ترمذى نے آنحضرت (ص) سے نقل كيا ہے :

''الخلافةُ فى أُمتى ثلاثونَ سنة ثمّ ملك بعد ذلك'' (۲)

ميرى امت ميں تيس (۳۰) سال تك خلافت ہے اس كے بعد ملوكيت ہے_

اس كے باوجود اكثر علماء اہلسنت كى عملى سيرت يہ رہى ہے كہ انہوں نے اپنے حكمرانوں اور خلفاء كى اطاعت كى ہے اور ان كى مخالفت كرنے سے پرہيز كيا ہے_ اگر چہ ان ميں سے بہت سے خلفا ء فاسق و فاجر تھے_

____________________

۱) التمہيد فى الردّ على الملحدة، ابوبكر باقلانى ،ص ۲۳۸_

۲) مأثر الانافة فى معالم الخلافہ ، احمد ابن عبداللہ قلقشندى ،ص ۹_

۱۰۴

خلاصہ :

۱) اسلامى علم كلام ميں مسئلہ امامت اس سوال كا جواب ہے كہ كيا اسلامى تعليمات نے رحلت رسو ل (ص) كے بعد سياسى ولايت كے متعلق سكوت اختيار كيا ہے يا نہيں؟

۲) اہلسنت معتقد ہيں كہ سياسى قيادت كا تقرر خود ا مت كے سپرد كيا گيا ہے اور صدر اسلام كے مسلمانوں نے اپنے اجتہاد اور رائے سے ''نظام خلافت ''كا انتخاب كيا_

۳) شيعہ ''نظام امامت ''كے معتقد ہيں اور يہ عقيدہ ركھتے ہيں كہ دينى نصوص نے رحلت رسولخدا (ص) كے بعد مسئلہ امامت كو واضح كرديا ہے_

۴)''امامت ''اہلسنت كے نزديك ايك فرعى مسئلہ ہے جبكہ شيعہ اسے ايك اعتقادى مسئلہ اور اصول دين ميں سے قرار ديتے ہيں_

۵) اہلسنت كے سياسى تفكر اور نظريہ خلافت كى بنياد صحابہ كے عمل پر ہے_

۶) صدر اسلام كے خلفاء كے تعيّن اور طرز انتخاب كے مختلف ہونے كى وجہ سے اہلسنت كا سياسى تفكر ايك جيسا نہيں رہا اور اتفاق نظر سے عارى ہے_

۷) ابتداء ميں لفظ ''خليفہ ''معنوى خصوصيات كا حامل نہيں تھا ليكن مرور زمان كے ساتھ ساتھ خليفہ كو رسولخدا (ص) كے دينى اور معنوى جانشين كے طور پر متعارف كرايا گيا_

۸) بہت سے موارد ميں اہلسنت كے مورد نظر ''نظام خلافت '' اور ''نظام سلطنت'' كے درميان فرق كرنا مشكل ہے_

۱۰۵

سوالات :

۱) مسئلہ امامت ميں اصلى نزاع كيا ہے؟

۲)'' نظام خلافت'' سے كيا مراد ہے؟

۳) اہل تشيع اور اہل تسنن كے نزديكمسئلہ امامت كا كيا مقام ہے؟

۴) سياسى تفكر اور نظريہ خلافت كو بيان كرنے كيلئے اہلسنت نے كس چيز پر اعتماد كيا ہے؟

۵) نظريہ خلافت سے متعلق سياسى ولايت كى مشروعيت كو بيان كرنے ميں اہلسنت كيوں مشكل سے دوچار ہوئے؟

۶) اہلسنت كے در ميان لفظ ''خلافت اور خليفہ'' كے استعمال نے كن راہوں كو طے كيا ہے؟

۷) نظام خلافت كو نظام سلطنت و ملوكيت سے تميز دينے ميں كونسى شئے ابہام كا باعث بنى ہے؟

۱۰۶

بارہواں سبق :

