آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)37%

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات) مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 160

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 160 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130073 / ڈاؤنلوڈ: 5442
سائز سائز سائز
آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

6:۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب متوکل ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ(ص) ہمیشہ ذات خداوند پر اعتماد رکھتے ہیں اور اپنی ذات پر نہیں بلکہ خدا پر اعتماد کرتے ہیں۔ آپ(ص) کی دعاؤں میں سے ایک یہ ہے۔

“ اللهم لا تکلنی الی نفسی طرفت عين ابدا”

“ خداوند پلک جھپکنے کے برابر وقت کے لیے بھی مجھے میرے اپنے حوالے نہ کر۔”

کہتے ہیں کہ ایک دشمن نے ایک جنگ کے دوران آپ(ص) کو اکیلا پایا اور اپنی تلوار سونپ کر آگے بڑھا اور کہا اے محمد(ص9 بتاؤ اب تجھے میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟ آپ(ص) نے کمال اطمینان کے ساتھ جواب دیا میرا خدا۔ آپ(ص) کا یہ کہنا تھا کہ اس دشمن کے بدن پر لرزہ طاری ہوا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑی آپ(ص) نے بڑھ کر تلوار اٹھائی اور فرمایا مجھے تو میرے پروردگار نے بچایا اب تم بتاؤ تمہیں کون بچائے گا؟ اس نے جواب دیا آپ (ص) کی مہربانی اور رحمدلی۔ یہ سن کر آپ(ص) نے اسے معاف فرمایا ۔

آپ(ص) اکثر اوقات ایسے اہم امور انجام دیتے تھے کہ عمومی سوچ اور نظریئے کے مطابق ان امور میں کامیابی کم نظر آتی تھی مگر آپ(ص) سوائے خدا کے کسی پر اعتماد نہ کرتے تھے آپ(ص) خدا پر توکل کرتے تھے خوف خدا رکھتے تھے اس لیے سب کچھ رکھتے تھے۔

پیغمبر اکرم(ص) خدا پر اعتماد رکھتے تھے نہ کہ دنیا پر بلکہ آپ(ص) دنیا کو ایک کھوکھلی شے سمجھتے تھے آپ(ص) سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا ۔ “ دنیا درخت کے سائے کی مانند ہے جس کے نیچے ایک مسافر تھوڑی دیر کے لیے آرام کرتا ہے۔”

خلاصہ یہ کہ آپ(ص) توکل کے تمام معانی کے حامل تھے اپنے آپ پر نہیں بلکہ خدا پر توکل کرتے تھے آپ(ص) کو دوسروں پر نہیں بلکہ اپنے خدا پر اعتماد تھا۔

۲۱

7:۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب امین ہے یہ لقب آپ(ص) کو قبائل عرب نے آپ(ص) کی بعثت سے بہت پہلے دیا تھا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حضور اکرم(ص) اپنی بعثت سے پہلے ہی فوق العادت صفات کے حامل تھے آپ(ص) کی پاکدامنی ، سچائی، کمزوری کی دستگیری، اچھے آداب و رسوم کا لحاظ، معاشرتی اچھائیوں کا خیال خصوصا صفائی پاکیزگی اور امانت داری عربوں کے درمیان مشہور تھی۔

حضرت ابو طالب(ع) فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی آںحضور(ص) کو برہنہ نہیں دیکھا بلکہ یہاں تک کہ آپ(ص) کو رفع حاجت کے وقت کسی نے بھی نہیں دیکھا۔ جس دن آپ(ص) کو اسلامی کی کھلم کھلا تبلیغ کا حکم ملا تو آپ(ص) نے قریش کے بزرگوں کو جمع کیا تاکہ انہیں اسلام کی دعوت دین سب سے پہلے آپ(ص) نے ان سے جو بات پوچھی یہ تھی کہ میں تمہارے درمیان کس قسم کا فرد ہوں سب نے یک زبان ہو کر کہا ہم نے آپ(ص) کو صادق اور امین مانتے ہیں اور جانتے ہیں۔

عبداﷲ بن جزعان ایک کمزور بوڑھا تھا اور اپنا گھر بنانے لگا تو حضور اکرم(ص) جن کی عمر اس وقت سات سال کی تھی بچوں کو لیکر آتے اور اس کے مکان بنانے میں مدد دیتے تھے۔ یہاں تک کہ اس کا گھر تیار ہوا تو اس کا نام “ دار النصرہ” پڑگیا اور کمزوروں کی مدد کے لیے مرکز قرار دیا گیا۔

آپ(ص) ہر وقت ادب کے ساتھ چلتے۔ ادب کے ساتھ بیٹھتے اور گفتگو بھی اسی انداز میں کرتے تھے۔ آپ(ص) ہر وقت متبسم رہتے تھے جس کی وجہ سے آپ(ص) کو “ ضحوک ” کہا جاتا تھا آپ(ص) کا کلام فصیح اور شیرین ہوتا تھا۔ کبھی کسی کا دل نہیں دکھاتے تھے جہاں تک ہوسکے دوسروں کے ساتھ لطف و مہربانی سے پیش آتے تھے۔ یہ تمام چیزیں مسلم تاریخی ثبوت ہیں۔

8:۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب “ عبداﷲ” ہے یہ لقب بھی قرآن مجید سے

۲۲

 ثابت ہے ارشاد ہوا  

“سُبْحانَ الَّذي أَسْرى‏ بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذي بارَكْنا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آياتِنا إِنَّهُ هُوَ السَّميعُ الْبَصيرُ”( سورہ بنی اسرائیل آیت 1)

“ پاک ومنزہ ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے وقت سیر کرائی مسجد الحرام سے لیکر مسجد اقصی تک جس کے ارد گرد کوہم نے با برکت قرار دیا ہے تاکہ اپنی آیات اسے دکھائیں بے شک وہ سننے والا اور با بصیرت ہے۔”

یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ(ص) کا یہ لقب آپ(ص) کے تمام القاب سے بہترین لقب ہے اس وجہ سے تو تشہد میں رسالت کے ذکر سے پہلے عبدیت کا ذکر ہوا ہے بندگی کے اپنے مراتب ہیں اس کے تمام مراتب میں سے بلند مرتبہ لقائ اﷲ کا ہے جس کے بارے میں قرآن نے باربار تذکرہ کیا ہے یہ بہت بلند مرتبہ ہے ایک ایسا مرتبہ جہاں پہنچ کر انسان سوائے ذات الہی کے اور کہیں دل نہیں لگاتا اس منزل میں اﷲ کے علاوہ اور کسی سے کوئی ربط نہیں رکھتا ہے۔

“رِجالٌ لا تُلْهيهِمْ تِجارَةٌ وَ لا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ ”

“ یعنی : ان کی  تجارت اور ان کی خرید و فروخت انہیں یاد خدا سے غافل نہیں کرتی۔”

ایک ایسا مرتبہ ہے جہاں انسان کا دل خدا کی محبت سے پر ہوتا ہے اس منزل میں انسان کے لیے کوئی غم و فکر نہیں۔ اس کا دل اطمینان سکون اور وقار سے پر ہوتا ہے۔

“ أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ”

“ یعنی : دل اﷲ کے ذکر سے سکون حاصل کرتے ہیں۔” ان میں تڑپ خوف اور اضطراب نہیں ہوتا ہے۔

“أَلا إِنَّ أَوْلِياءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ ”( سورہ یونس آیت 62   )

“ لوگو! خبردار رہو اﷲ کے دوستوں کے لیے کوئی خوف و غم نہیں۔”

 اور حضور اکرم(ص) عبدیت کے انتہائی اعلیٰ مرتبے کے حامل تھے۔

۲۳

آپ(ص) گناہوں سے پاک تھے اور دوسروں کے گناہوں کو دیکھ کر غمگین ہوتے تھے۔ عبادت میں لذت پاتے تھے۔ اس قدر عبادت کرتے تھے کہ پائے مبارک سوج گئے تو خداوند عالم کی طرف سے سورہ طہ نازل ہوئی اور عبادت کی زیادہ مشقت اٹھانے سے منع کیا گیا۔

9:۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب مصفطیٰ(ص) ہے آپ(ص) کا یہ لقب امت اسلامی کے لیے ایک عظیم فخر کا باعث ہے اور بہت بڑا اعزاز ہے کیونکہ مصطفیٰ کے معنی برگزیدہ کے ہیں اور خداوند عالم نے حضور اکرم(ص) کو تمام مخلوقات میں سے چنا ہے کیونکہ جہاں مہربانی  و رحمدلی کا موقع ہے آپ(ص) ایسے رحمدل اور مہربان ہیں کہ کوئی مثل نہیں۔ جس وقت حاتم طائی کی بیٹی مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوئی اور مدینہ پہنچی اور مسلمان ہوئی تو حضور اکرم(ص) نے امین لوگوں کے ہمراہ اسے اپنے بھائی عدی کے پاس بھیجا۔ عدی  نے اپنی بہن کی زبانی حضور اکرم(ص) کے بارے میں سن کر ارداہ کیا کہ آپ(ص) کی خدمت میں پہنچے اور اسلام کو قریب سے دیکھ سکے۔ تاکہ بصیرت و معرفت کے ساتھ مسلمان ہوجائے۔ وہ کہتا ہے کہ ایک دفعہ ہم حضور اکرم(ص) کے ساتھ چل رہے تھے کہ ایک بڑھیا نے آںحضرت(ص) کا راستہ روک لیا اور باتیں کرنے لگیں۔ حضور اکرم(ص) رک گئے اور کمال مہربانی کےساتھ اس کی باتیں سننے لگے اس عورت نے بہت زیادہ وقت لیا۔ مگر حضور اکرم(ص) نے اس کی بات نہیں کاٹی ۔ عدی کہتا ہے کہ آپ(ص) کی پیغامبری کی ایک دلیل تو میرے لیے ہی روشن ہوگئی۔ جب ہم آپ(ص) کےساتھ گھر پر پہنچے تو کسی قسم کی بکلفات موجود میں تھے۔گھر کا فرش گوسفند کے چمڑے کا تھا اور جو غذا کھانے کے لیے مہیا کی گئی وہ جو کی روٹی اور نمک تھی۔ یہ میرے لیے آپ(ص) کی نبوت کی دوسری دلیل بن گئی۔

