آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)37%

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات) مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 160

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 160 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130124 / ڈاؤنلوڈ: 5446
سائز سائز سائز
آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

سترہواں سبق

عزاداری

امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی یاد منانے کو عزاداری کہا جاتا ہے۔

عزاداری کا سلسلہ ہمارے ائمہ معصومینؐ نے شروع کیا ہے اس میں مجلس ۔ ماتم ۔ جلوس جیسی تمام غم کی رسمیں شامل ہیں۔ شام میں سب سے پہلی مجلس جناب زینبؐ نے قید سے رہا ہونے کے بعد کی تھی اس کے بعد یہ سلسلہ ہر ملک ہر قوم اور ہر مذہب میں پھیل گیا۔

آج ہندوستان میں بہت سے غیر مسلم ایسے ہیں جو امام حسینؐ کا غم مناتے ہیں۔

محرم کا زمانہ عزاداری کا مخصوص زمانہ ہے اس لئے کہ اسی مہینے کی دسویں تاریخ کو امام حسینؐ شہید ہوئے تھے۔

عزاداری کا سلسلہ ہمارے ملک میں ۸/ زیع الاول تک قائم رہتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ عزاداری کسے کہتے ہیں ؟

۲ ۔ یہ سلسلہ کب سے شروع ہوا ہے ؟

۳ ۔ عزاداری کا سلسلہ کب تک رہتا ہے ؟

۲۱

آٹھارہواں سبق

مذہب کے حکم پانچ ہیں

پروردگار عالم نے جو احکام اپنے بندوں کے لئے مقرر کئے ہیں ان کی پانچ قسمیں ہیں۔

واجب ۔ وہ کام جس کے کرنے میں ثواب ہو اور نہ کرنے میں عذاب ہو۔

حرام ۔ وہ کام جس کے کرنے میں عذاب ہو اور نہ کرنے میں ثواب ہو۔

مکروہ ۔ وہ کام جس کا نہ کرنا بہتر ہو اور کرنے میں کوئی عذاب نہ ہو۔

مستحب ۔ وہ کام جس کا کرنا بہتر ہو اور نہ کرنے میں کوئی عذاب نہ ہو۔

مباح ۔ وہ کام جس کا کرنا اور نہ کرنا برابر ہو اور اس میں کوئی عذاب و ثواب نہ ہو

سوالات :

۱ ۔ واجب کسے کہتے ہیں ؟

۲ ۔ مستحب کسے کہتے ہیں ؟

۳ ۔ حرام اور مکروہ کا فرق بتاو۔

۲۲

انیسواں سبق

تقلید

انسان جس چیز سے نا واقف ہوتا ہے اس میں باخبر افراد پر بھروسہ کرتا ہے۔ مکان بنوانے میں معمار کو بلایا جاتا ہے اور کرسی بناوانے میں بڑھئی کو۔ اسی طرح ہم دین کے احکام معلوم کرنے میں علما پر بھروسہ کرتے ہیں۔ عالم سے مذہب کے احکام معلوم کر کے ان پر عمل کرنے کا نام تقلید ہے۔ تقلید مجتہد کی کی جاتی ہے۔ مجتہد وہ ہوتا ہے جو قرآن اور حدیث سے مذہب کے احکام معلوم کرتا ہے۔

تقلید میں مجتہد کا نام اور پتہ جاننا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے احکام پر عمل کرنا ضروری ہے۔

سوالات :

۱ ۔ تقلید کسے کہتے ہیں ؟

۲ ۔ مجتہد کون ہوتا ہے ؟

۳ ۔ کیا تقلید میں صرف مجتہد کا نام جاننا کافی ہے ؟

۲۳

بیسواں سبق

طہارت و نجاست

کچھ چیزیں پاک ہیں۔ جیسے پانی ۔ مٹٰی ۔ زمین وغیٰرہ ۔ کچھ چیزیں نجس ہیں ۔ جیسے پیشاب ۔ پاخانہ ۔ خون ۔ مردار ۔ شراب ۔ کتا ۔ سور وغیرہ پاک چیزوں کی دو قسمیں ہیں۔

۱ ۔ کچھ چیزیں خود پاک ہیں مگر دوسروں کو پاک نہیں کر سکتی ہیں جیسے عرق گلاب عرق کیوڑہ ۔ دودھ عرق ۔ رس وغیرہ۔

۲ ۔کچھ چیزیں خود بھی پاک ہیں اور دوسری چیزوں کو بھی پاک کر سکتی ہیں۔ جیسے پانی ۔ مٹی وغیرہ ۔

اسی طرح نجس چیزوں کی بھی دو قسمیں ہیں ۔

۱ ۔ کچھ چیزیں ایسی نجس ہیں جو پاک ہو سکتی ہیں مثلاً نجس کپڑا نجس برتن وغیرہ

۲ ۔ کچھ چیزیں ایسی نجس ہوتی ہیں جو پاک نہیں ہو سکتی ہیں جیسے کتا ۔ سور وغیرہ

سولات :

۱ ۔ پانچ پاک چیزیں بتاو ۔

۲ ۔ جو چیزیں دوسری چیزوں کو بھی پاک کر سکتی ہیں ان کی مثال دو۔

۳ ۔ کو سی چیزیں کبھی پاک نہیں ہو سکتیں

۲۴

اکیسواں سبق

حدث اور خبث

طہارت کی دو قسمیں ہیں ۔

۱ ۔ ایک طہارت وہ ہے جس میں نیت ضروری ہوتی ہے جیسے وضو ۔ غسل ۔ لہذا اگر بغیر وضو کی نیت کے ہاتھ یا منہ دھو لیا جائے یا بغیر غسل کی نیت کے کوئی نہا لے تو نہ وضو ہوگا اور نہ غسل ۔

۲ ۔ دوسری طہارت وہ ہے جس میں نیت کی ضرورت نہٰ ہوتی ہے جیسے کپڑا پاک کرنا۔ بدن پاک کرنا وغیرہ ۔ لہذا اگر کوئی شخص دریا میں گر پڑے یا کوئی برتن حوض میں گر جائے اور اس میں لگی ہوئی نجاست دور ہو جائے تو وہ پاک ہو جائے گا۔ اسے پاک کرنے کی ضرورت نہ ہو گی۔

جن چیزوں کے بعد نیت والی طہارت کرنا ہوتی ہے ان کو حدث کہا جاتا ہے جیسے سونے کے بعد نماز پڑھنے کے لئے وضو کرنا ہوتا ہے۔

جن چیزوں کے بعد بغیر نیت والی طہارت کافی ہوتی ہے ان کو خبث کہتے ہیں ۔ جیسے کپڑے میں خون لگ جائے۔

جس حدث کے بعد وضو نا ہوتا ہے اسے حدث اصغر کہتے ہیں اور جس حدث کے بعد غسل کرنا ہوتا ہے اسے حدث اکبر کہتے ہیں۔

سوالات :

۱ ۔ وضو کون سی طہارت ہے ؟

۲ ۔ بغیر نیت کے نہانے سے غسل ہو جائے گا یا نہیں ؟

۳ ۔ حدث اکبر کسے کہتے ہیں ؟

۲۵

بائیسواں سبق

حلال اور حرام

دین و شریعت نے جن چیزوں کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے۔ انھیں حلال کہا جاتا ہے اور جن چیزوں کے استعمال سے روک دیا ہے انھیں حرام کہا جاتا ہے۔

حلال و حرام کا پہچاننا اور حرام سے پرہیز کرنا بےحد ضروری ہے۔ ہر نجس چیز کا کھانا پینا حرام ہے۔ جیسے پیشاب پاخانہ ، خون ، شراب وغیرہ نجس ہیں۔ لہذا ان کا کھانا پینا حرام ہے۔ لیکن ہر پاک چیز کا کھانا پینا ضروری نہیں کہ حلال ہو جیسے مٹی پاک ہے لیکن اسے کھانا جائز نہیں۔

البتہ صرف ضرورت کے وقت بیماری سے شفا حاصل کرنے کے لئے امام حسینؐ کی قبر کی تھوڑی سی مٹی کھانا جائز ہے۔

سوالات:

۱ ۔ حلال و حرام کا فرق بتاو۔

۲ ۔ مٹی کا کھانا کیسا ہے ؟

۳ ۔ نجس چیزوں کا کھانا پینا کیسا ہے ؟

۲۶

تیئیسواں سبق

پانی

پانی کی دو قسمیں ہیں :