شيعوں كا سياسى تفكر

سياسى ولايت كے سلسلہ ميں آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعد شيعہ ''نظريہ امامت ''كے معتقد ہيں _ شيعہ معتقد ہيں كہ ائمہ معصومين صرف سياسى ولايت اور شان و منزلت كے حامل نہيں تھے بلكہ ان كا ايمان ہے كہ ائمہ معصو مين وحى الہى كے علاوہ آنحضرت (ص) كى تمام صفات و كمالات ميں آپ (ص) كے جانشين ہيں _ بنابريں ائمہ معصومين سياسى ولايت سميت ولايت معنوي، معاشرہ كى دينى راہنمائي اور لوگوں كو دينى حقائق كى تعليم دينے جيسى خصوصيات كے بھى حامل ہيں _ وہ رسولخد ا (ص) كے حقيقى خلفاء ، وارث اور جانشين ہيں اور اس وراثت كا لازمہ يہ ہے كہ معنوى ، علمى اور سياسى اوصاف ميں رسولخدا (ص) كے بعد ائمہ معصومين تمام لوگوں سے افضل ہوں اور امامت اور خلافت نبوى كے منصب كيلئے اپنے دور كے تمام افراد سے زيادہ شائستہ ہوں _ اسى وجہ سے اہلسنت كے بعض علماء نے شيعہ كى تعريف ميں اسى نكتہ كى طرف اشارہ كيا ہے _

ابن حزم '' اہل تشيع'' كى تعريف كرتے ہوئے كہتے ہيں :

۱۰۷

''و مَن وافق الشيعة فى أنّ عليّاً أفضل الناس بعد رسول الله (ص) و أحقّهم بالامامة و وُلده من بعده، فهو شيعى و إن خالفهُم فيما عدا ذلك مما اختلف فيه المسلمون، فإن خالَفَهُم فيما ذكرنا فليس شيعيّاً'' (۱)

جو شخص شيعوں كى اس بات سے اتفاق كرتا ہے كہ رسولخدا (ص) كے بعد على سب سے افضل ہيں_ اور آپ(ع) اور آپ (ع) كى اولاد دوسروں سے زيادہ حقدار امامت ہے وہ شيعہ ہے اگر چہ مسلمانوں كے نزديك مورد اختلاف ديگر چيزوں ميں شيعوں سے اختلاف رائے ركھتا ہو اور اگر وہ اس چيز ميں شيعوں سے اتفاق نہيں كرتا جسے ہم نے ذكر كيا ہے تو وہ شيعہ نہيں ہے_

شيعوں كا سياسى نظريہ اہلسنت كے نظريہ خلافت سے دو بنيادى نكات ميں مختلف ہے پہلانكتہ يہ ہے كہ آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعد امر حكومت اور سياسى ولايت كے متعلق شيعہ دينى نصوص كو ساكت نہيں سمجھتے بلكہ معتقد ہيں كہ آنحضرت (ص) كے بعد خليفہ كے تقرر كے سلسلہ ميں بہت سى معتبر نصوص موجودہيں _ اسى وجہ سے وہ ائمہ معصومين كى ولايت كے جواز كا مبداء و سرچشمہ ،ارادہ الہى اور خدا كى طرف سے تعيين كو سمجھتے ہيں_ اہلبيت كى ولايت اور امامت ايك الہى منصب ہے جيسا كہ امت پر رسولخد ا (ص) كى ولايت كا سرچشمہ الہى تھا اور اس كا جواز لوگوں كى بيعت اور رائے كا مرہون منت نہيں تھا_

دوسرا نكتہ اختلاف يہ ہے كہ شيعوں كى نظر ميں لفظ ''امام'' خليفہ رسول كے حقيقى معنى ميں ہے يعنى معنوي، علمى اور سياسى تمام جہات ميں رسولخدا (ص) كا جانشين _ جبكہ اہلسنت خلفاء كى جانشينى كو اس كے لغوى معنى ميں ليتے ہيں _ يعنى بعد ميں آنے والا _ البتہ ائمہ معصومين كے متعلق شيعوں كے اعتقاد سے متاثر ہوكر

