آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)37%

آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات) مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 160

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 160 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 127992 / ڈاؤنلوڈ: 5247
سائز سائز سائز
آداب واخلاق	 (تفسیر سورہ حجرات)

آداب واخلاق (تفسیر سورہ حجرات)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

۷۔ اسلام تو بعض غیر مسلمانوں کے لیے بھی خاص احترام کا قائل ہے۔ جیسے ہی کسی قبیلے کا سردار اسلام قبول کرتا تھا تو آپ اس کے احترام کو ملحوظ نظر رکھتے، اور اسے اس قبیلے کی سرداری پر باقی رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ ایسے اسیر جن کا تعلق محترم خاندان سے ہوتا تھا ان کا جداگانہ حساب ہوتا تھا، مثلاً شہر بانو (ایران کے بادشاہ کی بیٹی) اور حاتم طائی ( جو ایک مرد سخی تھا) کے فرزند جب اسیر کرلیے گئے تو ان کے ساتھ جداگانہ برتاؤ کیا گیا۔جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ ہر ملت کی ثقافت میں کچھ چیزیں مقدس ہوتی ہیں جیسے۔ آئین، قومی پرچم، علمی شخصیات، انقلابی اور ہنرمند افراد وغیرہ۔ یہ تمام افراد ہر قوم و ملت کے نزدیک محترم سمجھے جاتے ہیں۔ البتہ اس سلسلے میں کجروی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ کیونکہ طول تاریخ میں لا اُبالی اور فریب کار افراد موجود رہے ہیں جیسے سامری جادوگر جس نے گوسالہ بنا کر اُسے جعلی تقدس کا رنگ دیا۔ اور کتنے ہی بادشاہ ایسے گزرے ہیں جنہوں نے بہت سے دانشوروں اور شعراء کو خرید کر اپنی ثنا خوانی اور خود کو مقدس بنا کر پیش کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔

اولیاء الٰہی کا احترام:

اولیاء خدا سب سے زیادہ احترام اور تقدس کے پابند تھے۔ ان میں سے چند نمونہ پیش خدمت ہیں۔

الف: جب تک پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زندہ رہے حضرت علی ـ نے آپ کے احترام میں خطبہ نہیں دیا۔

۴۱

ب: ایک روز دوران نماز رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نگاہ سامنے والی دیوار پر پڑی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دیکھا کہ دیوار پر آب دہن (تھوک) ہے۔ آپ خاموش ہوگئے اور (قبلہ سے منحرف ہوئے بغیر) وہاں تک گئے اور وہاں درخت کی پڑی ہوئی ٹہنی سے اسے کھرچ ڈالا پھر پلٹ آئے اور نماز جاری رکھی۔

ج: حضرت امام حسین ـ نے جیسے ہی دیکھا بڑے بھائی امام حسن ـ نے ایک سو دینار سے فقیر کی مدد کی ہے آپ نے اپنے بھائی کے احترام کو پیش نظر رکھتے ہوئے ۹۹ درہم سے فقیر کی مدد کی۔

د: امام رضا ـ جیسے ہی حضرت امام مہدی ـ کا نام سنتے تھے (جبکہ حضرت مہدی ـ کی اس وقت تک ولادت نہیں ہوئی تھی) تو آپ کے احترام میں کھڑے ہوجاتے تھے۔

ھ: آیت العظمیٰ بروجردی جنکا شمار شیعوں کے بڑے مجتہدین میں سے ہوتا ہے۔ کے گھر میں ایک شخص نے یہ کہہ دیا کہ امام زمان ـ اور آیت اللہ بروجردی کی سلامتی کے لیے درود بھیجیں۔ تو یہ سن کر آپ بہت ناراض ہوئے کہ تم لوگوں نے میرے نام کو ولی عصر ـ کے نام کے ساتھ کیوں لیا ہے؟

اس لیے ہمیں توجہ رکھنی چاہیے کہ احترام و تقدس کے درجات مختلف ہیں۔ ہر شخص اور ہر چیز اپنے اپنے رتبہ کے اعتبار سے لائق احترام ہے۔

۴۲

اعمال کا حبط اور ضایع ہونا:

سورئہ حجرات کی دوسری آیت میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور میں بلند آواز سے بولنے کو اعمال کی نابودی اور حبط کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ: تمہارے نیک اور اچھے اعمال کا اجر اس طرح تباہ و برباد ہوجائے گا کہ تمہیں اس کی خبر بھی نہیں ہوگی لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حبط اعمال کے بارے میں کچھ گفتگو کی جائے۔

''حبط'' لغت میں حبط کے معنی فاسد اور تباہ ہونا ہے۔ جس طرح غذائیں، دوائیاں ، سردی، گرمی، پانی اور آگ ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسی طرح انسان کے اعمال بھی ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان دو مثالوں پر غور کیجئے۔

الف: اگر ایک مزدور کارخانے میں بیس سال مفید اور سود مند کام کرنے کے بعد اپنے مالک کے بیٹے کو قتل کردے، اس کا یہ قتل کرنا، اس کی بیس سالہ کارکردگی پر پانی پھیر دے گا۔ اسے حبط کہتے ہیں۔

ب: اگر ایک مزدور اپنے مالک کو بیس سال رنج و اذیت پہنچائے،لیکن ایک دن یہی مزدور اپنے مالک کے ڈوبتے ہوئے بچے کو بچالے تو اس مزدور کی یہ خدمت اس کی سابقہ بیس سالہ بری کارگردگی کو یکسر ختم کر دے گی اور یہ خدمت جو اس کی برائیوں کا ازالہ کررہی ہے اسے کفارہ کہتے ہیں۔

ان مثالوں پر توجہ دینے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ معنوی وسائل اور انسان کے اعمال ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ چند قرآنی نمونوں پر توجہ کیجئے۔

۴۳

۱۔ کفر و ارتداد اور لوگوں پر خدائی راستے بند کرنا، رسول خدا سے مقابلہ کرنا اعمال کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔(۱)

۲۔ جو لوگ ایسے اعمال انجام دیتے ہیں جو خدا کو غضبناک کرتے ہیں۔ اور ایسے اعمال سے نفرت کرتے ہیں جن میں خدا کی رضا شامل ہوتی ہے تو ان کے تمام اعمال تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔(۲)

۳۔ شرک و نفاق، دنیا طلبی، انبیاء کا قتل ، اور ظلم کرنے والوں کے اعمال نابود ہوجائیں گے۔(۳)

۵۔ منت گزاری عمل کی نابودی کا سبب ہے۔(۴)

۵۔ ریاکاری اور عُجب انسان کے اعمال کو تباہ و برباد کردیتا ہے۔

حبط اعمال روایات کی روشنی میں:

اب ہم روایات کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ وہ کون سے اعمال ہیں جو انسان کے نیک اعمال کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔

روایات میں، اعتقادی ، عبادی، خاندانی، معاشرتی ، سیاسی اور بہت سے ایسے نفسیاتی مسائل کا ذکر کیا گیا ہے جو انسان کے نیک اعمال کی تباہی کا باعث بنتے ہیں ہم یہاں ان موارد میں سے ہر ایک کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ محمد، آیت ۲۵

(۲)۔سورئہ محمد، ۲۸ (۳)۔ زمر، ۶۵۔ توبہ، ۶۸۔ ھود، ۱۶۔ آل عمران، ۲۵

(۵)۔ بقرہ، ۲۶

۴۴

۱۔ اعتقادی: آئمہ معصومین ٪ اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت ٪ سے کینہ اور دشمنی رکھنا۔(۱)

۲۔ عبادی: نماز کو بغیر کسی عذر کے ترک کرنا۔(۲) امام ـ سے پوچھا گیا کہ ترک نماز کو گناہان کبیرہ میں سے کیوں شمار نہیں کیا گیا جبکہ یتیم کا مال کھانا گناہِ کبیرہ ہے؟ حضرت نے فرمایا: کہ کفر گناہِ کبیرہ ہے۔ جبکہ ترک نماز کفر عملی ہے۔(۳)

۳۔ خاندانی: امام صادق ـنے فرمایا:اگر بیوی یا شوہر ایک دوسرے سے یہ کہہ دیں کہ میں نے تمہارے اندر کوئی خوبی نہیں دیکھی۔ اور میں تم سے ناراض ہوں تو اس کے اعمال تباہ ہوجائیں گے۔(۴)

۵۔ معاشرتی: رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اگر کوئی مردے کو اس کی امانت کی حفاظت کرتے ہوئے غسل دے تو اُسے میت کے ہر بال کے بدلے میں ایک غلام کو آزاد کرنے کا اجر ملے گا اور صد درجات عطا کرے گا۔ پوچھا گیا: غسل دیتے وقت امانت کی حفاظت سے کیا مراد ہے؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اس کے پوشیدہ جسمانی اعضاء کو

چھپائے وگرنہ اس کا اجر تباہ اور دنیا و آخرت میں اس کو عزت نہیں ملے گی۔(۵) (یہ تو مردہ شخص کی عزت و آبرو کا مسئلہ ہے زندہ شخص کی عزت، و آبرو تو اس سے کہیں زیادہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ بحار، ج۲۸، ص ۱۹۸

(۲)۔ کافی، ج۲، ص ۳۸۵ (۳)۔کافی، ج۲، ص ۲۷۸

(۵)۔ من لا یحضر، ج۳، ص ۵۵۰ (۵)۔ وسایل الشیعہ، ج۲، ص ۵۲۷

ہے)۔

۴۵

۵۔سیاسی: وَمَن یّکْفُرُ بِالْاِیْمٰانِ فَقَطْ حَبِطَ عَمَلُهُ (۱) جو بھی اپنے ایمان سے پھر جائے (مرتد ہوجائے) اس کے اعمال تباہ ہوجائیں گے۔

امام محمد باقر ـ اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ ایمان سے مراد علی ابن ابی طالب ـ ہیں۔ جو بھی آپ کی ولایت کا منکر ہو اس کا عمل تباہ ہے۔(۲)

جی ہاں! امام معصوم کو رہبر ماننا اور ان کی اطاعت کرنا اسلام کے سیاسی مسائل کے ارکان میں سے ہے۔

۶۔ نفسیاتی: امام صادق ـ نے فرمایا: جو شخص اپنے خیال اور شک کی بنیا د پر (علم یا شرعی حجت کے بغیر ) کوئی عمل انجام دے تو اس کا یہ عمل تباہ ہے۔

٭ اب تک ہم نے بعض اعمال کے منفی اثرات بیان کیے ہیں۔ اب مثبت اثرات کے بارے میں آپ کو بتاتے ہیں کہ انسان کس طرح اپنے اعمال کے ذریعہ اپنے برے کاموں کو چھپا سکتا ہے یا یہ کہ انہیں اچھے کاموں میںکیسے تبدیل کرسکتا ہے۔

قرآن مجید میں ایمان ، نیک عمل، تقویٰ، فقرا کی مخفی طور پر مدد کرنا، توبہ کرنا ، گناہ کبیرہ سے دوری کرنا، نماز پڑھنا، زکات دینا، قرض الحسنہ دینا ، ہجرت اور جہاد کو عفو،

گناہوں کی بخشش اور انسانی لغزشوں کی تلافی کا سبب قرار دیا ہے۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ مائدہ، آیت ۵

(۲)۔ بحار، ج۳۵، ص ۳۵۸ (۳)۔ بقرہ: ۲۱۵۔ طلاق:۵۔ تغابن: ۹۔ تحریم:۸۔ نسائ: ۳۱۔ ہود :۱۱۵۔ مائدہ:۱۲۔ آل عمران: ۱۹۵۔ فرقان: آیت ۷۰ کی طرف رجوع کریں۔

۴۶

قرآن مجید نے فرمایا: دن کے دونوں طرف نماز ادا کرو کیونکہ نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں۔وَ أَقِم الصَّلوٰةَ --- اِنَّ الحَسَنَاتِ یُذْهِبْنَ السَّیَّاٰتِ (۱)