۱ ۔ مطلق پانی :۔ جسے صرف پانی کہا جاتا ہے۔

۲ ۔ مضاف پانی :۔ جسے خالص پانی نہ کہا جائے۔ جیسے شربت گنے کا رس وغیرہ۔

مطلق پانی دوسری چیزوں کو بھی پاک کر سکتا ہے ۔ مضاف پانی خود تو پاک ہوتا ہے مگر دوسری چیزوں کو پاک نہیں کر سکتا۔

مطلق پانی چند طرح کا ہوتا ہے۔ بارش کا پانی ۔ چشمہ کا پانی ۔ دریا کا اور حوض کا پانی۔ کنویں کا پانی ۔ نل کا پانی۔

مطلق پانی سے ہر چیز پاک ہو سکتی ہے۔ مطلق پانی سے ہی وضو اور غسل کیا جاتا ہے۔ مضاف پانی مثلا گلاب۔ کیوڑہ وغیرہ سےنہ وضو ہو سکتا ہے اور نہ غسل اور نہ اس سے کوئی چیز پاک ہو سکتی ہے۔

سوالات :

۱ ۔ مضاف پانی کسے کہتے ہیں ؟

۲ ۔ وضو اور غسل کون سے پانی سے ہوتا ہے ؟

۳ ۔ کونسا پانی وضو غسل اور طہارت کے کام نہیں آتا ؟

۲۷

چوبیسواں سبق

پیشاب پاخانہ کے آداب

پیشاب پاخانہ کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کر کے بیٹھنا حرام ہے۔ پیشاب کے بعد پانی سے طہارت کرنا واجب ہے پانی کے بغیر پیشاب کی طہارت نہیں ہو سکتی۔ پیشاب کے بعد کا غذ کپڑے یا ڈھیلے سے پونچھ ڈالنا کافی نہیں ہے بلکہ پانی سے پاک کرنا ضروری ہے۔

پیشاب یا پاخانہ کرتے وقت ایسی جگہ نہیں بھیٹنا چاہئیے جہاں کوئی دیکھنے والا موجود ہو۔

کھڑے ہو کر پیشاب کرنا بہت بری بات ہے۔ ہمارے اماموں نے اس کی سخت ممانعت کی ہے۔

آبدست بائیں ہاتھ سے کرنا چاہئیے۔ داہنا ہاتھ اللہ نے کھانا کھانے کے لئے بنایا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ پیشاب پاخانہ کرتے وقت کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے ؟

۲ ۔ پیشاب کس طرح ہوتا ہے ؟

۳ ۔ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا کیسا ہے ؟

۲۸

پچیسواں سبق

وضو

انسان جب بھی نماز کے لئے تیار ہوتو وضو کرنا ضروری ہے وضو کے بغیر نماز پڑھنا حرام ہے۔

وضو کرنے کی ترکیب یہ ہے کہ پہلے نیت کرے کہ وضو کرتا ہوں " قربۃٌ الی اللہ" اس نیت کا دل میں رہنا بہت ضروری ہے۔ نیت کے بعد دونوں ہاتھوں کو گٹے تک دو مرتبہ دھوئے اس کے بعد تین مرتبہ کلی کرے اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالے۔ یہ تینوں کام سنت ہیں واجب نہیں ہیں۔

ناک میں پانی ڈالنے کے بعد چہرے کو بالوں کے اگنے کی جگہ سے تھوڑی تک دھوئے۔ چوڑائی میں کانوں تک پانی پہونچا دینا زیادہ اچھا ہے۔

چہرہ دھونے کے بعد داہنے ہاتھ کو کہنیوں سے انگلیوں کے سرے تک دھوئے پھر بائیں ہاتھ کو اسی طرح دھوئے۔

دونوں ہاتھوں کو دھونے کے بعد جو تری ہتھیلی میں بچ گئی ہے اس میں دوسرا پانی ملائے بغیر داہنے ہاتھ کی ہتھیلی سے سر کے اگلے حصہ کا مسح کرے۔ اس کے بعد داہنے ہاتھ کی ہتھیلی سے داہنے پیر مسح کرے اور اس کے بعد بائیں ہاتھ کی ہھتیلی سے بائیں پیر کا مسح کرے۔ مسح پیر کی انگلیوں سے گٹے تک ہوتا ہے۔

سر اور پیر کے مسح میں ایک ایک انگلی سے مسح کرنا بھی کافی ہے مگر سر کا مسح تین انگلیوں سے اور پیر کا مسح پورے ہاتھ سے کرنا بہتر ہے۔

سوالات :

۱ ۔ وضو کی نیت بتاو ۔

۲ ۔ وضو میں چہرہ کہاں سے کہاں تک دھوتے ہیں ؟

۳ ۔ مسح کس چیز سے کیا جاتا ہے ؟

۲۹

چھوبیسواں سبق

غسل

غسل دو طرح کے ہوتے ہیں :

۱ ۔ بعض غسل واجب ہوتے ہیں جیسے میت کو غسل دینا یا میت کو چھونے کے بعد غسل کرنا واجب ہے ۔

۲ ۔ بعض غسل سنت ہوتے ہیں جیسے جمعہ کے دن کا غسل زیارت کا غسل وغیرہ

غسل کرنے کے دو طریقے ہیں:

۱ ۔ غسل ترتیبی :۔ اس میں پہلے نیت کی جاتی ہے کہ غسل کرتا ہوں۔ "قربۃ الیٰ اللہ " اس کے بعد سر اور گردن کو دھویا جاتا ہے سر و گردن کے بعد جسم کے داہنے حصہ کو گردن سے پیروں تک دھویا جاتا ہے۔ اور پھر بائیں حصہ کو اسی طرح دھویا جاتا ہے۔

۲ ۔ غسل ارتماسی ۔ اس میں نیت کر کے پانی میں ایک دم سے غوطہ لگایا جاتا ہے۔

اگر جمعہ کا دن بھی ہو اور زیارت بھی کرنا ہو تو سب کے لئے ایک غسل کافی ہے۔ الگ الگ غسل کی ضرورت نہیں ہے۔

سوالات :

۱ ۔ غسل ترتیبی کس طرح کیا جاتا ہے ؟

۳۰

ستائیسواں سبق

تیمم

وضو یا غسل کرنے والے کو اگر پانی نہ ملے یا بیماری وغیرہ کی وجہ سے پانی کا استعمال کرنا نقصان دہ ہو یا نماز کے لئے وضو یا غسل کرنے کی وجہ سے قضا ہو جانے کا خطرہ ہو تو وضو یا غسل کرنے کے بجائے تیمم کرنا چاہئیے۔

تیمم صرف مٹی یا پتھر پر ہو سکتا ہے۔ اگر یہ چیزیں نہ ملیں٘ تو گرد و غبار پر بھی تیمم کیا جا سکتا ہے۔

تیمم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے نیت کرے کہ " تیمم کرتا ہوں وضو یا غسل کے بدلے " قربۃً الی اللہ : نیت کے ساتھ دونوں ہاتھوں کو ملا کر خاک پر مارا پھر ہاتھوں کو جھاڑ کر پہلے دونوں ہتھیلیوں کو پوری پیشانی پر اوپر سے نیچے کی طرف پھیرے پھر بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو داہنے ہاتھ کی پشت پر گٹے سے انگلیوں تک پھیرے پھر اسی طرح داہنے ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پشت پر پھیرے پھر دو بارہ ہاتھ مارے اور صرف دونوں ہاتھوں کا مسح کرے۔

اگر ہاتھ میں چھلا یا انگوٹھی وغیرہ ہو تو اسے تیمم کرتے وقت اتار دینا چاہئیے نماز کا وقت نکل جانے کے بعد اگر پانی مل جائے تو تیمم سے پڑھی ہوئی نماز کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

سوالات :

۱ ۔ تیمم کب کرنا چاہئیے ؟

۲ ۔ تیمم کس چیز پر ہوگا ؟

۳ ۔ اپنے کو تیمم کر کے دکھائو ۔

۳۱

آٹھائیسواں سبق

اوقات نماز

صبح کی نماز کا وقت صبح صادق سے آفتاب نکلنے تک ہے۔

طہر و عصر کا وقت دوپہر کے وقت آفتاب ڈھلنے سے آفتاب ڈوبنے تک ہے لیکن پہلے نماز ظہر پڑھی جائے گی اس کے بعد نماز عصر۔

