توحید مفضل

توحید مفضل33%

توحید مفضل مؤلف:
زمرہ جات: توحید
صفحے: 175

توحید مفضل
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 175 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 131267 / ڈاؤنلوڈ: 6125
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

اس بات کا یقین کروگے؟ ہرگز نہیں بلکہ اس کا مذاق اڑاؤ گے پس کس طرح تم ایک تصویر کے بارے میں اس بات کے منکر ہوجاتے ہو اور کہتے ہو کہ یہ خود بخود وجود میں نہیں آسکتی ، لیکن جو انسان ناطق ہے اس کے بارے میں اس طرح کے اقوال کے منکر نہیں ہوتے۔

( حیوان کا جسم ایک حد معین پر رک جاتا ہے )

اے مفضل۔ اگر یہ فیصلہ کرلیا جائے کہ حیوان کے اندر کوئی تدبیر استعمال نہیں ہوئی تو وہ حیوانات جو ہمیشہ کھاتے پیتے ہیں ، کیونکر ان کے جسم ایک خاص و معین حد پر پہنچ کر رک جاتے ہیں اور رشد و نمو نہیں کرتے اور ہرگز اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتے؟ بے شک یہ حکیم کی تدبیر ہے کہ تمام حیوانات کے جسم چاہے وہ حیوانات چھوٹے ہوں یا بڑے ایک حد تک نشوونما کرتے ہیں اور اس کے بعد وہ اس حد سے تجاوز نہیں کرتے ، جبکہ وہ ساری زندگی کھاتے پیتے ہیں ، ایسا اس لئے ہے کہ اگر جانور ہمیشہ رشد ونمو کرتے تو ان کے جسم بہت زیاد بڑے ہوجاتے اور ان کا قیافہ ایک دوسرے سے مشتبہ ہوتا، اور ان میں سے کسی ایک کے لئے بھی حد معین کی شناخت نہ ہوتی ، آخر کیوں انسان کا جسم راہ چلتے حرکت کرتے اور دقیق کاموں کے وقت سنگین ہوجاتا ہے ؟ سوائے اس کے کہ انسان کو اپنی زندگی میں جن چیزوں کی ضرورت ہے، جیسے لباس، لحاف، کفن وغیرہ کو حاصل کرنے میں اسے سختی و مشقت کا سامنا کرنا پڑے ، اس لئے کہ اگر انسان کو سختی و مشقت کا سامنا کرنا نہ پڑتا تو پھر کون سی چیز اُسے فحش باتوں سے روک سکتی تھی اور کس طرح وہ خدا کے سامنے تواضع اور لوگوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آتا، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جب انسان کو سختی و پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ خضوع و خشوع کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اپنے مال کو صدقہ کرتا ہے اب مفضل۔ ذرا سوچو تو سہی اگر انسان کو مارنے کے باوجود درد محسوس نہ ہوتا تو پھر بادشاہ کس وسیلے سے مجرم کو اس کے کیے کی سزا دیتا، اور کس طرح طغیانگر افراد کو

۸۱

ذلیل کیا جاتا، اور کس طرح کوئی غلام اپنے آقا و مولا کے سامنے اپنے آپ کو ذلیل سمجھتا اور اپنی گردن کو اس کے سامنے جھکائے رکھتا، کیا ابن أبی العوجاء اور اس کے ساتھیوں کے لئے یہ حجت و دلیل کافی نہیں؟ کہ جو خداوند متعال کی تدبیر کا انکار کرتے ہیں ، اور اس گروہ مانویہ کے لئے جو درد و ألم کا انکار کرتے ہیں(وہ کہتے ہیں کہ انسان کو کسی بھی قسم کا درد و ألم نہیں ہوناچاہیے تھا )

اگر حیوان نر اور مادہ کی شکل میں پیدا نہ ہوتے تو کیا ان کی نسل منقطع نہ ہوجاتی، لہٰذا خداوند متعال نے حیوانات میں سے بعض کو نر اور بعض کو مادہ کی صورت میں پیدا کیا تاکہ حیوانات کی نسل کا سلسلہ باقی رہے اور منقطع ہونے نہ پائے اگر ان تمام کاموں میں تدبیر نہ ہوتی تو پھر کیونکر مرد و زن جب حد بلوغ پر پہنچتے ہیں تو ان کے زیر شکم بال اُگتے ہیں ، پھر مرد کے داڑھی اُگتی ہے جبکہ عورت کے نہیں اُگتی ، یہ اس لئے کہ خداوند متعال نے مرد کو عورت کے لئے سرپرست و نگہبان قرار دیا ہے۔ اور عورت کو مرد کے لئے عروس و تحفہ قرار دیا۔ پس مرد کو داڑھی عطا کی، جس میں مرد کے لئے جلالت و ہیبت و عزت ہے لیکن عورت کو داڑھی اس لئے عطا نہ کی تاکہ اس کے چہرے کی زیبائی اور خوبصورت باقی رہے اور اس میں اپنے شوہر کے لئے ایک لذت ہو، کیا تم نہیں دیکھتے کہ خلقت میں کس طرح ہر چیز تدبیر و حکمت کے مطابق ہے اور خطاء لغزش کا کوئی راستہ اُس میں دیکھائی نہیں دیتا، خداوند متعال اپنی تدبیر و حکمت کے تحت انسان کو وہی کچھ دیتا ہے جس کی اسے ضرورت ہے۔

مفضل کا بیان ہے کہ اس وقت وقت ِ زوال آپہنچا، میرے آقا ومولا نماز کے لئے کھڑے ہوگئے، آپ نے فرمایا تم کل صبح سویرے میرے پاس آجاؤ (انشاء اللہ) میں اپنے مولا کی خدمت سے ان تمام چیزوں پر خوشحال واپس پلٹا جو میں نے حاصل کیں اور آپ نے مجھے تعلیم کیں۔ میں خداوند متعال کا شکر گزار تھا اس پر جو کچھ اس نے مجھے عطا کیا اور یہ کہ اپنی نعمتیں مجھے بخشیں اور جو کچھ مجھے میرے آقا و مولا نے مجھے تعلیم دی اور اس رات میں ان تمام چیزوں پر جو مجھے عطا کی گئیں ، مسرور و خوشحال سویا۔

۸۲

( روز دوّم )

۸۳

۸۴

مفضل کا بیان ہے کہ میں دوسرے دن صبح سویرے امام ـ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، اجازت لینے کے بعد آپ کی زیارت سے شرفیاب ہوا ، آپ نے مجھے بیٹھنے کے لئے کہا پھر امام ـ نے فرمایا: بیشک تمام تعریفیں اُس خدائے بزرگ کے لئے ہیں جو مدبر ہے جو ایک زمانے کے بعد دوسرے زمانے ایک طبقے کے بعد دوسرے طبقے اور ایک عالم کے بعد دوسرے عالم کا لانے والا ہے، تاکہ برے لوگوں کو اُن کے برے اعمال کے مطابق سزا دی جائے اور نیک اور اچھے افراد کو اُن کے نیک اور اچھے اعمال کے بدلے اجر وثواب عطا کیا جائے اور یہ سب باتیں اُس کے عدل کی بنیاد پر ہیں کہ جس کے أسماء پاک و پاکیزہ اور جس کی نعمتیں بے شمار ہیں جو ہرگز اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا مگر یہ کہ بندے خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں ، اس بات کی روشن دلیل اس کی آیتیں ہیں (کہ وہ فرماتا ہے )

( فَمن یَعْمَلْ مثقال ذرة خیراً یرا (٧) وَ مَن یَعْمَل مثقال ذرة شراً یره )(٨)

جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی تو اُسے دیکھ لے گا(۱)

اور اس قسم کی دوسری آیتیں کہ جن میں ہر چیز کا بیان موجود ہے جو خالق حکیم و حمید کی طرف سے نازل شدہ ہیں جن میں کسی بھی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں اور اسی بارے میں ہمارے سید و سردار حضرت محمد مصطفی (ص) ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ سوائے تمہارے أعمال کی جزاء کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہ جو روز قیامت تمہاری طرف پلٹائی جائے گی۔ مفضل کا بیان ہے کہ پھر کچھ دیر امام ـ نے اپنے سر کو جھکائے رکھا اور ارشاد فرمایا: اے مفضل ، لوگ نافرمانی اور سرکشی میں پڑے ہوئے ہیں، شیاطین اور طاغوت کی اتباع کرتے ہیں ، گویا یہ ایسے بینا ہیں جو اندھے ہیں اور نہیں دیکھتے اور ایسے کلام کرنے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورہ زلزال۔

۸۵

والے ہیں جو گونگے ہیں اور فکر نہیں رکھتے ، اور ایسے سننے والے ہیں جو بہر ے ہیں اور نہیں سنتے یہ لوگ دنیا کی پستی پر راضی ہوگئے ، اور گمان کرتے ہیں کہ وہ نیک اور ہوشیار ہیں اور اُن کاشمار ہدایت یافتہ لوگوں میں ہوتا ہے اس کے باوجود کہ وہ برے کاموں کی طرف اس طرح مائل اور غرق ہیں کہ جیسے وہ موت کے آنے سے أمن و امان میں ہیں اور ہر طرح کی جزاء و سزا سے بری ہیں ! صد افسوس ایسے لوگوں پر جن کے دل سخت ہوگئے ہیں اور وہ اس دن سے لاپروا ہیں کہ جس دن کی مصیبت طولانی اور شدید ہے ، جس دن کوئی دوست کسی دوست کے کام نہ آئے گا ، اور نہ کسی کی یاری و ہمدردی قبول کی جائے گی، سوائے اس کے کہ جس پر خدا اپنا رحم کرے۔

مفضل کا بیان ہے کہ امام ـ کے ان الفاظ نے مجھ پر گہرا اثر کیا اور میں گریہ کرنے لگا، امام ـ نے ارشاد فرمایا: اے مفضل گریہ نہ کرو اس لئے کہ تم ان تمام چیزوں سے بری ہو، کیوں کہ تم نے معرفت و شناخت کے ذریعے حقیقت کو قبول کیا اور نجات پائی ۔

( حیوانات کی خلقت )

پھر آپ نے فرمایا: اے مفضل ۔ اب میں تمہیں حیوانات کی خلقت کے بارے میں بتاتا ہوں تاکہ وہ تم پر اُسی طرح واضح ہوجائے جس طرح سے اس کے علاوہ دوسری تمام باتیں تم پر واضح اور روشن ہوچکی ہیں۔

( اے مفضل) فکر کرو حیوان کے بدن کی ساخت پر کہ کس طرح خلق کیا گیا ہے ، نہ زیادہ سخت مثل پتھر کے کہ اگر ایسا ہوتا تو حیوان کے لئے حرکت کرنا زحمت و مشقت کا باعث بنتا، اور وہ ہرگز اپنے کاموں کو بآسانی انجام نہیں دے سکتا تھا اور نہ ہی اتنا زیادہ نرم و نازک بنایا کہ وہ حمل اور باربرداری کے کام میں استعمال نہ کیا جاسکے پس خداوند متعال نے اس طرح کی تدبیر کی کہ اسے ظاہری طور پر نرم

۸۶

گوشت سے پیدا کیا اور اس کی کمر میں ایک ایسی مضبوط ہڈی کو رکھا جسے رگوں اور اعصاب نے گھیرا ہوا ہے جو ایک دوسرے کو مضبوطی سے گرفت میں لئے ہوئے ہیں اور اُس کے اُوپر ایک ایسی کھال کے لباس کو پہنایا جو تمام بدن کا احاطہ کئے ہوئے ہے، اس کی مثال لکڑی کی سی ہے جس پر کپڑا لپیٹ کر دھاگے سے مضبوطی سے باندھ دیا جائے اور اس کے اوپر گوند لگایا جائے تو لکڑیاں ، ہڈیوں کی مانند، کپڑا گوشت کی مانند، دھاگہ رگ و عصاب کی مانند اور گوند کھال کی مانند ہے ، اگر یہ بات ان حیوانات کے بارے میں کہی جائے کہ یہ محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں اور کسی صانع اور خالق نے انہیں پیدا نہیں کیا۔ تو پھر ضروری ہے کہ بالکل یہی بات اُن تصاویر اور مجسموں کے بارے میں کہی جائے جو بے جان ہیں لیکن جب یہ بات بے جان تصاویر و مجسموں کے بارے میں کہنا صحیح نہیں ، تو پھر حیوانات کے بارے میں تو بدرجہ اولیٰ صحیح نہیں ہے۔

