آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)0%

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات) مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 160

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام محسن قرائتی
زمرہ جات: صفحے: 160
مشاہدے: 115258
ڈاؤنلوڈ: 3975

تبصرے:

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 160 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 115258 / ڈاؤنلوڈ: 3975
سائز سائز سائز
آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

سے کہا سلام ہو اُس پر جس کا چچا ابولہب ہے جس پر قرآن نے لعنت کی ہے تو جناب

عقیل ـ نے فوراً جواب دیا سلام ہو اُس پر جس کی پھوپھی''حَمَّالة الحطب '' ہے (یعنی ابولہب کی بیوی)۔(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بحارالانوار ج52، ص 112 و الغازات ج2 ص، 380

۱۲۱

آیت نمبر 12

یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اِجْتَنِبُوا کثیراً مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثم وَّ لَا تَجَسَّسُوا وَ لَا یَغْتَبْ بَعْضُکمْ اَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أِنْ یّٰاکُلَ لَحْمَ أَخِیْهَ مَیْتًا فَکَرِهتُمُوْهُط وَاَتّقُوا اللّٰهَط اِنَّ اللّٰه تَوَّاب رَّحِیْم-

ترجمہ:

اے ایمان والو اکثر گمانوں سے اجتناب کرو کہ بعض گمان گناہ کا درجہ رکھتے ہیں اور خبردار ایک دوسرے کے عیب تلاش نہ کرو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کہ کیا تم میں کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے یقینا تم اسے برا سمجھو گے تو اللہ سے ڈرو کہ بے شک اللہ بہت بڑا توبہ کا قبول کرنے والا اور مہر بان ہے۔

نکات:

(1)۔ قرآن میں حسن ظن کی تاکید اور مسلمانوں کی نسبت سوء ظن سے روکا گیا ہے ۔۔ مثال کے طور پر سورئہ نور میں ارشاد ہوتا ہے''لولا اِذسَمِعتُموه ظَنَّ المومنونَ والمومنات بأَلْفِهم خیراً'' (1) کیوں بعض باتوں کے بارے میں حسن ظن نہیں رکھتے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نور آیت 12

۱۲۲

(2)۔ جس طرح سے اسی سورئہ کی آیت نمبر نو میں امن و امان اور لوگوں کی جان کی

حفاظت کی خاطر سرکش اور باغی سے مقابلے کے لیے تمام مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اسی طرح اس آیت نے امن و امان اور مسلمانوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کی خاطر سوء ظن، تجسس اور غیبت کو حرام قرار دیا ہے۔

(3)۔ آج دنیا کے سارے حقوق دان حقوق بشر کی باتیں کرتے ہیں لیکن اسلام ایسے ہزاروں مسائل کو مورد توجہ قرار دیتا ہے جن سے یہ سب حقوق دان غافل ہیں جیسا کہ اسلام غیبت کو بھی حقوق بشر پر حملہ کرنے کے مترادف سمجھتا ہے غیبت کے علاوہ کسی بھی گناہ کو درندگی سے تشبیہ نہیں دی گئی ہے۔ ایسا سلوک تو بھیڑیا بھی بھیڑیے کے ساتھ نہیں کرتا ہے۔

وَلَیْسَ الذِّئبُ یَاکل لَحْمَ ذِئبٍ وَیَاکُلُ بَعْضُنَا بَعْضًا عَیَانًا(1)

سوال: کیوں ایک لمحہ غیبت کرنے سے کئی سال کی عبادت ضائع ہوجاتی ہے کیا یہ سزا عادالانہ ہے؟

جواب: جس طرح غیبت کرنے والا شخص ایک لمحے میں سالھا سال سے بنائی گئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ اور بھیڑیا بھی بھیڑیے کو نہیں کھاتا ۔ اور ہم میں سے بعض افراد بعض اوقات ایک دوسرے کا گوشت کھاتے ہیں۔

۱۲۳

انسان کی عزت و آبرو کو ملیا میٹ کردیتا ہے۔ خداوند عالم بھی اس کی کئی سالوں کی عبادت کو ضائع کردیتا ہے اس بناء پر کئی سالوں کی عبادت کا برباد ہونا عدل کے مطابق ہے بلکہ عین عدل ہے۔

پیغامات:

1۔ ایمان ذمہ داری اور عہد وپیمان کے ہمراہ ہے جو بھی صاحب ایمان ہے اُسے چند اعمال سے دور رہنا چاہیے۔''یٰا ایُّها الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اِجْتَنِبُوا--- '' ایمان ، سوء ظن ، لوگوں کے کاموں میں تجسس اور ان کی غیبت کے ہمراہ سازگار نہیں ہے۔