____________________

۱) الفصَل فى الملل و الاہواء و النحل ج ۲، ص ۱۱۳_

۱۰۸

اہلسنت كے بعض علماء نے يہ نظريہ قائم كرليا ہے كہ آنحضرت (ص) كے بعد پہلے چار خُلفاء بالترتيب تمام لوگوں سے افضل ہيں _ حالانكہ اس عقيدہ كا صدر اسلام حتى كہ خليفہ اول اور دوم كے دور ميںبھى كوئي وجود نہيں تھا_ اہلسنت ميں يہ عقيدہ اموى اور عباسى خلفاء كے ذريعہ آيا جس كى تقويت انہوںنے اپنے سياسى اغراض اور شيعوں كى ضد ميں آكر كى انہوں نے اس عقيدہ كى ترويج كى بہت زيادہ كوششيں كيں كہ وہ بھى رسولخدا (ص) كى بعض خصوصيات كے حامل ہيں (۱) _

بہت سى معتبر روايات دلالت كرتى ہيں كہ امامت كا ايك خاص اجتماعى اور ايمانى مقام و منزلت ہے امامت اسلام كے دوسرے فروع اور اجزا كى طرح نہيں ہے _ بلكہ بہت سے احكام اور فروع كا قوام اور اسلام و مسلمين كى اساس ''امامت'' پر ہے _ ہم بطور نمونہ بعض روايات كى طرف اشارہ كرتے ہيں _

مرحوم شيخ كليني جناب زرارہ كے واسطہ سے امام باقر سے نقل كرتے ہيں :

بُنى الاسلام على خمسة أشيائ: على الصلاة و الزكاة و الحجّ والصوم و الولاية قال زرارة: فقلت و أيّ شيء من ذلك أفضل؟ فقال: الولاية أفضل; لانّها مفتاحهنّ والوالى هو الدليل عليهنّ ثمّ قال: ذروة الامر و سنامه و مفتاحه و باب الا شياء و رضا الرحمان الطاعة للامام بعد معرفته ان الله (عزوجل) يقول:( ( مَن يُطع الرَّسولَ فَقَد أطاعَ الله َ و مَن تَولّى فَما أرسلناك عَليهم حَفيظاً ) )(۲)

____________________

۱) الاسلام السياسي، محمد سعيد العشماوى ص ۹۳و ۹۴_

۲) الكافى جلد ۲ صفحہ ۱۸_۱۹، باب دعائم الاسلام حديث ۵ جبكہ حديث ميں مذكور آيت سورہ نساء كى ۸۰ نمبر آيت ہے_

۱۰۹

اسلام كى بنياد اور اساس پانچ چيزوں پر ہے : نماز ، زكوة ، حج، روزہ اور ولايت _

جناب زرارہ كہتے ہيں : ميں نے پوچھا كہ ان ميں سے افضل كونسى چيز ہے ؟ امام نے فرمايا :ولايت سب سے افضل ہے كيونكہ يہ ان تمام كى كنجى ہے اور ولى ان پرراہنمائي كرنے والا ہے پھر فرمايا: امر دين كا بلندترين مرتبہ اور اس كى كنجى ، تمام اشياء كا دروازہ اور خدا كى رضا، امام كى معرفت كے بعد اس كى اطاعت ميں پنہاں ہے _ الله تعالى فرماتا ہے: جس نے رسول كى اطاعت كى اس نے خدا كى اطاعت كى اور جس نے روگردانى كى تو ہم نے تمھيں ان پر نگران بنا كر نہيں بھيجا_

امام رضا ايك حديث ميں امامت كو زمام دين ، مسلمانوں كا نظام حيات ، اسلام كى اساس اور بہت سے احكام كى تكميل كى بنياد قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں :

''انّ الامامة زمام الدين و نظام المسلمين و صلاح الدنيا و عزّ المؤمنين انّ الامامة أسّ الاسلام النامى و فرعه السامي_ بالامام تمام الصلاة و الزكاة والصيام والحجّ والجهاد و توفير الفيء و الصدقات وامضاء الحدود والأحكام و منع الثغوروالاطراف الامام يحلّ حلال الله و يحرم حرام الله و يقيم حدود الله و يذبّ عن دين الله ''(۱)

