توحید مفضل

توحید مفضل22%

توحید مفضل مؤلف:
زمرہ جات: توحید
صفحے: 175

توحید مفضل
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 175 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130887 / ڈاؤنلوڈ: 6118
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

اس بات کا یقین کروگے؟ ہرگز نہیں بلکہ اس کا مذاق اڑاؤ گے پس کس طرح تم ایک تصویر کے بارے میں اس بات کے منکر ہوجاتے ہو اور کہتے ہو کہ یہ خود بخود وجود میں نہیں آسکتی ، لیکن جو انسان ناطق ہے اس کے بارے میں اس طرح کے اقوال کے منکر نہیں ہوتے۔

( حیوان کا جسم ایک حد معین پر رک جاتا ہے )

اے مفضل۔ اگر یہ فیصلہ کرلیا جائے کہ حیوان کے اندر کوئی تدبیر استعمال نہیں ہوئی تو وہ حیوانات جو ہمیشہ کھاتے پیتے ہیں ، کیونکر ان کے جسم ایک خاص و معین حد پر پہنچ کر رک جاتے ہیں اور رشد و نمو نہیں کرتے اور ہرگز اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتے؟ بے شک یہ حکیم کی تدبیر ہے کہ تمام حیوانات کے جسم چاہے وہ حیوانات چھوٹے ہوں یا بڑے ایک حد تک نشوونما کرتے ہیں اور اس کے بعد وہ اس حد سے تجاوز نہیں کرتے ، جبکہ وہ ساری زندگی کھاتے پیتے ہیں ، ایسا اس لئے ہے کہ اگر جانور ہمیشہ رشد ونمو کرتے تو ان کے جسم بہت زیاد بڑے ہوجاتے اور ان کا قیافہ ایک دوسرے سے مشتبہ ہوتا، اور ان میں سے کسی ایک کے لئے بھی حد معین کی شناخت نہ ہوتی ، آخر کیوں انسان کا جسم راہ چلتے حرکت کرتے اور دقیق کاموں کے وقت سنگین ہوجاتا ہے ؟ سوائے اس کے کہ انسان کو اپنی زندگی میں جن چیزوں کی ضرورت ہے، جیسے لباس، لحاف، کفن وغیرہ کو حاصل کرنے میں اسے سختی و مشقت کا سامنا کرنا پڑے ، اس لئے کہ اگر انسان کو سختی و مشقت کا سامنا کرنا نہ پڑتا تو پھر کون سی چیز اُسے فحش باتوں سے روک سکتی تھی اور کس طرح وہ خدا کے سامنے تواضع اور لوگوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آتا، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جب انسان کو سختی و پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ خضوع و خشوع کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اپنے مال کو صدقہ کرتا ہے اب مفضل۔ ذرا سوچو تو سہی اگر انسان کو مارنے کے باوجود درد محسوس نہ ہوتا تو پھر بادشاہ کس وسیلے سے مجرم کو اس کے کیے کی سزا دیتا، اور کس طرح طغیانگر افراد کو

۸۱

ذلیل کیا جاتا، اور کس طرح کوئی غلام اپنے آقا و مولا کے سامنے اپنے آپ کو ذلیل سمجھتا اور اپنی گردن کو اس کے سامنے جھکائے رکھتا، کیا ابن أبی العوجاء اور اس کے ساتھیوں کے لئے یہ حجت و دلیل کافی نہیں؟ کہ جو خداوند متعال کی تدبیر کا انکار کرتے ہیں ، اور اس گروہ مانویہ کے لئے جو درد و ألم کا انکار کرتے ہیں(وہ کہتے ہیں کہ انسان کو کسی بھی قسم کا درد و ألم نہیں ہوناچاہیے تھا )

اگر حیوان نر اور مادہ کی شکل میں پیدا نہ ہوتے تو کیا ان کی نسل منقطع نہ ہوجاتی، لہٰذا خداوند متعال نے حیوانات میں سے بعض کو نر اور بعض کو مادہ کی صورت میں پیدا کیا تاکہ حیوانات کی نسل کا سلسلہ باقی رہے اور منقطع ہونے نہ پائے اگر ان تمام کاموں میں تدبیر نہ ہوتی تو پھر کیونکر مرد و زن جب حد بلوغ پر پہنچتے ہیں تو ان کے زیر شکم بال اُگتے ہیں ، پھر مرد کے داڑھی اُگتی ہے جبکہ عورت کے نہیں اُگتی ، یہ اس لئے کہ خداوند متعال نے مرد کو عورت کے لئے سرپرست و نگہبان قرار دیا ہے۔ اور عورت کو مرد کے لئے عروس و تحفہ قرار دیا۔ پس مرد کو داڑھی عطا کی، جس میں مرد کے لئے جلالت و ہیبت و عزت ہے لیکن عورت کو داڑھی اس لئے عطا نہ کی تاکہ اس کے چہرے کی زیبائی اور خوبصورت باقی رہے اور اس میں اپنے شوہر کے لئے ایک لذت ہو، کیا تم نہیں دیکھتے کہ خلقت میں کس طرح ہر چیز تدبیر و حکمت کے مطابق ہے اور خطاء لغزش کا کوئی راستہ اُس میں دیکھائی نہیں دیتا، خداوند متعال اپنی تدبیر و حکمت کے تحت انسان کو وہی کچھ دیتا ہے جس کی اسے ضرورت ہے۔

مفضل کا بیان ہے کہ اس وقت وقت ِ زوال آپہنچا، میرے آقا ومولا نماز کے لئے کھڑے ہوگئے، آپ نے فرمایا تم کل صبح سویرے میرے پاس آجاؤ (انشاء اللہ) میں اپنے مولا کی خدمت سے ان تمام چیزوں پر خوشحال واپس پلٹا جو میں نے حاصل کیں اور آپ نے مجھے تعلیم کیں۔ میں خداوند متعال کا شکر گزار تھا اس پر جو کچھ اس نے مجھے عطا کیا اور یہ کہ اپنی نعمتیں مجھے بخشیں اور جو کچھ مجھے میرے آقا و مولا نے مجھے تعلیم دی اور اس رات میں ان تمام چیزوں پر جو مجھے عطا کی گئیں ، مسرور و خوشحال سویا۔

۸۲

( روز دوّم )

۸۳

۸۴

مفضل کا بیان ہے کہ میں دوسرے دن صبح سویرے امام ـ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، اجازت لینے کے بعد آپ کی زیارت سے شرفیاب ہوا ، آپ نے مجھے بیٹھنے کے لئے کہا پھر امام ـ نے فرمایا: بیشک تمام تعریفیں اُس خدائے بزرگ کے لئے ہیں جو مدبر ہے جو ایک زمانے کے بعد دوسرے زمانے ایک طبقے کے بعد دوسرے طبقے اور ایک عالم کے بعد دوسرے عالم کا لانے والا ہے، تاکہ برے لوگوں کو اُن کے برے اعمال کے مطابق سزا دی جائے اور نیک اور اچھے افراد کو اُن کے نیک اور اچھے اعمال کے بدلے اجر وثواب عطا کیا جائے اور یہ سب باتیں اُس کے عدل کی بنیاد پر ہیں کہ جس کے أسماء پاک و پاکیزہ اور جس کی نعمتیں بے شمار ہیں جو ہرگز اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا مگر یہ کہ بندے خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں ، اس بات کی روشن دلیل اس کی آیتیں ہیں (کہ وہ فرماتا ہے )

( فَمن یَعْمَلْ مثقال ذرة خیراً یرا (٧) وَ مَن یَعْمَل مثقال ذرة شراً یره )(٨)

جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی تو اُسے دیکھ لے گا(۱)

اور اس قسم کی دوسری آیتیں کہ جن میں ہر چیز کا بیان موجود ہے جو خالق حکیم و حمید کی طرف سے نازل شدہ ہیں جن میں کسی بھی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں اور اسی بارے میں ہمارے سید و سردار حضرت محمد مصطفی (ص) ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ سوائے تمہارے أعمال کی جزاء کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہ جو روز قیامت تمہاری طرف پلٹائی جائے گی۔ مفضل کا بیان ہے کہ پھر کچھ دیر امام ـ نے اپنے سر کو جھکائے رکھا اور ارشاد فرمایا: اے مفضل ، لوگ نافرمانی اور سرکشی میں پڑے ہوئے ہیں، شیاطین اور طاغوت کی اتباع کرتے ہیں ، گویا یہ ایسے بینا ہیں جو اندھے ہیں اور نہیں دیکھتے اور ایسے کلام کرنے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورہ زلزال۔

۸۵

والے ہیں جو گونگے ہیں اور فکر نہیں رکھتے ، اور ایسے سننے والے ہیں جو بہر ے ہیں اور نہیں سنتے یہ لوگ دنیا کی پستی پر راضی ہوگئے ، اور گمان کرتے ہیں کہ وہ نیک اور ہوشیار ہیں اور اُن کاشمار ہدایت یافتہ لوگوں میں ہوتا ہے اس کے باوجود کہ وہ برے کاموں کی طرف اس طرح مائل اور غرق ہیں کہ جیسے وہ موت کے آنے سے أمن و امان میں ہیں اور ہر طرح کی جزاء و سزا سے بری ہیں ! صد افسوس ایسے لوگوں پر جن کے دل سخت ہوگئے ہیں اور وہ اس دن سے لاپروا ہیں کہ جس دن کی مصیبت طولانی اور شدید ہے ، جس دن کوئی دوست کسی دوست کے کام نہ آئے گا ، اور نہ کسی کی یاری و ہمدردی قبول کی جائے گی، سوائے اس کے کہ جس پر خدا اپنا رحم کرے۔

مفضل کا بیان ہے کہ امام ـ کے ان الفاظ نے مجھ پر گہرا اثر کیا اور میں گریہ کرنے لگا، امام ـ نے ارشاد فرمایا: اے مفضل گریہ نہ کرو اس لئے کہ تم ان تمام چیزوں سے بری ہو، کیوں کہ تم نے معرفت و شناخت کے ذریعے حقیقت کو قبول کیا اور نجات پائی ۔

( حیوانات کی خلقت )

پھر آپ نے فرمایا: اے مفضل ۔ اب میں تمہیں حیوانات کی خلقت کے بارے میں بتاتا ہوں تاکہ وہ تم پر اُسی طرح واضح ہوجائے جس طرح سے اس کے علاوہ دوسری تمام باتیں تم پر واضح اور روشن ہوچکی ہیں۔

( اے مفضل) فکر کرو حیوان کے بدن کی ساخت پر کہ کس طرح خلق کیا گیا ہے ، نہ زیادہ سخت مثل پتھر کے کہ اگر ایسا ہوتا تو حیوان کے لئے حرکت کرنا زحمت و مشقت کا باعث بنتا، اور وہ ہرگز اپنے کاموں کو بآسانی انجام نہیں دے سکتا تھا اور نہ ہی اتنا زیادہ نرم و نازک بنایا کہ وہ حمل اور باربرداری کے کام میں استعمال نہ کیا جاسکے پس خداوند متعال نے اس طرح کی تدبیر کی کہ اسے ظاہری طور پر نرم

۸۶

گوشت سے پیدا کیا اور اس کی کمر میں ایک ایسی مضبوط ہڈی کو رکھا جسے رگوں اور اعصاب نے گھیرا ہوا ہے جو ایک دوسرے کو مضبوطی سے گرفت میں لئے ہوئے ہیں اور اُس کے اُوپر ایک ایسی کھال کے لباس کو پہنایا جو تمام بدن کا احاطہ کئے ہوئے ہے، اس کی مثال لکڑی کی سی ہے جس پر کپڑا لپیٹ کر دھاگے سے مضبوطی سے باندھ دیا جائے اور اس کے اوپر گوند لگایا جائے تو لکڑیاں ، ہڈیوں کی مانند، کپڑا گوشت کی مانند، دھاگہ رگ و عصاب کی مانند اور گوند کھال کی مانند ہے ، اگر یہ بات ان حیوانات کے بارے میں کہی جائے کہ یہ محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں اور کسی صانع اور خالق نے انہیں پیدا نہیں کیا۔ تو پھر ضروری ہے کہ بالکل یہی بات اُن تصاویر اور مجسموں کے بارے میں کہی جائے جو بے جان ہیں لیکن جب یہ بات بے جان تصاویر و مجسموں کے بارے میں کہنا صحیح نہیں ، تو پھر حیوانات کے بارے میں تو بدرجہ اولیٰ صحیح نہیں ہے۔

