توحید مفضل

توحید مفضل33%

توحید مفضل مؤلف:
زمرہ جات: توحید
صفحے: 175

توحید مفضل
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 175 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 131211 / ڈاؤنلوڈ: 6123
سائز سائز سائز

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

ہمت بلند دار کہ مردان روز گار         از ہمت بلند بہ جایی رسیدہ اند

یعنی بزرگ شخصیات بلند ہمت والے تہے اور وہ اپنی ہمت کے ذریعہ ایک مقام و منزلت تک پہنچ گئے ۔

حضرت امیر المو منین(ع)  فرما تے ہیں :

'' قدر الرجل علیٰ قدر همّته ''(1)

ہر شخص کی قدر وقیمت ، اس کی ہمت کے لحاظ سے ہے۔

کیو نکہ بلند ہمت و حو صلہ انسان کو بہت اہمیت  عطا کر تا ہے ہمارے بزرگ کہ جو صاحبان اسرار اہل بیت عصمت و طہارت تہے اور جنہوں نے ان کی رضا کی راہ میں جا نفشا نی سے کام لیا وہ کس طرح عالی مقامات پر فائز ہو ئے اور کس طرح اہل بیت علیہم السلام کے معنوی چشمہ سے سیراب ہوئے ؟

ان افراد کا ظرف ایسا تہا کہ اہل بیت  کے لطف نے جن میں کسی قسم کی خود پسندی اور تکبر ایجاد   نہ کیا ۔ وہ جس مقام کی جانب جائیں ، ان پر عنا یات بہی اتنی زیادہ ہو جاتی ہیں ۔ لیکن جو ایک خواب دیکہنے یا کسی معنوی  سیر کے اتفاق یا امام سے کسی مادی حاجت کے پورا ہونے سے پہولے نہ سمائے ، کیا وہ بلند حوصلہ و ہمت رکہتا ہے ؟ یا جو کوئی خواب سننے یا معنوی سیر کے اتفاق یا مادی حاجت کے پورا ہونے پر تعجب کرے اور اس کا انکار کرے ، کیا یہ اعلیٰ و بلند ہمت سے بہرہ مند ہے ؟

حضرت امیرالمومنین (ع)  فر ماتے ہیں :

'' من صغرت همّته بطلت فضیلته ''(2)

جس کی ہمت کم ہو وہ اپنی فضیلت کہو دیتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ شرح غرر الحکم:ج 4ص  500 ، بحار الانوار:ج 78ص  14

[2] ۔ شرح غرر الحکم:ج 5 ص 210

۶۱

اپنے ارادہ پر عمل کریں

بہت سے موارد میں ممکن ہے کہ انسان کسی مناسب وقت و فرصت کو ضائع کر دے اور پہر اس پر افسوس کرے اور پشیمان ہو ، ایسی پشیمانیوں سے بچنے کے لئے تمام مناسب اور اچہے مکا نا ت و سہولیات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے ارادہ پر عمل کریں  ۔

امام صادق (ع)ایک روایت میں فر ما تے ہیں :

'' اذا همّ احدکم بخیرٍ فلا یؤخّره ''(1)

جب بہی تم میں سے کوئی کسی اچہے کام کو انجام دینے کا ارادہ کرے تو اس میں تاخیر نہ کرو۔

  اسی طرح امام صادق (ع) ایک دوسری روایت میں فرما تے ہیں :

'' اذا همّت بخیرٍ فبادر فانّک لا تدری ما یحدث ''(2)

جب بہی کسی اچہے کام کا ارادہ کرو تو اسے شروع کرو ، کیو نکہ تم نہیں جانتے کہ بعد میں کیا چیز در پیش آجا ئے ۔

مختلف حوادث کے پیش آنے سے انسان بہت سی سہولیات و امکا نا ت کو گنوا دیتا ہے جس کے نتیجہ میں ہم نے جس کام کو انجام دینے کا ارادہ کرتے ہیں اسے انجام دینے میں کامیاب نہیں ہو تے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحارالانوار:ج 71ص  17 2 ، مجالس شیخ مفید: 28 1

[2] ۔ بحا ر الا نوار:ج 71ص  2 2 2 ، اصول کا فی:ج 2ص  42 1

۶۲

قدرت در تصمیم گیری ، عامل پیروزی

وضعف در آن ، عامل شکست است

کامیابی کا عامل ارادہ کی قدرت ہے اور اس میں ضعف شکست کابا عث ہے ۔

جس طرح نیک کام کے لئے بلند حوصلہ و ہمت مقام انسان کی عظمت پر گوا ہ ہے ، اسی طرح   ارادہ  میں کمزور ی انسان کی ہار کی دلیل ہے ۔ پچیس ہزار افراد کے بارے میں تحقیق ومطالعہ سے یہ معلوم ہو اکہ ان کے ہدف تک نہ پہنچنے اور شکست کہانے کے اکتّیس اسباب میں سے اہم سبب عامل کمزورا رادہ تہا آج کے کام کو کل پر چہوڑ نا اور مسامحہ مضبوط ارادہ کے مخالف ہیں اس پر غلبہ پانا ضروری ہے ۔

اپنے ہدف تک پہنچنے والے ہزاروں افراد کے مطا لعہ سے یہ معلوم ہو گا کہ وہ پختہا رادہ  کے مالک تہے اور اپنے عزم و ارادہ پر ثابت قدم رہتے تہے  ۔

اپنے ہدف و مقصد تک نہ پہنچنے والے افراد ایسے ہو تے ہیں کہ جو ارادہ نہیں کر سکتے یا اپنے ارادہ کو بہت جلد بدل دیتے ہیں ۔

پس اپنی قدرت کے  مطابق قوت ارادہ کو مزید مضبوط کریں کیو نکہ ارادہ جس قدرپختہ ہوگا ، آپ کے لئے  بیشتر آثار فراہم کرے گا پہر آپ بلند حوصلہ و ہمت کے ساتہ منزل مقصود تک پہنچ سکیں گے ۔

حضرت امیر المومنین(ع)  فر ماتے ہیں :

'' من کبرت همّته عزّ مرامه ''(1)

جس کی ہمت بلند ہو وہ عزیز و محترم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ شر ح غرر الحکم:ج 5ص  88 2

۶۳

نہ ہر در خت تحمل کند  جفای خزاں            غلام ہمّت سروم کہ این قدم دار

ہردرخت میں خزاں کی سختی و جفا کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہوتی۔  لیکن یہ میرا ہی سرو ہے جو خزاںکی سختیوں کو برداشت کررہا ہے۔

پس عالی ہمت و ایسے افراد احترام کے  لائق ہیں کہ جو اپنے مصمم ارادے کی بناء پر اپنے ہدف کو پانے میں کامیا ب ہوگئے ۔ لوگ ایسی شخصیات کو عزت کی نگاہ سے دیکہتے ہیں اور ان کی مدح و تعریف   کر تے ہیں لوگ ایسے افراد کی رفتار و روش کو احترام کی نگاہ سے دیکہتے ہیں اور دوسروں کی نظروں میں یہ شخصیات ممتاز و بے نظیر شمار ہوتی ہیں ۔

ایسے افراد اگر اپنی ہمت و ارادے کو معنوی  مسائل اور تقرب خدا کی راہ میں قرار دیں تو یہ خدا اور خاندان رسالت  کے نزدیک ارزش و تقرب حاصل کریں گے کہ جو دوسروں کے لئے مورد غبطہ ہو ۔

ہمت عالی ز فلک بگذرد        مرد بہ ہمت ز ملک بگذ رد

اگر عالی اور بلند ہمت آسمان سے بہی آگے بڑہ جائے تو مرد اپنی ہمت کے ذریعہ ملائکہ سے بہی آگے بڑہ سکتا ہے ۔

۶۴

قوت ارادہ کے ذریعہ اپنی طبیعت پر غالب آنا

انسان کی طبیعت ایسی ہے کہ وقت گزرنے کے سا تہ ساتہ اس کا کردار و رفتار اس کے خلق اور ذات کا حصہ بن جا تا ہے جب اس کی عادت ہو جائے تو پہر اس سے جدا ہو نا ممکن نہیں ہو تا ۔

امام صادق (ع) فر ماتے ہیں :

'' الخلق خلقان ، احدهما نیّة والآخرة سجیّة قیل فایّهما افضل ، قال : النیّة لانّ صاحب السجیّة مجبول علی امرٍ لا یستطیع غیره وصاحب النیّة یتصبّر علی الطاعة تَصَبّراً فهذا افضل ''

اخلاق  کی  دو قسمیں  ہیں :

۱۔نیت کے ذریعہ حاصل ہو نے والا اخلاق ۔

۲۔ انسان کا طبیعی و ذاتی اخلا ق ۔

امام صادق سے پو چہا گیا کہ ان میں سے کون سا اخلاق افضل ہے ؟ امام صادق نے فرما یا : نیت کے ذریعہ حاصل شدہ اخلاق افضل ہے کیو نکہ جس کا اخلاق اس کی طبیعت سے اخذ ہو ، تو اس کی خلقت ایسی ہے کہ جو اس کے علا وہ کسی اور کام کے انجام دینے پر قادر نہیں ہو تا لیکن جو اپنے  ارادہ  سے پسندیدہ

اخلاق کا مالک بنے وہ صابرانہ اپنے پرور دگار کی  اطاعت کر تا ہے پس یہ شخص افضل ہے ۔

۶۵

عظیم لوگ اپنے قوة  ارادہ  کے ذریعہ اخلاق حسنہ کو اپنی طبیعت کا  حصہ بنا لیتے  ہیں اور اپنی مضبوط نیت و پختہ ارادے کے ذریعہ اخلاق رذیلہ اور نا پسندید ہ عا دات کو اپنے سے دور کرتے ہیں ۔ ذو القر نین نے دنیا کے مشرق و مغرب کو طے کیا مختلف اقوام عالم کو نزدیک سے دیکہا اور ان کے رفتار و کردار کا مشا ہدہ کیا انہوںنے تمام لوگوں میں سے چند ایسے لوگوں کو بہی دیکہا کہ جن کی آسان زندگی ان کے لئے حیرت کا سبب تہی وہ اعلیٰ ترین اور خوبصور ت زندگی گزار رہے تہے ان میں قتل و خونریزی اور خیانت کے آثار دکہائی نہیں دیتے تہے صاحب ثروت ، نچلے طبقے کو کچہ نہیں دیتے تہے ۔

لہذا ذو القر نین بہت حیران ہوئے اور ان سے بہت سے سوالات پوچہے اور ان سے قانع کنندہ جوابات لیئے انہوں  نے ان سے پوچہا:'' فما لکم لا تسبّون ولا تقتلون ؟ قالو: من قبل انّا غلبنا طبائعنا با لعزم و سنّنا انفسنا بالحلم ''

