آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)25%

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات) مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 160

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 160 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 128012 / ڈاؤنلوڈ: 5247
سائز سائز سائز
آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

آخری سانس تک زندگی سے استفادہ کریں

ہمیں آخری سانس اور آ خری لحظہ تک اپنے وظیفہ کو انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیئے اور اپنی زندگی کے لحظات کو ایسے امور میں ضائع نہ کریں  کہ جن میں خدا کی رضایت شامل نہ ہو ۔

حضرت امیر المو منین  (ع) فرما تے ہیں :

'' انّ انفا سک اجزاء عمرک ، فلا تفنها الاَّ فی طاعةٍ تزلفک ''(1)

تمہاری سانسیں تمہاری زندگی کے اجزا ء ہیں لہذا انہیں ضائع نہ کریں مگر ایسی عبادت میں کہ جوتمہارے لئے بیشتر تقرب کا باعث بنے۔

ہمارے بزرگان نے زندگی کے آخری لمحات اور آخری سانسوں تک فرصت اور وقت سے  بہترین استفادہ کیا ۔

شیعہ تاریخ  کے علماء و بزرگ شخصیات میں سے بر جستہ شخصیت آیت اللہ العظمیٰ حاج سید محمد حجت ایسے افراد میں سے تہے ۔

مرحوم آیت اللہ العظمیٰ شیخ مرتضی حائری اس بزرگوار کے بارے میں یوں لکہتے ہیں کہ وہ آیت اللہ العظمیٰ بروجردی  کے زمان میں تقریباً مرجع مطلق یا اکثر آذر بائیجان کے مرجع تہے تہران میں مقیم آذر بائیجانی اور بعض غیر آذر بائیجانی ان کی طرف مراجعہ کرتے تہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ غرر الحکم :ج2  ص9 9 4

۱۰۱

جس سال سردیوں کے اوائل میں وہ مرحوم ہوئے ، اس وقت موسم ابہی تک مکمل طور پر سرد نہیں ہوا تہا ، وہ گہر کی تعمیر میں مشغول تہے گہر کے ایک حصے کو توڑ چکے تہے تا کہ جدید گہر تعمیر کر سکیں اور گہر کے دوسرے حصے میں کاریگر دوسرے کاموں میں مصروف تہے جیسے کنویں کی کہودائی یا اس میں پتہر لگانا ، ان تعمیرات کے بانی ان کے ایک ارادتمند تہے ۔ ایک دن صبح کے وقت ان کی خدمت میں حاضر ہوا وہ تخت پر تشریف فرما تہے اور ان کی حالت عادی تہی وہ اکثر دمہ کی وجہ سے سر دیوں میں نفس تنگی کا شکار ہوتے تہے لیکن اس وقت سرد موسم کے باوجود ان کی حالت عادی و معمول کے مطابق تہی ۔ مجہے اطلاع ملی کہ انہوں نے ٹہیکے دار اور دیگر کاریگر وں کو کام سے فارغ کر دیا ہے ۔ میں نے کہا کہ آغا آپ نے انہیں کیوں جواب دے دیا ؟ انہوں نے بڑے وثوق و صراحت سے کہا کہ ! مجہے لگتا ہے کہ میں مرجاؤں گا تو پہر یہ گہر کی تعمیر کس لئے ؟

پہر میں نے بہی کچہ نہ کہا دوسرے دن شاید بروز چہار شنبہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا سید احمد زنجانی ان کے پاس بیٹہے تہے انہوں نے جائیداد کے کاغذات و اسناد آغا زنجانی کو دیئے اور ایک  چہوٹے صندوق میں پڑہی نقد رقم مجہے دی کہ اسے معین مصارف میں صرف کرو ں اور اس میں سے کچہ حصہ مجہے عطا فرمایا ۔

اس سے پہلے انہو ں نے وصیت کو چند نسخوں میں لکہا تہا کہ جن میں سے ایک انہوں نے مجہے بہیجوا یا تہا جواب بہی موجود ہے ۔ انہوں نے وصیت کی تہی کہ ان کے اور ان کے وکلا کے پاس تمام موجود رقم سہم امام ہے ۔

انہوں نے  جو زمین مدرسہ کے نام پر خریدی تہی ، وہ ان کے نام پر تہی کہ جس کا یک بڑا حصہ بعد میں آغا بروجردی کی مسجد میں شامل ہو گیا انہوں نے وصیت نامہ لکہا تہا کہ وہ زمین بہی سہم مبارک امام سے جو ارث میں نہیں دی جاسکتی اور اگر آغا بروجردی نے چا ہا تو انہیں مسجد کے لئے دے دیں ۔

۱۰۲

ان کی رقم وہ ہی صندوق میں موجود رقم میں ہی منحصر تہی اور چند دن سے وجوہات شرعیہ نہیں لیتے تہے انہوں نے جب وہ رقم مجہے دی کہ میں وہ ان کے موارد میں صرف کروں تو انہوں نے آسمان کی طرف ہاتہ بلند کئے اور کہا کہ خدا یا میں نے اپنی تکلیف  پر عمل کیا اب تو میری موت کو پہنچا دے ۔

میں نے ان کی طرف دیکہا  اور کہا کہ آغا آپ ویسے ہی اس قدر ڈر رہے ہیں آپ ہر سال سردیوں میں اسی بیماری میں مبتلا ہو تے ہیں اور پہر ٹہیک ہو جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ نہیں میں ظہر کے وقت فوت ہو جاؤں گا میں خاموش رہا اور ان کے فرمان کے مطابق کاموں کو انجام دینے کے لئے نکل پڑا میرے دل میں خیال آیا کہ کہیں یہ اسی دن ظہر کے وقت وفات نہ پاجائیں اور ان پیسوں کے بارے میں تکلیف معلوم نہ ہو کہ کیا ورثہ کو دیں یا ان موارد میں خرچ کریں ۔ اسی شک میں میں سوار ہوا اور ظہر تک ان کو انجام دیا وہ اس دن ظہر کے وقت فوت نہ ہوئے بلکہ اس چہار شنبہ کے بعد آنے والے ہفتہ کو ظہر کے وقت اپنے خالق حقیقی سے جاملے میں گہر سے باہر آیا تو اسی وقت مدرسہ حجتیہ سے اذان کی صدا بلند تہی  ۔

انہیں راتوں میں سے ایک رات انہوں نے مجہے کہا کہ مجہے قرآن دو انہوں نے قرآن کہو لا تو  پہلے  صفحہ پر یہ آیت شریفہ تہی ، '' لہ دعوة الحق '' ظاہراً انہوں نے گریہ کیا اور انہوں نے اسی رات یا دوسری رات اپنی مہر توڑدی ۔

وفات کے نزدیک ایک دن وہ اپنی آنکہیں دروازے پر لگائے بیٹہے تہے اور ایسے لگتا تہا کہ وہ کسی چیز کا مشاہدہ فر ما رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا ! آغا علی تشریف لائیں لیکن کچہ دیر بعد وہ عادی حالت  پہ واپس آگئے ۔ آخری دوتین دن وہ ذکر اور خدا  سے راز ونیاز میں زیادہ مشغول ہوتے تہے ۔

۱۰۳

ان کی وفات کے دن میں نے بڑے اطمینان سے گہر میں مکاسب کا درس دیا اور پہر ان کے چہوٹے کمرے میں گیا کہ جہاں وہ لیٹے تہے ۔ اس وقت فقط ان کی بیٹی وہاں موجود تہی کہ جومیری زوجہ بہی تہیں لیکن آغا کا چہرہ دیوار کی طرف تہا اور وہ ذکر  و دعا میں مشغول تہے ۔ انہوں نے کہا کہ آغا آج کچہ مضطرب ہیں ظاہراً ان کے اضطراب کی دلیل وہ ہی زیادہ ذکر و دعا تہا میں نے سلام کیا انہوں نے میرے سلام کاجواب دیا ور کہا آج کیا دن ہے میں نے کہا ، ہفتہ ، انہوں نے فر مایا کہ آج آغابروجردی درس پہ گئے تہے ؟ میں نے کہا جی ہاں ، انہوں نے صمیم قلب سے چند بار کہا ۔ الحمد للہ ۔

غرض یہ کہ ان کی بیٹی نے کہا کہ انہیں تہوڑی سی تربت امام حسین (ع)  دیں ۔ میں نے کہا ٹہیک ہے وہ تربت لائیں میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ نوش فرمائیں وہ بیٹہ گئے میں ان کے سامنے گلاس لے گیا انہوں نے سو چا غذا یا دوا ہے انہوں  نے کچہ تلخ لہجے میں کہا یہ کیا ہے ؟ میں  نے کہا ، تربت امام حسین  ۔ ان کا چہرہ کہل گیا اور تربت اور پانی نوش فرمایا اس کے بعد میں نے ان سے یہ کلمہ سنا کہ  انہوں نے کہا'' آخر زادی من الدنیا تربة الحسین '' دنیا سے میرا آخری توشہ تربت امام حسین (ع)  ہے۔ وہ دوبارہ لیٹ گئے میں نے دوسری مرتبہ ان کی فرمائش پر دعاء عدیلہ قرائت کی ۔ ان کے دوسرے بیٹے آغا سید حسن رو بہ قبلہ بیٹہے تہے اور آغا تکیہ سے ٹیک لگا کر بیٹہے ہوئے پڑہ رہے تہے اور وہ خدا وند متعال کے سامنے بڑی شدت اور صمیمیت سے اپنے عقائد کا اظہار کر رہے تہے ۔

مجہے یاد ہے کہ وہ امیر المو منین علی(ع)  کی خدمت کے اقرار کے بعد ترکی زبان میں یہ کہہ رہے تہے :بلافصل ، ہیچ فصلی یخدی ، لاپ بلا فصل لاپ بلا فصل ، کیمین بلا فصل وار؟

