آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)37%

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات) مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 160

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 160 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 127989 / ڈاؤنلوڈ: 5247
سائز سائز سائز
آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

آداب واخلاق

(تفسیر سورہ حجرات)

مُفَسِّر

آیت اللّٰہ محسن قرائتی(دام برکاتہ)

ترجمہ

سید نسیم حیدر زیدی

۱

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم

۲

فہرست

انتساب ۱۰

مقدمہ ۱۱

عرض مترجم ۱۳

سورئہ حجرات کا مختصر تعارف ۱۵

نکات: ۱۷

آیت نمبر ۱ ۱۸

نکات: ۱۸

پیغامات: ۱۹

رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سبقت اور پیش قدمی کی چند مثالیں: ۲۱

رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پیچھے رہ جانے اور مخالفت کی چند مثالیں: ۲۴

تقویٰ اور پرہیز گاری کے بارے میں ایک بحث: ۲۶

تقویٰ میں مؤثر عوامل: ۲۷

کیا تقویٰ محدودیت ہے؟ ۲۸

بدحجابی یا بے حجابی مندرجہ ذیل مسائل کو ایجاد کرتی ہے۔ ۲۹

آیت نمبر ۲ ۳۱

نکات: ۳۱

پیغامات: ۳۴

۳

مقام نبوت ہمارے لیے مسئولیت آور ہے۔ ۳۴

نمونے: ۳۵

اسلامی مقدسات: ۳۶

مقدسات: ۳۷

اولیاء الٰہی کا احترام: ۴۱

اعمال کا حبط اور ضایع ہونا: ۴۳

حبط اعمال روایات کی روشنی میں: ۴۴

آیت نمبر ۳ ۴۹

نکات: ۴۹

پیغامات: ۵۰

گفتگو کے آداب: ۵۱

عمل کے چند نمونے: ۵۳

اجر خداوندی کا امتیاز: ۵۴

آیت نمبر ۵اور ۵ ۵۶

نکات: ۵۶

پیغامات: ۵۷

آیت نمبر ۶ ۶۰

نکات: ۶۰

پیغامات: ۶۱

۴

فسق کیا ہے اور فاسق کون ہے؟ ۶۳

فاسق سے رابطہ رکھنا: ۶۶

''تحقیق'' معاشرتی بیماریوں کا علاج: ۶۶

ایک ناگوار اورتلخ واقعہ: ۶۷

دِقَّت اور احتیاط سے کام کرنا ۶۸

اسلا م میں خبر کی اہمیت ۶۹

تحقیق کا طریقہ کار ۷۱

جھوٹ: ۷۴

آیت نمبر ۷ اور ۸ ۷۶

نکات: ۷۶

پیغامات: ۷۹

ایمان اور علم کا تعلق: ۸۲

آیت نمبر ۹ ۸۳

نکات: ۸۳

پیغامات: ۸۴

نمونے: ۸۸

عدالت: ۸۹

مکتب انبیاء میں عدالت کی اہمیت ۹۱

۵

اعتقادی اور فطری عدالت کا زمینہ ۹۲

عدل کی وسعت: ۹۳

نمونے: ۹۵

آیت نمبر ۱۰ ۹۸

پیغامات: ۹۹

اخوت و برادری: ۱۰۰

برادری کے حقوق: ۱۰۴

بہترین بھائی: ۱۰۶

صلح و آشتی قرآن کی روشنی میں: ۱۰۶

صلح آشتی کی اہمیت: ۱۰۷

صلح و آشتی کے موانع: ۱۰۹

قرآن میں نزول رحمت کے چند عوامل: ۱۱۰

روایات میں نزول رحمت کے عوامل: ۱۱۱

آیت نمبر ۱۱ ۱۱۳

نکات: ۱۱۳

پیغامات: ۱۱۴

۶

دوسروں کا مذاق اڑانا اور استہزاء کرنا: ۱۱۶

مذاق اڑانے کی وجوہات: ۱۱۶

نا چاہتے ہوئے تحقیر کرنا: ۱۱۸

تمسخر اور مذاق اُڑانے کے مراتب: ۱۱۹

مذاق اڑانے کا انجام: ۱۱۹

یاد داشت: ۱۲۰

آیت نمبر ۱۲ ۱۲۲

نکات: ۱۲۲

پیغامات: ۱۲۴

سوء ظن کی اقسام: ۱۲۶

غیبت کسے کہتے ہیں؟ ۱۲۹

غیبت روایات کی روشنی میں: ۱۳۰

غیبت کا ازالہ: ۱۳۲

وہ مقامات جہاں غیبت کرنا جائز ہے: ۱۳۳

غیبت کے خطرات: ۱۳۴

غیبت کی اقسام: ۱۳۵

غیبت کے آثار: ۱۳۶

(الف) اخلاقی اور اجتماعی آثار۔ ۱۳۶

۷

(ب)أُخروی آثار۔ ۱۳۷

غیبت کی وجوہات: ۱۳۷

غیبت سننا: ۱۳۹

غیبت ترک کرنے کے طریقے: ۱۴۰

یاد آوری: ۱۴۰

آیت نمبر ۱۳ ۱۴۲

نکات: ۱۴۲

پیغامات: ۱۴۳

آیت نمبر ۱۵ ۱۴۴

نکات: ۱۴۴

پیغامات: ۱۴۵

اسلام اور ایمان میں فرق: ۱۴۶

۱۔ گہرائی کا فرق۔ ۱۴۶

۲۔ محرک میں فرق: ۱۴۶

۳-عمل میں فرق: ۱۴۶

۵۔ اجتماعی اور سیاسی مسائل میں فرق: ۱۴۷

۵۔ رتبے میں فرق: ۱۴۷

آیت نمبر ۱۵ ۱۴۸

۸

پیغامات: ۱۴۸

بخیل اور بزدل کا ایمان حقیقت پر مبنی نہیں ہوتا ہے۔ ۱۴۹

حقیقی مومن کی پہچان: ۱۴۹

ایمان میں استقامت و پائیداری: ۱۵۲

ایمان میں استقامت اور پائیداری کے عوامل: ۱۵۳

آیت نمبر ۱۶ ۱۵۴

نکات: ۱۵۴

پیغامات: ۱۵۵

آیت نمبر ۱۷ ۱۵۶

نکات: ۱۵۶

پیغامات: ۱۵۷

آیت نمبر ۱۸ ۱۵۸

پیغامات: ۱۵۸

۹

انتساب

میں اپنی اس ناچیز خدمت کو قرآن کے سب سے پہلے مفسر حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے پاک و پاکیزہ اہل بیت ٪ کی خدمت اقدس میںپیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں۔