ذو لقرنین نے ان سے پوچہا : تمہارے معاشرے میں فحش و دشنام اور قتل و غارت کیوں اور کس وجہ سے نہیں ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : کیو نکہ ہم مصمم ارادے کے ذریعہ اپنی طبیعت پر غالب آچکے ہیں اور ہم نے قوی ارادہ سے بری عادات کو اپنے سے نکال دیا ہے اور بردبادی و حلم کو اپنی نفسانی روش قرار دیا ہے ۔

اس بناء پر اگر انسان طبیعتاً ظالم و جنایت کار ، جہوٹا یا ریا کار ، سست و کاہل ہو یا اس میں کوئی اور بری صفت ہو تو وہ مضبوط عزم  اور پختہ ارادہ سے انہیں بر طرف کر سکتا ہے اور اپنے کو صفات حسنہ سے مزین کرسکتا ہے ۔

کوہ نتوان شدن سدّ رہ مقصود مرد              ہمت مردان بر آرد از نہاد کوہ گرد

یعنی ایک بلند و با لا پہاڑ انسان کی منزل و مقصود میں رکاوٹ نہیں بن سکتا کیونکہ مردکی ہمت اس  پہاڑ کو بہی خاک کے ذرات میں تبدیل کر دیتی ہے ۔

پس اگر آپ خود  میں کسی پہاڑ کے  برابربری صفات و عا دات کو دیکہیں تو آپ قوت ارادہ اور مردا نہ ہمت کے ذریعہ انہیں نابود کر سکتے ہیں بلکہ آپ انہیں اچہی صفات میں تبدیل کر نے کی بہی قدرت رکہتے ہیں ۔

۶۶

ملّا صالح مازندرانی، ایک پختہ ارادہ کے مالک شخص

صالح مازندرانی ایسے صاحب تصمیم و پختہ ارادہ کے مالک تہے کہ جنہوں نے بہت کم وسائل کے باوجود اپنے مقصد کو پالیا وہ علا مہ مجلسی اول کے داماد اور نامور شیعہ علماء  میں سے تہے یہ ہر اس شخص کے لئے نمونہ ہیں کہ جو اعلیٰ مقاصد و اہداف رکہتے ہیں ۔

وہ کہتے ہیں کہ میں دینی علوم حاصل کرنے والوں کے لئے حجت ہوں کیو نکہ مجہ سے بڑہ کر    کوئی فقیر نہیں تہا اور میرا حا فظہ سب سے ضعیف و بد تر تہا کبہی میں اپنے گہر تو کبہی اپنے فرزند کا نام بہول جا تا میری عمر کے تیس سال گزر چکے تہے کہ میں نے ( الف ، با ) سیکہنی شروع کی اور اتنی سعی و کوشش کی کہ خدا نے فضل کیا ۔

وہ فقر ، کند ذہن اور ضعیف حافظہ کے با وجود پختہ ارادہ  رکہتے تہے جس کی بدولت انہوں نے باارزش کتب کی تالیف کا مصمم ارادہ کیا اور کامیاب ہوئے ، وہ کتب آج بہی شیعہ  علماء  کے لئے مورد استفادہ ہیں ۔

ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اس قدر کم حافظہ رکہتے تہے کہ اپنے استاد کے گہر کو بہول جاتے اور اتنے فقیر و غریب تہے اور اتنا پرا نا لباس پہنتے کہ شرم کے مارے مجلس درس میں وارد نہ ہوتے وہ محل درس سے با ہر بیٹہتے اور ہڈیوں اور چنار کے درخت کے پتوں پر درس لکہتے ایک  بار کوئی مسئلہ مورد اشکال قرار پایا اور وہ چند روز تک جاری رہا  مرحوم مجلسی کے ایک شاگرد نے دیکہا کہ ملا صالح مازندرانی نے اس اشکال کا جواب چنار کے پتوں پر لکہا ہے ، اس نے درس میں علامہ  مجلسی کا جوا ب دیا ۔

۶۷

علامہ مجلسی  سمجہ گئے کہ یہ اس  کا جواب نہیں  ہے  لہذا انہوں نے اس سے پوچہا کہ یہ کس کا جواب ہے اور اس بارے میں اصرار کیا تو اس شاگرد نے بتا یا کہ یہ اس کا جواب ہے کہ جو مجلس درس کے باہر بیٹہا ہوا ہے ۔ علامہ مجلسی نے دیکہا تو ملا محمد صالح دروازے کے باہر بیٹہے ہوئے تہے ، علامہ نے ملا ّ  محمد صالح کو لباس دیا اور درس میں حاضر ہونے کو کہا وہ علامہ مجلسی کے اتنے مورد تو جہ قرار پائے کہ وہ انہیں اپنے گہر لے گئے اور ان سے اپنی بیٹی کی شادی کی ! اور انہیں کو گہر کا کتابخانہ دیا ۔

بہ ہر کاری کہ ہمت بستہ گردد            اگر کاری بود ، گل دستہ گردد

یعنی جو کام بہی ہمت سے وابستہ ہو اور آپ اسے ہمت سے انجام دیں تو اگر وہ کام کانٹوں کی صورت میں بہی ہو تو وہ گل دستے میں تبدیل ہو جائے گا ۔

۶۸

اپنے ارادہ اور نیت کو تقویت دینا

علامہ صالح مازندرا نی نے بہت سی مشکلات کے با وجود پختہ ارادہ  کے ذریعہ علمی مراحل طے کرکے بلند مقام حاصل کیا اگر آپ چاہیں تو خدا آپ کو ب ھ ی یہ مقام عنایت فرمائے گا لیکن اس کے لئے اپنی نیت وارا دے میں کو تاہی نہ برتیں حضرت امیر المو منین  اپنے ایک خط میں لک ھ تے ہیں : '' فانّ اللّٰه یعطی العبد بقدر نیّته ''(1)

بے شک خدا ہر بندے کو اس کی نیت کے برابر عطا فرما تا ہے  ۔جس قدر انسان کی نیت کی اہمیت ہو ، خدا بہی اسی لحاظ سے اسے عطا کر تا ہے آپ کی نیت جس قدر بہتر اور خالص  ہو گی ، اسی لحاظ سے اجر و ثواب بہی زیاد ہو گا اس بناء پر اپنی نیت کو خالص کریں نہ کہ صرف اپنے اعمال کو زینت دیں ۔

خدا کے بزرگ بندے اپنے اہداف تک پہنچنے کے لئے خدا کی توفیقات و عنایات کا دامن پکڑتے ہیں ایک روایت میں امام صادق اس راز سے پردہ اٹہا تے ہوئے فرما تے ہیں :

'' انّما قدّر اللّٰه عون العباد علیٰ قدر نیّاتهم ، فمن صحّت نیّته تمّ عون اللّٰه له  ومن قصرت نیّته ، قصرعنه العون بقدر الّذی قصر ''(2) خداوند تعالی لوگوں کی نیت کے مطابق ان کی مدد کو مقدر کر تا ہے جو صحیح و کامل نیت رک ھ تا ہو تو خداب ھ ی کامل طور پر اس کی مدد کر تا ہے اور جس کی نیت کم ہو اسی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحا ر الانوار:ج 33ص  88 5

 [2] ۔ بحار الانوار:ج 0 7ص 11 2

۶۹

لحاظ سے اس کی مدد میں بہی کمی آتی ہے۔

امام صادق (ع) اپنے اس قول میں کامیاب لوگوں کی کامیابی اور نا کام لوگوں کی ناکامی کے راز کو بیان فرماتے ہیں : کیو نکہ لوگوں کو خدا کی مدد ان کی نیت کے لحاظ سے پہنچتی ہے ۔

نیت و ارادہ اس قدر کا رساز اور پر قدرت ہے کہ اگر اپنے ارادہ کو تقویت دیں تو آپ کے جسم کا ضعف دور ہو جائے گا اور آپ جسمانی  لحاظ سے بہی ہر مشکل کام ا  نجام دینے کو تیار ہوں گے کیو نکہ نیت میں پختگی آپ کے  بدنی ضعف کو دور کرتی ہے حضرت امام صادق(ع) فرماتے ہیں :

'' ما ضعف بدن عمّا قویت علیه النیّة ''(1)

 نیت کے ذریعہ سے قوی ہونے والے بدن کو کوئی ضعف لا حق نہیں ہو سکتا۔

بہت سے ورزش کار اور کہلاڑی جسمی تمرینات سے زیادہ روح کو تقویت دینے سے استفادہ کرتے ہیں کیو نکہ نیت سے  فکر اور ارادہ کو تقویت دینا، صرف بدن کو طاقت ور بنا نے سے بہتر ہے بہت سے افراد معتقد ہیں کہ جوا نی و بڑہا پا اور قوت و ضعف کا سر چشمہ ایک غیر جسمی منشاء ہے اگر چہ اس موضوع کو تمام قبول نہیں کرتے لیکن اس فرض کی بناء پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ فکر و اندیشہ انسان کی صحت و مرض ،اور بندی  قدرت و ضعف  حتی کہ حیات وموت میں بہی مؤثر ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔   اما لی صدوق: 8 9 1 ، بحار الا نوار:ج 7 ص 5 0 2

۷۰

ارادہ کو تقویت دینے کے طریقے

1 ۔ ذوق و شوق آ پ کے ارادہ کو تقویت دیتا ہے

شیطان گناہ کار کو گمراہی کے راستے دکہا تا ہے اور گناہ اور وسوسہ کی طرف متحرک کر تا ہے تاکہ اس کے ذریعہ انسان کو راہ راست سے بہٹکا دے اور ابدی نقصان میں مبتلا کردے گمراہی کے راستوں میں سے ایک شہوت کا فراوان شوق ہے خدا وند متعال فرما تا ہے :

'' و یرید الّذین یتّبعون الشّهوات ان تمیلوا میلاً عظیماً ''(1)

شہوات کی پیرو ی کرنے والے چاہتے ہیں کہ تمہیں بالکل ہی راہ حق سے دور کردیں  ۔

ان میں شہوت کو پورا کرنے کا شوق اور نفس امارہ اور شیطان کی طرف تحرک کا اشتیاق ایجاد ہوجاتا ہے ۔ جنہیں انجام دینے سے وہ بدترین و زشت ترین گناہ میں گرفتار ہو جاتے ہیں ۔

جس طرح شہوت کو پورا کرنے کا اشتیاق انسان کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اسی طرح اپنے عالی اہداف تک پہنچنے کا ذوق و شوق انسان کوا علیٰ علمی و معنوی مراتب پر فائز کر تاہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ سورہ نساء آیت: 7 2