۱۰۴

آئمہ معصو مین علیہم السلام کے بارے میں انہوں نے اس آیت کی تلاوت فرمائی '' الم تر کیف ضرب اللّٰه مثلاً کلمةً طیّبةً کشجرةٍ طیّبةٍ اصلها ثابت و فرعها فی السماء ''(1)

کیا تم نے نہیں دیکہا کہ اللہ نے کس طرح کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ سے بیان کی ہے جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخ آسمان تک پہنچی ہوئی ہے ۔

میں وہاں کہڑا اس معنو ی منظر کا مشاہدہ کر رہا تہا میرے ذہن میں آیا کہ ا ن سے کہوں کہ آغا میرے لئے بہی دعا فرمائیں لیکن شرم مانع ہوئی کیو نکہ وہ اپنے حال میں مشغول تہے اور کسی دوسری جانب متوجہ نہیں تہے کیو نکہ وہ موت سے پہلے اپنے خدا کے  ساتہ راز ونیاز کر رہے تہے اور معنوی وظائف انجام دے رہے تہے اور ثانیاً یہ تقا ضا کرنا اس چیز کی طرف اشارہ تہا کہ ہم بہی آغا کی موت کی طرف متوجہ ہیں اور ان کی موت کے سامنے تسلیم ہو چکے ہیں ۔

میں خاموشی سے کہڑا اس ماجرا کو دیکہ رہا تہا وہاں آغا سید حسن ، ان کی بیٹی اور خاندان کے دوسرے افراد موجود تہے۔ میں نے یہ بہی سنا کہ آغا کہہ رہے تہے ! خدا یا میرے تمام عقائد حاضر ہیں وہ تمام تجہے سپرد کر دیئے اب مجہے لوٹا دو ۔

میں وہیں کہڑا ہوا تہا اور وہ بہی اسی حالت میں تکیہ پر ٹیک لگائے رو بہ قبلہ

بیٹہ تہے  ۔ اچانک انکی سانس رک گئی ہم نے سوچا کہ شاید ان کا دل بند ہوا ہے ہم نے ان کے منہ میں کرامین کے چند قطرے ڈالے لیکن دوا ان کی لبوں کی اطراف سے باہر نکل آئی ۔ وہ اسی وقت وفات پاگئے تہے اس پانی اور تربت امام حسین  کے بعد کرامین کے چند قطرے بہی ان کے حلق تک نہیں پہنچے تہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ ابراہیم آیت: 4 2

۱۰۵

مجہے یقین ہوگیا کہ آغا فوت ہوگئے ہیں میں گہر سے باہر آیا تو مدرسہ حجتیہ سے اذان کی آواز سنی   ان کی وفات اول ظہر کے قریب تہی جس کے بارے میں انہوں نے چہار شنبہ کو کہاتہا کہ میری موت ظہر کے وقت واقع ہو گی ۔

یہ مرد بزرگوار وہ تہے کہ جنہوں نے زندگی کے اس سفر میں ، سفر کی تمام قید و شرط کی رعایت کی اور وجوہات شرعیہ کے مصرف کو بہی کاملاً واضح کرد یا کہ اس میں ورثہ کو کچہ بہی نہ ملا ۔

ایک ایمان محکم شخص کی یہ گزشتہ داستان چند چیزوں پر مشتمل ہے :

1 ۔ ان کا ظہر کے وقت اپنی  موت کے بارے میں خبر دینا اور پہر حقیقتاً ان کی موت ظہر کے وقت واقع ہوئی ۔

2 ۔ وہ مکاشفہ کہ جس میں انہوں نے حضرت امیر المو منین(ع)  کو دیکہا تہا ۔

3 ۔ ان کا یہ خبر دینا کہ ان کا آخری توشہ تربت امام حسین  (ع)ہو گا اور پہر ایسا ہی ہوا  ۔

مرحوم آیة اللہ العظمیٰ آغا حجت مو لا امیر المومنین (ع) کے فرمان کے واضح مصداق ہیں کہ :

'' انّ انفاسک اجزاء عمرک فلا تفنها الاَّ فی طاعة تزلفک ''

انہوں نے زندگی کے آخری لمحے اور آخری سانس کو راہ عبادت اور اطاعت خداوند میں بسر کیا ۔

جولوگ شیعہ  بزرگوںکی زندگی سے درس لیتے ہیں وہ آخری لحظہ تک مقام عبودیت اور اپنی  ذمہ  داری  کو انجام دیتے ہیں آخرت میں خداوند کریم کا خاص لطف ان کے شامل حال ہو گا ور اہل بیت  علیہم  السلام  کے جوار رحمت میں قرار پائیں گے ۔

۱۰۶

نتیجہ ٔ بحث

وقت اہم ترین نعمت ہے کہ جو خداوند تعالیٰ نے آپ کو عنایت کی ہے یہ آپ کی زندگی اور وجود کا بہترین اور بزرگترین سرمایہ ہے اسے بہترین راہ اور عالی ترین ہدف میں مصرف کریں ۔

آپ کی موجودہ وضعیت ، آپ کے گزشتہ اعمال و کردار کا نتیجہ و محصول ہے اور آپ کا مستقبل ، آپ کے حال کی رفتار و کردار کا ثمرہ ہوگا ۔

اگر آپ ارزشمند اور اعلیٰ اہداف کے خواہاں ہیں اگر آپ روشن مستقبل کے امید وار ہیں تو اپنے وقت کو فضول ضائع نہ کریں ۔

آپ متوجہ رہیں کہ اگر آپ نے اپنے ماضی سے استفادہ نہ کیا ہو اور آپ کو گزرے ہوئے کل پر افسوس ہو تو آپ اب اس طرح سے زندگی بسر کریں کہ آپ کو آئندہ اپنے آج پر شرمندگی و افسوس نہ ہو ۔

جستجو اور کوشش کے ذریعہ اپنے ماضی کا جبران اور باقی ماندہ فرصت سے بہترین طریقے سے استفادہ کریں اورجو لوگ اپنے گزرے ہوئے وقت سے درس عبرت  لیتے ہیں اپنے لئے درخشاں اور روشن مستقبل کا انتخاب کرتے ہیں ۔

قدر وقت از نشناشی تو و کاری نکنی

پس خجالت کہ از این حاصل اوقات بری

اگر آپ وقت کی قدر و اہمیت کو نہیںپہچانیں گے اور کوئی کام انجام نہیں دیں گے تو وقت ضائع کرنے کے بعد صرف شرمندگی حاصل ہو گی ۔

۱۰۷

ساتواں باب

اہل تقویٰ کی صحبت

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

''  اکثر  الصّلاح و الصّواب فی صحبة اولی النهیٰ والا لباب ''

اکثر و بیشتر اصلاح اور درستی صاحبان عقل و خرد کی صحبت میں ہے ۔ ۔

    صالحین سے ہمنشینی کی اہمیت کا راز

    جن افراد کی صحبت روح کی تقویت کا باعث ہے

   1 ۔ علماء ربانی کی صحبت

   2 ۔ صالحین کی صحبت

    اپنے ہمنشینوں کو پہچانیں

    جن افراد کی صحبت ترقی کی راہ میں رکاوٹ

   1 ۔ چہوٹی سوچ کے مالک افراد کی صحبت

   2 ۔ گمراہوں کی صحبت

   3 ۔ خواہش پرستوں کی صحبت

    ۴ ۔ شکّی لوگوں کی صحبت

    نتیجۂ بحث

۱۰۸

صالحین سے ہمنشینی کی اہمیت کا راز

معنوی مقاصد تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہیں لیکن ان میں سے کون سا راستہ اہم ترین ہے کہ جو انسان کو جلد منزل و مقصد تک پہنچا دے ۔

اس بارے میں مختلف عقائد و نظریات ہیں ہر گروہ کسی راہ کو اقرب الطرق کے عنوان سے قبول کرتاہے اور اسے نزدیک ترین ، بہتر اور سریع ترین راہ سمجہتے ہیں ان میں سے بعض نیک اور صالح افراد کے ساتہ ہمنشینی کو اقرب الطرق سمجہتے ہیں ۔

ان میںسے جو نظریہ صحیح لگتاہے وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے ہمنشینی کہ جو خدا کو خدا کے لئے چاہیں نہ کہ اپنے لئے ، اور ان کی صحبت کہ جو اپنے اندر حقیقت ایمان کو واقعیت کے مرحلہ تک پہنچا ئیں ۔ یہ فوق العادہ اثر رکہتا ہے ۔

اسی وجہ سے کائنات کے پہلے مظلوم حضرت امیر المو منین(ع)  اپنے دل نشین کلام میں فرماتے ہیں :

'' لیس شیء اوعیٰ لخیر و انجیٰ من شرّ من صحبة الاخیار '' (1)

اچہے افراد کی صحبت سے بڑہ کر کوئی ایسی چیز نہیں کہ جو انسان کو بیشتر خوبیوں کی دعوت دے اور برائیوں  سے نجات دے  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ شرح غر ر الحکم :ج5ص  87

۱۰۹

کیو نکہ معاشرے کے شریف اور صالح افراد کے ساتہ بیٹہنا انسان کے لئے شرف و ہدایت کا باعث ہوتا ہے جو زنگ آلود دلوں کو صاف اور منور کر تا ہے اور انسان کو معنویت کی طرف مائل کرتاہے ۔

حضرت امام زین العابدین (ع) فر ماتے ہیں :

'' مجالسة الصالحین داعیة الی الصلاح '' (1)

صالح افراد کی صحبت انسان کو صلاح کی دعوت دیتی ہے  ۔

ایسے افراد میں معنوی قوت و طاقت ، ان کے ہمنشین حضرات میں بہی نفوذ کرتی ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتہ ان کے اعمال و کردار و رفتار ان ہی کی مانند ہو جاتے ہیں ۔

