آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)37%

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات) مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 160

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 160 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130402 / ڈاؤنلوڈ: 5482
سائز سائز سائز
آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

آداب واخلاق

(تفسیر سورہ حجرات)

مُفَسِّر

آیت اللّٰہ محسن قرائتی(دام برکاتہ)

ترجمہ

سید نسیم حیدر زیدی

۱

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم

۲

فہرست

انتساب ۱۰

مقدمہ ۱۱

عرض مترجم ۱۳

سورئہ حجرات کا مختصر تعارف ۱۵

نکات: ۱۷

آیت نمبر ۱ ۱۸

نکات: ۱۸

پیغامات: ۱۹

رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سبقت اور پیش قدمی کی چند مثالیں: ۲۱

رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پیچھے رہ جانے اور مخالفت کی چند مثالیں: ۲۴

تقویٰ اور پرہیز گاری کے بارے میں ایک بحث: ۲۶

تقویٰ میں مؤثر عوامل: ۲۷

کیا تقویٰ محدودیت ہے؟ ۲۸

بدحجابی یا بے حجابی مندرجہ ذیل مسائل کو ایجاد کرتی ہے۔ ۲۹

آیت نمبر ۲ ۳۱

نکات: ۳۱

پیغامات: ۳۴

۳

مقام نبوت ہمارے لیے مسئولیت آور ہے۔ ۳۴

نمونے: ۳۵

اسلامی مقدسات: ۳۶

مقدسات: ۳۷

اولیاء الٰہی کا احترام: ۴۱

اعمال کا حبط اور ضایع ہونا: ۴۳

حبط اعمال روایات کی روشنی میں: ۴۴

آیت نمبر ۳ ۴۹

نکات: ۴۹

پیغامات: ۵۰

گفتگو کے آداب: ۵۱

عمل کے چند نمونے: ۵۳

اجر خداوندی کا امتیاز: ۵۴

آیت نمبر ۵اور ۵ ۵۶

نکات: ۵۶

پیغامات: ۵۷

آیت نمبر ۶ ۶۰

نکات: ۶۰

پیغامات: ۶۱

۴

فسق کیا ہے اور فاسق کون ہے؟ ۶۳

فاسق سے رابطہ رکھنا: ۶۶

''تحقیق'' معاشرتی بیماریوں کا علاج: ۶۶

ایک ناگوار اورتلخ واقعہ: ۶۷

دِقَّت اور احتیاط سے کام کرنا ۶۸

اسلا م میں خبر کی اہمیت ۶۹

تحقیق کا طریقہ کار ۷۱

جھوٹ: ۷۴

آیت نمبر ۷ اور ۸ ۷۶

نکات: ۷۶

پیغامات: ۷۹

ایمان اور علم کا تعلق: ۸۲

آیت نمبر ۹ ۸۳

نکات: ۸۳

پیغامات: ۸۴

نمونے: ۸۸

عدالت: ۸۹

مکتب انبیاء میں عدالت کی اہمیت ۹۱

۵

اعتقادی اور فطری عدالت کا زمینہ ۹۲

عدل کی وسعت: ۹۳

نمونے: ۹۵

آیت نمبر ۱۰ ۹۸

پیغامات: ۹۹

اخوت و برادری: ۱۰۰

برادری کے حقوق: ۱۰۴

بہترین بھائی: ۱۰۶

صلح و آشتی قرآن کی روشنی میں: ۱۰۶

صلح آشتی کی اہمیت: ۱۰۷

صلح و آشتی کے موانع: ۱۰۹

قرآن میں نزول رحمت کے چند عوامل: ۱۱۰

روایات میں نزول رحمت کے عوامل: ۱۱۱

آیت نمبر ۱۱ ۱۱۳

نکات: ۱۱۳

پیغامات: ۱۱۴

۶

دوسروں کا مذاق اڑانا اور استہزاء کرنا: ۱۱۶

مذاق اڑانے کی وجوہات: ۱۱۶

نا چاہتے ہوئے تحقیر کرنا: ۱۱۸

تمسخر اور مذاق اُڑانے کے مراتب: ۱۱۹

مذاق اڑانے کا انجام: ۱۱۹

یاد داشت: ۱۲۰

آیت نمبر ۱۲ ۱۲۲

نکات: ۱۲۲

پیغامات: ۱۲۴

سوء ظن کی اقسام: ۱۲۶

غیبت کسے کہتے ہیں؟ ۱۲۹

غیبت روایات کی روشنی میں: ۱۳۰

غیبت کا ازالہ: ۱۳۲

وہ مقامات جہاں غیبت کرنا جائز ہے: ۱۳۳

غیبت کے خطرات: ۱۳۴

غیبت کی اقسام: ۱۳۵

غیبت کے آثار: ۱۳۶

(الف) اخلاقی اور اجتماعی آثار۔ ۱۳۶

۷

(ب)أُخروی آثار۔ ۱۳۷

غیبت کی وجوہات: ۱۳۷

غیبت سننا: ۱۳۹

غیبت ترک کرنے کے طریقے: ۱۴۰

یاد آوری: ۱۴۰

آیت نمبر ۱۳ ۱۴۲

نکات: ۱۴۲

پیغامات: ۱۴۳

آیت نمبر ۱۵ ۱۴۴

نکات: ۱۴۴

پیغامات: ۱۴۵

اسلام اور ایمان میں فرق: ۱۴۶

۱۔ گہرائی کا فرق۔ ۱۴۶

۲۔ محرک میں فرق: ۱۴۶

۳-عمل میں فرق: ۱۴۶

۵۔ اجتماعی اور سیاسی مسائل میں فرق: ۱۴۷

۵۔ رتبے میں فرق: ۱۴۷

آیت نمبر ۱۵ ۱۴۸

۸

پیغامات: ۱۴۸

بخیل اور بزدل کا ایمان حقیقت پر مبنی نہیں ہوتا ہے۔ ۱۴۹

حقیقی مومن کی پہچان: ۱۴۹

ایمان میں استقامت و پائیداری: ۱۵۲

ایمان میں استقامت اور پائیداری کے عوامل: ۱۵۳

آیت نمبر ۱۶ ۱۵۴

نکات: ۱۵۴

پیغامات: ۱۵۵

آیت نمبر ۱۷ ۱۵۶

نکات: ۱۵۶

پیغامات: ۱۵۷

آیت نمبر ۱۸ ۱۵۸

پیغامات: ۱۵۸

۹

انتساب

میں اپنی اس ناچیز خدمت کو قرآن کے سب سے پہلے مفسر حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے پاک و پاکیزہ اہل بیت ٪ کی خدمت اقدس میںپیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں۔

نسیم حیدر زیدی

۱۰

مقدمہ

الحمد للّٰه ربّ العٰالمین و صلّی اللّٰه علی سیّدنا ونبیّنا محمّد و اهل بیته الطاهرین

ایک طرف نئی نسل کا قرآن کی طرف رحجان اور دوسری طرف قرآن کی تفسیر سے آگاہی کی ضرورت نے لوگوں کی بڑی تعداد کو تفسیر قرآن کے مطالعہ کی ترغیب دی ہے جیسا کہ مکمل قرآن کی تفسیر کو خریدنے کیلئے ایک اچھی خاصی رقم درکار ہوتی ہے اور پھر اس کے مطالعہ کے لیے بھی کافی حوصلہ چاہیے۔ بعض اکابرین نے قرآن کے کچھ حصوں کی الگ سے تفسیر کی ہے۔ میں نے بھی تفسیر نور (جو انشاء اللہ بارہ جلدوں میں پیش کی جائے گی) کے علاوہ قرآن سے لگاؤ رکھنے والے افراد کی دسترس کیلئے ضروری سمجھا کہ بعض سوروں کی الگ سے تفسیر پیش کی جائے تاکہ کم ازکم وہ افراد جو مکمل تفسیر کے مطالعہ سے محروم ہیں اس کے کچھ حصے کا ہی مطالعہ کرسکیں۔