( حیوان کو ذہن کیوں نہ عطا کیا گیا )

اے مفضل ۔ اب تم حیوانات کے جسم پر غور کرو انہیں انسان کے لئے پیدا کیا گیا ہے لہٰذا جس طرح ان کے بدن کو گوشت ، ہڈی ، اعصاب عطا کئے اسی طرح انہیں کان اور آنکھ بھی عطا کئے، تاکہ انسان انہیں اپنی ضرویات کے استعمال میں لاسکے، اس لئے کہ اگر حیوانات بہرے، اندھے ہوتے تو انسان ان سے ہرگز فائدہ نہیں اُٹھا سکتا تھا اور خود حیوانات بھی اپنے کاموں کو انجام نہیں دے سکتے تھے لیکن انہیں ذہن عطا نہیں کیا گیا، تاکہ وہ انسان کے سامنے جھکے رہیں اور جب انسان اُن سے باربرداری کا کام لے تو یہ اسے انجام دینے سے منع نہ کریں اب اگر کوئی یہ کہے کہ بعض غلام بھی تو ایسے ہیں کہ جو انسان کے سامنے ذلیل ہیں اور سخت ترین کاموں کو انجام دینے کے لئے تیار ہیں ، جبکہ وہ صاحب عقل ہیں؟ تو اس سوال کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس قسم کے افراد بہت کم ہیں۔ اور اکثر افراد اس قسم

۸۷

کے سخت ترین کام مثلاً باربرداری، چکی چلانا وغیرہ کے انجام دینے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں اس کے علاوہ یہ کہ اگر اس قسم کے سخت کام بھی کہ جنہیں حیوانات انجام دیتے ہیں انسان کو انجام دینے پڑتے تو وہ دوسرے کاموں کو انجام نہیں دے سکتا تھا، اس لئے کہ ایک اونٹ یا خچرکی جگہ پر کئی آدمیوں کو کام کرنا پڑتا اور یہ کام انسانوں کو اس قدر مشغول رکھتا کہ جس کی تھکن ، سختی ، تنگی اور مشقت کی وجہ سے انسان کے پاس اتنا وقت باقی نہ رہتا کہ وہ صنعت یا دوسرے کاموں کو انجام دے سکے۔

( تین قسم کے جاندار کی خلقت )

اے مفضل ، تین قسم کے جاندار اور اُس تدبیرپر کہ جن کے تحت انہیں پیدا کیا گیا ہے ، غوروفکر کرو جس میں ان تینوں کی بھلائی ہے۔

( ۱ ) انسان : جس کے لئے ذہانت و ادراک کو مقدر کیا تاکہ مختلف کام مثلاً تعمیرات ، تجارت ، بڑھئی کاکام ، سنہار کا کام او اس قسم کے دوسرے کام انجام دے ، لہٰذا اس کے لئے ہتھیلی ، پنجہ اور محکم انگلیاں پیدا کیں ، تاکہ وہ چیزوں کو پکڑ سکے اور مختلف چیزیں ایجاد کرکے انہیں محکم بنائے۔

( ۱ ) گوشت کھانے والے جانور: جن کی تقدیر میں یہ رکھا گیا ہے کہ یہ اپنی زندگی شکار کرکے بسر کریں تو ان کے لئے چھوٹی انگلیوں والے پنجے اور چنگال کی مانند ناخن عطا کئے گئے ، جو شکار کو پکڑنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں کہ جو صنعت کے لئے ہرگز مناسب نہیں۔

( ۳ ) گھاس کھانے والے جانور: جو نہ صاحب صنعت ہیں اور نہ شکاری لہٰذا اُن میں سے بعض کو ایسے سُم عطا کئے جن میں شگاف ہے ، تاکہ اُن حیوانات کو چرتے وقت زمین کی سختی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور بعض کے پاؤں انسان کے پاؤں سے شباہت رکھتے ہیں تاکہ یہ جانور زمین پر ٹھہر سکیں

۸۸

اور اُن سے باربرداری کی جاسکے ۔ اے مفضل ، فکر کرواس تدبیر پر کہ جو گوشت کھانے والے جانوروں کی خلقت میں استعمال ہوئی ہے ، تیز دانت ، چھوٹی مگر محکم انگلیاں اور وسیع و بزرگ منہ انہیں عطا کیا گیا ، یہ اس لئے کہ ان کی غذا گوشت ہے لہذا انہیں اس طرح کے اعضاء و جوارح عطا کیے کہ جو شکار کرنے میں ان کے مددگار ہوں۔ جیسا کہ بالکل یہی بات تم اُن پرندوں میں دیکھتے ہو جو درندہ صفت ہیں، کہ ان کے لئے بھی خصوصی چنگال خلق کیاگیا ہے تاکہ شکار کو پکڑنے اور پھاڑنے کے کام آئے ، اگر گھاس کھانے والے جانوروں کو جو نہ شکار کرتے ہیں اور نہ ہی گوشت کھاتے ہیں ، شکاری پرندوں کی طرح چنگال عطا کیا جاتا تو ان کے پاس یہ ایک زائد اور فضول چیز ہوتی کہ جس کی انہیں بالکل ضرورت نہیں ، بالکل اس طرح یہ بات بھی حکمت سے خالی ہوتی کہ اگر اُن حیوانات کو کہ جو درندہ صفت ہیں وہ چیزیں عطا نہ کی جاتی کہ جن کے وہ محتاج ہیں یعنی وہ چیزیں جن کے ذریعے وہ شکار کرکے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ ان جانوورں کے لئے تمام اُن چیزوں کو فراہم کیا گیا ہے جو ان کے لئے مناسب اور ضروری تھیں یا یوں کہا جائے کہ جن کے اندر ان کی بقاء اور بھلائی تھی۔

( چوپائے )

اب ذرا چوپاؤں پر غور کرو کہ کس طرح اپنے والدین کی اتباع کرتے ہیں اور مستقل راہ چلتے ہیں اور حرکت کرنے میں مشغول رہتے ہیں اور ہرگز اپنی زندگی میں والدین کے حمل و نقل اور ان کی تربیت کے محتاج نہیں ہوتے جس طرح سے انسان اپنی زندگی میں والدین کی تربیت کا محتاج ہوتا ہے ایسا اس لئے ہے کہ چوپاؤں کی ماں کہ پاس وہ سب کچھ نہیں ہوتا کہ جو انسان کی ماں کے پاس موجود ہے، مثلاً علم تربیت، ہاتھوں اور انگلیوں کی قوت اور کیوں کہ یہ تمام چیزیں حیوان کے پاس موجود نہیں لہٰذا اُن کے بچوں کو ایسی قوت عطا کی کہ وہ خود مستقل طور پر کھڑے ہوتے ہیں اور بغیر ماں کی مدد کے راہ چلتے

۸۹

ہیں اور بالکل اسی چیز کا مشاہدہ تم بہت سے پرندوں میں بھی کروگے ، مثلاً خانگی مرغی، تیتر اور قیچ(۱) وغیرہ کے بچے انڈے سے باہر آتے ہیں اور راہ چلنے لگتے ہیں اور دانہ چگتے ہیں لیکن وہ پرندے کہ جو ان سے زیادہ ضعیف اور لاغر ہیں کہ جن میں نہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت ہے اور نہ پرواز کی مثلاً پالتو کبوتر، جنگلی کبوتر اور حمّر(۲) کے بچے، کہ ان کی ماں کے دل میں ان کی اتنی زیادہ محبت رکھی کہ تم اس بات کا مشاہدہ کرو گے کہ وہ خود اپنے بچوں کے منہ میں غذا دیتی ہے اور غذا دینے کا یہ عمل اُس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک اِ ن کے بچے خود غذا کو چگنے کی صلاحیت پیدا کرلیں اور وہ خود مستقل ہوجائیں کبوتر کو خانگی مرغی کی طرح بچے بھی زیادہ عطا نہ کئے تاکہ وہ اپنے تمام بچوں کی پرورش اچھی طرح کرسکے، اور وہ فاسد ہو کر ہلاک ہونے سے محفوظ رہیں یہ خداوند حکیم و خبیر کی عظیم تدبیر ہے کہ اُس نے ہر ایک کو وہی تمام چیزیں عطا کیں جو اس کے لئے شائستہ اور مناسب ہیں۔

( چوپاؤں کی حرکت )

اے مفضل۔ ذرا حیوانات کے پاؤں کی طرف دیکھو کہ جب وہ راہ چلتے ہیں تو دونوں پاؤں دو دو کرکے آگے بڑھاتے ہیں کہ اگر ایک ایک کرکے آگے بڑھاتے تو راہ چلنا ان کے لئے دشواری کا باعث بنتا اس لئے کہ حیوانات راہ چلتے وقت بعض کو حرکت اور بعض پاؤں پر تکیہ کرتے ہیں اور جن حیوانات کے دو پاؤں ہیں وہ ایک پاؤں کو حرکت اور دوسرے پاؤں پر تکیہ کرتے ہیں ، چوپائے جن دو پاؤں کو حرکت دیتے ہیں وہ اُن دو پاؤں سے مختلف ہیں کہ جن پر وہ تکیہ کرتے ہیں اس لئے کہ اگر وہ اگلے دو پاؤں کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ چکور کی طرح مرغی کی ایک قسم۔

(۲)۔ سرخی مائل پرندہ۔

۹۰

حرکت دیتے اور پچھلے دو پاؤں پر تکیہ کرتے یا اس کے خلاف ہوتا تو جانور کسی بھی صورت میں زمین پر نہیں ٹھہرسکتا تھا، جس طرح سے تخت کہ اگر اس کے ایک طرف کے دونوں پائے نکال لیے جائیں تو تخت فوراً زمین پر گر جائے ا سی وجہ سے حیوانات راہ چلتے وقت دائیں ہاتھ اور بائیں پیر، بائیں ہاتھ اور دائیں پیر کو ایک ساتھ حرکت دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ زمین پر ٹھہرے رہتے ہیںاور نہیں گرتے۔

( حیوانات کس طرح اپنے سر کو انسان کے سامنے جھکائے ہوئے ہیں )

اے مفضل۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ گدھا چکی کو چلاتے وقت اپنی کس قدر قوت اُس میں لگاکر وزن کھینچتا ہے۔ گھوڑا ، کس طرح اپنے سر کو انسان کے سامنے جھکائے ہوئے ہے۔ اونٹ ، اگر فرار کرنے پر آجائے تو کئی مرد اس کی طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتے لیکن کس طرح ایک بچہ کی مانند مطیع و فرمانبردار دکھائی دیتا ہے، اور بالکل اسی طرح بیل کہ جو بے انتہاء قوی اور طاقت ور ہے ، مگر کس طرح اپنے مالک کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے فرمانبردار بنا ہوا ہے کہ کھیتی باڑی کے سخت تختے کو اپنی گردن پر بار کئے ہوئے زراعت کا کام انجام دیتا ہے ، گھوڑا کس طرح تیروں اور تلواروں کے درمیان ٹھہرا رہتا ہے اور وہ اپنے مالک کی اس بات پر راضی ہے کہ وہ اسے اس کام میں استعمال کرے اور بھیڑوں کا ریوڑ کہ جسے ایک آدمی چراتا ہے کہ اگر یہ ریوڑ منتشر ہوجائے اور ان میں سے ہر ایک الگ سمت فرار کرے تو چرواہا انہیں کبھی جمع نہیں کرسکتا،ا ور اس قسم کے دوسرے تمام حیوانات جنہیں انسان کا مطیع بنایا گیا ہے۔