کبہی ایسے افراد کا دوسروں میں معنوی نفوذ جلد ہو تا ہے جس میں طولانی مدت کی صحبت کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ بلکہ ایک نشست یا ایک نگاہ یا ایک دلنشین جملہ دوسروں کی فکر ی و اعتقادی وضعیت کو بدل کر ان میں حیات جاویداں ایجاد کر تا ہے ۔

جی ہاں ، نیک افراد کے مجمع میں دوسرے بہی ان سے معطر ہو کر نیک اور اچہے لوگوں کی صف میں آجاتے ہیں نیک لوگوں کی نورانیت و پاکیزگی دوسروں پر بہی اثر انداز ہوتی ہے اور ان کے قلب کی آلودگی و ظلمت کو دور کر کے اپنی طرف جذب کر تی ہے۔

نیک اور پاکیزہ افراد کی صحبت سے قلب کی پاکیزگی میں اضافہ ہو تا ہے ۔ اچہے لوگوں کے ساتہ رہنا اچہائی سکہا تا ہے اور نیک اور خود ساختہ افراد کے ہمراہ رہنا ، انسان بناتا ہے اور ان پر ہونے والی توجہات ان کے ہمراہ رہنے والوں کو بہی شامل ہو تی ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ اصول کافی:ج 1ص  20

۱۱۰

یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کی طرف دعاؤں میں بہی اشارہ ہواہے ۔ مرحوم شیخ مفید   کتاب مزار میں ایک دعانقل فرماتے ہیں کہ آئمہ معصومین  کی زیارت کے بعد اس دعا کو پڑہنا مستحب ہےاوراس دعا کے ایک حصے میں یوں بیان ہو اہے :

'' یا ولیّ اللّٰه عزّ و جلّ حظّی من زیارتک تخلیطی بخالصی زوّارک الّذین تسأل اللّٰه عزّ و جلّ فی عتق رقابهم و ترغب الیه فی حسن ثوابهم ''

اے ولی خدا ! اپنی زیارت سے مجہے اپنے خالص زوار وں میں سے قرار دے   کہ جن افراد کی خداوند کریم سے آزادی چاہتے ہو اور جن کے لئے خدا سے نیک ثواب اور جن کے لئے خدا کی رغبت چاہتے ہو ۔ ۔

جس طرح خشک و تر ایک ساتہ جل جاتے ہیں جس طرح پہول اور کانٹے ایک ہی چشمہ سے سیراب ہو تے ہیں جس طرح باغبان کی گلستان پر پڑنے والی محبت آمیز نگاہ میں باغ میں موجود کانٹوں کو بہی شامل کر تی ہے اور پہول کی خوشبو سے کانٹے بہی معطر ہو جاتے ہیں جس طرح پہول فروخت کرنے والے پہول کو کانٹوںکے ساتہ فروخت کر تے ہیں اسی طرح خریدار بہی پہول کو کانٹوں سمیت خرید تا ہے اسی طرح جو نیک افراد کی خدمت میں حاضر ہو وہ ان پر پڑنے والے تابناک انوار سے بہی بہرہ مند ہو تا ہے ۔

اسی لئے زیارت کے بعد پڑہی جانے والی دعامیں امام  کی خدمت میں عرض کر تے ہیں کہ اے ولی خدا ! مجہے اپنی زیارت سے اپنے خالص زوار وں میں سے قرار دے ۔

نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹہنا ایک ایسے نسخہ کیمیا کی مانند ہے کہ جو اولیاء خدا کے اطراف بدن میں موجود ہو تا ہے کہ جو ان کے ہمراہ اور ان کی صحبت میں بیٹہنے والے شخص میں موجود ضعف کو ختم کرکے اسے شہامت و ا چہائی عطا کر تے ہیں اسے بال و پر عطا کر تے ہیں تاکہ وہ معنویت کی بیکراں فضا میں پرواز کر سکے اور عالم معنی کی لذّتوں سے مستفید ہو ۔

۱۱۱

انسان ایک دوسرے کی صحبت اور ہمنشینی سے ایک دوسرے پر مثبت و منفی اثرات مرتب کر تا ہے  انسان کی نفسیات اور اعتقا دات مختلف ہو تے ہیں جس کی وجہ سے ان میں کیفیت کے لحاظ  سے بہت  تفاوت ہو تا ہے ۔ اسی طرح ان افراد میں ایک دوسرے پر اثر گزاری کی مقدار و کمیت کے لحاظ سے بہی درجات کا اختلاف ہو تا ہے ۔

افراد کی ایک دوسرے سے مصاحبت ، ہمنشینی اور رفاقت سے افراد کی فکری اور اعتقادی خصوصیات ایک دوسرے کی طرف منتقل ہو تی ہیں ۔

عام طور پر صاحب یقین افراد دوسروں پر زیادہ اثر چہوڑ تے ہیں کیو نکہ یہ ارادہ و نفوذ رکہتے ہیں لہذا یہ اپنی فکری اور اعتقادی خصوصیات دوسروں میں ایجاد کر تے ہیں یا انہیں تقویت دیتے ہیں ۔ معنوی افراد کی صحبت ، صرف مقابل کی فکری خصو صیات میں تحول ایجاد کر تا ہے اور غیر سالم اور غلط افکار کو صحیح اعتقادات میں تبدیل کر تا ہے لیکن یہ ایک قانون کلی ہے کیو نکہ جس طرح دین ایک آگاہ و عالم شخصیت کو دستور دیتا ہے کہ جاہل اور نا آگاہ افراد میں جا کر انہیں دین و مذہب کی طرف لائیں اور انہیں تشیع کے حیات بخش دستورات سے آشنا کروا ئیں ۔ اسی طرح وہ دستور و حکم دیتا ہے کہ پست اور منحرف افراد سے ہمنشینی سے دور رہو کہ جب ان کے ساتہ آمد و رفت تم پر اثر انداز ہو ۔

یہ تشخیص دینا عالم اور با خبر شخص کی  ذمہ  داری ہے کہ جاہل افراد کی ہمنشینی کس حد تک منفی یا مثبت اثرات رکہتی ہے ؟ کیا وہ دوسروں میں نفوذ کر تا ہے اور ان افکار و عقائد کو کمال کی طر ف لے جارہا ہے یا ان کی نفسیات اس پر مسلط ہو چکی ہے اور ان کی صحبت اس پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہے؟ کیا وہ دوسروں پر اثر انداز ہو رہا ہے یا دوسرے اس پر اثر انداز ہو رہے ہیں ؟

لہذا اہل علم کا یہ وظیفہ و ذمہ داری ہے کہ وہ لو گوں کو تبلیغ کریں اور اپنے روحانی و نفسانی حالات کی جانب بہی متوجہ رہیں تاکہ دوسروں کے تحت تاثیر قرار نہ پائیں ۔

۱۱۲

جن افراد کی صحبت روح کی تقویت کا باعث ہے

ہم جلد ایسے افراد کے بارے میں بحث کریں گے کہ جن کی صحبت انسان کی علمی و عملی ترقی کے لئے نقصان دہ ہے اب ہم نمونہ کے طور پر چند ایسے افراد کا ذکر کر تے ہیں کہ جن کی صحبت اور ہمنشینی معنوی سیر اور پرواز کا باعث ہے :

1 ۔ علماء ربانی کی صحبت

ان افراد کی صحبت اور ہمنشینی کے بہت زیادہ آثار اور فوائد ہیں مخصوصا اگر انسان ان کے لئے خاص احترام و محبت کا قائل ہو ۔

پیغمبر اکرم(ص) فرماتے ہیں :

'' لا تجلسوا عند کلّ عالمٍ الاَّ عالم یدعوکم الی الاخلاص '' (1)

ہر عالم کے پاس نہ بیٹہو مگر اس عالم کے پاس کہ جو تمہیں ریا سے روکے اور اخلاص کی طرف لے کر جائے ۔

جو آپ کوصحیح راستہ کی طرف لے جا کر اللہ کی طرف دعوت دے اس کی رہنمائی اور گفتار کا ہدف اپنی طرف دعوت دینا نہیں ہے ۔ ایسے ربانی علماء کی صحبت آپ پر اثر انداز ہو گی اور آپ کو اہل بیت  کے نورانی معارف سے آشنا کر ے گی وہ تمہارے دل کو خاندان وحی کی محبت سے پیوند لگا دیں گے اور تمہیں منافقین تاریخ کی کالی کر توتوں سے آگاہ کر کے تمہارے دلوں میں ان کے لئے نفرت کو زیادہ کریں گے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]بحار الانوار:ج 1  ص5 20۔

۱۱۳

2 ۔ صالحین کی صحبت

پیغمبر اکرم(ص) اپنے ارشادات میں مجالست و مصاحبت کے مورد میں اپنے محبوں اور دوستوں کی رہنمائی فرماتے ہیں اور انہیں تاکید فرماتے ہیں کہ پر ہیز گار اورمو من افراد میں سے اپنے ہمنشینی منتخب کریں اور بے ہدف اور دنیا پرست افراد کی صحبت سے پر ہیز کریں ۔ آپ  نے اپنے ایک مفصل ارشاد میں عبد اللہ بن مسعود  سے  یوں فرمایا :

'' یابن مسعود فلیکن جلساؤک الا برار واخوانک الا تقیاء والزّهاد ، لانّ اللّٰ هتعالیٰ قال فی کتاب ه: الاخلاَّئ یو مئذٍ بعضهم لبعضٍ عدوّ والاَّ المتّقین ''(1)

اے ابن مسعود ، تمہارے ہمنشین نیک افراد ہوں او ر تمہارے بہائی متقی اور زاہد ہوں کیو نکہ خداوند تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے : آج کے دن صاحبان تقویٰ کے علاوہ تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجا ئیں گے  ۔