لہٰذا اسی سلسلے میں تفسیر سورئہ یوسف ''یوسف قرآن'' کے نام سے جیبی سائز میں الگ سے چھپ چکی ہے اور اب سورئہ حجرات جو اس سلسلے کی دوسری کڑی ہے لوگوں کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔

اس توفیق الٰہی پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں، اور اپنے مددگار حجج الاسلام، جناب کلباسی و جناب مشیری اور جناب جعفری۔ صاحبان کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے اس تفسیر کی تخلیق میں کافی وقت صرف کیا۔

۱۱

جیسا کہ زمین کا جو حصہ بھی روشن و عیاں ہے وہ سورج کے طفیل ہے اور وہ جگہ جو تاریک ہے خود زمین کی وجہ سے ہے، بالکل اسی طرح میری اس کتاب میںجہاں بھی روشنی ہے وہ قرآن ، انبیاء ، اوصیاء ، شہداء اور علماء کی ہدایت و رہنمائی کے طفیل ہے اور جہاں ابہام، تاریکی، نقائص اور کمی بیشی ہے اُسے میری فکر کا نتیجہ سمجھئے گا۔

آخر میںاللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں خدایا! قرآن کو ہماری فکر، بیان، عمل، قلب، قبر، قیامت، سیاست، اقتصاد، اجتماع، نسل، عزت و ناموس اور تاریخ کا نور قرار دے۔

''محسن قرآئتی''

۱۲

عرض مترجم

سورہ حجرات کا موضوع مسلمانوں کو ان آداب کی تعلیم دیتا ہے جو صاحبان ایمان کی شایان شان ہیں ۔ابتدائی پانچ آیتوں میں ان کو وہ ادب سکھایاگیا ہے جو انھیں اللہ تعالی اور ان کے رسول کے سلسلے میں ملحوظ رکھنا چاہیے ۔ پھر یہ ھدایت دی گئی ہے کہ ہر خبر پر یقین کر لینا ارع اس پر کوئی کاروائی کر گذرنا مناسب نہیں ہے اگر کسی شخص یا گروہ یا قوم کے خلاف کوئی اطلاع ملے تو غور سے دیکھنا چاہیے کہ خبر ملنے کا ذریعہ قابل اعتماد ہے یا نہیں ،قابل اعتماد نہ ہو تو اس پر کاروائی کرنے سے پہلے تحقیق کر لینی چاہیے کہ خبر صحیح ہے یا نہیں۔

پھر مسلمانوں کو ان برائیوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جو اجتماعی زندگی میں فساد برپا کرتی ہے اورجنکی وجہ سے آپس کے تعلقات خراب ہوتے ہیں۔اس کے بعد ان قومی اور نسلی امتیازات پر ضرب لگائی گئی ہے جو دنیا میں عالم گیر فسادات کے موجب بنتے ہیں ۔آخر میں لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اصل چیز ایمان کا زبانی دعوی نہیں بلکہ سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول کو ماننا ،عملاً فرمانبردار اور مطیع بن کر رہنا اور خلوص کے ساتھ اللہ کی راہ میں اپنی جان ومال کی قربانی پیش کردینا ہے ۔

یوں تو قرآن کی تفسیر کے سلسلے میں انتہائی قابل قدر کام ہوا اور مسلسل ہو رہا ہے لیکن دور حاضر میں ایران کے مشہور عالم دین اور مفسر قرآن آیت اللہ الحاج شیخ محسن

۱۳

قرائتی (دام برکاتہ) کا اندازاپنی مثال آپ ہے جنھوں نے اس سورہ کی تفسیر انتہائی سادہ، شیرین اور دلکش انداز میں کی ہے۔جسکی اہمیت وضرورت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اردودان حضرات کے لئے حقیر نے اسے ادارہ التنزیل ،، کی فرمائش پراردو کے قالب میں ڈالنے کا کام انجام دیا،قارئین سے امید ہے کہ وہ اپنی مفید آراء اور نظریات سے مطلع فرمائیں گے۔آخر میں ،میں ان تمام حضرات کا شکر گزار ہوںجنھوں نے اس کتاب کی نشرواشاعت میں کسی بھی قسم کا تعاون فرمایا ۔امید ہے کہ خدااس ناچیز کوشش کو اپنی بارگاہ میں مقبول ومنظور فرمائے۔آمین یا رب العالمین

سید نسیم حیدر زیدی

قم المقدسہ

۱۴

سورئہ حجرات کا مختصر تعارف

یہ سورہ مدینہ میں نازل ہوا، اس کی اٹھارہ آیات ہیں(۱) ۔ اور سورئہ ''حجرات'' یا سورہ ''آداب و اخلاق'' کے نام سے مشہور ہے۔

حجرات ''حجرة''(۲) کی جمع ہے اِس سورہ میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حجرات کا ذکر ہونے کی وجہ سے اِسے ''سورئہ حجرات'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ (جو انتہائی سادہ مٹی اور کھجور کی لکڑی اور شاخوں سے بنے ہوتے تھے)

قرآن مجید کی تین سورتیں (مائدہ، حجرات، ممتحنة) ایسی ہیں جو حکومتی اور اجتماعی مسائل پر مشتمل ہیں۔ ان تینوں سورتوں کا آغاز''یَا ایُّهَا الَّذِیْنَ أَمَنُوا'' کے جملہ سے ہوتا ہے۔(۳)

اس سورئہ میں''یَا ایُّهَا الَّذِیْنَ أَمَنُوا'' کے جملے کی تکرار ایک صحیح اسلامی معاشرے کی آئینہ دار ہے۔

٭اس سورئہ میں کچھ ایسے مسائل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو کسی دوسرے سورئہ میں بیان نہیں کیے گئے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ جبکہبسم الله… سمیت اس کی آیات ۱۹ ہیں (۲)۔کمرہ (۳)۔ سورئہ مائدہ کا آغاز اس طرح ہوتا ہے(یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا َوْفُوا بِالْعُقُودِط) (اے ایمان والو اپنے اقراروں کو پورا کرو۔ سورئہ ممتحنہ کا آغاز اس طرح ہوتا( یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَتَّخِذُوا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ َوْلِیَائَ) (اے ایماندارو اگر تم جہاد کرنے میری راہ میں اور میری خوشنودی کی تمنا میں (گھر سے) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بنائو) اور اس سورئہ میں پڑھتے ہیں کہ اے ایمان والو، اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو۔

۱۵

(۱)۔ اس سورئہ میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سبقت اور پیش قدمی کی ممانعت، ان سے گفتگو کرنے کا سلیقہ، بتایا گیا ہے اور بے ادب افراد کی سرزنش کی گئی ہے۔

(۲)۔ تمسخر، برے نام رکھنا، سوئے ظن، تجسس اور غیبت جیسے برائیاں جو اسلامی معاشرے کے لیے حرام ہیں اِس سورئہ میں اُن سے روکا گیا ہے۔