اے مفضل کیا تمہیں معلوم ہے کہ آخر وہ انسان کے سامنے کیوں کر اپنا سر جھکائے ہوئے ہیں؟

اس لئے کہ وہ عقل و فکر نہیں رکھتے کہ اگر وہ عقل و فکر رکھتے تو بہت سے کاموں کو انجام نہ دیتے اونٹ اپنے مالک ، بیل اپنے مالک اور گوسفند اپنے ریوڑ سے فرار کرجاتا اور اس کے علاوہ یہ کہ یہ تمام جانور انسان کے خلاف ایک ہوجاتے، اور انسان کو ہلاک کردیتے کہ جب شیر، بھیڑیا، چیتا اور ریچھ سب

۹۱

ایک ہوجاتے تو کون ان کے مقابلہ میں ٹھہرتا، اب ذرا غور کرو کہ خدواند متعال نے کس طرح انہیں یہ سب کرنے سے روکا ہوا ہے بجائے اس کے کہ انسان ان سے ڈرتے وہ انسان سے ڈرتے ہیں اور ا س سے دور بھاگتے ہیں اور فقط اپنی غذا کی تلاش میں رات کے وقت باہر نکلتے ہیں ۔

ہاں، وہ اس قدر قوی اور طاقتور ہونے کے باوجود بھی انسان سے ڈرتے ہیں اور انسان کی طرف رُخ نہیں کرتے ورنہ یہ انسان کو تنگ کرکے رکھ دیتے۔

( کتّے میں صفت ِ مہر و محبّت )

اے مفضل۔تمام حیوانات میں سے کتے کو اپنے مالک کے لئے ایک خاص مہر و محبت عطا کی ہے تاکہ وہ اپنے مالک کی حفاظت کرے، اور یہ کتا گھر میں بھی آمدو رفت رکھتا ہے اور یہ خاص طور پر رات کی تاریکی میں اپنے مالک کو خوف وہراس سے بچاتا ہے اور اس کی محبت اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ اپنے مالک کے قدموں پر اپنی جان قربان کردیتا ہے، اور نہ فقط مالک سے بلکہ مالک کے مال سے بھی اُلفت رکھتا ہے اور اس کی الفت کی انتہاء تو یہ ہے کہ اگر اسے بھوکا رکھا جائے اور اس پر شدید ظلم کیا جائے تو بھی صبر کا مظاہرہ کرتا ہے، کتے میں اس صفت اُلفت و محبت کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے تاکہ وہ انسان کے لئے حفاظت کا کام انجام دے، اسی لئے کتے کے بدن کو اس قسم کے آلات مثلاً تیزدانت، درندہ جیسے چنگال اور خوفناک آواز عطا کی تاکہ چور اُس جگہ جانے سے اجتناب کرے اور خوف محسوس کرے کہ جہاں کتا پہرہ دے رہا ہو۔

۹۲

( حیوانات کی شکل و صورت )

اے مفضل ، اب ذرا حیوانات کی شکل و صورت پر غور کرو آنکھیں سامنے چہرے پر قرار دی گئی ہیں تاکہ تمام چیزوں کو آسانی سے دیکھ سکیں اور سامنے کی کسی چیز سے نہ ٹکرائیں یا یہ کہ گڑھے میں گرنے سے محفوظ رہیں اور ان کے منھ کو نیچے کی طرف کھلنے والا بنایا کہ اگر ان کا منھ بھی انسان کے منھ کی طرح سامنے کی طرف کھلتا تو وہ ہرگز زمین سے کسی بھی چیز کو نہیں اُٹھا سکتے تھے، مگر کیا تم نہیں دیکھتے کہ انسان اپنے منھ سے چیزوں کو اُٹھا کر نہیں کھا سکتا بلکہ غذا کھانے میں اپنے ہاتھوں سے مدد لیتا ہے ، اور یہ وہ فضیلت و برتری ہے جو انسان تمام کھانے والوں پر رکھتا ہے ، اور کیوں کہ حیوانات کے ہاتھ نہیں کہ وہ غذا کو زمین سے اُٹھا کر کھا سکیں لہٰذا اُن کے منھ کو نیچے کی طرف کھلنے والا بنایا تاکہ گھاس کو زمین سے اُٹھا سکیں اور اُن کے ہونٹوں میں ایسی قوت کو رکھا کہ جس کی مدد سے وہ نزدیک اور دور پڑی ہوئی چیزوں کو بآسانی اپنی طرف کھینچ سکتے ہیں۔

( جانوروں کو دُم کی ضرورت )

اے مفضل۔ جانوروں کی دُم اور اس کے فائدہ سے عبرت حاصل کرو، یہ دُم حیوان کی شرمگاہ پر پردے کی مانند ہے کہ جو اسے چھپائے ہوئے ہے اور دُم کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ حیوان کے شکم اور شرمگاہ کا درمیانی حصہ آلودہ ہوتا ہے جس پر مکھی اور مچھر جمع ہوتے ہیں اور یہ دُم انہیں اس جگہ سے دور کرنے کے عمل کو انجام دیتی ہے اور پھر حیوانات دُم کو حرکت دینے سے راحت و سکون محسوس کرتے ہیں اس لئے کہ جانور چاروں ہاتھوں پیروں پر کھڑے ہوتے ہیں، اگلے دو ہاتھ بدن کا

۹۳

وزن اُٹھاتے ہیں جن میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی لہٰذا حیوانات دُم کو دائیں اور بائیں حرکت دے کر راحت و سکون حاصل کرتے ہیں۔ دُم میں حیوانات کے لئے اور بھی بہت سے فائدہ ہیں جن کے ادراک سے عقل قاصر ہے کہ جو ضرورت پڑنے پر ظاہر ہوتے ہیں مثلاً اُس وقت کہ جب حیوان دلدل وغیرہ میں پھنس جائے تو دُم سے بہتر دوسری کوئی چیز نہیں جس سے پکڑ کر اُسے کھینچ لیا جائے اور دُم کے بالوں میں بھی انسان کے لئے بہت سے فائدہ ہیں جس سے انسان اپنی ضرورت پوری کرتا ہے، خداوند متعال نے اس کی کمر کو ہموار وقرار دیا اور پھر اسے ہاتھ اور پاؤں پر کھڑا کیا تاکہ سواری اورباربرداری کے کام آسکے اور ا س کی شرمگاہ کو پشت سے نمایاں رکھا تاکہ اس کے نر کو مقاربت کرتے وقت پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے کہ اگر اس کی شرمگاہ بھی زیر شکم عورت کی طرح ہوتی تو اس کا نر اس سے ہرگز مقاربت نہیں کرسکتا تھا، کیا تم نہیں دیکھتے کہ حیوان اپنی مادہ کے ساتھ روبرو ہو کر مقاربت نہیں کرسکتے جس طرح انسان اپنی زوجہ کے ساتھ کرتا ہے۔

( ہاتھی کی سونڈ کا حیرت انگیز عمل )

اے مفضل۔ غور وفکر کرو ہاتھی کی سونڈ اور اس میں استعمال شدہ لطیف تدبیر پر کہ وہ غذا کو اُٹھا کر منھ میں لے جانے کے لئے ہاتھ کی مانند ہے کہ اگر یہ نہ ہوتی تو ہاتھی کسی بھی چیز کو زمین سے اُٹھا کر نہیں کھا سکتا تھا، اس لئے کہ ہاتھی دوسرے حیوانات کی طرح گردن نہیں رکھتا کہ جسے زمین کی طرف بڑھائے پس گردن نہ ہونے کی وجہ سے اُسے لمبی سونڈ عطا کی گئی تاکہ اُس کی مدد سے وہ اپنی ضروریات کو پورا کرسکے، پس کون ہے وہ ذات جس نے اُس عضو کے عوض کہ جو موجود نہیں دوسرا عضو عطا کیا جو اُس کی کمی کو پورا کرتاہے؟ سوائے اس کے اور کوئی نہیں جو اپنی مخلوق پر رؤف و مہربان ہے پھر کس طرح سے اس عمل کو اتفاق کا نتیجہ کہا جائے جس طرح سے ستمگران کہتے ہیں۔

۹۴

اگر کوئی یہ سوال کرے کہ ہاتھی کو دوسرے چوپاؤں کی طرح گردن کیوں نہ عطا کی گئی؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہاتھی کا سر اور کان بہت وزنی ہیں کہ اگر یہ گردن کے اوپر ہوتے تو گردن کو توڑ ڈالتے اور ناکارہ بنادیتے، لہٰذا خداوند متعال نے ہاتھی کے سر کو دھڑ سے جوڑدیا، تاکہ ہاتھی کو سر اور کان کی سنگینی کا سامنا کرنا نہ پڑے اور سونڈ کو گردن کی جگہ قرار دیا تاکہ وہ غذا کو کھا سکے گویا حیوان کو گردن نہ ہونے کی صورت میں اسے ایک ایسی چیز عطا کی جو اس کی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔

اب ذرا دیکھو کہ کس طرح ہاتھی کی مادہ کی شرمگاہ کو زیر شکم قرار دیا کہ جب یہ مقاربت چاہتی ہے تو اس کی شرمگاہ اُبھر کر آشکار ہوجاتی ہے تاکہ اس کا نر اس کے ساتھ مقاربت کرسکے۔ عبرت حاصل کرو اس سے کہ کس طرح ہاتھی کی مادہ کی شرمگاہ کو زیر شکم دوسرے چوپاؤں کے برخلاف قرار دیا پھر اس میں اس خصلت کو رکھا کہ وہ اس عمل کے لئے تیار رہے کہ جس میں اُس کی نسل کی بقاء ہے۔

( زرافہ،خداوند عالم کی قدرت کا عظیم شاہکار )

اے مفضل۔ زرافہ کی خلقت ، اس کے مختلف اعضاء اور اس کے اعضاء کی دوسرے حیوانات کے اعضاء سے شباہت پر غور کرو کہ اس کا جسم گھوڑے کی مانند، اس کی گردن اونٹ کی مانند،اس کے پاؤں گائے کی طرح اور اس کی کھال چیتے کی سی ہے۔ خداوند حکیم سے غافل بعض افراد یہ کہتے ہیں کہ اس قسم کے حیوانات مختلف نر و مادہ کے ملاپ کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں اور ایسا اُس وقت ہوتا ہے کہ جب جانور پانی پینے کے لئے دریاؤں اور ندیوں کا رُخ کرتے ہیں اور وہاں یہ جانور مستی میں آجاتے ہیں اور مقاربت کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اس قسم کے جانور وجود میں آتے ہیں دراصل ان کا مطلب یہ ہے کہ زرافہ اور اس قسم کے دوسرے جانور درحقیقت کئی جانوروں کی مقاربت کا نتیجہ ہیں، اس قسم کی گفتگو کرنا ا نکی غفلت اور نادانی کا ثبوت ہے جبکہ اس قسم کے حیوانات ایک دوسرے سے ہرگز مقاربت