مغرب و عشا کا وقت آفتاب ڈوبنے کے بعد آسمان پر سیاہی پھیل جانے سے آدھی رات تک ہے لیکن اس وقت میں پہلے نماز مغرب پڑھے اس کے بعد نماز عشا۔ نماز جمعہ کا وقت آفتاب ڈھلنے سے شروع ہوتا ہے اور اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک ہر چیز کا سایہ اس کے برابر نہ ہو جائے۔

نماز عید کا وقت آفتاب نکلنے سے زوال تک ہے۔

ہر نماز کو وقت کے اندر پڑھنا ضروری ہے۔ جان بوجھ کر نماز کا قضا کرنا حرام ہے

سوالات :

۱ ۔ صبح کی نماز کب قضا ہو جاتی ہے ؟

۲ ۔ نماز کو اس وقت کے اندر نہ پڑھنا کیسا ہے ؟

۳ ۔ نماز عیدین کا وقت کیا ہے ؟

۳۲

انتیسواں سبق

سجدہ گاہ

سجدہ صرف زمین پر یا زمین سے اگنے والی ایسی چیز پر ہونا چاہئیے جو کھائی یا پہنی نہیں جاتی ہو۔

مٹی ۔ پتھر ۔ لکڑی ۔ چٹائی ۔ کاغذ ۔ وغیرہ پر سجدہ کرنا جائز ہے۔ اور کھائے جانے والے پھلوں ۔ پتوں اور کپڑے پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔

سجدہ صرف پاک چیز پر ہونا چاہئیے، نجس چیز پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔

قبر حسینؐ کی مٹی پر سجدہ کرنے میں زیادہ ثواب ہے۔ اس لئے شیعہ حضرات اس مٹی کی سجدہ گاہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور اسی پر سجدہ کرتے ہیں اس میں ثواب بھی زیادہ ہے اور یہ یقین بھی ہے کہ یہ مٹی پاک ہے۔

سوالات :

۱ ۔ کیلے کے پتے اور پان پر سجدہ جائز ہے یا نہیں ؟

۲ ۔ لکڑی یا چٹائی پر سجدہ کیوں جائز ہے ؟

۳ ۔ کربلا کی سجدہ گاہ پر سجدہ کیوں کیا جاتا ہے ؟

۳۳

تیسواں سبق

ترکیب نماز

نماز پڑھنے والے کو چاہئیے کہ پاک کپڑے پہن کر وضو کر کے قبلہ کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو اور نیت کرے کہ صبح کی دو رکعت نماز پڑھتا ہوں قربۃً الی الل نیت کے بعد فوراً اللہ اکبر کہے اور پھر سورہ الحمد اور کوئی دوسرا سورہ پڑھ کر رکوع میں جائے۔ رکوع میں پہنچ کر کم سے کم ایک مرتبہ "سبحان ربی العِظِیمِ وَ بِحَمدِه " کہ کر کھڑا ہو جائے کھڑے ہو کر "سَمِعَ اللهُ لِمَن حَمِدَه ۔الله اکبر " کہ کر سجدہ میں جائے اور خاک پر پیشانی رکھ کر کم سے کم ایک مرتبہ "سُبحَانَ رَبِّی الاَعلیٰ وَ بِحَمدِه " کہے اور پھر اٹھ کر بیٹھ جائے اورالله اکبر اَستَغفِرُ الله رَبِّی وَ اَتُوبُ اِلَیه ۔الل اکبر " کہ کر دوسرے سجدہ میں جائے اور "سُبحَانَ رَبِی الاَعلیٰ وَ بِحَمدِه " کہے پھر بیٹھ کر اللہ اکبر کہے اور پھربِحَولِ اللهِ وَ قُوَّتِهِ اَقُومُ اَقعُد " کہتا ہوا کھڑا ہو جائے اور حمد و سورہ کے بعد قنوت پڑھے۔ قنوت میں چہرے کے سامنے دونوں ہاتھ بلند کر کے دعائے قنوت پڑھنا چاہئیے اور کوئی دعا یا دنہ ہو تو کم سے کم صلوٰت پڑھنے دعا کے بعد رکوع میں جائے اور پہلی رکعت کی طعح رکوع و سجدہ تمام کرے۔اس کے بعد بیٹھ کر اس طرح تشہد پڑھے۔اَشهدُ اَن لاَّ اِلهَ اِلاَّ اللهُ وَحدَهُ لَا شَرِیکَ لَهُ وَ اَشهدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبدُهُ وَ رَسُولُهُ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ ٰالِ مُحَمَّدٍ۰

تشہد کے بعد اس طرح سلام پڑھ کر نماز کو تمام کرےاَلسَّلَامُ عَلَیکَ اَیُّهَا النِّبیُ وَ رَحمَة اللهِ وَ بَرَکَاتُهُ ۔اَلسِّلَامُ عَلَینَا وَ عَلیٰ عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِینَ ۔اَلسَّلامُ عَلَیکُم وَ رَحمَة اللهِ وَ بَرَکَاتُهُ ۔

اگر نماز تین یا چار رکعتی ہے تو تشہد کے بعد سلام نہ پڑھے بلکہ کھڑا ہو جائے اور ایک ہا دو رکعت اور پڑھے تیسری اور چوتھی رکعت میں سورہ الحمد یا تین بارسُبحَانَ اللهِ وَ الحَمدُ للهِ وَلاَ اِلٰهَ الاللهُ هوَ اللهُ اَکبَر پڑھنا چاہئیے۔ دوسرے سورہ کی ضرورت نہیں ہے۔اس کے بعد رکوع ۔ سجدہ ۔ تشہد ۔ سلام پہلے کی طرح پڑھ کر نماز تمام کرے۔

سوالات :

۱ ۔ نماز سناو ؟

۲ ۔ نماز پڑھ کر دکھاو ؟

۳ ۔ دعائے قنوت ۔ تشہد اور سلام سناو ؟

۳۴

اکتیسواں سبق

آداب نماز

نماز پڑھنے والے کو چاہئیے کہ نماز میں اس طرح باادب کھڑا ہو جیسے خدا کے سامنے کھڑا ہونا چاہئیے۔ نماز میں داہنے بائیں ديکھانا جائز نہیں ہے۔

نماز کی حالت میں ہنسنا اور رونا بھی جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر خدا کے خوف سے آنسو نکل آئیں تو اس سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔

نماز میں بات کرنا بھی حرام ہے، نماز کی حالت میں صرف نماز کے امور ہی انجام دینا چاہئیے۔ ہاں اگر کوئی نماز کی حالت سلام کرے تو اس کاجواب دینا ضرور دینا چاہے۔ نماز کی حالت میںسَلاَمُ عَلَیکُم کا جوابو عَلَیکُم السَّلام نہیں کہنا چاہئیے۔

نماز کی حالت میں آداب عرض ہے۔ وغیرہ کا جواب نہیں دیا جائےگا۔

سوالات :

۱ ۔ نماز پڑھتے وقت ہنسنے سے نماز صحیح رہےگی یا نہیں ؟

۲ ۔ نماز کی حالت میں سلام کا جواب کیسے دیں ؟

۳۵

بتیسواں سبق

روزہ

ماہ رمضان کا چاند دیکھتے ہی ہر مسلمان مرد عورت پر روزہ واجب ہو جاتا ہے روزہ صبح کی اذان سے شروع ہو کر مغرب کی اذان تک رہتا ہے۔

جان بوجھ کر روزہ نہ رکھنے والے کو بعد میں قضا بھی کرنا پڑے گی۔ اور ایک ایک روزہ کے بدلے میں ساٹھ ساٹھ روزے رکھنا پڑیں گے۔ یا ساٹھ غریبوں کو کھانا کھلانا پڑےگا۔

نابالغ بچوں پر روزہ واجب نہیں ہے لیکن انھیں بھی روزہ ضرور رکھنا چاہئیے اس میں ان کے لئے فائدہ ہے اور ان کے ماں باپ کے لئے ثواب ۔

بیمار اور مسافر پر روزہ واجب نہیں ہے۔ لیکن بعد میں رکھنا ہوگا۔ روزہ کی حالت میں کھانا پینا اور پانی میں سر ٖڈبونا وغیرہ حرام ہے۔ روزہ کی نیت ہے