2۔ حتمی گناہوں سے بچنے کے لیے احتمالی گناہوں سے دوری کرنی چاہییے (کیونکہ اکثر گمان گناہ ہیں ہمیں ہر بدگمانی سے دوری اختیار کرنی چاہیے)(اجتنبوا --- اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْم )

3۔ کسی بھی فرد کے بارے میں اسلا م کا بنیادی اُصول یہ ہے کہ اُسے قابل اعتماد ، صحیح و سالم، کریم اور تمام عیوب سے مبرا سمجھو۔(انّ بَعْضَ الظَنِّ اِثْم )

5۔ اسلامی معاشرہ میں لوگوں کے بارے میں سوء ظن نہ رکھا جائے اُن کے امور میں تجسس نہ کیا جائے۔ اور مجالس و محافل میں ان کی آبروریزی نہ کی جائے(بَعْضَ الظَنِّ اِثْم--- لاتَجَسَّسُوا ولا یغتب )

5۔ غیبت سے روکنے کے لیے ایسے تمام راستوں کو بند کردیا جائے جو غیبت کا پیش خیمہ بنتے ہیں(غیبت کا آغاز سوء ظن سے ہوتا ہے اس کے بعد تجسس اور پھرعیوب تلاش کرنے کے بعد غیبت کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے لہٰذا قرآن نے اسی ترتیب سے

۱۲۴

منع فرمایا ہے)اجتنبوا کثیراً مِنَ الظَّنّ --- لا تجسسوا وَلَا یغتب-

6۔ گناہ اگرچہ ظاہری طور پر خوشگوار معلوم ہوتا ہے لیکن اگر اسے باطنی اور روحانی نگاہ سے دیکھا جائے تو خباثت سے بھرپور اور قابل نفرت ہے(یأکُلَ لَحْمَ أَخِیْه مَیْتًا) (باطنی طورپر غیبت، مردار کا گوشت کھانے کے مترادف ہے کسی بھی گناہ کے لیے اس طرح کی تعبیر استعمال نہیں کی گئی ہے۔

7۔ برائی سے روکنے کے لیے جذباتی تعبیرات سے استفادہ کرنا چاہیئے۔(لَا یَغْتَبْ --- أَیُحِبُّ أَحْدُکَمْ أَنْ یَاکُلَ لَحْمَ أَخِیْهِ)

8۔ تعلیم و تربیت کے لیے مثال اور واقعات سے استفادہ کرنا چاہیے۔

9۔ تعجب ہے اُن لوگوں پر جو دوسروں کی غیبت کرتے ہیں۔(أَیُحِبُّ أَحدکَم---)

10۔ غیبت کرنا سب کے لیے حرام ہے اس میں سن و سال ، نسل اور مقام کی کوئی قید نہیں ہے۔ (کلمہ''احدکم'' میں چھوٹے بڑے ، مشہور اور گمنام، عالم اور جاہل، مرد اور عورت سب شامل ہیں)۔

11۔ صاحبان ایمان ایک دوسرے کے بھائی اور ہم خون ہیں۔(لَحْمَ أَخِیْه)

12۔ انسان کی عزت و آبرو اس کے بدن کے گوشت کی مانند اُس کے استحکام کا ذریعہ ہے۔(لَحْمَ أَخِیْهِ)

13۔ کافر کی غیبت کی جاسکتی ہے ( کیونکہ کافر، مسلمان کا بھائی نہیں ہے) ۔(لَحْمَ أَخِیْه)

۱۲۵

15۔ جس طرح سے مردہ شخص اپنے دفاع کی قدرت نہیں رکھتا ہے اسی طرح سے وہ شخص بھی جس کی غیبت کی جارہی ہو نہ ہونے کی وجہ سے اپنے دفاع کی قدرت نہیں رکھتا ہے۔(میتًا)

15۔ اگر زندہ کے بدن سے گوشت کا ٹکڑا جدا ہوجائے تو ممکن ہے کہ وہ جگہ پُر ہوجائے لیکن اگر مردہ سے گوشت کو جدا کرلیا جائے تو وہ جگہ اسی طرح خالی رہ جاتی ہے غیبت دراصل کسی کو بے آبرو کرنا ہے اور جب آبرو ہی چلی جائے تو پھر اس کا ازالہ نہیں ہوسکتا ہے۔(لَحْمَ أَخِیْه میتًا)

16۔ غیبت کرنا درندگی ہے۔(یاکل لَحْمَ أَخِیْه میتًا)