۹۵

نہیں کرتے ، نہ گھوڑا اونٹ سے، اور نہ اونٹ گائے سے مقاربت کرتا ہے، سوائے ان چند حیوانات کے جو ایک دوسرے کی شبیہ ہیں جو آپس میں ایک دوسر سے مقاربت کرتے ہیں ، جیسے گھوڑا ، گدھے کے ساتھ مقاربت کرتا ہے کہ جس کے نتیجے میں خچر وجود میں آتا ہے، اور بھیڑیا بجو کے ساتھ مقاربت کرتا ہے کہ جس کے نتیجے میں سمع(۱) وجود میں آتا ہے تو پس ان حیوانات کے ملاپ سے جو بھی جانور وجود میں آتے ہیں وہ ان دونوں کی شبیہ تو ہوتے ہیں مگر اس طرح نہیں کہ ایک عضو ایک جانور کی شبیہ اور دوسرا عضو دوسرے جانور کی شبیہ ہو کہ جیسا کہ زرافہ میں مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ ایک عضو گھوڑے کی طرح ، دوسرا عضو اونٹ کی طرح اور تیسرا عضو گائے کی طرح، بلکہ وہ جانور جو دو مختلف ملاپ سے وجود میں آتے ہیں وہ ان دونوں کی شبیہ ہوتے ہیں بالکل اُسی طرح جس طرح سے تم خچر میں اس چیز کا

مشاہدہ کرتے ہو کہ اس ،سر، کان، اور پیر گدھے اور گھوڑے کے متوسط ہیں اور اس کی آواز گدھے اور گھوڑے کی آواز سے مل کر بنی ہے، پس زرافہ میں اس قسم کی چیز کانہ ہونا اس بات پر دلیل ہے کہ وہ کئی جانوروں کے ملاپ سے وجود میںنہیں آیا جس طرح سے جاہل و غافل افراد گمان کرتے ہیں ۔

( بندر انسان کی شبیہ )

اے مفضل۔ فکر کروبندر کی خلقت اور اُس کی شباہت پر جو وہ انسان سے بہت سے اعضاء میں رکھتا ہے، ان اعضاء سے مراد سر وصورت ، کندھا اور سینہ ہے اور بندر کے جسم کا اندرونی حصہ بھی انسان کے جسم کے اندرونی حصے سے شباہت رکھتا ہے اور بندر ایک مخصوص شباہت جو انسان سے رکھتا ہے وہ اس کا ادراک اور ذہن ہے جس کے ذریعے وہ اپنے مالک کے اشارے کو سمجھتا ہے اور وہ انسان کے بہت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بجو کی طرح کا ایک جانور

۹۶

سے کاموں کی حکایت کرتا ہے مختصر یہ کہ بندر کی خلقت انسان کی خلقت سے شباہت رکھتی ہے اس قسم کی حکمت و تدبیر اس جانور میں اس لئے رکھی ہے تاکہ انسان اس سے عبرت حاصل کرے اور اس بات کو جان لے کہ اس کی طینت بھی حیوانات میں سے ہے اور ان کی خلقت بھی حیوانات کی خلقت سے مشابہ ہے ، اگر وہ شرف و فضیلت جو خداوند عالم نے اپنے فضل وکرم سے عقل و ذہن وفکر و نطق کے ذریعہ انسان کو عطا نہ کیا ہوتا تو انسان جانوروں کی شبیہ ہوجاتا یقینا بندر کے جسم میں کچھ چیزیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ جو اسے انسان سے جدا کرتی ہیں مثلاً نیچے کی طرف کھلنے والا منھ، لمبی دُم اور وہ بال جو بندر کے تمام جسم کو ڈھانپے ہوئے ہیں اگر بندر کا ذہن ،انسان کے ذہن کی مانند ، اس کی عقل ،انسان کی عقل کی طرح ، اس کی قوت نطق ، انسان کی قوت نطق کی طرح ہوتی تو کچھ زیادہ چیزیں اُسے انسان سے جد ا کرنے میں رکاوٹ نہ بنتیں ، پس انسان اور بندر کے درمیان درحقیقت اگر کوئی فرق ہے تو وہ بندر کے ناقص العقل اور قوت نطق کے نہ ہونے میں ہے۔

( حیوان کا لباس اور جوتے )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو خداوند متعال کے لطف و کرم پر کہ کس طرح اُس نے حیوانات کو بالوں پشم اور کُرک کا لباس زیب تن کیا ،تاکہ یہ لباس انہیں سردی اور دوسری آفتوں سے محفوظ رکھے، اور انہیں سموں کی مدد سے پاؤں کی برہنگی سے محفوظ کیا کیوں کہ وہ ہتھیلی اور انگلیاں نہیں رکھتے کہ جس کے ذریعے جوتے کی سلائی کرسکیں، لہٰذا اُن کی خلقت ہی میں انہیں ایسا جوتا پہنایا کہ جب تک وہ زندہ ہیں وہ جوتا بھی باقی ہے اور اس کے بدلے وہ نیا جوتا پہننے کی ضرورت نہیں رکھتے، لیکن انسان کیوں کہ اہل فن ہے اس کی ہتھیلی اور انگلیاں اس قسم کے کاموں کو انجام دے سکتی ہیں وہ اپنا لباس سیتا ہے انہیں مختلف حالات کے تحت بدلتا رہتا ہے اور اس میں اس کے لئے کئی فائدے بھی ہیں من جملہ یہ کہ وہ

۹۷

لباس بنانے کی مصروفیت کی وجہ سے عبس اور بیہودہ کاموں سے بچا رہتا ہے اور اس کا اس کام میں مصروف رہنا اسے شرارت اور سرکشی سے بچاتا ہے اور لباس کے اتارنے اور پہننے میں اس کے لئے راحت و سکون ہے۔ اور پھر انسان اپنے لئے کئی قسم کے لباس تیار کرکے اپنے لئے زینت و خوبصورتی فراہم کرتا ہے، مختصر یہ کہ انہی کاموں میں اس کے لئے لذت و آرام ہے اور پھر جوتے کی صنعت میں اس کے لئے ذریعہ معاش کا بندوبست بھی ہے کہ وہ کام کرکے اپنے اہل و عیال کی پرورش کرے ، خلاصہ یہ کہ بال، پشم ، کُرک حیوانات کے لئے لباس اور سُم جوتے کی جگہ ہیں۔

( حشرات الارض اور درندوں کا مرتے وقت حیرت انگیز عمل )

اے مفضل۔ چوپاؤں کی عجیب و غریب خلقت پر غوروفکر کرو کہ کس طرح مرتے وقت اپنے آپ کو پوشیدہ کرتے ہیں جس طرح سے انسان اپنے مردوں کو دفن کرتا ہے پس اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کہاں ہیں اُن وحشی درندوں کے لاشے کہ جو دکھائی نہیں دیتے اور وہ اس قدر کم تعداد میں بھی نہیں کہ جس کی وجہ سے وہ دکھائی نہ دیتے ہوں اور اگر کسی نے کہا کہ وہ تعداد میں انسانوں سے زیادہ ہیں تو اُس نے جھوٹ نہیں کہا، وہ سب جو تم بیابان اور پہاڑوں پر دیکھتے ہو ذرا شمار کرو اور اُن سے عبرت حاصل کرو جیسے ہرنوں کا گروہ، پہاڑی اور جنگلی گائیں، بارہ سنگھا، پہاڑی بکریاں اور اس قسم کے دوسرے وحشی درندے جیسے شیر، چیتا، بھیڑیا، وغیرہ اور مختلف اقسام کے حشرات الارض اور کیڑے مکوڑے اور اسی طرح مختلف قسم کے پرندے جیسے کوا، کبوتر، بطخ، سارس اور دوسرے ایسے پرندے کہ جو درندہ صفت ہیں (جیسے عقاب وغیرہ) کہ جب وہ مرتے ہیں تو دکھائی نہیں دیتے مگر ایک یا دو کہ جنہیں شکاری شکار کرلیتا ہے، یا کوئی درندہ انہیں پھاڑ دیتا ہے، ہاں جب یہ حیوانات اپنے اندر موت کے اثرات کو محسوس کرتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو ایک پناہ گاہ کی طرف کھینچتے ہیں اور مخفی ہوجاتے ہیں اور وہیں مرجاتے

۹۸

ہیں ، اگر ایسا نہ ہوتا تو بیابان حیوانات کے لاشوں سے پُر ہوجاتے اور ان کی بدبو سے ہوا فاسد ہوجاتی اور مختلف بیماریاں وجود میں آتیں، ذرا غور کرو اس امر پر کہ جس کی رسائی انسان تک ہابیل و قابیل کے قصے سے ہوئی کہ خداوند متعال نے کوے کو اس بات پر مأمور کیا کہ وہ قابیل کو بتائے کہ وہ اپنے قتل کئے ہوئے بھائی کی لاش کو زمین میں دفن کرے اور اولاد آدم اس طرح عمل انجام دے، پس کس طرح حیوانات کی طبیعت میں اس غریزہ کو رکھا گیا تاکہ انسان ان کے ناگزیر اثرات سے محفوظ رہے۔

( گوزن(۱) کا پیاسے ہونے پر حیرت انگیز عمل )

اے مفضل۔ بعض حیوانات کی ہوشیاری اور ان کی چالاکی پر غور کرو جو خداوند متعال نے اپنے لطف و کرم سے انہیں عطا کی تاکہ اس کی کوئی مخلوق بھی اس کی نعمتوں سے محروم نہ رہ جائے جانوروں کی یہ چالاکی اور ہوشیاری خود ان کی عقل اور تأمل سے نہیں بلکہ تمام چیزیں اس مصلحت کی وجہ سے ہیں کی جو ان کی خلقت میں استعمال ہوئی ہے۔

اب ذرا دیکھوکہ یہ گوزن جو سانپ کو کھاتا ہے اور کھانے کے بعد شدید پیاسا ہوجاتا ہے لیکن پھر بھی پانی پینے سے اپنے آپ کو روکتا ہے اس لئے کہ وہ ڈرتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ زہر اس کے سارے بدن میں سرایت کرجائے، اور اُسے ہلاک کردے پس وہ پیاس کی شدت سے پانی کے گڑھے کے کنارے کھڑا رہتا ہے اور آہ وبکا کرتا ہے لیکن پھر بھی پانی پینے سے اپنے آپ کو روکتا ہے کہ اگر پانی پی لے تو اُسی وقت ہلاک ہوجائے، اب ذرا غور کرو اس جانور کی طبیعت پر کہ جو موت کے ڈر سے تشنگی کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)بارہ سنگھا،جنگلی گائے،وغیرہ

۹۹

غالب ہونے کے باوجود پانی نہیں پیتا اور یہ وہ مرحلہ ہے کہ جہاں شاید صابر انسان بھی اپنے آپ پر قابو نہ پاسکے۔

( لومڑی کس چالاکی سے اپنی غذا حاصل کرتی ہے )

اے مفضل۔ لومڑی کے ہاتھ جب غذا نہیں لگتی تو وہ اپنے آپ کو مردہ جیسا بناکر لیٹ جاتی ہے اور اس طرح پیٹ میں ہوا بھرتی ہے کہ پرندے یہ سمجھیں کہ وہ مردہ ہے ، اور جیسے ہی وہ لومڑی پربیٹھتے ہیں تاکہ وہ اسے پھاڑ ڈالیں اور کھالیں تو ایسی صورت میں لومڑی بلافاصلہ ان پرندوں پر جھپٹتی ہے اور ان کا شکار کرلیتی ہے وہ کون ہے جس نے بے زبان و بے عقل لومڑی کو یہ حیلہ و چالاکی سکھائی؟ سوائے اس کے کہ جو اس کی روزی کا ذمہ دار ہے، کہ وہ اسے اس حیلہ و چالاکی اور دوسرے وسیلہ کے ذریعہ روزی پہنچاتا ہے اس لئے کہ لومڑی دوسرے حیوانات کی طرح اپنے شکار کے سامنے مقابلہ کی قوت نہیں رکھتی، لہٰذا اسے زندگی بسر کرنے کے لئے یہ حیلہ و چالاکی سکھائی۔

( دریائی سور کے غذا حاصل کرنے کا طریقہ کار )

