آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)0%

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات) مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 160

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام محسن قرائتی
زمرہ جات: صفحے: 160
مشاہدے: 115210
ڈاؤنلوڈ: 3974

تبصرے:

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 160 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 115210 / ڈاؤنلوڈ: 3974
سائز سائز سائز
آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

میں بھی ہے مثلاً آیت''وَیْل لِّکُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ'' (1) وائے ہو ہر عیب جو اور بدگوئی کرنے والے پر ، اور آیت'' لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الجَهْرَ بِالسُّوْئِ '' (2) اللہ تعالیٰ کو یہ پسند نہیں کہ لوگوں کی برائیوں کو عیاں کیا جائے۔ ان آیات سے بھی غیبت کے حرام ہونے کا پتہ چلتاہے۔

2۔ اگر غیبت عیب جوئی کی وجہ سے کی جائے تو حرام ہے لیکن اگر لوگوں کے عیب اصلاح کی خاطر بیان کیے جائیں تو پھر جائز ہے چاہے جس کے عیب بیان کیے جائیں وہ راضی نہ بھی ہو۔ مثال کے طور پر اگر ڈاکٹر کو مریض کی بیماری کی تفصیلات بتائی جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے چاہے مریض راضی نہ بھی ہو۔

3۔ جس شخص کی غیبت ہورہی ہے اُسے معین کریں لیکن اگر یوں کہیں کہ بعض لوگ یوں ہیں اور سننے والے اُن بعض لوگوں کو نہ پہچان سکیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔

5۔ کبھی غیبت تو نہیں ہوتی ہے لیکن بات تحقیر اور بدکاری کی اشاعت تک پہنچ جاتی ہے تو یہ بھی حرام ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ مبارکہ ہمزہ آیت 1 (2)۔ سورئہ مبارکہ نساء آیت 158

۱۴۱

آیت نمبر 13

یٰأَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَ أُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوبًا وَقَبَائَلَ لِتَعَارَفُوا اِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰهِ أَتْقٰکُمْ انَّ اللّٰهَ عَلِیْم خَبِیْر-

ترجمہ:

اے انسانو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تمہیں مختلف خاندانوں اور قبیلوں میں قرار دیا ہے تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو بے شک تم میں خدا کے نزدیک زیادہ عزت والا وہی ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے اور اللہ ہر شے کا جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہے۔

نکات:

1۔ بعض مفسرین اس آیت کو ماقبل آیات سے مربوط سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ مذاق اڑانا اور غیبت کرنا دراصل اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھنا اور دوسروں کو حقیر سمجھناہے۔ اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ برتری اور عزت کا معیار تقویٰ ہے اس آیت میں تین اہم اُصولوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

مساوات کا اصول ، اسلامی معاشرہ میں ایک دوسرے کی شناخت کا اصول اور تیسرا اصول یہ کہ تقویٰ برتری کا معیار ہے اگرچہ قرآن کی دوسری آیات میں برتری کے اور بھی معیار بیان کیے گئے ہیں جیسے علم، ایمان میں سبقت، امانت داری، توانائی اور ہجرت وغیرہ۔

۱۴۲

پیغامات:

1۔ مرد یا عورت ہونا ،فلاں قبیلے اور قوم سے ہونا باعث افتخار نہیں ہے۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے کام ہیں(جعلنا، خَلَقْنَا)

2۔ مخلوق میں جو فرق پایا جاتا ہے اُس میں حکمت ہے یہ ایک دوسرے کی پہچان کے لیے ہے نہ فخر و مباہات کے لیے۔(لِتَعَارفُوا)

3۔ لوگوں کے نزدیک عزت وقتی اور عارضی ہے جب کہ خدا کے نزدیک عزت خاص اہمیت کی حامل ہے۔

5۔ باتقویٰ افراد کولوگوںسے توقعات نہیں رکھنی چاہئیں کیونکہ ان کی عزت و بزرگی ایک معنوی مقام ہے جو خدا کے پاس ہے- (عند اللّٰه)

5۔ قرآن مجید نسلی، گروہی، قومی قبائلی ، ملکی ، معاشی ، فکری، ثقافتی، اجتماعی اور فوجی حوالے سے برتری کے معیار کی نفی کرتے ہوئے فقط تقویٰ کو معیار قرار دیتا ہے۔(انَّ اکرمکم عنداللّٰه اتقاکم)