۷۱

پس اگر آپ اعلیٰ اہداف کے حصول کی طرف مائل ہیں اور آپ آ سانی سے انہیں حاصل کر نا چاہتے ہیں تو اپنے میں شدید ذوق و شوق ایجاد کریں پہر سختیاں آسانی ، دشواریاں سہل اور ہدف سے دوری نزدیکی میں تبدیل ہو جائے گی ذوق و شوق سے ہر قسم کے مانع و دشواری کو بر طرف کر سکتے ہیں پہر آپ کا ارادہ ہدف تک پہنچنے کے لئے قوی ہو جائے گا کسی موضوع کے بارے میں ذوق و شوق ، بہت سے دیگر مسائل کو بہی بر طرف کر دیتا ہے لہذا آ پ شوق کی بنیاد پر  مختلف و پرا کندہ مسائل سے نجات پا کر عظیم ہدف تک پہنچنے کے لئے فعالیت کریں بہترین ہدف کا انتخاب کریں اور اس کے حصول کے لئے اپنے میں ذوق و شوق ایجاد کریں ۔

امام صادق(ع) سے منسوب ایک روایت میں ذکر ہواہے :

'' مثل المشتاق مثل الغریق ، لیس له همّة الاَّ خلاصه وقد نسی کلّ شیئیٍ دونه ''(1)

مشتاق شخص کی مثال کسی ڈوبنے والے شخص کی مانند ہے کہ جو اپنی نجات کے علاوہ کچہ اور نہیں سوچتا اور اس کے علاوہ ہر چیز کو فراموش کر دیتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1] ۔ بحا ر الا نوار:ج 70  ص4 2

۷۲

2 ۔ امید و آرزو سے ہمت میں اضافہ ہو تا ہے

انسان کی جتنی زیادہ امید ہو ، اتنی ہی ہمت بیشتر ہو جاتی ہے جس انسان میں امید ہو ، اس میں شوق بہی بڑہ جا تا ہے لہذا جو نو جوان اپنے روشن مستقبل کی امید رکہتے ہیں ، ان کی آرزو معنویت اور روحانیت سے سرشار ہے انہیں بہتر مستقبل و مقام کی آرزو ہو تی ہے لہذا وہ زیادہ محنت اور کوشش کرتے ہیں ۔ لیکن جن لوگوں کو نہ کوئی شوق ہو اور نہ امید وہ اپنے مستقبل کے بارے میں مأیوس وناامید ہو تے ہیں اسی مایوسی کے عالم میں وہ اچہے مستقبل کی تلاش و کوشش کو چہوڑ دیتے ہیں حا لا نکہ ہرروشن فکر انسان کا اولین و ظیفہ جستجو اور کوشش کرنا ہے اور ہر شیعہ اس امر سے آگاہ ہے مایوس و ناامید غم واندوہ کے عالم میں صرف شب و روز گزار رہا ہو تا ہے ، اس کے غموں میں مزید اضافہ ہو تا چلا جا تا ہے ۔  لیکن وہ ان سے نجات کی نہ  تو کوشش کر تا ہے اور نہ ہی ما یوسی کے عالم میں اسے امید کی  کوئی  کرن دکہائی دیتی ہے وہ نہ تو اپنی مشکلات کی گرہوں کو کہول سکتے ہیں اور نہ دوسروں کی ۔

جی ہاں ، یہ ان افراد کی زندگی گا نتیجہ ہے کہ جو خدا کی رحمت سے نا امید اور اہل بیت عصمت وطہارت علیہم السلام کی حیات بخش عنایات سے مایوس ہو جاتے ہیں ۔

۷۳

3 ۔ خدا سے پختہ ارادہ و بلند ہمت کی دعا کریں  :

خاندان وحی و رسالت علیہم السلام  سے منقول دعا ئیں اور مناجات و توسلات انسان کی تربیت کی بہترین روش اور زندگی کا بہترین شیوہ ہیں عظیم اہداف ، بلند حوصلہ و ہمت اور پختہ و راسخ ترین ارادہ اہل بیت علیہم السلام کے انسان ساز مکتب سے سیکہیں ۔

ان مقدس ہستیوں نے  ہمیں نہ صرف اپنے اقوا ل و فرامین بلکہ دعاؤں اور مناجات میں بہی زندگی کا بہترین درس سکہا یا ۔ امام سجاد(ع) اپنی مناجات میں خدا کی در گاہ میں عرض کرتے ہیں :

'' اسألک من الهمم اعلا ها ''(1)

پرور دگار میں تجہ سے عالی ترین ہمت کا طالب ہوں ۔

امام سجاد (ع) اپنی مناجات کے اس جملہ سے اپنے تمام پیرو کاروں کے دلوں میں امید کی شمع روشن فرماتے ہیں اور بے ہمت انسانوں کو دعا و درخواست کے ذریعہ بلند ہمت کی امید دلا تے ہیں ۔

یہ گفتار تمام لوگوں کو بیدار کرتی ہے سب یہ جان لیں کہ عالی ہمت افراد کے کسی خاص گروہ سے مختص نہیں ہے بلکہ مکتب تشیع کے تمام پیروکار خدا وند متعال سے بلند ہمت کی دعا کریں اور اس کے حصول کی کوشش کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1] ۔ بحار الانوار:ج 94ص  55 1

۷۴

نتیجہ ٔبحث

پختہ ارادہ اور بلند ہمت خدا کی عظیم نعمتوں میں سے ہے ان کے ذریعہ آپ معنویت کے آسمان کی اوج پر پرواز کر سکتے ہیں خود میں یہ قدرت ایجاد کرو اور ضعف ، کاہلی و سستی سے پر ہیز کرو تاکہ آپ کی شرافت و عظمت میں اضافہ ہو قوةارادہ کا کمزور ہونا آپ کے توقف و ٹہہراؤ کا باعث ہے ، قوہ ارادة کو تقویت دینے سے آپ کامیابی کے نزدیک ہو سکتے ہیں امام صادق کے فرمان کی رو سے آپ مصمم ارادہ کے ذریعہ اپنے اندر پائی جانے والی بری عادات اور نا پسند ید ہ اخلاق کو ختم کر کے اچہے اور پسند یدہ اخلاق و عادات کو حاصل کر سکتے ہیں ہدف تک نہ پہنچنے میں نا کامی سے آپ کا ارادہ کمزور نہیں ہونا چاہئے  بلکہ ناکامی سے عبرت کا درس لیں اور اپنی قوہ ارادہ کو مزید مضبوط بنائیں ۔

پختہ ارادے اور مردانہ ہمت سے آپ صرف اعلیٰ انسانی مقامات حاصل کر سکتے ہیں بلکہ ملائکہ کے در جات بہی حا صل کر سکتے ہیں بلکہ اس سے بڑہ کر وہ مقام و مرتبہ بہی حاصل کر سکتے ہیں کہ جب ملائکہ آپ کی خدمت کر کے فخر و مباہات محسو س کریں پس فرصت سے استفادہ کریں اور پختہ ارادے کے ذریعہ اپنی خلقت کے ہدف و مقصد کو حا صل کرنے کی کوشش کریں ۔

بہ زندگانی اگر عزم آہنین داری          بہ زیر  پا شودت کوہ چون زمین ہموار

اگر آپ زندگی میں پختہ عز م و ارادہ رکہتے ہوں توآپ کے پاؤں تلے پہاڑ بہی ہموار زمین کی مانند ہو جائے گا ۔

۷۵

پانچواں باب

نظم  و  ضبط

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' اوصیکما و جمیع ولدی و اهلی و من بلغه کتابی بتقوی اللّه ونظم امرکم ''

تمہیں وصیت کر تا ہوں کہ  تقویٰ الٰہی اختیار کرو اور اپنے امور میں نظم و ضبط کی رعایت کرو ۔

    نظم وضبط کی اہمیت

    نظم و ضبط آشفتگی کو ختم کر تا ہے

    نو جوانوں کی صحیح نظم و ضبط میں مدد کریں

    نظم و ضبط : وقت سے استفادہ کرنے کا بہترین طریقہ

    مرحوم شیخ انصاری کا منظم پروگرام

    نتیجۂ بحث

۷۶

نظم  وضبط  کی  اہمیت

نظم و ضبط اہداف تک پہنچنے کے لئے ایک بہترین وسیلہ ہے اپنے اہداف تک پہنچنے کے لئے آپ منظم پروگرام تشکیل دے کر اپنی زندگی کے لمحات کو خوشگوار اور پر ثمر بنا سکتے ہیں۔ کو شش اور مصمم ارادے سے ایک صحیح اور منظمپروگرام تشکیل دے کر اس پر عمل کریں ، صحیحمنشور پر عمل انسان کو منظم ، متعہد اور انجام دیئے جا نے والی چیز کا معتقد بنا تا ہے کو شش کریں کہ زندگی کا ہر کام آپ کے منظم پروگرام کے مطابق ہوتا کہ اپنی زندگی کے لمحات سے بہتر طور پر استفادہ کر سکیں اور زندگی میں سر خرو ہوں۔ یہ وہ راستہ ہے کہ تاریخ کے عظیم ترین افراد نے جس کی پیروری کی اور اس کے پابند رہے آپ بہی ان کے راستے کو منتخب کریں اور کسی بہی لمحے خدا پسند ، منظم اور صحیح آئین کی تشکیل اور اس پر عمل پیرا ہو نے میں غفلت نہ کریں جس حد تک ممکن ہو ، کوشش کریں کہ آ پ کا آئین و منشور اور پروگرام خاندان وحی و عصمت  علیہم السلام کے حیات بخش مکتب کی ترویج کا باعث ہو س صورت میں آپ اپنے سر پر ان ہستیوں کاکریمانہ شفیقانہ ہاتہ محسوس کریں گے ۔

حضرت امیر المومنین (ع)  نے اپنے زندگی کے آخری لمحات میں اپنے تمام فرزندوں ، اہل خانہ اور ہر اس شخص کو یہ وصیت فرمائی ، کہ جو ان کی اس وصیت سے مطلع ہو جائے ، انہوں نے فرمایا کہ کاموں میں نظم و ضبط کی رعایت کریں اور منظم پروگرام بنا کر اپنی زندگی کو کامیاب بنائیں ۔ '' قال امیر المو منین : عند وفاته للحسن و الحسین علیهما السلام ، اوصیکما و جمیع ولدی و اهلی و من بلغه کتابی بتقوی اللّٰه ونظم امرکم ''(1)

حضرت امیر المومنین نے اپنی وفات کے وقت امام حسن اور حسین  سے فرمایا کہ : آپ ، میرے تمام فرزندوں اور اہل و عیال اور ہر اس شخص کو کہ جس تک میرا یہ فرمان پہنچے یہ وصیت کر تا ہوں کہ تقویٰ الٰہی اختیار کرو اور اپنے امور میں نظم و ضبط  رکہو    ۔یہ کا ئنات کے پہلے امام امیر المو منین علی  کا پیغام ہے کہ جس سے نظم و ضبط کی اہمیت کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ نہج البلاغہ ، مکتو ب  7: 4 ، بحا ر الا نوار:ج 75ص  4 2