اے مفضل۔ دریائی سور جب یہ چاہتا ہے کہ کسی پرندہ کا شکار کرے تو اس کی چالاکی یہ ہوتی ہے کہ وہ مچھلی کا شکار کرتا ہے اور اسے مار دیتا ہے اور پھر اس کے شکم کو اس طرح چاک کرتا ہے کہ وہ پانی پر باقی رہے اور خود اُس کے نیچے چھپ جاتا ہے اور آہستہ آہستہ پانی کو ہلاتا رہتا ہے کہ وہ پانی کے نیچے دکھائی نہ دے، اور انتظار کرتا ہے یہاں تک کہ پرندہ مچھلی کے لاشے پر بیٹھتا ہے کہ اُسے کھالے ایسی صورت میں دریائی سور بلافاصلہ اس پرندہ پر جھپٹتا ہے اور اس کا شکار کرلیتا ہے ، اے مفضل۔ ذرا اس حیلہ و

۱۰۰

چالاکی پر غور کرو کہ کس طرح خداوند متعال نے حیوان کو سکھائی جس میں اس کی بھلائی ہے۔

( بادل اژدھا پر موکّل کی مانند )

مفضل کا بیان ہے کہ میں نے عرض کی، اے میرے آقا و مولا اب آپ مجھے اژدھا اور بادل کے بارے میں بتائیے ، آپ ـ نے فرمایا: بادل اژدھا پر موکل کی مانند ہے کہ جہاں بھی اُسے پاتا ہے اپنی طرف کھینچتا ہے جس طرح سے مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے، لہٰذا اژدھا بادل کے ڈر سے سر زمین سے باہر نہیں نکالتا مگر یہ کہ جب سخت گرمی ہو یا پھر آسمان بادل سے خالی ہو۔

میں نے عرض کی کہ آخر بادل کو اژدھا پر کیوں کر موکل بنایاگیا ہے؟ کہ اژدھا بادل کے ہٹنے کے انتظار میں رہتا ہے اور بادل جب بھی اژدھا کو پاتا ہے اُسے اپنی طرف کھینچتا ہے؟

امام ـ نے فرمایا: ایسا اس لئے ہے تاکہ لوگ اژدھا کے ضرر سے محفوظ رہیں ، مفضل کا بیان ہے کہ میں نے عرض کی اے میرے آقا ومولا آپ نے میرے لئے وہ کچھ بیان فرمایا کہ جس سے عبرت حاصل کرنے والے لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں اب آپ میرے لئے شہد کی مکھی ، چیونٹی اور پرندوں کے بارے میں کچھ بیان فرمائیں۔

( چیونٹی کی خلقت )

آپ نے فرمایا: اے مفضل ذرا غور کرو چیونٹی کے حقیت اور اس کے اس قدر چھوٹے ہونے پر۔ کیا تم اُس کی خلقت میں کوئی نقص پاسکتے ہو کہ اسے اُس چیز کی ضرورت ہو جس میں اُس کی بھلائی ہے؟ اب ذرا بتاؤ کہ آخر یہ صحیح تقدیر و تدبیر کس کی طرف سے ہے؟ کیا یہ تدبیر کے علاوہ کوئی دوسری چیز ہوسکتی

۱۰۱

ہے کہ جو چھوٹی اور بڑی چیزوں میں یکساں طور سے مشاہدہ کی جاتی ہے۔ اے مفضل۔ غور کرو چیونٹی اور اس کے گروہ پر کہ ہ کس طرح غذا کو فراہم کرتی ہیں تم دانے اٹھانے میں ان کی جماعت کو انسان کی جماعت کی طرح پاؤگے بلکہ چیونٹی اس عمل میں انسانوں سے بھی زیادہ چست و چالاک ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ دانے کو اٹھانے اور حمل کرنے میں انسانوں کی طرح ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں ، پھر وہ دانے کو حمل کرنے کے بعد دو حصوں میں تقسیم کردیتی ہیں تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دان زمین میں اگ جائے، اور فاسد ہوجائے اور اگر کوئی رطوبت یا پانی وغیرہ اس کے سوراخ تک پہنچ جائے تو وہ دانے کو سوارخ سے باہر لے آتی ہیں اور اُس وقت تک اُسے سورج کی روشنی میں رکھتی ہیں جب تک وہ خشک ہو جائے اس کے علاہ یہ کہ چیونٹی اپنے گھر کو زمین کی سطح سے بلند بناتی ہے تاکہ کہیں ایسانہ ہو کہ وہ گرفتارِ سیلاب ہوکر غرق ہوجائے۔ یہ تمام چیزیں وہ جانور انجام دیتا ہے کہ جس کے پاس عقل و فکر کا خزانہ موجود نہیں لیکن یہ خداوند عالم کا لطف ہے کہ اس نے یہ تمام چیزیں اس کی طبیعت میں رکھیںہیں۔

( اسد الذّباب اور مکڑی کا شکار کرنا )

اے مفضل ۔ ذرا غور کرو اس چھوٹے سے جانور پر کہ جسے أسد الذباب کہتے ہیں۔ اور غور کرو اس کے اس حیلہ و چالاکی پر کہ جس کے ذریعہ یہ اپنی زندگی بسر کرتا ہے اس لئے کہ تم اسے دیکھو گے کہ جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ مکھی اُس کے پاس بیٹھی ہے تو وہ اپنے آپ کو اس طرح چھوڑدیتا ہے کہ جیسے وہ مردہ ہے کہ جو حرکت نہیں کرسکتا، یہاں تک کہ وہ جان لیتا ہے کہ مکھی مکمل طور پر اس سے غافل ہوگئی ہے تو وہ آہستہ آہستہ مکھی کی طرف حرکت شروع کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو مکھی کے اتنا نزدیک کرلیتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) مکڑی کی طرح کا ایک چھوٹا سا جانور جواکثر گھروں میں بھی دکھائی دیتا ہے۔

۱۰۲

ہے کہ اگر وہ مکھی پر جھپٹے تو وہ بآسانی اُس تک پہنچ جائے اور اسی لمحہ وہ بلا فاصلہ اُس پر جھپٹتا ہے اور اُسے پکڑ لیتا ہے، اور اُسے پکڑتے ہی اپنے آپ کو اُس میں اُلجھا دیتا ہے، اس لئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مکھی

اس کی گرفت سے فرار ہوجائے اور پھر مکھی کو اس وقت تک اس حالت میں رکھتا جب تک کہ وہ محسوس کرے کہ وہ سست و ضعیف پڑگئی ہے، پھر اُسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے کھالیتا ہے، اور اس طریقہ سے وہ اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔

اور اب ذرا مکڑی کو دیکھو کہ وہ جالے کو اس لئے بناتی ہے تاکہ مکھی کو اُس میں پھنسا کر اس کاشکار کرسکے، وہ خود ا س جالے کے اندر بیٹھ کر مکھی کے آنے کا انتظار کرتی ہے اور جیسے ہی مکھی اُس پر بیٹھتی ہے وہ فوراً اُس پر حملہ آور ہوتی ہے اور اس کا حملہ اس قدر صحیح ہوتا ہے کہ وہ سیدھی مکھی پر گرجاتی ہے اور اس طرح وہ اپنی زندگی کی مشین کو چلاتی ہے۔ اسد الذباب کا شکار کرنا، شکاری کتے کے شکار کی مانند ہے اور مکڑی کا شکار کرنا ایسا ہے جیسا کہ شکاری رسی پھینک کر شکار کرتا ہے، ذرا غور کرو اس چھوٹے اور ضعیف جانور پر کہ کس طرح اس کی طبعیت میں اس چیز کو رکھا کہ جس تک کوئی انسان بھی بغیر فن و حیلہ اور رسی کے استعمال کے بغیر نہیں پہنچ سکتا، پس کسی بھی چیز کو حقارت کے نگاہ سے مت دیکھو جبکہ تم اس سے عبرت حاصل کررہے ہو، جیسے چیونٹی اور اس قسم کے دوسرے جانور اس لئے کہ کبھی چھوٹی چیزوں کے ذریعہ بڑی نشانیوں کو ظاہر و آشکار کیا جاتا ہے، اور وہ اس لحاظ سے بڑی چیزوں سے کم نہیں جیسا کہ دینار جو سونے کا سکہ ہے جب اس کا مثقال کے ذریعہ وزن کیا جائے تو ا س کی قدر و قیمت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

(پرندے کی خلقت)

اے مفضل۔ ذرا پرندوں کے جسم اور ان کی خلقت پر غور کرو،کیونکہ ابتداء ہی سے انکی طبعیت میں پرواز کو رکھا ہے ۔ لہٰذا ان کے جسم کو ہلکا بنایا، تمام جانوروں کو چار پاؤں عطا کئے مگر انہیں دو پاؤں عطا

۱۰۳

کئے اور چار سے لے کر پانچ تک انگلیاں اور پیشاب و فضلہ کے خارج ہونے کے لئے ایک سوراخ رکھا اور پھر اس کے سینے کو اُبھرا ہوا پیدا کیا تاکہ ان کے لئے ہوا کا کاٹنا آسان ہوجائے۔ جیسا کہ کشتی بھی اسی طرز پر بنائی جاتی ہے، تاکہ پانی کو کاٹ کر آگے بڑھ سکے اور اس کے لئے دو بازو اور دم عطا کی کہ جو پروں سے ڈھکی ہوئی ہے جو اُسے بلند پرواز کرنے میں مدد دیتی ہے اور پھر اس کے جسم کو بھی پروں سے ڈھانکا تاکہ ہوا پروں میں داخل ہوکر جسم کو ہلکا بنادے، اور کیونکہ ان کے کھانے کا طریقہ یہ رکھا گیا کہ دانے اور گوشت کو بغیر چبائے نگلیں، لہٰذا انہیں دانت عطا نہ کئے گئے انہیں تیز و سخت چونچ عطا کی جس کی مدد سے وہ غذا کو اُٹھاکر جلدی سے نگل لیتے ہیں لہٰذا ان کے بدن میں اس قدر حرارت رکھی گئی جو غذا کو ان کے بدن میں پکا کر ہضم کردیتی ہے اس طرح وہ غذا کو چبا کر کھانے سے بے نیاز ہو جاتے ہیں اس مطلب کو اس بات سے سمجھا جاسکتا ہے کہ انگور کا دانہ انسان کے جسم سے ثابت باہر آجاتا ہے، لیکن پرندوں کے جسم میں ہضم جاتا ہے۔اور اس کے اثرات دیکھنے میں نہیں آتے اور پھر یہ طے پایا کہ پرندے انڈے دیں بچے نہ دیں تاکہ انہیں اڑنے میں سنگینی کا سامنا کرنا نہ پڑے اس لئے کہ اگر بچہ اس وقت تک ان کے جسم میں رہتا جب تک کہ وہ محکم ہوجائے تو مسلم طور پر اُن کا جسم وزنی ہوجاتا ، جو اُڑان میں رکاوٹ کا سبب بنتا، پس اُس نے اپنی ہر مخلوق میں وہ ہی تدبیر استعمال کی جو اس کے لئے مناسب تھی، اور کیونکہ پرندوں کے لئے یہ بات طے ہوچکی تھی کہ وہ ہوا میں پرواز کریں، لہٰذا انہیں انڈوں پر بیٹھنا سکھایا۔ ان میں سے بعض ایک ہفتہ بعض دو ہفتہ اور بعض تین ہفتے بیٹھتے ہیں، یہاں تک کہ بچہ انڈے سے باہر آجاتا ہے اور جب بچہ انڈے سے باہر آجائے تو اُس کی ماں اس وقت تک اس کے منہ میں ہوا بھرتی ہے جب تک وہ خود غذا حاصل کرنے کے قابل ہوجائے او ر پھر مسلسل اس کی تربیت میں لگی رہتی ہے اور اس کے لئے غذا فراہم کرتی ہے کہ جس سے اس کی زندگی بسر ہوتی ہے۔ آیا وہ کون ہے؟ جس نے پرندوں کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہرایا کو وہ دانوں کو چگیں اور انہیں جمع کرنے کے