جو شخص اقتدار رکھتا ہو، دولت رکھتا ہو، حیثیت رکھتا ہو، پیرو کاروں کی ایک

۲۴

 کثیر تعداد رکھتا ہو اور اس کے گھر کی حالت یوں ہو اور لوگوں کے ساتھ اس قدر انکساری برتا ہو تو وہ پیغمبر ہی ہوسکتا ہے۔ آخر کار آپ(ص) سے ایک معجزانہ کام دیکھ کر میں نے اسلام قبول کیا۔ آںحضرت(ص) نے مجھ سے فرمایا تمھارے دین اور عقیدے کے مطابق ٹیکس لینا حرام ہے پھر تم کیوں کر ٹیکس لیتے ہو۔ یہ سن کر مجھے آپ(ص) کی نبوت کا یقین ہوگیا۔ آپ(ص) اتنے نرم دل تھے کہ جب کسی بچے کو روتا سنتے تو فورا نماز ختم کر کے اسے اٹھالیتے اور جب کسی بچی کو دیکھتے کہ پیسے گم کردئیے ہیں تو اسے پیسے بھی دیتے اور اس کی سفارش کرنے اس کے مالک کے گھر تک جاتے۔

لیکن جب اسلام کی بات آتی ہے اور دیکھتے ہیں کہ یہودی سازش کررہے ہیں، عہد شکنی پر تلے ہیں اور جاسوسی کررہے ہیں تو یقین ہوا کہ ان کا وجود اسلام کی ترقی کے لیے مانع ہے تو ان میں سے سات سو کے قتل کا حکم دیتے ہیں۔ یہ ایسا انسان ہے جو مختلف ابعاد کا جامع ہے۔ عام دستور یہ ہے کہ اگر ایک انسان زہد و ریا اور اصطلاح فلسفی کے مطابق “ بلی الرجی” کی راہ اختیار کرچکا ہو۔ اس کے تعلقات لوگوں کے ساتھ بہتر نہیں رہ سکتے اور وہ نہ تو معاشرے میں اپنا مقام بنا سکتا ہے اور نہ تو دلوں پر حکومت کرسکتا ہے۔ یعنی مخلوق کے ساتھ اس کے روابط مضبوط نہیں ہوسکتے ہیں۔ پیغمبر اکرم(ص) کی ریاضت و مشقت کا پہلو بہت ہی مضبوط تھا یہ تو سب کو معلوم ہے کہ بعثت سے قبل آپ(ص) غار حرا میں عبادت میں مشغول رہتے تھے اور آپ(ص) عبدیت کی انتہائی بلندی پر فائز تھے لیکن اس کے ساتھ مخلوق کے ساتھ تعلقات کے پہلو میں بھی بہت آگے تھے یہاں تک کہ قرآن کریم نے فرمایا :

“فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَليظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ”( آلعمران : 159)

   “ خداوند عالم کی طرف سے شامل حال رحمت کی بناء پر تم لوگوں کے ساتھ مدارات کرتے ہو اور نرمی سے پیش آتے ہو اگر تمہاری باتین اور کردار سخت اور

۲۵

 درشت ہوتا تو لوگ تمہارے پاس سے متفرق ہوجاتے ہی۔”

اے محمد(ص) آپ(ص) خوش گفتار ، خوش کردار ہیں اپنے سلوک اور زبان سے لوگوں کو اپنے سے دور نہیں کرتے بلکہ اپنے عمل اور زبان سے اپنے گرد لوگوں کو جمع کرتے ہیں دل کے بڑے نرم ہو سخت دل نہیں ہو ۔ یعنی رسول اکرم(ص) کا صحیح اتباع یہ ہے کہ ان دونوں پہلوؤں پر انسان خاص مقام حاصل کرے۔

مختصر یہ کہ حضور اکرم(ص) تمام صفات کمالیہ کے حامل تھے باوجود اس کے بہت سی صفات کمالیہ یکجا کرنا آسان نہیں۔ عالم تھے ، عارف تھے، عاشق تھے، دشمنوں پر سخت تھے، دوستوں پر مہربان تھے، بہادر تھے، ہمیشہ مسکراتے  رہتے تھے، عاقل تھے، آخرت کو ترجیح زیادہ دیتے تھے دنیا کو بھی جانتے تھے ، زاہد تھے، ثابت قدم تھے اور فعال تھے۔

اگر چہ حضور اکرم(ص) کے بے شمار القاب ہیں مگر ہم اختصار کے پیش نظر اسی پر اکتفا کرتے ہیں اس طرح آپ(ص) کی صفات کمالیہ بھی بہت زیادہ ہیں۔

                     بلغ العلی بکماله کشف الدجی بجماله

                     حسنت جميع خصاله صلو عليه و آله

آپ(ص) کے کمال کا پہلو اس حد تک پہنچا کہ آپ کے جمال کی برکتوں سے ساری تاریکیاں دور ہوگئیں ۔ آپ(ص) کے تمام خصائل نیک ہیں۔ بحث کےآخر میں آپ(ص) کے خاتم النبیین (ص) ہونے کے بارے میں مختصر گفتگو کریں گے۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب خاتم النبیین ہے لفظ خاتم  کے “ ت” پر زبر پڑھیں یا زیر دونوں صورتوں میں معنی پر کوئی حرف نہیں آتا ۔ دونون میں اختتام کے معنی موجود ہیں عربی میں خاتم “ت” پر زبر کےساتھ انگوٹھی کو کہا جاتا ہے جس سے مہر لگایا جاتا ہے اور جب کوئی خط لکھا جاتا تھا تو اس کے آخر میں دستخط کی جگہ مہر لگایا جاتا ہے۔ انگوٹھی کے مہر کی

۲۶

 جگہ آخری جگہ ہوتی تھی اور اس کے بعد خط ختم ہوجاتا ہے۔ پیغمبراکرم(ص) کے خاتم ہونے کا عقیدہ اسلام کی ضروریات میں سے ہے جو بھی مسلمان ہے وہ جانتا ہے ہے کہ حضور اکرم(ص) خاتم الانبیاء(ص) ہیں اور آپ(ص) کے بعد قیامت تک کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔

حلال محمد حلال الی يوم القيامه و حرامه حرام الی يوم القيمه

قرآن کریم نے متعدد آیات میں یہ واضح کیا ہے کہ حضور اکرم(ص) ہر زمانے ، ہر جگہ اور ہر کسی کے لیے نبی ہیں۔

“وَ ما أَرْسَلْناكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعالَمينَ”

“ ہم تمہیں نہیں بھیجا مگر یہ کہ سارے جہانوں کے انسانوں کے لیے رحمت۔

“ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِنْ رِجالِكُمْ وَ لكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَ خاتَمَ النَّبِيِّينَ ”(الاحزاب آیت 40   )

“ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں لیکن وہ اﷲ کے رسول(ص) اور خاتم الانبیاء ہیں۔”

قرآن کریم میں اس قسم کی آیات بہت ساری موجود ہیں اور اس طرح حضور اکرم (ص) کے خاتم الانبیاء ہونے کے بارے میں بہت ساری روایات بھی موجود ہیں۔ ان روایات میں سے ایک روایت “ روایت منزلت ” ہے جو سنی اور شیعہ تمام کے نزدیک مسلمہ ہے اور غایت المرام کے مصنف نے اسے 170 اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔ جن مٰیں سے ایک سند اہل سنت کے ہاں یوں ہے کہ حضور اکرم(ص) نے فرمایا :

“أَنْتَ‏ مِنِّي‏ بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي”

“ تمہاری نسبت میرے ساتھ ایسی ہی ہے جیسے کہ موسی (ع) کے ساتھ ہارون(ع) کی تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔”

خاتم ہونے کا راز دو چیزون میں ڈھونڈا جاسکتا ہے۔

1:۔ اسلام انسانوں کی فطرت کے ساتھ مکمل طور پر مطابقت رکھتا ہے۔

۲۷

“فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنيفاً فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتي‏ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْها لا تَبْديلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَ لكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ ”(الروم، 30   )

“ اپنے رخ کودین حنیف کی طرف متوجہ کرو جو انسانوں کی فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اﷲ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں یہ پائیدار دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں۔”

2:۔ دین اسلام تمام پہلوؤں کا جامع ہے اور یہ قدرت رکھتا ہے کہ ہر جگہ ، ہر زمانے میں ہر حالت میں معاشرے کے سامنے جوابدہ ہوسکے۔ اسلام اس بات کا دعویدار ہے کہ انسانی معاشرے میں دینی اعتبار سے جس چیز کی ضرورت تھی اسے بیان کیا ہے۔

“وَ نَزَّلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ تِبْياناً لِكُلِّ شَيْ‏ءٍ ”

“ کتاب جسے ہم نے تم پر نازل کیا ہے تمام چیزوں کا بیان کرنے والی ہے۔”

“الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتي‏ وَ رَضيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ ديناً ”(المائدة : 3   )

“ آج کے دن ( غدیر خم کےدن ) ہم نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کیا اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔”

اس کے علاوہ بہت ساری روایات صراحت کے ساتھ اس دعوی کو بیانگ دہل کہتی ہیں اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے اس ضمن میں روایات بھی وارد ہوتی ہیں۔

“  ما من شئ يطلبونه الا وهو فی القرآن فمن اراد الک فليسئلنی عنه”

“ کوئی چیز ایسی نہیں جس کی تمہیں ضرورت پڑے مگر یہ کہ وہ قرآن میں موجود ہے بس جو ایسا چاہپتا ہے اس بارے میں مجھ سے پوچھے۔”

جب حقیقت ایسی ہے تو کسی دوسرے دین کا آنا دبے فائدہ اور لغو قرار پاتا ہے ۔دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ کسی دوسرے دین کا اس وقت

۲۸

 ضروری ہوجانا جب موجودہ دین معاشرہ کی ضروریات کو پورا نہ کرسکے اور ایک خاص زمانے کے لیے ہو جب کہ ایسی محدودیت اسلام میں نہیں اور اس کی سب سے بڑی دلیل اسلام کا قانون مرجعت ہے۔ اسلام کے کسی حکم کے بارےے میں اگر آپ ایک “ مرجع” کے پاس پہنچیں اور تو یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کے سوالات کا جواب دینے سے عاجز آجائے۔