٭ واضح ہوچکا ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عظمت کی وجہ سے ان کے حضور بے ادبی تمام سابقہ اعمال کی تباہی کا باعثت بن سکتی ہے۔ قرآن مجید نے اس کے باوجود یہ تاکید کی ہے کہ سب لوگوں سے اچھے (مؤدبانہ) انداز میں بات کی جائے۔ لقمان ـ نے اپنے بیٹے سے کہا(وَاغضُضْ مِنْ صوتِکَ) اپنی آواز میں دھیما پن اختیار کرو۔ اس لیے کہ اس کے علاوہ غیر مناسب آواز کو گدھے کی آواز سے تشبیہ دی ہےاِنَّ أَنْکَرَ الاصوات لَصَوْتُ الحَمِیْر (۲) بلند آواز میں بات کرنا (اسپیکر کا بیجا استعمال) آج کے دور میں (جدید تمدن کے دور میں) معاشرتی مشکلات میں سے ایک مشکل ہے۔ کبھی شادی کے نام پر، کبھی مجلس عزا کے نام پر، کبھی مسجد میں کبھی کھیل اور ورزش کے عنوان سے، اور کبھی خرید و فروخت کی غرض سے لوگوں کا آرام سلب کرلیا گیا ہے۔

جبکہ اسلام نے فقط چند ایسے موارد بیان کیے ہیں جہاں آواز بلند کی جاسکتی ہے، مثلاً اذان کے وقت وہ بھی مناسب انداز میں بغیر کسی اضافے یا مقدمے کے یا بیت

اللہ کے زائرین کے لیے کہ جب وہ صحرائِ مکہ میں کسی دوسرے قافلہ کو دیکھیں تو بلند آواز سے'' لبّیکَ اللّهمَ لبّیک'' کا تکرار کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ سورئہ ہود، آیت ۱۱۵

(۲)۔ سورئہ لقمان، آیت ۱۹

۴۷

بہرحال چند استثنائی موارد کے علاوہ ہمیں بلند آواز میں گفتگو کرنے کا حق نہیں ہے۔ دوسروں سے بلند آواز میں رعب اور دبدبہ سے بات کرنا تو بہت دور کی بات ہے ۔ کیونکہ اس صورت میں بے ادبی کے علاوہ مومن کو ڈرانا ایک سخت عذاب کا پیش خیمہ ہے۔

۴۸

آیت نمبر ۳

ِنَّ الَّذِینَ یَغُضُّونَ َصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اﷲِ ُوْلَئِکَ الَّذِینَ امْتَحَنَ اﷲُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَی لَهُمْ مَغْفِرَة وََجْر عَظِیم -

ترجمہ:

بیشک جو لوگ رسول اللہ کے سامنے اپنی آوازوں کو دھیما رکھتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو خدا نے تقویٰ کے لیے آزما لیا ہے اور انہیں کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔

نکات:

O کلمہ''غَضْ'' کے معنی اوپر سے نیچے کی طرف آنا اور آہستہ لہجہ میں بات کرنا ہے۔ جو ادب ، تواضع، وقار، آرام و نشاط کی علامت ہے۔

O قرآن مجید نے اس آیت میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤدب افراد کے دلوں کی آزمایش کرتا ہے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ اس آزمائش سے شناخت کرنا نہیں چاہتا ہے کیوں کہ وہ ہر چیز سے آگاہ ہے۔ بلکہ اس آزمائش کا مقصد یہ ہے کہ انسان مسائل کے مقابلے میں اپنی استعداد اور صحیح عکس العمل کا مظاہرہ کرے تاکہ اُسے اجر الٰہی عطا ہوسکے۔ کیونکہ جزا اور سزا کا ملنا اللہ تعالیٰ کے علم کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسان کے

۴۹

عمل کی بنیاد پر ہے۔ یعنی اگرچہ اللہ تعالیٰ یہ علم رکھتا ہے کہ فلاں شخص آئندہ یہ گناہ کرے گا لیکن اسے سزا نہیں دیتا بلکہ پہلے اُس سے گناہ سرزد ہو تب اُسے اس کی سزا ملے گی۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ انسان بھی اسی روش پر چلتا ہے اور صرف اپنے علم کی بنیاد پر کسی کو اجرت نہیں دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہمیں یہ علم ہو کہ فلاں درزی میرا لباس سی دے گا تب بھی ہم اُسے اس وقت تک مزدوری نہیں دیتے جب تک کہ وہ لباس تیار نہ کردے۔

آیات و روایات میں امتحان اور آزمائش کا ذکر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انسان پہلے عمل انجام دے گا اور پھر اس کے بعد سزا یا جزاء کا مستحق قرار پائے۔

البتہ یہاں امتحان کا تعلق قلب سے ہے کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ادب اور تواضع کے اظہار میں ریاکاری سے کام لیتے ہیں لیکن اندورنی طور پر تکبر اور غرور سے بھرے ہوتے ہیں۔

O اجر الٰہی کا ہمیشہ ان صفات کریم، عظیم ، کبیر، غیر ممنون (پیوستہ)نِعَمْ اجر (اچھا)کے ساتھ ذکر ہوا ہے کیونکہ اجر الٰہی اس کی رحمت اور بے نہایت لطف کے سرچشمے سے تعلق رکھتا ہے۔

پیغامات:

۱۔ہمیں برے کام کرنے والوں کی مذمت اور اچھے کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اس سے پہلی آیت میں ان لوگوں کی خدمت کی گئی ہے جو پیغمبر کے حضور بلند آواز میں بات کرتے تھے اس آیت میں اور بعد والی آیات میں مودّب افراد

۵۰

کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔اِنَّ الّذینَ یَغُضُّون --- لهم مَغْفِرَة ۔۔۔ اگر برے کاموں پر سرزنش کی جائے تو اچھے کاموں پر حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہیے۔

۲۔ ظاہری ادب باطنی تقویٰ کی علامت ہے ۔الّذین یَغُضُّونَ --- اِمتَحَنَ اللّٰه قُلُوبَهُمْ لِلتّقوٰی (یعنی جو دھیمے لہجے میں بات کرتے ہیں وہ با تقویٰ دل کے مالک ہیں)۔

۳۔ اب جبکہ ہم پیغمبر اسلام کی بارگاہ میں تو نہیں ہیں لیکن حضرت کے مرقد کی زیارت کے آداب اور حضرت کے برحق جانشینوں کا ادب اپنی جگہ باقی ہے۔

۵۔ عارضی اور چند لمحوں کا ادب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ابھی تقویٰ کی گہرائی حاصل نہیں ہوئی ہے۔

۵۔ قرآن میںجہاں پر بھی کلمہ ''مغفرت'' اور ''اجر''آیا ہے، پہلے مغفرت کی بات کی گئی ہے کیونکہ جب تک ہم گناہوں سے پاک نہیں ہوں گے تب تک لطف الٰہی حاصل نہیں کرسکیں گے۔ولَهُمْ مَغْفِرَة و أجر عَظِیْم-

گفتگو کے آداب:

اس آیت میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے گفتگو کے آداب بیان کیے گئے ہیں ۔اب ہم اسلام کے ان بنیادی اصول کا ذکر کرتے ہیں جن کا تعلق گفتگو کے آداب سے ہے۔

۱۔ گفتار کو کردار کے ساتھ ہونا چاہیے وگرنہ یہ قابل سرزنش ہے-(لِمَ تَقُولُونَ مَا

۵۱

لَا تَفْعَلُونَ) (۱)

۲۔ گفتار کو تحقیق کے ہمراہ ہونا چاہے۔ (ہدہد نے حضرت سلیمان ـ سے کہا کہ میں تحقیق شدہ اور یقینی خبر لایا ہوں۔(بنبائٍ یقین) (۲)

۳۔ گفتار کو دلپسند ہونا چاہیے۔(الطّیّب مِنَ الْقَول) (۳)

۵۔ گفتار کو رسا اور شفاف ہوناچاہیے۔(قولاً بَلِیْغًا) (۴)

۵۔ گفتار کو نرم لہجے میں بیان کیا جائے۔(قولاً لَیّنًا) (۵)

۶۔ گفتار کا انداز بزرگوارانہ ہو۔(قولاً کریماً) (۶)

۷۔ گفتار کو قابل عمل ہونا چاہیے-(قولاً میسورًا) (۷)

۸۔ سب کے لیے اچھی بات کی جائے نہ کہ فقط خاص گروہ کے لیے-(قولاً للنّاس حُسنًا) (۸)

۹۔ اپنی گفتار میں بہترین انداز اور مطالب کا انتخاب کیا جائے۔(یقولوا الّتی هی احسن) (۹)

۱۰۔ گفتار میں لغویات اور باطل کی آمیزش نہ ہو۔(اجتنبوا قَوْلَ الزُّور) (۱۰)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)۔سورئہ صف، آیت ۲ (۲)۔ سورئہ نمل، آیت ۲۲

(۳)۔ سورئہ حج، ۲۵ (۵)۔ سورئہ نسائ، آیت ۶۳

(۵)۔ سورہ طہ، آیت ۵۵ (۶)۔سورئہ بنی اسرائیل ، آیت ۲۳

(۷)۔ سورئہ بنی اسرائیل، آیت ۲۸ (۸)۔ سورئہ بقرہ، ۸۳

(۹)۔ سورئہ اسرائ، آیت ۵۳ (۱۰)۔ سورہ حج، آیت ۳۰

۵۲

اور(عن اللغّوِ مُعْرِضون) (۱)

عمل کے چند نمونے:

٭ اس آیت میں ایسے افراد کی تعریف کی گئی ہے جو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور ادب کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنی آواز دھیمی رکھتے تھے۔ ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم مقرر کیا گیا ہے۔

قرآن مجید میں ادب اور بے ادبی کے ذکر شدہ نمونوں میں سے دو کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

۱۔ جب حضرت آدم ـ اور ان کی اہلیہ نے ممنوعہ درخت سے پھل کھالیا تب ان کی سرزنش کی گئی۔ جس پر وہ شرمندہ ہوئے، توبہ کی اور معذرت طلب کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی۔ یہ معذرت کرنا خود ایک ادب ہے جس کی وجہ سے آدم ـ اور ان کی اہلیہ کو نجات ملی۔

کربلا میں حضرت حر ـ نے امام حسین ـ کا ادب کیا جبکہ شروع میں وہ یزیدی لشکر میں تھے۔ لیکن نماز جماعت میں امام حسین ـ کی اقتداء میں ادا کی اور کہا کیونکہ آپ کی والدہ حضرت زہرا٭ ہیں اس لیے میں آپ کا احترام کرتا ہوں۔ شاید اُن کا یہی ادب ان کی عاقبت بالخیر کا باعث بن گیا ہو۔

۲۔ ابلیس نے حضرت آدم ـ کو سجدہ نہیں کیاتو اس کی سرزنش کی گئی، توبہ اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱۰)۔ سورئہ مومنون، آیت ۳

۵۳

معذوت کرنے کی بجائے اُس نے بے ادبی کی اور کہا: میں اُسے سجدہ نہیں کروں گا، میں آگ سے خلق ہوا ہوں اور آگ خاک سے افضل ہے۔ درحقیقت اس نے فرمان الٰہی کو ٹھکرایا تھا اِسی بے ادبی نے اُسے ہمیشہ کے لیے لعنت و ملامت کا مستحق قرار دے دیا۔

اجر خداوندی کا امتیاز:

لوگوں کے دیئے ہوئے اجر کی مدت کم، معمولی اور سطحی ہوتی ہے اور یہ اجر احسان جتا کر دیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سے نقائص پائے جاتے ہیں اس بات سے صرف نظر کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ (بیوی ، شوہر ، فرزند ،شریک ، دوست، ہمسایہ، حکومت اور) دوسرے افراد ہمارے بہت سے کاموں سے آگاہ نہیں ہوتے کہ وہ ہمیں اس کا اجر دے سکیں۔کبھی حسد کی بنا پر اور کبھی بخل کے باعث جانتے ہوئے بھی أجر نہیں دیا جاتا یا پھر کبھی غربت و ناداری آڑے آجاتی ہے جس کے باعث اجر دینے کی طاقت نہیں ہوتی۔ خدا کے علاوہ کوئی بھی انسان کے معیوب اور کم مقدار کام کو قبول نہیں کرتا۔