يقيناً امامت زمام دين ، مسلمانوں كا نظام حيات ، صلاح دنيا اور صاحبان ايمان كى عزت ہے_ امامت اسلام كى نشو و نما كرنے والى جڑ اور اس كى بلندترين شاخ ہے _ نماز، روزہ، حج،زكوة اور جہاد كى تكميل امام كے ذريعہ سے ہوتى ہے _ غنيمت اور صدقات كيشرعى قانون

____________________

۱) الكافى جلد ۱، صفحہ ۲۰۰ ، باب نادرجامع فى فضل الامام وصفاتہ حديث۱ _

۱۱۰

كے مطابق تقسيم ، حدود و احكام كا اجر اء اور اسلامى سرزمين اور اس كى سرحدوں كى حفاظت امام كے وسيلہ سے ممكن ہے _ امام ہى حلال خدا كو حلال اور حرام خدا كو حرام كرتا ہے حدود الہى كو قائم كرتا ہے اور دين كا دفاع كرتاہے_

حضرت على بھى امامت كو امت كا نظام حيات اور اسكى اطاعت كو اسكى تعظيم قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں :

''فَرَضَ الله الإيمان تَطهيراً من الشرك والإمامة نظاماً للأُمة والطاعة تعظيماً للإمامة'' (۱)

الله تعالى نے ايمان كو شرك سے بچنے كيلئے ، امامت كو نظام امت اور اطاعت كو امامت كى تعظيم كيلئے واجب قرار دياہے _

قابل ذكر ہے كہ شيعوں كا سياسى تفكر دو مرحلوں ميں قابل تحقيق ہے _

الف: امام معصوم كے حضور كے زمانہ ميں

ب : امام زمانہ( عجل اللہ فرجہ الشريف ) كى غيبت كے زمانہ ميں

امام كے حضور كے زمانہ ميں سياسى ولايت كے متعلق شيعہ علماء كا نظريہ مكمل طور پر متفقہ اور واضح ہے_ شيعہ نظريہ امامت كے معتقد ہيں اور امت كى ولايت كو امام معصوم كى امامت كا ايك حصہ اور جز سمجھتے ہيں _ تمام وہ حكومتيں جو اس حق خدا كو پامال كر كے تشكيل پائي ہوں انہيں غاصب اور ظالم قرار ديتے ہيں اور اس نظريہ ميں كسى شيعہ عالم كو اختلاف نہيں ہے ، كيونكہ شيعوں كى شناخت اور قوام اسى اعتقاد كى بناپر ہے _وہ شئے جو قابل بحث و تحقيق ہے وہ غيبت كے زمانہ ميں شيعوں كا سياسى تفكر ہے _

____________________

۱ ) نہج البلاغہ حكمت ۲۵۲_

۱۱۱

زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى تفكر :

زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى تفكر اس طرح واضح ، روشن اور متفق عليہ نہيں ہے جس طرح زمانہ حضور ميں ہے _ شيعوں كا كوئي عالم دين ائمہ معصومين كى سياسى ولايت اور امامت ميں شك و ترديد كا شكار نہيں ہے كيونكہ امامت ميں شك تشيّع سے خارج ہونے كے مترادف ہے _ائمہ معصومين كى امامت پر نہ صرف سب كا اتفاق ہے بلكہ تشيّع كى بنياد ہى امامت كے نظريہ پر ہے _ ليكن سوال يہ ہے كہ امام معصوم كى غيبت كے زمانہ ميں بھى ان كى سياسى ولايت كے متعلق يہى اتفاق نظر ہے ؟

حقيقت يہ ہے كہ تمام جہات سے ايسا اتفاق نظر موجود نہيں ہے _ يعنى ايك واضح و ثابت قول كى تمام علماء شيعہ كى طرف نسبت نہيں دى جاسكتى _ كيونكہ اس بحث كے بعض پہلوؤں ميں ان كے در ميان اختلاف پايا جاتا ہے _ آئندہ كى بحثوں ميں آئے گا كہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف كى غيبت كے دوران علماء شيعہ ''فقيہ عادل'' كى ولايت كے قائل ہيں _ اور فقيہ عادل كو امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف كا نائب عام سمجھتے ہيں _ ليكن اس فقيہ عادل كى ولايت كى حدود اور اختيارات ميں اتفاق نہيں ہے _ ولايت فقيہ كى حدود كے سلسلہ ميں ايك واضح اور مشخص نظريہ كى تمام علماء كى طرف نسبت نہيں دى جاسكتى _