(۳)۔ اخوت و برادری، صلح و آشتی ظلم کے خلاف اتحاد، عدل و انصاف، مشکوک افراد سے ملنے والی خبر کی تحقیق نیز فضیلت و برتری کے ایسے معیار کے تعین کا حکم دیا گیا ہے جو ایک اسلامی معاشرہ کے لیے ضروری ہے۔

(۵)۔ اسلامی معاشرہ میں مسلمانوں سے مومنوں کے درجات مشخص کرنے کا معیار، تقویٰ اور پرہیز گاری کو قرار دیا گیا ہے۔ ایمان سے محبت اور کفر وفسق و فجور سے نفرت و بیزاری کا اعلان کرتے ہوئے عدل و انصاف کو اسلامی معاشرہ کا محور قرار دیا گیا ہے۔

(۵)۔ اس سورئہ میں اسلامی معاشرہ کو اللہ تعالیٰ کا احسان کہا گیا ہے جو ایک ایسے رسول کا عاشق ہے جس کے وسیلہ سے اس کی ہدایت ہوئی ہے۔ اور یہ معاشرہ ہرگز اپنے ایمان کو اللہ اور اس کے رسول پر احسان نہیں سمجھتا ہے۔

(۶)۔ اس سورئہ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اسلامی معاشرے کے تمام افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اتباع کریں اور ہرگز اس بات کی توقع نہ رکھیں کہ رسول ان کے تابع ہو۔

۱۶

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ o

شروع کرتا ہوں ، اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

نکات:

یہ سورئہ بھی دوسرے تمام سورؤں کی طرح اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع ہوا ہے اس لیے کہ حدیث میں ہے: ''جو کام بھی اللہ تعالیٰ کے نام کے بغیر شروع کیا جائے وہ ناتمام رہ جاتا ہے۔

بلاشک انسان ہر کام کے آغاز میں رحمت الٰہی کا محتاج ہے اور یہ احتیاج'' بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم'' کے جملہ سے برطرف ہوجاتی ہے۔

ہر کام کی ابتداء میں'' بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم'' کہنا اللہ تعالیٰ پر ایمان، اس سے محبت، اس کی یاد اس پر توکل نیز اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آپ ہر کام کو اس کی رِضا کے مطابق انجام دینا چاہتے ہیں۔

۱۷

آیت نمبر ۱

یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ اﷲِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اﷲَ ِنَّ اﷲَ سَمِیع عَلِیم-

ترجمہ:

اے ایمان والو اللہ اور اُس کے رسول سے آگے نہ بڑھو۔ اور اللہ سے ڈرو۔بیشک اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔

نکات:

O یہ آیت بہت سی خطاؤں اور لغزشوں سے انسان کو بچالیتی ہے اس لیے کہ بعض اوقات انسان اکثریت سے متاثر ہو کر ان کی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے ظاہری اور مادّی مظاہر کا شکار ہوجاتا ہے۔ اپنی ناقص اندازہ گیری سے جدید اور نئی چیزوں کی طرف رغبت کرنے لگتا ہے ۔ جذباتی اور جلد بازی کے فیصلے،فکری آزادی، انسان کو بہت کچھ کہنے، لکھنے اور ایسے ارادے کرنے پر مجبور کردیتی ہے جس سے انسان نادانستہ طور پر اس بات سے بھی غافل ہوجاتا ہے کہ وہ خدا اور رسول کی بیان کی ہوئی حدود سے تجاوز کرچکا ہے جیسا کہ ایک گروہ کو عبادت گزاری کے خیال، اصولی اورانقلابی ہونے کے خیال نیز زاہد اور سادہ زیستی کے خیال نے خدا اور رسول سے بھی آگے بڑھنے پر آمادہ کردیا ہے۔

جیسا کہ کہاوت ہے ۔ مدعی سست گواہ چست۔

۱۸

O یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ انسان کو فرشتہ صفات ہونا چاہیے۔ اور فرشتوں کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے-( لا یسبقونه بالقول و هم بامره یعملون) (۱) وہ کلام خدا پر سبقت نہیں کرتے اور فقط اس کے امر کے مطابق عمل کرتے ہیں۔

O قرآن نے سبقت اور پیش قدمی کے موارد کو بیان نہیں کیا ہے تاکہ ہر قسم کی پیش قدمی کو روکا جاسکے چاہے اس کا تعلق عقائد، علم، سیاست، مالیات یا پھر گفتار اورکردار سے ہو۔

O بعض اصحاب نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مقطوع النسل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تاکہ اس سبب انہیں عورت کی ضرورت ہی پیش نہ آئے اور وہ ہر وقت اسلام کی خدمت کے لئے حاضر رہیں۔ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں اس برے کام سے سختی سے روک دیا۔

Oجو شخص خدا اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سبقت کرتا ہے وہ اسلام کے نظام میں خلل اور معاشرتی بد نظمی کا سبب ہے۔ گویا قانون اور نظام الٰہی کو کھیل تماشہ سمجھ کر اس میں اپنی مرضی چلانا چاہتا ہے۔

پیغامات:

۱۔ احکامات پر عمل درآمد کرنے کے لیے سب سے پہلے مخاطب کو نفسیاتی اور فکری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ انبیائ، آیت ۲۷

۱۹

طور پر آمادہ کیا جائے۔''یا ایُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا'' یہ جملہ مخاطب کی شخصیت کا اعتراف، اس کا اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کے عمل کی انجام دہی کا سبب ہے۔

۲۔ جس طرح اللہ اور اس کے رسول پر سبقت اور پیش قدمی کی ممانعت ایک ایسا حکم ہے جس میں مومنین کو مخاطب کے ساتھ پیش آنے کے آداب سکھائے ہیں اِسی طرح یہ آیت بھی اپنے مخاطبین کے ساتھ خطاب کے آداب کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے ''مخاطب ہے''۔''یا ایُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا…''

۳۔ ایسا ذوق و شوق عادات، رسم و رواج، اور بہت سے ایسے قوانین جنکی بنیاد نہ قرآن و سنت پر ہے اور نہ عقل و فطرت سے ان کا کوئی تعلق ہو تو یہ چیز بھی خدا اور رسول پر سبقت کرنے کے مترادف ہے۔''لا تقدموا-----''

۵۔ خدا کی حلال کردہ نعمتوں کو حرام اور حرام کو حلال کرنا بھی خدا اور رسول پر سبقت کرنا ہے۔''لا تقدموا---''

۵۔ ہر طرح کی بدعت، مبالغہ آرائی اور بے جا تعریف و تنقید بھی سبقت کرنا ہے''لا تقدموا---''

۶۔ ہمارے علم و عمل کا سر چشمہ قرآن اور سنت کو ہونا چاہیے۔

۷۔ خدا اور رسول پر سبقت کرنا تقویٰ سے دوری کی علامت ہے جیسا کہ اس آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ ''سبقت نہ کرو اور تقویٰ اختیار کرو۔

۸۔ ہر آزادی، وسعت طلبی اور ترقی اہمیت کی حامل نہیں ہوتی۔''لا تقدموا---''