۷۷

نظم و ضبط  آشفتگی کو ختم کر تا ہے

جب آپ اپنی زندگی کے امور اور کاموں میں نظم و ضبط رکہتے ہوں اور پختہ ارادے سے اس پر عمل کریں تو آپ بہت سے باطنی تضاد اور بے حاصلسو چ  و فکر سے نجات پاجائیں گے ۔

نظم و ضبط عدم تضاد اور افراد کی آراء و افکار میں اختلاف کی بہترین دلیل ہے ۔ حکومتوں یا اداروں کے منشور میں اختلاف حکومتی یا اداری نظام میں نظم و ضبط کے نہ ہونے کی واضح دلیل ہے جہاں بڑے یا چہوٹے اجتماع میں اختلاف ہو وہاں نظم وضبط نہیں ہو تا ہر جگہ نظم ہونا چاہئے کیو نکہ یہ اس جگہ پر قدرت تدبیر کے موجود ہونے کا پتہ دیتا ہے کائنات کے نظام میں موجود نظم ، اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات کا نظام ایک منظم تدبیر کے تحت چل رہا ہے ۔ اگر آپ نظام کائنات میں دقت کریں تو معلوم ہو گا کہ جس طرح کائنات کے چہوٹے چہوٹے ذرات میں نظم ہے ۔اسی طرح کہکشانوں میں نظم ہے انیسو یں صدی کے وسط میں انسان کو ذرات کے بارے میں تحقیقات سے کچہ معلومات حاصل ہوئی کہ ذ رات کے اندر بہی ایک نظم و قا نون کا رفرما ہے کہ جس میں تعطل نہیں ہو تا ، ایٹم میں مو جود الیکٹرون ہر سکینڈ میں تین کاٹر یلیون مرتبہ ایٹم کے گرد گردش کر تا ہے کہ کوئی چیزبہی اس گردش کو نہیں روک سکتی ۔

لوہے کے ایک ذرّے میں موجود الیکٹرون بہی ہر سکینڈ میں تین کاٹریلیون مرتبہ اپنے مر کزکے گرد گردش کر تا ہے ۔

۷۸

جب لوہے کو اس قدر حرارت دیں کہ وہ گیس میں تبدیل ہو جائے تو پہر بہی الیکٹرون تین کاٹریلیون(۳۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰) مرتبہ ایٹم کے گرد گردش کرے گا ۔

فقط ایک صورت میں ممکن ہے کہ اس دائمی حرکت کو مختل کیا جا سکتا ہے کہ جب ایٹم کو توڑ دیا جائے اس صورت میں الیکٹرون اپنے مرکز سے دور ہو جائے گا ۔ لیکن یہ نہیں کہ وہ حرکت نہیں کر ے گا بلکہ اس صورت میں وہ ایک جدید مرکز و مدار کے گرد گردش شروع کرے گا ۔

جس قانون و نظام کے تحت الیکٹرون ، ایٹم کے گرد اتنی تیزی سے حرکت کر تاہے اسی طرح زمین ، سورج کے گرد اور سورج تمام ستاروں کے گرد اور یہ سب کہشاں اور کہشاں کسی دیگر چیز کے گرد گردش کر  تے ہیں کہ جس سے ہم آگاہ نہیں ہیں لیکن اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں کہ وہ بہی گردش کرتے ہیں ۔

کائنات کا یہ عجیب نظم اس بات کی دلیل ہے کہ امر خلقت میں کسی قسم کی آشفتگی نہیں ہے کیو نکہ اگر اس میں تضاد و آ شفتگی ہو تی تو کائنات کا نظم درہم برہم ہو جاتا ہے ۔

امام صادق (ع) مفضل سے فرماتے ہیں :

'' والتضاد لا یأتی بالنّظام '' (1)

تضاد سے نظم و جود میں نہیں آتا  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحا را لا نوار:ج 3 ص  3 6

۷۹

جس طرح خلقت کائنات میں نظم اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات کی تدبیر میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ اسی طرح چہوٹے ، بڑے اجتماعات میں نظم ، ان میں عدم اختلاف کی دلیل ہے پس نہ صرف خلقت کے مسئلہ میں بلکہ جس مورد میں  بہی نظم کی ضرورت ہو وہاں کسی صاحب تدبیر شخص کی بہی ضرورت ہو تی ہے ، پس تضاد و اختلاف اس امر کی دلیل ہے کہ وہاں کوئی تدبّر کے ذریعہ نظم قائم کرنے والا نہیں ہے ۔

اس بناء پر اختلاف و تضاد کو رفع کر نے کے لئے عملی پروگراموں  میں نظم بر قرار رکہیں اور فردی واجتماعی زندگی سے اختلافات کاقلع قمع کریں ۔

صرف اجتماعی و خانوادگی پروگراموں  میں ہی  نظم و ضبط افکار میں عدم تضاد کی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ شخصی پروگراموں  میں بہی نظم وضبط کے وجود پر دلالت کر تا ہے کہ انسان کی زندگی میں تضاد و آشفتگی نہیں ہے اور یہ ایک منظم آئین کی پیرو ی کر رہا ہے ۔ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ انسان کی زندگی تضاد سیبہری پڑی ہے ۔ مختلف نفسانی افکار خواہشات اور عقلی  دستورات انسان میں تضاد ایجاد کر تے ہیں بہت سے موارد میں افکار میں آشفتگی اور مشوش ہونا انہی تضاد کی وجہ سے ہے ایسے تضاد کبہی باعث بنتے ہیں کہ انسان کام کو چہوڑ دے اور اپنی زندگی حوادث کے سپرد کر دے ۔

نظم و برنامہ ایسے تضاد و اضطرا بات کو ختم کر تا ہے اور افکار و تخیلات کی تشویش کو ایک صحیح منشور  کی راہ دکہاتا ہے وقت گزرنے کے ساتہ مضطرب فکر کو ایک صحیحآئین و منشور کا سایہ فراہم ہو جا تا ہے ۔

۸۰

اس بات کا یقین کروگے؟ ہرگز نہیں بلکہ اس کا مذاق اڑاؤ گے پس کس طرح تم ایک تصویر کے بارے میں اس بات کے منکر ہوجاتے ہو اور کہتے ہو کہ یہ خود بخود وجود میں نہیں آسکتی ، لیکن جو انسان ناطق ہے اس کے بارے میں اس طرح کے اقوال کے منکر نہیں ہوتے۔

( حیوان کا جسم ایک حد معین پر رک جاتا ہے )

اے مفضل۔ اگر یہ فیصلہ کرلیا جائے کہ حیوان کے اندر کوئی تدبیر استعمال نہیں ہوئی تو وہ حیوانات جو ہمیشہ کھاتے پیتے ہیں ، کیونکر ان کے جسم ایک خاص و معین حد پر پہنچ کر رک جاتے ہیں اور رشد و نمو نہیں کرتے اور ہرگز اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتے؟ بے شک یہ حکیم کی تدبیر ہے کہ تمام حیوانات کے جسم چاہے وہ حیوانات چھوٹے ہوں یا بڑے ایک حد تک نشوونما کرتے ہیں اور اس کے بعد وہ اس حد سے تجاوز نہیں کرتے ، جبکہ وہ ساری زندگی کھاتے پیتے ہیں ، ایسا اس لئے ہے کہ اگر جانور ہمیشہ رشد ونمو کرتے تو ان کے جسم بہت زیاد بڑے ہوجاتے اور ان کا قیافہ ایک دوسرے سے مشتبہ ہوتا، اور ان میں سے کسی ایک کے لئے بھی حد معین کی شناخت نہ ہوتی ، آخر کیوں انسان کا جسم راہ چلتے حرکت کرتے اور دقیق کاموں کے وقت سنگین ہوجاتا ہے ؟ سوائے اس کے کہ انسان کو اپنی زندگی میں جن چیزوں کی ضرورت ہے، جیسے لباس، لحاف، کفن وغیرہ کو حاصل کرنے میں اسے سختی و مشقت کا سامنا کرنا پڑے ، اس لئے کہ اگر انسان کو سختی و مشقت کا سامنا کرنا نہ پڑتا تو پھر کون سی چیز اُسے فحش باتوں سے روک سکتی تھی اور کس طرح وہ خدا کے سامنے تواضع اور لوگوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آتا، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جب انسان کو سختی و پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ خضوع و خشوع کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اپنے مال کو صدقہ کرتا ہے اب مفضل۔ ذرا سوچو تو سہی اگر انسان کو مارنے کے باوجود درد محسوس نہ ہوتا تو پھر بادشاہ کس وسیلے سے مجرم کو اس کے کیے کی سزا دیتا، اور کس طرح طغیانگر افراد کو

۸۱

ذلیل کیا جاتا، اور کس طرح کوئی غلام اپنے آقا و مولا کے سامنے اپنے آپ کو ذلیل سمجھتا اور اپنی گردن کو اس کے سامنے جھکائے رکھتا، کیا ابن أبی العوجاء اور اس کے ساتھیوں کے لئے یہ حجت و دلیل کافی نہیں؟ کہ جو خداوند متعال کی تدبیر کا انکار کرتے ہیں ، اور اس گروہ مانویہ کے لئے جو درد و ألم کا انکار کرتے ہیں(وہ کہتے ہیں کہ انسان کو کسی بھی قسم کا درد و ألم نہیں ہوناچاہیے تھا )

اگر حیوان نر اور مادہ کی شکل میں پیدا نہ ہوتے تو کیا ان کی نسل منقطع نہ ہوجاتی، لہٰذا خداوند متعال نے حیوانات میں سے بعض کو نر اور بعض کو مادہ کی صورت میں پیدا کیا تاکہ حیوانات کی نسل کا سلسلہ باقی رہے اور منقطع ہونے نہ پائے اگر ان تمام کاموں میں تدبیر نہ ہوتی تو پھر کیونکر مرد و زن جب حد بلوغ پر پہنچتے ہیں تو ان کے زیر شکم بال اُگتے ہیں ، پھر مرد کے داڑھی اُگتی ہے جبکہ عورت کے نہیں اُگتی ، یہ اس لئے کہ خداوند متعال نے مرد کو عورت کے لئے سرپرست و نگہبان قرار دیا ہے۔ اور عورت کو مرد کے لئے عروس و تحفہ قرار دیا۔ پس مرد کو داڑھی عطا کی، جس میں مرد کے لئے جلالت و ہیبت و عزت ہے لیکن عورت کو داڑھی اس لئے عطا نہ کی تاکہ اس کے چہرے کی زیبائی اور خوبصورت باقی رہے اور اس میں اپنے شوہر کے لئے ایک لذت ہو، کیا تم نہیں دیکھتے کہ خلقت میں کس طرح ہر چیز تدبیر و حکمت کے مطابق ہے اور خطاء لغزش کا کوئی راستہ اُس میں دیکھائی نہیں دیتا، خداوند متعال اپنی تدبیر و حکمت کے تحت انسان کو وہی کچھ دیتا ہے جس کی اسے ضرورت ہے۔