روزہ رکھتا ہوں ماہ رمضان کا قربہ الی اللہ۔

سوالات :

۱ ۔ روزہ کب سے کب تک رہتا ہے ؟

۲ ۔ جان بوجھ کر روزہ چھوڑنے والے کو کیا کرنا پڑےگا ؟

۳ ۔ روزہ کی نیت کیا ہے ؟

۳۶

تیتیسواں سبق

حج

حج صرف ان لوگوں پر واجب ہوتا ہے جو بالغ ۔ عاقل اور آزاد ہوں اور حج کا خرچ بھی رکھتے ہوں۔ نابالغ ۔ دیوانہ ۔ غلام اور غریب آدمی پر حج واجب نہیں ہوتا۔ حج عمر بھر میں صرف ایک مرتبہ واجب ہوتا ہے۔ واجب حج کرنے کے بعد کوئی حج واجب نہیں رہ جاتا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جس شخص پر حج واجب ہو اور وہ حج کے بغیر مر جائے تو وہ مسلمان نہیں مرتا ہے بلکہ یہودی یا عیسائی مرتا ہے۔ مرنے والے سے سچی محبت یہی ہے۔ کہ اگر اس پر حج واجب ہو تو اس کی طرف سے حج کرا دیا جائے۔

سوالات :

۱ ۔ حج کے بغیر مرنے والے کی موت کیسی ہوتی ہے ؟

۲ ۔ دیوانہ پر حج واجب ہے یا نہیں ؟

۳ ۔ حج عمر بھر میں کتنی مرتبہ واجب ہے ؟

۳۷

چوتیسواں سبق

زکوٰۃ

زکوٰۃ نو چیزوں میں واجب ہوتی ہے۔ گیہوں ۔ جو ۔ خرما ۔ کشمش سونے چاندی کے سکے ۔ اونٹ ۔ گائے ۔ بکری ۔ ان کے علاوہ زیور ۔ نوٹ ۔ چنا ۔ چاول ۔ دال وغیرہ پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

زکوٰۃ واجب ہونے کے لئے ضروری ہے کہ مال اتنی مقدار میں ہو جتنی مقدار پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے ۔ گیہوں یا جو یا خرما یا کشمش ۸۴۷ کیلو ہو تو ان پر زکوٰۃ واجب ہوگی ورنہ نہیں۔

سونے چاندی کی زکوٰۃ چالیسواں حصہ ہے۔ گیہوں ۔ جو وغیرہ کی زکوٰۃ پیدا وار ہے اگر پیداوار سینچائی کے بغیر ہوتی ہے۔ تو مال کا دسواں حصہ زکوٰۃ میں دینا ہوگا۔ اور اگر سینچائی کرنا پڑی ہے تو مال کا بیسواں حصہ زکوٰۃ میں دینا ہوگا۔

سوالات :

۱ ۔ چالیسواں حصہ کس چیز کی زکوٰۃ ہے ؟

۲ ۔ گیہوں ۔ جو کتنا ہو کہ اس پر زکوٰۃ واجب ہو ؟

۳ ۔ جو یا گیہوں پر کتنی زکوٰۃ دینا ہوگی ؟

۳۸

پینتیسواں سبق

خمسُ

خمس٘ سات چیزوں پر واجب ہوتا ہے :

؀۱ سالانہ بچت ؀۲ خزانہ ؀۳ کان ؀۴ مال حلال جس میں مال حرام مل جائے اور مال حرام کی مقدار نہیں معلوم ہو ؀۵ جواہرات وغیرہ جنھیں غوطہ لگا کر نکالا جائے ؀۶ جہاد کا مال غنیمت ؀۷ ذمی کافر کی زمین جو اس نے مسلمان سے خریدی ہو۔

سال بھر میں نوکری ۔ کھیتی ۔ تجارت ۔ محنت ۔ مزدوری ۔ تحفہ وغیرہ کسی ذریعہ سے جو مال ملے سال کے آخری دن اس مال کی بچت کا پانچواں حصہ خمس کے طور پر نکالنا واجب ہے خمس کے دو حصہ ہوتے ہیں ایک حصہ امام علیہ السلام کا ہے جو مجتہد کو دیا جاتا ہے اور ایک حصہ سادات کا حق ہے جو صرف ان سیدوں کو دیا جائے گا جو غریب ہوں اور کھلم کھلا گناہ نہ کرتے ہوں۔ اگر کسی کی ماں سیدانی ہو اور باپ سید نہ ہو تو اسے خمس نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن اگر کسی کی ماں سیدانی نہ ہو مگر باپ سید ہو تو اسے خمس دیا جا سکتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ خمس کن چیزوں پر واجب ہوتا ہے ؟

۲ ۔ کس دن کا حساب کرنا چاہئیے ؟

۳ ۔ مجتہد کو خمس کا کونسا حق دیا جاتا ہے؟

۳۹

چھتیسواں سبق

نذر و فاتحہ

نبیؐ اور امامؐ کی خدمت میں کسی چیز کے پیش کرنے کا نام نذر ہے۔ نذر اگر نبیؐ ۔ امامؐ تک پہونچ سکتی ہے تو نذر کی چیز ان کی خدمت میں پیش کی جائے گی ورنہ غریبوں کو دے کر اس کا ثواب ان کی خدمت میں پیش کر دیا جائے گا۔ نذر زندہ امام ۔ نبی کی بھی ہو سکتی ہے۔

فاتحہ صرف مرنے والے کو ثواب پہونچانے کا نام ہے۔ نذر کا طریقہ یہ ہے کہ صلوات پڑھنے کے بعد سورہ حمد اور قل ھو اللہ وغیرہ کی تلاوت کر کے پھر صلوات پڑھے اور خدا کی بارگاہ میں عرض کرے کہ " میں نے ان سوروں کا ثواب چہادہ معصومینؐ کو نذر کیا "۔

اور اگر کسی مردہ کا فاتحہ دینا ہے تو یہ بھی کہے کہ " اس کے عوض میں جو ثواب حاصل ہو اسے فلاں شخص کی روح کو بخش دیا۔

سوالات :

۱ ۔ نذر کس چیز کا نام ہے ؟

۲ ۔ نذر کا طریقہ کیا ہے ؟

۳ ۔ فاتحہ کیوں کر دیتے ہیں ؟

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

عزت خدا کے لیے ہے پھر نصیحت کرتے ہوئے فرمایا (کہ جب تمام عزت اللہ کے لیے ہے) پھر عزت کی خاطر ادھر ادھر کیوں جاتے ہو۔ یا پھر فرمایا:انّ القَوة للّٰه جمیعًا (۱) تمام قدرت خدا کے لیے ہے۔ پھر نتیجہ کے طور پر فرمایا: کہ تو پھر ہر وقت کسی اور کے پیچھے کیوں لگے رہتے ہو؟ اس آیت میں بھی یہی فرمایا: سب مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں پھر فرمایا: تو اب جب کہ تم سب آپس میں بھائی بھائی ہو تو پھر یہ لڑائی جھگڑا کس لیے؟ پس آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ پیار ومحبت سے رہو۔ اس لیے کہ فرد اور معاشرہ کی اصلاح کے لیے پہلے فکری اور اعتقادی اصلاح ضروری ہے اُس کے بعد انسان کے کردار اور اس کی رفتار کی بات آتی ہے۔

٭ اخوت و برادری جیسے کلمات کا استعمال اسلام نے ہی کیا ہے۔ صدر اسلام میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سات سو چالیس افراد کے ہمراہ ''نخلیہ'' نامی علاقے میں موجود تھے کہ جبرائیل امین ـ نازل ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے درمیان اخوت و برادری کے رشتہ کو قائم کیا ہے۔ لہٰذا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اپنی اصحاب کے درمیان اخوت کے رشتہ کو قائم کیا اور ہر ایک کو اس کے ہم فکر کا بھائی بنادیا۔ مثلاً: ابوبکر کو عمر کا، عثمان کو عبدالرحمن کا، حمزہ کو زید بن حارث کا، ابو درداء کو بلال کا، جعفرطیار کو معاذ بن جبل کا، مقداد کو عمار کا، عائشہ کو حفصہ ، ام سلمہ کو صفیہ، اور خود پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کو اپنا بھائی بنایا۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔سورئہ مبارک بقرہ، آیت ۱۶۵