بعض اوقات یہ اجر ایک تالی، سیٹی، یا درود بھیجنے تک محدود ہوجاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ معمولی سا کام بھی قبول کرلیتا۔فمن یعمل مثقال ذرّةٍ خیراً یَرَه ۔ ناقص اعمال بھی مقبول ہوجاتے ہیں جیسا کہ ہم نماز کی تعقیبات میں یہ پڑھتے ہیں: اے پروردگار! اگر میری نماز کے رکوع اور سجود میں نقص رہ گیا ہو تو میری اُس ناقص نماز کو قبول فرما۔

۵۴

اللہ تعالیٰ عیب کو پوشیدہ رکھتا ہے اور خوبیوں کو ظاہر کرتا ہے ۔یَا مَنْ أَظْهر الجمیل وَسَتَرَ القبیح ۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہشت جاویدان کے بدلے خرید لیا ہے۔ جب کہ دوسرے ہمارے کاموں کو فراموش کربیٹھتے ہیں۔

۵۵

آیت نمبر ۵اور ۵

ِنَّ الَّذِینَ یُنَادُونَکَ مِنْ وَرَائِ الْحُجُرَاتِ َکْثَرُهُمْ لاَیَعْقِلُونَ-

بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان کی اکثریت کچھ نہیں سمجھتی ہے۔

وَلَوْ َنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّی تَخْرُجَ ِلَیْهِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَهُمْ وَاﷲُ غَفُور رَحِیم -

اور اگر یہ اتنا صبر کرلیتے کہ آپ نکل کر باہر آجاتے تو یہ ان کے حق میں زیادہ بہتر ہوتا اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔

نکات:

Oاگرچہ پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حجروں کے پیچھے سے آواز دینا ایک گذشتہ واقعہ ہے لیکن ہم سب کیلئے درس ہے۔

جیسا کہ ہم تفسیر روح المعانی میں پڑھتے ہیں کہ جب ابن عباس اپنے استاد کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ تو دروازے پر دستک دیئے بغیر استاد کے باہر آنے تک کھڑے رہتے تھے۔ اور جب آپ سے کوئی اس چیز کا سبب پوچھتا تھا تو آپ قرآن کی اس آیت( وَلَو َنَّهُم صَبَرُوا حَتَّی تَخرُجَ ِلَیهِم لَکَانَ خَیرًا لَهُم) کی تلاوت فرماتے تھے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح ابن عباس اس آیت سے جو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں نازل ہوئی تھی درس لے رہے ہیں لہٰذا کوئی یہ نہ کہے کہ آج تو دنیا میں ''ابو لہب''

۵۶

موجود نہیں ہے اس آیت ''تبت ید أبی لھب'' کے کیا معنی ہوں گے؟ اگرچہ آیت میں خاص شخص کا نام ہے لیکن اس کا ہدف اس شخص کی فکر اور اعمال ہیں ابو لہب ایک کافر اور بدعمل شخص تھا۔ اگر آج اس آیت کی تلاوت کی جاتی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں ''اے مسلمانوں کے خلاف سازش اور سوء قصد کرنے والوں، اے الٰہی نمائندوں کی نافرمانی کرنے والو تمہارے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور تم ہلاک ہوجاؤ۔

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حجروں کی تعداد نو تھی جو کھجور کی شاخوں سے بنے ہوئے تھے۔ اور ہر دروازے پر بکرے کے بالوں کا بنا ہوا پردہ آویزاں تھا۔ ہر حجرہ کی لمبائی دس ذراع (تقریباً پانچ میٹر) اور اونچائی سات سے آٹھ ذراع (تقریباً چار میٹر) تھی۔عبدالملک کے دوران حکومت میں ان حجروں کو توڑ کر مسجد میں شامل کردیا گیا تھا۔ جب ان حجروں کو توڑا گیا تو لوگوں کے گریہ و زاری کی آوازیں بلند تھیں۔ سعید بن مسیّب کا کہنا ہے کہ میں یہ چاہتا تھا کہ یہ تمام حجرے اُسی طرح باقی رہیں تاکہ لوگ انہیں دیکھ کر سادگی کا درس لیتے۔

پیغامات:

۱۔لوگوں کی اجتماعی اور فردی حیثیت کو ملحوظ نظر رکھنا چاہیے۔ (گلی کوچہ میں سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو آواز دینا اور پنی بات منوانا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان کی خلاف ہے)(یُنَادُونَکَ مِنْ وَرَائِ الْحُجُرَاتِ)

۲۔ اگر کوئی شخص ایک مرتبہ غیر مؤدبانہ حرکت کرے تو اُسے کم عقل نہیں سمجھنا چاہیے وہ لوگ کم عقل ہیں جو ہمیشہ حجروں کے پیچھے سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو آواز دے کر آپ کے

۵۷

باہر نکلنے کے منتظر رہتے تھے۔ ینادونک فعل مضارع ہے جو فعل کے استمرار پر دلالت کرتا ہے۔

۳۔ کم عقل وہ لوگ ہیں جو اہانت کی غرض سے اس طرح آواز دیتے ہیں لیکن جو لوگ عادتاً یہ کام کرتے ہیں وہ اس حکم میں شامل نہیں ہیں۔(َکْثَرُهُمْ لاَیَعْقِلُونَ) (جیسا کہ کبھی کبھی والدین اپنے بچے کو ایک معمولی نام سے پکارتے ہیں ان کا مقصد ہرگز اہانت نہیں ہوتا۔ جبکہ کوئی دوسرا اگر اہانت کی غرض سے پکارے تو اس کا حکم اُن سے جدا ہے)

۵۔گلی کوچہ میں چیخ و پکار اور خدائی نمائندہ کے ساتھ بے ادبی سے پیش آنا کم عقلی پر دلیل ہے۔(ینادونک لا یعقلون)

۵۔ مودّب ہونا عقلمندی کی دلیل ہے(الَّذِینَ یُنَادُونَکَ ---لاَیَعْقِلُونَ) امام علی ـ سے نقل ہے جو مودّب نہیں ہے وہ عقلمند نہیں ہے۔

۶۔ تربیت اور اصلاح کی ایک راہ یہ ہے کہ غیر مودّب افراد کو تنبیہ کی جائے۔(الَّذِینَ یُنَادُونَکَ ---)

۷۔ اگر کسی برے عمل کی تکرار ہو تو سرزنش ضرور کرنی چاہیے۔(یُنَادُونَکَ ---لاَیَعْقِلُونَ)

۸۔ دوسروں کے آرام و سکون کا خیال رکھنا چاہے۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھی آرام و سکون چاہیے اور انہیں اپنے گھر کے مسائل کے لیے بھی وقت درکار ہے۔ ہر وقت ان کے مزاحم نہیں ہونا چاہیے۔( لَوْ َنَّهُمْ صَبَرُوا)

۵۸

مزاحمت، بے جا توقع، اور کسی پر بے جا دباؤ ڈالنا صحیح نہیں ہے۔

۹۔ صبر ادب کی نشانی ہے۔(صَبَرُوا حَتَّی تَخْرُج)

۱۰۔ لوگوں سے ملاقات کیلئے وقت کا تعین رہبر کو کرنا ہے۔(حَتَّی تَخْرُجَ ِلَیْهِمْ)

۱۱۔ پیغمبر اسلام نے لوگوں سے ملاقات کا وقت معین کیا ہوا تھا لہٰذا گلی میں بلند آواز سے بلانے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔(حَتَّی تَخْرُجَ ِلَیْهِمْ)

۱۲۔ بے ادب، غیر مودّب افراد کے ساتھ درگذشت اور مہربانی کے ساتھ پیش آنا چاہیے، تاکہ وہ مایوس نہ ہوں اور اپنی اصلاح کریں۔ خدا نے ایسا ہی کیا ہے۔( وَلَوْ َنَّهُمْ صَبَرُوا --- وَاﷲُ غَفُور رَحِیم )

۵۹

آیت نمبر ۶

یَاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا ِنْ جَائَ کُمْ فَاسِق بِنَبٍَ فَتَبَیَّنُوا َنْ تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِینَ -

ترجمہ:

اے ایمان والو اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قوم تک ناواقفیت میں پہنچ جاؤ اور اس کے بعد اپنے اقدام پر شرمندہ ہونا پڑے۔

نکات:

O سوال۔ اس آیت میں خبر کی تحقیق کا حکم آیا ہے۔ جبکہ اسی سورہ کی بارھویں آیت میں لوگوں کے امورمیں تجسس سے منع فرمایا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ تجسس حرام ہو اور تحقیق کرنا واجب؟

جواب: کسی شخص کی فردی زندگی کے بارے میں تجسس کرنا جس کا معاشرہ سے کوئی تعلق نہ ہو حرام ہے۔ لیکن اگر انسان کے فعل کا تعلق معاشرتی زندگی سے ہو تو ایسی صورت میں تحقیق ضروری ہے۔ اس لیے کہ اگر بغیر تحقیق کے خبر لانے والے پر اعتماد کرتے ہوئے، کوئی اقدام کیا جائے تو ممکن ہے کہ پورا معاشرہ فتنہ و فساد میں مبتلا

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

كے عنوان سے معروف ہوا _ وہ ابوحنيفہ كى آراء بالخصوص احكام شرعى كى تشخيص كے سلسلے ميں ابوحنيفہ كے فقہى قياس اور نظريات كے مد مقابل اپنے مخصوص نظريات ركھتے تھے انہوں نے سعى كى كہ فقہى روش پر حديث كى كتاب لكھ كر اپنى آراء پيش كريں اس كتاب ميں جس كا نام مؤطا ہے مالك سب سے پہلے حديث نقل كرتے ہيں پھر مدينہ كے فقہاء كا فتوى ذكر كرتے ہيں اسكے بعد اپنى فقہى نظر پيش كرتے ہيں انكا نظريہ يہ تھا كہ احكام شرعى كيلئے روايات جيسى مستند دليل كے ہوتے ہوئے قياس يا اپنى رائے كى طرف نہيں آنا چاہيے_ مالكى مذہب بتدريج شمالى آفريقا ، مصر اور اندلس ميں رواج پاگيا(۱)

اہل سنت كے تيسرے فقہى مكتب كو ابوعبداللہ محمد بن ادريس شافعى(۲) (۲۰۴ _ ۱۵۰ قمرى ) نے تشكيل ديا وہ چونكہ دونوں حنفى اور مالكى مذاہب كے بارے ميں معلومات ركھتے تھے اسى ليے انہوں نے كوشش كہ ان دو مذاہب ميں اساسى امتزاج پيدا كيا جائے اور اس امتزاج اور وحدت پر جديد فقہ كو تشكيل ديا جائے(۳) ليكن اسكے ساتھ ساتھ انہوں نے حنفى مكتب كے استحسان اور مالكى مكتب كى استصلاح كى بھى مخالفت كي_ انہوں نے اپنى فقہى آراء كے اساسى قواعد كو اصول الفقہ كے متعلق ايك رسالہ ميں تحرير كيا _ مصر ميں صلاح الدين ايوبى كے ذريعے فقہ شافى رائج ہوئي(۴) اور اس فقہ كے عراق اور مكہ ميں بھى حامى موجودہيں(۵)

اہل سنت كا چوتھا فقہى مكتب احمد بن حنبل(۶) (۲۴۱ _ ۱۶۴ قمري) كى طرف منسوب ہے جو فقہ حنبلى كے عنوان سے مشہور ہے _ احمد بن حنبل علماء حديث كے بڑے مفكرين ميں سے شمار ہوتے ہيں انہوں نے شافعى