6۔ زیادہ کی خواہش اور اپنے آپ کو برتر دیکھنا انسانی فطرت ہے اسلام نے اس خواہش اور فطری تقاضے کے حصول کے لیے تقویٰ کے راستے کی نشاندہی کی ہے۔(انَّ اکرمکم عنداللّٰه اتقاکم)

7۔ جس نے پیدا کیا ہے وہ بہتر جانتا ہے کہ نسل اور قبیلہ برتری کا معیار نہیں ہے اور لوگوں کے بنائے ہوئے برتری کے معیار لغو اور بیہودہ ہیں۔(انَّ اکرمکم--- اتقاکم--- علیم خبیر)

8۔ اپنے پرہیز گار اور متقی ہونے کا دعویٰ یا اس کا اظہار نہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہم سب

۱۴۳

کو خوب جانتا ہے۔(علیم خبیر)

آیت نمبر 15

قَالَتِ الأَعْرابُ اَمَنَّاط قُلْ لَّمْ تُوْمِنُوا وَلٰکِن قُولُوا أَسْلَمْنٰا وَ لَمَّایَدْخُلِ الاِیْمٰانُ فِیْ قُلُوبِکُمْط وَ اِنْ تُطِیْعُوْا اللّٰهَ وَ رَسُولَهُ لَا یَلْتِکُمْ مِنْ أَعْمٰالِکُمْ شَیْئًاط اِنَّ اللّٰه غَفُور رَحِیم-

ترجمہ:

یہ بدّو عرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئیں ہیں تو آپ کہہ دیجیے کہ تم ایمان نہیں لائے ہو بلکہ یہ کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں کہ ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے اور اگر تم اللہ اور رسول کی اطاعت کروگے تو وہ تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا۔ کہ وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔

نکات:

اعراب سے مراد بادیہ نشین تھے ان میں سے کچھ صاحبان ایمان تھے اسی لیے سورئہ توبہ میں ان کی تعریف کی گئی ہے۔( وَمِنَ الأَعْرابِ مَنْ یَوْمِنُ باللّٰهِ وَالْیَوْمِ الآخر) (1) لیکن ان میں سے بعض خود کو اپنے مقام سے برتر سمجھتے اور باایمان ہونے کا دعویٰ کرتے تھے جب کہ عام سے مسلمان تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ مبارکہ توبہ آیت 99

۱۴۴

پیغامات:

1۔ ہر دعوے اور نعرہ پر کان نہ دہریں-(قَالَتِ الأَعْرابُ اَمَنَّا)

2 بے جا دعوؤں کوروکیں۔(قُلْ لَّمْ تُوْمِنُوا )

3۔ سب کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے اوراپنے آپ کو بڑھا چڑھا کر پیش نہ کریں۔(قُولُوا أَسْلَمْنٰا)

5۔ اسلام لانا ایک ظاہری مرحلہ ہے۔ لیکن ایمان کا تعلق دل سے ہوتا ہے(فی قلوبکم)

5۔ کمال تک پہنچنے کا دعویٰ کرنے والوں کے ساتھ اس انداز میں بات کی جائے کہ وہ نا اُمید نہ ہوں۔(وَ لَمَّایَدْخُلِ الاِیْمٰانُ فِیْ قُلُوبِکُم)

6۔ کمال تک پہنچنے کا راستہ کھلا ہوا ہے۔(وَ اِنْ تُطِیْعُوْا اللّٰهَ وَ رَسُولَهُ---)

7۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کا ذکر خدا کی اطاعت کے ساتھ آیا ہے اور یہ چیز آپ کی عصمت کی علامت ہے لہٰذا ہمیں بغیر چون و چرا آپ کی اطاعت کرنی چاہیے-(وَ اِنْ تُطِیْعُوْا اللّٰهَ وَ رَسُولَهُ )

8۔ اللہ تعالیٰ عادل ہے اور وہ انسان کے اعمال کی جزاء میں سے ایک ذرہ بھی کم نہیں کریگا۔ (صحیح تدبیر اور انتظام یہ ہے کہ کسی کا ذرہ برابر بھی حق ضائع نہ ہو)(لَا یَلْتِکُمْ مِنْ أَعْمٰالِکُمْ شَیْئًا)