(۲)۔ بحارا لانوار، ج۳۸، ص ۳۳۵

۱۰۱

جنگ اُحد میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو شہداء (عبداللہ بن عمر اور عمر بن جموع) جنکے درمیان اخوت و برادری کا عقد برقرار تھا کو ایک ہی قبر میں دفن کرنے کا حکم دیا۔(۱)

٭ نسبی برادری بالآخر ایک دن ختم ہوجائے گی۔فَلَا أَنسَابَ بَیْنَهُمْ (۲) لیکن دینی برادری قیامت کے دن بھی برقرار رہے گی۔اِخوانًا علی سُرُررٍ مُّتَقَابِلِیْنَ (۳)

٭اخوت و برادری با ایمان عورتوں کے درمیان بھی قائم ہے چنانچہ ایک مقام پر عورتوں کے درمیان بھی اخوت و برادری کی تعبیر موجود ہے۔وَاِن کَانُوا اِخوَةً رِجَالاً و نِسآئً (۴)

٭اخوت و برادری صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہو۔ اگر کوئی کسی کے ساتھ دنیا کی خاطر اخوت و برادری کے رشتہ کو قائم کرے تو جو اس کی نظر میں ہے وہ اس سے محروم رہے گا۔ اس طرح کے برادر قیامت کے دن ایک دوسرے کے دشمن نظر آئیں گے۔(۵)

الَْخِلاَّئُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوّ ِلاَّ الْمُتَّقِینَ - (۶)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ شرح ابن الحدید، ج۱۵، ص ۲۱۵؛ بحار الانوار، ج۲۰، ص ۱۲۱ (۲)۔ سورئہ مبارکہ مومنون، آیت ۱۰۱

(۳)۔ سورئہ مبارکہ حجر، آیت ۵۷ (۵)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت ۱۷۶

(۵)۔ بحار، ج۷۵، ص ۱۶۷ (۶)۔ سورئہ مبارکہ زخرف، آیت ۶۷

۱۰۲

٭برادری اور اخوت کی برقراری سے زیادہ اہم چیز برادر کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ روایات میں ایسے شخص کی سرزنش کی گئی ہے جو اپنے برادر دینی کا خیال نہ رکھے اور اُسے بھلا دے۔ یہاں تک ملتا ہے کہ اگر تمہارے برادران دینی نے تم سے قطع تعلق کرلیا ہے تو تم ان سے تعلق برقرار رکھوصِلْ مَنْ قَطَعَک (۱)

روایات میں ہے کہ جن افراد سے قدیمی اور پرانا رشتہ اخوت و برادری قائم ہو ان پر زیادہ توجہ دو اگر کوئی لغزش نظر آئے تو اُسے برداشت کرو۔ اگر تم بے عیب دوستوں (برادران) کی تلاش میں رہو گے تو دوستوں کے بغیر رہ جاؤ گے۔(۲)

٭روایات میں ہے کہ جو اپنے برادر کی مشکل حل کرے گا اس کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ یہاں تک ملتا ہے کہ جو اپنے دینی برادر کی ایک مشکل دور کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ایک لاکھ حاجات پوری کرے گا۔(۳)

٭حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: مومن ، مومن کا بھائی ہے ۔ دونوں ایک جسم کی مانند ہیں۔کہ اگر ایک حصے میں درد ہو تو دوسرا حصہ بھی اُسے محسوس کرتا ہے۔

(۴) سعدی نے اس حدیث کو شعر کی صورت میں یوں بیان کیا ہے۔

بنی آدم اعضای یکدیگرند کہ در آفرینش زیک گوھرند

چو معنوی بہ درد آورد روزگار دگر عضوھا را نماند قرار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بحار ، ج۷۸، ص ۷۱ (۲)۔ میزان الحکمہ

(۳)۔ میزان الحکمہ (اخوة) (۵)۔ اصول کافی، ج۲، ص ۱۳۳

۱۰۳

تو کز محنت دیگران بی غمی نشاید کہ نامت نھند آدمی

ترجمہ: اولاد آدم ایک دوسرے کے دست و بازو ہیں کیونکہ سب خاک سے پیدا ہوئے ہیں اگر کسی پر مشکل وقت آجائے تو دوسروںکو بھی بے قرار رہنا چاہیے۔

اگر تم دوسروں کی پریشانی اور محنت سے بے اعتنائی کرو تو شاید تمہیں کوئی انسان بھی نہ کہے۔

برادری کے حقوق:

٭ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: مسلمان کے اپنے مسلمان بھائی کی گردن پر تیس حق ہیں اور اسے ان تمام حقوق کو ادا کرنا ہوگا۔(جن میں سے پچیس حقوق درج ذیل ہیں)

۱۔ عفو و درگزر ۲۔ راز داری

۳۔ خطاؤں کو نظر انداز کردینا ۵۔ عذر قبول کرنا

۵۔ بد اندیشوں سے اس کا دفاع کرنا ۵۔ خیر خواہی کرنا

۷۔ وعدہ کے مطابق عمل کرنا ۸۔ عیادت کرنا

۹۔ تشییع جنازہ میں شرکت کرنا ۱۰۔ دعوت اور تحفہ قبول کرنا

۱۱۔ اسکے تحفے کی جزا دینا ۱۲۔ اسکی عطا کردہ چیزوں پر شکریہ ادا کرنا

۱۳۔ اسکی مدد کے لیے کوشش کرنا ۱۵۔ اسکی عزت و ناموس کی حفاظت کرنا

۱۵۔ اسکی حاجت روائی کرنا ۱۶۔ اسکی مشکلات کو دور کرنے کے لیے سعی کرنا

۱۷۔ اسکی گمشدہ چیز کو تلاش کرنا ۱۸۔ اسے چھینک آئے تو اسکے لیے طلب رحمت

۱۰۴

کرنا

۱۹۔ اسکے سلام کا جواب دینا ۲۰۔ اسکی بات کا احترام کرنا

۲۱۔ اسکے لیے بہترین تحفہ کو پسند کرنا ۲۲۔ اس کی قسم کو قبول کرنا

۲۳۔ اسکے دوست کو دوست رکھنا اور اس سے دشمنی نہ رکھنا

۲۵۔ مشکلات میں اُسے تنہا نہ چھوڑنا

۲۵۔ جو اپنے لیے پسند کرے وہی اس کے لیے پسند کرے(۱)

ایک اور حدیث میں ہم پڑھتے ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس آیت(اِنّما المومنون اخوة) کی تلاوت کے بعد فرمایا مسلمانوں کا خون ایک ہے اگر عام لوگ بھی کوئی عہد و پیمان کریں تو سب کو اس کا پابند ہونا چاہیے۔ مثلاً اگر ایک عام مسلمان کسی کو پناہ یا امان

دے تو دوسرے کو بھی اس کا پابند ہونا چاہیے۔ سب مشترکہ دشمن کے مقابل اکھٹے ہوجائیں۔وَهُمْ یَد علی مَن سَواهم- (۲)

٭ حضرت علی ـ سے منقول ہے کہ آپ نے کمیل سے فرمایا: اے کمیل اگر تم اپنے بھائی کو دوست نہیں رکھتے تو پھر وہ تمہارا بھائی نہیں ہے۔(۳)

انسان اپنے ایمان کامل کے ساتھ اولیاء خدا کے مدار تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔

سلْمٰان مِنا اهل البیت (۴) سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے۔ جس طرح کفر کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بحار، ج۷۵، ص ۲۳۶ (۱)۔ تفسیر قمی، ج۱، ص ۷۳

(۳)۔ تحف العقول ص ۱۷۱ (۵)۔ بحارالانور، ج۱۰، ص ۲۳ا

۱۰۵

ہمراہ ہوکر اس مدار سے خارج ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرزند نوح ـکے بارے میں حضرت نوح ـ سے فرمایا:اِنّه لَیسَ مِنْ أهلَکَ- وہ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے۔(۱)

بہترین بھائی:

٭روایات میں بہترین بھائی کی یہ نشانیاں بیان کی ہیں۔

۱۔ تمہارا بہترین بھائی وہ ہے جو تمہارا غمخوار اور ہمدرد ہو یہاں تک کہ سختی سے تمہیں خدا کی اطاعت کی طرف دعوت دے۔ تمہاری مشکلوں کو حل کرے۔ خدا کی خاطر تیرا دوست بنا ہو۔ اسکا عمل تیرے لیے سرمشق ہو۔ اسکی گفتگو تیرے عمل میں اضافہ کا باعث ہو۔ تیری کوتاہیوں کو نظر انداز کرے۔ اور تجھے خواہشات نفس میں گرفتار ہونے سے بچائے۔ اور اگر تجھ میں کوئی