رسول اکرم(ص) نے  جناب ابوذر کو کی گئی وصیت میں ارشاد فرمایا :

'' یا اباذر لا تصاحب الاَّ مومناً '' (2)

اے ابوذر ! اپنے لئے کسی مصاحب کو منتخب نہ کرو ، مگر یہ کہ وہ مومن ہو  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ زخرف ، آ یت 67 ، بحار الا نوار:ج 77ص  2 10

[2]۔ بحار الانوار:ج 77ص  86

۱۱۴

کیو نکہ زندگی کا لطف ، اولیاء خدا اور نیک لو گوں کی صحبت میں ہے حضرت امیر المومنین  اپنے ایک حیات بخش فرمان میں رسول(ص) سے فرماتے ہیں :

'' هل احبّ الحیاة الاَّ بخدمتک والتّصرّف بین امرک و نهیک ولمحبّة اولیائک ''(1)

کیا زندگی کو دوست رکہتا ہوں مگر آپ کی خدمت ، آپ کے امر و نہی کی اطاعت اور آپ نے اولیا ء  و محبین سے محبت کے لئے ؟ 

دنیا کی ارزش و اہمیت صرف اولیاء  خدا ور نیک و خود ساختہ افراد کی وجہ سے ہے ورنہ زندگی صرف رنج و غم کا نام ہے جیسا کہ حضرت امیر المومنین کی نظر میں دنیا کی کوئی ارزش و واقعیت نہیں ہے زندگی میں کچہ بے ارزش ، رنج آور اور نا راحت کرنے والے و اقعات ہو تے ہیں لہذا صرف اولیاء خدا کا وجود ہی خدا کے بندوں کے لئے دنیا میں زندگی گزار نے کا سبب ہے نہ کہ دنیا کی زرق برق رونقیں اس بناء پر خدا کے بندوں کے لئے جو چیز دنیا میں زندگی بسر کرنے کو شیریں بنا تی ہے وہ اولیاء خدا اور نیک لوگوں کا وجود ہے کہ جن کی صحبت انسان کے دل میں یاد خدا اور اہل بیت  کو زندہ کرتی ہے یہ چیز ان شخصیات کے لئے دنیا میں زند گی گزار نے کے لئے شیرینی ، مسرت و فرحت کا باعث ہے کہ جنہوں نے دنیا کو فروخت کر دیا ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[3]۔ بحا ر الانوار:ج 19ص  81

۱۱۵

اپنے ہمنشینوں کو پہچانیں

ان دو قسم کے افراد کے درمیاں فرق کو مد نظر رکہیں کہ جن میں سے بعض کا ہدف اپنے نام  چمکانا  ہوتا  ہےاور  کچہ   کا ہدف اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے نام کی نشر و اشاعت کے علاوہ کچہ نہ ہو ، انہیں ایک دوسرے سے تشخیص دیں ۔ افراد کی پہچان اور ان کو آزمانے سے پہلے ان پر اطمینان ہلا کت وگمراہی یا توقف کا باعث بن سکتا ہے ۔ حضرت جواد الائمہ امام تقی (ع)   فرما تے ہیں :

'' من انقاد الیٰ الطّمانینة قبل الحبرة ، فقد عرض نفسه للهلکة و لعاقبة المتعبة ''(1)

جو کسی کو آزمانے سے پہلے ان پر اطمینان کرے وہ اپنے نفس کو ہلا کت میں ڈالتا ہے جس کا انجام بہت سخت ہو گا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحار الا نوار :ج71 ص 40 3

۱۱۶

اکثر دہو کا کہانے والے یا پہر آسمان سے گرنے  اور کہجور پر اٹہکنے کے مصداق وہ افراد ہیںجوحسن ظن ، جلدی فریفتہ ہو نے والے اور تحقیق کے بغیر اطمینان کر نے کی وجہ سے دہو کا دینے والوں کے چکر میں پہنس جاتے ہیں ۔ اگر وہ مکتب اہل بیت  کی پیروی کرتے ہوئے کسی سے دل لگی اور محبت سےپہلے ان کو آزمالیں تو وہ کبہی بہی  ہلاکت اور گمراہی میں مبتلا نہ ہوں  ۔

اسی وجہ سے ہمیں اپنے دوستوں اور ہمنشین افراد کو پہچا ننا چاہیئے ۔ ان کی کامل پہچان کے بعد ان پر اطمینان و اعتماد کریں اور یہ صحیح و کامل شناخت انہیں آزمانے کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہے ۔

           حضرت امیر المو منین (ع) فرماتے ہیں :

          '' یعرف النّاس بالا ختیار '' (1)

           لوگوں کو امتحان اور آزمائش کے ذریعہ پہچانو  ۔

پس  کیوں  سب  پر  بہروسہ  کریں؟  کیوں کسی  بہی قسم کے افراد کے ساتہ ہمنشینی و رفاقت کے لئے تیار ہو جائیں ؟ ہمیں اپنی زند گی کا برنامہ اہل بیت  کے ہدایت کر نے والے ارشا دات کے مطابق قراردیں  اور ان کے فرامین پر عمل پیرا ہو کر  اپنے مستقبل کو درخشاں بنا ئیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ اصول کافی :ج۱  ص30

۱۱۷

جن افراد کی صحبت ترقی کی راہ میں رکاوٹ

 خاندان وحی علیہم  السلام  نے ہمیں اپنے فرامین میں لوگوں کے چند گروہوں کی صحبت و دوستی سے پر ہیز کرنے کا حکم دیا ہے

1 ۔ چھوٹی سوچ کے مالک افراد کی صحبت

           جو معا شرے میں اپنا مقام و مرتبہ اور شخصیت بنانا چاہتے ہیں وہ اپنے اطرافی اور دوستوں کی شناخت کی سعی و کوشش کریں کہ ان کا ماضی اور اس پر لوگوں کے اعتبار کو مد نظر رکہیں ۔ انجان دوست ، یاجو لوگوں میں اچہی صفات سے نہ پہچا نا جا تا ہو ، وہ نہ صرف مشکل میں انسان کی پشت پنا ہی نہیں کرے گا بلکہ اس کی مشکلات میں مزید اضافہ کرے گا ۔

           حضرت امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں :

           '' واحذر صحابة من یفیل رایه و ینکر عمله فانّ الصّاحب معتبر بصاحبه ''(1)

           کمزور و ضعیف الرأی شخص کی ہمنشینی اور صحبت اختیار نہ کرنا کہ جس کے اعمال نا پسند یدہ ہوں کیو نکہ ساتہی کا قیاس اس کے ساتہی پر کیا جا تاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ نہج البلاغہ مکتوب: 69

۱۱۸

           کیو نکہ لوگ ظاہر کو دیکہ کر قضاوت کر تے ہیں ۔ ہمیشہ انسان کی اہمیت اس کے دوستوں کی اہمیت کے مانند ہو تی ہے ۔لہذا معاشرے میں بے ارزش اور ضعیف الرأی افراد کی دوستی سے دور رہیں تا کہ ان کے منفی روحانی حالات سے محفوظ رہیں ۔ نیز اجتماعی و معاشرتی لحا ظ سے بہی ا ن کے ہم ردیف شمار نہ ہوں ۔

           یہ کائنات کے ہادی و رہنما حضرت امیر المو منین علی  کی را ہنمائی ہے جس سے درس لے کر اور زندگی کے برنامہ میں اس پر عمل پیرا ہو کر آپ اپنے آئندہ کو درخشاں بنا  سکتے ہیں ۔ اپنے روزانہ کے برنامہ و اعمال اور رفتار کو تشیع کے غنی ترین مکتب کی بنیاد پر قرار دیں تا کہ ابدی سعادت حاصل کر سکیں۔

           ملاحظہ فرمائیں کہ سید عزیز اللہ تہرانی کس طرح چہوٹی فکر والے افراد سے کنارہ کش ہو کر عظیم معنوی فیض تک پہنچ گئے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نجف اشرف میں شرعی ریاضتوں مثلا نماز ، روزہ اور دعاؤں میں مشغول رہتا اور ایک لمحہ کے لئے بہی اس سے غافل نہ ہوتا ۔ جب عید الفطر کی مخصوص زیارت کے لئے کربلا مشرف ہوا تو میں مدرسہ صدر میں ایک دوست کا مہمان تہا ۔ بیشتر اوقات حرم مطہر حضرت سید الشہداء امام حسین  (ع)میں مشرف ہو تا اور کبہی آرام و استراحت کی غرض سے مدرسہ چلاجاتا ۔

           ایک دن کمرے میں داخل ہوا تو وہاں چند دوست جمع تہے اور واپس نجف جانے کی باتیں ہو رہی تہیں ، انہوں نے مجہ سے پوچہا کہ آپ کب واپس جائیں گے ؟ میں نے کہا کہ آپ چلے جائیں میں اس سال خانہ خدا کی زیارت کا قصد رکہتا ہوں اور محبوب کی زیارت کے لئے پیدل جاؤں گا ۔ میں نے حضرت سید الشہداء  (ع)کے قبہ کے نیچے دعا کی ہے اور مجہے امید ہے کہ میری دعا مستجاب ہو گی ۔

۱۱۹

           میرے دوست مجہے مذاق کر رہے تہے اور کہہ رہے تہے کہ سید ایسا لگتا ہے کہ عبادت و ریاضت کی کثرت سے تمہارا دماغ خشک ہو گیاہے ۔ تم کس طرح توشہ راہ کے بغیر بیابانوں میں ضعف مزاج کے ساتہ پیدل سفر کر سکتے ہو ۔ تم پہلی منزل پر ہی رہ جاؤ گے اور بادیہ نشین عربوں کے چنگل میں گرفتار ہو جاؤگے ۔