۹۔ فریضے کی ادائیگی کے لیے ایمان اور تقویٰ کا ہونا ضروری ہے۔ (آیت میں

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

الف۔زہرا (سلام اللہ علیہا ) پر پابندی

ہر مسلمان باشعور کا عقیدہ ہے کہ خدا نے ہر انسان کو آزاد اور دوسرے کی پاپندی سے مبرا خلق کیا ہے لہٰذا اگر کو ئی شخص دوسرے شخص پر اپنی قدرت اور تسلط جمانے کی کوشش کر ے تو اس کو قرآن وسنت کی اصطلاح میںظالم کہا جا تا ہے اسی لئے ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ کا ئنات میں ذاتی طور پر مسلط ہو نے کا حق صرف ذات باری تعالی کو ہے لیکن بشرمیں سے انبیاء اور ان کے جانشین کو خدا نے بشر کی ہدایت اور راہ مستقیم کی طرف بلانے کی خاطر حکومت اور تسلط کا حق عطا کیا ہے پس کسی عام عادی انسان کا دوسرے پر پابندی لگا نا عقل اور فطرت کے منافی ہو نے کے علاوہ معاشرہ میں بھی اس کو ظالم کہا جا تا ہے ،لہٰذا حضرت زہرا پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کر نا عقل اور فطرت کی منافی ہو نے کے باوجود ظلم بھی سمجھا جا تا ہے لہٰذا ان پر عائد کی گئی پابند یاں پڑھنے والوں کی عدالت میں پیش کی جارہی ہیں جو درج ذیل ہیں :

۶۱

(۱) اقتصادی پابندی ۔

ہر جابر اور ظالم حکمران کی سیرت اب تک یہی رہی ہے کہ جب کسی ملک اور شہر پر اپنا قبضہ جمانا چاہتا ہے تو اس نے فورا اس ملک یا شہر کے مر کزی کر دار انجا م دینے والے سر ما یہ داروںپر قابض ہو نے کی کو شش کی ہے لہٰذا تاریخ گواہ ہے کہ بہت سے بے گناہ افراد کو جا بر اور ظالم حکمرانوں کے دور میں سرما یہ دار ہو نے کے جرم میں ہر طرح کی پابندی عائد کر کے ان کو حکومت سے بے دخل کیا گیا ہے تاکہ ان کی اقتصادی پا لیسیوں میں تر قی نہ ہواور اپنی حکومت اور تسلط کے لئے مانع نہ بن سکے جس بری سیرت میں ہر عام وخاص مبتلا رہے ہیں حتی حضرت پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ما ننے والے بھی آنحضرت کی سیرت طیبہ کو بالا ئے طاق رکھ کر ظالموں کی بری سیرت کو اسلام کے لباس میں اپنی کا میا بی کا ذریعہ قرار دیتے ہو ئے نظر آتے ہیں جس کی بہتر ین مثال وہ رفتار اور سلوک ہے جو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ کیا گیا ہے تب ہی تو حضرت زہرا کو اپنے حق سے محروم کر کے فدک جیسے عطیہ کو غصب کر کے ان پر اقتصادی پابندی لگائی تا کہ زہرا حکو مت اور اسلام سے بے دخل رہے۔

چنا نچہ اس حقیقت کو فریقین کے معروف مور خین نے ذکر کیا ہے اگر چہ بعض نے حقائق کو پس پردہ رکھ کر بیان کر نے کی کو شش کی ہے جس کی وجہ بھی صحابہ کرام کی طرف سے پا بندی بتائی جا تی ہے وگر نہ ایک دانشمند ،مورخ ہو نے کی حیثیت سے کمال اس کا یہ ہے کہ حقا ئق کو تحقیق کے ساتھ پیش کر ے اور حقا ئق کو برہان کے بغیر پیش کر نا تحقیقات کے منافی ہے لیکن فدک خود پیغمبر اکر م کے زمانے میں اصحاب کے مابین معروف تھا اس کا خلاصہ یہ ہے

۶۲

کہ مدینہ منورہ کے نزدیک ایک سو چالیس کلو میڑکے فا صلے پر ایک علاقہ فدک کے نام سے تھا جو قدرتی طور پر سر سبز ہو نے کے باوجود کھیتی باڑی اور دیگر منا فع کے لئے بہت ہی مناسب ہو نے کے علاوہ قدرتی چشمے سے ما لا مال تھا جو دور حاضر میں سعودی عرب میں حائط یا حویط کے نام سے مشہور ہے کہ وہ جگہ یہودیوں کے ہاتھ میں تھی جب اس علاقہ کے مالکوں نے اسلام کی طاقت اور پیشرفتگی کو جنگ خیبر میں مشاہدہ کیا تو ایک شخص حضرت پیغمبر کی خدمت میں روانہ کیاگیا اور آپ سے صلح کی پیشکش کی حضرت پیغمبر نے بھی ان کی پیشکش کو قبول فرمایا اس مطلب کو جناب یحییٰ ابن آدم نے بیان فرما یا ہے(۱)

لیکن پیغمبر اکرم کو یہودیوں نے صلح کر کے پور افدک دیا تھا یا اس کا آدھا اس میں علماء کے مابین اختلاف پایا جا تا ہے جناب واقدی اور بلازری نے فرمایا کہ یہودیوں نے پیغمبر اکرم کو فدک کا آدھا حصہ دیا تھا(۲)

لیکن دوسرے کچھ محققین کا نظر یہ یہ ہے کہ یہودیوں نے پیغمبر اکرم کو پورا فدک دیا ہے اس پر متعدد براہین اور شواہد بھی ذکر کئے ہیں لیکن پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فدک کو یہودیوں سے لینے کے بعد اپنی زندگی ہی میں حضرت زہرا کو عطیہ کیا تھا کیو نکہ تمام مذاہب کا اجماع ہے اگر کو ئی چیز جنگ کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ میں

____________________

(۱) خراج یحیی ابن قریشی

(۲) المغازی جلد ۲، فتوح البلدان، سیرت ابن ہشا م جلد ۲

۶۳

آجا ئے وہ پیغمبر اکر م کا حصہ ہے اسی لئے پیغمبر کی وفات تک کسی صحا بی یا کسی دوسرے شخص کو حضرت علی اور حضرت زہرا کی اجازت کے بغیر فدک کے در آمد ات میں کسی قسم کے تصرف کی جرأت نہ تھی اور ہمارے برادر اہل سنت سے تعلق رکھنے والے اکثر مفسرین نے اس طرح لکھا ہے کہ حضر ت پیغمبر نے فدک حضرت زہرا کو اس وقت عطیہ کیا جب یہ آیة شریفہ نازل ہو ئی :

( وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ ) (۱)

اے پیغمبر اکرم قریبی رشتہ داروں کو ان کا حق عطا کردیجئے۔

پس اس تفسیر اور آیت کے شان نزول کے مطابق یہ کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے خدا کے حکم سے حضرت زہرا کو فدک دیا تھا نہ ان کو ارث میں ملا تھا لہٰذا پیغمبر اکرم کی وفات کے بعد ان سے چھیننا حقیقت میں صحا بہ کرام کی طرف سے حضرت زہرا پر اقتصا دی پا بندی تھی تا کہ حضرت زہرا سخاوت کے ذریعے بنی سقیفہ کے ما جراء کو بے نقاب نہ کر سکیں اور اپنی حقانیت ثابت کر نے میں نا کام رہیں۔

جناب ابن ابی الحدید نے اس طرح لکھا ہے کہ صحابہ کرام نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

____________________

(۱)سورہ اسرا آیت ۲۶.