۱۴۵

اسلام اور ایمان میں فرق:

1۔ گہرائی کا فرق۔

اسلام لاناایک ظاہر عمل ہے جب کہ ایمان قلبی لگاؤ کا نام ہے۔ حضرت امام جعفر صادق ـ نے اس آیت کی مناسبت سے فرمایا:''وَ مَنْ أَحْسَنَ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً'' (1) الٰہی رنگ، اسلام ہے۔ اور اس آیت'' فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوةِ الوثقٰی '' (2) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: اللہ کی مضبوط رسی کو تھامنا ہی دراصل ایمان ہے۔(3)

2۔ محرک میں فرق:

کبھی اسلام لانے میں محرک جان کی حفاظت یا مادی منافع کا حصول ہوتا ہے لیکن ایمان کا محرک ہمیشہ معنوی ہوتا ہے حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: اسلام لانے سے انسان کا خون محفوظ ہوجاتا ہے مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے حلال ہوجاتے ہیں لیکن اخروی أجر قلبی ایمان کی بنیاد پر ہے۔(4)

3-عمل میں فرق:

اسلام عمل کے بغیر ممکن ہے لیکن ایمان کے لیے عمل ضروری ہے ۔ جیسا کہ ہم حدیث میں پڑھتے ہیں۔''ألْاِیْمٰانُ اِقْرار عَمَل وَالْاِسْلامُ اِقْرار بِلَاعَمَل'' (5) اس بنا پر ایمان میں اسلام پوشیدہ ہے لیکن اسلام میں ایمان پوشیدہ نہیں ہے ۔ ایک اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ مبارکہ بقرہ آیت 138 (2)۔سورئہ مبارکہ بقرہ آیت 256

(3)۔ اصول کافی ج2، ص 15 (5)۔ اصول کافی ج2، ص 25

(5)۔ اصول کافی ج2، ص 25

۱۴۶

حدیث میں اسلام کو مسجد الحرام اور ایمان کو کعبہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔(1) کعبہ مسجد الحرام کے درمیان واقع ہے لیکن مسجدالحرام کعبہ میں نہیں ہے۔

5۔ اجتماعی اور سیاسی مسائل میں فرق:

حضرت امام جعفر صادق ـ سے سوال کیا گیا کہ اسلام اور ایمان میں کیا فرق ہے؟ آپ نے فرمایا: شہادتین کاکہنا ظواہر پر عمل کرنا جیسے نماز اور زکات وغیرہ یہ اسلام ہے لیکن ایمان وہ شہادت اور عمل ہے جو الٰہی رہبر کی شناخت کی بنیاد پر انجام دیا جائے۔(2)

5۔ رتبے میں فرق:

ایک حدیث میں ہے: ایمان اسلام سے ایک درجہ بالاتر ہے اور تقویٰ ایمان سے ایک درجہ بالاتر ہے اور یقین تقویٰ سے ایک درجہ بالاتر ہے اور لوگوں میں یقین سے کمیاب چیز کوئی نہیں ہے۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ اصول کافی ج2، ص 52

(2)۔ اصول کافی ج2، ص 25

(3)۔ اصول کافی ج2، ص 51

۱۴۷

آیت نمبر 15

اِنَّمَا الْمُوْمِنُونَ الَّذِینَ ئَ امَنُوا بِاللّٰهِ وَ رَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوا وَجٰاهَدُوا بِأَمْوٰالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِط أُوْلٰئِکَ هُمُ الصّادِقُونَ-

ترجمہ:

صاحبان ایمان صرف وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لے آئے اور پھر کبھی شک وشبہ میں مبتلا نہ ہوئے اور اس کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد بھی کیا درحقیقت یہی لوگ اپنے دعویٰ ایمان میں سچے ہیں۔

پیغامات:

1۔ قرآن مجید، کمال اور سعادت کے معیار( اِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰهِ أَتْقٰاکم) کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے نمونے بھی پیش کرتا ہے۔(اِنَّمَا الْمُوْمِنُونَ الَّذِینَ---)

2۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان اللہ تعالٰ پر ایمان لانے کے ساتھ ہے۔(آمَنُوا بِاللّٰهِ وَ رَسُولِهِ )