3:۔ پہلے والے دین میں کسی قسم کی تحریف یا تبدیلی واقع ہو جائے، جیسا کہ یہودیت اور عیسایت کے بارے میں خود ان کا اپنا اقرار ہے جب کہ اسلام میں یہ نقص موجود نہیں ہے اور خداوند عالم نے اس بات کی ذمہ داری لے لی ہے کہ اسلام اس قسم کی تحریفات سے محفوظ رہے گا۔ قرآن کے بارے میں ہے۔

لا يَأْتيهِ الْباطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ لا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزيلٌ مِنْ حَكيمٍ حَميدٍ ” (فصلت : 42   )

“ اس میں باطل کے داخل ہونے کا امکان ہی نہیں چاہے سامنے یا پیچھے سے اور یہ حکمت والے قابل تعریف کا نازل کیا ہوا ہے جس نے تمام اشیاء کو حکومت کے ساتھ پسندیدہ صفات کے ساتھ خلق فرمایا ہے۔”

4:۔ اس پہلے والے دین کی ضرورت رہی۔ مثلا اگر کوئی ایسا دین جو کسی خاص زمانے کے لیے بھیجا گیا ہو۔ جس نے اس خاص زمانے کی معنویات اور اقدار کو زیادہ سے زیادہ نظر رکھا ہوا اور جب وہ مطلوبہ ہدف پورا ہوا تو اس کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ اسلام کے بارے میں اس قسم کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ اسلام انسان کے ساتھ سو فیصد مطابقت رکھتا ہے۔ اسلام نے جس طرح انسان کی معنویات کا خیال رکھا ہے اس طرح کی مادیت سے غافل نہیں رہا۔ بلکہ اسے بھی اہمیت دی ہے۔ جیسے ارشاد ہوتا ہے۔

“وَ ابْتَغِ فيما آتاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَ لا تَنْسَ نَصيبَكَ مِنَ الدُّنْيا ”( سورہ القصص : آیت  77   )

۲۹

“ جو کچھ اﷲ تعالی نے تمہیں دیا ہے اس کے ذریعے آخرت کے طلب گار رہو اور اپنی دنیا کے حصے کو فراموش مت کرو یعنی اسے بھی حاصل کرو۔”

اسلام ایسے کامل قانون کا حامل ہے کہ تمام ممکنہ مسائل کا سامنا کرسکتا ہے اور ایسے احکام پیش کرتا ہے کہ قیامت تک کے زمانے کے لیے اجراء ہوسکتے ہیں۔ خداوند عالم کی طرف سے انبیاء(ع) اس لیے آتے تھے کہ اﷲ کا قانون اس کے بندوں کو پہنچائیں ایسے پیغمبروں کو علم کلام کی اصطلاح میں اولو العزم کہا جاتا ہے اور اب قرآن کے نازل ہونے کے بعد ان کی ضرورت نہیں رہی بلکہ قرآن نے خود ان کی جگہ لے لی ہے تو اب ایسے پیغمبروں کا آنا بے فائدہ ہے۔

اور بعض انبیاء صرف تبلیغ اور قوانین کے اجراء کے لیے آتے ہیں جب کہ اسلام نے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے حکم کے ذریعے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے علمائے کرام ہی کو “ نظارت ملی” کا حق دیتا ہے اور بڑی اہمیت دیتا ہے بلکہ ان انبیاء کے برابر قرار دیا ہے۔“علماء امتی بمنزلة انبياء بنی اسرائيل ” حضور اکرم(ص) نے فرمایا۔ “ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں۔” نیز نبوت کے خاتمے کے بعد امامت اور اس کے بعد ولایت فقیہ کی بناء پر رسولوں کے نہ آنے کی تلافی ہوگئی اور مذکورہ صورتوں کے باوجود انبیاء کا آنا بے معنی ہو جاتا ہے۔

۳۰

حضرت علی علیہ السلام

حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام عام الفیل کے تیس سال بعد جمعہ کے دن رجب کی تیرہ تاریخ کو اﷲ کے گھر ( کعبہ) میں پیدا ہوئے اور ہجرت کے چالیس سال بعد 19 رمضان کو فجر کے وقت حالت نماز میں ابن ملجم کی تلوار سے اﷲ کے گھر(مسجد) میں زخمی ہوئے اور اسی مہینے کی اکیس تاریخ کو شہادت پائی۔ آپ کی عمر مبارک 63 سال تھی۔ بعثت سے قبل دس سال اور بعثت کے بعد 23 سال حضور اکرم کےساتھ اور حضور اکرم(ص) کی رحلت کے بعد تیس سال گزارے۔ علی (ع) کی زندگی اسلام اور انسانیت کے لیے ایک با برکت زندگی تھی۔ اگر آپ نہ ہوتے تو تاریخ یوں نہ ہوتی ۔ تاریخ کا درخشان دور امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی کے ایام ہیں۔

حضرت امیرالمومنین(ع) کے بارے میں بات کرنا کوئی آسان کام نہیں اس لیے ہم یہاں آپ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اختصار کے ساتھ تذکرہ کریں گے۔

علی(علیہ السلام) کون ہیں؟

واقعتا اس سوال کا جواب کیا ہے؟ اگر ہم اس کے جواب کا ناممکن نہ کہیں تو مشکل ضرور کہنا پڑے گا۔ اہل سنت کےایک بہت بڑے عالم جاحظ کا کہنا ہے کہ “ علی(ع) کے بارے میں بات کرنا ممکن نہیں۔ اگر علی(ع) کا ذکر کر کے کہا جائے کہ حق ادا ہوا تو یہ غلو ہے۔ اگر ذکر کر کے علی(ع) کا حق ادا نہ کیا جائے تو یہ ان پر ظلم ہے۔”

ایک اور بزرگ اہل سنت عالم “ خلیل نموی” کہتے ہیں کہ میں اس ہستی کے بارے میں کیا کہوں کہ دوست دشمن سب نے ان کے فضائل چھپائے۔ دوستوں نے

۳۱

خوف کے مارے اور دشمنوں نے حسد کے مارے ۔ باوجود اس کے دنیا علی(ع) کے فضائل سے پر ہوگئی ۔

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں اس قسم کے کلمات شیعہ مفکرین سے بہت منقول ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوگا کہ کہ ہم امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل کے بارے میں قرآن کی زبان میں بات کریں۔

 “ وَ لَوْ أَنَّ ما فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ وَ الْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ ما نَفِدَتْ كَلِماتُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزيزٌ حَكيمٌ”(لقمان آیت 27  )

“ تحقیق اگر روئے زمین کے درخت قلم بن جائیں اور تمام سمندر سیاہی بن جائیں بلکہ سات مرتبہ سمندر سیاہی میں بدل جائیں تو بھی خداوند کے کلمات ختم نہیں ہوں گے۔”

شیعہ نظرئے اور روایات کے مطابق ان کلمات کا معدن امیرالمومنین علیہ السلام کی ذات گرامی ہے۔ ناحیہ مقدس کی دعا جو حضرت محمد بن عثمان سمری کے ذریعے پہنچی ہے اور رجب کے مہینے کی ہر تاریخ کو پڑھنے کا حکم ہے اس میں ہم پڑھتے ہیں۔ “فجعلت ه م معادن کل ه ا ” تک “ یعنی تو نے انہیں اپنے کلمات کا معدن قرار دیا ہے۔” کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ

     قلم ہوں شاخ اشجار جہاں کاغذ فلک گر ہو            سیاہی چشمہ حیواں ہو، دریا ہو، سمندر ہو

     جہاں کاتب دعائے مصطفیٰ (ص) تائید داور ہو         نو سندوں کو لکھنے کی بھی مہلت تابہ محشر ہو

     یہ سب ہوں ذہن عالی سے بلند ہر ایک نخور ہو       ثنا جد(ص) کی تیرے اے مہدی(ع) دین پھر بھی کمتر ہو

۳۲

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی نسبی فضیلت یوں ہے کہ حضرت ابو طالب(ع) جیسا باپ ہے جو حضور اکرم(ص) کا بہترین مددگار اور اسلام کی نصرت و مدد میں سب سے بڑھ کر تھے آپ کی والدہ گرامی حضرت فاطمہ بنت اسد(ع) تھیں جو رسول اکرم(ص) کے لیے تمام معنوں میں ماں تھیں آپ وہی خاتون ہیں کہ جس وقت مسجد الحرام میں آپ کو درد زہ ہوا تو خدا کی پناہ چاہی تو دیوار کعبہ شق ہوئی اور آپ بلا جھجھک فورا خانہ کعبہ کے اندر چلی گئی۔ تین دن تک خدا کے گھر میں عالم ملکوت کی مہمان رہیں اور چوتھے دن چاند کے ٹکڑے جیسے بچے کو لے کر باہر آئیں اور فرمانے لگیں “ یہ آواز آئی ہے کہ اس بچے کا نام خداوند عالم کے نام سے مشتق ہے لہذا اس کا نام علی رکھو” اور یہ فضیلت ابھی تک کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔

اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی خصوصیت حسب کے اعتبار سے یوں ہیں۔

آپ کے ایمان کی منزل

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے ایمان اور شہود کی منزل کا ادراک نہیں کیا جاسکتا آپ کے ایمان کی منزل کو سمجھنے کے لیے اتناہی کافی ہے کہ حضرت عمر نے اپنی موت کے وقت چھ افراد کو بلاکر ان میں سے ہر ایک پر کوئی نقص بتایا مگر حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے فرمایا “ اے علی(ع) اگر تیرے ایمان کو موازنہ زمین و آسمان کے باسیوں کے ایمان کے ساتھ کیا جائے گا تو تیرا ایمان ان کے ایمان سے برتر ہوگا” یہ جملہ وہی ہے جسے رسول اکرم(ص) سے متعدد بار سنا جاچکا تھا۔

آپ کا علم

خداوند عالم نے قرآن میں آپ کے علم کی توصیف یوں فرمائی ہے۔

۳۳

 “ وَ يَقُولُ الَّذينَ كَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلاً قُلْ كَفى‏ بِاللَّهِ شَهيداً بَيْني‏ وَ بَيْنَكُمْ وَ مَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتابِ ”( سورہ الرعد آیت 43   )

ترجمہ:۔ “ کافر کہتے ہیں کہ تم پیامبر نہیں ہو تم ان کے جواب میں کہو میری رسالت کی گواہی کے لیے میرے اور تمہارے درمیان خداوند عالم اور وہ شخص کافی ہے جس کے پاس کتاب کا پورا علم ہے۔”