17۔ غیبت کرنا تقویٰ کے ساتھ سازگار نہیں رکھتا ہے۔( لایغتَبْ --- وَاتَّقُوا اللّٰهَ )

18۔ اسلام میں تعطل اور نااُمیدی کا کوئی تصور نہیں ہے توبہ کے ذریعہ اپنے کیئے ہوئے گناہ کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔( لایغتَبْ --- اِنّ اللّٰهَ تَوَّابُ رَحِیم)

19۔ خداوند متعال اپنی رحمت کے وسیلے سے عذر قبول کرلیتا ہے۔(تَوَّابُ رَحِیم)

سوء ظن کی اقسام:

سوئے ظن کی کئی اقسام ہیں جن میں سے بعض کی ممانعت کی گئی ہے۔

1۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوء ظن رکھنا: حدیث میں ہے کہ اگر کوئی شخص

۱۲۶

اخراجات کے ڈر سے شادی نہں کرتا ہے تو درحقیقت وہ خداوند عالم کے بارے سوء ظن رکھتا ہے یعنی وہ یہ سوچتا ہے کہ اگر وہ تنہا رہے گا تب تو خدا اُسے رزق دینے پر قادر ہے لیکن اگر بیوی ساتھ ہوگی تو خداوند اُسے رزق دینے کی قدرت نہیں رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس قسم کا سوء ظن رکھنا منع ہے۔

2۔ لوگوں کے بارے میں سوء ظن رکھنا: جس کی اس آیت میں ممانعت کی گئی ہے۔

3۔ اپنے بارے میں سوء ظن رکھنا: یہ قسم مورد ستائش ہے۔ انسان کو اپنے بارے میں حسن ظن نہیں رکھنا چاہیئے کہ اپنے ہرکام کو بے عیب سمجھنے لگے۔ حضرت علی ـ نے (خطبہ ہمام میں) متقین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا: متقین کے کمالات میں سے ایک کمال یہ ہے کہ وہ اپنے بارے میں سوء ظن رکھتے ہیں۔

جو لوگ اپنے آپ کو بے عیب سمجھتے ہیں دراصل ان کے علم و ایمان کا نور کم ہے اور نور کی کمی کے باعث انسان کسی چیز کو نہیں دیکھ سکتا ہے مثال کے طور پر اگر آپ ٹارچ لے کر ایک ہال میں داخل ہوں تو اس سے فقط بڑی چیزیں ہی دیکھ پائیں گے لیکن اگر ٹارچ کی جگہ کوئی طاقتور لائٹ ہو تو اس وقت ماچس کا تنکا اور سگریٹ کی راکھ بھی ہال میں نظر آئے گی۔

جن لوگوں کے ایمان کا نور کم ہوتا ہے بڑے گناہوں کے علاوہ انہیں کچھ نظر نہیں آتا ہے لہٰذا کبھی وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو کسی کو قتل نہیں کیا ، ہم نے تو کسی کے گھر کی دیوار نہیں پھلانگی! وہ فقط اس قسم کے کاموں کو گناہ سمجھتے ہیں لیکن اگر ان کے ایمان کا نور زیادہ ہو تو وہ اپنی معمولی سے لغزشوں کو بھی دیکھ لیں گے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نالہ و

۱۲۷

فریاد کریں گے۔

آئمہ معصومین ـ کی مناجات اور بے حد گریہ کی ایک وجہ ان کی معرفت اور ایمان کا نور ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے بارے میں خوش بین ہو (اور اپنے افکار و کردار کے بارے میں کسی قسم کا سوء ظن نہ رکھتا ہو) تو وہ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتا اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو ہمیشہ اپنے پیچھے کی طرف دیکھتا ہے کہ وہ کتنا راستہ طے کرچکا ہے اور پھر اُس پر غرور کرتا ہے لیکن اگر وہ سامنے کی طرف دیکھے کہ اس نے ابھی کتنا راستہ اور طے کرنا ہے تو جان لے گا کہ جو راستہ اس نے ابھی طے نہیں کیا وہ اس راستہ سے کئی گناہ زیادہ ہے جو وہ طے کرچکا ہے۔