نسیم حیدر زیدی

۱۰

مقدمہ

الحمد للّٰه ربّ العٰالمین و صلّی اللّٰه علی سیّدنا ونبیّنا محمّد و اهل بیته الطاهرین

ایک طرف نئی نسل کا قرآن کی طرف رحجان اور دوسری طرف قرآن کی تفسیر سے آگاہی کی ضرورت نے لوگوں کی بڑی تعداد کو تفسیر قرآن کے مطالعہ کی ترغیب دی ہے جیسا کہ مکمل قرآن کی تفسیر کو خریدنے کیلئے ایک اچھی خاصی رقم درکار ہوتی ہے اور پھر اس کے مطالعہ کے لیے بھی کافی حوصلہ چاہیے۔ بعض اکابرین نے قرآن کے کچھ حصوں کی الگ سے تفسیر کی ہے۔ میں نے بھی تفسیر نور (جو انشاء اللہ بارہ جلدوں میں پیش کی جائے گی) کے علاوہ قرآن سے لگاؤ رکھنے والے افراد کی دسترس کیلئے ضروری سمجھا کہ بعض سوروں کی الگ سے تفسیر پیش کی جائے تاکہ کم ازکم وہ افراد جو مکمل تفسیر کے مطالعہ سے محروم ہیں اس کے کچھ حصے کا ہی مطالعہ کرسکیں۔

لہٰذا اسی سلسلے میں تفسیر سورئہ یوسف ''یوسف قرآن'' کے نام سے جیبی سائز میں الگ سے چھپ چکی ہے اور اب سورئہ حجرات جو اس سلسلے کی دوسری کڑی ہے لوگوں کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔

اس توفیق الٰہی پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں، اور اپنے مددگار حجج الاسلام، جناب کلباسی و جناب مشیری اور جناب جعفری۔ صاحبان کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے اس تفسیر کی تخلیق میں کافی وقت صرف کیا۔

۱۱

جیسا کہ زمین کا جو حصہ بھی روشن و عیاں ہے وہ سورج کے طفیل ہے اور وہ جگہ جو تاریک ہے خود زمین کی وجہ سے ہے، بالکل اسی طرح میری اس کتاب میںجہاں بھی روشنی ہے وہ قرآن ، انبیاء ، اوصیاء ، شہداء اور علماء کی ہدایت و رہنمائی کے طفیل ہے اور جہاں ابہام، تاریکی، نقائص اور کمی بیشی ہے اُسے میری فکر کا نتیجہ سمجھئے گا۔

آخر میںاللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں خدایا! قرآن کو ہماری فکر، بیان، عمل، قلب، قبر، قیامت، سیاست، اقتصاد، اجتماع، نسل، عزت و ناموس اور تاریخ کا نور قرار دے۔

''محسن قرآئتی''

۱۲

عرض مترجم

سورہ حجرات کا موضوع مسلمانوں کو ان آداب کی تعلیم دیتا ہے جو صاحبان ایمان کی شایان شان ہیں ۔ابتدائی پانچ آیتوں میں ان کو وہ ادب سکھایاگیا ہے جو انھیں اللہ تعالی اور ان کے رسول کے سلسلے میں ملحوظ رکھنا چاہیے ۔ پھر یہ ھدایت دی گئی ہے کہ ہر خبر پر یقین کر لینا ارع اس پر کوئی کاروائی کر گذرنا مناسب نہیں ہے اگر کسی شخص یا گروہ یا قوم کے خلاف کوئی اطلاع ملے تو غور سے دیکھنا چاہیے کہ خبر ملنے کا ذریعہ قابل اعتماد ہے یا نہیں ،قابل اعتماد نہ ہو تو اس پر کاروائی کرنے سے پہلے تحقیق کر لینی چاہیے کہ خبر صحیح ہے یا نہیں۔

پھر مسلمانوں کو ان برائیوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جو اجتماعی زندگی میں فساد برپا کرتی ہے اورجنکی وجہ سے آپس کے تعلقات خراب ہوتے ہیں۔اس کے بعد ان قومی اور نسلی امتیازات پر ضرب لگائی گئی ہے جو دنیا میں عالم گیر فسادات کے موجب بنتے ہیں ۔آخر میں لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اصل چیز ایمان کا زبانی دعوی نہیں بلکہ سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول کو ماننا ،عملاً فرمانبردار اور مطیع بن کر رہنا اور خلوص کے ساتھ اللہ کی راہ میں اپنی جان ومال کی قربانی پیش کردینا ہے ۔

یوں تو قرآن کی تفسیر کے سلسلے میں انتہائی قابل قدر کام ہوا اور مسلسل ہو رہا ہے لیکن دور حاضر میں ایران کے مشہور عالم دین اور مفسر قرآن آیت اللہ الحاج شیخ محسن

۱۳

قرائتی (دام برکاتہ) کا اندازاپنی مثال آپ ہے جنھوں نے اس سورہ کی تفسیر انتہائی سادہ، شیرین اور دلکش انداز میں کی ہے۔جسکی اہمیت وضرورت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اردودان حضرات کے لئے حقیر نے اسے ادارہ التنزیل ،، کی فرمائش پراردو کے قالب میں ڈالنے کا کام انجام دیا،قارئین سے امید ہے کہ وہ اپنی مفید آراء اور نظریات سے مطلع فرمائیں گے۔آخر میں ،میں ان تمام حضرات کا شکر گزار ہوںجنھوں نے اس کتاب کی نشرواشاعت میں کسی بھی قسم کا تعاون فرمایا ۔امید ہے کہ خدااس ناچیز کوشش کو اپنی بارگاہ میں مقبول ومنظور فرمائے۔آمین یا رب العالمین

سید نسیم حیدر زیدی

قم المقدسہ

۱۴

سورئہ حجرات کا مختصر تعارف

یہ سورہ مدینہ میں نازل ہوا، اس کی اٹھارہ آیات ہیں(۱) ۔ اور سورئہ ''حجرات'' یا سورہ ''آداب و اخلاق'' کے نام سے مشہور ہے۔