           جب ان کی سر زنش حد  سے بڑہ گئی تو میں غصہ کے عالم میں کمرے سے باہر چلا آیا اور شکستہ دل اور پر نم آنکہوں کے ساتہ حرم کی طرف روانہ ہو گیا کسی چیز کی طرف توجہ نہیں کر رہا تہا ۔ حرم میں مختصر زیارت کی اور بالا سر حرم مطہر کی جانب متوجہ ہوا جس جگہ ہمیشہ نماز اور دعا پڑہتا وہاں بیٹہ کر گریہ و توسل کو جاری  رکہا ۔

           اچانک ایک دست ید اللّٰہی میرے کندہے پر آیا ، میں نے دست مبارک کی طرف دیکہا وہ عربی لباس میں ملبّس تہے ۔ لیکن مجہ سے فارسی زبان میں فرمایا کہ کیا تم پیا د ہ خانہ خدا کی زیارت سے مشرف ہونا چاہتے ہو ؟ میں  نے عرض کیا ! جی ہاں ۔ انہوں نے فرمایا ! کچہ نان جو تمہارے ایک ہفتہ کے لئے کافی ہوں ؟ ایک آفتابہ اور احرام اپنے ساتہ لے کر فلاں دن فلاں وقت اسی جگہ حاضر ہو جاؤ اور زیارت و داع انجام دو تا کہ ایک ساتہ اس مقدس جگہ سے منزل مقصود کی طرف حرکت کریں ۔

           میں ان کے حکم کی بجا آوری و اطاعت کا کہہ کر حرم سے باہر آیا ۔ کچہ گندم لی اور بعض رشتہ دار خواتین کو دی کہ میرے لئے نان تیار کر دیں ۔ میرے تمام دوست نجف واپس چلے گئے اور پہر وہ دن بہی آگیا ۔ اپنا سامان لے کر معین جگہ پہنچ گیا ، میں زیارت وداع میں مشغول تہا کہ میں نے ان  بزرگوار سے ملاقات کی ، ہم حرم سے باہر آئے ، پہر صحن اور پہر شہر سے بہی خارج ہوگئے ۔ کچہ دیر چلتے رہے نہ تو انہوں نے مجہے اپنے شیرین سخن سے سر فراز فرمایا اور نہ ہی میں نے ہی ان سے بولنے کی جسارت کی کچہ دیر کے بعد پانی تک پہنچے ۔ انہوں نے فرمایا : یہاں آرام کرو۔ اپنا کہانا کہاؤ اور انہوں نے زمین پر ایک خط کہینچا اور فرمایا یہ خط قبلہ ہے نماز بجا لاؤ عصر کے وقت تمہارے پاس آؤں گا ۔ یہ کہہ کر وہ روانہ ہو گئے میں وہیں ٹہہرا رہا ، کہا نا کہایا  ، وضو کیا اور پہر نماز پڑہی ۔ عصر کے وقت وہ بزرگوار تشریف لائے اور فرمایا : اٹہو چلیں ، چند گہنٹے چلنے کے بعد پہر اک جگہ اور پانی تک پہنچے، انہوں نے پہر زمین پر خط کہینچا اور فرمایا

۱۲۰

سے کہا سلام ہو اُس پر جس کا چچا ابولہب ہے جس پر قرآن نے لعنت کی ہے تو جناب

عقیل ـ نے فوراً جواب دیا سلام ہو اُس پر جس کی پھوپھی''حَمَّالة الحطب '' ہے (یعنی ابولہب کی بیوی)۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بحارالانوار ج۵۲، ص ۱۱۲ و الغازات ج۲ ص، ۳۸۰

۱۲۱

آیت نمبر ۱۲

یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اِجْتَنِبُوا کثیراً مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثم وَّ لَا تَجَسَّسُوا وَ لَا یَغْتَبْ بَعْضُکمْ اَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أِنْ یّٰاکُلَ لَحْمَ أَخِیْهَ مَیْتًا فَکَرِهتُمُوْهُط وَاَتّقُوا اللّٰهَط اِنَّ اللّٰه تَوَّاب رَّحِیْم-

ترجمہ:

اے ایمان والو اکثر گمانوں سے اجتناب کرو کہ بعض گمان گناہ کا درجہ رکھتے ہیں اور خبردار ایک دوسرے کے عیب تلاش نہ کرو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کہ کیا تم میں کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے یقینا تم اسے برا سمجھو گے تو اللہ سے ڈرو کہ بے شک اللہ بہت بڑا توبہ کا قبول کرنے والا اور مہر بان ہے۔

نکات:

(۱)۔ قرآن میں حسن ظن کی تاکید اور مسلمانوں کی نسبت سوء ظن سے روکا گیا ہے ۔۔ مثال کے طور پر سورئہ نور میں ارشاد ہوتا ہے''لولا اِذسَمِعتُموه ظَنَّ المومنونَ والمومنات بأَلْفِهم خیراً'' (۱) کیوں بعض باتوں کے بارے میں حسن ظن نہیں رکھتے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ نور آیت ۱۲

۱۲۲

(۲)۔ جس طرح سے اسی سورئہ کی آیت نمبر نو میں امن و امان اور لوگوں کی جان کی

حفاظت کی خاطر سرکش اور باغی سے مقابلے کے لیے تمام مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اسی طرح اس آیت نے امن و امان اور مسلمانوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کی خاطر سوء ظن، تجسس اور غیبت کو حرام قرار دیا ہے۔

(۳)۔ آج دنیا کے سارے حقوق دان حقوق بشر کی باتیں کرتے ہیں لیکن اسلام ایسے ہزاروں مسائل کو مورد توجہ قرار دیتا ہے جن سے یہ سب حقوق دان غافل ہیں جیسا کہ اسلام غیبت کو بھی حقوق بشر پر حملہ کرنے کے مترادف سمجھتا ہے غیبت کے علاوہ کسی بھی گناہ کو درندگی سے تشبیہ نہیں دی گئی ہے۔ ایسا سلوک تو بھیڑیا بھی بھیڑیے کے ساتھ نہیں کرتا ہے۔

وَلَیْسَ الذِّئبُ یَاکل لَحْمَ ذِئبٍ وَیَاکُلُ بَعْضُنَا بَعْضًا عَیَانًا(۱)

سوال: کیوں ایک لمحہ غیبت کرنے سے کئی سال کی عبادت ضائع ہوجاتی ہے کیا یہ سزا عادالانہ ہے؟

جواب: جس طرح غیبت کرنے والا شخص ایک لمحے میں سالھا سال سے بنائی گئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ اور بھیڑیا بھی بھیڑیے کو نہیں کھاتا ۔ اور ہم میں سے بعض افراد بعض اوقات ایک دوسرے کا گوشت کھاتے ہیں۔

۱۲۳

انسان کی عزت و آبرو کو ملیا میٹ کردیتا ہے۔ خداوند عالم بھی اس کی کئی سالوں کی عبادت کو ضائع کردیتا ہے اس بناء پر کئی سالوں کی عبادت کا برباد ہونا عدل کے مطابق ہے بلکہ عین عدل ہے۔

پیغامات:

۱۔ ایمان ذمہ داری اور عہد وپیمان کے ہمراہ ہے جو بھی صاحب ایمان ہے اُسے چند اعمال سے دور رہنا چاہیے۔''یٰا ایُّها الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اِجْتَنِبُوا--- '' ایمان ، سوء ظن ، لوگوں کے کاموں میں تجسس اور ان کی غیبت کے ہمراہ سازگار نہیں ہے۔

۲۔ حتمی گناہوں سے بچنے کے لیے احتمالی گناہوں سے دوری کرنی چاہییے (کیونکہ اکثر گمان گناہ ہیں ہمیں ہر بدگمانی سے دوری اختیار کرنی چاہیے)(اجتنبوا --- اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْم )

۳۔ کسی بھی فرد کے بارے میں اسلا م کا بنیادی اُصول یہ ہے کہ اُسے قابل اعتماد ، صحیح و سالم، کریم اور تمام عیوب سے مبرا سمجھو۔(انّ بَعْضَ الظَنِّ اِثْم )

۵۔ اسلامی معاشرہ میں لوگوں کے بارے میں سوء ظن نہ رکھا جائے اُن کے امور میں تجسس نہ کیا جائے۔ اور مجالس و محافل میں ان کی آبروریزی نہ کی جائے(بَعْضَ الظَنِّ اِثْم--- لاتَجَسَّسُوا ولا یغتب )

۵۔ غیبت سے روکنے کے لیے ایسے تمام راستوں کو بند کردیا جائے جو غیبت کا پیش خیمہ بنتے ہیں(غیبت کا آغاز سوء ظن سے ہوتا ہے اس کے بعد تجسس اور پھرعیوب تلاش کرنے کے بعد غیبت کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے لہٰذا قرآن نے اسی ترتیب سے

۱۲۴

منع فرمایا ہے)اجتنبوا کثیراً مِنَ الظَّنّ --- لا تجسسوا وَلَا یغتب-

۶۔ گناہ اگرچہ ظاہری طور پر خوشگوار معلوم ہوتا ہے لیکن اگر اسے باطنی اور روحانی نگاہ سے دیکھا جائے تو خباثت سے بھرپور اور قابل نفرت ہے(یأکُلَ لَحْمَ أَخِیْه مَیْتًا) (باطنی طورپر غیبت، مردار کا گوشت کھانے کے مترادف ہے کسی بھی گناہ کے لیے اس طرح کی تعبیر استعمال نہیں کی گئی ہے۔

۷۔ برائی سے روکنے کے لیے جذباتی تعبیرات سے استفادہ کرنا چاہیئے۔(لَا یَغْتَبْ --- أَیُحِبُّ أَحْدُکَمْ أَنْ یَاکُلَ لَحْمَ أَخِیْهِ)

۸۔ تعلیم و تربیت کے لیے مثال اور واقعات سے استفادہ کرنا چاہیے۔

۹۔ تعجب ہے اُن لوگوں پر جو دوسروں کی غیبت کرتے ہیں۔(أَیُحِبُّ أَحدکَم---)