3۔ حقیقی ایمان کی علامت استقامت و پائیداری اور اس میں عدم تردید کا پابند ہونا ہے۔(ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوا)

۱۴۸

5۔ ایمان ایک باطنی امر ہے جس کی شناخت اس کے آثار کے ذریعہ ہوتی ہے۔(اِنَّمَا الْمُوْمِنُونَ الَّذِینَ --- جٰاهَدُوا---)

5۔ عمل کے بغیر ایمان محض ایک دعویٰ ہے۔(جٰاهَدُوا بِأَمْوٰالِهِمْ ---)

بخیل اور بزدل کا ایمان حقیقت پر مبنی نہیں ہوتا ہے۔

6۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مال و جان سے راہ خدا میں جہاد کیا جائے۔(جٰاهَدُوا بِأَمْوٰالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ) ( جولوگ کچھ رقم دے کر محاذ پر جانے یا کسی اور سخت کام کے انجام دینے سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں وہ حقیقی مومن نہیں ہیں)۔

حقیقی مومن کی پہچان:

قرآن مجید میں چار آیات'' انَّما الْمُومِنُونَ'' کے جملے سے شروع ہوتی ہیں جن میں حقیقی مومن کی صفات کو بیان کیا گیاہے۔

انَّما الْمُومِنُونَ الَّذِینَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیاتُه زَادتْهُمْ اِیْمٰانًا وَعَلٰی رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُونَ- (1)

یعنی حقیقی مومن تو فقط وہی ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے تو ان کے دل لرزنے لگتے ہیں اور جب ان پر آیات الٰہی کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کا ایمان اور زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اور وہ فقط اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ انفال آیت نمبر 2

۱۴۹

انَّما الْمُومِنُونَ الَّذِینَ ئَ امَنُوا باللّٰهِ وَرَسُولِهِ وَاِذَا کَانُوا مَعَه' عَلٰی أَمْرِ جَامِعٍ لَمْ یَذْهَبُوا حَتّٰی یَسْتَاذِنُوه ۔۔۔(1)

مومن فقط وہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان رکھتے ہیں اور جب بھی کسی اجتماعی کام کے لیے حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ہوں تو اجازت لیے بغیر وہاں سے نہیں جاتے۔

3،5۔ اسی سورہ میں دوبار یہ جملہ آیا ہے ایک مرتبہ دسویں آیت میں'' انَّما الْمُومِنُونَ اخوه'' اور دوسری مرتبہ اس آیت میں۔

اگر ہم ان چار آیات کو ایک ساتھ رکھیں تو سچے اور حقیقی مومن کو پہچان سکتے ہیں۔ جن کے بارے میں قرآن مجید نے ارشاد فرمایا(اولئک هُمُ الْمُومِنُونَ حَقًّا) (2) اور(اولئک هُمُ الصَّادِقُونَ) لہٰذا حقیقی مومن وہ ہیں جو ان مقامات کے حامل ہوں۔

1۔ ان کے دل یاد خدا سے دھڑکتے ہیں ( مال و مقام سے نہیں)(اذا ذُکِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قلوبهم )

2۔ وہ ہمیشہ کمال اور سعادت کی راہ پر گامزن رہتے ہیں ان کے امور میں توقف نہیں ہے۔ وہ ہر الٰہی پیغام کے پابند ، محبت کرنے والے، اور اُس پر عمل پیرا ہیں۔(وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ آیٰاتِهِ زَادَتْهُمْ اِیْمٰانا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نور آیت نمبر 62 (2)۔ سورئہ مبارکہ انفال آیت نمبر5، 75

۱۵۰

البتہ بعض لوگ پتھر کی مانند رک جاتے ہیں۔(کَالحِجَارةِ) (1) بعض کی حرکت الٹی اور پیچھے کی سمت ہے۔(اَمَنُوا ثُمّ کَفَرُوا) (2) اور بعض اپنے ہی گرد چکر لگارہے ہیں۔ ان کی مثال اس جانور سے دی گئی ہے جو چکی کے گرد چکر لگارہا ہو۔(3)

3۔وہ فقط خدا پر بھروسہ کرتے ہیں ( نہ کہ مشرق و مغرب کی قراردادوں پر۔۔۔)علی رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُونَ-