( حیوان کو ذہن کیوں نہ عطا کیا گیا )

اے مفضل ۔ اب تم حیوانات کے جسم پر غور کرو انہیں انسان کے لئے پیدا کیا گیا ہے لہٰذا جس طرح ان کے بدن کو گوشت ، ہڈی ، اعصاب عطا کئے اسی طرح انہیں کان اور آنکھ بھی عطا کئے، تاکہ انسان انہیں اپنی ضرویات کے استعمال میں لاسکے، اس لئے کہ اگر حیوانات بہرے، اندھے ہوتے تو انسان ان سے ہرگز فائدہ نہیں اُٹھا سکتا تھا اور خود حیوانات بھی اپنے کاموں کو انجام نہیں دے سکتے تھے لیکن انہیں ذہن عطا نہیں کیا گیا، تاکہ وہ انسان کے سامنے جھکے رہیں اور جب انسان اُن سے باربرداری کا کام لے تو یہ اسے انجام دینے سے منع نہ کریں اب اگر کوئی یہ کہے کہ بعض غلام بھی تو ایسے ہیں کہ جو انسان کے سامنے ذلیل ہیں اور سخت ترین کاموں کو انجام دینے کے لئے تیار ہیں ، جبکہ وہ صاحب عقل ہیں؟ تو اس سوال کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس قسم کے افراد بہت کم ہیں۔ اور اکثر افراد اس قسم

۸۷

کے سخت ترین کام مثلاً باربرداری، چکی چلانا وغیرہ کے انجام دینے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں اس کے علاوہ یہ کہ اگر اس قسم کے سخت کام بھی کہ جنہیں حیوانات انجام دیتے ہیں انسان کو انجام دینے پڑتے تو وہ دوسرے کاموں کو انجام نہیں دے سکتا تھا، اس لئے کہ ایک اونٹ یا خچرکی جگہ پر کئی آدمیوں کو کام کرنا پڑتا اور یہ کام انسانوں کو اس قدر مشغول رکھتا کہ جس کی تھکن ، سختی ، تنگی اور مشقت کی وجہ سے انسان کے پاس اتنا وقت باقی نہ رہتا کہ وہ صنعت یا دوسرے کاموں کو انجام دے سکے۔

( تین قسم کے جاندار کی خلقت )

اے مفضل ، تین قسم کے جاندار اور اُس تدبیرپر کہ جن کے تحت انہیں پیدا کیا گیا ہے ، غوروفکر کرو جس میں ان تینوں کی بھلائی ہے۔

( ۱ ) انسان : جس کے لئے ذہانت و ادراک کو مقدر کیا تاکہ مختلف کام مثلاً تعمیرات ، تجارت ، بڑھئی کاکام ، سنہار کا کام او اس قسم کے دوسرے کام انجام دے ، لہٰذا اس کے لئے ہتھیلی ، پنجہ اور محکم انگلیاں پیدا کیں ، تاکہ وہ چیزوں کو پکڑ سکے اور مختلف چیزیں ایجاد کرکے انہیں محکم بنائے۔

( ۱ ) گوشت کھانے والے جانور: جن کی تقدیر میں یہ رکھا گیا ہے کہ یہ اپنی زندگی شکار کرکے بسر کریں تو ان کے لئے چھوٹی انگلیوں والے پنجے اور چنگال کی مانند ناخن عطا کئے گئے ، جو شکار کو پکڑنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں کہ جو صنعت کے لئے ہرگز مناسب نہیں۔

( ۳ ) گھاس کھانے والے جانور: جو نہ صاحب صنعت ہیں اور نہ شکاری لہٰذا اُن میں سے بعض کو ایسے سُم عطا کئے جن میں شگاف ہے ، تاکہ اُن حیوانات کو چرتے وقت زمین کی سختی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور بعض کے پاؤں انسان کے پاؤں سے شباہت رکھتے ہیں تاکہ یہ جانور زمین پر ٹھہر سکیں

۸۸

اور اُن سے باربرداری کی جاسکے ۔ اے مفضل ، فکر کرواس تدبیر پر کہ جو گوشت کھانے والے جانوروں کی خلقت میں استعمال ہوئی ہے ، تیز دانت ، چھوٹی مگر محکم انگلیاں اور وسیع و بزرگ منہ انہیں عطا کیا گیا ، یہ اس لئے کہ ان کی غذا گوشت ہے لہذا انہیں اس طرح کے اعضاء و جوارح عطا کیے کہ جو شکار کرنے میں ان کے مددگار ہوں۔ جیسا کہ بالکل یہی بات تم اُن پرندوں میں دیکھتے ہو جو درندہ صفت ہیں، کہ ان کے لئے بھی خصوصی چنگال خلق کیاگیا ہے تاکہ شکار کو پکڑنے اور پھاڑنے کے کام آئے ، اگر گھاس کھانے والے جانوروں کو جو نہ شکار کرتے ہیں اور نہ ہی گوشت کھاتے ہیں ، شکاری پرندوں کی طرح چنگال عطا کیا جاتا تو ان کے پاس یہ ایک زائد اور فضول چیز ہوتی کہ جس کی انہیں بالکل ضرورت نہیں ، بالکل اس طرح یہ بات بھی حکمت سے خالی ہوتی کہ اگر اُن حیوانات کو کہ جو درندہ صفت ہیں وہ چیزیں عطا نہ کی جاتی کہ جن کے وہ محتاج ہیں یعنی وہ چیزیں جن کے ذریعے وہ شکار کرکے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ ان جانوورں کے لئے تمام اُن چیزوں کو فراہم کیا گیا ہے جو ان کے لئے مناسب اور ضروری تھیں یا یوں کہا جائے کہ جن کے اندر ان کی بقاء اور بھلائی تھی۔

( چوپائے )

اب ذرا چوپاؤں پر غور کرو کہ کس طرح اپنے والدین کی اتباع کرتے ہیں اور مستقل راہ چلتے ہیں اور حرکت کرنے میں مشغول رہتے ہیں اور ہرگز اپنی زندگی میں والدین کے حمل و نقل اور ان کی تربیت کے محتاج نہیں ہوتے جس طرح سے انسان اپنی زندگی میں والدین کی تربیت کا محتاج ہوتا ہے ایسا اس لئے ہے کہ چوپاؤں کی ماں کہ پاس وہ سب کچھ نہیں ہوتا کہ جو انسان کی ماں کے پاس موجود ہے، مثلاً علم تربیت، ہاتھوں اور انگلیوں کی قوت اور کیوں کہ یہ تمام چیزیں حیوان کے پاس موجود نہیں لہٰذا اُن کے بچوں کو ایسی قوت عطا کی کہ وہ خود مستقل طور پر کھڑے ہوتے ہیں اور بغیر ماں کی مدد کے راہ چلتے

۸۹

ہیں اور بالکل اسی چیز کا مشاہدہ تم بہت سے پرندوں میں بھی کروگے ، مثلاً خانگی مرغی، تیتر اور قیچ(۱) وغیرہ کے بچے انڈے سے باہر آتے ہیں اور راہ چلنے لگتے ہیں اور دانہ چگتے ہیں لیکن وہ پرندے کہ جو ان سے زیادہ ضعیف اور لاغر ہیں کہ جن میں نہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت ہے اور نہ پرواز کی مثلاً پالتو کبوتر، جنگلی کبوتر اور حمّر(۲) کے بچے، کہ ان کی ماں کے دل میں ان کی اتنی زیادہ محبت رکھی کہ تم اس بات کا مشاہدہ کرو گے کہ وہ خود اپنے بچوں کے منہ میں غذا دیتی ہے اور غذا دینے کا یہ عمل اُس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک اِ ن کے بچے خود غذا کو چگنے کی صلاحیت پیدا کرلیں اور وہ خود مستقل ہوجائیں کبوتر کو خانگی مرغی کی طرح بچے بھی زیادہ عطا نہ کئے تاکہ وہ اپنے تمام بچوں کی پرورش اچھی طرح کرسکے، اور وہ فاسد ہو کر ہلاک ہونے سے محفوظ رہیں یہ خداوند حکیم و خبیر کی عظیم تدبیر ہے کہ اُس نے ہر ایک کو وہی تمام چیزیں عطا کیں جو اس کے لئے شائستہ اور مناسب ہیں۔

( چوپاؤں کی حرکت )

اے مفضل۔ ذرا حیوانات کے پاؤں کی طرف دیکھو کہ جب وہ راہ چلتے ہیں تو دونوں پاؤں دو دو کرکے آگے بڑھاتے ہیں کہ اگر ایک ایک کرکے آگے بڑھاتے تو راہ چلنا ان کے لئے دشواری کا باعث بنتا اس لئے کہ حیوانات راہ چلتے وقت بعض کو حرکت اور بعض پاؤں پر تکیہ کرتے ہیں اور جن حیوانات کے دو پاؤں ہیں وہ ایک پاؤں کو حرکت اور دوسرے پاؤں پر تکیہ کرتے ہیں ، چوپائے جن دو پاؤں کو حرکت دیتے ہیں وہ اُن دو پاؤں سے مختلف ہیں کہ جن پر وہ تکیہ کرتے ہیں اس لئے کہ اگر وہ اگلے دو پاؤں کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ چکور کی طرح مرغی کی ایک قسم۔

(۲)۔ سرخی مائل پرندہ۔

۹۰

حرکت دیتے اور پچھلے دو پاؤں پر تکیہ کرتے یا اس کے خلاف ہوتا تو جانور کسی بھی صورت میں زمین پر نہیں ٹھہرسکتا تھا، جس طرح سے تخت کہ اگر اس کے ایک طرف کے دونوں پائے نکال لیے جائیں تو تخت فوراً زمین پر گر جائے ا سی وجہ سے حیوانات راہ چلتے وقت دائیں ہاتھ اور بائیں پیر، بائیں ہاتھ اور دائیں پیر کو ایک ساتھ حرکت دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ زمین پر ٹھہرے رہتے ہیںاور نہیں گرتے۔

( حیوانات کس طرح اپنے سر کو انسان کے سامنے جھکائے ہوئے ہیں )

اے مفضل۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ گدھا چکی کو چلاتے وقت اپنی کس قدر قوت اُس میں لگاکر وزن کھینچتا ہے۔ گھوڑا ، کس طرح اپنے سر کو انسان کے سامنے جھکائے ہوئے ہے۔ اونٹ ، اگر فرار کرنے پر آجائے تو کئی مرد اس کی طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتے لیکن کس طرح ایک بچہ کی مانند مطیع و فرمانبردار دکھائی دیتا ہے، اور بالکل اسی طرح بیل کہ جو بے انتہاء قوی اور طاقت ور ہے ، مگر کس طرح اپنے مالک کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے فرمانبردار بنا ہوا ہے کہ کھیتی باڑی کے سخت تختے کو اپنی گردن پر بار کئے ہوئے زراعت کا کام انجام دیتا ہے ، گھوڑا کس طرح تیروں اور تلواروں کے درمیان ٹھہرا رہتا ہے اور وہ اپنے مالک کی اس بات پر راضی ہے کہ وہ اسے اس کام میں استعمال کرے اور بھیڑوں کا ریوڑ کہ جسے ایک آدمی چراتا ہے کہ اگر یہ ریوڑ منتشر ہوجائے اور ان میں سے ہر ایک الگ سمت فرار کرے تو چرواہا انہیں کبھی جمع نہیں کرسکتا،ا ور اس قسم کے دوسرے تمام حیوانات جنہیں انسان کا مطیع بنایا گیا ہے۔

اے مفضل کیا تمہیں معلوم ہے کہ آخر وہ انسان کے سامنے کیوں کر اپنا سر جھکائے ہوئے ہیں؟

اس لئے کہ وہ عقل و فکر نہیں رکھتے کہ اگر وہ عقل و فکر رکھتے تو بہت سے کاموں کو انجام نہ دیتے اونٹ اپنے مالک ، بیل اپنے مالک اور گوسفند اپنے ریوڑ سے فرار کرجاتا اور اس کے علاوہ یہ کہ یہ تمام جانور انسان کے خلاف ایک ہوجاتے، اور انسان کو ہلاک کردیتے کہ جب شیر، بھیڑیا، چیتا اور ریچھ سب