حجرات ''حجرة''(۲) کی جمع ہے اِس سورہ میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حجرات کا ذکر ہونے کی وجہ سے اِسے ''سورئہ حجرات'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ (جو انتہائی سادہ مٹی اور کھجور کی لکڑی اور شاخوں سے بنے ہوتے تھے)

قرآن مجید کی تین سورتیں (مائدہ، حجرات، ممتحنة) ایسی ہیں جو حکومتی اور اجتماعی مسائل پر مشتمل ہیں۔ ان تینوں سورتوں کا آغاز''یَا ایُّهَا الَّذِیْنَ أَمَنُوا'' کے جملہ سے ہوتا ہے۔(۳)

اس سورئہ میں''یَا ایُّهَا الَّذِیْنَ أَمَنُوا'' کے جملے کی تکرار ایک صحیح اسلامی معاشرے کی آئینہ دار ہے۔

٭اس سورئہ میں کچھ ایسے مسائل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو کسی دوسرے سورئہ میں بیان نہیں کیے گئے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ جبکہبسم الله… سمیت اس کی آیات ۱۹ ہیں (۲)۔کمرہ (۳)۔ سورئہ مائدہ کا آغاز اس طرح ہوتا ہے(یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا َوْفُوا بِالْعُقُودِط) (اے ایمان والو اپنے اقراروں کو پورا کرو۔ سورئہ ممتحنہ کا آغاز اس طرح ہوتا( یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَتَّخِذُوا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ َوْلِیَائَ) (اے ایماندارو اگر تم جہاد کرنے میری راہ میں اور میری خوشنودی کی تمنا میں (گھر سے) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بنائو) اور اس سورئہ میں پڑھتے ہیں کہ اے ایمان والو، اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو۔

۱۵

(۱)۔ اس سورئہ میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سبقت اور پیش قدمی کی ممانعت، ان سے گفتگو کرنے کا سلیقہ، بتایا گیا ہے اور بے ادب افراد کی سرزنش کی گئی ہے۔

(۲)۔ تمسخر، برے نام رکھنا، سوئے ظن، تجسس اور غیبت جیسے برائیاں جو اسلامی معاشرے کے لیے حرام ہیں اِس سورئہ میں اُن سے روکا گیا ہے۔

(۳)۔ اخوت و برادری، صلح و آشتی ظلم کے خلاف اتحاد، عدل و انصاف، مشکوک افراد سے ملنے والی خبر کی تحقیق نیز فضیلت و برتری کے ایسے معیار کے تعین کا حکم دیا گیا ہے جو ایک اسلامی معاشرہ کے لیے ضروری ہے۔

(۵)۔ اسلامی معاشرہ میں مسلمانوں سے مومنوں کے درجات مشخص کرنے کا معیار، تقویٰ اور پرہیز گاری کو قرار دیا گیا ہے۔ ایمان سے محبت اور کفر وفسق و فجور سے نفرت و بیزاری کا اعلان کرتے ہوئے عدل و انصاف کو اسلامی معاشرہ کا محور قرار دیا گیا ہے۔

(۵)۔ اس سورئہ میں اسلامی معاشرہ کو اللہ تعالیٰ کا احسان کہا گیا ہے جو ایک ایسے رسول کا عاشق ہے جس کے وسیلہ سے اس کی ہدایت ہوئی ہے۔ اور یہ معاشرہ ہرگز اپنے ایمان کو اللہ اور اس کے رسول پر احسان نہیں سمجھتا ہے۔

(۶)۔ اس سورئہ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اسلامی معاشرے کے تمام افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اتباع کریں اور ہرگز اس بات کی توقع نہ رکھیں کہ رسول ان کے تابع ہو۔

۱۶

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ o

شروع کرتا ہوں ، اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

نکات:

یہ سورئہ بھی دوسرے تمام سورؤں کی طرح اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع ہوا ہے اس لیے کہ حدیث میں ہے: ''جو کام بھی اللہ تعالیٰ کے نام کے بغیر شروع کیا جائے وہ ناتمام رہ جاتا ہے۔

بلاشک انسان ہر کام کے آغاز میں رحمت الٰہی کا محتاج ہے اور یہ احتیاج'' بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم'' کے جملہ سے برطرف ہوجاتی ہے۔

ہر کام کی ابتداء میں'' بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم'' کہنا اللہ تعالیٰ پر ایمان، اس سے محبت، اس کی یاد اس پر توکل نیز اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آپ ہر کام کو اس کی رِضا کے مطابق انجام دینا چاہتے ہیں۔

۱۷

آیت نمبر ۱

یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ اﷲِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اﷲَ ِنَّ اﷲَ سَمِیع عَلِیم-

ترجمہ:

اے ایمان والو اللہ اور اُس کے رسول سے آگے نہ بڑھو۔ اور اللہ سے ڈرو۔بیشک اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔

نکات:

O یہ آیت بہت سی خطاؤں اور لغزشوں سے انسان کو بچالیتی ہے اس لیے کہ بعض اوقات انسان اکثریت سے متاثر ہو کر ان کی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے ظاہری اور مادّی مظاہر کا شکار ہوجاتا ہے۔ اپنی ناقص اندازہ گیری سے جدید اور نئی چیزوں کی طرف رغبت کرنے لگتا ہے ۔ جذباتی اور جلد بازی کے فیصلے،فکری آزادی، انسان کو بہت کچھ کہنے، لکھنے اور ایسے ارادے کرنے پر مجبور کردیتی ہے جس سے انسان نادانستہ طور پر اس بات سے بھی غافل ہوجاتا ہے کہ وہ خدا اور رسول کی بیان کی ہوئی حدود سے تجاوز کرچکا ہے جیسا کہ ایک گروہ کو عبادت گزاری کے خیال، اصولی اورانقلابی ہونے کے خیال نیز زاہد اور سادہ زیستی کے خیال نے خدا اور رسول سے بھی آگے بڑھنے پر آمادہ کردیا ہے۔

جیسا کہ کہاوت ہے ۔ مدعی سست گواہ چست۔

۱۸

O یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ انسان کو فرشتہ صفات ہونا چاہیے۔ اور فرشتوں کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے-( لا یسبقونه بالقول و هم بامره یعملون) (۱) وہ کلام خدا پر سبقت نہیں کرتے اور فقط اس کے امر کے مطابق عمل کرتے ہیں۔