جب ہم دیکھتے کہ قرآن پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ حکم(قل رَبِّ ذدنی عِلْمًا (1) ) دیتا ہے کہ حصول علم کے سلسلے میں کوشاں رہو اور پھر یہ حکم(شَاوِرْهُم فی الأَمْر (2) ) کہ تم لوگوں سے مشورہ کرو اور یہ حکم کہ(فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ (3) ) جیسے ہی اپنے کام سے فارغ ہوجاؤ تو نئے کام کو فوراً مکمل قدرت کے ساتھ انجام دو۔ تو جب اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کے لیے ایسے دستور دیئے ہیں تو کیا ہمیں زیب دیتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو فارغ التحصیل اور مشورہ کرنے سے بے نیاز سمجھیں۔ نیز اپنی ذمہ داری کو ختم سمجھیں اور اپنے بارے میں حسن ظن رکھیں؟ اس لیے کہ ہمیں اپنے بارے میں خوش بین اور حسن ظن نہیں رکھنا چاہیے۔ بلکہ لطف الٰہی اور لوگوں کی رفتار وکردار کے باریمیں حسن ظن رکھنا چاہیئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ طہ آیت 115 (2)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران آیت 159 (3)۔ سورئہ مبارکہ الم نشرح آیت 7

۱۲۸

O اس نکتہ کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ حسن ظن سے مراد سادگی ، جلدی یقین کرلینا، سطحی فکر کرنا، سازشوں اور شرارتوں سے غفلت کرنا نہیں ہے۔ اُمت مسلمہ کو بھی حسن ظن کی خاطر بیجا غفلت نہیں کرنا چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس بے جا غفلت کے نتیجہ میں دشمنوں کے جال میں پھنس جائیں۔

غیبت کسے کہتے ہیں؟

O غیبت سے مراد کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کے بارے میں ایسی بات کہنا کہ جس سے لوگ بے خبر ہوں اگر وہ شخص اُسے سنے تو ناراض ہو(1) ۔ لہٰذا کسی کے سامنے اُس پر تنقید کرنا ، یا ایسے عیوب بیان کرنا جن سے لوگ باخبر ہوں یا جس کی غیبت ہورہی ہے وہ سنے تو ناراض نہ ہو تو پھر یہ غیبت نہیں ہوگی۔ کسی بھی فرد کی غیبت کرنا حرام ہے وہ مرد ہو یا عورت ، چھوٹا ہو یا بڑا، آشنا ہو یا بیگانہ، استا ہو یاشاگرد، باپ ہو یا بیٹا، مردہ ہو یا زندہ۔

Oرسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: مردوں کو کچھ نہ کہو جو مرگیا ہے اس کے بارے میں اچھی باتیں کرو۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ وسائل الشیعہ ج8 ، ص600۔ 605

(1)۔ نہج الفصاحہ، جملہ 265

۱۲۹

غیبت روایات کی روشنی میں:

Oحضرت امام جعفر صادق ـنے فرمایا: غیبت کرنے والا شخص اگر توبہ کرے جنت میں داخل ہونے والا آخری شخص ہوگا اور اگر توبہ نہ کرے تو دوزخ میں داخل ہونے والا پہلا شخص ہوگا۔ (1)

Oحضرت امام علی رضا ـنے حضرت امام زین العابدین ـ سے نقل فرمایا: اگر کوئی شخص مسلمانوں کی آبروریزی سے پرہیز کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی لغزشوں کو نظر انداز کردے گا۔ (2)

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: جو کسی مرد یا عورت کی غیبت کرے تو چالیس دن تک اس

کی نماز اور روزہ قبول نہیں کیا جائے گا۔(3)

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن جب بعض لوگوں کو اُن کا نامہ اعمال دیا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ ہمارے نیک اعمال کو درج کیوں نہیں کیا گیا ہے؟

اُن سے کہا جائے گا کہ خداوندعالم نہ کسی چیز کو کم کرتا ے اور نہ اُسے فراموش کرتا ہے بلکہ تمہارے نیک اعمال غیبت کرنے کی وجہ سے ضائع اور برباد ہوگئے ہیں ان کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ مستدرک ج9، ص 117

(2)۔بحار الانوار ج 72، ص 256

(3)۔ بحار الانوار ج 72، ص 258

۱۳۰

مقابلے میں کچھ لوگ دیکھیں گے کہ ان کے نامہ اعمال میں بہت زیادہ نیک اعمال درج ہیں اور وہ یہ سوچیں گے یہ نامہ اعمال ان کا نہیں ہے۔ تو ان سے کہا جائے گا کہ جس نے تمہاری غیبت کی تھی اس کے نیک اعمال تمہارے نامہ اعمال میں درج کردیئے گئے ہیں۔(1)

Oرسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مکہ کی طرف اپنے آخری سفر کے موقع پر فرمایا: تمہارا خون، تمہارا مال، تمہاری عزت وآبرو اسی طرح محترم ہے جس طرح یہ ذی الحجہ کا مہینہ اور ایام حج محترم ہیں(2)