اگر ہم اس آیت شریفہ کو سورہ نمل کی آیت 40 کے ساتھ موازنہ کریں تو آپ کے علم کی منزلت واضح تر ہوتی ہے۔

 “ قالَ الَّذي عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الْكِتابِ أَنَا آتيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ”( سورہ النمل آیت 40 )

“ جس کسی کے پاس قرآن کو تھوڑا سا علم تھا اس نے کہا پلک چھپکنے سے پہلے اسے (تخت بلقیس ) حاضر کروں گا۔”

آپ نہج البلاغہ میں اپنے علم کو یوں بیان کرتے ہیں۔

«سلوني‏ قبل أن تفقدوني والله لو شئت أن اخبر كلّ‏ رجل‏ بمخرجه‏ و مولجه و جميع شأنه لفعلت”

“ قبل اس کے کہ مجھے نہ پاؤ مجھ سے جو چاہو پوچھو خدا کی قسم اگر چاہوں تو ہر شخص کے لیے اس کی پیدائش سے لر کر موت تک اور اس کی زندگی کے تمام پہلوؤں کی خبر دے سکتا ہوں۔”

“سلونی قبل ان تفقدونی والذی نفسی بيده ما سالونی بشئ بينکم و بين الساعه الا ان انباکم به ”

“ جو چاہو مجھ سے پوچھو قبل اس کے کہ مجھے نہ پاؤ خدا کی قسم آج سے لے کر قیامت تک کی کوئی چیز ایسی نہیں کہ اگر اس کے متعلق مجھ سے پوچھو تو جواب نہ دوں ۔”

۳۴

امیرالمومنین (ع) کا تقویٰ

حضرت عمر بن الخطاب نے اپنی موت کے وقت چھ افراد کو خلافت کے لیے منتخب کیا عبدالرحمن بن عوف، عثمان، طلحہ، زبیر، سعد بن وقاص، اور امیرالمومنین علیہ السلام ۔ یہ لوگ ایک کمرے میں جمع ہوگئے عبدالرحمان بن عوف نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ میں آپ کی بیعت کرتا ہوں آپ مسلمانوں کے خلیفہ ہیں مگر ان تین شرائط کے ساتھ کہ اﷲ کی کتاب ، رسول(ص) کی سنت اور شیخین کے طریقے کی پیروی کریں۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا میں اسی صورت میں خلیفہ بن سکتا ہوں  کہ صرف یہ شرط رکھی جائے کہ اﷲ کی کتاب، رسول(ص) کی سنت اور اپنے اجتہاد کے مطابق عمل کروں۔ اس صورت حال کا چند بار اعادہ ہوا یہاں تک کہ حضرت عثمان نے ان شرائط کے ساتھ خلافت قبول کی اور سیاسی اعتبار سے یہ صورت حال بڑی عجیب ہے۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام چاہتے تو ان شرائط کے ساتھ اسی وقت خلافت کو قبول کر لیتے اور بعد میں مصلحت نہ سمجھے تو ان شرائط کو ںظر انداز کر لیتے لیکن حضرت عثمان نے ان شرائط کے ساتھ قبول کیا۔ مگر علی(ع9 کے لیے ان کا تقویٰ مانع ہوا ہم نہج البلاغہ میں پڑھتے ہیں۔

“وَ اللَّهِ لَوْ أُعْطِيتُ الْأَقَالِيمَ السَّبْعَةَ بِمَا تَحْتَ أَفْلَاكِهَا عَلَى أَنْ أَعْصِيَ اللَّهَ فِي نَمْلَةٍ أَسْلُبُهَا جُلْبَ‏ شَعِيرَةٍ لَمَا فَعَلْتُهُ”

“ خدا کی قسم اگر ساتوں اقالیم مجھے اس لیے دیئے جائیں کہ میں ایک چیونٹی کے منہ سے “جو ” کا ایک چھلکا چھین لوں تو میں کبھی بھی ایسا نہیں کروں گا۔”

امیرالمومنین علیہ السلام سے کہا گیا کہ معاویہ نے ہمارے پیسوں سے لوگوں کو اپنے گرد جمع کر رکھا ہے آپ ایسا کیوں نہیں کرتے۔ فرمایا ۔ “ کیا تم مجھ سے یہ توقع رکھتے ہو کہ ظلم و گناہ کا ارتکاب کرتے ہوئے میں منصب حاصل کروں؟” اس دن جب آپ نے خلافت قبول کی اپنے ایک شعلہ بیان خطاب میں فرمایا “ بیت المال کی رقم اس کے حقداروں کو ملنی چاہیے اور اسلامی مساوات کا خیال رکھا جائے” مگر

۳۵

 چند دنوں بعد ہی پریشانیاں اور شور و غوغا بلند ہوا۔

ایک رات لوگوں کی ایک جماعت جس میں طلحہ اور زبیر بھی شامل تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے گفتگو کرنی چاہئی تو آپ نے شمع گل کی اور فرمایا چونکہ شمع بیت المال کی ہے اور ہماری گفتگو امور مسلمین سے متعلق نہیں بلکہ نجی قسم کی ہے لہذا ذاتی امور مٰیں بیت المال کی شمع جلانا درست نہیں ۔ انجام کار جنگ جمل اور اس کے بعد جنگ صفین کے مقدمات سامنے آئے اور اس کے بعد خوارج کے ساتھ جنگ کا میدان گرم ہوا۔

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ایک ایسی شخصیت ہیں جو اس بات پر راضی نہیں تھے کہ حسن بن علی(ع) بیت المال سے دوسرے مسلمانوں کے حصہ کینے سے پہلے اپنا حصہ لے لیں اور نہ ہی اس پر راضی کہ حضرت زینب کبری(ع) گلو بند کو عاریتا استعمال کر سکیں۔ یہ آپ کے فضائل کے سمندر میں سے ایک قطرہ کی صورت ہے۔

امیرالمومنین علیہ السلام کی عبادات

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی اسلام اور مسلمانوں کی تقویت کے لیے وقف تھی آپ نے زمین کے بیس سے زیادہ قطعات آباد کر کے محتاجوں میں تقسیم کیے۔ اسلام کے لیے امیرالمومنین علیہ السلام کی جنگیں اور فداکاریاں بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں۔ جو چیز قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ آپ ان جنگوں اور کاموں میں ہر وقت خداوند عالم سے رابطہ رکھتے تھے۔ ہم نہج البلاغہ میں پڑھتے ہیں کہ آپ گڑ گڑاتے ہوئے کہتے ہیں۔ “ ہائے زاد راہ کی کمی اور سفر کی وحشت اور دوری”۔ حضرت ابن عباس(ع) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امیرالمومنین  علیہ السلام کو میدان میں دیکھا کہ آسمان کی طرف نظر اٹھائے ہیں مجھے پتہ چلا کہ آپ صبح ہونے کے انتظار میں ہیں تاکہ فجر کی نماز ادا کریں۔ ایک دفعہ جنگ کے میدان میں آپ کو ایک ٹوٹے ہوئے کوزے

۳۶

میں پانی پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا میں تلوار اس لیے چلاتا ہوں کہ خدا کا حکم بجا لاؤں لہذا میں قانون الہی کو پامال نہیں کرسکتا یوں میں ٹوٹے ہوئے کوزے میں پانی نہیں پیوں گا۔

لیلہ الہریر جو صفین کے جنگ کی سخت ترین رات تھی حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا سجادہ بچھایا گیا آپ نماز کےلیے کھڑے ہوئے اور آپ کی تکبیر کی آواز بلند ہوئی۔ آپ کی صاحبزادی فرماتی ہیں کہ انیسویں کی رات جو آپ کے شہید ہونے کی رات تھی۔ میرے پدر بزرگوار افطار سے لے کر صبح تک مشغول عبادت تھے کبھی باہر آتے اور آسمان کی طرف نگاہیں بلند کر کے فرماتے تھے۔

“الَّذينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَ قُعُوداً وَ عَلى‏ جُنُوبِهِمْ وَ يَتَفَكَّرُونَ في‏ خَلْقِ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ رَبَّنا ما خَلَقْتَ هذا باطِلاً سُبْحانَكَ فَقِنا عَذابَ النَّارِ ”( آلعمران آیت 191 ) 

“ اور جس وقت آپ کے سر اقدس پر ضرب لگی فتو سب سے اولین جو بات کی تھی وہ یہ تھی حسن (ع) نماز کا وقت گزر رہا ہے ۔ نماز کے لیے تیار ہو جاؤ۔ ( ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں)

آپ(ع) کی سیاست

اگر سیاست سے مراد ہر ذریعے سے اپنے مقصد اور اقتدار تک پہنچنا مراد ہے تو امیرالمومنین(ع) اس سے پاک و مبرا ہیں اور یہ وہی سیاست ہے جسے آپ(ع) نے تقوی کے خلاف قرار دیا ہے۔ جب کہ آپ نے فرمایا ۔ “لو لا التقی لکنت اد ه ی العرب ” اگر تقوی کا لحاظ نہ ہوتا تو میں عرب کا چالاک ترین فرد تھا۔”

اور اگر سیاست سے مراد حسن تدبر اور امور مملکت کی دیکھ بھال ہے تو امیرالمومنین علیہ السلام سب سے بڑے سیاست داں ہیں۔ 94 ممالک سے علماء اور

۳۷

 دانشور اور سیاست دان جمع ہوئے اوع دو سال کے غور و فکر کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا منشور تیار کیا۔ بعض بزرگوں نے اس دستور کو حضرت علی(ع) کے مالک اشتر کو دیے ہوئے دستور سے موازنہ کیا اور یہ ماننے پر مجبور ہوئے کہ علی(ع) کا یہ منشور اقوام متحدہ کے اس منشور سے ممکنہ اور زیادہ عالمانہ ہے۔ یہ بات بھی مد نظر رہے کہ آپ نے یہ دستور نامہ مالک اشتر کے لیے ان کے مصر روانہ ہوتے وقت ہنگامی طور پر لکھا تھا۔

اسی دستور کی مانند ایک اور دستور بھی ہے جسے آپ نے محمد بن ابی بکر کے لیے لکھا تھا اور جس وقت محمد بن ابی بکر شہید ہوئے تو یہ دستور معاویہ کے ہاتھ لگا۔ انہیں اس قدر پسند آیا کہ اسے محفوظ کرنے کا حکم دیا۔