۱۰۔ غیبت کرنا سب کے لیے حرام ہے اس میں سن و سال ، نسل اور مقام کی کوئی قید نہیں ہے۔ (کلمہ''احدکم'' میں چھوٹے بڑے ، مشہور اور گمنام، عالم اور جاہل، مرد اور عورت سب شامل ہیں)۔

۱۱۔ صاحبان ایمان ایک دوسرے کے بھائی اور ہم خون ہیں۔(لَحْمَ أَخِیْه)

۱۲۔ انسان کی عزت و آبرو اس کے بدن کے گوشت کی مانند اُس کے استحکام کا ذریعہ ہے۔(لَحْمَ أَخِیْهِ)

۱۳۔ کافر کی غیبت کی جاسکتی ہے ( کیونکہ کافر، مسلمان کا بھائی نہیں ہے) ۔(لَحْمَ أَخِیْه)

۱۲۵

۱۵۔ جس طرح سے مردہ شخص اپنے دفاع کی قدرت نہیں رکھتا ہے اسی طرح سے وہ شخص بھی جس کی غیبت کی جارہی ہو نہ ہونے کی وجہ سے اپنے دفاع کی قدرت نہیں رکھتا ہے۔(میتًا)

۱۵۔ اگر زندہ کے بدن سے گوشت کا ٹکڑا جدا ہوجائے تو ممکن ہے کہ وہ جگہ پُر ہوجائے لیکن اگر مردہ سے گوشت کو جدا کرلیا جائے تو وہ جگہ اسی طرح خالی رہ جاتی ہے غیبت دراصل کسی کو بے آبرو کرنا ہے اور جب آبرو ہی چلی جائے تو پھر اس کا ازالہ نہیں ہوسکتا ہے۔(لَحْمَ أَخِیْه میتًا)

۱۶۔ غیبت کرنا درندگی ہے۔(یاکل لَحْمَ أَخِیْه میتًا)

۱۷۔ غیبت کرنا تقویٰ کے ساتھ سازگار نہیں رکھتا ہے۔( لایغتَبْ --- وَاتَّقُوا اللّٰهَ )

۱۸۔ اسلام میں تعطل اور نااُمیدی کا کوئی تصور نہیں ہے توبہ کے ذریعہ اپنے کیئے ہوئے گناہ کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔( لایغتَبْ --- اِنّ اللّٰهَ تَوَّابُ رَحِیم)

۱۹۔ خداوند متعال اپنی رحمت کے وسیلے سے عذر قبول کرلیتا ہے۔(تَوَّابُ رَحِیم)

سوء ظن کی اقسام:

سوئے ظن کی کئی اقسام ہیں جن میں سے بعض کی ممانعت کی گئی ہے۔

۱۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوء ظن رکھنا: حدیث میں ہے کہ اگر کوئی شخص

۱۲۶

اخراجات کے ڈر سے شادی نہں کرتا ہے تو درحقیقت وہ خداوند عالم کے بارے سوء ظن رکھتا ہے یعنی وہ یہ سوچتا ہے کہ اگر وہ تنہا رہے گا تب تو خدا اُسے رزق دینے پر قادر ہے لیکن اگر بیوی ساتھ ہوگی تو خداوند اُسے رزق دینے کی قدرت نہیں رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس قسم کا سوء ظن رکھنا منع ہے۔

۲۔ لوگوں کے بارے میں سوء ظن رکھنا: جس کی اس آیت میں ممانعت کی گئی ہے۔

۳۔ اپنے بارے میں سوء ظن رکھنا: یہ قسم مورد ستائش ہے۔ انسان کو اپنے بارے میں حسن ظن نہیں رکھنا چاہیئے کہ اپنے ہرکام کو بے عیب سمجھنے لگے۔ حضرت علی ـ نے (خطبہ ہمام میں) متقین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا: متقین کے کمالات میں سے ایک کمال یہ ہے کہ وہ اپنے بارے میں سوء ظن رکھتے ہیں۔

جو لوگ اپنے آپ کو بے عیب سمجھتے ہیں دراصل ان کے علم و ایمان کا نور کم ہے اور نور کی کمی کے باعث انسان کسی چیز کو نہیں دیکھ سکتا ہے مثال کے طور پر اگر آپ ٹارچ لے کر ایک ہال میں داخل ہوں تو اس سے فقط بڑی چیزیں ہی دیکھ پائیں گے لیکن اگر ٹارچ کی جگہ کوئی طاقتور لائٹ ہو تو اس وقت ماچس کا تنکا اور سگریٹ کی راکھ بھی ہال میں نظر آئے گی۔

جن لوگوں کے ایمان کا نور کم ہوتا ہے بڑے گناہوں کے علاوہ انہیں کچھ نظر نہیں آتا ہے لہٰذا کبھی وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو کسی کو قتل نہیں کیا ، ہم نے تو کسی کے گھر کی دیوار نہیں پھلانگی! وہ فقط اس قسم کے کاموں کو گناہ سمجھتے ہیں لیکن اگر ان کے ایمان کا نور زیادہ ہو تو وہ اپنی معمولی سے لغزشوں کو بھی دیکھ لیں گے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نالہ و

۱۲۷

فریاد کریں گے۔

آئمہ معصومین ـ کی مناجات اور بے حد گریہ کی ایک وجہ ان کی معرفت اور ایمان کا نور ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے بارے میں خوش بین ہو (اور اپنے افکار و کردار کے بارے میں کسی قسم کا سوء ظن نہ رکھتا ہو) تو وہ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتا اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو ہمیشہ اپنے پیچھے کی طرف دیکھتا ہے کہ وہ کتنا راستہ طے کرچکا ہے اور پھر اُس پر غرور کرتا ہے لیکن اگر وہ سامنے کی طرف دیکھے کہ اس نے ابھی کتنا راستہ اور طے کرنا ہے تو جان لے گا کہ جو راستہ اس نے ابھی طے نہیں کیا وہ اس راستہ سے کئی گناہ زیادہ ہے جو وہ طے کرچکا ہے۔

جب ہم دیکھتے کہ قرآن پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ حکم(قل رَبِّ ذدنی عِلْمًا (۱) ) دیتا ہے کہ حصول علم کے سلسلے میں کوشاں رہو اور پھر یہ حکم(شَاوِرْهُم فی الأَمْر (۲) ) کہ تم لوگوں سے مشورہ کرو اور یہ حکم کہ(فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ (۳) ) جیسے ہی اپنے کام سے فارغ ہوجاؤ تو نئے کام کو فوراً مکمل قدرت کے ساتھ انجام دو۔ تو جب اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کے لیے ایسے دستور دیئے ہیں تو کیا ہمیں زیب دیتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو فارغ التحصیل اور مشورہ کرنے سے بے نیاز سمجھیں۔ نیز اپنی ذمہ داری کو ختم سمجھیں اور اپنے بارے میں حسن ظن رکھیں؟ اس لیے کہ ہمیں اپنے بارے میں خوش بین اور حسن ظن نہیں رکھنا چاہیے۔ بلکہ لطف الٰہی اور لوگوں کی رفتار وکردار کے باریمیں حسن ظن رکھنا چاہیئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ طہ آیت ۱۱۵ (۲)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران آیت ۱۵۹ (۳)۔ سورئہ مبارکہ الم نشرح آیت ۷

۱۲۸

O اس نکتہ کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ حسن ظن سے مراد سادگی ، جلدی یقین کرلینا، سطحی فکر کرنا، سازشوں اور شرارتوں سے غفلت کرنا نہیں ہے۔ اُمت مسلمہ کو بھی حسن ظن کی خاطر بیجا غفلت نہیں کرنا چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس بے جا غفلت کے نتیجہ میں دشمنوں کے جال میں پھنس جائیں۔

غیبت کسے کہتے ہیں؟

O غیبت سے مراد کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کے بارے میں ایسی بات کہنا کہ جس سے لوگ بے خبر ہوں اگر وہ شخص اُسے سنے تو ناراض ہو(۱) ۔ لہٰذا کسی کے سامنے اُس پر تنقید کرنا ، یا ایسے عیوب بیان کرنا جن سے لوگ باخبر ہوں یا جس کی غیبت ہورہی ہے وہ سنے تو ناراض نہ ہو تو پھر یہ غیبت نہیں ہوگی۔ کسی بھی فرد کی غیبت کرنا حرام ہے وہ مرد ہو یا عورت ، چھوٹا ہو یا بڑا، آشنا ہو یا بیگانہ، استا ہو یاشاگرد، باپ ہو یا بیٹا، مردہ ہو یا زندہ۔

Oرسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: مردوں کو کچھ نہ کہو جو مرگیا ہے اس کے بارے میں اچھی باتیں کرو۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ وسائل الشیعہ ج۸ ، ص۶۰۰۔ ۶۰۵

(۱)۔ نہج الفصاحہ، جملہ ۲۶۵

۱۲۹

غیبت روایات کی روشنی میں:

Oحضرت امام جعفر صادق ـنے فرمایا: غیبت کرنے والا شخص اگر توبہ کرے جنت میں داخل ہونے والا آخری شخص ہوگا اور اگر توبہ نہ کرے تو دوزخ میں داخل ہونے والا پہلا شخص ہوگا۔ (۱)

Oحضرت امام علی رضا ـنے حضرت امام زین العابدین ـ سے نقل فرمایا: اگر کوئی شخص مسلمانوں کی آبروریزی سے پرہیز کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی لغزشوں کو نظر انداز کردے گا۔ (۲)

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: جو کسی مرد یا عورت کی غیبت کرے تو چالیس دن تک اس

کی نماز اور روزہ قبول نہیں کیا جائے گا۔(۳)