O قرآن نے سبقت اور پیش قدمی کے موارد کو بیان نہیں کیا ہے تاکہ ہر قسم کی پیش قدمی کو روکا جاسکے چاہے اس کا تعلق عقائد، علم، سیاست، مالیات یا پھر گفتار اورکردار سے ہو۔

O بعض اصحاب نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مقطوع النسل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تاکہ اس سبب انہیں عورت کی ضرورت ہی پیش نہ آئے اور وہ ہر وقت اسلام کی خدمت کے لئے حاضر رہیں۔ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں اس برے کام سے سختی سے روک دیا۔

Oجو شخص خدا اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سبقت کرتا ہے وہ اسلام کے نظام میں خلل اور معاشرتی بد نظمی کا سبب ہے۔ گویا قانون اور نظام الٰہی کو کھیل تماشہ سمجھ کر اس میں اپنی مرضی چلانا چاہتا ہے۔

پیغامات:

۱۔ احکامات پر عمل درآمد کرنے کے لیے سب سے پہلے مخاطب کو نفسیاتی اور فکری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مبارکہ انبیائ، آیت ۲۷

۱۹

طور پر آمادہ کیا جائے۔''یا ایُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا'' یہ جملہ مخاطب کی شخصیت کا اعتراف، اس کا اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کے عمل کی انجام دہی کا سبب ہے۔

۲۔ جس طرح اللہ اور اس کے رسول پر سبقت اور پیش قدمی کی ممانعت ایک ایسا حکم ہے جس میں مومنین کو مخاطب کے ساتھ پیش آنے کے آداب سکھائے ہیں اِسی طرح یہ آیت بھی اپنے مخاطبین کے ساتھ خطاب کے آداب کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے ''مخاطب ہے''۔''یا ایُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا…''

۳۔ ایسا ذوق و شوق عادات، رسم و رواج، اور بہت سے ایسے قوانین جنکی بنیاد نہ قرآن و سنت پر ہے اور نہ عقل و فطرت سے ان کا کوئی تعلق ہو تو یہ چیز بھی خدا اور رسول پر سبقت کرنے کے مترادف ہے۔''لا تقدموا-----''

۵۔ خدا کی حلال کردہ نعمتوں کو حرام اور حرام کو حلال کرنا بھی خدا اور رسول پر سبقت کرنا ہے۔''لا تقدموا---''

۵۔ ہر طرح کی بدعت، مبالغہ آرائی اور بے جا تعریف و تنقید بھی سبقت کرنا ہے''لا تقدموا---''

۶۔ ہمارے علم و عمل کا سر چشمہ قرآن اور سنت کو ہونا چاہیے۔

۷۔ خدا اور رسول پر سبقت کرنا تقویٰ سے دوری کی علامت ہے جیسا کہ اس آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ ''سبقت نہ کرو اور تقویٰ اختیار کرو۔

۸۔ ہر آزادی، وسعت طلبی اور ترقی اہمیت کی حامل نہیں ہوتی۔''لا تقدموا---''

۹۔ فریضے کی ادائیگی کے لیے ایمان اور تقویٰ کا ہونا ضروری ہے۔ (آیت میں

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

ایسی محنت کریں کہ زمین خود کہے کہ مجھ کو شرعی احکام کے بیج بوتا کہ

ایمانیت کا جڑ

عبادت کا تنا

اور فرائض واجبات کے برگ وبار

اور اعمال صالحہ کادرخت تیار ہو

پھر اس میں اخلاقیات کے پھل آئیں اور ان میں

اخلاص کا رس ہو ۔

اگر کسی گھر میں معنویت اور روحانیت نہ ہو ،اسلامی تعلیمات پر عمل نہ ہو اس گھر کی حالت خراب ہوہی جاتی ہے ۔

گناہ انسان کے دل کو سیاہ کردیتاہے ،دل کو بیمار کردیتا ہے اورجب دل ہی بیمار ہوجائے تو اس پر سب سے پہلی مصیبت یہ آتی ہے کہ انسان عبادت سے لذت حاصل نہیں کرسکتا بلکہ گناہ سے لذت حاصل کرتاہے اور جو گناہ سے لذت حاصل کرتا ہے وہ جان لے کہ وہ روحانی اعتبار سے بیمار ہے ۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ :

"اگر کوئی شخص چاقو کو ہاتھ میں یا پیٹ میں کسی کی کمر میں مارے تو جو ہوتا ہے اس سے زیادہ یہ گناہ دل کے لئے خطرناک ہوتے ہیں ۔"

لہذا یہ ماں باپ کا فرض ہے کہ اپنی لڑکیوں کو اسلام کے احکام وقوانین

۶۱

سے روشناس کرائیں اور واجب احکام یاد کرائیں ۔ لیکن اب جب کہ انہوں نے ا س سلسلے میں کوتاہی کی ہے اور سادہ لوح بے گناہ لڑکی کو تعلیم دئیے بغیر شادی کے بندھن میں باندھ دیا ہے تو اب یہ اہم ترین اور سنگین فریضہ شوہر پر عائد ہوتاہے کہ وہ بیوی کو دینی مسائل سے روشناس کرائے اور سلام کے واجبات وحرام چیزوں کے متعلق بتائے اور اس کی فہم اور عقل کے مطابق اس کو اسلامی اخلاق اور عقائد کی تعلیم دے ۔

شوہر محترم! اگر آپ خود اس کام کو انجام دے سکیں تو کیا کہنا ۔

اس کے علاوہ اہل علم سے مشورہ کرکے سودمند اور علمی اور اخلاقی کتب اور رسالے مہیا کرکے اس کو پڑھنے کی ترغیب دلائے اور ضرورت ہو تو ایک قابل اعتماد اور عالم دیندار استاد یا معلمہ کو اس کی تعلیم وتربیت کے لئے مقررکیجئے ۔

اب اگر آپ نے اس فریضہ کو ادا کیا تو آپ ایک دیندار ،دانا ،خوش اخلاق اور مہربان بیوی کے ہمراہ زندگی بسر کریں گے اور اخروی ثواب کے علاوہ بہترین دنیاوی زندگی بھی بسر کریں گے ۔