ولايت فقيہ كى تاريخ پر بحث كے دوران تفصيل سے آئے گا كہ علماء شيعہ ''اصل ولايت فقيہ'' اور فقيہ عادل كى بعض امور ميں امام معصوم كى جانشينى پر اتفاق نظر ركھتے ہيں _اختلاف اس ميں ہے كہ اس ولايت كا دائرہ اختيار كس حد تك ہے _

بعض بڑے شيعہ فقہاء اس ولايت اور جانشينى كو عام اور ان تمام امور ميں سمجھتے ہيں كہ جن ميں امام كى جانشينى ممكن ہے اور اس طرح فقيہ كى ''ولايت عامہ'' كے قائل ہيں _ جبكہ بعض دوسرے فقہا اس جانشينى كو محدود اور خاص موارد ميں قرار ديتے ہيں _

۱۱۲

مسلمان معاشرے كے اجتماعى اور سياسى امور ميں فقيہ كى سياسى ولايت اس كى ولايت عامہ كے اثبات پر موقوف ہے _ كيونكہ امام معصوم كى خصوصيات ميں سے ايك آپ كى سياسى ولايت بھى ہے اور يہ خصوصيت قابل نيابت ہے _ جبكہ ائمہ معصومين كا مقام عصمت، علم الہى اور معنوى كمالات قابل نيابت نہيں ہيں _ تيسرے باب ميں ہم ولايت فقيہ اور اس كى ادلّہ پر تفصيلى بحث كريں گے _ اسى طرح'' فقيہ عادل'' كا منصب ولايت پر فائز ہونا اور اس كے دائرہ اختيار پر بھى گفتگو كريں گے _

البتہ اس بات كا اعتراف كرنا پڑے گا كہ شيعہفقہا نے ''فقہ سياسي'' يعنى ''فقہ حكومت'' كى مباحث كو اس قدرا ہميت نہيں دى جس طرح دوسرى عبادى اوربعض معاملاتى مباحث كو دى ہے _ بہت سے فقہا نے تو اس قسم كى فقہى فروعات كو بيان ہى نہيں كيا اور انہيں مورد بحث ہى قرار نہيں ديا _ اور اگر بيان بھى كياہے تو بہت مختصر اور اس كے مختلف پہلوؤں اور مسائل كا اس طرح دقيق تجزيہ و تحليل نہيں كيا جس طرح عبادى اور معاملاتى مسائل كا كيا ہے _ يہ بات دوسرے فقہى ابواب كى نسبت ''فقہ سياسي'' كے باب كے ضعف كا باعث بنى ہے _ يقينا اگر شيعوں كے جليل القدر فقہاء دوسرے عبادى ابواب كى طرح '' فقہ الحكومة '' كے باب ميں بھى دقيق بحث كرتے تو آج شيعوں كے سياسى تفكر ميں مزيد ارتكاء ديكھنے كو ملتا _

امويوں اور عباسيوں كے زمانہ ميں حكمرانوں كى طرف سے شيعوں پر اس قدر دباؤ تھا اور ان كے حالات اسقدر ناسازگار تھے كہ اولاً ائمہ معصومين تك دسترسى كے امكان كى صورت ميں بھى تقيہ كى وجہ سے اس قسم كے حساس سياسى مسائل پر گفتگو كرنے سے اجتناب كرتے تھے _ كيونكہ اس سے موجودہ حكومتوں كى واضح نفى ہوتى تھى لہذا اس قسم كے مسائل پر بحث كرنے كيلئے حالات سازگار نہيں تھے _ ثانياً يہ اقليت اس قدر دباؤ اور محروميت كا شكار تھى كہ خود كو بر سر اقتدار لانے اور ايك صحيح دينى حكومت كى تشكيل كو انتہائي مشكل سمجھتى

۱۱۳

تھى لہذا اس نے اپنى تمام تر ہمت اپنى بقا اور غاصب حكومتوں سے نفرت ميں صرف كردى اور حكومتى روابط ، مسائل اور سياسى نظام كے متعلق سوالات كے بارے ميں بہت كم فكر كى _بنابريں عبادى احكام كى نسبت'' فقہ سياسي'' كے متعلق روايات كا ذخيرہ بہت كم ہے _