۹۱

ایک ہوجاتے تو کون ان کے مقابلہ میں ٹھہرتا، اب ذرا غور کرو کہ خدواند متعال نے کس طرح انہیں یہ سب کرنے سے روکا ہوا ہے بجائے اس کے کہ انسان ان سے ڈرتے وہ انسان سے ڈرتے ہیں اور ا س سے دور بھاگتے ہیں اور فقط اپنی غذا کی تلاش میں رات کے وقت باہر نکلتے ہیں ۔

ہاں، وہ اس قدر قوی اور طاقتور ہونے کے باوجود بھی انسان سے ڈرتے ہیں اور انسان کی طرف رُخ نہیں کرتے ورنہ یہ انسان کو تنگ کرکے رکھ دیتے۔

( کتّے میں صفت ِ مہر و محبّت )

اے مفضل۔تمام حیوانات میں سے کتے کو اپنے مالک کے لئے ایک خاص مہر و محبت عطا کی ہے تاکہ وہ اپنے مالک کی حفاظت کرے، اور یہ کتا گھر میں بھی آمدو رفت رکھتا ہے اور یہ خاص طور پر رات کی تاریکی میں اپنے مالک کو خوف وہراس سے بچاتا ہے اور اس کی محبت اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ اپنے مالک کے قدموں پر اپنی جان قربان کردیتا ہے، اور نہ فقط مالک سے بلکہ مالک کے مال سے بھی اُلفت رکھتا ہے اور اس کی الفت کی انتہاء تو یہ ہے کہ اگر اسے بھوکا رکھا جائے اور اس پر شدید ظلم کیا جائے تو بھی صبر کا مظاہرہ کرتا ہے، کتے میں اس صفت اُلفت و محبت کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے تاکہ وہ انسان کے لئے حفاظت کا کام انجام دے، اسی لئے کتے کے بدن کو اس قسم کے آلات مثلاً تیزدانت، درندہ جیسے چنگال اور خوفناک آواز عطا کی تاکہ چور اُس جگہ جانے سے اجتناب کرے اور خوف محسوس کرے کہ جہاں کتا پہرہ دے رہا ہو۔

۹۲

( حیوانات کی شکل و صورت )

اے مفضل ، اب ذرا حیوانات کی شکل و صورت پر غور کرو آنکھیں سامنے چہرے پر قرار دی گئی ہیں تاکہ تمام چیزوں کو آسانی سے دیکھ سکیں اور سامنے کی کسی چیز سے نہ ٹکرائیں یا یہ کہ گڑھے میں گرنے سے محفوظ رہیں اور ان کے منھ کو نیچے کی طرف کھلنے والا بنایا کہ اگر ان کا منھ بھی انسان کے منھ کی طرح سامنے کی طرف کھلتا تو وہ ہرگز زمین سے کسی بھی چیز کو نہیں اُٹھا سکتے تھے، مگر کیا تم نہیں دیکھتے کہ انسان اپنے منھ سے چیزوں کو اُٹھا کر نہیں کھا سکتا بلکہ غذا کھانے میں اپنے ہاتھوں سے مدد لیتا ہے ، اور یہ وہ فضیلت و برتری ہے جو انسان تمام کھانے والوں پر رکھتا ہے ، اور کیوں کہ حیوانات کے ہاتھ نہیں کہ وہ غذا کو زمین سے اُٹھا کر کھا سکیں لہٰذا اُن کے منھ کو نیچے کی طرف کھلنے والا بنایا تاکہ گھاس کو زمین سے اُٹھا سکیں اور اُن کے ہونٹوں میں ایسی قوت کو رکھا کہ جس کی مدد سے وہ نزدیک اور دور پڑی ہوئی چیزوں کو بآسانی اپنی طرف کھینچ سکتے ہیں۔

( جانوروں کو دُم کی ضرورت )

اے مفضل۔ جانوروں کی دُم اور اس کے فائدہ سے عبرت حاصل کرو، یہ دُم حیوان کی شرمگاہ پر پردے کی مانند ہے کہ جو اسے چھپائے ہوئے ہے اور دُم کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ حیوان کے شکم اور شرمگاہ کا درمیانی حصہ آلودہ ہوتا ہے جس پر مکھی اور مچھر جمع ہوتے ہیں اور یہ دُم انہیں اس جگہ سے دور کرنے کے عمل کو انجام دیتی ہے اور پھر حیوانات دُم کو حرکت دینے سے راحت و سکون محسوس کرتے ہیں اس لئے کہ جانور چاروں ہاتھوں پیروں پر کھڑے ہوتے ہیں، اگلے دو ہاتھ بدن کا

۹۳

وزن اُٹھاتے ہیں جن میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی لہٰذا حیوانات دُم کو دائیں اور بائیں حرکت دے کر راحت و سکون حاصل کرتے ہیں۔ دُم میں حیوانات کے لئے اور بھی بہت سے فائدہ ہیں جن کے ادراک سے عقل قاصر ہے کہ جو ضرورت پڑنے پر ظاہر ہوتے ہیں مثلاً اُس وقت کہ جب حیوان دلدل وغیرہ میں پھنس جائے تو دُم سے بہتر دوسری کوئی چیز نہیں جس سے پکڑ کر اُسے کھینچ لیا جائے اور دُم کے بالوں میں بھی انسان کے لئے بہت سے فائدہ ہیں جس سے انسان اپنی ضرورت پوری کرتا ہے، خداوند متعال نے اس کی کمر کو ہموار وقرار دیا اور پھر اسے ہاتھ اور پاؤں پر کھڑا کیا تاکہ سواری اورباربرداری کے کام آسکے اور ا س کی شرمگاہ کو پشت سے نمایاں رکھا تاکہ اس کے نر کو مقاربت کرتے وقت پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے کہ اگر اس کی شرمگاہ بھی زیر شکم عورت کی طرح ہوتی تو اس کا نر اس سے ہرگز مقاربت نہیں کرسکتا تھا، کیا تم نہیں دیکھتے کہ حیوان اپنی مادہ کے ساتھ روبرو ہو کر مقاربت نہیں کرسکتے جس طرح انسان اپنی زوجہ کے ساتھ کرتا ہے۔

( ہاتھی کی سونڈ کا حیرت انگیز عمل )

اے مفضل۔ غور وفکر کرو ہاتھی کی سونڈ اور اس میں استعمال شدہ لطیف تدبیر پر کہ وہ غذا کو اُٹھا کر منھ میں لے جانے کے لئے ہاتھ کی مانند ہے کہ اگر یہ نہ ہوتی تو ہاتھی کسی بھی چیز کو زمین سے اُٹھا کر نہیں کھا سکتا تھا، اس لئے کہ ہاتھی دوسرے حیوانات کی طرح گردن نہیں رکھتا کہ جسے زمین کی طرف بڑھائے پس گردن نہ ہونے کی وجہ سے اُسے لمبی سونڈ عطا کی گئی تاکہ اُس کی مدد سے وہ اپنی ضروریات کو پورا کرسکے، پس کون ہے وہ ذات جس نے اُس عضو کے عوض کہ جو موجود نہیں دوسرا عضو عطا کیا جو اُس کی کمی کو پورا کرتاہے؟ سوائے اس کے اور کوئی نہیں جو اپنی مخلوق پر رؤف و مہربان ہے پھر کس طرح سے اس عمل کو اتفاق کا نتیجہ کہا جائے جس طرح سے ستمگران کہتے ہیں۔

۹۴

اگر کوئی یہ سوال کرے کہ ہاتھی کو دوسرے چوپاؤں کی طرح گردن کیوں نہ عطا کی گئی؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہاتھی کا سر اور کان بہت وزنی ہیں کہ اگر یہ گردن کے اوپر ہوتے تو گردن کو توڑ ڈالتے اور ناکارہ بنادیتے، لہٰذا خداوند متعال نے ہاتھی کے سر کو دھڑ سے جوڑدیا، تاکہ ہاتھی کو سر اور کان کی سنگینی کا سامنا کرنا نہ پڑے اور سونڈ کو گردن کی جگہ قرار دیا تاکہ وہ غذا کو کھا سکے گویا حیوان کو گردن نہ ہونے کی صورت میں اسے ایک ایسی چیز عطا کی جو اس کی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔

اب ذرا دیکھو کہ کس طرح ہاتھی کی مادہ کی شرمگاہ کو زیر شکم قرار دیا کہ جب یہ مقاربت چاہتی ہے تو اس کی شرمگاہ اُبھر کر آشکار ہوجاتی ہے تاکہ اس کا نر اس کے ساتھ مقاربت کرسکے۔ عبرت حاصل کرو اس سے کہ کس طرح ہاتھی کی مادہ کی شرمگاہ کو زیر شکم دوسرے چوپاؤں کے برخلاف قرار دیا پھر اس میں اس خصلت کو رکھا کہ وہ اس عمل کے لئے تیار رہے کہ جس میں اُس کی نسل کی بقاء ہے۔

( زرافہ،خداوند عالم کی قدرت کا عظیم شاہکار )

اے مفضل۔ زرافہ کی خلقت ، اس کے مختلف اعضاء اور اس کے اعضاء کی دوسرے حیوانات کے اعضاء سے شباہت پر غور کرو کہ اس کا جسم گھوڑے کی مانند، اس کی گردن اونٹ کی مانند،اس کے پاؤں گائے کی طرح اور اس کی کھال چیتے کی سی ہے۔ خداوند حکیم سے غافل بعض افراد یہ کہتے ہیں کہ اس قسم کے حیوانات مختلف نر و مادہ کے ملاپ کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں اور ایسا اُس وقت ہوتا ہے کہ جب جانور پانی پینے کے لئے دریاؤں اور ندیوں کا رُخ کرتے ہیں اور وہاں یہ جانور مستی میں آجاتے ہیں اور مقاربت کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اس قسم کے جانور وجود میں آتے ہیں دراصل ان کا مطلب یہ ہے کہ زرافہ اور اس قسم کے دوسرے جانور درحقیقت کئی جانوروں کی مقاربت کا نتیجہ ہیں، اس قسم کی گفتگو کرنا ا نکی غفلت اور نادانی کا ثبوت ہے جبکہ اس قسم کے حیوانات ایک دوسرے سے ہرگز مقاربت

۹۵

نہیں کرتے ، نہ گھوڑا اونٹ سے، اور نہ اونٹ گائے سے مقاربت کرتا ہے، سوائے ان چند حیوانات کے جو ایک دوسرے کی شبیہ ہیں جو آپس میں ایک دوسر سے مقاربت کرتے ہیں ، جیسے گھوڑا ، گدھے کے ساتھ مقاربت کرتا ہے کہ جس کے نتیجے میں خچر وجود میں آتا ہے، اور بھیڑیا بجو کے ساتھ مقاربت کرتا ہے کہ جس کے نتیجے میں سمع(۱) وجود میں آتا ہے تو پس ان حیوانات کے ملاپ سے جو بھی جانور وجود میں آتے ہیں وہ ان دونوں کی شبیہ تو ہوتے ہیں مگر اس طرح نہیں کہ ایک عضو ایک جانور کی شبیہ اور دوسرا عضو دوسرے جانور کی شبیہ ہو کہ جیسا کہ زرافہ میں مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ ایک عضو گھوڑے کی طرح ، دوسرا عضو اونٹ کی طرح اور تیسرا عضو گائے کی طرح، بلکہ وہ جانور جو دو مختلف ملاپ سے وجود میں آتے ہیں وہ ان دونوں کی شبیہ ہوتے ہیں بالکل اُسی طرح جس طرح سے تم خچر میں اس چیز کا

مشاہدہ کرتے ہو کہ اس ،سر، کان، اور پیر گدھے اور گھوڑے کے متوسط ہیں اور اس کی آواز گدھے اور گھوڑے کی آواز سے مل کر بنی ہے، پس زرافہ میں اس قسم کی چیز کانہ ہونا اس بات پر دلیل ہے کہ وہ کئی جانوروں کے ملاپ سے وجود میںنہیں آیا جس طرح سے جاہل و غافل افراد گمان کرتے ہیں ۔

( بندر انسان کی شبیہ )