۶۴

کی وفات کے دس دن بعد حضرت زہرا کو فدک پر اعتراض کر تے ہو ئے خلیفہ وقت کی خد مت میں حا ضر کیا(۱)

اس مسئلہ کی شکایت کوحضرت علی علیہ السلام نے اس طرح بیان فرمایا ہے :

بلی کا نت فی اید ینا فدک من کل ما اظلته السماء فشحّت علیها نفوس قوم وسخت عنها نفوس قوم اخرین ونعیم الحکم الله (۲)

ہاں :آسمان تلے مو جود مال دنیا میں سے صرف فدک ''ہمارے ہاتھ میں تھا جسے ایک گروہ کے طمع ولالچ نے (غاصبانہ طور پر ) ہڑپ لیا جب کہ دوسرے گر وہ (ہم اہلبیت )نے سخا وتمند انہ طریقہ پر اس سے چشم پوشی کی اور اللہ تعالی بہترین فیصلہ کر نے والاہے ۔

اور تاریخ گو اہ ہے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا فدک کی در آمدات کو راہ خدا میں خدا کی رضایت حاصل کر نے میںخرچ کر تی تھیں یعنی یتیمو ں اور فقراء و مساکین کے ما بین خرچ کر کے اپنی روز مرہ زندگی کے لوازمات کے لئے بہت ہی کم مقدار رکھا کر تی تھیں لہٰذا گزشتہ مباحث کا خلاصہ یہ ہوا :

____________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۱۶.

(۲)نہج البلاغہ نامہ ۴۵.

۶۵

۱۔ فدک پیغمبر کی ملکیت تھی جنگی غنائم میں شامل نہ تھا کیو نکہ یہ جنگ کے بغیر صلح کے نتیجہ میں حاصل ہوا تھا۔

۲۔ اہل سنت کی تفسیر کے مطا بق پیغمبر اکر م نے اپنی زندگی میں فدک حضرت زہرا کو دیا تھا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت زہرا فدک کو اپنا حق سمجھنے میں حق بجانب تھی۔

۳۔پیغمبر اکرم کی وفات کے بعد فدک کو حضر ت زہرا سے چھیننا حقیقت میں حضرت زہرا پر اقتصادی پابندی تھی تا کہ حضرت زہرا کو اسلام اور حق سے بے دخل کر سکیں۔

۴۔ آپ فدک کے در آمد ات کو تین حصوں میں تقسیم کیا کر تی تھی لیکن پیغمبر اکر م کے ماننے والوں نے حضرت زہرا کے ساتھ ایسا سلوک کیا جو آج کل ہمارے زمانے میں اسرائیلی فلسطینیوں کے ساتھ کر رہے ہیں یعنی پہلے مسلما نوں کے اموال پر قابض ہو گئے پھر مسلمانوں سے ہی اپنی حقا نیت پر گواہی ما نگنے لگے لہٰذا آج ہم دنیا کے کسی حصے میں ذلت وخواری کے شکار ہو تے ہو ئے نظر آتے ہیں تو یہ حقیقت میں بی بی دو عالم پر ڈھائے گئے مظالم کا نتیجہ ہے اگر ہم پیغمبر کی وفات کے بعد با بصیرت ہستیوں کا دامن تھام لیتے تو آج امریکا اور اسرائیل کی مانند حکمران کو ہم پر تعدی کی جرأت اور طاقت نہ ہو تی ۔

۶۶

۲۔ سیاسی پابندی

دوسری پابندی یہ تھی کہ جو اقتصادی پا بندی سے پہلے پیغمبر کی وفات پا تے ہی تجھیز وتکفین سے قبل مسلمانوں کے ہا تھوں بنی سقیفہ کی شکل میں عائد ہو ئی کہ یہ پابندی اقتصادی پا بندی سے کئی گنا حضرت زہرا پر سخت گزری کیونکہ حضرت پیغمبر اکرم حجتہ الوداع سے فارغ ہو نے کے بعد جب غدیر خم میں پہنچے تو :

( یا اَیٌّها الرَّسُولَ بَلِّغْ ما اُنْزِلَ اِلیکَ مِنْ رَبِّکِ وَ اِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّه یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ )

پر عمل کر تے ہو ئے لاکھوں حجاج کے مجمع میں جانشین مقرر فرما یا اور صحابہ کرام بھی اس واقعہ سے غافل نہ تھے لہٰذا غدیر کا واقعہ آج فریقین کی کتابوں میں بخوبی روشن ہے اس کے باوجود حضرت پیغمبر اکر م کی روح پر واز کر تے ہی ان کی تجہیز وتد فین سے پہلے جا نشین کے تقرر کے لئے سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہو نا حقیقت میں حضرت زہرا اور اہل بیت رسول پر سیاسی پانبدی تھی تاکہ حضرت زہرا اور خاندان اہل بیت علیہم السلام کو اسلام اور حکومت اسلامی سے بے دخل کر سکیں اور یہ فرصت کی تلاش میں رہنے والے حضرات اور بعض صحابہ کرام کے لئے بہترین مو قع تھا کہ جس وقت حضرت زہرا اور اہل بیت پیغمبر ،پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصیبت میں صاحب عزا تھے اس وقت ان کی تجہیز وتکفین سے پہلے خلا فت جیسے عظیم منصب کے ساتھ آراء اور ووٹوں کے ذریعے کھیل کھیلاجا ئے

۶۷

اگر چہ ایسے عزائم میں پیغمبر اکر م کی رحلت سے پہلے بھی مشرکین اور کچھ مسلمان مر تکب ہو ئے تھے لیکن خدا کی مشیت اسی میں تھی کہ پیغمبر اکرم کی کا میابی اور ان برے عزائم میں مبتلا ہونے والوں کی نا کا می اور بد نا می ہو لہٰذا وہ لوگ کبھی بھی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں عملی جا مہ پہنا نے میں کا میاب نہ ہو سکے جوں ہی پیغمبراکرم کی رحلت ہو ئی ایسے عزائم کو عملی جا مہ پہنا کر اپنے آپ کو پیغمبر کی جا نشین بنا نا شروع کیا اس فضاء اور حالات میں حضرت زہرا(س) اور حضرت علی نے ایسی سیرت اپنائی کہ جس سے خلافت چھیننے والے مسلما نوں کے حقائق کو قیا مت تک کے بشر کو بیان کر نے کے علاوہ ان کی نااہلی اور سیا ست میں بابصیرت نہ ہو نے کو عقلی اور نقلی براہین کی روشنی میں ثابت کیا جب کہ ان لو گوں نے اپنی حقا نیت اور خلافت کی صلاحیت کو کتاب وسنت اور عقلی برہان سے ہٹ کر بے بنیاد باتوں سے اثبات کر نے کی کو شش کی لہٰذا برسوں پیغمبر اکر م کے پیچھے نمازوں اور محافل اور دیگر سیا سی امو ر میں شریک ہو نے کے باو جود طرح طرح کے جھو ٹ سے متوسل ہو ئے تب ہی تو اجماع قیاس اور استحسان وغیرہ کو قرآن پر مقدم کیا اور مفضول کو افضل پر مقدم ہو نے کے قائل ہو گئے