اسى طرح امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف كى غيبت كے بعد بھى شيعوں كيلئے اجتماعى اور سياسى حالات سازگار نہيں تھے_ لہذا علماء شيعہ نے سياسى مباحث كے پھيلاؤ اور اس كى تحقيقات ميں كوئي خاص اہتمام نہيں كيا _

۱۱۴

خلاصہ :

۱) شيعہ ائمہ معصومين كيلئے سياسى ولايت سے وسيع تر مقام و منزلت كے قائل ہيں _

۲) يہ مخصوص شان و منزلت جو ان كى افضليت كے اعتقاد كا باعث ہے _ شيعہ كى پہچان ہے اور امامت كے متعلق شيعہ اور سنى كے درميان وجہ افتراق يہى ہے _

۳) مكتب اہلبيت اور معصومين كى روايات كى روشنى ميں امامت ايك عظيم اجتماعى اور دينى شان ومنزلت كى حامل ہے اور سياسى ولايت ميں محدود نہيں ہے _

۴) شيعوں كا سياسى تفكر دو مرحلوں ميں قابل تحقيق ہے _

الف : امام معصوم كے زمانہ ظہور ميں

ب : زمانہ غيبت ميں

۵) زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى تفكر زمانہ حضور ميں سياسى تفكر كى طرح واضح اور روشن نہيں ہے _

۶) زمانہ غيبت ميں تمام شيعہ علمائ'' اصل ولايت فقيہ ''كے قائل ہيں ليكن اس ولايت كے دائرہ اختيار ميں اختلاف نظر ركھتے ہيں _

۷) شيعہ علماء كے درميان ''سياسى فقہ'' كے متعلق مباحث كى كمى كى وجہ ظالم اور فاسق حكومتوں كا دباؤ ہے _

۱۱۵

سوالات :

۱) اہل تشيع كے نظريہ'' امامت ''اور اہلسنت كے نظريہ ''خلافت ''كے در ميان دو بنيادى فرق بيان كيجيئے _

۲) روايات اہلبيت نے امامت كيلئے كونسى اجتماعى اور ايمانى شان و منزلت كو بيان كيا ہے ؟

۳) شيعوں كے زمانہ حضور اور زمانہ غيبت كے سياسى تفكر ميں كيا فرق ہے ؟

۴) زمانہ غيبت ميں ولايت فقيہ كے متعلق علماء شيعہ كے درميان وجہ اشتراك اور وجہ اختلاف كيا ہے ؟

۵) شيعہ علماء كے درميان عبادى مباحث كى نسبت ''سياسى فقہ'' كى مباحث كے كم ہونے كى وجہ كيا ہے ؟

۱۱۶

تيرہواں سبق:

سياسى ولايت كى تعيين ميں بيعت اور شورى كا كردار -۱-

اہلسنت كے سياسى نظريہ كى وضاحت كے دوران ميں اس نكتہ كى طرف اشارہ ہو چكا ہے كہ وہ آنحضرت (ص) كے بعد سياسى ولايت كے سلسلہ ميں دينى متون كو ساكت سمجھتے ہيں اور معتقد ہيں كہ سياسى ولايت كا كام خود امت كے سپرد كيا گيا ہے _ شورى يعنى ''اہل حل و عقد'' كى رائے اور'' بيعت مسلمين ''اسلامى حاكم كى تعيين كرتے ہيں _ واضح ہے كہ ايسا دعوى شيعہ عقائد كے ساتھ سازگار نہيں ہے _ علم كلام كى كتابوں ميں امامت كے متعلق جو معتبر اور متعدد ادلّہ قائم كى گئي ہيں وہ اس دعوى كو بے معنى قرار ديتى ہيں _ ائمہ معصومين كى امامت ''انتصابى ''يعنى خدا كى طرف سے مقرركردہ ہے_ لوگوں كى بيعت صرف امام كے اختيارات كو عملى جامعہ پہنانے ميں مددگار ثابت ہوتى ہے اوراس كا امامت كى حقيقت ميں كوئي كردار نہيں ہوتا_ ليكن سوال يہ ہے كہ كيا امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف كى غيبت كے دوران بھى اس دعوے كو تسليم كيا جاسكتا ہے ؟ اور كيازمانہ غيبت ميں سياسى ولايت كا اختيار خود شيعوں كو حاصل ہے اور بيعت اور شورى سياسى رہبر كا انتخاب كرے گي؟ يہ بحث اس مفروضہ كى بناپر ہے كہ ائمہ معصومين كى نيابت عامہ موجود نہيں ہے اور روايات كى روسے فقيہ