اے مفضل۔ فکر کروبندر کی خلقت اور اُس کی شباہت پر جو وہ انسان سے بہت سے اعضاء میں رکھتا ہے، ان اعضاء سے مراد سر وصورت ، کندھا اور سینہ ہے اور بندر کے جسم کا اندرونی حصہ بھی انسان کے جسم کے اندرونی حصے سے شباہت رکھتا ہے اور بندر ایک مخصوص شباہت جو انسان سے رکھتا ہے وہ اس کا ادراک اور ذہن ہے جس کے ذریعے وہ اپنے مالک کے اشارے کو سمجھتا ہے اور وہ انسان کے بہت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بجو کی طرح کا ایک جانور

۹۶

سے کاموں کی حکایت کرتا ہے مختصر یہ کہ بندر کی خلقت انسان کی خلقت سے شباہت رکھتی ہے اس قسم کی حکمت و تدبیر اس جانور میں اس لئے رکھی ہے تاکہ انسان اس سے عبرت حاصل کرے اور اس بات کو جان لے کہ اس کی طینت بھی حیوانات میں سے ہے اور ان کی خلقت بھی حیوانات کی خلقت سے مشابہ ہے ، اگر وہ شرف و فضیلت جو خداوند عالم نے اپنے فضل وکرم سے عقل و ذہن وفکر و نطق کے ذریعہ انسان کو عطا نہ کیا ہوتا تو انسان جانوروں کی شبیہ ہوجاتا یقینا بندر کے جسم میں کچھ چیزیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ جو اسے انسان سے جدا کرتی ہیں مثلاً نیچے کی طرف کھلنے والا منھ، لمبی دُم اور وہ بال جو بندر کے تمام جسم کو ڈھانپے ہوئے ہیں اگر بندر کا ذہن ،انسان کے ذہن کی مانند ، اس کی عقل ،انسان کی عقل کی طرح ، اس کی قوت نطق ، انسان کی قوت نطق کی طرح ہوتی تو کچھ زیادہ چیزیں اُسے انسان سے جد ا کرنے میں رکاوٹ نہ بنتیں ، پس انسان اور بندر کے درمیان درحقیقت اگر کوئی فرق ہے تو وہ بندر کے ناقص العقل اور قوت نطق کے نہ ہونے میں ہے۔

( حیوان کا لباس اور جوتے )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو خداوند متعال کے لطف و کرم پر کہ کس طرح اُس نے حیوانات کو بالوں پشم اور کُرک کا لباس زیب تن کیا ،تاکہ یہ لباس انہیں سردی اور دوسری آفتوں سے محفوظ رکھے، اور انہیں سموں کی مدد سے پاؤں کی برہنگی سے محفوظ کیا کیوں کہ وہ ہتھیلی اور انگلیاں نہیں رکھتے کہ جس کے ذریعے جوتے کی سلائی کرسکیں، لہٰذا اُن کی خلقت ہی میں انہیں ایسا جوتا پہنایا کہ جب تک وہ زندہ ہیں وہ جوتا بھی باقی ہے اور اس کے بدلے وہ نیا جوتا پہننے کی ضرورت نہیں رکھتے، لیکن انسان کیوں کہ اہل فن ہے اس کی ہتھیلی اور انگلیاں اس قسم کے کاموں کو انجام دے سکتی ہیں وہ اپنا لباس سیتا ہے انہیں مختلف حالات کے تحت بدلتا رہتا ہے اور اس میں اس کے لئے کئی فائدے بھی ہیں من جملہ یہ کہ وہ

۹۷

لباس بنانے کی مصروفیت کی وجہ سے عبس اور بیہودہ کاموں سے بچا رہتا ہے اور اس کا اس کام میں مصروف رہنا اسے شرارت اور سرکشی سے بچاتا ہے اور لباس کے اتارنے اور پہننے میں اس کے لئے راحت و سکون ہے۔ اور پھر انسان اپنے لئے کئی قسم کے لباس تیار کرکے اپنے لئے زینت و خوبصورتی فراہم کرتا ہے، مختصر یہ کہ انہی کاموں میں اس کے لئے لذت و آرام ہے اور پھر جوتے کی صنعت میں اس کے لئے ذریعہ معاش کا بندوبست بھی ہے کہ وہ کام کرکے اپنے اہل و عیال کی پرورش کرے ، خلاصہ یہ کہ بال، پشم ، کُرک حیوانات کے لئے لباس اور سُم جوتے کی جگہ ہیں۔

( حشرات الارض اور درندوں کا مرتے وقت حیرت انگیز عمل )

اے مفضل۔ چوپاؤں کی عجیب و غریب خلقت پر غوروفکر کرو کہ کس طرح مرتے وقت اپنے آپ کو پوشیدہ کرتے ہیں جس طرح سے انسان اپنے مردوں کو دفن کرتا ہے پس اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کہاں ہیں اُن وحشی درندوں کے لاشے کہ جو دکھائی نہیں دیتے اور وہ اس قدر کم تعداد میں بھی نہیں کہ جس کی وجہ سے وہ دکھائی نہ دیتے ہوں اور اگر کسی نے کہا کہ وہ تعداد میں انسانوں سے زیادہ ہیں تو اُس نے جھوٹ نہیں کہا، وہ سب جو تم بیابان اور پہاڑوں پر دیکھتے ہو ذرا شمار کرو اور اُن سے عبرت حاصل کرو جیسے ہرنوں کا گروہ، پہاڑی اور جنگلی گائیں، بارہ سنگھا، پہاڑی بکریاں اور اس قسم کے دوسرے وحشی درندے جیسے شیر، چیتا، بھیڑیا، وغیرہ اور مختلف اقسام کے حشرات الارض اور کیڑے مکوڑے اور اسی طرح مختلف قسم کے پرندے جیسے کوا، کبوتر، بطخ، سارس اور دوسرے ایسے پرندے کہ جو درندہ صفت ہیں (جیسے عقاب وغیرہ) کہ جب وہ مرتے ہیں تو دکھائی نہیں دیتے مگر ایک یا دو کہ جنہیں شکاری شکار کرلیتا ہے، یا کوئی درندہ انہیں پھاڑ دیتا ہے، ہاں جب یہ حیوانات اپنے اندر موت کے اثرات کو محسوس کرتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو ایک پناہ گاہ کی طرف کھینچتے ہیں اور مخفی ہوجاتے ہیں اور وہیں مرجاتے

۹۸

ہیں ، اگر ایسا نہ ہوتا تو بیابان حیوانات کے لاشوں سے پُر ہوجاتے اور ان کی بدبو سے ہوا فاسد ہوجاتی اور مختلف بیماریاں وجود میں آتیں، ذرا غور کرو اس امر پر کہ جس کی رسائی انسان تک ہابیل و قابیل کے قصے سے ہوئی کہ خداوند متعال نے کوے کو اس بات پر مأمور کیا کہ وہ قابیل کو بتائے کہ وہ اپنے قتل کئے ہوئے بھائی کی لاش کو زمین میں دفن کرے اور اولاد آدم اس طرح عمل انجام دے، پس کس طرح حیوانات کی طبیعت میں اس غریزہ کو رکھا گیا تاکہ انسان ان کے ناگزیر اثرات سے محفوظ رہے۔

( گوزن(۱) کا پیاسے ہونے پر حیرت انگیز عمل )

اے مفضل۔ بعض حیوانات کی ہوشیاری اور ان کی چالاکی پر غور کرو جو خداوند متعال نے اپنے لطف و کرم سے انہیں عطا کی تاکہ اس کی کوئی مخلوق بھی اس کی نعمتوں سے محروم نہ رہ جائے جانوروں کی یہ چالاکی اور ہوشیاری خود ان کی عقل اور تأمل سے نہیں بلکہ تمام چیزیں اس مصلحت کی وجہ سے ہیں کی جو ان کی خلقت میں استعمال ہوئی ہے۔

اب ذرا دیکھوکہ یہ گوزن جو سانپ کو کھاتا ہے اور کھانے کے بعد شدید پیاسا ہوجاتا ہے لیکن پھر بھی پانی پینے سے اپنے آپ کو روکتا ہے اس لئے کہ وہ ڈرتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ زہر اس کے سارے بدن میں سرایت کرجائے، اور اُسے ہلاک کردے پس وہ پیاس کی شدت سے پانی کے گڑھے کے کنارے کھڑا رہتا ہے اور آہ وبکا کرتا ہے لیکن پھر بھی پانی پینے سے اپنے آپ کو روکتا ہے کہ اگر پانی پی لے تو اُسی وقت ہلاک ہوجائے، اب ذرا غور کرو اس جانور کی طبیعت پر کہ جو موت کے ڈر سے تشنگی کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)بارہ سنگھا،جنگلی گائے،وغیرہ

۹۹

غالب ہونے کے باوجود پانی نہیں پیتا اور یہ وہ مرحلہ ہے کہ جہاں شاید صابر انسان بھی اپنے آپ پر قابو نہ پاسکے۔

( لومڑی کس چالاکی سے اپنی غذا حاصل کرتی ہے )

اے مفضل۔ لومڑی کے ہاتھ جب غذا نہیں لگتی تو وہ اپنے آپ کو مردہ جیسا بناکر لیٹ جاتی ہے اور اس طرح پیٹ میں ہوا بھرتی ہے کہ پرندے یہ سمجھیں کہ وہ مردہ ہے ، اور جیسے ہی وہ لومڑی پربیٹھتے ہیں تاکہ وہ اسے پھاڑ ڈالیں اور کھالیں تو ایسی صورت میں لومڑی بلافاصلہ ان پرندوں پر جھپٹتی ہے اور ان کا شکار کرلیتی ہے وہ کون ہے جس نے بے زبان و بے عقل لومڑی کو یہ حیلہ و چالاکی سکھائی؟ سوائے اس کے کہ جو اس کی روزی کا ذمہ دار ہے، کہ وہ اسے اس حیلہ و چالاکی اور دوسرے وسیلہ کے ذریعہ روزی پہنچاتا ہے اس لئے کہ لومڑی دوسرے حیوانات کی طرح اپنے شکار کے سامنے مقابلہ کی قوت نہیں رکھتی، لہٰذا اسے زندگی بسر کرنے کے لئے یہ حیلہ و چالاکی سکھائی۔

( دریائی سور کے غذا حاصل کرنے کا طریقہ کار )

اے مفضل۔ دریائی سور جب یہ چاہتا ہے کہ کسی پرندہ کا شکار کرے تو اس کی چالاکی یہ ہوتی ہے کہ وہ مچھلی کا شکار کرتا ہے اور اسے مار دیتا ہے اور پھر اس کے شکم کو اس طرح چاک کرتا ہے کہ وہ پانی پر باقی رہے اور خود اُس کے نیچے چھپ جاتا ہے اور آہستہ آہستہ پانی کو ہلاتا رہتا ہے کہ وہ پانی کے نیچے دکھائی نہ دے، اور انتظار کرتا ہے یہاں تک کہ پرندہ مچھلی کے لاشے پر بیٹھتا ہے کہ اُسے کھالے ایسی صورت میں دریائی سور بلافاصلہ اس پرندہ پر جھپٹتا ہے اور اس کا شکار کرلیتا ہے ، اے مفضل۔ ذرا اس حیلہ و

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

امام محمد باقر نے پیغمبر سے منقول روایت کی وضاحت میں فرمایا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : ''کُل مَولودٍ یُولدُ عَلیٰ الفِطرَة ''(۱) ''ہر بچہ توحیدی فطرت پر متولد ہوتا ہے '' پھر آپ نے فرمایا:''یعنِی المَعرفَة بِأنّ اللّٰه عَزّو جلّ خَالقُه'' مراد پیغمبر یہ ہے کہ ہر بچہ اس معرفت و آگاہی کے ساتھ متولد ہوتا ہے کہ اللہ اس کا خالق ہے ۔

حضرت علی فرماتے ہیں کہ:''کَلمةُ الخلاص هِی الفِطرَة'' (۲) خداوند عالم کو سمجھنا انسانی فطرت کا تقاضا ہے ۔