O روایات میں غیبت کرنے والے کا ذکر اس شخص کے ساتھ ہوا ہے جو ہمیشہ شراب پیتا ہو۔تَحْرَمْ الجنّة عَلٰی المغتابِ ومُدْ مِن الخَمْر (3)

O روایات میں ہے کہ جو اپنے دینی بھائی کے عیوب تلاش کرے (اور انہیں دوسروں کو بتائے) تو اللہ تعالیٰ اس کے عیوب آشکار رکردے گا۔(4)

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ میں اپنے آخری خطبہ کے دوران فرمایا: اگر کوئی غیبت کرے تو اُس کا روزہ باطل ہے (5) یعنی وہ شخص روزے کے معنوی آثار اور برکات سے محروم ہوجائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بحار الانوار ج 72، ص 259 (2)۔ شرح نہج البلاغہ۔ ابن ابی الحدید ج9 ، ص62

(3)۔ بحار الانوار ج72، ص260 (غیبت کرنے والے اور مسلسل شراب پینے والے پر جنت حرام ہے)

(5)۔محجة البیضاء ج5، ص252 (نقل از سنن ابی داؤد ج2، ص 568)(5)۔ محجة البیضاء ج5، ص255

۱۳۱

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: سود کا ایک درہم چھتیس (36) زنا سے بدتر اور سب سے بڑا سود مسلمان کی عزت وآبرو سے کھیلنا ہے۔(1)

O حدیث میں ہے کہ مسجد میں نماز باجماعت کے انتظار میں بیٹھنا عبادت ہے البتہ جب تک کہ ہم غیبت نہ کررہے ہوں۔(2)

غیبت کا ازالہ:

O اگر ایسے شخص کی غبیت کی ہو جو اب دنیا سے جاچکا ہوتو اس کے ازالہ کے لیے توبہ کریں اور خدا سے عذر خواہی کریں بے شک خدا توبہ قبول کرنے والا ہے۔

لیکن اگر وہ زندہ ہو اور اس چیز کا امکان ہو کہ اگر اس سے یہ کہا جائے کہ ہم نے تمہاری غیبت کی تو وہ ناراض ہوگا تو ایسی صورت میں (بعض مراجع تقلید کے مطابق(3) ) اسے نہ بتایا جائے بلکہ اپنے اور اللہ کے درمیان توبہ کریں اور اگر غبیت سننے والوں تک رسائی ممکن ہوسکے تو ان کے سامنے اس کا ذکر خیر اور تعظیم و تکریم کے ذریعہ اپنی کی ہوئی غیبت کا ازالہ کریں اور اگر وہ شخص یہ بتانے سے کہ ہم نے تمہاری غیبت کی ہے ناراض نہ ہوتا ہو تو خود اُسی سے عذر خواہی کرنی چاہیئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بحار الانوار ج72، ص 222 (2)۔ اصول کافی: ج2 ، ص357

(3)۔ میں نے حضرت آیت اللہ العظمیٰ گلپائیگانی سے سوال کیا کہ کیا کی ہوئی غیبت کی عذر خواہی کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم لوگوں سے کہیں کہ ہم نے تمہاری غیبت کی ہے؟

آپ نے جواب دیا: نہیں ، اس لیے کہ اگر ہم اُن سے یہ کہیں گے کہ ہم نے تمہاری غیبت کی ہے تو وہ ناراض ہوجائے گا اور مسلمان کو ناراض کرنا خود ایک دوسرا گناہ ہے لہٰذا غیبت کا ازالہ استغفار سے کیا جائے اور ہر جگہ اس شخص سے جس کی غیبت کی گئی ہو عذر خواہی کرنا ضروری نہیں۔

۱۳۲

Oشیخ طوسی علیہ الرحمہ نے شرح تجرید میں پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث کے حوالے سے یہ بیان کیا ہے کہ جس کی غیبت کی گئی ہو اگر اُس نے اُسے سن لیا ہو تو اس کے ازالہ کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے پاس جائے اور رسمی طور پر اس سے عذر خواہی کرے اور اگر اُسے پتہ نہیں چلا ہے تو جب کبھی اس کا ذکر آئے تو اُس کے لیے استغفار کریں۔''اِنَّ کَفَّارَةَ الغِیْبَةِ أنْ تَسْتَغْفَِ لِمَنْ اِغْتَبتَه' کُلَّما ذَکَرْتَه'' (1)