۱۱۷

عادل كو ولايت تفويض نہيں كى گئي _

اس سبق اور اگلے سبق ميں ہم ان دونكتوں كى تحقيق كريں گے _ پہلا يہ كہ كيا روايات ميں اس دعوى كے تسليم كرنے پر كوئي دليل موجود ہے ؟ اور كيا زمانہ غيبت ميں بيعت اور شورى ''سياسى زندگي'' كا تعيّن كرسكتے ہيں ؟ دوسرا يہ كہ اصولى طور پر اسلام كے سياسى تفكر ميں بيعت اور شورى كا كيا كردار ہے ؟

حضرت اميرالمومنين سے بعض ايسى روايات منقول ہوئي ہيں جو صريحاً كہتى ہيں كہ سياسى ولايت كا حق خود امت كو حاصل ہے _ لہذا اگر مسلمانوں كى شورى كسى كو مقرر كردے اور لوگ اس كى بيعت كرليں تو وہى مسلمانوں كا حاكم اور ولى ہے _ اس قسم كى روايات كى تحقيق سے پہلے ضرورى ہے كہ بيعت اور اس كى اقسام كے متعلق مختصر سى وضاحت كردى جائے _

بيعت كا مفہوم اور اس كى اقسام :

بيعت ايك قسم كا عہد و پيمان اور عقد ہے جو ظہور اسلام سے پہلے عرب قبائل ميں رائج اور مرسوم تھا لہذا يہ ايسا مفہوم نہيں ہے جسے اسلام نے متعارف كروايا ہو _ البتہ متعدد مواقع پر سيرت نبوى (ص) نے بيعت مسلمين كو شرعى جواز بخشا ہے _

بيعت اور بيع لفظ ''باع'' كے دو مصدر ہيں اسى وجہ سے بيعت كا مفہوم بڑى حد تك بيع كے مفہوم سے مطابقت ركھتا ہے جو كہ خريد و فروخت كے معنى ميں ہے _ بيع وہ عقد اور معاملہ ہے جس ميں فروخت كرنے والے اور خريدار كے در ميان مال كا تبادلہ ہوتا ہے _ اسى طرح بيعت وہ معاملہ ہے جو ايك قوم كے رہبر اور اس كے افراد كے درميان قرار پاتا ہے اس بنياد پر كہ بيعت كرنے والے اپنى اطاعت ، اپنے وسائل و امكانات اور اموال كو اس كے زير فرمان قرار دے ديتے ہيں_

