آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)25%

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات) مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 160

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 160 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130122 / ڈاؤنلوڈ: 5446
سائز سائز سائز
آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

مستحب ہے کہ جب انسان اپنے گھرسے نمازکے لئے مسجدکی طرف روانہ ہو تو بہترین لباس پہن کراورعطر وخوشبو لگاکرمسجدمیں آئے اوراگرگھرمیں بھی نمازپڑھے توخشبولگاکرنمازپڑھے،عورت کے لئے مستحب ہے کہ جب گھرمیں نمازاداکرے توعطرخوشبوکااستعمال کرے ،عطرلگاکرنماز پڑھنے کے بارے میں روایت میں آیاہے:قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم رکعتان علیٰ اثرطیب افضل من سبعین رکعة لیست کذلک (۱)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:خوشبوکے ساتھ دورکعت نمازپڑھناان ستررکعت نمازوں سے افضل ہیں جوعطرلگائے بغیر پڑھی جاتی ہیں ۔قال الرضاعلیه السلام :کان یعرف موضع جعفرعلیه السلام فی المسجد بطیب ریحه وموضع سجوده ۔(۲)

حضرت امام صادق کے بارے میں امام رضا فرماتے ہیں:کہ امام صادق کی محل نمازوسجدہ کومسجدمیں ان کی خوشبوکے ذریعہ پہچان لیاجاتاتھا۔حسین دیلمی نے اپنی کتاب“ہزارویک نکتہ دربارہ ”میں ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت امام زین العابدین جب بھی نماز پڑھنے کا ارادہ کرتے تھے اور محل نمازپر کھڑے ہوتے تھے تو ) اپنے آپ کو اس عطرسے جو آپ کے مصلّے میں رکھا رہتا تھا معُطّرکر تے تھے۔(۳)

حمام ، گِل،نمک زارزمین،کسی بیٹھے یاکھڑے ہوئے انسان کے مقابلے میں،کھلے ہوئے دروازے کے سامنے ،شاہروں اورسڑکوں پر،گلیوں میں جبکہ آنے جانے والے کے لئے باعث زحمت نہ ہو، اگرباعث زحمت ہوتوحرام ہے،آگ اورچراغ کے سامنے ،باورچی خانہ میں،جہاں اگ کی بھٹی ہو، کنویں کے سامنے ،ایسے گڑھے کے سامنے کہ جہاں حمام ولیٹرین وغیرہ کاپانی پہنچتاہے ،ذی روح کی تصویریامجمسہ کے سامنے،جس کمرہ میں مجنب موجودہو، قبرکے اوپریاقبرکے سامنے یاقبرستان میں نمازپڑھنامکروہ ہے۔

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:عشرة مواضع لایصلی فیها:الطین والماء والحمام والقبورومسان الطریق وقری النمل ومعاطن الابل ومجری الماء والسبخ والثلج .

امام صادق فرماتے ہیں:دس مقام ایسے کہ جہاں نمازنہ پڑھی جائے : گِل،پانی،حمام،قبور، گذرگاہ ،چیونٹی خانہ ،اونٹوں کی جگہ ،(گندے )پانی کی نالی یاگڑھے کے پاس ،نمک زارزمین پر،برف پر۔(۴)

____________________

. ١)آثارالصادقین /ج ١٢ /ص ١٠٢

٢)مکارم الاخلاق /ص ۴٢

. ٣)ہزارویک نکتہ دربارہ نماز/ش ٢٢٣ /ص ۶٩

۴)وسائل الشیعہ/ج ٣/ص ۴۴١

۱۰۱

عن معلی بن خنیس قال:سئلت اباعبدالله علیه السلام عن الصلاة علی ظهرالطریق؟فقال:لا،اجت نبواالطریق .

معلی بن خنیس سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے راستے پر نمازکے پڑھنے کے بارے میں سوال کیاتوآپ نے فرمایا:صحیح نہیں ہے ،او رفرمایا:راستے پرنمازپڑھنے سے پرہیزکرو۔(۱)

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:لاتصل فی بیت فیه خمرولامسکرلان الملائکة لاتدخله . امام صادق فرماتے ہیں:کسی ایسے گھرنمازنہ پڑھوکہ جس میں شراب یاکوئی مسکرشے مٔوجودہوکیونکہ ایسے گھروں میں ملائکہ داخل نہیں ہوتے ہیں۔(۲)

____________________

.۱) وسائل الشیعہ/ج ٣/ص ۴۴۶

. ۲)استبصار/ج ١/ص ١٨٩

۱۰۲

مسجد

مسجدکی اہمیت

مسجدروئے زمین پرالله کاگھرہے اورزمین کی افضل ترین جگہ ہے ،اہل معارف کی جائیگاہ اورمحل عبادت ہے،صدراسلام سے لے کرآج تک مسجدایک دینی والہٰی مرکزثابت ہوئی ہے،مسجد مسلمانوں کے درمیان اتحادپیداکرنے کامحورہے اوران کے لئے بہترین پناہگاہ بھی ہے، مسجدخانہ ہدایت و تربیت ہے مسجدمومنین کے دلوں کوآباداورروحوں کوشادکرتی ہے اورمسجدایک ایساراستہ ہے جوانسان کوبہشت اورصراط مستقیم کی ہدایت کرتاہے ۔ دین اسلام میں مسجد ایک خاص احترام ومقام رکھتی ہے ، کسی بھی انسان کو اس کی بے حرمتی کرنے کا حق نہیں ہے اور اسکا احترام کرنا ہر انسان پر واجب ہے ۔ ا بو بصیر سے مروی ہے: میں نے حضرت امام صادق سے سوال کیا کہ: مسجدوں کی تعظیم واحترام کاحکم کیوں دیاگیاہے ؟آپ (علیه السلام)نے فرمایا:

انّماامربتعظیم المساجدلانّهابیوت اللهفی الارض ۔(۱)

مسجدوں کے احترام کا حکم اس لئے صادرہواہے کیونکہ مسجدیں زمین پر خداکا گھر ہیں اور خدا کے گھر کا احترام ضروری ہے۔

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اپنے ایک طولانی خطبہ اورگفتگومیں ارشادفرماتے ہیں:من مشیٰ الی مسجد من مساجدالله فله بکل خطوة خطاهاحتی یرجع الی منزله عشرحسنات ،ومحی عنه عشرسیئات ، ورفع له عشردرجات.

ہروہ جوشخص کسی مسجدخداکی جانب قدم اٹھائے تواس کے گھرواپسی تک ہراٹھنے والے قدم پردس نیکیان درج لکھی جاتی ہیں اوردس برائیاں اس نامہ أعمال سے محوکردی جاتی ہیں اوردس درجہ اس کامقام بلندہوجاتاہے۔(۲)

قال النبی صلی الله علیه وآله:من کان القرآن حدیثه والمسجدبیته بنی الله له بیتافی الجنة.

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جس شخص کی گفتگوقرآن کریم ہواورمسجداس کاگھرہوتوخداوندعالم اس کے لئے جنت میں ایک عالیشان گھرتعمیرکرتاہے۔(۳)

____________________

. ١)علل الشرئع /ج ٢/ص ٣١٨

۲). ثواب الاعمال/ص ٢٩١

۳). تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ٢۵۵

۱۰۳

عن ابی عبدالله علیه السلام قال:من مشی الی المسجد لم یضع رجلاعلی رطب ولایابسالّاسبحت له الارض الی الارض السابعة.

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص مسجد کی طرف قدم اٹھائے اب وہ زمین کی جس خشک وترشے بٔھی قدم رکھے توساتوںزمین تک ہرزمین اس کے لئے تسبیح کرے گی۔(۱)

عن الصادق علیه السلام:ثلٰثة یشکون الی الله عزوجل مسجدخراب لایصلی فیه اهله وعالم بین الجهال ومصحف معلق قدوقع علیه غبارلایقرء فیه ۔(۲)

امام جعفر صادق فرماتے ہیں : تین چیزیں الله تبارک وتعالی کی بار گاہ میں شکوہ کرتی ہیں:

١۔ویران مسجدکہ جسے بستی کے لوگ آباد نہیں کر تے ہیں اور اس میں نماز نہیں پڑھتے ہیں

٢۔وہ عالم دین جو جاہلوں کے درمیان رہتا ہے اور وہ لوگ اس کے علم سے فائدہ نہیں اٹھاتے ہیں

٣۔ وہ قرآن جو کسی گھر میں گرد وغبارمیں آلودہ بالا ئے تاق رکھا ہوا ہے اور اہل خانہ میں سے کوئی شخص اس کی تلاوت نہیں کرتا ہے۔

قال النبی صلی الله علیه وآله وسلم :من سمع النداء فی المسجد فخرج من غیرعلة فهومنافق الّاان یریدالرجوع الیه ۔(۳)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: منافق ہے وہ شخص جو مسجد میں حاضر ہے اور اذان کی آواز سن کر بغیر کسی مجبوری کے نماز نہ پڑھے اور مسجد سے خارج ہو جائے مگر یہ کہ وہ دوبارہ مسجد میں پلٹ آئے۔

____________________

۱) تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ٢۵۵

. ۲)سفینة البحار/ج ١/ص ۶٠٠

. ۳)امالی(شیخ صدوق )/ص ۵٩١

۱۰۴

قال رسول الله صلی الله علیه وآله :ان اللهجل جلاله اذارا یٔ اهل قریة قداسرفوافی المعاصی وفیهاثلاثة نفرمن المومنین ناداهم جل جلاله وتقدست اسمائه:یااهل معصیتی !لولامَن فیکم مِن المومنین المتحابّین بجلالی العامرین بصلواتهم ارضی ومساجدی والمستغفرین بالاسحارخوفاًمِنّی ،لَاَنزَلْتُ عَذَابِیْ ثُمَّ لااُبَالِی ۔(۱)

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جب خداوندعالم کسی بستی کے لوگوں کوگناہوں میں آلودہ دیکھتاہے او راس بستی میں فقط تین افرادمومن باقی رہ جاتے ہیں تواس وقت خدائے عزوجل ان اہل بستی سے کہتاہے:

اے گنا ہگا ر انسانو ! اگرتمھارے درمیان وہ اہل ایمان جومیری جلالت کے واسطے سے ایک دوسرے کودوست رکھتے ہیں،اورمیری زمین ومساجدکواپنی نمازوں کے ذریعہ آبادرکھتے ہیں،اورمیرے خوف سے سحرامیں استغفارکرتے ہیں نہ ہوتے تومیں کسی چیزکی پرواہ کئے بغیرعذاب نازل کردیتا۔

وہ لوگ جومسجدکے ہمسایہ ہیں مگراپنی نمازوں کومسجدمیں ادانہیں کرتے ہیں ان کے بارے میں چندروایت ذکرہیں:

قال النبی صلی الله علیه وآله:لاصلاة لجارالمسجدالّافی المسجده ۔(۲) .

پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:مسجد کے ہمسایو ں کی نماز قبول نہیں ہوتی ہے مگر یہ کہ وہ اپنی نمازوں کو اپنی مسجد میں اداکریں۔

عن الصادق علیه السلام انه قال::شکت المساجدالی الله الّذین لایشهدونهامن جیرانهافاوحی الله الیهاوعزتی جلالی لاقبلت لهم صلوة واحدة ولااظهرت لهم فی الناس عدالة ولانالتهم رحمتی ولاجاورنی فی الجنة ۔(۳)

حضرت امام صادق فرماتے ہیں: مسجد وں نے ان لوگوں کے بارے میں جو اس کے ہمسایہ ہیں اور بغیر کسی مجبوری کے نماز کے لئے مسجد میں حاضر نہیں ہو تے ہیں درگاہ خداوندی میں شکایت کی ،خدا وندعالم نے ان پر الہام کیا اور فرمایا : میں اپنے جلال وعزت کی قسم کھا کر کہتا ہوں ، میں ایسے لوگوں کی ایک بھی نماز قبول نہیں کر تا ہوں اور ان کو معا شرے میں اور نیک اورعادل آدمی کے نام سے شہرت وعزت نہیں دیتا ہوں اور وہ میری رحمت سے بہرہ مندنہ ہونگے اوربہشت میں میرے جوار میں جگہ نہیں پائیں گے ۔

____________________

. ۱)علل الشرایع /ج ٢/ص ۵٢٢

۲)وسائل الشیعہ /ج ٣/ص ۴٧٨

. ۳)سفیتة البحار/ج ١/ص ۶٠٠

۱۰۵

عن ابی جعفرعلیه السلام انه قال:لاصلاة لمن لایشهدالصلاة من جیران المسجد الّامریض ا ؤمشغول.

امام محمدباقر فرماتے ہیں:ہروہ مسجدکاہمسایہ جونمازجماعت میں شریک نہیں ہوتاہے اس کی نمازقبول نہیں ہوتی ہے مگریہ کہ وہ شخص مریض یاکوئی عذرموجہ رکھتاہو۔(۱)

مسجدکوآبادرکھنااورکسی نئی مسجدکی تعمیرکرنابہت زیادہ ثواب ہے،اگرکوئی مسجدگرجائے تواس کی مرمت کرنابھی مستحب ہے اوربہت زیادہ ثواب رکھتاہے، اگر مسجدچھوٹی ہے تواس کی توسیع کے لئے خراب کرکے دوبارہ وسیع مسجدبنانابھی مستحب ہے( اِنَّمَایَعْمُرُمَسَاْجِدَاللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الآخِروَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَی الزَّکٰوةَ وَلَمْ یَخْشَ اِلّااللّٰهَ فَعَسَیٰ اُوْلٰئِکَ اَنْ یَکُوْنُوامِنَ الْمُهْتَدِیْنَ ) .(۲)

الله کی مسجدوں کوصرف وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا اور روزآخرت پر ایمان رکھتے ہیں اورجنھوں نے نمازقائم کی ہے اورزکات اداکی ہے اور خداکے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو عنقریب ہدایت یافتہ لوگوں میں شمارکئے جائیں گے۔

عن ابی عبیدة الحذاء قال سمعت اباعبدالله علیه السلام یقول :من بنیٰ مسجدا بنی اللهله بیتاًفی الجنة ۔(۳)

ابوعبیدہ سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کویہ فرماتے سناہے:ہروہ شخص جو کسی مسجدکی بنیادرکھے توخداوندعالم اسکے لئے بہشت میں ایک گھربنادیتاہے ۔

تاریخ میں لکھاہے کہ جس وقت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو آپ نے سب سے پہلے ایک مسجدکی بنیادرکھی (جو مسجد النبی کے نام سے شہرت رکھتی ہے )اوراس کے تعمیرہونے کے بعدحضرت بلال /نے اس میں بلندآوازسے لوگوں کونمازکی طرف دعوت دینے کاحکم دیا ۔

____________________

۱). من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٧۶

. ٢)سورہ تٔوبہ/آیت ١٨

۳)تہذیب الاحکام /ج ٣/ص ٢۶۴

۱۰۶

عن ابی جعفرعلیه السلام قال:اذادخل المهدی علیه السلام الکوفة قال الناس: یاابن رسول الله(ص انّ الصلاة معک تضاهی الصلاة خلف رسول الله(ص، وهذا المسجد لایسعنا فیخرج الی العزی فیخط مسجدا له الف باب یسع الناس ویبعث فیجری خلف قبر الحسین علیه السلام نهرایجری العزی حتی فی النجف.

امام صادق فرماتے ہیں:جب امام زمانہ (ظہورکے بعد)کوفہ میں واردہونگے تووہاں کے لوگ آپ سے نماز پڑھانے کی فرمائش کریں گے ،اورکہیں گے آپ پیچھے نمازپڑھنارسول خدا(ص)کے پیچھے نمازپڑھنے کے مانندہے مگریہ مسجد بہت چھوٹی ہے پ،یہ سن کرامام (علیه السلام) عزیٰ کے جانب حرکت کریں گے اورزمین ایک خط کھینچ کرمسجدکاحصاربنائیں گے اوراس مسجدکے ہزاردروازے ہونگے جس میں تمام (شیعہ)لوگوں کی گنجائش کی جگہ ہوگی اورسب لوگ اس میں حاضرہوجائیں،امام حسینکی قبرمطہرکی پشت سے ایک نہرجاری ہوگی جوعزی تک پہنچے گی یہاں تک کہ شہرنجف میں بھی جار ی ہوگی۔(۱)

.عن ابی عبدالله علیه السلام قال:ان قائمنااذاقام یبنی له فی ظهرالکوفة مسجدله الف باب.

امام صادق فرماتے ہیں:جب امام زماں قیام کریں گے توپشت کوفہ میں ایک مسجدتعمیرکریں گے جسکے ہزاردروازے ہونگے ۔(۲)

مساجدفضیلت کے اعتبارسے

سنت مو کٔدہ ہے کہ انسان اپنی نمازوں کومسجدمیں اداکرے اورمسجدوں میں سب سے افضل مسجدالحرام ہے جس میں نمازپڑھناسوہزارثواب رکھتاہے اس کے بعدمسجدالنبی (صلی الله علیه و آله)ہے اس کے مسجدکوفہ اس کے بعدبیت المقدس اس کے بعدہرشہرکی جامع مسجداس کے بعدمحلہ اوربازار کی مسجدہے اورجیسے ہی مسجدمیں داخل ہوتودورکعت نمازتحیت مسجدپڑھے۔

عن النبی صلی الله علیه انه قال:اذادخل احدکم المسجد فلایجلسحتی یصلی رکعتین

رسول اسلام (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:تم میں جب بھی کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تومحل نمازپر بیٹھنے سے پہلے دورکعت نماز(تحیت مسجد) پڑھے ۔(۳)

____________________

۱) بحارالانوار/ج ٩٧ /ص ٣٨۵

۲). بحارالانوار/ج ٩٧ /ص ٣٨۵

۳) المبسوط/ج ٨/ص ٩٠

۱۰۷

مسجدالحرام میں نمازپڑھنے کاثواب

عن ابی جعفرعلیه السلام انه قال:من صلی فی المسجد الحرام صلاة مکتوبة قبل اللهبهامنه کل صلاة صلاهامنذیوم وجبت علیه الصلاة وکل صلاة یصلیهاالی ان یموت .

امام باقر فرماتے ہیں:جوشخص مسجدالحرام میں ایک واجب کواداکرے توخداوندعالم اس کی ان تمام نمازوں کوجواس نے واجب ہونے کے بعدسے اب تک انجام دی ہیں قبول کرتاہے اوران تمام کوبھی قبول کرلیتاہے جووہ آئندہ مرتے دم تک انجام دے گا۔(۱)

قال محمدبن علی الباقرعلیه السلام: صلاة فی المسجدالحرام ا فٔضل من مئة الف صلاة فی غیره من المساجد ۔(۲)

امام باقر فرماتے ہیں:مسجدالحرام میں ایک نمازپڑھنادوسری مسجدوں میں سوہزار نمازیں پڑھنے سے افضل ہے۔

مسجدالنبی (صلی الله علیه و آله)میں نمازپڑھنے کاثواب

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:صلاة فی مسجدی تعدل عندالله عشرة آلاف فی غیره من المساجدالّامسجدالحرام فانّ الصلاة فیه تعدل ما ئٔة ا لٔف صلاة ۔

( ١ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:میری مسجد(مسجدالنبی)میں ایک نمازپڑھنامسجدالحرام کے علاوہ دوسری مساجدمیں ایک ہزارنمازپڑھنے سے افضل ہے کیونکہ مسجدالحرام میں ایک نمازپڑھنادوسری مساجدمیں سوہزارنمازیں پڑھنے سے افضل ہے۔(۳)

قال ابوعبدالله علیه السلام : صلاة فی مسجد النبی صلی الله علیه وآله تعدل بعشرة آلاف صلاة .

امام صادق فرماتے ہیں:مسجدالنبی (صلی الله علیه و آله)میں ایک نمازپڑھناہزارنمازوں کے برابرہے۔(۴)

____________________

۱)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٢٨

. ۲) ثواب الاعمال /ص ٣٠

۳)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٢٨

۴). کافی/ج ۴/ص ۵۵۶

۱۰۸

مسجدکوفہ میں نمازپڑھنے کاثواب

مسجدکوفہ وہ مسجدہے کہ جس ایک ہزارانبیا ء اورایک ہزاراوصیاء نے نمازیں پڑھیں ہیں ،وہ ت نوربھی اسی مسجدمیں ہے کہ جس سے حضرت نوح کے زمانے میں پانی کاچشمہ جاری ہوااورپوری دنیامیں پانی ہی پانی ہوگیاتھا،یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں سے کشتی نوح (علیه السلام)نے حرکت کی اوراس میں سوارہونے والے لوگوں نے نجات پائی،یہ وہ مسجدہے کہ جسے معصومین نے جنت کاایک باغ قراردیاہے ،یہ وہ مسجدہے کہ جس میں امام اول علی ابن ابی طالب کو شہیدکیاگیاہے ،اس مسجدمیں نمازپڑھنے کے بارے میں روایت میں ایاہے:

عن محمدبن سنان قال: سمعت اباالحسن الرضاعلیه السلام یقول:الصلاة فی مسجدالکوفة فرداا فٔضل من سبعین صلاة فی غیرها جماعة ۔

محمدبن سنان سے مروی کہ میں نے امام علی رضا کویہ فرماتے ہوئے سناہے: مسجدکوفہ میں فرادیٰ نمازپڑھنا(بھی)دوسری مساجدمیں جماعت سے سترنمازیں پڑھنے سے افضل ہے ۔(۱)

عن المفضل بن عمرعن ابی عبدالله علیه السلام قال:صلاة فی مسجدالکوفة تعدل الف صلاة فی غیره من المساجد ۔

مفضل ابن عمر سے مروی کہ امام صادق فرماتے ہیں: مسجدکوفہ میں ایک نمازپڑھنادوسری مساجدمیں جماعت سے پڑھنے سے افضل ہے ۔(۲)

عن ابی جعفرعلیه السلام قال:صلاة فی مسجدالکوفة،الفریضة تعدل حجة مقبولة والتطوع فیه تعدل عمرة مقبولة

امام محمدباقر فرماتے ہیں:مسجدکوفہ میں ایک واجب نمازپڑھناایک حج مقبولہ کاثواب ہے اورایک مستحبی نمازپڑھناایک عمرہ مٔقبولہ کاثواب ہے۔(۳)

____________________

۱). بحارالانوار/ج ٨٠ /ص ٣٧٢

۲). ثواب الاعمال/ص ٣٠

.۳) کامل الزیارات/ص ٧١

۱۰۹

امام صادق سے مروی ہے :حضرت علی مسجدکوفہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص مسجدمیں داخل ہوااورکہا:“السلام علیک یاامیرالمومنین ورحمة الله وبرکاتہ ”امام علی (علیه السلام)نے اس کے سلام کے جواب دیا،اس کے بعداس شخص نے عرض کیا:اے میرے مولا! آپ پرقربان جاؤں،میں نے مسجدالاقصیٰ جانے کاارادہ کیاہے ،لہٰذامیں نے سوچاکہ آپ کو سلام اورخداحافظی کرلوں ،امام (علیه السلام) نے پوچھا:تم نے کس سبب سے وہاں جانے کاقصدکیاہے ؟جواب دیا:خداکافضل کرم ہے اوراس نے مجھے ات نی مال ودولت عطاکی ہے میںفلسطین جاکرواپسآسکتاہوں ،پسامام (علیه السلام)نے فرمایا:

فبع راحلتک وکلّ ذادک وصلّ فی هذاالمسجدفانّ الصلاة المکتوبة فیه مبرورةوالنافلة عمرة مبرورة ۔

تم اپنے گھوڑے اورزادسفرکوفروخت کردواوراس مسجدکوفہ میں نمازپڑھوکیونکہ اس مسجدمیں ایک واجب نمازاداکرناایک مقبولی حج کے برابرثواب رکھتاہے اورمستحبی نمازپڑھناایک مقبولی عمرہ کے برابرثواب رکھتاہے۔(۱)

قال النبی صلی الله علیه وآله:لمااسری بی مررت بموضع مسجدکوفة واناعلی البراق ومعی جبرئیل علیه السلام فقال:یامحمد!انزل فصل فی هذاالمکان ، قال: فنزلتُ فصلیتُ .