مفضل کا بیان ہے کہ اس وقت وقت ِ زوال آپہنچا، میرے آقا ومولا نماز کے لئے کھڑے ہوگئے، آپ نے فرمایا تم کل صبح سویرے میرے پاس آجاؤ (انشاء اللہ) میں اپنے مولا کی خدمت سے ان تمام چیزوں پر خوشحال واپس پلٹا جو میں نے حاصل کیں اور آپ نے مجھے تعلیم کیں۔ میں خداوند متعال کا شکر گزار تھا اس پر جو کچھ اس نے مجھے عطا کیا اور یہ کہ اپنی نعمتیں مجھے بخشیں اور جو کچھ مجھے میرے آقا و مولا نے مجھے تعلیم دی اور اس رات میں ان تمام چیزوں پر جو مجھے عطا کی گئیں ، مسرور و خوشحال سویا۔

۸۲

( روز دوّم )

۸۳

۸۴

مفضل کا بیان ہے کہ میں دوسرے دن صبح سویرے امام ـ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، اجازت لینے کے بعد آپ کی زیارت سے شرفیاب ہوا ، آپ نے مجھے بیٹھنے کے لئے کہا پھر امام ـ نے فرمایا: بیشک تمام تعریفیں اُس خدائے بزرگ کے لئے ہیں جو مدبر ہے جو ایک زمانے کے بعد دوسرے زمانے ایک طبقے کے بعد دوسرے طبقے اور ایک عالم کے بعد دوسرے عالم کا لانے والا ہے، تاکہ برے لوگوں کو اُن کے برے اعمال کے مطابق سزا دی جائے اور نیک اور اچھے افراد کو اُن کے نیک اور اچھے اعمال کے بدلے اجر وثواب عطا کیا جائے اور یہ سب باتیں اُس کے عدل کی بنیاد پر ہیں کہ جس کے أسماء پاک و پاکیزہ اور جس کی نعمتیں بے شمار ہیں جو ہرگز اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا مگر یہ کہ بندے خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں ، اس بات کی روشن دلیل اس کی آیتیں ہیں (کہ وہ فرماتا ہے )

( فَمن یَعْمَلْ مثقال ذرة خیراً یرا (٧) وَ مَن یَعْمَل مثقال ذرة شراً یره )(٨)

جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی تو اُسے دیکھ لے گا(۱)

اور اس قسم کی دوسری آیتیں کہ جن میں ہر چیز کا بیان موجود ہے جو خالق حکیم و حمید کی طرف سے نازل شدہ ہیں جن میں کسی بھی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں اور اسی بارے میں ہمارے سید و سردار حضرت محمد مصطفی (ص) ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ سوائے تمہارے أعمال کی جزاء کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہ جو روز قیامت تمہاری طرف پلٹائی جائے گی۔ مفضل کا بیان ہے کہ پھر کچھ دیر امام ـ نے اپنے سر کو جھکائے رکھا اور ارشاد فرمایا: اے مفضل ، لوگ نافرمانی اور سرکشی میں پڑے ہوئے ہیں، شیاطین اور طاغوت کی اتباع کرتے ہیں ، گویا یہ ایسے بینا ہیں جو اندھے ہیں اور نہیں دیکھتے اور ایسے کلام کرنے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورہ زلزال۔

۸۵

والے ہیں جو گونگے ہیں اور فکر نہیں رکھتے ، اور ایسے سننے والے ہیں جو بہر ے ہیں اور نہیں سنتے یہ لوگ دنیا کی پستی پر راضی ہوگئے ، اور گمان کرتے ہیں کہ وہ نیک اور ہوشیار ہیں اور اُن کاشمار ہدایت یافتہ لوگوں میں ہوتا ہے اس کے باوجود کہ وہ برے کاموں کی طرف اس طرح مائل اور غرق ہیں کہ جیسے وہ موت کے آنے سے أمن و امان میں ہیں اور ہر طرح کی جزاء و سزا سے بری ہیں ! صد افسوس ایسے لوگوں پر جن کے دل سخت ہوگئے ہیں اور وہ اس دن سے لاپروا ہیں کہ جس دن کی مصیبت طولانی اور شدید ہے ، جس دن کوئی دوست کسی دوست کے کام نہ آئے گا ، اور نہ کسی کی یاری و ہمدردی قبول کی جائے گی، سوائے اس کے کہ جس پر خدا اپنا رحم کرے۔

مفضل کا بیان ہے کہ امام ـ کے ان الفاظ نے مجھ پر گہرا اثر کیا اور میں گریہ کرنے لگا، امام ـ نے ارشاد فرمایا: اے مفضل گریہ نہ کرو اس لئے کہ تم ان تمام چیزوں سے بری ہو، کیوں کہ تم نے معرفت و شناخت کے ذریعے حقیقت کو قبول کیا اور نجات پائی ۔

( حیوانات کی خلقت )

پھر آپ نے فرمایا: اے مفضل ۔ اب میں تمہیں حیوانات کی خلقت کے بارے میں بتاتا ہوں تاکہ وہ تم پر اُسی طرح واضح ہوجائے جس طرح سے اس کے علاوہ دوسری تمام باتیں تم پر واضح اور روشن ہوچکی ہیں۔

( اے مفضل) فکر کرو حیوان کے بدن کی ساخت پر کہ کس طرح خلق کیا گیا ہے ، نہ زیادہ سخت مثل پتھر کے کہ اگر ایسا ہوتا تو حیوان کے لئے حرکت کرنا زحمت و مشقت کا باعث بنتا، اور وہ ہرگز اپنے کاموں کو بآسانی انجام نہیں دے سکتا تھا اور نہ ہی اتنا زیادہ نرم و نازک بنایا کہ وہ حمل اور باربرداری کے کام میں استعمال نہ کیا جاسکے پس خداوند متعال نے اس طرح کی تدبیر کی کہ اسے ظاہری طور پر نرم

۸۶

گوشت سے پیدا کیا اور اس کی کمر میں ایک ایسی مضبوط ہڈی کو رکھا جسے رگوں اور اعصاب نے گھیرا ہوا ہے جو ایک دوسرے کو مضبوطی سے گرفت میں لئے ہوئے ہیں اور اُس کے اُوپر ایک ایسی کھال کے لباس کو پہنایا جو تمام بدن کا احاطہ کئے ہوئے ہے، اس کی مثال لکڑی کی سی ہے جس پر کپڑا لپیٹ کر دھاگے سے مضبوطی سے باندھ دیا جائے اور اس کے اوپر گوند لگایا جائے تو لکڑیاں ، ہڈیوں کی مانند، کپڑا گوشت کی مانند، دھاگہ رگ و عصاب کی مانند اور گوند کھال کی مانند ہے ، اگر یہ بات ان حیوانات کے بارے میں کہی جائے کہ یہ محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں اور کسی صانع اور خالق نے انہیں پیدا نہیں کیا۔ تو پھر ضروری ہے کہ بالکل یہی بات اُن تصاویر اور مجسموں کے بارے میں کہی جائے جو بے جان ہیں لیکن جب یہ بات بے جان تصاویر و مجسموں کے بارے میں کہنا صحیح نہیں ، تو پھر حیوانات کے بارے میں تو بدرجہ اولیٰ صحیح نہیں ہے۔

( حیوان کو ذہن کیوں نہ عطا کیا گیا )

اے مفضل ۔ اب تم حیوانات کے جسم پر غور کرو انہیں انسان کے لئے پیدا کیا گیا ہے لہٰذا جس طرح ان کے بدن کو گوشت ، ہڈی ، اعصاب عطا کئے اسی طرح انہیں کان اور آنکھ بھی عطا کئے، تاکہ انسان انہیں اپنی ضرویات کے استعمال میں لاسکے، اس لئے کہ اگر حیوانات بہرے، اندھے ہوتے تو انسان ان سے ہرگز فائدہ نہیں اُٹھا سکتا تھا اور خود حیوانات بھی اپنے کاموں کو انجام نہیں دے سکتے تھے لیکن انہیں ذہن عطا نہیں کیا گیا، تاکہ وہ انسان کے سامنے جھکے رہیں اور جب انسان اُن سے باربرداری کا کام لے تو یہ اسے انجام دینے سے منع نہ کریں اب اگر کوئی یہ کہے کہ بعض غلام بھی تو ایسے ہیں کہ جو انسان کے سامنے ذلیل ہیں اور سخت ترین کاموں کو انجام دینے کے لئے تیار ہیں ، جبکہ وہ صاحب عقل ہیں؟ تو اس سوال کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس قسم کے افراد بہت کم ہیں۔ اور اکثر افراد اس قسم

۸۷

کے سخت ترین کام مثلاً باربرداری، چکی چلانا وغیرہ کے انجام دینے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں اس کے علاوہ یہ کہ اگر اس قسم کے سخت کام بھی کہ جنہیں حیوانات انجام دیتے ہیں انسان کو انجام دینے پڑتے تو وہ دوسرے کاموں کو انجام نہیں دے سکتا تھا، اس لئے کہ ایک اونٹ یا خچرکی جگہ پر کئی آدمیوں کو کام کرنا پڑتا اور یہ کام انسانوں کو اس قدر مشغول رکھتا کہ جس کی تھکن ، سختی ، تنگی اور مشقت کی وجہ سے انسان کے پاس اتنا وقت باقی نہ رہتا کہ وہ صنعت یا دوسرے کاموں کو انجام دے سکے۔

( تین قسم کے جاندار کی خلقت )

اے مفضل ، تین قسم کے جاندار اور اُس تدبیرپر کہ جن کے تحت انہیں پیدا کیا گیا ہے ، غوروفکر کرو جس میں ان تینوں کی بھلائی ہے۔

( ۱ ) انسان : جس کے لئے ذہانت و ادراک کو مقدر کیا تاکہ مختلف کام مثلاً تعمیرات ، تجارت ، بڑھئی کاکام ، سنہار کا کام او اس قسم کے دوسرے کام انجام دے ، لہٰذا اس کے لئے ہتھیلی ، پنجہ اور محکم انگلیاں پیدا کیں ، تاکہ وہ چیزوں کو پکڑ سکے اور مختلف چیزیں ایجاد کرکے انہیں محکم بنائے۔

( ۱ ) گوشت کھانے والے جانور: جن کی تقدیر میں یہ رکھا گیا ہے کہ یہ اپنی زندگی شکار کرکے بسر کریں تو ان کے لئے چھوٹی انگلیوں والے پنجے اور چنگال کی مانند ناخن عطا کئے گئے ، جو شکار کو پکڑنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں کہ جو صنعت کے لئے ہرگز مناسب نہیں۔