اور اگر آپ نے اس فریضے کی انجام دہی میں کوتاہی کی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس دنیا میں ضعیف الایمان اور لاعلم بیوی کا ساتھ رہے گا جو دینی واخلاقی اصولوں سے بے بہرہ ہوگی اور قیامت میں بھی خداوند قہار اس سلسلے میں بازپرس کرے گا ۔

کیونکہ اس سے قرآن میں آپ کی یہ ذمہ داری قراردی ہے کہ :

۶۲

"اے ایمان والو ، خود اپنے آپ کو اور اپنے خاندان والوں کو اس جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھرہوں گے "۔

امام صادق(ع)فرماتے ہیں کہ :

"جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس کو سن کر ایک مسلمان رونے لگا اوربولا میں خود اپنے نفس کو آگ سے محفوظ رکھنے سے عاجز ہوں اس پر مجھے یہ ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے کہ اپنے گھر والوں کو بھی دوزخ کی آگ سےبچاؤں "۔

تو پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا :

" اس قدر کافی ہے کہ جن کاموں کو تم انجام دیتے ہو ان ہی کو کرنے کو ان سے کہو اور خود جن کاموں کو تمہیں ترک کرنا چاہیے ان سے انہین روکتے رہو ۔"

تعلیم وتربیت کے لئے حوصلہ اور وقت درکار ہے اگر عقل اور تدبر سے کام لے کر اس سلسلے میں جس قدر محنت کرے گا خود اس کے مفاد میں ہوگا اور اگلی زندگی اور عالم آخرت تک اس کے اثرات سے بہرہ مند ہوگا ۔

٭ جس دعا کی ابتدا ء بسم اللہ الرحمن الرحیم ہو وہ دعا کبھی نامنظور نہیں ہوتی ۔(حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

۶۳

نسخہ نمبر ۱۲

--{دیندار شوہر گھر میں فقہی قوانین نہ چلائیں کیونکہ گھر الفت ومحبت سے چلتے ہیں ، قانون سے نہیں }--

مثلا اگرآپ بیوی سے یہ کہیں کہ تم اپنے والدین یا فلاں رشتہ دار سے ملنے نہیں جاؤں گی کیونکہ میری اجازت کے بغیر گھر س ے باہر قدم نہیں نکال سکتیں ۔

یہ قانون سے بہت غلط استفادہ ہے ۔آیت اللہ حسین مظاہری، ایک مجتہد کا قول اپنی کتاب میں نقل کرتے ہیں کہ

"بعض عادل شمر سے بھی بدتر ہیں ۔"

قانون سے ایسا غلط استفادہ بظاہر مذہبی مردوں اور عورتوں میں زیادہ پایا جاتا ہے ۔مثلا کوئی لڑکی اسکول یا کالج جاتی ہے اور ایک یا دو اصطلاحات یاد کرکے غرور کرنے لگتی ہے اپنے شوہر سے کہتی ہے میں پڑھنا چاہتی ہوں ، میں گھر کا کوئی کام نہ کروں گی کیونکہ یہ مجھ پر واجب نہیں ہے ۔ یہ قانون فقہی سے غلط اسفادہ ہے بقول ان عالم کے یہ لڑکی عادل ہے لیکن شمر سے بدتر ہے کیونکہ آج نہیں تو کال ضرور اس گھر کو برباد کرے گی ۔

۶۴

اگر چہ آپ ایک مومن ہیں لیکن سخت گیر ہیں ،امر بالمعروف اور نہیں عن المنکر میں ضرورت سے زیادہ ہی سخت ہیں ۔ آپ کی یہ سخت گیری اور تیز روی ایک دن آپی پاکیزہ بیوی کو اور آپ کی نیک سیرت لڑکی کو ضدی اور خراب کردے گی ۔

نسخہ نمبر ۱۳

--{بیوی سے اچھا سلوک کرنا اور اسے ہمیشہ خوش رکھنا }--

اگر آپ صدر مملکت یا وزیر اعظم کے داماد بنیں اور وہ آپ سےیہ کہے کہ " دیکھو میری بیٹی س اچھا سلوک کرنا اور اسے ہمیشہ خوش رکھنا " تو آپ کس طرح دل وجان سے اس کو خوش رکھنے کی کوشش کریں گے اور اس کی ناگوار باتوں کو بھی خندہ پیشانی س برداشت کریں گے ۔

جب صدر یا وزیر اعظم کی بات کی آپ کو اتنی ہی پرواہ ہے تو اگر اس پوری کائنات کا پروردگار آپ سے یہ کہے :

"وعاشر هنّ بالمعروف "

"(دیکھو)ان بیویوں سے اچھا سلوک کرو۔"(سورۃ نساء ۱۹)

تو اب آپ کا رد عمل بیوی سے کیا ہونا چاہئے ،افسوس صدر اور وزیر اعظم

۶۵

کی ہدایت کی تو اتنی پرواہ ہو اور کائنات کے پروردگار کی ہدایت اور حکم کو اتنی اہمیت بھی نہ ہو جتنی اس کے فاسق وفاجر بندہ کی ہو ۔ افسو س! اگر آپ پروردگار عالم کی اس ہدایت کو یاد رکھیں گے تو گھر میں کبھی جھگڑا نہ ہوگا ۔

نسخہ نمبر ۱۴

--{ اپنے گناہوں کی معافی بھی مانگتے رہنا چاہیئے }--

ان تمام نسخوں پر عمل کے ساتھ ساتھ اپنے گناہوں کی معافی بھی مانگتے رہنا چاہیئے ۔بعض اوقات انسان کے اپنے گناہوں کی نحوست کایہ اثر ہوتا ہے کہ بیوی یا اولاد نافرمان ہوجاتی ہے اوراسی طرح بیوی کے لئے بھی مسلسل دعائیں مانگتی رہنا چاہیئں ۔ایک مرد دانا کا کہنا ہے کہ میں اپنے گناہوں کا اثر اکثر بیوی بچوں بلکہ گھر کے پالتو جانوروں تک میں پاتا ہوں کہ ہو پہلے کی طرح میرے مطیع وفرمانبردار نہیں رہتے ۔

آخری بات :- آپ نے دیکھا کہ آپ کی بیوی ،ایک لڑکی نے صرف دو بول پڑھ کر آپ سے ایسا رشتہ قائم کیا اور اپنے والدین ان دو بولیوں کی ایسی لاج رکھی کہ ماں کو چھوڑ ا ، باپ کو چھوڑا ،بہن بھائی اور پورے خاندان کو چھوڑا اورآپ کی ہوگئی ۔جب یہ لڑکی ان دو بولیوں کا اتنا بھرم رکھتی ہے کہ سب کو چھوڑ کر ایک