بعض مشترکہ فطری عناصر کا پوشیدہ ہونا

معرفت شناسی سے مرتبط مباحث میں اسلامی حکماء نے ثابت کیا ہے کہ انسان کی فکری معرفت اس کی ذات کے اندر ہی پوشیدہ اور قابلیت کے طور پر موجود ہے اور مرور ایام سے وہ ظاہر ہوتی ہے ۔ دینی متون کے اعتبار سے بھی انسان ،اپنی پیدائش کے وقت ہر قسم کے ادراک اور علم سے عاری ہوتا ہے ۔

( وَ اللّٰهُ أَخرَجَکُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِکُم لا تَعلَمُونَ شَیئاً وَ جَعَلَ لَکُم السَّمعَ وَ الأبصَارَ وَ الأفئِدَةَ لَعَلَّکُم تَشکُرُونَ ) (۳)

اور خدا ہی نے تم کو مائوں کے پیٹ سے نکالاجب کہ تم بالکل نا سمجھ تھے اور تم کوسماعت ، بصارت اوردل عطا کئے تاکہ تم شکر کرو۔

ممکن ہے یہ توہّم ہو کہ اس آیت کا مفہوم انسان کے متولد ہونے کے وقت ہر طرح کی معرفت سے عاری ہونا ہے، لہٰذا یہ خداوند عالم کی حضوری و فطری معرفت کے وجود سے سازگار نہیں

____________________

(۱)کلینی ، محمد بن یعقوب ؛ اصول کافی ؛ ج۲ ص ۱۳۔

(۲)نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۱۰

(۳)سورہ نحل ۷۸۔

۱۴۱

ہے، لیکن جیسا کہ بعض مفسرین نے بیان کیا ہے کہ مذکورہ آیہ انسان کی خلقت کے وقت تمام اکتسابی علوم کی نفی کرتی ہے لیکن یہ امکان ہے کہ انسان سے علم حضوری کے وجود کی نفی نہ کرتی ہو ،اس مطلب کی دلیل یہ ہے کہ کان اور قلب کو انسان کی جہالت بر طرف کرنے والے اسباب کے عنوان سے نام لیاہے اس لئے کہ اکتسابی علم میں ان اسباب کی ضرورت ہے ،گویا آیہ خلقت کے وقت آنکھ ،کان اور دوسرے حواس سے حاصل علوم کی نفی کرتی ہے لیکن انسان سے حضوری علوم کی نفی نہیں کرتی ہے۔

تقریباً یہ بات اتفاقی ہے کہ انسان کے اندر موجودہ فطری اور طبیعی امور چاہے وہ انسان کے حیوانی پہلو سے مرتبط ہوں جیسے خواہشات اور وہ چیزیں جو اس کی حیوانیت سے بالا تر اور انسانی پہلو سے مخصوص ہیں خلقت کے وقت ظاہر اور عیاں نہیں ہوتے ہیں ،بلکہ کچھ پوشیدہ اور مخفی صلاحیتیںہیں جو مرور ایام سے دھیرے دھیرے نمایاں ہوتی رہتی ہیں جیسے جنسی خواہش اور ہمیشہ زندہ رہنے کی تمنا ، لہٰذا وہ چیز جس کی واضح طور پرتائید کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ فطری امور انسان کی خلقت کے وقت موجود رہتے ہیں ،لیکن خلقت کے وقت ہی سے کسی بھی مرحلہ میں ان کے فعال ہونیکے دعوے کے لئے دلیل کی ضرورت ہے ۔(۱)

____________________

(۱)وہ چیزیں جوفطری امور کے عنوان سے مورد تحقیق واقع ہوچکی ہیں وہ انسان کی فطری و ذاتی خصوصیات تھیں ۔ لیکن یہ جاننا چاہیئے کہ فطری وصف کبھی انسانی خصوصیات کے علاوہ بعض دوسرے امور پر صادق آتا ہے ، مثال کے طور پر کبھی خود دین اور شریعت اسلام کے فطری ہونے کے سلسلہ میں گفتگو ہوتی ہے اور اس سے مراد انسان کے وجودی کردار اور حقیقی کمال کی روشنی میں ان مفاہیم کی مناسبت و مطابقت ہے ،انسان کی فطری قابلیت و استعداد سے اسلامی تعلیمات اور مفاہیم شریعت کا اس کے حقیقی کمال سے مربوط ہونا نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی مختلف فطری اور طبیعی قوتوں کی آمادگی ، ترقی اور رشد کے لئے ایک نسخہ ہے '' شریعت ، فطری ہے '' اس کے یہ معنی ہیں کہ انسان اور اس کے واقعی اور فطری ضرورتوں میں ایک طرح کی مناسبت و ہماہنگی ہے ، ایسا نہیں ہے کہ فطرت انسان میں دینی معارف و احکام بالفعل یا بالقوة پوشیدہ ہیں ۔

۱۴۲

انسان کی فطرت کا اچھا یا برا ہونا

گذشتہ مباحث سے یہ نکتہ واضح ہوجاتاہے کہ ''سارٹر''جیسے وجود پرست ''واٹسن ''(۱) جیسے کردار و فعالیت کے حامی ''ڈورکھیم ''جیسے'' معاشرہ پرست ''اور''جان لاک''(۲) کی طرح بعض تجربی فلاسفہ کے اعتبار سے انسان کو بالکل معمولی نہیں سمجھنا چاہیئے کہ جو صرف غیر ذاتی عناصر و اسباب سے تشکیل ہواہے بلکہ انسان فکری اعتبار سے اور فطری عناصر میں طاقت و توانائی کے لحاظ سے حیوان سے فراتر مخلوق ہے ۔ چاہے بعض عناصر بالفعل یا بالقوت ہوں یا ان کے بالفعل ہونے میں بیرونی اسباب اورعوامل کے کار فرماہونے کی ضرورت ہو ۔ جو لوگ انسان کو معمولی سمجھتے ہیں انہوں نے اصل مسئلہ کو ختم کردیا اور خود کو اس کے حل سے محفوظ کرلیا ،بہر حال تجربی اور عقلی دلائل ، تعلیمات وحی اور ضمیر کی معلومات اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ انسان بعض مشترکہ فطری عناصر سے استوارہے ۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا انسانوں کی مشترکہ فطرت و طبیعت فقط نیک اور خیر خواہ ہے یا فقط پست و ذلیل ہے یا خیر و نیکی اور پستی و ذلت دونوں عناصر پائے جاتے ہیں ؟

''فرایڈ ''کے ماننے والوں کی طرح بعض مفکرین ''تھامس ہابز ''(۳) کی طرح بعض تجربی فلاسفہ اور فطرت پرست ، لذت پسند سود خور افراد انسان کی فطرت کو پست اور ذلیل سمجھتے ہیں ''اریک فروم'' جیسے فرایڈ کے جدید ماننے والے ''کارل روجرز''(۴) اور'' ابراہیم مزلو''(۵) کی طرح انسان پرست اور ''ژان ژاک روسو''(۶) کی طرح رومینٹک افراد ، انسان کی فطرت کو نیک اور خیر خواہ اور اس کی برائیوں کو نادرست ارادوں کا حصہ یا انسان پر اجتماعی ماحول کا رد عمل تصور کرتے ہیں ۔(۷)

____________________

(۱) Watson

(۲) John Loke

(۳) Thomas Hobbes

(۴) Kart Rogers

(۵) Abraham Maslow

(۶) Jean Jacques Rousseau

(۷)اسی فصل کے ضمیمہ میں ان نظریات کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔

۱۴۳

ایسا لگتا ہے کہ مذکورہ دونوں نظریوں میں افراط و تفریط سے کام لیا گیاہے ۔ انسان کی فطرت کو سراسر پست و ذلیل سمجھنا اور ''ہابز ''کے بقول انسان کو انسان کے لئے بھیڑیا سمجھنا نیزاکثر انسانوں کی بلند پروازی کی تمنا اور عدالت پسندی کی طرح اعلی معارف کی آرزو ، کمال طلبی اور الٰہی فطرت سے سازگار نہیں ہے، اور انسان کی تمام برائیوں کو افراد کے غلط ارادوں اور اجتماعی ماحول کی طرف نسبت دینا اور گذشتہ اسباب یا ہر علت کے کردار کا انکار کرنا بھی ایک اعتبار سے تفریط و کوتاہی ہے، یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ وجود شناسی کے گوشوںاور مسئلہ شناخت کی اہمیت کے درمیان تداخل نہیں ہونا چاہیئے، وجود شناسی کی نگاہ سے انسان کی مشترکہ فطرت کے عناصر کا مجموعہ چونکہ امکانات سے مالا مال اور بھر پور ہے لہٰذا کمالشمار ہوتا ہے اور منفی تصور نہیں کیا جاتا ،لیکن اہمیت شناسی کے اعتبار سے یہ مسئلہ مہم ہے کہ ان امکانات سے کس چیز میں استفادہ ہوتا ہے؟بدبین فلاسفہ اور مفکرین منفی پہلو کے مشاہدہ کی وجہ سے ان توانائی ، تفکر اور خواہشات کو ناپسندیدہ موارد میں استعمال کرکے انسان کو ایک پست اور بری مخلوق سمجھتے ہیں اور خوش بین فلاسفہ اور مفکرین اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے انسان کی فلاح و بہبود کی راہ میں مشترکہ فطری عناصر کے پہلوؤں سے بہرہ مند ہو کر دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ جب کہ یہ شواہد انسان کی فطرت کے اچھے یا برے ہونے پر حتمی طور پر دلیل نہیں ہیں بلکہ ہر دلیل دوسرے کی نفی کرتی ہے ۔

قرآن مجید انسان کی فطرت کوایک طرف تفکر ، خواہش اور توانائی کا مجموعہ بتا تا ہے، جس میں سے اکثر کے لئے کوئی خاص ہدف نہیں ہے اگرچہ ان میں سے بعض مثال کے طور پر خداوندعالم کی تلاش ، معرفت اور عبادت کے فطری ہونے کی طرف متوجہ ہیں ۔اور دوسری طرف خلقت سے پہلے اور بعد کیحالات نیزاجتماعی و فطری ماحول سے چشم پوشی نہیں کرتا ہے بلکہ منجملہ ان کی تاثیر کے بارے میں آگاہ کرتا ہے اور آگاہ انسان کے ہر ارادہ و انتخاب میں ،اثر انداز عنصر کو تسلیم کرتا ہے ۔

۱۴۴

اس لئے انسان کی مشترکہ فطرت کو ایسے عناصر کا مجموعہ تشکیل دیتے ہیں جن میں سے بعض فلاح و خیر کی طرف متوجہ ہیں ،لیکن غلط تاثیر یا مشترکہ طبیعت سے انسان کی غفلت اور انسان کے افعال میں تمام موثر عوامل کی وجہ سے یہ حصہ بھی اپنے ضروری ثمرات کھو دیتا ہے اور پیغمبران الٰہی کا بھیجا جانا ، آسمانی کتابوں کا نزول ،خداوند عالم کے قوانین کا لازم الاجراء ہونا اور دینی حکومت کی برقراری ، یہ تمام چیزیں،انسان کو فعال رکھنے اور مشترکہ فطری عناصر کے مجموعہ سے آراستہ پروگرام سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں ہے، چاہے ہدف رکھتی ہوںیا نہ رکھتی ہوں، یا دوسرے اسباب کی وجہ سے ہوں۔ اور انسان کی برائی غلط اثر اور غفلت کا نتیجہ ہے اور انسان کی اچھائی اور نیکی، دینی اور اخلاقی تعلیمات کی روشنی میں دیدہ و دانستہ کردار کا نتیجہ ہے ،آئندہ مباحث میں ہم اس آخری نکتہ کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کریں گے ۔

سورۂ روم کی تیسویں آیت کے مفہوم کے سلسلہ میں زرارہ کے سوال کے جواب میں امام جعفر صادق نے فرمایا : ''فَطرھُم جَمِیعاً عَلیٰ التَّوحیدِ ''(۱) خداوند عالم نے سب کو فطرت توحید پر پیدا کیا ہے ۔