5۔ اجتماعی نظام میں الٰہی رہبر کے انتخاب کے بعد اس کے فرمان کے بغیر حرکت نہیں کرتے اور اس کے وفادار رہتے ہیں۔اِذَا کَانُوا مَعَه' عَلٰی امرٍ جَامع لم یَذْهَبُوا حتّٰی یَسْتَاذِنُوه'-

5۔ وہ خود کو دوسروں سے برتر نہیں سمجھتے اور سب کو اخوت و برادری کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔(انَّما الْمُومِنُونَ اِخْوَة )

6۔ وہ پائیدار ایمان کے مالک ہیں ان کا ایمان علم و عمل اور فطرت کی بنیاد پر استوار ہے میدان عمل میں وہ یقین کی منزل پر ہیں، غلط پروپیگنڈے ، زندگی کے نشیب و فراز انہیں مایوس نہیں کرتے اور نہ ہی وہ شک میں مبتلا ہوتے ہیں-( ثُمَّ لَمْ یَرْتابُوا)

7۔ جب مکتب کے دفاع کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ مال و جان سے اس کا دفاع کرتے ہیں۔(وَجٰاهَدُوا بِأَمْوٰالِهِمْ وَأَنْفُسِهِم)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ آیت نمبر 75

(2)۔ سورئہ مبارکہ نساء آیت نمبر 137

(3)۔ بحار الانوار ج1، ص 208

۱۵۱

ایمان میں استقامت و پائیداری:

خود ایمان لانے سے زیادہ اہم اس میں استقامت اور پائیداری ہے جیسا کہ قرآن مجید نے اس بات کو چند تعبیروں کے ذریعہ بیان کیا ہے۔

قَالُوا ربَّنا اللّٰهُ ثُمّ اسْتَقَامُوا (1) جن لوگوں نے ایمان میں استقامت کا مظاہرہ کیا۔

فَلَا تَمُوتُنَّ الّا و أنْتُمْ مُسْلِمُونَ (2) حضرت یعقوب ـ نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ اس وقت تک دنیا سے نہ جانا جب تک واقعی مسلمان نہ ہوجاؤ۔

اِهْدِنَا الصِّراطَ الْمُستَقِیم ۔ کے یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ ''پروردگارا ہمیں صراط مستقیم پر ہمیشہ قائم رکھ''۔

و تَوَفَّنَا مع الابرار ۔ پروردگار جب مجھے موت آئے تو میں نیک اور صالح افراد میں سے ہوں۔(3)

توفّنی مُسْلِمًا- (4) پروردگارا جب مجھے موت آئے تو میں تیرے سامنے سرتسلیم خم کرنے والوں میں سے ہوں۔

فَمُسْتَقَرّ و مُسْتَوْدعُ (5) حضرت امام جعفر صادق ـنے فرمایا: اس آیت میں''فمستقر'' سے مراد پائیدار ایمان اور''مستودع'' سے مراد عاریتًا ایمان ہے(6)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ فصلت( حم سجدة) آیت نمبر30 (2)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ آیت نمبر 132

(3)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران آیت نمبر193 (5)۔ سورئہ مبارکہ یوسف آیت نمبر 101

(5)۔ سورئہ مبارکہ انعام آیت نمبر 98 (6)۔ میزان ا لحکمہ

۱۵۲

ایمان میں استقامت اور پائیداری کے عوامل:

چند عوامل ایمان میں استقامت اور پائیداری کا سبب بنتے ہیں۔ وہ یہ ہیں:

1۔ تقویٰ: امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: تقویٰ ایمان کو دل میں پائیدار اور لالچ ایمان کو دل سے خارج کردیتا ہے۔(1)

2۔ اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنا: جو چیز ایمان پر پائیدار رہنے کے لیے ضروری ہے وہ اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ مومنین کو ان کے ایمان پر ثابت قدم رکھو۔(اذْ یُوْحٰی ربُّکَ اِلی المَلَائِکةِ اِنّی مَعَکُمْ فَثَبِتُوا الّذِیْنَ اَمَنُوا) (2) ایک اور مقام پر پڑھتے ہیں۔وَ رَبَطْنٰا عَلٰی قُلُوبِهِمْ (3) اور ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط کردیا تھا۔