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جب مجھے آسمانی معراج کے لئے لے جایاگیاتومیں براق پہ سوارتھااورجبرئیل (علیه السلام)بھی میرے ساتھ تھے ،جب ہم مسجدکوفہ کے اوپرپہنچے توجبرئیل (علیه السلام) نے مجھ سے کہا:اے محمد!زمین پراترجاؤاوراس جگہ پرنمازپڑھو،میںزمین پرنازل ہوااور(مسجدکوفہ میں)نمازپڑھی۔(۲)

____________________

۱). کافی/ج ١/ص ۴٩١

۲). من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٣١

۱۱۰

حرم آئمہ اطہار میں نمازپڑھنے کاثواب

آئمہ اطہار کے حرم میں نمازپڑھنابہت ہی زیادہ فضیلت رکھتاہے ،یہ وہ مقامات ہیں کہ جہاں نمازپڑھنے کابہت زیاد ہ ثواب ہے ، دعائیں مستجاب ہوتی ہیں،رویات میں ایاہے کہ امام علی کے حرم میں ایک نمازپڑھنادولاکھ نمازوں کے برابرثواب رکھتاہے۔ حرم آئمہ اطہار میں نمازپڑھنے اوردعاکرنے کے بارے میں دعاکے باب میں ذکرکریں گے۔

مسجدقبااورمسجدخیف میں نمازپڑھنے کاثواب

مدینہ میں ایک مسجدقباہے کہ جس کی بنیادروزاول تقویٰ وپرہیزگاری پررکھی گئی ہے ، مسجدفضیح جسے مسجدردّشمس بھی کہاجاتاہے اسی مسجدکے پاس ہے مسجدقبامیں نمازپڑھنے کے بارے میں روایت میں ایاہے:

قال رسول الله صلی الله علیه وآله:من اتیٰ مسجدی قبافصلی فیه رکعتین رجع بعمرة

. نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص میری مسجدمسجدقبامیں دورکعت نمازپڑھے وہ ایک عمرہ کے برابرثواب لے کرواپسہوتاہے ۔(۱)

مسجدخیف وہ مسجدہے کہ جومنی میں واقع ہے اوراس مسجدمیں ایک ہزارانبیاء نے نمازیں پڑھی ہیں اوربعض روایت کے مطابق اس میں سات سوانبیائے الٰہی نے نمازپڑھی ہیں معاویہ ابن عمارسے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے معلوم کیا:اس مسجدکومسجدکہنے وجہ کیاہے ؟

امام (علیه السلام) نے فرمایا:لانه مرتفع عن الوادی وکل ماارتفع عن الوادی سمی خیفا . کیونکہ یہ مسجدوادی منی کی بلندجگہ ہے اوروادی میں جوچیزبلندہوتی ہے اسے خیف کہتے ہیں(۲)

عن ابوجمزة الثمالی عن ابی جعفرعلیه السلام انه قال:من فی مسجد الخیف بمنی مئة رکعة قبل ان یخرج منه عدلت سبعین عاما ومن سبح فیه مئة تسبیحة کتب له کاجرعتق رقبة

. ابوحمزہ ثمالی سے روایت ہے امام باقر فرماتے ہیں:جوشخص مسجدخیف میں منی میں اس سے باہرآنے سے پہلےسورکعت نمازپڑھے اس کی وہ نمازسترسال کی عبادت کے برابرثواب رکھتی ہے اورجوشخص اس میں سومرتبہ تسبیح پروردگارکرے اس کے لئے راہ خدامیں ایک غلام آذارکرنے کاثواب لکھاجاتاہے۔(۳)

____________________

۱) من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٢٩

۲). علل الشرائع /ج ٢/ص ۴٣۶

۳)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٣٠

۱۱۱

مسجدسہلہ میں نمازپڑھنے ثواب

مسجدسہلہ کوفہ میں واقع ہے ،جس میں حضرت ابراہیماورحضرت ادریس کاگھرہے ،روایت میں ایاہے کہ وہ سبزپتھرکہ جس پرتمام انبیائے کرام کی تصویربنی ہے اسی مسجدمیں واقع ہے اوروہ پاک پتھربھی اسی مسجدمیں ہے کہ جس کے نیچے کی خاک سے خداوندعالم نے انبیاء کوخلق کیاہے۔

عن الصادق علیه السلام قال:اذادخلت الکوفة فات مسجدالسهلة فضل فیه واسئل الله حاجتک لدینک ودنیاک فانّ مسجدالسهلة بیت ادریس النبی علیه السلام الذی یخیط فیه ویصلی فیه ومن دعالله فیه بمااحبّ قضی له حوائجه ورفعه یوم القیامة مکاناعلیاالی درجة ادریس علیه السلام واجیرمن الدنیاومکائد اعدائه.

امام صادق فرماتے ہیں:جب آپ شہرکوفہ میں داخل ہوں اورمسجدسہلہ کادیدارکریں تومسجدمیں ضرورجائیں اوراس میں مقامات مقدسہ پرنمازپڑھیں اورالله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی دینی اوردنیاوی مشکلات کوحل کرنے کی دعاکریں،کیونکہ مسجدسہلہ حضرت ادریس کاگھرہے جسمیں خیاطی کرتے تھے اورنمازبھی پڑھتے تھےجوشخص اس مسجدمیں الله تعالیٰ کی بارگاہ میں ہراس چیزکے بارے میں جسے وہ دوست رکھتاہے دعاکرے تواس کی وہ حاجت پوری ہوگی اورروزقیامت حضرت ادریس کے برابرمیں ایک بلندمقام سے برخوردارہوگااوراس مسجدمیں عبادت کرنے اورنیازمندی کااظہارکرنے کی وجہ سے دنیاوی مشکلیں اوردشمنوں کے شرسے خداکی امان میں رہے گا۔(۱)

روی ان الصادق علیه السلام انه قال:مامن مکروب یاتی مسجدسهلة فیصلی فیه رکعتین بین العشائین ویدعوالله عزوجل الّافرج الله کربته.

امام صادق فرماتے ہیں:ہروہ شخص جوکسی بھی مشکل میں گرفتارہو مسجدسہلہ میں ائے اورنمازمغرب وعشاکے میں درمیان دورکعت نمازپڑھ کرخدائے عزوجل سے دعاکرے توخداوندعالم اس کی پریشانی دورکردے گا۔(۲)

قال علی بن الحسین علیهماالسلام :من صل فی مسجدالسهلة رکعتین ، زادالله فی عمره سنتین .

امام زین العابدین فرماتے ہیں:جوشخص مسجدسہلہ میں دورکعت نمازپڑھے ،خداوندعالم اس کی عمرمیں دوسال کااضافہ کردیتاہے۔(۳)

____________________

۱) بحارالانوار/ج ١١ /ص ٢٨٠

۲). تہذیب الاحکام/ج ۶/ص ٣٨

۳). مستدرک الوسائل /ج ٣/ص ۴١٧

۱۱۲

مسجدبراثامیں نماپڑھنے کاثواب

مسجدبراثاعراق کے شہربغدامیں واقع ہے ،اس مسجدکی چندفضیلت یہ ہیں کہ یہ حضرت عیسیٰ کی زمین ہے ،جب حضرت علی جنگ نہروان سے واپس ہورہے تھے اوراس جگہ پرپہنچے توآپ نے یہاں پرنمازپڑھی اورحسن وحسین نے بھی اس مسجدمیں نمازپڑھی ہے ،اس مسجدمیں ایک پتھرہے کہ جس پرحضرت مریم نے حضرت عیسیٰ کوقراردیاتھا،اسی جگہ پرحضرت مریم کے لئے چشمہ حاری ہواتھا،یہ وہ جگہ ہے جہاں حضرت علی کے لئے سورج پلٹااورآپ نے نمازعصرکواس کے وقت میں اداکیا، اورکہاجاتاہے کہ حضرت یوشع اسی مسجدمیں دفن ہیں(۱)

بیت المقدس ، مسجدجامع ،محله وبازارکی مسجدمیں نمازپڑهنے کاثواب

عن السکونی عن جعفربن محمدعن آبائه عن علی علیهم السلام قال:صلاة فی البیت المقدس تعدل ا لٔف صلاة ، وصلاة فی مسجدالاعظم مائة صلاة ، وصلاة فی المسجدالقبیلة خمس وعشرون صلاة ، وصلاة فی مسجدالسوق اثنتاعشرة صلاة ، وصلاة الرجل فی بیته وحده صلاة واحد ۔

حضرت علی فرماتے ہیں:بیت المقدس میں ایک نمازپڑھناہزارنمازوں کے برابرہے اورشہرکی جامع مسجد میں ایک نمازپڑھناسونمازوں کے برابرہے اورمحلہ کی مسجدمیں ایک نمازپڑھنا پچیس نمازوں کے برابرہے اوربازارکی مسجدمیں ایک نمازپڑھنابارہ نمازوں کے بابرہے اورگھرمیں ایک نمازپڑھناایک ہی نمازکاثواب رکھتاہے ۔(۲)

مسجدکے میں مختلف حصوں میں نمازپڑھنے کی وجہ

جب انسان مسجدمیں جائے اوراپنی نمازکی جگہ کوبدلنامستحب ہے یعنی دوسری کودوسری پرپڑھے

عن الصادق جعفربن محمد علیهما السلام انّه قال:علیکم بِاتْیَان الْمساجد فانّهابیوت الله فی الارض،مَن اَتاهامتطهراًطَهره الله مِن ذنوبه،وکتب من زوّارهِ، فاکثروفیهامن الصلاة والدعاء وصلوا المساجدفی بقاع المختلفة فان کل بقعة تشهد للمصلی علیهایوم القیامة تم مسجد میں حاضر ہوا کروکیونکہ مسجد یں زمین پر خدا کا گھر ہیں پس جو شخص طہارت کے ساتھ مسجدمیں داخل ہو تا ہے خدا وند عالم اس کے تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے اور اس کا نام زائرین خدا میں لکھاجاتاہے پس تم مسجدمیں بہت زیادہ نمازیں پڑھاکرواوردعائیں کرواورمسجدمیں مختلف جگہوں پرنمازپڑھاکروکیونکہ مسجدکاہرقطعہ روزقیامت اپنے اوپرنمازپڑھنے والے کے لئے نمازکی گواہی دے گا(۳)

____________________

.۱) رہنمائے زائرین کربلا/ص ٢۵---.۲) ثواب الاعمال /ص ٣٠

.۳)امالی(شیخ صدوق )/ص ۴۴٠

۱۱۳

مسجدمیں داخل ہوتے ہوئے دائیں قدم رکھنے کی وجہ

مستحب ہے کہ مسجدمیں داخل ہوتے وقت پہلے داہناقدم اندررکھیں اورمسجدسے نکلتے وقت بایاں قدم باہررکھیں کیونکہ داہناقدم بائیں قدم سے اشرف ہوتاہے،اورتاکہ خداوندعالم اسے اصحاب یمین میں قراردے اورقدم رکھتے وقت بسم الله کہیں ،حمدوثنائے الٰہی کریں محمدوآل محمد علیہم الصلاة والسلام پردرودبھیجیں اورخداسے اپنی حاجتوں کوطلب کریں

عن یونس عنهم علیهم السلام قال قال:الفضل فی دخول المسجد ان تبدا بٔرجلک الیمنی اذادخلت وبالیسری اذاخرجت .