آپ(ع) کی شجاعت

اگر  شجاعت سے مراد دشمن پر غلبہ حاصل کرنا قرار دیں تو امیرالمومنین علیہ السلام بہادر ترین فرد ہیں اورحدیث قدسی لاسیف الا ذوالفقار آپ کی شان میں ہی وارد ہوا ہے۔

اور اگر شجاعت کو نفس پر قابو پانے کے معنی میں لیں تو بھی امیرالمومنین علیہ السلام بہادر ترین فرد ہیں۔ ہمارے کلام کی تائید میں آپ کا کلام نہج البلاغہ میں یوں ہے کہ آپ نے اپنے گورنروں کو یوں فرمان جاری کیا“ اپنے قلموں کو باریک کرو اور سطور کے درمیان فاصلہ نہ رکھو زیادہ سے زیادہ لکھنے کی کوشش نہ کرو بلکہ اپنے مطلب کا خلاصہ بیان کرو تاکہ مسلمانوں کے اموال کو نقصان نہ پہنچے۔”

اور اگر شجاعت سے مراد مصیبتوں میں صبر کرنا اور زمانے کے اتار چرھاؤ کے مقابلے میں ثابت قدمی اختیار کرنا ہے تو علی(ع) سے بڑھ کر بہادر اور مظلوم بھی کوئی نہیں ملے گا۔ آپ(ع) نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں ۔ “فی العين قذی و فی الحلق شجی

۳۸

 “ رسول اکرم(ص) کی زندگی کے بعد تیس سال اس طرح صبر کیا جیسے آنکھ میں کاںٹا اور گلے میں ہڈی پھنسی ہو۔”

آپ(ع) کا زہد

اسلام کے مطابق زہد یہ ہے کہ انسان خدا کے علاوہ کسی چیز یا کسی شخص سے دل نہ لگائے۔ حافظ شیرازی نے زہد کی تعریف یوں کی ہے۔

             غلام ہمت آنم کہ زیر چرخ کبود            زہرچہ  رنگ تعلق پذیرد آزاد است

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام دنیا کے زاہد ترین فرد ہیں اور اس پر معاویہ کا ایک جملہ گواہ ہے ایک دفعہ ایک دنیا پرست منافق معاویہ کے پاس آکر کہنے لگا میں ایک بلند مرتبہ ہستی ( یعنی علی(ع)) کوچھوڑ کر آپ کے پاس آرہا ہوں تو معاویہ نے جواب دیا کہ تیرے منہ میں خاک تم یہ بات کس کے بارے میں کہہ رہے ہو علی (ع) وہی ہستی ہیں کہ جس کے پاس اگر ایک ڈھیر سونے کا اور ایک بھوسے کا ہو تو وہ پہلے سونے کا ڈھیر اﷲ کی راہ میں خرچ کریں گے اور اس کے بعد بھوسے کا ڈھیر خرچ کریں گے۔

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی میں دنیاوی زرق برق کا کوئی  نام و نشان موجود نہیں تھا۔ آپ(ع) نے عثمان بن حنیف کو لکھا“ میں نے سنا ہے کہ تم نے ایک ایسی دعوت میں شرکت کی جہاں کوئی فقیر نہیں تھا۔ اور تم نے وہاں مرغن غذاؤں سے لطف اٹھایا میں علی(ع) ہوں کہ میں نے دو کپڑوں اور دو روٹیوں میں زندگی گزاری ۔ ظاہر ہے کہ تم ایسا نہیں کرسکتے لیکن تمہیں چاہیے کہ علی(ع) کی اس کی پرہیزگاری اور تقوی میں مدد کرو۔”

۳۹

آپ(ع) کی عدالت

جارج جرواق مسیحی اپنے ایک بلیغ کلام میں کہتے ہیں کہ“قتل فی محراب ه لعدالت ه ”  علی(ع) اپنی عدالت کی وجہ سے محراب عبادت میں قتل ہوئے۔”

علی(ع) مجسم عدالت ہیں جس وقت انہیں معلوم ہوتا ہے ان کا  گورنر ابن عباس قرض لیتا ہے اور اپنے مقام و منصب سے سوء استفادہ کرتا ہے اور قرض کو وقت پر ادا نہیں کرتا تو اسے سخت الفاظ میں خط لکھتے ہیں۔ اس خط میں لکھتے ہیں کہ مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میرا گورنر اپنے مقام و منصب سے سوء استفادہ کرے اور اپنے قرضے کو مقررہ  وقت میں ادا کرنے میں تاخیر کرے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں بیت المال کے درہم و دینار حضرت علی(ع) کے پاس لے جارہا تھا راستے میں دیکھا کہ حضرت علی(ع) کی تلوار فروخت کی جارہی ہے میں نے جاکر حضرت (ع)  سے وجہ پوچھی تو فرمایا مجھے ایک پاجامہ بنانے کی ضرورت تھی لہذا تلوار فروخت کر کے اس کی رقم سے پاجامہ سلواؤں گا۔

آپ(ع) کی سخاوت

قرآن کریم میں متعدد آیات جیسے ، آیت ولایت، آیت اطعام، آیت ایثار، حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ ہم یہاں پر ایک تاریخی واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ آپ کا غلام روایت کرتا ہے کہ ایک دفعہ امیرالمومنین علیہ السلام ایک نہر کھود رہے  تھے جب اس سے فارغ ہوئے تو آپ نے کھدائی سے ابلنے والے پانی سے ہاتھ دھوئے اور اس دوران میں نے ایک کدو پکایا تھا۔ آپ نے بڑے وقار کے ساتھ اسے تناول فرمایا اور کہنے لگے“ خدا کی لعنت ہو اس شخص پر جسے اس کا پیٹ جہنم میں لے جائے۔” دوپہر کو یہ غذا کھانے کے بعد آپ دوبارہ نہر کھودنے میں مشغول ہوئے۔ کدال ایک پتھر پر لگی اور پانی بڑے زور سے بہنے لگا یہاں تک کہ مزید کھدائی کی گنجائش نہیں رہی تو آپ باہر آئے آپ کی

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

عزت خدا کے لیے ہے پھر نصیحت کرتے ہوئے فرمایا (کہ جب تمام عزت اللہ کے لیے ہے) پھر عزت کی خاطر ادھر ادھر کیوں جاتے ہو۔ یا پھر فرمایا:انّ القَوة للّٰه جمیعًا (۱) تمام قدرت خدا کے لیے ہے۔ پھر نتیجہ کے طور پر فرمایا: کہ تو پھر ہر وقت کسی اور کے پیچھے کیوں لگے رہتے ہو؟ اس آیت میں بھی یہی فرمایا: سب مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں پھر فرمایا: تو اب جب کہ تم سب آپس میں بھائی بھائی ہو تو پھر یہ لڑائی جھگڑا کس لیے؟ پس آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ پیار ومحبت سے رہو۔ اس لیے کہ فرد اور معاشرہ کی اصلاح کے لیے پہلے فکری اور اعتقادی اصلاح ضروری ہے اُس کے بعد انسان کے کردار اور اس کی رفتار کی بات آتی ہے۔

٭ اخوت و برادری جیسے کلمات کا استعمال اسلام نے ہی کیا ہے۔ صدر اسلام میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سات سو چالیس افراد کے ہمراہ ''نخلیہ'' نامی علاقے میں موجود تھے کہ جبرائیل امین ـ نازل ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے درمیان اخوت و برادری کے رشتہ کو قائم کیا ہے۔ لہٰذا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اپنی اصحاب کے درمیان اخوت کے رشتہ کو قائم کیا اور ہر ایک کو اس کے ہم فکر کا بھائی بنادیا۔ مثلاً: ابوبکر کو عمر کا، عثمان کو عبدالرحمن کا، حمزہ کو زید بن حارث کا، ابو درداء کو بلال کا، جعفرطیار کو معاذ بن جبل کا، مقداد کو عمار کا، عائشہ کو حفصہ ، ام سلمہ کو صفیہ، اور خود پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کو اپنا بھائی بنایا۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔سورئہ مبارک بقرہ، آیت ۱۶۵

(۲)۔ بحارا لانوار، ج۳۸، ص ۳۳۵

۱۰۱

جنگ اُحد میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو شہداء (عبداللہ بن عمر اور عمر بن جموع) جنکے درمیان اخوت و برادری کا عقد برقرار تھا کو ایک ہی قبر میں دفن کرنے کا حکم دیا۔(۱)

٭ نسبی برادری بالآخر ایک دن ختم ہوجائے گی۔فَلَا أَنسَابَ بَیْنَهُمْ (۲) لیکن دینی برادری قیامت کے دن بھی برقرار رہے گی۔اِخوانًا علی سُرُررٍ مُّتَقَابِلِیْنَ (۳)

٭اخوت و برادری با ایمان عورتوں کے درمیان بھی قائم ہے چنانچہ ایک مقام پر عورتوں کے درمیان بھی اخوت و برادری کی تعبیر موجود ہے۔وَاِن کَانُوا اِخوَةً رِجَالاً و نِسآئً (۴)

٭اخوت و برادری صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہو۔ اگر کوئی کسی کے ساتھ دنیا کی خاطر اخوت و برادری کے رشتہ کو قائم کرے تو جو اس کی نظر میں ہے وہ اس سے محروم رہے گا۔ اس طرح کے برادر قیامت کے دن ایک دوسرے کے دشمن نظر آئیں گے۔(۵)

الَْخِلاَّئُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوّ ِلاَّ الْمُتَّقِینَ - (۶)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ شرح ابن الحدید، ج۱۵، ص ۲۱۵؛ بحار الانوار، ج۲۰، ص ۱۲۱ (۲)۔ سورئہ مبارکہ مومنون، آیت ۱۰۱

(۳)۔ سورئہ مبارکہ حجر، آیت ۵۷ (۵)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت ۱۷۶

(۵)۔ بحار، ج۷۵، ص ۱۶۷ (۶)۔ سورئہ مبارکہ زخرف، آیت ۶۷

۱۰۲

٭برادری اور اخوت کی برقراری سے زیادہ اہم چیز برادر کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ روایات میں ایسے شخص کی سرزنش کی گئی ہے جو اپنے برادر دینی کا خیال نہ رکھے اور اُسے بھلا دے۔ یہاں تک ملتا ہے کہ اگر تمہارے برادران دینی نے تم سے قطع تعلق کرلیا ہے تو تم ان سے تعلق برقرار رکھوصِلْ مَنْ قَطَعَک (۱)