توحیدی اور الٰہی فطرت کی وجہ سے انسان یہ گمان نہ کرے کہ فطری امور اس کے توحیدی اور الٰہی پہلو میں منحصر ہیں جیسا کہ انسان کی فطرت کے بارے میں گذشتہ مباحث میں اشارہ ہوچکا ہے کہ بہت سی فطری اور حقیقی معارف کوخواہشات کے سپرد کردیا گیا ہے جو تمام مخلوقات سے انسان کے وجود کی کیفیت کو جدا اورمشخص کرتی ہے ۔ انسان کے تمام فطری امور کے درمیان اور اس کے الٰہی فطرت کے بارے میں مزید بحث ،اس عنصر کی خاص اہمیت اور الٰہی فطرت کے بارے میں مختلف سوالات کی وجہ سے ہے ۔ ان دونوں چیزوں کی وجہ سے یہ فطری شیٔ مزید مورد توجہ واقع ہوئی ہے ۔

انسانوں کے اندر الٰہی فطرت کے پائے جانے کا دعویٰ مختلف بحثوں کو جنم دیتا ہے ۔ پہلا

____________________

(۱)کلینی ؛ گذشتہ حوالہ ج۲ ،ص ۱۲۔

۱۴۵

سوال یہ ہے کہ انسان کے اندر الٰہی فطرت کے ہونے سے کیا مراد ہے ؟ کیا فطرت ِمعرفت مراد ہے یا فطرت ِانتخاب ؟ اگر فطرتِ معرفت مراد ہے تو خداوند عالم کے بارے میں ا کتسابی معرفت فطری ہے یا اس کی حضوری معرفت ؟ دوسرا سوال ،فطرت الٰہی کے فعال (بالفعل )اور غیر فعال (بالقوة)ہونے کے بارے میں ہے کہ کیا یہ انتخاب یا فطری معرفت تمام انسانوں کے اندر خلقت کے وقت سے بالفعل موجود ہے یا بالقوة ؟ اور آخری سوال یہ ہے کہ کیا یہ فطری شیٔ زوال پذیر ہے اور اگر زوال پذیر ہے تو کیا انسان اس کے زائل ہونے کے بعد بھی باقی رہے گا ؟ آخری دو سوال، انسان کی الٰہی فطرت سے مربوط نہیں ہیںبلکہ انہیں ہر فطری شیٔ کے بارے میں بیان کیا جاسکتا ہے ؟

انسان کی الٰہی فطرت سے مراد

توحید کے فطری ہونے کے سلسلہ میں تین احتمال موجو د ہیں :

پہلا احتمال یہ ہے کہ اکتسابی اور مفہومی معرفت کی صورت میں خداوند عالم کے وجود کی تصدیق کرنا انسان کی فطرت ہے ۔ فطری ہونے سے مراد؛ فطرت عقل اور انسان کی قوت مدرکہ کا ایک دوسرے سے مربوط ہونا ہے ۔

دوسرا احتمال ؛ خداوند عالم کے سلسلہ میں انسان کی شہودی اور حضوری علم کے بارے میں ہے اس احتمال کے مطابق تمام انسانوں کے اندر خداوند عالم کی طرف سے مستقیم اور حضوری معرفت کے مختلف درجات موجود ہیں ۔

تیسرا احتمال ؛ انسان کی الٰہی فطرت کو اس کی ذاتی خواہش اور درونی ارادہ فرض کرتا ہے اس احتمال کی روشنی میں انسان اپنی مخصوص روحی بناوٹ کی بنیاد پرخدا سے متمنی اور طلب گار ہے ۔

پہلے احتمال کی وضاحت میں مرحوم شہید مطہری فرماتے ہیں:

۱۴۶

بعض خدا شناسی کے فطری ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کا مقصد یہ ہے کہ اس سے مراد فطرت عقل ہے ، کہتے ہیں کہ انسان، فطری عقل کی روشنی میں مقدماتی استدلال کے حاصل کرنے کی ضرورت کے بغیر خداوند عالم کا وجود سمجھ لیتا ہے ،نظام عالم اور موجودات کی تربیت اور تادیب پر توجہ کرتے ہوئے خود بخود بغیر کسی استدلال کی ضرورت کے انسان کے اندر ایک مدبر اور غالب کے وجود کا یقین پیدا ہوجاتا ہے جیسا کہ تمام فطری امور کہ جس کو منطق کی اصلاح میں '' فطریات''کہا جاتا ہے ایسا ہی ہے۔(۱)

حق یہ ہے کہ ''خدا موجود ہے ''کے قضیہ کو منطقی فطریات میں سے نہیں سمجھنا چاہیئے یعنی ''چار کاعدد،زوج ہے'' اس طرح کے قضایا بدیہی ہیں اور ان چیزوں کااستدلال ذہن میں ہمیشہ موجود رہتا ہے کہ جس میں ذہنی تلاش و جستجو کی ضرورت نہیں ہے ،حالانکہ فکر و نظر کی پوری تاریخ میں واضح طور پر خدا کے وجود پر حکماء ،فلاسفہ نیز دوسرے مفکرین کے دلائل و استدلال کے ہم شاید ہیں اور عقلی و نظری طریقہ سے یہ عظیم علمی تلاش، خداوند عالم کے عقیدہ کے بدیہی نہ ہونے کی علامت ہے، اسی بنا پر بعض دانشمندوں نے کہا ہے کہ خداوند عالم پر اعتقاد بدیہی نہیں ہے بلکہ بداہت سے قریب ہے ۔(۲)

دوسرا احتمال ؛ خداوند عالم کے بارے میں انسان کے علم حضوری کو بشر کی فطرت کا تقاضا سمجھنا چاہیئے۔ انسان کا دل اپنے خالق سے گہرا رابطہ رکھتا ہے اور جب انسان اپنے حقیقی وجود کی طرف متوجہ ہوگا تو اس رابطہ کو محسوس کرے گا ،اس علم حضوری اور شہود کی صلاحیت تمام انسانوں میں موجود ہے ۔لہٰذا اکثر لوگ خاص طور سے سادی زندگی کے ان لمحات میں جب وہ دنیاوی کاموں میں مصروف ہیں اس قلبی اور اندرونی رابطہ کی طرف متوجہ ہو سکتے ہیں ۔

سورہ نحل کی ۵۳ویں آیہ اور سورۂ عنکبوت کی ۶۵ ویں آیہ کی طرح بعض دوسری آیتوں میں اضطراری مواقع اور اس وقت جب لوگ تمام اسباب سے قطع امید ہو جاتے ہیں اس فطرت کی

____________________

(۱)مطہری ؛ مرتضی ، مجموعہ آثار ، ج۶ ص ۹۳۴۔

(۲)ملاحظہ ہو: مصباح یزدی ، محمد تقی ، آموزش فلسفہ ج۲ ص ۳۳۰ و ۳۳۱۔

۱۴۷

بیداری کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔

( فَإِذَا رَکِبُوا فِی الفُلکِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخلِصِینَ لَهُ الدِّینَ فَلَمَّا نَجَّیٰهُم لَیٰ البَرِّ ِذَا هُم یُشرِکُونَ ) (۱)

پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو نہایت خلوص سے خدا کو پکارتے ہیں اور جب ہم انہیں نجات دے کر خشکی میں پہونچا دیتے ہیں تو وہ مشرک ہوجاتے ہیں ۔

( وَ مَا بِکُم مِن نِّعمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ ِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُ فَلِیهِ تَجئَرُونَ ) (۲)

اور جتنی نعمتیں تمہارے ساتھ ہیں سب اس کی طرف سے ہیں پھر جب تم کو تکلیف پہونچتی ہے تو تم اسی کے آگے فریاد کرتے ہو ۔

اس احتمال کے مطابق خدا کی معرفت ، فطرت ، خداپرستی اور خدا سے رابطہ ،شہودی اور حضوری معرفت کی فرع ہے ،مشکل وقت میں معمولی لوگ بھی جب ان میں یہ شہودی رابطہ ایجاد ہوتا ہے تو خدا کی عبادت ،مناجات اور استغاثہ کرنے لگتے ہیں، اس لئے انسان کی الٰہی فطرت ، فطرت کی معرفت ہے، احساس و خواہش کا نام فطرت نہیں ہے ۔

تیسرا احتمال سورہ ٔ روم کی ۳۰ ویں آیہ کہ جس میں فطرت کو احساس و خواہش (فطرت دل) کہا گیا ہے ۔ اور معتقد ہے کہ خدا کی جستجو و تلاش اور خداپرستی انسان کی فطرت ہے اور خدا کی طرف توجہ تمام انسانوں میں پائی جاتی ہے چاہے اس کے وجود کی معرفت اور تصدیق خود فطری نہ ہو ۔

انسان کے اندر سوال کرنے کی خواہش کے عنوان سے ایک بہترین خواہش موجود ہے جس کی بنیاد پر انسان اپنے آپ کو ایک حقیقت سے وابستہ اور ملا ہوا جانتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس حقیقت کے ذریعہ خدا سے نزدیک ہو کر اس کی تسبیح و تحلیل کرے ۔

____________________

(۱)عنکبوت ۶۵۔

(۲)نحل ۵۳

۱۴۸

اگرچہ دوسرے اور تیسرے دونوں احتمالات ظاہر آیہ سے مطابقت رکھتے ہیںاوران میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دنیا مشکل لگتا ہے لیکن ان روایات کی مدد سے جو اس آیہ کے ذیل میں وارد ہوئی ہیں اور ان میں سے بعض نقل بھی ہوئی ہیں دوسرا احتمال قطعاً مورد نظر ہے ،البتہ دونوں احتمالات کے درمیان اس طرح جمع اور دونوں کو ملا کر ایک دوسرے کا مُکمِل بنایا جاسکتا ہے کہ اگر فطری طور پر انسان کے اندر کسی موجود کی عبادت، خواہش اور عشق کاجذبہ پایاجائے تو یہ معقول نہیں ہے کہ عبادت مبہم و نامعلوم ہو لہٰذا قہری طور پر خدا کی معرفت و شناخت کا پایا جاناانسان کی فطرت میں ہونا چاہیئے تاکہ یہ تمایل اور خواہش مبہم اور نامعلوم نہ ہو، پس جب بھی فطری طور پر اپنے اندر عبادت اور خضوع و خشو ع کا ہم احساس کرتے ہیں تو یہ اسی کے لئے ہوگا جس کے بارے میں ہم اجمالی طور پر معرفت رکھتے ہوں، اور یہ معرفت حضوری اور شہودی ہے، دوسری طرف اگر انسان کے اندر خداوند متعال کے سلسلہ میں حضوری معرفت موجود ہو تو منعم کا شکریہ اور طلب کمال کیطرف ذاتی تمایل کی وجہ سے خداوند عالم کیجانب انسان کے اندر غیر قابل توصیف رغبت پیدا ہوجائے گی ۔

فطرت کا زوال ناپذیر ہونا

سورۂ روم کی ۳۰ ویں آیت کے آخر میں آیا ہے کہ( لا تَبدِیلَ لِخَلقِ اللّهِ ) اللہ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں ہے یعنی ہم نے اس فطرت الٰہی کو انسان کے حوالہ کیا جو غیر قابل تغییر ہے یہ ممکن ہے کہ انسان فطرت الٰہی سے غافل ہو جائے لیکن فطرت الٰہی نابود نہیں ہوگی، انسان جس قدر اس فطرت الٰہی کو آمادہ کرنے کی کوشش کرے اور اپنی غیر حیوانی پہلوؤں کو قوت بخشے اتنا ہی بہتر انسان ہوگا انسان اپنی ابتدائی خلقت میں بالفعل حیوان ہے اور بالقوت انسان ہے ،اس لئے کہ حیوانیت اور خواہشات کی توانائی اس کے اندر سب سے پہلے رونما ہوتی ہیں اور زندگی کے نشیب و فراز میں جس قدر غیر حیوانی پہلوؤں کو تقویت دے گا اور اپنے وجود میں جس قدر فطرت الٰہی کو حاکم کرنے میں کامیاب ہوگا اتنا ہی زیادہ انسانیت سے بہرہ مند ہوگا ،بہر حال یہ بات قابل توجہ ہے کہ انسان میں فطری قابلیت اور اللہ کی طرف توجہ کا مادہ ہے چاہے پوشیدہ اور مخفی ہی کیوں نہ ہو لیکن یہ فطری قابلیت ختم نہیں ہوتی ہے اور انسان کی سعادت اور بد بختی اسی فطری حقیقت کو جلا بخشنے یا مخفی کرنے میں ہے :

۱۴۹

( قَد أَفلَحَ مَن زَکَّیٰهَا وَ قَد خَابَ مَن دَسَّیٰهَا ) (۱)