____________________

۱)كاظم مدير شانہ چى ، علم الحديث، مشہد ص ۳۶_

۲)محمد ابوزہرہ ، امام شافعى حياتہ و عصرہ و آرا و فقہہ ، قاہرہ_

۳) ج م عبدالجليل ، تاريخ ادبيات عرب، ترجمہ آذر تاش آذرنوش ، تہران ص ۱۷۵_

۴)قيس آل متين ، سابقہ ما خذ ، ج ۵ ص ۵_

۵) بوجينا غيانة ، سابقہ ما خذص ۱۷۴_

۶)ذائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۶ ، ذيل احمد بن حنبل_

۱۰۱

كے ہاں درس پڑھا(۱) تيس ہزار احاديث پر مشتمل حديث كى مسند لكھ كر دوسروں كو اپنى طرف متوجہ كرليا(۲) انكى فقہ كى بنياديں كتاب ، سنت ، صحابہ كے فتاوى ، قياس، استحسان ، مصالح او رذرايع سے تشكيل پائيں انكے مذہب كے سب سے زيادہ پيروكار حجاز ميں ہيں(۳)

فقہ حنبلى كے حوالے سے ايك نكتہ يہ ہے كہ چونكہ احمد بن حنبل آراء او رنظريات كے مكتوب شكل ميں جمع كرنے كے مخالف تھے اسى ليے انكے شاگردوں اور بعد ميں آنے والے حنبلى مسلك افراد كى آراء ميں جو احمد بن حنبل سے نقل كى گئي ہيں خاص فرق حتى كہ تضاد بھى نظر آتا ہے اور كبھى تو كسى ايك مسئلہ ہيں انكا نام ليكر نقل ہونے والے متضاد اقوال چار يا پانچ كى تعداد تك بھى ہيں(۴)

اہل سنت كے ان چار اماموں كے بعد سنى فقہ نے اپنى جدت اور تحرك كو كھوديا_ چوتھى صدى سے تيرھويں صدى تك ان آئمہ كے آثار پرصرف حاشيہ يا انكى شرح و تفسير كى حد تك كام ہوا ان مذاہب كے فقہاء نے انكى آراء كے ساتھ تقريبا كوئي نئے نكتے كا اضافہ نہ كيا اسى ليے اہل سنت كى فقہ ميں اجتہاد ان چار اشخاص كى تقليد ميں تبديل ہوكر رہ گيا اگر چہ ان چار آئمہ ميں اجتہاد كو منحصر كرنے پر كوئي بھى عقلى اور نقلى دليل موجود نہ تھى ليكن بتدريج اور حاكموں كے سياسى مقاصد اور كاموں كى بناء پر اس مسئلہ ميں اجماع كى كيفيت پيدا ہوگى كہ اب اسكے خلاف آواز بلند كرنا آسان كام نہ تھا(۵) ليكن تيرھويں صدى ہجرى سے عالم اسلام ميں واضح تبديلياں پيدا ہوئيں _ عصرى تقاضوں ، زندگى اور معاشرتى روابط ميں گہرى اور وسيع تبديليوں كے پيش نظر اہل سنت كے بعض فقہاء فقط ان چار آئمہ كى تقليد ميں منحصر ہونے كے مسئلہ ميں شك و ترديد كا شكار ہوگئے_

____________________

۱)وحينا غيانة ، سابقہ ما خذص ۱۷۷ _

۲)كاظم مدير شانہ چي، سابقہ ما خذص ۵۵_

۳)دائرة المعارف بزرگ اسلامي، سابقہ ما خذ_

۴)رجوع كريں ، ابن حبيرہ الافصاح عن معافى الصحاح، حلب ج ۱ ص ۵۴_

۵) ابوالفضل عزتى ، سابقہ ما خذص ۸۳ _ ۷۱ _

۱۰۲

بتدريج اہل سنت كے فقہاء يہ بات سمجھ گئے كہ ان آئمہ كى تقليد پر كوئي عقلى و نقلى حكم اور معتبر دليل موجود نہيں ہے وہ بھى ان چار فقہاء كى مانند شرعى مسائل ميں اجتہاد كرسكتے ہيں اس حوالے سے مصر كے عظيم مفتى شيخ محمود شلتوت نے شيعہ فقہاء كى آراء پر توجہ كرتے ہوئے شيعہ فقہا كى آرا كى پيروى كے جواز كا اعلان كر كے ايك اہم ترين قدم اٹھايا _ (يہ بات قابل ذكر ہے كہ ان مندرجہ بالا چارمسالك كے علاوہ ديگر مسلك اور مكاتب بھى دائرہ وجود ميں آئے جن ميں سے بعض مسالك مثلا زيديہ اور اسماعيليہ شيعہ مسالك ميں شمارہوتے ہيں اور اپنى فقہ اور پيروكاروں كے ساتھ عہد حاضر ميں موجود ہيں اور بعض مسالك جو كسى سے وابستہ نہيں ہيں مثلا اباضى مسلك كہ جو خوارج كے مسلك ميں سے ابھى تك اپنا وجود برقرار ركھے ہوئے ہے(۱) يا ديگر مسالك مثلا مسلك اوزاعى (متوفى ۱۵۰ قمري) اور مسلك سفيان ثورى (متوفى ۱۶۱ قمري) اور مسلك داود بن على ظاہرى (متوفى ۲۷۰ قمري) كہ يہ سب سنى مسالك ميں سے شمار ہوتے ہيں ليكن بہت كم پيروكاروں كى بناء پر زيادہ عرصہ تك نہ چل سكے(۲)

ليكن ان تمام مسالك ميں ايك معمولى ساموازنہ كرتے ہوئے ہم ديكھتے ہيں كہ زيدى مسلك بہت زيادہ پيروكاروں اور بے شمار علما، محدثين ، معروف فقہاء اور مؤلفين كى بناء ايك ممتاز مقام كا حامل ہے اس مذہب كى بعض كتب مندرج ذيل ہيں :

زيد بن على بن الحسين (ع) سے منسوب '' المجموع''(۳) يحيى بن حسين (۹۸_ ۲۴۵قمري) كى جامع الاحكام فى الحلال و الحرام احمد بن يحيى المرتضى (۸۴۰ _ ۷۷۵قمري) كى البحر الزخار، ابراہيم بن محمد كى الروض فى الحامل شرح الكافل حسن بن احمد (متوفى ۱۰۴۸) كى ضوء النہار فى شرح الازہار اور محمد بن على الشوكانى (متوفى ۱۲۲۱)

____________________

۱)رجوع كيجئے : موسوعة الفقہ الاسلامى ج ۱ ص ۳۲ ، صبحى الصالح ، انظم الاسلامية ، نشا تہا و تطورہا ص ۲۰۷ ، صبحى رجب محمصانى ، فلسفة التشريع فى الاسلام ج ۵ ص ۶۹ _۷۰_

۲)عبدالكريم زيدان، المدخل لدراسة الشريعة الاسلامية ، بيروت ج ۱۱ ص ۱۴۸_

۳) سابقہ ما خذ_

۱۰۳

كى الدرر البھية والسيل الجرار و نيل الاوطار(۱) (زيدى مذہب سے كافى عرصہ كے بعد ہم داود بن على الظاہرى سے منسوب ظاہرى مذہب كا نام لے سكتے ہيں كيونكہ اسكے پيروكار بہت ہى كم تھے اور آج تقريباً موجود نہيں ہيں اس مذہب كى بنيادى فقہى كتا ب'' المحلى '' ہے كہ جسے ابن حزم ظاہرى نے تحرير كيا اس مذہب كے استحكام اور بقاء كا باعث تھى اسى شخص كى خدمات جانى گئيں(۲)

۵_ اصول

اسلامى علوم ميں وہ علم كہ جو اصلى منابع اور مصادر سے اسلامى احكام اور قوانين كے استنباط كيلئے تدوين ہوا علم اصول ہے يہ علم وجود ميں آنے كے بعد سے اب تك نو مراحل سے گزرا:_

۱)وجود ميں آنے كا دور: اس دور ميں اس علم كى تدوين اور اسكے مقدمات بيان كرنے كيلئے سب سے پہلى كوششيں ہوئيں _ شيعہ محققين كى رائے كے مطابق اس علم كے خالق امام باقر (ع) اور امام صادق (عليہما السلام ) ہيں _ اگر چہ عصر حاضر كے كچھ محققين كا خيال ہے كہ اصلى قواعد كا سادہ انداز ميں استعمال صدر اسلام سے ہى رائج تھا(۳)

۲) تصنيف كے دور كا آغاز: اس دور ميں علم اصول جس كا ذكر فقہى مسائل كے درميان ہوتا تھا جداگانہ شكل ميں سامنے آيا_ ميرے خيال ميں علم اصول كى سب سے پہلى تصنيف جناب حشام بن حكم كى ہے كہ جواماميہ متكلمين كے سربراہ شمار ہوتے ہيں انہوں نے كتاب '' الفاظ و مباحثہا'' تحرير كى(۴)

____________________

۱) موسوعة الفقہ الاسلام ، سابقہ ما خذ، الحليمي، الروض النضير ، مقدمہ ، دائرة المعارف بزرگ اسلام ج ۲ ص ۵۹ _۱۶۴ ، على بن عبدالكريم شرف الدين ، الزيدية نظريہ و تطبيق ، العصر الحديث ج ۲ ص ۱_۳ اور اسكے بعد ، فواد سزگين ، تاريخ التراث العربى ج ۱ ، جزء ۳ عربى ، ص ۳۵۳_

۲)مصطفى الزلمى ، اسباب اختلاف الفقہاء فى احكام الشريعة ص ۵۶_

۳)حسن شفايي، ملاك اصول استنباط، ص ۹ ، حسن ہادى الصدر، تاسيس الشيعہ لعلوم الاسلام بغداد ، ابولاقاسم گرجى ، مقالات حقوقى ،ج۲ ص ۱۱۷، ۱۱۳_

۴) ابوالقاسم گرجي، سابقہ ما خذص ۱۱۹ _ ۱۱۸_

۱۰۴

۳)علم اصول كے علم كلام كے ساتھ ملاپ كا دور: يہ دور جو كہ زيادہ تر اہل سنت كے حوالے سے ہے ، اہل سنت كے متكلمين بالخصوص معتزلہ علم اصول ميں داخل ہوئے اور اسے اسكے اصلى راہ '' فرعى و فقہى احكام كے استنباط'' سے ہٹا ديا_ اس دور ميں اہل سنت كے مولفين ميں سے ''كتاب آراء اصولى ابوعلي'' كے مصنف محمد بن عبدالوہاب بن سلام جبائي ( متوفى ۳۰۳ قمرى )كتاب التحصيل كے مصنف ابو منصور عبدالقاہر بن طاہر تميمى اسفراينى (متوفى ۴۲۹ قمري) اور كتاب '' المستصفى ''كے مصنف ابوحامد غزالى (متوفى ۵۰۵ قمرى ) قابل ذكر ہيں _

۴)علم اصول كے كمال اور دوبارہ جدا ہونے كا دور : يہ دور جو كہ مكتب شيعہ كے حوالے سے ہے علم اصول بتدريج پختگى كى منازل طے كر گيا اور كافى حد تك علم كلام كے مسائل سے جدا ہوگيااس دور كے اہم ترين آثار كے جنہوں نے علم اصول كو ترقى كى انتہائي بلنديوں تك پہنچا ديا وہ ابن ابى عقيل ، شيخ مفيد اور شيخ طوسى كى تصنيفات و تاليفات ہيں _

۵)استنباط كے جمود اور علم اصول ميں ٹھہراؤ كا دور: شيخ طوسى كے علمى نبوغ اور عظمت كى بناء پر تقريباً ايك صدى تك مختلف علوم بالخصوص اصول فقہ ميں انكى آرا، اور نظريات بغير كسى علمى تنقيد كے باقى رہے اور اس دور كے مولفين كى كتب پر انكے آثار كى تقليد كى چھاپ باقى رہى _ مثلا سديد الدين حمصى رازى كى كتاب مصادر اور حمزہ بن عبدالعزيز المعروف سلار كى كتاب '' التقريب'' ميں يہ تقليد ديكھى جاسكتى ہے مجموعى طور پر اس دور كے تمام فقہى استنباط اور نتائج شدت كے ساتھ شيخ طوسى كى آراء سے متاثر تھے_