( ۳ ) گھاس کھانے والے جانور: جو نہ صاحب صنعت ہیں اور نہ شکاری لہٰذا اُن میں سے بعض کو ایسے سُم عطا کئے جن میں شگاف ہے ، تاکہ اُن حیوانات کو چرتے وقت زمین کی سختی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور بعض کے پاؤں انسان کے پاؤں سے شباہت رکھتے ہیں تاکہ یہ جانور زمین پر ٹھہر سکیں

۸۸

اور اُن سے باربرداری کی جاسکے ۔ اے مفضل ، فکر کرواس تدبیر پر کہ جو گوشت کھانے والے جانوروں کی خلقت میں استعمال ہوئی ہے ، تیز دانت ، چھوٹی مگر محکم انگلیاں اور وسیع و بزرگ منہ انہیں عطا کیا گیا ، یہ اس لئے کہ ان کی غذا گوشت ہے لہذا انہیں اس طرح کے اعضاء و جوارح عطا کیے کہ جو شکار کرنے میں ان کے مددگار ہوں۔ جیسا کہ بالکل یہی بات تم اُن پرندوں میں دیکھتے ہو جو درندہ صفت ہیں، کہ ان کے لئے بھی خصوصی چنگال خلق کیاگیا ہے تاکہ شکار کو پکڑنے اور پھاڑنے کے کام آئے ، اگر گھاس کھانے والے جانوروں کو جو نہ شکار کرتے ہیں اور نہ ہی گوشت کھاتے ہیں ، شکاری پرندوں کی طرح چنگال عطا کیا جاتا تو ان کے پاس یہ ایک زائد اور فضول چیز ہوتی کہ جس کی انہیں بالکل ضرورت نہیں ، بالکل اس طرح یہ بات بھی حکمت سے خالی ہوتی کہ اگر اُن حیوانات کو کہ جو درندہ صفت ہیں وہ چیزیں عطا نہ کی جاتی کہ جن کے وہ محتاج ہیں یعنی وہ چیزیں جن کے ذریعے وہ شکار کرکے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ ان جانوورں کے لئے تمام اُن چیزوں کو فراہم کیا گیا ہے جو ان کے لئے مناسب اور ضروری تھیں یا یوں کہا جائے کہ جن کے اندر ان کی بقاء اور بھلائی تھی۔

( چوپائے )

اب ذرا چوپاؤں پر غور کرو کہ کس طرح اپنے والدین کی اتباع کرتے ہیں اور مستقل راہ چلتے ہیں اور حرکت کرنے میں مشغول رہتے ہیں اور ہرگز اپنی زندگی میں والدین کے حمل و نقل اور ان کی تربیت کے محتاج نہیں ہوتے جس طرح سے انسان اپنی زندگی میں والدین کی تربیت کا محتاج ہوتا ہے ایسا اس لئے ہے کہ چوپاؤں کی ماں کہ پاس وہ سب کچھ نہیں ہوتا کہ جو انسان کی ماں کے پاس موجود ہے، مثلاً علم تربیت، ہاتھوں اور انگلیوں کی قوت اور کیوں کہ یہ تمام چیزیں حیوان کے پاس موجود نہیں لہٰذا اُن کے بچوں کو ایسی قوت عطا کی کہ وہ خود مستقل طور پر کھڑے ہوتے ہیں اور بغیر ماں کی مدد کے راہ چلتے

۸۹

ہیں اور بالکل اسی چیز کا مشاہدہ تم بہت سے پرندوں میں بھی کروگے ، مثلاً خانگی مرغی، تیتر اور قیچ(۱) وغیرہ کے بچے انڈے سے باہر آتے ہیں اور راہ چلنے لگتے ہیں اور دانہ چگتے ہیں لیکن وہ پرندے کہ جو ان سے زیادہ ضعیف اور لاغر ہیں کہ جن میں نہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت ہے اور نہ پرواز کی مثلاً پالتو کبوتر، جنگلی کبوتر اور حمّر(۲) کے بچے، کہ ان کی ماں کے دل میں ان کی اتنی زیادہ محبت رکھی کہ تم اس بات کا مشاہدہ کرو گے کہ وہ خود اپنے بچوں کے منہ میں غذا دیتی ہے اور غذا دینے کا یہ عمل اُس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک اِ ن کے بچے خود غذا کو چگنے کی صلاحیت پیدا کرلیں اور وہ خود مستقل ہوجائیں کبوتر کو خانگی مرغی کی طرح بچے بھی زیادہ عطا نہ کئے تاکہ وہ اپنے تمام بچوں کی پرورش اچھی طرح کرسکے، اور وہ فاسد ہو کر ہلاک ہونے سے محفوظ رہیں یہ خداوند حکیم و خبیر کی عظیم تدبیر ہے کہ اُس نے ہر ایک کو وہی تمام چیزیں عطا کیں جو اس کے لئے شائستہ اور مناسب ہیں۔

( چوپاؤں کی حرکت )

اے مفضل۔ ذرا حیوانات کے پاؤں کی طرف دیکھو کہ جب وہ راہ چلتے ہیں تو دونوں پاؤں دو دو کرکے آگے بڑھاتے ہیں کہ اگر ایک ایک کرکے آگے بڑھاتے تو راہ چلنا ان کے لئے دشواری کا باعث بنتا اس لئے کہ حیوانات راہ چلتے وقت بعض کو حرکت اور بعض پاؤں پر تکیہ کرتے ہیں اور جن حیوانات کے دو پاؤں ہیں وہ ایک پاؤں کو حرکت اور دوسرے پاؤں پر تکیہ کرتے ہیں ، چوپائے جن دو پاؤں کو حرکت دیتے ہیں وہ اُن دو پاؤں سے مختلف ہیں کہ جن پر وہ تکیہ کرتے ہیں اس لئے کہ اگر وہ اگلے دو پاؤں کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ چکور کی طرح مرغی کی ایک قسم۔

(۲)۔ سرخی مائل پرندہ۔

۹۰

حرکت دیتے اور پچھلے دو پاؤں پر تکیہ کرتے یا اس کے خلاف ہوتا تو جانور کسی بھی صورت میں زمین پر نہیں ٹھہرسکتا تھا، جس طرح سے تخت کہ اگر اس کے ایک طرف کے دونوں پائے نکال لیے جائیں تو تخت فوراً زمین پر گر جائے ا سی وجہ سے حیوانات راہ چلتے وقت دائیں ہاتھ اور بائیں پیر، بائیں ہاتھ اور دائیں پیر کو ایک ساتھ حرکت دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ زمین پر ٹھہرے رہتے ہیںاور نہیں گرتے۔

( حیوانات کس طرح اپنے سر کو انسان کے سامنے جھکائے ہوئے ہیں )

اے مفضل۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ گدھا چکی کو چلاتے وقت اپنی کس قدر قوت اُس میں لگاکر وزن کھینچتا ہے۔ گھوڑا ، کس طرح اپنے سر کو انسان کے سامنے جھکائے ہوئے ہے۔ اونٹ ، اگر فرار کرنے پر آجائے تو کئی مرد اس کی طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتے لیکن کس طرح ایک بچہ کی مانند مطیع و فرمانبردار دکھائی دیتا ہے، اور بالکل اسی طرح بیل کہ جو بے انتہاء قوی اور طاقت ور ہے ، مگر کس طرح اپنے مالک کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے فرمانبردار بنا ہوا ہے کہ کھیتی باڑی کے سخت تختے کو اپنی گردن پر بار کئے ہوئے زراعت کا کام انجام دیتا ہے ، گھوڑا کس طرح تیروں اور تلواروں کے درمیان ٹھہرا رہتا ہے اور وہ اپنے مالک کی اس بات پر راضی ہے کہ وہ اسے اس کام میں استعمال کرے اور بھیڑوں کا ریوڑ کہ جسے ایک آدمی چراتا ہے کہ اگر یہ ریوڑ منتشر ہوجائے اور ان میں سے ہر ایک الگ سمت فرار کرے تو چرواہا انہیں کبھی جمع نہیں کرسکتا،ا ور اس قسم کے دوسرے تمام حیوانات جنہیں انسان کا مطیع بنایا گیا ہے۔

اے مفضل کیا تمہیں معلوم ہے کہ آخر وہ انسان کے سامنے کیوں کر اپنا سر جھکائے ہوئے ہیں؟

اس لئے کہ وہ عقل و فکر نہیں رکھتے کہ اگر وہ عقل و فکر رکھتے تو بہت سے کاموں کو انجام نہ دیتے اونٹ اپنے مالک ، بیل اپنے مالک اور گوسفند اپنے ریوڑ سے فرار کرجاتا اور اس کے علاوہ یہ کہ یہ تمام جانور انسان کے خلاف ایک ہوجاتے، اور انسان کو ہلاک کردیتے کہ جب شیر، بھیڑیا، چیتا اور ریچھ سب

۹۱

ایک ہوجاتے تو کون ان کے مقابلہ میں ٹھہرتا، اب ذرا غور کرو کہ خدواند متعال نے کس طرح انہیں یہ سب کرنے سے روکا ہوا ہے بجائے اس کے کہ انسان ان سے ڈرتے وہ انسان سے ڈرتے ہیں اور ا س سے دور بھاگتے ہیں اور فقط اپنی غذا کی تلاش میں رات کے وقت باہر نکلتے ہیں ۔

ہاں، وہ اس قدر قوی اور طاقتور ہونے کے باوجود بھی انسان سے ڈرتے ہیں اور انسان کی طرف رُخ نہیں کرتے ورنہ یہ انسان کو تنگ کرکے رکھ دیتے۔

( کتّے میں صفت ِ مہر و محبّت )

اے مفضل۔تمام حیوانات میں سے کتے کو اپنے مالک کے لئے ایک خاص مہر و محبت عطا کی ہے تاکہ وہ اپنے مالک کی حفاظت کرے، اور یہ کتا گھر میں بھی آمدو رفت رکھتا ہے اور یہ خاص طور پر رات کی تاریکی میں اپنے مالک کو خوف وہراس سے بچاتا ہے اور اس کی محبت اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ اپنے مالک کے قدموں پر اپنی جان قربان کردیتا ہے، اور نہ فقط مالک سے بلکہ مالک کے مال سے بھی اُلفت رکھتا ہے اور اس کی الفت کی انتہاء تو یہ ہے کہ اگر اسے بھوکا رکھا جائے اور اس پر شدید ظلم کیا جائے تو بھی صبر کا مظاہرہ کرتا ہے، کتے میں اس صفت اُلفت و محبت کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے تاکہ وہ انسان کے لئے حفاظت کا کام انجام دے، اسی لئے کتے کے بدن کو اس قسم کے آلات مثلاً تیزدانت، درندہ جیسے چنگال اور خوفناک آواز عطا کی تاکہ چور اُس جگہ جانے سے اجتناب کرے اور خوف محسوس کرے کہ جہاں کتا پہرہ دے رہا ہو۔