یقینا جس نے اپنے نفس کو پاک رکھاوہ تو کامیاب ہوا اور جس نے اس کو آلودہ کیا وہ نقصان اٹھانے والوں میں رہا۔

فطرت اورحقیقت

اس واقعیت سے انکار نہیں ہے کہ لوگ ایک جیسی خصوصیات لے کر اس دنیا میں نہیں آئے ہیں یہ تبدیلیاں چاہے بدن کے سلسلہ میں ہو چاہے عقل و خرد کی توانائی میں ہو،ظاہر ہو جاتی ہیں، اسی طرح حیات انسان کا فطری ماحول اور اجتماعی شرائط اور بیرونی تاثرات کی وجہ سے جوابات اور عکس العمل بھی برابر نہیں ہوتا مثال کے طور پر بعض لوگ ایمان کی طرف راغب اور حق کی دعوت کے مقابلہ میں اپنی طرف سے بہت زیادہ آمادگی اورخواہش ظاہر کرتے ہیں ،اور بعض حضرات پروردگار عالم کے حق اور بندگی سے یوں فرار کرتے ہیں کہ وحی الٰہی کو سننے ،آیات اور معجزات الٰہی کے مشاہدہ کرنے کے باوجود نہ فقط ایمان نہیں لاتے ہیں بلکہ ان کی اسلام دشمنی اور کفر دوستی میں شدت آجاتی ہے۔

( وَ نُنَزِّلُ مِنَ القُرآنِ مَا هُوَ شَفَائ وَرَحمَة لِلمُؤمِنِینَ وَ لا یَزِیدُ الظَّالِمِینَ لا خَسَاراً ) (۲)

''اور ہم تو قرآن میں سے وہی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اوررحمت ہے اور ظالمین کے لئے سوائے گھاٹے کے کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا ''۔

____________________

(۱)سورۂ شمس ۹ تا ۱۰۔

(۲)اسراء ۸۲۔

۱۵۰

اب یہ سوال درپیش ہے کہ یہ فرق و اختلاف کہاں سے پیدا ہوتا ہے ؟ آیااس کا حقیقی سببانسان کی فطرت و طبیعت ہے اور ماحول و اجتماعی اسباب کا کوئی اہم رول نہیں ہے یا یہ کہ خودماحول اس سلسلہ میں انسان کی سرنوشت معین کرتا ہے ورنہ انسان کی مشترکہ فطرت کا کوئی خاص کردار نہیں ہے یا یہ اختلافات، فطری عناصر اور ماحول کی دین ہیں ۔ اس سوال کے جواب میں کہنا چاہیئے کہ : ہر فرد کی شخصیت میں اس کی فردی خصوصیت بھی شامل ہوتی ہے ، اورمتعدد فطری و اجتماعی اسباب کا بھی وہ معلول ہے ،وراثت ،فطری اختلافات ، اسباب تربیت ، اجتماعی ماحول اور دوسرے شرائط ، کامیابیاں اور ناکامیاں ، ملکی اور جغرافیائی حدود خصوصاً فردی تجربہ ، انتخاب اور قدرت اختیار میں سے ہر ایک کا انسان کی شخصیت سازی میں ایک خاص کردار ہے ۔ انسان کا اخلاق اور الٰہی فطرت کی حقیقت اور تمام انسانوں کے فطری اور ذاتی حالات بھی تمام مذکورہ عوامل کے ہمراہ مشترکہ عامل کے عنوان سے انسان کی کردار سازی میں موثر ہیں ،فردی اختلافات کا ہونا مشترکہ فطرت کے انکار اور بے اثر ہونے کے معنی میں نہیں ہے( قُل کُلّ یَعمَلُ عَلَیٰ شَاکِلَتِهِ ) (۱)

تم کہدو کہ ہر ایک اپنی شخصیت سازی کے اصول پر عمل پیرا ہے،آیہ شریفہ میں '' شاکلہ'' سے مراد ہر انسان کی شخصی حقیقت اور معنویت، فطرت الٰہی کے ہمراہ مذکورہ عوامل کے مجموعہ سے حاصل ہونا ہے ،قابل غور نکتہ یہ ہے کہ فطری امور تمام افراد میں ایک ہی انداز میں رشد و تکامل نہیں پاتے اسی بنا پر تمام عوامل کے مقابلہ میں فطری سبب کے لئے ایک ثابت ،مساوی اور معین مقدار قرار نہیں دی جاسکتی ہے انسانو ں کا وہ گروہ جن میں اخلاق اور الٰہی فطرت پوری طرح سے بارآور ہوچکی ہے اور بہترین اخلاقی زندگی اورکامل بندگی سے سرفراز ہے اس کی حقیقت اور شخصیت کو ترتیب دینے میں اسباب فطرت کانمایاں کردار ہے اور جن لوگوں نے مختلف اسباب کی وجہ سے

____________________

(۱)سورۂ اسراء ۸۴۔

۱۵۱

اپنے حیوانی پہلوؤں کو قدرت بخشی ہے ان افراد کا شعلۂ فطرت خاموش ہوچکا ہے اور اثر انداز ہونے میں بہت ہی ضعیف ہے ۔(۱)

____________________

(۱)قرآن کی نظر میں مذکورہ اسباب کے کردار کی تاکید کے علاوہ نفسانی شہوتوں میں اسیر ہونا اور مادی دنیا کی زندگی اور شیطان کے پھندے میں مشغول رہنے کو انسان کے انحراف میں موثر اسباب کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے اور پیغمبروں ، فرشتوں اور خداوند عالم کی خصوصی امداد کو انسان کی راہ سعادت میں مدد کرنے والے تین اسباب و عوامل کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے ۔ ضمیمہ میں ان سب کے بارے میں مختصروضاحت انشاء اللہ آئے گی ۔

۱۵۲

خلاصہ فصل

۱.ہمارے اور دوسرے لوگوں کے درمیان ظاہری شکل و صورت اور اخلاق و کردار میں متعدد اور گونا گوں اختلاف کے باوجود جسم و روح کے اعتبار سے آپس میں بہت زیادہ مشترک پہلو پائے جاتے ہیں ۔

۲.انسان کی فطرت کے بارے میں گفتگو ، انسان شناسی کے مہم ترین مباحث میں سے ایک ہے جس نے موجودہ چند صدیوں میں بہت سے مفکرین کے ذہنوں کو اپنی طرف متوجہ کر رکھا ہے ۔

۳.انسانی فطرت ، مشترکہ فطرت کے عناصر کی طرف اشارہ کرتی ہے جو آغاز خلقت سے ہی تمام انسانوں کو عطا کی گئی ہے جب کہ ماحول اور اجتماعی عوامل نہ ہی فراہم اور نہ ہی اس کو نابود کرسکتے ہیں اور ان کی خلقت میں تعلیم و تربیت کا کوئی کردار نہیں ہے ۔

۴.انسان کی مشترکہ فطرت کے وجود پر منجملہ دلیلوں میں فہم و معرفت ہے نیز غیر حیوانی ارادے اور خواہشات کاانسانوں میں پایا جانااور ذاتی توانائی کا انسان سے مخصوص ہوناہے ۔

۵.انسان کے وجود میں خداوند عالم کی معرفت کے لئے بہترین خواہش ، سوالات کی خواہش کے عنوان سے موجود ہے جس کی بنیاد پر انسان اپنے آپ کو ایک حقیقت سے وابستہ اور ملا ہوا سمجھتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اس حقیقت سے نزدیک ہو کر تسبیح و تحلیل بجا لائے اور یہ حقیقت وہی فطرت الٰہی ہے ۔

۶.آیات و روایات بہت ہی واضح یا ضمنی طور پر معرفت ،انسانی خواہش اور توانائی سے مخصوص حقیقت ، مشترکہ فطرت نیزعناصر اور ان کی خصوصیات پر دلالت کرتی ہیں ۔ لیکن جو چیز سب سے زیادہ مورد تائید اور تاکید قرار پائی ہے وہ فطرت الٰہی ہے ۔

۷.ہر انسان کی شخصیت سازی میں اس کا ماحول نیزرفتار و کردار ،موروثی اور جغرافیائی عوامل کے علاوہ فطرت کا بھی بنیادی کردار ہے ۔

۱۵۳

تمرین

۱.فطری اور طبیعی امور سے غیر فطری امور کی شناخت کے معیار کیا ہیں ؟

۲.انسان کی شخصیت سنوارنے والے عناصر کا نام ذکر کریں؟

۳.انسان کا ارادہ ، علم ، خواہش اور قدرت کس مقولہ سے مربوط ہے ؟

۴.سورۂ روم کی ۳۰ ویں آیت کا مضمون کیا ہے ؟ اس آیت میں (لا تَبدِیل لخَلقِ اللّہِ ) سے مراد کیا ہے ؟ وضاحت کریں ؟

۵.انسان کی مشترکہ فطرت کی معرفت میں علوم تجربی ، عقلی اور شہودی میں سے ہر ایک علم کا کردار اور اس کی خامیاں بیان کریں ؟

۶.فطرت الٰہی کے تغییر نہ ہونے کی بنیاد پر جو افراد خدا سے غافل ہیں یا خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں یا شک رکھتے ہیں ان افراد میں فطرت الٰہی کس انداز میں پائی جاتی ہے ؟

۷.فطرت الٰہی کو قوی اور ضعیف کرنے والے عوامل بیان کریں ؟

۸.حقیقی و غیر حقیقی اورجھوٹی ضرورتوں سے مراد کیا ہے ؟ ان میں سے ہر ایک کے لئے دو مثالیں ذکر کرتے ہوئے واضح کریں ؟

۹.مندرجہ ذیل موارد میں سے انسان کی فطری اور حقیقی ضرورتیں کون سی ہیں ؟

عدالت خواہی، حقیقت کی جستجو ،آرام پسندی ، عبادت کا جذبہ اور راز و نیاز ، خود پسندی ، دوسروں سے محبت ، محتاجوں پر رحم کرنا ، بلندی کی تمنا ، حیات ابدی کی خواہش ، آزادی کی لالچ ۔

۱۵۴

مزید مطالعہ کے لئے :

۱. علوم تجربی کے نظریہ کے مطابق شخصیت ساز عناصر کے لئے ملاحظہ ہو:

.ماہر نفسیات ، شخصیت کے بارے میں نظریات ،نفسیاتی ترقی ، اجتماعی نفسیات شناسی ، جامعہ شناسی کے اصول ،فلسفہ تعلیم و تربیت

۲. اسلام کی روشنی میں انسان کی شخصیت ؛کے لئے ملاحظہ ہو :

. مصباح یزدی ، محمد تقی ( ۱۳۶۸) جامعہ وتاریخ از دید گاہ قرآن ، تہران : سازمان تبلیغات اسلامی

. نجاتی ، محمد عثمان ( ۱۳۷۲) قرآن و روان شناسی ، ترجمہ عباس عرب ، مشہد ، بنیاد پژوہشھای آستان قدس رضوی ۔

۳. اسلامی نظریہ سے انسان کی فطرت ؛کے لئے ملاحظہ ہو:

. دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ (۱۳۷۲) در آمدی بہ تعلیم و تربیت اسلامی ، فلسفہ تعلیم و تربیت ، تہران : سمت .ص ۳۶۹.۵۱۴.

۴. انسان کی فطرت میں دانشمندوں کے نظریات؛ کے لئے ملاحظہ ہو:

. اسٹیونسن ، لسلی ( ۱۳۶۸) ہفت نظریہ دربارہ طبیعت انسان ، تہران ، رشد

. پاکارڈ ،ڈ وینس ( ۱۳۷۰) آدم سازان ؛ ترجمہ حسن افشار ؛ تہران : بہبہانی ۔

. دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ( ۱۳۶۳) درآمدی بر جامعہ شناسی اسلامی : مبانی جامعہ شناسی ، قم : سمت۔ شکر کن ، حسین ، و دیگران ( ۱۳۷۲) مکاتب روان شناسی و نقد آن ، ج۲ ، تہران : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، سمت ۔

۱۵۵

۵. انسانی فطرت کے لئے ملاحظہ ہو :

. جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۶۳) دہ مقالہ پیرامون مبدا و معاد تہران : الزہراء ۔

(۱۳۶۳)فطرت و عقل و وحی ، یادنامۂ شہید قدوسی ، قم : شفق

(۱۳۶۳)تفسیرموضوعی قرآن ، ج۵ ، تہران ، رجاء

.شیروانی ، علی ( ۱۳۷۶) سرشت انسان : پژوہشی در خداشناسی فطری ؛ قم : نہاد نمایندگی مقام معظم رہبری در دانشگاہ ھا ( معاونت امور اساتید و دروس معارف اسلامی ).