وہ مقامات جہاں غیبت کرنا جائز ہے:

بعض مقامات پر غیبت کرنا جائز ہے ۔ وہ یہ ہیں:

1۔ مشورہ کے وقت: اگر کوئی شخص کسی کے بارے میں ہم سے مشورہ کرنا چاہے تو اس کے عیب مشورہ کرنے والے کو بتا سکتے ہیں۔

2۔ باطل کو ردّ کرنے کیلئے: باطل عقیدے کو ردّ کرنے یا پھر ایسے اشخاص کی ردّ کرنے کے

لیے جو ایسے عقیدے کے مالک ہوں اس ڈر سے کہ کہیںلوگ ان کے عقائد کی پیروی نہ کرنے لگیں۔ (غیبت کرنا جائز ہے)

3۔ قاضی کے پا س مجرم کے خلاف گواہی دیتے وقت: جس طرح بے جا دعوؤں کو ردّ کرنے کے لیے حقیقت کو بیان کرنا ضروری ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ جس کی غیبت کی ہے جب بھی اس کا ذکر ہو اس کے لیے استغفار کریں۔

۱۳۳

5۔ اس شخص کی گواہی ردّ کرنے کے لیے جو قابل اطمینان نہیں ہے۔

5۔ مظلومیت کے اظہار کے لیے، ظالم کے ظلم کو بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

6۔ جو شرم و حیاء کے بغیر آشکارہ طور پر گناہ کرتا ہے اس کی غیبت کی جاسکتی ہے۔

7۔ تقیہ یا بیہودہ دعوؤں کو ردّ کرنے کے لیے غیبت ہوسکتی ہے مثال کے طور پر اگر کوئی یہ کہے کہ میں مجتہد ہوں ، میں ڈاکٹر ہوں میں سید ہوں اور ہم یہ جانتے ہوں کہ وہ ان صفات کا مالک نہیں ہے تو ہمارے لیے جائز ہے کہ لوگوں کو بتائیں کہ وہ ان صفات کا مالک نہیں ہے۔

غیبت کے خطرات:

O غیبت کرنے میں دوسرے کئی گناہ پوشیدہ ہیں۔

1۔ بدکاری کی اشاعت: لوگوں کی بدکاری کو نشر کرنا اتنا خطرناک ہے کہ فقط ان کا نشر کرنا ہی نہیں بلکہ اسے اچھا سمجھنا بھی دردناک عذاب کا باعث ہے۔(1)

2۔ مومن کو ذلیل و خوار کرنا اور حقیر سمجھنا۔

3۔ چغل خوری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔أن الّذیْنَ یُحِبُّونَ أنْ تَشِیْعُ الفٰاحِشَةُ --- لَهُمْ عَذَاب أَلِیْم (سورئہ نور آیت 19) جولوگ یہ چاہتے ہیں کہ بدکاری کا چرچا پھیل جائے ۔۔ ان کے لیے بڑا دردناک عذاب ہے۔

۱۳۴

5۔جنگ و جدال اور فتنہ و فساد برپا کرنا

5۔ ظلم و ستم اور دوسرے گناہ۔۔۔

غیبت کی اقسام:

غیبت کبھی زبان سے ،کبھی اشارے سے کبھی تحریر سے، کبھی تصویر سے، کبھی شکل و مجسمہ سے، کبھی اس کی نقل اتارنے سے اور کبھی خاموشی کے ذریعہ ہوسکتی ہے۔مثال کے طور پر کہے کہ افسوس دین نے میری زبان روک رکھی ہے۔ اس جملے سے وہ سب کو سمجھانا چاہتا ہے کہ فلاں صاحب میں بہت عیب پائے جاتے ہیں۔ یا الحمد للّٰہ کہہ کر یہ کہے کہ ہم اس مسئلہ میں گرفتار نہیں ہوتے اس جملے سے وہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ فلان صاحب اس مسئلے میں گرفتا ہیں۔ کبھی اپنے عیوب کے ذکر کے ذریعے یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ دوسرے میں عیب پائے جاتے ہیں مثال کے طور پر وہ یہ کہے کہ انسان ضعیف ہے ہم سب بے صبرے ہیں یعنی وہ ضعیف اور بے صبرے ہیں۔کبھی غیبت سننے کے بعد کہتے ہیں سبحان اللّٰہ ، اللّٰہ اکبر اس ذکر کے ذریعہ غیبت کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ غیبت کو جاری رکھے اور کبھی زبان سے کہتے ہیں کہ غیبت نہ کریں لیکن دلی طور پر چاہتے ہیں کہ غیبت سنیں یہ نفاق ہے۔