۱۰۴

بعد اپنے بچوں کے لئے غذا فراہم کریں؟ کس لئے وہ مشقتوں اور مشکلوں کو برداشت کرتے ہیں ، جبکہ وہ صاحب عقل و فکر نہیں اور نہ ہی وہ اپنے بچوں سے کسی قسم کی آرزو رکھتے ہیں کہ وہ ان کی مستقبل میں عزت ،ان کے نام اور ان کی رسم و رواج کو باقی رکھنے والا ہے، یہ بات اس چیز پر دلیل ہے کہ حیوانات کو اپنے بچوں کے لئے مہربان ایک ایسے سبب کے خاطر بنایا گیا ہے کہ جسے خود حیوانات نہیں جانتے اور نہ اس بارے میں سوچتے ہیں اور وہ سبب ان کی بقاء اور دوام نسل ہے اور یہ فقط خداوند متعال کا لطف ہے کہ جس کا ذکر بلند و بالا ہے۔

( خانگی مرغی )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو مرغی کے انڈے دینے اور اپنے بچوں کی پرورش کرنے پر اگر انڈے دینے کے بعد ان کے پاس کوئی آشیانہ نہ ہو تو وہ شور وغل کرتی ہے اور غذا کھانا بھی چھوڑ دیتی ہے یہاں تک کہ اُس کا مالک یا صاحب خانہ اس کے لئے انڈوں کو جمع کرتا ہے اور وہ انڈوں کو اپنے پروں میں لے لیتی ہے تاکہ انڈوں سے چوزے باہر آجائیں ۔ آخر کیوں اس میں یہ حالت و کیفیت پیدا ہوجاتی ہے سوائے اس کے کہ اس کی نسل باقی رہے ، آخر وہ کون ہے جو اس سے دوام نسل چاہتا ہے جبکہ وہ نہ صاحب عقل ہے اور نہ صاحب فکر ، اس عمل کو غریزہ کے طور پر اس میں رکھا گیا ہے۔

( انڈے کی بناوٹ )

اے مفضل۔ ذرا غور کروانڈے کی بناوٹ اور اُس کی زردی پر کہ جو قدرے سخت ہے اور سفیدی پر جو باریک ہے اس میں سے کچھ بچے کے وجود کے لئے اور کچھ اس کی غذا کے لئے ہے ، یہاں تک کہ بچہ

۱۰۵

انڈے سے باہر آجائے ، اب ذرا غور کرو اس تدبیر پر کہ جب بچہ ایک محکم خول کے اندر ہے کہ جہاں کوئی راہ نہیں، ایسے میں اس کے لئے ضروری ہے کہ کوئی غذا ہو جو اُس کے خول سے باہر آنے تک اُس کی کفالت کرے، بالکل اس شخص کی طرح جسے کسی قید خانہ میں قید کردیا گیاہو، کہ ایسی صورت میں کوئی چیز اُس تک نہیں پہنچ سکتی ، تو اسے صرف اتنا کھانا دیا جاتا ہے کہ جب تک وہ قید خانہ سے باہر آئے، وہ کھانا اس کے لئے کافی ہو۔

( پرندوں کا حوصلہ )

اے مفضل۔ ذرا پرندے کے حوصلہ اور جو کچھ اُس کے مقدر ہوا اُس پر غور کرو، کیونکہ پرندے کی معدہ تک غذا پہنچنے کی جگہ بہت باریک ہے لہٰذا اُس میں غذا آہستہ آہستہ نفوذ کرتی ہے پس اگر وہ پرندہ دوسرا دانہ اُس وقت تک نہ چگتا جب تک کہ پہلا دانہ معدہ تک نہ پہنچ جائے، تو ایسے میں پرندہ ہرگز سیر نہ ہوتا اور بھوکا رہ جاتا لہٰذا اس طرح تدبیر کو رکھا گیا ہے کہ پرندہ شدت حرس سے جلدی جلدی دانہ چگتا ہے ، اور جو تھیلا ( پوٹا) اس کے آگے لٹکا ہوا ہے اس میں جمع کرتا رہتا ہے ، پھر وہ تھیلا(پوٹا) اُس جمع شدہ غذا کو آہستہ آہستہ معدہ کی طرف بھیجتا ہے، پرندہ کے لئے اس تھیلے میں ایک اور فائدہ بھی ہے اور وہ یہ کہ بعض پرندے اپنے بچوں کو غذا دیتے ہیں لہٰذا ایسے میں غذا کو پلٹانا آسان ہوجاتا ہے۔

( حیوانات میں اختلاف رنگ و شکل اتفاق کا نتیجہ نہیں ہے )

مفضل کا بیان ہے کہ میں نے عرض کی اے میرے آقا و مولا بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں حیوانات میں رنگ و شکل کا اختلاف ان کے مختلف حیوانات سے ملاپ کا نتیجہ ہے اور یہ سب محض

۱۰۶

اتفاق کا نتیجہ ہے امام ـ نے ارشاد فرمایا: اے مفضل، یہ تم مور ، اورمرغ کے پروں پر جو مساوی درجہ بدرجہ نقش دیکھتے ہو یہ نقش ایسے ہیں جیسا کہ قلم سے نقاشی کی گئی ہو یہ کس طرح سے مختلف جانوروں کے ملاپ اور اتفاق کا نتیجہ ہوسکتے ہیں،جب کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کی شبیہ ہیں ، اور کسی بھی قسم کا اختلاف نہیں رکھتے یہی بات اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ اگر یہ اتفاق کا نتیجہ ہوتے تو ان میں برابری نہ پائی جاتی اور وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے۔

( پرندے کے پر کی بناوٹ )

اے مفضل۔ پرندے کے پر ، پر غور کرو کہ تم اُسے اس طرح بنا ہوا پاؤ گے، جس طرح سے لباس بُنا جاتا ہے کہ بعض پروں کو بعض میں پیوست کیا ہوا ہے، جیسا کہ دھاگے کے اندر دھاگہ اور بال کے اندر بال پیوست ہوتا ہے اور پھر تم ذرا اُس کی ساخت پر تو غور کرو کہ ذرا سا کھینچنے سے کھل جاتا ہے لیکن ایسے نہیں کہ بالکل ہی اُس سے جدا ہوجائے، یہ نظام اس لئے رکھا گیا ہے تاکہ پرندوں کے پر میں ہوا داخل ہوسکے اور جب وہ اڑنا چاہتا ہو تو اسے بلند پرواز کرنے میں آسانی ہو اور تم پروں کے اندر ایک محکم و مضبوط نلی پاؤگے جس پر پروں کو بنایا گیا ہے ، تاکہ اس کی سختی محفوظ رہے، اور یہ نلی سخت ہونے کے باوجود درمیان سے خالی ہے، تاکہ وہ ہلکی رہے اور پرندے کو اُڑنے میں دشواری کا سامنا کرنا نہ پڑے۔

( بعض پرندوں کے لمبے پاؤں ہونے کی علت )

اے مفضل۔ کیا تم نے لمبے پاؤں والے پرندہ کو دیکھا ہے؟ اور کیا تم جانتے ہو کہ اس کے لمبے پاؤں میں اس پرندہ کے لئے کیا منفعت و فائدہ ہے؟ ایسا اس لئے ہے کہ یہ پرندہ ایسی جگہ زندگی بسر

۱۰۷

کرتا ہے جہاں پانی فراوانی سے پایا جا تا ہے اور وہ اُس دیدبان کی طرح ہے جو بلند مقام سے مسلسل پانی میں دیکھ رہا ہے اور جب وہ کسی ایسی چیز کو دیکھتا ہے کہ جو اس کی غذ اہے تو بہت ہی آرام سے اُس تک پہنچ جاتا ہے ۔ اگر اس کے پاؤں چھوٹے ہوتے، اور وہ اپنے شکار کی طرف حرکت کرتا تو ا س کا شکم پانی سے لگتا جس سے پانی ہلتا، اور شکار کو فرار کرنے کا موقع مل جاتا اور شکار فرار ہوجاتا ،لہٰذا اس پرندے کے لئے لمبے پاؤں خلق کئے گئے تاکہ وہ اپنی ضرورت کو پورا کرسکے اور اسے اپنی ضرورت کو پورا کرنے میں کسی بھی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے ذرا غور کرو، پرندوں کی مختلف تدابیر پر تم جس پرندے کے لمبے پاؤں اور لمبی گردن دیکھتے ہو یہ اس لئے تاکہ وہ اپنی غذا کو زمین سے اُٹھا سکیں اور اگر ان پرندوں کے پاؤں لمبے اور گردن چھوٹی ہوتی تو یہ ہرگز اپنی غذا کو زمین سے نہیں اُٹھا سکتے تھے،اور اس کی لمبی چونچ اور لمبی گردن کی وجہ سے یہ کام اُس کے لئے بالکل آسان اور ممکن ہوجاتا ہے۔

( چڑیا روزی کی تلاش میں )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو، چڑیا کس طرح سارا دن روزی کی تلاش میں رہتی ہے اور اس کے لئے اس کی روزی نہ نایاب ہوتی ہے اور نہ ہر جگہ موجود بلکہ جدوجہد کے بعد وہ اسے تلاش کرتی ہے اور بالکل اسی طرح دوسری تمام مخلوق ، بے شک پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات کہ جس نے روزی میں اس اندازہ تدبیر کو رکھا اور اُسے ہرگز چڑیا کی دسترس سے باہر قرارنہ دیا اس لئے کہ اس نے اپنی مخلق کو حاجتمند بنایا ہے اور نہ اس طرح رکھا کہ وہ ہر جگہ فراوانی سے موجود ہو اور وہ بآسانی اُس تک پہنچ جائے اگر اس طرح کی تدبیر نہ کی جاتی تو خود اس میں چڑیا کے لئے بھلائی نہ تھی، کیونکہ اگر پرندے اپنی غذا کو ایک جگہ پاتے تو وہ سب وہاں جمع ہوجاتے اور اس قدر غذا کھاتے کہ انہیں بدہضمی ہوجاتی، اور اس طرح وہ ہلاک ہوجاتے اور اسی طرح اگر انسان بھی اپنی روزی کو حاصل کرنے میں مشغول نہ رہتا تو سرکش

۱۰۸

ہوجاتا، فساد زیادہ ہوتے اور خواہشات ظاہری طور پر پھیل جاتیں۔

( رات میں باہر نکلنے والے جانوروں کی غذا )

اے مفضل۔ کیا تم جانتے ہو ان پرندوں کی غذا جو رات کو باہر نکلتے ہیں۔ مثلاً ، أُلُّو، چمگادڑ اور زہریلے جانور مثلاً، سانپ ، بچھو وغیرہ ۔ کیا ہے؟ مفضل کا بیان ہے کہ میں نے عرض کی جی نہیں۔ آپ نے فرمایا: ان جانوروں کی غذا وہ چیزیں ہیں جو رات کو فضا میں منتشر دکھائی دیتی ہیں مثلاً مچھر، تتلی ، ٹڈی، شہد کی مکھی اور اس قسم کے دوسرے حشرات ۔ اس لئے کہ یہ حشرات فضا میں ہمیشہ اور ہر وقت موجود ہیں اور کوئی جگہ ان سے خالی نہیں، اس بات کا امتحان تم اس طرح کرسکتے ہو کہ جب تم تاق میں یا گھر کے کسی بھی کونے میں چراغ جلاتے ہو تو ان میں سے اکثر چراغ کے گرد جمع ہوجاتے ہیں ۔ اب ذرا یہ بتاؤ یہ سب کہاں تھے، نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب نزدیک سے آئے ہیں ، اور اگر کوئی یہ کہے کہ یہ سب بیابان اور صحراء سے آئے ہیں تو ان کے جواب میں کہا جائے گا کہ کس طرح انہوں نے اس وقت اتنی بڑی راہ کو طے کیا اور کس طرح اتنی دور سے اُس چراغ کو دیکھا کہ جو گھر میں روشن ہے جبکہ دیوار یں گھر کا احاطہ کئے ہوئے ہیں ، پس ایسی صورت میں ان سب کا چراغ کے گرد جمع ہونا اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ حشرات ہر وقت اور ہر جگہ فضا میں منتشر ہیں اور جب اُلُّو ، چمگادڑ اوران جیسے دوسرے پرندے رات کو باہر نکلتے ہیں تو انہیں غذا کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ذرا غور کرو اُن پرندوں کی غذا جو رات کے علاوہ باہر نہیں نکلتے ، ان حشرات کے ذریعہ فراہم کی ہے تو پس اس قسم کے حیوانات کی خلقت کے راز کو جان لو کہ جن کے بارے میں بہت سے لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ان کی پیدا ئش زائد اور فضول ہے۔