۶۶

کی ہوگئی لیکن آپ سے نہ ہو سکا کہ یہ دو بول :

"لا اله الا الله محمد رسول الله علی ولی الله "

" پڑھ کر اس اللہ کے ہوجاؤ جس کے لئے یہ دو بول پڑھےتھے :۔؟؟؟

٭ علم حاصل کرو ۔ علم کاحاصل کرنا نیکی ہے ۔ مشق جاری رکھنا تسبیح ہے ۔علمی معاملات میں بحث ومباحثہ جہاد ہے ۔ جاہل آدمی کو تعلیم دینا صدقہ ہے اور علم کی وجہ سے طالب علم خدا سے نزدیکی حاصل کرلیتا ہے ۔ کیونکہ علم کے ذریعے حرام وحلال کے درمیان فرق پہچانا جاتاہے اور علم طالب علم کو جنت کے راستے پر لگادیتا ہے اور علم وحشت میں انیس ہے علم تنہائی میں دوست ہے ۔(حضرت علی علیہ السلام

۶۷

ساس ،سسر اور گھر کے دیگر افراد کے عمل کے لئے چودہ مجرب نسخے

نسخہ بمبر ۱

--{ساس سسر یا گھر میں رہنے والے اور افراد سورہ بقرہ پڑھ کر اپنے گھر والوں پر دم کریں }--

کیونکہ رسول اسلام (ص)نے فرمایا ہے :

"قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد (ص) کی جان ہے ، شیطان اس گھر میں ٹھہر نہیں سکتا جس میں سورہ بقرہ کی تلاوت کی جائے ۔"

اس لئے کہ گھروں میں جھگڑوں سے بچنے کے لئے شیطان مردوں سے بچنے کی بہت زیادہ فکر کی جائے اور جن چیزوں سے گھروں میں شیاطین آتے ہیں ان سے بچا جائے اور جن اعمال سے شیاطین سے حفاظت ہوتی ہے ،ان اعمال کا اہتمام کیا جائے جس میں سے ایک عمل گھر میں سورہ بقرہ کا ختم ہے ۔

۶۸

نسخہ نمبر ۲

--{ساس سسر یا گھر میں کثرت سے تلاوت قرآن بمعہ ترجمہ کا اہتمام کریں }--

کیونکہ حدیث میں ہے کہ :

" جس گھر میں قران کریم کی تلاوت کی جاتی ہے ۔ملائکہ اس میں حاضر ہوتے ہیں ،شیاطین نکل جاتے ہیں اور جس گھر میں تلاوت نہ ہو ، اس میں خیر وبرکت کم ہوجاتی ہے ،شیاطین اس گھر میں مسکن بنالیتے ہیں ۔فرشتے وہاں سے چلتے جاتے ہیں "

نسخہ نمبر ۳

--{ حتی الامکان بیٹے کو شادی کے بعد الگ رہنے کی ترغیب دیں }--

دینداری کا دم بھرنے والے اکثر سےایک غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ

۶۹

سب کا ایک ساتھ ،ایک ہی گھر میں رہنا بہت ضروری ہے ورنہ گھر کی برکت نکل جائے گی ۔

محترم ساس وسسر ! ایک برتن میں کھانا پکنے سے برکت ضرور آئے گی لیکن لڑائی جھگڑے ی وجہ سے گھروں میں نفرت ،حسد ،بغض ،غیبت ،لڑائی ،جھگڑے کا دروازہ کھل جاتا ہے اور وہ پورے گھر کو اللہ کی رحمت سے دور کردیتا ہے ۔ صرف ایک ایسی برکت کے لئے ہزاروں مصیبتوں اور گناہوں کا ارتکاب کیسے جائز ہوگا ؟

یعنی ایک مستحب کے لئے اتنا اہتمام کہ ہزاروں حرام اس کی وجہ سے ہوجائیں یہ کہاں کی عقلمندی ہے ؟

ایک گھر جہاں کئی شادی شدہ بھائی ایک ساتھ رہتے ہوں اور ایک ساتھ کھانا کھاتے ہوں لیکن

----- آپس میں دل گرفتہ ہوں ۔

---- روزانہ جھگڑے بڑھ رہے ہوں ۔

---- حسد اور حرص کی بیماریاں بڑھ رہی ہوں ۔

----- رات کو شوہر آئیں تو بہو ئیں ایک دوسرے کے خلاف باتین کرکے شوہروں (سگے بھائیوں )میں عداوت اور دشمنی کے بیج بورہی ہوں ۔

----- غیبت ،چغل خوری اور جھوٹ کے جراثیم پیداہو کر بڑی بڑی روحانی بیماریاں پیدا کررہے ہوں ۔

۷۰

---- بیٹے کو ماں اور بہن سے دور کیا جارہا ہو۔

---- بیوی گھر چھوڑنے یا طلاق لینے کی دھمکی دے رہی ہو ۔

----- ساس ، تعویذ ،گنڈوں کی فکر میں ہو ۔

----- سسر ہر نماز کے بعد بد دعا کررہا ہو ۔

-----لڑکے یا لڑکی کی ساس ،پورے خاندان میں سمدھی اور سمدھن کے برا ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہو ۔

----- چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑے بڑے عیب بنا کر پیش کیا جارہا ہو ۔

----- ان سب کے نتیجے میں گھر کے بعض افراد نفسیاتی ہمسپتالوں کے چکر کاٹ رہے ہوں ۔

----- اپنے بچوں کو مشترک گھر میں رہنے سے حرام سے ڈش انٹینا اور کیبل سے بچانا مشکل ہورہا ہو ۔

اور اس کے بر خلاف ایک گھر ایسا ہو جہاں شادی ک فضول اور بیہودہ رسموں سے پیسے بچا کر اور ایسی شادی کرکے جس میں ش کے تین نقطے نہ ہوں یعنی سادی ،ایسی شادی جو سادہ ہو ، اسراف اور فضول خرچیوں سے مبرا ہو اور ان حرام کاموں سے پیسے بچا کر جب تک مستقل علیحدہ مکان لینے کی گنجائش نہ ہو تو چاہے چھوٹا سا گھر یا فلیٹ بھی کیوں نہ ہو الگ رہ کر ماں ،باپ کی خدمت کرکے زیادہ سے زیادہ دعائیں لی جاتی ہوں ۔