۶۸

لہٰذاخلا فت کا ملاک اور معیار لو گوں کی نظر اور انتخابات کو سمجھا اور امت کو خطا کر نے سے معصوم قرار دیا جب کہ انبیاء علیہم السلام کی عصمت کے قائل نہیں ہیں پس جناب ابو بکر حضرت پیغمبر کے جا نشین ہے جب کہ حضرت علی پیغمبر اکر م کو تجہیز وتکفین دینے میں مصروف تھے اس وقت بنی سقیفہ کا یہ ماجرا حضرت علی تک پہنچا تو حضرت علی علیہ السلام نے ابن عباس سے سوال کیا بنی سقیفہ میں بلند ہو نے والی اللہ اکبر کی آواز کیا ہے ؟ ابن عباس نے کہا کہ بنی سقیفہ میں لو گوں نے عمر کی سر پر ستی میں ابو بکر کو پیغمبر اکرم کا جا نشین منتخب کیاہے حالانکہ منصب خلا فت سنبھا لنے کی صلاحیت کو کتاب وسنت اور عقل سے ہٹ کر ان کے مقابلے میں اجماع وقیاس اور ستحسان جیسی تعبیروں سے ثابت کر نا ضعیف الایمان ہو نے کی دلیل کے باوجود خاندان نبوت کے سا تھ کھلم کھلا دشمنی ہے وگر نہ غدیر خم میں صحا بہ کرام نے پیغمبر اکرم کے جا نشین منتخب ہو نے پر مبارک بادد ی تھی وہ جملات آج تک فریقین کی کتابوں میں بخ بخ یا علی کی شکل میں نظر آتے ہیں۔

نیزکئی بارجناب ابو بکر نے حضرت علی کے سامنے مجمع عام میں اقرار کیا کہ حضرت علی علیہ السلام کے ہو تے ہوئے میں اس منصب کے لائق نہیں یہ اعتراف بھی فریقین کی کتابوں میں مو جود ہے لہٰذا نہج البلا غہ میں حضرت علی کا ایک خطبہ شقشقیہ کے نام سے مشہور ہے اس خطبہ میں بنی سقیفہ کی کہانی اور شوریٰ کی تشکیل کی حقیقت اور خود کو باقی انسانوں سے مقا ئسیہ کر نے کے ہدف کو واضح الفاظ میں بیان فر مایا ہے محمود ابن لبید نے کہا حضرت پیغمبر اکر م کی رحلت کے بعد حضرت زہرا سلام اللہ علیہا شہدا احد کے قبور اور روضہ پیغمبر اکرم پر جا تی تھیںاور خدا سے شہدا کی علود رجات کی التجا ء کر نے کے بعد بابا کی جدائی اور امت محمدی کی طرف سے ڈھائے گئے مظالم پر گریہ کر تی تھیں

۶۹

جب ایک دن میں حضرت حمزہ (رض) کی زیارت کو گیا تو دیکھا کہ حضرت زہرا حضرت حمزہ کی قبر مطہر پر بہت ہی خضوع اور دلسوز ی کے ساتھ گر یہ کر نے میں مشغول تھیں میں حضرت زہرا کا گر یہ ختم ہو نے کا منتظر رہا جب ختم ہوا تو میں نے پوچھا اے زہرا آپ پوری کا ئنات کی عور توں کا سردار ہو نے کے باوجود اتنا گر یہ اور التجا ء کیوں کر تی ہو؟ جب کہ آپ کی حالات دیکھ کر ہمارا دل بھی ٹوٹ جا تا آپ نے فرمایا :

اے عمررونا ہی بہتر ہے کیو نکہ حضرت رسول اکر م کی رحلت اور جدائی کی وجہ سے میں دوبارہ رسول اکرم سے ملنے کی مشتاق ہوں۔

محمود ابن لبید نے لکھا ہے پھر میں نے کچھ دوسرے مو ضو عات کے بارے میں سوال کیا انہیں میں سے ایک یہ تھا کہ اے حضرت زہرا کیا پیغمبر اکرم نے اپنا جا نشین مقرر نہیں کیا تھا ؟ حضرت زہرا نے فرمایا بہت تعجب آور سوال ہے کیا تم نے یوم الغدیر کو بھلا دیا ؟ میں نے کہا اے رسول کی بیٹی وہ تو مجھے یاد ہے لیکن اس کے بارے میں آپ کی زبان سے سننے کا خواہش مند ہوں تو آپ نے فرمایا میں خدا کو گواہ قرار دیتی ہوں کہ پیغمبر اکر م نے فرمایا :

''علی خیر من احلفه فیکم وهو الا مام بعدی وسبطایٔ وتسعة من صلب الحسین الا ئمة'' (۱)

____________________

(۱) بحار جلد ۴۲، داستان.

۷۰

(ترجمہ) علی بہترین ہستی ہے کہ جس کو میں تمہارے در میان اپنا جا نشین مقررکیا کہ وہ میرے بعد اور ان کے دو فرزند ( حسن وحسین ) اور امام حسین کے صلب سے ان کے نوفرزند تمہارے امام ہیں اگر ان سے متمسک رہیں گے تو راہ ہدایت اور نجات پائیں گے اگر ان کی مخالفت کر یں گے، تو قیامت تک تمہارے درمیان فساد برپا ہو گا ۔

اسی طرح اور بھی روایات متواتر ہ فریقین کی کتابوں میں مو جود ہیں جو خا ندان اہلبیت دوسروں پر مقدم اور دوسروں سے افضل ہو نے کو بخو بی بیان کر تی ہیں لہٰذا عقلی اور نقلی دلیل ان کی افضلیت پر ہو نے کے باوجود پیغمبر اکرم کی تجہیز وتکفین کو چھوڑکر خلا فت کے بارے میں بنی سقیفہ میں جمع ہو نا حقیقت میںحضرت زہرا اور حضرت علی علیہ السلام اور دیگر خاندان رسول کو اسلام سے بے دخل کر نا مقصود تھا لیکن حضرت علی اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے ان کے پورے عزائم کو قیامت تک کے لئے بے نقاب کر دیا ۔اور مادی زندگی کے لالچ میں غرق ہو ئے افراد کی سیا ست کو بے بیصرت سیا ست قرار دئے ۔

۷۱

۳۔ خا ندانی شخصیت پر پا بندی

آپ پر کی ہوئی سختیوں میں سے سب سے پڑی سختی شخصیت کی پائمالی تھی کیو نکہ سارے اصحاب جا نتے تھے کہ کائنات میں سب سے افضل ہستی حضرت محمد ابن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر حضرت علی علیہ السلام اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہاتھے کہ جس کو نزول وحی کے دوران پیغمبر اکرم نے ہی متعدد آیات کے شان نزول کی شکل میں بیان کیا تھا اور متعدد محافل اور اجتماعات میں بھی ان کی افضلیت سے صحابہ کر ام کو اگا ہ فرما یا تھا کہ اہل بیت کو سفینہ نوح سے تشبیہ دے کر فرمایا جواہل بیت(علیہم السلام) کو ما نیں گے وہ قیامت کے دن نجات پا ئیں گے جو اہل بیت(علیہم السلام) کے مخالف ہوں گے وہ قیامت کے دن جنت سے محروم ہوں گے اور حضرت زہرا اہل بیت کے واضح ترین فرد ہے اس طرح:

'' من اذها فقد اذانی ان الله یغضب لغضبک ویر ضی لرضاک''

کے الفاظ میں بیان فرما یا تھا اور جہا ں کہیں آنحضرت سفر پر جا نے کا عزم فرماتے تھے تو حضرت زہرا سے زیادہ احترام کے ساتھ ملاقات کر تے جب حضرت زہرا آپ کی خدمت میں تشریف فرماتھی تو اس مو قع پر بھی آپ حضرت زہرا کی تعظیم کے لیے اٹھ کھڑے ہوجا تے تھے