۱۰۹

( چمگادڑ کی عجیب و غریب خلقت )

اے مفضل۔ چمگادڑ کی خلقت بھی عجیب و غریب ہے اس کی یہ خلقت چوپاؤں اور پرندوں سے شباہت رکھتی ہے، اس لئے کہ چمگادڑ کے دو کان (جو باہر نکلے ہوئے ہیں) دانت اور بال ہوتے ہیں اور دوسرے تمام ممالیہ جانوروں کی طرح یہ بھی ممالیہ ہے اور پیشاب کرتا ہے اور جب راہ چلتا ہے تو دو ہاتھ اور دو پاؤں کی مدد سے راہ چلتا ہے اور یہ تمام اوصاف پرندہ کے اوصاف کے برخلاف ہیں چمگادڑ ان پرندوں میں سے ہے کہ جو رات کے وقت باہر آتے ہیں، اور اپنی غذا کو ان چیزوں سے حاصل کرتے ہیں جو فضا میں منتشر ہوتی ہیں مثلاً پروانہ وغیرہ ۔

اے مفضل۔ اس کے بارے میں بعض لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ وہ غذا نہیں کھاتا بلکہ اس کی غذا ہوا ہے، حالانکہ یہ کہنا دو طرح سے غلط ہے اول یہ کہ وہ پیشاب و فضلہ کرتا ہے اور یہ عمل بغیر غذا کھائے ناممکن ہے اور دوم یہ کہ وہ دانت رکھتا ہے اگر وہ اُن دانتوں سے کوئی چیز نہیں کھاتا تو اس کے دانتوں کا ہونا بے معنی ہے، جبکہ خلقت میں کوئی چیز بھی بے معنی نہیں،یقینا اس جانور کے فائدے بہت معروف ہیں یہاں تک کہ اس کا فضلہ بہت سے کاموں اور دواؤں میں استعمال ہوتا ہے اور سب سے زیادہ نفع اس کی عجیب و غریب خلقت کا ہونا ہے کہ جو خالق دو جہاں کی قدرت پر دلالت کرتی ہے کہ وہ جس کو جس چیز میں جس طرح چاہے استعمال کرتا ہے جس میں خود اُس چیز کی مصلحت ہے۔

۱۱۰

( ابن نمرہ(1) کی شجاعت )

اے مفضل۔ اور اب اس چھوٹے سے پرندہ کو دیکھو کہ جسے ابن نمرہ کہتے ہیں کہ جو درخت میں آشیانہ بنا کر اُس سانپ کو دیکھ رہا ہے کہ جو منہ کھولے اس کے آشیانہ کی طرف بڑھ رہا ہے تاکہ وہ ابن نمرہ اور ا س کے بچوں کو نگل لے کہ اس حالت میں یہ پرندہ بے چین وپریشان ہوتا ہے اور اپنے دفاع کے لئے کوئی راہ تلاش کرتا ہے کہ اچانک اس پرندہ کی نگاہ اُن زہر آلود کانٹوں پر پڑتی ہے کہ جنہیں حسکہ کہا جاتا ہے یہ پرندہ فوراً ان کانٹوں کو اٹھاتا ہے اور سانپ کے منھ میں دالنا شروع کردیتا ہے اور سانپ ان کانٹوں میں الجھ جاتا ہے اور دائیں اور بائیں لوٹ لگاتا ہے اور اسی حالت میں مرجاتا ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر یہ بات میں تمہیں نہ بتاتا تو کیا یہ بات تمہارے یا کسی اور کے خیال میں آسکتی تھی کہ ایک حسکہ سے اتنا بڑا فائدہ اور ایک چھوٹے سے پرندہ سے اتنے بڑے عمل کی توقع کی جاسکتی ہے اے مفضل ۔ اس واقعہ اور قسم کی دوسری چیزوں سے عبرت حاصل کرو کہ جن میں اتنے عظیم فائدے ہیں جو لوگ نہیں جاتے ، مگر یہ کہ کوئی حادثہ رونما ہوا یا انہیں کوئی بات بتائی جائے۔

( شہد کی مکھی )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو شہد کی مکھی پر کہ وہ کس طرح سے شہد کو فراہم کرنے کے لئے چھے کونے کا گھر بنانے کے لئے جمع ہوتی ہیں، اور جو کچھ تم اِس میں دیکھتے ہو یہ سب کام بہت زیادہ باریک بینی سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) مینا کی طرح کا چھوٹا سا پرندہ

۱۱۱

انجام پاتے ہیں اور اگر تم اُس کا بہت غور سے مشاہدہ کرو تو تم اس عمل کو حیرت انگیز اور نرم اور نازک پاؤ گے۔اور اگر تم اس کی بناوٹ پر نگاہ کرو تو یہ ایک بڑا کام ہے کہ جس کی قدر وقیمت لوگوں کے درمیان بہت زیادہ ہے لیکن اگر تم اس کے بنانے والے کی طرف نگاہ کرو تو اُسے جاہل اور فکر سے خالی پاؤ گے کہ وہ اپنے ہی متعلق فکر نہیں رکھتی، چہ جائیکہ وہ دو سری چیزوں کے بارے میں فکر کرے پس یہ چیز اس بات پر دلالت ہے کہ اس صنعت میں حکمت اور حسن عمل کا وجود شہد کی مکھی کا کمال نہیں بلکہ یہ کمال اس ذات کا ہے جس نے اس حیوان کو اس حالت پر پیدا کیا اور یہ کام شہد کی مکھی کو سکھایا۔

( ٹڈی کا ضعف اور قوت )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو ٹڈی کے ضعف اور قوت پر اگر تم اس کی خلقت پر غور کرو تو اسے ضعیف ترین پاؤگے لیکن اگر یہ لشکر کی صورت میں شہر کا رُخ کریں تو کوئی بھی چیز انسانوں کو ان سے نہیں بچا سکتی یہاں تک کہ اگر کوئی بادشاہ اپنی سوار و پیادہ فوج کو اس بات پر معمور کرے کہ وہ شہر کو ٹڈیوں سے محفوظ رکھے،تو وہ فوج کس بھی صورت میں اس أمر پر قابو نہیں پاسکتی تو کیا یہ بات خالق دو جہاں کی قدرت پر دلالت نہیں کہ اگر وہ ضعیف ترین مخلوق کو قوی ترین مخلوق کی طرف بھیجے تو وہ اس سے دفاع نہیں کرسکتی ، ذرا غور کرو کہ وہ کس تیزی کے ساتھ مسافرت کرتی ہیں ایسے ہی جیسے کہ سیلاب تمام بیابان، پہاڑوں اور شہر کو لپیٹ میں لے لیتا ہے اور یہ ٹڈیاں اس قدر زیادہ ہوتی ہیں کہ اپنی کثرت کی وجہ سے فضا کو تاریک اور سورج کی روشنی کو روک لیتی ہیں اگر یہ سب ہاتھ سے بنائی جاتیں تو متواتر اور ایک طویل زمانہ کے بعد بھی تمام مخلوق ان کی بناوٹ سے فارغ نہیں ہو پاتی پس اس چیز سے اس خداوند متعال کی قدرت پر استدلال کرو جسے کوئی چیز عاجز نہیں کرسکتی، اور کوئی قدرت و طاقت اس کی قدرت و طاقت سے بالاتر نہیں۔

۱۱۲

( مچھلی کی ساخت اور اس کی خلقت )

اے مفضل ، ذرا غور کرومچھلی کی خلقت ، اس کی ساخت اور اس کے ماحول سے اس کی مطابقت پر ، مچھلی بغیر ہاتھ و پاؤں کے خلق ہوئی ہے اس لئے کہ وہ راہ چلنے کی محتاج نہیں کیونکہ اُس کا مسکن پانی ہے ، مچھلی بغیر پھیپھڑوں کے خلق ہوئی ہے اس لئے کہ سانس لینے کی قدرت نہیں رکھتی اگرچہ وہ پانی کی گہرائیوں میں جاتی ہے، مچھلی کو ہاتھ اور پاؤں کے بدلے دو محکم پر عطا کئے ہیں کہ جنہیں پانی میں مارتی ہے بالکل اُسی طرح جس طرح سے ملاح چپوؤں کو کشتی کے دونوں طرف مارتا ہے ، مچھلی کے بدن کو محکم چھلکوں سے ڈھکا گیا ہے کہ جو آپس میں اس طرح پیوست ہیں جس طرح سے زرہ کے حلقے آپس میں ایک دوسرے میں پیوست ہوتے ہیں ، تاکہ مچھلی کو آفتوں اور مختلف ضرر سے بچا سکیں اور اس کے سونگھنے کی قوت کو بہت زیادہ قوی بنایا، اس لئے کہ اس کی آنکھیں ضعیف ہیں اور پانی بھی دیکھنے میں مانع ہے پس مچھلی اپنی غذا کی بو کو دور سے محسوس کرلیتی ہے اور اس کی طرف کھنچی چلی جاتی ہے اور اگر ایسا نہیں تو پھر کس طرح مچھلی اپنی غذا کو پہچانتی ہے اور اس تک پہنچ جاتی ہے ، جان لو کہ مچھلی کے منھ میں کان کے طرف ایک سوراخ ہے کہ جس کے ذریعہ مچھلی مسلسل پانی کو منھ میں بھرتی ہے اور دوسرے سوراخ کو جو اس کے کان کے دوسری طرف ہے ، پانی کو باہر پھینک دیتی ہے۔ اسی طرح مچھلی اس عمل سے وہ راحت و سکون محسوس کرتی ہے جو دوسرے جانور عمل تنفس کے ذریعہ محسوس کرتے ہیں ، اب ذرا مچھلی کی کثرت نسل پر غور کرو کہ جو اس کے لئے مخصوص ہے ، تم دیکھو گے کہ ایک مچھلی کے شکم میں اس قدر انڈے ہیں کہ جن کی تعدا بے شمار ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر حیوانات کی غذا مچھلی ہے حتیٰ درندے بھی مچھلی کے شکار کے ارادہ سے پانی کے کنارے آتے ہیں اور اس کے انتظار میں پانی میں بیٹھے رہتے ہیں کہ جیسے ہی وہاں سے مچھلی کا گذر ہوتا ہے بلافاصلہ اُس پر جھپٹ پڑتے ہیں تو بس جب

۱۱۳

درندے ، پرندے ، انسان اور مچھلی ، مچھلی کو کھاتی ہے تو اس طرح کی تدبیر کو بروئے کار لایا گیا ہے کہ مچھلی کثرت سے پائی جائے ۔اے مفضل ، اگر تم یہ چاہتے ہو کہ خالق حکیم کی وسعت حکمت اور اس کی مخلوق کے بارے میں کچھ جانو تو ان چیزوں اور حیوانات پر غور کرو کہ جو دریا میں اپنی زندگی بسر کرتے ہیں مثلاً مختلف اقسام کی مچھلیوں ۔ آبی حیوانات۔ صدف اور اس قسم کی دوسری بے شمار چیزیں اور مزید اس کے بے شمار فائدوں پر غور کرو کہ جنہیں وقتاً فوقتاً ہی جانا جاسکتا ہے جیسا کہ لال رنگ کو اس وقت دریافت کیا کہ جب ایک کتا دریا کے کنارے گھوم رہا تھا کہ اچانک اس نے ایک گھونگے کو پکڑ کر کھالیا کہ جس سے اس کا منہ لال ہوگیا اور یہ رنگ لوگوں کو دیکھنے میں اچھا لگا اور انہوں نے اسے رنگ کے لئے منتخب کرلیا اور اس قسم کے دوسرے کئی حیوانات کہ جن کی مددسے انسان مختلف چیزوں کو دریافت کرتا ہے۔