۹۲

( حیوانات کی شکل و صورت )

اے مفضل ، اب ذرا حیوانات کی شکل و صورت پر غور کرو آنکھیں سامنے چہرے پر قرار دی گئی ہیں تاکہ تمام چیزوں کو آسانی سے دیکھ سکیں اور سامنے کی کسی چیز سے نہ ٹکرائیں یا یہ کہ گڑھے میں گرنے سے محفوظ رہیں اور ان کے منھ کو نیچے کی طرف کھلنے والا بنایا کہ اگر ان کا منھ بھی انسان کے منھ کی طرح سامنے کی طرف کھلتا تو وہ ہرگز زمین سے کسی بھی چیز کو نہیں اُٹھا سکتے تھے، مگر کیا تم نہیں دیکھتے کہ انسان اپنے منھ سے چیزوں کو اُٹھا کر نہیں کھا سکتا بلکہ غذا کھانے میں اپنے ہاتھوں سے مدد لیتا ہے ، اور یہ وہ فضیلت و برتری ہے جو انسان تمام کھانے والوں پر رکھتا ہے ، اور کیوں کہ حیوانات کے ہاتھ نہیں کہ وہ غذا کو زمین سے اُٹھا کر کھا سکیں لہٰذا اُن کے منھ کو نیچے کی طرف کھلنے والا بنایا تاکہ گھاس کو زمین سے اُٹھا سکیں اور اُن کے ہونٹوں میں ایسی قوت کو رکھا کہ جس کی مدد سے وہ نزدیک اور دور پڑی ہوئی چیزوں کو بآسانی اپنی طرف کھینچ سکتے ہیں۔

( جانوروں کو دُم کی ضرورت )

اے مفضل۔ جانوروں کی دُم اور اس کے فائدہ سے عبرت حاصل کرو، یہ دُم حیوان کی شرمگاہ پر پردے کی مانند ہے کہ جو اسے چھپائے ہوئے ہے اور دُم کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ حیوان کے شکم اور شرمگاہ کا درمیانی حصہ آلودہ ہوتا ہے جس پر مکھی اور مچھر جمع ہوتے ہیں اور یہ دُم انہیں اس جگہ سے دور کرنے کے عمل کو انجام دیتی ہے اور پھر حیوانات دُم کو حرکت دینے سے راحت و سکون محسوس کرتے ہیں اس لئے کہ جانور چاروں ہاتھوں پیروں پر کھڑے ہوتے ہیں، اگلے دو ہاتھ بدن کا

۹۳

وزن اُٹھاتے ہیں جن میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی لہٰذا حیوانات دُم کو دائیں اور بائیں حرکت دے کر راحت و سکون حاصل کرتے ہیں۔ دُم میں حیوانات کے لئے اور بھی بہت سے فائدہ ہیں جن کے ادراک سے عقل قاصر ہے کہ جو ضرورت پڑنے پر ظاہر ہوتے ہیں مثلاً اُس وقت کہ جب حیوان دلدل وغیرہ میں پھنس جائے تو دُم سے بہتر دوسری کوئی چیز نہیں جس سے پکڑ کر اُسے کھینچ لیا جائے اور دُم کے بالوں میں بھی انسان کے لئے بہت سے فائدہ ہیں جس سے انسان اپنی ضرورت پوری کرتا ہے، خداوند متعال نے اس کی کمر کو ہموار وقرار دیا اور پھر اسے ہاتھ اور پاؤں پر کھڑا کیا تاکہ سواری اورباربرداری کے کام آسکے اور ا س کی شرمگاہ کو پشت سے نمایاں رکھا تاکہ اس کے نر کو مقاربت کرتے وقت پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے کہ اگر اس کی شرمگاہ بھی زیر شکم عورت کی طرح ہوتی تو اس کا نر اس سے ہرگز مقاربت نہیں کرسکتا تھا، کیا تم نہیں دیکھتے کہ حیوان اپنی مادہ کے ساتھ روبرو ہو کر مقاربت نہیں کرسکتے جس طرح انسان اپنی زوجہ کے ساتھ کرتا ہے۔

( ہاتھی کی سونڈ کا حیرت انگیز عمل )

اے مفضل۔ غور وفکر کرو ہاتھی کی سونڈ اور اس میں استعمال شدہ لطیف تدبیر پر کہ وہ غذا کو اُٹھا کر منھ میں لے جانے کے لئے ہاتھ کی مانند ہے کہ اگر یہ نہ ہوتی تو ہاتھی کسی بھی چیز کو زمین سے اُٹھا کر نہیں کھا سکتا تھا، اس لئے کہ ہاتھی دوسرے حیوانات کی طرح گردن نہیں رکھتا کہ جسے زمین کی طرف بڑھائے پس گردن نہ ہونے کی وجہ سے اُسے لمبی سونڈ عطا کی گئی تاکہ اُس کی مدد سے وہ اپنی ضروریات کو پورا کرسکے، پس کون ہے وہ ذات جس نے اُس عضو کے عوض کہ جو موجود نہیں دوسرا عضو عطا کیا جو اُس کی کمی کو پورا کرتاہے؟ سوائے اس کے اور کوئی نہیں جو اپنی مخلوق پر رؤف و مہربان ہے پھر کس طرح سے اس عمل کو اتفاق کا نتیجہ کہا جائے جس طرح سے ستمگران کہتے ہیں۔

۹۴

اگر کوئی یہ سوال کرے کہ ہاتھی کو دوسرے چوپاؤں کی طرح گردن کیوں نہ عطا کی گئی؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہاتھی کا سر اور کان بہت وزنی ہیں کہ اگر یہ گردن کے اوپر ہوتے تو گردن کو توڑ ڈالتے اور ناکارہ بنادیتے، لہٰذا خداوند متعال نے ہاتھی کے سر کو دھڑ سے جوڑدیا، تاکہ ہاتھی کو سر اور کان کی سنگینی کا سامنا کرنا نہ پڑے اور سونڈ کو گردن کی جگہ قرار دیا تاکہ وہ غذا کو کھا سکے گویا حیوان کو گردن نہ ہونے کی صورت میں اسے ایک ایسی چیز عطا کی جو اس کی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔

اب ذرا دیکھو کہ کس طرح ہاتھی کی مادہ کی شرمگاہ کو زیر شکم قرار دیا کہ جب یہ مقاربت چاہتی ہے تو اس کی شرمگاہ اُبھر کر آشکار ہوجاتی ہے تاکہ اس کا نر اس کے ساتھ مقاربت کرسکے۔ عبرت حاصل کرو اس سے کہ کس طرح ہاتھی کی مادہ کی شرمگاہ کو زیر شکم دوسرے چوپاؤں کے برخلاف قرار دیا پھر اس میں اس خصلت کو رکھا کہ وہ اس عمل کے لئے تیار رہے کہ جس میں اُس کی نسل کی بقاء ہے۔

( زرافہ،خداوند عالم کی قدرت کا عظیم شاہکار )

اے مفضل۔ زرافہ کی خلقت ، اس کے مختلف اعضاء اور اس کے اعضاء کی دوسرے حیوانات کے اعضاء سے شباہت پر غور کرو کہ اس کا جسم گھوڑے کی مانند، اس کی گردن اونٹ کی مانند،اس کے پاؤں گائے کی طرح اور اس کی کھال چیتے کی سی ہے۔ خداوند حکیم سے غافل بعض افراد یہ کہتے ہیں کہ اس قسم کے حیوانات مختلف نر و مادہ کے ملاپ کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں اور ایسا اُس وقت ہوتا ہے کہ جب جانور پانی پینے کے لئے دریاؤں اور ندیوں کا رُخ کرتے ہیں اور وہاں یہ جانور مستی میں آجاتے ہیں اور مقاربت کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اس قسم کے جانور وجود میں آتے ہیں دراصل ان کا مطلب یہ ہے کہ زرافہ اور اس قسم کے دوسرے جانور درحقیقت کئی جانوروں کی مقاربت کا نتیجہ ہیں، اس قسم کی گفتگو کرنا ا نکی غفلت اور نادانی کا ثبوت ہے جبکہ اس قسم کے حیوانات ایک دوسرے سے ہرگز مقاربت

۹۵

نہیں کرتے ، نہ گھوڑا اونٹ سے، اور نہ اونٹ گائے سے مقاربت کرتا ہے، سوائے ان چند حیوانات کے جو ایک دوسرے کی شبیہ ہیں جو آپس میں ایک دوسر سے مقاربت کرتے ہیں ، جیسے گھوڑا ، گدھے کے ساتھ مقاربت کرتا ہے کہ جس کے نتیجے میں خچر وجود میں آتا ہے، اور بھیڑیا بجو کے ساتھ مقاربت کرتا ہے کہ جس کے نتیجے میں سمع(۱) وجود میں آتا ہے تو پس ان حیوانات کے ملاپ سے جو بھی جانور وجود میں آتے ہیں وہ ان دونوں کی شبیہ تو ہوتے ہیں مگر اس طرح نہیں کہ ایک عضو ایک جانور کی شبیہ اور دوسرا عضو دوسرے جانور کی شبیہ ہو کہ جیسا کہ زرافہ میں مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ ایک عضو گھوڑے کی طرح ، دوسرا عضو اونٹ کی طرح اور تیسرا عضو گائے کی طرح، بلکہ وہ جانور جو دو مختلف ملاپ سے وجود میں آتے ہیں وہ ان دونوں کی شبیہ ہوتے ہیں بالکل اُسی طرح جس طرح سے تم خچر میں اس چیز کا

مشاہدہ کرتے ہو کہ اس ،سر، کان، اور پیر گدھے اور گھوڑے کے متوسط ہیں اور اس کی آواز گدھے اور گھوڑے کی آواز سے مل کر بنی ہے، پس زرافہ میں اس قسم کی چیز کانہ ہونا اس بات پر دلیل ہے کہ وہ کئی جانوروں کے ملاپ سے وجود میںنہیں آیا جس طرح سے جاہل و غافل افراد گمان کرتے ہیں ۔

( بندر انسان کی شبیہ )

اے مفضل۔ فکر کروبندر کی خلقت اور اُس کی شباہت پر جو وہ انسان سے بہت سے اعضاء میں رکھتا ہے، ان اعضاء سے مراد سر وصورت ، کندھا اور سینہ ہے اور بندر کے جسم کا اندرونی حصہ بھی انسان کے جسم کے اندرونی حصے سے شباہت رکھتا ہے اور بندر ایک مخصوص شباہت جو انسان سے رکھتا ہے وہ اس کا ادراک اور ذہن ہے جس کے ذریعے وہ اپنے مالک کے اشارے کو سمجھتا ہے اور وہ انسان کے بہت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بجو کی طرح کا ایک جانور