۱۳۵

غیبت کے آثار:

(الف) اخلاقی اور اجتماعی آثار۔

1۔ غیبت بغض و کینہ کے پیدا ہونے، اعتماد ختم ہوجانے ، اختلاف اور فتنہ و فساد کے پھیلنے، اور معاشرہ کے لیے مفید اور کارآمد افراد کے ایک طرف ہوجانے کا سبب بنتی ہے۔

2۔ گناہ کے لیے زیادہ جرأت پیدا ہوتی ہے جیسے ہی انسان یہ سمجھ لے کہ لوگ اس کے عیب اور بدکاری سے باخبر ہوگئے ہیں اور وہ بے آبرو ہوچکا ہے تو اس میں گناہ کرنے کی جرأت زیادہ ہوجاتی ہے اور وہ گناہ نہ کرنے اور توبہ کرنے کا ارادہ ترک کردیتا ہے۔

3۔ لوگوں کے عیوب نشر کرنے سے اردگرد کا ماحول اور معاشرے کی فضا آلودہ ہوجاتی ہے اور دوسروں کی گناہ کرنے کی جرأت میں اضافہ ہوتا ہے۔

5۔ انتقام لینے کے جذبے کو تحریک ملتی ہے اس لیے کہ جیسے ہی اُسے جس کی غیبت ہوئی ہے یہ پتا چلتا ہے کہ اس کی آبرو ریزی کی گئی ہے تو وہ پھر اسی فکر میں رہتا ہے کہ اُسے کب موقع ملے اور وہ بھی غیبت کرنے والے کو بے آبرو کرے۔

5۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے آج ہمارا غیبت کرنا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ کل لوگ ہماری غیبت کریں''لَا تَغْتَبْ فَتَغْتَبْ '' (1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔غیبت نہ کرو ورنہ تمہاری غیبت بھی کی جائے گی۔ بحارالانوارج72، ص 259

۱۳۶

جو اپنے بھائی کے لیے گڑھا کھودتا ہے وہ خود ہی اُس میں گرجاتا ہے۔

(ب)أُخروی آثار۔

1۔ غیبت کرنا، نیکیوں اور خوبیوں کی بربادی کا سبب ہے۔(1)

2۔ غیبت کرنا عبادات کی قبولیت میں رکاوٹ ہے۔

3۔ غیبت کرنے سے انسان ولایت الٰہی کے دائرے سے خارج ہوکر دوسرے کی ولایت کے دائرے میں چلا جاتا ہے۔(2)

غیبت کی وجوہات:

1۔ کبھی غیبت کی وجہ غیظ و غضب ہے۔بعض آسمانی کتابوں میں آیا ہے کہ (خدا فرماتا ہے اے بندے) اگر غیظ و غضب کے وقت تو مجھے یاد کرے اور اُسے نظر انداز کردے تو میں بھی غضب کے وقت تجھے یاد رکھوں گا اور غضب نہیں کروں گا۔(3)

2۔ کبھی دوسروں کے ساتھ ہم محفل ہونا غیبت کا سبب بنتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ کچھ لوگ کسی کی بدگوئی کررہے ہیں تو ان کا ہم محفل ہونے کی خاطر خود بھی غیبت کرنے لگتا ہے جب کہ وہ اس چیز سے غافل ہے کہ فقط اپنے دوستوں کی نظروں میں محبوب ہونے کے احتمال کی خاطر خدا کے فوری اور یقینی غضب کو مول لے رہا ہے نیز اس نے لوگوں کی رضا کو اللہ کی رضا پر مقدم کیا ہے جو سب سے بڑا خسارہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بحار الانوار ج75، ص 257 (2)۔ اصول کافی ج3، ص 358

(3)۔محجة البیضاء ج5، ص265

۱۳۷

3۔ کبھی غیبت کی وجہ اپنے آپ کو بڑا ظاہر کرنا ہوتا ہے ۔ یعنی دوسروں کو پست کرنا تاکہ اپنی بڑائی ثابت کرسکے ایسا شخص بھی لوگوں کے نزدیک محبوب ہونے کی امید پر قہر الٰہی کو مول لیتا ہے اور یہ ایک نقصان دہ معاملہ ہے۔

5۔ کبھی غیبت کی وجہ دوسروں کا مذاق اڑانا ہے وہ اس سے غافل ہوتا ہے کہ وہ کچھ لوگوں کے سامنے کسی کی تحقیر کررہا ہے اللہ تعالیٰ روز قیامت سب کے سامنے اس کی تحقیر کرے گا۔