----- نند اور بھاوج میں آپس کی محبت برقراررہے ۔

۷۱

---- دیورانی اور جیٹھانیاں ایک دوسرے کا احترام کرتی ہوں ۔

---- بچوں کی اچھی تربیت ہورہی ہو۔

----- روزانہ یا اکثر ملاقات کے لئے آپس میں آنا جانا ہو۔

----- حسب توفیق تحفہ ،تحائف دئیے جاتے ہوں ۔

---- کھانا پکا کر ساس وسسر کے لئے لایا جاتا ہو ۔

----- چھوٹے بچوں میں آپس میں محبت ہو ۔

دونوں زندگیاں آپ کے سامنے ہیں ،دونوں کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے ۔ کون سی زندگی آپ کو پسند ہے ؟ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے ۔

محترم ساس ! جو بات رب العالمین کی شریعت میں بری نہیں ، اس کو برا نہ سمجھئے ، شریعت میں جس کی اجازت ہو اس پر پابندی نہ لگائیے ۔

لیکن بد قسمتی سے اور بعض اوقات آپ کی ہٹ دھرمی سے اور ان تما م خرابیوں کے بعد لڑجھگڑ کر بیٹا اور بیٹا اور بہو کو علیحدہ ہونا ہی پڑتا ہے تو کیا بہتر نہیں کہ ان تمام خرابیوں سے پہلے ہی ان کو الگ کردیں ۔

----- چاہے کتنی بھی طلاقیں ہوں ۔

----- کتنے بھی گھر اجڑیں ۔

----- کتنے نوجوانوں کی زندگیاں برباد ہوں ۔

---- کتنے بہن بھائی ،بہنوں میں اختلاف وجھگڑے ہوں ۔

کیا تب بھی آپ کا فیصلہ وہی رہے گا ؟

۷۲

اسلامی شریعت نے بھی بہو کے لئے ساس ،سسر کی خدمت کرنے کو حسن سلوک تو کہا ہے لیکن واجب قرار نہیں دیا اور دیور اور جیٹھ کی خدمت تو غیر مناسب بھی ہے اکثر بے پردگی کا اہتمام ہوتا ہے ۔ اور جب یہ سب بہو کے فرائض میں شامل ہی نہیں تو آپ زبردستی خدمت کیسے لیں گے ؟ یہی سوچ فتنے او رفساد کی بنیادیں ہے اور ظلم کی ابتدا ہے ۔

نسخہ نمبر ۴

--{ ہم مزاج بیٹے اور بہو کو ساتھ رکھیں }--

اگر آپ بھی چا ہتے ہیں کہ ایک بیٹا ہمارے ساتھ ہو اور پوتے پوتیوں سے گھر میں رونق ہو تو اس بیٹے کو ساتھ رکھیں جس سے مزاج ملتا ہو ۔اور اس بیٹے اور بہو کو دعائیں بھی دیتے رہیں جو آپ کے ساتھ رہ رہے ہیں ۔

نسخہ نمبر ۵

--{ کچن تو ضرور علیحدہ ہو }--

اگر مالی حالات یا کسی اور مصلحت سے بہوؤں کو ایک ہی گھر میں رکھنا ہو

۷۳

تو کم از کم اتنا کیجئے کہ ان کے آنے جانے کا راستہ الگ ہو اور کچن تو ضرور علیحدہ ہو ، زیادہ تر آگ چولہے ہی بھڑکتی ہے ۔'

نسخہ نمبر ۶

--{ حسن اخلاق او رخوش دلی سے جتنی چاہے خدمت کروائیے }--

ساس اور سسر خصوصا ساس اگر سلیقہ مند ہو تو بہو کے ساتھ حسن اخلاق او رخوش دلی سے جتنی چاہے خدمت کرواسکتی ہیں ۔ یہ بہو کے لئے سعادت اور ساس وسسر کے اخلاق کی بلندی کی علامت ہے ۔لیکن بہو سے جبر ا خدمت لینا نہ شرعا جائز ہے اور نہ اخلاقا صحیح ہے ۔

بہو کا اکرام اور عزت کرکے دیکھئے آپ حیران ہوں گے کہ وہ آپ کی بیٹی سے بڑھ کر آپ کی خدمت گزار ہوگی ۔

٭ عالم کو عابد پر وہی فضیلت ہے جو چاند کو چودھویں شب میں تمام ستاروں پر ہے اور علماء وارث انبیاء ہوتے ہیں ۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

۷۴

نسخہ نمبر ۷

--{ بہو سے بدگمان نہ ہوں }--

اس کی غلطی دیکھ کر بھی اچھی تاویل کریں ،اپنے خیال کی پرواہ نہ کریں ۔

جب آپ ایسا کریں گے تو گویا شیطان کے منہ پر طمانچہ ماریں گے وہ خبیث خود بخود دور ہوجائے گا ۔

امام صادق (ع) نے فرمایا ہ ےکہ :

"اس ناپاک کے منہ پر طمانچہ مارو ،جب اس کو ماروگے ، اس کی باتوں پر عمل نہ کروگے تویہ خود بخود دفع ہوجائے گا ۔"

اس کے برعکس اگر اس کی باتوں کو اہمیت دیں گے اور بہو سے سوء ظن رکھیں گے تو یہ منحوس شیطان آپ کی فکر اور سوچ پر قابض ہو جائے گا لہذا س کا علاج فقط یہ قرآنی حکم ہے کہ :

"لوگوں سے متعلق بد گمانی سے پر ہیز کرو کیونکہ اکثر گمان گناہ ہوتے ہیں ۔"

اگر آپ نے ظن یا گمان بد سے کام لیا تو گویا قرآن کی مخالفت کی ہے ۔

۷۵

نسخہ نمبر ۸

--{بیٹا اور بہو کے ہر کام میں مداخلت نہ کریں }--

اگر آپ اپنی شادی شدہ اولاد کو سعادت مند دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو چاہیے کہ ان کے ہر کام میں مداخلت نہ کریں ۔