روایات میں ہے کہ جن افراد سے قدیمی اور پرانا رشتہ اخوت و برادری قائم ہو ان پر زیادہ توجہ دو اگر کوئی لغزش نظر آئے تو اُسے برداشت کرو۔ اگر تم بے عیب دوستوں (برادران) کی تلاش میں رہو گے تو دوستوں کے بغیر رہ جاؤ گے۔(۲)

٭روایات میں ہے کہ جو اپنے برادر کی مشکل حل کرے گا اس کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ یہاں تک ملتا ہے کہ جو اپنے دینی برادر کی ایک مشکل دور کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ایک لاکھ حاجات پوری کرے گا۔(۳)

٭حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: مومن ، مومن کا بھائی ہے ۔ دونوں ایک جسم کی مانند ہیں۔کہ اگر ایک حصے میں درد ہو تو دوسرا حصہ بھی اُسے محسوس کرتا ہے۔

(۴) سعدی نے اس حدیث کو شعر کی صورت میں یوں بیان کیا ہے۔

بنی آدم اعضای یکدیگرند کہ در آفرینش زیک گوھرند

چو معنوی بہ درد آورد روزگار دگر عضوھا را نماند قرار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بحار ، ج۷۸، ص ۷۱ (۲)۔ میزان الحکمہ

(۳)۔ میزان الحکمہ (اخوة) (۵)۔ اصول کافی، ج۲، ص ۱۳۳

۱۰۳

تو کز محنت دیگران بی غمی نشاید کہ نامت نھند آدمی

ترجمہ: اولاد آدم ایک دوسرے کے دست و بازو ہیں کیونکہ سب خاک سے پیدا ہوئے ہیں اگر کسی پر مشکل وقت آجائے تو دوسروںکو بھی بے قرار رہنا چاہیے۔

اگر تم دوسروں کی پریشانی اور محنت سے بے اعتنائی کرو تو شاید تمہیں کوئی انسان بھی نہ کہے۔

برادری کے حقوق:

٭ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: مسلمان کے اپنے مسلمان بھائی کی گردن پر تیس حق ہیں اور اسے ان تمام حقوق کو ادا کرنا ہوگا۔(جن میں سے پچیس حقوق درج ذیل ہیں)

۱۔ عفو و درگزر ۲۔ راز داری

۳۔ خطاؤں کو نظر انداز کردینا ۵۔ عذر قبول کرنا

۵۔ بد اندیشوں سے اس کا دفاع کرنا ۵۔ خیر خواہی کرنا

۷۔ وعدہ کے مطابق عمل کرنا ۸۔ عیادت کرنا

۹۔ تشییع جنازہ میں شرکت کرنا ۱۰۔ دعوت اور تحفہ قبول کرنا

۱۱۔ اسکے تحفے کی جزا دینا ۱۲۔ اسکی عطا کردہ چیزوں پر شکریہ ادا کرنا

۱۳۔ اسکی مدد کے لیے کوشش کرنا ۱۵۔ اسکی عزت و ناموس کی حفاظت کرنا

۱۵۔ اسکی حاجت روائی کرنا ۱۶۔ اسکی مشکلات کو دور کرنے کے لیے سعی کرنا

۱۷۔ اسکی گمشدہ چیز کو تلاش کرنا ۱۸۔ اسے چھینک آئے تو اسکے لیے طلب رحمت

۱۰۴

کرنا

۱۹۔ اسکے سلام کا جواب دینا ۲۰۔ اسکی بات کا احترام کرنا

۲۱۔ اسکے لیے بہترین تحفہ کو پسند کرنا ۲۲۔ اس کی قسم کو قبول کرنا

۲۳۔ اسکے دوست کو دوست رکھنا اور اس سے دشمنی نہ رکھنا

۲۵۔ مشکلات میں اُسے تنہا نہ چھوڑنا

۲۵۔ جو اپنے لیے پسند کرے وہی اس کے لیے پسند کرے(۱)

ایک اور حدیث میں ہم پڑھتے ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس آیت(اِنّما المومنون اخوة) کی تلاوت کے بعد فرمایا مسلمانوں کا خون ایک ہے اگر عام لوگ بھی کوئی عہد و پیمان کریں تو سب کو اس کا پابند ہونا چاہیے۔ مثلاً اگر ایک عام مسلمان کسی کو پناہ یا امان

دے تو دوسرے کو بھی اس کا پابند ہونا چاہیے۔ سب مشترکہ دشمن کے مقابل اکھٹے ہوجائیں۔وَهُمْ یَد علی مَن سَواهم- (۲)

٭ حضرت علی ـ سے منقول ہے کہ آپ نے کمیل سے فرمایا: اے کمیل اگر تم اپنے بھائی کو دوست نہیں رکھتے تو پھر وہ تمہارا بھائی نہیں ہے۔(۳)

انسان اپنے ایمان کامل کے ساتھ اولیاء خدا کے مدار تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔

سلْمٰان مِنا اهل البیت (۴) سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے۔ جس طرح کفر کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بحار، ج۷۵، ص ۲۳۶ (۱)۔ تفسیر قمی، ج۱، ص ۷۳

(۳)۔ تحف العقول ص ۱۷۱ (۵)۔ بحارالانور، ج۱۰، ص ۲۳ا

۱۰۵

ہمراہ ہوکر اس مدار سے خارج ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرزند نوح ـکے بارے میں حضرت نوح ـ سے فرمایا:اِنّه لَیسَ مِنْ أهلَکَ- وہ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے۔(۱)

بہترین بھائی:

٭روایات میں بہترین بھائی کی یہ نشانیاں بیان کی ہیں۔

۱۔ تمہارا بہترین بھائی وہ ہے جو تمہارا غمخوار اور ہمدرد ہو یہاں تک کہ سختی سے تمہیں خدا کی اطاعت کی طرف دعوت دے۔ تمہاری مشکلوں کو حل کرے۔ خدا کی خاطر تیرا دوست بنا ہو۔ اسکا عمل تیرے لیے سرمشق ہو۔ اسکی گفتگو تیرے عمل میں اضافہ کا باعث ہو۔ تیری کوتاہیوں کو نظر انداز کرے۔ اور تجھے خواہشات نفس میں گرفتار ہونے سے بچائے۔ اور اگر تجھ میں کوئی

عیب دیکھے تو تجھے خبردار کرے۔ نماز کو اہمیت دے ۔ حیادار، امانت دار اور سچا ہو۔خوشحالی اور تنگ دستی میں تجھے نہ بھلائے۔(۲)

صلح و آشتی قرآن کی روشنی میں:

ہم نے اس آیت میں پڑھا ہے کہ مومنین آپس میں بھائی ہیں لہٰذا اُن میں صلح و

آشتی کو قائم کریں اسی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں صلح و آشتی کے بارے میں کچھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔سورئہ مبارکہ ہود، آیہ ۵۶

(۲)۔ میزان الحکمہ

۱۰۶

آشتی کو قائم کریں اسی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں صلح و آشتی کے بارے میں کچھ مطالب بیان کرتے ہیں۔

قرآن میں اسی سلسلہ میں مختلف تعابیر آئی ہیں:

۱۔صلح ''والصُّلح خَیر'' (۱) ''وأصلِحوا ذات بینکم'' (۲)

۲۔تالیف قلوب''فَألف بین قلوبکم'' (۳)

۳۔توفیق''اِن یُریدا اصلاحًا یُوَفِّق اللّٰه بینهُمٰا'' (۴)

۵۔ سِلم''أدخُلوا فِی السِّلم کافَّة'' (۵)

مندرجہ بالا تعبیر اس بات کی نشاندہی کررہی ہیں کہ اسلام صلح و آشتی ، پیار ومحبت اور خوشگوار زندگی کو بہت اہمیت دیتا ہے۔

صلح آشتی کی اہمیت:

٭مسلمانوں کی درمیان الفت اور محبت کو خداوند عالم کی نعمتوں میں شمار کیا ہے۔''کنتم أعدا فَاَلَّفَ بین قلوبکم'' (۶) یاد کرو اس وقت کوکہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر خدا نے تمہارے درمیان پیار و محبت کو قائم کردیا۔ جیسا کہ قبیلہ اوس و خزرج کے درمیان ایک سو بیس سال سے جنگ و خونریزی چل رہی تھی اسلام نے ان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت ۱۲۸ (۲)۔سورئہ مبارکہ انفال، آیت ۱

(۳)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت ۱۰۳ (۵)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت ۳۵

(۵)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت ۲۰۸ (۶)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت ۱۰۳

۱۰۷

کے درمیان صلح کرادی۔

صلح وآشتی کرانا عزت و آبرو کی زکات اور خدا کی طرف سے رحمت اور بخش کا سبب ہے۔''ان تُصلحوا و تتّقوا فانَّ اللّٰه کان غفوراً رحیمًا'' (۱) جو بھی مسلمانوں کے درمیان صلح و دوستی کا سبب بنے تو اُسے جزائے خیر ملے گی۔

''وَمَن یَشفَع شَفَاعةً حَسنةً یکن لَه نصیب منها'' (۲)

٭ لوگوں کے درمیان صلح و آشتی کرانے کے لیے اسلام کے خاص احکامات ہیں من جملہ۔

۱۔جھوٹ جو گناہان کبیرہ میں سے ہے اگر صلح و آشتی کرانے کے لیے بولا جائے تو اسکا کوئی گناہ نہیں ہے۔'' لَا کِذْبَ علی المُصْلح'' (۳)

۲۔ سرگوشی ایک شیطانی عمل ہے جو دیکھنے والوں میں شک و شبہ پیدا کرتا ہے جسکی نہی کی گئی ہے لیکن اگر یہ سرگوشی صلح و آشتی کرانے کے لیے ہو تو کوئی گناہ نہیں ہے۔''لَا خَیرَ فی کثیر من نجواهم اِلّا مَنْ أمَرَ بِصدقةٍ أو معروفٍ او اصلاح بین الناس'' (۴)

۳۔ اگرچہ قسم کو پورا کرنا واجب ہے لیکن اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ وہ مسلمانوں کے درمیان صلح و آشتی کرانے کے سلسلے میں کوئی قدم نہ اٹھائے گا تو اس قسم کو توڑا جاسکتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت ۱۲۹ (۲)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت ۸۵