عیب دیکھے تو تجھے خبردار کرے۔ نماز کو اہمیت دے ۔ حیادار، امانت دار اور سچا ہو۔خوشحالی اور تنگ دستی میں تجھے نہ بھلائے۔(۲)

صلح و آشتی قرآن کی روشنی میں:

ہم نے اس آیت میں پڑھا ہے کہ مومنین آپس میں بھائی ہیں لہٰذا اُن میں صلح و

آشتی کو قائم کریں اسی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں صلح و آشتی کے بارے میں کچھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔سورئہ مبارکہ ہود، آیہ ۵۶

(۲)۔ میزان الحکمہ

۱۰۶

آشتی کو قائم کریں اسی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں صلح و آشتی کے بارے میں کچھ مطالب بیان کرتے ہیں۔

قرآن میں اسی سلسلہ میں مختلف تعابیر آئی ہیں:

۱۔صلح ''والصُّلح خَیر'' (۱) ''وأصلِحوا ذات بینکم'' (۲)

۲۔تالیف قلوب''فَألف بین قلوبکم'' (۳)

۳۔توفیق''اِن یُریدا اصلاحًا یُوَفِّق اللّٰه بینهُمٰا'' (۴)

۵۔ سِلم''أدخُلوا فِی السِّلم کافَّة'' (۵)

مندرجہ بالا تعبیر اس بات کی نشاندہی کررہی ہیں کہ اسلام صلح و آشتی ، پیار ومحبت اور خوشگوار زندگی کو بہت اہمیت دیتا ہے۔

صلح آشتی کی اہمیت:

٭مسلمانوں کی درمیان الفت اور محبت کو خداوند عالم کی نعمتوں میں شمار کیا ہے۔''کنتم أعدا فَاَلَّفَ بین قلوبکم'' (۶) یاد کرو اس وقت کوکہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر خدا نے تمہارے درمیان پیار و محبت کو قائم کردیا۔ جیسا کہ قبیلہ اوس و خزرج کے درمیان ایک سو بیس سال سے جنگ و خونریزی چل رہی تھی اسلام نے ان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت ۱۲۸ (۲)۔سورئہ مبارکہ انفال، آیت ۱

(۳)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت ۱۰۳ (۵)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت ۳۵

(۵)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت ۲۰۸ (۶)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت ۱۰۳

۱۰۷

کے درمیان صلح کرادی۔

صلح وآشتی کرانا عزت و آبرو کی زکات اور خدا کی طرف سے رحمت اور بخش کا سبب ہے۔''ان تُصلحوا و تتّقوا فانَّ اللّٰه کان غفوراً رحیمًا'' (۱) جو بھی مسلمانوں کے درمیان صلح و دوستی کا سبب بنے تو اُسے جزائے خیر ملے گی۔

''وَمَن یَشفَع شَفَاعةً حَسنةً یکن لَه نصیب منها'' (۲)

٭ لوگوں کے درمیان صلح و آشتی کرانے کے لیے اسلام کے خاص احکامات ہیں من جملہ۔

۱۔جھوٹ جو گناہان کبیرہ میں سے ہے اگر صلح و آشتی کرانے کے لیے بولا جائے تو اسکا کوئی گناہ نہیں ہے۔'' لَا کِذْبَ علی المُصْلح'' (۳)

۲۔ سرگوشی ایک شیطانی عمل ہے جو دیکھنے والوں میں شک و شبہ پیدا کرتا ہے جسکی نہی کی گئی ہے لیکن اگر یہ سرگوشی صلح و آشتی کرانے کے لیے ہو تو کوئی گناہ نہیں ہے۔''لَا خَیرَ فی کثیر من نجواهم اِلّا مَنْ أمَرَ بِصدقةٍ أو معروفٍ او اصلاح بین الناس'' (۴)

۳۔ اگرچہ قسم کو پورا کرنا واجب ہے لیکن اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ وہ مسلمانوں کے درمیان صلح و آشتی کرانے کے سلسلے میں کوئی قدم نہ اٹھائے گا تو اس قسم کو توڑا جاسکتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت ۱۲۹ (۲)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت ۸۵

(۳)۔بحارا الانوار،ج۶۹، ص ۲۵۲ (۵)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت ۱۱۵

۱۰۸

ہے۔''وَلا تجعلو اللّٰه عرضَة لایمانکم ان --- تصلحوا بین الناس'' (۱)

ہم تفاسیر کی کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک صحابی کی بیٹی اور ان کے داماد میں اختلاف ہوگیا۔ لڑکی کے والد نے یہ قسم کھائی کہ وہ ان کے معاملے میں دخالت نہ کریگا۔ یہ آیت نازل ہوئی کہ قسم کو نیکی و پرہیز گاری اور اصلاح کے ترک کا وسیلہ قرار مت دو۔

۵۔ اگرچہ وصیت پر عمل کرنا واجب اور اس کا ترک کرنا حرام ہے لیکن اگر وصیت پر عمل کرنا لوگوں کے درمیان کینہ اور کدورت کی زیادتی کا سبب ہو تو اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ وصیت پر عمل نہ کیا جائے تاکہ لوگوں کے درمیان پیار ومحبت اور بھائی چارہ کی فضا قائم رہے۔''فَمن خَافَ مِن مُوصٍ و جُنفًا أو اِثمًا فاصلح بینهم فلا اثم علیه'' (۲)

۵۔ اگرچہ مسلمان کا خون محترم ہے لیکن اگر بعض افراد فتنہ، فساد کا باعث بنیں تو اسلام نے صلح و آشتی کے لیے انکے قتل کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔'' فقاتلو الّتی تبغی'' (۳)

صلح و آشتی کے موانع:

قرآن و احادیث میں صلح و آشتی کے بہت سے موانع ذکر کیے گئے ہیں من جملہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت ۲۲۵

(۲)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت ۱۸۲ (۳)۔سورئہ مبارکہ حجرات، آیت ۹

۱۰۹

۱۔ شیطان: قرآن میں ارشاد ہوتا ہے۔ادخلوا فی السّلم کافّة ولا تتّبعوا خطوات الشیطان'' (۱) سب آپس میں پیار و محبت کے ساتھ رہو اور شیطان کی پیروی نہ کرو۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔انّما یُرید الشیطان أنْ یوقع بینکم العداوة والبغضائ'' (۲) شیطان تمہارے درمیان کینہ و کدورت پیدا کرنا چاہتا ہے۔

۲۔ مال کی چاہت اور بخل۔'' والصلح خیر و اُحضِرتِ الاَنفس الشُح'' (۳) اور صلح و دوستی بہتر ہے اگرچہ لوگ حرص و لالچ اور بخل کرتے ہیں۔

۳۔ غرور و تکبر بھی کبھی کبھی صلح و آشتی کے لیے مانع ہے۔

قرآن میں نزول رحمت کے چند عوامل:

٭ اگر قرآن مجید کے''لعلکم ترحمون'' کے جملوں پر نظر کریں تو نزول رحمت کے چند عوامل تک رسائی ممکن ہے۔

۱۔ خدا، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آسمانی کتب کی پیروی''واطیعو اللّٰه والرسول--- '' (۴) ''وهذا کتاب --- فاتبعوه--- لعلکم ترحمون'' (۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت ۲۰۸ (۲)۔ سورئہ مبارکہ مائدہ، آیت ۹۱

(۳)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت ۱۲۸ (۵)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت ۱۳۲

(۵)۔سورئہ مبارکہ انعام، آیت ۱۵۵

۱۱۰

۲۔ نماز کا قائم کرنا اور زکات کا ادا کرنا۔''اقیموا الصلوٰة واتو الزکاة--- لعلکم ترحمون'' (۱)

۳۔ مسلمانوں کے درمیان صلح و آشتی کرانا۔''فاصلحوا--- لعلکم ترحمون''

۵۔ استغفار اور توبہ۔''لولا تستغفرون اللّٰه لعلکم ترحمون'' (۲)

۵۔ غور سے قرآن کی تلاوت سننا''واذ اقرأ القرآن فاستمعوا له --- لعلکم ترحمون'' (۳)