یونس سے روایت ہے ،معصوم(علیه السلام) فرماتے ہیں:مسجدمیں داخل ہونے کے لئے بہترہے کہ آپ دائیں پیرسے داخل ہواکریں اوربائیں پیرسے باہرآیاکریں۔(۱)

روایت میں ایاہے کہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)مسجدمیں داخل ہوتے تھے وقت “بسم الله اللہمّ صل علی محمدوآل محمد ، واغفرلی ذنوذبی وافتح لی ابواب رحمتک”اورمسجدسے کے باہرآتے وقت دروازے کے پاس کھڑے ہوکر“اللهمّ اغفرلی ذنوذبی وافتح لی ابواب فضلک ”کہتے تھے(۲)

اہل مدینہ کی ایک بزرگ شخصیت ابوحفص عطارسے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کویہ فرماتے ہوئے سناہے :رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جب بھی تم میں سے کوئی شخص نمازواجب پڑھے اورمسجدسے باہرآنے لگے تودروازہ میں کھڑے ہوکریہ دعاپڑھے:

اَللّٰهُمَّ دَعَوْت نی فَاَجَبْتُ دَعْوَتَکَ وَصَلَّیْتُ مَکْتُوْبَتَکَ وَانْتَشَرْتُ فِیْ اَرْضِکَ کَمَااَمَرْت نیْ فَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَمَلَ بِطَاعَتِکَ وَاجْت نابَ مَعْصِیَتِکَ وَالْکِفَافَ مِنَ الرِّزقِْ بِرَحْمَتِکَ .

ترجمہ:بارالٰہا!تونے مجھے دعوت دی ،پس میں نے تیری دعوت پرلبیک کہااورتیرے واجب کواداکیااورمیں تیرے فرمان کے مطابق تیری زمین پر(روزی کی تلاش میں)نکلا، پس میں تیرے فضل وکرم سے تجھ سے اپنے عمل میں تیری اطاعت کی درخواست کرتاہوں اورگناہ ومعصیت سے دوری چاہتاہوں اورتجھ سے تیری رحمت کے وسیلے سے رزق وروزی میں کفاف ) چاہتاہوں۔(۳)

____________________

۱) کافی/ج ٣/ص ٣٠٩

.۲) مستدرک الوسائل/ج ٣/ص ٣٩۴

. ۳)وسائل الشیعہ/ج ٣/ص ۵١٧

۱۱۴

مسجدکے صاف وتمیزرکھنے کی وجہ

مسجدمیں جھاڑولگانااوراس کی صفائی کرناسنت مو کٔدہ ہے اوراسے نجس کرناحرام ہے۔

مسجدمیںصفائی کرنے اوراس میں چراغ کے جلانے سے انسان کے دل میں نورانیت پیدا،خضوع وخشوع اورتقرب الٰہی ہوتی ہے اورلوگ اسے ایک اچھاانسان محسوب کرتے ہیں

قال رسول الله صلی الله صلی الله علیه وآله:من کنس فی المسجدیوم الخمیس لیلة الجمعة فاخرج منه التراب قدرمایذر فی العین غفرالله له ۔(۱)

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص جمعرات کے دن شب جمعہ مسجدمیں جھاڑولگائے اورآنکھ میں سرمہ لگانے کے برابرگردوخاک کومسجدسے باہرنکالے توخداوندعالم اس کے گناہوں بخشدیتاہے ۔

حکایت کی گئی ہے کہ ایک مجوسی اپنی کمرپرمجوسی کمربندباندھے اورسرپرمجوسی ٹوپی لگائے ہوئے مسجدالحرام میں داخل ہوا،جب وہ خانہ کعبہ کے گردگھوم رہاتھاتواس نے دیکھاکہ دیوارکعبہ پرکسی کالعاب دہن لگاہواہے ،اس نے دیوارکعبہ سے لعاب دہن کوصاف کردیااورمسجدالحرام سے باہرنکل آیا،جیسے ہی وہ باہرآیاتوناگہان ہواکاایک تیزجھونکاآیااوراس کے سرپہ لگی ہوئی ٹوپی ہوامیں اڑھ گئی،اس نے اپنی ٹوپی کوہرچندپکڑنے کی کوشش کی مگروہ اس کے ہاتھ نہ آئی ،ناگاہ ہاتف غیبی سے ایک آوازاس کے کانوں سے ٹکرائی :جب تجھے ہمارے گھرپہ کسی کالعاب دہن لگے ہوئے دیکھناپسندنہیں ہے توہمیں بھی تیرے سرپرکفرکی نشانی لگے ہوئے دیکھناپسندنہیں ہے ،یہ بات سن کراس آتش پرست نے اپنی کمرسے وہ کمربندبھی کھول کرپھینک دیااورمسلمان ہوگیا۔(۲)

روایت میں آیاہے کہ ایک بوڑھی اوربےنوا عورت اس مسجد میں کہ جس میں پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله) نمازپڑھتے تھے ، جھاڑو لگا یا کرتی تھی اورمسجدکوصاف رکھتی تھی ،وہ عورت بہت ہی زیادہ غریب وفقیرتھی اورمسجد کے کسی ایک گوشہ میں سویا کرتی تھی ، نمازجماعت میں حاضرہونے والے لوگ اس کے لئے آب وغذا کا انتظام کرتے تھے ،ایک دن پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)اور مسجد میں داخل ہوئے اوراس ضعیفہ کو مسجد میں نہ پایاتومسجدموجودلوگوں سے اس عورت کے بارے میں دریافت کیا،حاضرین مسجدنے جواب دیا:

____________________

١)ثواب الاعمال/ص ٣١

. ۲)نماز،حکایتہاوروایتہا/ص ١۴

۱۱۵

یانبی الله! وہ عورت شب گذشتہ انتقال کر گئی ہے اور اسے دفن بھی کردیا گیا ہے ،پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) اس کے انتقال کی خبر سن کر بہت زیادہ غمگین ہوئے اور کہا : تم نے مجھ تک اس کے مرنے کی خبر کیوں نہیں پہنچائی تھی تم مجھے اس عورت کی قبرکاپتہ بتاؤ، ان لوگوں نے آنحضرت کو اس ضعیفہ کی قبرکاپتہ بتایااورنمازکے بعدچندلوگ آپ کے ہمراہ اس کی قبر پرپہنچے ،پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے اس کی قبرنمازپڑھنے کے لئے کہا،آنحضرت آگے کھڑے ہوئے اورآپ کے ساتھ آئے ہوئے لوگ صف باندھ کرپیچھے کھڑے ہوگئے اور سب نے پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)کے ساتھ کھڑے ہوکرنمازمیت پڑھی اور ) اس کی مغفرت کے لئے دعائیں مانگی ۔(۱)

بدبودارچیزکھاکرمسجدمیں انے کی کراہیت کی وجہ

مسجدمیں کوئی ایسی چیزکھاکرآنایاساتھ میں لانامکروہ ہے کہ جس کی بوسے مومنین کواذیت پہنچے ، لہسن یاپیازوغیرہ کھاکرمسجدمیں آنے سے پرہیزکیاجائے ۔

عن محمدبن مسلم عن ابی جعفرعلیه السلام قال:سئلته عن اکل الثوم فقال:انمانهی رسول صلی الله علیه واله عنه لریحه فقال:من اکل هذه البقلة المنت نة فلایقرب مسجدنا .

محمدابن مسلم سے مروی ہے کہ میں امام باقر سے لہسن کے بارے میں معلوم کیاتوامام (علیه السلام) نے فرمایا: نبی اکرم (صلی الله علیه و آله):نے اس کی بدبوکی وجہ سے (اسے کھاکرمسجدمیں جانے کو)منع کیاہے اورفرمایاہے :جوشخص اس بدبودارگھاس کوکھائے تووہ ہمارے مسجدوں کے قریب بھی نہ آئے ۔(۲)

عن محمدبن سان قال:سئلت اباعبدالله علیه السلام عن اکل البصل الکراث، فقال:لاباس باکله مطبوخاوغیرمطبوخ ،ولکن ان اکل منه ماله اذافلایخرج الی المسجد کراهیة اذاه علی من یجالس .

محمدابن سان سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے پیازاورترہ کے بارے میں سوال کیاتوامام (علیه السلام) نے فرمایا:ان دوچیزوں کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے خواہ پختہ استعمال کیاجائے یاغیرپختہ ، لیکن اگر انھیں کھاکرمسجدمیں نہ جائے کیونکہ اس کی بدبوسے مسجدمیں بیٹھے والوں کواذیت ہوتی ہے۔(۳)

____________________

. ١)ہزاریک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ٧۵٨ /ص ٢٣٨

. ۲)علل الشرائع/ج ٢/ص ۵١٩

. ۳)علل الشرائع/ج ٢/ص ۵٢٠

۱۱۶

مسجدوں کااس طرح بلندبناناکہ اس سے اطراف میں موجودگھروں کے اندرنی حصے نظرآتے ہوں مکروہ ہے

عن جعفربن محمد عن ابیه علیه السلام : انّ علیارا یٔ مسجدا بالکوفة قدشرف فقال:کانهابیعة ،وقال:ان المساجدلاتشرف تبنی جما.