۶) تجديد حيات كى تحريك: اس دور كى خصوصيات ميں سے يہ ہيں كہ ايك طرف روح اجتہاد دوبارہ زندہ ہوئي اور دوسرى طرف گذشتہ بزرگان دين كى كتب كى شرح ، حاشيہ اور تلخيص كى گئي اور فن منطق كے بعض مسائل علم اصول ميں داخل ہوئے اس دور كے علما اور بزرگ محققين ميں سے محمد بن ادريس حلى (متوفى ۵۹۸ قمرى )محقق حلى ، علامہ حلي، فاضل مقداد اور شيخ بہائي قابل ذكر ہيں(۱)

____________________

۱)سابقہ ما خذ ص ۱۲۱ ، ۱۳۰ ، ۱۳۵_

۱۰۵

۷)علم اصول ميں ضعف كا دور : تشيع كى علمى محافل اور حوزات ميں اخبارى مكتب فكر كى طرف ميلان بڑھنے سے علم اصول كى گذشتہ ادوار كى مانند رونق ختم ہوگئي اس دور ميں اخباريوں اور اصوليوں ميں شديد نزاع رہا، اس دور كى اخبارى مكتب فكر ميں اہم ترين تاليف '' كتاب فوائد المدنيہ'' ہے كہ جو محمد امين استر آبادى (متوفى ۱۰۳۳) نے تاليف كي_

۸)علم اصول كا جديدد ور: جناب وحيد بہبہانى كے علمى حوزات ميں ظاہر ہونے سے علم اصول بتدريج دوبارہ ترقى كے زينوں كى طرف بڑھنے لگا، آپ اور آپكے شاگردوں نے اپنى حيرت انگيز صلاحيتوں سے مالامال علمى طاقت سے اخبارى مكتب فكروالوں كے تمام شبہات اور تہمتوں كا جواب ديا اور يہ ثابت كرنے كيلئے بہت زيادہ كوشش كى كہ فقہى مسائل تك پہنچنے كيلئے ہم سب فقط اصولى قواعد كے محتاج ہيں اس دور ميں علامہ وحيد بہبہانى كے علاوہ عظيم علمى شخصيات ميں سے سيد مہدى بحر العلوم (متوفى ۱۲۱۲ قمري) كاشف الغطاء (متوفى ۱۲۲۷قمري) اور سيد على طباطبائي (متوفى ۱۲۲۱ قمري) قابل ذكر ہيں(۱)

۹)عصر حاضر : يہ دور جو كہ حقيقت ميں علم اصول كى معراج كا دور شمار ہوتاہے شيخ مرتضى انصارى (متوفى ۱۲۸) كے ظہور سے شروع ہوا اور انكے بعد انكے شاگردوں كى كوششوں سے جارى رہا _ واقعى بات تو يہى ہے كہ اس دور ميں علم اصول كى ترقى كاگذشتہ ادوار ميں كسى دور سے موازنہ نہيں كياجاسكتا اس دور ميں علم اصول ميں تحقيقات كيفيت اور كميت كے اعتبار سے وسيع ہونے كے ساتھ ساتھ انتہائي عميق بھى ہيں(۲)

۶_ كلام

اسلامى تمدن كے زير سايہ علم كلام كى پيدائشے كى كچھ وجوہات تھيں ان ميں سے ايك مسلمانوں كا غير مسلم اقوام مثلا ايرانيوں ، روميوں اورمصريوں سے تعلقات تھے ان روابط اور تعلقات كى بناء پر عقائد و نظريات

____________________

۱)سابقہ ما خذ ص ۱۳۸_

۲)مرتضى مطہري، آشنائي با علوم اسلامى ، بخش اصول فقہ ص ۲۶۳_

۱۰۶

ميں اختلاف آشكار ہوا _ مسلمانوں نے دين اسلام كے دفاع كيلئے نئي فكرى اور استدلالى روشوں كو سيكھا_ اسى طرح اس علم كے وجود ميں آنے كى دوسرى وجہ ايسى اقوام كا اسلام قبول كرنا قرار پائي كہ جو اپنے مذاہب ميں اللہ تعالى كى صفات، توحيد ، قضا و قدر اور جزا و سزا و غيرہ كے مسائل ميں مخصوص عقائد و نظريات كے حامل تھے_ اسى بناء پہ نئے مسلمان لوگ اسى كوشش ميں رہتے تھے كہ اپنے سابقہ دينى عقائد كو دين اسلام كے سانچے ميں ڈھال كر پيش كريں اسى ليے مسلمانوں نے بھر پور كوشش كى كہ عقلى دلائل سے بہرہ مند ہوكر اسلام كے بنياد ى عقايد كو مستحكم اور پائيدار بنائيں(۱)

علم كلام اپنے آغاز ميں فقط عقائدى مسائل بالخصوص توحيد و غيرہ پر بحث كرتا تھا اور جو شخص عقائد كے امور ميں دليل سے بات كرتا اسے متكلم كہا جاتاتھا اور خود دينى عقائد اور اصول ميں بحث اور جدل كرنے كو علم كلام كا نام دياگيا _ اسلام كے بڑے متكلمين ميں سے جنہوں نے كلامى نظريات اور مسالك كى تشكيل ميں اہم كردار ادا كيا حسن بصرى (۱۱۰ _ ۲۱ قمري) كى طرف اشارہ كيا جاسكتاہے كہ جو گناہوں كے حوالے سے بہت سخت موقف ركھتے تھے _ انكا عقيدہ تھا كہ تمام افعال فقط انسانى مرضى كى بناء پر انجام پاتے ہيں

دوسرى صدى ہجرى ہيں ابو محرز جھم بن صفوان نے مسلك جھميہ كو تشكيل ديا _ اس مسلك كے ماننے والوں كا نظريہ يہ ہے كہ اللہ تعالى كى شناخت كيلئے فقط ايمان كافى ہے ديگر عبادات سے اس كا كوئي ربط نہيں ہے اور كوئي بھى اللہ تعالى كے ارادے كے سوا فعل انجام نہيں ديتا_ پس انسان اپنے افعال ميں مجبور ہے(۲)

تيسرى صدى ہجرى ميں ابو سہل بشر بن معتمر ہلالى كوفى بغدادى (متوفى ۲۱۰قمري) نے مسلك بشرية كو تشكيل ديا _ اسكا نظريہ يہ تھا كہ اللہ تعالى قادر ہے اور اس نے اپنے بندوں كو اپنے كام كرنے پر قادر كيا ہے ليكن يہ مناسب نہ سمجھا كہ حيات، موت اور قدرت جيسے امور بھى انسانوں كے سپرد كرے(۳)

____________________

۱) علامہ شبلى نعماني، تاريخ علم كلام، ترجمہ داعى گيلاني، ص ۸_

۲)خير الدين زركلى ، الاعلام ، ج ۲ ص ۲۲۶_

۳) محمد شہرستاني، الملل و النحل، محمد جواد شكور كى سعى سے ، ج۱، ص ۷۲_

۱۰۷

چوتھى صدى ميں ہم چند مشہور و معروف متكلمين كا عرصہ وجود ميں ظہور كا مشاہدہ كرتے ہيں ان ميں سے ايك شيخ مفيد ہيں انكى تقريباً دو سو كے قريب تاليفات تھيں كہ جن ميں سے اكثر مختلف كلامى مسالك كے عقائد كى رد پر لكھى گئيں _ اسى صدى كے دوسرے مشہور متكلم شيخ الطايفہ ابوجعفر محمد بن حسن طوسى ہيں وہ سب سے پہلے شخص تھے كہ جنہوں نے نجف كو شيعہ مكتب كے علمى اور دينى مركز ميں تبديل كيا انكى كلام ميں مشہور كتابوں كے نام مندرجہ ذيل ہيں :الشافي، الاقتصادالہادى الى الرشاد اورتمھيد الاصول_

پانچويں صدى ميں مشہور متكلم ابوحامد محمد غزالى پيدا ہوئے_ غزالى كا عقيدہ تھا كہ متكلمين نے اس زمانہ ميں دين كى نصرت كيلئے قيام كيا كہ جب دينى فرقوں ميں اختلاف بڑھ گيا تھا اور لوگوں كے دلوں ميں ايمان متزلزل ہوچكا تھا انہوں نے عقلى اور منطقى دلائل كے ساتھ شبہات پيدا كرنے كا راستہ بند كرديا تھا نيز انكا عقيدہ تھا كہ عوام كو علم كلام سے دور كرنا چاہيے كہ اگر ان ميں سے كوئي ''يد'' ، '' فوق'' اور عرش پر استوار'' كا معنى پوچھيں تو بھى انہيں نہ بتائيں خواہ انہيں تازيانے مارنا پڑيں(۱) جس طرح كہ خليفہ دوم حضرت عمرہر اس شخص سے ايسا سلوك كيا كرتے تھے كہ جو تشابہ آيات كے بارے ميں سوال كرتا پانچويں صدى كے ايك اور معروف متكلم ابوالفتح محمد بن عبدالكريم بن احمد شہرستانى ہيں انكى علم كلام ميں معتبرترين كتاب كا نام نہاية الاقدام فى علم الكلام ہے جو علم كلام كے بيس قواعد اور اس علم كے مسائل كى فروع پر تشريح كى حامل ہے(۲)

چھٹى صدى ہجرى كے مشہورترين متكلم امام فخر رازى ياامام المشككين ہيں وہ علم اصول و كلام ميں مكتب اشعرى پر اور فروع دين ميں شافعى مسلك پر تھے انكے بيشتر اعتراضات اورتشكيكات فلسفي، كلامى اور علمى مسائل ميں تھے_ وہ اسلامى عقايد كى تشريح اشعرى مكتب كے اصولوں كى بناء پر كيا كرتے تھے اور فقہ اہل سنت پر عمل پيرا تھے_

____________________

۱)ابوحامد محمد غزالي، المنقد من اللال والمفصح عن الاحوال، محمدحابر كى كوشش سے _ دہر، عبدالكريم گيلانى حاشيہ الانسان الكامل ، قاہرہ_

۲)ابراہيم مذكور، فى الفلسفة الاسلامية، قاہرہ_

۱۰۸

ساتويں صدى ہجرى كے عظيم ترين متكلم خواجہ نصير الدين طوسى ہيں چونكہ خواجہ شيعہ ہونے كے ساتھ ساتھ منگولوں كے بادشاہ ہلاكوخان كى نگاہ ميں اہم مقام كے حامل تھے لہذا اہل سنت كے بہت سے علماء ان سے حسد كيا كرتے تھے اور انہيں سب و شتم كيا كرتے تھے انكى علم كلام ميں اہم ترين كتاب '' تجريد الاعتقاد'' ہے(۱)

ساتويں صدى ميں ابن تيميہ پيدا ہوئے وہ قرآنى علوم، حديث، فقہ، كلام ، فلسفہ اور ہندسہ ميں مہارت ركھتے تھے، وہ مسلمانوں كى سنت كا دفاع كيا كرتے تھے كہ جسكى وجہ سے اہل سنت كے ديگر مسالك كے بہت سے پيروكاروں نے انكى مخالفت كى _ اگر چہ انكا حنبلى مسلك سے تعلق تھا ليكن اس مسلك كے اصول كو اجتہاد كے ذريعہ قبول كرتے تھے اور بدعات كى مخالفت كرتے تھے اور اولياء خدا سے تمسك كرنے اور انبياء كى قبور كى زيارت پر تنقيد كيا كرتے تھے _ علماء اسلام كے ايك گروہ نے انكى مذمت كى جبكہ ايك گروہ نے انكى تعريف كي(۲)