5۔ کبھی تعجب کی صورت میں غیبت کرتا ہے مثال کے طور پر وہ کہتا ہے کہ مجھے تعجب ہے کہ فلاں شخص اتنا علم اور معلومات رکھنے کے باوجود ایسا کیوں ہوگیا ہے جب کہ اُسے تعجب تو اس بات پر ہونا چاہیے کہ وہ کس طرح اس ایک جملے کے ذریعہ اپنی تمام عبادت کو تباہ و برباد کررہا ہے۔

6۔ کبھی غیبت کی وجہ حسد ہے۔

7۔ کبھی تفریحاً کسی کی غیبت کرتا ہے۔

8۔ کبھی اپنے آپ کو کسی عیب سے بری الذمہ کرکے اُسے دوسروں کی گردن پر ڈال کر غیبت کرتا ہے ۔

9۔ کبھی از راہ ہمدردی غیبت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں فلاں شخص کی طرف سے بہت پریشان ہوں جو اس مشکل میں پریشان ہے۔

البتہ غیبت کرنے کی اور بھی کئی ایک وجوہات ہیں۔

۱۳۸

غیبت سننا:

O غیبت سننے والے کی ذمہ داری یہ ہے کہ غیبت نہ سنے اور مومن کا دفاع کرے۔ حدیث میں ہے۔''السّاکِت' شَرِیْکُ القائل'' اگر کوئی غیبت سنے اور اُس پر خاموش رہے تو وہ شریک جرم ہے۔(1)

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: جو غیبت سننے کے بعد اُسے ردّ کردے تو اللہ تعالیٰ شرّ کے ہزار در دنیا و آخرت میں اس پر بند کردے گا لیکن اگر خاموش رہا اور غیبت سنتا رہا تو جتنا گناہ غیبت کرنے والے کا تھا اتنا ہی گناہ اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیا جائے گا۔(2) اور اگر جس کی غیبت ہورہی تھی وہ اس کی مدد کرسکتا تھا اور مدد نہیں کی تو روز قیامت خدا اُسے ذلیل و خوار کرے گا۔(3)

اس لیے کہ اس کی خاموشی کے باعث معاشرے کے مفید اور کار آمد افراد ایک طرف ہوجائیں گے اور اُن کا کوئی دفاع نہ کرسکے گا۔

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اگر کسی مجلس میں کسی کی بدگوئی ہورہی ہو تو انہیں منع کرے اور وہاں سے سے چلا جائے۔(4)

O سورئہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 36 میں ارشاد ہے : کان، آنکھ اور دل سے روز قیامت سوال کیا جائے گا اس بنا پر ہمیں ہر بات سننے کا حق حاصل نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔غرر الحکم (2)۔ وسائل الشیعہ ج8، ص608

(3)۔ وسائل الشیعہ ج8، ص606 (5)۔کنز العمال ج2، ص 80

۱۳۹

O ایک روایت کے مطابق غیبت کرنا کفر، سننا اور اُس پر راضی رہنے کو شرک کہا گیا ہے۔(1)

غیبت ترک کرنے کے طریقے:

1۔ غیبت کرنے کے خطرات اور اس کے منفی اثرات پر توجہ دیں (جن کے بارے گزشتہ صفحات پر بحث کی گئی ہے)

2۔ اپنے عیوب یاد رکھیں حضرت علی ـ نے فرمایا: کہ تم کس طرح لوگوں کے عیوب بیان کرتے ہو جب کہ خود اس جیسے یا اس سے بدتر گناہ کا ارتکاب کرچکے ہو اور اگر فرض کریں کہ تم میں کوئی عیب نہیں ہے تو تمہاری یہی جرأت کہ تم دوسروں کے عیوب اور بدکاری کو عام کررہے ہو ان کے عیوب سے بدتر ہے۔(2)

روایات میں ہے کہ خوش بخت ہے وہ شخص جس کے عیوب اُسے مشغول رکھتے ہیں (اور وہ اصلاح کی فکر میں رہتا ہے) اور لوگوں کے عیوب سے اُسے کوئی سروکار نہیں ہے۔(3)

یاد آوری:

غیبت کی بحث کے اختتام پر چند باتوں کی یاد آوری ضروری ہے:

1۔ غیبت کے حرام ہونے کا حکم فقط اس سورئہ یا اس آیت میں نہیں بلکہ دیگر آیات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بحار الانوار ج72، ص 226 (2)۔ نہج البلاغہ۔خطبہ 150 (3)۔ بحار الانوار ج1، ص 191

۱۴۰