۷۲

یہ تمام ان کی شخصیت اور عظمت پر واضح دلیل ہے جس سے صحابہ کرام بھی غافل نہ تھے لیکن جب پیغمبر اکرم نے دار دنیا سے داربقاء کی طرف ہجرت اور رحلت فرمائی تو صحا بہ کرام نے بہت ہی ہو شیاری کے ساتھ خلافت کا منصب چھین لیا اور بیعت کے بہا نے سے حضرت علی اور زہرا(س) کی شخصیت اور خاندان نبوت کی فضیلت کو پائمال کر نا شروع کر دیا لہٰذا مسلمانوں نے بنی سقیفہ کے ماجریٰ کے فورا بعد جناب عمر کی سر پرستی میں خاندان نبوت سے بیعت کر انے کی کو شش کی تاکہ لوگوں کو یہ بتا سکیں کہ ہماری نظر میں حضرت زہرا(س) او ر حضرت علی اور باقی لوگوں میں شخصیت کے حوالہ سے کوئی فرق نہیں ہے لہٰذا ہم نے ابو بکر کی بیعت کی ہے حضرت زہرا اورحضرت علی کو بھی ان کی بیعت کر نا چا ئیے یہی وجہ تھی کہ جس سے صحابہ کرام آگ اور زنجیر لے کر در زہرا پر دق الباب کر نے کی جرأت ہو ئی اور حضرت زہرا نے فرمایا تم کو ن ہو ؟

کہا میں عمر ہوں خلیفہ وقت کی طرف سے علی سے بیعت لینے کے لئے آیا ہوں دروازہ کھو لو وگر نہ دروازہ جلادوں گا ۔

۷۳

حضرت زہرا(س) نے فرمایا:

'' اے ابن الخطاب اتنی جرأت کہاں سے آئی کہ در زہرا پر حملہ کر کے علی سے بیعت لیں اتنے میں در حضرت زہرا پر حملہ کیا اور قنفذسے کہا حضرت زہرا کے دروازے کو آگ لگائو قنفذ نے آگ لگا دی اتنے میں حضرت زہرا کے درودیوار کے درمیان آنے کی وجہ سے آواز آنے لگی اے فضہ میری مدد کوآئو میرا محسن اور میرا پہلو شہیدکر دیا ہے یہ حالت صحا بہ کرام نے دیکھی لیکن خلافت کے نشہ میں حضرت زہرا کی اجا زت کے بغیر اندر داخل ہوئے اور حضرت علی کی گردن میں رسی باندھ کر خلیفہ وقت کی بیعت کے لئے لے جا نے کی کو شش کی یہ واقعہ فریقین کی کتابوں میں مو جود ہے لیکن سوال یہ ہے ایسی جرأت جو کتاب وسنت کے مخالف ہونے کے باوجود ایسے حملہ کا مقصد کیا تھا ؟

اگر ہم اس قضیہ کی تحلیل وتفسیر تعصب سے ہٹ کر کر یں تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت علی اور خاندان نبوت کو حکومت اسلامی سے بے دخل کر کے خا ندان نبوت کی فضیلت اور شخصیت کو جو کتاب وسنت میں واضح طور پر بیان ہوئی ہے ۔

اس کو لو گوں کے ذہنوں سے نکا لنا ان کا اہم ترین مقصد تھا اگر چہ ا پنے مقاصد میں سے کسی ایک پر بھی برہان اور دلیل نہ بھی ہو لہٰذا آئندہ اپنی حکو مت اور سر پر ستی کے استحکام کی خاطر خاندان نبوت کی شخصیت کو زیر پا ء قرا ر دیا اسی لئے تاریخ گواہ ہے کہ بنی امیہ کا دور شروع ہو تے ہی خا ندان نبوت کو ہر چیز سے محروم کر دیا حتی خلیفہ دئوم نے کہا:

۷۴

''حسبنا کتاب اللّٰہ '' لہٰذا احادیث نبوی کی ضروت نہیں ہے اگر کو ئی احادیث نبوی کی نشر اشاعت کی تواس کوسزا دی جائے گی اور بہت سارے راویوں کی زبان پر خاندان نبوت کی فضیلت اور منا قبت پر دلالت کرنے والی روایات جاری ہو نے پر ان کی زبانیں کا ٹی گئیں جب معاویہ کا دور شروع ہوا تو حضرت علی کی تلوار سے نصب کئے ہو ئے ممبروں سے حضرت علی کی شان میں نازیبا اور نا سزا الفاظ کو استعمال کر نا نماز جمعہ کے خطبوں میں مسلمانوں کی سیرت بن گئی ان تمام مطالب کا مقصد یہ تھا کہ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت زہراسلام اللہ علیہا کے ہاتھوں اسلام کی جو آبیاری ہوئی تھی اگر اسلام کی آبیاری پیغمبر اکر م کے بعد بھی ان کے ہا تھوں ہو جا تی تو معا شرے میں عدالت اور حکو مت اسلامی کی تقویت ہو تی لہٰذا ما دی مقاصد کے ساتھ زبان پر اسلام کا نعرہ بلند کر نے والوں کو لو گوں پر تسلط جما نے کا موقع نہیں ملتا اسی لئے پیغمبر اکر م کی رحلت کو غنیمت سمجھ کر حضرت علی اور حضرت زہرا کو اسلام سے بے دخل کر کے اپنے آپ کو رسول کا جا نشین منوا یا اور حکو مت اسلامی پر نا اہل قابض ہو گئے جس کا نتیجہ آج اکیسویں صدی میں مسلمان حضرات بہتر جا نتے ہیں کہ سب کا عقیدہ ہے اسلام تمام نظاموں سے بالاتر ہے اس کے باوجود اکیسویں صدی کی آبادی میں صر ف ایک ارب مسلمان بتائے جا تے ہیں جب کہ پانچ ارب آبادی اسلام کے مخالف نظر آتی ہے ۔

۷۵

چوتھی فصل:

حضرت زہرا کی سیرت

ہر انسان کی فطرت ہے کہ جب کسی دور میں کسی ہستی کی سیرت دنیوی اور اخروی زندگی کی کا میا بی اور سعا دت کے لئے مشعل راہ ہو تو اس کی سیرت پر چلنے کا خوا ہاں ہو تا ہے اسی لئیے شریعت اسلام میں عقلاء کی سیرت کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ اگر عقلاء کی سیرت کے اتصال کا سلسلہ زمان معصوم تک کشف ہو تو اس کو برہان قرار دیا ہے لہٰذا حضرت زہرا کی سیرت ہم سب کے لئے اس دور حا ضر میں بہتر ین نمونہ عمل ہے کیو نکہ حضرت زہرا کی سیرت سے ہٹ کر غور کر یں تو ہمارا زمانہ سوائے گمراہی اور زرق وبرق کے علاوہ کچھ نہیں ہے اگر چہ آپ کی سیرةطیبہ کی تشریح کر نا اس مختصر کتا بچہ کا مقصد نہیں تھا فقط نمونہ کے طور چند پہلو قابل ذکر ہے:

۷۶

الف۔ ازدواجی کا موں میں آپ کی سیرت

شاید کا ئنات میں انسان کے نام سے کوئی ہستی اذدواج اور شادی کے مخالف نہ ہو، لہٰذا آدم سے لے کر خاتم تک تمام ادیان الٰہی نے ازدو اجی زندگی کو انفرادی زندگی سے افضل قرار دیتے ہو ئے شادی کی ترغیب دی گئی ہے حتی پیغمبر اکرم کا دین جو باقی تمام ادیان الٰہی کا خلاصہ اور نچوڑ سمجھا جا تا ہے اس میں شادی اور ازدوا جی زندگی کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ فرما یا کہ جو ازدواج اور شادی کے مخالف ہے: '' فلیس منی'' لہٰذا ہمارے زمانے کے محققین میں سے کچھ نے شادی کے مسئلہ کو ایک امر طبعی دوسرے کچھ محققین اس کو امر فطری سمجھتے ہیں ۔