ان تمام گذشتہ صديوں ميں علماء اسلام ميں سے فقط علامہ حلى ہيں كہ جنہيں آيت اللہ كے لقب سے نوازا گيا آپ ساتويں صدى ميں پيدا ہوئے، آپكى چار سو سے زيادہ تاليفات ہيں انہوں نے اپنى علم كلام كے بارے ميں تاليفات ميں سياست كى بحث بھى كي_ وہ سياست كوعين دين سمجھتے تھے انكى علم كلام كى مباحث ميں شيعہ سياسى افكار جلوہ گر ہيں _ انكى علم كلام ميں اہم ترين كتا ب الباب الحادى عشر ہے اسكے ابواب ميں مذہب شيعہ كے مختلف كلامى موضوعات مثلا نبوت، عصمت پيغمبر(ص) كا ضرورى ہونا، پيغمبر (ص) كى افضليت ، پيغمبر(ص) كا نقص سے دور ہونا، امامت ، امام كا معصوم ہونا اور حضرت على (ع) كى امامت كے حوالے سے بحث اور تجزيہ و تحليل كياگيا ہے_(۳)

____________________

۱)ميان محمد شريف، تاريخ فلسفہ در اسلام تہران_

۲)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج ۳ ، ذيل ابن تيميہ_

۳)خوانسارى ، روضات الجنات، لقرآن ص ۴۲۱ _۴۱۹_

۱۰۹

۷_ تصوف، عرفان اورفتوت

تصوف كا لغت ميں معنى '' صوفى بننا'' ہے ، بظاہر سب سے قديمى كتاب كہ جسميں كلمہ صوفى اور صوفيہ استعمال ہوا وہ جاحظ (متوفى ۲۵۵ قمرى ) كى البيان و التبين ہے(۱) ابن خلدون نے اپنے مقدمہ ميں تصوف كو صحابہ ، تابعين اور انكے بزرگان كى روش كے طور پر ذكر كيا(۲) بعض نے لفظ صوفى كو صفا سے ليا كہ جسكا معنى روشنى اور پاكيزگى ہے اور صفوت سے مرادمنتخب ہے ليكن شہرت يہى ہے كہ صوفى صوف سے ليا گيا ہے كہ جسكا معنى پشم ہے اور صوفى يعنى پشم پوش (پشم پہننے والا)(۳)

عرفان كو يورپى زبانوں ميں '' مَيسٹك'' Mystics(۴) كا نام ديا گيا ہے كہ جو يونانى لفظ ميسٹيكوس( Mistikos ) سے ليا گياتھا(۵) اور اسكا مفہوم و معنى ايك مرموز ، پنہان اور مخفى امر ہے_

اور اصطلاح ميں ايسے خاص دينى پہلو پر دلالت كرتاہے كہ جس ميں كسى انسانى فرد كا كائنات كے رب كے ساتھ بلاواسطہ رابطہ اور اتصال پيدا ہونا ممكن ہے اور يہ علم انسان كو خالق كائنات كےساتھ كشف و شہود اور باطنى تجربات كے ذريعے متصل كرتا ہے دوسرے الفاظ ميں عرفان سے مراد وہ روش اور طريقہ كہ جو نظرياتى طورپر علم حضورى كہلاتاہے اور عملى حوالے سے عبادت، كوشش اور زہد و رياضت سے لولگانے كو كہتے ہيں(۶)

دوسرى صدى ہجرى ميں وہ خاص لوگ كہ جو دينى مسائل كى طرف بہت زيادہ توجہ ديتے تھے زاہد، عابد اورمتصوف كہلاتے تھے_ اس دور ميں ہميشہ ميں عبادت ميں مصروف ہونا ، اللہ تعالى كے ليے ترك دنيا،

____________________

۱)عمرو بن بحر حاحظ، البيان و التبين چاپ حسن سندولى قاہرہ ، ج۱ ص ۲۸۳_

۲)ابن خلدون، مقدمہ ، ج۱ ص ۶۱۱_

۳)منصور بن اردشير عبادي، مناقب الصوفيہ ص ۳، ۳۱_

۴) mystic

۵) mistikos

۶)نورالدين كيائي ناد، سير عرفان در اسلام، ص ۷_۶۵_

۱۱۰

دنياوى لذتوں سے دورى اختيار كرنا ، زہد اور ہر وہ چيز كہ جسے لوگ برا سمجھتے ہيں مثلا ثروت جمع كرنے اور جاہ طلبى و غيرہ سے پرہيز كرنا تصوف كہلا تا تھا(۱)

جاحظ اور ابن جوزى نے تقريباً ابتدا كے صوفيوں ميں سے چاليس افر اد كا تعارف كرواياہے جن ميں ابوذر، حذيفہ بن يمان، خباب بن ارث و بلال حبشي، سلمان فارسي، عمار ياسر ، مقداد اور ديگر وہ لوگ كہ جو عبادت اور زہد ميں معروف تھے انكا ذكر ہوا، اسى طرح وہ اشخاص كہ جو صدر اسلام كے شيعوں ميں سے شمار ہوتے ہيں(۲)

تيسرى صدى كے وسط سے صوفى حضرات گروہى اعتبار سے بتدريج منظم ہوگئے_ انكا اہم ترين گروہ بغداد ميں تھا_معروف صوفى مثلا ابوسعيد خرّاز (متوفى ۲۷۷ قمري) جنيد بغدادى (متوفى ۲۹۸قمري) اور ابوبكر شبلى (متوفى ۳۳۴ قمرى ) وہاں زندگى گذارتے تھے(۳) كلامى اوراعتقاد كے اعتبار سے صوفيوں ميں پائے جانے والے مختلف نظريات انكے فكرى اور باطنى مكتبوں اور فرقوں ميں اختلاف كا باعث تھے _ مثلا خواجہ عبداللہ انصارى اور ابوسعيد ابو الخير آپس ميں اختلاف رائے ركھتے تھے(۴)

تيسرى صدى ہجرى سے دوسرے علاقوں كے صوفيوں كا مركز سے رابطہ اور نظم بڑھ گيا يہانتك كہ بغداد ميں - ۳۰۹ قمرى ميں حلاج قتل ہوا _ يہ چيز باعث بنى كہ بغداد بتدريج صوفيوں كا محور اور مركزنہ رہا_ اسى صدى كے وسط سے ہى بغداد كے بڑے صوفى حضرات نے تاليف كا آغاز كيا اس دور كى اہم ترين كتابيں مندرجہ ذيل ہيں : خرگوشى نيشابورى (متوفى ۴۰۶ قمري) كى تہذيب الاسرار، ابوبكر كلا بازى كى

____________________

۱)عبداللہ بن محمد ارضاري، طبقات الصوفيہ ج ۱۲ ، ص ۵ _۱۹۴_

۲)رينولد'' نيكلسون'' پيدائشے و سير تصوف ترجمہ محمد باقر معين، ص ۱۴_۱۱، مانرى كورين ، تاريخ فلسفہ اسلامى ، ترجمہ جواد طباطبائي ص ۷۳_۲۶۵_

۳)ابوبكر محمد بن ابراہيم كلاباذي، التعرف لمذہب اہل التصوف ، دمشق ص ۳۰ _ ۲۸_

۴)احمد جامى ، مقامات شيخ الاسلام حضرت خواجہ عبداللہ انصارى طروى ، چاپ فكرى سلجوقى تہران ص ۳۴_ ۳۱_

۱۱۱

تصنيف ''التعرف لمذھب اہل التصوف ''اور ابونصر سراج طوسى كى تاليف'' كتاب اللمع فى التصوف'' چوتھى صدى ميں اور اس كے بعد بھى تاليف كى يہ روايت جارى رہي_ كتاب ''التعرف كلا بازى ''كو ابواسماعيل مستملى نے فارسى زبان ميں ترجمہ كيا_ ابو حامد غزالى (متوفى ۵۰۵ قمري) نے كتاب ''كيمياى سعادت ''كو عربى زبان ميں تحرير كيا اسى طرح شہاب الدين عمر سہروردى نے ساتويں صدى ہجرى ميں تصوف كے حوالے عربى ميں كتاب'' عوارف المعارف ''تاليف كى _

چوتھى صدى كے دوسرے نصف حصہ سے صوفيوں كى تاريخ خاص اہميت كى حامل ہے ابو عبدالرحمان سلمى نيشابورى نے كتاب طبقات الصوفيہ ميں ۱۰۳ معروف صوفيوں كا پہلى بار اپنى كتاب ميں تعارف كروايا نيز انكى كچھ باتوں كو بھى ذكر كيا_ اسى كتاب طبقات الصوفيہ كى مانند ابونعيم اصفہانى نے بھى كتاب حلية الاولياء تاليف كى جو ''طبقات الصوفيہ ''كا تقريباً چربہ تھى(۱)

چھٹى صدى ہجرى كے بعد سے صوفيوں ميں گوناگوں سلسلے تشكيل پائے ہر سلسلے كا نام اس طريقت كے بانى كے نام پر ہوتا مثلا سلسلہ سہرورديہ ، شہاب الدين عمر سہروردى كے ساتھ منسوب ہے اور سلسلہ مولويہ مولانا جلال الدين بلخى كے ساتھ منسوب ہے ان سلسلوں كو مختلف واسطوں كے ساتھ صدر اسلام اور حضرت رسول اكرم(ص) سے ملايا جاتا تھا كہ اس قسم كى نسبت مستحكم دليل و بنياد سے خالى ہوتى ہے(۲)

مجموعى طور پر پانچويں ، چھٹى اور ساتويں صدى ہجرى ميں شيعہ اور سنى ميں اختلاف نظر ، سنى مذاہب بالخصوص حنفيوں اور شافعيوں ميں مذہبى مجادلے ، فقہاء اور فلاسفہ ميں نظرياتى اختلاف اور مختلف جنگيں مثلا منگولوں كے حملے باعث بنے كہ تصوف لوگوں كيلئے بہت زيادہ پر كشش بن جائے، اس دور ميں بزرگ ، صوفى ظاہر ہوئے مثلا ابوالحسن فرقاني، ابوسعيد ابو الخير(۳) بابا طاہر عريان، ابوالقاسم قشيري، حجت الاسلام

____________________

۱)نصر اللہ پور جوادي، ابو منصور اصفہانى كى سير السلف و نصحات الانس كے حوالے سے معلومات ، معارف دورہ ۱۴ ش ۳ _

۲)احمد بن عبداللہ ابونعيم اصفہاني، سابقہ ماخذج ۱۰ ص ۳ _۴۲۰_

۳)فريش ماير، ابوسعيد ابو الخير ، حقيقت و افسانہ، ترجمہ مہر آفاق بايبوردي_

۱۱۲

غزالى(۱) ابونعيم اصفہانى(۲) ، احمد غزالى ، عين القضات ہمدانى(۳) احمد جامى(۴) عبدالقادر گيلاني، سہروردى(۵) ، نجم الدين كبري، فريد الدين عطار نيشابورى(۶) شمس تبريزي، جلال الدين مولوي(۷) اور بالخصوص محى الدين ابن عربي_

پانچويں اور چھٹى صدى ميں تصوف ادب ميں سرايت كرگيا _اكثرشعراء حضرات عرفان اور تصوف كى طرف مائل ہوگئے مثلا مولوى نے عرفانى اشعار كو معراج پر پہنچا ديا_ اس سے بڑھ كر غزالى اور سہروردى كى مانند افراد كے ظاہر ہونے سے تصوف كا فلسفى پہلو بھى ترقى كرگيا_ اس پہلو اور نظريہ كے سربراہ محى الدين ابن عربى ہيں انكے معروف ترين آثار'' فتوحات مكيہ اورفصوص الحكم ہيں انہوں نے تصوف ، عرفان اور حكمت اشراق كو اپنى كتب ميں استدلالى اور برہانى روش كے ساتھ پيش كيا اور وہ اسلام ميں وحدت وجود كے مكتب كے حقيقى بانى بھى ہيں(۸)

چھٹى صدى ہجرى ميں عين القضات ہمدانى (متوفى ۵۲۵ قمري) جو ايك عظيم عارف اورفقيہ تھے ، پيدا ہوئے انہوں نے اپنے اوپر لگائے ہوئے الزامات كے مقابلے ميں اللہ تعالى پراپنے ايمان اورنبوت و آخرت پر ايمان كا مناسب انداز سے دفاع كيا ليكن ان پر كفر اور زندقہ كى تہمت لگاتے ہوئے انہيں تينتيس