۱۱۸

جس طرح بيع (خريد و فروخت)ميں معاملہ كرنے والوں كے درميان ابتدا ميں قيمت اور دوسرى شرائط طے پاتى ہيں پھر معاملہ انجام پاتا ہے _ '' غالباًيہ معاملہ گفتگو كے ذريعہ انجام ديا جاتا ہے ليكن كبھى كبھى فعل يعنى صرف عملى طور پر بھى انجام پاتا ہے كہ جسے بيع معاطات كہتے ہيں ''_ بيعت ميں بھى اسى طرح پہلے گفتگو ہوتى ہے اور تمام شرائط پر رضايت حاصل كى جاتى ہے پھر دوسرے كے ہاتھ ميں ہاتھ دے كر اپنى رضايت كا اقرار كيا جاتا ہے _ اس طرح بيعت ہوجاتى ہے يہ معاہدہ بيعت مختلف طرح كا ہوسكتا ہے اسى لئے ہميں بيعت كى مختلف قسميں ديكھنے كو ملتى ہيں _بيعت كى جو قسم غالب اور رائج ہے وہ مقابل كى سياسى ولايت كو قبو ل كرنے سے متعلق ہے_ عربوں كے در ميان ايك شخص بيعت كے ذريعہ دوسرے شخص كى سياسى ولايت كو قبول كرليتا تھا _ سقيفہ ميں حضرت ابوبكر كى بيعت ، قتل عثمان كے بعد امير المومنين حضرت على كى بيعت اور خليفہ كے تعيّن كے لئے حضرت عمر نے جو شورى تشكيل دى تھى اس ميں عبدالرحمن ابن عوف كا حضرت عثمان كى بيعت كرنا يہ سب خلافت اور سياسى ولايت پر بيعت كرنے كے موارد ہيں_ ليكن بيعت صرف اسى قسم ميں منحصر نہيں ہے كيونكہ كبھى بيعت اس لئے كى جاتى تھى تا كہ دشمن كے مقابلہ ميں جہاد اور ثابت قدمى كا عہد ليا جائے _ جس طرح بيعت رضوان كا واقعہ ہے جو كہ حديبيہ كے مقام پر ۶ ہجرى ميں لى گئي_ سورہ فتح كى اٹھارہويں آيت ميں اس كى طرح اشارہ ہے _

( ''لَقَد رَضيَ الله ُ عَن المؤمنينَ اذيُبا يعُونَك تَحْتَ الشَّجرة فَعَلمَ ما فى قلُوبهم فا نْزَلَ السَّكينَةَ عَلَيْهم'' )

خدا صاحبان ايمان سے راضى ہوگيا جب وہ درخت كے نيچے تيرى بيعت كر رہے تھے جو كچھ ان كے دلوں ميں تھاوہ اسے جانتا تھا پس اس نے ان پر سكون نازل كيا _

۱۱۹

۶ ہجرى تك مسلمانوں پر رسولخدا (ص) كى سياسى اور دينى قيادت اور ولايت كو كئي سال گذر چكے تھے _ لہذا يہ بيعت آنحضرت (ص) كو سياسى قيادت سونپے كيلئے نہيں ہوسكتى _ جناب جابر جو كہ اس بيعت ميںموجود تھے كہتے ہيں : ہم نے يہ بيعت اس بناپر كى تھى كہ دشمن كے مقابلہ ميں فرار نہيں كريںگے_ ''بايَعنا رسول الله (يَومَ الحُدَيبية) على ا ن لانَفرّ'' (۱) _

بعض اوقات بيعت كا مقصد ايك شخص كى اس كے دشمنوں كے مقابلہ ميں حمايت اور دفاع كا اعلان كرنا ہوتاتھا _ جس طرح بعثت كے تيرہويں سال مقام عقبہ ميں اہل يثرب كے نمائندوں نے آنحضرت (ص) كى بيعت كى تھى _(۲)

بيعت كى ان تمام اقسام ميں يہ بات مشترك ہے كہ ''بيعت كرنے والا ''بيعت كى تمام طے شدہ شرائط كا پابند ہوتا ہے _ بيعت ايك ايسا عہد و پيمان ہے جس كا پورا كرنا بيعت كرنے والے كيلئے ضرورى ہوتا ہے _

بيعت كے مفہوم كى وضاحت كے بعد ان بعض روايات كو ذكر كرتے ہيں جن سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ اسى شخص كى ولايت قابل اعتبار ہے جس كى لوگ بيعت كر ليں _ ظاہرى طور پر يہ روايات ''نظريہ انتخاب'' كى تائيد كرتى ہيںيعنى سياسى ولايت كے تعيّن كا حق خود مسلمانوں كو دياگيا ہے _

نظريہ انتخاب كى مؤيد روايات

امير المومنين حضرت على فرماتے ہيں :

''إنّه بايعنى القوم الذين بايعوا أبابكر و عمر و عثمان على ما

____________________

۱) جامع البيان ابن جرير طبري، جلد ۲۶، صفحہ ۱۱۰، ۱۱۳ مذكورہ آيت كے ذيل ميں_

۲) السيرة النبويہ، جلد۲، صفحہ ۸۴،۸۵_

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175