۹۶

سے کاموں کی حکایت کرتا ہے مختصر یہ کہ بندر کی خلقت انسان کی خلقت سے شباہت رکھتی ہے اس قسم کی حکمت و تدبیر اس جانور میں اس لئے رکھی ہے تاکہ انسان اس سے عبرت حاصل کرے اور اس بات کو جان لے کہ اس کی طینت بھی حیوانات میں سے ہے اور ان کی خلقت بھی حیوانات کی خلقت سے مشابہ ہے ، اگر وہ شرف و فضیلت جو خداوند عالم نے اپنے فضل وکرم سے عقل و ذہن وفکر و نطق کے ذریعہ انسان کو عطا نہ کیا ہوتا تو انسان جانوروں کی شبیہ ہوجاتا یقینا بندر کے جسم میں کچھ چیزیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ جو اسے انسان سے جدا کرتی ہیں مثلاً نیچے کی طرف کھلنے والا منھ، لمبی دُم اور وہ بال جو بندر کے تمام جسم کو ڈھانپے ہوئے ہیں اگر بندر کا ذہن ،انسان کے ذہن کی مانند ، اس کی عقل ،انسان کی عقل کی طرح ، اس کی قوت نطق ، انسان کی قوت نطق کی طرح ہوتی تو کچھ زیادہ چیزیں اُسے انسان سے جد ا کرنے میں رکاوٹ نہ بنتیں ، پس انسان اور بندر کے درمیان درحقیقت اگر کوئی فرق ہے تو وہ بندر کے ناقص العقل اور قوت نطق کے نہ ہونے میں ہے۔

( حیوان کا لباس اور جوتے )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو خداوند متعال کے لطف و کرم پر کہ کس طرح اُس نے حیوانات کو بالوں پشم اور کُرک کا لباس زیب تن کیا ،تاکہ یہ لباس انہیں سردی اور دوسری آفتوں سے محفوظ رکھے، اور انہیں سموں کی مدد سے پاؤں کی برہنگی سے محفوظ کیا کیوں کہ وہ ہتھیلی اور انگلیاں نہیں رکھتے کہ جس کے ذریعے جوتے کی سلائی کرسکیں، لہٰذا اُن کی خلقت ہی میں انہیں ایسا جوتا پہنایا کہ جب تک وہ زندہ ہیں وہ جوتا بھی باقی ہے اور اس کے بدلے وہ نیا جوتا پہننے کی ضرورت نہیں رکھتے، لیکن انسان کیوں کہ اہل فن ہے اس کی ہتھیلی اور انگلیاں اس قسم کے کاموں کو انجام دے سکتی ہیں وہ اپنا لباس سیتا ہے انہیں مختلف حالات کے تحت بدلتا رہتا ہے اور اس میں اس کے لئے کئی فائدے بھی ہیں من جملہ یہ کہ وہ

۹۷

لباس بنانے کی مصروفیت کی وجہ سے عبس اور بیہودہ کاموں سے بچا رہتا ہے اور اس کا اس کام میں مصروف رہنا اسے شرارت اور سرکشی سے بچاتا ہے اور لباس کے اتارنے اور پہننے میں اس کے لئے راحت و سکون ہے۔ اور پھر انسان اپنے لئے کئی قسم کے لباس تیار کرکے اپنے لئے زینت و خوبصورتی فراہم کرتا ہے، مختصر یہ کہ انہی کاموں میں اس کے لئے لذت و آرام ہے اور پھر جوتے کی صنعت میں اس کے لئے ذریعہ معاش کا بندوبست بھی ہے کہ وہ کام کرکے اپنے اہل و عیال کی پرورش کرے ، خلاصہ یہ کہ بال، پشم ، کُرک حیوانات کے لئے لباس اور سُم جوتے کی جگہ ہیں۔

( حشرات الارض اور درندوں کا مرتے وقت حیرت انگیز عمل )

اے مفضل۔ چوپاؤں کی عجیب و غریب خلقت پر غوروفکر کرو کہ کس طرح مرتے وقت اپنے آپ کو پوشیدہ کرتے ہیں جس طرح سے انسان اپنے مردوں کو دفن کرتا ہے پس اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کہاں ہیں اُن وحشی درندوں کے لاشے کہ جو دکھائی نہیں دیتے اور وہ اس قدر کم تعداد میں بھی نہیں کہ جس کی وجہ سے وہ دکھائی نہ دیتے ہوں اور اگر کسی نے کہا کہ وہ تعداد میں انسانوں سے زیادہ ہیں تو اُس نے جھوٹ نہیں کہا، وہ سب جو تم بیابان اور پہاڑوں پر دیکھتے ہو ذرا شمار کرو اور اُن سے عبرت حاصل کرو جیسے ہرنوں کا گروہ، پہاڑی اور جنگلی گائیں، بارہ سنگھا، پہاڑی بکریاں اور اس قسم کے دوسرے وحشی درندے جیسے شیر، چیتا، بھیڑیا، وغیرہ اور مختلف اقسام کے حشرات الارض اور کیڑے مکوڑے اور اسی طرح مختلف قسم کے پرندے جیسے کوا، کبوتر، بطخ، سارس اور دوسرے ایسے پرندے کہ جو درندہ صفت ہیں (جیسے عقاب وغیرہ) کہ جب وہ مرتے ہیں تو دکھائی نہیں دیتے مگر ایک یا دو کہ جنہیں شکاری شکار کرلیتا ہے، یا کوئی درندہ انہیں پھاڑ دیتا ہے، ہاں جب یہ حیوانات اپنے اندر موت کے اثرات کو محسوس کرتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو ایک پناہ گاہ کی طرف کھینچتے ہیں اور مخفی ہوجاتے ہیں اور وہیں مرجاتے

۹۸

ہیں ، اگر ایسا نہ ہوتا تو بیابان حیوانات کے لاشوں سے پُر ہوجاتے اور ان کی بدبو سے ہوا فاسد ہوجاتی اور مختلف بیماریاں وجود میں آتیں، ذرا غور کرو اس امر پر کہ جس کی رسائی انسان تک ہابیل و قابیل کے قصے سے ہوئی کہ خداوند متعال نے کوے کو اس بات پر مأمور کیا کہ وہ قابیل کو بتائے کہ وہ اپنے قتل کئے ہوئے بھائی کی لاش کو زمین میں دفن کرے اور اولاد آدم اس طرح عمل انجام دے، پس کس طرح حیوانات کی طبیعت میں اس غریزہ کو رکھا گیا تاکہ انسان ان کے ناگزیر اثرات سے محفوظ رہے۔

( گوزن(۱) کا پیاسے ہونے پر حیرت انگیز عمل )

اے مفضل۔ بعض حیوانات کی ہوشیاری اور ان کی چالاکی پر غور کرو جو خداوند متعال نے اپنے لطف و کرم سے انہیں عطا کی تاکہ اس کی کوئی مخلوق بھی اس کی نعمتوں سے محروم نہ رہ جائے جانوروں کی یہ چالاکی اور ہوشیاری خود ان کی عقل اور تأمل سے نہیں بلکہ تمام چیزیں اس مصلحت کی وجہ سے ہیں کی جو ان کی خلقت میں استعمال ہوئی ہے۔

اب ذرا دیکھوکہ یہ گوزن جو سانپ کو کھاتا ہے اور کھانے کے بعد شدید پیاسا ہوجاتا ہے لیکن پھر بھی پانی پینے سے اپنے آپ کو روکتا ہے اس لئے کہ وہ ڈرتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ زہر اس کے سارے بدن میں سرایت کرجائے، اور اُسے ہلاک کردے پس وہ پیاس کی شدت سے پانی کے گڑھے کے کنارے کھڑا رہتا ہے اور آہ وبکا کرتا ہے لیکن پھر بھی پانی پینے سے اپنے آپ کو روکتا ہے کہ اگر پانی پی لے تو اُسی وقت ہلاک ہوجائے، اب ذرا غور کرو اس جانور کی طبیعت پر کہ جو موت کے ڈر سے تشنگی کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)بارہ سنگھا،جنگلی گائے،وغیرہ

۹۹

غالب ہونے کے باوجود پانی نہیں پیتا اور یہ وہ مرحلہ ہے کہ جہاں شاید صابر انسان بھی اپنے آپ پر قابو نہ پاسکے۔

( لومڑی کس چالاکی سے اپنی غذا حاصل کرتی ہے )

اے مفضل۔ لومڑی کے ہاتھ جب غذا نہیں لگتی تو وہ اپنے آپ کو مردہ جیسا بناکر لیٹ جاتی ہے اور اس طرح پیٹ میں ہوا بھرتی ہے کہ پرندے یہ سمجھیں کہ وہ مردہ ہے ، اور جیسے ہی وہ لومڑی پربیٹھتے ہیں تاکہ وہ اسے پھاڑ ڈالیں اور کھالیں تو ایسی صورت میں لومڑی بلافاصلہ ان پرندوں پر جھپٹتی ہے اور ان کا شکار کرلیتی ہے وہ کون ہے جس نے بے زبان و بے عقل لومڑی کو یہ حیلہ و چالاکی سکھائی؟ سوائے اس کے کہ جو اس کی روزی کا ذمہ دار ہے، کہ وہ اسے اس حیلہ و چالاکی اور دوسرے وسیلہ کے ذریعہ روزی پہنچاتا ہے اس لئے کہ لومڑی دوسرے حیوانات کی طرح اپنے شکار کے سامنے مقابلہ کی قوت نہیں رکھتی، لہٰذا اسے زندگی بسر کرنے کے لئے یہ حیلہ و چالاکی سکھائی۔

( دریائی سور کے غذا حاصل کرنے کا طریقہ کار )

اے مفضل۔ دریائی سور جب یہ چاہتا ہے کہ کسی پرندہ کا شکار کرے تو اس کی چالاکی یہ ہوتی ہے کہ وہ مچھلی کا شکار کرتا ہے اور اسے مار دیتا ہے اور پھر اس کے شکم کو اس طرح چاک کرتا ہے کہ وہ پانی پر باقی رہے اور خود اُس کے نیچے چھپ جاتا ہے اور آہستہ آہستہ پانی کو ہلاتا رہتا ہے کہ وہ پانی کے نیچے دکھائی نہ دے، اور انتظار کرتا ہے یہاں تک کہ پرندہ مچھلی کے لاشے پر بیٹھتا ہے کہ اُسے کھالے ایسی صورت میں دریائی سور بلافاصلہ اس پرندہ پر جھپٹتا ہے اور اس کا شکار کرلیتا ہے ، اے مفضل۔ ذرا اس حیلہ و

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175