____________________

۱)محمد بن محمد غزالي، احياء علوم الدين ، بيروت_

۲)احمد بن عبداللہ ابونعيم اصفہاني، سابقہ ما خذ_

۳)عبداللہ بن محمد عين القضاة ، دفاعيات عين القضاة ہمداني، ترجمہ رسالہ شكورى الغريب ، ترجمہ و حاشيہ قاسم انصاري، تہران_

۴) عبدالرحمان بن احمد جامي،نفحات الانس، محمود عابدى كى كوشش كے ساتھ _تہران_

۵)يحيى بن جبش سہروردى ، مجموعہ مصنفات شيخ اشراق ، كوربن كى كوشش كے ساتھ، تہران ، محمد بن مسعود قطب الدين شيرازى شرح كلمة الاشراق سہروردى عبداللہ نورانى و مہدى محقق كى كوشش كے ساتھ تہران_

۶)محمد بن ابراہيم عطا، تذكرة الاولياء ،محمد استعلامى كى كوشش كے ساتھ ، تہران_

۷)جلال الدين محمد بن محمد مولوى ، مثنوى معنوي، تصحيح و ترجمہ رينو الاولين ينكلسون، تہران_

۸)رينو اور نيكلسون، سابقہ ما خذص ۴ _ ۳۲_

۱۱۳

۳۳ سال كى عمر ميں قتل كرديا گيا يہ واقعہ حسين بن منصور حلاج كے قتل كے بعد اسلامى تصوف كى تاريخ ميں انتہائي جانگداز واقعہ شمار ہوتاہے(۱)

اسى صدى ميں اس قسم كے خشك تعصب كا ايك اور مظاہرہ ايران كے مشہور فلسفى شہاب الدين سہروردى كے قتل كى شكل ميں سامنے آيا وہ ۵۴۹ قمرى ميں سہرورد زنجان ميں پيدا ہوئے اور ۵۸۷ قمرى ميں صلاح الدين ايوبى كے حكم اور حلب شہر كے متعصب لوگوں كے بھڑكانے پر اٹھتيس سال كى عمر ميں قتل ہوئے ساتويں صدى ہجرى ميں سہروردى كا مكتب تشكيل پايا اسى صدى ميں تصوف وجد اور حال كے مرحلہ سے '' قال'' كے مرحلہ تك پہنچا اور علمى فلسفى صورت ميں سامنے آنے لگا(۲)

آٹھويں صدى ميں سہروردى ، ابن عربى اور ابن فارض كا عرفانى مكتب شہرت پانے لگا اور تصوف اور عرفان آپس مخلوط ہوگئے_ عرفانى علوم اور خانقاہوں كى راہ و رسم كو ايك جگہ پڑھايا جانے لگا اسى صدى ميں ايران كے عظيم ترين عارف اور سخن سرا حافظ شيرازى پيدا ہوئے اسى طرح شيخ صفى الدين اردبيلى (۷۳۵ _ ۶۵۰ قمري) ، ابوالوفاء (متوفى ۸۳۵ قمري) زين الدين ابوبكر تايبادى (متوفى ۷۹۱) اور زين الدين ابوبكر محمود خوافى (متوفى ۸۳۸ قمري) كہ جو ايران كے آٹھويں صدى اور نويں صدى كے آغاز ميں بزرگ عرفا ميں شمار ہوتے تھے ظاہر ہوئے يہ سب سہرورديہ طريقت كے پيروكار اور شيخ نور الدين عبدالرحمان قريشى مصرى كے مريد تھے _ اس دور كے اور اسكے كچھ عرصہ بعد كے بڑے عرفاء ميں سے جامع الاسرار كے مصنف سيد حيدر آملي، علاء الدين سمنانى ( ۷۳۶ _۶۵۹ قمري) گلشن راز كے مصنف شيخ محمود شبسترى (متوفى ۷۲۰ قمري) نعمت اللہى سلسلہ كے بانى شاہ نعمت اللہ ماہانى كرمانى المعروف شاہ نعمت اللہ ولى اور مختلف كتب اور عرفانى نظموں كے خالق نور الدين عبدالرحمان جامى (متوفى ۹۱۲ قمري) قابل ذكر ہيں تصوف نے در حققت آٹھويں صدى ہجرى ميں اپنے كمال كے تمام مراحل طے كرليے تھے كيونكہ اس تاريخ كے بعد يہ زوال كاشكار ہوا(۳)

____________________

۱)زين الدين كيائي ناد ، سابقہ ما خذص ۴۲ _۱۳۱_

۲)قمر گيلانى ، فى التصوف الاسلامي، مفہومہ و نظورہ و اعلامہ ، بيروت_

۳)زين الدين كيانى ناد ، سابقہ ما خذص ۲ ، ۲۳۱_

۱۱۴

صفوى دورميں تصوف ايك نئے مرحلہ ميں داخل ہوا گذشتہ قرون ميں صوفى راہنماؤں كى ذمہ دارى يہ تھى كہ اپنے مريدوں كى راہنمائي اور تہذيب نفس كريں اسى ليے وہ دنيا كى كوئي پرواہ نہ كرتے تھے اور حق تك وصل اور كمال انسانى ميں سعادت حاصل كرنے كى كوشش ميں رہتے تھے_ نويں صدى ہجرى ميں صوفى مشايخ ميں سے ايك شيخ يعنى شيخ جنيد جو كہ شاہ اسماعيل كے جد تھے انہوں نے طاقت و قدرت اپنے ہاتھوں ميں لينے كيلئے صوفى گروہ اور اپنے مريدوں كو تيار كيا اور اسى ہدف كے پيش نظر صوفيوں كو كفار سے جہاد كيلئے مجبور كيا اور اپنے آپ كو سلطان جنيد كہلايا اس تاريخ كے بعد صوفى لوگ جنگى لباس ميں آگئے_

شاہ اسماعيل كے ابتدائي زمانہ حكومت ميں اسكے مريد اور پيروكار ايك مدت تك اسے صوفى كہتے رہے پھر صوفى اور قزلباش كا عنوان ايك دوسرے كيلئے لازم و ملزم ہوگيا _ شاہ تہماسب كے زمانہ ميں شيعوں اور قديم صوفى مريدوں كى اولاد كا ايك گروہ ديار بكر اور ايشيا ئے كوچك كے كچھ علاقوں سے ايران ميں داخل ہوا اور صوفى گروہ ميں شامل ہوگئے شاہ تہماسب كى وفات كے وقت قزوين ميں صوفيوں كى تعداد دس ہزار تك پہنچ گئي صوفى لوگ قزلباشوں كے ديگر گروہوں كى نسبت بادشاہ كے زيادہ قريب ہوتے تھے صوفيوں كے ہرگروہ كے سربراہ كو خليفہ كا نام ديا جاتا تھا اور تمام صوفيوں كے سربراہ كوخليفةالخلفاء كہا جاتا تھا(۱)

شاہ عباس نے صوفيوں كو نظرانداز كرديا اوروہ تمام اہم امور جو انكے ہاتھوں ميں تھے ان سے لے ليے_ جو كچھ بھى صفويہ دور ميں صوفيوں كے حوالے سے لكھا گيا وہ فقط شيخ صفى الدين اور انكے جانشينوں كے پيروكاروں كے بارے ميں ہے صفوى حكومت كے وسطى زمانہ سے علماء شريعت كى قوت بڑھنے لگى اور اسى نسبت كے ساتھ صوفى لوگ زوال كا شكار ہونے لگے اور انكى مخالفت بڑھنے لگى يہانتك كہ انكے حوالے سے مرتد كافراور زنديق ہونے كى باتيں ہونے لگيں ، قاجارى دورميں اگر چہ صوفيوں كے كام كچھ زيادہ لوگوں كى توجہ كا مركز قرار نہ پائے ليكن حكومت كے استحكام سے معمولى آسايش حاصل ہونے كے ساتھ ساتھ حملہ اور

____________________

۱)نور الدين مدرسى چہاردہي، سلسلہ ہاى صوفيہ ايران ، تہران_

۱۱۵

اذيت سے محفوظ ہوگئے ليكن خانقاہيں پھر منظم اور پرجوش نہ رہيں (۱)

فتوت، عربى زبان ميں ايسى صفت ہے كہ جو كلمہ '' فتي'' سے مشتق ہوئي ہے اور اس شخص كى صفت ہے كہ جس نے جوانى اور شباب ميں قدم ركھا ہويہ كتاب منتھى الارب ميں جوانمردى اور عوامى كے معنى ميں ذكر ہوئي ہے زمانہ جاہليت ميں يہ كلمہ دو مجازى معانى '' شجاعت اور سخاوت'' ميں استعمال ہوا كلمہ فتوت كے مشتقات قرآن مجيد كى سورتوں كہف،يوسف، نساء اورنور ميں ذكر ہوئے ہيں كہ دو يا تين مقامات سے ہٹ كر باقى تمام جگہوں پر جوانمرد يا جوانمردى كے علاوہ معانى ميں انكى تفسير ذكر ہوئي ہے(۲) جنگ احد ميں پيغمبر اكرم نے حضرت على (ع) كو كفار سے دليرى كے ساتھ جنگ كرنے كى بناپر فتى كا لقب ديا اور فرمايا : لا فتى الا علي_(۳) اموى دور ميں فتوت كے معنى ميں وسعت پيدا ہوئي اور مردانگى اور مروت كے مختلف موضوعات اس كے معنى ميں داخل ہوئے ليكن اسكا اساسى ركن ايثار كہلايا كہ جو صوفيانہ فتوت كى سب سے پہلى خصوصيت تھى _

صدر اسلام ميں زاہدين اور سچے مسلمان جہاد اور راہ اسلام ميں جنگ كى مانند اس چيز كواپنى ذمہ دارى سمجھتے تھے _ اس دور كے بعد صوفى حضرات خانقاہوں ميں بسيرا كرنے لگے اور جہاد اصغر سے جہاد اكبر يعنى نفس سے جنگ كى تعليم ميں مشغول ہوئے اسى ليے فتوت كہ جو شجاعت اور كرامت كے مترادف تھا اخلاق حسنہ اور ايثار كے معنى ميں تبديل ہوگيا اور صاحب فتوت كى تين علامات قرار پائيں : (۱_) ايسى وفا كہ جسميں بد عہدى نہ ہو (۲_) بغير توقع كے تعريف كرنا (۳_) بغير مانگے دينا_(۴)

فتوت كى بھى تصوف كى مانند كوئي جامع تعريف موجود نہيں ہے_(۵)

____________________

۱)زين الدين كيانى ناد، سابقہ ما خذص ۲۳۲_

۲)يوسف ۳۰ ، ۳۶ ، ۶۱، ۶۲ ، كہف ۱۰ ، ۱۳، ۵۹ ، ۶۱ ، نساء ۲۹ ، نور ۳۳ ، نيز رجوع كريں محمد جعفر محجوب '' مقدمہ فتوت نامہ سلطانى ، نوشتہ مولانا حسين واعظ كاشفى سبزوارى ص ۹_۷_

۳)سابقہ ما خذمقدمہ ص ۹ _

۴)سابقہ ما خذص ۱۱ _ ۹_

۵) سابقہ ماخذ، ص ۱۱

۱۱۶

فتوت كے حوالے سے ابن عمار حنبلى بغدادى جو اس موضوع پر قديمى ترين كتاب '' كتاب الفتوة'' كے مصنف ہيں اس ميں لكھتے ہيں كہ سنت ميں فتوت كے حوالے سے احاديث بيان ہوئيں ہيں كہ جن ميں سے بہترين احاديث امام جعفر صادق (ع) سے نقل ہوئيں جو انہوں نے اپنے والد اورجد مبارك سے روايت كى ہيں كہ رسول اكرم(ص) نے فرمايا: كہ ميرى امت كے جوانمردوں كى دس علامات ہيں : سچائي ، تعہد سے وفا، امانت ادا كرنا ، كذب سے پرہيز، يتيم پر سخاوت ، سائل كى مدد كرنا ، جو مال پہنچے اللہ كى راہ ميں دينا، بہت زيادہ احسان كرنا، مہمان بلانا اور ان سب سے بڑھ كر حيا ركھنا(۱)