(۳)۔بحارا الانوار،ج۶۹، ص ۲۵۲ (۵)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت ۱۱۵

۱۰۸

ہے۔''وَلا تجعلو اللّٰه عرضَة لایمانکم ان --- تصلحوا بین الناس'' (۱)

ہم تفاسیر کی کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک صحابی کی بیٹی اور ان کے داماد میں اختلاف ہوگیا۔ لڑکی کے والد نے یہ قسم کھائی کہ وہ ان کے معاملے میں دخالت نہ کریگا۔ یہ آیت نازل ہوئی کہ قسم کو نیکی و پرہیز گاری اور اصلاح کے ترک کا وسیلہ قرار مت دو۔

۵۔ اگرچہ وصیت پر عمل کرنا واجب اور اس کا ترک کرنا حرام ہے لیکن اگر وصیت پر عمل کرنا لوگوں کے درمیان کینہ اور کدورت کی زیادتی کا سبب ہو تو اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ وصیت پر عمل نہ کیا جائے تاکہ لوگوں کے درمیان پیار ومحبت اور بھائی چارہ کی فضا قائم رہے۔''فَمن خَافَ مِن مُوصٍ و جُنفًا أو اِثمًا فاصلح بینهم فلا اثم علیه'' (۲)

۵۔ اگرچہ مسلمان کا خون محترم ہے لیکن اگر بعض افراد فتنہ، فساد کا باعث بنیں تو اسلام نے صلح و آشتی کے لیے انکے قتل کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔'' فقاتلو الّتی تبغی'' (۳)

صلح و آشتی کے موانع:

قرآن و احادیث میں صلح و آشتی کے بہت سے موانع ذکر کیے گئے ہیں من جملہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت ۲۲۵

(۲)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت ۱۸۲ (۳)۔سورئہ مبارکہ حجرات، آیت ۹

۱۰۹

۱۔ شیطان: قرآن میں ارشاد ہوتا ہے۔ادخلوا فی السّلم کافّة ولا تتّبعوا خطوات الشیطان'' (۱) سب آپس میں پیار و محبت کے ساتھ رہو اور شیطان کی پیروی نہ کرو۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔انّما یُرید الشیطان أنْ یوقع بینکم العداوة والبغضائ'' (۲) شیطان تمہارے درمیان کینہ و کدورت پیدا کرنا چاہتا ہے۔

۲۔ مال کی چاہت اور بخل۔'' والصلح خیر و اُحضِرتِ الاَنفس الشُح'' (۳) اور صلح و دوستی بہتر ہے اگرچہ لوگ حرص و لالچ اور بخل کرتے ہیں۔

۳۔ غرور و تکبر بھی کبھی کبھی صلح و آشتی کے لیے مانع ہے۔

قرآن میں نزول رحمت کے چند عوامل:

٭ اگر قرآن مجید کے''لعلکم ترحمون'' کے جملوں پر نظر کریں تو نزول رحمت کے چند عوامل تک رسائی ممکن ہے۔

۱۔ خدا، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آسمانی کتب کی پیروی''واطیعو اللّٰه والرسول--- '' (۴) ''وهذا کتاب --- فاتبعوه--- لعلکم ترحمون'' (۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت ۲۰۸ (۲)۔ سورئہ مبارکہ مائدہ، آیت ۹۱

(۳)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت ۱۲۸ (۵)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت ۱۳۲

(۵)۔سورئہ مبارکہ انعام، آیت ۱۵۵

۱۱۰

۲۔ نماز کا قائم کرنا اور زکات کا ادا کرنا۔''اقیموا الصلوٰة واتو الزکاة--- لعلکم ترحمون'' (۱)

۳۔ مسلمانوں کے درمیان صلح و آشتی کرانا۔''فاصلحوا--- لعلکم ترحمون''

۵۔ استغفار اور توبہ۔''لولا تستغفرون اللّٰه لعلکم ترحمون'' (۲)

۵۔ غور سے قرآن کی تلاوت سننا''واذ اقرأ القرآن فاستمعوا له --- لعلکم ترحمون'' (۳)

روایات میں نزول رحمت کے عوامل:

٭ معصومین کی روایات میں بھی نزول رحمت کے عوامل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں سے چند ایک یہ ہیں:

۱۔ بیمار مومن کی عیادت کرنا:''مَن عَادَ مومِنًا خاض- الرَّحمة خوضًا'' (۴)

جو شخص بیمار مومن کی عیادت کے لیے جائے تو وہ شخص خدا کی مکمل رحمت کے زیر سایہ ہے۔

۲۔ کمزور اور ناتوان افراد کی مدد کرنا۔''اِرحموا ضُعفائکم واطلبوا الرحمة- ---،، (۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ نور، آیت ۵۶ (۲)۔ سورئہ مبارکہ نمل، آیت ۵۶

(۳)۔ سورئہ مبارکہ اعراف، آیت ۲۰۵ (۵)۔ وسائل الشیعہ، ج۲، ص ۵۱۵ (۵)۔ مستدرک، ج۹، ص ۵۵

۱۱۱

معاشی حوالے سے کمزور افراد پر رحم کرکے خدا کی رحمت کو طلب کرو۔

۳۔ روایات میں کثیر العیال افراد کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کو کہا گیا ہے خاص طور پر جن کی بیٹیاں زیادہ ہوں۔

۵۔ دعاو نماز، نرمی سے پیش آنا اور اپنے برادر دینی سے مصافحہ اور معانقہ کرنا بھی نزول رحمت کے اسباب ہیں۔(۱)

۵۔ لوگوں کی پریشانیوں کو دور کرنا۔ وہ افراد جو اپنی پریشانیوں کے حل کے لیے تمہارے پاس آئیں خدا کی رحمت میں انکی حاجت روائی کیے بغیر واپس نہ پلٹانا۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ وسائل الشیعہ، ج۷، ص ۳۱

(۲)۔کافی، ج۲، ص ۲۰۶

۱۱۲

آیت نمبر ۱۱

یٰأَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لَا یَسْخَرُ قَوْم مِّنْ قَوْمٍ عَسٰی أَنْ یّکُوْنوا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَآئ مِّنْ نِسَآئٍ عَسٰی أنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّج وَلَا تَلْمِزُوْآ أَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزوا بِالْأَلْقٰابِط بِئسَ الاِسْمُ الفُسُوقُ بَعْدَ الاِیْمٰانِج وَمَنْ لَّم یَتُبْ فَأُولٰئِکَ هُمُ الظّٰلِمُونَ-

ترجمہ:

اے ایمان والو! خبر دار کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اُڑائے کہ شاید کہ وہ اس سے بہتر ہو اور عورتوں کی بھی کوئی جماعت دوسری جماعت کا مسخرہ نہ کرے کہ شاید وہی عورتیں ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو طعنے بھی نہ دینا اور برے برے الفاظ سے بھی یاد نہ کرنا کہ ایمان کے بعد بدکاری کا نام ہی بہت برا ہے اور جو شخص بھی توبہ نہ کرے تو سمجھو کہ یہی لوگ درحقیقت ظالمین ہیں۔

نکات:

O کلمہ''لَمْز'' یعنی لوگوںکے سامنے ان کی عیب جوئی کرنا ، کلمہ''همز'' کے معنی پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنا ہے(۱) اور کلمہ''تَنَابز'' کے معنی دوسروں کو برے القاب سے پکارنا ہے۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ کتاب العین (۲)۔ لسان العرب

۱۱۳

O گزشتہ آیت میں اخوت و بردری کے بارے میں بحث ہوئی اور اس آیت میں ان چیزوں کا ذکر ہے جو اخوت و برادری کے راستہ میں رکاوٹ ہیں اور اسی طرح ماقبل کی آیات میں لڑائی جھگڑے اور صلح و صفا کی بات تھی تو اس آیت میں بعض ایسے عوامل کا ذکر ہے جو لڑائی جھگڑے کاسبب بنتے ہیں جیسے مذاق اڑانا ، تحقیر کرنا اور برے القاب سے پکارناہے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی برکات میں سے ایک معاشرہ کے ماحول کو پاک و پاکیزہ بنانا اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانے نیز ایک دوسرے کو برے ناموں سے پکارنے سے روکنا ہے۔

پیغامات:

۱۔ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو اُسے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ بندگان خدا کا مذاق اڑائے ۔''یٰاایُّهٰا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لَا یَسْخَرُ''

۲۔ جو شخص کسی کو لوگوں کی توہین کرنے سے روکنا چاہتا ہے تو اس کے روکنے میں توہین آمیز پہلو نہ ہو۔''یٰا ایُّهٰا الذّین امَنُولَا یَسْخَرُ قَوْم مِنْ قَوْمٍ '' یہی نہیں فرمایا:لَا تَسْخَروا کہ جس کے معنی یہ ہیں کہ تم مذاق اڑانے والے ہو۔

۳۔ مذاق اڑانا، فتنہ و فساد، کینہ پروری اور دشمنی کی کنجی ہے''لا یَسْخَر قَوْم---'' برادری اور صلح و آشتی بیان کرنے کے بعد مذاق اڑانے سے منع کیا ہے۔

۵۔ تبلیغ کا طریقہ کار یہ ہے کہ جہاں اہم مسئلہ بیان کرنا ہو یا مخاطبین میں ہر نوع کے افراد موجود ہوں تو وہاں مطالب کو ہر گروہ کے لیے تکرار کے ساتھ بیان کرنا

۱۱۴

چاہیے۔قومٍ من قومٍ وَلَا نِسَاء مِنْ نِسَآئٍ-

۵۔ تربیت اور وعظ و نصیحت کے دوران لوگوں میں سے فتنہ و فساد کی جڑ کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے- (عسیٰ اَنْ یکونوا خیرا ) مذاق اڑانے کی اصل وجہ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھناہے۔ قرآن مجید اس معاملے کو جڑ سے ختم کرنا چاہتا ہے اس لیے فرماتا ہے: تمہیں اپنے آپ کو دوسروں سے برتر نہیں سمجھنا چاہیئے شاید کہ وہ تم سے برتر ہوں۔

۶۔ ہم لوگوں کے باطن سے بے خبر ہیں اس لیے ہمیں ظاہر بین، سطحی نظر اور فقط موجودہ حالات پر نگا نہیں کرنی چاہیے۔(عسیٰ أَنْ یَکُونوا خَیْرًا---)