آپ کو حیوانوں سے سبق لینا چاہئیے کہ وہ اپنے بچوں کی اسوقت تک سرپرستی کرتے ہیں جب تک وہ ان کے محتاج ہوتے ہو۔جو نہی وہ ایک مستقل زندگی گزارنے کے قابل ہوتے ہیں والدین ان کو آزاد چھوڑدیتے ہیں تاکہ وہ اپنی مستقل زندگی گزارنا شروع کردیں ۔یہی بات پرندوں اور دیگر جانوروں بلکہ انسانوں میں بھی پائی جاتی ہے ۔بات صرف اتنی سی ہے کہ ہم اس پر عمل نہیں کرتے ۔

جب اولاد کی شادی ہوجائے تو ان کے کاموں میں بے جا مداخلت نہ کریں ۔

٭ جان لو کہ تم علم کے ساتھ ہی خوش نصیبی حاصل کرسکتے ہو ۔(حضرت علی علیہ السلام)

۷۶

نسخہ نمبر ۹

--{ماں باپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ داماد اور بہو کی طرفداری کریں }--

آیت اللہ مظاہری فرماتے ہیں کہ :

"ہمیشہ صلح وصفائی آپ کا مطمع نظر رہے ۔"

بہو کے ماں باپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ داماد کی طرفداری کریں اور ساس وسسر کو بہو کی طرفداری کرنی چاہئیے ۔

اگر لڑکی لڑبھڑ کر ماں باپ کے گھر چلی جائے تو لڑکی کی ماں اپنی بیٹی کو لے جاکر داماد کے حوالے کردے اور اس کے پاس تھوڑی دیر بیٹھ کرباتیں کرے تو داماد کتنا ہی ناراض کیوں نہ ہو،راضی ہوجائے گا اور اگر ساس وسسر گھر میں بہو کے ساتھ الفت ومحبت رکھیں اور اگر جھگڑا پیدا ہو جائے تو اس کی طرفداری کریں تو بہو خواہ کتنی ہی بری کیوں نہ ہو خود بخود ان کے ساتھ محبت کرنےلگے گی اور جھگڑا فساد ختم ہوجائے گا ۔

امیر المومنین امام علی ابن ابی طالب (ع) نے اپنی شہادت کے وقت اپنے فرزندوں کو یوں نصیحت فرمائی :

۷۷

" اے میرے فرزندوں ! میں تمہیں تاکید کرتاہوں کہ تقوی کو اپنا شعار بناؤ ،اپنے معاملات کو منظم رکھو اور اپنے درمیان ہمیشہ صلح وصفائی رکھو"۔

کیونکہ میں نے تمہارے جد پیغمبر اسلام سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا :-

دو افراد کے درمیان صلح کرنا خدا کے نزدیک ایک سال کی نماز اور روزوں سے افضل ہے ۔"

نسخہ نمبر ۱۰

--{ کبھی بھی بہو کی برائی بیٹے سے یا داماد کی برائی اپنی بیٹی سے نہ کریں }--

ان کی خامیوں کی تلاش میں بھی نہ رہیں ۔

بہت سے لوگ خود اپنے اندر اور دوسروں میں اچھائیاں نہیں دیکھ پاتے ان کو ہر چیز منفی صورت میں نظر آتی ہے وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان کے اندر کیسی کیسی خوبیاں ہیں بلکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ دوسرے میں کون کون سی برائیاں ہیں ۔

منفی پہلو کی سوچ گویا مکھی کی طرح ہے وہ باغ میں بھی جائے تو ڈھونڈ تی ہے کہ کہیں کوئی گندگی مل جائے تاکہ وہ اس پر بیٹھ سکے ۔

محترم ساس و سسر ،اپنی بہو اور داماد کے پیچھے نہ پڑیں کہ کسی نہ کسی طرح

۷۸

کوئی نقص نکال ہی لوں بلکہ آپ کو ایک بلبل کی طرح ہمیشہ پھولوں پر ہی رہنا چاہئیے ۔آپ کو پھولوں ہی کی تلاش ہونی چاہیے ۔بہو میں اچھائی اور مثبت نقاط کی تلاش کرنی چاہیئے ،آپ اس کی ساری اچھائیاں ایک بد سلوکی کی وجہ سے بھلا دیتے ہیں ۔ اور آپ کا رویہ یکدم بدل جاتا ہے ۔

افسوس! قرآن کا بھی یہی مشہورہ ہے کہ انسان وفادار نہیں ہے ۔

نسخہ نمبر ۱۱

--{معافی کواپنا شعار بنائیں }--

واقعا اگر آپ کی بہو بری بھی ہے ،اور اس نے آپ کے ساتھ کچھ زیادتی بھی کی ہے تو آپ اسے معاف کردیں ۔

کیوں ؟

اس لئے کہ کیا آپ نہیں چاہتے کہ قیامت میں خدا آپ کو معاف کردے ؟

آپ نے سنا ہوگا کہ قیامت میں کچھ لوگ بغیر حساب کتاب کے جنت میں چلے جائیں گے یہ وہ لوگ ہوں گے جو اس دنیا میں عفو ،درگذر اور بخشش سے کام لیتے ہیں ۔

۷۹

نسخہ نمبر ۱۲

--{ جب کوئی تم سے برائی کرے اس کے ساتھ نیکی کرو}--

آیت اللہ مظاہری فرماتے ہیں کہ یہ آیت گھر میں (بمعہ ترجمہ) لکھ کر ایسی جگہ لٹکا دینی چاہئیے ،کہ گھر کے ہر فرد کی نگاہ اس پر پڑتی رہے

"ویدرون بالحسنة "(سورہ قصص)

"جب کوئی تم سے برائی کرے اس کے ساتھ نیکی کرو"

اے ساس وسسر ! اگر آپ قرآنی احکام پر ایمان رکھتے ہیں تو آپ کو اس آیت پر بھی عمل کرنا ہوگا ۔یہ آیت لکھ کر ایسی جگہ لٹکا دیں کہ جسے آپ بھی دیکھیں ،بہو بھی دیکھے ،بیٹا بھی دیکھے ،گھر کے بچے بھی دیکھ لیں اور آہستہ آہستہ سب میں معاف کرنے کی طاقت پیدا ہوجائے ۔ اگر آپ اور بہو میں ہم آہنگی نہ ہو تو بھی بخشش اور حسن سلوک سے اس کمی کو پورا کرسکتے ہیں ۔

٭ علم کی وجہ سے اللہ کے واحد ہونے کا اقرار کیا جاتا ہے علم کے ذریعے صلہ رحم کیا جاتا ہے ۔"

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160