مختلف كتابوں سے تصوف اور فتوت كے حوالے سے بہت سى تعريفيں ملتى ہيں كہ ان كتابوں ميں سے اہم ترين كتابيں '' الفتوة الصوفية اور طبقات الصوفيہ'' مصنف ابو عبدالرحمان سلمى نيشابورى اور سالہ قشيريہ كہ جسكے مصنف ابوالقاسم قشيرى ہيں _(۲)

مسلم بات يہ ہے كہ ان تمام كتب كے مطالعہ سے يہ استنباط ہوتاہے كہ فتوت شروع ميں تصوف كے مسالك ميں سے ايك مسلك كے طور جانا گيا ، عام طورپر يہ جوانمرد لوگ اپنے ''سراويل يا كسوت'' نامى لباس يا حليے كے حامل تھے جس كا عملى سرچشمہ حضرت على كى سيرت اوركردار كو جانتے تھے(۳)

تيسرى صدى كے بعد فتوت صوفيوں كى مذہبى و دينى كتابوں كے علاوہ فتوت ناموں ، عوامى داستانوں ، اشعار اور فارسى ادب كى صورت ميں شاعروں اور اہل سخن و كلام كى تعريف و ستائشے كا محور قرار پايا(۴)

____________________

۱)ابن عمار حنبلى بغدادي، الفتة ص ۲۳۳_ ۱۳۲ صالح بن جناح ، كتاب الادب و المروة ، ترجمہ و تصحيح سيد محمد دامادى ، پوہشگاہ علوم انسانى و مطالعات فرہنگى تہران ص ۸_

۲)فتوت نامہ سلطنى ، سابقہ ما خذص ۱۲ مقدمہ _

۳)محمد جعفر محجوب ، سابقہ ما خذص ۱۳ _ ۱۲_

۴)فتوت نامہ سلطانى ص ۱۳ تا ۱۵ ، على اكبر دہخدا ، امثال و حكم ج ۲_

۱۱۷

فتوت كے حوالے سے قديمى اور معتبر مصادر ميں سے عنصر المعانى كيكاووس بن اسكندر بن قابوس كى كتاب قابو سنامہ ہے كہ جس كے آخرى باب (چواليسواں باب ) ميں جوانمرد ہونے كيلئے قانون كاذكر ہے _ قابوسنامہ كى تفضيلات سے يہ معلوم ہوتاہے كہ اس زمانہ ميں اور اس سے قبل فتوت معاشرہ كے تمام طبقات ميں عملى اور اخلاقى احكام كى شكل ميں رائج تھا ہر كوئي اپنے كاموں ميں جوانمرد ہو اور فتوت كے قوانين كى پابندى كرتا تھا_

دوسرى صدى سے فتوت كا مكتب عياري(۱) كے ساتھ مخلوط ہوا اور اسكے خاص آداب اور رسوم تشكيل پائيں اسى ليے پہلوان لوگ ، ورزش كرنےوالے ، طاقتور لوگ، سپاہى اورعيار لوگ اپنے آپ كو جوانمرد كہنے لگے اور دوسرى طرف سے پيشہ ور اورسوداگر و تاجر لوگ اپنى جوانمردى كيلئے مخصوص آداب اور رسوم ركھنے لگے صوفى اور خانقاہ نشين لوگ بھى اپنے مكتب ميں جوانمردى كى رسوم و آداب كا خيال ركھنے لگے اور جو اس راہ ميں دوسروں سے بڑھ كر كوشش كرتا وہ فتوت ميں برتر سمجھا جاتا تھا(۲)

بلا شبہ فتوت كى گروہى صورت ميں فعاليت ايران كے علاوہ ديگر تمام اسلامى علاقوں مثلا شام اور مصر و غيرہ ميں بھى موجود تھى _ اس سے بڑھ كر تمام صليبى جنگوں كے دوران بيت المقدس سے شواليہ نام كے سواروں كا گروہ فرانس اور ديگر يورپى ممالك ميں ان مسلمانوں جوانمردوں ، سواروں كى تقليد كرتے ہوئے يورپ ميں داخل ہوئے كہ جو كرد، لر، فارس، ترك اور عرب قوميتوں سے مخلوط تھے_ بعض مورخين كا عقيدہ ہے كہ يورپ ميں اخلاقى بالخصوص فرانس ميں اخلاقى تربيت اور اصلاح شواليوں كے ان ممالك ميں جانے سے ہوئي كہ انہوں نے ان ممالك ميں جوانمردى ، اصيل زادگى ( ذات كے حوالے سے نجيب ) اور شجاعت كے قانون كو رائج كيا(۳)

____________________

۱) عيارى (پہلوانى كى طرح) قديم زمانے ميں ٹريننگ اور رياضت كى بعض انواع ميں سے ايك تھى جو دوسرى صدى ہجرى كے اواخر سے اسلامى معاشرے ميں پائي جاتى ہے_ عيار اپنى زندگى ميں كچھ خاص طريقوں اور اصولوں كے پابند ہوتے تھے_ بعد ميں عيارى تصوف سے مخلوط ہوگئي_(مصحح)

۲)فتوت نامہ سلطانى ، ص ۱۷ ، ۱۸ ، مقدمہ_

۳) ہانرى كربن ، سابقہ ما خذص ۱۱۹_

۱۱۸

ملك الشعرا بہار نے سيستان كى تاريخ پر حاشيہ ميں لكھا عرب لوگ اپنے جنگجو ، زيرك اور ہوشيار اشخاص كہ جو ہنگاموں ،شورشوں يا جنگوں ميں شجاعت اور ذھانت دكھاتے انہيں عيار كا نام ديتے تھے _ بنى عباس كے دور ميں خراسان اور بغداد ميں عيار لوگ تعداد ميں بڑھ گئے تھے_ سيستان اور نيشابور ميں خاصہ (بادشاہوں يا امراء كے اصحاب و مقربين) اور يعقوب ليث صفار اس طايفہ كے سرداروں ميں سے تھے ہر شہر ميں عياروں كے سر براہ ہوتے تھے كہ جنہيں وہ ''سرہنگ ''كہا كرتے تھے اور كبھى تو ايك شہر ميں كئي سرہنگ اور چند ہزار عيار موجود ہوتے تھے(۱)

غزنوى اور سلجوى ادوار ميں عيار لوگ شہرى معاشرے كا ايك مخصوص طبقہ ہوتے تھے كہ يہ لوگ شہروں ميں عام لوگوں كى مانند يا مشرقى مصادر كى اصطلاح ميں ''اوباش'' كى صورت ميں ہوتے تھے يہ لوگ كفار كے ساتھ جہاد كيلئے مسلح گروہ تشكيل ديتے تھے جنہيں عيار كہا جاتا تھا(۲)

عباسى خليفہ '' الناصر لدين اللہ كا جوانمردوں كے گروہ ميں شامل ہونا اور فتوت كى ''سراويل ''پہننا چھٹى صدى ہجرى كے آخرى سالوں ميں ايك بڑا واقعہ تھا كہ جو فتوت كى تاريخ كے بہت بڑے واقعات ميں شمار ہوتا تھا_ چونكہ وہ جوانمردى كے مكتب كا اسلامى معاشرے ميں نفوذسے باخبر ہوچكا تھا اس ليے اس نے اسے عباسى حكومت كے ستونوں كو مستحكم كرنے كے ليے بہت مفيد جانا تا كہ اس كے ذريعے عباسى حكومت كو زوال سے بچالے اور عباسى حكومت كى عہد رفتہ كى شان و شوكت كودوبارہ زندہ كرے(۳) ۶۵۶ قمرى ميں منگولوں كے حاكم ہلاكو خان كے بغداد پر قابض ہونے اور بغداد ميں عباسى حكومت كے ختم ہونے كے ساتھ فتوت كى فعاليت ميں جمود پيدا ہوگيا چند سال كے بعد حكومت مماليك (سفيد فام غلام جو گردونواح كے مختلف علاقوں پر فرمانروائي كرتے تھے) كى حمايت كے ساتھ مصر ميں برائے نام عباسى خلافت ظاہر ہوئي كہ جن كے ساتھ

____________________

۱)تاريخ سيستان ص ۶_ ۱۷۵_

۲)مجلہ دانشكدہ ادبيات تہران ، س ۴ ، ش ۲ دى ۱۳۲۵ ص ۸۲_

۳)كاظم كاظمينى ، عياران ص ۱۴_ ۱۳ ، حائرى كوربن ، آئين جوانمردى ص ۱۸۰ ، ۱۷۵_

۱۱۹

فتوت بھى ظاہر ہوئے اور انكا مكتب مصر اور شام ميں رائج ہونے لگا اور يہ رواج بعد كے ادوار ميں بھى جارى رہا ليكن عراق ميں عباسى حكومت كے خاتمہ سے يہ مكتب زوال پذير ہوگيا اگر چہ اسكى جڑيں باقى رہيں(۱)

ناصر نے فتوت ناصرى كے طريقہ كو سلجوقيان كى رومى مملكت ميں رواج ديا _ عثمانيوں نے بھى طاقت اور حكومت تك پہنچے كيلئے ''اَخي'' اور اناطولى كے اہل فتوت كو پل كے طور پر استعمال كيا_

اہل فتوت كے ''اخيوں ''كا شيخ صفى الدين اردبيلى كے گرد موجود ہونا اور شاہ اسماعيل صفوى كا اپنے تركى اشعار كے ديوان ميں اپنے مددگاروں اور تابعين كيلئے عنوان ''اخى ''كا استعمال فتيان، قزلباشوں اور شيعوں كے درميان رابطے سے بڑھ كر ان لوگوں كے حكومتى انتظامى امور ميں ناقابل انكار سياسى اور معاشرتى كردار كو ظاہر كرتاہے _ خصوصاً يہ كہ وہ كسوت (صوفيا كا خاص لباس ) پوش اور پاكيزہ صوفيوں يعنى شاہ كے فدائيوں ميں سے شمار ہوتے تھے(۲)

ايرانى خاندانوں كے ايران پر حكومت كے دوران عيار لوگ كشتى كرنے والے پہلوانوں كے بھيس ميں سلاطين كے دربار ميں موجود ہوتے تھے يافوج ميں جنگجو كى صورت ميں اپنے وطن كى خدمت ميں مشغول تھے_ اور جب غير ايران پر قابض ہوئے تو يہ عيارى شكل و شمائل ميں انكے ساتھ جہاد كرتے جيسا كہ منگولوں كے تسلط كے آخرى دور ميں عياروں كى جماعت نے عبد الرزاق بن خواجہ شہاب الدين بيہقى كى سربراہى ميں قيام كيا اور سربداران كى تحريك كو وجودميں لائے_ يہ لوگ اپنے آپ كو شيعوں اور حضرت على (ع) كے جانثاروں ميں شمار كرتے تھے اور فتيان كے مكتب پر عياروں كى ماند عمل پيرا ہوكر لڑتے تھے_

مشہور ہے كہ چنگيز خان نے كسى كو سلسلہ كبرويہ كے چھٹى اور ساتويں صدى كے مشہور عارف اور بزرگ صوفى شيخ نجم الدين كبرى كے پاس (اس پيغام كے ساتھ) بھيجا كہ : '' ميں نے حكم دياہے كہ خوارزم ميں قتل

____________________

۱)جواد مصطفي، مقدمة الفتوة ، تاليف ، ابن عمار حنفى بغدادي، ہانرى كوربن، سابقہ ما خذص ۱۸۳_

۲)عباس اقبال آشتياني،فتوت و خلافت عباسي، محلہ شرق، دورہ يكم ، ش خرداد ۱۳۱۰ ص ۱۰۵ ،۱۰۱_

۳)صالح بن جناح، كتاب الاب والمروة ص ۹ _ ۷۹_

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160