۷۔ سب لوگ ایک جوہر سے ہیں اس لیے لوگوں کی برائی کرنا دراصل اپنی برائی کرنا ہے ۔''وَلَا تَلْمِزُو أَنْفُسکُم''

۸۔ دوسروں کی عیب جوئی کرکے انہیں انتقام جوئی پر ابھارنا ہے تاکہ وہ بھی تمہارے عیب بیان کریںپس دوسروں کے عیب نقل کرنا در حقیقت اپنے عیوب کا انکشاف کرنا ہے( لَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَکُم)

۹۔ مذاق اڑانا یک طرفہ نہیں ہوتا ہے ممکن ہے کہ طرف مقابل بھی دیر یا جلد آپ کا مذاق اڑانا شروع کردے۔(و لَا تَنَابَزُوا کسی کام کے دو طرفہ انجام پانے کے لیے استعمال ہوتا ہے)

۱۰۔ اگر کسی کا مذاق اڑایا ہو یا اُسے برے نام سے پکارا ہو تو اس کے لیے توجہ کرنا ضروری ہے(من لم یَتُبْ فَأُولٰئِکَ هُمُ الظَّالِمُونَ ) البتہ یہ توبہ فقط زبانی نہ ہو

۱۱۵

بلکہ کسی کو تحقیر کرنے کی توبہ یہ ہے کہ جس کی تحقیر کے ہے اس کی تکریم کرنا ہوگی کسی حق کے چھپانے کی توبہ یہ ہوگی کے اُس حق کو ظاہر کیا جائے(تابو و اصلحوا و بیّنوا) (۱) فساد کرنے والے کی توبہ یہ ہے کہ وہ اپنے امور میں اصلاح کرے(تَابُوا واصلحوا )

۱۱۔ کسی کا مذاق اڑانا در حقیقت اس کے احترام پر تجاوز کرنا ہے اگر مذاق اڑانے والا توبہ نہ کرے تو وہ ظالم ہے(فَأُولٰئِکَ هُم الظَّالِمُونَ)

دوسروں کا مذاق اڑانا اور استہزاء کرنا:

O ظاہری طور پر استہزاء ایک گناہ دکھائی دیتا ہے لیکن درحقیقت وہ چند گناہوں کا مجموعہ ہے مثال کے طور پر مذاق اڑانے میں، تحقیر کرنا، ذلیل و خوار کرنا، کسی کے عیوب ظاہر کرنا، اختلاف ایجاد کرنا، غیبت کرنا، کینہ توزی، فتنہ و فساد پھیلانا، انتقام جوئی کی طرف مائل کرنا، اور طعنہ زنی جیسے گناہ پوشیدہ ہیں۔

مذاق اڑانے کی وجوہات:

۱۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ مال و دولت ہے قرآن مجید میں ہے''ویل لِکُلِّ هُمَزَة لُّمَزَةٍ ن الَّذِیْ جَمَعَ مٰالاً وَّعَدَّده '' (۲) وائے ہو اس پر جو اُس مال و دولت کی خا طر جو اس نے جمع کر رکھی ہے پیٹھ پیچھے انسان کی برائی کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ ۱۶۰

(۲)۔ سورئہ مبارکہ ھمزہ ۱۔۲

۱۱۶

۲۔ کبھی استہزاء اور تمسخر کی وجہ علم اور مختلف ڈگریاں ہوتی ہیں قرآن مجید نے اس گروہ کے بارے میں فرمایا:'' فَرِحُوا بِمَا عِنْدَ هُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَ حَاقَ بِهِمْ مَا کَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِؤُونَ '' (۱) اپنے علم کی بناء پر ناز کرنے لگے ہیں اور جس چیز کی وجہ سے وہ مذاق اڑا رہے تھے اُسی نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا۔

۳۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ جسمانی قوت و توانائی ہوتی ہے ۔ کفار کا کہنا تھا( مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةَ) (۲) کون ہے جو ہم سے زیادہ قوی ہے۔

۵۔ کبھی دوسروں کا مذاق اڑانے کی وجہ وہ القاب اور عناوین ہوتے ہیں جنہیں معاشرہ میں اچھا نہیں سمجھتا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کفار ان غریب لوگوں کو جو انبیاء کا ساتھ دیتے تھے حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے اور کہتے تھے:''مَا نَراکَ اتَّبَعکَ اِلّا الَّذِیْنَ هُمْ اَرذِلْنَا'' (۳)

ہم آپ کے پیرو کاروں میں صرف پست اور ذلیل افراد ہی دیکھ رہے ہیں۔

۵۔ کبھی مذاق اڑانے کی علت تفریح ہوتی ہے۔

۶۔ کبھی مال و مقام کی حرص و لالچ کی وجہ سے تنقید تمسخر کی صورت اختیار کرلیتی ہے مثال کے طور پر ایک گروہ زکوٰة کی تقسیم بندی پر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عیب جوئی کرتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ غافر ۸۳

(۲)۔ سورئہ مبارکہ فصلت ۱۵

(۳)۔ سورئہ مبارکہ ھود ۲۷

۱۱۷

قرآن مجید میں ارشاد ہوا:''وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَلْمِزْکَ فِی الصَّدَقاتِ فَاِنْ أُعْطُوا مِنْهٰا رَضُوا وَ اِنْ لَمْ یُعْطَوْا مِنْهٰا اِذَا هُمْ یَسْخَطُونَ'' (۱) اس تنقید کی وجہ طمع اور لالچ ہے کہ اگر اسی زکوٰة میں سے تم خود ان کو دیدو تو یہ تم سے راضی ہوجائیں گے لیکن اگر انہیں نہیں دو گے تو وہ آپ سے ناراض ہوکر عیب جوئی کریں گے۔

۷۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ جہل و نادانی ہے۔ جیسے جناب موسی ـ نے جب گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو بنی اسرائیل کہنے لگے کیا تم مذاق اڑا رہے ہو؟ جناب موسی ـنے فرمایا:''أَعُوذُ بِاللّٰهِ أَنْ أَکُونَ مِنَ الجٰاهِلِیْنَ'' (۲) خدا کی پناہ جو میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں۔یعنی مذاق اڑانے کی وجہ جہالت ہوتی ہے اور میں جاہل نہیں ہوں۔

نا چاہتے ہوئے تحقیر کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے ایک صحابی سے پوچھا اپنے مال کی زکوٰة کیسے دیتے ہو؟ اس نے کہا: فقراء میرے پاس آتے ہیں اور میں انہیں دے دیتا ہوں۔

امام ـ نے فرمایا: آگاہ ہوجاؤتم نے انہیں ذلیل کیا ہے آئندہ ایسانہ کرنا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جو بھی میرے دوست کو ذلیل کرے گا گویا وہ مجھ سے جنگ کے لیے آمادہ ہے۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ توبہ ۵۸

(۲)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ ۶۷

(۳)۔مستدرک الوسائل ج/۹، ص ۱۰۵

۱۱۸

تمسخر اور مذاق اُڑانے کے مراتب:

O جس کا مذاق اڑایا جارہا ہو وہ جس قدر مقدس ہوگا اس سے مذاق بھی اتنا ہی خطرناک ترہوگا قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے''أ باللّٰه و آیاتِه وَ رَسُولِهِ کنتم تَسْتَهْزِؤُنَ'' (۱)

کیا تم اللہ، قرآن اور رسول کا مذاق اڑا رہے ہو۔

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر سب مشرکین کو معاف کردیا سوائے ان لوگوں کے جن کا کام عیب جوئی اور مذاق اڑانا تھا۔

O حدیث میں ہے کہ مومن کو ذلیل کرنا خدا کے ساتھ اعلان جنگ کے مترادف ہے۔(۲)

مذاق اڑانے کا انجام:

O آیات و روایات کی روشنی میں بری عاقبت مذاق اڑانے والوں کا انتظار کررہی ہے من جملہ:

الف: سورئہ مطففین میں ہے کہ جو لوگ دنیا میں مومنین پر ہنستے تھے، انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے روز قیامت اہل جنت انہیں

حقارت کی نگاہ سے دیکھیں گے اور ان پر ہنسیں گے۔''فَالْیَوْمَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا مِنَ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ توبہ ۶۵ (۲)۔ وسائل الشیعہ ج/ ۱۲،ص۲۷۰

۱۱۹

الکُفَّارِ یَضْحَکُونَ'' (۱)

ب: کبھی کبھی اڑانے والوں کو اسی دنیا میں سزا مل جاتی ہے۔'' اِنْ تسخَرُوا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرو مِنکُمْ کما تَسْخَرُونَ'' (۲)

ج: قیامت کا دن مذاق اڑانے والوں کے لیے حیرت کا دن ہوگا''یَا حَسْرَةً عَلٰی العِبٰادَ مَا یَا تِیْهِمْ مِّنْ رَّسُولٍ اِلَّا کَانُوا بِه یَسْتَهْزَئُ ونَ'' (۳)

د: حدیث میں ہے کہ مذاق اڑانے والے کی جان کنی نہایت سخت ہوگی۔''مَاتَ بِشَرّ مَیْتَه'' (۴)

ھ: حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: اگر کوئی شخص مومنین پر طعنہ زنی کرتا ہے یا انکی بات کو رد کرتا ہے تو گویا اس نے خدا کو رد کیا ہے۔(۵)

یاد داشت:

Oرسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جہاں اور بہت سے کام انجام دیئے وہاں ایک کام یہ کیا کہ لوگوں اور علاقوں کے وہ نام تبدیل کردیئے جو برے مفاہیم رکھتے تھے(۶) کیوں کہ برے نام لوگوں کی تحقیر اور تمسخر کا باعث بنتے تھے۔

Oایک روز جناب عقیل ـمعاویہ کے پاس گئے تو معاویہ نے آپ کی تحقیر کی غرض

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ مطففین ۳۵ (۲)۔ سورئہ مبارکہ ہود ۳۸

(۳)۔ سورئہ مبارکہ یس ۳۰ (۵)۔ بحار الانوار ج۷۲ ص ۱۵۵

(۵)۔ وسائل الشیعہ ج۱۳، ص ۲۷۰ (۶)۔ اسد الغابہ ج۳، ص ۷۶، ج۵ ص۳۶۲

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160