روایات میں نزول رحمت کے عوامل:

٭ معصومین کی روایات میں بھی نزول رحمت کے عوامل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں سے چند ایک یہ ہیں:

۱۔ بیمار مومن کی عیادت کرنا:''مَن عَادَ مومِنًا خاض- الرَّحمة خوضًا'' (۴)

جو شخص بیمار مومن کی عیادت کے لیے جائے تو وہ شخص خدا کی مکمل رحمت کے زیر سایہ ہے۔

۲۔ کمزور اور ناتوان افراد کی مدد کرنا۔''اِرحموا ضُعفائکم واطلبوا الرحمة- ---،، (۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ نور، آیت ۵۶ (۲)۔ سورئہ مبارکہ نمل، آیت ۵۶

(۳)۔ سورئہ مبارکہ اعراف، آیت ۲۰۵ (۵)۔ وسائل الشیعہ، ج۲، ص ۵۱۵ (۵)۔ مستدرک، ج۹، ص ۵۵

۱۱۱

معاشی حوالے سے کمزور افراد پر رحم کرکے خدا کی رحمت کو طلب کرو۔

۳۔ روایات میں کثیر العیال افراد کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کو کہا گیا ہے خاص طور پر جن کی بیٹیاں زیادہ ہوں۔

۵۔ دعاو نماز، نرمی سے پیش آنا اور اپنے برادر دینی سے مصافحہ اور معانقہ کرنا بھی نزول رحمت کے اسباب ہیں۔(۱)

۵۔ لوگوں کی پریشانیوں کو دور کرنا۔ وہ افراد جو اپنی پریشانیوں کے حل کے لیے تمہارے پاس آئیں خدا کی رحمت میں انکی حاجت روائی کیے بغیر واپس نہ پلٹانا۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ وسائل الشیعہ، ج۷، ص ۳۱

(۲)۔کافی، ج۲، ص ۲۰۶

۱۱۲

آیت نمبر ۱۱

یٰأَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لَا یَسْخَرُ قَوْم مِّنْ قَوْمٍ عَسٰی أَنْ یّکُوْنوا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَآئ مِّنْ نِسَآئٍ عَسٰی أنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّج وَلَا تَلْمِزُوْآ أَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزوا بِالْأَلْقٰابِط بِئسَ الاِسْمُ الفُسُوقُ بَعْدَ الاِیْمٰانِج وَمَنْ لَّم یَتُبْ فَأُولٰئِکَ هُمُ الظّٰلِمُونَ-

ترجمہ:

اے ایمان والو! خبر دار کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اُڑائے کہ شاید کہ وہ اس سے بہتر ہو اور عورتوں کی بھی کوئی جماعت دوسری جماعت کا مسخرہ نہ کرے کہ شاید وہی عورتیں ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو طعنے بھی نہ دینا اور برے برے الفاظ سے بھی یاد نہ کرنا کہ ایمان کے بعد بدکاری کا نام ہی بہت برا ہے اور جو شخص بھی توبہ نہ کرے تو سمجھو کہ یہی لوگ درحقیقت ظالمین ہیں۔

نکات:

O کلمہ''لَمْز'' یعنی لوگوںکے سامنے ان کی عیب جوئی کرنا ، کلمہ''همز'' کے معنی پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنا ہے(۱) اور کلمہ''تَنَابز'' کے معنی دوسروں کو برے القاب سے پکارنا ہے۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ کتاب العین (۲)۔ لسان العرب

۱۱۳

O گزشتہ آیت میں اخوت و بردری کے بارے میں بحث ہوئی اور اس آیت میں ان چیزوں کا ذکر ہے جو اخوت و برادری کے راستہ میں رکاوٹ ہیں اور اسی طرح ماقبل کی آیات میں لڑائی جھگڑے اور صلح و صفا کی بات تھی تو اس آیت میں بعض ایسے عوامل کا ذکر ہے جو لڑائی جھگڑے کاسبب بنتے ہیں جیسے مذاق اڑانا ، تحقیر کرنا اور برے القاب سے پکارناہے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی برکات میں سے ایک معاشرہ کے ماحول کو پاک و پاکیزہ بنانا اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانے نیز ایک دوسرے کو برے ناموں سے پکارنے سے روکنا ہے۔

پیغامات:

۱۔ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو اُسے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ بندگان خدا کا مذاق اڑائے ۔''یٰاایُّهٰا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لَا یَسْخَرُ''

۲۔ جو شخص کسی کو لوگوں کی توہین کرنے سے روکنا چاہتا ہے تو اس کے روکنے میں توہین آمیز پہلو نہ ہو۔''یٰا ایُّهٰا الذّین امَنُولَا یَسْخَرُ قَوْم مِنْ قَوْمٍ '' یہی نہیں فرمایا:لَا تَسْخَروا کہ جس کے معنی یہ ہیں کہ تم مذاق اڑانے والے ہو۔

۳۔ مذاق اڑانا، فتنہ و فساد، کینہ پروری اور دشمنی کی کنجی ہے''لا یَسْخَر قَوْم---'' برادری اور صلح و آشتی بیان کرنے کے بعد مذاق اڑانے سے منع کیا ہے۔

۵۔ تبلیغ کا طریقہ کار یہ ہے کہ جہاں اہم مسئلہ بیان کرنا ہو یا مخاطبین میں ہر نوع کے افراد موجود ہوں تو وہاں مطالب کو ہر گروہ کے لیے تکرار کے ساتھ بیان کرنا

۱۱۴

چاہیے۔قومٍ من قومٍ وَلَا نِسَاء مِنْ نِسَآئٍ-

۵۔ تربیت اور وعظ و نصیحت کے دوران لوگوں میں سے فتنہ و فساد کی جڑ کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے- (عسیٰ اَنْ یکونوا خیرا ) مذاق اڑانے کی اصل وجہ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھناہے۔ قرآن مجید اس معاملے کو جڑ سے ختم کرنا چاہتا ہے اس لیے فرماتا ہے: تمہیں اپنے آپ کو دوسروں سے برتر نہیں سمجھنا چاہیئے شاید کہ وہ تم سے برتر ہوں۔

۶۔ ہم لوگوں کے باطن سے بے خبر ہیں اس لیے ہمیں ظاہر بین، سطحی نظر اور فقط موجودہ حالات پر نگا نہیں کرنی چاہیے۔(عسیٰ أَنْ یَکُونوا خَیْرًا---)

۷۔ سب لوگ ایک جوہر سے ہیں اس لیے لوگوں کی برائی کرنا دراصل اپنی برائی کرنا ہے ۔''وَلَا تَلْمِزُو أَنْفُسکُم''

۸۔ دوسروں کی عیب جوئی کرکے انہیں انتقام جوئی پر ابھارنا ہے تاکہ وہ بھی تمہارے عیب بیان کریںپس دوسروں کے عیب نقل کرنا در حقیقت اپنے عیوب کا انکشاف کرنا ہے( لَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَکُم)

۹۔ مذاق اڑانا یک طرفہ نہیں ہوتا ہے ممکن ہے کہ طرف مقابل بھی دیر یا جلد آپ کا مذاق اڑانا شروع کردے۔(و لَا تَنَابَزُوا کسی کام کے دو طرفہ انجام پانے کے لیے استعمال ہوتا ہے)

۱۰۔ اگر کسی کا مذاق اڑایا ہو یا اُسے برے نام سے پکارا ہو تو اس کے لیے توجہ کرنا ضروری ہے(من لم یَتُبْ فَأُولٰئِکَ هُمُ الظَّالِمُونَ ) البتہ یہ توبہ فقط زبانی نہ ہو

۱۱۵

بلکہ کسی کو تحقیر کرنے کی توبہ یہ ہے کہ جس کی تحقیر کے ہے اس کی تکریم کرنا ہوگی کسی حق کے چھپانے کی توبہ یہ ہوگی کے اُس حق کو ظاہر کیا جائے(تابو و اصلحوا و بیّنوا) (۱) فساد کرنے والے کی توبہ یہ ہے کہ وہ اپنے امور میں اصلاح کرے(تَابُوا واصلحوا )

۱۱۔ کسی کا مذاق اڑانا در حقیقت اس کے احترام پر تجاوز کرنا ہے اگر مذاق اڑانے والا توبہ نہ کرے تو وہ ظالم ہے(فَأُولٰئِکَ هُم الظَّالِمُونَ)