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن جب بعض لوگوں کو اُن کا نامہ اعمال دیا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ ہمارے نیک اعمال کو درج کیوں نہیں کیا گیا ہے؟

اُن سے کہا جائے گا کہ خداوندعالم نہ کسی چیز کو کم کرتا ے اور نہ اُسے فراموش کرتا ہے بلکہ تمہارے نیک اعمال غیبت کرنے کی وجہ سے ضائع اور برباد ہوگئے ہیں ان کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ مستدرک ج۹، ص ۱۱۷

(۲)۔بحار الانوار ج ۷۲، ص ۲۵۶

(۳)۔ بحار الانوار ج ۷۲، ص ۲۵۸

۱۳۰

مقابلے میں کچھ لوگ دیکھیں گے کہ ان کے نامہ اعمال میں بہت زیادہ نیک اعمال درج ہیں اور وہ یہ سوچیں گے یہ نامہ اعمال ان کا نہیں ہے۔ تو ان سے کہا جائے گا کہ جس نے تمہاری غیبت کی تھی اس کے نیک اعمال تمہارے نامہ اعمال میں درج کردیئے گئے ہیں۔(۱)

Oرسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مکہ کی طرف اپنے آخری سفر کے موقع پر فرمایا: تمہارا خون، تمہارا مال، تمہاری عزت وآبرو اسی طرح محترم ہے جس طرح یہ ذی الحجہ کا مہینہ اور ایام حج محترم ہیں(۲)

O روایات میں غیبت کرنے والے کا ذکر اس شخص کے ساتھ ہوا ہے جو ہمیشہ شراب پیتا ہو۔تَحْرَمْ الجنّة عَلٰی المغتابِ ومُدْ مِن الخَمْر (۳)

O روایات میں ہے کہ جو اپنے دینی بھائی کے عیوب تلاش کرے (اور انہیں دوسروں کو بتائے) تو اللہ تعالیٰ اس کے عیوب آشکار رکردے گا۔(۴)

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ میں اپنے آخری خطبہ کے دوران فرمایا: اگر کوئی غیبت کرے تو اُس کا روزہ باطل ہے (۵) یعنی وہ شخص روزے کے معنوی آثار اور برکات سے محروم ہوجائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بحار الانوار ج ۷۲، ص ۲۵۹ (۲)۔ شرح نہج البلاغہ۔ ابن ابی الحدید ج۹ ، ص۶۲

(۳)۔ بحار الانوار ج۷۲، ص۲۶۰ (غیبت کرنے والے اور مسلسل شراب پینے والے پر جنت حرام ہے)

(۵)۔محجة البیضاء ج۵، ص۲۵۲ (نقل از سنن ابی داؤد ج۲، ص ۵۶۸)(۵)۔ محجة البیضاء ج۵، ص۲۵۵

۱۳۱

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: سود کا ایک درہم چھتیس (۳۶) زنا سے بدتر اور سب سے بڑا سود مسلمان کی عزت وآبرو سے کھیلنا ہے۔(۱)

O حدیث میں ہے کہ مسجد میں نماز باجماعت کے انتظار میں بیٹھنا عبادت ہے البتہ جب تک کہ ہم غیبت نہ کررہے ہوں۔(۲)

غیبت کا ازالہ:

O اگر ایسے شخص کی غبیت کی ہو جو اب دنیا سے جاچکا ہوتو اس کے ازالہ کے لیے توبہ کریں اور خدا سے عذر خواہی کریں بے شک خدا توبہ قبول کرنے والا ہے۔

لیکن اگر وہ زندہ ہو اور اس چیز کا امکان ہو کہ اگر اس سے یہ کہا جائے کہ ہم نے تمہاری غیبت کی تو وہ ناراض ہوگا تو ایسی صورت میں (بعض مراجع تقلید کے مطابق(۳) ) اسے نہ بتایا جائے بلکہ اپنے اور اللہ کے درمیان توبہ کریں اور اگر غبیت سننے والوں تک رسائی ممکن ہوسکے تو ان کے سامنے اس کا ذکر خیر اور تعظیم و تکریم کے ذریعہ اپنی کی ہوئی غیبت کا ازالہ کریں اور اگر وہ شخص یہ بتانے سے کہ ہم نے تمہاری غیبت کی ہے ناراض نہ ہوتا ہو تو خود اُسی سے عذر خواہی کرنی چاہیئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بحار الانوار ج۷۲، ص ۲۲۲ (۲)۔ اصول کافی: ج۲ ، ص۳۵۷

(۳)۔ میں نے حضرت آیت اللہ العظمیٰ گلپائیگانی سے سوال کیا کہ کیا کی ہوئی غیبت کی عذر خواہی کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم لوگوں سے کہیں کہ ہم نے تمہاری غیبت کی ہے؟

آپ نے جواب دیا: نہیں ، اس لیے کہ اگر ہم اُن سے یہ کہیں گے کہ ہم نے تمہاری غیبت کی ہے تو وہ ناراض ہوجائے گا اور مسلمان کو ناراض کرنا خود ایک دوسرا گناہ ہے لہٰذا غیبت کا ازالہ استغفار سے کیا جائے اور ہر جگہ اس شخص سے جس کی غیبت کی گئی ہو عذر خواہی کرنا ضروری نہیں۔

۱۳۲

Oشیخ طوسی علیہ الرحمہ نے شرح تجرید میں پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث کے حوالے سے یہ بیان کیا ہے کہ جس کی غیبت کی گئی ہو اگر اُس نے اُسے سن لیا ہو تو اس کے ازالہ کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے پاس جائے اور رسمی طور پر اس سے عذر خواہی کرے اور اگر اُسے پتہ نہیں چلا ہے تو جب کبھی اس کا ذکر آئے تو اُس کے لیے استغفار کریں۔''اِنَّ کَفَّارَةَ الغِیْبَةِ أنْ تَسْتَغْفَِ لِمَنْ اِغْتَبتَه' کُلَّما ذَکَرْتَه'' (۱)

وہ مقامات جہاں غیبت کرنا جائز ہے:

بعض مقامات پر غیبت کرنا جائز ہے ۔ وہ یہ ہیں:

۱۔ مشورہ کے وقت: اگر کوئی شخص کسی کے بارے میں ہم سے مشورہ کرنا چاہے تو اس کے عیب مشورہ کرنے والے کو بتا سکتے ہیں۔

۲۔ باطل کو ردّ کرنے کیلئے: باطل عقیدے کو ردّ کرنے یا پھر ایسے اشخاص کی ردّ کرنے کے

لیے جو ایسے عقیدے کے مالک ہوں اس ڈر سے کہ کہیںلوگ ان کے عقائد کی پیروی نہ کرنے لگیں۔ (غیبت کرنا جائز ہے)

۳۔ قاضی کے پا س مجرم کے خلاف گواہی دیتے وقت: جس طرح بے جا دعوؤں کو ردّ کرنے کے لیے حقیقت کو بیان کرنا ضروری ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ جس کی غیبت کی ہے جب بھی اس کا ذکر ہو اس کے لیے استغفار کریں۔

۱۳۳

۵۔ اس شخص کی گواہی ردّ کرنے کے لیے جو قابل اطمینان نہیں ہے۔

۵۔ مظلومیت کے اظہار کے لیے، ظالم کے ظلم کو بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

۶۔ جو شرم و حیاء کے بغیر آشکارہ طور پر گناہ کرتا ہے اس کی غیبت کی جاسکتی ہے۔

۷۔ تقیہ یا بیہودہ دعوؤں کو ردّ کرنے کے لیے غیبت ہوسکتی ہے مثال کے طور پر اگر کوئی یہ کہے کہ میں مجتہد ہوں ، میں ڈاکٹر ہوں میں سید ہوں اور ہم یہ جانتے ہوں کہ وہ ان صفات کا مالک نہیں ہے تو ہمارے لیے جائز ہے کہ لوگوں کو بتائیں کہ وہ ان صفات کا مالک نہیں ہے۔

غیبت کے خطرات:

O غیبت کرنے میں دوسرے کئی گناہ پوشیدہ ہیں۔

۱۔ بدکاری کی اشاعت: لوگوں کی بدکاری کو نشر کرنا اتنا خطرناک ہے کہ فقط ان کا نشر کرنا ہی نہیں بلکہ اسے اچھا سمجھنا بھی دردناک عذاب کا باعث ہے۔(۱)

۲۔ مومن کو ذلیل و خوار کرنا اور حقیر سمجھنا۔

۳۔ چغل خوری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔أن الّذیْنَ یُحِبُّونَ أنْ تَشِیْعُ الفٰاحِشَةُ --- لَهُمْ عَذَاب أَلِیْم (سورئہ نور آیت ۱۹) جولوگ یہ چاہتے ہیں کہ بدکاری کا چرچا پھیل جائے ۔۔ ان کے لیے بڑا دردناک عذاب ہے۔

۱۳۴

۵۔جنگ و جدال اور فتنہ و فساد برپا کرنا

۵۔ ظلم و ستم اور دوسرے گناہ۔۔۔

غیبت کی اقسام:

غیبت کبھی زبان سے ،کبھی اشارے سے کبھی تحریر سے، کبھی تصویر سے، کبھی شکل و مجسمہ سے، کبھی اس کی نقل اتارنے سے اور کبھی خاموشی کے ذریعہ ہوسکتی ہے۔مثال کے طور پر کہے کہ افسوس دین نے میری زبان روک رکھی ہے۔ اس جملے سے وہ سب کو سمجھانا چاہتا ہے کہ فلاں صاحب میں بہت عیب پائے جاتے ہیں۔ یا الحمد للّٰہ کہہ کر یہ کہے کہ ہم اس مسئلہ میں گرفتار نہیں ہوتے اس جملے سے وہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ فلان صاحب اس مسئلے میں گرفتا ہیں۔ کبھی اپنے عیوب کے ذکر کے ذریعے یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ دوسرے میں عیب پائے جاتے ہیں مثال کے طور پر وہ یہ کہے کہ انسان ضعیف ہے ہم سب بے صبرے ہیں یعنی وہ ضعیف اور بے صبرے ہیں۔کبھی غیبت سننے کے بعد کہتے ہیں سبحان اللّٰہ ، اللّٰہ اکبر اس ذکر کے ذریعہ غیبت کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ غیبت کو جاری رکھے اور کبھی زبان سے کہتے ہیں کہ غیبت نہ کریں لیکن دلی طور پر چاہتے ہیں کہ غیبت سنیں یہ نفاق ہے۔