روایت میں آیاہے کہ حضرت علی نے کوفہ میں ایک مسجدکو اطراف کے گھروں سے بلنددیکھاتوآپ نے فرمایا:یہ گرجاگھر(معبدیہودونصاریٰ )ہے اورفرمایا:مسجدوں کوبلندنہیں بناناچاہئے بلکہ انھیں پست وکوتاہ بنایاجائے۔(۱)

قبلہ

جب بندہ مومن اس چیزکاعلم رکھتاہے کہ خداوندعالم ہرجگہ اورہرسمت میں موجودہے،نہ اس کے رہنے کی کوئی جگہ مخصوص ہے وہ لامکان ہے ،ہم جدھربھی اپنا رخ رکھیں وہ ہمیں دیکھ رہاہے اورسن رہاہے پھرکیاضروری ہے کہ انسان کسی ایک مخصوص سمت رخ کرکے پروردگارکی عبادت کرے اوراس سے رازونیازکرے؟ صرف ظاہری طورسے جس طرف بھی کھڑے ہوکر نمازپڑھنے ،رکوع وسجودکرنے کوعبادت نہیں کہتے ہیں بلکہ باطنی طورسے بھی عبادت کرناضروری ہے یعنی دل کوپروردگارعالم کی طرف متوجہ کرناضروری ہے ،اگردل خداکی طرف نہ ہوتواسے عبادت نہیں کہتے ہیں

خداوندعالم یہی چاہتااوردوست رکھتاہے اوراسی چیرکاامرکرتاہے میرابندہ باطنی طورسے بھی میری ہی عبادت کرے اورظاہری طورکے علاوہ معنوی اعتبارسے بھی میری طرف توجہ رکھے اورغیرخداکاخیال بھی نہ کرے لہٰذاپروردگارنے زمین پرایک جگہ معین کیاتاکہ بندے اس طرف رخ کرکے اس کی عبادت کریں اوراپنے دل میںغیراخداکاارادہ بھی نہ کریں۔ خداوندعالم کی حمدوثنااورتسبیح وتقدیس کرنے میں کسی دوسرے کادل میں خیال بھی نہیں آناچاہئے بلکہ دل کوپروردگار کی طرف مائل رکھنازیادہ ضروری ہے ،کیونکہ اگرکتاب وسنت کی طرف رجوع کیاجائے توسب کاحکم یہی ہے کہ انسان رب دوجہاں کی عبادت کرنے میں اپنے دل کوبھی متوجہ رکھے بلکہ کتاب وسنت میں دل وباطن کوخداکی طرف متوجہ رکھنے کوزیادہ لازم قراردیاگیاہے

____________________

۱) علل الشرئع/ ٢/ص ٣٢٠

۱۱۷

قرآن وسنت میں کسی چیزکوقبلہ قراردینے کاجوحکم دیاگیاہے اس کی اصلی وجہ دل وباطن کوخداکی طرف توجہ کرنامقصودہے، تاکہ انسان کے تمام اعضاوجوارح میںثبات پایاجائے کتاب وسنت میں ایک مخصوص سمت رخ کرکے نمازپڑھنے کاحکم دیا ہے کیونکہ جب دل ایک طرف رہے گاتواس میںزیادہ سکون واطمینان لیکن اگراعضاوجوارح مختلف جہت وسمت میں ہوں توپھردل بھی ایک طرف نہیں رہے گااوربارگاہ خداوندی میں حاضرنہیں رہ سکے گااورعبادت میں اصلی چیزدل وباطن کوخداکی طرف توجہ کرناہے اوروہ آیات وروایات کہ جن میں ذکروعبادت اورتقوائے الٰہی اختیارکرنے کی تاکیدکی گئی ہے وہ سب قلب کے متوجہ ہونے کولازم قراردیتی ہیں۔

جس سمت رخ کرکے تمام مسلمان اپنی نمازوں اورعبادتوں کوانجام دیتے ہیں ،اورجس کی طرف اپنے دلوں کومتوجہ کرتے ہیں اسے قبلہ کہاجاتاہے اسی لئے کعبہ کوقبلہ کہاجاتاہے کیونکہ تمام مسلمان اپنی نمازوعبادت کواسی کی سمت انجام دیتے ہیں خانہ کعبہ مکہ مکرمہ میں واقع ہے جوپوری دنیاتمام مسلمانوں کا مرکزاورقبلہ ہے خانہ کعبہ کے بارے میں چند اہم نکات وسوال قابل ذکرہیں:

١۔خانہ کعبہ کوکعبہ کیوں کہاجاتاہے؟

اس بارے میں روایت میں آیاہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی خدمت میں ائی اورانھوں نے آنحضرتسے چندسوال کئے ،ان میں سے ایک یہودی نے معلوم کیا:کعبہ کوکعبہ کیوں کہاجاتاہے ؟نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:لانّهاوسط الدنیا ۔ کیونکہ کعبہ دنیاکے درمیان میں واقع ہے ۔(۱)

٢۔خانہ کعبہ کے چارگوشہ کیوں ہیں؟

یہودی نے بنی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے معلوم کیا:خانہ کعبہ کوچارگوشہ بنائے جانے کی وجہ کیاہے؟

پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:کلمات اربعہ(سبحان الله ، والحمدلله ، ولااله الّالله ، والله اکبر )کی وجہ سے ۔(۲)

____________________

۱). امالی (شیخ صدوق )/ص ٢۵۵

۲). امالی (شیخ صدوق )/ص ٢۵۵

۱۱۸

روایت میں آیاہے کہ کسی نے امام صادق سے معلوم کیا:کعبہ کوکعبہ کیوں کہاجاتاہے ؟آپ نے فرمایا؟کیونکہ کعبہ کے چارگوشہ ہیں،اس نے کہا:کعبہ کے چارگوشہ بنائے جانے کی وجہ کیاہے ؟ امام (علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ کعبہ بیت المعمور کے مقابل میں ہے اوراس کے چارگوشہ (لہٰذاکعبہ کے بھی چارگوشہ ہیں)اس نے معلوم کیا:بیت المعورکے چارگوشہ کیوں ہیں؟فرمایا:کیونکہ وہ عرش کے مقابل میں ہیں اوراس کے چارگوشہ ہیں (لہٰذابیت المعمور کے بھی چارگوشہ ہیں)روای نے پوچھا:عرش کے چارگوشہ کیوں ہیں؟فرمایا:کیوں وہ کلمات کہ جن پراسلام کی بنیادرکھی گئی ہے وہ چارہیں جوکہ یہ ہیں:

سبحان الله ، والحمدلله ، ولااله الّالله ، والله اکبر .(۱)

٣۔خانہ کعبہ کو“بیت الله الحرام ”کیوں کہاجاتاہے؟

حسین بن ولیدنے حنان سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ:میں نے امام صادق سے معلوم کیا:خانہ کعبہ کو“بیت الله الحرام ”کیوں کہاجاتاہے ؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ اس میں مشرکوں کاداخل ہوناحرام ہے اس لئے کعبہ کو“بیت الله الحرام” کہاجاتاہے

۴ ۔خانہ کعبہ کوعتیق کیوں کہاجاتاہے ؟

ابوخدیجہ سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے معلوم کیا:خانہ کعبہ کوعتیق کیوں کہاجاتاہے ؟ آپ نے فرمایا:کعبہ اس لئے عتیق کہاجاتاہے کہ یہ جگہ سیلاب میں عرق ہونے سے آزاداورمحفوظ ہے (جب طوفان نوح (علیه السلام) آیاتھاتواسوقت بھی کعبہ غرق نہیں ہواتھااورنوح نے کشتی میں بیٹھے ہوئے کعبہ کادیدارکیاتھا(۲)

ابن محاربی سے مروی ہے امام صادق فرماتے ہیں:

خداوندعالم نے حضرت نوح کے زمانہ میںطوفان کے وقت کعبہ کے علاوہ پوری زمین کوپانی میں غرق کردیاتھااسی لئے اس بقعہ مبارکہ کوبیت عتیق کہاجاتاہے کیونکہ یہ جگہ اس وقت بھی غرق ہونے سے آزادومحفوظ تھی ،راوی کہتاہے کہ میں نے امام (علیه السلام) سے عرض کیا:کیایہ بقعہ مبارکہ اس دن آسمان پرجلاگیاتھاجوغرق ہونے سے محفوظ رہا؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:نہیں بلکہ اپنی جگہ پرتھااورپانی اس تک نہیں پہنچااوریہ بیت پانی سے مرتفع قرارپایا۔(۳)

____________________

. ۱)علل الشرائع/ج ٢/ص ٣٩٨

۲). علل الشرئع /ج ٢/ص ٣٩٨

۳) تفسیرنورالتقلین/ج ٣/ص ۴٩۵

۱۱۹

ابوحمزہ ثمالی سے مروی ہے کہ میں نے امام محمدباقر سے معلوم کیا: خداوند عالم نے کعبہ کوعتیق کے نام سے کیوں ملقب کیاہے ؟آپ (علیه السلام)نے فرمایا: خداوندعالم نے روئے زمین پرجت نے بھی گھربنائے ہیں ہرگھرکے لئے ایک مالک اورساکن قراردیاہے مگرکعبہ کاکسی کومالک وساکن قرارنہیں دیابلکہ پروردگاراس گھرکامالک وساکن ہے اورامام (علیه السلام) نے فرمایا:خداوندعالم نے اپنی مخلوقات میں سب سے پہلے اس گھرپیداکیااس کے بعدزمین کواس طرح وجودمیں لایاکہ کعبہ کے نیچے سے مٹی کوکھینچااورپھراسے پھیلادیا۔(۱)

کعبہ کب سے قبلہ بناہے؟

کیا اسلام کے آغازہی سے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)اورتمام مسلمان خانہ کعبہ کی طرف نمازپڑھتے آرہے ہیں اورکیاخانہ کعبہ اول اسلام سے مسلمانوں کاقبلہ ہے یاکعبہ سے پہلے کوئی دوسرابھی قبلہ تھااوراس طرف نمازپڑھی جاتی تھی اوربعدمیں قبلہ تبدیل کردیاگیاہے؟

جس وقت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)درجہ رسالت پرمبعوث ہوئے تواس وقت مسلمانوں کاقبلہ بیت المقدس تھاجسے قبلہ اوّل کہاجاتاہے لیکن بعدمیں خداکے حکم سے قبلہ کوبدل دیاگیا اورخانہ کعبہ مسلمانوں کادوسراقبلہ قرارپایا نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے درجہ نبوت پرفائز ہونے کے بعد ١٣ /سال تک مکہ مکرمہ میں قیام مدت کے درمیان بیت المقدس کی سمت نماز پڑھتے رہے اور مدینہ ہجرت کرنے کے بعد بھی سترہ مہینہ تک اسی طرف نماز یں پڑھتے رہے ۔

معاویہ ابن عمارسے مروی ہے کہ : میں نے امام صادق معلوم کیاکہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے چہرے کوکس وقت کعبہ کی طرف منصرف کیاگیا؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:

بعدرجوعه من بدر،وکان یصلی فی المدینة الی بیت المقدس سبعة عشرشهرا ثمّ اعیدالی الکعبة ۔(۲)

جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)جنگ بدرسے واپس ہوئے توقبلہ کو تغییر کردیا گیا اورمدینہ ہجرت کے بعدآنحضرت سترہ مہینہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نمازپڑھتے رہے اس کے بعد قبلہ کوکعبہ کی طرف گھمادیاگیا۔

____________________

۱). کافی /ج ۴/ص ١٨٩

۲)وسائل الشیعہ/ج ٣/ص ٢١۶

۱۲۰

سے کہا سلام ہو اُس پر جس کا چچا ابولہب ہے جس پر قرآن نے لعنت کی ہے تو جناب

عقیل ـ نے فوراً جواب دیا سلام ہو اُس پر جس کی پھوپھی''حَمَّالة الحطب '' ہے (یعنی ابولہب کی بیوی)۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بحارالانوار ج۵۲، ص ۱۱۲ و الغازات ج۲ ص، ۳۸۰

۱۲۱

آیت نمبر ۱۲

یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اِجْتَنِبُوا کثیراً مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثم وَّ لَا تَجَسَّسُوا وَ لَا یَغْتَبْ بَعْضُکمْ اَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أِنْ یّٰاکُلَ لَحْمَ أَخِیْهَ مَیْتًا فَکَرِهتُمُوْهُط وَاَتّقُوا اللّٰهَط اِنَّ اللّٰه تَوَّاب رَّحِیْم-

ترجمہ:

اے ایمان والو اکثر گمانوں سے اجتناب کرو کہ بعض گمان گناہ کا درجہ رکھتے ہیں اور خبردار ایک دوسرے کے عیب تلاش نہ کرو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کہ کیا تم میں کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے یقینا تم اسے برا سمجھو گے تو اللہ سے ڈرو کہ بے شک اللہ بہت بڑا توبہ کا قبول کرنے والا اور مہر بان ہے۔

نکات:

(۱)۔ قرآن میں حسن ظن کی تاکید اور مسلمانوں کی نسبت سوء ظن سے روکا گیا ہے ۔۔ مثال کے طور پر سورئہ نور میں ارشاد ہوتا ہے''لولا اِذسَمِعتُموه ظَنَّ المومنونَ والمومنات بأَلْفِهم خیراً'' (۱) کیوں بعض باتوں کے بارے میں حسن ظن نہیں رکھتے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ نور آیت ۱۲

۱۲۲

(۲)۔ جس طرح سے اسی سورئہ کی آیت نمبر نو میں امن و امان اور لوگوں کی جان کی

حفاظت کی خاطر سرکش اور باغی سے مقابلے کے لیے تمام مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اسی طرح اس آیت نے امن و امان اور مسلمانوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کی خاطر سوء ظن، تجسس اور غیبت کو حرام قرار دیا ہے۔

(۳)۔ آج دنیا کے سارے حقوق دان حقوق بشر کی باتیں کرتے ہیں لیکن اسلام ایسے ہزاروں مسائل کو مورد توجہ قرار دیتا ہے جن سے یہ سب حقوق دان غافل ہیں جیسا کہ اسلام غیبت کو بھی حقوق بشر پر حملہ کرنے کے مترادف سمجھتا ہے غیبت کے علاوہ کسی بھی گناہ کو درندگی سے تشبیہ نہیں دی گئی ہے۔ ایسا سلوک تو بھیڑیا بھی بھیڑیے کے ساتھ نہیں کرتا ہے۔

وَلَیْسَ الذِّئبُ یَاکل لَحْمَ ذِئبٍ وَیَاکُلُ بَعْضُنَا بَعْضًا عَیَانًا(۱)

سوال: کیوں ایک لمحہ غیبت کرنے سے کئی سال کی عبادت ضائع ہوجاتی ہے کیا یہ سزا عادالانہ ہے؟

جواب: جس طرح غیبت کرنے والا شخص ایک لمحے میں سالھا سال سے بنائی گئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ اور بھیڑیا بھی بھیڑیے کو نہیں کھاتا ۔ اور ہم میں سے بعض افراد بعض اوقات ایک دوسرے کا گوشت کھاتے ہیں۔

۱۲۳

انسان کی عزت و آبرو کو ملیا میٹ کردیتا ہے۔ خداوند عالم بھی اس کی کئی سالوں کی عبادت کو ضائع کردیتا ہے اس بناء پر کئی سالوں کی عبادت کا برباد ہونا عدل کے مطابق ہے بلکہ عین عدل ہے۔

پیغامات:

۱۔ ایمان ذمہ داری اور عہد وپیمان کے ہمراہ ہے جو بھی صاحب ایمان ہے اُسے چند اعمال سے دور رہنا چاہیے۔''یٰا ایُّها الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اِجْتَنِبُوا--- '' ایمان ، سوء ظن ، لوگوں کے کاموں میں تجسس اور ان کی غیبت کے ہمراہ سازگار نہیں ہے۔

۲۔ حتمی گناہوں سے بچنے کے لیے احتمالی گناہوں سے دوری کرنی چاہییے (کیونکہ اکثر گمان گناہ ہیں ہمیں ہر بدگمانی سے دوری اختیار کرنی چاہیے)(اجتنبوا --- اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْم )

۳۔ کسی بھی فرد کے بارے میں اسلا م کا بنیادی اُصول یہ ہے کہ اُسے قابل اعتماد ، صحیح و سالم، کریم اور تمام عیوب سے مبرا سمجھو۔(انّ بَعْضَ الظَنِّ اِثْم )

۵۔ اسلامی معاشرہ میں لوگوں کے بارے میں سوء ظن نہ رکھا جائے اُن کے امور میں تجسس نہ کیا جائے۔ اور مجالس و محافل میں ان کی آبروریزی نہ کی جائے(بَعْضَ الظَنِّ اِثْم--- لاتَجَسَّسُوا ولا یغتب )

۵۔ غیبت سے روکنے کے لیے ایسے تمام راستوں کو بند کردیا جائے جو غیبت کا پیش خیمہ بنتے ہیں(غیبت کا آغاز سوء ظن سے ہوتا ہے اس کے بعد تجسس اور پھرعیوب تلاش کرنے کے بعد غیبت کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے لہٰذا قرآن نے اسی ترتیب سے

۱۲۴

منع فرمایا ہے)اجتنبوا کثیراً مِنَ الظَّنّ --- لا تجسسوا وَلَا یغتب-

۶۔ گناہ اگرچہ ظاہری طور پر خوشگوار معلوم ہوتا ہے لیکن اگر اسے باطنی اور روحانی نگاہ سے دیکھا جائے تو خباثت سے بھرپور اور قابل نفرت ہے(یأکُلَ لَحْمَ أَخِیْه مَیْتًا) (باطنی طورپر غیبت، مردار کا گوشت کھانے کے مترادف ہے کسی بھی گناہ کے لیے اس طرح کی تعبیر استعمال نہیں کی گئی ہے۔

۷۔ برائی سے روکنے کے لیے جذباتی تعبیرات سے استفادہ کرنا چاہیئے۔(لَا یَغْتَبْ --- أَیُحِبُّ أَحْدُکَمْ أَنْ یَاکُلَ لَحْمَ أَخِیْهِ)

۸۔ تعلیم و تربیت کے لیے مثال اور واقعات سے استفادہ کرنا چاہیے۔

۹۔ تعجب ہے اُن لوگوں پر جو دوسروں کی غیبت کرتے ہیں۔(أَیُحِبُّ أَحدکَم---)

۱۰۔ غیبت کرنا سب کے لیے حرام ہے اس میں سن و سال ، نسل اور مقام کی کوئی قید نہیں ہے۔ (کلمہ''احدکم'' میں چھوٹے بڑے ، مشہور اور گمنام، عالم اور جاہل، مرد اور عورت سب شامل ہیں)۔

۱۱۔ صاحبان ایمان ایک دوسرے کے بھائی اور ہم خون ہیں۔(لَحْمَ أَخِیْه)

۱۲۔ انسان کی عزت و آبرو اس کے بدن کے گوشت کی مانند اُس کے استحکام کا ذریعہ ہے۔(لَحْمَ أَخِیْهِ)

۱۳۔ کافر کی غیبت کی جاسکتی ہے ( کیونکہ کافر، مسلمان کا بھائی نہیں ہے) ۔(لَحْمَ أَخِیْه)

۱۲۵

۱۵۔ جس طرح سے مردہ شخص اپنے دفاع کی قدرت نہیں رکھتا ہے اسی طرح سے وہ شخص بھی جس کی غیبت کی جارہی ہو نہ ہونے کی وجہ سے اپنے دفاع کی قدرت نہیں رکھتا ہے۔(میتًا)

۱۵۔ اگر زندہ کے بدن سے گوشت کا ٹکڑا جدا ہوجائے تو ممکن ہے کہ وہ جگہ پُر ہوجائے لیکن اگر مردہ سے گوشت کو جدا کرلیا جائے تو وہ جگہ اسی طرح خالی رہ جاتی ہے غیبت دراصل کسی کو بے آبرو کرنا ہے اور جب آبرو ہی چلی جائے تو پھر اس کا ازالہ نہیں ہوسکتا ہے۔(لَحْمَ أَخِیْه میتًا)

۱۶۔ غیبت کرنا درندگی ہے۔(یاکل لَحْمَ أَخِیْه میتًا)

۱۷۔ غیبت کرنا تقویٰ کے ساتھ سازگار نہیں رکھتا ہے۔( لایغتَبْ --- وَاتَّقُوا اللّٰهَ )

۱۸۔ اسلام میں تعطل اور نااُمیدی کا کوئی تصور نہیں ہے توبہ کے ذریعہ اپنے کیئے ہوئے گناہ کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔( لایغتَبْ --- اِنّ اللّٰهَ تَوَّابُ رَحِیم)

۱۹۔ خداوند متعال اپنی رحمت کے وسیلے سے عذر قبول کرلیتا ہے۔(تَوَّابُ رَحِیم)

سوء ظن کی اقسام:

سوئے ظن کی کئی اقسام ہیں جن میں سے بعض کی ممانعت کی گئی ہے۔

۱۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوء ظن رکھنا: حدیث میں ہے کہ اگر کوئی شخص

۱۲۶

اخراجات کے ڈر سے شادی نہں کرتا ہے تو درحقیقت وہ خداوند عالم کے بارے سوء ظن رکھتا ہے یعنی وہ یہ سوچتا ہے کہ اگر وہ تنہا رہے گا تب تو خدا اُسے رزق دینے پر قادر ہے لیکن اگر بیوی ساتھ ہوگی تو خداوند اُسے رزق دینے کی قدرت نہیں رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس قسم کا سوء ظن رکھنا منع ہے۔

۲۔ لوگوں کے بارے میں سوء ظن رکھنا: جس کی اس آیت میں ممانعت کی گئی ہے۔

۳۔ اپنے بارے میں سوء ظن رکھنا: یہ قسم مورد ستائش ہے۔ انسان کو اپنے بارے میں حسن ظن نہیں رکھنا چاہیئے کہ اپنے ہرکام کو بے عیب سمجھنے لگے۔ حضرت علی ـ نے (خطبہ ہمام میں) متقین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا: متقین کے کمالات میں سے ایک کمال یہ ہے کہ وہ اپنے بارے میں سوء ظن رکھتے ہیں۔

جو لوگ اپنے آپ کو بے عیب سمجھتے ہیں دراصل ان کے علم و ایمان کا نور کم ہے اور نور کی کمی کے باعث انسان کسی چیز کو نہیں دیکھ سکتا ہے مثال کے طور پر اگر آپ ٹارچ لے کر ایک ہال میں داخل ہوں تو اس سے فقط بڑی چیزیں ہی دیکھ پائیں گے لیکن اگر ٹارچ کی جگہ کوئی طاقتور لائٹ ہو تو اس وقت ماچس کا تنکا اور سگریٹ کی راکھ بھی ہال میں نظر آئے گی۔

جن لوگوں کے ایمان کا نور کم ہوتا ہے بڑے گناہوں کے علاوہ انہیں کچھ نظر نہیں آتا ہے لہٰذا کبھی وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو کسی کو قتل نہیں کیا ، ہم نے تو کسی کے گھر کی دیوار نہیں پھلانگی! وہ فقط اس قسم کے کاموں کو گناہ سمجھتے ہیں لیکن اگر ان کے ایمان کا نور زیادہ ہو تو وہ اپنی معمولی سے لغزشوں کو بھی دیکھ لیں گے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نالہ و

۱۲۷

فریاد کریں گے۔

آئمہ معصومین ـ کی مناجات اور بے حد گریہ کی ایک وجہ ان کی معرفت اور ایمان کا نور ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے بارے میں خوش بین ہو (اور اپنے افکار و کردار کے بارے میں کسی قسم کا سوء ظن نہ رکھتا ہو) تو وہ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتا اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو ہمیشہ اپنے پیچھے کی طرف دیکھتا ہے کہ وہ کتنا راستہ طے کرچکا ہے اور پھر اُس پر غرور کرتا ہے لیکن اگر وہ سامنے کی طرف دیکھے کہ اس نے ابھی کتنا راستہ اور طے کرنا ہے تو جان لے گا کہ جو راستہ اس نے ابھی طے نہیں کیا وہ اس راستہ سے کئی گناہ زیادہ ہے جو وہ طے کرچکا ہے۔