دوسروں کا مذاق اڑانا اور استہزاء کرنا:

O ظاہری طور پر استہزاء ایک گناہ دکھائی دیتا ہے لیکن درحقیقت وہ چند گناہوں کا مجموعہ ہے مثال کے طور پر مذاق اڑانے میں، تحقیر کرنا، ذلیل و خوار کرنا، کسی کے عیوب ظاہر کرنا، اختلاف ایجاد کرنا، غیبت کرنا، کینہ توزی، فتنہ و فساد پھیلانا، انتقام جوئی کی طرف مائل کرنا، اور طعنہ زنی جیسے گناہ پوشیدہ ہیں۔

مذاق اڑانے کی وجوہات:

۱۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ مال و دولت ہے قرآن مجید میں ہے''ویل لِکُلِّ هُمَزَة لُّمَزَةٍ ن الَّذِیْ جَمَعَ مٰالاً وَّعَدَّده '' (۲) وائے ہو اس پر جو اُس مال و دولت کی خا طر جو اس نے جمع کر رکھی ہے پیٹھ پیچھے انسان کی برائی کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ ۱۶۰

(۲)۔ سورئہ مبارکہ ھمزہ ۱۔۲

۱۱۶

۲۔ کبھی استہزاء اور تمسخر کی وجہ علم اور مختلف ڈگریاں ہوتی ہیں قرآن مجید نے اس گروہ کے بارے میں فرمایا:'' فَرِحُوا بِمَا عِنْدَ هُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَ حَاقَ بِهِمْ مَا کَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِؤُونَ '' (۱) اپنے علم کی بناء پر ناز کرنے لگے ہیں اور جس چیز کی وجہ سے وہ مذاق اڑا رہے تھے اُسی نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا۔

۳۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ جسمانی قوت و توانائی ہوتی ہے ۔ کفار کا کہنا تھا( مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةَ) (۲) کون ہے جو ہم سے زیادہ قوی ہے۔

۵۔ کبھی دوسروں کا مذاق اڑانے کی وجہ وہ القاب اور عناوین ہوتے ہیں جنہیں معاشرہ میں اچھا نہیں سمجھتا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کفار ان غریب لوگوں کو جو انبیاء کا ساتھ دیتے تھے حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے اور کہتے تھے:''مَا نَراکَ اتَّبَعکَ اِلّا الَّذِیْنَ هُمْ اَرذِلْنَا'' (۳)

ہم آپ کے پیرو کاروں میں صرف پست اور ذلیل افراد ہی دیکھ رہے ہیں۔

۵۔ کبھی مذاق اڑانے کی علت تفریح ہوتی ہے۔

۶۔ کبھی مال و مقام کی حرص و لالچ کی وجہ سے تنقید تمسخر کی صورت اختیار کرلیتی ہے مثال کے طور پر ایک گروہ زکوٰة کی تقسیم بندی پر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عیب جوئی کرتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ غافر ۸۳

(۲)۔ سورئہ مبارکہ فصلت ۱۵

(۳)۔ سورئہ مبارکہ ھود ۲۷

۱۱۷

قرآن مجید میں ارشاد ہوا:''وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَلْمِزْکَ فِی الصَّدَقاتِ فَاِنْ أُعْطُوا مِنْهٰا رَضُوا وَ اِنْ لَمْ یُعْطَوْا مِنْهٰا اِذَا هُمْ یَسْخَطُونَ'' (۱) اس تنقید کی وجہ طمع اور لالچ ہے کہ اگر اسی زکوٰة میں سے تم خود ان کو دیدو تو یہ تم سے راضی ہوجائیں گے لیکن اگر انہیں نہیں دو گے تو وہ آپ سے ناراض ہوکر عیب جوئی کریں گے۔

۷۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ جہل و نادانی ہے۔ جیسے جناب موسی ـ نے جب گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو بنی اسرائیل کہنے لگے کیا تم مذاق اڑا رہے ہو؟ جناب موسی ـنے فرمایا:''أَعُوذُ بِاللّٰهِ أَنْ أَکُونَ مِنَ الجٰاهِلِیْنَ'' (۲) خدا کی پناہ جو میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں۔یعنی مذاق اڑانے کی وجہ جہالت ہوتی ہے اور میں جاہل نہیں ہوں۔

نا چاہتے ہوئے تحقیر کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے ایک صحابی سے پوچھا اپنے مال کی زکوٰة کیسے دیتے ہو؟ اس نے کہا: فقراء میرے پاس آتے ہیں اور میں انہیں دے دیتا ہوں۔

امام ـ نے فرمایا: آگاہ ہوجاؤتم نے انہیں ذلیل کیا ہے آئندہ ایسانہ کرنا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جو بھی میرے دوست کو ذلیل کرے گا گویا وہ مجھ سے جنگ کے لیے آمادہ ہے۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ توبہ ۵۸

(۲)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ ۶۷

(۳)۔مستدرک الوسائل ج/۹، ص ۱۰۵

۱۱۸

تمسخر اور مذاق اُڑانے کے مراتب:

O جس کا مذاق اڑایا جارہا ہو وہ جس قدر مقدس ہوگا اس سے مذاق بھی اتنا ہی خطرناک ترہوگا قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے''أ باللّٰه و آیاتِه وَ رَسُولِهِ کنتم تَسْتَهْزِؤُنَ'' (۱)

کیا تم اللہ، قرآن اور رسول کا مذاق اڑا رہے ہو۔

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر سب مشرکین کو معاف کردیا سوائے ان لوگوں کے جن کا کام عیب جوئی اور مذاق اڑانا تھا۔

O حدیث میں ہے کہ مومن کو ذلیل کرنا خدا کے ساتھ اعلان جنگ کے مترادف ہے۔(۲)

مذاق اڑانے کا انجام:

O آیات و روایات کی روشنی میں بری عاقبت مذاق اڑانے والوں کا انتظار کررہی ہے من جملہ:

الف: سورئہ مطففین میں ہے کہ جو لوگ دنیا میں مومنین پر ہنستے تھے، انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے روز قیامت اہل جنت انہیں

حقارت کی نگاہ سے دیکھیں گے اور ان پر ہنسیں گے۔''فَالْیَوْمَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا مِنَ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ توبہ ۶۵ (۲)۔ وسائل الشیعہ ج/ ۱۲،ص۲۷۰

۱۱۹

الکُفَّارِ یَضْحَکُونَ'' (۱)

ب: کبھی کبھی اڑانے والوں کو اسی دنیا میں سزا مل جاتی ہے۔'' اِنْ تسخَرُوا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرو مِنکُمْ کما تَسْخَرُونَ'' (۲)

ج: قیامت کا دن مذاق اڑانے والوں کے لیے حیرت کا دن ہوگا''یَا حَسْرَةً عَلٰی العِبٰادَ مَا یَا تِیْهِمْ مِّنْ رَّسُولٍ اِلَّا کَانُوا بِه یَسْتَهْزَئُ ونَ'' (۳)

د: حدیث میں ہے کہ مذاق اڑانے والے کی جان کنی نہایت سخت ہوگی۔''مَاتَ بِشَرّ مَیْتَه'' (۴)

ھ: حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: اگر کوئی شخص مومنین پر طعنہ زنی کرتا ہے یا انکی بات کو رد کرتا ہے تو گویا اس نے خدا کو رد کیا ہے۔(۵)

یاد داشت:

Oرسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جہاں اور بہت سے کام انجام دیئے وہاں ایک کام یہ کیا کہ لوگوں اور علاقوں کے وہ نام تبدیل کردیئے جو برے مفاہیم رکھتے تھے(۶) کیوں کہ برے نام لوگوں کی تحقیر اور تمسخر کا باعث بنتے تھے۔

Oایک روز جناب عقیل ـمعاویہ کے پاس گئے تو معاویہ نے آپ کی تحقیر کی غرض

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ مطففین ۳۵ (۲)۔ سورئہ مبارکہ ہود ۳۸

(۳)۔ سورئہ مبارکہ یس ۳۰ (۵)۔ بحار الانوار ج۷۲ ص ۱۵۵

(۵)۔ وسائل الشیعہ ج۱۳، ص ۲۷۰ (۶)۔ اسد الغابہ ج۳، ص ۷۶، ج۵ ص۳۶۲

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160