.محمد تقی مصباح؛ معارف قرآن : خدا شناسی ، قم : جامعہ مدرسین

.مطہری ، مرتضی ( ۱۳۷۰)مجموعہ آثار ج۳ ''کتاب فطرت''، تہران : صدرا ۔

(۱۳۷۱)مجموعہ آثار ج۵ ، ''مقالہ فطرت ''، تہران : صدرا ۔

.موسوی خمینی ، روح اللہ ( ۱۳۶۸) چہل حدیث ، تہران : مرکز نشر فرہنگی رجاء

۶. کلمہ فطرت کے استعمالات اور معانی کے لئے ملاحظہ ہو :

.یثربی ، یحیٰ '' فطری بودن دین از دیدگاہ معرفت شناسی ''، مجلہ حوزہ و دانشگاہ ، سال سوم ، ش نہم ، ص ۱۱۰. ۱۱۸.

۷. انسان کی فطری توانائی نیز معلومات و نظریات کے لئے ملاحظہ ہو:

.جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۶۶) تفسیر موضوعی ، ج۵، نشر فرہنگی رجاء ، تہران ۔

.شیروانی ، علی ( ۱۳۷۶) سرشت انسان پژوہشی در خدا شناسی فطری ؛ قم :نہاد نمایندگی مقام معظم رہبری در دانشگاہھا ، معاونت امور اساتید و دروس معارف اسلامی

.محمد تقی مصباح (۱۳۷۷) اخلاق در قرآن ؛ قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

( ۱۳۷۷) خود شناسی برای خود سازی ؛ قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

.(۱۳۷۶)معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) قم : مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

.مطہری ، مرتضی ( ۱۳۶۹) مجموعۂ آثار ، ج۲ ، انسان در قرآن ، تہران : صدرا ۔

۱۵۶

ملحقات

لفظ'' فطرت ''کے اہم استعمالات

لفظ فطرت ، کے بہت سے اصطلاحی معنی یا متعدد استعمالات ہیں جن میں سے مندرجہ ذیل سب سے اہم ہیں :

۱.خواہش اور طبیعت کے مقابلہ میں فطرت کا ہونا :بعض لوگوں نے لفظ فطرت کو اس غریزہ اور طبیعت کے مقابلہ میں جو حیوانات ، جمادات اور نباتات کی طینت کو بیان کرتے ہیں ، انسان کی سرشت کے لئے استعمال کیا ہے ۔

۲.فطرت، غریزہ کا مترادف ہے :اس استعمال میں فطری امور سے مراد طبیعی امور ہیں البتہ اس استعمال میں کن مواقع پر غریزی امور کہا جاتا ہے ،اختلاف نظر ہے، جس میں سے ایک یہ ہے کہ جو کام انسان انجام دیتا ہولیکن اس کے نتائج سے آگاہ نہ ہواورنتیجہ بھی مہم ہو مثال کے طور پر بعض وہ افعال جو بچہ اپنے ابتدائی سال میں آگاہانہ انجام دیتا ہے اسے غریزی امور کہا جاتا ہے ۔

۳.فطرت یعنی بدیہی : اس اصطلاح میں ہر وہ قضیہ جو استدلال کا محتاج نہ ہو جیسے معلول کے لئے علت کی ضرورت اور اجتماع نقیضین کا محال ہونا فطرت کہا جاتا ہے ۔

۴.فطرت ، منطقی یقینیات کی ایک قسم ہے : استدلال کے محتاج وہ قضایا جن کا استدلال پوشیدہ طور پر ان کے ہمراہ ہو (قضایا قیاساتھا معھا)''فطری ''کہا جاتا ہے جیسے چار زوج ہے ، جس کا استدلال (چونکہ دو متساوی حصوں میں تقسیم ہو سکتا ہے )اس کے ہمراہ ہے ۔

۵.کبھی لفظ فطرت ،بدیہی سے نزدیک قضایا پر اطلاق ہوتا ہے : جیسے ''خدا موجود ہے '' یہ قضیہ استدلال کا محتاج ہے اور اس کا استدلال اس کے ہمراہ بھی نہیں ہے لیکن اس کا استدلال ایسے مقدمات کا محتاج ہے جو بدیہی ہیں (طریقہ علیت )چونکہ یہ قضیہ بدیہیات کی طرف منتہی ہونے کا ایک واسطہ ہے لہٰذا بدیہی سے نزدیک ہے ،ملاصدرا کے نظریہ کے مطابق خدا کی معرفت کے فطری ہونے کو بھی (بالقوة خدا کی معرفت)اسی مقولہ یا اس سے نزدیک سمجھا جاسکتا ہے ۔

۱۵۷

۶.فطرت، عقل کے معنی کے مترادف ہے : اس اصطلاح کا ابن سینا نے استفادہ کیاہے اور کہا ہے کہ فطرت وہم خطا پذیر ہے لیکن فطرت عقل خطا پذیر نہیں ہے ۔

۷.فطرت کاحساسیت اور وہم کے مرحلہ میں ذہنی صورتوں کے معانی میں ہونا : ''ایمانول کانٹ''(۱) معتقد تھا کہ یہ صورتیں خارج میں کسی علت کی بنا پر نہیں ہیں بلکہ ذہن کے فطری امور میں سے ہے اور اس کو فطری قالب میں تصور کیا جاتا ہے جیسے مکان ، زمان ، کمیت ، کیفیت ، نسبت اور جہت کو معلوم کرنے والے ذہنی قضایا میں کسی معلوم مادہ کو خارج سے دریافت کرتے ہوئے ان صورتوں میں ڈھالتا ہے تاکہ قابل فہم ہو سکیں ۔

۸.فطرت، عقل کے خصوصیات میں سے ہے :حِس کی تخلیق میں حس اور تجربہ کا کوئی کردار نہیں ہوتا ہے بلکہ عقل بالفعل اس پر نظارت رکھتی ہے ''ڈکارٹ''کے نظریہ کے اعتبار سے خدا ، نفس اور مادہ ( ایسا موجود جس میں طول ،عرض ، عمق ہو ) فطری شمار ہوتا ہے، اور لفظ فطری بھی اسی معنی میں ہے ۔

۹.فطرت یعنی خدا کے بارے میں انسان کا علم حضوری رکھنا، خدا شناسی کے فطری ہونے میں یہ معنی فطرت والی آیات و روایات کے مفہوم سے بہت سازگار ہے ۔

۱۰.فطرت یعنی ایک حقیقت کو پورے اذہان سے درک کرنا ، اصل ادراک اور کیفیت کی جہت سے تمام افراد اس سلسلہ میں مساوی ہیں جیسے مادی دنیا کے وجود کا علم ۔

____________________

(۱) Imanuel Kant

۱۵۸

۲ ہدایت کے اسباب اور موانع

قرآن مجید نے انسان کے تنزل کے عام اسباب اور برائی کی طرف رغبت کو تین چیزوں میں خلاصہ کیا ہے:

۱. ہوائے نفس : ہوائے نفس سے مراد باطنی ارادوں کی پیروی اور محاسبہ کرنے والی عقلی قوت سے استفادہ کئے بغیر ان کو پورا کرنا اور توجہ کرنا اور انسان کی سعادت یا بدبختی میں خواہشات کو پورا کرنے کا کردار اور اس کے نتائج کی تحقیق کرنا ہے ۔ اس طرح خواہشات کو پورا کرنا ، حیوانیت کو راضی کرنا اور خواہشات کے وقت حیوانیت کو انتخاب کرنے کے معنی میں ہے ۔

۲. دنیا: دنیاوی زندگی میں انسان کی اکڑ اور غلط فکر اس کے انحراف میں سے ایک ہے دنیاوی زندگی کے بارے میں سونچنے میں غلطی کے یہ معنی ہیں کہ ہم اس کو آخری و نہائی ہدف سمجھ بیٹھیںاور دائمی سعادت اور آخرت کی زندگی سے غفلت کریں، یہ غلطی بہت سی غلطیوں اور برائیوں کا سر چشمہ ہے ،انبیاء کے اہداف میں سے ایک ہدف دنیا کے بارے میں انسانوں کی فکروں کو صحیح کرنا تھا اور دنیاوی زندگی کی جو ملامت ہوئی ہے وہ انسانوں کی اسی فکر کی بنا پر ہے ۔

۳. شیطان : قرآن کے اعتبار سے شیاطین (ابلیس اور اس کے مددگار) ایک حقیقی مخلوق ہیں جو انسان کو گمراہ کرنے اور برائی کی طرف کھینچنے کا عمل انجام دیتے ہیں ۔ شیطان برے اور پست کاموں کو مزین اور جھوٹے وعدوں اور دھوکہ بازی کے ذریعہ اچھے کاموں کے انجام دینے کی صورت میں یا ناپسندیدہ کاموں کے انجام نہ دینے کی وجہ سے انسان کو اس کے مستقبل سے ڈراتے ہوئے غلط راستہ کی طرف لے جاتا ہے ۔ شیطان مذکورہ نقشہ کو ہوائے نفس کے ذریعہ انجام دیتا ہے اور خواہش نفس کی تائید کرتا ہے نیزاس کی مدد کرتا ہے ۔

قرآن کی روشنی میں پیغمبروں ، فرشتوں کے کردار اور خدائی امداد سے انسان نیک کاموں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس راہ میں وہ سرعت کی باتیں کرتاہے ۔

۱۵۹

انبیاء انسان کو حیوانی غفلت سے نجات دے کر مرحلہ انسانیت میں وارد کرتے ہیں اور دنیا کے سلسلہ میں اپنی نصیحتوں کے ذریعہ صحیح نظریہ کو پیش کرکے انسان کی حقیقی سعادت اور اس تک پہونچنے کی راہ کو انسان کے اختیار میں قرار دیتے ہیں ۔

اور خوف و امید کے ذریعہ صحیح راستہ اور نیکیوں کی طرف حرکت کے انگیزہ کو انسان کے اندر ایجاد کرتے ہیں بلکہ صحیح راہ کی طرف بڑھنے اور برائیوں سے بچنے کے لئے تمام ضروری اسباب اس کے اختیار میں قرار دیتے ہیں ۔

جو افراد ان شرائط میں اپنی آزادی اور اختیار سے صحیح استفادہ کرتے ہیں ان کے لئے مخصوص شرائط میں بالخصوص مشکلات میں فرشتے مدد کے لئے آتے ہیں اور ان کو صحیح راہ پر لگادیتے ہیں۔ سعادت کی طرف قدم بڑھانے ، اہداف کو پانے اور مشکلات کو حل اور موانع کو دور کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں ۔

خدا کی عام اور مطلق امداد کے علاوہ اس کی خصوصی امداد بھی ان فریب زدہ انسانوں کے شامل حال ہوتی ہے اور اسی خصوصی امداد کے ذریعہ شیطان کی تمام قوتوں پر غلبہ پاکر قرب الٰہی کی طرف راہ کمال کو طے کرنے میں مزید سرعت پیدا ہوجاتی ہے وہ سو سال کی راہ کو ایک ہی شب میں طے کرلیتے ہیں،یہ امداد پروپگنڈوں کے ختم کرنے کا سبب بھی ہوتی ہے جو اپنی اور دوسروں کی سعادت میں صالح انسانوں کے بلند اہداف کی راہ میں دشمنوں اور ظالم قوتوں اور شیطانی وسوسوں کی طرف سے پیدا ہوتے ہیں ۔(۱)

مغربی انسان شناسوں کی نگاہ میں انسان کی فطرت

''ناٹالی ٹربوویک ''دور حاضر کا امریکی نفس شناس نے انسان کے بارے میں چند اہم سوالوں اور

____________________

(۱)اس سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو: علامہ محمد حسین طباطبائی کی المیزان فی تفسیر القرآن ، محمد تقی مصباح کی اخلاق در قرآن ؛ ج۱ ص ۱۹۳۔۲۳۶۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175