جب ہم دیکھتے کہ قرآن پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ حکم(قل رَبِّ ذدنی عِلْمًا (۱) ) دیتا ہے کہ حصول علم کے سلسلے میں کوشاں رہو اور پھر یہ حکم(شَاوِرْهُم فی الأَمْر (۲) ) کہ تم لوگوں سے مشورہ کرو اور یہ حکم کہ(فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ (۳) ) جیسے ہی اپنے کام سے فارغ ہوجاؤ تو نئے کام کو فوراً مکمل قدرت کے ساتھ انجام دو۔ تو جب اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کے لیے ایسے دستور دیئے ہیں تو کیا ہمیں زیب دیتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو فارغ التحصیل اور مشورہ کرنے سے بے نیاز سمجھیں۔ نیز اپنی ذمہ داری کو ختم سمجھیں اور اپنے بارے میں حسن ظن رکھیں؟ اس لیے کہ ہمیں اپنے بارے میں خوش بین اور حسن ظن نہیں رکھنا چاہیے۔ بلکہ لطف الٰہی اور لوگوں کی رفتار وکردار کے باریمیں حسن ظن رکھنا چاہیئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ طہ آیت ۱۱۵ (۲)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران آیت ۱۵۹ (۳)۔ سورئہ مبارکہ الم نشرح آیت ۷

۱۲۸

O اس نکتہ کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ حسن ظن سے مراد سادگی ، جلدی یقین کرلینا، سطحی فکر کرنا، سازشوں اور شرارتوں سے غفلت کرنا نہیں ہے۔ اُمت مسلمہ کو بھی حسن ظن کی خاطر بیجا غفلت نہیں کرنا چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس بے جا غفلت کے نتیجہ میں دشمنوں کے جال میں پھنس جائیں۔

غیبت کسے کہتے ہیں؟

O غیبت سے مراد کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کے بارے میں ایسی بات کہنا کہ جس سے لوگ بے خبر ہوں اگر وہ شخص اُسے سنے تو ناراض ہو(۱) ۔ لہٰذا کسی کے سامنے اُس پر تنقید کرنا ، یا ایسے عیوب بیان کرنا جن سے لوگ باخبر ہوں یا جس کی غیبت ہورہی ہے وہ سنے تو ناراض نہ ہو تو پھر یہ غیبت نہیں ہوگی۔ کسی بھی فرد کی غیبت کرنا حرام ہے وہ مرد ہو یا عورت ، چھوٹا ہو یا بڑا، آشنا ہو یا بیگانہ، استا ہو یاشاگرد، باپ ہو یا بیٹا، مردہ ہو یا زندہ۔

Oرسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: مردوں کو کچھ نہ کہو جو مرگیا ہے اس کے بارے میں اچھی باتیں کرو۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ وسائل الشیعہ ج۸ ، ص۶۰۰۔ ۶۰۵

(۱)۔ نہج الفصاحہ، جملہ ۲۶۵

۱۲۹

غیبت روایات کی روشنی میں:

Oحضرت امام جعفر صادق ـنے فرمایا: غیبت کرنے والا شخص اگر توبہ کرے جنت میں داخل ہونے والا آخری شخص ہوگا اور اگر توبہ نہ کرے تو دوزخ میں داخل ہونے والا پہلا شخص ہوگا۔ (۱)

Oحضرت امام علی رضا ـنے حضرت امام زین العابدین ـ سے نقل فرمایا: اگر کوئی شخص مسلمانوں کی آبروریزی سے پرہیز کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی لغزشوں کو نظر انداز کردے گا۔ (۲)

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: جو کسی مرد یا عورت کی غیبت کرے تو چالیس دن تک اس

کی نماز اور روزہ قبول نہیں کیا جائے گا۔(۳)

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن جب بعض لوگوں کو اُن کا نامہ اعمال دیا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ ہمارے نیک اعمال کو درج کیوں نہیں کیا گیا ہے؟

اُن سے کہا جائے گا کہ خداوندعالم نہ کسی چیز کو کم کرتا ے اور نہ اُسے فراموش کرتا ہے بلکہ تمہارے نیک اعمال غیبت کرنے کی وجہ سے ضائع اور برباد ہوگئے ہیں ان کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ مستدرک ج۹، ص ۱۱۷

(۲)۔بحار الانوار ج ۷۲، ص ۲۵۶

(۳)۔ بحار الانوار ج ۷۲، ص ۲۵۸

۱۳۰

مقابلے میں کچھ لوگ دیکھیں گے کہ ان کے نامہ اعمال میں بہت زیادہ نیک اعمال درج ہیں اور وہ یہ سوچیں گے یہ نامہ اعمال ان کا نہیں ہے۔ تو ان سے کہا جائے گا کہ جس نے تمہاری غیبت کی تھی اس کے نیک اعمال تمہارے نامہ اعمال میں درج کردیئے گئے ہیں۔(۱)

Oرسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مکہ کی طرف اپنے آخری سفر کے موقع پر فرمایا: تمہارا خون، تمہارا مال، تمہاری عزت وآبرو اسی طرح محترم ہے جس طرح یہ ذی الحجہ کا مہینہ اور ایام حج محترم ہیں(۲)

O روایات میں غیبت کرنے والے کا ذکر اس شخص کے ساتھ ہوا ہے جو ہمیشہ شراب پیتا ہو۔تَحْرَمْ الجنّة عَلٰی المغتابِ ومُدْ مِن الخَمْر (۳)

O روایات میں ہے کہ جو اپنے دینی بھائی کے عیوب تلاش کرے (اور انہیں دوسروں کو بتائے) تو اللہ تعالیٰ اس کے عیوب آشکار رکردے گا۔(۴)

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ میں اپنے آخری خطبہ کے دوران فرمایا: اگر کوئی غیبت کرے تو اُس کا روزہ باطل ہے (۵) یعنی وہ شخص روزے کے معنوی آثار اور برکات سے محروم ہوجائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بحار الانوار ج ۷۲، ص ۲۵۹ (۲)۔ شرح نہج البلاغہ۔ ابن ابی الحدید ج۹ ، ص۶۲

(۳)۔ بحار الانوار ج۷۲، ص۲۶۰ (غیبت کرنے والے اور مسلسل شراب پینے والے پر جنت حرام ہے)

(۵)۔محجة البیضاء ج۵، ص۲۵۲ (نقل از سنن ابی داؤد ج۲، ص ۵۶۸)(۵)۔ محجة البیضاء ج۵، ص۲۵۵

۱۳۱

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: سود کا ایک درہم چھتیس (۳۶) زنا سے بدتر اور سب سے بڑا سود مسلمان کی عزت وآبرو سے کھیلنا ہے۔(۱)

O حدیث میں ہے کہ مسجد میں نماز باجماعت کے انتظار میں بیٹھنا عبادت ہے البتہ جب تک کہ ہم غیبت نہ کررہے ہوں۔(۲)

غیبت کا ازالہ:

O اگر ایسے شخص کی غبیت کی ہو جو اب دنیا سے جاچکا ہوتو اس کے ازالہ کے لیے توبہ کریں اور خدا سے عذر خواہی کریں بے شک خدا توبہ قبول کرنے والا ہے۔

لیکن اگر وہ زندہ ہو اور اس چیز کا امکان ہو کہ اگر اس سے یہ کہا جائے کہ ہم نے تمہاری غیبت کی تو وہ ناراض ہوگا تو ایسی صورت میں (بعض مراجع تقلید کے مطابق(۳) ) اسے نہ بتایا جائے بلکہ اپنے اور اللہ کے درمیان توبہ کریں اور اگر غبیت سننے والوں تک رسائی ممکن ہوسکے تو ان کے سامنے اس کا ذکر خیر اور تعظیم و تکریم کے ذریعہ اپنی کی ہوئی غیبت کا ازالہ کریں اور اگر وہ شخص یہ بتانے سے کہ ہم نے تمہاری غیبت کی ہے ناراض نہ ہوتا ہو تو خود اُسی سے عذر خواہی کرنی چاہیئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بحار الانوار ج۷۲، ص ۲۲۲ (۲)۔ اصول کافی: ج۲ ، ص۳۵۷

(۳)۔ میں نے حضرت آیت اللہ العظمیٰ گلپائیگانی سے سوال کیا کہ کیا کی ہوئی غیبت کی عذر خواہی کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم لوگوں سے کہیں کہ ہم نے تمہاری غیبت کی ہے؟

آپ نے جواب دیا: نہیں ، اس لیے کہ اگر ہم اُن سے یہ کہیں گے کہ ہم نے تمہاری غیبت کی ہے تو وہ ناراض ہوجائے گا اور مسلمان کو ناراض کرنا خود ایک دوسرا گناہ ہے لہٰذا غیبت کا ازالہ استغفار سے کیا جائے اور ہر جگہ اس شخص سے جس کی غیبت کی گئی ہو عذر خواہی کرنا ضروری نہیں۔

۱۳۲

Oشیخ طوسی علیہ الرحمہ نے شرح تجرید میں پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث کے حوالے سے یہ بیان کیا ہے کہ جس کی غیبت کی گئی ہو اگر اُس نے اُسے سن لیا ہو تو اس کے ازالہ کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے پاس جائے اور رسمی طور پر اس سے عذر خواہی کرے اور اگر اُسے پتہ نہیں چلا ہے تو جب کبھی اس کا ذکر آئے تو اُس کے لیے استغفار کریں۔''اِنَّ کَفَّارَةَ الغِیْبَةِ أنْ تَسْتَغْفَِ لِمَنْ اِغْتَبتَه' کُلَّما ذَکَرْتَه'' (۱)

وہ مقامات جہاں غیبت کرنا جائز ہے:

بعض مقامات پر غیبت کرنا جائز ہے ۔ وہ یہ ہیں:

۱۔ مشورہ کے وقت: اگر کوئی شخص کسی کے بارے میں ہم سے مشورہ کرنا چاہے تو اس کے عیب مشورہ کرنے والے کو بتا سکتے ہیں۔

۲۔ باطل کو ردّ کرنے کیلئے: باطل عقیدے کو ردّ کرنے یا پھر ایسے اشخاص کی ردّ کرنے کے

لیے جو ایسے عقیدے کے مالک ہوں اس ڈر سے کہ کہیںلوگ ان کے عقائد کی پیروی نہ کرنے لگیں۔ (غیبت کرنا جائز ہے)

۳۔ قاضی کے پا س مجرم کے خلاف گواہی دیتے وقت: جس طرح بے جا دعوؤں کو ردّ کرنے کے لیے حقیقت کو بیان کرنا ضروری ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ جس کی غیبت کی ہے جب بھی اس کا ذکر ہو اس کے لیے استغفار کریں۔

۱۳۳

۵۔ اس شخص کی گواہی ردّ کرنے کے لیے جو قابل اطمینان نہیں ہے۔

۵۔ مظلومیت کے اظہار کے لیے، ظالم کے ظلم کو بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

۶۔ جو شرم و حیاء کے بغیر آشکارہ طور پر گناہ کرتا ہے اس کی غیبت کی جاسکتی ہے۔

۷۔ تقیہ یا بیہودہ دعوؤں کو ردّ کرنے کے لیے غیبت ہوسکتی ہے مثال کے طور پر اگر کوئی یہ کہے کہ میں مجتہد ہوں ، میں ڈاکٹر ہوں میں سید ہوں اور ہم یہ جانتے ہوں کہ وہ ان صفات کا مالک نہیں ہے تو ہمارے لیے جائز ہے کہ لوگوں کو بتائیں کہ وہ ان صفات کا مالک نہیں ہے۔

غیبت کے خطرات:

O غیبت کرنے میں دوسرے کئی گناہ پوشیدہ ہیں۔

۱۔ بدکاری کی اشاعت: لوگوں کی بدکاری کو نشر کرنا اتنا خطرناک ہے کہ فقط ان کا نشر کرنا ہی نہیں بلکہ اسے اچھا سمجھنا بھی دردناک عذاب کا باعث ہے۔(۱)

۲۔ مومن کو ذلیل و خوار کرنا اور حقیر سمجھنا۔

۳۔ چغل خوری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔أن الّذیْنَ یُحِبُّونَ أنْ تَشِیْعُ الفٰاحِشَةُ --- لَهُمْ عَذَاب أَلِیْم (سورئہ نور آیت ۱۹) جولوگ یہ چاہتے ہیں کہ بدکاری کا چرچا پھیل جائے ۔۔ ان کے لیے بڑا دردناک عذاب ہے۔

۱۳۴

۵۔جنگ و جدال اور فتنہ و فساد برپا کرنا

۵۔ ظلم و ستم اور دوسرے گناہ۔۔۔

غیبت کی اقسام:

غیبت کبھی زبان سے ،کبھی اشارے سے کبھی تحریر سے، کبھی تصویر سے، کبھی شکل و مجسمہ سے، کبھی اس کی نقل اتارنے سے اور کبھی خاموشی کے ذریعہ ہوسکتی ہے۔مثال کے طور پر کہے کہ افسوس دین نے میری زبان روک رکھی ہے۔ اس جملے سے وہ سب کو سمجھانا چاہتا ہے کہ فلاں صاحب میں بہت عیب پائے جاتے ہیں۔ یا الحمد للّٰہ کہہ کر یہ کہے کہ ہم اس مسئلہ میں گرفتار نہیں ہوتے اس جملے سے وہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ فلان صاحب اس مسئلے میں گرفتا ہیں۔ کبھی اپنے عیوب کے ذکر کے ذریعے یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ دوسرے میں عیب پائے جاتے ہیں مثال کے طور پر وہ یہ کہے کہ انسان ضعیف ہے ہم سب بے صبرے ہیں یعنی وہ ضعیف اور بے صبرے ہیں۔کبھی غیبت سننے کے بعد کہتے ہیں سبحان اللّٰہ ، اللّٰہ اکبر اس ذکر کے ذریعہ غیبت کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ غیبت کو جاری رکھے اور کبھی زبان سے کہتے ہیں کہ غیبت نہ کریں لیکن دلی طور پر چاہتے ہیں کہ غیبت سنیں یہ نفاق ہے۔

۱۳۵

غیبت کے آثار:

(الف) اخلاقی اور اجتماعی آثار۔

۱۔ غیبت بغض و کینہ کے پیدا ہونے، اعتماد ختم ہوجانے ، اختلاف اور فتنہ و فساد کے پھیلنے، اور معاشرہ کے لیے مفید اور کارآمد افراد کے ایک طرف ہوجانے کا سبب بنتی ہے۔

۲۔ گناہ کے لیے زیادہ جرأت پیدا ہوتی ہے جیسے ہی انسان یہ سمجھ لے کہ لوگ اس کے عیب اور بدکاری سے باخبر ہوگئے ہیں اور وہ بے آبرو ہوچکا ہے تو اس میں گناہ کرنے کی جرأت زیادہ ہوجاتی ہے اور وہ گناہ نہ کرنے اور توبہ کرنے کا ارادہ ترک کردیتا ہے۔

۳۔ لوگوں کے عیوب نشر کرنے سے اردگرد کا ماحول اور معاشرے کی فضا آلودہ ہوجاتی ہے اور دوسروں کی گناہ کرنے کی جرأت میں اضافہ ہوتا ہے۔

۵۔ انتقام لینے کے جذبے کو تحریک ملتی ہے اس لیے کہ جیسے ہی اُسے جس کی غیبت ہوئی ہے یہ پتا چلتا ہے کہ اس کی آبرو ریزی کی گئی ہے تو وہ پھر اسی فکر میں رہتا ہے کہ اُسے کب موقع ملے اور وہ بھی غیبت کرنے والے کو بے آبرو کرے۔

۵۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے آج ہمارا غیبت کرنا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ کل لوگ ہماری غیبت کریں''لَا تَغْتَبْ فَتَغْتَبْ '' (۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔غیبت نہ کرو ورنہ تمہاری غیبت بھی کی جائے گی۔ بحارالانوارج۷۲، ص ۲۵۹

۱۳۶

جو اپنے بھائی کے لیے گڑھا کھودتا ہے وہ خود ہی اُس میں گرجاتا ہے۔

(ب)أُخروی آثار۔

۱۔ غیبت کرنا، نیکیوں اور خوبیوں کی بربادی کا سبب ہے۔(۱)

۲۔ غیبت کرنا عبادات کی قبولیت میں رکاوٹ ہے۔

۳۔ غیبت کرنے سے انسان ولایت الٰہی کے دائرے سے خارج ہوکر دوسرے کی ولایت کے دائرے میں چلا جاتا ہے۔(۲)

غیبت کی وجوہات:

۱۔ کبھی غیبت کی وجہ غیظ و غضب ہے۔بعض آسمانی کتابوں میں آیا ہے کہ (خدا فرماتا ہے اے بندے) اگر غیظ و غضب کے وقت تو مجھے یاد کرے اور اُسے نظر انداز کردے تو میں بھی غضب کے وقت تجھے یاد رکھوں گا اور غضب نہیں کروں گا۔(۳)

۲۔ کبھی دوسروں کے ساتھ ہم محفل ہونا غیبت کا سبب بنتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ کچھ لوگ کسی کی بدگوئی کررہے ہیں تو ان کا ہم محفل ہونے کی خاطر خود بھی غیبت کرنے لگتا ہے جب کہ وہ اس چیز سے غافل ہے کہ فقط اپنے دوستوں کی نظروں میں محبوب ہونے کے احتمال کی خاطر خدا کے فوری اور یقینی غضب کو مول لے رہا ہے نیز اس نے لوگوں کی رضا کو اللہ کی رضا پر مقدم کیا ہے جو سب سے بڑا خسارہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بحار الانوار ج۷۵، ص ۲۵۷ (۲)۔ اصول کافی ج۳، ص ۳۵۸

(۳)۔محجة البیضاء ج۵، ص۲۶۵

۱۳۷

۳۔ کبھی غیبت کی وجہ اپنے آپ کو بڑا ظاہر کرنا ہوتا ہے ۔ یعنی دوسروں کو پست کرنا تاکہ اپنی بڑائی ثابت کرسکے ایسا شخص بھی لوگوں کے نزدیک محبوب ہونے کی امید پر قہر الٰہی کو مول لیتا ہے اور یہ ایک نقصان دہ معاملہ ہے۔

۵۔ کبھی غیبت کی وجہ دوسروں کا مذاق اڑانا ہے وہ اس سے غافل ہوتا ہے کہ وہ کچھ لوگوں کے سامنے کسی کی تحقیر کررہا ہے اللہ تعالیٰ روز قیامت سب کے سامنے اس کی تحقیر کرے گا۔

۵۔ کبھی تعجب کی صورت میں غیبت کرتا ہے مثال کے طور پر وہ کہتا ہے کہ مجھے تعجب ہے کہ فلاں شخص اتنا علم اور معلومات رکھنے کے باوجود ایسا کیوں ہوگیا ہے جب کہ اُسے تعجب تو اس بات پر ہونا چاہیے کہ وہ کس طرح اس ایک جملے کے ذریعہ اپنی تمام عبادت کو تباہ و برباد کررہا ہے۔

۶۔ کبھی غیبت کی وجہ حسد ہے۔

۷۔ کبھی تفریحاً کسی کی غیبت کرتا ہے۔

۸۔ کبھی اپنے آپ کو کسی عیب سے بری الذمہ کرکے اُسے دوسروں کی گردن پر ڈال کر غیبت کرتا ہے ۔

۹۔ کبھی از راہ ہمدردی غیبت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں فلاں شخص کی طرف سے بہت پریشان ہوں جو اس مشکل میں پریشان ہے۔

البتہ غیبت کرنے کی اور بھی کئی ایک وجوہات ہیں۔

۱۳۸

غیبت سننا:

O غیبت سننے والے کی ذمہ داری یہ ہے کہ غیبت نہ سنے اور مومن کا دفاع کرے۔ حدیث میں ہے۔''السّاکِت' شَرِیْکُ القائل'' اگر کوئی غیبت سنے اور اُس پر خاموش رہے تو وہ شریک جرم ہے۔(۱)

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: جو غیبت سننے کے بعد اُسے ردّ کردے تو اللہ تعالیٰ شرّ کے ہزار در دنیا و آخرت میں اس پر بند کردے گا لیکن اگر خاموش رہا اور غیبت سنتا رہا تو جتنا گناہ غیبت کرنے والے کا تھا اتنا ہی گناہ اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیا جائے گا۔(۲) اور اگر جس کی غیبت ہورہی تھی وہ اس کی مدد کرسکتا تھا اور مدد نہیں کی تو روز قیامت خدا اُسے ذلیل و خوار کرے گا۔(۳)

اس لیے کہ اس کی خاموشی کے باعث معاشرے کے مفید اور کار آمد افراد ایک طرف ہوجائیں گے اور اُن کا کوئی دفاع نہ کرسکے گا۔

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اگر کسی مجلس میں کسی کی بدگوئی ہورہی ہو تو انہیں منع کرے اور وہاں سے سے چلا جائے۔(۴)

O سورئہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۳۶ میں ارشاد ہے : کان، آنکھ اور دل سے روز قیامت سوال کیا جائے گا اس بنا پر ہمیں ہر بات سننے کا حق حاصل نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔غرر الحکم (۲)۔ وسائل الشیعہ ج۸، ص۶۰۸

(۳)۔ وسائل الشیعہ ج۸، ص۶۰۶ (۵)۔کنز العمال ج۲، ص ۸۰

۱۳۹

O ایک روایت کے مطابق غیبت کرنا کفر، سننا اور اُس پر راضی رہنے کو شرک کہا گیا ہے۔(۱)

غیبت ترک کرنے کے طریقے:

۱۔ غیبت کرنے کے خطرات اور اس کے منفی اثرات پر توجہ دیں (جن کے بارے گزشتہ صفحات پر بحث کی گئی ہے)

۲۔ اپنے عیوب یاد رکھیں حضرت علی ـ نے فرمایا: کہ تم کس طرح لوگوں کے عیوب بیان کرتے ہو جب کہ خود اس جیسے یا اس سے بدتر گناہ کا ارتکاب کرچکے ہو اور اگر فرض کریں کہ تم میں کوئی عیب نہیں ہے تو تمہاری یہی جرأت کہ تم دوسروں کے عیوب اور بدکاری کو عام کررہے ہو ان کے عیوب سے بدتر ہے۔(۲)

روایات میں ہے کہ خوش بخت ہے وہ شخص جس کے عیوب اُسے مشغول رکھتے ہیں (اور وہ اصلاح کی فکر میں رہتا ہے) اور لوگوں کے عیوب سے اُسے کوئی سروکار نہیں ہے۔(۳)

یاد آوری:

غیبت کی بحث کے اختتام پر چند باتوں کی یاد آوری ضروری ہے:

۱۔ غیبت کے حرام ہونے کا حکم فقط اس سورئہ یا اس آیت میں نہیں بلکہ دیگر آیات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بحار الانوار ج۷۲، ص ۲۲۶ (۲)۔ نہج البلاغہ۔خطبہ ۱۵۰ (۳)۔ بحار الانوار ج۱، ص ۱۹۱

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160