اگر چہ جناب افلاطون کے حالات زندگی کا مطالعہ کر نے سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ ازدواج اور شادی کو سلب آزادی کا سبب سمجھتا تھا تب ہی تو انہوں نے آخری عمر تک اسی نظر یہ کی بناء پر ازدواج کا اقدام نہیں کیا لیکن مو ت سے پہلے پھر بھی شادی کر کے دنیا سے رحلت کی اگرچہ کو ئی اولاد اور وارث ان سے وجود میں نہ آیا پس ازدواجی زندگی اور شادی کا مسئلہ ہر دور میں تھا اور قیامت تک رہے گا اگرچہ شادی کی کیفیت اور کمیت کے حوالہ سے ہر انسان کی طبیعت میں تفاوت ہی کیوں نہ ہو، لیکن ہم مسلمان ہو نے کی حیثیت سے ازدواج اور شادی جیسے اہم مسئلہ میںحضرت زہرا سلام اللہ علیہا جیسی ہستی کی سیرت کو نمونہ عمل قرار دینا چا ہئے تاکہ بہت سارے مفاسد اور اخروی عقاب سے نجات مل سکے آپ کی شادی کے بارے میں دو نظریہ مشہورہیں : ۱)روز پنجشنبہ سوم ہجری اکیسویں محرم کی رات کو ہوئی۔(۱)

____________________

(۱) بحارالا نوار جلد ۴۳ ص۹۳

۷۷

۲)آپ کی شادی جناب محدث قمی اور شیخ طوسی و شیخ مفید کے نقل کے مطابق یکم ذالحجہ چھ ہجری کو ہوئی۔(۱)

آپ کی شب زفاف کو جبرائیل دائیں طرف میکا ئیل بائیں طرف سترہزار فرشتے لے کر صبح تک تقدیس وتسبیح میں رہے(۲)

جعفر ابن نعیم نے احمد ابن ادر یس سے وہ ابن ہاشم سے وہ علی ابن سعید سے وہ حسین ابن خالد سے وہ جناب امام رضا علیہ اسلام سے روایت کی ہے:

قال علی قال لی رسول الله ۔۔۔(۳)

تر جمہ )حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا مجھ سے پیغمبر اکر م نے فرمایا اے علی قر یش کے مردوں نے زہرا سے خواستگار ی کر کے مجھے تھکا دیا اور مجھ سے کہنے لگے کہ آپ زہرا کی شادی ہم میں سے کسی سے نہیں کر نا چاہتے بلکہ علی سے ان کی شادی کر نے کے خواہشمند ہیں میں نے ان سے کہا خدا کی قسم میں نے منع نہیں کیا ہے بلکہ خدا نے منع کیا ہے اور خدا نے ہی زہرا کی شادی علی سے کر ائی ہے اور جبرائیل نازل ہو کر کہا اے حضرت محمد خدا نے فرمایا ہے اگر میں علی کو خلق نہ کر تا تو تیری بیٹی فاطمہ کو روئے زمین پر کوئی شریک حیات نہیں ملتا ۔

____________________

(۱)مفاتیح الجنان

(۲) بحارالا نوار جلد ۴۳ ص۹۳.

(۳) بحارالا نوار جلد ۴۳ ص۹۳.

۷۸

اگر چہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ شادی کر نے کی خاطر خواستگار ی کے پروگرام میں بہت سارے صحابہ شریک ہو کر خیالی پلائو کھا یا تھا لیکن خدا نے ہی ان کے خام خیالی کو خاک میں ملادیا اور بارہا پیغمبر اکر م نے حضرت زہرا سے خواستگار ی کر نے والے صحابہ سے فرمایا حضرت زہرا کی شادی کا مسئلہ خدا کے ہاتھ میں ہے پھر بھی اکثر او قات پیغمبر اکرم صحابہ کرام کی تکرار کے مطابق حضرت زہرا( س) سے پوچھا کر تے تھے کیا آپ فلاں صحابی کے ساتھ اذدواج کر نے پر راضی ہیں ؟

لیکن حقیقت میں پیغمبر اکر م کا اس طرح زہرا(س) سے سوال کر نا ان کی سیاست تھی کیو نکہ اگر پیغمبر قبل ازوقت حقیقت اور واقعیت کو بیان فرما تے تو مزید دشمنی اور عداوت کا باعث تھا لہٰذا پیغمبر اکرم ظاہری طور پرحضرت زہرا(س)سے پوچھتے تھے اور حضرت زہرا(س) اظہار نارضایتی فرما ئی تھی۔

ان مختصر روایات سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ اگر کسی کی بیٹی کے لئے کو ئی دولت مند نام نہاد رشتہ آئے تو فوراً اس کی شہرت اور دولت کی وجہ سے قبول نہ کیجئے بلکہ بیٹی کے لئے ایک ایماندار اور امین شوہر کا انتخاب کر نا والدین کی ذمہ داری ہے کیو نکہ پیغمبر اکرم نے اتنے اصحاب جو دولت اور شہرت کے حوالے سے کسی سے پوشیدہ نہیں تھے جب حضرت زہرا (س) سے رشتہ کے طالب ہوئے تو کسی کو قبول نہیں فرمایا اسی لئے جب اصحاب حضرت زہرا(س) سے خواستگاری کر نے کے بعد نا امید ہو گئے تو وہی اصحاب حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں کہنے لگے اے علی پیغمبر اکر م اپنی بیٹی کی شادی آپ سے کر نا چا ہتے ہیں

۷۹

آپ پیشکش کیجئے اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو ہم خود بندوست کریں گے حضرت علی نے ان کے مشور ہ کو قبول فرمایا اور پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پیغمبر بھی ایسی ہستی کی پیشکش کے منتظر تھے اسی لئے جب حضرت علی نے خواہش کا اظہار فرمایا تو آنحضرت کا چہرہ منور اور خوشی سے چمک اٹھا اور فرما یا اے علی انتظار کیجئے میں فاطمہ سے اجازت لے لوں پیغمبر اسلام جناب سیدہ کی خدمت میں پہنچے اور فرمایا :

''اے زہرا آپ حضرت علی کی حالت سے واقف ہیں وہ آپ کی خوستگاری کو آئے ہیں کیاآپ ان سے شادی کر نے پر راضی ہیں ؟ جناب سیدہ شرم کی وجہ سے خاموش رہیں اور کچھ نہ بولیں آنحضرت ان کی خاموشی کو رضایت کی علامت قرار دیتے ہوئے حضرت علی کی خدمت میں آئے اور مسکر اتے ہو ئے فرمایا ، اے علی شادی کے لیے آپ کے پاس کیا چیز ہے ؟

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :اے خدا کے حبیب میرے ما ںباپ آپ پر قربان ہو جا ئیں آپ میری حالت سے بہتر آگاہ ہیں میری پوری دولت ایک تلوار ،ایک ذرہ اور ایک اونٹ ہے(۱)

____________________

(۱)بحارجلد ۴۳ ص۱۳۳.

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160