3۔تاریخ سے واقفیت: تاریخ سے عبرت پکڑنا ایمان کی پائیداری کا سبب بنتاہے ۔وَکُلًّا نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ أَنْبٰائِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فَوادَکَ (4) ہم انبیاء کے اہم واقعات کو آپ کے لیے بیان کریں گے تاکہ اس کے ذریعہ آپ کو استحکام و صلابت عطا کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ میزان الحکمہ

(2)۔ سورئہ مبارکہ انفال آیت نمبر 12

(3)۔ سورئہ مبارکہ کہف آیت نمبر 15

(5)۔ سورئہ مبارکہ ہود آیت نمبر 120

۱۵۳

آیت نمبر 16

قُلْ أَتُعَلِّمُوْنَ اللّٰهَ بِدِیْنِکُمْط وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مٰا فِی السَّمَواتِ وَمَا فِیْ الأَرضط وَاللّٰهُ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْم ۔

ترجمہ:

آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم اپنے دین سے اللہ کو آگاہ کررہے ہو؟ حالانکہ اللہ آسمان اور زمین کی ہر شے سے باخبر ہے اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔

نکات:

1۔ ایک گروہ قسم کھانے کے بعد پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہنے لگا کہ ہم ایمان میں سچے ہیں۔ تو یہ آیت نازل ہوئی کہ قسم کھانے کی ضرورت نہیں ہے اللہ تعالیٰ ہر چیز سے باخبرہے۔

2۔ اولیاء اللہ کے سامنے حصول اطمینان اور اصلاح کی غرض سے اپنے عقائد کوپیش کرنا ایک پسندیدہ امر ہے۔ جیسا کہ حضرت شاہ عبدالعظیم نے امام علی نقی ـ کے سامنے اپنے عقائد کو بیان کیا تھا لیکن اگر یہ کام دکھاوے اور ریاکاری کے لیے کیا جائے (جیسا کہ اس آیت کے مخاطبین نے کیا) تو قابل شرزنش اور لائق مذمت ہے۔

۱۵۴

پیغامات:

1۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے کسی چیز کو ظاہر کرنا درحقیقت خدا کے سامنے ظاہر کرنا ہے۔

اگرچہ اس گروہ نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے (اپنے ایمان کو) ظاہر کیا تھا لیکن قرآن نے فرمایا: أَ تُعَلِّمُوْنَ اللّٰهَ---

2۔ جو خدا ہر چیز سے باخبر ہو اس کے سامنے دعوے کرنا اور ظاہر کرنا مناسب نہیں ہے۔(أَتُعَلِّمُوْنَ اللّٰهَ---وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ ---)

3۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف ہر چیز کے وجود سے آگاہ ہے بلکہ اس کی خصوصیات سے بھی باخبر ہے۔(یَعْلَمُ---بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْم-) (ممکن ہے ایک اسٹور کیپر اسٹور کی تمام اشیاء سے آگاہ ہو لیکن ان کے اجزء ترکیب اور اثرات سے بے خبر ہو۔)

۱۵۵

آیت نمبر 17

یَمُنُّونَ عَلَیکَ أَنْ أَسْلَمُواط قُلْ لَا تَمُنُّوا عَلَیَّ اِسْلَا مَکُمْج بَلْ اللّٰهُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ أَنْ هَدٰی کُمْ لِلْاِیمٰانِ اِنْ کُنْتُمْ صٰادِقِیْنَ-

ترجمہ:

یہ لوگ آپ پر احسان جتاتے ہیں کہ اسلام لے آئے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ مجھ پر اپنے مسلمان ہونے کا احسان مت جتاؤ بلکہ یہ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا راستہ بتایا ہے اگر تم واقعاً دعوے ایمان میں سچے ہو۔

نکات:

1۔ بعض مسلمان (مانند طائفہ بنی اسد) اسلام لانے کے بعد اسے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر احسان سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم جنگ اور خونریزی کیے بغیر اسلام لائے ہیں لہٰذا آپ کو ہماری اہمیت اور قدر کا اندازہ ہونا چاہیئے کہ اس آیت نے انہیں اس عمل سے روکا ہے۔

2۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایمان کی نعمت کو اور سورہ آل عمران کی آیت نمبر 165 میں ارسال انبیاء کو اور سورہ قصص کی آیت نمبر 5 میں مستضعفین کی حکومت کو لوگوں پر احسان قرار دیا ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ اہم ترین نعمات ہدایت الٰہی ، معصوم کی رہبری اور حکومت ِ برحق ہے۔