مفضل کا بیان ہے کہ یہاں وقت زوال آپہنچا ، امام ـ نماز کے لئے کھڑے ہوگئے اور آپ نے مجھ سے فرمایا کہ تم کل صبح سویرے میرے پاس آجاؤ (انشاء اللہ) جو کچھ حضرت نے مجھے عطا کیا اس پر میں بہت ہی خوشحال واپس پلٹا اور حضرت کی بے انتہا محبت پر نہایت مسرور تھا۔ اور خداوند متعال کی عطا پر اس کی حمد کر رہا تھا ، میں اس رات شاد و مسرور سوگیا۔

۱۱۴

( روز سوم )

۱۱۵

۱۱۶

مفضل کا بیان ہے کہ جب تیسرا دن ہوا میں صبح سویرے ہی اجازت لینے کے بعد امام ـ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، آپ نے مجھے بیٹھنے کو کہا تو میں بیٹھ گیا، پھر امام ـ نے ارشاد فرمایا: بے شک تمام تعریفیں خداوند متعال کے لئے ہیں کہ جس نے ہمیں اپنے تمام بندوں پر منتخب فرمایا، اور ہم سے زیادہ کسی کو عزت و شرف نہ بخشا اُس نے ہمیں اپنے علم کے لئے منتخب کیا اور اپنے حلم سے ہمیں قوت عطا کی، جو بھی ہم سے جدا ہوا جہنم اس کا گھر ہے اور جو ہم سے متمسک رہا جنت اس کا مسکن ہے۔

اے مفضل۔ تمہارے لئے انسان کی خلقت ، اس کی تدبیر ، مختلف اعتبار سے اس کے احوال ، نیز حیوان کی خلقت کے بارے میں وضاحت کر چکا ہوں اور اب میں تمہارے لئے آسمان ، سورج، چاند، ستارے ، فلک، شب وروز، سردی و گرمی، ہواؤں ، موسم، زمین ، آب وہوا،آگ، بارش پتھر، پہاڑ ، پھول ، معدن، نباتات، نخل و درخت اور جو کچھ ان میں دلائل عبرت ہیں، بیان کرتا ہوں۔

( آسمان کا رنگ بھی حکمت سے خالی نہیں )

اے مفضل۔ آسمان کے رنگ اور اس میں استعمال شدہ حسن تدبیر پر غور کرو، یہ رنگ آنکھوں کی تقویت کے لئے سب سے بہتر رنگ ہے یہاں تک کہ أطّباء بھی اُس شخص کو جس کی آنکھوں کی روشنی کم ہوجائے ۔ نصیحت کرتے ہیں کہ وہ آبی ،آسمانی مائل سیاہی کو زیادہ تر دیکھے، اور کبھی ماہرین ضعیف البصر افراد کو ایسے آبی طشت دیکھنے کی ہدایت کرتے ہیں کہ جو پانی سے پرہو، ذرا غور کرو اس بات پر کہ کس طرح خداوندمتعال نے آسمان کے رنگ کو آبی مائل سیاہ بنایا تاکہ آنکھیں آسمان کو زیادہ دیکھنے کے نقصان سے محفوظ رہیں، ہاں ، وہی چیز جس تک لوگ بہت زیادہ تحقیق و تجربہ کے بعد پہنچتے ہیں ، وہ خلقت میں پہلے ہی سے دکھائی دیتی ہے اور یہ اس حکیم کی حکمت کا کمال ہے تاکہ عبرت حاصل کرنے

۱۱۷

والے لوگ عبرت حاصل کریں ، اور ملحدین اُس میں حیران ہوکر رہ جائیں۔

خدا ،انہیں ہلاک کرے، کہ یہ لوگ کس طرف منحرف ہوتے ہیں۔

( سورج کا طلوع و غروب ہونا )

اے مفضل فکر کرو، سورج کے طلوع و غروب ہونے اور مسلسل شب وروزکے وقوع پذیر ہونے پر کہ اگر سورج نہ ہوتا ، تو دنیا کے تمام کام بگڑ کر رہ جاتے، اور انسان کی زندگی کبھی بھی خوشگوار نہ گذرتی اس لئے کہ وہ روشنی جیسی نعمت سے محروم ہوتا، روشنی کی قدر وقیمت اور اس کے فائدے اس قدر ہیں کہ جن کے بارے میں زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں، اور اب ذرا سورج کے غروب ہونے پر فکر کرو کہ اگر سورج غروب نہ ہوتا تو لوگوں کو چین وآرام اور قرار نہ ہوتا، اس لئے کہ وہ ایک ایسی چیز کی ضرورت محسوس کرتے کہ جو ان کے چین و سکون کا باعث ہو ، جس کے وسیلے سے ان کے بدن کو آرام ، حواس کو قوت، اور قوت ہاضمہ غذا کو تمام بدن میں منتشر کرسکے ، اس کے علاوہ یہ کہ اگر ہمیشہ دن ہوتا تو لوگوں کی حرص و چاہت انہیں اس بات پر مجبور کرتی کہ وہ اپنے کام کو جاری رکھیں، یہاں تک کہ ان کے بدن تھک کر چور چور ہوجاتے، اس لئے کہ بہت سے لوگ مال کے اس قدر حریص ہیں کہ اگر رات کی تاریکی ان کے کاموں میں مانع نہ ہوتی تو انہیں کبھی قرار و آرام نہ آتا، اس کے علاوہ سورج کی مسلسل گرمی کی وجہ سے زمین اس قدر گرم ہوجاتی کہ زمین پر زندگی بسر کرنے والے تمام حیوانات و نباتات ختم ہوکر رہ جاتے ، پس اس لئے خداوند متعال نے سورج میں اس طرح کی تدبیر رکھی کہ کبھی طلوع ہوتا ہے اور کبھی غروب بالکل اُس چراغ کی مانند کہ جو اہل خانہ اپنے کام وغیرہ کے لئے جلاتے ہیں اور جب وہ اپنی ضرورت کو پورا کرلیتے ہیں تو اسے بجھا دیتے ہیں، تاکہ یہ عمل اہل خانہ کے لئے آرام وسکون کا باعث ہو، خلاصہ یہ ہے کہ نور وظلمت جو ایک دوسرے کی ضد ہیں ، خداوند متعال نے انہیں کائنات کی مخلوق کے لئے فلاح و بہبود کا وسیلہ قرار دیا ہے۔

۱۱۸

( چارفصلوں کے فوائد )

اے مفضل۔ اس کے بعد سورج کی حرکت پر غور وفکر کرو کہ جس کے نتیجے میں چار فصلیں وجود میں آتی ہیں کہ جو حکمت خالق دوجہاں کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔

سردی: سردی میں درختوں کی باطنی حرارت محفوظ رہتی ہے جس سے پھلوں میں مواد پیدا ہوتا ، ہوا غلیظ ہوجاتی ہے ، بارش اور بادل وجود میں آتے ہیں ، حیوانات کے بدن قوی و محکم ہوجاتے ہیں۔

بہار: بہار میں وہ مواد جو سردی میں پھلوں کے اندر محفوظ رہ جاتا ہے اور درختوں میں پیدا ہوچکا ہوتا ہے ، اپنے اندر حرکت پیدا کرتے ہوئے ، پھول ، پھل اور پودے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، درختوں پر سبزہ چھا جاتا ہے، اور حیوانات مقاربت کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔

گرمی: اور گرمیوں میں ہوا کی شدت کی وجہ سے پھل پک جاتے ہیں، حیوانات کے بدن سے رطوبت و فضلہ دور ہوجاتا ہے ، زمین کی رطوبت خشک ہوجاتی ہے ، جس کی وجہ سے زمین عمارت، اور گھر بنانے کے لئے ہرطرح سے مناسب ہوتی ہے۔

خزاں: خزاں میں ہوا صاف، بیماریاں دور اور بدن صحیح و سالم ہوجاتے ہیں، اور خزاں میں راتیں اس قدر لمبی ہوتی ہیں کہ جن میں بہت سے کام انجام دیئے جاسکتے ہیں اور اس میں ہوا صاف ، خشک اور بے ضرر ہوتی ہے، اور اس موسم میں دوسرے اس قدر فائدے موجود ہیں کہ اگر وہ سب تمہارے لئے بیان کروں تو گفتگو کافی طولانی ہوجائے گی۔

۱۱۹

( گردشِ آفتاب )

اب ذرا فکر کرو، آفتاب کے بارہ بُرجوں میں منتقل ہونے پر جس کے سبب سال وجود میں آتے ہیں، اور اُس تدبیر پر غور کرو جو خداوند متعال نے ان کی سالانہ گرد ش میں رکھی ہے ،جس سے چار فصلیں ، سردی، بہار، گرمی، خزاں وجود میں آتی ہیں کہ جو پورے سال پر محیط ہیں ، اس کی اس طرح تدبیر کی گئی ہے کہ وہ روز اول ہی سے مشرق سے طلوع کرے اور مغرب کی سمت تابانی کرتا ہوا واپس پلٹے، اور مختلف مقامات کو اپنے نور سے بہرہ مند کرتا ہوا مغرب کی جانب سیر کو جاری رکھ کر ان مقامات پر تابانی کرے کہ جہاں اس نے روز اول تابانی نہیں کی تھی ، پس اس عمل کے نتیجے میں دنیا کا کوئی نقطہ ایسا نہیں بچتا کہ جو سورج کی روشنی اور اس کے فائدوں سے بہرہ مند نہ ہوتا ہو، اگر سورج سا ل میں کچھ مدت یا چند سال کے لئے اپنے معین شدہ نظام کے خلاف عمل کرے، تو لوگوں کا عجیب و غریب حال ہوجائے بلکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ سورج کے نہ ہونے پر لوگ زندہ رہیں کیا دنیا والے نہیں دیکھتے کہ یہ تمام کام بہت اہمیت کے حامل ہیں کہ جن میں بنی نوع انسان کا کوئی دخل نہیں ، سورج اپنے ایک معین شدہ مدار پر حرکت کرتا ہے اور کسی بھی صورت اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا، اور نہ ہی کسی بھی قسم کی مشکل اور موانع سے دوچار ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ عالم کی بھلائی اور جو کچھ اس میں ہے ، اس کی بقاء کے لئے ہے۔اس گردش میں دانے اور میوہ جات پک جاتے ہیں اور پھر دوبارہ رشد ونما شروع کرتے ہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ ایک سال آفتاب کی سیر حمل سے حمل تک کے انداز ہ کے برابر ہے، سال اور چار فصلوں کے وسیلے ہی سے زمانہ کا اندازہ لگایا جاتا ہے اور یہ وہ نظام ہے کہ جسے خدا نے ابتداء ہی میں منظم و مرتب کیا کہ اب جو بھی زمانہ آئندہ وجود میں آئے وہ اس نظام کے تحت ہو اور اسی وسیلہ سے لوگ اپنے امور طے کرتے ہیں۔ مثلاً معین شدہ زمانہ کے وسیلہ سے لوگ اپنے معاملات طے کرتے ہیں، سورج ہی کی سیر کی وجہ سے زمانہ مکمل ہوتا ہے اور وقت کا صحیح حساب و اندازہ لگایا جاتا ہے۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175