۱۳۵

غیبت کے آثار:

(الف) اخلاقی اور اجتماعی آثار۔

۱۔ غیبت بغض و کینہ کے پیدا ہونے، اعتماد ختم ہوجانے ، اختلاف اور فتنہ و فساد کے پھیلنے، اور معاشرہ کے لیے مفید اور کارآمد افراد کے ایک طرف ہوجانے کا سبب بنتی ہے۔

۲۔ گناہ کے لیے زیادہ جرأت پیدا ہوتی ہے جیسے ہی انسان یہ سمجھ لے کہ لوگ اس کے عیب اور بدکاری سے باخبر ہوگئے ہیں اور وہ بے آبرو ہوچکا ہے تو اس میں گناہ کرنے کی جرأت زیادہ ہوجاتی ہے اور وہ گناہ نہ کرنے اور توبہ کرنے کا ارادہ ترک کردیتا ہے۔

۳۔ لوگوں کے عیوب نشر کرنے سے اردگرد کا ماحول اور معاشرے کی فضا آلودہ ہوجاتی ہے اور دوسروں کی گناہ کرنے کی جرأت میں اضافہ ہوتا ہے۔

۵۔ انتقام لینے کے جذبے کو تحریک ملتی ہے اس لیے کہ جیسے ہی اُسے جس کی غیبت ہوئی ہے یہ پتا چلتا ہے کہ اس کی آبرو ریزی کی گئی ہے تو وہ پھر اسی فکر میں رہتا ہے کہ اُسے کب موقع ملے اور وہ بھی غیبت کرنے والے کو بے آبرو کرے۔

۵۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے آج ہمارا غیبت کرنا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ کل لوگ ہماری غیبت کریں''لَا تَغْتَبْ فَتَغْتَبْ '' (۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔غیبت نہ کرو ورنہ تمہاری غیبت بھی کی جائے گی۔ بحارالانوارج۷۲، ص ۲۵۹

۱۳۶

جو اپنے بھائی کے لیے گڑھا کھودتا ہے وہ خود ہی اُس میں گرجاتا ہے۔

(ب)أُخروی آثار۔

۱۔ غیبت کرنا، نیکیوں اور خوبیوں کی بربادی کا سبب ہے۔(۱)

۲۔ غیبت کرنا عبادات کی قبولیت میں رکاوٹ ہے۔

۳۔ غیبت کرنے سے انسان ولایت الٰہی کے دائرے سے خارج ہوکر دوسرے کی ولایت کے دائرے میں چلا جاتا ہے۔(۲)

غیبت کی وجوہات:

۱۔ کبھی غیبت کی وجہ غیظ و غضب ہے۔بعض آسمانی کتابوں میں آیا ہے کہ (خدا فرماتا ہے اے بندے) اگر غیظ و غضب کے وقت تو مجھے یاد کرے اور اُسے نظر انداز کردے تو میں بھی غضب کے وقت تجھے یاد رکھوں گا اور غضب نہیں کروں گا۔(۳)

۲۔ کبھی دوسروں کے ساتھ ہم محفل ہونا غیبت کا سبب بنتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ کچھ لوگ کسی کی بدگوئی کررہے ہیں تو ان کا ہم محفل ہونے کی خاطر خود بھی غیبت کرنے لگتا ہے جب کہ وہ اس چیز سے غافل ہے کہ فقط اپنے دوستوں کی نظروں میں محبوب ہونے کے احتمال کی خاطر خدا کے فوری اور یقینی غضب کو مول لے رہا ہے نیز اس نے لوگوں کی رضا کو اللہ کی رضا پر مقدم کیا ہے جو سب سے بڑا خسارہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بحار الانوار ج۷۵، ص ۲۵۷ (۲)۔ اصول کافی ج۳، ص ۳۵۸

(۳)۔محجة البیضاء ج۵، ص۲۶۵

۱۳۷

۳۔ کبھی غیبت کی وجہ اپنے آپ کو بڑا ظاہر کرنا ہوتا ہے ۔ یعنی دوسروں کو پست کرنا تاکہ اپنی بڑائی ثابت کرسکے ایسا شخص بھی لوگوں کے نزدیک محبوب ہونے کی امید پر قہر الٰہی کو مول لیتا ہے اور یہ ایک نقصان دہ معاملہ ہے۔

۵۔ کبھی غیبت کی وجہ دوسروں کا مذاق اڑانا ہے وہ اس سے غافل ہوتا ہے کہ وہ کچھ لوگوں کے سامنے کسی کی تحقیر کررہا ہے اللہ تعالیٰ روز قیامت سب کے سامنے اس کی تحقیر کرے گا۔

۵۔ کبھی تعجب کی صورت میں غیبت کرتا ہے مثال کے طور پر وہ کہتا ہے کہ مجھے تعجب ہے کہ فلاں شخص اتنا علم اور معلومات رکھنے کے باوجود ایسا کیوں ہوگیا ہے جب کہ اُسے تعجب تو اس بات پر ہونا چاہیے کہ وہ کس طرح اس ایک جملے کے ذریعہ اپنی تمام عبادت کو تباہ و برباد کررہا ہے۔

۶۔ کبھی غیبت کی وجہ حسد ہے۔

۷۔ کبھی تفریحاً کسی کی غیبت کرتا ہے۔

۸۔ کبھی اپنے آپ کو کسی عیب سے بری الذمہ کرکے اُسے دوسروں کی گردن پر ڈال کر غیبت کرتا ہے ۔

۹۔ کبھی از راہ ہمدردی غیبت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں فلاں شخص کی طرف سے بہت پریشان ہوں جو اس مشکل میں پریشان ہے۔

البتہ غیبت کرنے کی اور بھی کئی ایک وجوہات ہیں۔

۱۳۸

غیبت سننا:

O غیبت سننے والے کی ذمہ داری یہ ہے کہ غیبت نہ سنے اور مومن کا دفاع کرے۔ حدیث میں ہے۔''السّاکِت' شَرِیْکُ القائل'' اگر کوئی غیبت سنے اور اُس پر خاموش رہے تو وہ شریک جرم ہے۔(۱)

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: جو غیبت سننے کے بعد اُسے ردّ کردے تو اللہ تعالیٰ شرّ کے ہزار در دنیا و آخرت میں اس پر بند کردے گا لیکن اگر خاموش رہا اور غیبت سنتا رہا تو جتنا گناہ غیبت کرنے والے کا تھا اتنا ہی گناہ اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیا جائے گا۔(۲) اور اگر جس کی غیبت ہورہی تھی وہ اس کی مدد کرسکتا تھا اور مدد نہیں کی تو روز قیامت خدا اُسے ذلیل و خوار کرے گا۔(۳)

اس لیے کہ اس کی خاموشی کے باعث معاشرے کے مفید اور کار آمد افراد ایک طرف ہوجائیں گے اور اُن کا کوئی دفاع نہ کرسکے گا۔

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اگر کسی مجلس میں کسی کی بدگوئی ہورہی ہو تو انہیں منع کرے اور وہاں سے سے چلا جائے۔(۴)

O سورئہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۳۶ میں ارشاد ہے : کان، آنکھ اور دل سے روز قیامت سوال کیا جائے گا اس بنا پر ہمیں ہر بات سننے کا حق حاصل نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔غرر الحکم (۲)۔ وسائل الشیعہ ج۸، ص۶۰۸

(۳)۔ وسائل الشیعہ ج۸، ص۶۰۶ (۵)۔کنز العمال ج۲، ص ۸۰

۱۳۹

O ایک روایت کے مطابق غیبت کرنا کفر، سننا اور اُس پر راضی رہنے کو شرک کہا گیا ہے۔(۱)

غیبت ترک کرنے کے طریقے:

۱۔ غیبت کرنے کے خطرات اور اس کے منفی اثرات پر توجہ دیں (جن کے بارے گزشتہ صفحات پر بحث کی گئی ہے)

۲۔ اپنے عیوب یاد رکھیں حضرت علی ـ نے فرمایا: کہ تم کس طرح لوگوں کے عیوب بیان کرتے ہو جب کہ خود اس جیسے یا اس سے بدتر گناہ کا ارتکاب کرچکے ہو اور اگر فرض کریں کہ تم میں کوئی عیب نہیں ہے تو تمہاری یہی جرأت کہ تم دوسروں کے عیوب اور بدکاری کو عام کررہے ہو ان کے عیوب سے بدتر ہے۔(۲)

روایات میں ہے کہ خوش بخت ہے وہ شخص جس کے عیوب اُسے مشغول رکھتے ہیں (اور وہ اصلاح کی فکر میں رہتا ہے) اور لوگوں کے عیوب سے اُسے کوئی سروکار نہیں ہے۔(۳)

یاد آوری:

غیبت کی بحث کے اختتام پر چند باتوں کی یاد آوری ضروری ہے:

۱۔ غیبت کے حرام ہونے کا حکم فقط اس سورئہ یا اس آیت میں نہیں بلکہ دیگر آیات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بحار الانوار ج۷۲، ص ۲۲۶ (۲)۔ نہج البلاغہ۔خطبہ ۱۵۰ (۳)۔ بحار الانوار ج۱، ص ۱۹۱

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160