۱۵۶

پیغامات:

1۔ اسلام کی طرف ہدایت اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اسلام قبول کرنا اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔(بَلِ اللّٰهُ یَمُنُّ )

2۔ اللہ تعالیٰ کو ہمارے اسلام، ایمان اور عبادت کی ضرورت نہیں ہے۔(لَا تَمُنُّوا عَلَیَّ)

3۔ سچے ایمان کی علامت اللہ تعالیٰ کا احسان مند ہونا ہے نہ کہ اس پر احسان جتانا۔(اِنْ کُنْتُمْ صٰادِقِیْنَ---لَا تَمُنُّوا --- بَلْ اللّٰهُ یَمُنُّ ) جی ہاں حقیقی مسلمان وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کو اپنا مقروض نہ سمجھے۔

5۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر احسان کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ پر احسان کرنا ہے۔ (اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر احسان جتانے کا جواب اس انداز میں دیا کہ گویا خود اُس پر احسان جتایا گیا ہے۔)(یَمُنُّونَ عَلَیکَ--- بَلْ اللّٰهُ یَمُنّ---) اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت کرتا ہے اور اسے ہرگز یہ پسند نہیں ہے کہ اس کے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر کوئی احسان جتائے۔

5۔ تم اسلام لانے کو (اللہ اور پیغمبر پر) احسان سمجھتے ہو۔(یَمُنُّونَ عَلَیکَ أَنْ أَسْلَمُوا) جبکہ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے تمہیں ہدایت کے ذریعہ بلند وبالا مقام عطا کیا ہے-(هدی کُمْ للاِیمٰان) اس نکتہ کے پیش نظر کہ ایمان کا مرحلہ اسلام سے بالاتر ہے۔

6۔ انسان کے کمال کا آخری مرحلہ حقیقی ایمان ہے(هَدٰی کُمْ لِلْاِیمٰان) فقط ظاہری اسلام نہیں کیونکہ

۱۵۷

ظاہری طور پر تو منافق بھی اسلام کا اظہار کرتا ہے۔

آیت نمبر 18

اِنَّ اللّٰه یَعْلَمُ غَیْبَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِط وَاللّٰهُ بَصِیْرُ بِمَا تَعْمَلُونَ o

ترجمہ:

بے شک اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کے غیب کو جانتا ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے بھی آگاہ ہے۔

پیغامات:

1۔دائرہ توحید میں معیار فضیلت ظاہری نام و نمود، احسان جتانا اور محض دعوے کرنا نہیں ہے۔ بلکہ قلبی خلوص معیار ہے اور اس معیار سے آگاہی صرف اس کی ذات سے مخصوص ہے(اِنَّ اللّٰه یَعْلَمُ غَیْبَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ) جی ہاں، وہ خدا جو عالم ہستی کی ہر پوشیدہ چیز کو جانتا ہے کس طرح ممکن ہے کہ ہمارے باطنی ایمان سے بے خبر ہو؟

2۔ اللہ تعالیٰ کے علم اور بصیرت پر ایمان رکھنا انسان کے تقویٰ کی ضمانت ہے۔ (اگر ہم یہ جان لیں کہ روزانہ ہماری حرکات و سکنات کی فلم بنائی جارہی ہے اور ساتھ ہی آواز بھی ریکارڈ ہورہی ہے تو پھر ہم اپنے کلمات اور حرکات پر زیادہ توجہ دیں گے)

3۔ اللہ تعالیٰ کا علم بصیرت کے ساتھ ہے یعنی اس کا علم ، اجمالی، سطحی، یک طرفہ،

۱۵۸

قابل تردید اور وقتی نہیں ہے۔

اِنَّ اللّٰه یَعْلَمُ---وَاللّٰهُ بَصِیْر ---

امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مصنف ، مترجم اور اس کار خیر میں حصہ لینے والوں اور اس کے پڑھنے

والوں کو تلاوت، تدبر ، عمل اور تبلیغ کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین یاربّ العالمین۔

تمت بالخیر۔ نسیم حیدر زیدی

قم المقدسہ

۱۵۹

۱۶۰